{الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (1) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ (2)}.
الٓرٰ، یہ آیتیں ہیں کتاب حکیم کی
(1) کیا ہے واسطے لوگوں کے تعجب
(کی بات) یہ کہ وحی کی ہم نے طرف ایک آدمی کی ان میں سے، ڈرائیں آپ لوگوں کواور خوش خبری دیں ان لوگوں کو جو ایمان لائے
(اس بات کی کہ) بے شک ان کے لیے مرتبہ ہے سچائی کا ان کے رب کے پاس، کہا کافروں نے، بلاشبہ یہ شخص تو یقینا جادو گر ہے ظاہر
(2)
#
{1} يقول تعالى: {الر تلك آياتُ الكتاب الحكيم}: وهو هذا القرآنُ، المشتمل على الحكمة والأحكام، الدالَّةُ آياتُه على الحقائق الإيمانية والأوامر والنواهي الشرعيَّة، الذي على جميع الأمة تلقِّيه بالرِّضا والقَبول والانقياد.
[1] ﴿الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ﴾ ’’یہ آیتیں ہیں حکمت والی کتاب کی‘‘ اور وہ کتاب یہ قرآن ہے جو تمام تر حکمت و احکام پر مشتمل ہے جس کی آیات کریمہ حقائق ایمانی اور شریعت کے اوامر و نواہی پر دلالت کرتی ہیں جن کو برضا و رغبت قبول کرنا اور جن پر عمل کرنا تمام امت پر فرض ہے۔
#
{2} ومع هذا؛ فأعرض أكثرهُم فهم لا يعلمون، فتعجبوا {أن أوْحَيْنا إلى رجل منهم أن أنذِرِ الناس}: عذابَ الله، وخوِّفْهم نِقَمَ الله، وذكِّرهم بآيات الله، {وبشِّر الذين آمنوا}: إيماناً صادقاً {أنَّ لهم قَدَمَ صدقٍ عند ربِّهم}؛ أي: لهم جزاء موفر وثوابٌ مذخور عند ربِّهم بما قدَّموه وأسلفوه من الأعمال الصالحة الصادقة، فتعجَّب الكافرون من هذا الرجل العظيم تعجُّباً حملهم على الكفر به! فَـ {قال الكافرون} عنه: {إنَّ هذا لَساحرٌ مُبينٌ}؛ أي: بيِّن السحر، لا يَخْفى بزعمهم على أحدٍ، وهذا مِن سَفَهِهِم وعنادهم؛ فإنَّهم تعجَّبوا من أمر ليس مما يُتَعَجَّب منه ويُستغرب، وإنما يُتَعَجَّب من جهالتهم وعدم معرفتهم بمصالحهم؛ كيف لم يؤمنوا بهذا الرسول الكريم الذي بَعَثَهُ الله من أنفسهم؛ يعرفونه حقَّ المعرفة، فردُّوا دعوته، وحرصوا على إبطال دينه؟! والله متمُّ نوره ولو كره الكافرون.
[2] بایں ہمہ اکثر لوگوں نے اس سے روگردانی کی۔ وہ اس کا علم نہیں رکھتے اس لیے انھیں سخت تعجب ہے۔
﴿ اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّؔنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ﴾ ’’کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد پر وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سنائے‘‘ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے اور انھیں اس کی ناراضی کا خوف دلائے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے ان کو نصیحت کرے۔
﴿ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا﴾ ’’اور خوش خبری دیں ایمان والوں کو‘‘ جو صدق دل سے ایمان لائے ہیں
﴿ اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ ’’کہ ان کے لیے مقام صدق ہے ان کے رب کے پاس‘‘ یعنی ان کے لیے اپنے رب کے پاس وافر جزا اور جمع کیا ہوا ثواب ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے صدق پر مبنی اعمال صالحہ پیش کیے تھے۔ کفار کو اس عظیم شخص پر سخت تعجب ہے اور اس تعجب نے ان کو اس کے انکار پر آمادہ کیا۔
﴿ قَالَ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور کفار
(اس کے بارے میں ) کہتے ہیں ‘‘
﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو واضح طور پر جادوگر ہے ۔‘‘ ان کے زعم کے مطابق اس کا جادوگر ہونا کسی پر مخفی نہیں اور یہ ان کی سفاہت اور عناد کی دلیل ہے۔
وہ ایسی بات پر تعجب کرتے ہیں جو ایسی انوکھی چیز نہیں جس پر تعجب کیا جائے۔ تعجب تو ان کی جہالت اور اس چیز پر ہونا چاہیے کہ انھیں اپنے مصالح کی معرفت حاصل نہیں ۔ وہ اس رسول کریمe پر کیسے ایمان نہیں لائے۔ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انھی میں سے چن کر رسول مبعوث کیا ہے وہ اسے اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح پہچاننے کا حق ہے۔ پس انھوں نے اس کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اس کے دین کے ابطال کے سخت حریص ٹھہرے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کر کے رہتا ہے خواہ کفار کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔
{إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (3) إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (4)}.
بے شک تمھارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں ، پھر مستوی ہو گیا اوپر عرش کے، وہ تدبیرکرتا ہے
(ہر) کام کی، نہیں ہے کوئی سفارشی مگر بعد اس کی اجازت کے، یہی ہے اللہ تمھارا رب، سو تم عبادت کرو اسی کی، کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟
(3)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تم سب کو، وعدہ ہے اللہ کا سچا، بلاشبہ وہی پہلی بار پیدا کرتا مخلوق کو، پھر وہی دوبارہ زندہ کرے گا اس کوتاکہ وہ جزا دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، ساتھ انصاف کےاور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا واسطے ان کے پینا ہو گا کھولتے ہوئے پانی سے اور عذاب ہو گا دردناک بہ سبب اس کے جو تھے وہ کفر کرتے
(4)
#
{3} يقول تعالى مبيناً لربوبيَّتِهِ وإلهيَّتِهِ وعظمتِهِ: {إنَّ ربَّكم الله الذي خَلَقَ السمواتِ والأرض في ستَّة أيام}: مع أنه قادرٌ على خلقها في لحظة واحدة، ولكن لما له في ذلك من الحكمة الإلهية، ولأنَّه رفيقٌ في أفعاله، ومن جملة حكمته فيها أنَّه خلقها بالحقِّ وللحقِّ؛ ليُعْرَفَ بأسمائه وصفاته، ويُفْرَدَ بالعبادة. {ثم}: بعد خَلْق السماوات والأرض {استوى على العرش}: استواءً يليقُ بعظمتِهِ {يدبِّرُ الأمرَ}: في العالم العلويِّ والسفليِّ؛ من الإماتة والإحياء، وإنزال الأرزاق، ومداولة الأيام بين الناس، وكشف الضُّرِّ عن المضرورين، وإجابة سؤال السائلين؛ فأنواع التدابير نازلةٌ منه وصاعدةٌ إليه، وجميع الخلق مذعِنون لعزِّه خاضعون لعظمته وسلطانه. {ما من شفيع إلاَّ من بعد إذنِهِ}: فلا يُقْدِمُ أحدٌ منهم على الشفاعة، ولو كان أفضل الخلق، حتى يأذن الله، ولا يأذنُ إلا لمن ارتضى، ولا يرتضي إلا أهل الإخلاص والتوحيد له. {ذلكم}: الذي هذا شأنُه {الله ربُّكم}؛ أي: هو الله الذي له وصفُ الإلهيَّة الجامعة لصفات الكمال، ووصف الربوبيَّة الجامع لصفات الأفعال. {فاعبُدوه}؛ أي: أفردوه بجميع ما تقدرون عليه من أنواع العبوديَّة. {أفلا تَذَكَّرونَ}: الأدلَّة الدالَّة على أنه وحده المعبودُ المحمودُ ذو الجلال والإكرام.
