آیت:
تفسیر سورۂ قیامہ
تفسیر سورۂ قیامہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ (1) وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (2) أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ (3) بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ (4) بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ (5) يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ (6)}.
میں قسم کھاتا ہوں یوم قیامت کی(1) اور میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی(2) کیا سمجھتا ہے انسان یہ کہ ہرگز نہیں جمع کریں گے ہم اس کی ہڈیاں؟(3) کیوں نہیں!بلکہ (ہم تو) قادر ہیں اس پر کہ درست کر دیں ہم اس کی پور پور کو(4)بلکہ چاہتا ہے انسان کہ فسق و فجور کرتا رہے آئندہ بھی(5) وہ پوچھتا ہے کب ہو گا دن قیامت کا ؟(6)
#
{1} ليست {لا} ها هنا نافية ولا زائدة، وإنَّما أتي بها للاستفتاح والاهتمام بما بعدها، ولكثرة الإتيان بها مع اليمين لا يستغرب الاستفتاح بها، وإن لم تكن في الأصل موضوعة للاستفتاح؛ فالمقسم به في هذا الموضع هو المقسَم عليه، وهو البعث بعد الموت، وقيام الناس من قبورهم، ثم وقوفهم ينتظرون ما يَحْكُمُ به الربُّ عليهم.
[1] ﴿ لَاۤ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ﴾ ’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔‘‘ (لَاۤ) یہاں نافیہ ہے نہ زائدہ، اسے صرف استفتاح اور ما بعد کلام کے اہتمام کے لیے لایا گیا ہے، قسم کے ساتھ کثرت سے اس کو لانے کی بنا پر استفتاح کے لیے اس کا استعمال نادر نہیں ہے، اگرچہ اس کو استفتاح کلام کے لیے وضع نہیں کیا گیا۔ اس مقام پر جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، وہی ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا، لوگوں کو ان کی قبروں سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ، پھر (اللہ تعالیٰ کے حضور) ان کو کھڑا کیا جائے گا، وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔
#
{2} {ولا أقسم بالنَّفس اللَّوَّامةِ}: وهي جميع النفوس الخيِّرة والفاجرة، سميِّت لوَّامةً لكثرة تلوُّنها وتردُّدها وعدم ثبوتها على حالةٍ من أحوالها، ولأنَّها عند الموت تلوم صاحبها على ما فعلت ، بل نفسُ المؤمن تلومُ صاحبها في الدُّنيا على ما حصل منه من تفريطٍ أو تقصيرٍ في حقٍّ من الحقوق أو غفلةٍ، فجمع بين الإقسام بالجزاء وعلى الجزاء وبين مستحقِّ الجزاء.
[2] ﴿وَلَاۤ اُ٘قْسِمُ بِالنَّ٘فْ٘سِ اللَّوَّامَةِ﴾ ’’اور نفس لوامہ کی قسم!‘‘ اس سے مراد تمام نیک اور بد نفوس ہیں۔ نفس کو اس کے کثرت تردود، اسے ملامت کرنے اور اپنے احوال میں سے کسی حال پر بھی اس کے عدم ثبات کی بنا پر (لَوَّامۃ) سے موسوم کیا گیا ہے، نیز اس بنا پر اس کو ’’لوامہ‘‘ کہا گیا ہے کہ یہ موت کے وقت انسان کو اس کے افعال پر ملامت کرے گا مگر مومن کا نفس اسے دنیا ہی میں اس کوتاہی، تقصیر اور غفلت پر ملامت کرتا ہے جو حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس سے ہوتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے جزا کی قسم، جزا پر قسم اور مستحق جزا کو جمع کر دیا۔
#
{3 ـ 4} ثم أخبر مع هذا أنَّ بعض المعاندين يكذِّبون بيوم القيامة، فقال: {أيحسبُ الإنسانُ أن لن نَجْمَعَ عظامَه}: بعد الموت؛ كما قال [في الآية الأخرى]: {قال مَن يُحيي العظامَ وهي رميمٌ}، فاستبعد من جهله وعدوانه قدرةَ الله على خلق عظامه التي هي عمادُ البدن، فردَّ عليه بقوله: {بلى قادرينَ على أن نُسَوِّيَ بَنانَه}؛ أي: أطراف أصابعه وعظامه، وذلك مستلزمٌ لخلق جميع أجزاء البدن؛ لأنَّها إذا وُجِدت الأنامل والبنان؛ فقد تمَّتْ خلقة الجسد.
