آیت:
تفسیر سورۂ توبہ
تفسیر سورۂ توبہ
آیت: 1 - 2 #
{بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (1) فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (2)}.
(یہ) دست برداری ہے اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے، ان لوگوں سے کہ عہد کر رکھا تھا تم نے (ان) مشرکین سے(1) پس چلو پھرو تم زمین میں چار مہینے اورجان لوکہ بے شک تم نہیں عاجز کرنے والے اللہ کو اور یہ کہ بلاشبہ اللہ رسوا کرنے والا ہے کافروں کو(2)
#
{1 ـ 2} أي: هذه {براءةٌ من الله} ومن {رسوله}: إلى جميع المشركين المعاهدين؛ أنَّ لهم أربعة أشهر يسيحون في الأرض على اختيارهم آمنين من المؤمنين، وبعد الأربعة الأشهر؛ فلا عهد لهم ولا ميثاق. وهذا لمن كان له عهدٌ مطلقٌ غير مقدَّر أو مقدرٌ بأربعة أشهر فأقل، أما من كان له عهد مقدَّر بزيادة على أربعة أشهر؛ فإنه يتعيَّن أن يتمَّم له عهده إذا لم يُخَفْ منه خيانة، ولم يبدأ بنقض العهد. ثم أنذر المعاهَدين في مدة عهدهم أنَّهم وإن كانوا آمنين؛ فإنهم لن يعجِزوا الله ولن يفوتوه، وأنه من استمر منهم على شركه؛ فإنه لا بدَّ أن يخزيه، فكان هذا مما يجلبهم إلى الدخول في الإسلام إلا من عاند، وأصرَّ، ولم يبال بوعيد الله.
[2,1] یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی طرف سے تمام مشرکین و معاندین سے اظہار براء ت ہے، انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے مامون ہیں اس مدت میں وہ اپنے اختیار سے زمین میں چل پھر لیں ۔ چار ماہ کے بعد ان کے ساتھ کوئی معاہدہ و میثاق نہیں ۔یہ معاملہ ان کفار کے ساتھ ہے جن کے ساتھ لامحدود مدت کے لیے معاہدہ ہے یا معاہدہ کی مدت چار ماہ یا اس سے کم ہے۔ رہا وہ معاہدہ جو چار ماہ سے زیادہ مدت کے لیے کیا گیا ہو، اگر معاہد سے خیانت کا خدشہ نہ ہو اور اس سے نقض عہد کی بھی ابتدا نہ ہوئی ہو تو مدت معینہ تک اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو پورا کیاجائے گا، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے معاہدین کو ان کی مدت عہد کے بارے میں ڈرایا ہے کہ اگرچہ وہ اس دوران میں مامون و محفوظ ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکیں گے نہ اس سے بچ سکیں گے اور ان میں سے جو کوئی اپنے شرک پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ ضرور اسے رسوا کرے گا... اور یہ چیز ان کے اسلام میں داخل ہونے کا باعث بن گئی۔ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے معاندانہ رویہ اختیار کیا اور اپنے کفر پر اصرار کیا اور اللہ تعالیٰ کی وعید کی کوئی پروا نہیں کی۔
آیت: 3 #
{وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (3)}.
اور اعلان ہے اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے لوگوں کی طرف، دن حج اکبر کے، کہ بے شک اللہ دست بردار ہے مشرکین سے اوراس کا رسول (بھی)، پس اگر تم توبہ کرلو تو یہ بہتر ہے تمھارے لیے اوراگر تم نے منہ پھیر ے رکھا تو جان لو کہ بے شک تم نہیں عاجز کرنے والے اللہ کواور خوشخبری دے دیجیے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، عذاب درد ناک کی(3)
#
{3} هذا ما وعد الله به المؤمنين من نصر دينه وإعلاء كلمته وخذلان أعدائهم من المشركين الذين أخرجوا الرسول ومَنْ معه من مكة من بيت الله الحرام وأجلَوْهم مما لهم التسلُّط عليه من أرض الحجاز؛ نصر اللهُ رسولَه والمؤمنين حتى افتتح مكة وأذلَّ المشركين وصار للمؤمنين الحكمُ والغَلَبَةُ على تلك الديار، فأمر النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - مؤذِّنه أن يؤذِّن يوم الحج الأكبر، وهو يوم النحر، وقت اجتماع الناس مسلمهم وكافرهم من جميع جزيرة العرب: أن يؤذِّن بأنَّ الله بريءٌ ورسوله من المشركين؛ فليس لهم عنده عهدٌ وميثاقٌ؛ فأينما وُجِدوا قُتِلوا، وقيل لهم: لا تقربوا المسجد الحرام بعد عامكم هذا! وكان ذلك سنة تسع من الهجرة، وحجَّ بالناس أبو بكر الصديق رضي الله عنه، وأذَّن ببراءة يوم النحر ابنُ عمِّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - علي بن أبي طالب رضي الله عنه. ثم رغَّب تعالى المشركين بالتوبة ورهَّبهم من الاستمرار على الشرك، فقال: {فإن تُبْتُم فهو خيرٌ لكم وإن تولَّيْتم فاعلموا أنَّكم غير معجزي الله}؛ أي: فائتيه، بل أنتم في قبضته، قادر أن يسلط عليكم عباده المؤمنين. {وبشر الذين كفروا بعذاب أليم}؛ أي: مؤلم مفظع في الدنيا بالقتل والأسر والجلاء وفي الآخرة بالنار وبئس القرار.
[3] یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہو جائے گا جنھوں نے رسول اللہe اور آپ کے صحابہy کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطہ ارضی سے جلا وطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا تو نبی اکرمe نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے.... اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بریء الذمہ ہے۔ رسول اللہe کے ہاں اب ان کے لیے کوئی عہد اور میثاق نہیں ۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔ حضرت ابوبکرt نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول اللہe کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالبt نے براء ت کا اعلان کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّـكُمْ١ۚ وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّـكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ﴾ ’’پس اگر تم توبہ کر لو تو تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر نہ مانو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوش خبری سنادو۔‘‘ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلا وطنی کی صورت میں انھیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا۔ جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
آیت: 4 #
{إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (4)}.
مگر وہ لوگ جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے، مشرکین میں سے، پھر نہیں کمی کی انھوں نے تمھارے ساتھ ذرا بھی اورنہ مدد کی تمھارے خلاف کسی کی، سو پورا کرو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت(مقررہ) تک۔ بے شک اللہ پسند کرتا ہے متقیوں کو(4)
#
{4} أي: هذه البراءة التامَّة المطلقة من جميع المشركين، {إلَّا الذين عاهَدْتم من المشركين}: واستمرُّوا على عهدهم، ولم يجرِ منهم ما يوجبُ النقضَ؛ فلا نَقَصوكم شيئاً، ولا عاونوا عليكم أحداً؛ فهؤلاء أَتِمُّوا إليهم عهدهم إلى مدتهم قلَّت أو كثرت؛ لأنَّ الإسلام لا يأمر بالخيانة، وإنما يأمر بالوفاء. {إنَّ الله يحبُّ المتَّقين}: الذين أدَّوْا ما أمروا به، واتَّقوا الشرك والخيانة وغير ذلك من المعاصي.
[4] یعنی یہ تمام مشرکین سے کامل اور براء ت مطلق کا اظہار ہے۔ ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’سوائے ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدہ کر رکھا ہے‘‘ اور وہ اپنے عہد پر قائم ہیں اور ان سے کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہیں ہوا جو نقض عہد کا موجب ہو۔ انھوں نے معاہدے میں کوئی کوتاہی کی ہے نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ پس ان لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو، اس کی مدت مقررہ تک پورا کرو خواہ یہ مدت تھوڑی ہو یا زیادہ.... کیونکہ اسلام خیانت کا حکم نہیں دیتا وہ تو معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ پسند کرتا ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کو‘‘ وہ لوگ جنھوں نے ان ذمہ داریوں کو ادا کیا جن کا انھیں حکم دیا گیا اور شرک، خیانت اور دیگر گناہوں سے بچے۔
آیت: 5 #
{فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5)}.
پس جب گزر جائیں مہینے حرمت والے تو قتل کرو مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ تم انھیں اور پکڑو انھیں اور گھیرے میں لیے رکھو ان کو اور بیٹھو ان کی تاک میں ہر گھات پر ، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور دیں زکاۃ تو چھوڑ دو ان کا راستہ۔ بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(5)
#
{5} يقول تعالى: {فإذا انسلخَ الأشهرُ الحُرُم}؛ أي: التي حُرِّم فيها قتال المشركين المعاهَدين، وهي أشهر التَّسْيير الأربعة، وتمام المدة لمن له مدة أكثر منها؛ فقد برِئَت منهم الذمة. {فاقتُلوا المشركين حيث وجدتموهم}: في أيِّ مكان وزمان، {وخذوهم}: أسرى، {واحصُروهم}؛ أي: ضيِّقوا عليهم؛ فلا تَدَعوهم يتوسَّعون في بلاد الله وأرضه التي جعلها الله معبداً لعباده؛ فهؤلاء ليسوا أهلاً لسُكناها، ولا يستحقُّون منها شبراً؛ لأنَّ الأرض أرض الله، وهم أعداؤه المنابذون له ولرسله، المحاربون الذين يريدون أن تخلو الأرض من دينه، ويأبى الله إلاَّ أن يُتِمَّ نورَه ولو كره الكافرون. {واقعُدوا لهم كلَّ مرصدٍ}؛ أي: كلَّ ثنيَّة وموضع يمرُّون عليه، ورابطوا في جهادهم، وابذلوا غاية مجهودكم في ذلك، ولا تزالوا على هذا الأمر حتى يتوبوا من شركهم. ولهذا قال: {فإن تابوا}: من شركهم، {وأقاموا الصَّلاة}؛ أي: أدَّوها بحقوقها، {وآتوا الزكاةَ}: لمستحقيها، {فَخلُّوا سبيلَهم}؛ أي: اتركوهم، وليكونوا مثلكم لهم ما لكم، وعليهم ما عليكم. {إنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}: يغفر الشرك فما دونه للتائبين، ويرحمهم بتوفيقهم للتوبة ثم قبولها منهم. وفي هذه الآية دليل على أن من امتنع من أداء الصلاة أو الزكاة؛ فإنه يقاتَل حتَّى يؤديها؛ كما استدلَّ بذلك أبو بكر الصديق رضي الله عنه.
[5] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ فَاِذَا انْ٘سَلَ٘خَ الْاَشْ٘هُرُ الْحُرُمُ ﴾ ’’پس جب گزر جائیں مہینے پناہ کے‘‘ یعنی وہ مہینے جن میں معاہد مشرکین کے خلاف جنگ کو حرام ٹھہرایا گیا ہے اور یہ آسانی کے چار ماہ ہیں اور جن کے ساتھ چار ماہ سے زیادہ مدت کا معاہدہ کیا گیا ہے، اس مدت کو پورا کیا جائے.... اس کے بعد ان کے ساتھ معاہدہ کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ ﴿ فَاقْتُلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ﴾ ’’پس مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔‘‘ یعنی وہ کسی زمانے میں جہاں کہیں بھی ہوں ۔ ﴿ وَخُذُوْهُمْ ﴾ ’’ان کو قیدی بناؤ‘‘ ﴿ وَاحْصُرُوْهُمْ ﴾ ’’اور ان کو گھیر لو۔‘‘ یعنی ان پر زمین تنگ کر دو، اللہ کی اس زمین میں انھیں اس طرح نہ چھوڑ دو کہ وہ کھلے دندناتے پھرتے رہیں ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے عبادت گاہ بنایا ہے۔ یہ لوگ اس زمین پر رہنے کے قابل نہیں بلکہ وہ اس زمین سے بالشت بھر جگہ کے بھی مستحق نہیں ۔ کیونکہ زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور کفار اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ زمین اللہ تعالیٰ کے دین سے خالی ہو جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ ﴿ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُ٘لَّ٘ مَرْصَدٍ ﴾ ’’اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو۔‘‘ یعنی ہر گھاٹی اور ہر راستے میں گھات لگا کر بیٹھو جہاں سے وہ گزرتے ہیں ۔ ان کے خلاف جہاد کے لیے پوری طرح تیار رہو اور جہاد میں اپنی پوری کوشش صرف کر دو اور ان کے خلاف اس وقت تک جہاد کرتے رہو جب تک کہ وہ اپنے شرک سے توبہ نہ کر لیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَاِنْ تَابُوْا ﴾ ’’پس اگر وہ توبہ کرلیں ۔‘‘ یعنی اپنے شرک سے۔ ﴿ وَاَقَامُوا الصَّلٰ٘وةَ﴾ ’’اور نماز پڑھنے لگیں ۔‘‘ یعنی اسے اس کے حقوق کے ساتھ ادا کریں ۔ ﴿ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ ﴾ ’’اور زکاۃ دینے لگیں ۔‘‘ مستحقین کو زکاۃ دیں ۔ ﴿ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ ﴾ ’’تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘ یعنی ان کو چھوڑ دو اب وہ تمھارے برابر ہیں ان کے وہی حقوق ہیں جو تمھارے ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمھارے ذمے ہیں ۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کا شرک اور ان کے دیگر کم تر گناہ بخش دیتا ہے۔ انھیں توبہ کی توفیق بخش کر اور پھر اس توبہ کو قبول کر کے انھیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی نماز قائم کرنے یا زکاۃ ادا کرنے سے رکے گا، اس کے خلاف اس وقت تک جنگ کی جائے گی جب تک کہ وہ نماز قائم نہیں کرتا اور زکاۃ ادا نہیں کرتا۔ جیسا کہ جناب ابوبکر صدیقt نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا تھا۔
آیت: 6 #
{وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ (6)}.
اور اگر کوئی مشرکین میں سے پناہ مانگے آپ سے تو پناہ دے دیں اس کوتاکہ سنے وہ کلام اللہ کا، پھر پہنچا دیں اس کو اس کے امن کی جگہ پر۔ یہ اس سبب سے کہ وہ لوگ ایسے ہیں کہ نہیں علم رکھتے(6)
#
{6} لما كان ما تقدَّم من قوله: {فإذا انسلخ الأشهرُ الحُرُم فاقتُلوا المشركين حيث وجدتموهم وخُذوهم واحصُروهم واقعُدوا لهم كلَّ مرصد}: أمراً عامًّا في جميع الأحوال وفي كلِّ الأشخاص منهم؛ ذكر تعالى أن المصلحة إذا اقتضت تقريب بعضهم؛ جاز، بل وجب ذلك، فقال: {وإنْ أحدٌ من المشركين استجارَكَ}؛ أي: طلب منك أن تجيره وتمنعه من الضَّرر لأجل أن يسمع كلام الله وينظر حالة الإسلام، {فأجِرْه حتَّى يسمعَ كلام الله}: ثم إنْ أسلم؛ فذاك، وإلاَّ؛ فأبلِغْه مأمَنَه؛ أي: المحل الذي يأمن فيه. والسبب في ذلك أن الكفار قومٌ لا يعلمون؛ فربَّما كان استمرارُهم على كفرهم لجهل منهم إذا زال اختاروا عليه الإسلام؛ فلذلك أمر الله رسوله. وأمَّتُه أسوتُه في الأحكام أن يجيروا من طَلَبَ أن يسمع كلام الله. وفي هذا حجةُ صريحةٌ لمذهب أهل السنة والجماعة، القائلين بأن القرآن كلام الله غير مخلوق؛ لأنَّه تعالى هو المتكلِّم به، وأضافه إلى نفسه إضافة الصفة إلى موصوفها، وبطلان مذهب المعتزلة ومن أخذ بقولهم أنَّ القرآن مخلوقٌ، وكم من الأدلَّة الدالَّة على بطلان هذا القول، ليس هذا محل ذكرها!
[6] اللہ تبارک و تعالیٰ کا گزشتہ ارشاد ﴿ فَاِذَا انْ٘سَلَ٘خَ الْاَشْ٘هُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُ٘لَّ٘ مَرْصَدٍ ﴾ تمام اشخاص کے لیے اور تمام احوال میں ایک عام حکم ہے اگر مصلحت ان میں سے کسی کو قریب کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یہ جائز بلکہ واجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ ﴾ ’’اگر مشرکین میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے‘‘ یعنی وہ یہ چاہے کہ آپ اس کو ضرر سے بچا لیں تو اس مقصد کے لیے اس کو پناہ دے دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے اور اسلام میں اچھی طرح غور و فکر کر لے۔ ﴿ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰ٘مَ اللّٰهِ ﴾ ’’تو اس کو پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔‘‘ یعنی پھر اگر وہ اسلام قبول کر لے تو بہتر ورنہ اسے امن کی جگہ پہنچا دیں یعنی وہ جگہ جہاں وہ مامون ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ کفار بے علم لوگ ہیں ۔ بسااوقات ان کا کفر پر قائم رہنا جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے، جب یہ سبب زائل ہو جاتا ہے تو وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe اور آپ کی امت کو احکام میں اس کے نمونے کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ کفار میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے کی خواہش کرے تو اس کو امان دے دیں ۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت والجماعت کے مذہب پر صریح دلیل ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے اور اس نے اس کی اضافت اپنی طرف کی ہے جیسے صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہوتی ہے.... نیز اس سے معتزلہ اور ان کے ہم نواؤں کے مذہب کا بطلان ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے.... کتنے ہی دلائل ہیں جو ان کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں ۔ لیکن یہ ان کی تفصیل کا مقام نہیں ۔
آیت: 7 #
{كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7)}.
کیوں کر ہو سکتا ہے واسطے مشرکوں کے عہد، نزدیک اللہ کے اور نزدیک اس کے رسول کے سوائے ان لوگوں کے جن سے عہد کیا تم نے نزدیک مسجد حرام کے، پس جب تک سیدھے رہیں وہ تمھارے لیے تو سیدھے رہو تم بھی ان کے لیے ، بے شک اللہ پسند کرتا ہے متقیوں کو(7)
#
{7} هذا بيانٌ للحكمة الموجبة لأن يتبرَّأ الله ورسوله من المشركين، فقال: {كيف يكون للمشركين عهدٌ عند الله وعند رسوله}: هل قاموا بواجب الإيمان؟ أم تركوا رسول الله والمؤمنين من أذيتهم؟ أَمَا حاربوا الحقَّ ونصروا الباطل؟! أَمَا سَعَوْا في الأرض فساداً؟! فيحقُّ لهم أن يتبرَّأ الله منهم، وأن لا يكون لهم عهدٌ عنده ولا عند رسوله. {إلَّا الذين عاهدتم}: من المشركين {عند المسجد الحرام}: فإنَّ لهم في العهد ـ وخصوصاً في هذا المكان الفاضل ـ حرمة أوجب أن يراعوا فيها، {فما استقاموا لكم فاستقيموا لهم إن الله يحبُ المتَّقين}.
[7] یہ اس حکمت الٰہی کا بیان ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہوں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْ٘مُشْرِكِیْنَ۠ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ ﴾ ’’کیوں کر ہو مشرکین کے لیے کوئی عہد اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک‘‘ کیا انھوں نے واجبات ایمان کو قائم کیا ہے؟ یا انھوں نے رسول اللہe اور اہل ایمان کو اذیت دینی چھوڑ دی ہے؟.... (بلکہ) انھوں نے حق کے خلاف جنگ کی اور باطل کی مدد کی.... کیا انھوں نے زمین میں فساد پھیلانے کی بھرپور کوشش کر کے اپنے آپ کو اس بات کا مستحق نہیں ٹھہرا لیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے بری الذمہ ہو۔ اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ان کے لیے کوئی عہد اور ذمہ نہ ہو؟ ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ ﴾ ’’سوائے ان کے جن سے تم نے عہد کیا‘‘ یعنی مشرکین میں سے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا ﴿ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’مسجد حرام کے پاس‘‘ پس اس عہد میں .... خاص طور پر فضیلت والی اس جگہ پر... ان کے لیے حرمت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ ان کی رعایت رکھی جائے۔ ﴿ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا۠ لَهُمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’پس جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہو بے شک اللہ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔‘‘
بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 8 - 11 #
{كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10) فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (11)}.
کیوں کر (رہ سکتا ہے عہد) درآں حالیکہ اگر غالب آجائیں وہ تم پر تو نہیں خیال کریں گے وہ تمھارے بارے میں رشتے داری کا اورنہ کسی عہد کا، وہ خوش کرتے ہیں تمھیں ساتھ اپنے مونہوں کے اور انکار کرتے ہیں دل ان کے اوراکثر ان کے نافرمان ہیں(8) بیچا انھوں نے اللہ کی آیتوں کو مول تھوڑے پر اور روکا (لوگوں کو) اس کے راستے سے، پس بے شک برا ہے جو ہیں وہ عمل کرتے(9) نہیں خیال کرتے وہ کسی مومن کے بارے میں رشتے داری کا اور نہ کسی عہد کا اور یہ لوگ، وہی ہیں حد سے نکل جانے والے(10) پس اگر وہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور دیں زکاۃ تو وہ تمھارے بھائی ہیں دین میں اور ہم مفصل بیان کرتے ہیں اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں(11)
#
{8} أي: {كيف}: يكون للمشركين عند الله عهدٌ وميثاقٌ. {و}: الحال أنَّهم {إن يظهروا عليكم}: بالقدرة والسلطة لا يرحموكم. و {لا يرقبوا فيكم إلا ولا ذِمَّة}؛ أي: لا ذمة ولا قرابة، ولا يخافون الله فيكم، بل يسومونكم سوء العذاب؛ فهذه حالكم معهم لو ظهروا، ولا يغرَّنَّكم منهم ما يعاملونكم به وقت الخوف منكم؛ فإنهم {يُرضونكم بأفواهِهِم وتأبى قلوبُهم}: الميل والمحبَّة لكم، بل هم الأعداء حقًّا، المبغضون لكم صدقاً. {وأكثرهم فاسقون}: لا ديانة لهم ولا مروءة.
[8] ﴿ كَیْفَ﴾ ’’کیسے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مشرکین کے لیے کیسے عہد و میثاق ہو سکتا ہے۔ ﴿ وَاِنْ یَّ٘ظْ٘هَرُوْا عَلَیْكُمْ ﴾ ’’کہ اگر وہ تم پر غلبہ پالیں ۔‘‘ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر ان کو تم پر قدرت اور غلبہ حاصل ہو تو تم پر کوئی رحم نہیں کریں گے۔ ﴿ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً﴾ ’’تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہدکا۔‘‘ یعنی وہ کسی عہد اور قرابت کا لحاظ نہیں رکھیں گے، وہ تمھارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈریں گے بلکہ وہ تمھیں بدترین عذاب دیں گے۔ پس اگر وہ غالب آجائیں تو ان کے ساتھ تمھارا یہ حال ہوگا۔ اگر وہ تم سے ڈر کر تمھارے ساتھ کوئی معاملہ کرتے ہیں تو تمھیں ان کے بارے میں دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ ﴿یُرْضُوْنَؔكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ ﴾ ’’وہ اپنے منہ سے تمھیں خوش کر دیتے ہیں اور ان کے دل تمھاری طرف میلان اور محبت سے انکار کرتے ہیں ‘‘ بلکہ وہ تمھارے حقیقی دشمن ہیں اور تمھارے ساتھ دلی بغض رکھتے ہیں ۔ ﴿وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے اکثر بدعہد ہیں ‘‘ ان میں کوئی دیانت اور مروت نہیں۔
#
{9} {اشتروا بآيات الله ثمناً قليلاً}؛ أي: اختاروا الحظَّ العاجل الخسيس في الدنيا على الإيمان بالله ورسوله والانقياد لآيات الله، {فصدُّوا}: بأنفسهم وصدُّوا غيرهم {عن سبيله إنَّهم ساء ما كانوا يعملون}.
[9] ﴿ اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا ﴾ ’’یہ اللہ کی آیات کے عوض تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر عمل کرنے کی بجائے اس دنیا میں جلدی حاصل ہونے والے خسیس عوض کو اختیار کر لیا۔ ﴿ فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖ﴾ انھوں نے خود اپنے آپ کو اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکا۔ ﴿ اِنَّهُمْ سَآءَؔ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’بلاشبہ بہت ہی برے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں ۔‘‘
#
{10} {لا يَرْقُبون في مؤمن إلا ولا ذمَّةً}؛ أي: لأجل عداوتهم للإيمان وأهله؛ فالوصف الذي جعلهم يعادونكم لأجله ويبغضونكم هو الإيمان.
[10] ﴿ لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً﴾ ’’وہ کسی مومن کے حق میں نہ تو رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ عہد کا۔‘‘ یعنی ایمان اور اہل ایمان سے عداوت کی بنا پر وہ کسی عہد اور قرابت کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ وصف جس کی بنا پر وہ تم سے عداوت اور بغض رکھتے ہیں ... وہ ایمان ہے۔
#
{11} فَذُبُّوْا عن دينكم وانصُروه واتَّخذوا مَن عاداه عدوًّا ومَن نَصَره لكم وليًّا واجعلوا الحكم يدور معه وجوداً وعدماً، لا تجعلوا الولاية والعداوة طَبْعِيَّةً تميلون بهما حيثما مال الهوى وتتَّبعون فيها النفس الأمَّارة بالسوء، ولهذا [إنْ] {تابوا}: عن شركهم ورجعوا إلى الإيمان، {وأقاموا الصَّلاة وآتوا الزكاة فإخوانكم في الدين}: وتناسَوْا تلك العداوة إذ كانوا مشركين؛ لتكونوا عباد الله المخلصين، وبهذا يكون العبد عبداً حقيقةً. لمَّا بيَّن من أحكامه العظيمة ما بيَّن، ووضَّح منها ما وضَّح أحكاماً وحكَماً وحُكْماً وحِكمةً؛ قال: {ونفصِّل الآيات}؛ أي: نوضحها ونميزها {لقوم يعلمون}: فإليهم سياق الكلام، وبهم تُعرف الآيات والأحكام، وبهم عُرف دين الإسلام وشرائع الدين. اللهمَّ اجعلنا من القوم الذين يعلمون ويعملون بما يعلمون برحمتك وجودك وكرمك وإحسانك يا رب العالمين!
[11] اس لیے اپنے دین کا دفاع کرو اور اس کی مدد کرو اور جو کوئی تمھارے دین سے عداوت رکھتا ہے اسے اپنا دشمن سمجھو اور جو تمھارے دین کی مدد کرتا ہے اسے اپنا دوست سمجھو۔ دوستی کے وجود اور عدم وجود کے اعتبار سے دین کو حکم کا مدار بناؤ۔ طبیعت کو دوستی اور دشمنی کا معیار نہ بناؤ کہ جدھر خواہش کا میلان ہو تم بھی ادھر جھک جاؤ اور اس بارے میں اس نفس کی پیروی کرو جو برائی کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَاِنْ تَابُوْا ﴾ ’’اگر وہ توبہ کرلیں ۔‘‘ یعنی اگر وہ اپنے شرک سے توبہ کر کے ایمان کی طرف لوٹ آئیں ﴿ وَاَقَامُوا الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ ﴾ ’’اور نماز قائم کریں ، زکاۃ دیں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں ‘‘ اور اس عداوت کو فراموش کر دو جب وہ مشرک تھے تاکہ تم سب اللہ کے مخلص بندے بن جاؤ اور اس طرح بندہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ بن جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم احکام کو بیان فرمایا ان میں سے کچھ احکام کی توضیح فرمائی، کچھ حکمتوں اور فیصلوں کو بیان کیا تو فرمایا: ﴿ وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم آیات کو واضح اور ممیز کرتے ہیں ‘‘ ﴿ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’جاننے والے لوگوں کے واسطے‘‘ پس سیاق کلام انھی کی طرف ہے، انھی کے ذریعے سے آیات و احکام کا علم حاصل ہوتا ہے اور انھی کے ذریعے سے دین اسلام اور شریعت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اے اللہ! اے رب العالمین! اپنی رحمت، اپنے جود و کرم اور اپنے احسان سے، ہمیں ایسے لوگوں میں شامل کر جو علم رکھتے ہیں اور ان باتوں پر عمل کرتے ہیں جن کا ان کو علم ہے۔
آیت: 12 - 15 #
{وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (12) أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15)}.
اور اگر توڑ دیں وہ قسمیں اپنی، بعد اپنے عہد کر لینے کے اور طعن کریں تمھارے دین میں،تو لڑو تم (ان) پیشوایان کفر سے، بے شک نہیں(معتبر) قسمیں ان کی تاکہ وہ باز آجائیں(12) کیا نہیں لڑو گے تم ان لوگوں سے کہ توڑ دیں انھوں نے قسمیں اپنی اور ارادہ کیا تھا انھوں نے نکالنے کا رسول کو اورانھوں ہی نے (لڑائی) شروع کی تم سے پہلے پہل کیا ڈرتے ہوتم ان سے؟ پس اللہ زیادہ حق دار ہے کہ ڈرو تم اس سے، اگر ہو تم مومن(13) لڑو تم ان سے کہ عذاب دے ان کو اللہ تمھارے ہاتھوں سے اور رسوا کرے ان کو اور مدد کرے تمھاری ان کے مقابلے پر اور شفا بخشے سینوں کومومن قوم کے(14)اور دور کردے وہ غصہ ان کے دلوں کا اور توجہ فرماتا ہے اللہ جس پر چاہتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے(15)
#
{12} يقول تعالى بعدما ذكر أنَّ المعاهدين من المشركين إن استقاموا على عهدهم فاستقيموا لهم على الوفاء: {وإن نَكَثوا أيمانَهم من بعد عهِدهم}؛ أي: نقضوها وحلُّوها؛ فقاتلوكم أو أعانوا على قتالكم أو نقصوكم، {وطعنوا في دينكم}؛ أي: عابوه وسخروا منه، ويدخُل في هذا جميع أنواع الطعن الموجَّهة إلى الدين أو إلى القرآن، {فقاتِلوا أئمَّة الكفر}؛ أي: القادة فيه، الرؤساء الطاعنين في دين الرحمن، الناصرين لدين الشيطان. وخصَّهم بالذكر لعظم جنايتهم ولأنَّ غيرهم تَبَعٌ لهم، وليدلَّ على أن مَن طَعَنَ في الدين، وتصدَّى للردِّ عليه فإنه من أئمة الكفر. {إنهم لا أيْمانَ لهم}؛ أي: لا عهود ولا مواثيق يلازمون على الوفاء بها، بل لا يزالون خائنين ناكثين للعهد لا يوثق منهم. {لعلَّهم}: في قتالكم إياهم {ينتهونَ}: عن الطعن في دينكم، وربما دخلوا فيه.
[12] اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ اگر مشرک معاہدین اپنے عہد پر قائم رہتے ہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے ان سے اپنے عہد کو پورا کرو... اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ نَّـكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ ﴾ ’’اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنے حلف کو توڑ دیا اور جنگ میں تمھارے خلاف دشمن کی مدد کی یا تمھیں نقصان پہنچایا ﴿ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ ﴾ ’’اور تمھارے دین میں طعن کرنے لگیں ۔‘‘ یعنی تمھارے دین میں عیب چینی کی یا اس کا تمسخر اڑایا۔ یہ دین اور قرآن میں ہر قسم کے طعن و تشنیع کو شامل ہے۔ ﴿ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْ٘كُ٘فْرِ ﴾’’ تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔‘‘ یعنی قائدین کفر اور ان سرداروں سے لڑو جو اللہ رحمن کے دین میں طعن و تشنیع کرتے ہیں اور شیطان کے دین کی مدد کرتے ہیں ۔ ان قائدین کفر کا خاص طور پر ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ ان کا جرم بہت بڑا تھا اور دیگر لوگ تو محض ان کے پیروکار تھے اور تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ جو کوئی دین میں طعن و تشنیع کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کو ٹھکرانے کے درپے ہوتا ہے تو اس کا شمار ائمہ کفر میں ہوتا ہے۔ ﴿ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ ﴾ یعنی ان کا کوئی عہد و میثاق نہیں کہ وہ اس کے ایفا کا التزام کریں بلکہ وہ تو ہمیشہ خیانت کرتے رہتے ہیں اور عہد کو توڑتے رہتے ہیں ۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ ﴾ ’’شاید کہ وہ‘‘ یعنی ان کے ساتھ تمھارے لڑائی کرنے میں ﴿ یَنْتَهُوْنَ ﴾ ’’باز آجائیں ۔‘‘ یعنی تمھارے دین میں طعن کرنے سے باز آجائیں اور بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ دین میں داخل ہوجائیں ۔
#
{13} ثم حثَّ على قتالهم وهيَّج المؤمنين بذكر الأوصاف التي صدرت من هؤلاء الأعداء، والتي هم موصوفون بها، المقتضية لقتالهم، فقال: {ألا تقاتلون قوماً نَكَثوا أيْمانهم وهَمُّوا بإخراج الرسول}: الذي يجب احترامه وتوقيره وتعظيمه، وهمُّوا أن يجلوه ويخرجوه من وطنه، وسعوا في ذلك ما أمكنهم، {وهم بدؤوكم أول مرة}: حيث نقضوا العهود، وأعانوا عليكم وذلك حيث أعانت قريش وهم معاهدون بني بكرٍ حلفاءهم على خزاعة حلفاء رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وقاتلوا معهم كما هو مذكورٌ مبسوطٌ في السيرة. {أتخشَوْنَهم}: في ترك قتالهم؟ {فالله أحقُّ أن تَخْشَوْه إن كنتم مؤمنين}: فالله أمركم بقتالهم، وأكَّد ذلك عليكم غاية التأكيد؛ فإن كنتم مؤمنين؛ فامتثلوا لأمر الله، ولا تخشوهم فتتركوا أمر الله.
[13] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کی ترغیب دی ہے اور دشمنوں سے جو اوصاف صادر ہوتے ہیں ان کو بیان کر کے اہل ایمان کو ان کے خلاف جہاد پر ابھارا ہے کیونکہ جن اوصاف سے یہ کفار متصف ہیں وہ ان کے خلاف جہاد کا تقاضا کرتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّـكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِـاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ ﴾ ’’تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنھوں نے اپنے عہدوں کو توڑ دیا اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا‘‘ جس کا احترام اور تعظیم و توقیر فرض ہے۔ نیز انھوں نے ارادہ کیا کہ وہ رسول اللہe کو جلا وطن کر دیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے امکان بھر کوشش کی۔ ﴿ وَهُمْ بَدَءُوْؔكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ’’اور انھوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے‘‘ جبکہ انھوں نے نقض عہد کا ارتکاب کیا اور تمھارے خلاف دشمن کی اعانت کی اور یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب قریش نے.... درآں حالیکہ انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا.... بنو خزاعہ کے خلاف اپنے حلیفوں یعنی بنو بکر کی مدد کی۔ بنو خزاعہ رسول اللہe کے حلیف تھے اور قریش نے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی کی، جیسا کہ اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔ ﴿ اَتَخْشَوْنَهُمْ۠﴾ ’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔‘‘ یعنی کیا تم ان سے قتال کرنے سے ڈرتے ہو؟ ﴿ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی تمھیں سخت تاکید کی ہے۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور کفار سے ڈر کر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک نہ کرو۔
#
{14} ثم أمر بقتالهم، وذكر ما يترتب على قتالهم من الفوائد وكل هذا حثٌّ وإنهاضٌ للمؤمنين على قتالهم فقال: {قاتلوهم يعذِّبْهم اللهُ بأيديكم}: بالقتل، {ويُخْزِهِم}: إذا نصركم الله عليهم، وهم الأعداء الذين يطلب خزيهم ويحرص عليه، {ويَنصُرْكم عليهم}: هذا وعدٌ من الله وبشارةٌ قد أنجزها، {ويَشْفِ صدور قوم مؤمنين}.
[14] پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا اور ان فوائد کا ذکر کیا جو کفار کے خلاف جہاد پر مترتب ہوتے ہیں یہ سب اہل ایمان کے لیے کفار کے خلاف جہاد کی ترغیب ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ ﴾ ’’ان سے لڑائی کرو، اللہ ان کو سزا دے گا تمھارے ہاتھوں سے‘‘ یعنی قتل کے ذریعے سے ﴿ وَیُخْزِهِمْ ﴾ ’’اور رسوا کرے گا ان کو‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ کفار کے خلاف تمھاری مدد کرتا ہے۔ یہ وہ دشمن ہیں جن کی رسوائی مطلوب ہے اور اس کی خواہش کی جاتی ہے ﴿ وَیَنْصُرْؔكُمْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور تم کو ان پر غالب کر دے گا‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔﴿ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ﴾’’ اور ٹھنڈے کرے گا دل مسلمان لوگوں کے ‘‘
#
{15} {ويُذْهِبْ غيظَ قلوبِهم}: فإنَّ في قلوبهم من الحنق والغيظ عليهم ما يكون قتالهم وقتلُهم شفاءً لما في قلوب المؤمنين من الغمِّ والهمِّ؛ إذ يَرَوْن هؤلاء الأعداء محاربين لله ولرسوله، ساعين في إطفاء نور الله، وزوالاً للغيظ الذي في قلوبكم. وهذا يدلُّ على محبة الله للمؤمنين ، واعتنائه بأحوالهم، حتى إنه جعل من جملة المقاصد الشرعيَّة شفاء ما في صدورهم وذهاب غيظهم. ثم قال: {ويتوبُ الله على مَن يشاء}: من هؤلاء المحاربين؛ بأن يوفِّقهم للدخول في الإسلام ويزيِّنه في قلوبهم ويكرِّه إليهم الكفر والفسوق والعصيان. {والله عليمٌ حكيمٌ}: يضع الأشياء مواضعها، ويعلم من يصلُحُ للإيمان فيهديه، ومن لا يصلُحُ فيبقيه في غيِّه وطغيانه.
[15] ﴿وَیُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْ﴾ ’’ اور نکالے گا ان کے دلوں کی جلن‘‘ کیونکہ کفار کے خلاف ان کے دل غیظ و غضب سے لبریز ہیں ۔ ان کے خلاف قتال کرنے اور ان کو قتل کرنے سے اہل ایمان کو ان کے دلوں میں موجود غیظ و غضب اور غم و ہموم سے شفا ملتی ہے۔ کیونکہ وہ ان دشمنوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اللہ کے نور کو بجھانے میں کوشاں ہیں، چنانچہ انھیں قتل و رسوا کرکے مومنوں کے دلوں میں موجود غیظ و غضب زائل ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور ان کے احوال کو درخور اعتناء سمجھتا ہے۔ حتی کہ اس نے اہل ایمان کے دلوں کو شفا دینا اور ان کے غیظ و غضب کو زائل کرنا، مقاصد شرعیہ میں شمار کیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَیَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’اور جس پر چاہے گا اللہ رحمت کرے گا۔‘‘ یعنی ان برسرپیکار کفار میں سے جسے چاہے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا کر کے اس کی توبہ قبول کر لے، اسلام کو ان کے دلوں میں آراستہ کر دے اور کفر، فسق اور نافرمانی کو ان کے لیے ناپسندیدہ کر دے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ تمام اشیا کو ان کے مقام پر رکھتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون ایمان لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ وہ اس کی راہ نمائی کرتا ہے اور کون اس صلاحیت سے محروم ہے؟ وہ اس کو اس کی گمراہی اور سرکشی میں غلطاں چھوڑ دیتا ہے۔
آیت: 16 #
{أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (16)}.
کیا تم نے گمان کرلیا ہے کہ تم (یوں ہی) چھوڑ دیے جاؤ گے، جبکہ ابھی نہیں جانا اللہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے جہاد کیا تم میں سے اورنہیں بنایا انھوں نے سوائے اللہ کے اورنہ سوائے اس کے رسول کے اورنہ مومنین کے کوئی دلی دوست اور اللہ خوب خبردار ہے ان سے جو تم عمل کرتے ہو(16)
#
{16} يقول تعالى لعباده المؤمنين بعدما أمرهم بالجهاد: {أم حسبتُم أن تُتْرَكوا}: من دون ابتلاء وامتحان وأمر بما يَبينُ به الصادقُ والكاذب، {ولما يَعْلَمِ اللهُ الذين جاهدوا منكم}؛ أي: علماً يظهر مما في القوة إلى الخارج؛ ليترتَّب عليه الثواب والعقاب، فيعلم الذين يجاهدون في سبيله لإعلاء كلمته، {ولم يتَّخذوا من دون الله ولا رسولِهِ ولا المؤمنينَ وَليجةً}؛ أي: وليًّا من الكافرين، بل يتَّخذون الله ورسوله والمؤمنين أولياء. فشرع الله الجهادَ ليحصُلَ به هذا المقصود الأعظم، وهو أن يتميَّزَ الصادقون الذين لا يتحيَّزون إلاَّ لدين الله من الكاذبين الذين يزعمون الإيمان وهم يتَّخذون الولائج والأولياء من دون الله ولا رسوله ولا المؤمنين. {والله خبيرٌ بما تعملون}؛ أي: يعلم ما يصير منكم ويصدر، فيبتليكم بما يظهر به حقيقة ما أنتم عليه، ويجازيكم على أعمالكم خيرها وشرِّها.
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو جہاد کا حکم دینے کے بعد ان سے فرماتا ہے ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَؔكُوْا ﴾ ’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم چھوٹ جاؤ گے‘‘ یعنی تمھیں کسی آزمائش اور امتحان میں مبتلا کیے بغیر اور تمھیں کوئی ایسا حکم دیے بغیر چھوڑ دیا جائے گا جس سے سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ ﴿ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰؔهَدُوْا مِنْكُمْ ﴾ ’’حالانکہ ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے جہاد کیا ہے‘‘ یعنی ایسا علم جو اس چیز کو خارج میں ظاہر کر دے جو قوت میں موجود ہے تاکہ اس پر ثواب و عقاب مرتب ہو۔ پس ان لوگوں کو جان لے جو اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے اس کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ۔ ﴿ وَلَمْ یَتَّؔخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً﴾ ’’اور نہیں بنایا انھوں نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے سوا، کوئی دوست‘‘ یعنی انھوں نے کفار کو اپنا دوست نہیں بنایا۔ بلکہ وہ اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا دوست بناتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاد اس لیے مشروع فرمایا تاکہ اس سے یہ عظیم مقصد حاصل ہو سکے اور وہ عظیم مقصد یہ ہے کہ سچے لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو صرف دین کے لیے وقف کر رکھا ہے، ان جھوٹے لوگوں سے ممیز ہو جائیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور مومنین کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا دلی دوست اور مددگار بناتے ہیں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے سب کاموں سے باخبر ہے۔‘‘ یعنی تم سے جو کچھ صادر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح آگاہ ہے پس وہ تمھاری اس طرح آزمائش کرتا ہے جس سے تمھاری پوری حقیقت ظاہر ہوجائے۔ اور وہ تمھیں تمھارے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔
آیت: 17 - 18 #
{مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (17) إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18)}.
نہیں ہے لائق واسطے مشرکین کے یہ کہ آباد کریں وہ مسجدیں اللہ کی جبکہ وہ شہادت دینے والے ہیں اپنے نفسوں پر کفر کی، یہی لوگ ہیں کہ برباد ہوگئے عمل ان کے اورآگ ہی میں وہ ہمیشہ رہیں گے(17)یقینا صرف وہی آباد کرتا ہے مسجدیں اللہ کی جو ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکاۃ اور نہیں ڈرا وہ مگر اللہ ہی سے، سوامید ہے کہ وہی ہوں گے ہدایت یافتہ لوگوں میں سے(18)
#
{17} يقول تعالى: {ما كان}؛ أي: ما ينبغي، ولا يليق {للمشركين أن يَعْمُروا مساجد الله}: بالعبادة والصلاة وغيرها من أنواع الطاعات، والحالُ أنهم شاهدون ومقرُّون على أنفسهم بالكفر بشهادة حالهم وفِطرهم وعِلْمِ كثيرٍ منهم أنهم على الكفر والباطل؛ فإذا كانوا {شاهدين على أنفسهم بالكفر} وعدم الإيمان الذي هو شرط لقَبول الأعمال؛ فكيف يزعُمون أنهم عمارُ مساجد الله؛ والأصل منهم مفقودٌ والأعمال منهم باطلةٌ؟! ولهذا قال: {أولئك حَبِطَتْ أعمالهم}؛ أي: بطلت وضلت. {وفي النار هم خالدون}.
[17] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ مَا كَانَ لِلْ٘مُشْرِكِیْنَ۠ ﴾ ’’مشرکوں کو زیبا نہیں ۔‘‘ یعنی مشرکین کے لائق اور ان کے لیے مناسب نہیں ۔ ﴿ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہ آباد کریں وہ اللہ کی مسجدوں کو‘‘ یعنی عبادات، نماز اور مختلف انواع کی نیکیوں کے ذریعے سے اللہ کی مساجد کو آباد کریں اور حال ان کا یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت اور شہادت حال کے ذریعے سے اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگوں کی بابت علم ہے کہ وہ کفر اور باطل پر ہیں ۔ ﴿شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْ٘كُ٘فْرِ﴾ ’’جبکہ وہ اپنے آپ پر کفر (اور عدم ایمان) کی گواہی دیتے ہیں ۔‘‘ ایمان اعمال کی قبولیت کی شرط ہے تب وہ کیوں کر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان کے اعمال کی بنیاد ہی مفقود ہے اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَفِی النَّارِ هُمْ خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں ، ان کے اعمال برباد ہو گئے اور وہ آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
#
{18} ثم ذكر من هم عُمَّار مساجد الله، فقال: {إنَّما يَعْمُرُ مساجدَ الله مَن آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة}: الواجبة والمستحبَّة بالقيام بالظَّاهر منها والباطن، {وآتى الزكاة}: لأهلها، {ولم يَخْشَ إلا الله}؛ أي: قَصَرَ خشيته على ربِّه، فكفَّ عن ما حرَّم الله، ولم يقصِّر بحقوق الله الواجبة؛ فوصفهم بالإيمان النافع، وبالقيام بالأعمال الصالحة التي أُمُّها الصلاة والزكاة، وبخشية الله التي هي أصل كلِّ خير؛ فهؤلاء عُمَّار المساجد على الحقيقة وأهلُها الذين هم أهلها. {فعسى أولئك أن يكونوا من المهتدين}: و {عسى} من الله واجبةٌ، وأما مَن لم يؤمن بالله ولا باليوم الآخر ولا عنده خشيةٌ لله؛ فهذا ليس من عمار مساجد الله ولا من أهلها الذين هم أهلُها، وإن زعم ذلك وادَّعاه.
[18] پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہی آباد کرتا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو‘‘ یعنی وہ فرض اور مستحب نمازوں کو ظاہری اور باطنی طور پر قائم کرتا ہے ﴿ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ﴾ اور مستحق لوگوں کو زکاۃ ادا کرتا ہے ﴿ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ ﴾ ’’اور نہیں ڈرا سوائے اللہ کے‘‘ یعنی اس نے اپنی خشیت کو صرف اللہ تعالیٰ پر مرکوز کر رکھا ہے، ان امور کو اپنے آپ سے دور رکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق واجبہ کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ایمان نافع اور اعمال صالحہ کے بجا لانے سے متصف کیا ہے۔ ان اعمال صالحہ کی اساس نماز اور زکاۃ ہے نیز ان کو خشیت الٰہی سے موصوف کیا ہے جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے.... درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں اور یہی ان کے اہل ہیں ۔ ﴿ فَ٘عَسٰۤى اُولٰٓىِٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ﴾ ’’پس امید ہے کہ یہ لوگ ہوں ہدایت والوں میں ‘‘ لفظ (عَسٰی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے وجوب کے معنی میں آتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ اللہ سے ڈرتے ہیں تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کرنے والے نہیں اور نہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ان کے اہل ہیں ۔ اگرچہ وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
آیت: 19 - 22 #
{أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (19) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (20) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (21) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (22)}.
کیا ٹھہرا لیا ہے تم نے پانی پلانے کو حاجیوں کے اورآباد کرنے کو مسجد حرام کے، مانند اس شخص کے (عمل کے) جو ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور جہاد کیا اس نے اللہ کی راہ میں، نہیں برابر ہوسکتے وہ (دونوں) نزدیک اللہ کےاوراللہ نہیں ہدایت دیتا ظالموں کو(19)وہ لوگ جو ایمان لائے اورانھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے، وہ سب سے بڑھ کر ہیں درجے میں نزدیک اللہ کےاور یہی لوگ ہیں کامیاب(20) خوش خبری دیتا ہے ان کو ان کا رب، رحمت کی اپنی طرف سے اور رضامندی کی اور ایسے باغوں کی کہ ان کے لیے ان میں نعمت ہے ہمیشہ رہنے والی(21) ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں ابد تک، بے شک اللہ،اسی کے پاس ہے اجر بہت بڑا(22)
#
{19} لما اختلف بعضُ المسلمين أو بعضُ المسلمين وبعضُ المشركين في تفضيل عِمارة المسجد الحرام بالبناء والصلاة والعبادة فيه وسقاية الحاجِّ على الإيمان بالله والجهاد في سبيله؛ أخبر الله تعالى بالتفاوتِ بينهما، فقال: {أجعلتُم سِقايةَ الحاجِّ}؛ أي: سقيهم الماء من زمزم؛ كما هو المعروف إذا أطلق هذا الاسم أنه المراد، {وعِمارةَ المسجدِ الحرام كمن آمَنَ بالله واليوم الآخر وجاهَدَ في سبيل الله لا يستوون عند الله}: فالجهادُ والإيمان بالله أفضلُ من سقاية الحاجِّ وعمارة المسجد الحرام بدرجاتٍ كثيرةٍ؛ لأنَّ الإيمان أصلُ الدين وبه تُقبل الأعمال وتزكو الخصال، وأمَّا الجهاد في سبيل الله؛ فهو ذروة سنام الدين، [الذي] به يُحفظ الدين الإسلامي ويتَّسع، ويُنْصَر الحقُّ ويُخْذَل الباطل، وأمَّا عِمارة المسجد الحرام وسقاية الحاجِّ؛ فهي، وإن كانت أعمالاً صالحةً؛ فهي متوقِّفة على الإيمان، وليس فيها من المصالح ما في الإيمان والجهاد؛ فلذلك قال: {لا يستوونَ عند الله واللهُ لا يَهْدي القوم الظالمين}؛ أي: الذين وَصْفُهُمُ الظلمُ، الذين لا يَصْلُحون لقبول شيء من الخير، بل لا يليق بهم إلا الشرُّ.
[19] جب بعض مسلمانوں کے درمیان یا بعض مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا کہ مسجد حرام کی تعمیر، اس کے اندر نماز پڑھنا، اس میں عبادت کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا افضل ہے یا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا؟ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان دونوں کے درمیان بہت تفاوت ہے، چنانچہ فرمایا ﴿ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ ﴾ ’’کیا کر دیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے کو‘‘ یعنی ان کو آب زم زم پلانا جیسا کہ معروف ہے جب پلانے کا ذکر مطلق کیا جائے تو اس سے مراد آب زم زم پلانا ہی ہوتا ہے ﴿ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَ٘مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’اور مسجد حرام کے بسانے کو۔ اس شخص کے برابر جو ایمان لایا اللہ اور یوم آخرت پر اور لڑا اللہ کی راہ میں ، یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک۔‘‘پس جہاد اور ایمان باللہ حاجیوں کو آب زمزم پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر سے کئی درجے افضل ہیں کیونکہ ایمان دین کی اساس ہے اور اسی کے ساتھ اعمال قابل قبول ہوتے ہیں اور خصائل کا تزکیہ ہوتا ہے۔ رہا جہاد فی سبیل اللہ تو وہ دین کی کوہان ہے جہاد ہی کے ذریعے سے دین اسلام کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جہاد ہی کے ذریعے سے حق کی مدد کی جاتی ہے اور باطل بے یارومددگار ہوتا ہے۔ رہا مسجد حرام کو آباد کرنا اور حاجیوں کو آب زمزم پلانا، یہ اگرچہ نیک اعمال ہیں مگر ان کی قبولیت ایمان باللہ پر موقوف ہے اور ان اعمال میں وہ مصالح نہیں ہیں جو ایمان باللہ اور جہاد میں ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ یعنی وہ لوگ جن کا وصف ہی ظلم ہے جو بھلائی کی کسی چیز کو بھی قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بلکہ برائی کے سوا کوئی چیز ان کے لائق نہیں ۔
#
{20} ثم صرح بالفضل فقال: {الذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله بأموالهم}: بالنفقة في الجهاد وتجهيز الغزاة، {وأنفسهم}: بالخروج بالنفس، {أعظمُ درجةً عند الله وأولئك هم الفائزون}؛ أي: لا يفوز بالمطلوب، ولا ينجو من المرهوب إلاَّ مَنْ اتَّصف بصفاتهم، وتخلَّق بأخلاقهم.
[20] پھر نہایت صراحت کے ساتھ اہل ایمان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ ﴾ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اپنے مالوں کے ساتھ‘‘ یعنی اپنا مال جہاد میں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو جہاد کا سامان مہیا کرنے میں خرچ کرتے ہیں ۔ ﴿ وَاَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’اور اپنی جانوں کے ساتھ‘‘ اور خود جہاد کے لیے نکلتے ہیں ﴿ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠﴾ ’’ان کے لیے بڑا درجہ ہے اللہ کے ہاں اور یہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے‘‘ یعنی کوئی شخص اپنا مطلوب حاصل کر سکتا ہے نہ کسی ڈر سے نجات پا سکتا ہے سوائے اس کے جو ان کی صفات سے متصف ہوتا ہے اور ان کے اخلاق کو اپناتا ہے۔
#
{21} {يبشِّرُهم ربُّهم}: رحمةً منه وكرماً وبرًّا بهم واعتناء ومحبة لهم، {برحمة منه}: أزال بها عنهم الشرور، وأوصل إليهم بها كلَّ خير، {ورضوانٍ}: منه تعالى عليهم، الذي هو أكبر نعيم الجنة وأجلُّه، فيُحِلُّ عليهم رضوانه؛ فلا يسخط عليهم أبداً، {وجناتٍ لهم فيها نعيمٌ مقيمٌ}: من كلِّ ما اشتهته الأنفس وتَلَذُّ الأعين مما لا يَعْلَمُ وصفَه ومقداره إلا الله تعالى، الذي منه أنَّ الله أعدَّ للمجاهدين في سبيله مائة درجةٍ، ما بين كلِّ درجتين كما بين السماء والأرض، ولو اجتمع الخلقُ في درجةٍ واحدةٍ منها؛ لَوَسِعَتْهم.
[21] ﴿ یُبَشِّ٘رُهُمْ رَبُّهُمْ ﴾ ’’ان کو ان کا رب بشارت دیتا ہے‘‘ اپنی طرف سے رحم و کرم، ان پر لطف و احسان اور ان سے اعتناء اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ﴿ بِرَحْمَةٍ مِّؔنْهُ ﴾ ’’اپنی طرف سے رحمت کی‘‘ جس کے ذریعے سے وہ ان سے برائیوں کو دور کرتا اور ہر طرح کی بھلائی ان تک پہنچاتا ہے۔ ﴿وَرِضْوَانٍ ﴾ ’’اور اپنی رضامندی کی‘‘ جو جنت میں سب سے بڑی اور نہایت جلیل القدر نعمت ہو گی۔ پس وہاں اللہ تعالیٰ اہل جنت کے سامنے اپنی رضامندی کا اعلان فرمائے گا اور پھر کبھی ان پر ناراض نہیں ہو گا۔ ﴿ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ ﴾ ’’اور باغوں کی جن میں ان کو آرام ہے ہمیشہ کا‘‘ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی ہر قسم کی نعمتیں موجود ہوں گی جن کی دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی جن کے اوصاف اور مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جو یہ نعمتیں عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لیے جنت میں سو درجے تیار کر رکھے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان۔ اگر تمام مخلوق ایک درجہ میں جمع ہو جائے تو اس ایک درجہ میں سما جائے۔
#
{22} {خالدين فيها أبداً}: لا ينتقلون عنها ولا يبغون عنها حِوَلاً. {إنَّ الله عندَه أجرٌ عظيمٌ}: لا تُستغرب كثرتُه على فضل الله، ولا يُتَعَجَّب من عظمه وحسنه على من يقول للشيء كن فيكون.
