آیت:
تفسیر سورۂ مدثر
تفسیر سورۂ مدثر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 7 #
{يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7)}.
اے لپٹنے والے کپڑے میں!(1) اٹھیے، پھر ڈرائیے(2) اور اپنے رب ہی کی پس بڑائی بیان کیجیے(3) اور اپنے کپڑے پس پاک رکھیے(4) اور پلیدی کو پس چھوڑ دیجیے(5) اور نہ احسان کیجیے زیادہ طلب کرنے کے لیے(6) اور اپنے رب کے لیے پس صبر کیجیے(7) پس جب پھونکا جائے گا صور میں(8) تو وہ اس دن، دن ہو گا سخت دشوار (9) کافروں پر، نہیں آسان (10) چھوڑ دیجیے مجھے اور اسے جسے میں نے پیدا کیا اکیلا ہی (11)
#
{1 ـ 2} تقدَّم أنَّ المزَّمِّل والمدَّثر بمعنى واحد، وأنَّ الله أمر رسوله - صلى الله عليه وسلم - بالاجتهاد في عبادات الله القاصرة والمتعدِّية، فتقدَّم هناك الأمر له بالعبادات الفاضلة القاصرة، والصبر على أذى قومه، وأمره هنا بالإعلان بالدَّعوة والصَّدْع بالإنذار، فقال: {قمْ}؛ أي: بجدٍّ ونشاطٍ {فأنذِرْ}: الناس بالأقوال والأفعال التي يحصلُ بها المقصودُ وبيانُ حال المنذَر عنه ليكون ذلك أدعى لتركه.
[2,1] گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ ﴿الْ٘مُزَّمِّلُ﴾ اور ﴿الْمُدَّثِّ٘رُ﴾کا ایک ہی معنی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہe کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادات قاصرہ اور متعدیہ میں پوری کوشش کریں۔ وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبادات فاضلہ و قاصرہ اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کوحکم دیا کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان فرما دیں اور کھلم کھلا لوگوں کو تنبیہ کریں، چنانچہ فرمایا: ﴿قُمْ﴾ یعنی کوشش اور نشاط کے ساتھ کھڑے ہوں ﴿ فَاَنْذِرْ﴾ یعنی لوگوں کو ایسے اقوال و افعال کے ذریعے سے تنبیہ کیجیے ، جن سے مقصد حاصل ہو، ان امور کا حال بیان کر کے ڈرائیے جن سے متنبہ کرنا مطلوب ہے تاکہ یہ اس کو ترک کرنے پر زیادہ آمادہ کرے۔
#
{3} {وربَّك فكبِّرْ}؛ أي: عظِّمه بالتوحيد، واجعل قصدك في إنذارك وجه الله وأن يعظِّمه العباد، ويقوموا بعبادته.
[3] ﴿وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ یعنی توحید کے ذریعے سے اس کی عظمت بیان کیجیے، اپنے انذار و تنبیہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصد بنائیں، نیز اس بات کو مدنظر رکھیں کہ بندے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی عبادت کریں۔
#
{4} {وثيابَكَ فطَهِّرْ}: يُحتمل أنَّ المراد بالثياب أعماله كلها. وبتطهيرها: تخليصها، والنُّصح بها، وإيقاعها على أكمل الوجوه، وتنقيتها عن المبطلات والمفسدات والمنقصات من شركٍ ورياء ونفاق وعُجْبٍ وتكبُّر وغفلةٍ وغير ذلك مما يؤمَرُ العبد باجتنابه في عباداته، ويدخل في ذلك تطهير الثياب من النجاسة؛ فإنَّ ذلك من تمام التطهير للأعمال، خصوصاً في الصلاة، التي قال كثيرٌ من العلماء: إنَّ إزالة النجاسة عنها شرطٌ من شروطها. ويُحتمل أنَّ المراد بثيابه الثياب المعروفة؛ أنَّه مأمورٌ بتطهيرها عن جميع النجاسات في جميع الأوقات، خصوصاً عند الدُّخول في الصلوات.
[4] ﴿وَثِیَابَكَ فَ٘طَ٘هِّرْ﴾ ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ (ثِیَاب) ’’کپڑے‘‘ سے مراد تمام اعمال ہوں اور ان کی تطہیر سے مراد ہے ان کی تخلیص، ان کے ذریعے سے خیر خواہی، ان کو کامل ترین طریقے پر بجا لانا اور ان کو تمام مبطلات، مفسدات اور ان میں نقص پیدا کرنے والے امور ، یعنی شرک، ریا، نفاق، خود پسندی، تکبر، غفلت وغیرہ سے پاک کرنا، جن کے بارے میں بندۂ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی عبادات میں ان سے اجتناب کرے۔ اس میں کپڑوں کی نجاست سے تطہیر بھی داخل ہے کیونکہ یہ تطہیر اعمال کی تطہیر کی تکمیل ہے، خاص طور پر نماز کے اندر جس کے بارے میں بہت سے علماء کا قول ہے کہ نجاست کو زائل کرنا، نماز کا حق اور اس کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، یعنی طہارت اس کی صحت کی شرائط میں سے ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ(ثِیَاب) سے مراد معروف لباس ہو اور آپ کو ان کپڑوں کی تمام اوقات میں تمام نجاستوں سے تطہیر کا حکم دیا گیا ہے، خاص طور پر نماز میں داخل ہوتے وقت۔
#
{5} وإذا كان مأموراً بطهارة الظَّاهر؛ فإنَّ طهارة الظاهر من تمام طهارة الباطن: {والرُّجْزَ فاهْجُرْ}: يُحتمل أنَّ المراد بالرجز الأصنام والأوثان التي عُبِدَتْ مع الله، فأمره بتركها والبراءة منها ومما نُسِبَ إليها من قول أو عمل، ويُحتمل أنَّ المرادَ بالرُّجز أعمالُ الشرِّ كلُّها وأقوالُه، فيكون أمراً له بترك الذُّنوب صغارها وكبارها ظاهرها وباطنها، فيدخل في هذا الشرك فما دونه.