[4,3] پھر اس کے ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا کہ بعض معاندین قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّ٘نْ نَّ٘جْمَعَ عِظَامَهٗ﴾ ’’کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکھٹی نہیں کریں گے۔‘‘ یعنی مرنے کے بعد جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ﴾ (یٰسین:36؍78) ’’کہنے لگا: جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو ان کو کون زندگی عطا کرے گا؟‘‘ پس اپنی جہالت اور عدوان کی بنا پر اس نے اللہ تعالیٰ کے ہڈیوں کی تخلیق پر، جو کہ بدن کا سہارا ہیں، قادر ہونے کو بہت بعید سمجھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کا رد کیا: ﴿بَلٰى قٰدِرِیْنَ عَلٰۤى اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَهٗ﴾ ’’کیوں نہیں! ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں۔‘‘ مراد ہے اس کی انگلیوں کی اطراف اور اس کی ہڈیاں اور یہ بدن کے اجزا کی تخلیق کو مستلزم ہے، کیونکہ جب انگلیوں کے اطراف اور پور وجود میں آ گئے تو جسد کی تخلیق ہو گئی۔
#
{5 ـ 6} وليس إنكارُه لقدرة الله تعالى قصوراً بالدَّليل الدَّالِّ على ذلك، وإنَّما وقع ذلك منه لأنَّ إرادته وقصده التكذيبُ بما أمامه من البعث. والفجور: الكذب مع التعمُّد.
[6,5] اس کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا کسی دلیل پر منحصر نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو، یہ بات تو اس سے صرف اس بنا پر صادر ہوئی ہے کہ اس کا ارادہ اور قصد قیامت کے دن کو جھٹلانا ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یہاں (فُجُورٌ) کا معنی جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے،
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے احوال کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا:
آیت: 7 - 15 #
{فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ (7) وَخَسَفَ الْقَمَرُ (8) وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (9) يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ (10) كَلَّا لَا وَزَرَ (11) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ (12) يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (13) بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (14) وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ (15)}.
پس جب پتھرا جائیں گی آنکھیں(7) اور بے نور ہو جائے گا چاند(8) اور جمع کر دیے جائیں گے سورج اور چاند(9) کہے گا انسان اس دن، کہاں ہے بھاگنا؟ (10) ہرگز نہیں! نہیں (وہاں) کوئی پناہ گاہ (11) آپ کے رب ہی کی طرف ہو گا اس دن ٹھکانا (12) خبر دیا جائے گا انسان اس دن ساتھ اس کےجو اس نے آگے بھیجا اور (جو) پیچھے چھوڑا (13)بلکہ انسان اپنے نفس پر خوب شاہد ہے (14) اگرچہ وہ پیش کرے اپنی معذرتیں (15)
#
{7 ـ 10} أي: {فإذا} كانت القيامة؛ برقت الأبصار من الهول العظيم وشخصت فلا تطرف؛ كما قال تعالى: {إنَّما يؤخِّرُهم ليومٍ تَشْخَصُ فيه الأبصارُ. مهطِعين مُقْنِعي رؤوسهم لا يرتدُّ إليهم طرفُهم وأفئِدَتُهم هواءٌ}، {وخسف القمر}؛ أي: ذهب نورُه وسُلطانه، {وجُمِعَ الشمسُ والقمرُ}: وهما لم يجتمعا منذ خلقهما الله تعالى، فيجمع الله بينهما يوم القيامةِ، ويُخسف القمر، وتكوَّر الشمس، ثم يقذفان في النار؛ ليرى العباد أنَّهما عبدان مسخَّران، وليرى مَنْ عَبَدَهما أنَّهم كانوا كاذبين، {يقول الإنسانُ}: حين يرى تلك القلاقل المزعجات: {أين المفرُّ}؛ أي: أين الخلاص والفكاك ممَّا طرقنا وألمَّ بنا ؟
[10-7] یعنی جب قیامت برپا ہو گی عظیم دہشت کی بنا پر نگاہیں اوپر اٹھی ہوئی ہوں گی اور جھپکیں گی نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّمَا یُؤَخِّ٘رُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ۰۰ مُهْطِعِیْنَ مُقْ٘نِـعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ١ۚ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ﴾ (ابراہیم: 14؍42-43) ’’ان کو تو صرف اس دن تک مہلت دیتا ہے جس دن (دہشت کے مارے) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور لوگ منہ اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے، ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور (خوف کی وجہ سے) ان کے دل ہوا ہو رہے ہوں گے۔