[22] ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا﴾ ’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ وہ وہاں سے منتقل ہوں گے، نہ وہاں سے نکلنا چاہیں گے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ کے پاس ہے بڑا اجر‘‘ اجر کی کثرت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی بعید نہیں اور نہ اس اجر کا بڑا اور اچھا ہونا اس ہستی کے بارے میں کوئی تعجب خیز ہے جو کسی چیز سے جب کہتی ہے ’’ہو جا‘‘! تو وہ ہو جاتی ہے۔
آیت: 23 - 24 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (23) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (24)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ بناؤ اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست، اگر وہ پسند کریں کفر کو ایمان پراور جو دوستی رکھے گا ان سے تم میں سے تو یہی لوگ ہیں ظالم(23) کہہ دیجیے! اگر ہیں تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا قبیلہ کنبہ اور وہ مال جو کمائے تم نے اور وہ تجارت کہ ڈرتے ہو تم اس کے مندے پڑ جانے سے اور وہ گھر کہ پسند کرتے ہو تم انھیں، زیادہ محبوب تمھیں، اللہ سے اوراس کے رسول سے اور جہاد کرنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو تم، یہاں تک کہ لائے اللہ اپنا حکم اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ان لوگوں کو جو نافرمانی کرنے ولے ہیں(24)
#
{23} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}: اعملوا بمقتضى الإيمان؛ بأن توالوا من قام به وتعادوا من لم يَقُم به. و {لا تتَّخذوا آباءكم وإخوانكم}: الذين هم أقرب الناس إليكم، وغيرهم من باب أولى وأحرى؛ فلا تتَّخذوهم {أولياء إن استحبُّوا}؛ أي: اختاروا على وجه الرِّضا والمحبَّة، {الكفر على الإيمان ومَن يتولَّهم منكم فأولئك هم الظالمون}: لأنَّهم تجرَّؤوا على معاصي الله، واتَّخذوا أعداء الله أولياء، وأصلُ الولاية المحبَّة والنُّصرة، وذلك أنَّ اتِّخاذهم أولياء موجب لتقديم طاعتهم على طاعة الله ومحبتهم على محبة الله ورسوله.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اے مومنو!‘‘ ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو۔ جو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس کے ساتھ موالات رکھو، جو ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ان سے عداوت رکھو اور ﴿ لَا تَتَّؔخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَاِخْوَانَؔكُمْ اَوْلِیَآءَؔ ﴾ ’’نہ بناؤ تم اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست‘‘ جو لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمھارے قریب ہیں ۔ اور دوسرے لوگوں کے بارے میں تو زیادہ اولیٰ ہے کہ تم ان کو دوست نہ بناؤ۔ ﴿اِنِ اسْتَحَبُّوا الْ٘كُفْؔرَ عَلَى الْاِیْمَانِ ﴾ ’’اگر وہ کفر کو پسند کریں ایمان کے مقابلے میں ‘‘ یعنی اگر وہ برضا و رغبت اور محبت سے ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ ﴿ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّؔنْكُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَؔ ﴾ ’’اور جو بھی دوستی کرے گا ان سے تم میں سے، پس وہی لوگ ہیں ظالم‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کی اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا، چونکہ ولایت اور دوستی کی اساس محبت اور نصرت ہے اور ان کا کفار کو دوست بنانا، کفار کی اطاعت اور ان کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و محبت پر مقدم رکھنے کا موجب ہے۔
#
{24} ولهذا ذكر السبب الموجب لذلك، وهو أن محبَّة الله ورسوله يتعيَّن تقديمهُما على محبَّة كلِّ شيء، وجعلُ جميع الأشياء تابعةً لهما، فقال: {قلْ إن كان آباؤكم}: ومثلهم الأمهات، {وإخوانُكم}: في النسب والعشرة، {وأزواجكم وعشيرتكم}؛ أي: قراباتكم عموماً، {وأموالٌ اقْتَرَفْتُموها}؛ أي: اكتسبتموها وتعبتم في تحصيلها، خصَّها بالذِّكر لأنها أرغب عند أهلها، وصاحبها أشدُّ حرصاً عليها ممَّن تأتيه الأموال من غير تعبٍ ولا كدٍّ. {وتجارةٌ تخشَوْن كسادها}؛ أي: رخصها ونقصها، وهذا شاملٌ لجميع أنواع التجارات والمكاسب من عروض التجارات من الأثمان والأواني والأسلحة والأمتعة والحبوب والحروث والأنعام وغير ذلك. {ومساكنُ ترضَوْنَها}: من حُسِنها وزخرفتها وموافقتها لأهوائكم؛ فإن كانت هذه الأشياء {أحبَّ إليكم من الله ورسولِهِ وجهادٍ في سبيله}: فأنتم فَسَقَةٌ ظَلَمَةٌ، {فتربَّصوا}؛ أي: انتظروا ما يَحِلُّ بكم من العقاب، {حتَّى يأتيَ الله بأمره}: الذي لا مَرَدَّ له. {والله لا يهدي القوم الفاسقين}؛ أي: الخارجين عن طاعة الله، المقدِّمين على محبَّة الله شيئاً من المذكورات. وهذه الآية الكريمة أعظم دليل على وجوب محبَّة الله ورسوله، وعلى تقديمهما على محبَّة كلِّ شيء، وعلى الوعيد الشديد والمَقت الأكيد على مَنْ كان شيءٌ من [هذه] المذكورات أحبَّ إليه من الله ورسوله وجهادٍ في سبيله، وعلامة ذلك أنَّه إذا عرض عليه أمران: أحدُهما يحبُّه الله ورسوله وليس لنفسه فيه هوىً. والآخرُ تحبُّه نفسه وتشتهيه ولكنَّه يفوِّت عليه محبوباً لله ورسوله أو ينقصه؛ فإنَّه إن قدم ما تهواه نفسه على ما يحبُّه الله؛ دلَّ على أنه ظالمٌ تاركٌ لما يجب عليه.
[24] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو اس کا موجب ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ اس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کی محبت ہر چیز پر مقدم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی محبت کو اس محبت کے تابع کیا ہے۔ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر ہیں تمھارے باپ‘‘ اسی طرح یہ حکم ماؤں کے بارے میں بھی ہے ﴿ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ ﴾ ’’اور تمھارے بیٹے اور بھائی‘‘ یعنی نسبی اور خاندانی اعتبار سے۔ ﴿ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِیْرَتُكُمْ ﴾ ’’اور تمھاری بیویاں اور دیگر عمومی رشتہ دار‘‘ ﴿ وَاَمْوَالُ اِ۟ اقْتَرَفْتُمُوْهَا ﴾ ’’اور وہ مال جو تم کماتے ہو‘‘ جس کے حصول میں مشقت برداشت کرتے ہو۔ کمائے ہوئے مال کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ یہ اصحاب اموال کے نزدیک مرغوب ترین مال ہوتا ہے اور انھیں اس مال کی نسبت جو انھیں بغیر کسی محنت اور مشقت کے حاصل ہوتا ہے، زیادہ محبوب و مرغوب ہوتا ہے۔ ﴿ وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا ﴾ ’’اور وہ سوداگری جس کے مندا ہونے سے تم ڈرتے ہو‘‘ یعنی سامان کے ارزاں ہونے اور اس میں نقصان واقع ہونے سے ڈرتے ہو۔ اس میں تجارت اور کاروبار کی تمام اقسام شامل ہیں ، مثلاً: ہر قسم کا سامان تجارت، مال کی قیمتیں ، برتن، اسلحہ، اشیائے استعمال، غلہ جات، کھیتیاں اور مویشی وغیرہ سب اسی زمرے میں آتے ہیں ۔ ﴿ وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ ﴾ ’’اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو‘‘ ان کی خوبصورتی، سجاوٹ اور ان کا تمھاری خواہشات اور پسند کے مطابق ہونے کی وجہ سے۔ ﴿ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ٘ ﴾ ’’اگر یہ تمام چیزیں ، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں ‘‘ تو تم فاسق و فاجر اور ظالم ہو۔ ﴿ فَتَرَبَّصُوْا ﴾ ’’تو انتظار کرو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے کا انتظار کرو ﴿ حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ ’’یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے‘‘ جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے دائرۂ اطاعت سے باہر نکلنے والے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر مذکورہ بالا اشیا کی محبت کو ترجیح دینے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نہیں نوازتا۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی محبت فرض ہے اور دیگر تمام اشیا کی محبت پر مقدم ہے۔ نیز آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے نہایت سخت وعید اور شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے جسے یہ مذکورہ اشیاء اللہ، اس کے رسول اور جہاد سے زیادہ محبوب ہیں ۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے دو امور پیش ہوں ان میں ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کو محبوب ہو مگر اس میں اس کے نفس کی چاہت کا کوئی پہلو نہ ہو اور دوسرے معاملے کو نفس پسند کرتا ہو مگر اس کو اختیار کرنے سے اس چیز سے محروم ہو جاتا ہو جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں یا اس چیز میں کمی واقع ہو جاتی ہو... اس صورت میں اگر وہ اس چیز کو اس امر پر ترجیح دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ظالم اور اس امر کا تارک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے۔
آیت: 25 - 27 #
{لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26) ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (27)}.
البتہ تحقیق مدد کی تمھاری اللہ نے بہت سی جگہوں میں اوردن حنین کے(بھی) جبکہ خوش فہمی میں ڈال دیا تھا تم کو تمھاری کثرت نے، پس نہ کام آئی وہ تمھارے کچھ بھی اور تنگ ہوگئی تم پر زمین باوجود فراخی کے ، پھر لوٹے تم پیٹھ پھیرتے ہوئے(25) پھر نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنوں پر اورنازل کیے اس نے ایسے لشکر کہ نہیں دیکھا تم نے ان کو اور عذاب دیا ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیااور یہی سزا ہے کافروں کی(26) پھر توجہ فرمائے گا اللہ، بعد اس کے، جس پر چاہے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے(27)
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے بہت سی لڑائیوں اور جنگی معرکوں میں انھیں اپنی نصرت سے نوازا حتیٰ کہ ’’حنین‘‘ کی جنگ میں جبکہ وہ انتہائی شدید صورت حال سے دوچار تھے، وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کو چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں اور زمین اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو رہی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہe کو خبر پہنچی کہ بنو ہوازن آپ پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں ، چنانچہ آپ صحابہ کرامy اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے قریش کو ساتھ لے کر مقابلے کے لیے نکلے اس وقت ان کی تعداد بارہ ہزار اور مشرکین کی تعداد چار ہزار تھی۔ کچھ مسلمانوں نے اس کثرت تعداد پر اتراتے ہوئے کہا ’’آج ہم پر کوئی غالب نہیں آسکے گا۔‘‘ جب بنو ہوازن اور مسلمانوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تو انھوں نے مسلمانوں پر یک بارگی حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور شکست کھا کر بھاگ اٹھے اور انھوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھا۔ رسول اللہe کے ساتھ سو کے لگ بھگ آدمی رہ گئے تھے جو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہe کے ساتھ ڈٹے مشرکین سے لڑ رہے تھے۔ رسول اللہe اپنے خچر کو ایڑ لگا کر مشرکین کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور فرما رہے تھے۔ ( اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِب) ’’میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘جب آپ نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو، جو کہ بلند آواز شخص تھے، حکم دیا کہ وہ انصار اور باقی مسلمانوں کو آواز دیں ، چنانچہ انھوں نے پکار کر کہا : ’’اے اصحاب بیعت رضوان! اے اصحاب سورہ بقرہ‘‘! جب بھاگنے والوں نے حضرت عباسt کی آواز سنی تو وہ یک بارگی واپس پلٹے اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو زبردست شکست سے دوچار کیا۔ میدان جنگ مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ ان کے اموال اور عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں ۔
#
{25} وذلك قوله تعالى: {لقد نَصَرَكم الله في مواطنَ كثيرةٍ ويومَ حنينٍ}: وهو اسمٌ للمكان الذي كانت فيه الوقعة بين مكة والطائف، {إذ أعجبتْكم كثرتُكم فلم تُغْنِ عنكم شيئاً}؛ أي: لم تفِدْكم شيئاً قليلاً ولا كثيراً، {وضاقت عليكم الأرض}: ـ بما أصابكم من الهمِّ والغمِّ حين انهزمتم ـ {بما رَحُبَتْ}؛ أي: على رُحْبها وسَعَتها، {ثم ولَّيْتم مدبرينَ}؛ أي: منهزمين.
[25] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ نَصَرَؔكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ ﴾ ’’یقینا اللہ نے تمھاری مدد فرمائی بہت سی جگہوں میں اور حنین کے دن‘‘ حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان وہ مقام ہے جہاں حنین کا معرکہ ہوا تھا۔ ﴿ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْ٘رَتُكُمْ فَلَمْ تُ٘غْنِ عَنْكُمْ شَیْـًٔـا ﴾ ’’جب تمھیں تمھاری کثرت نے گھمنڈ میں مبتلا کر دیا پس اس نے تمھیں کچھ فائدہ نہیں دیا‘‘ تمھاری کثرت نے تمھیں تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ ﴿ وَّضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ ﴾ ’’اورزمین تم پر تنگ ہوگئی۔‘‘ یعنی جب تمھیں شکست ہوئی اور تم پر غم و ہموم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور تم پر زمین تنگ ہوگئی۔ ﴿ بِمَا رَحُبَتْ ﴾ ’’اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود‘‘ ﴿ ثُمَّؔ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ﴾ ’’پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔‘‘
#
{26} {ثم أنزل الله سكينَتَه على رسوله وعلى المؤمنين}: والسكينةُ: ما يجعله الله في القلوب وقتَ القلاقل والزلازل والمُفْظِعات مما يثبِّتها ويسكِّنها ويجعلها مطمئنةً، وهي من نعم الله العظيمة على العباد، {وأنزل جنوداً لم تَرَوْها}: وهم الملائكةُ، أنزلهم الله معونةً للمسلمين يوم حنين يثبِّتونهم ويبشِّرونهم بالنصر، {وعذَّب الذين كفروا}: بالهزيمة والقتل واستيلاء المسلمين على نسائهم وأولادهم وأموالهم. {وذلك جزاء الكافرين}: يعذِّبهم الله في الدنيا، ثم يردُّهم في الآخرة إلى عذاب غليظ.
[26] ﴿ ثُمَّؔ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ٘ وَعَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی‘‘ سکینت اس کیفیت کا نام ہے جو دل کو ہلا دینے والے تباہ کن واقعات اور زلزلوں کے وقت اللہ تعالیٰ دل میں پیدا کرتا ہے جو دل کو سکون عطا کر کے مطمئن کرتی ہے۔ یہ سکون قلب بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے﴿ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ﴾ ’’اور ایسے لشکر اتارے جو تمھیں نظر نہیں آتے تھے‘‘ وہ فرشتے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حنین کی جنگ میں مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل فرمایا جو مسلمانوں کو ثابت قدم رکھتے تھے اور انھیں فتح و نصرت کی خوشخبری دیتے تھے۔ ﴿ وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’اور کافروں کو عذاب دیا‘‘ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست، قتل، ان کے اموال و اولاد اور ان کی عورتوں پر مسلمانوں کے قبضہ کے ذریعے سے عذاب کا مزا چکھا دیا۔ ﴿ وَذٰلِكَ جَزَآءُ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور یہ ہے سزا کافروں کی‘‘ اللہ تعالیٰ انھیں دنیا میں عذاب دے گا اور آخرت میں انھیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔
#
{27} {ثم يتوبُ الله من بعد ذلك على من يشاءُ}: فتاب الله على كثيرٍ ممَّن كانت الوقعة عليهم، وأتوا إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - مسلمين تائبين، فردَّ عليهم نساءهم وأولادهم. {والله غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: ذو مغفرةٍ واسعةٍ ورحمةٍ عامةٍ، يعفو عن الذنوب العظيمة للتائبين، ويرحمهم بتوفيقهم للتوبة والطاعة والصفح عن جرائمهم وقَبول توباتهم، فلا ييأسنَّ أحدٌ من رحمته ومغفرته، ولو فعل من الذنوب والإجرام ما فعل.
[27] ﴿ ثُمَّؔ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’پھر اللہ اس کے بعد جس پر چاہتا ہے، رجوع فرماتا ہے‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے، ہوازن کے کفار میں سے جن کے ساتھ جنگ ہوئی، اکثر کی توبہ قبول فرما لی اور وہ اسلام قبول کر کے تائب ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دیے۔ ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بے انتہا مغفرت اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے، وہ توبہ کرنے والے کے بڑے بڑے گناہ بخش دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ اور اطاعت کی توفیق عطا کر کے، ان کے جرائم سے درگزر کر کے اور ان کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم کرتا ہے۔ پس کسی نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو، اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
آیت: 28 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (28)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بلاشبہ مشرکین تو ناپاک ہیں، پس نہ قریب جائیں وہ مسجد حرام کے، بعد اپنے اس سال کےاوراگر تم خوف کرتے ہو مفلسی سے تو عنقریب غنی کردے گا تم کو اللہ اپنے فضل سے اگر اس نے چاہا، یقینا اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے(28)
#
{28} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا إنما المشركون}: بالله، الذين عبدوا معه غيره {نَجَسٌ}؛ أي: خبثاء في عقائدهم وأعمالهم، وأيُّ نجاسة أبلغُ ممَّن كان يعبد مع الله آلهةً لا تنفع ولا تضرُّ ولا تغني عنه شيئاً، وأعمالهم ما بين محاربةٍ لله وصدٍّ عن سبيل الله ونصرٍ للباطل وردٍّ للحق وعمل بالفساد في الأرض لا في الصلاح؟! فعليكم أن تطهِّروا أشرف البيوت وأطهرها عنهم؛ {فلا يقرَبوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}: وهو سنة تسع من الهجرة، حين حجَّ بالناس أبو بكر الصديق، وبعث النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - ابن عمه عليًّا أن يؤذِّن يوم الحجِّ الأكبر ببراءة، فنادى أن لا يحجَّ بعد العام مشركٌ ولا يطوف بالبيت عُريانٌ. وليس المراد هنا نجاسةَ البدن؛ فإن الكافر كغيره طاهر البدن؛ بدليل أن الله تعالى أباح وطء الكتابيَّة ومباشرتها، ولم يأمر بغسل ما أصاب منها ، والمسلمون ما زالوا يباشرون أبدان الكفَّار، ولم يُنْقَل عنهم أنهم تقذَّروا منها تقذُّرهم من النجاسات، وإنما المراد كما تقدَّم نجاستهم المعنويَّة بالشرك؛ فكما أن التوحيد والإيمان طهارةٌ؛ فالشرك نجاسةٌ. وقوله: {وإن خِفْتُم}: أيُّها المسلمون، {عَيْلَةً}؛ أي: فقراً وحاجة من منع المشركين من قُربان المسجد الحرام؛ بأن تنقطع الأسباب التي بينكم وبينهم من الأمور الدنيويَّة، {فسوف يُغنيكم الله من فضله}: فليس الرزق مقصوراً على باب واحد ومحلٍّ واحد، بل لا ينغلق بابٌ؛ إلاَّ وفُتِحَ غيرُه أبوابٌ كثيرة؛ فإن فضل الله واسع، وجوده عظيم، خصوصاً لمن ترك شيئاً لوجه الكريم؛ فإنَّ الله أكرم الأكرمين، وقد أنجز الله وعده؛ فإنَّ الله أغنى المسلمين من فضله، وبَسَطَ لهم من الأرزاق ما كانوا من أكبر الأغنياء والملوك. وقوله: {إن شاء}: تعليقُ للإغناء بالمشيئة؛ لأن الغنى في الدنيا ليس من لوازم الإيمان، ولا يدلُّ على محبَّة الله؛ فلهذا علَّقه الله بالمشيئة؛ فإنَّ الله يعطي الدنيا من يحبُّ ومن لا يحب، ولا يعطي الإيمان والدين إلا من يحبُّ. {إنَّ الله عليمٌ حكيمٌ}؛ أي: علمه واسعٌ، يعلم مَن يَليق به الغنى ومَن لا يَليق، ويضع الأشياء مواضعها، وينزِلها منازلها. وتدلُّ الآية الكريمة ـ وهي قوله: {فلا يَقْرَبوا المسجدَ الحرام بعد عامهم هذا} ـ أنَّ المشركين بعدما كانوا هم الملوك والرؤساء بالبيت، ثم صار بعد الفتح الحكم لرسول الله والمؤمنين مع إقامتهم في البيت ومكة المكرمة، ثم نزلت هذه الآية، ولما مات النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -؛ أمر أن يُجْلَوا من الحجاز؛ فلا يبقى فيها دينان، وكل هذا لأجل بُعْدِ كلِّ كافر عن المسجد الحرام، فيدخل في قوله: {فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}.
[28] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ ﴾ ’’اے ایمان والو! بے شک مشرکین‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے ساتھ غیروں کی عبادت کی ﴿ نَجَسٌ ﴾ ’’ناپاک ہیں ۔‘‘ یعنی اپنے عقائد و اعمال میں ناپاک ہیں ۔اور اس شخص سے بڑھ کر ناپاک اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کوئی کام آسکتے ہیں اور ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، باطل کی مدد کرنے، حق کو ٹھکرانے اور زمین میں اصلاح کی بجائے فساد کے لیے کام کرنے جیسے افعال پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ اس لیے تم پر فرض ہے کہ تم سب سے زیادہ شرف کے حامل اور سب سے زیادہ پاک گھر سے مشرکین کو پاک رکھو۔ ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ ’’پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں ‘‘ اور یہ ۹ ھ کا سال تھا جب حضرت ابوبکر صدیقt نے لوگوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ رسول اللہe نے اپنے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالبt کو روانہ فرمایا کہ حج کے روز ’’براء ت‘‘ کا اعلان کر دیں ، چنانچہ انھوں نے اعلان کیا کہ سال رواں کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہیں آئے گا اور نہ کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ یہاں نجاست سے مراد بدن کی نجاست نہیں ۔ کیونکہ کافر کا بدن بھی دوسرے لوگوں کے بدن کی طرح پاک ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابیہ عورت کے ساتھ مباشرت جائز قرار دی ہے مگر اس کا پسینہ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں اسے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار کے ساتھ بدنی اختلاط رکھتے چلے آئے ہیں مگر ان سے یہ بات منقول نہیں کہ انھوں نے کفار کو اس طرح ناپاک سمجھا ہو جس طرح وہ گندگی کو ناپاک سمجھتے ہیں ۔ درحقیقت اس سے مراد جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے..... معنوی نجاست، یعنی شرک ہے۔ ﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً ﴾ ’’(اے مسلمانو!) اگر تمھیں محتاجی کا خوف ہو۔‘‘ یعنی مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سے روک دینے کی وجہ سے تمھارے اور ان کے درمیان دنیاوی امور میں قطع تعلق کی بنا پر فقر و احتیاج کے لاحق ہونے کا ڈر ہو۔ ﴿ فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ۤ ﴾ ’’تو اللہ اپنے فضل سے تمھیں غنی کر دے گا‘‘ رزق کا ایک ہی دروازہ اور ایک ہی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اگر رزق کا ایک دروازہ بند ہو جاتا ہے تو بے شمار دوسرے دروازے کھل جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بے انتہا فضل و کرم اور بہت بڑے جود و سخا کا مالک ہے۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے جو محض اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی چیز کو ترک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا کریم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا کیونکہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو غنی کر دیا۔ انھیں اس قدر کشادہ رزق عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے مال داروں اور بادشاہوں میں شمار ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿ اِنْ شَآءَ﴾ ’’اگر اس نے چاہا‘‘ اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا اس کی مشیت کے ساتھ معلق ہے کیونکہ دنیا کے اندر غنا کا حاصل ہونا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا، ہر ایک کو دیتا ہے، اپنے محبوب بندے کو بھی اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا مگر وہ ایمان اور دین صرف اسے عطا کرتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم بڑا وسیع ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون غنا عطا کیے جانے کے لائق ہے اور کون ہے جو اس کے لائق نہیں اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ آیت کریمہ ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ دلالت کرتی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کی وجہ سے ریاست اور بادشاہی کے مالک تھے پھر فتح مکہ کے بعد حکومت اور اقتدار رسول اللہe اور مومنین کے پاس آگیا اور مشرکین مکہ بیت اللہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جب نبی اکرمe نے وفات پائی تو (وفات کے وقت) آپ نے حکم دیا کہ مشرکین کو سرزمین حجاز سے نکال دیا جائے۔ حجاز میں بیک وقت دو دین نہیں رہ سکتے.... اور یہ اس وجہ سے تاکہ ہر کافر کو مسجد حرام سے دور رکھا جائے۔ پس ہر کافر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ میں داخل ہے۔
آیت: 29 #
{قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29)}.
لڑو ان لوگوں سے جو نہیں ایمان لاتے اللہ پر اورنہ یوم آخرت پر اورنہیں حرام سمجھتے اس چیز کو جس کو حرام ٹھہرایا اللہ نے اوراس کے رسول نے اورنہیں قبول کرتے دین حق کو، ان لوگوں میں سے جنھیں دی گئی کتاب، یہاں تک کہ دیں وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے، اس حال میں کہ وہ ذلیل ہوں(29)
#
{29} هذه الآية أمرٌ بقتال الكفار من اليهود والنصارى من {الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر}: إيماناً صحيحاً يصدِّقونه بأفعالهم وأعمالهم، {ولا يحرِّمون ما حرَّم الله}: فلا يتَّبعون شرعه في تحريم المحرمات، {ولا يَدينون دين الحقِّ}؛ أي: لا يدينون بالدين الصحيح، وإن زعموا أنهم على دين؛ فإنه دينُ غير الحق؛ لأنه إما دين مبدَّل وهو الذي لم يشرعه الله أصلاً، وإمَّا دينٌ منسوخٌ قد شرعه الله ثم غيَّره بشريعة محمد - صلى الله عليه وسلم -، فيبقى التمسُّك به بعد النسخ غير جائز. فأمَرَهُ بقتال هؤلاء وحثَّ على ذلك لأنَّهم يدعون إلى ما هم عليه، ويحصل الضرر الكثير منهم للناس، بسبب أنهم أهل كتاب. وغَيَّا ذلك القتال: {حتى يُعطوا الجزيةَ}؛ أي: المال الذي يكون جزاءً لترك المسلمين قتالهم وإقامتهم آمنين على أنفسهم وأموالهم بين أظهر المسلمين، يؤخذ منهم كلَّ عام كلٌّ على حسب حاله من غني وفقير ومتوسط؛ كما فعل ذلك أمير المؤمنين عمر بن الخطاب وغيره من أمراء المؤمنين. وقوله: {عن يدٍ}؛ أي: حتى يبذلوها في حال ذُلِّهم، وعدم اقتدارهم، ويعطوها بأيديهم، فلا يرسلون بها خادماً، ولا غيره، بل لا تُقبل إلاَّ من أيديهم. {وهم صاغرونَ}: فإذا كانوا بهذه الحال، وسألوا المسلمين أن يُقِرُّوهم بالجزية وهم تحت أحكام المسلمين وقهرهم، وحال الأمن من شرِّهم وفتنتهم، واستسلموا للشروط التي أجراها عليهم المسلمون، مما ينفي عزَّهم وتكبُّرَهم وتوجب ذلَّهم وصَغارهم؛ وجب على الإمام أو نائبه أن يعقدَها لهم، وإلاَّ؛ بأن لم يفوا ولم يعطوا الجزية عن يدٍ وهم صاغرون؛ لم يَجُزْ إقرارهم بالجزية، بل يقاتَلون حتى يُسْلِموا. واستدل بهذه الآية الجمهور الذين يقولون: لا تؤخذ الجزية إلاَّ من أهل الكتاب؛ لأنَّ الله لم يذكر أخذ الجزية إلاَّ منهم، وأمَّا غيرهم؛ فلم يذكر إلا قتالهم حتى يسلموا. وأُلْحِق بأهل الكتاب في أخذ الجزية وإقرارهم في ديار المسلمين المجوس؛ فإنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - أخذ الجزية من مجوس هَجَرَ، ثم أخذها أمير المؤمنين عمر من الفرس المجوس. وقيل: إن الجزية تُؤخذ من سائر الكفار من أهل الكتاب وغيرهم؛ لأنَّ هذه الآية نزلت بعد الفراغ من قتال العرب المشركين والشروع في قتال أهل الكتاب ونحوهم، فيكون هذا القيد إخباراً بالواقع لا مفهوم له، ويدلُّ على هذا أن المجوس أخذت منهم الجزية وليسوا أهل كتاب، ولأنَّه قد تواتر عن المسلمين من الصحابة ومَنْ بعدهم أنهم يَدْعون من يقاتلونهم إلى إحدى ثلاث: إمَّا الإسلام، أو أداء الجزية، أو السيف؛ من غير فرق بين كتابيٍّ وغيره.
[29] اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘ ایسا ایمان جس کی تصدیق ان کے افعال و اعمال کرتے ہوں ۔ ﴿ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ﴾ ’’اور نہ حرام سمجھتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے‘‘ یعنی محرمات کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع نہیں کرتے۔ ﴿ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ﴾ ’’اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں ۔‘‘اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باطل دین پر عمل پیرا ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دین میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہوگئی ہے اور یہ (تحریف شدہ) وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا یا وہ اس دین پر عمل پیرا ہیں جو منسوخ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمایا تھا، پھر محمد مصطفیe کی شریعت کے ذریعے سے منسوخ کر دیا۔ پس اس کے منسوخ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تمسک کرنا جائز نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اس سے لوگوں کو اس سبب سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور اس قتال و جہاد کی غایت و انتہا یہ مقرر کی ہے۔ ﴿ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ ﴾ ’’یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں ‘‘ یعنی وہ مال ادا کریں جو ان کے خلاف مسلمانوں کے قتال ترک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اپنے مال و متاع سمیت پر امن رہنے کا عوض ہے جو ہر سال ہر شخص سے اس کے حسب حال خواہ وہ امیر ہے یا غریب، وصول کیا جائے گا۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمرt اور دیگر سربراہان نے کیا تھا۔ ﴿عَنْ یَّدٍ ﴾ ’’اپنے ہاتھوں سے‘‘ یعنی مطیع ہو کر اور اقتدار چھوڑ کر یہ مالی عوض ادا کریں اور اپنے ہاتھ سے ادا کریں اور اس کی ادائیگی کے لیے خادم وغیرہ نہ بھیجیں بلکہ یہ جزیہ صرف انھی کے ہاتھ سے وصول کیا جائے۔ ﴿ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ اور وہ زیردست اور مطیع بن کر رہیں ۔ جب ان کا یہ حال ہو اور وہ مسلمانوں کو جزیہ ادا کرنا، مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے احکامات کے تحت آنا قبول کر لیں ، حالات ان کے شر اور فتنہ سے مامون ہوں ۔ وہ مسلمانوں کی ان شرائط کو تسلیم کر لیں جو ان پر عائد کی گئی ہوں جن سے ان کے اقتدار اور تکبر کی نفی ہوتی ہو اور جو ان کی زیردستی کی موجب ہوں .... تو مسلمانوں کے امام یا اس کے نائب پر واجب ہے کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ کر لے۔ اگر وہ معاہدے کو پورا نہ کریں اور زیردست رہ کر جزیہ ادا نہ کریں تو ان کو امان دینا جائز نہیں بلکہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے یہاں تک کہ اطاعت کر لیں ۔ اس آیت کریمہ سے جمہور اہل علم استدلال کرتے ہیں کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر کفار تو ان کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا ذکر ہے جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کر لیں ۔ جزیہ ادا کرنے اور اس کے عوض مسلمانوں کے شہروں میں رہنے کے احکام میں مجوس بھی شامل ہیں ۔ رسول اللہe نے علاقہ ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا، پھر امیر المومنین حضرت عمر فاروقt نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب تمام کفار سے جزیہ قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ آیت کریمہ مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے فراغت کے بعد اور اہل کتاب وغیرہ کے ساتھ قتال شروع ہونے پر نازل ہوئی ہے۔ تب یہ قید واقعہ کی خبر ہے اس کا مفہوم نہیں ۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ نیز صحابہ کرامy اور بعد میں آنے والے مسلمانوں سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جس قوم کے خلاف جنگ کرتے انھیں سب سے پہلے تین میں سے ایک چیز قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ (۱) اسلام قبول کرنا۔ (۲) جزیہ ادا کرنا۔ (۳) یا تلوار کا فیصلہ قبول کرنا... اور اس میں انھوں نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔
آیت: 30 - 33 #
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (30) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (31) يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33)}.
اور کہا یہودیوں نے، عزیر بیٹا ہے اللہ کا اور کہا نصاریٰ نے ، مسیح بیٹا ہے اللہ کا، یہ بات ہے ان کے مونہوں کی، (یوں) مشابہت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کی بات کی جنھوں نے کفر کیا ان سے پہلے، ہلاک کرے ان کو اللہ، کہاں وہ پھیرے جاتے ہیں(30) بنا لیا انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو(اپنا) رب، اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح ابن مریم کو(بھی) حالانکہ نہیں حکم دیے گئے تھے وہ مگر یہ کہ وہ عبادت کریں(صرف) ایک معبود کی، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے، وہ پاک ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں(31)وہ چاہتے ہیں یہ کہ بجھا دیں نور اللہ کا اپنے مونہوں سے اورانکار کرتا ہے اللہ مگر یہ کہ پورا کرے اپنا نور، اگرچہ ناخوش ہوں کافر(32) وہ (اللہ) وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ساتھ ہدایت اور دین حق کے تاکہ غالب کرے اس کو سب دینوں پر، اگرچہ ناخوش ہوں مشرک(33)
#
{30} لما أمر تعالى بقتال أهل الكتاب ذكر من أقوالهم الخبيثة ما يهيج المؤمنين الذين يغارون لربهم ولدينه على قتالهم والاجتهاد وبذل الوسع فيه، فقال: {وقالتِ اليهود عزيرٌ ابن الله}: وهذه المقالة وإن لم تكن مقالة لعامَّتهم؛ فقد قالها فرقةٌ منهم، فيدلُّ ذلك على أنَّ في اليهود من الخبث والشرِّ ما أوصلهم إلى أن قالوا هذه المقالة التي تجرؤوا فيها على الله وتنقَّصوا عظمته وجلاله. وقد قيل: إن سبب ادِّعائهم في عزير أنه ابن الله: أنه لما تسلَّط الملوك على بني إسرائيل ومزَّقوهم كلَّ ممزَّق وقتلوا حَمَلَةَ التوراة؛ وَجَدوا عُزيراً بعد ذلك حافظاً لها أو أكثرها ، فأملاها عليهم من حفظِهِ، واستنسَخوها. فادَّعوا فيه هذه الدعوى الشنيعة. وقالت النصارى: عيسى ابن مريم {ابنُ الله}، قال الله تعالى: {ذلك}: القول الذي قالوه، {قولُهم بأفواهِهِم}: لم يقيموا عليه حجَّة ولا برهاناً، ومَنْ كان لا يُبالي بما يقول لا يُسْتَغْرَبُ عليه أي قول يقوله؛ فإنه لا دين ولا عقل يحجُزُه عما يريد من الكلام، ولهذا قال: {يضاهِئون}؛ أي: يشابهون في قولهم هذا {قولَ الذين كفروا من قبلُ}؛ أي: قول المشركين الذين يقولون الملائكة بنات الله، تشابهت قلوبهم فتشابهت أقوالهم في البطلان. {قاتلهم الله أنَّى يُؤفكَونَ}؛ أي: كيف يُصرفون عن الحقِّ الصرف الواضح المبين إلى القول الباطل المبين؟!
[30] جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ قتال کا حکم دیا تو ان کے ان خبیث اقوال کا ذکر کیا، جو اہل ایمان کو، جن کے اندر اپنے دین اور اپنے رب کے بارے میں غیرت ہوتی ہے، ان کے ساتھ جنگ کرنے، ان کے خلاف جدوجہد کرنے اور اس میں پوری کوشش صرف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَقَالَتِ الْ٘یَهُوْدُ عُزَیْرُ ِ۟ ابْنُ اللّٰهِ ﴾ ’’یہود نے کہا، عزیر اللہ کے بیٹے ہیں ‘‘ ان کا یہ قول ان کے تمام عوام کا قول نہ تھا بلکہ ان میں سے ایک فرقے کا قول تھا، البتہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہودیوں کی سرشت میں خباثت اور شر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بات کہنے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال میں نقص ثابت کرنے کی جسارت کی۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت عزیرu کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جب (غیر اسرائیلی مشرک) بادشاہوں نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کو تتر بتر کر دیا اور حاملین تورات کو قتل کر دیا، اس کے بعد انھوں نے جناب عزیر کو پایا کہ تمام تورات یا اس کا بیشتر حصہ ان کو حفظ ہے، حضرت عزیرu نے ان کو تورات اپنے حافظہ سے املا کروا دی اور انھوں نے تورات کو لکھ لیا۔ بنابریں انھوں نے حضرت عزیرu کے بارے میں یہ بدترین دعویٰ کیا۔ ﴿ وَقَالَتِ النَّ٘صٰرَى الْ٘مَسِیْحُ ﴾ ’’اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح‘‘ عیسیٰ ابن مریم ﴿ ابْنُ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کا بیٹا ہے۔‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی وہ قول جو یہ کہتے ہیں ۔ ﴿ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ﴾ ’’باتیں ہیں ان کے مونہوں کی‘‘ جس کی صداقت پر یہ لوگ کوئی حجت اور دلیل قائم نہیں کر سکے۔ جس شخص کو اس بات کی پروا نہ ہو کہ وہ کیا بولتا ہے اگر وہ کیسی بھی بات کرے تو اس کے بارے میں یہ چیز تعجب خیز نہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی عقل اور کوئی دین نہیں جو اس کو ایسی بات کرنے سے روکے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُضَاهِــُٔوْنَ ﴾ ’’وہ مشابہت رکھتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اپنے اس قول میں مشابہت رکھتے ہیں ۔ ﴿ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’ان لوگوں کے قول کے جنھوں نے اس سے پہلے کفر کیا‘‘ یعنی ان کا قول مشرکین کے قول سے مشابہت رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ باطل ہونے میں ان کے اقوال باہم مشابہت رکھتے ہیں ۔ ﴿ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١ٞۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ ﴾ ’’اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں پھرے جاتے ہیں ‘‘ یعنی وہ کیسے واضح اور خالص حق کو واضح طور پر باطل کی طرف موڑ دیتے ہیں ۔
#
{31} وهذا وإن كان يُستغرب على أمةٍ كبيرةٍ كثيرة أن تتَّفق على قول يدلُّ على بطلانه أدنى تفكُّر وتسليطٍ للعقل عليه؛ فإن لذلك سبباً، وهو أنهم {اتَّخذوا أحبارهم}: وهم علماؤهم، {ورهبانَهم}؛ أي: العباد المتجردين للعبادة، {أرباباً من دون الله}: يُحِلُّون لهم ما حرَّم الله فيُحِلُّونه، ويحرِّمون لهم ما أحلَّ الله فيحرِّمونه، ويَشْرعون لهم من الشرائع والأقوال المنافية لدين الرسل، فيتَّبعونهم عليها، وكانوا أيضاً يغلون في مشايخهم وعُبادهم، ويعظِّمونهم، ويتَّخذون قبورهم أوثاناً تُعبد من دون الله، وتُقصد بالذبائح والدُّعاء والاستغاثة. {والمسيحَ ابن مريم}: اتَّخذوه إلهاً من دون الله، والحال أنَّهم خالفوا في ذلك أمر الله لهم على ألسنة رسله، فما {أُمِروا إلا لِيَعْبُدوا إلهاً واحداً لا إله إلَّا هو}: فيُخلصون له العبادة والطاعة ويخصُّونه بالمحبَّة والدُّعاء، فنبذوا أمر الله، وأشركوا به ما لم يُنَزِّلْ به سلطاناً. {سبحانه}: وتعالى {عمَّا يُشركون}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس وتعالت عظمتُه عن شركهم وافترائهم؛ فإنَّهم ينتقِصونه في ذلك ويصِفونه بما لا يَليق بجلاله، والله تعالى العالي في أوصافه وأفعاله عن كل ما نُسِبَ إليه مما يُنافي كماله المقدَّس.
[31] یہ رویہ اگرچہ ایک بڑی امت سے بہت نادر اور عجیب سا لگتا ہے کہ وہ کسی ایسی بات پر متفق ہو جس کے بطلان پر ادنیٰ سا غور و فکر اور عقل اور سمجھ دلالت کرتے ہیں کیونکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ اِتَّؔخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ ﴾ ’’انھوں نے ٹھہرا لیا اپنے احبار کو‘‘ (اَحْبَار) سے مراد ان کے ’’علماء‘‘ ہیں ۔ ﴿وَرُهْبَانَهُمْ ﴾ ’’اور اپنے رہبان کو‘‘ اور (رُہْبَان) سے مراد ’’وہ عبادت گزار لوگ ہیں جنھوں نے عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیار کی ہے۔‘‘ ﴿ اَرْبَ٘ابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’رب، اللہ کے سوا‘‘ وہ ان کے لیے ان امور کو حلال کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے اور یہ ان کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور ان امور کو حرام کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ہے اور یہ (ان کی تقلید میں ) ان امور کو حرام قرار دے لیتے ہیں ۔ یہ احبار اور رہبان ان کے لیے ایسی شریعت اور اقوال مشروع کرتے ہیں جو انبیاء و رسل کے دین کے منافی ہیں اور یہ ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ نیز یہ اپنے مشائخ و عباد کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں ، ان کی تعظیم کرتے ہیں ، ان کی قبروں کو بت بنا دیتے ہیں جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، جہاں جانور ذبح کرنے کی منتیں مانی جاتی ہیں ، دعائیں مانگی جاتی ہیں اور ان کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے۔ ﴿ وَالْ٘مَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ﴾ ’’اور مسیح ابن مریم کو۔‘‘ یعنی انھوں نے اللہ کے سوا مسیح ابن مریم کو بھی معبود بنا لیا۔ اس حال میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین کے توسط سے ان کو دیا تھا۔ ﴿ وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا﴾ ’’حالانکہ انھیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کے عبادت نہ کریں ۔‘‘ پس عبادت اور اطاعت کو صرف اسی کے لیے خالص کریں ۔ محبت اور دعا کے لیے صرف اسی کو مخصوص کریں ۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو دور پھینک دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ ﴾ ’’پاک ہے وہ اس سے‘‘ اور بلند ہے۔ ﴿ عَمَّؔا یُشْرِكُوْنَ ﴾ ’’ان چیزوں سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں ‘‘ وہ پاک اور مقدس ہے، اس کی عظمت اور شان ان کے شرک اور بہتان طرازی سے بہت بلند ہے کیونکہ وہ اس بارے میں نقص کے مرتکب ہیں اور اسے ایسی صفات سے متصف کرتے ہیں جو اس کی جلالت شان کے لائق نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اوصاف و افعال میں ہر اس چیز سے منزہ اور بلند ہے جو اس کے کمال مقدس کے منافی ہے۔
#
{32} فلما تبيَّن أنه لا حُجَّة لهم على ما قالوه ولا برهاناً لما أصَّلوه، وإنَّما هو مجرَّد قول قالوه وافتراء افتروه؛ أخبر أنَّهم {يريدون} بهذا {أن يُطفئوا نور الله بأفواههم}: ونورُ الله دينُه الذي أرسل به الرسل وأنزل به الكتب، وسمَّاه الله نوراً لأنَّه يُستنار به في ظلمات الجهل والأديان الباطلة؛ فإنَّه علمٌ بالحقِّ وعملٌ بالحقِّ، وما عداه فإنه بضدِّه؛ فهؤلاء اليهود والنصارى ومَنْ ضاهاهم من المشركين، يريدون أن يطفِئوا نور الله بمجرَد أقوالهم التي ليس عليها دليلٌ أصلاً. {ويأبى اللهُ إلَّا أن يُتِمَّ نوره}: لأنه النور الباهر، الذي لا يمكن لجميع الخلق لو اجتمعوا على إطفائِهِ أن يطفئوه، والذي أنزله جميع نواصي العباد بيده، وقد تكفَّل بحفظه مِن كلِّ مَن يريده بسوء، ولهذا قال: {ويأبى الله إلا أن يُتِمَّ نوره ولو كره الكافرون}: وسَعَوا ما أمكنهم في ردِّه وإبطاله؛ فإنَّ سعيهم لا يضرُّ الحقَّ شيئاً.
[32] جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کے قول کی کوئی دلیل اور ان کے اصول کی کوئی برہان تائید نہیں کرتی۔ ان کا قول محض ان کے منہ کی بات ہے اور ایک ایسا بہتان ہے جو انھوں نے خود گھڑ لیا ہے.... تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ﴿ یُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’وہ چاہتے ہیں ۔‘‘ اس کے ذریعے سے ﴿ اَنْ یُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ﴾ ’’کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں ‘‘ یہاں اللہ کے نور سے مراد اس کا دین ہے جس کو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجا اور کتابوں کے ذریعے سے نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو نور اس لیے کہا ہے کیونکہ جہالت اور ادیان باطلہ کے اندھیروں میں اس کے ذریعے سے روشنی حاصل کی جاتی ہے کیونکہ دین، حق کے علم اور حق پر عمل کا نام ہے اور حق کے علاوہ ہر چیز اس کی ضد ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ اور ان کی مانند دیگر مشرکین چاہتے ہیں کہ وہ محض اپنی ایسی خالی خولی باتوں سے اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھا دیں ، جن کی اساس کسی دلیل پر قائم نہیں ۔ ﴿ وَیَ٘اْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ ﴾ ’’اور اللہ نہ رہے گا بغیر پورا کیے اپنے نور کے‘‘ اور اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کر کے رہے گا کیونکہ یہ نور ایسا غالب نور ہے کہ تمام مخلوق اگر اس کو بجھانے کے لیے اکٹھی ہو جائے تو اسے بجھا نہیں سکتی اور جس نے یہ نور نازل فرمایا ہے، تمام بندوں کی پیشانی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے ہر اس شخص سے، جو اس کے بارے میں برا ارادہ رکھتا ہے، اس نور کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَیَ٘اْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر رہنے کا نہیں ، اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔‘‘ یعنی وہ اس نور کے ابطال اور اس کو رد کرنے میں پوری طرح کوشاں رہتے ہیں مگر ان کی یہ بھاگ دوڑ حق کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
#
{33} ثم بيَّن تعالى هذا النور الذي قد تكفَّل بإتمامه وحفظه، فقال: {هو الذي أرسلَ رسولَه بالهدى}: الذي هو العلم النافع، {ودينِ الحقِّ} الذي هو العمل الصالح، فكان ما بعث الله به محمداً - صلى الله عليه وسلم - مشتملاً على بيان الحقِّ من الباطل في أسماء الله وأوصافه وأفعاله، وفي أحكامه وأخباره، والأمر بكلِّ مصلحةٍ نافعة للقلوب والأرواح والأبدان؛ من إخلاص الدين لله وحده، ومحبة الله وعبادته، والأمر بمكارم الأخلاق ومحاسن الشيم والأعمال الصالحة والآداب النافعة، والنهي عن كلِّ ما يضادُّ ذلك ويناقضه من الأخلاق والأعمال السيِّئة المضرَّة للقلوب والأبدان والدنيا والآخرة، فأرسله الله بالهدى ودين الحقِّ؛ {لِيُظْهِرَهُ على الدين كلِّه ولو كره المشركون}؛ أي: ليعليه على سائر الأديان؛ بالحجة والبرهان، والسيف والسنان، وإن كره المشركون ذلك، وبَغَوا له الغوائل، ومكروا مكرهم؛ فإنَّ المكر السيئ لا يضرُّ إلا صاحبه؛ فَوَعْدُ اللهِ لا بدَّ أن ينجِزَه وما ضَمِنَهُ لا بدَّ أن يقوم به.
[33] پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کو، جس کی تکمیل اور حفاظت کا اس نے ذمہ اٹھایا ہے، واضح کرتے ہوئے فرمایا ﴿ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰؔى ﴾ ’’وہی ذات ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ‘‘ جو کہ علم نافع کا نام ہے۔ ﴿ وَدِیْنِ الْحَقِّ ﴾ ’’اور دین حق کے ساتھ‘‘ جو کہ عمل صالح کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب محمدe کو جو دین دے کر مبعوث فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، اس کے افعال اور اس کے احکام و اخبار کے بارے میں باطل میں سے حق کو واضح کرنے اور ہر ایسے حکم پر مشتمل ہے جو بدن، روح اور قلب کے لیے نافع اور ان کی اصلاح کرتا ہے، یعنی دین میں اخلاص، اللہ تعالیٰ سے محبت اور اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہے، وہ مکارم اخلاق، محاسن عادات، اعمال صالحہ اور آداب نافعہ کے احکام پر مشتمل ہے اور ان تمام برے اخلاق اور برے اعمال سے روکتا ہے جو ان کی ضد ہیں ۔ جو دنیا و آخرت میں قلب و بدن کے لیے ضرر رساں ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے رسول اللہe کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ﴿ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّ٘هٖ٘١ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْ٘مُشْرِكُوْنَ ﴾ ’’تاکہ اس (دین) کو تمام دینوں پر غالب کرے، اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔‘‘ یعنی تاکہ حجت و برہان اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے تمام ادیان پر اسے غالب کرے۔ اگرچہ مشرکین کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی ہے، وہ اس کے خلاف فساد برپا کرتے ہیں اور اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں مگر سازش کا نقصان سازش کرنے والے ہی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا اس نے جو ذمہ اٹھایا ہے وہ اسے ضرور نبھائے گا۔
آیت: 34 - 35 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے علماء اوردرویش ، البتہ کھاتے ہیں مال لوگوں کے باطل طریقے سےاور روکتے ہیں وہ (لوگوں کو) اللہ کے راستے سےاور وہ لوگ جو جمع کرکے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اورنہیں خرچ کرتے اسے اللہ کی راہ میں۔ پس خوش خبری دے دیجیے ان کو ساتھ عذاب درد ناک کے(34) جس دن کہ تپایا جائے گا وہ (مال) جہنم کی آگ میں، پھر داغا جائے گا اس سے ان کی پیشانیوں کو اوران کے پہلوؤں کو اوران کی پیٹھوں کو(اور کہا جائے گا) یہ ہے وہ جو تم جمع کرکرکے رکھتے تھے اپنے نفسوں کے لیے، سو (مزہ) چکھو تم (اس کا) جو تھے تم جمع کرکر کے رکھتے(35)
#
{34} هذا تحذيرٌ من الله تعالى لعباده المؤمنين عن كثيرٍ من الأحبار والرُّهبان؛ أي: العلماء والعباد الذين يأكلون أموال الناس بالباطل؛ أي: بغير حقٍّ ويصدُّون عن سبيل الله؛ فإنَّهم إذا كانت لهم رواتب من أموال الناس، أو بَذَلَ الناس لهم من أموالهم؛ فإنه لأجل علمهم وعبادتهم ولأجل هُداهم وهدايتهم، وهؤلاء يأخذونها ويصدُّون الناس عن سبيل الله، فيكون أخذهم لها على هذا الوجه سُحتاً وظُلماً؛ فإنَّ الناس ما بذلوا لهم من أموالهم إلا ليدُلُّوهم على الطريق المستقيم، ومن أخذهم لأموال الناس بغير حقٍّ أن يُعطوهم ليفْتوهم، أو يحكموا لهم بغير ما أنزل الله؛ فهؤلاء الأحبار والرُّهبان لِيُحْذَرْ منهم هاتان الحالتان: أخذهم لأموال الناس بغير حقٍّ، وصدُّهم الناس عن سبيل الله. {والذين يكنِزون الذَّهب والفضَّة}؛ أي: يمسكونهما، {ولا يُنفقونها في سبيل الله}؛ أي: طرق الخير الموصلة إلى الله، وهذا هو الكنز المحرَّم: أن يمسِكَها عن النفقة الواجبة، كأن يمنع منها الزكاة أو النفقات الواجبة للزوجات أو الأقارب أو النفقة في سبيل الله إذا وجبت؛ {فبشِّرْهم بعذابٍ أليم}.
[34] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے اہل ایمان بندوں کو تحذیر ہے کہ وہ بہت سے احبار اور رہبان، یعنی اہل کتاب کے علماء اور عبادت گزاروں سے بچیں جو باطل یعنی ناحق طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انھیں اللہ کے راستے سے روکتے ہیں کیونکہ ان کے علم، ان کی عبادت اور ان کی پیشوائی کی وجہ سے لوگوں کے مال اور ان کے چندوں میں سے ان کے وظائف مقرر ہیں ۔ یہ احبار و رہبان وظائف لیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ۔ ان کا اس طریقے سے وظائف لینا حرام اور ظلم ہے۔ کیونکہ لوگ ان پر اپنا مال اس لیے خرچ کرتے تھے تاکہ وہ راہ راست کی طرف ان کی راہ نمائی کریں اور ناحق طریقے سے لوگوں کا مال ہتھیانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ لوگ ان کو مال دے کر ایسا فتویٰ حاصل کرتے تھے یا ان سے ایسا فیصلہ کرواتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ ان احبار و رہبان کی ان دو حالتوں سے بچنا چاہیے : (۱) لوگوں کا مال ناحق لینا۔ (۲) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کو روک رکھتے ہیں ۔ ﴿ وَلَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اور ان کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ یعنی بھلائی کے راستوں میں خرچ نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں ۔ یہ وہ جمع کرنا ہے جو حرام ہے، یعنی مال کو روک رکھنا اور اسے وہاں خرچ نہ کرنا جہاں خرچ کرنا فرض ہے، مثلاً: زکاۃ ادا نہ کرنا، بیویوں اور دیگر اقارب کو نفقات واجبہ نہ دینا۔ ﴿ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ ’’تو انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیجیے۔‘‘
#
{35} ثم فسَّره بقوله: {يومَ يُحمى عليها}؛ أي: على أموالهم {في نار جهنَّم}: فيُحمى كل دينار أو درهم على حدته، {فتُكوى بها جباهُهم وجنوبُهم وظهورُهم}: في يوم القيامة، كلما بردت؛ أعيدتْ، في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة، ويقال لهم توبيخاً ولوماً: {هذا ما كنزتُم لأنفسِكم فذوقوا ما كنتُم تكنِزونَ}: فما ظلمكم، ولكنَّكم ظلمتُم أنفسَكم، وعذَّبتموها بهذا الكنز. وذكر الله في هاتين الآيتين انحراف الإنسان في ماله، وذلك بأحد أمرين: إما أن ينفِقَه في الباطل الذي لا يُجدي عليه نفعاً، بل لا ينالُه منه إلا الضرر المحض، وذلك كإخراج الأموال في المعاصي والشَّهوات التي لا تُعين على طاعة الله، وإخراجها للصدِّ عن سبيل الله. وإما أن يمسِكَ ماله عن إخراجِهِ في الواجبات، والنهي عن الشيء أمرٌ بضدِّه.
[35] پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ﴿ یَّوْمَ یُحْمٰؔى عَلَیْهَا﴾ ’’جس دن اس (مال) کو گرم کیا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کے مال پر آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ﴾ ’’جہنم کی آگ میں ۔‘‘ یعنی ہر دینار اور ہر درہم پر علیحدہ علیحدہ آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿ فَتُكْ٘وٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ﴾ ’’(پھر اس سے قیامت کے روز) ان لوگوں کی پیشانیوں ، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا۔‘‘ جب بھی یہ دینار و درہم ٹھنڈے پڑ جائیں گے تو ان کو دوبارہ دن بھر تپایا جائے گا اور وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا اور انھیں زجر و توبیخ اور ملامت کرتے ہوئے کہا جائے گا۔ ﴿ هٰؔذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَؔ ﴾ ’’یہی وہ مال ہے جو تم سینت سینت کر رکھتے تھے اپنی جانوں کے لیے اب مزہ چکھو اپنے جمع کرنے کا‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے تم پر ظلم نہیں کیا بلکہ تم نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس خزانے کے ذریعے سے تم نے اپنی جانوں کو عذاب میں مبتلا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو آیات کریمہ میں انسان کے اپنے مال کے بارے میں انحراف کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ انحراف دو امور کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ (۱) انسان اس کو باطل کے راستے میں خرچ کرتا ہے جس کا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس سے اس کو صرف نقصان ہی پہنچتا ہے، مثلاً: معاصی اور شہوات میں مال خرچ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اعانت حاصل نہیں ہوتی۔ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے لیے مال خرچ کرنا۔ (۲) جہاں مال خرچ کرنا واجب ہو وہاں مال خرچ نہ کرنا اور کسی چیز سے روکنا درحقیقت اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔
آیت: 36 #
وقوله: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (36)}.