[5] جب آپ ظاہری طہارت پر مامور ہیں کیونکہ ظاہری طہارت، باطنی طہارت کی تکمیل کرتی ہے تو فرمایا: ﴿وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ ’’اور ناپاکی سے دور رہیں۔‘‘ ایک احتمال یہ ہے کہ (الرُّجْزَ) سے مراد بت اور مورتی ہوں، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کو ترک کر دیں، ان سے براء ت کا اعلان کریں، نیز ان تمام اقوال و افعال سے بیزار ہوں جو ان کی طرف منسوب ہیں۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ (اَلرُّجْزَ)سے مراد تمام اعمال شر اور اقوال شر ہوں، تب آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ تمام چھوٹے اور بڑے، ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دیں۔ اس حکم میں شرک اور اس سے کم تر تمام گناہ داخل ہیں۔
#
{6} {ولا تَمْنُنْ تَسْتَكثِرْ}؛ أي: لا تمنُنْ على الناس بما أسديت إليهم من النعم الدينيَّة والدنيويَّة، فتستكثر بتلك المنَّة، وترى لك الفضل عليهم ، بل أحسِنْ إلى الناس مهما أمكنك، وانْسَ عندهم إحسانَك، واطلُبْ أجرك من الله تعالى ، واجعلْ مَن أحسنتَ إليه وغيره على حدٍّ سواء. وقد قيل: إنَّ معنى هذا ألاَّ تعطي أحداً شيئاً وأنت تريدُ أن يكافِئَك عليه بأكثر منه، فيكون هذا خاصًّا بالنبيِّ صلى الله عليه وسلم .
[6] ﴿وَلَا تَمْنُ٘نْ تَسْتَكْثِرُ﴾ یعنی آپ نے لوگوں پر جو دینی اور دنیاوی احسانات کیے ہیں، انھیں جتلائیں نہیں کہ اس احسان کے بدلے زیادہ حاصل کریں اور ان احسانات کی وجہ سے اپنے آپ کو لوگوں سے افضل سمجھیں بلکہ جب بھی آپ کے لیے ممکن ہو آپ لوگوں پر احسان کریں ، پھر ان پر اپنے اس احسان کو بھول جایے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کیجیے۔ جس پر آپ نے احسان کیا ہے اسے اور دوسروں کو برابر سطح پر رکھیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی کو کوئی چیز اس لیے عطا نہ کریں کہ آپ کا ارادہ ہو کہ وہ آپ کو اس سے بڑھ کر بدلہ عطا کرے، تب یہ نبی ٔاکرمe کے ساتھ مختص ہے۔
#
{7} {ولربِّكَ فاصْبِرْ}؛ أي: احتسبْ بصبرك واقصدْ به وجهَ الله تعالى. فامتثل رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - لأمر ربِّه، وبادر فيه ، فأنذر الناس وأوضح لهم بالآياتِ البيناتِ جميع المطالب الإلهيَّة، وعظَّم الله تعالى، ودعا الخلق إلى تعظيمه، وطهَّر أعماله الظاهرة والباطنة من كل سوءٍ، وهجر كلَّ ما يُعْبَدُ من دون الله وما يُعْبَدُ معه من الأصنام وأهلها والشرِّ وأهله، وله المنَّة على الناس بعد منَّة الله، من غير أن يطلبَ عليهم بذلك جزاءً ولا شكوراً، وصبر لربِّه أكمل صبر: فصبر على طاعة الله، وعن معاصيه، وصبر على أقداره المؤلمة، حتى فاق أولي العزم من المرسَلين. صلواتُ الله وسلامُه عليه وعليهم أجمعين.
[7] ﴿وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ﴾ یعنی اپنے صبر پر اجر کی امید رکھیے اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ پس رسول اللہ eنے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اور اس کی تعمیل کے لیے آگے بڑھے۔ پس آپ نے لوگوں کو انجام بد سے ڈرایا اور آپ نے ان کے سامنے آیات بینات اور تمام مطالب الٰہیہ کو واضح کیا، اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی اور مخلوق کو اس کی تعظیم کی طرف بلایا، آپ نے اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ہر قسم کی برائی سے پاک کیا، آپ نے ہر اس ہستی سے براءت کا اظہار کیا جو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی تھی اور اس کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ عبادت کی جاتی تھی، یعنی بتوں، بت پرستوں، شر اور شر پسندوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بعد آپ کا احسان ہے بغیر اس کے کہ آپ اس پر ان سے کسی جزا یا شکر گزاری کا مطالبہ کریں۔ آپ نے اپنے رب کی خاطر کامل ترین صبر کیا۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے اجتناب پر اور اس کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کیا، یہاں تک کہ آپ اولوالعزم انبیاء و مرسلین پر بھی فوقیت لے گئے۔ صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ أَجْمَعِینَ ۔
آیت: 8 - 10 #
{فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ (8) فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9) عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ (10)}.
پس جب پھونکا جائے گا صور میں(8) تو وہ اس دن، دن ہو گا سخت دشوار (9) کافروں پر، نہیں آسان (10)
#
{8 ـ 10} أي: فإذا نُفِخَ في الصُّور للقيام من القبور، وجُمِعَ الخلائق للبعث والنشور، {فذلك يومئذٍ يومٌ عسيرٌ}: لكثرة أهواله وشدائده، {على الكافرين غيرُ يسيرٍ}؛ لأنَّهم قد أيِسوا من كلِّ خيرٍ وأيقنوا بالهلاك والبَوار. ومفهومُ ذلك أنَّه على المؤمنين يسيرٌ؛ كما قال تعالى: {يقول الكافرون هذا يومٌ عَسِرٌ}.
[10-8] جب مردوں کو قبروں سے کھڑا کرنے اور تمام خلائق کو دوبارہ زندہ کر کے حساب و کتاب کے لیے جمع کرنے کے لیے صور پھونکا جائے گا ﴿ فَذٰلِكَ یَوْمَىِٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌ﴾ تو ہولناکیوں اور سختیوں کی کثرت کی بنا پر وہ دن بڑا ہی سخت ہو گا۔ ﴿ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ﴾’’کافروں پرآسان نہ ہوگا۔‘‘ کیونکہ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو چکے ہوں گے اور انھیں اپنی ہلاکت اور تباہی کا یقین ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ وہ دن اہل ایمان پر آسان ہو گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ یَقُوْلُ الْ٘كٰفِرُوْنَ هٰؔذَا یَوْمٌ عَسِرٌ﴾ (القمر:54؍8) ’’کفار کہیں گے کہ یہ دن بڑا ہی سخت ہے۔ ‘‘
آیت: 11 - 31 #
{ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا (11) وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَمْدُودًا (12) وَبَنِينَ شُهُودًا (13) وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا (14) ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ (15) كَلَّا إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا (16) سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا (17) إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ (18) فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (19) ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (20) ثُمَّ نَظَرَ (21) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (22) ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ (23) فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ (24) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (25) سَأُصْلِيهِ سَقَرَ (26) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ (27) لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ (28) لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ (29) عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (30) وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ (31)}.