[3] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت،
الوہیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَ یَّامٍ ﴾ ’’بے شک تمھارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا‘‘ اس کے باوجود کہ وہ زمین و آسمان کو ایک لحظہ میں پیدا کرنے پر قادر ہے۔ مگر حکمت الٰہی انھیں اسی طرح تخلیق کرنے میں تھی۔ وہ اپنے افعال میں بہت نرم اور مہربان ہے۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ اس نے کائنات کو حق کے ساتھ اور حق کے لیے پیدا کیا تاکہ اس کے اسماء و صفات کے ذریعے سے اس کی معرفت حاصل ہو نیز یہ کہ وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔
﴿ ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد
﴿ اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ مستوی ہوا عرش پر۔‘‘ وہ استواء ایسا ہے جو اس کی عظمت کے لائق ہے
﴿ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ﴾ ’’وہ معاملے کا انتظام کرتا ہے۔‘‘ یعنی وہ عالم علوی اور عالم سفلی کے تمام معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔ موت دینا، زندہ کرنا، رزق نازل کرنا، لوگوں کے درمیان گردش ایام، ضرر رسیدہ لوگوں سے تکلیف دور کرنا اور سوال کرنے والوں کی ضرورت پوری کرنا۔ پس مختلف انواع کی تمام تدابیر اسی کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور اسی کی طرف بلند ہوتی ہیں ۔ تمام کائنات اس کے غلبہ کے سامنے مطیع اور اس کی عظمت اور طاقت کے سامنے سرافگندہ ہے۔
﴿ مَا مِنْ شَ٘فِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ﴾ ’’کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد‘‘ جب تک اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے کوئی شخص... خواہ وہ مخلوق میں سب سے افضل ہستی ہی کیوں نہ ہو... اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کی سفارش کے لیے آگے نہیں بڑھے گا اور وہ صرف اسی کے لیے سفارش کرے گا جس کے لیے اللہ تعالیٰ خود پسند کرے گا اور وہ صرف انھی کو پسند کرے گا جو اہل اخلاص اور اہل توحید ہوں گے۔
﴿ ذٰلِكُمُ ﴾ ’’یہی‘‘ وہ ہستی جس کی یہ شان ہے
﴿ اللّٰهُ رَبُّكُمْ﴾ ’’اللہ ہے، تمھارا رب‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اوصاف الوہیت اور صفات کمال کی جامع، اوصاف ربوبیت اور صفات افعال کی جامع ہے
﴿ فَاعْبُدُوْهُ﴾ ’’پس تم اسی کی بندگی کرو‘‘ یعنی عبودیت کی وہ تمام اقسام جن کو بجا لانے پر تم قادر ہو، صرف اس اکیلے کے لیے مخصوص کرو۔
﴿ اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَؔ ﴾ ’’کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے‘‘ کیا تم ان دلائل سے نصیحت حاصل نہیں کرتے جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ واحد معبود حمد و ثناء کا مستحق اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔
#
{4} فلما ذكر حكمه القدريَّ، وهو التدبيرُ العامُّ، وحكمَهُ الدينيَّ، وهو شرعه الذي مضمونه ومقصوده عبادته وحده لا شريك له؛ ذكر الحكمَ الجزائيَّ، وهو مجازاته على الأعمال بعد الموت، فقال: {إليه مرجِعُكم جميعاً}؛ أي: سيجمعكم بعد موتكم لميقاتِ يوم معلوم. {إنه يبدأ الخلق ثم يعيدُه}: فالقادر على ابتداء الخلق قادرٌ على إعادته، والذي يرى ابتداءه بالخلق ثم ينكِرُ إعادته للخلق؛ فهو فاقدُ العقل، منكرٌ لأحد المثلين؛ مع إثبات ما هو أولى منه؛ فهذا دليلٌ عقليٌّ واضحٌ على المعاد. ثم ذكر الدليل النقليَّ، فقال: {وَعْدَ الله حقًّا}؛ أي: وعدُه صادِقٌ لا بُدَّ من إتمامه، {ليجزِيَ الذين آمنوا}: بقلوبهم بما أمرهم الله بالإيمان به، {وعملوا الصالحاتِ}: بجوارِحِهم من واجباتٍ ومستحبَّاتٍ {بالقِسْطِ}؛ أي: بإيمانهم وأعمالهم جزاءً قد بيَّنه لعباده وأخبر أنه لا تعلم نفسٌ ما أخْفِيَ لهم من قُرَّةِ أعينٍ. {والذين كفروا}: بآيات الله، وكذَّبوا رسل الله {لهم شرابٌ من حميم}؛ أي: ماء حارٌّ يشوي الوجوه ويقطع الأمعاء، {وعذابٌ أليمٌ}: من سائر أصناف العذاب، {بما كانوا يكفُرون}؛ أي: بسبب كفرهم وظلمهم، وما ظَلَمَهُمُ الله ولكن أنْفُسَهم يظلِمون.
[4] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حکم کونی و قدری، یعنی تدبیر عام اور اپنے حکم دینی یعنی اپنی شریعت، جس کا مضمون اور مقصود صرف اسی کی عبادت ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، کا ذکر فرمایا تو اپنے حکم جزائی کا ذکر بھی فرمایا، یعنی انسان کے مرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کی جزا دینا،
چنانچہ فرمایا: ﴿ اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا﴾ ’’اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے‘‘ یعنی وہ تمھارے مرنے کے بعد ایک مقررہ وقت پر تم سب کو جمع کرے گا
﴿ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا﴾ ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ یعنی اس کا وعدہ سچا ہے اور اس کا پورا ہونا لابدی ہے۔
﴿ اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ﴾ ’’وہی پیدا کرتا ہے پہلی بار، پھر دوبارہ پیدا کرے گا اس کو‘‘ پس جو تخلیق کی ابتدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ اس کے اعادے پر بھی قادر ہے، لہٰذا وہ شخص جو ابتدائے تخلیق کو تسلیم کرتا ہے پھر وہ اعادۂ تخلیق کا انکار کر دیتا ہے، عقل سے عاری ہے جو دو مماثل اشیاء میں سے ایک کا انکار کرتا ہے حالانکہ وہ اس تخلیق کا اقرار کر چکا ہے جو زیادہ مشکل ہے... یہ زندگی بعد موت کی نہایت واضح عقلی دلیل ہے،
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقلی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’تاکہ بدلہ دے ان کو جو ایمان لائے‘‘ جو صدق دل سے ان تمام امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے
﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور عمل کیے نیک‘‘ وہ اپنے جوارح کے ذریعے سے واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں ۔
﴿ بِالْقِسْطِ﴾ ’’انصاف کے ساتھ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ ان کے ایمان و اعمال کی جزا دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ جزا اپنے بندوں کے سامنے بیان کر دی ہے اور ان کو آگاہ فرما دیا کہ یہ ایسی جزا ہے کہ کوئی نفس یہ نہیں جانتا کہ اس جزا میں اس کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔
﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسول کی تکذیب کی۔
﴿ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ﴾ ’’ان کے لیے پینے کو نہایت گرم پانی ہوگا۔‘‘ جو چہروں کو جھلسا کر رکھ دے گا اور انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
﴿ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور دردناک عذاب‘‘ انھیں دردناک عذاب کی تمام اصناف میں مبتلا کیا جائے گا۔
﴿ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘فُرُوْنَؔ ﴾ ’’اس لیے کہ وہ کفر کرتے تھے‘‘ یعنی یہ عذاب ان کے کفر اور ظلم کے سبب سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
{هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (5) إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ (6)}.
وہی ہے
(اللہ) جس نے بنایا سورج کو چمک
(والا) اور چاند کو نور
(والا)اور اس نے مقرر کیں اس کی منزلیں تاکہ معلوم کر لو تم گنتی سالوں کی اور حساب
(بھی)، نہیں پیدا کیا اللہ نے یہ
(سب کچھ) مگر ساتھ حق کے، وہ تفصیل سے بیان کرتا ہے اپنی آیتیں واسطے ان لوگوں کے جو جانتے ہیں
(5) بلاشبہ
(بدل بدل کر) آنے جانے میں رات اوردن کے اور
(اس میں بھی) جو کچھ پیداکیا اللہ نے آسمانوں اور زمین میں ، یقینا بڑی نشانیاں ہیں واسطے ان لوگوں کے جو ڈرتے ہیں
(6)
#
{5 ـ 6} لما قرَّر ربوبيَّته وإلهيَّته؛ ذكر الأدلة العقليَّة الأفقيَّة الدالَّة على ذلك وعلى كماله في أسمائه وصفاته؛ من الشمس والقمر والسماوات والأرض: وجميع ما خلق فيهما من سائر أصناف المخلوقات، وأخبر أنها آياتٌ {لقوم يعلمون} و {لقوم يتَّقون}؛ فإنَّ العلم يهدي إلى معرفة الدِّلالة فيها وكيفيَّة استنباط الدلائل على أقرب وجه، والتقوى تُحْدِثُ في القلب الرغبة في الخير والرهبة من الشرِّ، الناشِئَيْن عن الأدلَّة والبراهين وعن العلم واليقين.
