آیت:
تفسیر سورۂ مزمل
تفسیر سورۂ مزمل
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 11 #
{يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4) إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (5) إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (6) إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (7) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (8) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا (9) وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا (10) وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا (11)}.
اے لپٹنے والے کپڑے میں!(1) قیام کیجیے رات میں مگر تھوڑا سا(2) ( یعنی ) نصف (حصہ) رات کا یا کم کیجیے اس سے تھوڑا سا(3) یا زیادہ کیجیے اس پر اور پڑھیے قرآن ٹھہر ٹھہر کر(4)یقیناً عنقریب ہم ڈالیں گے آپ پر ایک بات بہت بھاری(5) بلاشبہ اٹھنا رات کا یہ زیادہ سخت ہے (نفس کے) کچلنے میں اور زیادہ درست رکھنے والا ہے بات کو(6) بلاشبہ آپ کے لیے دن میں مصروفیت ہے بہت(7) اور یاد کیجیے نام اپنے رب کا اور (سب سے کٹ کر) متوجہ ہو جایے اس کی طرف یکسو ہو کر(8) (وہ) رب ہے مشرق و مغرب کا، نہیں کوئی معبود سوائے اس کےسو بنا لیجیے اس کو (اپنا ) کار ساز(9) اورصبر کیجیے ان باتوں پر جو وہ کہتے ہیں اور چھوڑ دیجیے انھیں چھوڑ دینا اچھے طریقے سے (10) اور چھوڑ دیجیے مجھے اور تکذیب کرنے والے آسودہ حال لوگوں کو اور مہلت دیجیے انھیں تھوڑی سی (11)
#
{1 ـ 5} المزَّمِّل: المتغطي بثيابه كالمدَّثِّر، وهذا الوصف حصل من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حين أكرمه الله برسالته، وابتدأه بإنزال وحيه بإرسال جبريل إليه ، فرأى أمراً لم يَرَ مثلَه ولا يقدِرُ على الثَّبات عليه إلاَّ المرسلون، فاعتراه عند ذلك انزعاجٌ، حين رأى جبريلَ عليه السلام، فأتى إلى أهله، فقال: «زمِّلوني زمِّلوني»، وهو ترعَدُ فرائصُه، ثم جاءه جبريلُ، فقال: اقرأ. فقال: «ما أنا بقارئٍ». فغطه حتَّى بلغ منه الجهدَ، وهو يعالجه على القراءة، فقرأ - صلى الله عليه وسلم -. ثم ألقى الله عليه الثباتَ، وتابع عليه الوحيَ، حتى بَلَغَ مَبْلَغاً ما بَلَغَه أحدٌ من المرسلين؛ فسبحان الله ما أعظم التفاوت بين ابتداء نبوَّته ونهايتها! ولهذا خاطبه الله بهذا الوصف الذي وُجِدَ منه في أول أمره، فأمره هنا بالعباداتِ المتعلِّقة به، ثم أمره بالصبر على أذيَّة قومه ، ثم أمر بالصَّدْع بأمره وإعلان دعوتهم إلى الله، فأمره هنا بأشرف العبادات، وهي الصلاة، وبآكدِ الأوقات وأفضلها، وهو قيامُ الليل. ومن رحمته [تعالى] أنَّه لم يأمرْه بقيام الليل كلِّه، بل قال: {قم الليلَ إلاَّ قليلاً}. ثم قدَّر ذلك فقال: {نصفَه أو انقُصْ منه}؛ أي: من النصف {قليلاً}: بأن يكون الثلث ونحوه، {أو زِدْ عليه}؛ أي: على النصف، فيكون نحو الثلثين ، {ورتِّل القرآن ترتيلاً}؛ فإنَّ ترتيلَ القرآن به يحصُلُ التدبُّر والتفكُّر وتحريك القلوب به والتعبُّد بآياته والتهيُّؤ والاستعداد التامُّ له؛ فإنَّه قال: {إنَّا سنُلقي عليك قولاً ثقيلاً}؛ أي: نوحي إليك هذا القرآن الثقيل؛ أي: العظيمة معانيه، الجليلة أوصافه، وما كان بهذا الوصف حقيقٌ أن يُتَهَيَّأ له ويُرَتَّل ويُتَفَكَّر فيما يشتمل عليه.