چھوڑ دیجیے مجھے اور اسے جسے میں نے پیدا کیا اکیلا ہی (11) اور کیا میں نے اس کے لیے مال پھیلا ہوا (12) اور (دیے) بیٹے حاضر رہنے والے (13) اور فراخی کی میں نے اس کے لیے خوب فراخی کرنا (14) پھر طمع کرتا ہے وہ یہ کہ میں (اور) زیادہ دوں (اسے) (15) ہرگز نہیں! بلاشبہ وہ ہے ہماری آیات سے سخت عناد رکھنے والا (16) عنقریب میں چڑھاؤں گا اسے دشوار گزار گھاٹی پر (17) بلاشبہ اس نے (غور و ) فکر کیا اور اندازہ لگایا (18) پس ہلاک کیا جائے وہ کیسا اندازہ لگایا اس نے؟(19) پھر ہلاک کیا جائے وہ، کیسا اندازہ لگایا اس نے؟ (20) پھر اس نے دیکھا (21) پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بسورا (22) پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا (23) پھر اس نے کہا، نہیں ہے یہ (قرآن) مگر جادو جو نقل کیا جاتا ہے (24) نہیں ہے یہ مگر قول ایک بشر ہی کا (25) عنقریب میں داخل کروں گا اسے جہنم میں (26) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو، کیا ہے جہنم (27) نہ وہ باقی رکھے گی اور نہ وہ چھوڑے گی (28) جھلسا دینے والی ہے چمڑے کو(29) اس پر (مقرر) ہیں انیس (فرشتے) (30) اور نہیں بنائے ہم نے نگران آگ کے مگر فرشتے ہی، اور نہیں بنائی ہم نے (یہ) تعداد ان کی مگر آزمائش کے لیے ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا، تاکہ یقین کر لیں وہ لوگ کہ دیے گئے ہیں وہ کتاب اور زیادہ ہوں وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، ایمان میں اور (تاکہ) نہ شک کریں وہ لوگ کہ دیے گئے ہیں وہ کتاب اور مومن، اور تاکہ کہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور کافر، کس چیز کا ارادہ کیا ہے اللہ نے ساتھ اس (عدد) کے ازروئے مثال کے؟ اسی طرح گمراہ کرتا ہے اللہ جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور (کوئی) نہیں جانتا لشکر آپ کے رب کے مگر وہ (خود ہی)، اور نہیں ہے وہ (جہنم) مگر نصیحت (جنس) بشر کے لیے (31)
#
{11 ـ 30} هذه الآيات نزلت في الوليد بن المغيرة ، المعاند للحقِّ، المبارز لله ولرسوله بالمحاربة والمشاقَّة، فذمَّه الله ذمًّا لم يذمَّ به غيره، وهذا جزاءُ كلِّ مَنْ عانَد الحقَّ ونابذه؛ أنَّ له الخزيَ في الدُّنيا ولَعذاب الآخرة أخزى، فقال: {ذَرْني ومَن خلقتُ وحيداً}؛ أي: خلقته منفرداً بلا مال ولا أهل ولا غيره، فلم أزل أربِّيه وأعطيه، فجعلت {له مالاً ممدوداً}؛ أي: كثيراً، {و} جعلتُ له {بنينَ}؛ أي: ذكوراً، {شهوداً}؛ أي: حاضرين عنده على الدَّوام، يتمتَّع بهم ويقضي بهم حوائِجَه ويستنصِرُ بهم، {ومهَّدْتُ له تمهيداً}؛ أي: مكَّنته من الدُّنيا وأسبابها حتى انقادَتْ له مطالِبُه وحصل له ما يشتهي ويريدُ. {ثم}: مع هذه النعم والإمدادات {يَطْمَعُ أن أزيدَ}؛ أي: يطمع أن ينال نعيم الآخرة كما نال نعيم الدنيا، {كلاَّ}؛ أي: ليس الأمر كما طمع، بل هو بخلاف مقصوده ومطلوبه، وذلك {إنَّه كان لآياتنا عنيداً}: عرفها ثم أنكرها، ودعتْه إلى الحقِّ فلم يَنْقَدْ لها، ولم يكفِهِ أنَّه أعرض عنها وتولَّى ، بل جعل يحاربُها ويسعى في إبطالها، ولهذا قال عنه: {إنَّه فَكَّر}؛ أي: في نفسه. {وقدَّر}: ما فكَّر فيه؛ ليقولَ قولاً يبطِلُ به القرآن، {فقُتِلَ كيف قدَّر. ثم قُتِلَ كيف قدَّر}؛ لأنَّه قدَّر أمراً ليس في طوره، وتسوَّر على ما لا ينالُه هو ولا أمثاله، {ثم نَظَرَ}: ما يقول، {ثم عَبَسَ وبَسَرَ}: في وجهه وظاهره نفرةً عن الحقِّ وبُغضاً له، {ثم أدبر}؛ أي: تولَّى، {واستكبر}: نتيجة سعيه الفكريِّ والعمليِّ والقوليِّ، {فقال إنْ هذا إلاَّ سحرٌ يُؤْثَرُ. إنْ هذا إلاَّ قولُ البشرِ}؛ أي: ما هذا كلام الله، بل كلام البشر، وليس أيضاً كلام البشر الأخيار، بل كلام الأشرار منهم والفجَّار من كل كاذبٍ سحَّارٍ، فتبًّا له! ما أبعده من الصواب! وأحراه بالخسارة والتَّباب! كيف يدور في الأذهان أو يتصوَّره ضميرُ أيِّ إنسان أن يكون أعلى الكلام وأعظمه كلام الربِّ الكريم الماجد العظيم يشبِهُ كلام المخلوقين الفقراء الناقصين؟! أم كيف يتجرَّأ هذا الكاذب العنيد على وصفه بهذا الوصف لكلام الله تعالى ؛ فما حقُّه إلاَّ العذاب الشديد [والنكال]، ولهذا قال تعالى: {سأُصْليه سَقَرَ. وما أدراك ما سَقَرُ. لا تُبْقي ولا تَذَرُ}؛ أي: لا تبقي من الشدَّة ولا على المعذَّب شيئاً إلا وبَلَغَتْه. {لوَّاحةٌ للبشر}؛ أي: تلوحهم وتُصليهم في عذابها وتقلقهم بشدَّة حرِّها وقَرِّها. {عليها تسعةَ عشرَ}: من الملائكة، خزنة لها، غلاظٌ شدادٌ لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يُؤمرون.