وحاصل ذلك أنَّ مجرَّد خلق هذه المخلوقات بهذه الصفة دالٌّ على كمال قدرة الله تعالى وعلمه وحياته وقيُّوميته، وما فيها من الإحكام والإتقان والإبداع والحُسْن دالٌّ على كمال حكمة الله وحسن خَلْقه وسعة علمِهِ، وما فيها من أنواع المنافع والمصالح ـ كجَعْل الشمس ضياءً والقمر نوراً يحصل بهما من النفع الضروريِّ وغيره مما يحصُلُ ـ يدلُّ ذلك على رحمة الله تعالى واعتنائه بعبادِهِ وسَعَة برِّه وإحسانه، وما فيها من التخصيصات دالٌّ على مشيئة الله وإرادته النافذة، وذلك دالٌّ على أنه وحده المعبودُ المحبوبُ المحمودُ ذو الجلال والإكرام والأوصاف العظام، الذي لا تنبغي الرغبةُ والرهبةُ إلا إليه، ولا يُصْرَفُ خالصُ الدُّعاء إلا له لا لغيره من المخلوقات المربوبات المفتقِرات إلى الله في جميع شؤونها.
وفي هذه الآيات الحثُّ والترغيب على التفكر في مخلوقات الله والنظر فيها بعين الاعتبار؛ فإنَّ بذلك تنفسح البصيرة ويزدادُ الإيمان والعقل وتقوى القريحة، وفي إهمال ذلك تهاونٌ بما أمر الله به، وإغلاقٌ لزيادة الإيمان، وجمودٌ للذهن والقريحة.
[6,5] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت اور الوہیت کو متحقق کرنے کے بعد اپنے اسماء و صفات کے کمال پر عقلی اور آفاقی دلائل بیان کرتا ہے جو تمام آفاق، یعنی سورج، چاند، زمین و آسمان اور کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات پر محیط ہیں اور آگاہ فرماتا ہے کہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں
﴿ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’جو علم رکھتے ہیں ‘‘ اور ان کے لیے ہیں جو تقویٰ کا التزام کرتے ہیں کیونکہ علم دلالت کی معرفت اور انتہائی مناسب طریقے سے دلائل کے استنباط کی کیفیت کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ تقویٰ قلب میں بھلائی کی طرف رغبت اور برائی سے خوف کو جنم دیتا ہے۔ یہ دونوں دلائل و براہین اور علم و یقین سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان مخلوقات کی، اس وصف کے ساتھ مجرد تخلیق اس کی کامل قدرت، اس کے علم، اس کی حیات اور اس کی قیومیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس کائنات میں جاری احکام، اس کا اتقان اور اس کا حسن و ابداع اللہ تعالیٰ کی حکمت، اس کے حسن تخلیق اور وسعت علم پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس کائنات میں پھیلے ہوئے منافع و مصالح...
مثلاً: سورج کی روشنی اور چاند کے نور سے جو ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اپنے بندوں پر اس کی عنایت، اس کی لامحدود نوازش اور اس کے احسان پر دلالت کرتے ہیں ۔
اس کائنات کی خصوصیات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادۂ نافذہ پر دلالت کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود، محبوب محمود، جلال و اکرام اور عظیم اوصاف کا مالک ہے، رغبت و رہبت کے ساتھ اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ تمام امور میں مخلوقات و مربوبات، جو بذات خود اللہ کی محتاج ہیں ، کی بجائے اپنی دعا میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا جائے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے اور ان کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کی ترغیب ہے۔ اس لیے کہ اس سے بصیرت بڑھتی ہے، ایمان و عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور ملکہ راسخ ہوتا ہے اور ان میں غوروفکر نہ کرنے سے اللہ کے احکام سے بے پروائی، ایمان میں زیادتی کا راستہ بند ہوتا اور قلب و ذہن میں جمود طاری ہوتا ہے۔
{إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (8)}.
بے شک وہ لوگ جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی اور راضی ہیں ساتھ زندگانی کے دنیا کی اور مطمئن ہیں اسی کے ساتھ اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں
(7) یہی لوگ، ٹھکانا ان کا آگ ہے بہ سبب اس کے جو تھے وہ کماتے
(8)
#
{7} يقول تعالى: {إن الذين لا يرجون لقاءنا}؛ أي: لا يطمعون بلقاء الله، الذي هو أكبر ما طمع فيه الطامعون، وأعلى ما أمَّله المؤمِّلون، بل أعرضوا عن ذلك، وربَّما كذَّبوا به، {ورضوا بالحياة الدُّنيا}: بدلاً عن الآخرة، {واطمأنُّوا بها}؛ أي: ركنوا إليها، وجعلوها غاية أمرهم ونهاية قصدهم؛ فسعوا لها، وأكبُّوا على لَذَّاتها وشهواتها؛ بأيِّ طريقٍ حصلتْ حصَّلوها، ومن أيِّ وجه لاحتِ ابتدروها، قد صرفوا إراداتهم ونيَّاتهم وأفكارهم وأعمالهم إليها، فكأنَّهم خُلِقوا للبقاء فيها، وكأنَّها ليست بدارِ مَمَرٍّ يتزوَّد فيها المسافرون إلى الدار الباقية التي إليها يرحل الأولون والآخرون وإلى نعيمها ولذَّاتها شمَّر الموفَّقون. {والذين هم عن آياتنا غافلون}: فلا ينتفعون بالآيات القرآنيَّة ولا بالآيات الأفقيَّة والنفسيَّة، والإعراضُ عن الدليل مستلزمٌ للإعراض والغفلة عن المدلول المقصودِ.
[7] ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ﴾ ’’جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں
﴿وَرَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں ۔‘‘ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہوگئے۔
﴿ وَاطْمَاَنُّوْا بِهَا ﴾ ’’اور اسی پر مطمئن ہو گئے‘‘ یعنی دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لیے کوشاں رہے، اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انھیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انھوں نے اسے حاصل کر لیا۔ دنیا کی چمک انھیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انھوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتے رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزرگاہ نہیں جہاں سے مسافر زاد راہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں ۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انھی کی طرف لپکتے ہیں ۔
﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ ﴾ ’’اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں ‘‘ پس یہ آیات قرآنی اور آیات انفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے روگردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کو مستلزم ہے۔
#
{8} {أولئك}: الذين هذا وصفُهم، {مأواهُمُ النار}؛ أي: مقرُّهم ومسكنُهم التي لا يرحلون عنها؛ {بما كانوا يكسِبون}: من الكفر والشرك وأنواع المعاصي.
[8] ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ جن کا یہ وصف ہے
﴿ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ ﴾ ’’ان کا ٹھکانا آگ ہے۔‘‘ یعنی ان کا ٹھکانا اور مسکن جہنم ہے جہاں سے کبھی کوچ نہیں کریں گے۔
﴿ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ﴾ ’’بہ سبب اس کے جو کماتے تھے‘‘ جہنم کا یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ انھوں نے کفر،
شرک اور مختلف قسم کے دیگر گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر کرنے کے بعد اطاعت کرنے والے اہل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (9) دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (10)}.