بے شک شمار مہینوں کا، نزدیک اللہ کے بارہ مہینے ہی ہیں،اللہ کی کتاب میں، جس دن کہ پیدا کیے اس نے آسمان اور زمین، ان میں سے چار (مہینے) ہیں حرمت والے، یہی ہے دین سیدھا، پس نہ ظلم کرو تم ان میں اپنی جانوں پراور لڑو تم مشرکوں سے اکٹھے جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے اکٹھےاور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیز گاروں کے(36)
#
{36} يقول تعالى: {إنَّ عدة الشهور عند الله}؛ أي: في قضاء الله وقدره {اثنا عشر شهراً}: وهي هذه الشهور المعروفة {في كتاب الله}؛ أي: في حكمه القدريِّ، {يوم خَلَقَ السموات والأرض}: وأجرى ليلها ونهارها، وقدَّر أوقاتها، فقسمها على هذه الشهور الاثني عشر شهراً. {منها أربعةٌ حُرُم}: وهي رجب الفرد وذو القعدة وذو الحجة والمحرم، وسميتْ حُرُماً لزيادة حرمتها وتحريم القتال فيها. {فلا تظلِموا فيهنَّ أنفسكم}: يُحتمل أن الضمير يعود إلى الاثني عشر شهراً، وأن الله تعالى بيَّن أنه جعلها مقادير للعباد، وأن تُعْمَرَ بطاعته، ويُشْكَرَ الله تعالى على منَّته بها، وتقييضها لمصالح العباد، فلْتَحْذروا من ظلم أنفسكم فيها. ويُحتمل أنَّ الضمير يعود إلى الأربعة الحرم، وأنَّ هذا نهي لهم عن الظُّلم فيها خصوصاً، مع النهي عن الظلم كلَّ وقت؛ لزيادة تحريمها وكون الظُّلم فيها أشدَّ منه في غيرها، ومن ذلك النهي عن القتال فيها على قول من قال: إن القتال في الأشهر الحرم لم يُنسخ تحريمهُ؛ عملاً بالنصوص العامة في تحريم القتال فيها، ومنهم من قال: إن تحريم القتال فيها منسوخ أخذاً بعموم نحو قوله: {وقاتلوا المشركينَ كافَّةً كما يقاتلونَكم كافَّةً}؛ أي: قاتلوا جميع أنواع المشركين والكافرين بربِّ العالمين، ولا تخصُّوا أحداً منهم بالقتال دون أحدٍ، بل اجعلوهم كلَّهم لكم أعداءً كما كانوا هم معكم كذلك قد اتَّخذوا أهل الإيمان أعداءً لهم لا يألونهم من الشرِّ شيئاً، ويحتمل أن {كافَّةً} حالٌ من الواو، فيكون معنى هذا: وقاتلوا جميعكم المشركين، فيكون فيها وجوب النفير على جميع المؤمنين، وقد نُسخت على هذا الاحتمال بقوله: {وما كان المؤمنون لِيَنفِروا كافة ... } الآية. {واعلموا أن الله مع المتقين}: بعونه ونصره وتأييده، فلتحرصوا على استعمال تقوى الله في سرِّكم وعلنكم والقيام بطاعته، خصوصاً عند قتال الكفار؛ فإنه في هذه الحال ربَّما ترك المؤمن العمل بالتقوى في معاملة الكفار الأعداء المحاربين.
[36] ﴿ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں ۔ ﴿ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا ﴾ ’’بارہ مہینے ہے‘‘ یہ وہی معروف مہینے ہیں ۔ ﴿ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی کتاب میں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری میں ۔ ﴿ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’جس دن اس نے پیدا کیے تھے آسمان اور زمین‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیل و نہار جاری کیے، اس کے اوقات کی مقدار مقرر کی اور اس کو ان بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ﴿ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؔ﴾ ’’ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ‘‘ اور یہ ہیں رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم... اور ان کے احترام کی وجہ سے ان کو حرام مہینوں سے موسوم کیا گیا ہے۔ نیز ان کو اس وجہ سے بھی حرام مہینے کہا گیا ہے کہ ان میں قتال کرنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ﴿فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’پس ان میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر بارہ مہینوں کی طرف لوٹتی ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ان مہینوں کو بندوں کے لیے وقت کی مقدار کے تعین کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ پس ان مہینوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے معمور رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر اس کا شکر ادا کیا جائے۔ نیز یہ کہ اس نے ان مہینوں کو اپنے بندوں (کے مصالح) کے لیے مقرر فرمایا۔ پس اپنے آپ پر ظلم کرنے سے بچو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر چار حرام مہینوں کی طرف لوٹتی ہو یعنی ان کے لیے ممانعت ہے کہ وہ خاص طور پر ان چار مہینوں میں ظلم کریں ۔ حالانکہ تمام اوقات میں ظلم کرنے کی ممانعت ہے لیکن چونکہ ان چار مہینوں کی حرمت زیادہ ہے اور ان مہینوں میں دوسرے مہینوں کی نسبت ظلم کے گناہ کی شدت بھی زیادہ ہے، اس لیے ان مہینوں میں ظلم کرنے سے بطور خاص منع کیا گیا۔ ان چار مہینوں میں ان علماء کے نزدیک، جو یہ کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ نہیں ، لڑائی کرنا ممنوع ہے۔ یہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم کے بارے میں عام نصوص پر عمل کرتے ہیں ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم منسوخ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عمومیت پر عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ وَقَاتِلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً﴾ ’’اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں ۔‘‘ یعنی تمام قسم کے مشرکین اور رب العالمین کا انکار کرنے والوں سے لڑو اور لڑائی کے لیے کسی کو مخصوص نہ کرو بلکہ تمام مشرکین اور کفار کو اپنا دشمن سمجھو جیسا کہ تمھارے ساتھ ان کا رویہ ہے۔ وہ اہل ایمان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور شرارت سے کبھی نہیں چوکتے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ﴿ كَآفَّةً﴾ واؤ سے حال ہو، تب معنی یہ ہوگا کہ تم سب اکٹھے ہو کر مشرکین سے جنگ کرو، تب اس صورت میں تمام اہل ایمان پر جہاد کے لیے نکلنا فرض ہے۔ اس احتمال کے مطابق یہ آیت کریمہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً﴾ (التوبۃ: 9؍122) ’’اہل ایمان کے لیے ضروری نہ تھا کہ وہ سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے۔‘‘کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔ ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور تائید کے ذریعے سے تقویٰ شعار لوگوں کے ساتھ ہے۔ پس تم اپنے ظاہر و باطن اور اطاعت الٰہی پر قائم رہنے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے حریص بنو۔ خاص طور پر کفار کے خلاف قتال کے وقت کیونکہ ایسی صورت حال میں ، جنگ میں شریک کفار دشمنوں کے معاملہ میں مومن سے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
آیت: 37 #
{إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (37)}.
بے شک مہینے کو پیچھے ہٹا دینا تو زیادتی ہے کفر میں، گمراہ کیے جاتے ہیں اس کی وجہ سے کافر لوگ، حلال کرلیتے ہیں وہ اس کو ایک سال اور حرام کردیتے ہیں اس کو (دوسرے) سال تاکہ پوری کریں گنتی ان مہینوں کی جو حرام ٹھہرائے اللہ نے۔ پس وہ حلال کرلیتے ہیں جس کو حرام کیا اللہ نے، مزین کردیے گئے ان کے لیے برے عمل ان کےاور اللہ نہیں ہدایت دیتا کافر قوم کو(37)
#
{37} النسيء هو ما كان أهلُ الجاهلية يستعملونه في الأشهر الحرم، وكان من جملة بدعهم الباطلة أنهم لما رأوا احتياجهم للقتال في بعض أوقات الأشهر الحرم؛ رأوا بآرائهم الفاسدة أن يحافظوا على عدَّة الأشهر الحرم التي حرَّم الله القتال فيها، وأن يؤخِّروا بعض الأشهر الحرم أو يقدِّموه ويجعلوا مكانه من أشهر الحلِّ ما أرادوا؛ فإذا جعلوه مكانه؛ أحلُّوا القتال فيه، وجعلوا الشهر الحلال حراماً؛ فهذا كما أخبر الله عنهم أنه زيادةٌ في كفرهم وضلالهم؛ لما فيه من المحاذير: منها: أنَّهم ابتدعوه من تلقاء أنفسهم، وجعلوه بمنزلة شرع الله ودينه، والله ورسوله بريئان منه. ومنها: أنهم قلبوا الدين، فجعلوا الحلال حراماً والحرام حلالاً. ومنها: أنهم موَّهوا على الله بزعمهم وعلى عباده، ولَبَسوا عليهم دينهم، واستعملوا الخداع والحيلة في دين الله. ومنها: أن العوائد المخالفة للشرع مع الاستمرار عليها يزول قبحها عن النفوس، وربَّما ظُنَّ أنها عوائد حسنة، فحصل من الغلط والضلال ما حصل. ولهذا قال: {يُضَلُّ به الذين كفروا يُحِلُّونه عامًا ويحرِّمونه عامًا لِيواطئوا عدَّةَ ما حرَّمَ الله}؛ أي: ليوافقوها في العدد، {فيُحِلُّوا ما حرَّم الله. زُيِّنَ لهم سوءُ أعمالهم}؛ أي: زينت لهم الشياطين الأعمال السيئة، فرأوها حسنة بسبب العقيدة المزيَّنة في قلوبهم. {والله لا يهدي القوم الكافرين}؛ أي: الذين انصبغ الكفر والتكذيب في قلوبهم، فلو جاءتهم كلُّ آية لم يؤمنوا.
[37] ﴿النَّ٘سِیْٓءُ﴾ ’’تاخیر‘‘ وہ ہے جو اہل جاہلیت حرام مہینوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی جملہ بدعات میں سے ایک بدعت تھی کہ جب انھیں حرام مہینوں میں سے کسی مہینے میں لڑائی کی ضرورت پڑتی تو وہ… اپنی فاسد آراء کے مطابق… سمجھتے تھے کہ حرام مہینوں کی گنتی کو پورا رکھا جائے جن کے اندر لڑائی حرام ہے۔ اور یہ کہ وہ بعض حرام مہینوں کو موخر یا مقدم کر دیتے تھے اور اس کی جگہ حلال مہینوں میں سے کسی مہینے کو حرام بنا لیتے تھے۔ جب ان حرام کی جگہ حلال مہینوں کو مقرر کر دیتے تو حرام مہینوں میں لڑائی کو حلال کر لیتے اور حلال مہینوں کو حرام قرار دے دیتے۔ ان کا یہ رویہ… جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے… ان کی طرف سے مزید کفر اور گمراہی کا رویہ ہے کیونکہ اس میں ایسے امور ہیں جن سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ (۱) انھوں نے ( نسئی) کو اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین قرار دے دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں ۔ (۲) انھوں نے دین کو بدل ڈالا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے ڈالا۔ (۳) انھوں نے بزعم خود، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ان کے دین کو گڈ مڈ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے دین میں حیلہ سازی اور فریب کاری کو استعمال کیا۔ (۴) شریعت کی مخالفت میں بار بار کیے جانے والے اعمال پر دوام سے لوگوں کے دلوں سے ان کی قباحت زائل ہو جاتی ہے۔ بلکہ بسااوقات ایسے کام اچھے محسوس ہونے لگتے ہیں ، اس کے جو خطرناک نتائج نکلتے ہیں ، محتاج وضاحت نہیں ۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــُٔوْا۠ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ﴾ ’’گمراہی میں پڑتے ہیں اس سے کافر، حلال کر لیتے ہیں اس مہینے کو ایک برس اور حرام رکھتے ہیں اس کو دوسرے برس تاکہ پوری کر لیں گنتی ان مہینوں کی جن کو اللہ نے حرمت والا قرار دیا ہے‘‘ یعنی حرام مہینوں کے عدد میں موافقت کریں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے انھیں حلال قرار دے لیں ﴿ زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْ﴾ ’’ان کے برے اعمال ان کے لیے مزین کردیے گئے ہیں ۔‘‘ یعنی شیاطین نے ان کے سامنے ان کے برے اعمال کو مزین کر دیا اور ان کے دلوں میں جو عقائد مزین ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے وہ ان اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو کفر کے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور تکذیب نے ان کے دلوں میں جڑ پکڑ لی ہے ، لہٰذا ان کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آجائیں تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
آیت: 38 - 39 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (38) إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (39)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا ہے تمھیں؟ جب کہا جاتا ہے تم سے کہ کوچ کرو راہ میں اللہ کی تو بوجھل ہوجاتے(اور گرے جاتے) ہو تم طرف زمین کی، کیا تم نے پسند کرلیا ہے دنیا کی زندگی کو بمقابلہ آخرت کے؟ پس نہیں ہے فائدہ دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلے میں مگر تھوڑا(38) اگر نہ کوچ کرو گے تم تو دے گا وہ تمھیں عذاب درد ناک اور بدل کر لے آئے گا کسی اور قوم کو سوائے تمھارے اورنہ بگاڑ سکو گے تم اس کا کچھ بھی اور اللہ ہر چیز پر خوب قادرہے(39)
#
{38} اعلم أنَّ كثيراً من هذه السورة الكريمة نزلت في غزوة تبوك، إذ ندب النبي - صلى الله عليه وسلم - المسلمين إلى غزو الروم، وكان الوقت حارًّا والزاد قليلاً والمعيشة عَسِرة ، فحصل من بعض المسلمين من التثاقل ما أوجب أن يعاتِبَهم الله تعالى عليه ويستنهِضَهم، فقال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}: ألا تعملون بمقتضى الإيمان ودواعي اليقين من المبادرة لأمر الله والمسارعة إلى رضاه وجهاد أعدائه والنصرة لدينكم؛ فما {لكم إذا قيلَ لكم انفِروا في سبيل الله اثَّاقَلْتُم إلى الأرض}؛ أي: تكاسلتم وملتم إلى الأرض والدَّعة والسكون فيها. {أرَضيتم بالحياة الدُّنيا من الآخرة}؛ أي: ما حالُكم إلاَّ حال مَن رضي بالدنيا وسعى لها ولم يبال بالآخرة؛ فكأنه ما آمن بها. {فما متاعُ الحياة الدنيا}: التي مالت بكم وقدَّمتموها على الآخرة {إلَّا قليلٌ}: أفليس قد جعل الله لكم عقولاً تزنون بها الأمور؟ وأيُّها أحقُّ بالإيثار؟! أفليست الدنيا من أولها إلى آخرها لا نسبة لها في الآخرة؟! فما مقدار عمر الإنسان القصير جدًّا من الدنيا حتى يجعله الغاية التي لا غاية وراءها فيجعلَ سعيَهُ وكدَّه وهمَّه وإرادته لا يتعدَّى الحياة الدُّنيا القصيرة المملوءة بالأكدار المشحونة بالأخطار؟! فبأيِّ رأي رأيتم إيثارها على الدار الآخرة، الجامعة لكلِّ نعيم، التي فيها ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين وأنتم فيها خالدون؟! فوالله ما آثر الدُّنيا على الآخرة من وَقَرَ الإيمان في قلبه، ولا مَنْ جزل رأيه، ولا من عُدَّ من أولي الألباب.
[38] واضح رہے کہ اس سورۂ کریمہ کا اکثر حصہ غزوۂ تبوک میں نازل ہوا ہے، جب رسول اللہe نے رومیوں کے مقابلے میں جنگ کے لیے لوگوں کو بلایا۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، لوگوں کے پاس زادِ راہ بہت کم تھا اور ان کے معاشی حالات عسرت کا شکار تھے۔ اس کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں سستی آگئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کی موجب بنی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لیے اٹھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اے ایمان والو‘‘! کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمھارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ﴾ ’’تمھیں کیا ہے کہ جب تمھیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو گرے جاتے ہو زمین پر‘‘ یعنی تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھ رہے ہو اور راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ ﴿ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰؔوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔‘‘ یعنی تمھارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ گویا آخرت پر وہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ﴿ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا‘‘ جس کی طرف تم مائل ہو جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ﴿ اِلَّا قَلِیْلٌ ﴾ ’’مگر بہت تھوڑا‘‘ کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں عقل سے نہیں نوازا جس کے ذریعے سے تم تمام معاملات کو تولو کہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیے جانے کا مستحق ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا.... اول سے لے کر آخر تک.... آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں ؟ اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اسی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہو اور انسان کی کوشش، اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔ تب کس بنا پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہوگا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے.... اللہ کی قسم! وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا ہے، جو صائب رائے رکھتا ہے اور جو عقل مندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔
#
{39} ثم توعدهم على عدم النفير، فقال: {إلَّا تَنفِروا يعذِّبكم عذاباً أليماً}: في الدُّنيا والآخرة؛ فإن عدم النفير في حال الاستنفار من كبائر الذُّنوب الموجبة لأشدِّ العقاب؛ لما فيها من المضارِّ الشديدة؛ فإنَّ المتخلِّف قد عصى الله تعالى، وارتكب لنهيه، ولم يساعد على نصر دين الله، ولا ذبَّ عن كتاب الله وشرعه، ولا أعان إخوانه المسلمين على عدوِّهم الذي يريد أن يستأصلهم ويمحقَ دينهم، وربما اقتدى به غيره من ضعفاء الإيمان، بل ربما فتَّ في أعضاد من قاموا بجهاد أعداء الله؛ فحقيقٌ بمن هذا حاله أن يتوعَّده الله بالوعيد الشديد، فقال: {إلَّا تَنفِروا يعذِّبْكم عذاباً أليماً ويستبدلْ قوماً غيركم}: ثم لا يكونوا أمثالكم، {ولا تضرُّوه شيئاً}؛ فإنه تعالى متكفِّل بنصر دينه وإعلاء كلمته؛ فسواءٌ امتثلتم لأمر الله أو ألقيتموه وراءكم ظِهْرِيًّا. {والله على كل شيء قديرٌ}: لا يعجِزُه شيء أراده ولا يغالبه أحدٌ.
[39] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاد کے لیے نہ نکلنے پر ان کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا﴾ ’’اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تم کو عذاب دے گا، دردناک عذاب‘‘ دنیا اور آخرت میں ۔ کیونکہ جہاد کے لیے بلانے پر، جہاد کے لیے گھر سے نہ نکلنا کبیرہ گناہ ہے جو سخت ترین عذاب کا موجب ہے کیونکہ اس میں شدید نقصان ہے بوقت ضرورت جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی منہیات کا ارتکاب ہے۔ جہاد سے گریز کرنے والے نے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کی نہ اس کی کتاب اور شریعت کی مدافعت کی اور نہ اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کی ان کے ان دشمنوں کے خلاف مدد کی جو ان کو ختم کرنا اور ان کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ نیز بسا اوقات ضعیف الایمان لوگ جہاد سے جی چرانے میں ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں بلکہ اس طرح دشمن کے خلاف جہاد کرنے والوں کی قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے جس کا یہ حال ہو تو وہ اسی قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سخت وعید سنائے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَؔكُمْ وَلَا تَضُرُّوْهُ شَیْـًٔـا ﴾ ’’اگر تم نہ نکلو گے تو تم کو دردناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدلے میں لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمہ کو بلند کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ اس لیے اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے ہو یا ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیتے ہو، اللہ کے لیے برابر ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرے تو وہ اسے بے بس نہیں کر سکتی اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا۔
آیت: 40 #
{إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (40)}.
اگہ نہ مدد کرو گے تم اس کی تو تحقیق مدد کی اس (پیغمبر) کی اللہ نے، جبکہ نکال دیا تھا اس کو ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، (وہ) دوسرا تھا دومیں سے، جب وہ دونوں تھے غار میں، جبکہ وہ کہہ رہا تھا اپنے ساتھی سے ، غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اس پر اورمدد کی اس کی ایسے لشکروں سے کہ نہیں دیکھا تم نے ان کواور کردی اس نے بات ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا، نیچی۔ اور بات اللہ کی وہی ہے بالااور اللہ بڑا زبردست بہت حکمت والا ہے(40)
#
{40} أي: إلا تنصروا رسوله محمداً - صلى الله عليه وسلم -؛ فالله غنيٌّ عنكم، لا تضرُّونه شيئاً؛ فقد نصره في أقلِّ ما يكون وَأَذَلِّهِ {إذ أخرجه الذين كفروا}: من مكة، لما همُّوا بقتله وسَعَوا في ذلك وحرصوا أشدَّ الحرص فألجؤوه إلى أن يخرج. {ثاني اثنينِ}؛ أي: هو وأبو بكر الصديق رضي الله عنه. {إذ هما في الغار}؛ أي: لما هربا من مكة؛ لجآ إلى غار ثور في أسفل مكة، فمكثا فيه ليبرد عنهما الطلب؛ فهما في تلك الحالة الحرجة الشديدة المشقَّة حين انتشر الأعداء من كلِّ جانب يطلبونهما ليقتلوهما، فأنزل الله عليهما من نصره ما لا يخطُر على البال. {إذ يقولُ}: النبي - صلى الله عليه وسلم - {لصاحبِهِ}: أبي بكر لما حزن واشتدَّ قلقُه: {لا تحزنْ إنَّ الله معنا}: بعونه ونصره وتأييده، {فأنزل الله سكينَتَه عليه}؛ أي: الثبات والطمأنينة والسكون المثبِّتة للفؤاد، ولهذا لما قلق صاحبه؛ سكَّنه وقال: لا تحزنْ إنَّ الله معنا. {وأيَّده بجنودٍ لم تَرَوْها}: وهي الملائكة الكرام، الذين جعلهم الله حرساً له. {وجعل كلمةَ الذين كفروا السفلى}؛ أي: الساقطة المخذولة؛ فإنَّ الذين كفروا [قد] كانوا على حَرْدٍ قادرين في ظنِّهم على قتل الرسول - صلى الله عليه وسلم - وأخذه حنقين عليه، فعملوا غاية مجهودهم في ذلك، فخذلهم الله ولم يُتِمَّ لهم مقصودَهم، بل ولا أدركوا شيئاً منه، ونصر الله رسوله بدفعه عنه، وهذا هو النصر المذكور في هذا الموضع؛ فإنَّ النصر على قسمين: نصر المسلمين إذا طمعوا في عدوِّهم بأن يُتِمَّ اللهُ لهم ما طلبوا وقصدوا ويستولوا على عدوِّهم ويظهروا عليهم. والثاني: نصر المستضعَف الذي طمع فيه عدوُّه القادر، فنصْرُ اللهِ إياه أن يردَّ عنه عدوَّه، ويدافع عنه، ولعل هذا النصر أنفع النصرين، ونَصْرُ اللَّهِ رسولَه إذ أخرجه الذين كفروا ثاني اثنين من هذا النوع. وقوله: {وكلمةُ اللهِ هي العليا}؛ أي: كلماته القدريَّة وكلماته الدينيَّة هي العالية على كلمة غيره، التي من جملتها قوله: {وكان حقًّا علينا نَصْرُ المؤمنين}، {إنَّا لننصُرُ رسلَنا والذين آمنوا في الحياة الدُّنيا ويوم يقومُ الأشهادُ}، {وإنَّ جندَنا لهم الغالبون}؛ فدين الله هو الظاهر العالي على سائر الأديان بالحجج الواضحة والآيات الباهرة والسلطان الناصر. {والله عزيزٌ}: لا يغالبه مغالبٌ ولا يفوته هاربٌ، {حكيم}: يضعُ الأشياء مواضعها، ويؤخِّرُ نصرَ حزبه إلى وقتٍ آخر اقتضته الحكمة الإلهية. وفي هذه الآية الكريمة فضيلة أبي بكر الصديق بخصيصة لم تكن لغيره من هذه الأمة، وهي الفوز بهذه المنقبة الجليلة والصحبة الجميلة، وقد أجمع المسلمون على أنَّه هو المراد بهذه الآية الكريمة، ولهذا عدُّوا من أنكر صحبة أبي بكر للنبي - صلى الله عليه وسلم - كافراً؛ لأنَّه منكر للقرآن الذي صرَّح بها. وفيها فضيلةُ السكينة، وأنها من تمام نعمة الله على العبد في أوقات الشدائد والمخاوف التي تطيش لها الأفئدة، وأنها تكون على حسب معرفة العبد بربِّه وثقته بوعدِهِ الصادق وبحسب إيمانه وشجاعتِهِ. وفيها أنَّ الحزن قد يعرض لخواصِّ عباد الله الصديقين، مع أنَّ الأولى إذا نزل بالعبد أن يسعى في ذهابه عنه؛ فإنه مضعِفٌ للقلب موهِنٌ للعزيمة.
[40] اگر تم اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفیe کی مدد نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس نے انتہائی بدترین حالات میں بھی آپ کی مدد فرمائی۔ ﴿ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’جب اس کو کافروں نے نکال دیا۔‘‘ جب کفار نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا، جب انھوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کی اور وہ اس کی شدید خواہش رکھتے ہیں ۔ آخر انھوں نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ﴿ ثَانِیَ اثْنَیْنِ﴾ ’’وہ دو میں سے دوسرا تھا‘‘ یعنی نبی کریمe اور ابوبکر صدیقt ﴿ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ ﴾ ’’جب وہ دونوں غار میں تھے‘‘ یعنی جب رسول اللہe اور ابوبکر صدیقt مکہ مکرمہ سے نکل کر مکہ سے نیچے کی طرف واقع غار ثور میں پناہ گزین ہوئے۔ دونوں اس وقت تک غار میں ٹھہرے رہے جب تک کہ ان کی تلاش کا معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑ گیا۔ دونوں اصحاب شدید حرج اور مشقت کی حالت میں مبتلا رہے۔ جب ان کے دشمن ان کی تلاش میں ہر طرف پھیل گئے تاکہ ان کو پکڑ کر قتل کر دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نصرت نازل فرمائی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ﴿ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ﴾ ’’جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے۔‘‘ یعنی جب نبی اکرمe نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکرt سے، جبکہ وہ سخت غم زدہ اور قلق کا شکار تھے..... فرمایا: ﴿ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا﴾ ’’غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد، نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ ﴾ ’’پس اتاری اللہ نے اپنی طرف سے اس پر سکینت‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی، طمانیت اور ایسا سکون نازل فرمایا جو دل کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے جب آپ کا ساتھی گھبرایا تو آپ نے اس کو پرسکون کرتے ہوئے فرمایا ’’غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘﴿ وَاَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا﴾ ’’اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں ‘‘ اور وہ معزز فرشتے تھے جن کو اللہ نے آپ کا محافظ بنا دیا۔ ﴿ وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْ٘لٰى﴾ ’’اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے کفار کو ساقط اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا کیونکہ کفار سخت غضب ناک تھے اور رسول اللہe پر سخت غصہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہe کو گرفتار کر کے قتل کر سکتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کی مدافعت فرما کر آپ کو اپنی نصرت سے نوازا۔ یہی وہ مدد ہے جس کا اس مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ مدد کی دو قسمیں ہیں ۔ (۱) جب مسلمان دشمن کو زک پہنچانے کے خواہش مند ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش اور مقصد کو پورا کرتا ہے اور وہ اپنے دشمن پر غالب آجاتے ہیں ۔ (۲) مدد کی دوسری قسم مستضعفین کی مدد ہے جن کو ان کا طاقتور دشمن نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمن کو آپ سے دور کر کے اور دشمن سے آپ کا دفاع کر کے آپ کی مدد فرمائی اور شاید مدد و نصرت کی یہ قسم سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول کی مدد کرنا، جب کفار نے دونوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا.... نصرت کی اسی نوع میں شمار ہوتا ہے۔ ﴿ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا﴾ ’’اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات قدریہ اور کلمات دینیہ دیگر تمام کلمات پر غالب ہیں ۔ اس مفہوم کی چند دیگر آیات یہ ہیں ۔ ﴿ وَؔكَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الروم: 30؍47) ’’اور اہل ایمان کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔‘‘ فرمایا: ﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾ (غافر:40؍51) ’’ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے، دنیا کی زندگی میں اور جس روز گواہ (گواہی دینے کے لیے) کھڑے ہوں گے، ضرور مدد کریں گے۔‘‘ ﴿وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (الصافات: 37؍173) ’’بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔‘‘پس اللہ تعالیٰ کا دین واضح دلائل، حیرت انگیز آیات اور تائید کرنے والے براہین کے ذریعے سے تمام ادیان پر غالب ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ﴾ ’’اور اللہ غالب ہے۔‘‘ کوئی اس پر غالب آسکتا ہے، نہ کوئی بھاگ کر اس سے بچ سکتا ہے۔ ﴿ حَكِیْمٌ﴾ ’’وہ حکمت والا ہے۔‘‘ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے وہ کبھی کبھی اپنے گروہ کی مدد کو کسی دوسرے وقت تک موخر کر دیتا ہے جس کا تقاضا حکمت الہیہ کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں جناب ابوبکر صدیقt کی فضیلت میں ایک ایسی خصوصیت بیان کی گئی ہے جو اس امت کے کسی اور فرد میں نہیں اور وہ ہے یہ منقبت جلیلہ اور صحبت جمیلہ... اور تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہی مراد ہے۔ بنابریں جن لوگوں نے ابوبکر صدیقt کی صحبت کا انکار کیا انھوں نے ظلم و تعدی اور کفر کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے قرآن کا انکار کیا جو اس صحبت کی تصریح کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے سکینت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مصیبت اور خوف کے اوقات میں جب دل پریشان ہو جاتے ہیں تو سکینت اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے۔ یہ نعمت کاملہ بندۂ مومن کو اس کی اپنے رب کی معرفت، اپنے رب کے سچے وعدے پر اعتماد، اپنے ایمان اور اپنی شجاعت کے مطابق عطا ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حزن کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور صدیقین کو بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ بایں ہمہ جب بندۂ مومن پر یہ کیفیت نازل ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حزن بندے کے دل کو کمزور اور اس کی عزیمت کو پراگندہ کر دیتا ہے۔
آیت: 41 - 42 #
{انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (41) لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (42)}.
کوچ کرو تم، ہلکے بھی اور بھاری بھی اور جہاد کرو ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے اللہ کی راہ میں، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگر ہوتم علم رکھتے(41)اگر ہوتا مال جلد مل جانے والا اورسفر(بھی) درمیانہ تو ضرور پیروی کرتے وہ آپ کی لیکن دور دکھائی دی ان کو مسافت اور عنقریب وہ قسمیں کھائیں گے اللہ کی کہ اگر ہم استطاعت رکھتے تو ضرور نکلتے ہم تمھارے ساتھ، ہلاک کررہے ہیں وہ اپنی ہی جانوں کواور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ وہ جھوٹے ہیں(42)
#
{41} يقول تعالى لعباده المؤمنين مهيِّجاً لهم على النفير في سبيله، فقال: {انفِروا خفافاً وثقالاً}: في العسر واليسر، والمنشط والمكره، والحرِّ والبرد، وفي جميع الأحوال، {وجاهدوا بأموالكم وأنفسِكم في سبيل الله}؛ أي: ابذلوا جهدكم في ذلك، واستفرغوا وُسْعَكم في المال والنفس. وفي هذا دليلٌ على أنه كما يجب الجهادُ في النفس يجب [الجهادُ] في المال حيث اقتضت الحاجة ودعت لذلك. ثم قال: {ذلكم خيرٌ لكم إن كنتم تعلمونَ}؛ أي: الجهاد في النفس والمال خيرٌ لكم من التقاعد عن ذلك؛ لأنَّ فيه رضا الله تعالى والفوز بالدرجات العاليات عنده والنصر لدين الله والدُّخول في جملة جنده وحزبه.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ ﴿ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا﴾ ’’نکلو ہلکے اور بوجھل‘‘ یعنی تنگی اور فراخی، نشاط اور ناگواری، گرمی اور سردی تمام احوال میں جہاد کے لیے نکلو۔ ﴿ وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے جہاد کرو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دو اور اپنی جان و مال کو کھپا دو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس طرح جان کے ساتھ جہاد فرض ہے، اسی طرح بوقت ضرورت مال کے ساتھ بھی جہاد فرض ہے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّـكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’یہ تمھارے حق میں اچھا ہے بشرطیکہ تمھیں علم ہو۔‘‘ یعنی گھر بیٹھ رہنے کی نسبت، جان و مال سے جہاد کرنا تمھارے لیے بہتر ہے کیونکہ جہاد میں اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات کا حصول، اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور اس کی فوج اور اس کے گروہ میں داخل ہونا ہے۔
#
{42} {لو كان}: خروجُهم لطلب عرض قريبٍ أو منفعةٍ دنيويَّة سهلة التناول. أو كان السفرُ {سفراً قاصداً}؛ أي: قريباً سهلاً {لاتَّبعوك}: لعدم المشقَّة الكثيرة، {ولكن بَعُدَتْ عليهم الشُّقَّةُ}؛ أي: طالت عليهم المسافة، وصعب عليهم السفر؛ فلذلك تثاقلوا عنك، وليس هذا من أمارات العبوديَّة، بل العبد حقيقةً المتعبِّدُ لربِّه في كلِّ حال، القائم بالعبادة السهلة والشاقَّة؛ فهذا العبد لله على كلِّ حال. {وسيحلفون بالله لو استطعنا لخرجنا معكم}؛ أي: سيحلفون أن تخلفهم عن الخروج أنَّ لهم عذراً، وأنهم لا يستطيعون ذلك، {يُهْلِكون أنفسَهم}: بالقعود والكذب والإخبار بغير الواقع. {والله يعلم إنَّهم لكاذبونَ}. وهذا العتاب إنما هو للمنافقين، الذين تخلَّفوا عن النبي - صلى الله عليه وسلم - في غزوة تبوك، وأبدوا من الأعذار الكاذبة ما أبدوا، فعفا النبي - صلى الله عليه وسلم - عنهم بمجرَّد اعتذارهم، من غير أن يمتَحِنهم فيتبيَّن له الصادق من الكاذب، ولهذا عاتبه الله على هذه المسارعة إلى عذرهم، فقال:
[42] ﴿ لَوْ كَانَ ﴾ ’’اگر ہوتا‘‘ ان کا گھروں سے نکلنا ﴿ عَرَضًا قَرِیْبًا﴾ ’’جلد حاصل ہوجانے والا سامان۔‘‘ یعنی دنیوی نفع (مال غنیمت) سہل الحصول ہوتا۔ ﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ ہوتا ﴿ سَفَرًا قَاصِدًا ﴾ ’’سفر ہلکا‘‘ قریب اور آسان۔ ﴿ لَّاتَّبَعُوْكَ ﴾ تو (زیادہ مشقت نہ ہونے کی وجہ سے) ضرور آپ کی پیروی کرتے۔ ﴿ وَلٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ﴾ ’’لیکن لمبی نظر آئی ان کو مشقت‘‘ یعنی مسافت بہت طویل تھی اور سفر پرصعوبت تھا، لہٰذا وہ آپ کے ساتھ جہاد میں شرکت چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ اور یہ عبودیت کی علامات نہیں ہیں ۔ بندہ درحقیقت ہر حال میں اپنے رب کا عبادت گزار ہے، عبادت خواہ مشکل ہو یا آسان وہ اپنے رب کی عبودیت کو قائم کرتا ہے۔ یہی بندہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ ﴿ وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ﴾ ’’اور اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو ضرور آپ کے ساتھ نکلتے۔‘‘ یعنی وہ جہاد کے لیے نہ نکلنے اور پیچھے رہ جانے پر قسمیں اٹھا کر کہیں گے کہ وہ معذور تھے اور وہ جہاد کے لیے نکلنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ ﴿ یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ﴾ ’’اپنے تئیں ہلاک کررہے ہیں ۔‘‘ یعنی جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے، جھوٹ بولنے اور خلاف واقع خبر دینے پر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَؔ ﴾ ’’اور اللہ جانتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں ۔‘‘یہ عتاب منافقین کے لیے ہے جو غزوۂ تبوک میں رسول اللہe کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہو کر پیچھے بیٹھ رہے اور مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کیے۔ رسول اللہe نے ان منافقین کو آزمائے بغیر کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے، ان کے محض معذرت پیش کرنے پر معاف فرما دیا، بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان منافقین کا عذر قبول کرنے کی جلدی پر آپ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔
آیت: 43 - 45 #
{عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ (43) لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (44) إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ (45)}.
معاف کردیا اللہ نے آپ کو، کیوں اجازت دی آپ نے ان کو؟ یہاں تک کہ ظاہر ہوجاتے آپ کے لیے وہ لوگ جو سچے تھے اورجان لیتے آپ جھوٹوں کو(43) نہیں اجازت مانگتے آپ سے وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اور یوم آخرت پر، اس سے کہ وہ جہاد کریں ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کےاوراللہ خوب جاننے والا ہے پرہیز گاروں کو(44)بے شک اجازت تو وہی مانگتے ہیں آپ سے جو نہیں ایمان رکھتے اللہ اور یوم آخرت پراور شک میں پڑے ہوئے ہیں ان کے دل، پس وہ اپنے شک میں پڑے تردد کررہے ہیں(45)
#
{43} يقول تعالى لرسوله - صلى الله عليه وسلم -: {عفا الله عنك}؛ أي: سامحك وغفر لك ما أجريت. {لم أذنتَ لهم}: في التخلُّف، {حتَّى يتبيَّن لك الذين صَدَقوا وتعلمَ الكاذبين}: بأن تمتَحِنهم ليتبيَّن لك الصادق من الكاذب، فتعذر من يستحقُّ العذر ممَّن لا يستحقُّ ذلك.
[43] ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ﴾ ’’اللہ نے آپ سے درگزر فرمایا‘‘ اور آپ سے جو کچھ صادر ہوا اسے بخش دیا۔ ﴿ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ ’’آپ نے (انھیں پیچھے رہ جانے کی) اجازت کیوں دی۔‘‘ ﴿ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’حتیٰ کہ آپ پر وہ لوگ ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی آپ کو معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کو آزمانے کے بعد معلوم ہوتا کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے، تب آپ اس شخص کا عذر قبول فرماتے جو اس کا مستحق ہے اور اس شخص کا عذر قبول نہ فرماتے جو اس کا مستحق نہیں ۔
#
{44} ثم أخبر أن المؤمنين بالله واليوم الآخر لا يستأذنون في ترك الجهاد بأموالهم وأنفسهم؛ لأن ما معهم من الرغبة في الخير والإيمان يحملهم على الجهاد من غير أن يحثَّهم عليه حاثٌّ فضلاً عن كونهم يستأذنون في تركِهِ من غير عذرٍ. {والله عليمٌ بالمتَّقين}: فيجازيهم على ما قاموا به من تقواه، ومن علمه بالمتَّقين أنه أخبر أنَّ من علاماتهم أنهم لا يستأذنون في ترك الجهاد.
[44] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اپنے جان و مال کے ذریعے سے جہاد ترک کرنے کی اجازت طلب نہیں کرتے۔ بلکہ بغیر کسی عذر کے جہاد ترک کرنے کی اجازت مانگنا تو کجا، بغیر کسی ترغیب کے، ایمان اور بھلائی میں ان کی رغبت انھیں جہاد پر آمادہ رکھتی ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ۠﴾ ’’اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے‘‘پس وہ انھیں اس بات کی جزا دے گا کہ انھوں نے تقویٰ کو قائم رکھا۔ متقین کے بارے میں یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے آگاہ فرمایا کہ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ جہاد چھوڑنے کی اجازت نہیں مانگتے۔
#
{45} {إنما يستأذنك الذين لا يؤمنون بالله واليوم الآخر وارتابتْ قلوبُهم}؛ أي: ليس لهم إيمانٌ تامٌّ ولا يقينٌ صادقٌ؛ فلذلك قلَّت رغبتُهم في الخير، وجبنوا عن القتال، واحتاجوا أن يستأذنوا في ترك القتال. {فهم في رَيْبِهم يتردَّدون}؛ أي: لا يزالون في الشكِّ والحيرة.
[45] ﴿اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ ﴾ ’’آپ سے رخصت تو صرف وہی مانگتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘ یعنی ان کے اندر ایمان کامل اور یقین صادق نہیں ہے اسی لیے بھلائی میں ان کی رغبت بہت کم ہے۔ قتال کے بارے میں وہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حاجت محسوس کرتے ہیں کہ وہ قتال ترک کرنے کی اجازت طلب کریں ۔ ﴿فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ﴾ ’’اور وہ اپنے شک میں متردد رہتے ہیں ۔‘‘
آیت: 46 - 48 #
{وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ (46) لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (47) لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (48)}.
اور اگر ارادہ کرتے وہ نکلنے کا تو ضرور تیار کرتے اس کے لیے کچھ سامان لیکن نہیں پسند کیا اللہ نے ان کے اٹھنے (جانے) کو، پس ان کو سست کردیا (روک دیا) اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو تم ساتھ بیٹھنے والوں کے(46) اگر وہ نکلتے تم میں (شامل ہوکر) تو نہ زیادہ کرتے تمھارے لیے مگر خرابی ہی ،اور البتہ دوڑاتے وہ (اپنے گھوڑے) تمھارے درمیان، تلاش کرتے ہوئے تمھارے اندر فتنہ اور تم میں(کچھ) جاسوس ہیں ان کے لیے اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو(47) البتہ تحقیق تلاش کیا تھا انھوں نے فتنہ اس سے پہلے بھی اور الٹ پلٹ کرتے رہے آپ کے لیے معاملات کو، یہاں تک کہ آگیا حق اور غالب ہوگیا حکم اللہ کا جبکہ وہ ناپسند کرنے والے تھے(48)
#
{46} يقول تعالى مبيِّناً أن المتخلِّفين من المنافقين قد ظهر منهم من القرائن ما يبيِّن أنهم ما قصدوا الخروج بالكُلِّية، وأنَّ أعذارهم التي اعتذروها باطلةٌ؛ فإنَّ العذر هو المانعُ الذي يمنع إذا بَذَلَ العبدُ وُسْعَه وسعى في أسباب الخروج ثم منعه مانعٌ شرعيٌّ؛ فهذا الذي يُعذر، {و} أما هؤلاء المنافقون، فلو {أرادوا الخروجَ لأعدُّوا له عُدَّةً}؛ أي: لاستعدُّوا وعملوا ما يمكنهم من الأسباب، ولكن لما لم يُعِدُّوا له عُدَّةً؛ علم أنهم ما أرادوا الخروج، {ولكن كَرِهَ الله انبعاثَهم}: معكم في الخروج للغزو، {فثبَّطهم}: قدراً وقضاءً وإن كان قد أمرهم وحثَّهم على الخروج وجعلهم مقتدرين عليه، ولكن بحكمتِهِ ما أراد إعانتهم، بل خَذَلهم وثبَّطهم، {وقيلَ اقعُدوا مع القاعِدينَ}: من النساء والمعذورين.
[46] اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتا ہے، جہاد سے جی چرا کر پیچھے رہ جانے والے منافقین کی علامات اور قرائن سے ظاہر ہوگیا ہے کہ جہاد کے لیے نکلنے کا ان کا ارادہ ہی نہ تھا اور ان کی وہ معذرتیں جو وہ پیش کر رہے ہیں سب باطل ہیں ۔ کیونکہ عذر جہاد کے لیے نکلنے سے تب مانع ہوتا ہے جب بندۂ مومن پوری کوشش کر کے جہاد کے لیے نکلنے کے تمام اسباب استعمال کرنے کی سعی کرتا ہے، پھر کسی شرعی مانع کی وجہ سے جہاد کے لیے نکل نہیں سکتا تو یہی وہ شخص ہے جس کا عذر قبول ہے۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ یہ منافقین ﴿ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً ﴾ ’’اگر نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے ضرور کچھ سامان تیار کرتے‘‘ یعنی وہ تیاری کرتے اور ایسے تمام اسباب عمل میں لاتے جو ان کے بس میں تھے۔ چونکہ انھوں نے اس کے لیے تیاری نہیں کی اس لیے معلوم ہوا کہ ان کا جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ ہی نہ تھا ﴿ وَّلٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ ﴾ ’’لیکن اللہ نے پسند نہیں کیا ان کا اٹھنا‘‘ یعنی ان کا جہاد کے لیے تمھارے ساتھ نکلنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوا ﴿فَثَ٘بَّطَهُمْ﴾ ’’سو روک دیا ان کو‘‘ اللہ تعالیٰ نے قضا و قدر کے ذریعے سے ان کو جہاد کے لیے نکلنے سے باز رکھا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا تھا اور اس کی ان کو ترغیب بھی دی اور وہ ایسا کرنے کی قدرت بھی رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کی بنا پر ان کی اعانت نہ فرمائی، اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور ان کو جہاد کے لیے نکلنے سے باز رکھا۔ ﴿ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ ﴾ ’’اور کہا گیا، بیٹھے رہو، بیٹھنے والوں کے ساتھ‘‘ یعنی عورتوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھ رہو۔
#
{47} ثم ذكر الحكمة في ذلك، فقال: {لو خَرَجوا فيكم ما زادوكم إلَّا خبالاً}؛ أي: نقصاً، {ولأوْضَعوا خِلالكم}؛ أي: ولسَعَوا في الفتنة والشرِّ بينكم وفرَّقوا جماعتكم المجتمعين. {يبغونَكُم الفتنةَ}؛ أي: هم حريصون على فتنتكم وإلقاء العداوة بينكم، {وفيكم}: أناسٌ ضعفاء العقول، {سمَّاعون لهم}؛ أي: مستجيبون لدعوتهم، يغترُّون بهم؛ فإذا كانوا حريصين على خذلانكم وإلقاء الشرِّ بينكم وتثبيطكم عن أعدائكم وفيكم مَنْ يَقْبَلُ منهم ويستنصِحُهم؛ فما ظنُّك بالشرِّ الحاصل من خروجِهم مع المؤمنين والنقص الكثير منهم؟! فللَّه أتمُّ الحكمة حيث ثبَّطهم، ومنعهم من الخروج مع عباده المؤمنين رحمةً بهم، ولطفاً من أن يُداخِلَهم ما لا ينفعهم بل يضرُّهم. {والله عليمٌ بالظالمين}: فيُعلِّم عبادَه كيف يحذرونهم، ويبيِّن لهم من المفاسد الناشئة من مخالطتهم.
[47] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْؔكُمْ اِلَّا خَبَالًا ﴾ ’’اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے نقصان ہی میں اضافہ کرتے‘‘ (خَبالًا) یعنی ’’نقصان‘‘ ﴿ وَّ لَاۡؔاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ ﴾ ’’اور گھوڑے دوڑاتے تمھارے درمیان‘‘ یعنی تمھارے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے اور تمھاری متحد جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے۔ ﴿ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ ﴾ ’’بگاڑ کرانے کی تلاش میں ‘‘ یعنی وہ تمھارے درمیان فتنہ برپا کرنے اور عداوت پیدا کرنے کے بہت حریص ہیں ۔ ﴿ وَفِیْكُمْ ﴾ ’’اور تمھارے اندر‘‘ ضعیف العقل لوگ موجود ہیں ۔ جو ﴿ سَمّٰؔعُوْنَ لَهُمْ ﴾ ’’جاسوسی کرتے ہیں ان کے لیے‘‘ یعنی ان کے دھوکے میں آکر ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں ۔ پس جب وہ تمھیں تنہا چھوڑ دینے، تمھارے درمیان فتنہ ڈالنے اور تمھیں تمھارے دشمنوں کے خلاف لڑنے سے باز رکھنے کے بہت حریص ہیں اور تم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کی بات کو قبول کرتے ہیں اور ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں ۔ تو کیا آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اگر وہ جہاد کے لیے اہل ایمان کے ساتھ نکلتے تو انھیں کتنا زیادہ نقصان پہنچتا؟ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کتنی کامل ہے کہ اس نے ان کو اس سے باز رکھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے ان کے ساتھ جہاد کے لیے نکلنے سے ان کو روک دیا تاکہ وہ ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں جس سے ان کو کوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان پہنچتا۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢؔ بِالظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ پس وہ اپنے بندوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ کیسے ان کی فتنہ پردازی سے بچیں ، نیز وہ ان مفاسد کو واضح کرتا ہے جو ان کے ساتھ میل جول سے پیدا ہوتے ہیں ۔
#
{48} ثم ذكر أنه قد سبق لهم سوابق في الشرِّ، فقال: {لقد ابتَغَوُا الفتنة من قبلُ}؛ أي: حين هاجرتم إلى المدينة، بذلوا الجهد، {وقَلَّبوا لك الأمورَ}؛ أي: أداروا الأفكار، وأعملوا الحيل في إبطال دعوتِكم وخِذْلانِ دينِكم، ولم يُقَصِّروا في ذلك. {حتى جاء الحقُّ وظهر أمرُ الله وهم كارهون}: فبَطَلَ كيدُهم، واضمحلَّ باطلُهم؛ فحقيقٌ بمثلِ هؤلاء أن يحذِّر الله عبادَه المؤمنين منهم، وأن لا يبالي المؤمنونَ بتخلُّفهم عنهم.
[48] نیز اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ پہلے بھی ان کی شر انگیزی ظاہر ہو چکی ہے۔ ﴿ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’وہ اس سے پہلے بھی بگاڑ تلاش کرتے رہے ہیں ‘‘ یعنی جب تم لوگوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت بھی انھوں نے فتنہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ ﴿ وَقَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ ﴾ ’’اور الٹتے رہے ہیں آپ کے کام‘‘ یعنی انھوں نے افکار کو الٹ پلٹ کر ڈالا، تمھاری دعوت کو ناکام کرنے اور تمھیں تنہا کرنے کے لیے حیلہ سازیاں کیں اور اس میں انھوں نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔ ﴿ حَتّٰى جَآءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ اَمْرُ اللّٰهِ وَهُمْ كٰرِهُوْنَ ﴾ ’’یہاں تک کہ حق آ گیا اور اللہ کا حکم غالب ہو گیا اور وہ ناخوش تھے‘‘ پس ان کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور ان کا باطل مضمحل ہوگیا۔ سو اس قسم کے لوگ اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان سے بچنے کی تلقین کرے اور اہل ایمان ان کے پیچھے رہ جانے کی پروا نہ کریں ۔
آیت: 49 #
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (49)}.
اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں، اجازت دیجیے مجھے اورنہ فتنے میں ڈالیں مجھے۔ آگاہ رہو! فتنے میں تو وہ گر چکے ہیں اور بے شک جہنم یقینا گھیرنے والی ہے کافروں کو(49)
#
{49} أي: ومن هؤلاء المنافقين من يستأذن في التخلُّف ويعتذر بعذرٍ آخر عجيب، فيقول: {ائذن لي}: في التخلُّف، {ولا تَفْتِنِّي}: في الخروج؛ فإني إذا خرجت فرأيت نساء بني الأصفر لا أصبر عنهن؛ كما قال ذلك الجدُّ بن قيس، ومقصوده قبَّحه الله الرياء والنفاق؛ بأن مقصودي مقصودٌ حسن؛ فإنَّ في خروجي فتنةً، وتعرضاً للشرِّ، وفي عدم خروجي عافيةً وكفًّا عن الشرِّ. قال الله تعالى مبيِّناً كذب هذا القول: {ألا في الفتنةِ سَقَطوا}: فإنه على تقدير صدق هذا القائل في قصدِهِ؛ في التخلُّف مفسدةٌ كبرى وفتنةٌ عظمى محقَّقة، وهي معصية الله ومعصية رسوله والتجرِّي على الإثم الكبير والوزر العظيم، وأما الخروجُ؛ فمفسدةٌ قليلة بالنسبة للتخلُّف، وهي متوهَّمة، مع أنَّ هذا القائل قصده التخلُّف لا غير، ولهذا توعَّدهم الله بقوله: {وإنَّ جهنَّم لمحيطةٌ بالكافرين}: ليس لهم عنها مَفَرٌّ ولا مناصٌ ولا فكاكٌ ولا خلاصٌ.
[49] اور ان منافقین میں کچھ وہ بھی تھے جو جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگتے تھے اور عجیب و غریب قسم کے عذر پیش کرتے تھے۔ کوئی یہ کہتا تھا ﴿ ائْذَنْ لِّیْ﴾ ’’مجھے (پیچھے رہنے کی) اجازت دیجیے۔‘‘ ﴿ وَلَا تَفْتِنِّیْ﴾ ’’اور مجھے (گھر سے نکلنے کے باعث) فتنے میں نہ ڈالیے۔‘‘ کیونکہ جب میں بنی اصفر (رومیوں ) کی عورتوں کو دیکھوں گا تو صبر نہیں کر سکوں گا۔ جیسا کہ جدبن قیس نے کہا تھا.... اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے اس کا مقصد محض ریا اور نفاق تھا اور وہ اپنی زبان سے ظاہر کرتا تھا کہ اس کا مقصد اچھا ہے اور جہاد میں نکلنے سے وہ فتنہ اور شر میں مبتلا ہو جائے گا اور اگر وہ جہاد کے لیے نہ جائے تو عافیت میں ہوگا اور فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے فرمایا ﴿ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا﴾ ’’خبردار، وہ تو گمراہی میں پڑ چکے‘‘ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ قائل اپنے قصد میں سچا ہے، تب بھی پیچھے رہ جانے میں بہت بڑے مفاسد اور عظیم فتنہ متحقق ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی، کبیرہ گناہ کے ارتکاب اور اس کے بہت بڑے بوجھ کو اٹھانے کی جسارت۔ رہا جہاد کے لیے نکلنا تو جہاد کے لیے نکلنے میں نہ نکلنے کی نسبت بہت تھوڑے مفاسد ہیں اور وہ بھی محض متوہم ہیں ۔ بایں ہمہ اس قائل کا مقصد پیچھے رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’بے شک جہنم گھیر رہی ہے کافروں کو‘‘ جہنم سے بھاگ کر ان کے لیے کوئی جائے پناہ اور کوئی مفر نہیں ، جہنم سے ان کے لیے گلو خلاصی ہے نہ نجات۔
آیت: 50 - 51 #
{إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ (50) قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (51)}.
اگر پہنچتی ہے آپ کو بھلائی تو بری لگتی ہے ان کواور اگر پہنچتی ہے آپ کو کوئی مصیبت تو کہتے ہیں وہ تحقیق ہم نے تو اختیار کر لی تھی (احتیاط) اپنے معاملے میں پہلے ہی اور پھرتے ہیں وہ شاداں و فرحاں(50) کہہ دیجیے! ہرگز نہیں پہنچے گا ہمیں مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لیے، وہی ہے کار ساز ہمارااور اوپر اللہ ہی کے پس چاہیے کہ بھروسہ کریں مومن(51)
#
{50} يقول تعالى مبيناً أن المنافقين هم الأعداء حقًّا المبغضون للدين صرفاً: {إن تُصِبْكَ حسنةٌ}: كنصر وإدالة على العدو {تَسُؤْهم}؛ أي: تحزنهم وتغمهم، {وإن تُصِبْكَ مصيبةٌ}: كإدالة العدو عليك {يقولوا}: متبجِّحين بسلامتهم من الحضور معك: {قد أخَذْنا أمرنا من قبلُ}؛ أي: قد حذرنا وعملنا بما يُنجينا من الوقوع في مثل هذه المصيبة، {ويتولَّوْا وهم فرحون}: بمصيبتك وبعدم مشاركتهم إياك فيها.