[30-11] یہ آیات کریمہ معاند حق اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کے خلاف کھلی جنگ کرنے والے، ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی مذمت کی ہے کہ ایسی مذمت کسی کی نہیں کی، یہ ہر اس شخص کی جزا ہے جو حق کے ساتھ عناد اور دشمنی رکھتا ہے، اس کے لیے دنیا کے اندر رسوائی ہے اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے۔ فرمایا: ﴿ ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا﴾ ’’مجھے اوراس شخص کو چھوڑدو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔‘‘ یعنی میں نے اسے اکیلا کسی مال اور اہل و عیال وغیرہ کے بغیر پیدا کیا، پس اس کی پرورش کرتا اور اسے عطا کرتا رہا۔ ﴿ وَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا﴾ اور میں نے اسے بہت زیادہ مال دیا ﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ اسے عطا کیے ﴿ بَنِیْنَ﴾ ’’بیٹے‘‘ ﴿ شُ٘هُوْدًا﴾ جو ہمیشہ اس کے پاس موجود رہتے ہیں، وہ ان سے متمتع ہوتا ہے، ان کے ذریعے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور (دشمنوں کے خلاف) ان سے مدد لیتا ہے ﴿ وَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا﴾ میں نے دنیا اور اس کے اسباب پر اسے اختیار دیا، یہاں تک کہ اس کے تمام مطالب آسان ہو گئے اور اس نے ہر وہ چیز حاصل کر لی جو وہ چاہتا تھا اور جس کی اسے خواہش تھی ﴿ ثُمَّ﴾پھر ان نعمتوں اور بھلائیوں کے باوجود ﴿یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ﴾ ’’خواہش رکھتا ہے کہ میں اورزیادہ دوں۔‘‘ یعنی وہ چاہتا ہے کہ اسے آخرت کی نعمتیں بھی اسی طرح حاصل ہوں جس طرح اسے دنیا کی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں۔ ﴿ كَلَّا﴾ یعنی معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ وہ چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے مطلوب و مقصود کے برعکس ہو گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ﴿ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا﴾ وہ ہماری آیتوں سے عناد رکھتا ہے، اس نے ان آیات کو پہچان کر ان کا انکار کر دیا، ان آیات نے اسے حق کی طرف دعوت دی مگر اس نے ان کی اطاعت نہ کی۔ اس نے صرف ان سے روگردانی کرنے اور منہ موڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف جنگ کی اور ان کے ابطال کے لیے بھاگ دوڑ کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ فَؔكَّـرَ ﴾ یعنی اس نے اپنے دل میں غور کیا ﴿ وَقَدَّرَ﴾ جس کے بارے میں غور کیا، اس کو تجویز کیا تاکہ وہ ایسی بات کہے جس کے ذریعے سے وہ قرآن کا ابطال کر سکے۔ ﴿ فَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَۙ۰۰ثُمَّ قُ٘تِلَ كَیْفَ قَدَّرَ﴾ ’’پس وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی، پھروہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔‘‘ کیونکہ اس نے ایسی تجویز سوچی جو اس کی حدود میں نہیں، اس نے ایسے معاملے میں ہاتھ ڈالا جو اس کی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی پہنچ میں نہیں۔ ﴿ ثُمَّ نَظَرَ﴾ پھر اس نے جو کچھ کہا اس میں غور کیا ﴿ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ﴾ ، پھر اس نے تیوری چڑھائی اور اپنے منہ کو بگاڑا اور حق سے نفرت اوربغض ظاہر کیا ﴿ ثُمَّ اَدْبَرَ﴾ ، پھر پیٹھ پھیر کر چل دیا ﴿ وَاسْتَكْبَرَ﴾ اپنی فکری، عملی اور قولی کوشش کے نتیجے میں تکبر کیا اور کہا: ﴿ فَقَالَ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُۙ۰۰ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْ٘بَشَرِ﴾ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ انسان کا کلام ہے، نیز یہ کسی نیک انسان کا کلام نہیں بلکہ انسانوں میں سے اشرار، فجار، جھوٹے اور جادوگر کا کلام ہے۔ ہلاکت ہو اس کے لیے، راہ صواب سے کتنا دور، خسارے اور نقصان کا کتنا مستحق ہے! یہ بات ذہنوں میں کیسے گھومتی ہے یا کسی انسان کا ضمیر یہ کیسے تصور کر سکتا ہے کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین کلام، رب کریم، صاحب مجد و عظمت کا کلام، ناقص اور محتاج مخلوق کے کلام سے مشابہت رکھتا ہے؟ یا یہ عناد پسند جھوٹا شخص، اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس وصف سے موصوف کرنے کی کیوں کر جرأت کرتا ہے؟ پس یہ سخت عذاب کے سوا کسی چیز کا مستحق نہیں، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سَاُصْلِیْهِ سَقَرَ۰۰ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ ۰۰لَا تُبْقِیْ وَ لَا تَذَرُ﴾ ’’ہم عنقریب اس کو ’’سقر‘‘ میں داخل کریں گےاورتمہیں کیا معلوم کہ سقر کیا ہے؟ (وہ آگ ہے) کہ باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی‘‘ یعنی جہنم کوئی ایسی سختی نہیں چھوڑے گی جو عذاب دیے جانے والے کو نہ پہنچے ﴿لَوَّ٘احَةٌ لِّ٘لْ٘بَشَرِ﴾ ’’چمڑی جھلسا دینے والی ہے‘‘ یعنی جہنم ان کو اپنے عذاب میں جھلس ڈالے گی اور اپنی شدید گرمی اور شدید سردی سے انھیں بے چین کر دے گی۔ ﴿عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ﴾ ، یعنی جہنم پر انیس فرشتے داروغوں کے طور پر متعین ہیں جو نہایت سخت اور درشت خو ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
#
{31} {وما جعلنا أصحاب النارِ إلاَّ ملائكةً}: وذلك لشدَّتهم وقوَّتهم، {وما جعلنا عِدَّتهم إلاَّ فتنةً للذين كفروا}: يحتمل أنَّ المراد؛ إلاَّ لعذابهم وعقابهم في الآخرة ولزيادة نَكالهم فيها، والعذاب يسمَّى فتنة؛ كما قال تعالى: {يومَ هم على النَّارِ يُفْتَنونَ}. ويُحتمل أنَّ المراد أنَّا ما أخبرناكم بعدَّتهم إلاَّ لنعلم من يصدِّق ممَّن يكذِّب. ويدلُّ على هذا ما ذكره بعده في قوله: {ليستيقِنَ الذين أوتوا الكتاب ويزدادَ الذين آمنوا إيماناً}: فإنَّ أهل الكتاب إذا وافق ما عندَهم وطابَقَه؛ ازدادَ يقينُهم بالحقِّ، والمؤمنون كلَّما أنزل الله آيةً، فآمنوا بها وصدَّقوا؛ ازداد إيمانُهم، {ولا يرتابَ الذين أوتوا الكتابَ والمؤمنون}؛ أي: ليزول عنهم الريبُ والشكُّ، وهذه مقاصدُ جليلةٌ يعتني بها أولو الألباب، وهي السعي في اليقين وزيادة الإيمان في كلِّ وقتٍ وكلِّ مسألةٍ من مسائل الدين، ودفع الشكوك والأوهام التي تَعْرِضُ في مقابلة الحقِّ، فجعل ما أنزله على رسولِهِ محصِّلاً لهذه المقاصد الجليلة، ومميزاً للصادقين من