[5-1] ﴿ الْ٘مُزَّمِّلُ﴾ کا معنی بھی ﴿الْمُدَّثِّ٘رُ﴾ کی طرح کپڑوں میں لپٹنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہe کو اپنی رسالت کے ذریعے سے اکرام بخشا اور حضرت جبریلu کو آپ کی طرف بھیج کر وحی نازل کرنے کی ابتدا کی تو اس وقت آپ اس وصف سے موصوف تھے۔ آپ نے ایک ایسا معاملہ دیکھا کہ اس جیسا معاملہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس پر رسولوں کے سوا کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ آپ کے پاس جبریل آئے اور کہا ’’پڑھیے!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میں پڑھ نہیں سکتا‘‘ جبریل نے آپ کو خوب بھینچا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، جبریل آپ کو بار بار پڑھنے کی مشق کرواتے رہے تو بالآخر رسول اللہ e نے پڑھا، یہ وحی و تنزیل کا پہلا موقع اور ایک نیا تجربہ تھا، اس سے آپ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی، آپ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لائے تو آپ پر کپکپی طاری تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات سے بہرہ ور کیا اور آپ پر پے در پے وحی نازل ہوئی حتیٰ کہ آپ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں کوئی رسول نہیں پہنچ سکا۔ (سُبْحَانَ اللہ!) وحی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مابین کتنا بڑا تفاوت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وصف کے ساتھ مخاطب فرمایا جو آپ میں ابتدا کے وقت پایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو ان عبادات کا حکم دیا جو آپ سے متعلق تھیں، پھر آپ کو اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اس کے حکم کو کھلم کھلا بیان کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا اعلان کر دیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل ترین عبادت، نماز کو موکد ترین اور بہترین وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے تہجد کی نماز۔ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو تمام رات قیام کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا :﴿ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی رات۔‘‘پھر اس کا اندازہ مقرر کر دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُ٘صْ مِنْهُ﴾ نصف رات یا نصف میں سے ﴿قَلِیْلًا﴾ کچھ کم کر دیجیے، ایک تہائی کے لگ بھگ ہو ﴿اَوْ زِدْ عَلَیْهِ﴾ یا نصف سے کچھ زیادہ، یعنی دو تہائی رات کے لگ بھگ ہو۔ ﴿وَرَتِّلِ الْ٘قُ٘رْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾ ’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘ کیونکہ ترتیلِ قرآن سے تدبر اور تفکر حاصل ہوتا ہے، اس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے، اس کی آیات کے ساتھ تعبُّد حاصل ہوتا ہے اور اس پر عمل کے لیے مکمل استعداد اور آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ فرمایا: ﴿اِنَّا سَنُلْ٘قِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا﴾ یعنی ہم آپ کی طرف یہ بھاری قرآن وحی کریں گے، یعنی وہ معانئ عظیمہ اور اوصاف جلیلہ کا حامل ہے۔ قرآن، جس کا وصف یہ ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے لیے تیاری کی جائے، اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور جن مضامین پر مشتمل ہے ان میں غورو فکر کیا جائے۔
#
{6} ثم ذكر الحكمة في أمره بقيام الليل، فقال: {إنَّ ناشئةَ الليل}؛ أي: الصلاة فيه بعد النوم، {هي أشدُّ وطئاً وأقومُ قيلاً}؛ أي: أقرب إلى حصول مقصود القرآن؛ يتواطأ عليه القلب واللسان، وتقلُّ الشواغل، ويفهم ما يقول، ويستقيم له أمره.
[6] پھر اللہ تعالیٰ نے رات کے قیام کے حکم کی حکمت بیان کی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ﴾ یعنی رات کو سو کر اٹھنے کے بعد نماز پڑھنا ﴿هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَ٘قْوَمُ قِیْلًا﴾ نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن کے مقصد کے حصول کے زیادہ قریب ہے۔ قلب و لسان اس سے مطابقت رکھتے ہیں، اس وقت مشاغل کم ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ پڑھتا ہے اس کا فہم حاصل ہوتا ہے اور اس کا معاملہ درست ہو جاتا ہے۔
#
{7} وهذا بخلاف النهار؛ فإنَّه لا يحصلُ به هذه المقاصد ، ولهذا قال: {إنَّ لك في النهار سبحاً طويلاً}؛ أي: تردُّداً في حوائجك ومعاشك يوجبُ اشتغال القلب وعدم تفرُّغه التفرُّغ التامَّ.