[50] اللہ تبارک و تعالیٰ، منافقین کے بارے میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ وہی حقیقی دشمن اور اسلام کے خلاف بغض رکھنے والے ہیں ..... فرماتا ہے ﴿ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ ﴾ ’’اگر پہنچے آپ کو کوئی بھلائی‘‘مثلاً: فتح و نصرت اور دشمن کے خلاف آپ کی کامیابی ﴿ تَسُؤْهُمْ ﴾ ’’تو ان کو بری لگتی ہے۔‘‘ یعنی ان کو غمزدہ کر دیتی ہے ﴿ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ ﴾ ’’اور اگر آپ کو پہنچے کوئی مصیبت‘‘مثلاً: آپ کے خلاف دشمن کی کامیابی ﴿ یَّقُوْلُوْا ﴾ ’’تو کہتے ہیں ۔‘‘ آپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے سلامت رہنے کی بنا پر نہایت فخر سے کہتے ہیں ﴿ قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ ﴾ ہم نے اس سے پہلے اپنا بچاؤ کر لیا تھا اور ہم نے ایسا رویہ رکھا جس کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گئے ﴿ وَیَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ ﴾ ’’اور پھر کر جائیں وہ خوشیاں کرتے ہوئے‘‘ یعنی وہ آپ کی مصیبت اور آپ کے ساتھ اس میں عدم مشارکت پر خوش ہوتے ہیں ۔
#
{51} قال تعالى رادًّا عليهم في ذلك: {قل لن يُصيَبنا إلَّا ما كَتَبَ الله لنا}؛ أي: قدَّره وأجراه في اللوح المحفوظ. {هو مولانا}؛ أي: متولي أمورنا الدينيَّة والدنيويَّة؛ فعلينا الرِّضا بأقداره، وليس في أيدينا من الأمر شيء. {وعلى الله}: وحده {فليتوكَّل المؤمنون}؛ أي: يعتمدوا عليه في جلب مصالحهم ودفع المضارِّ عنهم ويثقوا به في تحصيل مطلوبهم؛ فلا خاب من توكَّل عليه، وأما من توكَّل على غيره؛ فإنه مخذول غير مدرك لما أمل.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس قول کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ ﴿ قُ٘لْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا﴾ ’’کہہ دیجیے! ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے‘‘ یعنی جو کچھ اس نے مقدر کر کے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ ﴿ هُوَ مَوْلٰىنَا﴾ ’’وہی ہمارا کارساز ہے۔‘‘ یعنی وہ ہمارے تمام دینی اور دنیاوی امور کا سرپرست ہے پس ہم پر اس کی قضا و قدر پر راضی رہنا فرض ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ پر‘‘ یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ ہی پر ﴿ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’مومنوں کو توکل کرنا چاہیے۔‘‘ یعنی اہل ایمان کو اپنے مصالح کے حصول اور ضرر کو دور کرنے کے لیے اعتماد اور اپنے مطلوب و مقصود کی تحصیل کی خاطر اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا اور جو غیروں پر تکیہ کرتا ہے تو وہ ایک تو بے یارومددگار رہے گا، دوسرے اپنی امیدوں کے حصول میں ناکام رہے گا۔
آیت: 52 #
{قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ (52)}.
کہہ دیجیے! نہیں انتظار کرتے تم ہمارے معاملے میں مگر ایک کا دو بھلائیوں میں سے اور ہم انتظار کرتے ہیں تمھارے حق میں یہ کہ پہنچائے تمھیں اللہ عذاب اپنے پاس سے یا ہمارے ہاتھوں سے، پس انتظار کرو تم، بلاشبہ ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں(52)
#
{52} أي: قل للمنافقين الذين يتربَّصون بكم الدوائر: أيَّ شيء تربَّصون بنا؟ فإنكم لا تربَّصون بنا إلا أمراً فيه غاية نفعنا، وهو إحدى الحسنيين: إما الظَّفَر بالأعداء والنصر عليهم ونيل الثواب الأخروي والدنيوي، وإما الشهادة التي هي من أعلى درجات الخَلْق وأرفع المنازل عند الله. وأما تربُّصنا بكم يا معشر المنافقين؛ فنحن {نتربَّص بكم أن يصيبَكم الله بعذابٍ من عنده} لا سبب لنا فيه {أو بأيدينا}؛ بأن يسلِّطنا عليكم فنقتلكم، {فتربَّصوا}: بنا الخير، {إنا معكم متربِّصون}: بكم الشرَّ.
[52] آپ ان منافقین سے کہہ دیجیے جو تم لوگوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں ’’تم ہمارے بارے میں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ تم ہمارے بارے میں ایسی چیز کا انتظار کر رہے ہو جو مآل کار ہمارے لیے فائدہ مند ہے اور وہ ہے دو میں سے ایک بھلائی۔‘‘ (۱) دشمنوں پر فتح و نصرت اور اخروی اور دنیاوی ثواب کا حصول۔ (۲) شہادت، جو مخلوق کے لیے سب سے اعلیٰ درجہ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے ارفع مقام ہے۔ اور اے گروہ منافقین! ہم جو تمھارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے توسط کے بغیر تمھیں عذاب دے گا یا ہمیں تم پر مسلط کر کے ہمارے ذریعے سے تمھیں عذاب میں مبتلا کرے گا، پس ہم تمھیں قتل کریں گے۔ ﴿فَتَرَبَّصُوْۤا ﴾ ’’پس تم منتظر رہو۔‘‘ پس تم ہمارے بارے میں بھلائی کے منتظر رہو ﴿ اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۠ ﴾ ’’ہم تمھارے بارے میں (برائی کے) منتظر ہیں۔‘‘
آیت: 53 - 54 #
{قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (53) وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ (54)}.
کہہ دیجیے! خرچ کرو تم، خوشی سے یا نا خوشی سے، ہر گز نہیں قبول کیا جائے گا تم سے کیونکہ تم ہو قوم نافرمان(53) اور نہیں مانع ہوا ان کے، یہ کہ قبول کیے جائیں ان سے ان کے صدقات مگر یہ (امر کہ) بلاشبہ کفر کیا انھوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ اورنہیں آتے وہ نماز کو مگر اس حال میں کہ وہ سست ہوتے ہیں اور نہیں خرچ کرتے وہ مگر ناگواری کے ساتھ(54)
#
{53} يقول تعالى مبيِّناً بطلان نفقات المنافقين وذاكراً السبب في ذلك، {قل} لهم: {أنفقوا طوعاً}: من أنفسكم، {أو كرهاً}: على ذلك بغير اختياركم. {لن يُتَقَبَّل منكم}: شيء من أعمالكم، لأنّكم {كنتم قوماً فاسقين}: خارجين عن طاعة الله.
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے صدقات کے بطلان اور اس کے سبب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ قُ٘لْ ﴾ ان سے کہہ دیجیے ﴿ اَنْفِقُوْا طَوْعًا ﴾ ’’خوشی سے خرچ کرو۔‘‘ یعنی بطیب خاطر خرچ کرو ﴿ اَوْ كَرْهًا ﴾ ’’یا ناخوشی سے‘‘ یا اپنے اختیار کے بغیر ناگواری کے ساتھ خرچ کرو۔ ﴿ لَّ٘نْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ﴾ ’’تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ تمھارے کسی عمل کو قبول نہیں کرے گا۔ ﴿اِنَّـكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’اس لیے کہ تم نافرمان لوگ ہو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے لوگ ہو۔
#
{54} ثم بيَّن صفة فسقهم وأعمالهم [فقال]: {وما مَنَعَهم أن تُقْبَلَ منهم نفقاتُهم إلَّا أنَّهم كفروا بالله وبرسوله}: والأعمال كلُّها شرطُ قبولها الإيمان؛ فهؤلاء لا إيمان لهم ولا عمل صالح، حتى إنَّ الصلاة التي هي أفضل أعمال البدن إذا قاموا إليها قاموا كسالى؛ قال: {ولا يأتون الصلاة إلَّا وهم كُسالى}؛ أي: متثاقلون لا يكادون يفعلونها من ثقلها عليهم. {ولا يُنفقون إلا وهم كارهونَ}: من غير انشراح صدر وثبات نفس؛ ففي هذا غاية الذمِّ لمن فعل مثل فعلهم، وأنه ينبغي للعبد أن لا يأتي الصلاة إلا وهو نشيطُ البدن والقلب إليها، ولا ينفق إلا وهو منشرح الصدر ثابت القلب يرجو ذُخرها وثوابها من الله وحده، ولا يتشبَّه بالمنافقين.
[54] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے فسق اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَبِرَسُوْلِهٖ٘ ﴾ ’’اور نہیں موقوف ہوا ان کے خرچ کا قبول ہونا مگر اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا۔‘‘ایمان، تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے اور یہ لوگ ایمان اور عمل صالح سے محروم لوگ ہیں حتیٰ کہ ان کی حالت تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ نماز.... جو کہ افضل ترین بدنی عبادت ہے.... پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی یہ حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى ﴾ ’’اور نماز کو آتے ہیں تو سست و کاہل ہوکر۔‘‘ یعنی نماز کے لیے بوجھل پن کے ساتھ اٹھتے ہیں چونکہ نماز ان پر گراں گزرتی ہے، اس لیے نماز پڑھنا ان کے لیے بہت ہی مشکل ہے۔ ﴿ وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ ﴾ ’’اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔‘‘ یعنی وہ انشراح صدر اور ثبات نفس کے بغیر خرچ کرتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی مذمت کی انتہا ہے جو ان جیسے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ بندے کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ نماز کے لیے آئے تو نشاط بدن اور نشاط قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے تو انشراح صدر اور ثبات قلب کے ساتھ خرچ کرے اور امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے اور صرف اسی سے ثواب کی امید رکھے اور منافقین کی مشابہت اختیار نہ کرے۔
آیت: 55 - 57 #
{فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (55) وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ (56) لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (57)}.
پس نہ حیرت میں ڈالیں آپ کو ان کے مال اورنہ ان کی اولاد، یقینا ارادہ کرتا ہے اللہ کہ عذاب دے ان کو ان کی وجہ سے دنیا کی زندگی ہی میں اور نکلیں ان کی جانیں، اس حال میں کہ وہ کافر ہوں(55) اور قسمیں کھاتے ہیں وہ اللہ کی کہ بے شک وہ تم ہی میں سے ہیں، حالانکہ نہیں ہیں وہ تم میں سے لیکن وہ تو ایسے لوگ ہیں کہ ڈرتے ہیں(56) اگر پائیں وہ کوئی جائے پناہ یا غاریں یا کوئی اور گھس بیٹھنے کی جگہ تو ضرور بھاگ جائیں وہ اس کی طرف رسیاں تڑاتے ہوئے(57)
#
{55} يقول تعالى: فلا تعجبْك أموالُ هؤلاء المنافقين ولا أولادُهم؛ فإنه لا غبطة فيها، وأول بركاتها عليهم أن قدَّموها على مراضي ربِّهم وعصوا الله لأجلها. {إنَّما يريد الله ليعذِّبَهم بها في الحياة الدُّنيا}: والمراد بالعذاب هنا ما ينالهم من المشقَّة في تحصيلها والسعي الشديد في ذلك وهمِّ القلب فيها وتعب البدن؛ فلو قابلت لَذَّاتهم فيها بمشقَّاتهم؛ لم يكن لها نسبة إليها؛ فهي لَمَّا ألهتهم عن الله وذكره؛ صارت وبالاً عليهم حتى في الدنيا، ومن وبالها العظيم الخطر أنَّ قلوبهم تتعلَّق بها وإراداتهم لا تتعداها، فتكون منتهى مطلوبِهم وغاية مرغوبِهم، ولا يبقى في قلوبهم للآخرة نصيبٌ، فيوجب ذلك أن ينتقلوا من الدنيا، {وَتَزْهَقَ أنفسُهُم وهم كافرون}؛ فأي عقوبة أعظم من هذه العقوبة الموجبة للشَّقاء الدائم والحسرة الملازمة؟!
[55] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کا مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے کیونکہ یہ کوئی قابل رشک بات نہیں ۔ مال اور اولاد کی ایک ’’برکت‘‘ ان پر یہ ہوئی کہ انھوں نے اس مال اور اولاد کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی اور اس کی خاطر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا، فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’اللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے۔‘‘ یہاں عذاب سے مراد وہ مشقت اور کوشش ہے جو اسے حاصل کرنے میں انھیں برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس میں دل کی تنگی اور بدن کی مشقت ہے۔ اگر آپ اس مال کے اندر موجود ان کی لذات کا مقابلہ اس کی مشقتوں سے کریں تو ان لذتوں کی ان مشقتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں اور ان لذات نے چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کر دیا ہے اس لیے یہ ان کے لیے اس دنیا میں بھی وبال ہیں ۔ ان کا سب سے بڑا وبال یہ ہے کہ ان کا دل انھی لذات میں مگن رہتا ہے اور ان کے ارادے ان لذات سے آگے نہیں بڑھتے، یہ لذات ان کی منتہائے مطلوب اور ان کی مرغوبات ہیں ، ان کے قلب میں آخرت کے لیے کوئی جگہ نہیں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اس حالت میں جائیں ﴿ وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور جب ان کی جان نکلے تو وہ کافر ہی ہوں ۔‘‘ یعنی اس حالت میں ان کی جان نکلے کہ ان کا رویہ انکار حق ہو۔ تب اس عذاب سے بڑھ کر کون سا عذاب ہے جو دائمی بدبختی اور کبھی دور نہ ہونے والی حسرت کا موجب ہے؟
#
{56} {ويحلفون بالله إنَّهم لمنكم وما هم منكم ولكنهم}: قصدهم في حلفهم هذا أنهم {قومٌ يَفْرَقون}؛ أي: يخافون الدوائر، وليس في قلوبهم شجاعة تحملهم على أن يبيِّنوا أحوالهم، فيخافون إن أظهروا حالهم منكم ويخافون أن تتبرَّؤوا منهم فيتخطَّفهم الأعداء من كل جانب، وأما حال قويِّ القلب ثابت الجنان؛ فإنه يحمله ذلك على بيان حاله حسنةً كانت أو سيئةً، ولكن المنافقين خُلِعَ عليهم خِلْعةُ الجبن، وحُلُّوا بحِلْيَةِ الكذب.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ١ؕ وَمَا هُمْ مِّنْكُمْ ﴾ ’’اور وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ وہ بے شک تم میں سے ہیں ، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ‘‘ ان کی قسمیں اٹھانے میں ان کا مقصد یہ ہے ﴿ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ ﴾ ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو (تم سے) خوفزدہ ہیں ‘‘یعنی وہ گردش ایام سے خائف ہیں اور ان کے دل ایسی شجاعت سے محروم ہیں جو ان کو اپنے احوال بیان کرنے پر آمادہ کرے۔ وہ اس بات سے خائف ہیں کہ اگر انھوں نے اپنا حال ظاہر کر دیا اور کفار سے براء ت کا اظہار کر دیا تو ہر طرف سے لوگ ان کو اچک لیں گے۔ رہا وہ شخص جو دل کا مضبوط اور مستقل مزاج ہے تو یہ صفات اسے اپنا حال... خواہ وہ اچھا ہو یا برا.... بیان کرنے پر آمادہ رکھتی ہیں ۔ مگر اس کے برعکس منافقین کو بزدلی کی خلعت اور جھوٹ کا زیور پہنا دیا گیا ہے۔
#
{57} ثم ذكر شدَّة جبنهم، فقال: {لو يجدون ملجأ}: يلجؤون إليه عندما تنزل بهم الشدائد، {أو مغاراتٍ}: يدخلونها فيستقرُّون فيها، {أو مدخلاً}؛ أي: محلاًّ يدخلونه فيتحصَّنون فيه، {لَوَلَّوا إليه وهم يَجْمحون}؛ أي: يسرعون ويُهْرَعون؛ فليس لهم مَلَكة يقتدرون بها على الثبات.
[57] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بزدلی کی شدت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً ﴾ ’’اگر وہ کوئی پناہ گاہ پا لیں ‘‘ تو جس وقت ان پر مصائب نازل ہوں تو یہ اس میں پناہ لے لیں ﴿ اَوْ مَغٰرٰتٍ ﴾ ’’یا کوئی غار‘‘ جس میں یہ داخل ہو کر اسے اپنا ٹھکانا بنا لیں ﴿ اَوْ مُدَّخَلًا﴾ ’’یا سرگھسانے کی جگہ‘‘ یعنی انھیں ایسی جگہ مل جائے جہاں یہ گھس بیٹھیں اور اس طرح اپنے آپ کو محفوظ کر لیں ﴿ لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَهُمْ یَجْمَحُوْنَ ﴾ ’’تو الٹے بھاگیں گے اسی طرف رسیاں تڑاتے‘‘ یعنی اس کی طرف تیزی سے بھاگیں گے۔ پس یہ ایسے ملکہ سے محروم ہیں جس کے ذریعے سے وہ ثابت قدمی پر قادر ہوں ۔
آیت: 58 - 59 #
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (58) وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ (59)}.
اور بعض ان میں سے وہ ہیں کہ طعن کرتے ہیں آپ پر صدقات میں سوا گر دیے جائیں اس میں سے تو راضی ہوتے ہیں اور اگر نہ دیے جائیں وہ اس میں سے تو جھٹ ناراض ہوجاتے ہیں(58) اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ راضی ہوتے اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اوراس کے رسول نے اور کہتے کافی ہے ہمارے لیے اللہ، عنقریب دے گا ہمیں اللہ اپنے فضل سے اوراس کا رسول بھی، بے شک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت کرنے والے ہیں(59)
#
{58} أي: ومن هؤلاء المنافقين مَن يَعيبك في قسمة الصَّدقات وينتقد عليك فيها، وليس انتقادُهم فيها وعيبُهم لقصدٍ صحيح ولا لرأي رجيح، وإنَّما مقصودُهم أن يُعْطَوا منها. {فإنْ أُعْطوا منها رَضُوا وإن لم يُعْطَوْا منها إذا هم يسخطونَ}: وهذه حالةٌ لا تنبغي للعبد أن يكون رضاه وغضبه تابعاً لهوى نفسه الدنيويِّ وغرضه الفاسد، بل الذي ينبغي أن يكون [هواه تبعاً] لمرضاة ربِّه؛ كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «لا يؤمن أحدُكم حتَّى يكون هواهُ تَبَعاً لما جئت به».
[58] یعنی ان منافقین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صدقات کی تقسیم میں آپ کی عیب جوئی اور اس بارے میں آپ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی تنقید اور نکتہ چینی کسی صحیح مقصد کی خاطر اور کسی راجح رائے کی بنا پر نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ انھیں بھی کچھ عطا کیا جائے۔ ﴿ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ ﴾ ’’پس اگر اس میں سے ان کو دیا جائے تو راضی ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے ان کو تو جب ہی وہ ناخوش ہو جاتے ہیں ۔‘‘حالانکہ بندے کے لیے مناسب نہیں کہ اس کی رضا اور ناراضی، دنیاوی خواہش نفس اور کسی فاسد غرض کے تابع ہو بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اپنے رب کی رضا کے تابع ہوں جیسا کہ نبیe نے فرمایا: ’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ‘ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوں جو میں لے کر آیا ہوں ۔‘‘( شرح السنۃ، حدیث: 104)
#
{59} وقال هنا: {ولو أنَّهم رَضوا ما آتاهم الله ورسولُه}؛ أي: أعطاهم من قليل وكثيرٍ، {وقالوا حسبُنا الله}؛ أي: كافينا الله فنرضى بما قَسَمه لنا، وليؤملوا فضله وإحسانه إليهم بأن يقولوا: {سيؤتينا الله من فضلِهِ ورسولُهُ إنَّا إلى الله راغبون}؛ أي: متضرِّعون في جلب منافعنا ودفع مضارِّنا؛ [لسلموا من النفاق، ولهدوا إلى الإيمانِ والأحوالِ العاليةِ].
[59] یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ﴾ ’’اگر وہ راضی ہوتے اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اور اس کے رسول نے‘‘ یعنی انھیں کم یا زیادہ جو کچھ بھی دیا ہے ﴿ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ ﴾ ’’اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے‘‘ اور اس نے جو کچھ ہماری قسمت میں رکھا ہے ہم اس پر راضی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی امید رکھیں ﴿ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ وَرَسُوْلُهٗۤ١ۙ اِنَّـاۤ٘ اِلَى اللّٰهِ رٰؔغِبُوْنَ ﴾ ’’وہ اللہ دے گا ہم کو اپنے فضل سے اور اس کا رسول، بے شک ہم تو اللہ ہی کی طرف رغبت رکھتے ہیں ‘‘ یعنی اپنی منفعتوں کے حصول اور نقصانات سے بچنے کے لیے نہایت عاجزی سے اس سے دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صدقات واجبہ کی تقسیم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 60 #
{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (60)}.
بے شک زکاۃ تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور ان اہل کاروں کے لیے ہے جو اس (کی وصولی) پر مقرر ہیں اوران کے لیے جن کی تالیف قلب منظور ہے اور (خرچ کرنا ہے) گردنیں (چھڑانے) میں اور تاوان(اور قرض) ادا کرنے والوں میں اوراللہ کی راہ اور مسافروں میں، (یہ) فریضہ ہے اللہ کی طرف سےاور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے(60)
#
{60} يقول تعالى: {إنَّما الصدقات}؛ أي: الزكوات الواجبة، بدليل أن الصَّدقة المستحبَّة لكل أحدٍ لا يخصُّ بها أحدٌ دون أحدٍ؛ [أي]: {إنَّما الصَّدقات}: لهؤلاء المذكورين دون مَنْ عداهم؛ لأنه حصرها فيهم، وهم ثمانية أصناف: الأول والثاني: الفقراء والمساكين، وهم في هذا الموضع صنفان متفاوتان؛ فالفقير أشدُّ حاجةً من المسكين؛ لأنَّ الله بدأ بهم، ولا يُبدأ إلا بالأهمِّ فالأهمِّ؛ فَفُسِّرَ الفقير بأنه الذي لا يجد شيئاً أو يجد بعض كفايته دون نصفها، والمسكين الذي يجد نصفها فأكثر، ولا يجد تمام كفايته؛ لأنَه لو وجدها؛ لكان غنيًّا، فيعطَون من الزكاة ما يزول به فقرهم ومسكنتهم. والثالث: العاملون على الزكاة، وهم كلُّ من له عملٌ وشغل فيها من حافظٍ لها و جابٍ لها من أهلها أو راعٍ أو حاملٍ لها أو كاتبٍ أو نحو ذلك، فيعطَوْن لأجل عمالتهم، وهي أجرة لأعمالهم فيها. والرابع: المؤلَّفة قلوبهم، والمؤلَّف قلبُه هو السيد المطاع في قومه ممَّن يُرجَى إسلامه أو يُخشى شرُّه أو يُرجى بعطيَّته قوة إيمانه أو إسلام نظيرِهِ أو جبايتها ممَّن لا يعطيها، فيُعطى ما يحصُلُ به التأليف والمصلحة. الخامس: الرقاب، وهم المكاتَبون الذين قد اشتروا أنفسَهم من ساداتهم؛ فهم يسعَوْن في تحصيل ما يفكُّ رقابَهم، فيعانون على ذلك من الزكاة. وفكُّ الرقبة المسلمة التي في حبس الكفار داخلٌ في هذا، بل أولى. ويدخل في هذا أنَّه يجوز أن يعتق [منها] الرقاب استقلالاً؛ لدخوله في قوله: {وفي الرِّقاب}. السادس: الغارمون، وهم قسمان: أحدهما: الغارمون لإصلاح ذات البين، وهو أن يكون بين طائفتين من الناس شرٌّ وفتنةٌ، فيتوسط الرجل للإصلاح بينهم بمال يبذُلُه لأحدهم أو لهم كلّهم، فُجِعلَ له نصيبٌ من الزكاة؛ ليكون أنشط له وأقوى لعزمِهِ، فيُعْطى ولو كان غنيًّا. والثاني: من غَرِمَ لنفسه ثم أعسر؛ فإنَّه يُعطى ما يُوفي به دينَه. والسابع: الغازي في سبيل الله، وهم الغزاة المتطوِّعة الذين لا ديوان لهم، فيُعْطَوْن من الزكاة ما يُعينهم على غزوهم من ثمن سلاح أو دابَّةٍ أو نفقة له ولعياله؛ ليتوفَّر على الجهاد ويطمئنَّ قلبُه، وقال كثير من الفقهاء: إن تفرَّغ القادر على الكسب لطلب العلم؛ أعطي من الزكاة؛ لأنَّ العلم داخلٌ في الجهاد في سبيل الله. وقالوا أيضاً: يجوز أن يُعطى منها الفقير لحجِّ فرضِهِ. وفيه نظر. والثامن: ابن السبيل، وهو الغريب المنقطَعُ به في غير بلده، فيُعطى من الزكاة ما يوصله إلى بلده. فهؤلاء الأصناف الثمانية الذين تُدفع إليهم الزكاة وحدهم. {فريضةً من الله}: فرضها وقدَّرها تابعةً لعلمه وحكمه، {والله عليمٌ حكيمٌ}. واعلم أن هذه الأصناف الثمانية ترجع إلى أمرين: أحدهما: مَنْ يُعطى لحاجته ونفعه؛ كالفقير والمسكين ونحوهما. والثاني: من يعطى للحاجة إليه وانتفاع الإسلام به. فأوجب الله هذه الحصَّة في أموال الأغنياء لسدِّ الحاجات الخاصَّة والعامَّة للإسلام والمسلمين، فلو أعطى الأغنياء زكاة أموالهم على الوجه الشرعيِّ؛ لم يبقَ فقيرٌ من المسلمين، ولحصلَ من الأموال ما يسدُّ الثغور، ويجاهَدُ به الكفارُ، وتحصُلُ به جميع المصالح الدينية.
[60] ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ ﴾ ’’صدقات و خیرات‘‘ یعنی زکاۃ واجب... اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مستحب صدقات ہر ایک شخص کو دیے جا سکتے ہیں ، ان صدقات کو خرچ کرنے کے لیے کسی کو مختص نہیں کیا گیا۔ جبکہ صدقات واجبہ صرف ان لوگوں پر خرچ کیے جائیں جن کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صدقات کے مصرف کو صرف انھی لوگوں میں محدود رکھا ہے۔ ان کی آٹھ اصناف ہیں ۔ (۱، ۲) فقراء و مساکین، اس مقام پر یہ دو الگ اقسام ہیں جن میں تفاوت ہے، فقیر مسکین سے زیادہ ضرورت مند ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اصناف کے ذکر کی ابتداء ’’فقیر‘‘ سے کی ہے اور ابتداء کا طریقہ یہی ہے کہ پہلے سب سے اہم چیز کا، پھر اس سے کم تر مگر دوسروں سے اہم تر کا بیان ہوتا ہے۔ فقیر کی یہ تفسیر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس سے کفایت ہو سکتی ہو اس کے پاس اس کے نصف سے بھی کم ہو۔ مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس کفایت سے نصف یا اس سے کچھ زیادہ موجود ہو مگر اس کے پاس پوری کفایت موجود نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس کے پاس پوری کفایت موجود ہو تو وہ غنی ہوتا۔ پس فقراء اور مساکین کو اتنی زکاۃ دی جائے جس سے ان کا فقر و فاقہ اور مسکنت زائل ہو جائے۔ (۳) وہ لوگ جو صدقات کی وصولی وغیرہ کے کام پر مامور ہوں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات کے ضمن میں کسی ذمہ داری میں مشغول ہوں ، ان کی وصولی کرنے والے، صدقات کے مویشیوں کو چرانے والے، ان کے نقل و حمل کا انتظام کرنے والے اور صدقات کا حساب کتاب لکھنے والے سب ’’عاملین‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں .... لہٰذا ان کو ان کے کام کا معاوضہ صدقات میں سے دیا جائے اور یہ ان کے کام کی اجرت ہے۔ (۴) وہ لوگ جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ ( مولفۃ القلوب) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی اپنی قوم میں اطاعت کی جاتی ہے، جس کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو یا جس کے شر کا خوف ہو یا جس کو عطا کرنے سے اس کی قوت ایمان میں اضافہ ہوتا ہو یا اس جیسے کسی اور شخص کے اسلام قبول کرنے کی توقع ہو یا کسی ایسے شخص سے صدقات وصول ہونے کی توقع ہو جو صدقات ادا نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں ﴿ وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ ﴾ کو صدقات میں سے دیا جا سکتا ہے جس میں کوئی مصلحت اور ان کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ (۵) گردنیں چھڑانے میں ، اس سے مراد وہ غلام ہیں جنھوں نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کے ذریعے سے آزادی خرید رکھی ہو اور وہ غلامی سے اپنی گردن چھڑانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں ۔ پس زکاۃ کی مد سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے اور وہ مسلمان جو کفار کی قید میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لیے بھی زکاۃ کا مال خرچ کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ مسلمان قیدی بدرجہ اولیٰ اس مد کے مستحق ہیں اور مستقلاً کسی غلام کو آزاد کرنے پر خرچ کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ بھی (وفی الرقاب )کے زمرے میں آتے ہیں ۔ (۶) قرض داروں کی مدد کرنے میں .... قرض داروں کی دو قسمیں ہیں ۔ (اول) وہ قرض دار جنھوں نے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے قرض اٹھایا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دو گروہوں کے درمیان کوئی فتنہ یا فساد پھیل جائے تو وہ آدمی ان دونوں کے درمیان پڑ کر ان کے مابین صلح کروا کر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے یا سب کی طرف سے مالی تاوان ادا کر دے۔ اس قسم کے قرض دار پر زکاۃ کی مد میں سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ اس کے لیے زیادہ نشاط انگیز اور اس کے عزم کے لیے زیادہ قوت کا باعث ہو۔ وہ اگرچہ مال دار بھی ہو تب بھی اسے زکاۃ کی مد میں سے عطا کیا جا سکتا ہے۔ (ثانی) دوسری قسم کا قرض دار وہ ہے جس نے کسی ذاتی ضرورت کی بنا پر قرض لیا مگر وہ عسرت کی وجہ سے قرض واپس نہ کر سکا۔ تو اسے صدقات میں سے اتنا مال عطا کیا جائے جس سے اس کے ذمہ سے قرض ادا ہو جائے۔ (۷) اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جو رضاکارانہ جہاد میں شریک ہوتے ہیں جن کا نام باقاعدہ فوج میں درج نہیں ۔ ان کو زکاۃ کی مد میں سے اتنا مال عطا کیا جا سکتا ہے جو جہاد میں اس کی سواری، اسلحہ اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کے لیے کافی ہو تاکہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ پوری طرح سے جہاد میں شریک ہو سکے۔ بہت سے فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر روزی کمانے پر قدرت رکھنے والا شخص اپنے آپ کو طلب علم کے لیے وقف کر دے تو اسے بھی زکاۃ میں سے مال دیا جائے۔ کیونکہ حصول علم بھی جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ نیز بعض فقہا کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے زکاۃ میں سے مال عطا کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ قول محل نظر ہے۔(لیکن ان کی بنیاد سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی رو سے حج و عمرہ پر زکاۃ کی رقم صرف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں عمرہ کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو، ارواء الفلیل3؍372، علاوہ ازیں صحابہ میں سے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمرy اور ائمہ میں سے امام احمد و امام اسحاق s وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، راقم کی کتاب ’’زکوٰۃ، عشر اور صدقۃ الفطر‘‘ ص۱۰۳۔۱۰۴ مطبوعہ دارالسلام)۔(ص۔ی) (۸) مسافر ۔اور یہاں مسافر سے مراد وہ غریب الوطن ہے جو اپنے وطن سے دور پردیس میں منقطع ہو کر رہ گیا ہو۔ اسے زکاۃ کی مد میں سے اتنا مال عطا کیا جا سکتا ہے جو اسے اپنے وطن پہنچانے کے لیے کافی ہو۔ یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں صرف انھی کو زکاۃ دی جا سکتی ہے ﴿ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کی طرف سے مقرر کردیے گئے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو فرض اور مقرر کیا ہے اور فریضہ زکاۃ اس کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے۔ واضح رہے کہ صدقات کے یہ آٹھ مصارف دو امور کی طرف راجع ہیں ۔ (۱) وہ شخص جسے اس کی حاجت اور فائدے کے لیے زکاۃ دی جاتی ہے، مثلاً: فقیر اور مسکین وغیرہ۔ (۲) وہ شخص جسے اس لیے زکاۃ دی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت و حاجت ہوتی ہے اور اسلام کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال داروں کے مال میں سے یہ حصہ عوام و خواص، اسلام اور مسلمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ مگر مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ صحیح معنوں میں شرعی طریقے سے ادا کریں تو مسلمانوں میں کوئی فقیر نہ رہے اور اسی طرح زکاۃ سے اتنا مال جمع ہو سکتا ہے جس سے سرحدوں کی حفاظت، کفار کے ساتھ جہاد اور دیگر تمام دینی مصالح کا انتظام ہو سکتا ہے۔
آیت: 61 - 63 #
{وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (61) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (62) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (63)}.
اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو ایذاء دیتے ہیں نبی کو اور کہتے ہیں، وہ تو کان ہے کہہ دیجیے! (وہ) کان ہے بھلائی کا تمھارے لیے، یقین رکھتا ہے اللہ پر اور یقین رکھتا ہے مومنوں(کی باتوں) پر اور رحمت ہے ان کے لیے جو ایمان لائے تم میں سےاور وہ لوگ جو ایذاء دیتے ہیں رسول اللہ کو، ان کے لیے ہے عذاب بہت درد ناک(61) وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی تمھارے سامنے تاکہ راضی کریں تمھیں، حالانکہ اللہ اوراس کا رسول زیادہ حق دار ہے اس کا کہ وہ اس کو راضی کریں، اگر ہیں وہ مومن(62) کیا نہیں معلوم ہوا انھیں کہ بے شک جو مخالفت کرے اللہ اوراس کے رسول کی تو بلاشبہ اس کے لیے ہے آگ جہنم کی، ہمیشہ رہے گا وہ اس میں، یہ ہے رسوائی بہت بڑی(63)
#
{61} أي: ومن هؤلاء المنافقين، {الذين يُؤْذونَ النبي}: بالأقوال الرديَّة والعَيْب له ولدينه، {ويقولون هو أذُنٌ}؛ أي: لا يبالون بما يقولون من الأذيَّة للنبيِّ، ويقولون: إذا بلغه عنَّا بعض ذلك؛ جئنا نعتذر إليه، فيقبلُ منَّا؛ لأنه أذُنٌ؛ أي: يقبل كلَّ ما يُقال له، لا يُمَيِّزُ بين صادقٍ وكاذب، وقصدهم ـ قبَّحهم الله ـ فيما بينهم أنهم غير مكترثين بذلك ولا مهتمِّين به؛ لأنه إذا لم يبلُغْه؛ فهذا مطلوبهم، وإن بلغه؛ اكتفَوْا بمجرَّد الاعتذار الباطل، فأساؤوا كلَّ الإساءة من أوجه كثيرةٍ: أعظمها: أذيَّة نبيِّهم الذي جاء لهدايتهم وإخراجهم من الشَّقاء والهلاك إلى الهدى والسعادة. ومنها: عدم اهتمامهم أيضاً بذلك، وهو قدر زائدٌ على مجرَّد الأذيَّة. ومنها: قدحُهم في عقل النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وعدم إدراكه وتفريقه بين الصادق والكاذب، وهو أكملُ الخلق عقلاً وأتمُّهم إدراكاً وأثقبُهم رأياً وبصيرةً، ولهذا قال تعالى: {قُلْ أذُنُ خيرٍ لكم}؛ أي: يقبلُ مَن قال له خيراً وصدقاً، وأما إعراضُه وعدم تعنيفه لكثير من المنافقين المعتذرين بالأعذار الكذب؛ فلِسَعَة خُلُقه وعدم اهتمامه بشأنهم وامتثاله لأمر الله في قوله: {سيحلِفون بالله لكم إذا انقلبتُم إليهم لِتُعْرِضوا عنهم فأعِرضوا عنُهم إنَّهم رِجْسٌ}، وأما حقيقة ما في قلبه ورأيه؛ فقال عنه: {يؤمِنُ بالله ويؤمِنُ للمؤمنين}: الصادقين المصدِّقين، ويعلم الصادق من الكاذب، وإن كان كثيراً يُعْرِضُ عن الذين يَعْرِفُ كذِبَهم وعدم صدقِهِم، {ورحمةٌ للذين آمنوا منكم}: فإنَّهم به يهتدون وبأخلاقِهِ يقتدون، وأما غير المؤمنين؛ فإنَّهم لم يقبلوا هذه الرحمة، بل ردُّوها فخسروا دنياهم وآخرتهم. {والذين يؤذون رسولَ الله}: بالقول والفعل {لهم عذابٌ أليم}: في الدُّنيا والآخرة، ومن العذاب الأليم أنه يتحتَّم قتلُ مؤذيه وشاتمه.
[61] یعنی یہ منافقین ﴿ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ ﴾ ’’جو نبی کو ایذا دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو ردی اقوال اور عیب جوئی کے ذریعے سے نبی اکرمe کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَیَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؔ﴾ ’’اور کہتے ہیں کہ وہ کان (کا کچا) ہے۔‘‘اور انھیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی بدگوئی کی وجہ سے نبی اکرمe کو دکھ پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کچھ باتیں آپ تک پہنچتی ہیں تو ہم آپ کے پاس معذرت پیش کرنے کے لیے آجاتے ہیں اور آپ ہماری معذرت قبول کر لیتے ہیں کیونکہ آپ کان کے کچے ہیں ، یعنی آپ سے جو کچھ کہا جاتا ہے آپ اسے تسلیم کرلیتے ہیں سچے اور جھوٹے میں تمیر نہیں کرتے۔ ان کا مقصد تو محض یہ تھا..... اللہ ان کا برا کرے.... کہ وہ اس بات کی کوئی پروا کریں نہ اس کو اہمیت دیں ۔ کیونکہ اگر ان کی کوئی بات آپ تک نہ پہنچے تو یہی ان کا مطلوب ہے اور اگر آپ تک وہ بات پہنچ جائے تو صرف باطل معذرتوں پر اکتفا کریں ۔ پس انھوں نے بہت سے پہلوؤں سے برائی کا رویہ اختیار کیا۔ (۱) ان میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اپنے نبی (e ) کو ایذا پہنچاتے ہیں جو ان کی راہنمائی اور ان کو ہلاکت اور شقاوت کے گڑھے سے نکال کر ہدایت اور سعادت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تشریف لائے۔ (۲) وہ اس ایذا رسانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، یہ مجرد ایذا رسانی پر ایک قدر زائد ہے۔ (۳) وہ نبی کریمe کی عقل و دانش میں عیب نکالتے تھے، آپ کو عدم ادراک اور سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز نہ کر سکنے کی صفات سے متصف کرتے تھے۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل کامل سے بہرہ مند، بدرجہ اتم ادراک کے حامل، عمدہ رائے اور روشن بصیرت رکھنے والے تھے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّـكُمْ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے، کان ہیں تمھاری بہتری کے لیے‘‘ یعنی جو کوئی بھلی اور سچی بات کہتا ہے آپe اسے قبول فرما لیتے ہیں ۔ رہا آپ کا صرف نظر کرنا اور بہت سے منافقین کے ساتھ سختی سے پیش نہ آنا، جو جھوٹے عذر پیش کرتے تھے تو یہ آپ کی کشادہ ظرفی، ان کے معاملے میں عدم اہتمام اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کی بنا پر تھا۔ ﴿سَیَحْلِفُوْنَؔ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ اِنَّهُمْ رِجْسٌ﴾ (التوبۃ: 9؍95) ’’جب تم واپس لوٹو گے تو یہ منافقین قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو، پس تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر دو کیونکہ وہ ناپاک ہیں ۔‘‘رہی یہ حقیقت کہ آپe کے دل میں کیا ہے اور آپ کی رائے کیا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَیُؤْمِنُ لِلْ٘مُؤْمِنِیْنَ۠ ﴾ ’’وہ یقین کرتا ہے اللہ پر اور یقین کرتا ہے مومنوں کی بات پر‘‘ جو سچے اور تصدیق کرنے والے ہیں اور وہ سچے اور جھوٹے کو خوب پہچانتا ہے اگرچہ وہ بہت سے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرتا ہے جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان میں سچائی معدوم ہے۔ ﴿ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ﴾ ’’اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایمان لائے‘‘ کیونکہ وہی آپ کی وجہ سے راہ راست پر گامزن ہوتے اور آپ کے اخلاق کی پیروی کرتے ہیں ۔ رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو انھوں نے اس رحمت کو قبول نہ کیا بلکہ ٹھکرا دیا اور یوں وہ دنیا و آخرت کے گھاٹے میں پڑ گئے۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور وہ لوگ جو (قول و فعل کے ذریعے سے) رسول اللہ کو دکھ دیتے ہیں ۔‘‘ ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ دنیا و آخرت میں ۔ اور دنیا میں ان کے لیے دردناک عذاب یہ ہے کہ آپ کو دکھ پہنچانے والے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے اور ایذا پہنچانے والے کی حتمی سزا قتل ہے۔
#
{62} {يحلفون بالله لكم لِيُرْضوكم}: فيتبرؤوا مما صدر منهم من الأذيَّة وغيرها، فغايتهم أن ترضَوْا عليهم. {والله ورسوله أحقُّ أن يُرْضوه إن كانوا مؤمنين}: لأنَّ المؤمن لا يقدِّم شيئاً على رضا ربِّه [ورضا رسوله]، فدلَّ هذا على انتفاء إيمانهم؛ حيث قدَّموا رضا غير الله ورسوله.
[62] ﴿ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُ٘رْضُوْؔكُمْ﴾ ’’وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی تاکہ تمھیں راضی کریں ‘‘ اور ان کی طرف سے جو ایذا رسانی ہوئی وہ اس سے بری ٹھہریں ۔ پس ان کی غرض و غایت محض یہ ہے کہ تم ان سے راضی رہو۔ ﴿ وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ وہ ان کو راضی کریں اگر وہ مومن ہوں ‘‘ کیونکہ بندۂ مومن اپنے رب کی رضا پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہ آیت ان کے ایمان کی نفی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی رضا پر دوسروں کی رضا کو مقدم رکھا۔
#
{63} وهذا محادَّة لله ومشاقَّة له، وقد توعَّد من حادَّه بقوله: {ألم يعلَموا أنَّه مَن يحاددِ اللهَ ورسولَه}: بأن يكون في حدٍّ وشِقٍّ مبعدٍ عن الله ورسوله؛ بأن تهاون بأوامر الله وتجرَّأ على محارمه، {فأنَّ له نارَ جهنَّم خالداً فيها} و {ذلك الخزيُ العظيم}: الذي لا خزيَ أشنعُ ولا أفظعُ منه، حيث فاتهم النعيم المقيم، وحصلوا على عذاب الجحيم؛ عياذاً بالله من حالهم.
[63] اور یہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت اور کھلی دشمنی ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھتا ہے اس کے لیے سخت وعید ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں جانا کہ جو کوئی مقابلہ کرے اللہ سے اور اس کے رسول سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اہانت و تحقیر اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کر کے وہ اللہ اور اس کے رسول سے بہت دور اور ان کے مخالف ہو جائے ﴿ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور اس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بڑی رسوائی کی بات ہے۔‘‘جس سے بڑھ کر کوئی رسوائی نہیں کیونکہ وہ دائمی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب حاصل کر لیا۔ ان کے حال سے اللہ کی پناہ!
آیت: 64 - 66 #
{يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (66)}.
ڈرتے ہیں منافق اس بات سے کہ نازل کردی جائے ان پر کوئی سورت، جو بتا دے انھیں جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، کہہ دیجیے! تم مذاق کرتے رہو، بے شک اللہ ظاہر کرنے والا ہے وہ بات جس سے تم ڈرتے ہو(64) اوراگر آپ پوچھیں ان سے تو وہ ضرور کہیں گے، ہم تو تھے محض شغل کے طورپر باتیں اور دل لگی کرتے، کہہ دیجیے! کیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے تھے؟(65) (اب) عذر پیش نہ کرو، یقینا تم نے کفر کیا ہے بعد اپنے ایمان کے، اگر ہم معاف بھی کردیں ایک گروہ کو تم میں سے تو ہم عذاب دیں گے(دوسرے) گروہ کو، بسبب اس کے کہ بلاشبہ تھے وہ مجرم(66)
#
{64} كانت هذه السورة الكريمة تسمى الفاضحة؛ لأنها بيَّنت أسرار المنافقين وهتكت أستارهم؛ فما زال الله يقول: ومنهم، ومنهم ... ويذكر أوصافهم؛ إلاَّ أنه لم يعيِّن أشخاصهم لفائدتين: إحداهما: أن الله سِتِّيرٌ يحبُّ الستر على عباده. والثانية: أن الذَّمَّ على مَن اتَّصف بذلك الوصف من المنافقين الذين توجَه إليهم الخطاب وغيرهم إلى يوم القيامة، فكان ذكر الوصف أعمَّ وأنسبَ، حتى خافوا غاية الخوف؛ قال الله تعالى: {لئن لم يَنتَهِ المنافقون والذين في قلوبهم مرضٌ والمرجِفونَ في المدينةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بهم ثم لا يجاوِرونَكَ فيها إلاَّ قليلاً. ملعونينَ أينما ثُقِفوا أُخِذوا وَقُتِّلوا تَقْتيلاً}. وقال هنا: {يَحْذَرُ المنافقون أن تنزل عليهم سورةٌ تنبِّئهم بما في قلوبهم}؛ أي: تخبرهم وتفضحهم وتبيِّن أسرارهم، حتى تكون علانيةً لعباده، ويكونوا عبرة للمعتبرين. {قل استهزِئوا}؛ أي: استمرُّوا على ما أنتم عليه من الاستهزاء والسُّخرية. {إنَّ الله مخرجٌ ما تحذرونَ}: وقد وفى تعالى بوعدِهِ، فأنزل هذه السورة التي بيَّنتهم، وفضحتهم، وهتكت أستارهم.
[64] اس سورۂ کریمہ کو ( اَلْفَاضِحَۃ) ’’رسوا کرنے والی سورت‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے کیونکہ اس نے منافقین کے بھید کھولے ہیں اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’ان میں سے بعض ‘‘۔’’ان میں سے بعض‘‘ کہہ کر ان کے اوصاف بیان کیے ہیں ۔ لیکن متعین طور پر اشخاص کے نام نہیں لیے، اس کے دو فائدے ہیں ۔ (۱) اللہ تعالیٰ سِتِّیر ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (۲) مذمت کا رخ ان تمام منافقین کی طرف ہے جو ان صفات سے متصف ہیں جس میں وہ بھی آگئے جو (بلاواسطہ) مخاطب تھے اور ان کے علاوہ قیامت تک آنے والے منافقین بھی اس میں شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے اوصاف کا تذکرہ زیادہ عمومیت کا حامل اور زیادہ مناسب ہے تاکہ لوگ خوب خائف رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَىِٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْ٘مُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا مَّلْعُوْنِیْنَ١ۛۚ اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا ﴾ (الاحزاب: 33؍60۔61) ’’اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں بری بری افواہیں پھیلاتے ہیں ، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ بہت تھوڑے دن ہی آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ وہ دھتکارے ہوئے جہاں بھی پائے جائیں ، پکڑے جائیں اور قتل کر دیے جائیں ۔‘‘ اور یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ یَحْذَرُ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ﴾ ’’منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورت نازل ہو جو ان کو جتا دے جو ان کے دلوں میں ہے‘‘ یعنی وہ سورت ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ کر کے ان کی فضیحت کا سامان کرتی ہے اور ان کا بھید کھولتی ہے یہاں تک کہ ان کی کارستانیاں لوگوں کے سامنے عیاں ہو جاتی ہیں اور وہ دوسروں کے لیے سامان عبرت بن جاتے ہیں ۔ ﴿ قُ٘لِ اسْتَهْزِءُوْا﴾ ’’کہہ دو کہ ہنسی مذاق کیے جاؤ۔‘‘ یعنی استہزاء اور تمسخر کا تمھارا جو رویہ ہے اس پر قائم رہو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ ﴾ ’’اللہ کھول کر رہے گا اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور یہ سورۃ نازل فرمائی جو ان کے کرتوت بیان کر کے ان کو رسوا کرتی ہے اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔
#
{65 ـ 66} {ولئن سألتَهم}: عما قالوه من الطعن في المسلمين وفي دينهم، يقولُ طائفةٌ منهم في غزوة تبوك: ما رأينا مثلَ قُرَّائنا هؤلاء ـ يعنون: النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه ـ أرغب بطوناً وأكذب ألسناً وأجبن عند اللقاء ... ونحو ذلك ، لما بلغهم أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قد علم بكلامهم؛ جاؤوا يعتذرون إليه ويقولون: {إنَّما كُنَّا نخوضُ ونلعبُ}؛ أي: نتكلَّم بكلام لا قصدَ لنا به ولا قَصَدْنا الطعن والعيب، قال الله تعالى مبيِّناً عدم عذرهم وكذبهم في ذلك: {قل} لهم: {أبالله وآياتِهِ ورسوله كنتم تستهزئون. لا تعتذروا قد كفرتم بعد إيمانكم}؛ فإنَّ الاستهزاء بالله ورسوله كفرٌ مخرجٌ عن الدين؛ لأنَّ أصل الدين مبنيٌّ على تعظيم الله وتعظيم دينه ورسله، والاستهزاء بشيء من ذلك منافٍ لهذا الأصل ومناقضٌ له أشدَّ المناقضة، ولهذا؛ لما جاؤوا إلى الرسول يعتذرون بهذه المقالة، والرسول لا يزيدهم على قوله: {أبالله وآياتِهِ ورسوله كنتُم تستهزِئون. لا تعتَذِروا قد كفرتُم بعد إيمانِكم}. وقوله: {إن نعفُ عن طائفةٍ منكم}: لتوبتهم واستغفارهم وندمهم، {نعذِّبْ طائفةً}: منكم بسبب أنهم {كانوا مجرمين}: مقيمين على كفرِهم ونفاقهم. وفي هذه الآيات دليلٌ على أن من أسرَّ سريرة، خصوصاً السريرة التي يمكر فيها بدينه ويستهزئ به وبآياته ورسوله؛ فإنَّ الله تعالى يظهرها ويفضح صاحبها ويعاقبُهُ أشدَّ العقوبة. وأنَّ مَن استهزأ بشيء من كتاب الله أو سنة رسوله الثابتة عنه أو سَخِرَ بذلك أو تنقَّصه أو استهزأ بالرسول أو تنقَّصه؛ فإنَّه كافرٌ بالله العظيم. وأنَّ التوبة مقبولةٌ من كلِّ ذنبٍ وإن كان عظيماً.
[66,65] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ ﴾ ’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں ۔‘‘ اس بارے میں جو وہ مسلمانوں اور ان کے دین کی بابت طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ غزوہ تبوک کے موقع پر کہتا تھا ’’ہم نے ان جیسے لوگ نہیں دیکھے‘‘ ....ان کی مراد نبی اکرمe اور آپ کے اصحاب کرام تھے .... ’’جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔‘‘(تفسیر طبری، 6؍220) جب انھیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہe کو ان کی ہرزہ سرائی کا علم ہوگیا ہے تو معذرت کرتے اور یہ کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ﴿لَیَقُوْلُ٘نَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ﴾ ’’ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی‘‘ یعنی ہم تو ایک ایسی بات کہہ رہے تھے جس سے ہمارا کوئی مقصد تھا اور نہ طعن اور عیب جوئی ہی ہمارا مقصود تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا عدم عذر اور ان کا جھوٹ واضح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ ﴾ ان سے کہہ دیجیے ﴿ اَبِاللّٰهِ وَاٰیٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ٘ كُنْتُمْ تَ٘سْتَهْزِءُوْنَؔ۠۰۰ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ ﴾ ’’کیا تم اللہ سے، اس کے حکموں سے اور اس کے رسول سے ٹھٹھے کرتے تھے؟ تم بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کفر ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ کیونکہ دین کی اساس اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور اس کے رسول کی تعظیم پر مبنی ہے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ استہزاء کرنا اس اساس کے منافی اور سخت متناقض ہے۔ بنابریں جب وہ معذرت میں یہ بات کہتے ہوئے رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپe نے ان سے اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا ﴿ اَبِاللّٰهِ وَاٰیٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ٘ كُنْتُمْ تَ٘سْتَهْزِءُوْنَؔ۠ ۰۰ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ ﴾ ’’کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے؟ اب معذرتیں نہ کرو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا۔‘‘فرمایا: ﴿ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ ﴾ ’’اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔‘‘ ان کی توبہ و استغفار اور ان کی ندامت کی وجہ سے۔ ﴿نُعَذِّبْ طَآىِٕفَةًۢ ﴾ ’’تو تم میں سے کسی دوسرے گروہ کو عذاب دیتے ہیں ‘‘ ﴿ بِاَنَّهُمْ ﴾ ’’کیونکہ وہ۔‘‘ یعنی اس سبب سے کہ ﴿كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’وہ گناہ گار تھے‘‘ یعنی اپنے کفر و نفاق پر قائم ہیں ۔ یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنا بھید چھپاتا ہے خاص طور پر وہ بھید جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازش، اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسولe کے ساتھ استہزا ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھول دیتا ہے، اس شخص کو رسوا کرتا ہے اور اسے سخت سزا دیتا ہے۔ اور جو کوئی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ثابتہ کے ساتھ کسی قسم کا استہزا کرتا ہے یا ان کا تمسخر اڑاتا ہے یا ان کو ناقص گردانتا ہے یا رسول اللہe سے استہزا کرتا ہے یا آپ کو ناقص کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کی توبہ قبول ہو جاتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔
آیت: 67 - 68 #
{الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (67) وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ (68)}.
منافق مرد اور منافق عورتیں ان کے بعض بعض سے (، یعنی ایک جیسے ہی) ہیں، حکم دیتے ہیں وہ برے کام کا اور روکتے ہیں نیک کام سے۔ اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھ(خرچ کرنے سے)، بھلا دیا انھوں نے اللہ کو تو اس نے بھی بھلا دیا ان کو، بے شک منافقین، وہی ہیں نافرمان(67) وعدہ کیا ہے اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا، ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں، یہی (عذاب) کافی ہے ان کواور لعنت کی ان پر اللہ نےاوران کے لیے عذاب ہے دائمی(68)
#
{67} يقول تعالى: {المنافقون والمنافقات بعضُهم من بعض}: لأنهم اشتركوا في النفاق، فاشتركوا في تولِّي بعضهم بعضاً، وفي هذا قطعٌ للمؤمنين من ولايتهم. ثم ذكر وصف المنافقين العام الذي لا يخرُجُ منه صغيرٌ منهم ولا كبيرٌ، فقال: {يأمرون بالمنكر}: وهو الكفر والفسوق والعصيان، {وينهَوْن عن المعروف}: وهو الإيمان والأخلاق الفاضلة والأعمال الصالحة والآداب الحسنة، {ويَقْبِضون أيدِيَهم}: عن الصدقة وطرق الإحسان؛ فوصْفُهم البخلُ. {نَسوا الله}: فلا يذكُرونه إلا قليلاً، {فنَسِيَهم}: من رحمته؛ فلا يوفِّقهم لخيرٍ ولا يدخِلُهم الجنة، بل يترُكهم في الدرك الأسفل من النار خالدين فيها مخلَّدين. {إنَّ المنافقين هم الفاسقون}: حصر الفسقَ فيهم؛ لأنَّ فسقهم أعظم من فسق غيرهم؛ بدليل أن عذابهم أشدُّ من عذاب غيرهم، وأن المؤمنين قد ابتُلوا بهم إذ كانوا بين أظهرهم، والاحتراز منهم شديدٌ.