الكاذبين ، ولهذا قال: {وليقولَ الذين في قلوبِهِم مرضٌ}؛ أي: شكٌّ وشبهةٌ ونفاقٌ، {والكافرون ماذا أرادَ الله بهذا مثلاً}: وهذا على وجه الحيرة والشكِّ منهم والكفر بآيات الله، وهذا وذاك من هداية الله لمن يهديه وإضلاله لمن يُضِلُّه، ولهذا قال: {كذلك يُضِلُّ الله مَن يشاءُ ويَهْدي مَن يشاءُ}: فمن هداه الله؛ جعل ما أنزل على رسوله رحمةً في حقِّه وزيادةً في إيمانه ودينه، ومن أضلَّه؛ جعل ما أنزله على رسوله زيادةَ شقاءٍ عليه وحيرةً وظلمةً في حقِّه، والواجب أن يُتَلَقى ما أخبر الله به ورسولُه بالتسليم، فإنه {لا يعلمُ جنودَ ربِّك} من الملائكة وغيرهم {إلاَّ هو}: فإذا كنتُم جاهلين بجنوده، وأخبركم بها العليم الخبير؛ فعليكم أن تصدِّقوا خبره من غير شكٍّ ولا ارتياب، {وما هي إلاَّ ذِكْرى للبشرِ}؛ أي: وما هذه الموعظة والتذكار مقصوداً به العبث واللعب، وإنما المقصود به أن يتذكَّر به البشر ما ينفعهم فيفعلونه، وما يضرُّهم فيتركونه.
[31] ﴿وَمَا جَعَلْنَاۤ اَصْحٰؔبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓىِٕكَةً﴾ ’’ہم نے جہنم کے داروغے، فرشتے بنائے ہیں۔‘‘ یہ ان کی سختی اور قوت کی بنا پر ہے۔ ﴿وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کی آزمائش کے لیے کی ہے۔‘‘ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ صرف آخرت میں ان کو عذاب اور عقوبت اور جہنم میں ان کو زیادہ سزا دینے کے لیے ہے۔ عذاب کو فتنہ سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ﴾ (الذاریات:51؍13) ’’اس دن جب ان کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔‘‘ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہم نے تمھیں ان کی تعداد کے بارے میں صرف اس لیے بتایا ہے تاکہ ہم جان لیں کہ کون تصدیق کرتا اور کون تکذیب کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِیْمَانًا﴾ ’’تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔‘‘ کیونکہ اہل کتاب کے پاس جو کچھ ہے، جب قرآن اس کی مطابقت کرے گا تو حق کے بارے میں ان کے یقین میں اضافہ ہو گا اور جب بھی اللہ تعالیٰ کوئی آیت نازل کرتا ہے تو اہل ایمان اس پر ایمان لاتے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﴿وَّلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’نیز اہل کتاب اور مومن شک نہ کریں۔‘‘ یعنی تاکہ ان سے شک و ریب زائل ہو جائے۔ ان جلیل القدر مقاصد کو خرد مند لوگ ہی درخور اعتنا سمجھتے ہیں ، یعنی یقین میں کوشش، ایمان میں ہر وقت اضافہ، دین کے مسائل میں سے ہر مسئلہ پر ایمان میں اضافہ اور شکوک و اوہام کو دور کرنا جو حق کے بارے میں پیش آتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا ہے، اسے ان مقاصد جلیلہ کو حاصل کرنے کا ذریعہ، سچے اور جھوٹے لوگوں کے درمیان امتیاز کی میزان قرار دیا ہے، بنابریں فرمایا: ﴿وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ﴾ ’’تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے، کہیں:‘‘ یعنی شک و شبہ اور نفاق کا مرض ہے﴿وَّالْ٘كٰفِرُوْنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰؔذَا مَثَلًا﴾ ’’اور کافر (کہیں) کہ اس مثال سے اللہ کا مقصود کیاہے؟‘‘ وہ یہ بات حیرت، شک اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کی وجہ سے کہتے ہیں اور یہ اس شخص کے لیے ہدایت ہے جسے وہ ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے اور اس شخص کے لیے گمراہی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘ پس اللہ جس کو ہدایت عطا کر دے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا، اسے اس کے حق میں رحمت، اور اس کے دین و ایمان میں اضافے کا باعث بنا دیتا ہے اور جسے گمراہ کر دے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اسے اس کے حق میں ظلمت اور اس کے لیے بدبختی اور حیرت کا سبب بنا دیتا ہے ۔ واجب ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e نے خبر دی ہے اسے اطاعت و تسلیم کے ساتھ قبول کیا جائے۔ فرشتوں وغیرہ میں سے کوئی بھی تمھارے رب کے لشکروں کو نہیں جانتا ﴿اِلَّا هُوَ﴾ ’’سوائے اس (اللہ ) کے۔‘‘ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے لشکروں کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے اور علیم و خبیر نے ہی تمھیں ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تو تم پر واجب ہے کہ تم اس کی خبر کی کسی شک و ریب کے بغیر تصدیق کرو۔ ﴿وَمَا هِیَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْ٘بَشَرِ﴾ یعنی اس نصیحت اور تذکیر کا مقصد محض عبث اور لہو و لعب نہیں، اس کا مقصد تو یہ ہے کہ انسان اس سے نصیحت پکڑیں جو چیز ان کو فائدہ دے اس پر عمل کریں اور جو چیز ان کو نقصان دے اسے ترک کر دیں۔
آیت: 32 - 56 #
{كَلَّا وَالْقَمَرِ (32) وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ (33) وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ (34) إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ (35) نَذِيرًا لِلْبَشَرِ (36) لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ (37) كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (38) إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ (39) فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ (40) عَنِ الْمُجْرِمِينَ (41) مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (44) وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (45) وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ (46) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (47) فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (48) فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ (49) كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ (50) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (51) بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفًا مُنَشَّرَةً (52) كَلَّا بَلْ لَا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ (53) كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ (54) فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ (55) وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ (56)}.