[7] یہ دن کے اوقات کے برعکس ہے کیونکہ دن کے اوقات میں یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ لَكَ فِی النَّهَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا﴾ ’’دن کے وقت آپ کو اور بہت مشاغل ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنی حوائج اور معاشی ضروریات کے لیے آپ کو بار بار آنا جانا پڑتا ہے جو قلب کے مشغول ہونے اور مکمل طور پر فارغ نہ ہونے کا موجب بنتا ہے۔
#
{8} {واذكرِ اسمَ ربِّك}: شاملٌ لأنواع الذِّكْر كلِّها، {وتَبَتَّلْ إليه تَبتيلاً}؛ أي: انقطع إليه ؛ فإنَّ الانقطاع إلى الله والإنابة إليه هو: الانفصالُ بالقلب عن الخلائق، والاتِّصاف بمحبَّة الله وما يقرِّب إليه ويدني من رضاه.
[8] ﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ﴾ ’’اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔‘‘ یہ ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے ﴿ وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ﴾ ’’اور سب سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی طرف انابت، قلب کے خلائق سے علیحدہ اور لا تعلق ہونے، اللہ تعالیٰ کی محبت اور ان اوصاف سے متصف ہونے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بناتے ہیں اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں۔
#
{9} {رب المشرق والمغرب}: وهذا اسم جنس؛ يشمل المشارق والمغارب كلَّها؛ فهو تعالى ربُّ المشارق والمغارب، وما يكون فيها من الأنوار، وما هي مصلحةٌ له من العالم العلويِّ والسفليِّ؛ فهو ربُّ كلِّ شيءٍ وخالقُه ومدبِّره. {لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا معبود إلاَّ وجهه الأعلى، الذي يستحقُّ أن يُخَصَّ بالمحبَّة والتعظيم والإجلال والتكريم، ولهذا قال: {فاتَّخِذْه وكيلاً}؛ أي: حافظاً ومدبِّراً لأمورك كلِّها.
[9] ﴿رَبُّ الْ٘مَشْرِقِ وَالْ٘مَغْرِبِ ﴾ یہ اسم جنس ہے جو تمام مشارق و مغارب کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مشارق و مغارب، ان کے اندر جو انوار اور عالم علوی اور عالم سفلی کے لیے جو مصالح ہیں، سب کا رب ،ان کا خالق اور مدبر ہے۔ ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ اس بالا و بلند تر ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو محبت و تعظیم اور اجلال و تکریم سے مختص کیا جائے۔ بنابریں فرمایا:﴿ فَاتَّؔخِذْهُ وَؔكِیْلًا﴾ پس اسے اپنے تمام امور کی تدبیر کرنے والا اور محافظ بنا۔
#
{10} فلما أمره الله بالصَّلاة خصوصاً وبالذِّكر عموماً، وذلك يحصل للعبد مَلَكَةٌ قويةٌ في تحمُّل الأثقال وفعل المُشِقِّ من الأعمال؛ أمره بالصبر على ما يقوله المعاندون له ويسبُّونه ويسبُّون ما جاء به، وأن يمضِيَ على أمر الله؛ لا يصدُّه عنه صادٌّ ولا يردُّه رادٌّ، وأن يَهْجُرَهُم هجراً جميلاً، وهو الهجر حيث اقتضت المصلحةُ [الهجرَ]، الذي لا أذيَّة فيه، بل يعاملهم بالهجر والإعراض عن أقوالهم التي تؤذيه، وأمره بجدالهم بالتي هي أحسن.
[10] جب اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نماز اور عام طور پر ذکر الٰہی کا حکم دیا ...جس سے بندۂ مومن میں بھاری بوجھ اٹھانے اور پر مشقت اعمال بجا لانے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان باتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا جو آپ کے معاندین آپ کو کہتے ہیں اور آپ کو اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اس پر سب و شتم کرتے ہیں، نیز یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں کوئی روکنے والا آپ کی راہ کھوٹی کر سکے نہ کوئی آپ کو واپس لوٹا سکے اور یہ کہ آپ بھلے طریقے سے ان سے کنارہ کش ہو جائیں اور یہ کنارہ کشی وہاں ہے جہاں مصلحت کنارہ کشی کا تقاضا کرتی ہے جس میں کوئی اذیت نہ ہو بلکہ ان کی تکلیف دہ باتوں سے اعراض کرتے ہوئے، ان سے کنارہ کشی کا معاملہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو احسن ہو۔
#
{11} {وذرني والمكذِّبينَ}؛ أي: اتركْني وإيَّاهم، فسأنتقم منهم، وإنْ أمْهَلْتُهم؛ فلا أهمِلُهم. وقوله: {أولي النَّعْمةِ}؛ أي: أصحاب النَّعمة والغنى، الذين طَغَوْا حين وسَّع الله عليهم من رزقه وأمدَّهم من فضله؛ كما قال تعالى: {كلاَّ إنَّ الإنسانَ لَيَطْغى. أن رآه استَغْنى}.