‘‘ ﴿ وَخَسَفَ الْ٘قَ٘مَرُ﴾ چاند کی روشنی اور اس کی طاقت زائل ہو جائے گی ﴿ وَجُمِعَ الشَّ٘مْسُ وَالْ٘قَ٘مَرُ﴾ ’’اور سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں گے۔‘‘جب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے، وہ کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو جمع کرے گا، چاند گہنا جائے گا اور سورج کو بے نور کر دیا جائے گا اور ان دونوں کو آگ میں پھینک دیا جائے گا تاکہ بندے دیکھ لیں کہ چاند اور سورج بھی اللہ تعالیٰ کے مسخر ہیں تاکہ جو لوگ ان کی عبادت کرتے تھے وہ دیکھ لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔﴿ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’اس دن انسان کہے گا۔‘‘ یعنی جب وہ بے قرار کر دینے والے زلزلے دیکھے گا تو پکار اٹھے گا: ﴿ اَیْنَ الْ٘مَفَرُّ﴾ ’’آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟‘‘ جو مصیبت ہم پر نازل ہوئی ہے، اس سے گلو خلاصی اور نجات کہاں ہے؟
#
{11 ـ 13} {كلاَّ لا وَزَرَ}؛ أي: لا ملجأ لأحدٍ دون الله، {إلى ربِّكَ يومئذٍ المستقرُّ}: لسائر العباد، فليس في إمكان أحدٍ أن يستترَ أو يهرب عن ذلك الموضع، بل لا بدَّ من إيقافه؛ ليجزى بعمله، ولهذا قال: {يُنَبَّأ الإنسانُ يومئذٍ بما قَدَّمَ وأخَّرَ}؛ أي: بجميع عمله الحسن والسيئ، في أول وقته وآخره، وينبَّأ بخبرٍ لا ينكِرُه.
[13-11] ﴿ كَلَّا لَا وَزَرَ﴾ ’’ہرگز نہیں (وہاں) کوئی پناہ گاہ نہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ٹھکانے کے سوا کسی کے لیے کوئی ٹھکانا نہ ہو گا۔ ﴿ اِلٰى رَبِّكَ یَوْمَىِٕذِ ِ۟ الْ٘مُسْتَقَرُّ﴾ اس روز تمام بندوں کا تیرے رب کے پاس ٹھکانا ہو گا، کسی کے لیے ممکن نہ ہو گا کہ وہ چھپ سکے یا اس جگہ سے بھاگ سکے، اسے وہاں ضرور ٹھہرایا جائے گا تاکہ اسے اس کے عمل کی جزا و سزا دی جائے، اس لیے فرمایا: ﴿ یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَىِٕذٍۭؔ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ﴾ ’’اس دن انسان کو بتا دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا۔‘‘ انسان کو اس کے اول وقت اور آخروقت کے تمام اچھے برے اعمال کے بارے میں اس کو آگاہ کیا جائے گا اور اس کو ایسی خبر سے آگاہ کیا جائے گا جس کا وہ انکار نہیں کر سکے گا۔
#
{14 ـ 15} {بل الإنسانُ على نفسِهِ بصيرةٌ}؛ أي: شاهدٌ ومحاسبٌ، {ولو ألقى معاذيرَةُ}: فإنَّها معاذيرُ لا تُقبل، بل يقرَّر بعمله ، فَيُقِرُّ به؛ كما قال تعالى: {اقرأ كتابَكَ كفى بنفسِكَ اليوم عليك حَسيباً}: فالعبدُ وإن أنكر أو اعتذر عمَّا عمله؛ فإنكارُه واعتذارُه لا يفيدانه شيئاً؛ لأنَّه يشهد عليه سمعُه وبصره وجميعُ جوارحه بما كان يعمل، ولأنَّ استعتابه قد ذهب وقتُه وزال نفعُه، {فيومئذٍ لا ينفعُ الذين ظلموا معذِرَتُهم ولا هم يُسْتَعْتَبونَ}.
[15,14] ﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ﴾ ’’بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے۔‘‘ یعنی گواہ اور محاسب ہے ﴿ وَّلَوْ اَلْ٘قٰى مَعَاذِیْرَهٗ﴾ ’’خواہ وہ معذرت پیش کرے۔‘‘ کیونکہ یہ ایسی معذرتیں ہوں گی جو قبول نہ ہوں گی بلکہ وہ اپنے عمل کا اقرار کرے گا اور اس سے اقرار کرایا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِقْ٘رَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَ٘فٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍14) ’’اپنا اعمال نامہ پڑھ، آج تو خود ہی اپنا محاسب کا فی ہے۔‘‘ بندہ خواہ اپنے عمل کا انکار یا اپنے عمل پر معذرت پیش کرے، اس کا انکار اور اعتذار اسے کوئی فائدہ نہ دیں گے کیونکہ اس کے کان، اس کی آنکھیں اور اس کے تمام جوارح جن کے ذریعے سے وہ عمل کرتا ہے اس کے خلاف گواہی دیں گے، نیز رضا مندی طلب کرنے کا وقت چلا گیا اور اس کا فائدہ ختم ہو گیا ﴿ فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَ٘عُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۠﴾ (الروم:30؍57) ’’اس روز ظالموں کو، ان کی معذرت کوئی فائدہ دے گی اور نہ ان سے توبہ ہی طلب کی جائے گی۔‘‘
آیت: 16 - 19 #
{لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (19)}.