ہرگز نہیں! قسم ہے چاند کی (32) اور رات کی جب وہ پیٹھ پھیرے (33) اور صبح کی جب وہ روشن ہو جائے (34) بلاشبہ جہنم البتہ ایک ہے بڑی (ہولناک) چیزوں میں سے (35) ڈرانے والی بشر کے لیے (36) اس کے لیے جو چاہے تم میں سے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا (37) ہر نفس، اس کے بدلے جو اس نے کمایا، گروی ہے (38)مگر دائیں ہاتھ والے(39) باغات (بہشت) میں باہم سوال کریں گے (40) مجرموں کی بابت (41) کس چیز نے داخل کیا تمھیں جہنم میں؟ (42) تو وہ کہیں گے، نہیں تھے ہم نمازیوں میں سے (43) اور نہیں تھے ہم کھانا کھلاتے مسکینوں کو (44) اور تھے ہم مشغول ہوتے(باطل میں) مشغول ہونے والوں کے ساتھ (45) اور تھے ہم تکذیب کرتے روز جزا کی (46) حتٰی کہ آ گئی ہمیں موت (47) پس نہیں نفع دے گی انھیں سفارش، سفارش کرنے والوں کی (48) پس کیا ہے انھیں کہ نصیحت سے وہ منہ موڑنے والے ہیں؟(49) گویا کہ وہ گدھے ہیں بدکنے والے (50) کہ وہ بھاگے ہیں شیر سے (51)بلکہ چاہتا ہے ہر فرد ان میں سے یہ کہ دیا جائے وہ صحیفے کھلے ہوئے (52) ہرگز نہیں!بلکہ نہیں ڈرتے وہ آخرت سے (53) ہرگز نہیں! یقیناً یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے (54) سو جو چاہے وہ نصیحت حاصل کرے اس سے (55) اور نہیں وہ نصیحت حاصل کر سکتے (اس سے) مگر یہ کہ چاہے اللہ، وہی لائق ہے تقویٰ کے اور لائق ہے مغفرت کے (56)
#
{32 ـ 34} {كلاَّ}: هنا بمعنى حقًّا، أو بمعنى ألا الاستفتاحية، فأقسم تعالى بالقمر، وبالليل وقتَ إدباره، والنهارِ وقتَ إسفاره؛ لاشتمال المذكورات على آيات الله العظيمة الدالَّة على كمال قدرةِ الله وحكمته وسعة سلطانه وعموم رحمته وإحاطة علمه.
[34-32] ﴿ كَلَّا﴾ یہاں بمعنی (حَقًا) یا بمعنی (ألَا) استفتاحیہ کے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاند اور رات کی قسم کھائی جس وقت وہ پیچھے ہٹے اور دن کی قسم کھائی جس وقت وہ خوب روشن ہو کیونکہ یہ مذکورہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت و حکمت، لا محدود قوت، بے پایاں رحمت اور اس کے احاطۂ علم پر دلالت کرتی ہیں ۔
#
{35 ـ 37} والمقسَمُ عليه قوله: {إنَّها لإحدى الكُبَرِ}؛ أي: إنَّ النار لإحدى العظائم الطامَّة والأمور الهامَّة؛ فإذا أعلمناكم بها وكنتُم على بصيرةٍ من أمرها؛ فمن شاء منكم أن يتقدَّم فيعمل بما يقرِّبُه إلى الله ويُدْنيه من رضاه ويُزْلفه من دار كرامته، أو يتأخَّر عمَّا خُلِقَ له وعمَّا يحبُّه الله ويرضاه، فيعمل بالمعاصي، ويتقرَّب إلى جهنَّم؛ كما قال تعالى: {وقلِ الحقُّ من ربِّكم فَمَن شاء فَلْيُؤمِن ومَن شاءَ فَلْيَكْفُرْ ... } الآية.