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے نیک، رہنمائی کرے گا ان کی ان کا رب
(جنت کی طرف)، بوجہ ان کے ایمان کے، بہتی ہوں گی نیچے ان کے نہریں ، نعمتوں والے باغات میں
(9)پکارنا ان کا ہو گا ان میں ، پاک ہے تو اللہ! اور دعا ان کی ہو گی ان میں سلام اور آخری پکار ہو گی ان کی یہ کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو پالنے والا ہے سارے جہانوں کا
(10)
#
{9} يقول تعالى: {إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات}؛ أي: جمعوا بين الإيمان والقيام بموجبه ومقتضاه من الأعمال الصالحة، المشتملة على أعمال القلوب وأعمال الجوارح، على وجه الإخلاص والمتابعة. {يهديهم ربُّهم بإيمانهم}؛ أي: بسبب ما معهم من الإيمان يُثيبهم الله أعظم الثواب، وهو الهداية، فيُعَلِّمهم ما ينفعهم، ويَمُنُّ عليهم بالأعمال الناشئة عن الهداية، ويهديهم للنظر في آياته، ويهديهم في هذه الدار إلى الصراط المستقيم، وفي الصراط المستقيم، وفي دار الجزاء إلى الصراط الموصل إلى جنات النعيم، ولهذا قال: {تجري من تحتِهِمُ الأنهارُ}: الجارية على الدوام. {في جنات النعيم}: أضافها الله إلى النعيم لاشتمالها على النعيم التامِّ؛ نعيم القلب بالفرح والسرور والبهجة والحبور ورؤية الرحمن وسماع كلامه والاغتباط برضاه وقربه ولقاء الأحبَّة والإخوان والتمتُّع بالاجتماع بهم وسماع الأصوات المطربات والنغمات المشجيات والمناظر المفرحات، ونعيم البدن بأنواع المآكل والمشارب والمناكح ونحو ذلك مما لا تعلمه النفوس ولا خطر ببال أحدٍ، أو قدر أن يصِفَه الواصفون.
[9] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔‘‘ یعنی انھوں نے ایمان اور ایمان کے تقاضے کو جمع کیا یعنی ایمان لانے کے بعد اخلاص اور اتباع کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لائے جو اعمال قلوب اور اعمال جوارح پر مشتمل ہیں ۔
﴿ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِـاِیْمَانِهِمْ ﴾ ’’ہدایت کرے گا ان کو ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے سرمایۂ ایمان کے سبب سے انھیں سب سے بڑا ثواب یعنی ہدایت عطا کرتا ہے۔ انھیں وہ علم عطا کرتا ہے جو ان کے لیے نفع مند ہے، وہ انھیں ان اعمال سے نوازتا ہے جو ہدایت سے جنم لیتے ہیں ۔ وہ اپنی آیات میں غور و فکر کرنے کے لیے ان کی راہ نمائی کرتا ہے،
اس دنیا میں انھیں راہ راست دکھاتا ہے اور آخرت میں ان کو اس راستے پر گامزن کرتا ہے جو جنت کو جاتا ہے۔
بنابریں فرمایا: ﴿ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔‘‘ یعنی ہمیشہ بہنے والی نہریں
﴿ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ﴾ ’’نعمت والے باغوں میں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے جنت کو
(نَعِیم) ’’نعمتوں والی‘‘ کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ جنت ہر طرح سے کامل نعمتوں پر مشتمل ہوگی۔ قلب کو فرحت و سرور، تروتازگی، اللہ رحمن کا دیدار، اس کے کلام کا سماع، اس کی رضا اور قرب کے حصول کی خوشی، دوستوں اور بھائیوں سے ملاقاتوں ، ان کے ساتھ اکٹھے ہونے، طرب انگیز آوازوں ، مسحور کن نغمات اور خوش کن مناظر کی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ بدن کو مختلف انواع کے ماکولات و مشروبات اور بیویاں وغیرہ عطا ہوں گی جو انسان کے علم سے باہر ہیں جن کے بارے میں انسان تصور تک نہیں کر سکتا اور نہ کوئی اس کا وصف بیان کر سکتا ہے۔
#
{10} {دعواهم فيها سبحانك اللهمَّ}؛ أي: عبادتهم فيها لله أولها تسبيحٌ لله وتنزيهٌ له عن النقائص، وآخرها تحميدٌ لله؛ فالتكاليف سقطت عنهمفي دار الجزاء، وإنما بقي لهم أكملُ اللَّذَّات، الذي هو ألذُّ عليهم من المآكل اللَّذيذة، ألا وهو ذِكْرُ الله الذي تطمئنُّ به القلوب وتفرحُ به الأرواح، وهو لهم بمنزلة النفس من دون كلفةٍ ومشقَّةٍ. {و} أما تحيَّتُهم فيما بينَهم عند التلاقي والتَّزاور؛ فهو السلامُ؛ أي: كلامٌ سالمٌ من اللغو والإثم، موصوفٌ بأنه {سلامٌ}. وقد قيل في تفسير قوله: {دعواهُم فيها سبحانك [اللهمّ] ... } إلى آخر الآية: إن أهل الجنة إذا احتاجوا إلى الطعام والشراب ونحوهما؛ قالوا: سبحانك اللهمَّ! فَأُحْضِرَ لهم في الحال، فإذا فرغوا قالوا: {الحمدُ لله ربِّ العالمين}.
[10] ﴿دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰؔنَكَ اللّٰهُمَّ﴾ ’’اس میں ان کی پکار ہو گی، اے اللہ تو پاک ہے‘‘ یعنی جنت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اولین چیز تمام نقائص سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ ہوگی اور آخر میں اس کے لیے حمد و ثنا۔ دارالجزا میں ان سے تمام تکالیف ساقط ہو جائیں گی۔ ان کے لیے سب سے بڑی لذت، جو لذیذ ترین ماکولات سے بھی زیادہ لذیذ ہوگی اور وہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا ذکر، جس سے دل مطمئن اور روح خوش ہوگی اور ذکر الٰہی کی حیثیت ان کے لیے وہی ہوگی جو کسی متنفس کے لیے سانس کی ہوتی ہے مگر کسی کلفت اور مشقت کے بغیر۔
﴿ وَتَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا﴾ ’’اور اس میں ان کی دعائے ملاقات‘‘ یعنی ملاقات اور ایک دوسرے کی زیارت کے وقت ایک دوسرے کو
﴿ سَلٰ٘مٌ﴾’’سلام ہوگی‘‘ یعنی وہ سلام کہہ کر ایک دوسرے کو خوش آمدید کہیں گے، یعنی ان کی باہم گفتگو لغویات اور گناہ کی باتوں سے پاک ہو گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد
﴿دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰؔنَكَ ... ﴾ الآیۃ کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اہل جنت جب کھانے پینے کی حاجت محسوس کریں گے تو کہیں گے
﴿ سُبْحٰؔنَكَ اللّٰهُمَّ﴾ اور ان کے سامنے اسی وقت کھانا حاضر کر دیا جائے گا۔
﴿ وَاٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ ﴾ ’’اور ان کی آخری بات۔‘‘ جب وہ کھانے سے فارغ ہوں گے تو کہیں گے
﴿ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘
{وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (11)}.
اور اگر جلدی کرتا اللہ واسطے لوگوں کے برائی
(پہنچانے) میں مانند جلدی طلب کرنے ان
(لوگوں ) کے بھلائی کو تو ، البتہ پورا کر دیا جاتا ان کا وقت مقرر، پھر چھوڑ دیتے ہم ان لوگوں کو جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی، ان کی سرکشی میں ، وہ سرگرداں ، پھرتے
(11)
#
{11} وهذا من لطفه وإحسانه بعباده: أنَّه لو عجَّل لهم الشرَّ إذا أتَوْا بأسبابه وبادَرَهم بالعقوبة على ذلك كما يعجِّل لهم الخير إذا أَتَوْا بأسبابه؛ {لَقُضِيَ إليهم أجلُهم}؛ أي: لمحقتهم العقوبة، ولكنه تعالى يمهِلُهم ولا يهملهم ويعفو عن كثيرٍ من حقوقه؛ فلو يؤاخذ الله الناس بظلمهم؛ ما ترك على ظهرها من دابَّة، ويدخل في هذا أن العبد إذا غضب على أولاده أو أهله أو ماله ربَّما دعا عليهم دعوةً لو قُبِلَتْ منه؛ لهلكوا ولأضرَّه ذلك غاية الضرر، ولكنَّه تعالى حليمٌ حكيمٌ. وقوله: {فَنَذَرُ الذين لا يرجون لقاءنا}؛ أي: لا يؤمنون بالآخرة؛ فلذلك لا يستعدُّون لها ولا يعملون ما يُنجيهم من عذاب الله، {في طغيانِهِم}؛ أي: باطلهم الذي جاوزوا به الحقَّ والحدَّ {يعمهون}: يترَّددون حائرين، لا يهتدون السبيل، ولا يوفَّقون لأقوم دليل، وذلك عقوبة لهم على ظلمهم وكفرهم بآيات الله.