[67] ﴿ اَلْ٘مُنٰفِقُوْنَ۠ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ﴾ ’’منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں ۔‘‘ کیونکہ نفاق ان میں قدر مشترک ہے اس لیے وہ ایک دوسرے کے باہم دوست ہیں ۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان موالات کا رشتہ منقطع ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا عمومی وصف بیان فرمایا جس سے ان کا چھوٹا اور بڑا کوئی بھی باہر نہیں ۔ ﴿ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں ‘‘ اور وہ ہے کفر، فسق اور معصیت۔ ﴿ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’اور معروف سے روکتے ہیں ‘‘ معروف سے مراد ایمان، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور آداب حسنہ ہیں ۔ ﴿وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ ﴾ ’’اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو‘‘ صدقہ اور بھلائی کے راستوں سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بخل کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ ﴿ نَسُوا اللّٰهَ ﴾ ’’وہ بھول گئے اللہ کو‘‘ پس وہ بہت کم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ۔ ﴿ فَنَسِیَهُمْ ﴾ ’’تو وہ بھی بھول گیا ان کو‘‘ یعنی ان پر رحمت کرنے سے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلائی کی توفیق عطا نہیں کرتا اور نہ ان کو جنت میں داخل کرے گا بلکہ وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں چھوڑ دے گا جہاں ان کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔ ﴿ اِنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’بے شک منافق ہی نافرمان ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے فسق کو منافقین میں محصور کر دیا کیونکہ ان کا فسق دیگر فساق کے فسق سے زیادہ بڑا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو دیا جانے والا عذاب دوسروں کو دیے جانے والے عذاب کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ نیز اہل ایمان جب ان کے درمیان رہ رہے تھے تو ان منافقین کے باعث ان کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے بچنے کی نہایت سختی سے تاکید کی گئی۔
#
{68} {وعد الله المنافقين والمنافقات والكفار نار جهنم خالدين فيها هي حسبهم ولعنهم الله ولهم عذابٌ مقيمٌ}: جمع المنافقين والكفار في نار جهنَّم واللعنةِ والخلودِ في ذلك لاجتماعهم في الدُّنيا على الكفر والمعاداة لله ورسوله والكفر بآياته.
[68] ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ هِیَ حَسْبُهُمْ١ۚ وَلَعَنَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ ﴾ ’’وعدہ دیا ہے اللہ نے منافق مرد اور منافق عورتوں کو اور کافروں کو جہنم کی آگ کا، ہمیشہ رہیں گے اس میں ، وہی بس ہے ان کو اور لعنت کی ان پر اللہ نے اور ان کے لیے برقرار رہنے والا عذاب ہے‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین اور کفار کو جہنم اور لعنت میں اکٹھا کر دے گا جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ دنیا میں بھی وہ کفر، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار پر متفق تھے۔
آیت: 69 - 70 #
{كَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (69) أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (70)}.
(تم منافقو!) ان لوگوں کی طرح ہو جو تم سے پہلے ہوئے، تھے وہ زیادہ سخت تم سے قوت میں اورزیادہ تھے مال اور اولاد میں۔ پس فائدہ اٹھایا انھوں نے ساتھ اپنے حصے کےاور فائدہ اٹھایا تم نے بھی ساتھ اپنے حصے کے، جیسے فائدہ اٹھایا تھا ان لوگوں نے جو تم سے پہلے تھے، ساتھ اپنے حصے کے اور تم بھی فضول بحث میں الجھے، جیسے وہ فضولیات میں الجھے رہے، یہی لوگ ہیں کہ برباد ہوگئے ان کے عمل دنیا اور آخرت میں اور یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے(69) کیا نہیں آئی ان کو خبر ان لوگوں کی جو ان سے پہلے ہوئے؟ قوم نوح اور عاد اور ثمود کی اور قوم ابراہیم اور مدین والوں اورالٹی بستیوں والوں کی، آئے ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ، پس نہیں ہے اللہ کہ ظلم کرتا ان پر لیکن تھے وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے(70)
#
{69 ـ 70} يقول تعالى محذِّراً للمنافقين أن يُصيبَهم ما أصابَ مَنْ قبلَهم من الأمم المكذِّبة؛ {قوم نوح وعادٍ وثمودَ وقوم إبراهيمَ وأصحاب مَدْيَنَ والمؤتفكاتِ}؛ أي: قرى قوم لوطٍ؛ فكلُّهم {أتتهم رسلهم بالبيِّنات}؛ أي: بالحق الواضح الجليِّ المبيِّن لحقائق الأشياء، فكذَّبوا بها، فجرى عليهم ما قصَّ الله علينا؛ فأنتُم أعمالُكم شبيهةٌ بأعمالهم. {استمتعتُم بخَلاقكم}؛ أي: بنصيبكم من الدنيا، فتناوَلْتموه على وجه اللَّذَّة والشهوة، معرضين عن المراد منه، واستعنتم به على معاصي الله، ولم تتعدَّ همَّتُكم وإرادتكم ما خُوِّلتم من النعم كما فعل الذين من قبلكم. {وخضتُم كالذي خاضوا}؛ أي: وخضتم بالباطل والزُّور وجادلتم بالباطل لِتُدْحِضوا به الحقَّ؛ فهذه أعمالُهم وعلومهم: استمتاعٌ بالخَلاق، وخوضٌ بالباطل؛ فاستحقُّوا من العقوبة والإهلاك ما استحقَّ من قبلهم مِمَّن فعلوا كفعلهم، وأما المؤمنون فهم وإن استمتعوا بنصيبهم وما خُوِّلوا من الدُّنيا؛ فإنَّه على وجه الاستعانة به على طاعة الله، وأما علومهم؛ فهي علوم الرسل، وهي: الوصول إلى اليقين في جميع المطالب العالية، والمجادلة بالحقِّ لإدحاض الباطل. قوله: {فما كان اللهُ لِيَظْلِمَهم}: إذا وقع بهم من عقوبته ما أوقع، {ولكن كانوا أنفسَهم يظلمِون}: حيث تجرؤوا على معاصيه، وعَصَوا رسلهم، واتبعوا أمر كل جبار عنيد.
[70,69] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے، اے منافقو! تمھارا حال تم جیسے ان منافقین کی مانند ہے جنھوں نے تم سے پہلے نفاق اور کفر کا ارتکاب کیا۔ وہ تم سے زیادہ طاقتور، تم سے زیادہ دولت مند اور تم سے زیادہ اولاد والے تھے۔ ان کے لیے جو حظوظ دنیا (دنیوی منافع اور حصے) مقدر کیے گئے تھے انھوں نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے تقویٰ سے روگردانی کی۔ انبیائے کرام کے ساتھ نہایت حقارت اور استخفاف کے ساتھ پیش آئے اور اپنے اور انبیائے کرام کے معاملہ میں ان کا خوب تمسخر اڑایا۔ تم نے بھی دنیا کی لذتوں سے، جو تمھارے لیے مقدر کی گئی تھیں ، خوب فائدہ اٹھایا جیسے پہلے لوگوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ تم بھی باطل اور ان منکرات میں ڈوبے ہوئے ہو جن میں تمھارے پیشرو ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کے اعمال اکارت گئے اور ان اعمال نے ان کو دنیا و آخرت میں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ سراسر خسارے میں رہے۔ تم بھی سوء حال و مآل اور برے انجام میں انھی کی مانند ہو۔ ﴿فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ ﴾ ’’تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا۔‘‘ یعنی اپنے دنیاوی نصیب سے۔ اللہ تعالیٰ کی مراد کو نظر انداز کرتے ہوئے تم نے لذت و شہوت کے پہلو سے دنیا کو استعمال کیا۔ اس نصیبِ دنیا سے تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مدد لی، تمھارا عزم اور ارادہ ان دنیاوی نعمتوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جیسے تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا ﴿ وَخُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْا﴾ ’’اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے۔‘‘ یعنی تم بھی (پہلوں کی طرح) باطل اور جھوٹ میں مستغرق ہو اور حق کو ناکام کرنے کے لیے تم باطل کے ذریعے سے جھگڑتے ہو۔ پس یہ ہیں ان کے اعمال و علوم، نصیبِ دنیا سے استفادہ کرنا اور باطل میں مستغرق رہنا۔ اس لیے یہ بھی عذاب اور ہلاکت کے مستحق ہیں جیسے پہلے لوگ اس ہلاکت کے مستحق ٹھہرے جن کے وہی کرتوت تھے جو ان کے ہیں ۔ رہے اہل ایمان... اگر انھوں نے دنیاوی نعمتوں میں اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا ہے.... تو صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مدد لینے کے لیے۔ رہے ان کے علوم تو یہ درحقیقت انبیاء و رسل کے علوم ہیں جو تمام مطالب عالیہ میں یقین کی منزل تک پہنچاتے ہیں اور باطل کو سر نگوں کرنے کے لیے حق کے ذریعے سے مجادلہ کی راہ پر گامزن کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو اس عذاب سے ڈراتا ہے جو ان سے پہلے جھٹلانے والی قوموں پر نازل ہوا تھا۔ جیسے قوم نوح ، عاد ، ثمود ، قوم ابراہیم ، اصحاب مدین اورالمؤتفکات ، یعنی قوم لوط کی بستیاں ﴿ اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ﴾ ’’ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ یعنی ان سب کے پاس ان کے رسول واضح اور روشن حق لے کر آئے جو تمام اشیاء کے حقائق کو بیان کرتا ہے مگر انھوں نے اس حق کو جھٹلایا، تب ان پر وہی عذاب نازل ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا، پس تمھارے اعمال بھی ان کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ ﴿ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ ﴾ ’’اور اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی تو یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ظلم نہیں تھا۔ ﴿ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’بلکہ انھوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جسارت کی، اس کے رسولوں کی اطاعت نہ کی اور ہر سرکش اور جبار کی بات کے پیچھے لگ گئے۔
آیت: 71 - 72 #
{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (71) وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (72)}.
اور مومن مرد اور مومن عورتیں، بعض ان کے دوست ہیں بعض کے، حکم دیتے ہیں وہ نیک کام کا اور روکتے ہیں برے کام سے اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکاۃاور اطاعت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی، یہی لوگ ہیں، ضرور رحم فرمائے گا ان پر اللہ، بے شک اللہ ہے بہت زبردست خوب حکمت والا(71) وعدہ کیا ہے اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں اور پاکیزہ مکانوں کا، ہمیشہ رہنے والے باغوں میں اور رضا مندی اللہ کی سب سے بڑھ کر ہوگی، یہی ہے کامیابی بہت بڑی(72)
#
{71} لما ذكر أنَّ المنافقين بعضهم من بعض ؛ ذكر أن المؤمنين بعضهم أولياء بعض، ووصفهم بضدِّ ما وصف به المنافقين، فقال: {والمؤمنون والمؤمناتُ}؛ أي: ذكورهم وإناثهم، {بعضُهم أولياءُ بعضٍ}: في المحبَّة والموالاة والانتماء والنُّصرة. {يأمرون بالمعروف}: وهو اسمٌ جامعٌ لكلِّ ما عُرِف حسنه من العقائد الحسنة والأعمال الصالحة والأخلاق الفاضلة، وأول مَن يدخُلُ في أمرهم أنفسُهم. {وينهَوْن عن المنكر}: وهو كلُّ ما خالف المعروف، وناقَضَه من العقائد الباطلة والأعمال الخبيثة والأخلاق الرذيلة، {ويطيعونَ الله ورسوله}؛ أي: لا يزالون ملازمين لطاعة الله ورسوله على الدوام. {أولئك سيرحمُهُم الله}؛ أي: يدخلهم في رحمته ويشمَلُهم بإحسانه. {إنَّ الله عزيزٌ حكيمٌ}؛ أي: قويٌّ قاهرٌ، ومع قوته؛ فهو حكيمٌ يضع كل شيء موضعَه اللائق به الذي يُحمد على ما خلقه وأمر به.
[71] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ منافقین آپس میں ایک ہی ہیں تو یہ بھی واضح فرما دیا کہ اہل ایمان بھی ایک دوسرے کے والی اور مددگار ہیں اور ان کو ایسے اوصاف سے متصف کیا ہے جو منافقین کے اوصاف کی ضد ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ ﴾ ’’اہل ایمان مرد اور عورتیں ‘‘ ﴿بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ﴾ ’’ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘ یعنی محبت، موالات، منسوب ہونے اور مدد کرنے میں باہم والی و مددگار ہیں ۔ ﴿ یَاْمُرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں ‘‘ ’’المعروف‘‘ ہر ایسے کام کے لیے ایک جامع نام ہے جس کی بھلائی مسلم ہو، مثلاً: عقائد حسنہ، اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وغیرہ۔ اور نیکی کے اس حکم میں سب سے پہلے خود داخل ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور برائی سے روکتے ہیں ‘‘ اور ہر وہ کام جو ’’المعروف‘‘ کے خلاف اور اس کے منافی ہو ’’المنکر‘‘ کے زمرے میں آتا ہے، مثلاً: عقائد باطلہ، اعمال خبیثہ اور اخلاق رذیلہ وغیرہ۔ ﴿ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا التزام کرتے ہیں ۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ انھیں اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں داخل کرے گا اور انھیں اپنے احسان سے نوازے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ طاقتور اور غالب ہے، طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حکمت والا بھی ہے، وہ ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ وہ جو کچھ تخلیق کرتا ہے اور جو کچھ حکم دیتا ہے، اس پر اس کی حمد بیان کی جاتی ہے۔
#
{72} ثم ذكر ما أعد الله لهم من الثواب، فقال: {وعد الله المؤمنين والمؤمنات جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: جامعةٍ لكلِّ نعيم وفرح، خاليةٍ من كلِّ أذىً وتَرَح، تجري من تحت قصورها ودورها وأشجارها الأنهار الغزيرة المروية للبساتين الأنيقة التي لا يعلم ما فيها من الخيرات والبركات إلا الله تعالى. {خالدين فيها}: لا يبغون عنها حِوَلاً. {ومساكنَ طيبة في جنات عدن}: قد زخرفت وحسنت وأعِدَّت لعباد الله المتَّقين، قد طاب مرآها وطاب منزِلُها ومَقيلها، وجمعت من آلات المساكن العالية ما لا يتمنى فوقه المتمنُّون، حتى إن الله تعالى قد أعدَّ لهم غرفاً في غاية الصفاء والحسن، يُرى ظاهِرُها من باطنها، وباطِنُها من ظاهرها؛ فهذه المساكن الأنيقة التي حقيقٌ بأن تَسْكُنَ إليها النفوس وتنزِعَ إليها القلوب وتشتاقَ لها الأرواح؛ لأنَّها {في جنات عدنٍ}؛ أي: إقامة، لا يظعنون عنها ولا يتحوَّلون منها. {ورضوانٌ من الله}: يُحِلُّه على أهل الجنة {أكبر}: مما هم فيه من النعيم؛ فإنَّ نعيمهم لم يَطِبْ إلا برؤية ربِّهم ورضوانه عليهم، ولأنَّه الغاية التي أمَّها العابدون، والنهاية التي سعى نحوها المحبُّون؛ فرضا ربِّ الأرض والسماوات أكبرُ من نعيم الجنات. {ذلك هو الفوزُ العظيم}: حيث حَصلوا على كلِّ مطلوب، وانتفى عنهم كلُّ محذور، وحسنتْ وطابت منهم جميع الأمور، فنسأل الله أن يجعلنا معهم بجودِهِ.
[72] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس ثواب کا ذکر فرماتا ہے جو اس نے اہل ایمان کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’وعدہ دیا ہے اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ‘‘ ان جنتوں میں ہر نعمت اور ہر فرحت جمع ہے اور تمام تکلیف دہ چیزوں سے بالکل خالی ہے، اس کے محلات، گھروں اور درختوں کے نیچے سے گہری نہریں بہہ رہی ہیں جو خوبصورت باغات کو سیراب کرتی ہیں ۔ ان جنتوں میں جو بھلائیاں ہیں انھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا ﴾ ’’اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اور وہ کسی اور جگہ منتقل ہونا نہ چاہیں گے۔ ﴿ وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ ’’اور ستھرے مکانوں کا، ہمیشہ کے باغوں میں ‘‘ ان مسکنوں کو آراستہ اور خوبصورت بنا کر اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ جنت کے نظارے، اس کی منازل اور آرام گاہیں بہت خوبصورت ہیں ۔ بلند مرتبہ مساکن کے تمام آلات اور ساز و سامان ان کے اندر مہیا کیے گئے ہیں ۔ تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تمنا نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے بالا خانے تیار کر رکھے ہیں جو انتہائی خوبصورت اور پاک صاف ہیں ۔ جن کے اندر سے باہر کا نظارہ کیا جا سکے گا اور باہر سے اندر دیکھا جا سکے گا۔ پس یہ خوبصورت مساکن اس لائق ہیں کہ نفس ان میں سکون حاصل کریں ، دل ان کی طرف کھنچتے چلے آئیں اور ارواح ان کی مشتاق ہوں، اس لیے کہ وہ جنت عدن میں مقیم ہوں گے اور یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ کوچ کرنا اور کسی اور جگہ منتقل ہونا نہیں چاہیں گے۔ ﴿ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ کی رضامندی‘‘ جو وہ اہل جنت پر نازل فرمائے گا۔ ﴿ اَكْبَرُ﴾ ’’سب سے بڑی ہوگی‘‘ ان تمام نعمتوں سے جو ان کو حاصل ہوں گی۔ ان کو حاصل ہونے والی تمام نعمتیں ان کے رب کے دیدار اور اس کی رضا کے بغیر اچھی نہ لگیں گی اور یہ وہ غایت مقصود ہے، عبادت گزار جس کا قصد رکھتے ہیں اور یہ وہ منتہائے مطلوب ہے، اہل محبت جس کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ پس زمین و آسمان کے رب کی رضا جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ کیونکہ ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوگا۔ ان سے ہر خوف دور ہوگا۔ ان کے تمام معاملات خوبصورت اور خوشگوار ہوں گے.... ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے جود و کرم سے ہمیں بھی ان کی معیت نصیب فرمائے۔
آیت: 73 - 74 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (73) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (74)}.
اے نبی! جہاد کیجیے کافروں اور منافقوں سے! اور سختی کیجیے ان پر!اوران کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے لوٹ کر جانے کی(73) وہ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ نہیں کہی انھوں نے (کوئی بات) حالانکہ ضرور کہی انھوں نے بات کفر کی اور کفر کیا انھوں نے بعد اپنے اسلام کے اور ارادہ کیا تھا انھوں نے اس کا جو وہ حاصل نہ کر سکے اورنہیں غصہ نکالا انھوں نے مگر اس بات پر کہ غنی کر دیا انھیں اللہ نے اوراس کے رسول نے اپنے فضل سے، پس اگر وہ توبہ کر لیں تو ہوگا بہتر ان کے لیے اور اگر وہ منہ پھیریں تو عذاب دے گا ان کو اللہ عذاب بہت درد ناک دنیا میں اور آخرت میں اور نہیں ہوگا ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار(74)
#
{73} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {يا أيُّها النبيُّ جاهد الكفار والمنافقين}؛ أي: بالغ في جهادهم، والغلظة عليهم حيث اقتضت الحال الغِلْظة عليهم، وهذا الجهاد يدخل فيه الجهاد باليد والجهاد بالحجة واللسان؛ فمن بارز منهم بالمحاربة؛ فيجاهَد باليد واللسان والسيف والسنان ، ومن كان مذعناً للإسلام بذمَّة أو عهدٍ؛ فإنه يجاهَدُ بالحجة والبرهان، ويبيَّن له محاسن الإسلام ومساوئ الشرك والكفران ؛ فهذا ما لهم في الدنيا، {و} أما في الآخرة؛ فَمَأواهم {جهنم}؛ أي: مقرُّهم الذي لا يخرجون منها، {وبئس المصير}.
[73] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں ‘‘ بھرپور جہاد۔ ﴿ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان پر سختی کریں۔‘‘ جہاں حالات سختی کا تقاضا کریں وہاں سختی کیجیے۔ اس جہاد میں تلوار کا جہاد اور حجت و دلیل کا جہاد سب شامل ہیں ۔ پس جو جنگ کرتا ہے اس کے خلاف ہاتھ، زبان اور شمشیر و سناں کے ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ اور جو کوئی ذمی بن کر یا معاہدہ کے ذریعے سے اسلام کی بالادستی قبول کرتا ہے تو اس کے خلاف دلیل و برہان کے ذریعے سے جہاد کیا جائے۔ اس کے سامنے اسلام کے محاسن اور کفر و شرک کی برائیاں واضح کی جائیں۔ پس یہ تو وہ رویہ ہے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ﴿ وَ ﴾ اور آخرت میں تو ﴿ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ﴾ ’’ان کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘ یعنی ان کی جائے قرار جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔ ﴿ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
#
{74} {يحلفونَ بالله ما قالوا ولقد قالوا كلمةَ الكفرِ}؛ أي: إذا قالوا قولاً كقول من قال منهم: {لَيُخْرِجَنَّ الأعزُّ منها الأذلَّ}، والكلام الذي يتكلَّم به الواحد بعد الواحد في الاستهزاء بالدين وبالرسول؛ فإذا بلغهم أن النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - قد بلغه شيء من ذلك؛ جاؤوا إليه يحلفون بالله ما قالوا، قال تعالى مكذِّباً لهم: {ولقد قالوا كلمةَ الكفر وكفروا بعد إسلامهم}: فإسلامهم السابق، وإن كان ظاهره أنه أخرجهم من دائرة الكفر؛ فكلامُهم الأخير ينقُضُ إسلامهم ويدخِلُهم بالكفر. {وهمُّوا بما لم ينالوا}: وذلك حين همُّوا بالفتك برسول الله - صلى الله عليه وسلم - في غزوة تبوك، فقصَّ الله عليه نبأهم، فأمر من يصدُّهم عن قصدهم. {و} الحال أنهم {ما نقموا} وعابوا من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - {إلَّا أنْ أغناهم اللهُ ورسولُه من فضله}: بعد أن كانوا فقراء معوزين، وهذا من أعجب الأشياء: أن يستهينوا بمن كان سبباً لإخراجهم من الظلمات إلى النور، ومغنياً لهم بعد الفقر! وهل حقُّه عليهم إلا أن يعظِّموه ويؤمنوا به ويُجِلُّوه؟! [فاجتمع الدَّاعي الديني وداعي المروءة الإنسانية]. ثم عرض عليهم التوبة، فقال: {فإن يتوبوا يكُ خيراً لهم}؛ لأن التوبة أصلٌ لسعادة الدُّنيا والآخرة، {وإن يَتَوَلَّوا}: عن التوبة والإنابة {يعذِّبْهم الله عذاباً أليماً في الدُّنيا والآخرة}: في الدنيا بما ينالهم من الهم والغم والحزن على نصرة الله لدينه وإعزاز نبيِّه وعدم حصولهم على مطلوبهم، وفي الآخرة في عذاب السعير. {وما لهم في الأرض من وليٍّ}: يتولَّى أمورهم ويُحَصِّلُ لهم المطلوب، {ولا نصيرٍ}: يدفع عنهم المكروه، وإذا انقطعوا من ولاية الله تعالى؛ فثمَّ أصناف الشرِّ والخسران والشقاء والحرمان.
[74] ﴿ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا١ؕ وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْ٘كُفْرِ ﴾ ’’قسمیں کھاتے ہیں اللہ کی کہ انھوں نے نہیں کہا اور بے شک کہا ہے انھوں نے لفظ کفر کا‘‘ یعنی جب انھوں نے اس شخص کی مانند بات کہی تھی جس نے یہ کہا تھا ﴿لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون: 63؍8) ’’عزت دار، ذلیل لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیں گے۔‘‘اور وہ باتیں جو دین اور رسول (e ) کے ساتھ استہزاء کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا کرتا تھا۔ جب ان کو یہ بات پہنچی کہ رسول اللہe کو ان کی باتیں معلوم ہوگئی ہیں تو وہ قسمیں اٹھاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ انھوں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْ٘كُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ ﴾ ’’بے شک کہا ہے انھوں نے لفظ کفر کا اور منکر ہو گئے وہ اسلام لانے کے بعد‘‘ گزشتہ وقت میں ان کے اسلام قبول کرنے نے اگرچہ ان کو ظاہری طور پر دائرہ کفر سے نکال دیا تھا مگر ان کا یہ آخری کلام اسلام کے متناقض ہے جو انھیں کفر میں داخل کر دیتا ہے۔ ﴿ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا ﴾ ’’اور انھوں نے ایسی چیز کا ارادہ کیا جو انھیں نہیں ملی‘‘ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب انھوں نے غزوۂ تبوک میں رسول اللہe کو دھوکے کے ساتھ قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپe کو ان کے منصوبے کے بارے میں آگاہ فرما دیا، چنانچہ آپ نے کسی کو حکم دیا اور اس نے ان کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے روک دیا۔ ﴿ وَ ﴾ ان کا حال یہ ہے ﴿ مَا نَقَمُوْۤا ﴾ یعنی ’’وہ رسول اللہe پر صرف اس وجہ سے ناراض ہیں ‘‘ اور آپ کی عیب جوئی کرتے ہیں ﴿ اِلَّاۤ اَنْ اَغْ٘نٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ٘﴾ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے اللہ کے فضل سے ان کی محتاجی کے بعد ان کو غنی کر دیا۔ یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہ اس ہستی کی اہانت کریں جو ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے اور محتاجی کے بعد غنا کا سبب بنی۔ کیا ان پر اس ہستی کا حق نہیں کہ وہ اس کی تعظیم اور توقیر کریں اور اس پر ایمان لائیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے توبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ﴾ ’’پس اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہے‘‘ کیونکہ توبہ دنیا و آخرت کی سعادت کی اساس ہے۔ ﴿ وَاِنْ یَّتَوَلَّوْا ﴾ ’’اور اگر وہ منہ پھیر لیں۔‘‘ یعنی اگر وہ توبہ اور انابت سے منہ موڑ لیں ۔ ﴿ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا١ۙ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’تو عذاب دے گا اللہ ان کو دردناک عذاب دنیا اور آخرت میں ‘‘ دنیا میں ان کے لیے عذاب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازتا ہے اور اپنے نبیe کو عزت عطا کرتا ہے اور یہ لوگ اپنا مقصد حاصل نہیں کر پاتے تو حزن و غم کا شکار ہو جاتے ہیں اور آخرت میں ان کو جہنم کا عذاب ملے گا۔ ﴿ وَمَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ ﴾ ’’اور زمین میں ان کا کوئی دوست نہیں ‘‘ جو ان کے معاملات کی سرپرستی کرے اور ان کو ان کے مقصد تک پہنچائے ﴿ وَّلَا نَصِیْرٍ ﴾ ’’اور نہ کوئی مددگار‘‘ جو تکلیف دہ امور کو ان سے دور کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی سے محروم ہوگئے تو پھر شر، خسران، بدبختی اور حرمان نصیبی ہی ان کا نصیب بن جاتی ہے۔
آیت: 75 - 78 #
{وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (75) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (76) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (77) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (78)}.
اوربعض ان میں سے وہ ہیں جنھوں نے عہد کیا اللہ سے ، البتہ اگر دیا ہمیں اللہ نے اپنے فضل سے تو ہم ضرور صدقہ خیرات کریں گے اور ہوجائیں گے ہم صالحین میں سے(75)پس جب نواز دیا اس نے ان کو اپنے فضل سے تو بخل کیا انھوں نے اس کے ساتھ اور پھر گئے اور وہ روگرداں تھے(76)پس سزا دی انھیں اللہ نے نفاق (ڈال کر) ان کے دلوں میں، اس دن تک کہ ملیں گے وہ اس سے ، بسبب ان کے خلاف ورزی کرنے کے اللہ سے اپنے وعدے کی اور بسبب اس کے جو تھے وہ جھوٹ بولتے(77) کیا نہیں معلوم انھیں کہ یقینا اللہ جانتا ہے بھید ان کے اور سرگوشیاں ان کی اور یہ کہ بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے غیب کی باتوں کو؟(78)
#
{75} أي: ومن هؤلاء المنافقين من أعطى الله عهدَهُ وميثاقَهُ، {لئن آتانا من فضلِهِ}: من الدنيا فبسطها لنا ووسَّعها، {لَنَصَّدَّقَنَّ ولَنكونَنَّ من الصالحين}: فنصل الرحم ونُقري الضيف، ونعينُ على نوائب الحقِّ، ونفعل الأفعال الحسنة الصالحة.
[75] ان منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا ﴿ لَىِٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ ’’اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں عطا کرے گا۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا عطا کر کے اس میں کشادگی پیدا کرے ﴿ لَنَصَّدَّقَ٘نَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور ہم نیکوکاروں میں سے ہو جائیں گے‘‘ پس ہم صلہ رحمی کریں گے، مہمان کی مہمان نوازی کریں گے، راہ حق میں لوگوں کی مدد کریں گے اور اچھے اور نیک عمل کریں گے۔
#
{76} {فلما آتاهُم من فضلِهِ}: لم يفوا بما قالوا، بل {بَخِلوا} و {وتولَّوْا}: عن الطاعة والانقياد، {وهم معرضون}؛ أي: غير ملتفتين إلى الخير.
[76] ﴿فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ ’’پس جب دیا ان کو اپنے فضل سے‘‘ تو انھوں نے اس وعدے کو پورا نہ کیا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا بلکہ ﴿ بَخِلُوْا بِهٖ﴾ ’’بخل کیا ساتھ اس کے‘‘ ﴿ وَتَوَلَّوْا ﴾ اور اطاعت سے منہ موڑ گئے ﴿ وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ ’’اور وہ روگردانی کرنے والے تھے‘‘ یعنی بھلائی کی طرف التفات نہ کرنے والے۔
#
{77} فلما لم يفوا بما عاهدوا الله عليه؛ عاقبهم و {أعقبهم نفاقاً في قلوبهم}: مستمر {إلى يوم يَلْقَوْنَهُ بما أخلفوا اللهَ ما وعدوه وبما كانوا يكذبون}: فليحذر المؤمنُ من هذا الوصف الشنيع أن يعاهد ربَّه إن حصل مقصودُهُ الفلانيُّ؛ ليفعلنَّ كذا وكذا، ثم لا يفي بذلك؛ فإنَّه ربما عاقبه الله بالنفاق كما عاقب هؤلاء، وقد قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - في الحديث الثابت في «الصحيحين»: «آية المنافق ثلاثٌ: إذا حدَّثَ كَذَبَ، وإذا عاهد غَدَرَ، وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ»؛ فهذا المنافق الذي وعد الله وعاهده لئن أعطاه الله من فضله؛ ليصَّدَّقن وليكوننَّ من الصالحين: حدَّث فكذب، وعاهد [فغدر] ، ووعد فأخلف.
[77] جب انھوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی۔ ﴿ فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ ﴾ ’’پس بطور سزا کر دیا نفاق ان کے دلوں میں ‘‘ یعنی ہمیشہ رہنے والا نفاق۔ ﴿ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَبِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ ﴾ ’’جس دن تک کہ وہ اس سے ملیں گے، اس وجہ سے کہ انھوں نے خلاف کیا اللہ سے جو وعدہ اس سے کیا تھا اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے‘‘ پس بندۂ مومن کو اس برے وصف سے بچنا چاہیے کہ اگر اس کو اس کا مقصد حاصل ہوگیا تو وہ فلاں کام کرے گا اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہ کرے، اس لیے بسااوقات اللہ تعالیٰ نفاق کے ذریعے سے اس کو سزا دیتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو سزا دی۔ ایک صحیح حدیث میں ، جو کہ صحیحین میں ثابت ہے، رسول اللہe نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں :جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب عہد کرے تو بد عہدی سے کام لے اور وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب علامات المنافق، حدیث: 33) پس یہ منافق جس نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے فضل سے نوازا تو وہ ضرور صدقہ کرے گا اور نیک بن جائے گا۔ پس اس نے اپنی بات میں جھوٹ بولا، عہد کر کے بدعہدی کی اور وعدہ کر کے پورا نہ کیا۔
#
{78} ولهذا توعَّد من صدر منهم هذا الصنيع بقوله: {ألم يعلموا أنَّ الله يعلم سرَّهم ونجواهم وأنَّ الله علام الغيوب}: وسيجازيهم على ما عملوا من الأعمال التي يعلمها الله تعالى. وهذه الآيات نزلت في رجل من المنافقين يقال له ثعلبة، جاء إلى النبي - صلى الله عليه وسلم -، وسأله أن يدعوَ الله له أن يعطِيَه الله من فضله، وأنه إن أعطاه ليتصدقنَّ ويصل الرحم ويعين على نوائب الحقِّ، فدعا النبي - صلى الله عليه وسلم - له، فكان له غنم، فلم تزل تتنامى حتى خرج بها عن المدينة، فكان لا يحضر إلاَّ بعض الصلوات الخمس، ثم أبعد فكان لا يحضر إلا صلاة الجمعة، ثم كثرت فأبعدها فكان لا يحضر جمعة ولا جماعة، ففقده النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -، فأخبر بحاله، فبعث من يأخذ الصدقات من أهلها، فمروا على ثعلبة، فقال: ما هذه إلا جزية، ما هذه إلا أخت الجزية. فلما لم يعطهم؛ جاؤوا فأخبروا بذلك النبي - صلى الله عليه وسلم -، فقال: «يا ويح ثعلبة، يا ويح ثعلبة!» ثلاثاً. فلما نزلت هذه الآية فيه وفي أمثاله؛ ذهب بها بعض أهله، فبلَّغه إيَّاها، فجاء بزكاته، فلم يقبلْها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -، ثم جاء بها إلى أبي بكر بعد وفاة النبي - صلى الله عليه وسلم -، فلم يقبلها، ثم جاء بها بعد أبي بكر إلى عمر، فلم يقبلها، فيقال: إنه هلك في زمن عثمان.
[78] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو یہ وعید سنائی جن سے یہ کام صادر ہوا چنانچہ فرمایا ﴿ اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ﴾ ’’کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے ان کا بھید اور ان کا مشورہ اور یہ کہ اللہ خوب جانتا ہے سب چھپی باتوں کو۔‘‘پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال کی جزا دے گا جنھیں وہ جانتا ہے۔ یہ آیات کریمہ منافقین میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئیں جسے ’’ثعلبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے نواز دے، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل و کرم سے نواز دیا تو وہ اللہ کے راستے میں صدقہ کرے گا، صلہ رحمی کرے گا اور راہ حق میں خرچ کرے گا۔رسول اللہe نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ اس شخص کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا، وہ ریوڑ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے اس ریوڑ کو لے کر مدینہ منورہ سے باہر جانا پڑا۔ وہ نماز پنجگانہ میں سے کسی اکا دکا نماز میں حاضر ہوتا تھا پھر اور دور چلا گیا یہاں تک کہ وہ صرف جمعہ کی نماز میں حاضر ہوتا تھا۔ جب بکریاں بہت زیادہ ہوگئیں تو وہ اور دور چلا گیا اور اس نے جماعت اور جمعہ دونوں میں حاضر ہونا بند کر دیا۔ پس جب وہ رسول اللہe کو نظر نہ آیا اور آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ کو اس کے حال کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ آپ نے کسی کو اس کے گھر صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ وہ ثعلبہ کے پاس آیا۔ ثعلبہ نے کہا ’’یہ تو جزیہ ہے، یہ تو جزیہ کی بہن ہے۔‘‘..... پس اس نے زکاۃ ادا نہ کی، زکاۃ کے تحصیل دار رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو تمام امور سے آگاہ کیا آپ نے تین بار فرمایا (یَا وَیْحَ ثَعْلبۃ) ’’افسوس ثعلبہ کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘جب اس کے بارے میں اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو اس کے گھر والوں میں سے کوئی شخص اس کے پاس گیا اور اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا، چنانچہ وہ زکاۃ لے کر رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مگر آپ نے وہ زکاۃ قبول نہ فرمائی۔ رسول اللہe کی وفات کے بعد وہ زکاۃ لے کر حضرت ابوبکر صدیقt کی خدمت میں حاضر ہوا مگر حضرت ابوبکرt نے بھی زکاۃ قبول نہ فرمائی۔ جناب ابوبکرt کی وفات کے بعد حضرت عمرt کی خدمت میں حاضر ہوا مگر انھوں نے بھی زکاۃ قبول نہ فرمائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمانt کے عہد میں مر گیا۔(ثعلبہ کا یہ واقعہ بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کو ماہر نقاد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسے امام ابن حزم، بیہقی‘ قرطبی‘ ہیثمی‘ عراقی‘ ابن حجر‘ سیوطی اور امام مناوی رحمھم اللہ تعالیٰ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔اس قصے کی سند میں علی بن یزید‘ معان بن رفاعہ اور قاسم بن عبدالرحمان ضعیف راوی ہیں اور ابن حزمa نے اس کو متن کے اعتبار سے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیے: المحلی: 11؍208، الاصابۃ: ترجمۃ ثعلبہ، مجمع الزوائد: 7؍32، الجامع لأحکام القرآن: 8؍210، فیض القدیر: 4؍257، فتح الباری: 3؍8، لباب النقول للسیوطی: 121، و تخریج الإحیاء للعراقي: 3؍338. (از محقق) اس لیے اس سے حضرت ثعلبہ بن حاطب انصاریt کو مراد لینا، یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس آیت میں بھی دراصل منافقین ہی کے کردار کے ایک نمونے کابیان ہے۔ (ص۔ی)
آیت: 79 - 80 #
{الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (79) اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (80)}.
وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں فراخ دلی سے خیرات کرنے والے مومنوں پر، (ان کے) صدقات میں اور ان پر جو نہیں پاتے سوائے اپنی (تھوڑی سی) محنت مزدوری کے اور ٹھٹھا کرتے ہیں ان سے، ٹھٹھا کرے گا اللہ بھی ان سےاوران کے لیے عذاب ہے درد ناک(79) (برابر ہے) آپ مغفرت مانگیں ان کے لیے یا نہ مغفرت مانگیں ان کے لیے ، اگرآپ مغفرت مانگیں گے ان کے لیے ستر مرتبہ بھی تو ہرگز نہیں بخشے گا اللہ ان کو، یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے کفر کیا ساتھ اللہ اوراس کے رسول کےاور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمان لوگوں کو(80)
#
{79} وهذا أيضاً من مخازي المنافقين، فكانوا قبَّحهم الله لا يدعون شيئاً من أمور الإسلام والمسلمين يرون لهم مقالاً؛ إلا قالوا وطعنوا بغياً وعدواناً، فلما حثَّ الله ورسوله على الصدقة؛ بادر المسلمون إلى ذلك، وبذلوا من أموالهم كل على حسب حاله، منهم المكثر ومنهم المقل، فيلمزون المكثر منهم بأنَّ قصدَه بنفقته الرياء والسمعة، وقالوا للمقلِّ الفقير: إنَّ الله غنيٌّ عن صدقة هذا، فأنزل الله تعالى: {الذين يَلْمِزون}؛ أي: يعيبون ويطعنون {المُطَّوِّعين من المؤمنين في الصدقات}: فيقولون: مراؤون قصدُهم الفخر والرياء {و} يلمزون {الذين لا يَجِدون إلا جُهْدَهم}: فيخرِجون ما استطاعوا ويقولون: الله غنيٌّ عن صدقاتهم، {فيسخرون منهم}، فقابلهم الله على صنيعهم بأن سَخِرَ منهم، {ولهم عذابٌ أليم}؛ فإنَّهم جمعوا في كلامهم هذا بين عدة محاذير: منها: تتبُّعهم لأحوال المؤمنين وحرصهم على أن يجدوا مقالاً يقولونه فيهم، والله يقول: {إنَّ الذين يحبُّون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذابٌ أليمٌ}. ومنها: طعنهم بالمؤمنين لأجل إيمانهم كفراً بالله تعالى وبغضاً للدين. ومنها: أن اللَّمز محرمٌ، بل هو من كبائر الذنوب في أمور الدنيا، وأما اللَّمز في أمر الطاعة؛ فأقبحُ وأقبح. ومنها: أنَّ من أطاع الله وتطوَّع بخَصْلةٍ من خصال الخير؛ فإنَّ الذي ينبغي إعانته وتنشيطه على عمله، وهؤلاء قصدوا تثبيطهم بما قالوا فيهم، وعابوهم عليه. ومنها: أنَّ حكمهم على من أنفق مالاً كثيراً بأنه مراءٍ غلطٌ فاحشٌ وحكم على الغيب ورجمٌ بالظن، وأيُّ شرٍّ أكبر من هذا؟! ومنها: أن قولهم لصاحب الصدقة القليلة: اللهُ غنيٌّ عن صدقة هذا! كلامٌ مقصوده باطلٌ؛ فإنَّ الله غنيٌ عن صدقة المتصدِّق بالقليل والكثير، بل وغني عن أهل السماوات والأرض، ولكنه تعالى أمر العباد بما هم مفتقرون إليه؛ فالله وإن كان غنيًّا عنه؛ فهم فقراء إليه؛ {فمن يعملْ مثقال ذرَّةٍ خيراً يره}، وفي هذا القول من التثبيط عن الخير ما هو ظاهرٌ بيّن، ولهذا كان جزاؤهم أن يسخر الله منهم، {ولهم عذابٌ أليمٌ}.
[79] یہ بھی منافقین کی رسوائی کا باعث بننے والی باتوں میں سے ہے ...اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے... وہ اسلام اور مسلمانوں کے امور میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر زبان طعن دراز کر سکتے ہوں تو وہ ظلم و تعدی سے کام لیتے ہوئے طعن و تشنیع کرنے سے باز نہ آتے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے اہل ایمان کو صدقات کی ترغیب دی تو مسلمانوں نے نہایت تیزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور ان میں سے ہر امیر و غریب نے اپنے حسب حال اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کیا۔ پس منافقین دولت مند مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کم حیثیت مسلمانوں سے کہتے ’’اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے...‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی ﴿ اَلَّذِیْنَ یَلْ٘مِزُوْنَ ﴾ ’’جو عیب جوئی اور طعن کرتے ہیں ‘‘ ﴿الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ ﴾ ’’ان مومنوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں (ان کے) صدقات میں ۔‘‘ پس کہتے ہیں کہ یہ ریاکار ہیں۔ صدقہ کرنے سے ان کا مقصد صرف ریاکاری اور فخر کا اظہار ہے۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور۔‘‘وہ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ﴿ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ ﴾ ’’جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے‘‘ پس وہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے راستے میں (تھوڑا سا) مال نکالتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ منافقین کہتے ’’اللہ تعالیٰ ان کے صدقات سے بے نیاز ہے۔‘‘﴿ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ﴾ ’’اس طرح وہ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔‘‘ ان کے تمسخر کے مقابلے میں ان کے ساتھ تمسخر کیا گیا ﴿ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١ٞ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اللہ نے ان سے تمسخر کیا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ کیونکہ انھوں نے اپنے اس کلام میں متعدد ایسے امور اکٹھے کر دیے ہیں جن سے بچنا ضروری تھا۔ (۱) وہ مسلمانوں کے احوال کی تلاش میں رہتے تھے انھیں یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی کوئی ایسی بات پائیں جس پر یہ اعتراض اور نکتہ چینی کر سکیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَ٘شِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (النور: 24؍19) ’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (۲) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے اہل ایمان پر ان کے ایمان کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے رہتے تھے۔ (۳) طعنہ زنی اور چغل خوری کرنا حرام ہے بلکہ دنیاوی امور میں یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور نیکی کے کام میں طعنہ زنی تو سب سے بڑا گناہ ہے۔ (۴) جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے بارے میں مناسب یہ ہے کہ نیکی کے اس کام میں اس کی اعانت اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے مگر ان منافقین کا مقصد تو صرف اسے نیکی کے کاموں سے باز رکھنا اور اس کی عیب جوئی کرنا تھا۔ (۵) اللہ کے راستے میں مال کثیر خرچ کرنے والے کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ کہ وہ ریاکار ہے سخت غلطی، غیب دانی کا دعویٰ اور اٹکل پچو ہے اور اس سے بڑی اور کون سی برائی ہو سکتی ہے؟ (۶) قلیل مقدار میں صدقہ کرنے والے کی بابت ان کا یہ کہنا ’’اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔‘‘ایک ایسا کلام ہے جس کا مقصود باطل ہے کیونکہ صدقہ خواہ قلیل ہو یا کثیر، اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے صدقہ سے مستغنی ہے بلکہ وہ زمین اور آسمان کے تمام رہنے والوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے امور کا حکم دیا ہے جن کے وہ خود محتاج ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ.... اگرچہ ان سے بے نیاز ہے لیکن لوگ تو اس کے محتاج ہیں .... فرماتا ہے ﴿فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 99؍7) ’’پس جو ذرہ بھر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا‘‘چنانچہ ان کے اس قول میں نیکی سے باز رہنے کی جو ترغیب ہے، وہ بالکل ظاہر اور بین ہے، لہٰذا ان کی جزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تمسخر کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
#
{80} {استغفرْ لهم أو لا تستغفرْ لهم إن تستغفرْ لهم سبعين مرَّةً}: على وجه المبالغة، وإلاَّ؛ فلا مفهوم لها، {فلن يغفرَ الله لهم}؛ كما قال في الآية الأخرى: {سواءٌ عليهم أسْتَغْفَرْتَ لهم أم لم تستغفِرْ لهم لن يَغْفِرَ الله لهم}. ثم ذكر السبب المانع لمغفرة الله لهم، فقال: {ذلك بأنَّهم كفروا بالله ورسوله}: والكافر لا ينفعه الاستغفار ولا العمل ما دام كافراً. {والله لا يهدي القوم الفاسقين}؛ أي: الذين صار الفسقُ لهم وصفاً؛ بحيث لا يختارون عليه سواه، ولا يبغون به بدلاً، يأتيهم الحقُّ الواضح فيردُّونه فيعاقبهم الله تعالى بأنْ لا يوفِّقهم له بعد ذلك.
[80] ﴿ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَ٘سْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَ٘سْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً ﴾ ’’آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں ، اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں گے‘‘ ستر مرتبہ کا لفظ مبالغہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ورنہ اس کا مفہوم مخالف نہیں ہے ﴿ فَلَ٘نْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ﴾ ’’تب بھی اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا ﴿سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَ٘سْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ لَ٘نْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ﴾ (المنافقون: 63؍6) ’’ان کے لیے برابر ہے آپ ان کے لیے مغفرت مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کیا ہے جو ان کی مغفرت سے مانع ہے چنانچہ فرمایا ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ٘﴾ ’’یہ اس واسطے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا‘‘ اور کافر جب تک اپنے کفر پر قائم ہے اسے کوئی استغفار کام دے سکتا ہے نہ کوئی نیک عمل۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ یعنی فسق جن کا وصف بن چکا ہے جو فسق و فجور کے سوا کوئی اور چیز نہیں چن سکتے، جو اس کا بدل نہیں چاہتے۔ ان کے پاس واضح حق آتا ہے مگر یہ اسے ٹھکرا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ سزا دیتا ہے کہ وہ اس کے بعد ان کو توفیق سے محروم کر دیتا ہے۔
آیت: 81 - 83 #
{فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (81) فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (82) فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ (83)}.
خوش ہوئے وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے، اپنے بیٹھ رہنے پر، بعد(جانے) رسول اللہ کے اورانھوں نے ناپسند کیا کہ وہ جہاد کریں ساتھ اپنے مالوں اوراپنی جانوں کے، اللہ کی راہ میں اور کہا انھوں نے ، نہ کوچ کرو تم (اس) گرمی میں، کہہ دیجیے! آگ جہنم کی (اس سے بھی) زیادہ سخت ہے گرمی میں، اگر ہوں وہ سمجھتے(81) پس چاہیے کہ ہنسیں وہ تھوڑا اور روئیں زیادہ، بدلے میں ان (عملوں) کے جو تھے وہ کماتے(82) پس اگر واپس لے آئے آپ کو اللہ کسی گروہ کی طرف ان (منافقین) میں سے اور اجازت مانگیں وہ آپ سے نکلنے کی تو کہہ دیجیے! ہر گز نہ نکلو گے تم میرے ساتھ کبھی بھی اور نہ لڑو گے میرے ساتھ (مل کر) دشمن سے، بے شک تم راضی ہوگئے تھے بیٹھ رہنے پر پہلی مرتبہ، سو بیٹھو (اب بھی) پیچھے رہنے والوں کے ساتھ(83)
#
{81} يقول تعالى مبيناً تبجُّح المنافقين بتخلُّفهم وعدم مبالاتهم بذلك الدالِّ على عدم الإيمان واختيار الكفر على الإيمان: {فرِحَ المخلَّفون بمَقْعَدِهم خلافَ رسول الله}: وهذا قدر زائد على مجرَّد التخلُّف؛ فإنَّ هذا تخلُّفٌ محرَّمٌ، وزيادةُ رضا بفعل المعصية وتبجحٍ به. {وكرهوا أن يجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله}: وهذا بخلاف المؤمنين، الذين إذا تخلَّفوا ولو لعذرٍ؛ حزنوا على تخلُّفهم، وتأسَّفوا غاية الأسف، ويحبُّون أن يجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله؛ لما في قلوبهم من الإيمان، ويرجون من فضل الله وإحسانه وبره وامتنانه. {وقالوا}؛ أي: المنافقون: {لا تنفِروا في الحرِّ}؛ أي: قالوا: إنَّ النفير مشقَّةٌ علينا بسبب الحرِّ فقدموا راحة قصيرة منقضية على الراحة الأبدية التامة، وحذروا من الحرِّ الذي يقي منه الظلال ويُذْهِبُه البكر والآصال على الحرِّ الشديد الذي لا يُقادَرُ قدره، وهو النار الحامية، ولهذا قال: {قل نارُ جهنَّم أشدُّ حرًّا لو كانوا يفقهون}.
[81] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کا ان کے پیچھے رہ جانے پر تکبر اور فرحت کا اظہار کرنے اور اس پر ان کی لاپروائی کو بیان کرتا ہے، جو ان کے عدم ایمان اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ۠ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’خوش ہو گئے پیچھے رہنے والے اپنے بیٹھ رہنے سے، رسول اللہ سے جدا ہو کر‘‘ یہ خوش ہونا، پیچھے رہ جانے پر ایک قدر زائد ہے کیونکہ جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنا حرام ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ معصیت کے اس فعل پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں ۔ ﴿ وَكَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور وہ گھبرائے اس بات سے کہ لڑیں اپنے مالوں اور جانوں سے، اللہ کی راہ میں ‘‘ اور اہل ایمان کا معاملہ اس کے برعکس ہے، وہ اگر پیچھے رہ جائیں .... خواہ اس کا سبب کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو.... تو اپنے پیچھے رہ جانے پر سخت غمگین ہوتے ہیں ، وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں ۔ کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان موجزن ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے احسان کی امید رکھتے ہیں ۔ ﴿ وَقَالُوْا ﴾ یعنی منافقین کہتے ہیں ﴿ لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ﴾ ’’نہ کوچ کرو گرمی میں ‘‘ یعنی وہ کہتے ہیں گرمی کے موسم میں جہاد کے لیے باہر نکلنا ہمارے لیے مشقت کا باعث ہے۔ پس انھوں نے مختصر سی عارضی راحت کو ہمیشہ رہنے والی کامل راحت پر ترجیح دی۔ وہ اس گرمی سے گھبرا گئے جس سے سایہ میں بیٹھ کر بچا جا سکتا ہے جس کی شدت صبح و شام کے اوقات میں کم ہو جاتی ہے اور اس شدید ترین گرمی کو اختیار کر لیا جس کی شدت کو کوئی شخص برداشت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اور وہ ہے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا١ؕ لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! جہنم کی آگ، کہیں زیادہ سخت گرم ہے، اگر وہ سمجھتے‘‘
#
{82} لَمَّا آثروا ما يفنى على ما يبقى، ولَمَّا فرُّوا من المشقَّة الخفيفة المنقضية إلى المشقَّة الشديدة الدائمة؛ قال تعالى: {فَلْيَضْحكوا قليلاً ولْيَبْكوا كثيراً}؛ أي: فليتمتَّعوا في هذه الدار المنقضية، ويفرحوا بلذَّاتها، ويَلْهوا بلعبها، فسيبكون كثيراً في عذاب أليم. {جزاءً بما كانوا يكسِبونَ}: من الكفر والنفاق وعدم الانقياد لأوامر ربِّهم.
[82] کیونکہ انھوں نے فانی چیز کو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز پر ترجیح دی اور انھوں نے نہایت ہی خفیف اور ختم ہو جانے والی مشقت سے فرار ہو کر دائمی مشقت کو اختیار کر لیا۔ ﴿ فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْكُوْا كَثِیْرًا ﴾ ’’پس ہنسیں وہ تھوڑا اور روئیں زیادہ‘‘ یعنی اس ختم ہو جانے والی دنیا سے خوب فائدہ اٹھائیں ۔ اس کی لذات سے فرحت حاصل کریں اور اس کے کھیل کود میں مگن ہو کر غافل ہو جائیں وہ عنقریب دردناک عذاب میں خوب روئیں گے ﴿ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ﴾ ’’بدلہ اس کا جو کماتے تھے‘‘ انھوں نے کفر، نفاق اور اپنے رب کے احکام کی عدم اطاعت پر مبنی افعال سرانجام دیے تھے، یہ ان کی جزا ہے۔
#
{83} {فإن رَجَعَكَ الله إلى طائفةٍ منهم}: وهم الذين تخلَّفوا من غير عذرٍ ولم يحزنوا على تخلُّفهم. {فاستأذنوك للخروج}: لغير هذه الغزوة إذا رأوا السهولة، {فقل} لهم عقوبةً: {لن تخرجوا معي أبداً ولن تقاتلوا معي عدوًا}: فسيُغني الله عنكم، {إنَّكم رضيتُم بالقعود أولَ مرَّةٍ فاقعُدوا مع الخالفين}: وهذا كما قال تعالى: {ونُقَلِّبُ أفئِدَتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمِنوا به أولَ مرَّةٍ}؛ فإنَّ المتثاقل المتخلِّف عن المأمور به عند انتهازِ الفرصة لن يوفَّق له بعد ذلك ويُحال بينه وبينه، وفيه أيضاً تعزيرٌ لهم؛ فإنَّه إذا تقرَّر عند المسلمين أنَّ هؤلاء من الممنوعين من الخروج إلى الجهاد لمعصيتهم؛ كان ذلك توبيخاً لهم وعاراً عليهم ونَكالاً أن يفعلَ أحدٌ كفعلِهم.
[83] ﴿ فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’پھر اگر لے جائے اللہ آپ کو ان میں سے کسی فرقے کی طرف‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی عذر کے بغیر پیچھے بیٹھ رہے تھے اور پھر اپنے پیچھے رہ جانے پر انھیں کوئی حزن و ملال نہ تھا ﴿ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ ﴾ ’’پس وہ اجازت چاہیں آپ سے نکلنے کی‘‘ یعنی جب وہ کسی اور غزوہ میں سہولت دیکھیں تو جہاد کے لیے آپ سے اجازت طلب کریں ۔ ﴿ فَقُلْ ﴾ ’’تو ان سے کہیے‘‘ یعنی سزا کے طور پر۔ ﴿ لَّ٘نْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا﴾ ’’تم ہرگز نہ نکلو گے میرے ساتھ کبھی اور نہ لڑو گے میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے‘‘ پس اللہ تعالیٰ مجھے تم سے بے نیاز کر دے گا۔ ﴿ اِنَّـكُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰؔلِفِیْنَ ﴾ ’’تم نے پسند کیا تھا بیٹھ رہنا پہلی مرتبہ، پس بیٹھے رہو تم پیچھے رہنے والوں کے ساتھ‘‘ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام: 6؍110) ’’ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو الٹ دیں گے (اور) جیسے یہ قرآن پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے (اب بھی نہیں لائیں گے)۔‘‘کیونکہ وہ شخص جو فرصت کے اوقات میں احکام کی بجا آوری میں سستی سے پیچھے رہ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کو ان احکام کی تعمیل کی توفیق عطا نہیں ہوتی، چنانچہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں ان کے لیے تعزیر بھی ہے کیونکہ جب مسلمانوں کے نزدیک یہ چیز متحقق ہوگئی کہ یہ لوگ اپنی نافرمانی کی بنا پر جہاد کی توفیق سے محروم کر دیے گئے ہیں تو یہ چیز ان لوگوں کے لیے بھی زجروتوبیخ، عار اور عبرت کا باعث ہو گی جو ان کی طرح اس حرکت کا ارتکاب کریں گے۔
آیت: 84 #
{وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (84)}.