[37-35] جس پر قسم کھائی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ اِنَّهَا لَاِحْدَى الْكُبَرِ﴾ ’’کہ وہ (آگ ) ایک بہت بڑی (آفت) ہے۔‘‘ یعنی بے شک جہنم کی آگ ایک بہت بڑی مصیبت اور غم میں مبتلا کر دینے والا معاملہ ہے، پس جب ہم نے تمھیں اس کے بارے میں خبردار کر دیا اور تم اس کے بارے میں پوری بصیرت رکھتے ہو ، تب تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے اور ایسے عمل کرے جو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا کے قریب کرتے اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہوں یا وہ اس مقصد سے پیچھے ہٹ جائے جس کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے اور نافرمانی کے کام کرے جو جہنم کے قریب کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَقُ٘لِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَ٘مَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْ٘یَكْ٘فُ٘رْ ﴾ (الکہف:18؍29) ’’اور کہہ دیجیے کہ یہ برحق قرآن تمھارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔‘‘
#
{38 ـ 48} {كلُّ نفس بما كسبتْ}: من أفعال الشرِّ وأعمال السوء {رهينةٌ}: بها موثقةٌ بسعيها، قد أُلْزِمَ عنقها وغُلَّ في رقبتها واستوجبت به العذاب، {إلاَّ أصحابَ اليمين}: فإنَّهم لم يرتهنوا، بل أُطلقوا وفرحوا {في جناتٍ يتساءلونَ. عن المجرمينَ}؛ أي: في جناتٍ قد حصل لهم فيها جميع مطلوباتهم وتمَّت لهم الراحةُ والطمأنينة، حتى أقبلوا يتساءلون، فأفضتْ بهم المحادثة أن سألوا عن المجرمين؛ أيُّ حال وصلوا إليها؟ وهل وَجَدوا ما وعَدَهم الله [تعالى]؟ فقال بعضهم لبعضٍ هل أنتم مُطَّلعونَ عليهم، فاطَّلعوا عليهم في وسطِ الجحيم يعذَّبون، فقالوا لهم: {ما سَلَككم في سَقَرَ}؛ أي: أيُّ شيءٍ أدخلكم فيها؟ وبأيِّ ذنبٍ اسْتَحَقيْتُموها؟ فقالوا: {لم نَكُ من المصلِّينَ. ولم نكُ نطعِمُ المسكينَ}: فلا إخلاص للمعبودِ ولا إحسانَ ولا نفع للخلق المحتاجين، {وكنَّا نخوضُ مع الخائضينَ}؛ أي: نخوض بالباطل ونجادل به الحقَّ، {وكنَّا نكذِّبُ بيوم الدِّينِ}: هذه آثار الخوض بالباطل، وهو التَّكذيب بالحقِّ، ومن أحقِّ الحقِّ يوم الدين، الذي هو محلُّ الجزاء على الأعمال وظهور مُلك الله وحُكمه العدل لسائر الخلق، فاستمرَّ عَمَلُنا على هذا المذهب الباطل {حتَّى أتانا اليقين}؛ أي: الموت، فلما ماتوا على الكفر؛ تعذَّرت حينئذٍ عليهم الحِيَلُ، وانسدَّ في وجوههم باب الأمل. {فما تَنفَعُهم شفاعةُ الشَّافعين}؛ لأنَّهم لا يشفعون إلاَّ لِمَنِ ارتضى، وهؤلاء لا يرضى الله أعمالهم.
[48-38] ﴿ كُ٘لُّ نَفْ٘سٍۭؔ بِمَا كَسَبَتْ﴾ ’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے۔‘‘ یعنی افعال شر اور اعمال بد کے بدلے ﴿ رَهِیْنَةٌ﴾ ’’گروی ہے۔‘‘ یعنی اپنے اعمال کا گروی اور اپنی کوشش میں بندھا ہوا، اس کی گردن جکڑی ہوئی اور اس کے گلے میں طوق ڈالا ہوا ہے اور اس سبب سے اس نے عذاب کو واجب بنا لیا۔ ﴿ اِلَّاۤ اَصْحٰؔبَ الْیَمِیْنِ﴾ ’’سوائے دائیں ہاتھ والوں کے‘‘ کیونکہ وہ (اپنے اعمال کے بدلے) گروی نہیں ہیں، بلکہ وہ آزاد اور فرحاں اور شاداں ہیں ﴿ فِیْ جَنّٰتٍ ١ۛ ؕ ۫ یَتَسَآءَلُوْنَ۠ۙ۰۰عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ یعنی جنت کے اندر ان کو تمام چیزیں حاصل ہوں گی جن کی وہ طلب کریں گے، ان کے لیے کامل راحت و اطمینان ہو گا، وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے، وہ اپنی آپس کی بات چیت میں مجرموں کے بارے میں پوچھیں گے کہ وہ کس حال کو پہنچے ہیں، کیا انھوں نے وہ کچھ پا لیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم انھیں جھانک کر دیکھنا چاہتے؟ وہ ان کو جھانک کر دیکھیں گے تو انھیں جہنم کے درمیان اس حال میں پائیں گے کہ انھیں عذاب دیا جا رہا ہو گا تو وہ ان سے کہیں گے: ﴿ مَا سَلَكَـكُمْ فِیْ سَقَرَ﴾ یعنی کس چیز نے تمھیں جہنم میں ڈالا ہے اور کس گناہ کے سبب سے تم جہنم کے مستحق قرار پائے ہو؟ ﴿ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّ٘یْ٘نَۙ۰۰وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ﴾ ’’کہیں گے: ہم نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔‘‘ یعنی ہم معبود کے لیے اخلاص اور احسان رکھتے تھے نہ ضرورت مند مخلوق کو فائدہ پہنچاتے تھے ﴿ وَؔكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىِٕضِیْنَ۠﴾ ’’اور ہم (باطل میں) مشغول ہونے والوں کے ساتھ مشغول ہوتے تھے۔‘‘ یعنی ہم باطل میں پڑے ہوئے تھے اور باطل کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑتے تھے۔ ﴿ وَؔكُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’اور ہم یوم جزا کو جھٹلاتے تھے۔‘‘ یہ باطل میں مشغول ہونے کا اثر ہے اور وہ ہے تکذیب حق۔ سب سے بڑے حق میں سے قیامت کا دن ہے جو اعمال کی جزا و سزا، اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور تمام مخلوق کے لیے اس کے عدل پر مبنی فیصلے کا محل ہے۔ ہمارا عمل اسی باطل نہج پر جاری رہا ﴿ حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ﴾ یہاں تک کہ ہمیں موت نے آ لیا۔ پس جب وہ کفر کی حالت میں مر گئے تو ان کے لیے حیلے دشوار ہوں گئے اور ان کے سامنے امید کا دروازہ بند ہو گیا۔﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ﴾ ’’پس سفارش کرنے والوں کی سفارش انھیں کچھ فائدہ نہیں دے گی۔‘‘ کیونکہ وہ صرف اسی کی سفارش کریں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ راضی ہو گا اور یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں۔
#
{49 ـ 53} فلمَّا بيَّن الله مآل المخالفين وبيَّن ما يفعل بهم؛ عطف على الموجودين بالعتاب واللوم، فقال: {فما لهم عن التَّذْكِرَةِ معرِضينَ}؛ أي: صادَّين غافلين عنها، {كأنَّهم}: في نفرتِهِم الشديدة منها {حمُرٌ مستنفرةٌ}؛ أي: [كأنّهم] حمُرُ وحشٍ نفرتْ؛ فنفَّر بعضُها بعضاً فزاد عَدْوُها، {فرَّتْ من قَسْوَرَةٍ}؛ أي: من صائدٍ ورامٍ يريدها أو من أسدٍ ونحوه، وهذا من أعظم ما يكون من النُّفور عن الحقِّ، ومع هذا النفور والإعراض يدَّعون الدَّعاوي الكبار؛ فيريد {كلُّ} واحد {منهم أن يُؤْتى صُحُفاً منشَّرةً}: نازلة عليه من السماء؛ يزعم أنَّه لا ينقاد للحقِّ؛ إلاَّ بذلك، وقد كذَّبوا؛ فإنَّهم لو جاءتهم كلُّ آيةٍ؛ لم يؤمنوا حتى يروا العذاب الأليم؛ لأنَّهم جاءتهم الآياتُ البيناتُ، التي تبيِّن الحقَّ وتوضِّحه؛ فلو كان فيهم خيرٌ؛ لآمنوا، ولهذا قال: {كلاَّ}؛ أي: لا نعطيهم ما طلبوا، وهم ما قصدوا بذلك إلاَّ التعجيز، {بل لا يخافونَ الآخرةَ}: فلو كانوا يخافونها؛ لما جرى منهم ما جرى.