[11] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و احسان ہے... کہ جب بندے برائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اگر اللہ تعالیٰ ان کو اس برائی میں عجلت سے پکڑنا اور انھیں فوراً عذاب میں مبتلا کرنا چاہے، جس طرح وہ نیکی کرتے ہیں تو ان کے لیے جلدی سے ثواب لکھ لیا جاتا ہے،
﴿ لَ٘قُ٘ضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ﴾ ’’تو ختم کر دی جائے ان کی عمر‘‘ یعنی عذاب ان کو ملیا میٹ کر دے... مگر اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے اور اپنے بہت سے حقوق کے بارے میں ان کی کوتاہیوں کو معاف کر دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم پر ان کا مواخذہ کرے تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے۔
اس آیت کریمہ میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بسا اوقات انسان اپنے اہل و اولاد اور مال پر ناراض ہو کر بددعا کر بیٹھتا ہے اگر اس کی بددعا قبول ہو جائے تو سب ہلاک ہو جائیں اور اس سے اسے سخت نقصان پہنچے۔ مگر اللہ تعالیٰ نہایت حلیم اور حکمت والا ہے۔
(یعنی ایسی بددعاؤں کو قبول نہیں فرماتا)
﴿ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ﴾ ’’پس ہم چھوڑے رکھتے ہیں ان لوگوں کو جن کو ہماری ملاقات کی امید نہیں ‘‘ یعنی وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی لیے اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سی چیز انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دے گی۔
﴿ فِیْ طُغْیَانِهِمْ ﴾ ’’اپنی سرکشی میں ۔‘‘ یعنی اپنے باطل میں ، جس کی بنا پر انھوں نے حق اور حدود سے تجاوز کیا
﴿ یَعْمَهُوْنَ ﴾ ’’وہ حیران اور سرگرداں پھرتے ہیں ‘‘ انھیں کوئی راستہ نہیں ملتا اور نہ وہ کسی مضبوط دلیل کی توفیق سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور یہ ان کے ظلم اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکار کی پاداش میں ان کے لیے سزا ہے۔
{وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (12)}.
اور جب پہنچتی ہے انسان کو تکلیف تو وہ پکارتا ہے ہمیں اپنے پہلو پر
(لیٹے ہوئے) یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے، پھر جب کھول دیتے ہیں ہم اس سے تکلیف اس کی تو
(یوں ) گزر جاتا ہے وہ گویا کہ نہیں پکارا تھا اس نے ہمیں اس تکلیف کے
(ہٹانے) کے لیے جو اسے پہنچی تھی، اسی طرح مزین کر دیے گئے واسطے حد سے گزرنے والوں کے جو تھے وہ
(برے) عمل کرتے
(12)
#
{12} وهذا إخبارٌ عن طبيعة الإنسان من حيث هو، وأنَّه إذا مسَّه ضرٌّ من مرض أو مصيبة؛ اجتهد في الدعاء، وسأل الله في جميع أحواله؛ قائماً وقاعداً ومضطجعاً، وألحَّ في الدعاء؛ ليكشف الله عنه ضرَّه، {فلما كشفنا عنه ضُرَّه مَرَّ كأن لم يَدْعُنا إلى ضُرٍّ مسَّه}؛ أي: استمر في غفلته معرضاً عن ربِّه كأنه ما جاءه ضرٌّ فكشفه الله عنه؛ فأيُّ ظلم أعظم من هذا الظلم؛ يطلب من الله قضاء غرضه؛ فإذا أناله إياه؛ لم ينظرْ إلى حقِّ ربِّه؛ وكأنه ليس عليه لله حقٌّ؟! وهذا تزيينٌ من الشيطان زيَّن له ما كان مستهجناً مستقبحاً في العقول والفطر، {كذلك زُيِّن للمسرفين}؛ أي: المتجاوزين للحدِّ {ما كانوا يعملونَ}.
[12] اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔
﴿ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّؔ مَّسَّهٗ﴾ ’’پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کر دیتے ہیں تو وہ
(یوں ) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں ‘‘ یعنی اپنے رب سے روگردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں ۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں ۔
﴿ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْ٘مُسْرِفِیْنَ۠ ﴾ ’’اسی طرح خوش نما بنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لیے‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں
﴿ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’جو عمل وہ کرتے تھے۔‘‘
{وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ (13) ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (14)}.
اور البتہ تحقیق ہم نے ہلاک کر دیا ان امتوں کو جو تم سے پہلے گزریں ، جب انھوں نے ظلم کیا،اور آئے ان کے پاس ان کے رسول ساتھ واضح دلیلوں کےاور نہ ہوئے وہ کہ ایمان لاتے، اسی طرح سزا دیتے ہیں ہم ان لوگو ں کو جو مجرم ہیں
(13) پھر بنایا ہم نے تمھیں جانشین زمین میں بعد ان کےتاکہ ہم دیکھیں کیسے تم عمل کرتے ہو؟
(14)
#
{13} يخبر تعالى أنه أهلك الأمم الماضية بظلمهم وكفرهم بعدما جاءتهم البيناتُ على أيدي الرسل تبيِّن الحقَّ، فلم ينقادوا لها، ولم يؤمنوا، فأحلَّ بهم عقابه الذي لا يُرَدُّ عن كلِّ مجرم متجرِّئ على محارم الله، وهذه سنته في جميع الأمم.
[13] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے گزشتہ قوموں کو ان کے کفر و ظلم کی بنا پر تباہ کر دیا۔ رسولوں کے توسط سے ان کے پاس واضح دلائل آئے اور ان کے سامنے حق واضح ہوگیا مگر انھوں نے حق کو تسلیم نہ کیا اور وہ ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کر دیا جو کسی مجرم اور اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کرنے والے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ تمام قوموں میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔
#
{14} {ثم جعلناكم}؛ أيها: المخاطبون {خلائفَ في الأرض من بعدِهِم لننظر كيف تعملون}؛ فإن أنتم اعتبرتُم، واتَّعظتم بمن قبلكم، واتَّبعتم آيات الله، وصدَّقتم رسله؛ نجوتُم في الدنيا والآخرة، وإن فعلتُم كفعل الظالمين قبلكم؛ أحلَّ بكم ما أحلَّ بهم، ومَنْ أنذرَ فقد أعذرَ.
[14] ﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ ﴾ ’’پھر بنایا ہم نے تم کو‘‘ یعنی اے مخاطبو!
﴿ خَلٰٓىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُ٘رَؔ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’زمین میں جانشین ان کے بعد تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ اگر تم نے گزشتہ قوموں سے عبرت حاصل کی اور نصیحت پکڑی، اللہ تعالیٰ کی آیات کی اتباع کی اور اس کے انبیاء و رسل کی تصدیق کی تو تم دنیا و آخرت میں نجات پاؤ گے۔ اور اگر تم نے بھی وہی کام کیے جو تم سے پہلے ظالم قوموں نے کیے تھے تو تم پر بھی وہی عذاب بھیج دیا جائے گا جو ان پر بھیجا گیا تھا اور جس نے تنبیہ کر دی اس نے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا۔
{وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (15) قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (16) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (17)}.