اور نہ نماز پڑھیں آپ اوپر کسی کے ان میں سے جو مرجائے، کبھی بھی اورنہ کھڑے ہوں اس کی قبر پر، بے شک انھوں نے کفر کیا ساتھ اللہ اوراس کے رسول کے اور مرے وہ اس حال میں کہ وہ نافرمان تھے(84)
#
{84} يقول تعالى: {ولا تصلِّ على أحدٍ منهم مات}: من المنافقين، {ولا تَقُمْ على قبرِهِ}: بعد الدفن لتدعو له؛ فإنَّ صلاته ووقوفه على قبورهم شفاعةٌ منه لهم، وهم لا تنفع فيهم الشفاعة، {إنَّهم كفروا بالله ورسولِهِ وماتوا وهم فاسقون}: ومن كان كافراً ومات على ذلك؛ فما تنفعُه شفاعةُ الشافعين، وفي ذلك عبرةٌ لغيرهم وزجرٌ ونَكالٌ لهم، وهكذا كلُّ من عُلم منه الكفر والنِّفاق؛ فإنَّه لا يصلَّى عليه. وفي هذه الآية دليلٌ على مشروعيَّة الصلاة على المؤمنين والوقوف عند قبورِهم للدُّعاء لهم كما كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يفعل ذلك في المؤمنين؛ فإنَّ تقييد النهي بالمنافقين يدلُّ على أنه قد كان متقرراً في المؤمنين.
[84] ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّؔنْهُمْ مَّؔاتَ ﴾ ’’اور آپ نہ نماز پڑھیں ان میں سے کسی پر جو مر جائے‘‘ منافقین میں سے اگر کوئی مر جائے ﴿ وَّلَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ﴾ ’’اور نہ کھڑے ہوں اس کی قبر پر‘‘ دفن کرنے کے بعد تاکہ آپ اس کے حق میں دعا کریں کیونکہ ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لیے دعا کرنا آپe کی طرف سے ان کی شفاعت ہے اور شفاعت ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ﴿ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ مرے نافرمان‘‘ اور جو کافر ہے اور کفر ہی کی حالت میں مر گیا تو کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اس کے کام نہ آئے گی۔ اس آیت کریمہ میں دوسروں کے لیے عبرت اور زجر و توبیخ ہے۔ اسی طرح ہر اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جس کا کفر اور نفاق معلوم ہو۔ نیز آیت کریمہ میں اہل ایمان کی نماز جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لیے دعا مانگنے کی مشروعیت کی دلیل ہے جیسا کہ اہل ایمان کے بارے میں نبی اکرمe کا طریقہ تھا کیونکہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ تقیید دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے بارے میں یہ چیز متحقق اور جائز ہے۔
آیت: 85 #
{وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (85)}.
اور نہ حیرت میں ڈالیں آپ کو ان کے مال اوران کی اولاد، بے شک چاہتا ہے اللہ کہ عذاب دے ان کو ان کی وجہ سے دنیا میں اور نکلیں ان کی جانیں اس حال میں کہ وہ کافر ہی ہوں(85)
#
{85} أي: لا تغترَّ بما أعطاهم الله في الدُّنيا من الأموال والأولاد؛ فليس ذلك لكرامتهم عليه، وإنَّما ذلك إهانة منه لهم. {يريد الله أن يعذِّبهم بها في الدنيا}: فيتعبون في تحصيلها، ويخافون من زوالها، ولا يتهنَّون بها، بل لا يزالون يعانون الشدائد والمشاقَّ فيها، وتُلهيهم عن الله والدار الآخرة، حتى ينتقلوا من الدنيا، {وتزهقَ أنفسُهم وهم كافرون}: قد سَلَبَهم حبُّها عن كلِّ شيء، فماتوا وقلوبهم بها متعلِّقة وأفئدتهم عليها متحرِّقة.
[85] اللہ تعالیٰ نے ان کو جو مال اور اولاد سے نواز رکھا ہے اس سے دھوکہ نہ کھائیے کیونکہ یہ مال اور اولاد ان کی تکریم کے لیے نہیں ، یہ ان کی تحقیر اور اہانت کے لیے ہے۔ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا ﴾ ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ ان کو ان چیزوں کی وجہ سے دنیا میں عذاب میں رکھے‘‘ پس وہ اس کے حصول کے پیچھے لگے رہتے ہیں اس کے زوال سے خائف رہتے ہیں اور وہ اس مال سے لطف نہیں اٹھا سکتے بلکہ وہ مال کے حصول میں تکالیف اور مشقتیں برداشت کرتے رہتے ہیں ، مال اور اولاد ان کو اللہ تعالیٰ اور آخرت سے غافل کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں ۔ ﴿ وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور نکلے ان کی جان اور وہ اس وقت تک کافر ہی رہیں ‘‘ مال اور اولاد کی محبت نے ان سے ہر چیز سلب کر لی، ان کو موت نے آلیا تو ان کے دل ابھی تک دنیا سے چمٹے ہوئے تھے اور ان کے ذہن ابھی تک اس کے لیے سرگرم تھے۔
آیت: 86 - 87 #
{وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ (86) رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ (87)}.
اور جب نازل کی جاتی ہے کوئی سورت کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور جہاد کرو ساتھ (مل کر) اس کے رسول کے تو اجازت مانگتے ہیں آپ سے مقدرت والے ان میں سے اور کہتے ہیں چھوڑ دیجیے ہمیں کہ ہوجائیں ہم ساتھ بیٹھنے والوں کے(86) راضی ہوگئے وہ اس پر کہ ہوجائیں وہ ساتھ پیچھے رہنے والی عورتوں کے اور مہر لگا دی گئی دلوں پر، پس وہ نہیں سمجھتے(87)
#
{86} يقول تعالى في بيان استمرار المنافقين على التثاقل عن الطاعات وأنها لا تؤثِّر فيهم السور والآيات: {وإذا أنزِلَتْ سورةٌ}: يؤمرون فيها بالإيمان بالله والجهاد في سبيل الله، {استأذَنَكَ أولو الطَّوْل منهم}؛ يعني: أولي الغنى والأموال الذين لا عُذْرَ لهم، وقد أمدَّهم الله بأموال وبنين، أفلا يشكرون الله ويَحْمَدونه ويقومون بما أوجبه عليهم وسهل عليهم أمره؟! ولكن أبوا إلا التكاسل والاستئذان في القعود، {وقالوا ذَرْنا نَكُن مع القاعدين}.
[86] اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی دائمی کاہلی اور نیکیوں سے ان کے دائمی گریز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے نیز آگاہ فرماتا ہے کہ سورتیں اور آیات ان کے رویے پر کوئی اثر نہیں کرتیں ، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ ﴾ ’’اور جب اترتی ہے کوئی سورت‘‘ جس میں ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہو ﴿ اسْتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ ﴾ ’’تو رخصت مانگتے ہیں ان کے صاحب حیثیت لوگ‘‘ یعنی دولت مند اور مال دار لوگ جنھیں کسی قسم کا عذر نہیں اور جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال اور بیٹوں سے نواز رکھا ہے۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی تعریف نہیں کرتے اور واجبات کو قائم نہیں کرتے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب کر دیا ہے اور ان پر اپنا معاملہ سہل کر دیا ہے؟ مگر وہ سستی اور کاہلی کا شکار رہے اور پیچھے بیٹھ رہنے کی اجازت مانگتے رہے۔ ﴿ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَؔكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ ﴾ ’’اور وہ کہتے ہیں ہمیں چھوڑدو! ہو جائیں (پیچھے) بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ۔‘‘
#
{87} قال تعالى: {رَضوا بأن يكونوا مع الخوالف}؛ أي: كيف رضوا لأنفسهم أن يكونوا مع النساء المتخلِّفات عن الجهاد؟! هل معهم فقهٌ أو عقلٌ دلَّهم على ذلك أم {طَبَعَ الله على قلوبهم}؟! فلا تعي الخير ولا يكونُ فيها إرادةٌ لفعل ما فيه الخير والفلاح؛ فهم لا يفقهون مصالحهم؛ فلو فقهوا حقيقة الفقه؛ لم يرضَوْا لأنفُسِهم بهذه الحال التي تحطُّهم عن منازل الرجال.
[87] ﴿ رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ ﴾ ’’وہ راضی ہو گئے اس بات پر کہ رہیں وہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ‘‘ وہ کیوں کر اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ ان خواتین کے ساتھ پیچھے گھروں میں بیٹھ رہیں جو جہاد کے لیے نہیں نکلیں ۔ کیا ان کے پاس کوئی عقل اور سمجھ ہے جو اس پر ان کی راہ نمائی کرے؟ ﴿وَطُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ ﴾ یا ’’ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔‘‘ پس وہ کسی بھلائی کو یاد نہیں رکھ سکتے اور ان کے دل ان افعال کے ارادے سے خالی ہیں جو خیر و فلاح پر مشتمل ہیں ۔ پس وہ اپنے مصالح و مفاد کو نہیں سمجھتے۔ اگر وہ حقیقی سمجھ رکھتے ہوتے تو وہ اپنے لیے اس صورت حال پر کبھی راضی نہ ہوتے۔ جس نے ان کو جواں مردوں کے مقام سے نیچے گرا رکھا ہے۔
آیت: 88 - 89 #
{لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (89)}.
لیکن رسول(e) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ساتھ اس کے، انھوں نے جہاد کیا ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کےاور یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے(88) تیار کیے ہیں اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں، یہی ہے کامیابی بہت بڑی(89)
#
{88} يقول تعالى: إذا تخلَّف هؤلاء المنافقون عن الجهاد؛ فالله سيُغْني عنهم، ولله عبادٌ وخواصٌّ من خلقِهِ اختصَّهم بفضله يقومون بهذا الأمر، وهم {الرسول}: محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -، {والذين آمنوا معه} يجاهدون {بأموالهم وأنفسهم}: غير متثاقلين ولا كَسِلين، بل هم فرحون مستبشرون، فأولئك {لهم الخيراتُ}: الكثيرةُ في الدُّنيا والآخرة. فأولئك {هم المفلحون}: الذين ظَفِروا بأعلى المطالب وأكمل الرغائب.
[88] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: جب یہ منافقین جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے۔ اس کی مخلوق میں اس کے ایسے خاص بندے ہیں جن کو اس نے اپنے فضل سے خاص طور پر نوازا ہے وہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور وہ ہیں ﴿ الرَّسُوْلُ ﴾ رسول مصطفیe ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ﴾ ’’اور وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے اور جہاد کیا انھوں نے آپ کے ساتھ اپنے مالوں اور جانوں سے۔‘‘ وہ کاہل ہیں نہ سست بلکہ وہ فرحاں اور بشارت حاصل کرنے والے ہیں ۔ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ﴾ ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (دنیا و آخرت) کی بے شمار بھلائیاں ہیں۔‘‘ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’اور یہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ جو بلند ترین مطالب اور کامل ترین مرغوبات کے حصول میں کامیاب ہیں ۔
#
{89} {أعدَّ الله لهم جناتٍ تجري من تحتها الأنهارُ خالدين فيها ذلك الفوزُ العظيمُ}: فتبًّا لمن لم يرغبْ بما رغبوا فيه وخَسِرَ دينه ودنياه وأخراه، وهذا نظيرُ قوله تعالى: {قل آمِنوا به أو لا تؤمنوا إنَّ الذين أوتوا العلمَ من قبلِهِ إذا يُتلى عليهم يَخِرَّون للأذقانِ سُجَّداً}، وقوله: {فإن يَكْفُرْ بها هؤلاءِ فقد وكلنا بها قوماً ليسوا بها بكافرينَ}.
[89] ﴿اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’تیار کیے ہیں اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ کہ ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہی ہے بڑی کامیابی‘‘ ہلاکت ہے ایسے شخص کے لیے جو ان امور میں رغبت نہیں رکھتا جن میں اہل جنت رغبت رکھتے ہیں اور وہ اپنے دین اور دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والا شخص ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی نظیر ہے ﴿قُ٘لْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ۤ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍107) ’’کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے کتاب کا علم دیا گیا ہے جب ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی نظیر ہے ﴿فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَؔكَّؔلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ﴾ (الانعام: 6؍89) ’’اگر یہ کفار ان باتوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان باتوں پر ایمان لانے کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر کر دیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں ۔‘‘
آیت: 90 - 93 #
{وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (90) لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (91) وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ (92) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (93)}.
اور آئے بہانہ کرنے والے دیہاتیوں میں سے تاکہ اجازت دی جائے ان کواور بیٹھ گئے وہ لوگ جنھوں نے جھوٹ بولا اللہ اوراس کے رسول سے، عنقریب پہنچے گا ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ان میں سے، عذاب بہت درد ناک(90) نہیں ہے ضعیفوں پر اورنہ بیماروں پر اور نہ اوپر ان لوگوں کے جو نہیں پاتے وہ چیز کہ خرچ کریں، کوئی گناہ (پیچھے رہنے میں) جبکہ خیر خواہی کرتے ہیں وہ اللہ کی اوراس کے رسول کی، نہیں ہے نیکی کرنے والوں پر(گرفت کرنے کی) کوئی راہ اوراللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(91) اورنہ ان لوگوں پر کہ جب آئے وہ آپ کے پاس تاکہ سواری دیں آپ انھیں تو آپ نے کہا، نہیں پاتا میں ایسی چیز کہ سوار کروں میں تم کو اس پر تو وہ لوٹے جبکہ ان کی آنکھیں بہتی تھیں آنسوؤں سے، اس غم سے کہ نہیں پاتے وہ، جو وہ خرچ کریں(92) بے شک (گرفت کی) راہ تو اوپر ان لوگوں کے ہے جو اجازت مانگتے ہیں آپ سے، حالانکہ وہ مال دار ہیں، وہ راضی ہوگئے اس بات پر کہ ہوجائیں وہ ساتھ پیچھے رہنے والی عورتوں کےاور مہر لگا دی اللہ نے اوپر ان کے دلوں کے، پس وہ نہیں جانتے(93)
#
{90} يقول تعالى: {وجاء المعذِّرونَ من الأعراب لِيُؤْذَنَ لهم}؛ أي: جاء الذين تهاونوا وقصَّروا منهم في الخروج لأجل أن يؤذنَ لهم في ترك الجهاد؛ غيرَ مبالين في الاعتذار لجفائهم وعدم حيائهم وإتيانهم بسبب ما معهم من الإيمان الضعيف، وأما الذين كذبوا الله ورسوله منهم؛ فقعدوا وتركوا الاعتذار بالكلِّيَّة. ويُحتمل أنَّ معنى قوله: {المعذِّرون}؛ أي: الذين لهم عذرٌ أتوا إلى الرسول - صلى الله عليه وسلم - لِيَعْذِرَهم، ومن عادته أن يَعْذِرَ مَن له عذرٌ، {وَقَعَدَ الذين كَذَبوا الله ورسوله}: في دعواهم الإيمان المقتضي للخروج وعدم عملهم بذلك. ثم توعدهم بقوله: {سيُصيب الذين كفروا منهم عذابٌ أليمٌ}: في الدُّنيا والآخرة.
[90] ﴿ وَجَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ۠ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ ﴾ ’’اور آئے بہانے کرنے والے گنوار، تاکہ ان کو رخصت مل جائے‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے سستی کی اور جہاد کے لیے نکلنے سے قاصر رہے، اس لیے آئے کہ انھیں ترک جہاد کی اجازت مل جائے۔ انھیں اپنی جفا، عدم حیا اور اپنے کمزور ایمان کی بنا پر معذرت کرنے کی بھی پروا نہیں ... اور وہ لوگ جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا، انھوں نے اعتذار کو بالکل ہی ترک کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿الْمُعَذِّرُوْنَ۠﴾ ’’عذر کرنے والے‘‘ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو کوئی حقیقی عذر رکھتے تھے اور وہ رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ ان کی معذرت قبول فرمائیں اور رسول اللہe کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ عذر پیش کرنے والے کا عذر قبول فرما لیا کرتے تھے۔ ﴿وَقَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ﴾ ’’اور بیٹھ رہے وہ لوگ جنھوں نے جھوٹ بولا اللہ اور اس کے رسول سے‘‘ یعنی جنھوں نے اپنے دعوائے ایمان میں ، جو جہاد کے لیے نکلنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے عمل نہ کرنے میں ، اللہ اور رسول سے جھوٹ بولا، پھر ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اب پہنچے گا ان کو جو کافر ہیں ان میں دردناک عذاب‘‘ دنیا و آخرت میں ۔
#
{91} لما ذكر المعتذرين، وكانوا على قسمين: قسم معذور في الشرع، وقسم غير معذورٍ؛ ذَكَرَ ذلك بقوله: {ليس على الضُّعفاء}: في أبدانهم وأبصارهم، الذين لا قوَّة لهم على الخروج والقتال، {ولا على المرضى}: وهذا شاملٌ لجميع أنواع المرض، التي لا يقدر صاحبُهُ على الخروج والجهاد من عَرَج وعمىً وحُمَّى وذات الجنب والفالج وغير ذلك. {ولا على الذين لا يَجِدونَ ما يُنفقون}؛ أي: لا يجدون زاداً ولا راحلةً يتبلَّغون بها في سفرهم؛ فهؤلاء ليس عليهم حَرَجٌ، بشرط أن ينصحوا لله ورسوله؛ بأن يكونوا صادقي الإيمان، وأن يكون من نيَّتهم وعزمهم أنهم لو قدروا لجاهدوا، وأن يفعلوا ما يقدِرون عليه من الحثِّ والترغيب والتَّشجيع على الجهاد. {ما على المحسنين من سبيل}؛ أي: من سبيل يكونُ عليهم فيه تَبِعَةٌ؛ فإنهم بإحسانهم فيما عليهم من حقوق الله وحقوق العباد أسقطوا توجُّه اللوم عليهم، وإذا أحسن العبدُ فيما يقدِرُ عليه؛ سقط عنه ما لا يقدرُ عليه. ويُستدلُّ بهذه الآية على قاعدة، وهي أنَّ مَن أحسن على غيره في نفسه أو في ماله ونحو ذلك، ثم ترتَّب على إحسانه نقصٌ أو تلفٌ: أنَّه غير ضامن؛ لأنه محسنٌ، ولا سبيل على المحسنين؛ كما أنه يدلُّ على أن غير المحسن، وهو المسيء؛ كالمفرط؛ أن عليه الضمان. {والله غفورٌ رحيم}: من مغفرته ورحمته عفا عن العاجزين، وأثابهم بنيَّتهم الجازمة ثوابَ القادرين الفاعلين.
[91] اللہ تبارک و تعالیٰ نے معذرت پیش کرنے والوں کا ذکر فرمایا۔ ان کی دو قسمیں ہیں : (۱) جو شرعی طور پر معذور ہیں ۔ (۲) جو شرعی طور پر غیر معذور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے ﴿ لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ ﴾ ’’نہیں ہے (حرج) کمزوروں پر۔‘‘جو کمزور جسم اور کمزور نظر والے ہیں جو جہاد کے لیے باہر نکلنے اور دشمن سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ﴿ وَلَا عَلَى الْ٘مَرْضٰى ﴾ ’’اور نہ بیماروں پر‘‘ یہ آیت ان تمام امراض کو شامل ہے جن کی بنا پر مریض جہاد اور قتال کے لیے باہر نہیں نکل سکتا، مثلاً: لنگڑا پن، اندھا پن، بخار، نمونیہ اور فالج وغیرہ۔ ﴿ وَلَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ ﴾ ’’اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو نہیں ہے‘‘ یعنی ان کے پاس زاد راہ ہے نہ سواری جس کے ذریعے سے وہ تیزی سے سفر کر سکیں ۔ پس ان مذکورہ لوگوں کے لیے کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیر خواہی رکھتے ہوں ، صادق الایمان ہوں ، ان کی نیت اور ان کا عزم یہ ہو کہ اگر وہ جہاد پر قادر ہوئے تو وہ ضرور جہاد کریں گے اور ایسے کام کرتے ہوں جن پر وہ قدرت رکھتے ہیں ، مثلاً: لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینا اور جہاد کے لیے ان کا حوصلہ بڑھانا۔ ﴿ مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ﴾ ’’نیکی کرنے والوں پر کوئی راستہ نہیں ‘‘ یعنی ایسا راستہ جس سے نیکی کرنے والوں کو کوئی ضرر پہنچے کیونکہ انھوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھلائی سے کام لے کر ملامت کو ساقط کر دیا۔ بندۂ مومن جس چیز پر قادر ہے جب اس میں اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو اس سے وہ امور ساقط ہو جاتے ہیں جن پر وہ قادر نہیں ۔ اس آیت کریمہ سے اس شرعی قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ جو کوئی کسی دوسرے شخص پر اس کی جان اور مال وغیرہ میں احسان کرتا ہے، پھر اس احسان کے نتیجے میں کوئی نقصان یا اتلاف واقع ہو جاتا ہے تو اس احسان کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں ۔ کیونکہ وہ محسن ہے اور محسن پر کوئی گرفت نہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ غیر محسن..... جو کام کو عمدہ طریقے سے انجام نہ دے، اس کی حیثیت کوتاہی کرنے والے کی ہو گی، اس لیے اس پر ضمان عائد کیا جائے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور بے پایاں رحمت ہی ہے کہ اس نے قدرت نہ رکھنے والے بے بس لوگوں کو معاف کر دیا ہے اور ان کی نیت کے مطابق ان کو وہ ثواب عطا کرتا ہے جو وہ قدرت رکھنے والوں کو عطا کرتا ہے۔
#
{92} {ولا على الذين إذا ما أتَوْكَ لِتَحْمِلَهم}: فلم يصادفوا عندك شيئاً. {قلتَ}: لهم معتذراً: {لا أجِدُ ما أحمِلُكم عليه تَوَلَّوْا وأعينُهم تفيضُ من الدمع حَزَناً أن لا يجدوا ما ينفقون}: فإنهم عاجزون باذلون لأنفسهم، وقد صدر منهم من الحزن والمشقَّة ما ذكره الله عنهم؛ فهؤلاء لا حَرَجَ عليهم، وإذا سقط الحرجُ عنهم؛ عاد الأمر إلى أصله، وهو أنَّ مَن نوى الخير واقترن بنيَّته الجازمة سَعْيٌ فيما يقدِرُ عليه ثم لم يقدِرْ؛ فإنَّه ينزَّلُ منزلة الفاعل التامِّ.
[92] ﴿ وَّلَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ ﴾ ’’اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تاکہ آپ ان کو سواری دیں ‘‘ مگر انھوں نے آپ کے پاس کوئی چیز نہ پائی ﴿ قُلْتَ ﴾ اور آپ نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا ﴿ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ﴾ ’’میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا کہ میں تم کو اس پر سوار کراؤں تو وہ الٹے پھرے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے، اس غم میں کہ وہ خرچ کرنے کو کچھ نہیں پاتے‘‘ کیونکہ وہ عاجز، بے بس اور اپنی جان کو خرچ کرنے والے ہیں ۔ وہ انتہائی حزن و غم اور مشقت میں مبتلا ہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے کوئی حرج اور گناہ نہیں ، جب ان سے گناہ ساقط ہوگیا تو معاملہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گیا ... یعنی جو کوئی بھلائی کی نیت کرتا ہے اور اس کی اس نیت جازمہ کے ساتھ مقدور بھر اس کی کوشش بھی مقرون ہوتی ہے، اس کے باوجود وہ اس فعل کو بجا لانے پر قادر نہیں ہوتا تو اس کو فاعل کامل ہی شمار کیا جائے گا۔
#
{93} {إنَّما السبيل}: يتوجَّه واللوم يتناول {الذين يستأذِنونك وهم أغنياءٌ}: قادرون على الخروج لا عذرَ لهم؛ فهؤلاء {رضوا} لأنفسهم، ومن دينهم {أن يكونوا مع الخَوالِفِ}؛ كالنساء والأطفال ونحوهم. {و} إنَّما رضوا بهذه الحال لأنَّ الله طَبَعَ {على قلوبهم}؛ أي: خَتَمَ عليها؛ فلا يدخُلها خيرٌ، ولا يحسُّون بمصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، {فهم لا يعلمون}: عقوبةً لهم على ما اقترفوا.
[93] ﴿ اِنَّمَا السَّبِیْلُ ﴾ ’’الزام تو‘‘ یعنی گناہ اور ملامت تو ﴿ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَهُمْ اَغْنِیَآءُ﴾ ’’ان لوگوں پر ہے جو دولت مند ہیں اور پھر بھی آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو جہاد کے لیے نکلنے پر قادر ہیں اور ان کے پاس کوئی عذر نہیں ۔ ﴿ رَضُوْا ﴾ ’’وہ خوش ہیں ۔‘‘ یعنی اپنے دین اور اپنی ذات کے بارے میں ۔ ﴿ بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ ﴾ ’’یہ کہ وہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں رہیں ۔‘‘ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ وہ اس وجہ سے اس حال پر راضی ہیں کہ ﴿ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ ﴾ ’’اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘ اس لیے ان کے اندر کوئی بھلائی داخل نہیں ہو سکتی اور وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کو محسوس نہیں کرتے۔ ﴿ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’پس وہ نہیں جانتے۔‘‘ کہ یہ اس گناہ کی سزا ہے جس کا انھوں نے ارتکاب کیا ہے۔
آیت: 94 - 96 #
{يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (94) سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (95) يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (96)}.
عذر پیش کریں گے وہ تمھارے سامنے جب لوٹو گے تم ان کی طرف ، فرما دیجیے! مت عذر پیش کرو، ہرگز نہیں یقین کریں گے ہم تمھارا، تحقیق خبر دار کر دیا ہے ہمیں اللہ نے تمھارے حالات سے اور عنقریب دیکھے گا اللہ تمھارے عمل کو اوراس کا رسول بھی، پھر لوٹائے جاؤ گے تم طرف اس کی جو جاننے والا ہے چھپی اور کھلی بات کو، پس خبر دے گا وہ تمھیں ساتھ اس کے جو تھے تم عمل کرتے(94) عنقریب قسمیں کھائیں گے وہ اللہ کی تمھارے سامنے جب لوٹ کر جاؤ گے تم ان کی طرف تاکہ درگزر کرو تم ان سے، پس درگزر (ہی) کرو تم ان سے، یقینا وہ لوگ ناپاک ہیں اور ٹھکانا ان کا جہنم ہے بدلے میں ان کاموں کے جو تھے وہ کماتے(95) قسمیں کھائیں گے وہ تمھارے سامنے تاکہ تم راضی ہو جاؤ ان سے، سو اگر تم راضی بھی ہو جاؤ ا سے تو یقینا اللہ نہیں راضی ہو گا ان لوگوں سے جو فاسق ہیں (96)
#
{94} لما ذكر تخلُّف المنافقين الأغنياء، وأنه لا عذر لهم؛ أخبر أنهم سيعتذرون {إليكم إذا رجعتُم إليهم}: من غزاتكم، {قُلْ} لهم: {لا تعتِذروا لن نؤمنَ لكم}؛ أي: لن نصدِّقَكم في اعتذاركم الكاذب، {قد نبَّأنا الله من أخبارِكم}: وهو الصادق في قيله، فلم يبقَ للاعتذار فائدةٌ؛ لأنهم يعتذِرون بخلاف ما أخبر الله عنهم، ومحالٌ أن يكونوا صادقين فيما يخالِفُ خَبَرَ الله الذي هو أعلى مراتب الصدق. {وسيرى اللهُ عمَلَكم ورسولُه}: في الدُّنيا؛ لأنَّ العمل هو ميزان الصدق من الكذب، وأما مجرَّد الأقوال؛ فلا دلالة فيها على شيء من ذلك، {ثم تُرَدُّون إلى عالم الغيبِ والشهادة}: الذي لا يخفى عليه خافيةٌ، {فينبِّئُكم بما كنتُم تعملون}: من خيرٍ وشرٍّ، ويجازيكم بعدله أو بفضله؛ من غير أن يظلِمَكم مثقالَ ذرَّةٍ.
[94] اللہ تبارک و تعالیٰ نے دولت مند منافقین کے پیچھے رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پیچھے رہنے کے لیے ان کے پاس کوئی عذر نہ تھا اور یہ بھی آگاہ فرمایا: ﴿ یَعْتَذِرُوْنَؔ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْ﴾ ’’جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو تم سے عذر کریں گے۔‘‘ یعنی جب تم ان کے پاس اپنے غزوہ سے واپس لوٹو گے تو یہ منافقین تمھارے پاس معذرت کریں گے۔ ﴿ قُ٘لْ ﴾ آپ ان سے کہہ دیجیے! ﴿ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ ﴾ ’’تم بہانے مت بناؤ، ہم ہرگز تمھاری بات نہیں مانیں گے‘‘ یعنی ہم تمھاری جھوٹی معذرتوں کی تصدیق نہیں کریں گے۔ ﴿ قَدْ نَبَّاَ نَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ﴾ ’’اللہ نے ہمیں تمھارے حالات سے خبردار کر دیا ہے‘‘ اور اللہ تعالیٰ اپنے قول میں سچا ہے اب معذرت پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ ایسی ایسی معذرتیں پیش کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو آگاہ فرمایا ہے وہ اس کے عین برعکس ہے اور یہ قطعاً محال ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے جھوٹ ہونے کی خبر دے رہا ہے وہ سچ ہو، اللہ تعالیٰ کی خبر تو صداقت کے بلند ترین مرتبے پر ہے۔ ﴿وَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ﴾ ’’اللہ اور اس کا رسول تمھارے اعمال دیکھیں گے۔‘‘ یعنی دنیا میں کیونکہ عمل صداقت کی میزان ہے اور عمل کے ذریعے سے سچ اور جھوٹ میں امتیاز ہوتا ہے۔ رہے مجرد اقوال تو ان کی صداقت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ﴿ ثُمَّؔ تُرَدُّوْنَؔ اِلٰى عٰؔلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ﴾ ’’پھر تم غائب و حاضر کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ جس سے کوئی چیز اوجھل نہیں ۔ ﴿ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور جو عمل تم کرتے رہے ہو وہ سب تمھیں بتائے گا۔‘‘ یعنی تم برا یا بھلا جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ تمھیں اس کے بارے میں آگاہ فرمائے گا اور تم پر ذرہ بھر ظلم کیے بغیر اپنے عدل اور فضل سے تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{95} واعلم أن المسيء المذنب له ثلاثُ حالاتٍ: إما يُقْبَلُ قولُه وعذرُه ظاهراً وباطناً ويُعفى عنه بحيث يبقى كأنه لم يذنبْ. [فهذه الحالة هي المذكورة هنا في حق المنافقين أن عذرهم غير مقبول، وأنه قد تقررت أحوالهم الخبيثة وأعمالهم السيئة]. وإما أن يُعاقبوا بالعقوبة والتَّعزير الفعليِّ على ذنبهم. وإما أن يُعْرَضَ عنهم، ولا يقابَلوا بما فعلوا بالعقوبة الفعليَّة. وهذه الحال الثالثة هي التي أمر الله بها في حقِّ المنافقين، ولهذا قال: {سيحلفون باللهِ لكم إذا انقلبتُم إليهم لتُعْرِضوا عنهم فأعرِضوا عنهم}؛ أي: لا توبِّخوهم ولا تجلِدوهم أو تقتُلوهم. {إنَّهم رجسٌ}؛ أي: إنهم قذرٌ خبثاء، ليسوا بأهل لأن يُبالى بهم، وليس التوبيخ والعقوبة مفيداً فيهم. {و} تكفيهم عقوبة {جهنَّم جزاءً بما كانوا يكسِبون}.
[95] واضح رہے کہ برائی کا ارتکاب کرنے والے کے تین احوال ہیں : (۱)ظاہر اور باطن میں اس کی بات اور عذر کو قبول کیا جائے اور اس بنا پر اس کو معاف کر دیا جائے اور اس کی یہ حالت ہو جائے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔ (۲)اس کو سزا دی جائے اور اس کے گناہ پر فعلی تعزیر دی جائے۔ (۳) گناہ کا ارتکاب کرنے والے سے اعراض کیا جائے اور اس نے جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کے بدلے میں عقوبت فعلی سے گریز کیا جائے۔ یہ تیسرا رویہ ہے جس کی بابت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ منافقین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جائے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سَیَحْلِفُوْنَؔ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ١ؕ فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ﴾ ’’وہ تمھارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو، پس تم ان سے درگزر کرو۔‘‘ یعنی ان کو زجر و توبیخ کرو، نہ ان کو مارو پیٹو اور نہ ان کو قتل کرو ﴿ اِنَّهُمْ رِجْسٌ﴾ ’’وہ ناپاک ہیں ۔‘‘ یعنی وہ ناپاک اور خبیث ہیں اور وہ اس قابل نہیں کہ ان کی پروا کی جائے، زجر و توبیخ اور سزا بھی ان کے لیے مفید نہیں ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ ان کے لیے یہی کافی ہے کہ ﴿مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ ﴾ ’’ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یَحْلِفُوْنَؔ لَكُمْ لِـتَرْضَوْا عَنْهُمْ﴾ ’’وہ قسمیں کھائیں گے تمھارے لیے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ‘‘ یعنی وہ تم سے یہ آخری مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مجرد اعراض نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے راضی ہو جاؤ گویا کہ انھوں نے کوئی کوتاہی کی ہی نہیں ﴿ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْ٘فٰسِقِیْنَ﴾ ’’لیکن اگر تم ان سے خوش ہوجاؤ گے تو اللہ تو نافرمان لوگوں سے خوش نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی، اے مومنو! تمھارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان لوگوں پر رضامندی کا اظہار کرو جن پر اللہ تعالیٰ راضی نہیں بلکہ تم پر واجب ہے کہ تم اپنے رب کی رضا اور ناراضی میں اس کی موافقت کرو۔
#
{96} وقوله: {يحلفون لكم لترضَوْا عنهم}؛ أي: ولهم أيضاً هذا المقصد الآخر منكم غير مجرَّد الإعراض، بل يحبُّون أن ترضَوْا عنهم كأنَّهم ما فعلوا شيئاً. {فإن ترضَوْا عنهم فإنَّ الله لا يرضى عن القوم الفاسقينَ}؛ أي: فلا ينبغي لكم أيُّها المؤمنون أن ترضَوْا عن من لم يرضَ اللهُ عنه، بل عليكم أن توافقوا ربَّكم في رضاه وغضبه. وتأمَّلْ كيف قال: {فإنَّ الله لا يرضى عن القوم الفاسقين}، ولم يقلْ: فإنَّ الله لا يرضى عنهم؛ ليدلَّ ذلك على أن باب التوبة مفتوح، وأنهم مهما تابوا هم أو غيرهم؛ فإنَّ الله يتوب عليهم ويرضى عنهم، وأما ما داموا فاسقين؛ فإنَّ الله لا يرضى عليهم؛ لوجود المانع من رضاه، وهو خروجهم عن ما رضيه الله لهم من الإيمان والطاعة إلى ما يُغْضِبُه من الشرك والنفاق والمعاصي. وحاصل ما ذكره الله أنَّ المنافقين المتخلِّفين عن الجهاد من غير عذر إذا اعتذروا للمؤمنين وزعموا أن لهم أعذاراً في تخلُّفهم؛ فإنَّ المنافقين يريدون بذلك أن تُعْرِضوا عنهم وتَرْضَوْا وتقبلوا عذرَهم: فأمَّا قَبولُ العذر منهم والرضا عنهم؛ فلا حبًّا ولا كرامةً لهم. وأمَّا الإعراض عنهم؛ فيعرِض المؤمنون عنهم إعراضَهم عن الأمور الرديَّة الرجس. وفي هذه الآيات إثباتُ الكلام لله تعالى في قوله. {قد نبَّأنا الله من أخباركم}، وإثبات الأفعال الاختياريَّة لله الواقعة بمشيئته وقدرته في هذا وفي قوله: {وسيرى الله عَمَلَكُم ورسولُه}؛ أخبر أنه سيراه بعد وقوعه. وفيها إثبات الرِّضا لله عن المحسنين والغضب والسخط على الفاسقين.
[96] غور کیجیے اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمایا ہے: ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْ٘فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا‘‘ اور یہ نہیں فرمایا: ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰى عَنْهُمْ﴾ ’’ان سے راضی نہیں ہوتا‘‘ تاکہ یہ اس بات کی دلیل ہو کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اگر یہ یا کوئی اور جب بھی توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور ان پر راضی ہو جاتا ہے لیکن جب تک وہ اپنے فسق پر جمے رہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی رضا کا مانع موجود ہے... اور وہ ہے ان کا ان امور سے باہر نکلنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ، مثلاً: ایمان اور اطاعت اور ایسے امور میں داخل ہونا جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں ، مثلاً: شرک، نفاق اور نافرمانی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی عذر کے بغیر جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والے منافقین جب اہل ایمان کے سامنے عذر پیش کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے میں ان کے پاس عذر تھا تو وہ چاہتے ہیں کہ تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر کے ان سے راضی رہو اور ان کا عذر قبول کر لو۔ رہا ان کا عذر قبول کرنا اور ان سے راضی ہونا تو اس میں ان سے کوئی محبت نہیں اور نہ ان کی کوئی تکریم ہے۔ رہا ان سے اعراض کرنا تو اہل ایمان ان سے اس طرح اعراض کیا کرتے تھے جس طرح ناپاک اور ردی امور سے اعراض کیا جاتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ قَدْ نَبَّاَ نَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ ﴾ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کا اثبات ہوتا ہے اور اسی آیت کریمہ میں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ﴾ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات بھی ہوتا ہے جو اس کی مشیت اور قدرت سے واقع ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے عمل کو اس کے واقع ہونے کے بعد دیکھے گا۔ ان آیات کریمہ میں نیکو کاروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور فاسقین کے ساتھ ناراضی اور غصے کا اثبات ہوتا ہے۔
آیت: 97 - 99 #
{الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (97) وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (98) وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (99)}.
بدوی(دیہاتی) زیادہ سخت ہیں کفر اور نفاق میں اور زیادہ لائق ہیں اس بات کے کہ نہ جانیں وہ ان احکام کو جو نازل کیے اللہ نے اپنے رسول پراور اللہ خوب جاننے والا ، خوب حکمت والاہے(97) اور کچھ بدوی وہ ہیں جو خیال کرتے ہیں اس کو ، جو وہ خرچ کرتے ہیں (اللہ کی راہ میں ) تاوان اور انتظار کرتے ہیں تم پر زمانے کی گردشوں کا، انھیں پر ہے گردش بری اور اللہ خوب سنتا جانتا ہے(98) اور کچھ بدوی وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں ساتھ اللہ اور یوم آخرت کےاورخیال کرتے ہیں اس کو جو خرچ کرتے ہیں ( دین کے لیے) قربت کاذریعہ اللہ کے ہاں اور( ذریعہ) دعائیں لینے کا رسول کی، آگاہ رہو! یقینا یہ (خرچ کرنا) قربت کاذریعہ ہے ان کے لیے ، عنقریب داخل کرے گا ان کو اللہ اپنی رحمت میں ، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے(99)
#
{97} يقول تعالى: {الأعرابُ}: وهم سكان البادية والبراري، {أشدُّ كفراً ونفاقاً}: من الحاضرة الذين فيهم كفرٌ ونفاقٌ، وذلك لأسبابٍ كثيرة؛ منها: أنهم بعيدون عن معرفة الشرائع الدينيَّة والأعمال والأحكام؛ فهم أحرى {وأجدرُ أن لا يعلموا حدودَ ما أنزلَ الله على رسوله}: من أصول الإيمان وأحكام الأوامر والنواهي؛ بخلاف الحاضرة؛ فإنَّهم أقرب لأن يعلموا حدود ما أنزل الله على رسولِهِ، فيحدُثُ لهم بسبب هذا العلم تصوُّرات حسنة وإرادات للخير الذي يعلمون ما لا يكون في البادية. وفيهم من لطافة الطبع والانقياد للدَّاعي ما ليس في البادية. ويجالسون أهل الإيمان، ويخالطونهم أكثر من أهل البادية؛ فلذلك كانوا أحرى للخير من أهل البادية، وإن كان في البادية والحاضرة كفارٌ ومنافقون؛ ففي البادية أشدُّ وأغلظ مما في الحاضرة.
[97] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلْاَعْرَابُ ﴾ ’’بدوی‘‘ اس سے مراد صحرا اور دیہات میں رہنے والے لوگ ہیں ﴿ اَشَدُّ كُ٘فْرًا وَّنِفَاقًا ﴾ ’’زیادہ سخت ہیں کفر اور نفاق میں ۔‘‘ یعنی صحرا میں رہنے والوں میں شہر کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ کفر اور نفاق ہے جن میں نفاق کا مرض پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔ (۱) بدوی لوگ شریعت، اعمال اور احکام سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ پس وہ اسی قابل ہوتے ہیں ﴿ وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ٘﴾ ’’اور اس قابل ہیں کہ جو احکام اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ، ان سے واقف نہ ہوں ۔‘‘ یعنی جو احکام شریعت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ، مثلاً: اصول ایمان اور اوامر و نواہی وغیرہ... ان سے واقف نہ ہوں ۔ اس کے برعکس شہر میں رہنے والے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدود سے واقف ہوں جو اس نے اپنے رسولe پر نازل فرمائی ہیں اور اس علم کے سبب سے ان میں خوبصورت تصورات اور نیکی کے ارادے جنم لیتے ہیں جن کے بارے میں یہ شہری لوگ جانتے ہیں ، بدوی ان کا علم نہیں رکھتے۔ (۲) شہریوں میں لطافت طبع پائی جاتی ہے اور ان میں داعی حق کی اطاعت کا جذبہ موجود ہوتا ہے جو بدویوں میں نہیں ہوتا۔ (۳) شہری بدویوں کی نسبت اہل ایمان کے ساتھ زیادہ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ زیادہ اختلاط رکھتے ہیں ۔ بنا بریں وہ بدویوں کی نسبت بھلائی کے زیادہ اہل ہوتے ہیں ۔ ہر چند کہ کفار اور منافقین شہر اور دیہات دونوں جگہ پائے جاتے ہیں مگر دیہات میں شہر کی نسبت کفر و نفاق زیادہ شدید ہوتا ہے۔
#
{98} ومن ذلك أنَّ الأعراب أحرصُ على الأموال وأشحُّ فيها؛ فمنهم {من يتَّخذُ ما ينفِقُ}: من الزكاة والنفقة في سبيل الله وغير ذلك، {مغرماً}؛ أي: يراها خسارة ونقصاً، لا يحتسب فيها، ولا يريد بها وجه الله، ولا يكادُ يؤدِّيها إلا كرهاً، {ويتربَّص بكم الدوائرَ}؛ أي: من عداوتهم للمؤمنين وبُغضهم لهم أنهم يودُّون وينتظرون فيهم دوائر الدَّهر وفجائع الزمان، وهذا سينعكس عليهم. فعليهم {دائرةُ السَّوْء}، أما المؤمنون؛ فلهم الدائرةُ الحسنةُ على أعدائهم، ولهم العُقبى الحسنة. {والله سميعٌ عليمٌ}: يعلم نيات العباد وما صدرت منه الأعمال من إخلاص وغيره.
[98] (۴) بدوی مال و متاع کے زیادہ حریص ہوتے ہیں اور مال کے بارے میں ان میں زیادہ بخل پایا جاتا ہے۔ بدویوں ہی میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ﴿ مَنْ یَّؔتَّؔخِذُ مَا یُنْفِقُ ﴾ ’’جو سمجھتے ہیں اس کو جسے وہ خرچ کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی زکاۃ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کو ﴿ مَغْرَمًا ﴾ ’’تاوان‘‘ یعنی خسارہ اور نقصان اور وہ اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی ثواب نہیں چاہتے اور بہت ناگواری سے زکاۃ و صدقات ادا کرتے ہیں ۔ ﴿ وَّیَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىِٕرَ﴾ ’’اور انتظار کرتے ہیں وہ تم پر زمانے کی گردشوں کا‘‘ یعنی اہل ایمان کے ساتھ اپنے بغض اور عداوت کی بنا پر وہ تمھارے بارے میں گردش ایام اور مصائب زمانہ کے منتظر ہیں مگر یہ گردش ایام الٹا انھی کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ﴿ عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ﴾ ’’یہ بری مصیبت انھی پر واقع ہوگی۔‘‘ رہے اہل ایمان تو ان کے لیے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی اور ان کا انجام اچھا ہے ﴿ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ﴾ ’’اور اللہ علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔‘‘ وہ بندوں کی نیتوں کو خوب جانتا ہے اور بندوں سے جو اعمال اخلاص کے ساتھ اور اخلاص کے بغیر صادر ہوتے ہیں وہ ان سے بھی آگاہ ہے۔
#
{99} وليس الأعراب كلُّهم مذمومين، بل منهم {مَن يؤمنُ بالله واليوم الآخر}: فيسلم بذلك من الكفر والنفاق، ويعمل بمقتضى الإيمان، {ويتَّخِذُ ما ينفِقُ قُرُباتٍ عند الله}؛ أي: يحتسب نفقته ويقصد بها وجهَ الله تعالى والقربَ منه، {و} يجعَلُها وسيلةً لِصَلَواتِ {الرسول}؛ أي: دعائه لهم وتبريكه عليهم. قال تعالى مبيِّناً لنفع صلوات الرسول: {ألا إنَّها قُربةٌ لهم}: تقرِّبهم إلى الله، وتُنمي أموالهم، وتُحِلُّ فيها البركة. {سيدخِلُهم الله في رحمته}: في جملة عباده الصالحين. إنَّه {غفورٌ رحيمٌ}: فيغفر السيئاتِ العظيمةَ لمن تاب إليه، ويَعُمُّ عباده برحمتِهِ التي وسعت كلَّ شيء، ويخصُّ عباده المؤمنين برحمةٍ يوفِّقهم فيها إلى الخيرات، ويحميهم فيها من المخالفات، ويجزِلُ لهم فيها أنواع المثوبات. وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّ الأعراب كأهل الحاضرة؛ منهم الممدوح ومنهم المذموم، فلم يذمُّهم الله على مجرَّد تعرُّبهم وباديتهم، إنَّما ذمَّهم على ترك أوامر الله، وأنهم في مظنة ذلك. ومنها: أنَّ الكفر والنفاق يزيد وينقص ويغلُظُ، ويخِفُّ بحسب الأحوال. ومنها: فضيلة العلم، وأنَّ فاقِدَه أقرب إلى الشرِّ ممَّن يعرفه؛ لأنَّ الله ذمَّ الأعراب، وأخبر أنهم أشدُّ كفراً ونفاقاً، وذكر السبب الموجب لذلك، وأنَّهم أجدر أن لا يعلموا حدود ما أنزل الله على رسوله. ومنها: أن العلم النافع الذي هو أنفع العلوم معرفة حدود ما أنزل الله على رسوله من أصول الدين وفروعه؛ كمعرفة حدود الإيمان والإسلام والإحسان والتقوى والفلاح والطاعة والبرِّ والصِّلة والإحسان والكفر والنفاق والفسوق والعصيان والزنا والخمر والربا ونحو ذلك؛ فإن في معرفتها يُتَمَكَّن من فعلها إن كانت مأموراً بها أو تركها إن كانت محظورة، ومن الأمر بها أو النهي عنها. ومنها: أنه ينبغي للمؤمن أن يؤدي ما عليه من الحقوق، منشرح الصدر، مطمئن النفس، ويحرص أن تكون مغنماً ولا تكون مغرماً.
[99] تمام اعراب قابل مذمت نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں ﴿مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ‘‘ بنا بریں وہ کفر و نفاق سے بچے ہوئے ہیں اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ وَیَتَّؔخِذُ مَا یُنْفِقُ قُ٘رُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے نزدیک ہونے میں شمار کرتے ہیں ‘‘ یعنی وہ اپنے صدقے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قرب کے قصد سے صدقہ دیتے ہیں ۔ ﴿ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ﴾ ’’اور رسول کی دعائیں لینے میں ‘‘ اور وہ اس صدقہ کو اپنے لیے رسولe کی دعاؤں اور برکت کا وسیلہ بناتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کی دعاؤں کے فائدہ مند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اَلَاۤ اِنَّهَا قُ٘رْبَةٌ لَّهُمْ﴾ ’’سنو وہ بے شک ان کے لیے (موجب) قربت ہے۔‘‘ یعنی یہ صدقات اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں ۔ صدقات سے ان کا مال بڑھتا ہے اور اس میں برکت نازل ہوتی ہے ﴿ سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ﴾ ’’اللہ ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔‘‘ وہ ان کو اپنے جملہ نیک بندوں میں شامل کرے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنی رحمت کو اپنے تمام بندوں پر عام کرتا ہے، اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کو ایسی رحمت کے لیے مخصوص کرتا ہے جس کے تحت وہ ان کو نیکیوں کی توفیق عطا کرتا ہے اور انھیں اپنے احکام کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھتا ہے اور انھیں مختلف انواع کے ثواب عطا کرتا ہے۔ (۱) اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بدوی لوگ بھی شہروں میں رہنے والے لوگوں کی مانند ہیں ان میں قابل ستائش لوگ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدویوں کی محض اس بنا پر مذمت نہیں فرمائی کہ وہ صحراؤں میں رہنے والے ہیں بلکہ ان کی مذمت اس سبب کی بنا پر کی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کر دیا اور اوامر و منہیات کی عدم تعمیل کی ان سے زیادہ توقع ہوتی ہے۔ (۲) کفر اور نفاق کم یا زیادہ اور حسب احوال سخت یا نرم ہوتا رہتا ہے۔ (۳) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ علم کو فضیلت حاصل ہے۔ علم سے محروم شخص، اس شخص کی نسبت شر کے زیادہ قریب ہے جو علم رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعراب کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر بھی کیا ہے جو اس درشتی کا موجب ہے۔ ان سے زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حدود سے ناواقف ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe پر نازل کی ہیں ۔ (۴) علم نافع، جو سب سے زیادہ نفع مند علم ہے، دین کے اصول و فروع کی حدود کی معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہیں ، مثلاً:حدود ایمان، حدود اسلام، حدود احسان، تقویٰ، فلاح، اطاعت، نیکی، صلہ رحمی، بھلائی، کفر، نفاق، فسق و فجور، نافرمانی، زنا، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ کی حدود۔ ان حدود کی معرفت کے بعد ہی عارف ان حدود پر عمل پیرا ہو سکتا ہے جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا حرام ہونے کی صورت میں ترک کرنے پر قادر ہو سکتا ہے۔ (۵) بندۂ مومن کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کے ذمے عائد کیے گئے ہیں اور ہمیشہ فائدہ حاصل کرنے میں کوشاں رہے اور نقصان سے بچتا رہے۔
آیت: 100 #
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)}.
اور سبقت کرنے والے( قبول اسلام میں ) سب سے پہلے مہاجرین اور انصار میں سے اور وہ لوگ جنھوں نے اتباع کیا ان کا ساتھ احسان کے، راضی ہو گیا اللہ ان سے اور وہ راضی ہو گئے اللہ سے اور تیار کیے ہیں اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں ، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں ابد تک ، یہی ہے کامیابی بہت بڑی(100)
#
{100} السابقون هم الذين سبقوا هذه الأمة وبَدَروها إلى الإيمان والهجرة والجهاد وإقامة دين الله، {من المهاجرين}: {الذين أُخْرِجوا من ديارهم وأموالهم يبتغونَ فضلاً من الله ورضواناً وينصُرون الله ورسولَه أولئك هم الصادقون}. {و} من {الأنصار}: {الذين تبوؤا الدار والإيمان من قبلِهِم يحبُّون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورِهم حاجةً مما أوتوا ويؤثِرون على أنفسِهم ولو كان بهم خَصاصَةٌ}. {والذين اتَّبَعوهم بإحسانٍ}: بالاعتقادات والأقوال والأعمال؛ فهؤلاء هم الذين سَلِموا من الذَّمِّ وحصل لهم نهاية المدح وأفضلُ الكرامات من الله. {رضي الله عنهم}: ورضاه تعالى أكبرُ من نعيم الجنة، {ورَضوا عنه وأعدَّ لهم جناتٍ تجري تحتَها الأنهار}: الجارية التي تُساق إلى سقي الجنان والحدائق الزاهية الزاهرة والرياض الناضرة. {خالدين فيها أبداً}: لا يبغون عنها حِوَلاً ولا يطلبون منها بدلاً؛ لأنَّهم مهما تمنَّوه أدركوه، ومهما أرادوه وجدوه. {ذلك الفوز العظيم}: الذي حصل لهم فيه كلُّ محبوبٍ للنفوس ولذَّة للأرواح ونعيم للقلوب وشهوة للأبدان، واندفع عنهم كلُّ محذور.
[100] ﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ ’’جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے‘‘ اس سے مراد اس امت کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایمان، ہجرت، جہاد اور اقامت دین میں سبقت کی۔ ﴿ مِنَ الْمُهٰؔجِرِیْنَ ﴾ ’’ہجرت کرنے والوں میں سے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جن کو ان کے گھروں اور مال و متاع سے بے دخل کر کے نکال دیا گیا، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ۔ یہی درحقیقت سچے لوگ ہیں ۔ ﴿ وَالْاَنْصَارِ ﴾ ’’اور انصار میں سے۔‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے مہاجرین سے پہلے، ہجرت کے گھر (یعنی مدینہ منورہ) اور ایمان میں جگہ پکڑی، جو کوئی ہجرت کر کے ان کے پاس جاتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو عطا کیا گیا ہے وہ اس کے متعلق دل میں کوئی خلش نہیں پاتے اور مہاجرین کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِـاِحْسَانٍ ﴾ ’’اور جنھوں نے ان کی پیروی کی نیکی کے ساتھ‘‘ جنھوں نے عقائد، اقوال اور اعمال میں ان مہاجرین و انصار کی پیروی کی، یہی وہ لوگ ہیں جو مذمت سے بچے ہوئے ہیں ، جنھیں مدح کا بلند ترین درجہ اور اللہ کی طرف سے کرامت کا افضل ترین مقام حاصل ہے۔ ﴿ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ ﴾ ’’اللہ ان سے راضی ہو گیا‘‘ اور اللہ تعالیٰ کی رضا جنت کی نعمتوں سے بھی بڑی ہے۔ ﴿ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔‘‘ بہنے والی وہ نہریں جو جنت، جنت کی خوبصورت پھلواریوں اور جنت کے عمدہ باغات کو سیراب کرتی ہیں ۔ ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا﴾ ’’ہمیشہ اس میں رہیں گے ابد تک۔‘‘ یعنی وہ اس جنت سے کسی اور جگہ منتقل ہونا چاہیں گے نہ اس کو بدلنا کیونکہ وہ جب بھی کسی چیز کی تمنا کریں گے اس کو حاصل کر لیں گے اور جب بھی کسی چیز کا ارادہ کریں گے اس کو موجود پائیں گے۔ ﴿ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی ہے بڑی کامیابی۔‘‘ جہاں انھیں ان کے نفس کی ہر محبوب چیز، روح کی لذت، دلوں کی نعمت اور بدن کی شہوت حاصل ہوگی اور بچنے کے قابل ہر چیز کو ان سے دور رکھا جائے گا۔
آیت: 101 #
{وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ (101)}.
اور بعض ان لوگوں میں سے جو تمھارے آس پاس ہیں دیہاتیوں میں سے، منافق ہیں اوربعض اہل مدینہ میں سے بھی، اڑے ہوئے ہیں وہ نفاق پر، نہیں جانتے آپ انھیں ، ہم جانتے ہیں انھیں ، عنقریب ہم عذاب دیں گے ان کو دو مرتبہ ، پھر لوٹائے جائیں گے وہ طرف عذاب عظیم کی(101)
#
{101} يقول تعالى: {وممَّن حولَكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة}: أيضاً منافقون، {مَرَدُوا على النِّفاق}؛ أي: تمرَّنوا عليه [واستمرّوا] وازدادوا فيه طغياناً، {لا تعلَمُهم}: بأعيانهم فتعاقبهم أو تعاملهم بمقتضى نفاقهم؛ لما لله في ذلك من الحكمة الباهرة. {نحن نعلمُهم سنعذِّبهم مرتينِ}: يُحتمل أن التثنية على بابها، وأنَّ عذابَهم عذابٌ في الدنيا وعذابٌ في الآخرة؛ ففي الدُّنيا ما ينالهم من الهمِّ والغمِّ والكراهة لما يصيب المؤمنين من الفتح والنصر، وفي الآخرة عذابُ النار وبئس القرار، ويُحتمل أنَّ المراد سنغلِّظُ عليهم العذاب، ونضاعفه عليهم، ونكرِّره.