نہ حرکت دیں آپ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو تاکہ جلدی (یاد کر) لیں آپ اسے (16) یقیناً ہمارے ذمے ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا (17) سو جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ پیروی کیجیے اس کےپڑھنے کی (18) پھر ہمارے ذمے ہے اس کا واضح کرنا(19)
#
{16 ـ 19} كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - إذا جاءه جبريلُ بالوحي وشرع في تلاوته [عليه]؛ بادَرَهُ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - من الحرص قبل أن يفرغ، وتلاه مع تلاوة جبريل إيَّاه ، فنهاه الله عن ذلك، وقال: {ولا تعجل بالقرآن من قبل أن يقضى إليك وحيه}: وقال هنا: {لا تُحرِّكَ به لسَانَكَ لِتَعْجَلَ به}. ثم ضمن له تعالى أنَّه لا بدَّ أن يحفظَه ويقرأه ويجمعه الله في صدره، فقال: {إنَّ علينا جمعَه وقرآنَه}؛ فالحرص الذي في خاطرك إنَّما الداعي له حذر الفوات والنسيان؛ فإذا ضَمِنَه الله لك؛ فلا موجب لذلك، {فإذا قَرَأناه فاتَّبِعْ قرآنه}؛ أي: إذا أكمل جبريلُ ما يوحى إليك ؛ فحينئذٍ اتَّبع ما قرأه فاقرأه ، {ثمَّ إنَّ علينا بيانه}؛ أي: بيان معانيه. فوعده بحفظ لفظه وحفظ معانيه، وهذا أعلى ما يكون، فامتثل - صلى الله عليه وسلم - لأدب ربِّه، فكان إذا تلا عليه جبريلُ القرآن بعد هذا؛ أنصتَ له؛ فإذا فرغ؛ قرأه. وفي هذه الآية أدبٌ لأخذ العلم: أن لا يبادر المتعلِّم للعلم قبل أن يفرغ المعلِّم من المسألة التي شرع فيها؛ فإذا فرغ منها؛ سأله عمَّا أشكل عليه. وكذلك إذا كان في أول الكلام ما يوجب الردَّ أو الاستحسان أن لا يبادِرَ بردِّه أو قَبوله قبل الفراغ من ذلك الكلام؛ ليتبيَّن ما فيه من حقٍّ أو باطل، وليفهمه فهماً يتمكَّن فيه من الكلام فيه على وجه الصواب. وفيها أنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - كما بيَّن للأمَّة ألفاظ الوحي؛ فإنَّه قد بيَّن لهم معانيه.