[11] فرمایا: ﴿وَذَرْنِیْ وَالْمُكَذِّبِیْنَ۠﴾ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجیے، میں ان سے انتقام لوں گا، میں نے اگرچہ ان کو مہلت دی ہے مگر میں ان کو مہمل نہیں چھوڑوں گا ﴿ اُولِی النَّعْمَةِ﴾یعنی نعمتوں سے بہرہ مند اور دولت مند لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزق سے فراخی عطا کی اور اپنے فضل سے ان کو نوازا تو انھوں نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَ٘یَطْغٰۤىۙ۰۰ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى﴾ (العلق96؍6-7) ’’ہرگز نہیں، انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کی وعید سنائی جو اس کے پاس ہے ، چنانچہ فرمایا:
آیت: 12 - 14 #
{إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا (12) وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا (13) يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا (14)}.
بلاشبہ ہمارے ہاں بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ (12) اور طعام گلے میں پھنس جانے والا اور عذاب بہت درد ناک (13) جس دن کانپے گی زمین اور پہاڑ، اور ہو جائیں گے پہاڑ ریت کے ٹیلے بھربھرے (14)
#
{12 ـ 13} أي: إنَّ عندنا {أنكالاً}؛ أي: عذاباً شديداً جعلناه تنكيلاً للذي لا يزال مستمرًّا على ما يغضِبُ الله، {وجحيماً}؛ أي: ناراً حامية، {وطعاماً ذا غُصَّةٍ} وذلك لمرارته وبشاعته وكراهة طعمه وريحه الخبيث المنتن، {وعذاباً أليماً}؛ أي: موجعاً مفظعاً.
[13,12] یعنی ہمارے پاس ﴿ اَنْكَالًا﴾ سخت عذاب ہے، اسے ہم نے اس شخص کے لیے عبرتناک سزا بنایا ہے جو ان امور پر جما ہوا ہے جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ ﴿ وَّجَحِیْمًا﴾ اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے ﴿ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ﴾ ’’ اور گلو گیر کھانا‘‘ یہ اچُّھو اس کھانے کی تلخی، بدمزگی، اس کے ذائقے کی کراہت اور اس کی بے انتہا گندی بدبو کی بنا پر لگے گا۔ ﴿ وَّعَذَابً٘ا اَلِیْمًا﴾ اور انتہائی درد ناک اور تکلیف دہ عذاب ہے۔
#
{14} وذلك {يوم ترجُفُ الأرضُ والجبالُ}: من الهول العظيم، فكانتِ {الجبالُ}: الراسياتُ الصمُّ الصلابُ {كثيباً مَهيلاً}؛ أي: بمنزلة الرمل المنهال المنتثر، ثم إنها تُبَسُّ بعد ذلك فتكون كالهباء المنثور.
[14] ﴿ یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ﴾ جس روز زمین اور پہاڑ بہت بڑے خوف سے کانپ اٹھیں گے ﴿ وَكَانَتِ الْجِبَالُ﴾ اور زمین پرمضبوطی سے جمے ہوئے ٹھوس اور سخت پہاڑ ﴿کَثِیْبًا مَّہِیْلًا﴾ ریت کے بھر بھرے ٹیلے بن جائیں گے ، یعنی بکھری ہوئی ریت کی مانند، پھر اس کے بعد یہ ریت آہستہ آہستہ پھیل کر اڑتا ہوا غبار بن جائے گی۔
آیت: 15 - 16 #
{إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (15) فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا (16)}.
بلاشبہ ہم نے بھیجا ہے تمھاری طرف ایک رسول شہادت دینے والا تم پر جیسے بھیجا تھا ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول (15) پس نافرمانی کی فرعون نے اس رسول کی تو پکڑ لیا ہم نے اسے پکڑنا نہایت سخت (16)
#
{15 ـ 16} يقول تعالى: احْمَدوا ربَّكم على إرسال هذا النبيِّ الأميِّ العربيِّ البشير النذير الشاهد على الأمَّة بأعمالهم، واشكروه، وقوموا بهذه النِّعمة الجليلة، وإيَّاكم أن تَكْفُروا، فتَعْصوا رسولكم، فتكونوا كفرعون حين أرسل الله إليه موسى بن عمران، فدعاه إلى الله، وأمره بالتَّوحيد، فلم يصدِّقْه، بل عصاه، فأخذه الله {أخذاً وبيلاً}؛ أي: شديداً بليغاً.