[101] ﴿ وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ١ۛؕ وَمِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ﴾ ’’اور تمھارے گرد رہنے والے گنواروں میں سے بعض منافق ہیں اور بعض مدینے والوں میں سے‘‘ یعنی مدینہ میں بھی منافقین موجود ہیں ﴿ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ﴾ ’’اڑے ہوئے ہیں وہ نفاق پر‘‘ یعنی نفاق کے عادی ہیں اور نفاق میں ان کی سرکشی بڑھتی جا رہی ہے ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ﴾ ’’آپ ان کو نہیں جانتے۔‘‘ یعنی آپ ان کے اعیان کو نہیں جانتے کہ آپ ان کو سزا دے سکیں یا ان کے نفاق کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کر سکیں ۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ١ؕ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ﴾ ’’ہم ان کو جانتے ہیں ، ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے۔‘‘ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ’’تثنیہ‘‘ کا لفظ اپنے حقیقی باب میں استعمال ہوا ہو، تب اس سے مراد دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب ہے۔ پس دنیا میں اہل ایمان کی فتح و نصرت سے ان کو جو غم و ہموم اور سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ دنیا کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم ان کو نہایت سخت عذاب دیں گے، ان کو دگنا عذاب دیں گے اور بار بار عذاب دیں گے۔
آیت: 102 - 103 #
{وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (102) خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (103)}.
وہ (کچھ) دوسرے وہ ہیں جنھوں نے اعتراف کیا اپنے گناہوں کا، ملایا انھوں نے ایک عمل اچھا اوردوسرا (عمل) برا، امید ہے کہ اللہ توجہ فرمائے گا ان پر، یقینا اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے(102) آپ لیجیے! ان کے مالوں میں سے صدقہ(تاکہ) پاک کریں آپ انھیں اور تزکیہ کریں ان کا اس کے ذریعے سے اور دعا فرمائیں ان کے حق میں ، بلاشبہ آپ کی دعا (ذریعۂ) تسکین ہے ان کے لیےاور اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے(103)
#
{102} يقول تعالى: {وآخرون}: ممَّن بالمدينة ومَنْ حولها، بل ومن سائر البلاد الإسلاميَّة، {اعترفوا بذنوبهم}؛ أي: أقرُّوا بها وندموا عليها وسعوا في التوبة منها والتطهُّر من أدرانها، {خلطوا عملاً صالحاً وآخر سيِّئاً}: ولا يكون العمل صالحاً إلا إذا كان مع العبد أصلُ التوحيد والإيمان المخرِجُ عن الكفر والشرك الذي هو شرطٌ لكلِّ عمل صالح؛ فهؤلاء خلطوا الأعمال الصالحة بالأعمال السيئة من التجرِّي على بعض المحرَّمات والتقصير في بعض الواجبات مع الاعتراف بذلك والرجاء بأن يغفر الله لهم؛ فهؤلاء {عسى اللهُ أن يتوبَ عليهم}: وتوبتُه على عبده نوعان: الأولُ: التوفيقُ للتوبة. والثاني: قبولُها بعد وقوعها منهم. {إنَّ الله غفورٌ رحيم}؛ أي: وصفه المغفرة والرحمة اللتان لا يخلو مخلوقٌ منهما، بل لا بقاء للعالم العلويِّ والسفليِّ إلا بهما؛ فلوْ يؤاخِذُ اللهُ الناسَ بظُلْمهم ما ترك على ظهرها من دابَّةٍ، {إنَّ الله يمسك السمواتِ والأرضَ أن تزولا ولئن زالتا إنْ أمَسكَهما من أحدٍ من بعدِهِ إنَّه كان حليماً غفوراً}، ومن مغفرته أن المسرفين على أنفسهم الذين قطعوا أعمارهم بالأعمال السيئة إذا تابوا إليه وأنابوا، ولو قُبيل موتهم بأقلِّ القليل؛ فإنَّه يعفو عنهم ويتجاوزُ عن سيئاتهم. فهذه الآية دالةٌ على أن المخلِّط المعترف النادم الذي لم يتب توبةً نصوحاً؛ أنه تحت الخوف والرجاء، وهو إلى السلامة أقرب، وأما المخلِّط الذي لم يعترفْ، ولم يندم على ما مضى منه، بل لا يزال مصرًّا على الذُّنوب؛ فإنه يخاف عليه أشدُّ الخوف.
[102] ﴿وَاٰخَرُوْنَ ﴾ ’’اور دوسرے لوگ ہیں ‘‘ مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے دیگر لوگ بلکہ تمام بلاد اسلامیہ کے لوگ ﴿اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ﴾ ’’انھوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔‘‘ ان پر نادم ہوئے، پھر وہ گناہوں سے توبہ کرنے اور ان کی گندگی سے پاک و صاف ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ﴿خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا﴾ ’’ملایا انھوں نے ایک نیک کام اور دوسرا برا کام۔‘‘ عمل اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتا جب تک کہ بندے کے پاس توحید کی اساس اور ایمان موجود نہ ہو جو اسے کفر اور شرک کے دائرے سے باہر نکالتا ہے اور جو ہر عمل صالح کے لیے شرط ہے۔ پس ان لوگوں نے بعض محرمات کے ارتکاب کی جسارت اور بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوئے نیک اعمال کو بد اعمال کے ساتھ خلط ملط کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ تو پس یہی وہ لوگ ہیں ﴿عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ﴾ ’’ممکن ہے اللہ ان کی توبہ قبول کر لے۔‘‘ اللہ تعالیٰ دو طرح سے اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ۱۔ اپنے بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ ۲۔ پھر بندے کے توبہ کرنے کے بعد اس توبہ کو قبول کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌؔ ﴾ ’’بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی مغفرت اور رحمت اس کا وصف ہے، کوئی مخلوق اس کی مغفرت اور رحمت سے باہر نہیں بلکہ اس کی مغفرت اور رحمت کے بغیر تمام عالم علوی اور عالم سفلی باقی نہیں رہ سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں پکڑ لے تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہیں بچے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا١ۚ۬ وَلَىِٕنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَ٘هُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا﴾ (فاطر:35؍41) ’’اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں ، اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کو تھام سکے بے شک وہ بہت حلم والا، بخشنے والا ہے۔‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مغفرت ہی ہے کہ اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے، جن کی عمریں برے اعمال میں صرف ہوتی ہیں ، جب وہ اپنی موت سے تھوڑا سا پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور توبہ کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر کے ان کی برائیوں سے درگزر کر دیتا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس بندے کی نیکیاں اور گناہ ملے جلے ہوں ، وہ اپنے گناہوں کا معترف اور ان پر نادم ہو اور اس نے خالص توبہ کی ہو وہ خوف و رجاء کے مابین ہوتا ہے۔ وہ سلامتی کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور وہ بندہ جس کی نیکیاں اور گناہ خلط ملط ہوں مگر وہ اپنے گناہوں کا معترف ہو نہ ان پر نادم ہو بلکہ وہ ان گناہوں کے ارتکاب پر مصر ہو تو اس کے بارے میں سخت خوف ہے۔
#
{103} قال تعالى لرسوله ومَنْ قام مقامه آمراً له بما يطهِّر المؤمنين ويتمِّم إيمانهم: {خُذْ من أموالهم صدقةً}: وهي الزكاة المفروضة، {تطهِّرُهم وتزكِّيهم بها}؛ أي: تطهِّرهم من الذُّنوب والأخلاق الرذيلة، {وتزكِّيهم}؛ أي: تنميهم، وتزيد في أخلاقهم الحسنة وأعمالهم الصالحة، وتزيد في ثوابهم الدنيوي والأخروي، وتنمي أموالهم، {وصَلِّ عليهم}؛ أي: ادع لهم؛ أي: للمؤمنين عموماً وخصوصاً عندما يدفعون إليك زكاة أموالهم. {إنَّ صلاتَك سَكَنٌ لهم}؛ أي: طُمَأنينة لقلوبهم واستبشار لهم. {والله سميع}: لدعائك سمعَ إجابة وقَبول. {عليمٌ}: بأحوال العباد ونيَّاتهم، فيجازي كلَّ عامل بعمله وعلى قدر نيته. فكان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يمتثِلُ لأمر الله، ويأمُرُهم بالصدقة، ويبعثُ عمَّاله لجبايتها؛ فإذا أتاه أحدٌ بصدقته؛ دعا له وبرَّك. ففي هذه الآية دلالةٌ على وجوب الزكاة في جميع الأموال، وهذا إذا كانت للتجارة ظاهرة؛ فإنَّها أموالٌ تنمى ويُكتسب بها؛ فمن العدل أن يواسي منها الفقراء بأداء ما أوجب الله فيها من الزكاة. وما عدا أموال التجارة؛ فإن كان المال ينمى كالحبوب والثمار والماشية المتَخذة للنماء والدرِّ والنسل؛ فإنَّها تجب فيها الزكاة، وإلاَّ؛ لم تجبْ فيها؛ لأنَّها إذا كانت للقُنْية؛ لم تكن بمنزلة الأموال التي يتَّخذها الإنسان في العادة مالاً يُتَمَوَّل ويُطلب منه المقاصد المالية، وإنَّما صرف عن المالية بالقُنية ونحوها. وفيها: أن العبد لا يمكنه أن يتطهَّر، ويتزكَّى حتى يخرِجَ زكاة مالِهِ، وأنَّه لا يكفِّرها شيءٌ سوى أدائها؛ لأنَّ الزكاة والتطهير متوقِّف على إخراجها. وفيها: استحباب الدُّعاء من الإمام أو نائبه لمن أدَّى زكاته بالبركة، وأن ذلك ينبغي أن يكون جهراً؛ بحيث يسمعه المتصدِّق فيسكنُ إليه. ويؤخذ من المعنى أنه ينبغي إدخالُ السرور على المؤمن بالكلام الليِّن والدعاء له ونحو ذلك مما يكون فيه طمأنينة وسكونٌ لقلبِهِ. [وأنه ينبغي تنشيط من أنفق نفقةً، وعمل عملاً صالحاً بالدِّعاء له والثناء ونحو ذلك].
[103] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe اور آپ کے قائم مقام کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو اہل ایمان کی تطہیر اور ان کے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً ﴾ ’’لیں ان کے مالوں سے صدقہ‘‘ اس سے مراد فرض زکاۃ ہے ﴿ تُ٘طَ٘هِّرُهُمْ ﴾ ’’آپ ان کو پاک کریں ۔‘‘ یعنی آپ ان کو گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک کریں ﴿ وَتُزَؔكِّیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کا تزکیہ کریں ۔‘‘ یعنی آپ ان کی نشوونما کریں ، ان کے اخلاق حسنہ، اعمال صالحہ اور ان کے دنیاوی اور دینی ثواب میں اضافہ کریں اور ان کے مالوں کو بڑھائیں ۔ ﴿ وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کے حق میں دعا کیجیے‘‘ تمام مومنین کے لیے عام طور پر اور خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے مال کی زکاۃ آپ کی خدمت میں پیش کریں ﴿ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾ ’’آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔‘‘ یعنی آپ کی دعا ان کے لیے اطمینان قلب اور خوشی کا باعث ہے ﴿وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ ﴾ ’’اور اللہ سننے والا‘‘ یعنی اللہ آپ کی دعا کو قبول کرنے کے لیے سنتا ہے ﴿ عَلِيْمٌ ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ وہ اپنے بندوں کے تمام احوال اور ان کی نیتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر شخص کو اس کے عمل اور اس کی نیت کے مطابق جزا دے گا۔ نبی اکرمe اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان کو صدقات کا حکم دیتے تھے اور صدقات کی وصولی کے لیے اپنے عمال بھیجا کرتے تھے، جب کوئی صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے اور اس کے لیے برکت کی دعا فرماتے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اموال میں زکاۃ واجب ہے، جب یہ اموال تجارت کی غرض سے ہوں تو اس کا وجوب صاف ظاہر ہے کیونکہ مال تجارت نمو کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے مزید مال کمایا جاتا ہے، لہٰذا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زکاۃ فرض کی ہے اسے ادا کر کے فقرا سے ہمدردی کی جائے۔ مال تجارت کے علاوہ دیگر مال، اگر نمو اور اضافے کا حامل ہو، جیسے غلہ جات، پھل، مویشی، مویشیوں کا دودھ اور ان کی نسل وغیرہ تو اس میں زکاۃ واجب ہے۔ اگر مال نمو کے قابل نہ ہو تو اس میں زکاۃ واجب نہیں کیونکہ جب یہ مال خالص خوراک اور گزارے کے لیے ہے تو یہ ایسا مال نہیں ہے جسے انسان عادۃً متمول ہونے کے لیے رکھتا ہے جس سے مالی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں بلکہ اس سے مالی فوائد کی بجائے صرف گزارہ کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان اپنے مال کی زکاۃ ادا کیے بغیر ظاہری اور باطنی طور پر پاک نہیں ہو سکتا۔ زکاۃ کی ادائیگی کے سوا کوئی چیز اس کا کفارہ نہیں بن سکتی کیونکہ زکاۃ تطہیر اور پاکیزگی ہے جو زکاۃ کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام یا اس کے نائب کا زکاۃ ادا کرنے والے کے لیے برکت کی دعا کرنا مستحب ہے اور مناسب یہ ہے کہ امام بآواز بلند دعا کرے تاکہ اس سے زکاۃ ادا کرنے والے کو سکون قلب حاصل ہو۔ اس آیت کریمہ سے یہ معنی بھی نکلتا ہے کہ مومن کے ساتھ نرم گفتگو اور اس کے لیے دعا وغیرہ اور ایسی باتوں کے ذریعے سے اس کو خوش رکھا جائے جن میں اس کے لیے طمانیت اور سکون قلب ہو۔
آیت: 104 #
{أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (104)}.
کیا نہیں جانا انھوں نے اس بات کو کہ یقینا اللہ ہی قبول فرماتا ہے توبہ اپنے بندوں کی اور لیتا ہے صدقات اور یہ کہ بلاشبہ اللہ ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا؟(104)
#
{104} أي: أما علموا سَعَةَ رحمة الله وعمومَ كرمه، وأنه {يقبلُ التوبةَ عن عبادِهِ}: التائبين من أيِّ ذنبٍ كان، بل يفرحُ تعالى بتوبة عبده إذا تاب أعظم فرحٍ يقدَّر، {ويأخُذُ الصدقاتِ}: منهم؛ أي: يقبلها ويأخُذُها بيمينه، فيُرَبِّيها لأحدهم كما يُربِّي الرجل فَلُوَّهُ، حتى تكون التمرةُ الواحدة كالجبل العظيم؛ فكيف بما هو أكبر وأكثر من ذلك. {وأنَّ الله هو التوابُ الرحيمُ}؛ أي: كثير التوبة على التائبين؛ فمنْ تاب إليه؛ تاب عليه، ولو تكررتْ منه المعصيةُ مراراً، ولا يَمَلُّ الله من التوبة على عباده حتى يَمَلُّوا هم، ويأبوا إلا النَّفارَ والشُّرودَ عن بابه وموالاتَهم عدوَّهم. {الرحيم}: الذي وسعت رحمتُهُ كلَّ شيءٍ، وكَتَبَها للذين يتَّقون، ويؤتون الزكاة، ويؤمنون بآياته، ويتَّبعون رسوله.
[104] کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کے فضل و کرم کے فیضان عام کو نہیں جانتے؟ ﴿ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ ﴾ ’’اللہ ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ توبہ کرنے والے بندوں کی، خواہ یہ توبہ کسی بھی گناہ سے کیوں نہ ہو بلکہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔ ﴿وَیَ٘اْخُذُ الصَّدَقٰتِ ﴾ ’’اور صدقات لیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے بندوں کے صدقات قبول کرتا ہے اور ان کو دائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور ان کے صدقات کو اس طرح بڑھاتا رہتا ہے جس طرح کوئی شخص اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے حتیٰ کہ صدقہ میں دیا گیا کھجور کا ایک دانہ بڑے پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے اور اس صدقہ کا کیا حال ہوگا جو کھجور کے دانے سے بہت بڑا اور تعداد میں بہت زیادہ ہو۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ ﴾ ’’اور بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ توبہ کرنے والوں کی بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی بھی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے خواہ وہ بار بار گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرتا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے سے اس وقت تک تنگ نہیں آتا جب تک کہ بندے توبہ کرنے سے تنگ نہ آجائیں اور اس کے دروازے سے بھاگ کر اس کے دشمن کو دوست نہ بنا لیں ۔ ﴿الرَّحِیْمُ﴾ ’’بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ جس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لیے لکھ دیا ہے جو زکاۃ دیتے ہیں ، اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کرتے ہیں ۔
آیت: 105 #
{وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (105)}.
اور کہہ دیجیے!عمل کرو تم، پس عنقریب دیکھے گا اللہ تمھارے عمل کواور اس کا رسول اور مومن بھی اور عنقریب لوٹائے جاؤ گے تم اس کی طرف جو جاننے والا چھپی اورکھلی باتوں کو ، پھر خبر دے گا وہ تمھیں ساتھ ان کے جو تھے تم عمل کرتے(105)
#
{105} يقول تعالى: {وقُلْ} لهؤلاء المنافقين: {اعمَلوا}: ما ترون من الأعمال، واستمرُّوا على باطلكم؛ فلا تحسَبوا أنَّ ذلك سيخفى، {فسيرى اللهُ عَمَلَكم ورسولُه والمؤمنونَ}؛ أي: لا بدَّ أن يتبيَّن عملكم ويتَّضح، {وستردُّون إلى عالم الغيب والشهادة فينبِّئكم بما كنتُم تعملون}: من خيرٍ وشرٍّ ففي هذا التهديد والوعيد الشديد على مَن استمرَّ على باطله وطغيانه وغيِّه وعصيانه. ويُحتمل أنَّ المعنى: إنَّكم مهما عملتُم من خيرٍ أو شرٍّ؛ فإنَّ الله مطَّلعٌ عليكم، وسَيُطْلِعُ رسولَه وعباده المؤمنين على أعمالكم ولو كانت باطنةً.
[105] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe سے فرماتا ہے: ﴿ وَقُ٘لِ ﴾ ’’اور کہہ دیجیے‘‘ یعنی ان منافقین سے کہہ دیجیے! ﴿ اعْمَلُوْا﴾ ’’عمل کیے جاؤ۔‘‘ یعنی تم جو اعمال بجا لانا چاہتے ہو بجا لاؤ، اپنے باطل پر جمے رہو اور یہ نہ سمجھو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے چھپا رہے گا۔ ﴿ فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’پھر دیکھ لے گا اللہ تمھارے کام کو اور اس کا رسول اور مومن‘‘ یعنی تمھارا عمل ضرور ظاہر ہو کر رہے گا ﴿ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰؔلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور جلد تم لوٹائے جاؤ گے اس کے پاس جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کو جانتا ہے، پس وہ تم کو ان عملوں کی خبر دے گا جو تم کرتے تھے۔‘‘ وہ اچھے ہوں گے یا برے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت وعید اور تہدید ہے جو اپنے باطل، سرکشی، گمراہی اور نافرمانی پر مصر ہے۔ اس میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ تم جب بھی کوئی اچھا یا برا عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ اس عمل کے بارے میں اپنے رسول اور اپنے مومن بندوں کو مطلع کر دے گا، خواہ وہ چھپے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں ۔
آیت: 106 #
{وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (106)}.
اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو چھوڑ دیے گئے اللہ کے حکم کے( انتظار) میں یا تو وہ سزا دے گا انھیں یا متوجہ ہو گا ان پراور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے(106)
#
{106} أي: {وآخرون}: من المخلَّفين مؤخَّرون {لأمرِ الله إمَّا يعذِّبُهم وإمَّا يتوبُ عليهم}: ففي هذا التخويف الشديد للمتخلِّفين والحث لهم على التوبة والندم. {واللهُ عليمٌ}: بأحوال العباد ونياتهم، {حكيمٌ}: يضع الأشياء مواضعها، وينزِلُها منازلَها؛ فإذا اقتضت حكمتُه أن يغفر لهم ويتوب عليهم؛ غفر لهم وتاب عليهم. وإن اقتضت حكمتُه أن يخذُلَهم ولا يوفِّقهم للتوبة؛ فعل ذلك.
[106] ﴿وَاٰخَرُوْنَ﴾ ’’اور کچھ دوسرے لوگ‘‘ یعنی جہاد سے پیچھے رہ جانے والے کچھ دوسرے لوگ ﴿مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ ﴾ ’’جن کاکام اللہ کے حکم پر موقوف ہے۔‘‘ یعنی جن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر موخر ہے ﴿ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ﴾ ’’چاہے ان کو عذاب دے، چاہے ان کی توبہ قبول کر لے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے سخت تخویف ہے اور ان کو توبہ کرنے اور اپنے اس عمل پر نادم ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور ان کو توبہ کی توفیق نہ دے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
آیت: 107 - 110 #
{وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (107) لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (108) أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (109) لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (110)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے بنائی ایک مسجد ضرر پہنچانے اور کفر پھیلانے اور تفرقہ ڈالنے کے لیے درمیان مومنوں کےاور انتظار کرنے کے لیے اس شخص کا جس نے لڑائی کی اللہ اور اس کے رسول سے، پہلے اس سےاور ضرور قسمیں کھائیں گے وہ کہ نہیں ارادہ کیا تھا ہم نے مگر اچھائی کااور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بلاشبہ وہ بالکل جھوٹے ہیں (107) نہ کھڑے ہوں آپ اس مسجد (ضرار) میں کبھی بھی، البتہ وہ مسجد کہ بنیاد رکھی گئی ہے (اس کی) تقویٰ پر پہلے ہی دن سے، زیادہ حق دار ہے اس کی کہ کھڑے ہوں آپ اس میں ، اس میں تو ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں اس بات کہ کہ پاک ہوں وہ اور اللہ پسند کرتا ہے پاک رہنے والوں کو(108) کیاپس وہ شخص جس نے بنیاد رکھی اپنی عمارت کی اللہ کے تقویٰ اور (اس کی) رضا مندی پر، (وہ) بہتر ہے یا وہ شخص کہ جس نے بنیاد رکھی اپنی عمارت کی اوپر کنارے کھوکھلے گرنے والے کے ، پس وہ (گڑھا) لے ہی گرا اس (شخص) کو آتش جہنم میں ؟ اور اللہ ہیں ہدایت دیتا ظالم قوم کو (109) ہمیشہ رہے گی عمارت ان کی، وہ جو انھوں نے بنائی تھی، شک ڈالنے والی ان کے دلوں میں مگر یہ کہ پاش پاش ہو جائیں دل ان کےاور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے (110)
#
{107} كان أناسٌ من المنافقين من أهل قُباء اتَّخذوا مسجداً إلى جنب مسجد قباء يريدون به المضارَّة والمشاقَّة بين المؤمنين، ويُعِدُّونه لمن يرجونه من المحاربين لله ورسوله؛ يكون لهم حصناً عند الاحتياج إليه، فبيَّن تعالى خِزْيَهم، وأظهر سِرَّهم، فقال: {والذين اتَّخذوا مسجداً ضراراً}؛ أي: مضارَّة للمؤمنين ولمسجدهم الذي يجتمعون فيه، {وكفراً}؛ أي: مقصدهم فيه الكفر إذا قصد غيرهم الإيمان، {وتفريقاً بين المؤمنين}؛ أي: ليتشعبوا ويتفرَّقوا ويختلفوا، {وإرصاداً}؛ أي: إعداداً {لمن حارب الله ورسوله مِن قبلُ}؛ أي: إعانة للمحاربين لله ورسوله، الذين تقدَّم حرابهم واشتدَّت عداوتهم، وذلك كأبي عامر الراهب، الذي كان من أهل المدينة، فلما قدم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - وهاجر إلى المدينة؛ كفر به، وكان متعبِّداً في الجاهلية، فذهب إلى المشركين يستعين بهم على حرب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فلما لم يدرك مطلوبه عندهم؛ ذهب إلى قيصر بزعمه أنه ينصره، فهلك اللعين في الطريق، وكان على وعدٍ وممالئة هو والمنافقون، فكان مما أعدُّوا له مسجد الضِّرار، فنزل الوحي بذلك، فبعث إليه النبي - صلى الله عليه وسلم - من يهدمه ويحرقه ، فهُدم، وحُرق، وصار بعد ذلك مزبلةً. قال تعالى بعد ما بيَّن من مقاصدهم الفاسدة في ذلك المسجد: {ولَيَحْلِفُنَّ إن أردْنا} في بنائنا إيَّاه {إلا الحسنى}؛ أي: الإحسان إلى الضعيف والعاجز والضرير. {والله يشهدُ إنَّهم لكاذبونَ}: فشهادة الله عليهم أصدق من حلفهم.
[107] اہل قبا میں سے کچھ منافقین نے مسجد قبا کے پہلو میں ایک مسجد بنائی اس مسجد کی تعمیر سے ان کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور ان کے درمیان اختلاف اور افتراق پیدا کرنا تھا، نیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف تخریب کاری کرنے والوں کے لیے بوقت ضرورت محفوظ پناہ گاہ تیار کرنا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رسوائی کو بیان کرتے ہوئے ان کا بھید ظاہر کر دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے کے لیے‘‘ یعنی اہل ایمان اور ان کی اس مسجد کو نقصان پہنچانے کی خاطر جس میں اہل ایمان جمع ہو کر نماز پڑھتے تھے ﴿ وَّكُفْرًا﴾ ’’اور کفر کے لیے‘‘ اس مسجد کی تعمیر میں ان کا مقصد کفر تھا جبکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا مقصد ایمان تھا۔ ﴿ وَّتَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لیے‘‘ تاکہ اہل ایمان مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر افتراق کا شکار ہو جائیں اور آپس میں اختلاف کرنے لگیں ﴿ وَاِرْصَادًا﴾ ’’اور گھات لگانے کے لیے‘‘ یعنی تیار کرنے کے لیے ﴿ لِّ٘مَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’اس شخص کو جو لڑ رہا ہے اللہ اور اس کے رسول سے پہلے سے‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والوں کی اعانت کے لیے، جن کی جنگ اور تخریب کاری پہلے ہی سے جاری اور جن کی عداوت بہت شدید تھی، مثلاً:ابوعامر راہب کی عداوت اور اس کی سازشیں ۔ ابوعامر اہل مدینہ میں سے تھا جب رسول اللہe ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس نے آپ کا انکار کر دیا حالانکہ وہ زمانہ جاہلیت میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔ وہ مشرکین کے پاس چلا گیا تاکہ رسول اللہe کے خلاف جنگ میں مشرکین سے مدد حاصل کرے مگر اسے اپنا مقصد حاصل نہ ہوا، چنانچہ وہ اس خیال سے قیصر روم کے پاس چلا گیا کہ وہ اس کی مدد کرے گا... مگر وہ لعین راستے ہی میں مر گیا۔ اس نے اور منافقین نے ایک دوسرے کی مدد کا وعدہ کر رکھا تھا، منافقین نے اس کی سازشوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر مسجد ضرار تعمیر کروائی تھی، چنانچہ اس بارے میں وحی نازل ہوئی۔ رسول اللہe نے اس مسجد کو منہدم کرنے اور اس کو جلانے کے لیے کسی کو بھیجا، چنانچہ اس مسجد کو منہدم کر کے جلا دیا گیا اور اس کے بعد مسجد ضرار کی جگہ کوڑا ڈالنے کی جگہ بن گئی۔ اس مسجد کی تعمیر میں پنہاں ان کے برے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَیَحْلِفُ٘نَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ ﴾ ’’اور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے نہیں ارادہ کیا‘‘ یعنی اس مسجد کی تعمیر سے ﴿ اِلَّا الْحُسْنٰى ﴾ ’’مگر بھلائی ہی کا‘‘ یعنی کمزور، معذور اور نابینا اہل ایمان کے ساتھ بھلائی کرنا مقصود ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَؔكٰذِبُوْنَؔ ﴾ ’’اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔‘‘ پس ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی گواہی ان کے حلف سے زیادہ معتبر ہے۔
#
{108} {لا تقم فيه أبداً}؛ أي: لا تصلِّ في ذلك المسجد الذي بُني ضراراً أبداً؛ فالله يُغنيك عنه، ولست بمضطرٍّ إليه. {لمسجدٌ أسِّس على التَّقوى من أول يوم}: ظهر فيه الإسلام في قُباء، وهو مسجد قُباء أسِّس على إخلاص الدين لله وإقامة ذكره وشعائر دينه، وكان قديماً في هذا عريقاً فيه؛ فهذا المسجد الفاضل {أحقُّ أن تقومَ فيه}: وتتعبَّد وتذكر الله تعالى؛ فهو فاضل وأهله فضلاء، ولهذا مدحهم الله بقوله: {فيه رجالٌ يحبُّون أن يتطهَّروا}: من الذُّنوب، ويتطهَّروا من الأوساخ والنجاسات والأحداث، ومن المعلوم أنَّ مَن أحبَّ شيئاً؛ لا بدَّ أن يسعى له ويجتهد فيما يحبُّ؛ فلا بدَّ أنهم كانوا حريصين على التطهُّر من الذُّنوب والأوساخ والأحداث، ولهذا كانوا ممَّن سبق إسلامه، وكانوا مقيمين للصلاة، محافظين على الجهاد مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وإقامة شرائع الدين، وممَّن كانوا يتحرَّزون من مخالفة الله ورسوله. وسألهم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - بعدما نزلت هذه الآية في مدحهم عن طهارتهم؟ فأخبروه أنَّهم يُتْبِعون الحجارة الماء، فحمدهم على صنيعهم. {والله يحبُّ المطَّهِّرين}: الطهارة المعنوية كالتنزُّه من الشرك والأخلاق الرذيلة، والطهارة الحسيَّة كإزالة الأنجاس ورفع الأحداث.
[108] ﴿ لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا﴾ ’’آپ اس میں کبھی کھڑے بھی نہ ہونا۔‘‘ یعنی اس مسجد میں ، جو مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لیے تعمیر کی گئی ہے، کبھی نماز نہ پڑھیے۔ اللہ آپ کو اس سے بے نیاز کرتا ہے اور آپ اس مسجد کے ضرورت مند بھی نہیں ۔ ﴿ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ ﴾ ’’البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی‘‘ قبا میں اسی مسجد سے اسلام ظاہر ہوا... اس سے مراد مسجد قبا ہے۔ جس کی اساس دین میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، اس کے ذکر کی اقامت اور اس کے شعائر پر رکھی گئی ہے۔ یہ قدیم اور معروف مسجد تھی۔ یہ فضیلت والی مسجد ﴿ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ﴾ ’’زیادہ قابل ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوا کریں ۔‘‘ یعنی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں عبادت اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں کیونکہ یہ فضیلت والی مسجد ہے، اس میں نماز پڑھنے والے فضیلت کے مالک ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَؔ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا﴾ ’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں ‘‘ یعنی گناہوں ، میل کچیل، نجاستوں اور ناپاکی سے پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ جو کوئی کسی چیز کو پسند کرتا ہے وہ اس کے حصول کی سعی اور جدوجہد کرتا ہے اس لیے یہ لابدی ہے کہ اہل قبا گناہوں ، میل کچیل اور حدث سے پاک رہنے کے بہت حریص تھے۔ اس لیے وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی، جو نماز قائم کرنے والے، رسول اللہe کی معیت میں جہاد کی حفاظت کرنے والے، اقامت دین کی کوشش کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچنے والے تھے۔ جب اہل قبا کی مدح میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اللہe نے ان کی طہارت کے بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے عرض کی کہ وہ استنجا کرتے وقت پتھر کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل پر ان کی تعریف فرمائی۔ ﴿ وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْ٘مُ٘طَّ٘هِّرِیْنَ ﴾ ’’اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ معنوی طہارت یعنی شرک اور اخلاق رذیلہ سے تنزہ اور حسی طہارت یعنی نجاستوں اور حدث سے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔
#
{109} ثم فاضَلَ بين المساجد بحسب مقاصد أهلها وموافقتها لرضاه، فقال: {أفمن أسَّس بنيانَه على تقوى من الله}؛ أي: على نيَّة صالحة وإخلاص، {ورضوانٍ}: بأن كان موافقاً لأمره، فجمع في عمله بين الإخلاص والمتابعة. {خيرٌ أم منْ أسَّس بنيانَه على شفا}؛ أي: على طرف؛ {جُرُفٍ هارٍ}؛ أي: بالٍ، قد تداعى للانهدام، {فانهار به في نارِ جهنَّم واللهُ لا يهدي القوم الظالمين}: لما فيه مصالح دينهم ودنياهم.
[109] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کے مقاصد اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ان کی موافقت کے مطابق اس مسجد کو دیگر مساجد پر فضیلت بخشی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَفَ٘مَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ ﴾ ’’بھلا جس شخص نے بنیاد رکھی اللہ کے تقویٰ پر‘‘ یعنی جو صالح نیت اور اخلاص پر بنیاد رکھتا ہے ﴿ وَرِضْوَانٍ ﴾ ’’اور اس کی رضامندی پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت کرتے ہوئے اپنے عمل میں اخلاص اور اتباع کو جمع کرتا ہے ﴿ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ ﴾ ’’زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد رکھی ایک کھائی کے کنارے پر جو گرنے کو ہے‘‘ یعنی کھوکھلے اور بوسیدہ کنارے پر، جو منہدم ہونے کے قریب ہو۔ ﴿ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ١ؕ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پھر وہ اس کو لے کر گر پڑا جہنم کی آگ میں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ کیونکہ اس کے اندر ان کے دین اور دنیا کے مصالح ہیں ۔
#
{110} {لا يزالُ بنيانُهم الذي بَنَوْا رِيبةً في قلوبِهِم}؛ أي: شكًّا وريباً ماكثاً في قلوبهم، {إلَّا أن تَقَطَّعَ قلوبُهم}: بأن يندموا غاية الندم، ويتوبوا إلى ربِّهم، ويخافوه غاية الخوف؛ فبذلك يعفو الله عنهم، وإلاَّ؛ فبنيانُهم لا يزيدهم إلا ريباً إلى ريبهم، ونفاقاً إلى نفاقهم. {والله عليمٌ}: بجميع الأشياء؛ ظاهرها وباطنها، خفيِّها وجليِّها، وبما أسرَّه العباد وأعلنوه، {حكيمٌ}: لا يفعل ولا يخلُقُ ولا يأمر ولا ينهى إلاَّ ما اقتضته الحكمة وأمر به؛ فلله الحمد. وفي هذه الآيات عدة فوائد: منها: أنَّ اتِّخاذ المسجد الذي يقصد به الضِّرار لمسجدٍ آخر بقربه أنه محرَّم، وأنه يجب هدمُ مسجد الضرار الذي اطُّلع على مقصود أصحابه. ومنها: أن العمل، وإن كان فاضلاً، تغيِّره النية، فينقلب منهيًّا عنه؛ كما قَلَبَتْ نيةُ أصحاب مسجد الضرار عملَهم إلى ما ترى. ومنها: أنَّ كل حالة يحصُلُ بها التفريق بين المؤمنين؛ فإنها من المعاصي التي يتعيَّن تركُها وإزالتها؛ كما أنَّ كل حالة يحصُلُ بها جمع المؤمنين وائتلافهم يتعيَّن اتِّباعها والأمرُ بها والحثُّ عليها؛ لأنَّ الله علَّل اتِّخاذهم لمسجد الضرار بهذا المقصد الموجب للنهي عنه كما يوجب ذلك الكفر والمحاربة لله ورسوله. ومنها: النهي عن الصلاة في أماكن المعصية والبعد عنها وعن قربها. ومنها: أن المعصية تؤثر في البقاع كما أثرت معصية المنافقين في مسجد الضرار ونُهي عن القيام فيه، وكذلك الطاعة تؤثر في الأماكن كما أثرت في مسجد قُباء، حتى قال الله فيه: {لَمَسْجِدٌ أسِّس على التقوى من أول يوم أحقُّ أن تقومَ فيه}: ولهذا كان لمسجد قباء من الفضل ما ليس لغيره، حتى كان - صلى الله عليه وسلم - يزور قُباء كلَّ سبتٍ يصلي فيه ، وحثَّ على الصلاة فيه. ومنها: أنه يُستفادُ من هذه التعاليل المذكورة في الآية أربعُ قواعدَ مهمَّة، وهي: كل عمل فيه مضارَّة لمسلم، أو فيه معصيةٌ لله؛ فإن المعاصي من فروع الكفر، أو فيه تفريقٌ بين المؤمنين، أو فيه معاونةٌ لمن عادى الله ورسوله؛ فإنه محرَّم ممنوع منه، وعكسه بعكسه. [ومنها: أن الأعمال الحسيّة الناشئة عن معصية الله، لا تزال مبعدة لفاعلها عن الله، بمنزلة الإصرار على المعصية حتى يزيلها ويتوبَ منها توبةً تامَّةً؛ بحيث يتقطع قلبُه من الندم والحسرات]. ومنها: أنه إذا كان مسجدُ قُباء مسجداً أسِّس على التقوى؛ فمسجد النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - الذي أسَّسه بيده المباركة، وعمل فيه، واختاره الله له من باب أولى وأحرى. ومنها: أن العمل المبنيَّ على الإخلاص والمتابعة هو العمل المؤسَّس على التَّقوى الموصل لعاملِهِ إلى جنات النعيم، والعمل المبنيَّ على سوء القصد وعلى البِدَع والضَّلال هو العمل المؤسَّس على شفا جُرُفٍ هارٍ، فانهار به في نارِ جهنَّم. والله لا يهدي القوم الظالمين.
[110] ﴿ لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ ﴾ ’’ہمیشہ رہے گا اس عمارت سے جو انھوں نے بنائی، ان کے دلوں میں شبہ‘‘ یعنی شک اور ریب، جو ان کے دل میں جڑ پکڑ گیا ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَ٘قَ٘طَّ٘عَ قُلُوْبُهُمْ﴾ ’’مگر یہ کہ ٹکڑے ہو جائیں ان کے دل کے‘‘ سوائے اس کے کہ انتہائی ندامت کی بنا پر ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ، وہ اپنے رب کی طرف توبہ کے ساتھ رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈریں ، تب اس بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔ ورنہ یہ مسجد جو انھوں نے بنائی ہے ان کے شک و ریب اور نفاق میں اضافہ کرتی چلی جائے گی۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے ظاہر و باطن اور ان کے خفی اور جلی تمام پہلوؤں کو جانتا ہے، نیز وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو بندے چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں ۔ ﴿ حَكِیْمٌ ﴾ وہ صرف وہی کام کرتا ہے یا تخلیق کرتا ہے یا وہ حکم دیتا ہے یا منع کرتا ہے، جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے۔ فللہ الحمد۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں : (۱) کوئی ایسی مسجد تعمیر کرنا جس سے کسی دوسری مسجد کو نقصان پہنچانا مقصود ہو جو اس کے قریب موجود ہو، حرام ہے، نیز یہ کہ مسجد ضرار کو، جس کو تعمیر کرنے والوں کا مقصد ظاہر ہو... منہدم کرنا واجب ہے۔ (۲) کام خواہ کتنا ہی فضیلت والا کیوں نہ ہو، فاسد نیت اس کی نوعیت کو بدل ڈالتی ہے تب وہی کام ممنوع ہو جاتا ہے، جیسے مسجد ضرار کی تعمیر کرنے والوں کی بری نیت نے ان کے اس نیک کام کو برائی میں بدل ڈالا۔ (۳) ہر وہ حالت جس کے ذریعے سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا کیا جائے، گناہ شمار ہوتی ہے اس کو ترک کرنا اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اسی طرح ہر وہ حالت جس سے اہل ایمان میں اتفاق اور الفت پیدا ہوتی ہے، اس کی پیروی کرنا، اس کا حکم اور اس کی ترغیب دینا ضروری ہے کیونکہ ان کے مسجد ضرار تعمیر کرنے کی یہ علت بیان کی ہے کہ یہ ان کا فاسد مقصد تھا جو اس مسجد کے ممنوع ہونے کا موجب بنا، جیسے یہ مسجد کفر اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی موجب ہے۔ (۴) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معصیت کے مقامات میں نماز پڑھنے اور ان کے قریب جانے سے روکا ہے۔ (۵) گناہ زمین کے ٹکڑوں کو متاثر کرتے ہیں جیسے ان منافقین کے گناہ مسجد ضرار پر اثر انداز ہوئے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح نیکی زمین کے ٹکڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے جیسے مسجد قبا پر اثر انداز ہوئی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کے بارے میں فرمایا: ﴿ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ﴾ بنا بریں مسجد قبا کو وہ فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری مسجد کو حاصل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ رسول اللہe ہر ہفتے مسجد قبا کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے اور اس میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ (۶) آیات کریمہ میں مندرجہ بالا تعلیل سے چار اہم شرعی قاعدے بھی مستفاد ہوتے ہیں ۔ (الف)ہر وہ کام جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچتا ہو یا جس میں اللہ کی نافرمانی ہو... اور نافرمانی کفر کی ایک شاخ ہے... یا جس سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو یا اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عداوت رکھنے والے کی اعانت ہوتی ہو تو یہ کام ممنوع اور حرام ہے۔ اس کے برعکس اور متضاد تمام کام مستحب ہیں ۔ (ب)چونکہ مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہے (اس کی یہ فضیلت ہے) اس لیے مسجد نبوی جس کی بنیاد خود رسول اللہ e نے اپنے دست مبارک سے رکھی، آپ نے اس میں کام بھی کیا، اللہ تعالیٰ نے بھی اس مسجد کو آپ کے لیے چن لیا... وہ فضیلت میں زیادہ اولیٰ ہے۔ (ج) وہ عمل جو اخلاص اور اتباع رسولe پر مبنی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو نعمتوں بھری جنت میں پہنچائے گا۔ (د) وہ عمل جو برے مقصد اور بدعت و ضلالت پر مبنی ہے یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد کھوکھلے اور بوسیدہ کنارے پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو جہنم میں لے گرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی راہ نمائی نہیں کرتا۔
آیت: 111 #
{إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (111)}.
یقینا اللہ نے خرید لیا ہے مومنوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو بدلے اس کے کہ بلاشبہ ان کے لیے جنت ہے، وہ (مومن) لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں ، پس قتل کرتے ہیں وہ اور قتل کیے جاتے ہیں ، یہ وعدہ ہے اللہ کے ذمے سچا تورات اور انجیل اور قرآن میں اور کون زیادہ پورا کرنے والا ہے اپنے عہد کو اللہ سے (بڑھ کر) ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودے پر وہ جو سودا کیا تم نے اللہ سے اور یہی ہے کامیابی بہت بڑی(111)
#
{111} يخبر تعالى خبراً صدقاً ويعدُ وعداً حقًّا بمبايعةٍ عظيمةٍ ومعاوضةٍ جسيمةٍ، وهو أنه {اشترى}: بنفسه الكريمة {من المؤمنين أنفسهم وأموالهم}: فهي الثَّمن والسلعة المَبيعة، {بأنَّ لهم الجنة}: التي فيها ما تشتهيه الأنفس وتَلَذُّ الأعين من أنواع اللَّذَّات والأفراح والمسرَّات والحور الحسان والمنازل الأنيقات، وصفة العقد والمبايعة بأن يبذُلوا لله نفوسَهم وأموالَهم في جهاد أعدائه؛ لإعلاء كلمتِهِ وإظهار دينه. فيقاتلون {في سبيل الله فيَقْتُلون ويُقْتَلونَ}: فهذا العقد والمبايعة قد صدرت من الله مؤكَّدة بأنواع التأكيدات. {وعداً عليه حقًّا في التوراة والإنجيل والقرآن}: التي هي أشرفُ الكتب التي طرقَتِ العالم وأعلاها وأكملها، وجاء بها أكملُ الرسل أولو العزم، وكلُّها اتَّفقت على هذا الوعد الصادق. {ومن أوفى بعهدِهِ من الله فاستَبْشِروا}: أيُّها المؤمنون، القائمون بما وعدكم الله {ببيعِكُمُ الذي بايَعْتُم به}؛ أي: لتفرحوا بذلك وليبشِّر بعضُكم بعضاً ويحثَّ بعضُكم بعضاً. {وذلك هو الفوز العظيم}: الذي لا فوز أكبرُ منه ولا أجلُّ؛ لأنه يتضمَّن السعادةَ الأبديَّة والنعيم المقيم، والرِّضا من الله الذي هو أكبر من نعيم الجنات. وإذا أردت أن تعرف مقدار الصفقة؛ فانظُرْ إلى المشتري؛ مَنْ هو؟ وهو الله جلَّ جلاله، وإلى العِوَضِ، وهو أكبر الأعواض وأجلُّها؛ جنات النعيم، وإلى الثمن المبذول فيها، وهو النفس والمال، الذي هو أحبُّ الأشياء للإنسان، وإلى مَن جرى على يديه عقدُ هذا التبايُع، وهو أشرف الرسل، وبأيِّ كتاب رُقِمَ؟ وهي كتب الله الكبار المنزلة على أفضل الخلق.
[111] اللہ تبارک و تعالیٰ سچی خبر دیتا ہے۔ ایک عظیم بیع اور ایک بہت بڑے معاوضے کا سچا وعدہ کرتا ہے اور وہ بیع یہ ہے ﴿ اشْتَرٰى ﴾ ’’اس نے خرید لیا۔‘‘ یعنی اللہ نے بنفس نفیس خرید لیا ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ ﴾ ’’مومنوں سے ان کے جانوں اور ان کے مالوں کو‘‘ یعنی ان کی جان اور ان کے مال کی قیمت لگا دی گئی ہے اور یہ فروخت شدہ مال تجارت ہے۔ ﴿ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ ’’اس کے بدلے میں ان کے لیے (وہ) جنت ہے‘‘ جس میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی نفس خواہش کریں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی انواع و اقسام کی لذتیں ، فرحتیں ، مسرتیں ، خوبصورت حوریں اور دلکش مکانات ہوں گے۔ اس عقد و بیع کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر، اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں ، اس کے کلمہ کو سربلند کرنے اور اس کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی جان اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ ﴿ یُقَاتِلُوْنَؔ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَؔ وَیُقْتَلُوْنَؔ ﴾ ’’وہ لڑتے ہیں اللہ کے راستے میں ، پس مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں ‘‘ یہ عقد و بیع بہت سی تاکیدات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی ہے ﴿ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْ٘قُ٘رْاٰنِ﴾ ’’وعدہ ہو چکا ہے اس کے ذمے سچا تورات میں ، انجیل میں اور قرآن میں ۔‘‘ جو ان تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ کتاب ہے اور یہ کتابیں سب سے کامل کتابیں ہیں جو اس دنیا میں بھیجی گئیں اور ان کتابوں کو لانے والے سب سے کامل اور اولوالعزم رسول ہیں ، یہ تمام کتابیں اس سچے وعدے پر متفق ہیں ۔ ﴿ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ ﴾ ’’اور کون ہے اللہ سے زیادہ قول کا پورا، پس خوشی کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر قائم رہنے والے مومنو! ﴿ بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ﴾ ’’اس سودے پر جو تم نے اس سے کیا ہے‘‘ تاکہ تم اس کا عزم کر لو تاکہ تم ایک دوسرے کو خوشخبری دو اور ایک دوسرے کو جہاد کی ترغیب دو ﴿ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ جس سے بڑی اور جلیل القدر اور کوئی کامیابی نہیں کیونکہ یہ کامیابی ابدی سعادت، دائمی نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جو کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے، کو متضمن ہے۔ اگر آپ اس معاہدۂ بیع کی قدر و منزلت کو جاننا چاہیں تو خریدار کی طرف دیکھیں کہ وہ کون ہے؟ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اور اس عوض کی طرف نظر کریں جو سب سے بڑا معاوضہ ہے اور اس معاوضے میں سب سے جلیل القدر چیز جنت ہے اور اس قیمت پر غور کریں جو اس معاوضے کے بدلے میں خرچ کی گئی ہے اور وہ ہے جان اور مال جو انسان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب چیز ہے اور اس ہستی کی طرف دیکھیں جس کے ہاتھ پر یہ معاہدۂ بیع منعقد ہوا ہے، وہ تمام رسولوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہستی ہے۔ یہ معاہدہ کون سی کتابوں میں رقم کیا گیا ہے... اللہ تعالیٰ کی عظیم کتابوں میں یہ معاہدہ تحریر کیا گیا ہے جو مخلوق میں سب سے افضل ہستیوں پر نازل کی گئی ہیں ۔
آیت: 112 #
{التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (112)}.
وہ (مومن) توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے،حمدکرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، حکم کرنے والے نیکی کا اور روکنے والے برائی سے اور حفاظت کرنے والے ہیں حدود اللہ کی اور خوش خبری سنا دیجیے مومنوں کو(112)
#
{112} كأنه قيل: من هم المؤمنون الذين لهم البشارةُ من الله بدخول الجنات ونَيْل الكرامات؟ فقال: هم: {التائبون}؛ أي: الملازمون للتوبة في جميع الأوقات عن جميع السيئات. {العابدونَ}؛ أي: المتَّصفون بالعبوديَّة لله والاستمرار على طاعته من أداء الواجبات والمستحبَّات في كل وقتٍ؛ فبذلك يكون العبد من العابدين. {الحامدون}: لله في السرَّاء والضرَّاء واليسر والعسر، المعترفون بما لله عليهم من النعم الظاهرة والباطنة، المثنون على الله بذكرها وبذكره في آناء الليل وآناء النهار. {السائحون}: فسِّرت السياحة بالصيام، أو السياحة في طلب العلم، وفسِّرت بسياحة القلب في معرفة الله ومحبته والإنابة إليه على الدوام، والصحيح أنَّ المرادَ بالسياحة السفرُ في القُرُبات؛ كالحجِّ والعمرة والجهاد وطلب العلم وصلة الأقارب ونحو ذلك. {الراكعون الساجدون}؛ أي: المكثرون من الصلاة، المشتملة على الركوع والسجود. {الآمرون بالمعروف}: ويدخل فيه جميع الواجباتِ والمستحبَّات. {والناهون عن المنكر}: وهي جميع ما نهى الله ورسوله عنه. {والحافظون لحدود الله}: بتعلُّمهم حدودَ ما أنزل الله على رسوله، وما يدخُلُ في الأوامر والنواهي والأحكام، وما لا يدخل، الملازمون لها فعلاً وتركاً. {وبشِّر المؤمنين}: لم يذكُرْ ما يبشِّرهم به؛ ليعمَّ جميع ما رتَّب على الإيمان من ثواب الدُّنيا والدين والآخرة؛ فالبشارةُ متناولةٌ لكلِّ مؤمن، وأما مقدارُها وصفتُها؛ فإنَّها بحسب حال المؤمنين وإيمانهم قوةً وضعفاً وعملاً بمقتضاه.
[112] گویا کہ سوال کیا گیا ہے کہ وہ مومن کون ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں داخلے اور اس کی طرف سے عزت و اکرام کی خوشخبری ہے؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلتَّآىِٕبُوْنَ﴾ ’’توبہ کرنے والے‘‘ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت تمام گناہوں سے توبہ کا التزام کرنے والے ہیں ﴿الْعٰبِدُوْنَ﴾ ’’عبادت کرنے والے‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے لیے عبودیت کی صفت سے متصف ہیں ، ہر وقت واجبات و مستحبات کی ادائیگی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی دائمی اطاعت کا التزام کرتے ہیں ۔ جس کی بنا پر بندہ عبادت گزاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ﴿الْحٰؔمِدُوْنَ﴾ ’’حمد کرنے والے‘‘ جو رنج و راحت، تنگ دستی اور خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا اعتراف کرتے رہتے ہیں ۔ دن رات ان نعمتوں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ذریعے سے اس کی مدح و ثنا میں مصروف رہتے ہیں ۔ ﴿السَّؔآىِٕحُوْنَ۠﴾ ’’سیاحت کرنے والے‘‘ سیاحت کی تفسیر روزوں سے کی گئی ہے یا طلب علم کے لیے سفر کرنے سے کی گئی ہے اور سیاحت کی تفسیر اللہ تعالیٰ کی معرفت و محبت اور اس کی طرف دائمی انابت میں قلب کی سیاحت سے کی گئی ہے۔ مگر اس کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ سیاحت سے مراد اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے حج، عمرہ، جہاد، طلب علم اور اقارب سے ملنے کے لیے سفر کرنا ہے۔ ﴿ الرّٰؔكِعُوْنَ السّٰؔجِدُوْنَ ﴾ ’’رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے‘‘ یعنی کثرت سے نماز پڑھتے ہیں جو رکوع و سجود پر مشتمل ہے۔ ﴿ الْاٰمِرُوْنَ بِالْ٘مَعْرُوْفِ﴾ ’’نیک بات کا حکم دینے والے ہیں ‘‘ اس میں تمام واجبات و مستحبات داخل ہیں ﴿ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْؔكَرِ﴾ ’’بری بات سے روکنے والے ہیں ۔‘‘ اس میں وہ تمام امور شامل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے روکا ہے۔ ﴿ وَالْحٰؔفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe پر جو حدود نازل فرمائی ہیں ، یعنی اوامر و نواہی اور احکام میں کیا چیز داخل ہے اور کیا چیز داخل نہیں ہے، ان کا علم حاصل کر کے ان حدود کی حفاظت کرتے ہیں اور ترکاً اور فعلاً ان کا التزام کرتے ہیں ۔ ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور مومنوں کو خوش خبری سنا دیجیے‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمایا کہ اہل ایمان کے لیے کس چیز کی خوشخبری ہے تاکہ یہ خوشخبری دین و دنیا اور آخرت کے ثواب کو شامل ہو جو ایمان پر مترتب ہوتا ہے۔ یہ خوشخبری ہر مومن کے لیے ہے۔ رہی اس خوشخبری کی مقدار اور اس کا وصف تو اہل ایمان کے احوال، ان کے ایمان کی قوت، ضعف اور اس کے تقاضے پر عمل کے مطابق ہوتی ہے۔
آیت: 113 - 114 #
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (113) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ (114)}.
نہیں ہے لائق نبی کے اور (نہ) ان لوگوں کے جو ایمان لائے یہ کہ بخشش طلب کریں وہ( اللہ سے) مشرکوں کے لیے ، اگرچہ ہوں وہ قرابت دار ہی، بعد اس کے کہ واضح ہو گیا ان کے لیے یہ کہ بلاشبہ وہ دوزخی ہیں (113) اور نہیں تھا بخشش طلب کرنا ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مگر بوجہ ایک وعدے کے جو وعدہ کیا تھا ابراہیم نے اس سے، پھر جب واضح ہو گیا ابراہیم کے لیے یہ کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تو بیزار ہو گیا ابراہیم اس سے، بے شک ابراہیم البتہ بہت آہ وزاری کرنے والے، بردبار تھے(114)
#
{113} يعني: ما يليق ولا يَحْسُنُ للنبيِّ وللمؤمنين به، {أن يستغفِروا للمشركين}؛ أي: لمن كفر به وعبد معه غيره، {ولو كانوا أولي قُربى من بعدِ ما تبيَّن لهم أنهم أصحابُ الجحيم}: فإنَّ الاستغفار لهم في هذه الحال غلطٌ غير مفيد؛ فلا يليقُ بالنبيِّ والمؤمنين؛ لأنَّهم إذا ماتوا على الشرك أو عُلِمَ أنهم يموتون عليه؛ فقد حقَّت عليهم كلمة العذاب، ووجب عليهم الخلودُ في النار، ولم تنفعْ فيهم شفاعةُ الشافعين ولا استغفارُ المستغفرين. وأيضاً؛ فإنَّ النبيَّ والذين آمنوا معه عليهم أن يوافقوا ربَّهم في رضاه وغضبه، ويوالوا مَنْ والاه الله، ويُعادوا من عاداه الله، والاستغفار منهم لمن تبيَّن أنه من أصحاب النار منافٍ لذلك مناقضٌ له.