[19-16] جب حضرت جبریل uوحی لے کر آتے اور تلاوت شروع کرتے تو رسول اللہ e(حصول قرآن کی شدید) حرص کی بنا پر، حضرت جبریلu کے فارغ ہونے سے پہلے ہی، جلدی سے جبریلu کی تلاوت کے ساتھ ساتھ تلاوت کرنا شروع کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا، اور فرمایا: ﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْ٘قُ٘رْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّ٘قْ٘ضٰۤى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ﴾ (طٰہ:ٰ 20؍114)’’اور قرآن جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں۔‘‘ یہاں فرمایا: ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ﴾ ’’وحی کے پڑھنے کے لیے اپنے زبان جلدی نہ چلایا کریں کہ اسے جلد یاد کرلو۔‘‘ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ضمانت دی کہ آپ ضرور اس کو حفظ کر لیں گے اور اس کو پڑھ سکیں گے، اللہ تعالیٰ اس کو آپ کے سینے میں جمع کر دے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُ٘رْاٰنَهٗ﴾ ’’اس كا جمع كرنا اور (آپ كی زبان سے) پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ یعنی آپ کے دل میں حصول قرآن کی جو خواہش ہے، اس کا داعی، قرآن کے رہ جانے اور اس کے نسیان کا خوف ہےتو اللہ تعالیٰ نے اس کے حفظ کی ضمانت عطا کر دی، اس لیے اب ساتھ ساتھ پڑھنے کا کوئی موجب نہیں۔ ﴿ فَاِذَا قَ٘رَاْنٰهُ فَاتَّ٘بِـعْ قُ٘رْاٰنَهٗ﴾ یعنی جبریل uقرآن کی قراء ت مکمل کر لیں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے، تب اس وقت جبریل نے جو کچھ پڑھا ہوتا ہے اس کی اتباع کیجیے اور قرآن کو پڑھیے۔ ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ﴾ یعنی اس کے معانی کا بیان ہمارے ذمے ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور معانی، دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور یہ حفاظت کا بلند ترین درجہ ہے رسول اللہ eنے اپنے رب کے ادب کے لیے اس پر عمل کیا، لہٰذا اس کے بعد جب جبریل uآپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تو آپ خاموش رہتےا ور جب جبریلu قر اء ت سے فارغ ہو جاتے تو پھر آپ پڑھتے۔ اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے کے لیے ادب سکھایا گیا ہے کہ معلم نے جس مسئلہ کو شروع کیا ہو، اس سے معلم کے فارغ ہونے سے پہلےطالب علم کو جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ جب وہ اس مسئلہ سے فارغ ہو جائے تو پھر طالب علم کو جو اشکال ہو اس کے بارے میں معلم سے سوال کرے۔اور اسی طرح جب کلام کی ابتدا میں کوئی ایسی چیز ہو جس کو رد کرنا واجب ہو یا کوئی ایسی چیز جو مستحسن ہو، تو اس کلام سے فارغ ہونے سے قبل اس کو رد یا قبول کرنے میں جلدی نہ کرے تاکہ اس میں جو حق یا باطل ہے وہ اچھی طرح واضح ہو جائے اور اسے اچھی طرح سمجھ لے تاکہ اس میں صواب کے پہلو سے کلام کر سکے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ eنے امت کے سامنے جس طرح قرآن کے الفاظ کو بیان فرمایا، اسی طرح آپ نے اس کے معانی کو بھی ان کے سامنے بیان فرمایا۔
آیت: 20 - 25 #
{كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (20) وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ (21) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ (24) تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ (25)}
ہرگز نہیں !بلکہ تم پسند کرتے ہو دنیا کو (20) اور چھوڑے ہوئے ہو آخرت کو (21)کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے (22) اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے (23) اور کئی چہرے اس دن بے رونق ہوں گے (24) وہ یقین کریں گے کہ کیا جائے گا ان سے (معاملہ) کمر توڑ دینے والا (25)
#
{20 ـ 21} أي: هذا الذي أوجب لكم الغفلة والإعراض عن وعظ الله وتذكيره أنَّكم {تحبُّونَ العاجلةَ}، وتسعون فيما يحصِّلها وفي لذَّاتها وشهواتها، وتؤثرونها على الآخرة، فتذرون العمل لها؛ لأنَّ الدُّنيا نعيمها ولذاتها عاجلة، والإنسان مولعٌ بحبِّ العاجل، والآخرة متأخِّر ما فيها من النعيم المقيم؛ فلذلك غفلتم عنها وتركتُموها كأنَّكم لم تُخلقوا لها وكأنَّ هذه الدار هي دار القرار التي تُبْذَلُ فيها نفائس الأعمار ويُسعى لها آناء الليل والنهار، وبهذا انقلبت عليكم الحقيقة، وحصل من الخسار ما حصل؛ فلو آثرتُم الآخرة على الدُّنيا ونظرتم العواقب نظر البصير العاقل؛ لأنجحتم وربحتم ربحاً لا خسار معه، وفزتم فوزاً لا شقاء يصحبه.