[16,15] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نبئ امی و عربی (e) کے بھیجے جانے پر... جو خوشخبری دینے والا، تنبیہ کرنے والا اور امت پر ان کے اعمال کے ذریعے سے گواہ ہے ... اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کرو، اس کا شکر ادا کرو اور اس نعمت جلیلہ کا اعتراف کرو۔ اپنے رسول کا انکار کرنے اور اس کی نافرمانی کرنے سے بچو ایسا نہ ہو کہ تم فرعون کی مانند ہو جاؤ ، جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو اس کی طرف مبعوث فرمایا تو حضرت موسیٰ uنے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور اسے توحید کا حکم دیا مگر اس نے حضرت موسیٰ کی تصدیق نہ کی بلکہ اس کے برعکس اس نے آپ کی۔ نافرمانی کی پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑے وبال، یعنی انتہائی شدت کے ساتھ پکڑ لیا۔
آیت: 17 - 18 #
{فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا (17) السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا (18)}.
پس کیسے بچو گے تم اگر کفر کیا تم نے، اس دن (کے عذاب سے) کہ کر دے گا وہ بچوں کو بوڑھا؟ (17) آسمان پھٹ جائے گا بوجہ اس کے اور ہے وعدہ اس کا کیاہوا (18)
#
{17 ـ 18} أي: فكيف يحصلُ لكم الفكاكُ والنَّجاة يومَ القيامةِ، اليوم المَهيل أمرُه، العظيمُ خطرُه ، الذي يشيِّبُ الولدان وتذوبُ له الجمادات العظام؛ فتنفطر السماء وتنتثر نجومُها. {كان وعدُه مفعولاً}؛ أي: لا بدَّ من وقوعه ولا حائل دونه.
[18,17] یعنی قیامت کے روز کیسے نجات حاصل ہو سکتی ہے، وہ ایسا دن ہے جس کا معاملہ نہایت ہولناک اور جس کا خطرہ بہت عظیم ہو گا۔ جو بچوں کو بوڑھا، اور بڑے بڑے جمادات کو پگھلا کر رکھ دے گا، پس (اس کے خوف سے) آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ﴿ كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا﴾یعنی اس کا وقوع لا زمی ہے، کوئی چیز اس کے سامنے حائل نہیں ہو سکتی۔
آیت: 19 #
{إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (19)}.
بلاشبہ یہ (قرآن) تو نصیحت ہے، پس جو چاہے پکڑے طرف اپنے رب کی راستہ(19)
#
{19} أي: إنَّ هذه الموعظة التي نبَّأ الله بها من أحوال يوم القيامةِ وأهوالها تذكرةٌ يتذكَّر بها المتَّقون وينزجر بها المؤمنون. {فمن شاءَ اتَّخذ إلى ربِّه سبيلاً}؛ أي: طريقاً موصلاً إليه، وذلك باتِّباع شرعه؛ فإنَّه قد أبانه كلَّ البيان وأوضحه غاية الإيضاح، وفي هذا دليلٌ على أنَّ الله تعالى أقْدَرَ العبادَ على أفعالهم ومكَّنَهم منها، لا كما يقوله الجبريَّةُ: إنَّ أفعالهم تقع بغير مشيئتهم؛ فإنَّ هذا خلاف النقل والعقل.
[19] یہ وعظ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے احوال اور اس کی ہولناکیوں کی خبر دی ہے، ایک یاد دہانی ہے جس سے اہل تقویٰ نصیحت پکڑتے اور اہل ایمان (برائیوں سے) رک جاتے ہیں ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَؔ اتَّؔخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا﴾ یعنی وہ راستہ جو اسے اس کے رب تک پہنچاتا ہے۔ وہ راستہ اس کی شریعت کی اتباع کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول کھول کر بیان کیا اور پوری طرح واضح کر دیا ہے۔اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ان کے افعال پر قدرت اور اختیار عطا کیا ہے۔ ایسے نہیں جیسے ’’جبریہ‘‘ کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال ان کی مشیت کے بغیر واقع ہوتے ہیں کیونکہ یہ نقل اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔
آیت: 20 #
{إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (20)}.