[53-49] جب اللہ تعالیٰ نے مخالفین کا انجام واضح کر دیا اور یہ بھی بیان کر دیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا تو موجود کفار پر عتاب اور ملامت کی طرف توجہ دی، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَ﴾ ’’پس انھیں کیا ہوا ہے کہ وہ نصیحت سے روگرداں ہیں۔‘‘ یعنی نصیحت سے غافل اور اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ﴾ ’’گویا کہ وہ‘‘ اس نصیحت سے اپنی سخت نفرت میں ﴿ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ﴾ بدکے ہوئے جنگلی گدھے ہیں جو ایک دوسرے سے بدک گئے ہیں اور اس بنا پر ان کی دوڑ میں تیزی آ گئی ہے۔ ﴿فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ﴾ جو کسی شکاری یا کسی تیر انداز سے، جو ان کو نشانے میں لینے کا ارادہ رکھتا ہو، یا کسی شیر وغیرہ سے ڈر کر بھاگے ہیں۔ اور یہ حق سے سب سے بڑی نفرت ہے، اس نفرت اور اعراض کے باوجود بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ پس ﴿ یُرِیْدُ كُ٘لُّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ اَنْ یُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً﴾ ’’ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی کتاب آئے۔‘‘ یعنی اس پر آسمان سے نازل ہو، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت میں حق کو تسلیم کرلے گا۔ حالانکہ انھوں نے جھوٹ بولا ہے، اس کے پاس اگر ہر قسم کی نشانی بھی آ جائے، تب بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں کیونکہ ان کے پاس واضح دلائل آئے جنھوں نے حق کو بیان کر کے واضح کر دیا اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔اس لیے فرمایا:﴿ كَلَّا﴾ ’’ہر گز نہیں‘‘ ہم انھیں وہ چیز عطا نہیں کریں گے جس کا انھوں نے مطالبہ کیا ہے، اس سے ان کا مقصد عاجز کرنے کے سوا اور کوئی نہیں۔ ﴿بَلْ لَّا یَخَافُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ ’’حقیت یہ ہے کہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔‘‘ پس اگر انھیں آخرت کا خوف ہوتا تو ان سے یہ سب کچھ صادر نہ ہوتا جو صادر ہوا ہے۔
#
{54 ـ 56} {كلاَّ [إنَّه] تذكرةٌ}: الضمير إمَّا أن يعود على هذه السورة أو على ما اشتملتْ عليه من هذه الموعظة، {فَمَن شاء ذَكَرَهُ}: لأنَّه قد بيَّن له السبيل ووضَح له الدَّليل. {[وما يَذْكُرون] إلاَّ أن يشاءَ اللهُ}: فإنَّ مشيئة اللَّه نافذةٌ عامَّةٌ، لا يخرج عنها حادثٌ قليلٌ ولا كثيرٌ؛ ففيها ردٌّ على القدريَّة، الذين لا يُدْخِلون أفعال العباد تحت مشيئة الله، والجبريَّة، الذين يزعمون أنَّه ليس للعبد مشيئةٌ ولا فعلٌ حقيقةً، وإنَّما هو مجبور على أفعاله، فأثبت تعالى للعباد مشيئةً حقيقةً وفعلاً، وجعل ذلك تابعاً لمشيئته، و {وهو أهلُ التَّقوى وأهل المغفرةِ}؛ أي: هو أهل أن يُتَّقى ويُعبد؛ لأنَّه الإله الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له، وأهلٌ أن يَغْفِرَ لمن اتَّقاه واتَّبع رضاه.
[56-54] ﴿ كَلَّاۤ اِنَّهٗ تَذْكِرَةٌ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے۔‘‘ ضمیر یا تو اس سورۂ مبارکہ کی طرف لوٹتی ہے یا اس نصیحت کی طرف لوٹتی ہے جس پر یہ سورۂ مبارکہ مشتمل ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَؔ ذَكَرَهٗ﴾ ’’پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سامنے سیدھے راستے کو کھول کر بیان کر دیا اور اس کے سامنے دلیل واضح کر دی ﴿ وَمَا یَذْكُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ﴾ ’’اور یاد بھی تب رکھیں گے جب اللہ چاہے گا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سب پر نافذ ہے، کوئی قلیل یا کثیر حادث اس کی مشیت سے باہر نہیں۔ اس آیت میں قدریہ کا رد ہے جو بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت داخل نہیں کرتے۔ نیز اس میں جبریہ کا بھی رد ہے جن کا زعم ہے کہ بندے کی کوئی مشیت ہے نہ حقیقت میں اس کا کوئی فعل ہے وہ تو اپنے افعال پر مجبور محض ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے مشیت اور فعل کا اثبات کیا ہے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ ﴿ هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْ٘مَغْفِرَةِ﴾ یعنی وہ اس کا اہل ہے کہ اس سے تقویٰ اختیار کیا جائے اور اس کی عبادت کی جائے کیونکہ وہی معبود ہے، عبادت صرف اسی کے لائق ہے۔ وہ اس کا بھی اہل ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرے اور اس کی رضا کی اتباع کرے، وہ اس کو بخش دے۔