[21,20] وہ چیز جو تمھاری غفلت اور اللہ تعالیٰ کے وعظ و تذکیر سے روگردانی کی موجب ہے، یہ ہے کہ تم ﴿ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ﴾ ’’دنیا کو پسند کرتے ہو‘‘ اور تم اس کو حاصل کرنے اور اس کی لذت و شہوات میں کوشاں رہتے ہو، تم آخرت پر اس کو ترجیح دیتے اور آخرت کے لیے عمل کرنا چھوڑ دیتے ہو کیونکہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں جلد مل جاتی ہیں اور انسان جلد مل جانے والی چیز کا گرویدہ ہے۔آخرت کے اندر ہمیشہ رہنے والی جو نعمتیں ہیں، ان میں تاخیر ہے، اس لیے تم ان سے غافل ہو اور ان کو چھوڑ بیٹھے ہو، گویا کہ تم ان نعمتوں کے لیے پیدا ہی نہیں کیے گئے، یہ دنیا کا گھر ہی تمھارا دائمی ٹھکانا ہے، جس میں قیمتی عمریں گزاری جا رہی ہیں، اس دنیاکے لیے رات دن بھاگ دوڑ ہو رہی ہے، اور اس سے تمھارے سامنے حقیقت بدل گئی اور بہت زیادہ خسارہ حاصل ہوا۔ اگر تم نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی ہوتی اور تم نے ایک صاحب بصیرت اور عقل مند شخص کی طرح انجام پر غور کیا تو تم کامیاب ہوتے، ایسا نفع حاصل کرتے جس کے ساتھ خسارہ نہ ہوتا اور تمھیں ایسی فوز و فلاح حاصل ہوتی جس کی مصاحبت میں بدبختی نہیں ہوتی۔
#
{22 ـ 23} ثم ذكر ما يدعو إلى إيثار الآخرة ببيان حال أهلها وتفاوتهم فيها، فقال في جزاء المؤثرين للآخرة على الدُّنيا: {وجوهٌ يومئذٍ ناضرةٌ}؛ أي: حسنة بهيَّة لها رونقٌ ونورٌ مما هم فيه من نعيم القلوب وبهجة النفوس ولذَّة الأرواح، {إلى ربِّها ناظرةٌ}؛ أي: ينظرون إلى ربِّهم على حسب مراتبهم؛ منهم مَنْ ينظره كلَّ يوم بكرةً وعشيًّا، ومنهم من ينظره كلَّ جمعة مرةً واحدةً، فيتمتَّعون بالنَّظر إلى وجهه الكريم وجماله الباهر الذي ليس كمثله شيءٌ؛ فإذا رأوه؛ نسوا ما هم فيه من النعيم، وحصل لهم من اللَّذَّة والسرور ما لا يمكن التعبير عنه، ونضرت وجوهُهم، فازدادوا جمالاً إلى جمالهم، فنسأل الله الكريم أن يجعَلنَا معهم.
[23,22] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل آخرت کے احوال اور ان میں تفاوت کو بیان کرتے ہوئے ان امور کا ذکر کیا ہے جو آخرت کی ترجیح کی طرف دعوت دیتے ہیں، چنانچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ﴾ اس دن کئی چہرے حسین اور خوبصورت ہوں گے، ان کے دلوں کی نعمت، نفوس کی مسرت، اور ارواح کی لذت کے باعث ان کے چہروں پر رونق اور نور ہو گا۔ ﴿ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ ’’اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ہر روز صبح و شام اپنے رب کا دیدار کریں گے اور کچھ لوگ ہر جمعہ ایک مرتبہ دیدار کر پائیں گے، وہ اللہ تعالیٰ کے کریم چہرے اور اس کے بے پناہ جمال سے، جس کی کوئی مثال نہیں، متمتع ہوں گے۔ جب وہ اپنے رب کا دیدار کریں گے تو وہ ان تمام نعمتوں کو بھول جائیں گے جو انھیں حاصل ہوں گی، انھیں اس دیدار سے ایسی لذت و مسرت حاصل ہو گی جس کی تعبیر ممکن نہیں، ان کے چہرے بارونق ہوں گے اور ان کی خوبصورتی اور جمال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ ہم اللہ کریم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان لوگوں کی معیت سے سرفراز کرے۔
#
{24 ـ 25} وقال في المؤثرين العاجلة على الآجلة، [و] {وجوهٌ يومئذٍ باسرةٌ}؛ أي: معبسةٌ كدرةٌ خاشعةٌ ذليلةٌ، {تظنُّ أن يُفْعَلَ بها فاقرةٌ}؛ أي: عقوبةٌ شديدةٌ وعذابٌ أليمٌ؛ فلذلك تغيَّرت وجوههم وعبست.
[25,24] پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍۭؔ بَ٘اسِرَةٌ﴾ ’’اس دن کئی چہرے اداس ہوں گے۔‘‘ یعنی ترش رو، گرد سے اٹے ہوئے، سہمے ہوئے اور ذلیل ہوں گے۔ ﴿ تَظُ٘نُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ﴾ ’’خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے کو ہے۔‘‘ یعنی سخت عقوبت اور درد ناک عذاب، اسی وجہ سے ان کے چہرے متغیر اور چیں بہ جبیں ہوں گے۔
آیت: 26 - 40 #
{كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ (28) وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ (30) فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى (31) وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (32) ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى (33) أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى (34) ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى (35) أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى (36) أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى (37) ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى (38) فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (39) أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى (40)}
ہرگز نہیں! جب پہنچ جائے گی (روح) ہنسلی تک (26) اور کہا جائے گا، کون ہے جھاڑ پھونک کرنے والا؟ (27) اور وہ یقین کرے گا کہ یہ فراق ہے (28) اور لپٹ جائے گی پنڈلی پنڈلی سے(29) آپ کے رب ہی کی طرف ہو گا اس دن چلنا (30) پس نہ تو اس نے تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی (31) اور لیکن اس نے جھٹلایا اور رو گردانی کی (32) پھر وہ گیا اپنے اہل و عیال کی طرف اتراتا ہوا (33) ہلاکت ہے تیرے لیے پھر خرابی ہے (34) پھر ہلاکت ہے تیرے لیے پھر تبا ہی ہے (35) کیا سمجھتا ہے انسان یہ کہ چھوڑ دیا جائے گا وہ بے کار؟ (36) کیا نہیں تھا وہ ایک قطرہ منی کا جو (رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے؟ (37) پھر وہ ہو گیا جما ہوا خون تواس(اللہ) نے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا (اسے) (38) پھر بنایا اس سے جوڑا نراور مادہ(39) کیا نہیں ہے وہ (اللہ) قادر اس بات پر کہ وہ زندہ کر دے مردوں کو؟ (40)
#
{26 ـ 30} يَعِظُ تعالى عبادَه بذكر المحتضر حال السياق ، وأنَّه إذا بلغت روحه {التراقي}: وهي العظام المكتنفة لثُغْرَةِ النَّحر؛ فحينئذٍ يشتدُّ الكربُ، ويطلب كلَّ وسيلةٍ وسببٍ يظنُّ أن يحصل به الشفاء والراحة، ولهذا قال: {وقيلَ مَنْ راقٍ}؛ أي: من يرقيه، من الرُّقية؛ لأنَّهم انقطعت آمالهم من الأسباب العاديَّة، فتعلَّقوا بالأسباب الإلهيَّة ، ولكنَّ القضاء والقدر إذا حتم وجاء؛ فلا مردَّ له، {وظنَّ أنَّه الفراقُ}: للدنيا، {والتفَّتِ السَّاقُ بالسَّاق}؛ أي: اجتمعت الشدائد والتفَّت، وعظُم الأمر، وصعُب الكرب، وأريد أن تخرجَ الرُّوح من البدن الذي ألفته ولم تزل معه، فتساق إلى الله تعالى ليجازيها بأعمالها ويقرِّرها بفعالها؛ فهذا الزجر الذي ذكره الله يسوقُ القلوب إلى ما فيه نجاتُها ويزجُرُها عمَّا فيه هلاكها.
[30-26] اللہ تبارک و تعالیٰ قریب المرگ شخص کا حال بیان کر کے اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے، جبکہ اس کی روح ہنسلی کی ہڈی (حلق) تک پہنچ جائے گی۔ ﴿التَّرَاقِيَ﴾سے مراد وہ ہڈیاں ہیں جنھوں نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے، پس اس وقت نہایت شدید درد ہوگا اور انسان ہر وہ سبب اور وسیلہ تلاش کرے گا جس کے بارے میں وہ سمجھتا ہوگا کہ اس سے شفا اور راحت حاصل ہو گی۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَقِیْلَ مَنْ١ٚ رَاقٍ﴾ یعنی کہا جائے گا کہ کون ہے جو اس پر جھاڑ پھونک کرے؟ کیونکہ اسباب عادیہ پر ان کی امیدیں منقطع ہو کر اسباب الٰہیہ پر لگ گئی ہیں مگر جب قضا و قدر کا فیصلہ آ جاتا ہے تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔﴿وَّظَ٘نَّ اَنَّهُ الْ٘فِرَاقُ﴾ اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب دنیا سے جدائی ہے ﴿ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ﴾ ’’اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔‘‘ یعنی تمام سختیاں جمع ہو کر لپٹ جائیں گی، معاملہ بہت بڑا اور کرب بہت سخت ہو جائے گا، خواہش ہو گی کہ بدن سے روح نکل جائے جو اس سے لپٹی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہے۔ پس روح کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے جایا جائے گا تاکہ وہ اس کو اس کے اعمال کی جزا دے اور اس کے کرتوتوں کا اقرار کرائے۔یہ زجر و توبیخ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، دلوں کو اس منزل کی طرف لے کر چلتی ہے جس میں ان کی نجات ہے اور ان امور سے روکتی ہے جن میں ان کی ہلاکت ہے۔
#
{31 ـ 33} ولكنَّ المعاند الذي لا تنفع فيه الآياتُ لا يزال مستمرًّا على غيِّه وكفره وعناده، {فلا صدَّقَ}؛ أي لا آمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشرِّه، {ولا صلَّى. ولكن كذَّبَ}: بالحقِّ في مقابلة التصديق، {وتولَّى}: عن الأمر والنَّهي، هذا وهو مطمئنٌّ قلبهُ غير خائفٍ من ربِّه، بل {ذهب إلى أهله يَتَمَطَّى}؛ أي: ليس على بَالِه شيءٌ.