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں واضح تو کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی، لے آ تو کوئی
(اور) قرآن علاوہ اس کے یا بدل دے اس کو
(کچھ)، کہہ دیجیے! نہیں لائق واسطے میرے یہ کہ بدل دوں میں اسے اپنی طرف سے، نہیں اتباع کرتا میں مگر اسی چیز کی جو وحی کی جاتی ہے میری طرف، بے شک میں ڈرتا ہوں ، اگر میں نے نافرمانی کی اپنے رب کی، عذاب سے بہت بڑے دن کے
(15) کہہ دیجیے! اگر چاہتا اللہ تو نہ تلاوت کرتا میں اس کی تم پراور نہ اللہ اطلاع دیتا تمھیں اس کی، پس تحقیق ٹھہرا ہوں میں تمھارے اندر ایک مدت اس
(دعوائے نبوت) سے پہلے، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟
(16) پس کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے افتراء باندھا اوپر اللہ کے جھوٹا یا اس نے جھٹلایا اس کی آیتوں کو؟ بلاشبہ نہیں فلاح پائیں گے مجرم
(17)
#
{15} يذكر تعالى تعنُّت المكذِّبين لرسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، وأنهم إذا تُتلى عليهم آيات الله القرآنية المبيِّنة للحقِّ؛ أعرضوا عنها، وطلبوا وجوه التعنُّت، فقالوا جراءة منهم وظلماً: {ائت بقرآنٍ غير هذا أو بدِّلْه}: فقبَّحهم الله؛ ما أجرأهم على الله وأشدَّهم ظلماً وردًّا لآياته! فإذا كان الرسول العظيم يأمره الله أن يقول لهم: {قلْ ما يكون لي}؛ أي: ما ينبغي ولا يَليقُ {أن أبدِّلَه من تلقاء نفسي}؛ فإني رسولٌ محضٌ، ليس لي من الأمر شيء. {إنْ أتَّبِعُ إلا ما يوحى إليَّ}؛ أي: ليس لي غير ذلك؛ فإني عبدٌ مأمور، {إني أخاف إن عصيتُ ربي عذابَ يوم عظيم}: فهذا قولُ خير الخلق وأدبُه مع أوامر ربِّه ووحيه؛ فكيف بهؤلاء السفهاء الضالِّين الذين جمعوا بين الجهل والضَّلال والظُّلم والعناد والتعنُّت والتعجيز لربِّ العالمين؛ أفلا يخافون عذابَ يوم عظيم؟! فإن زعموا أنَّ قصدهم أن يتبيَّن لهم الحقُّ بالآيات التي طلبوا؛ فهم كَذَبة في ذلك؛ فإنَّ الله قد بيَّن من الآيات ما يؤمن على مثله البشر، وهو الذي يصرِّفها كيف يشاء؛ تابعاً لحكمته الربانيَّة ورحمته بعباده.
[15] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیe کی تکذیب کرنے والے کفار کی ڈھٹائی اور تعصب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کے سامنے آیات قرآنی کی تلاوت کی جاتی ہے جو حق کو بیان کرتی ہیں تو یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب ان سے اس ڈھٹائی اور تعصب کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو وہ ظلم اور جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
﴿ ائْتِ بِقُ٘رْاٰنٍ غَیْرِ هٰؔذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ﴾ ’’اس قرآن کے علاوہ کوئی اور لا یا اس کو بدل دے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا برا کرے! وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں کتنی بڑی گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو ٹھکرا کر کتنا سخت ظلم کرتے ہیں ۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عظیم رسولe کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سے کہہ دیں :
﴿قُ٘لْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ مجھے یہ زیبا ہے نہ میرے لائق ہے‘‘
﴿اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ﴾ ’’کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں ‘‘ کیونکہ میں تو صرف رسول ہوں میرے اختیار میں کچھ نہیں ۔
﴿اِنْ اَتَّ٘بِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ﴾ ’’میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی اتباع وحی کے علاوہ میرا کوئی اختیار نہیں کیونکہ میں تو مامور بندہ ہوں ۔
﴿اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’میں ڈرتا ہوں ، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی، بڑے دن کے عذاب سے‘‘ یہ مخلوق میں بہترین ہستی کا قول اور اللہ تعالیٰ کے اوامر اور وحی کے بارے میں اس کا رویہ ہے، تب یہ بیوقوف اور گمراہ لوگ، جنھوں نے جہالت اور گمراہی، ظلم اور عناد اور اللہ رب العالمین پر اعتراضات اور عجز کی طرف اس کی نسبت کو جمع کر رکھا ہے، کیوں کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کر سکتے ہیں ۔ کیا وہ ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟
اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ان آیات و معجزات کے ذریعے سے ان کے سامنے حق واضح ہو جائے، جن کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ اس بارے میں جھوٹے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات بیان کر دی ہیں جو انسان کے بس سے باہر ہیں ، اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے اپنی رحمت اور حکمت ربانی کے مطابق ان آیات میں تصرف کرتا ہے۔
#
{16} {قل لو شاء الله ما تلوتُه عليكم ولا أدراكم به فقد لبِثْتُ فيكم عُمُراً} طويلاً {من قبله}؛ أي: قبل تلاوته وقبل درايتكم به وأنا ما خَطَر على بالي ولا وقع في ظني. {أفلا تعقلونَ}: أنِّي حيث لم أتقوَّلُه في مدة عمري، ولا صَدَر مني ما يدلُّ على ذلك؛ فكيف أتقوَّله بعد ذلك، وقد لبثت فيكم عمراً طويلاً، تعرفون حقيقة حالي، بأني أميٌّ لا أقرأ، ولا أكتب، ولا أدرس، ولا أتعلَّم من أحدٍ، فأتيتُكم بكتاب عظيم أعجز الفصحاء وأعيا العلماء؛ فهل يمكن مع هذا أن يكون من تلقاء نفسي؟! أم هذا دليلٌ قاطع أنه تنزيل من حكيم حميد؟! فلو أعملتم أفكاركم وعقولكم، وتدبَّرتم حالي وحال هذا الكتاب؛ لجزمتم جزماً لا يقبل الرَّيْب بصدقِهِ، وأنَّه الحقُّ الذي ليس بعده إلا الضلال، ولكن إذا أبيتم إلا التكذيب والعناد؛ فأنتم لا شكَّ أنكم ظالمون.
[16] ﴿قُ٘لْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَلَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖٞ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا ﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر اللہ چاہتا تو میں پڑھتا اس کو تمھارے سامنے نہ وہ خبر کرتا تم کو اس کی، پس تحقیق میں رہ چکا ہوں تم میں ایک طویل عرصہ‘‘ یعنی بہت طویل عرصے تک میں تمھارے اندر رہا ہوں ۔
﴿مِّنْ قَبْلِهٖ٘ ﴾ ’’اس سے پہلے‘‘ یعنی اس کی تلاوت اور تمھارے اس کو جان لینے سے قبل۔ اور میں نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا اور یہ چیز کبھی میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔
﴿اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’کیا پھر تم نہیں سوچتے‘‘ یعنی میں نے عمر بھر تمھارے سامنے اس کو تلاوت نہیں کیا اور مجھ سے کبھی کوئی ایسی چیز صادر نہیں ہوئی جو اس پر دلالت کرتی ہو، پھر اس کے بعد میں کیوں کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں ۔ میں نے تمھارے اندر ایک لمبی عمر گزاری ہے، تم میری حقیقت حال سے خوب واقف ہو، میرے ماں باپ کو جانتے ہو، تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں اور میں کسی سے درس لیتا ہوں نہ کسی سے تعلیم حاصل کرتا ہوں ؟
پس میں تمھارے پاس ایک عظیم کتاب لے کر آیا ہوں جس نے بڑے بڑے علما اور فصحا کو عاجز اور لاچار کر دیا، کیا اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس کتاب کو میں نے اپنی طرف سے تصنیف کر لیا ہو یا یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ حکمت والے اور ستائش کے لائق اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے؟ اگر تم اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، میرے احوال اور اس کتاب کے حال میں تدبر کرو تو تمھیں قطعی یقین آجائے گا جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ حق ہے جس کے بعد گمراہی کے سوا کچھ باقی نہیں ۔ مگر جب تم نے عناد کی بنا پر اسے جھٹلا دیا تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ تم سخت ظالم ہو۔
#
{17} و {منْ أظلمُ ممَّن افترى على الله كَذِباً أو كَذَّبَ بآياتِهِ}؛ فلو كنتُ متقوِّلاً؛ لكنتُ أظلم الناس، وفاتني الفلاحُ، ولم تَخْفَ عليكم حالي، ولكني جئتُكم بآيات الله، فكذَّبْتم بها، فتعيَّن فيكم الظُّلم، ولا بدَّ أن أمركم سيضمحلُّ ولن تنالوا الفلاح ما دمتُم كذلك. ودلَّ قوله: {قال الذينَ لا يرجونَ لقاءنا ... } الآية: أنَّ الذي حَمَلَهم على هذا التعنُّت الذي صدر منهم هو عدمُ إيمانهم بلقاء الله وعدمُ رجائه وأنَّ مَن آمن بلقاء الله؛ فلا بدَّ أن ينقادَ لهذا الكتاب ويؤمنَ به، لأنَّه حسن القصد.