یقیناً آپ کا رب جانتا ہے کہ بے شک آپ قیام کرتے ہیں (کبھی) قریب دو تہائی رات اور (کبھی) نصف رات اور (کبھی) ایک تہائی رات کے اور ایک گروہ (بھی) ان لوگوں میں سے جو آپ کے ساتھ ہیں اور اللہ ہی (پورا) اندازہ کرتا ہے رات اور دن کا اس نے جان لیا یہ کہ ہرگز نہیں شمار کر سکو گے تم اس کو، پس اس نے توجہ کی تم پر پس تم پڑھو جو آسان ہو قرآن(میں) سے اس نے جان لیا کہ بلاشبہ عنقریب ہوں گے کچھ تم میں سے بیمار اور (کچھ) دوسرے کہ چلیں گے وہ زمین میں تلاش کریں گے فضل اللہ کا اور، (کچھ) اور کہ وہ لڑیں گے اللہ کی راہ میں، تو پڑھو تم جو آسان ہو اس (قرآن) سے اور قائم کرو تم نماز اور دو تم زکاۃ اور قرض دو تم اللہ کو قرض حسنہ اور جو کچھ آگے بھیجو گے تم اپنے نفسوں کے لیے کوئی بھلائی تو پاؤ گے اس کو اللہ کے ہاں بہت بہتر اور بہت زیادہ اجر میں اور بخشش مانگو اللہ سے، بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے (20)
#
{20} ذكر الله في أول هذه السورة أنَّه أمر رسولَه بقيام نصفِ الليل أو ثلثيه أو ثلثه ، والأصلُ أنَّ أمته أسوةٌ له في الأحكام، وذكر في هذا الموضع أنَّه امتثل ذلك هو وطائفةٌ معه من المؤمنين. ولما كان تحرير الوقت المأمور به مشقَّة على الناس؛ أخبر أنَّه سهَّل عليهم في ذلك غاية التسهيل؛ فقال: {والله يقدِّرُ الليلَ والنهارَ}؛ أي: يعلم مقاديرهما وما يمضي ويبقى منهما ، {علم أن لن تُحصوه}؛ أي: لن تعرِفوا مقداره من غير زيادةٍ ولا نقصٍ؛ لكون ذلك يستدعي انتباهاً وعناءً زائداً؛ أي: فخفَّف عنكم وأمركم بما تيسَّر عليكم سواء زاد على المقدَّر أو نَقَصَ، {فاقرؤوا ما تيسَّرَ من القرآن}؛ أي: ممَّا تعرفون ولا يشقُّ عليكم، ولهذا كان المصلِّي بالليل مأموراً بالصلاة ما دام نشيطاً؛ فإذا فَتَرَ أو كسل أو نعس؛ فليسترحْ ليأتيَ الصلاةَ بطمأنينةٍ وراحةٍ. ثم ذكر بعضَ الأسباب المناسبة للتخفيف، فقال: {علم أن سيكونُ منكم مرضى}: يشقُّ عليهم صلاة نصف الليل أو ثلثيه أو ثلثه، فليصلِّ المريض ما يسهُلُ عليه، ولا يكون أيضاً مأموراً بالصَّلاة قائماً عند مشَّقة ذلك، بل لو شقَّت عليه الصلاةُ النافلةُ؛ فله تركُها، وله أجرُ ما كان يعمل صحيحاً. {وآخرون يضرِبون في الأرض يبتغونَ من فضل الله}؛ أي: وعلم أنَّ منكم مسافرين يسافرون للتجارة؛ ليستغنوا عن الخلق، ويتكفَّفوا عنهم ؛ أي: فالمسافر حالُهُ تناسِبُ التخفيف، ولهذا خفَّف عنه في صلاة الفرض، فأبيح له جمعُ الصلاتين في وقتٍ واحدٍ وقصرُ الصَّلاة الرُّباعية. وكذلك {آخرون يقاتِلون في سبيل اللهِ فاقرؤوا ما تيسَّرَ منه}: فذكر تعالى تخفيفين؛ تحفيفاً للصحيح المقيم يراعي فيه نشاطه من غير أن يُكَلَّفَ عليه تحرير الوقت، بل يتحرَّى الصلاة الفاضلة، وهي ثلث الليل بعد نصفه الأول، وتخفيفاً للمريض والمسافر، سواء كان سفرُه للتجارة أو لعبادةٍ من جهادٍ أو حجٍّ أو غيره ؛ فإنَّه [أيضاً] يراعي ما لا يكلِّفه؛ فلله الحمد والثناء؛ حيث لم يجعلْ علينا في الدين من حرج، بل سهَّل شرعه، وراعى أحوال عباده ومصالح دينهم وأبدانهم ودنياهم. ثم أمر العباد بعبادتين هما أمُّ العبادات وعمادُها: إقامة الصلاة التي لا يستقيمُ الدين إلاَّ بها، وإيتاءُ الزَّكاة التي هي برهانُ الإيمان وبها تحصُلُ المواساة للفقراء والمساكين، فقال: {وأقيموا الصلاة}؛ أي: بأركانها وحدودها وشروطها وجميع مكمِّلاتها ، {وأقرِضوا الله قرضاً حسناً}؛ أي: خالصاً لوجه الله بنيَّة صادقةٍ وتثبيتٍ من النفس ومال طيِّبٍ، ويدخُلُ في هذا الصدقة الواجبة والمستحبَّة. ثم حثَّ على عموم الخير وأفعاله، فقال: {وما تقدِّموا لأنفسكم من خيرٍ تجِدوه عند الله هو خيراً وأعظم أجراً}: الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائةِ ضعفٍ إلى أضعافٍ كثيرة. وليعلمْ أنَّ مثقال ذرَّةٍ في هذه الدار من الخير يقابله أضعافُ أضعافِ الدُّنيا وما عليها في دار النعيم المقيم من اللذَّات والشَّهوات، وأنَّ الخير والبرَّ في هذه الدنيا مادةُ الخير والبرِّ في دار القرار وبذرُه وأصلُه وأساسُه. فوا أسفاه على أوقاتٍ مضت في الغفلات! ووا حسرتاه على أزمانٍ تقضَّت في غير الأعمال الصالحات! ووا غوثاه من قلوبٍ لم يؤثِّرْ فيها وعظُ بارئها ولم ينجَعْ فيها تشويق من هو أرحم بها من نفسها! فلك اللهم الحمدُ وإليك المشتكى وبك المستغاث ولا حول ولا قوَّة إلاَّ بك. {واستغفروا الله إنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}: وفي الأمر بالاستغفار بعد الحثِّ على أفعال الطاعة والخير فائدةٌ كبيرةٌ، وذلك أنَّ العبد لا يخلو من التقصير فيما أُمِرَ به: إما أنْ لا يفعلَه أصلاً، أو يفعله على وجهٍ ناقصٍ، فأُمِرَ بترقيع ذلك بالاستغفار؛ فإنَّ العبد يذنِبُ آناء الليل والنهار؛ فمتى لم يتغمَّدْه الله برحمته ومغفرته؛ فإنَّه هالكٌ.
[20] اس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ آپ نصف رات، ایک تہائی رات یا دو تہائی رات قیام کیا کریں اور اصل بات یہ ہے کہ احکام میں آپ اپنی امت کے لیے نمونہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مقام پر ذکر فرمایا کہ آپ نے اور آپ کے ساتھ اہل ایمان کی ایک جماعت نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ چونکہ مامور بہ وقت کا تعین کرنا لوگوں کے لیے بہت مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ان کے لیے اس میں انتہائی آسانی پیدا کر دی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یُقَدِّرُؔ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ دن اور رات کی مقدار کو جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اور کتنا باقی ہے۔﴿ عَلِمَ اَنْ لَّ٘نْ تُحْصُوْهُ﴾ یعنی وہ جانتا ہے کہ کسی کمی بیشی کے بغیر تم اس کی مقدار معلوم نہیں کر سکو گے کیونکہ اس کی مقدار کی معرفت کا حصول، واقفیت اور زائد مشقت کا تقاضا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تخفیف کر دی ہے اور تمھیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو تمھارے لیے آسان ہے، خواہ وہ مقدار سے زیادہ ہو یا کم۔ ﴿ فَاقْ٘رَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْ٘قُ٘رْاٰنِ﴾ ’’لہٰذا پڑھو قرآن میں سے جو آسان ہو‘‘ یعنی اس میں سے جس کی تمھیں معرفت حاصل ہے اورجس کی قراء ت تم پر شاق نہیں گزرتی۔ بنابریں قیام لیل کرنے والا نمازی صرف اس وقت نماز پڑھنے پر مامور ہے جب تک اس میں نشاط ہے، جب وہ اکتاہٹ، کسل مندی یا اونگھ وغیرہ کا شکار ہو جائے تو اسے آرام کرنا چاہیے، اسے طمانینت اور راحت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے اسباب ذکر فرمائے جو تخفیف سے مناسبت رکھتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ عَلِمَ اَنْ سَیَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى﴾ ’’وہ جانتا ہے تم میں سے بیمار بھی ہوں گے۔‘‘ دو تہائی شب ، نصف شب یا ایک تہائی شب کی نماز ان پر شاق گزرے گی، پس مریض اتنی ہی نماز پڑھےجو اس کے لیے آسان ہے، نیز وہ مشقت کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر بھی مامور نہیں بلکہ اگر نفل نماز پڑھنے میں اس کے لیے مشقت ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور اسے اس نماز کا اجر ملے گا جو وہ صحت مند ہونے کی حالت میں پڑھتا رہا ہے۔ ﴿ وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں مسافر بھی ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں تاکہ وہ مخلوق سے بے نیاز اور ان سے سوال کرنے سے باز رہیں۔ پس مسافر کے احوال سے تخفیف مناسبت رکھتی ہے، اسی لیے اس میں اس کے لیے فرض نماز میں بھی تخفیف کر دی گئی ہے اور اس کے لیے ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا اور چار رکعتوں والی نماز میں قصر کرنا مباح کر دیا گیا ہے۔ ﴿ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۖٞ فَاقْ٘رَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ﴾ ’’اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی کرتے ہیں، لہٰذا تم با آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے دو تخفیفوں کا ذکر فرمایا ہے۔اول وہ تخفیف جو صحت مند اور اپنے گھر میں مقیم شخص کے لیے ہے جو وقت کے تعین کا مکلف ہوئے بغیر اپنی راحت اور نشاط کی رعایت رکھتا ہے بلکہ وہ فضیلت والی نماز کی کوشش کرتا ہے اور یہ رات کے نصف اول کے بعد ایک تہائی رات تک قیام کرنا ہے۔ دوسری تخفیف مسافر کے لیے ہے، خواہ یہ سفر تجارت کے لیے ہو یا عبادت ، یعنی جہاد، اور حج وغیرہ کے لیے ہو، پس وہ اتنی مقدار کی رعایت رکھ سکتا ہے جو اس کو تکلیف نہ دے۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے جس نے امت کے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی بلکہ اس نے اپنی شریعت کو آسان بنایا اور اس نے اپنے بندوں کے احوال، ان کے دین، ابدان اور دنیا کے مصالح کی رعایت رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دو عبادتوں کا ذکر فرمایا جو ام العبادات اور ان کا ستون ہیں ، یعنی نماز قائم کرنا جس کے بغیر دین درست نہیں رہتا، اور زکاۃ ادا کرنا جو ایمان کی دلیل ہے اور اس سے حاجت مندوں اور مساکین کے لیے ہمدردی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ یعنی نماز کو اس کے ارکان، اس کی حدود، اس کی شرائط، اور اس کی تکمیل کرنے والے تمام امور کے ساتھ قائم کرو۔﴿ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَ٘قْ٘رِضُوا اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا﴾ ’’اور زکاۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو۔‘‘ یعنی سچی نیت اور ثبات نفس سے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پاک مال میں سے خرچ کرنا، اس میں صدقات واجبہ اور صدقات مستحبہ دونوں داخل ہیں، پھر عام بھلائی اور بھلائی کے کاموں کی ترغیب دی۔ فرمایا: ﴿ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا﴾ ’’اور جو نیک عمل تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اس کو اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے۔‘‘ نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ بے شمار گنا ملتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں کی ہوئی ذرہ بھر بھلائی کے مقابلے میں، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے گھر میں دنیا کی لذتوں سے کئی گنا زیادہ لذتیں اور شہوات ہیں، اس دنیا میں کی ہوئی بھلائی اور نیکی، آخرت کے دائمی گھر میں بھلائی اور نیکی کی بنیاد، اس کا بیج، اس کی اصل اور اساس ہے۔ ہائے افسوس ! ان اوقات پر جو غفلت میں گزر گئے اور حسرت ہے ان زمانوں پر جو غیر صالح اعمال میں بیت گئے، ہے کوئی مددگار اس دل کا جس پر اس کے پیدا کرنے والے کی کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی اور نہ اس ہستی کی ترغیب کوئی فائدہ دیتی ہے جو اس پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتی ہے جتنا وہ خود اپنے پر رحم کر سکتا ہے۔ اے اللہ! ہر قسم کی حمد و ثنا صرف تیرے ہی لیے ہے، تیرے ہی پاس شکایت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ) ﴿ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی ترغیب دینے کے بعد، استغفار کے حکم دیا جس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بندہ ان کاموں میں کوتاہی سے پاک نہیں جن کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ یا تو وہ ان کاموں کو سرے سے کرتا ہی نہیں یا انھیں ناقص طریقے سے کرتا ہے۔ پس اسے استغفار کے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بندہ دن رات گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ نہ لے تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