[33-31] مگر وہ معاند حق جسے آیات کوئی فائدہ نہیں دیتیں، وہ اپنی گمراہی، کفر اور عناد پر جما رہتا ہے۔﴿ فَلَا صَدَّقَ﴾ ’’پس نہ اس نے تصدیق کی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لایا ﴿ وَلَا صَلّٰى۰۰ وَلٰكِنْ كَذَّبَ﴾ اور نہ اس نے نماز ہی پڑھی بلکہ اس نے حق کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کی ﴿ وَتَوَلّٰى﴾ اور امر و نہی سے روگردانی کی، یہی وہ شخص ہے جس کا دل مطمئن اور اپنے رب سے بے خوف ہے بلکہ وہ چلا جاتا ہے﴿ اِلٰۤى اَهْلِهٖ٘ یَ٘تَ٘مَطّٰى﴾ ’’ اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا‘‘ یعنی اس کو کوئی پروا نہیں ہوئی۔
#
{34 ـ 35} ثم توعَّده بقوله: {أولى لك فأولى. ثم أولى لك فأولى}: وهذه كلماتُ وعيدٍ؛ كرَّرها لتكرير وعيدِهِ.
[35,34] پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو وعید سنائی، فرمایا: ﴿ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰىۙ۰۰ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى﴾ ’’افسوس ہے تجھ پر، پھر افسوس ہے، پھر افسوس ہے تجھ پر، پھر افسوس ہے۔‘‘ یہ وعید کے کلمات ہیں اور تکرار وعید کے لیے ان کو مکرر کہا ہے۔
#
{36 ـ 40} ثم ذكَّر الإنسان بخَلْقِهِ الأوَّل، فقال: {أيحسبُ الإنسانُ أن يُتْرَكَ سُدىً}؛ أي: مهملاً لا يؤمر ولا ينهى ولا يُثاب ولا يعاقب؟ هذا حسبانٌ باطلٌ وظنٌّ بالله غير ما يليق بحكمته. {ألم يكُ نطفةً مِن مَنِيٍّ يُمْنى. ثمَّ كان}: بعد المنيِّ {علقةً}؛ أي: دماً، {فَخَلَقَ}: الله منها الحيوان، وسواه؛ أي: أتقنه وأحكمه، {فجعل منه الزوجين الذَّكر والأنثى. أليس ذلك}؛ أي: الذي خلق الإنسان وطوَّره إلى هذه الأطوار المختلفة {بقادرٍ على أن يُحْيِيَ الموتى؟}: بلى إنَّه على كلِّ شيءٍ قديرٌ.
[40-36] پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی تخلیق کی یاد دلائی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًى﴾ یعنی کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے مہمل چھوڑ دیا جائے گا، اسے نیکی کا حکم دیا جائے گا نہ برائی سے روکا جائے گا، اسے ثواب عطا کیا جائے گا نہ عقاب میں مبتلا کیا جائے گا؟ یہ باطل گمان اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوئے ظن ہے جو اس کی حکمت کے لائق نہیں۔ ﴿ اَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰىۙ۰۰ ثُمَّ كَانَ﴾ ’’کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالا جاتا ہے، پھر ہوگیا؟‘‘ یعنی منی کے بعد﴿ عَلَقَةً ﴾ خون کا لوتھڑا ﴿ فَخَلَقَ ﴾ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے جاندار پیدا کیا اور اسے درست کیا ، یعنی اس کو مہارت سے محکم کر کے بنایا ﴿ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۰۰ اَلَ٘یْسَ ذٰلِكَ ﴾ ’’پھر اس سے نر اور مادہ جوڑے بنائے کیا نہیں ہے وہ۔‘‘ یعنی وہ جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو ان مختلف مراحل سے گزارا ﴿ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰى﴾ ’’اس پر قادر کہ وہ مردوں کو زندہ کردے؟‘‘ کیوں نہیں! وہ ہر چیز پر قادر ہے۔