[17] اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ اگر میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑوں تو میں لوگوں میں سب سے ظالم شخص اور فلاح سے محروم ہوں ۔ میرے حالات تم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آیا ہوں ، تم نے ان کو جھٹلایا، جس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ تم ظالم ہو۔ تمھارا معاملہ عنقریب مضمحل ہو جائے گا اور جب تک تم اپنی اس ڈگر پر چلتے رہو گے، ہرگز فلاح نہیں پا سکو گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ﴾ ’’جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں ۔‘‘ دلالت کرتا ہے کہ جس چیز نے ان کو اس تعنت
(کٹ حجتی) پر آمادہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر عدم ایمان اور اس کے ساتھ ملاقات ہونے پر عدم یقین ہے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان رکھتا ہے وہ لازمی طور پر اس کتاب کی اتباع کرتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ وہ صحیح نیت والا ہے۔
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (18)}.
اور وہ عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے اس چیز کی جو نہیں نقصان پہنچاتی ان کو اور نہ نفع دیتی ہے انھیں اور وہ کہتے ہیں ، یہی لوگ ہیں ہمارے سفارشی اللہ کے ہاں ، کہہ دیجیے! کیا تم خبر دیتے ہو اللہ کو ساتھ اس چیز کے کہ نہیں جانتا وہ
(اسے) آسمانوں اور زمین میں ، وہ پاک اور بلند ہے ان سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں
(18)
#
{18} يقول تعالى: {ويعبُدون}؛ أي: المشركون المكذِّبون لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - {من دونِ الله ما لا يضرُّهم ولا ينفعُهم}؛ أي: لا تملك لهم مثقال ذرة من النفع ولا تدفع عنهم شيئاً {ويقولون}: قولاً خالياً من البرهان: {هؤلاء شفعاؤنا عند الله}؛ أي: يعبدونهم ليقرِّبوهم إلى الله ويشفعوا لهم عنده، وهذا قول من تلقاء أنفسهم، وكلامٌ ابتكروه هم، ولهذا قال مبطلاً لهذا القول: {قل أتنبِّئون الله بما لا يعلم في السموات ولا في الأرض}؛ أي: الله تعالى هو العالم الذي أحاط علماً بجميع ما في السماوات والأرض، وقد أخبركم بأنَّه ليس له شريكٌ ولا إله معه؛ فأنتم يا معشر المشركين تزعُمون أنه يوجد له فيها شركاء، أفتخبرونه بأمر خفي عليه وعلمتموه؟! أأنتم أعلم أم الله؟! فهل يوجد قولٌ أبطلُ من هذا القول المتضمِّن أن هؤلاء الضلال الجهال السفهاء أعلم من رب العالمين؟! فليكتف العاقلُ بمجرَّد تصوُّر هذا القول؛ فإنه يجزم بفساده وبطلانه. {سبحانه وتعالى عما يشركونَ}؛ أي: تقدَّس وتنزَّه أن يكون له شريك أو نظير، بل هو الله الأحدُ الفردُ الصمدُ الذي لا إله في السماوات والأرض إلا هو، وكلُّ معبودٍ في العالم العلويِّ والسفليِّ سواه فإنه باطلٌ عقلاً وشرعاً وفطرةً، {ذلك بأنَّ الله هو الحقُّ وأن ما يدعون من دونه هو الباطل وأنَّ الله هو العليُّ الكبيرُ}.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَیَعْبُدُوْنَ﴾ ’’اور پرستش کرتے ہیں ‘‘ یعنی رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے مشرکین۔
﴿مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَلَا یَنْفَعُهُمْ ﴾ ’’اللہ کے سوا، اس چیز کی جو ان کو نقصان پہنچا سکے نہ نفع‘‘ یعنی ان کے معبودان باطل ان کو ذرہ بھر فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور نہ ان سے کسی ضرر کو دور کر سکتے ہیں ۔
﴿ وَیَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’اور وہ کہتے ہیں ۔‘‘ ایسی بات جو دلیل سے بالکل خالی ہے۔
﴿ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ‘‘ یعنی وہ ان معبودان باطل کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں اور اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں ۔ یہ ان کی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بات ہے۔
بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کا ابطال کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ قُ٘لْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’کہہ دیجیے! کیا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو اس کو معلوم نہیں ، آسمانوں میں اور زمین میں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے جس نے اپنے علم کے ذریعے سے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اس نے تمھیں آگاہ کیا ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے ساتھ کوئی معبود نہیں ۔ پس اے مشرکو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسے معاملے کی خبر دے رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہے اور تم اسے جانتے ہو؟ کیا تم اللہ تعالیٰ سے زیادہ جانتے ہو؟ کیا اس عقیدے سے زیادہ باطل عقیدہ پایا جا سکتا ہے جو اس امر کا متضمن ہے کہ یہ گمراہ، جہال اور بیوقوف لوگ، اللہ رب العالمین سے زیادہ علم رکھتے ہیں ؟ عقل مند شخص کے لیے اس عقیدے کا مجرد تصور ہی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ یہ قطعی طور پر فاسد اور باطل عقیدہ ہے۔
﴿سُبْحٰؔنَهٗ وَتَ٘عٰ٘لٰى عَمَّؔا یُشْرِكُوْنَؔ ﴾ ’’وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بہت بلند ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی اس کا شریک یا نظیر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ واحد، فرد اور بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس عالم علوی اور سفلی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر معبود عقل، شرع اور فطرت کے اعتبار سے باطل ہے
﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ١ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْ٘عَلِیُّ الْكَبِیْرُ﴾ (لقمان: 31؍30) ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ ہی کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور اللہ ہی بلند اور بڑا ہے۔‘‘
{وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (19) وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (20)}.
اور نہیں تھے لوگ
(پہلے) مگر ایک ہی امت، پھر انھوں نے اختلاف کیااور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے
(سے متعین) ہو چکی ہے آپ کے رب کی طرف سے تو یقینا فیصلہ کر دیا جاتا ان کے درمیان اس چیز کے بارے میں کہ جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے
(19)وہ کہتے ہیں ، کیوں نہیں نازل کی گئی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے؟ سو آپ کہہ دیجیے! یقینا غیب تو اللہ ہی کے لیے ہے، پس تم انتظار کرو، بلاشبہ میں
(بھی) تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں
(20)
#
{19} أي: {وما كان الناس إلا أمَّةً واحدةً}: متفقين على الدين الصحيح، ولكنهم اختلفوا، {فبعث الله الرسل مبشِّرين ومنذرين وأنزل معهم الكتاب ليحكم بين الناس فيما اختلفوا فيه}. {ولولا كلمةٌ سبقتْ من ربِّك}: بإمهال العاصين وعدم معاجلتهم بذنوبهم، {لَقُضِيَ بينهم}: بأن ننجِّي المؤمنين ونهلك الكافرين المكذِّبين، وصار هذا فارقاً بينهم {فيما فيه يختلفون}، ولكنه أراد امتحانهم وابتلاء بعضهم ببعض؛ ليتبيَّن الصادق من الكاذب.