[113] یعنی نبیe اور اہل ایمان کے لائق ہے نہ ان کے لیے زیبا ہے۔ ﴿ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا۠ لِلْ٘مُشْرِكِیْنَ۠﴾ ’’کہ وہ ان لوگوں کے لیے استغفار کریں جنھوں نے (کفر اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیر اللہ کو) شریک کیا۔‘‘ ﴿ وَلَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُ٘رْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰؔبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’اگرچہ وہ رشتے دار ہوں اس بات کے واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں ‘‘ کیونکہ اس حال میں ان کے لیے بخشش کی دعا کرنا غلط اور ان کے لیے غیر مفید ہے اس لیے یہ استغفار نبی اکرمe اور اہل ایمان کی شان کے لائق نہیں کیونکہ جب وہ شرک کی حالت میں مر گئے یا یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ وہ شرک کی حالت میں مریں گے تو ان پر عذاب اور جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہوگیا کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اور ان کی بخشش کی دعا کرنے والے کی دعا ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نبی کریمe اور اہل ایمان پر واجب ہے کہ اپنے رب کی رضا اور ناراضی کے بارے میں اس کی موافقت کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا ہے اس سے موالات رکھیں اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دشمن قرار دیا ہے اس سے عداوت رکھیں اور جس شخص کے بارے میں یہ واضح ہو چکا ہو کہ وہ جہنمی ہے اس کے لیے استغفار کرنا اس کے منافی اور متناقض ہے۔
#
{114} ولئن وُجِدَ الاستغفار من خليل الرحمن إبراهيم عليه السلام لأبيه؛ فإنه {عن موعدةٍ وَعَدَها إيَّاه}: في قوله: {سأستغفِر لك ربِّي إنه كان بي حَفِيًّا}: وذلك قبل أن يعلم عاقبةَ أبيه، {فلما تبيَّن}: لإبراهيم أن أباه {عدوٌّ لله}: سيموت على الكفر، ولم ينفع فيه الوعظ والتذكير؛ {تبرَّأ منه}: موافقةً لربِّه وتأدباً معه. {إنَّ إبراهيم لأوَّاهٌ}؛ أي: رجَّاعٌ إلى الله في جميع الأمور، كثير الذِّكر والدُّعاء والاستغفار والإنابة إلى ربِّه. {حليمٌ}؛ أي: ذو رحمة بالخلق، وصفح عما يصدُرُ منهم إليه من الزلاَّت، لا يستفزُّه جهلُ الجاهلين، ولا يقابل الجاني عليه بجُرْمِهِ، فأبوه قال له: {لأرْجُمنَّكَ}، وهو يقول له: {سلامٌ عليك سأستغفرُ لك ربِّي}؛ فعليكم أن تقتدوا وتتَّبعوا مِلَّةَ إبراهيم في كلِّ شيء إلا قول إبراهيم لأبيه: {لأستغفرنَّ لك}؛ كما نبَّهكم الله عليها وعلى غيرها. ولهذا قال:
[114] اگر اللہ رحمن کے خلیل ابراہیمu نے اپنے باپ کے لیے استغفار کیا تھا ﴿ عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّ٘اهُ﴾ تو ایک وعدے کی بنا پر تھا جو انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان الفاظ میں کیا تھا ﴿ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا ﴾ (مریم: 19؍47) ’’میں اپنے پروردگار سے آپ کے لیے ضرور دعا کروں گا کہ وہ آپ کو بخش دے کیونکہ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔‘‘ دعا کا یہ وعدہ حضرت ابراہیمu نے اس وقت کیا تھا جب آنجنابu کو اپنے باپ کے انجام کا علم نہیں تھا۔ جب ابراہیمu پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اسے موت بھی کفر ہی پر آئے گی اور وعظ و نصیحت نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا ﴿ تَبَرَّاَ مِنْهُ﴾ ’’تو اس سے بیزار ہوگئے۔‘‘ یعنی اپنے رب کی موافقت اور اس کی اتباع میں اس سے بیزاری کا اعلان کر دیا۔ ﴿ اِنَّ اِبْرٰؔهِیْمَ لَاَوَّاهٌ ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ ابراہیمu بڑے نرم دل تھے۔‘‘ حضرت ابراہیمu تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے اور بہت کثرت سے ذکر، دعا، استغفار کرنے والے اور اپنے رب کی طرف پلٹنے والے تھے۔ ﴿ حَلِیْمٌ﴾ ’’نہایت بردبار تھے۔‘‘ یعنی وہ مخلوق الٰہی پر بہت مہربان اور اپنے حق میں ان سے صادر ہونے والی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزر کرنے والے تھے۔ جہلاء کی جہالت انھیں آپے سے باہر نہیں کر سکتی تھی۔ وہ کسی مجرم کا مقابلہ جرم کے ذریعے سے نہیں کرتے تھے۔ ان کے باپ نے ان سے کہا: ﴿ لَاَرْجُمَنَّكَ ﴾ (مریم: 19؍46) ’’میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔‘‘ جواب میں آپ نے فرمایا: ﴿ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ ﴾ (مریم: 19؍47) ’’آپ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے آپ کے لیے بخشش طلب کرتا رہوں گا۔‘‘ پس تم پر واجب ہے کہ تم حضرت ابراہیمu کی پیروی اور ہر معاملے میں ملت ابراہیمu کی اتباع کرو، سوائے آپ کے اس قول کے ﴿ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ﴾ (الممتحنۃ: 60؍4) ’’ابراہیمu کے اس قول کے سوا جو انھوں نے باپ سے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 115 - 116 #
{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (115) إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (116)}.
اور نہیں ہے اللہ (ایسا) کہ گمراہ کر دے کسی قوم کو بعد اس کے کہ ہدایت دی اس نے ان کو یہاں تک کہ واضح کر دے ان کے لیے وہ چیزیں کہ جن سے وہ بچیں، بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے(115) یقینا اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہ آسمانوں اور زمین کی، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مدد گار(116)
#
{115} يعني: أن الله تعالى إذا مَنَّ على قوم بالهداية وأمرهم بسلوك الصراط المستقيم؛ فإنه تعالى يتمِّم عليهم إحسانه، ويبيِّن لهم جميع ما يحتاجون إليه وتدعو إليه ضرورتُهم؛ فلا يتركُهم ضالِّين جاهلين بأمور دينهم. ففي هذا دليلٌ على كمال رحمته، وأن شريعته وافيةٌ بجميع ما يحتاجُه العبادُ في أصول الدين وفروعه. ويُحتمل أنَّ المراد بذلك: {وما كان الله لِيُضِلَّ قوماً بعد إذ هَداهم حتَّى يُبَيِّنَ لهم ما يتَّقونَ}: فإذا بيَّن لهم ما يتَّقون، فلم ينقادوا له؛ عاقبهم بالإضلال جزاءً لهم على ردِّهم الحقَّ المبينَ، والأول أولى. {إنَّ الله بكلِّ شيءٍ عليم}: فلكمال علمِهِ وعمومه علَّمكم ما لم تكونوا تعلمونَ، وبيَّن لكم ما به تنتفعون.
[115] یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہدایت سے نوازتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کا حکم دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنے احسان کی تکمیل کرتا ہے اور ان تمام امور کو ان پر واضح کر دیتا ہے جن کے وہ محتاج ہیں اور ضرورت جن کا تقاضا کرتی ہے، پس وہ انھیں ان کے دین کے امور کے بارے میں گمراہ اور جاہل نہیں چھوڑتا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کی دلیل ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت بندوں کی ان تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے جن کے وہ اپنے دین کے اصول و فروع میں محتاج ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰؔىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ﴾ ’’اللہ ایسا نہیں کہ وہ کسی قوم کو راہ راست دکھانے کے بعد گمراہ کر دے جب تک کہ ان پر وہ امور واضح نہ کر دے جن سے وہ بچیں ۔‘‘ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان پر وہ تمام امور واضح فرما دیتا ہے جن سے ان کو پرہیز کرنا چاہیے اور وہ ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو واضح حق کو ٹھکرا دینے کی پاداش میں گمراہ کر دیتا ہے لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ یعنی اس کا کامل اور ہر چیز کو شامل علم ہی ہے کہ اس نے تمھیں ان امور کی تعلیم دی جنھیں تم نہ جانتے تھے اور ہر وہ چیز تم پر واضح کر دی ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو۔
#
{116} {إنَّ الله له ملك السمواتِ والأرض يُحيي ويُميتُ}؛ أي: هو المالك لذلك، المدبِّر لعباده بالإحياء والإماتة وأنواع التدابير الإلهيَّة؛ فإذا كان لا يُخِلُّ بتدبيره القدريِّ؛ فكيف يُخِلُّ بتدبيره الدينيِّ المتعلِّق بإلهيَّته ويترك عبادَه سدى مهمَلين أو يدعُهم ضالِّين جاهلين وهو أعظم تولِّيه لعبادِهِ؟! فلهذا قال: {وما لَكُم من دونِ الله من وليٍّ ولا نصيرٍ}؛ أي: وليٍّ يتولاَّكم بجلب المنافع لكم أو نصيرٍ يدفع عنكم المضارَّ.
[116] ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١ؕ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ﴾ ’’بے شک اللہ ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ زمین و آسمان کا مالک ہے وہ زندگی اور موت اور مختلف انواع کی تدابیر کے ذریعے سے اپنے بندوں کی تدبیر کرتا ہے جب اس کی تدبیر کونی و قدری میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا تو تدبیر دینی میں، جو اس کی الوہیت سے متعلق ہے، کیوں کر خلل واقع ہو سکتا ہے، وہ اپنے بندوں کو کیوں کر بیکار اور مہمل یا جاہل اور گمراہ چھوڑ سکتا ہےحالانکہ وہ اپنے بندوں کا سب سے بڑا سرپرست ہے؟ بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ﴾ ’’اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی حمایتی نہیں ‘‘ جو تمھاری سرپرستی کرے اور تمھیں مختلف قسم کی منفعتیں عطا کرے۔ ﴿ وَّلَا نَصِیْرٍ﴾ ’’اور نہ کوئی مددگار‘‘ تم سے مضرتیں دور کر کے تمھاری مدد کرے۔
آیت: 117 - 118 #
{لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (117) وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (118)}.
البتہ تحقیق توجہ فرمائی اللہ نے اوپر نبی اور مہاجرین اور انصار کے، وہ (مہاجرین و انصار) کہ جنھوں نے اتباع کیا آپ کا تنگی کی گھڑی میں بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ٹیڑھے ہو جائیں دل ایک فریق کے ان میں سے، پھر توجہ فرمائی اللہ نے ان پر، بلاشبہ اللہ ان پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے(117)اور (توجہ فرمائی اللہ نے) ان تین شخصوں پر، جو چھوڑ دیے گئے تھے (حکم الٰہی کے انتظار میں ) یہاں تک کہ جب تنگ ہو گئی ان پر زمین باوجود فراخی کے اور تنگ ہو گئیں ان پر جانیں ان کی اور یقین کر لیا انھوں نے یہ کہ نہیں ہے کوئی جائے پناہ اللہ (کی ناراضی) سے مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے توجہ فرمائی ان پر تاکہ وہ توبہ کریں ، یقینا اللہ، وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا(118)
#
{117} يخبر تعالى أنه من لطفه وإحسانه {تاب على النبيِّ}: محمد - صلى الله عليه وسلم -، {والمهاجرين والأنصار}: فغفر لهم الزَّلاَّت ووفَّر لهم الحسنات ورقَّاهم إلى أعلى الدرجات، وذلك بسبب قيامهم بالأعمال الصعبة الشاقَّات، ولهذا قال: {الذين اتَّبعوه في ساعةِ العُسْرَةِ}؛ أي: خرجوا معه لقتال الأعداء في غزوة تبوك ، وكانت في حرٍّ شديد وضيق من الزاد والركوب وكثرة عدوٍ مما يدعو إلى التخلُّف، فاستعانوا الله تعالى، وقاموا بذلك {من بعدِ ما كاد يَزيغُ قلوبُ فريق منهم}؛ أي: تنقلب قلوبهم ويميلوا إلى الدَّعة والسكون، ولكنَّ الله ثبَّتهم وأيَّدهم وقوَّاهم. وزيغُ القلب هو انحرافُه عن الصراط المستقيم؛ فإن كان الانحراف في أصل الدين؛ كان كفراً، وإنْ كان في شرائعِهِ؛ كان بحسب تلك الشريعة التي زاغَ عنها: إما قصَّر عن فعلها، أو فَعَلَها على غير الوجه الشرعيِّ. وقوله: {ثمَّ تاب عليهم}؛ أي: قبل توبتهم. {إنَّه بهم رءوفٌ رحيمٌ}: ومن رأفته ورحمته أنْ مَنَّ عليهم بالتوبة وقبلها منهم، وثبَّتهم عليها.
[117] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے کہ ﴿ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ﴾ ’’مہربان ہوا وہ اپنے پیغمبر پر‘‘ ﴿وَالْ٘مُهٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ﴾ ’’اور مہاجرین اور انصار پر‘‘ پس ان کی تمام لغزشیں معاف کر دیں ، انھیں بے شمار نیکیاں عطا کیں اور انھیں بلند ترین مراتب پر فائز فرمایا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے نہایت مشکل اور مشقت سے لبریز عمل کیے، اسی لیے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْ٘عُسْرَةِ﴾ ’’جو ساتھ رہے اس پیغمبر کے مشکل کی گھڑی میں ‘‘ یعنی وہ غزوہ تبوک میں دشمن کے ساتھ جنگ کے لیے آپ کے ساتھ نکلے، سخت گرمی کا موسم تھا، سامان سفر اور سواریوں وغیرہ کی قلت اور دشمن کی افرادی تعداد زیادہ تھی۔ یہ ایسے حالات تھے جو لوگوں کے پیچھے رہنے کا باعث بنتے ہیں ۔ پس اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مدد کے طلب گار ہوئے اور اس پر قائم رہے ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ٘ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّؔنْهُمْ﴾ ’’بعد اس کے کہ قریب تھا کہ دل پھر جائیں ان میں سے کچھ لوگوں کے‘‘ یعنی ان کے دل آرام و راحت اور سکون کی طرف مائل تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا کی، ان کی تائید کی اور ان کو قوت سے نوازا اور زیغ قلب (دل کے پھر جانے) سے مراد ہے قلب کا صراط مستقیم سے انحراف کرنا۔ اگر یہ انحراف اصول دین میں ہو تو یہ کفر ہے اور اگر انحراف شرائع کے احکام میں ہو تو یہ انحراف اس حکم شریعت کے مطابق ہوگا جس سے انحراف کیا گیا ہے۔ یہ انحراف یا تو اس حکم شریعت پر عمل کی کوتاہی کے سبب سے ہوتا ہے یا اس شرعی حکم پر غیر شرعی طریقے سے عمل کرنے کے باعث ہوتا ہے فرمایا: ﴿ ثُمَّؔ تَابَ عَلَیْهِمْ﴾ ’’پھر وہ مہربان ہوا ان پر‘‘ یعنی اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔ ﴿ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’بے شک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و رافت ہے کہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان کو اس توبہ پر ثابت قدم رکھا۔
#
{118} {و} كذلك لقد تاب [اللهُ] {على الثلاثة الذين خُلِّفوا}: عن الخروج مع المسلمين في تلك الغزوة، وهم كعبُ بن مالك وصاحباه، وقصَّتُهم مشهورةٌ معروفةٌ في الصحاح والسنن. {حتى إذا}: حزنوا حزناً عظيماً، و {ضاقتْ عليهم الأرضُ بما رَحُبَتْ}؛ أي: على سعتها ورحبها، {وضاقت عليهم أنفسُهُم}: التي هي أحبُّ إليهم من كلِّ شيءٍ، فضاق عليهم الفضاء الواسع والمحبوبُ الذي لم تجرِ العادة بالضيق منه، وذلك لا يكون إلا من أمرٍ مزعج بَلَغَ من الشدَّة والمشقَّة ما لا يمكن التعبيرُ عنه، وذلك لأنهم قدَّموا رضا الله ورضا رسوله على كلِّ شيءٍ. {وظنُّوا أن لا مَلْجَأ من الله إلا إليه}؛ أي: تيقَّنوا وعرفوا بحالهم أنه لا يُنْجي من الشدائد ويُلْجَأ إليه إلاَّ الله وحده لا شريك له، فانقطع تعلُّقهم بالمخلوقين، وتعلَّقوا بالله ربِّهم، وفرُّوا منه إليه، فمكثوا بهذه الشدَّة نحو خمسين ليلةً. {ثمَّ تاب عليهم}؛ أي: أذن في توبتهم ووفَّقهم لها، {لِيَتوبوا}؛ أي: لتقعَ منهم فيتوبَ الله عليهم. {إنَّ الله هو التوَّابُ}؛ أي: كثير التوبة والعفو والغفران عن الزلاَّت والنُّقصان ، {الرحيمُ}: وَصْفُهُ الرحمة العظيمة التي لا تزال تَنْزِلُ على العباد في كلِّ وقت وحينٍ، في جميع اللحظات ما تقوم به أمورُهم الدينيَّة والدنيويَّة. وفي هذه الآيات دليلٌ على أن توبة الله على العبد أجلُّ الغايات وأعلى النهايات؛ فإنَّ اللَّه جعلها نهاية خواصِّ عباده، وامتنَّ عليهم بها حين عملوا الأعمال التي يحبُّها ويرضاها. ومنها: لطف الله بهم، وتثبيتهم في إيمانهم عند الشدائد والنوازل المزعجة. ومنها: أنَّ العبادة الشاقَّة على النفس لها فضلٌ ومزيَّة ليست لغيرها، وكلَّما عظُمت المشقة؛ عظم الأجر. ومنها: أن توبة الله على عبده بحسب ندمِهِ وأسفِهِ الشديد، وأنَّ من لا يبالي بالذنب ولا يُحْرَجُ إذا فعله؛ فإنَّ توبته مدخولةٌ، وإنْ زَعَمَ أنَّها مقبولةٌ. ومنها: أنَّ علامة الخير وزوال الشدَّة إذا تعلَّق القلب بالله تعالى تعلُّقاً تامًّا وانقطع عن المخلوقين. ومنها: أنَّ من لطف الله بالثلاثة أنْ وَسَمَهم بوسم ليس بعارٍ عليهم، فقال: {خُلِّفوا}؛ إشارةً إلى أن المؤمنين خَلَّفوهم أو خُلِّفوا عن مَنْ بُتَّ في قَبول عذرِهم أو في ردِّه، وأنهم لم يكن تخلُّفهم رغبةً عن الخير، ولهذا لم يقلْ: تَخَلَّفوا. ومنها: أن الله تعالى منَّ عليهم بالصدق، ولهذا أمر بالاقتداء بهم، فقال:
[118] ﴿ وَّعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا﴾ ’’او ران تینوں پر بھی (اللہ مہربان ہوا) جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔‘‘ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان تین حضرات کی توبہ قبول کر لی جو اس غزوہ میں جہاد کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نہ نکل سکے تھے۔ وہ تھے کعب بن مالک اور ان کے ساتھی (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعy) ان کا قصہ صحاح اور سنن میں مشہور و معروف ہے۔(صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب ﴿وعلی الثلاثۃ... الخ﴾ حدیث: 4677) ﴿ حَتّٰۤى اِذَا﴾ یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ غم زدہ ہوگئے ﴿ ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ﴾ ’’اور زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی‘‘ یعنی اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود ﴿ وَضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ﴾ ’’اور تنگ ہو گئیں ان پر ان کی جانیں ‘‘ جو کہ انھیں ہر چیز سے زیادہ محبوب تھیں ۔ پس کشادہ فضا ان کے لیے تنگ ہوگئی اور ہر محبوب چیز ان کے لیے تنگ ہوگئی جو عادۃً کبھی ان کے لیے تنگ نہ تھی۔ یہ صورت حال صرف اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی انتہائی گھبراہٹ والا معاملہ ہو جو شدت اور مشقت میں اس حد تک پہنچ گیا ہو جس کی تعبیر ممکن نہ ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ ﴿ وَظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ﴾ ’’اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف‘‘ یعنی انھیں یقین ہوگیا اور اپنے حال کے ذریعے سے ان کو معلوم ہوگیا کہ ان سختیوں سے نجات دینے والا اور جس کے پاس پناہ لی جائے اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی نہیں ، تب مخلوق کے ساتھ ان کا تعلق منقطع ہوگیا اور انھوں نے اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر اللہ ہی کے پاس پناہ لی۔ وہ پچاس راتوں تک اس شدت اور کیفیت میں مبتلا رہے۔ ﴿ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ﴾ ’’پھر مہربان ہوا ان پر‘‘ یعنی اللہ نے ان کو توبہ کی اجازت دے دی اور ان کو توبہ کی توفیق سے نواز دیا ﴿لِیَتُوْبُوْا﴾ ’’تاکہ وہ توبہ کریں ۔‘‘ تاکہ ان کی طرف سے توبہ واقع ہو اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ﴾ ’’بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے، بہت کثرت سے معاف کرتا ہے اور بہت کثرت سے لغزشوں اور نقائص کو بخش دیتا ہے۔ ﴿الرَّحِیْمُ﴾ عظیم رحمت اس کا وصف ہے جو ہر آن، ہر وقت اور ہر لحظہ اس کے بندوں پر نازل ہوتی رہتی ہے جس سے ان کے دنیاوی اور دینی امور سر انجام پاتے ہیں ۔ (۱) ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنا، جلیل ترین مقصد اور بلند ترین منزل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کو اپنے خاص بندوں کا مقام و منزل قرار دیا ہے۔ جب بندے ایسے اعمال کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی منزل سے نوازتا ہے۔ (۲) اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ان پر سایہ کناں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہلا دینے والے مصائب کے وقت ان کے ایمان میں ثابت قدمی اور استقامت عطا کرتا ہے۔ (۳) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس پر شاق گزرنے والی عبادت ایسی فضیلت کی حامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی۔ عبادت میں مشقت جتنی زیادہ ہوگی اجر اتنا ہی بڑا ہوگا۔ (۴) بندے کی اپنے گناہ پر ندامت اور تاسف کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی گناہ کی پروا نہیں کرتا اور گناہ کے ارتکاب پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتا تو اس کی توبہ عیب دار اور کھوکھلی ہے اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہے۔ (۵) جب قلب مخلوق سے کٹ کر کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہو جائے تو یہ بھلائی اور شدت (تنگی) کے زوال کی علامت ہے۔ (۶) ان تینوں اصحاب پر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان کو کسی ایسے وصف سے موصوف نہیں کیا جو ان کے لیے عار کا باعث ہو، چنانچہ فرمایا: ﴿خُلِّفُوْا ﴾ ’’جو پیچھے چھوڑ دیے گئے‘‘ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل ایمان ان کو پیچھے چھوڑ گئے تھے یا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو ان لوگوں سے پیچھے چھوڑ دیا گیا، جن کو ان کی معذرت کے قبول یا رد کے سلسلے میں علیحدہ کر دیا گیا تھا اور یہ کہ ان کا پیچھے رہ جانا بھلائی سے روگردانی کی بنا پر نہ تھا، اسی لیے ( تَخَلَّفُوا) کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔
آیت: 119 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (119)}.
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! ڈرو اللہ سے اور ہو ساتھ سچ بولنے والوں کے(119)
#
{119} أي: {يا أيُّها الذين آمنوا}: بالله وبما أمر الله بالإيمان به! قوموا بما يقتضيه الإيمانُ، وهو القيام بتقوى الله تعالى؛ باجتناب ما نهى الله عنه والبعد عنه، {وكونوا مع الصَّادقينَ}: في أقوالهم وأفعالهم وأحوالهم، الذين أقوالهم صدقٌ، وأعمالهم وأحوالهم لا تكون إلا صدقاً، خليَّةً من الكسل والفتور، سالمة من المقاصد السيئة، مشتملة على الإخلاص والنيَّة الصالحة؛ فإنَّ الصدق يهدي إلى البرِّ، وإنَّ البرَّ يهدي إلى الجنة؛ قال تعالى: {هذا يومُ ينفَعُ الصادقين صِدْقُهم ... } الآية.
[119] ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور ان امور پر ایمان رکھنے والو! جن پر ایمان رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی منہیات سے اجتناب اور ان سے دور رہ کر تقویٰ کا التزام۔ ﴿وَؔكُوْنُوْا مَعَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے ساتھ رہو جو اپنے اقوال، افعال اور احوال میں سچے ہیں ۔ جن کے اقوال سچے ہیں ، جن کے اعمال و احوال صدق پر مبنی ہیں ، جو کسل مندی اور فتور سے خالی اور برے مقاصد سے محفوظ ہیں ، جو اخلاص اور نیک نیتی پر مشتمل ہیں ۔ صدق نیکی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ هٰؔذَا یَوْمُ یَنْ٘فَ٘عُ الصّٰؔدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ ﴾ (المائدۃ: 5؍119) ’’آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی راست بازی فائدہ دے گی۔‘‘
آیت: 120 - 121 #
{مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (120) وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (121)}.
نہیں لائق واسطے اہل مدینہ کے اور ان کے جو آس پاس ہیں ان کے دیہاتیوں میں سے، یہ کہ پیچھے رہ جائیں وہ( جہاد میں ) رسول اللہ سے اور نہ یہ(جائزہے) کہ رغبت رکھیں وہ اپنی جانوں سے بے پروا ہو کر رسول اللہ کی جان سے، یہ اس لیے کہ بے شک وہ نہیں پہنچتی انھیں (کوئی تکلیف ، یعنی ) پیاس اور نہ تھکاوٹ اور نہ بھوک اللہ کے راستے میں اور نہیں روندتے (طے کرتے) وہ کسی مقام کو جو غضب ناک کردے کافروں کواور نہیں حاصل کرتے وہ دشمن سے کوئی کامیابی (غنیمت وغیرہ) مگر لکھا جاتا ہے ان کے لیے بدلے اس کے عمل صالح، بے شک اللہ نہیں ضائع کرتا اجر احسان کرنے والوں کا (120) اور نہیں خرچ کرتے وہ کوئی خرچ چھوٹا اور نہ بڑااور نہیں طے کرتے وہ کوئی وادی مگر لکھا جاتاہے وہ( سب) ان کے لیے تاکہ جزادے انھیں اللہ بہترین (جزا) اس کی جو تھے و ہ عمل کرتے (121)
#
{120} يقول تعالى حاثًّا لأهل المدينة المنوَّرة من المهاجرين والأنصار ومَنْ حولَها من الأعراب الذين أسلموا فَحَسُنَ إسلامهم: {ما كان لأهل المدينة ومَنْ حولَهم من الأعراب أن يتخَلَّفوا عن رسول الله}؛ أي: ما ينبغي لهم ذلك ولا يَليق بأحوالهم. {ولا يرغَبوا بأنفسِهِم}: في بقائها وراحتها، وسكونه {عن نفسه}: الكريمة الزكيَّة، بل النبيُّ أولى بالمؤمنين من أنفسهم؛ فعلى كلِّ مسلم أن يفدي النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - بنفسه ويقدِّمَه عليها؛ فعلامة تعظيم الرسول ومحبَّته والإيمان التامِّ به أن لا يتخلَّفوا عنه. ثم ذكر الثواب الحامل على الخروج، فقال: {ذلك بأنَّهم}؛ أي: المجاهدين في سبيل الله، {لا يصيبُهم ظمأٌ ولا نَصَبٌ}؛ أي: تعبٌ ومشقَّة، {ولا مَخْمَصَةٌ في سبيل الله}؛ أي: مجاعةٌ، {ولا يطؤونَ موطئاً يَغيظُ الكفارَ}: من الخَوْضِ لديارهم والاستيلاء على أوطانهم {ولا ينالون من عَدُوٍّ نَيْلاً}: كالظَّفَر بجيش أو سريَّة أو الغنيمة لمال، {إلَّا كُتِبَ لهم به عملٌ صالحٌ}: لأنَّ هذه آثار ناشئةٌ عن أعمالهم. {إنَّ الله لا يُضيعُ أجرَ المحسنين}: الذين أحسنوا في مبادرتهم إلى أمر الله وقيامهم بما عليهم من حقِّه وحقِّ خلقه؛ فهذه الأعمالُ آثارٌ من آثار عملهم.
[120] اللہ تبارک و تعالیٰ مدینہ منورہ میں رہنے والے مہاجرین و انصار اور مدینہ منورہ کے اردگرد رہنے والے اعراب کو، جو اسلام لائے اور انھوں نے اپنے اسلام کو صحیح کر لیا، ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور نہیں چاہیے مدینے والوں کو اور ان کے ارد گرد رہنے والے گنواروں کو کہ وہ پیچھے رہ جائیں رسول اللہ کے ساتھ سے‘‘ یعنی یہ بات ان کو زیبا نہیں اور نہ ان کے احوال کے لائق ہے ﴿ وَلَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’اور نہ یہ کہ وہ اپنی جانوں کو چاہیں ‘‘ اپنے نفس کی بقاء اور اپنی راحت و سکون کی خاطر ﴿ عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’رسول کی جان سے زیادہ‘‘ یعنی اپنے نفس کی تو حفاظت کریں لیکن نبی کریمe کے نفس زکیہ و کریمہ کی حفاظت سے روگردانی کریں بلکہ اس کے برعکس ان کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ نبی اکرمe اہل ایمان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں ۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نبی کریمe کو اپنی ذات پر مقدم رکھے اور آپ پر اپنی جان قربان کر دے۔ رسول اللہe کی تعظیم، آپ سے محبت اور آپ پر کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ اہل ایمان آپ کو چھوڑ کر پیچھے نہ رہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس ثواب کا ذکر فرمایا جو جہاد کے لیے نکلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ ﴾ ’’یہ اس واسطے کہ وہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے ﴿ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ ﴾ ’’نہیں پہنچتی ان کو کوئی پیاس اور نہ محنت‘‘ یعنی تھکان اور مشقت ﴿ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور نہ بھوک اللہ کی راہ میں ۔‘‘ ﴿ وَلَا یَطَـُٔوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ ﴾ ’’اور نہیں قدم رکھتے کہیں جس سے کہ خفا ہوں کافر‘‘ یعنی ان کے دیار میں گھس جانے اور ان کے وطن پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے﴿ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّـیْلًا﴾ ’’اور نہیں چھینتے وہ دشمن سے کوئی چیز‘‘ ، مثلاً: لشکر یا سریہ کے ذریعے سے فتح و ظفر یا مال غنیمت کا حصول ﴿ اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ﴾ ’’مگر اس کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے‘‘ کیونکہ یہ وہ آثار ہیں جو ان کے اعمال سے جنم لیتے ہیں ۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے احسن طریقے سے آگے بڑھتے ہیں ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرتے ہیں ۔ پس یہ اعمال ان کے عمل کے آثار ہیں ۔
#
{121} ثم قال: {ولا ينفقونَ نفقةً صغيرةً ولا كبيرةً ولا يقطعون وادياً}: في ذهابهم إلى عدوِّهم، {إلا كُتِبَ لهم لِيَجْزِيَهم الله أحسنَ ما كانوا يعملون}: ومن ذلك هذه الأعمال إذا أخلصوا فيها لله، ونصحوا فيها. ففي هذه الآيات أشدُّ ترغيب وتشويق للنفوس إلى الخروج إلى الجهاد في سبيل الله والاحتساب لما يصيبهم فيه من المشقَّات، وأن ذلك لهم رِفْعَةُ درجاتٍ، وأن الآثار المترتِّبة على عمل العبد له فيها أجرٌ كبيرٌ.
[121] پھر فرمایا: ﴿ وَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً وَّلَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیً٘ا ﴾ ’’اور نہیں خرچ کرتے ہیں کوئی خرچ چھوٹا اور نہ بڑا اور نہیں طے کرتے کوئی میدان‘‘ یعنی دشمن کی طرف جانے کے لیے ﴿ اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’مگر لکھ لیا جاتا ہے ان کے لیے تاکہ بدلہ دے ان کو اللہ بہتر اس کام کا جو وہ کرتے تھے‘‘ اور اسی میں یہ اعمال بھی شامل ہیں جب ان میں خیر خواہی اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ہو۔ ان آیات کریمہ میں نفوس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب اور ان کو شوق دلایا گیا ہے اور جہاد میں تکالیف پہنچنے پر ثواب کی امید دلائی گئی ہے نیز یہ کہ جہاد ان کے لیے ترقی درجات کا باعث ہے۔ نیز ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ بندۂ مومن کے عمل پر مترتب ہونے والے آثار میں بہت بڑا اجر ہے۔
آیت: 122 #
{وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (122)}.
اور نہیں لائق مومنوں کو یہ کہ نکلیں وہ (جہاد کے لیے) سارے کے سارے، پس کیوں نہیں نکلا ہر فرقے سے ان میں سے ایک گروہ تاکہ سمجھ حاصل کریں وہ دین میں اور تاکہ ڈرائیں وہ اپنی قوم کو جب لوٹ کر آئیں وہ ان کی طرف تاکہ وہ( پیچھے والے بھی) ڈریں ؟ (122)
#
{122} يقول تعالى منبهاً لعباده المؤمنين على ما ينبغي لهم: {وما كان المؤمنون لينفروا كافَّةً}؛ أي: جميعاً لقتال عدوهم؛ فإنه يحصُلُ عليهم المشقَّة بذلك، ويفوت به كثيرٌ من المصالح الأخرى، {فلولا نَفَرَ من كلِّ فرقةٍ منهم}؛ أي: من البلدان والقبائل والأفخاذ {طائفةٌ}: تحصُلُ بها الكفاية والمقصودُ؛ لكان أولى. ثم نبَّه على أنَّ في إقامة المقيمين منهم وعدم خروجهم مصالحَ لو خَرَجوا لفاتَتْهم، فقال: {ليتفقَّهوا}؛ أي: القاعدون {في الدِّين ولِيُنذِروا قومَهم إذا رجعوا إليهم}؛ أي: ليتعلَّموا العلم الشرعيَّ، ويَعْلَموا معانيه، ويفقهوا أسراره، ولِيُعَلِّموا غيرهم، ولِيُنْذِروا قومهم إذا رجعوا إليهم. ففي هذا فضيلة العلم، وخصوصاً الفقه في الدين، وأنه أهم الأمور، وأن من تعلَّم علماً؛ فعليه نشره وبثُّه في العباد ونصيحتهم فيه؛ فإن انتشار العلم عن العالم من بركته وأجره الذي ينمي ، وأما اقتصار العالم على نفسه وعدم دعوتِهِ إلى سبيل الله بالحكمة والموعظة الحسنة وترك تعليم الجهَّال ما لا يعلمون؛ فأيُّ منفعة حصلت للمسلمين منه؟! وأي نتيجة نتجت من علمه؟! وغايتُه أن يموت فيموت علمُهُ وثمرته، وهذا غاية الحرمان لمن آتاه الله علماً، ومَنَحَهُ فهماً. وفي هذه الآية أيضاً دليلٌ وإرشادٌ وتنبيهٌ لطيف لفائدة مهمَّةٍ، وهي أن المسلمين ينبغي لهم أن يُعِدُّوا لكلِّ مصلحةٍ من مصالحهم العامَّة مَن يقوم بها، ويوفِّر وقته عليها، ويجتهد فيها، ولا يلتفت إلى غيرها؛ لتقوم مصالحهم، وتتمَّ منافعهم، ولتكون وجهة جميعهم ونهاية ما يقصدون قصداً واحداً، وهو قيام مصلحة دينهم ودنياهم، ولو تفرَّقت الطرق وتعدَّدت المشارب؛ فالأعمال متباينةٌ، والقصد واحدٌ، وهذه من الحكمة العامَّة النافعة في جميع الأمور.
[122] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان چیزوں سے آگاہ کرتے ہوئے جو ان کے لائق ہیں ، فرماتا ہے: ﴿ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً﴾ ’’اور ایسے تو نہیں مومن کہ کوچ کریں سارے‘‘ یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام کے تمام مومن دشمن کے خلاف جنگ کے لیے نکل پڑیں کیونکہ اس طرح وہ مشقت میں پڑ جائیں گے اور بہت سے دیگر مصالح فوت ہو جائیں گے۔ ﴿ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُ٘لِّ فِرْقَةٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’پس کیوں نہ نکلا ہر گروہ میں سے‘‘ یعنی شہروں ، قبیلوں اور خاندانوں میں سے ﴿ طَآىِٕفَةٌ ﴾ ’’ان کا ایک حصہ‘‘ جس سے ان کا مقصد اور کفایت حاصل ہو جاتی تو یہ بہتر تھا، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ جو لوگ جہاد کے لیے نہیں نکلے اور پیچھے ٹھہر گئے ان کے نہ نکلنے میں کچھ مصالح تھے جو گھر سے نکلنے کی صورت میں ضائع ہو جاتے۔ پس فرمایا: ﴿ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ ﴾ ’’تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں ‘‘ یعنی پیچھے بیٹھ رہنے والے ﴿ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ﴾ ’’اور تاکہ ڈرائیں وہ اپنی قوم کو جب وہ لوٹیں ان کی طرف‘‘ تاکہ وہ علم شریعت حاصل کرتے، اس کے معانی کی معرفت حاصل کرتے اور پھر دوسروں کو تعلیم دیتے اور جب واپس لوٹتے تو اپنی قوم کو ڈراتے... اس سے علم کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے خاص طور پر دین میں سمجھ کی فضیلت، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تفقہ فی الدین بہت اہم معاملہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی قسم کا علم حاصل کرتا ہے تو اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس علم کو اللہ کے بندوں میں پھیلائے۔ اس بارے میں ان کے ساتھ خیر خواہی کرے کیونکہ عالم سے علم کا پھیلنا اس کی برکت اور اس کا اجر ہے جو بڑھتا رہتا ہے۔ رہا عالم کا اپنے آپ پر اقتصار کرنا، حکمت و دانائی اور بہترین نصیحت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت نہ دینا، جہال کو ان امور کی تعلیم دینا ترک کر دینا جو وہ نہیں جانتے... تو اس کے علم سے مسلمانوں کو کون سا فائدہ حاصل ہوا اور اس کے علم کا کیا نتیجہ نکلا؟ بس اس کی انتہا یہ ہے کہ اس عالم کے مر جانے کے ساتھ اس کا علم بھی موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ یہ اس شخص کی حرماں نصیبی کی انتہا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم و فہم سے نوازا۔ نیز اس آیت کریمہ میں ایک اہم فائدہ کی طرف راہنمائی اور نہایت لطیف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مصالح عامہ میں سے ہر مصلحت کے لیے کچھ لوگوں کو تیار کریں جو ان مصالح کا انتظام کریں اور ان مصالح کے حصول کے لیے ہمہ وقت جدوجہد کریں اور وہ دیگر امور کی طرف التفات نہ کریں تاکہ ان مصالح کا اچھی طرح انتظام ہو تاکہ مسلمانوں کے مفادات کی تکمیل ہو اور تمام مسلمانوں کا مقصد ایک ہو اور وہ ہے ان کے دین و دنیا کے مصالح کا قیام۔ اگرچہ راستے مختلف ہوں ، مشرب متعدد ہوں ، کام ایک دوسرے سے جدا ہوں مگر مقصد ایک ہو۔ تمام امور میں یہ عام حکمت نافعہ ہے۔
آیت: 123 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (123)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لڑو تم ان لوگوں سے جو قریب ہیں تمھارے کافروں میں سے اور چاہیے کہ پائیں وہ تمھارے اندر سختی اور جان لوتم! یقینا اللہ ساتھ ہے متقیوں کے(123)
#
{123} وهذا أيضاً إرشادٌ آخر: بعدما أرشدهم إلى التدبير فيمن يباشر القتال؛ أرشدهم إلى أنهم يبدؤون بالأقرب فالأقرب من الكفار والغلظة عليهم والشدة في القتال والشجاعة والثبات. {واعلموا أنَّ الله مع المتَّقين}؛ أي: وليكنْ لديكم علمٌ أن المعونة من الله تنزِلُ بحسب التقوى؛ فلازموا على تقوى الله؛ يُعِنْكُم وينصُرْكم على عدوِّكم. وهذا العموم في قوله: {قاتلوا الذين يلونكم من الكفار}: مخصوصٌ بما إذا كانت المصلحةُ في قتال غير الذين يلوننا، وأنواع المصالح كثيرة جدًّا.
[123] جنگی معاملات کی تدبیر میں اہل ایمان کی راہ نمائی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کفار سے ابتدا کی جائے جو سب سے قریب ہیں ان کے ساتھ رویہ سخت رکھا جائے اور جنگ میں ان کا نہایت سختی، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی تمھیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد تقویٰ کے مطابق نازل ہوتی ہے، اس لیے تقویٰ کا التزام کرو! اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے دشمن کے خلاف تمھیں نصرت سے نوازے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ ﴾ ’’قریب کے کافروں سے قتال کرو۔‘‘ عام ہے، تاہم جب مصلحت اس بات کا تقاضا کرے کہ ان کافروں کے ساتھ لڑائی کی جائے جو قریب نہیں ہیں تو اس وقت ایسا کرنا ضروری ہو گا اور یہ خاص حکم اس عموم سے مستثنیٰ ہو گا کیونکہ مصالح کی اقسام تو بے شمار ہیں ۔
آیت: 124 - 126 #
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (124) وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ (125) أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (126)}.
اور جب نازل کی جاتی ہے کوئی سورت تو کچھ ان (منافقوں ) میں سے وہ ہیں جو (بطور استہزاء) کہتے ہیں ، تم میں سے کس کو زیادہ کیا ہے اس(سورت) نے ایمان میں ؟ پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے تو زیادہ کیا اس سورت نے ان کو ایمان میں اور وہ خوش ہوتے ہیں (124) اور لیکن وہ لوگ کہ ان کے دلوں میں روگ ہے تو زیادہ کر دیا ان کو (اس سورت نے) پلیدی میں ساتھ ان کی(پہلی) پلیدی کےاورمرے وہ اس حال میں کہ کافر تھے (125) کیا نہیں دیکھتے وہ (مومن) کہ بے شک وہ (منافق) فتنے میں مبتلا کیے جاتے ہیں ہر سال ایک بار یا دوبار؟ پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے اورنہ وہ نصیحت حاصل کرتے ہیں (126)
#
{124} يقول تعالى مُبيِّناً حال المنافقين وحال المؤمنين عند نزول القرآن وتفاوُتَ ما بين الفريقين، فقال: {وإذا ما أنزِلَتْ سورةٌ}: فيها الأمر والنهي والخبر عن نفسه الكريمة وعن الأمور الغائبة والحثُّ على الجهاد. {فمنهم من يقولُ أيُّكم زادتْه هذه إيماناً}؛ أي: حصل الاستفهام لمن حصل له الإيمانُ بها من الطائفتين. قال تعالى مبيِّناً الحال الواقعة: {فأما الذين آمنوا فزادَتْهم إيماناً}: بالعلم بها وفهمها واعتقادِها والعمل بها والرغبةِ في فعل الخير والانكفافِ عن فعل الشرِّ. {وهم يستبشرونَ}؛ أي: يبشِّر بعضُهم بعضاً بما منَّ الله عليهم من آياته والتوفيق لفهمها والعمل بها، وهذا دالٌّ على انشراح صدورهم لآيات الله، وطمأنينة قلوبهم، وسرعة انقيادهم لما تحثُّهم عليه.
[124] نزول قرآن کے وقت منافقین اور اہل ایمان کا جو حال ہوتا ہے اور اس وقت ان کے درمیان جو تفاوت ہوتا ہے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ ﴾ ’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے‘‘ جس کے اندر اوامر و نواہی نازل کیے گئے ہوں ، آپe کے اپنے بارے میں خبر دی گئی ہو، امور غائبہ سے آگاہ کیا گیا ہو اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔ ﴿فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰؔذِهٖۤ اِیْمَانًا﴾ ’’تو ان میں سے بعض کہتے ہیں ، تم میں سے کس کا ایمان اس سورت نے زیادہ کیا؟‘‘ یعنی دونوں گروہوں میں سے اسے استفہام حاصل ہے جسے اس سورت پر ایمان حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا حال واقع بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا ﴾ ’’پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، ان کا ایمان اس سورت نے زیادہ کر دیا‘‘ اس سورت کے علم، اس کے فہم، اس پر اعتقاد، اس پر عمل، بھلائی کے کام میں رغبت اور برائی کے کام سے رکنے کے ذریعے سے ان لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جو اہل ایمان ہیں ۔ ﴿وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور وہ خوش خبری حاصل کرتے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جو اپنی آیات سے نوازا ہے اور ان کا فہم حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق بخشی ہے اس پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں ۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کو آیات الٰہی پر انشراح صدر، اطمینان قلب اور سرعت اطاعت حاصل ہے کیونکہ یہ آیات ان کو اس امر کی ترغیب دیتی ہیں ۔
#
{125} {وأما الذين في قلوبهم مرضٌ}؛ أي: شكٌّ ونفاق، {فزادتهم رِجْساً إلى رِجْسِهم}؛ أي: مرضاً إلى مرضهم، وشَكًّا إلى شكِّهم؛ من حيث إنهم كفروا بها وعاندوها وأعرضوا عنها، فازداد لذلك مرضُهم، وترامى بهم إلى الهلاك والطبع على قلوبهم حتى {ماتوا وهم كافرون}، وهذا عقوبةٌ لهم لأنَّهم كفروا بآيات الله، وعصوا رسوله، فأعقَبَهم نفاقاً في قلوبهم إلى يوم يَلْقَوْنَه.
[125] ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ’’اور لیکن جن کے دلوں میں روگ ہے‘‘ یعنی شک اور نفاق ہے ﴿فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ ﴾ ’’پس ان کو اس سورت نے بڑھا دیا گندگی پرگندگی میں ‘‘ یعنی ان کے مرض کے ساتھ مرض اور ان کے شک کے ساتھ مزید شک کا اضافہ ہوتا گیا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا۔ ان کے خلاف عناد رکھا اور ان سے روگردانی کی تھی۔ بنابریں ان کا مرض بڑھ گیا تو اس مرض نے ان کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے یہاں تک کہ ﴿ مَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’وہ مریں گے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘ یہ ان کے لیے سزا ہے کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا، اس کے رسول کی نافرمانی کی اس لیے اس کی پاداش میں اس دن تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا، جس روز وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے۔
#
{126} قال تعالى موبِّخاً على إقامتهم على ما هم عليه من الكفر والنفاق: {أوَلا يَرَوْن أنَّهم يُفتنون في كلِّ عام مرَّةً أو مرَّتين}: بما يصيبُهم من البلايا والأمراض، وبما يُبْتَلَون من الأوامر الإلهيَّة التي يُراد بها اختبارهم، {ثم لا يتوبون}: عمّا هم عليه من الشرِّ، {ولا هم يَذَّكَّرون}: ما ينفعهم فيفعلونه وما يضرهم فيتركونه؛ فالله تعالى يبتليهم كما هي سنَّته في سائر الأمم بالسرَّاء والضرَّاء وبالأوامر والنواهي ليرجِعوا إليه، ثم لا يتوبون، ولا هم يَذَّكَّرون. وفي هذه الآيات دليل على أنَّ الإيمان يزيدُ وينقُص، وأنه ينبغي للمؤمن أن يتفقَّد إيمانه، ويتعاهده، فيجدِّده، ويُنْميه، ليكونَ دائماً في صعود.
[126] اللہ تعالیٰ اس بات پر کہ وہ کفر و نفاق پر جمے ہوئے ہیں ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُ٘لِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ﴾ ’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ آزمائے جاتے ہیں ہر برس ایک یا دو مرتبہ‘‘ یعنی جو ان کو مصیبت پہنچتی ہے یا امراض لاحق ہوتے ہیں یا اوامر الہیہ کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جاتی ہے ﴿ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ﴾ ’’پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے۔‘‘ یعنی ان برائیوں سے توبہ نہیں کرتے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ﴿وَلَا هُمْ یَذَّكَّـرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ نصیحت پکڑتے ہیں ‘‘ یعنی کیا چیز انھیں فائدہ دیتی ہے کہ وہ اسے اختیار کریں اور کیا چیز نقصان دیتی ہے کہ وہ اس کو ترک کر دیں ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ... جیسا کہ تمام قوموں میں اس کی عادت ہے... ان کو تنگ دستی، فراخی اور اوامر و نواہی کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں مگر وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں ۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان کو ٹٹولتا اور اس کی حفاظت کرتا رہے، اس کی تجدید اور نشوونما کرتا رہے تاکہ اس کا ایمان ترقی کی منازل کی طرف گامزن رہے۔
آیت: 127 #
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ (127)}.
اور جب نازل کی جاتی ہے کوئی سورت تو دیکھتا ہے ایک ان کا طرف دوسرے کی کہ کیا دیکھ رہا ہے تمھیں کوئی شخص (مومنوں میں سے)؟ پھر پھر جاتے ہیں وہ، پھیر دیا اللہ نے ان کے دلوں کو بوجہ اس کے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے (127)
#
{127} يعني: أن المنافقين الذين يحذرون أن تنزل عليهم سورةٌ تنبِّئهم بما في قلوبهم. إذا نَزَلَتْ سورةٌ ليؤمنوا بها ويعملوا بمضمونها، {نَظَرَ بعضُهم إلى بعضٍ}: جازمين على ترك العمل بها، ينتظرون الفرصة في الاختفاء عن أعين المؤمنين، ويقولون: {هل يراكُم مِن أحدٍ ثم انصرفوا}: متسلِّلين وانقلبوا معرضين، فجازاهم الله بعقوبةٍ من جنس عملهم؛ فكما انصرفوا عن العمل؛ {صَرَفَ الله قلوبَهم}؛ أي: صدَّها عن الحقِّ وخذلها، {بأنَّهم قومٌ لا يفقهون}: فقهاً ينفعهم؛ فإنَّهم لو فقهوا؛ لكانوا إذا نزلت سورةٌ آمنوا بها وانقادوا لأمرها. والمقصودُ من هذا بيانُ شدَّة نفورهم عن الجهادِ وغيره من شرائع الإيمان؛ كما قال تعالى عنهم: {فإذا أنزِلَتْ سورةٌ محكَمَةٌ وذُكِرَ فيها القتالُ رأيت الذين في قلوبهم مرضٌ ينظرون إليك نَظَرَ المغشيِّ عليه من الموتِ}.
[127] یعنی وہ منافقین جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کا بھید کھول دے ﴿ وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ ﴾ ’’جب ان پر کوئی سورت نازل کی جاتی ہے‘‘ تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے مضامین پر عمل کریں ﴿ نَّ٘ظَ٘رَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ﴾ ’’تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔‘‘ یعنی اس پر عمل نہ کرنے کا ارادہ اور عزم کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں ، وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان کی نظروں سے چھپے رہیں اور کہتے ہیں ﴿ هَلْ یَرٰؔىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْ٘صَرَفُوْا﴾ ’’کیا دیکھتا ہے تم کو کوئی مسلمان، پھر کھسک جاتے ہیں ‘‘ یعنی کھسک کر نکل جاتے ہیں اور منہ موڑ کر لوٹ جاتے ہیں ۔ تب اللہ ان کے عمل کی جنس ہی سے انھیں جزا دیتا ہے۔ پس جیسے انھوں نے عمل سے منہ پھیر لیا ﴿صَرَفَ اللّٰهُ قُ٘لُوْبَهُمْ ﴾ ’’اللہ نے ان کے دلوں کو (حق سے) پھیر دیا‘‘ یعنی روک دیا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ﴿ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ ﴾ ’’کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔‘‘ یعنی وہ ایسی سمجھ نہیں رکھتے جو ان کو فائدہ دے کیونکہ اگر وہ سمجھ رکھتے ہوتے تو جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی، وہ اس پر ایمان لا کر اس کے احکام کی تعمیل کرتے۔ اس کا مقصد جہاد وغیرہ شرائع ایمان سے ان کی شدت نفور کو بیان کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ١ۙ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُ٘رُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْ٘مَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ﴾ (محمد: 47؍20)’’جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے، آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھنے لگتے ہیں جس پر موت کی غشی طاری ہو۔‘‘
آیت: 128 - 129 #
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (128) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (129)}
یقینا آگیا ہے تمھارے پاس ایک عظیم رسول تم میں سے، شاق (گراں ) ہے اس پر تمھارا تکلیف میں مبتلا ہونا، حریص ہے اوپر (بھلائی) تمھاری کے، ساتھ مومنوں کے نہایت شفیق و مہربان ہے (128) پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دیجیے! کافی ہے مجھے اللہ، نہیں ہے کوئی معبود (برحق) مگر وہی، اسی پر بھروسہ کیا میں نے اوروہی ہے رب عرش عظیم کا (129)
#
{128} يمتنُّ تعالى على عباده المؤمنين بما بعث فيهم النبيَّ الأميَّ، الذي من أنفسهم، يعرفون حاله، ويتمكَّنون من الأخذ عنه، ولا يأنفون عن الانقياد له، وهو - صلى الله عليه وسلم - في غاية النُّصح لهم والسعي في مصالحهم. {عزيزٌ عليه ما عَنِتُّم}؛ أي: يَشُقُّ عليه الأمر الذي يَشُقُّ عليكم ويُعْنِتُكم. {حريصٌ عليكم}: فيحبُّ لكم الخير، ويسعى جهدَه في إيصاله إليكم، ويحرص على هدايتكم إلى الإيمان، ويكره لكم الشرَّ، ويسعى جهده في تنفيركم عنه. {بالمؤمنين رءوفٌ رحيمٌ}؛ أي: شديد الرأفة والرحمة بهم، أرحم بهم من والديهم، ولهذا كان حقُّه مقدماً على سائر حقوق الخلق، وواجب على الأمة الإيمان به وتعظيمه وتوقيره وتعزيره.
[128] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے اندر نبی اُمیe کو مبعوث فرمایا جو خود ان میں سے ہیں وہ آپ کا حال جانتے ہیں ، وہ آپ سے اخذ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور آپ کی اطاعت کرنے کو ناپسند نہیں کرتے اور خود رسول اللہe ان کے بے انتہا خیر خواہ اور ان کے مصالح کے لیے کوشش کرنے والے ہیں ۔ ﴿ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ ﴾ ’’تمھاری تکلیف ان پر گراں گزرتی ہے۔‘‘ یعنی آپe پر ہر وہ معاملہ بہت شاق گزرتا ہے جو تم پر شاق گزرتا ہے اور تمھیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ ﴿ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ﴾ ’’حریص ہیں تمھاری بھلائی پر‘‘ پس آپe تمھارے لیے بھلائی پسند کرتے ہیں اور تمھیں بھلائی تک پہنچانے کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں ، ایمان تک تمھاری راہ نمائی کے خواہش مند ہیں ۔ آپ شر کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور شر سے تمھیں نفرت دلانے کے لیے پوری کوشش صرف کرتے ہیں ﴿ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں ۔‘‘ یعنی اہل ایمان کے لیے انتہائی رافت و رحمت کے حامل ہیں بلکہ وہ مومنوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم ہیں ۔ بنابریں آپ کا حق تمام مخلوق پر فائق اور مقدم ہے۔ آپe پر ایمان لانا، آپ کی تعظیم کرنا، آپ کی عزت و توقیر کرنا تمام امت پر فرض ہے۔
#
{129} {فإن} آمنوا؛ فذلك حظُّهم وتوفيقهم، وإن {تَوَلَّوْا} عن الإيمان والعمل؛ فامضِ على سبيلك، ولا تزل في دعوتك، وقل: {حسبيَ الله}؛ أي: الله كافِيَّ في جميع ما أهمني. {لا إله إلَّا هو}؛ أي: لا معبود بحقٍّ سواه. {عليه توكلتُ}؛ أي: اعتمدت ووثقت به في جلب ما ينفع ودفع ما يضرُّ. {وهو ربُّ العرش العظيم}: الذي هو أعظم المخلوقات، وإذا كان ربَّ العرش العظيم الذي وسع المخلوقات؛ كان ربًّا لما دونه من باب أولى وأحرى.
[129] ﴿فَاِنْ﴾ ’’پس اگر‘‘ وہ ایمان لے آئیں تو یہ ان کی خوش نصیبی اور توفیق الٰہی ہے۔ اور اگر وہ ﴿ تَوَلَّوْا﴾ ’’پھرجائیں ۔‘‘ یعنی ایمان و عمل سے روگردانی کریں تو آپe اپنے راستے پر گامزن رہیں اور ان کو دعوت دیتے رہیں ۔ ﴿ فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ﴾ ’’اور کہہ دیں ! کہ (تمام امور میں ) میرے لیے اللہ کافی ہے۔‘‘ ﴿ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘ ﴿ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ’’میں نے اسی پر توکل کیا۔‘‘ یعنی امور نافعہ کے حصول اور ضرر رساں امور کو دور ہٹانے کے لیے، میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرتا ہوں ﴿ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ اس عظیم عرش کا رب ہے جو تمام مخلوقات پر سایہ عرش سے کم تر مخلوق کا رب ہونا اولیٰ اور احریٰ ہے۔