[19] ﴿ وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت‘‘ یعنی تمام لوگ صحیح دین پر متفق تھے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوگیا، تب اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے جو خوشخبری سنانے والے اور برے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اس بارے میں فیصلہ کرے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔
﴿ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے طے ہو چکی ہے‘‘ کہ نافرمانوں کو مہلت دینی ہے اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کا فوری مواخذہ نہیں کرنا۔
﴿ لَ٘قُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ﴾ ’’تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا‘‘ بایں طور کہ ہم اہل ایمان کو بچا لیتے اور جھٹلانے والے کفار کو ہلاک کر دیتے اور یہ چیز ان کے درمیان امتیاز اور تفریق کی علامت بن جاتی۔
﴿ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ ’’ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے‘‘ مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے اور آزمائش میں مبتلا کرے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔
#
{20} {ويقولون}؛ أي: المكذبون المتعنِّتون: {لولا أنزِلَ عليه آيةٌ من ربِّه}؛ يعنون: آيات الاقتراح التي يعيِّنونها؛ كقولهم: {لولا أنزل إليه مَلَكٌ فيكونَ معه نذيرًا ... } الآيات، وكقولهم: {وقالوا لن نؤمنَ لك حتى تَفْجُرَ لنا من الأرض يَنبوعاً ... } الآيات. {فقل}: لهم إذا طلبوا منك آيةً: {إنما الغيبُ لله}؛ أي: هو المحيط علماً بأحوال العباد، فيدبِّرهم بما يقتضيه علمه فيهم وحكمته البديعة، وليس لأحدٍ تدبيرٌ في حكم ولا دليل ولا غاية ولا تعليل. {فانتظروا إني معكم من المنتظرين}؛ أي: كل ينتظر بصاحبه ما هو أهلٌ له فانظروا لمن تكون العاقبة.
[20] ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’اور یہ کہتے ہیں ۔‘‘ یعنی لغزشیں تلاش کرنے اور جھٹلانے والے کہتے ہیں :
﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ ’’کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی آیت اس کے رب کی طرف سے‘‘ یعنی وہ آیات جن کا وہ مطالبہ کرتے ہیں ،
مثلاً:وہ کہا کرتے تھے:
﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُ٘وْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا﴾ (الفرقان:25؍7) ’’اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو ڈرانے کو اس کے ساتھ رہتا‘‘ اور جیسے ان کا یہ قول ہے۔
﴿ وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍90) ’’اور انھوں نے کہا: ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم ہمارے لیے زمین میں سے چشمہ جاری نہ کر دو۔‘‘
﴿ فَقُلْ ﴾ جب وہ آپ سے کسی آیت کا مطالبہ کریں تو آپ کہہ دیجیے!
﴿ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰهِ ﴾ ’’غیب کی بات تو اللہ ہی جانے‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے اپنے بندوں کے احوال کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ اپنے علم اور انوکھی حکمت کے تقاضے کے مطابق ان کی تدبیر کرتا ہے۔ کسی حکم، کسی دلیل، کسی غایت و انتہا اور کسی تعلیل کی تدبیر میں کسی کا کوئی اختیار نہیں ۔
﴿ فَانْتَظِرُوْا١ۚ اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْ٘مُنْتَظِرِیْنَ ﴾ ’’پس انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ‘‘ یعنی ہر ایک دوسرے کے بارے میں منتظر رہے جس کا وہ اہل ہے اور دیکھے کہ کس کا انجام اچھا ہوتا ہے؟
{وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُمْ مَكْرٌ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ (21)}.
اور جب ہم چکھاتے ہیں
(کافر) لوگوں کو رحمت بعد اس تکلیف کے جو انھیں پہنچی تو ناگہاں ان کے لیے چالیں ہوتی ہیں
(جو وہ چلتے ہیں ) ہماری آیتوں میں ، کہہ دیجیے! اللہ سب سے زیادہ تیز ہے چال
(چلنے) میں ، بے شک ہمارے رسول
( فرشتے) لکھتے ہیں جو چالیں تم چلتے ہو
(21)
#
{21} يقول تعالى: {وإذا أذَقْنا الناس رحمةً من بعد ضرَّاء مسَّتهم}: كالصحة بعد المرض والغنى بعد الفقر والأمن بعد الخوف؛ نسوا ما أصابهم من الضرَّاء، ولم يشكُروا الله على الرخاء والرحمة، بل استمرُّوا في طغيانهم ومكرهم، ولهذا قال: {إذا لهم مكرٌ في آياتنا}؛ أي: يسعَوْن بالباطل ليبطلوا به الحق. {قل اللهُ أسرعُ مكراً}: فإنَّ المكرَ السيئ لا يحيق إلا بأهله؛ فمقصودهم منعكسٌ عليهم، ولم يسلموا من التَبِعَة، بل تكتب الملائكة عليهم ما يعملون، ويحصيه الله عليهم، ثم يجازيهم الله عليه أوفر الجزاء.
[21] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَاِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَؔ مَسَّتْهُمْ ﴾ ’’اور جب چکھائیں ہم لوگوں کو مزا اپنی رحمت کا،
ایک تکلیف کے بعد جو ان کو پہنچی تھی۔‘‘ مثلاً: مرض کے بعد صحت،
تنگ دستی کے بعد فراخی اور خوف کے بعد امن تو وہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں کیا تکلیف پہنچی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فراخی اور اس کی رحمت پر اس کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی سازشوں اور سرکشی پر جمے رہتے ہیں ۔
بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِذَا لَهُمْ مَّؔكْرٌ فِیْۤ اٰیَ٘اتِنَا﴾ ’’اسی وقت بنانے لگیں وہ حیلے ہماری آیتوں میں ‘‘ یعنی وہ باطل میں کوشاں رہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے حق کو باطل ثابت کریں
﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ حیلے بنانے
(تدبیر کرنے) میں زیادہ تیز ہے‘‘ کیونکہ بری چالوں کا وبال چال چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ ان کے برے مقاصد انھی پر پلٹ جاتے ہیں اور وہ برے انجام سے محفوظ نہیں رہتے بلکہ فرشتے ان کے اعمال لکھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو محفوظ کر لیتا ہے پھر وہ ان کو ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
{هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (22) فَلَمَّا أَنْجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (23)}.
وہی ہے
(اللہ) جو چلاتا ہے تمھیں خشکی اور تری میں ، حتی کہ جب ہوتے ہو تم کشتیوں میں اور چلتی ہیں وہ انھیں
(تمھیں ) لے کر ساتھ ہوا پاکیزہ
(موافق)کےاورخوش ہوتے ہیں وہ ساتھ اس
(ہوا) کے تو آتی ہے ان پر سخت ہوااور آتی ہیں ان کے پاس لہریں ہر طرف سے اور گمان کرتے ہیں وہ کہ بے شک گھیر لیا گیا ہے ان کو تو
(اس وقت) پکارتے ہیں اللہ کو خالص کرتے ہوئے اسی کے لیے عبادت کو، کہ اگر تو نے نجات دے دی ہمیں اس
(طوفان) سے تو یقینا ہو جائیں گے ہم شکر گزاروں میں سے
(22) پس جب اس
(اللہ) نے نجات دے دی ان کو فوراً وہ سرکشی کرنے لگتے ہیں زمین میں ناحق، اے لوگو! یقینا تمھاری سرکشی
(کا وبال) اوپر تمھاری جانوں ہی کے ہے،
(اٹھالو) فائدہ زندگی کا دنیا کی ، پھر ہماری طرف ہی لوٹنا ہے تمھیں ، پس ہم خبردیں گے تمھیں ساتھ اس کے جو تھے تم عمل کرتے
(23)
#
{22 ـ 23} لما ذكر تعالى القاعدة العامة في أحوال الناس عند إصابة الرحمة لهم بعد الضرَّاء واليُسر بعد العسر؛ ذَكَرَ حالةً تؤيِّد ذلك، وهي حالهم في البحر عند اشتداده والخوف من عواقبه، فقال: {هو الذي يُسَيِّرُكم في البرِّ والبحر}: بما يسَّر لكم من الأسباب المسيَّرة لكم فيها وهداكم إليها. {حتى إذا كنتُم في الفُلك}؛ أي: السفن البحريَّة، {وجَرَيْنَ بهم بريح طيِّبة}: موافقة لما يهوونه من غير انزعاج ولا مشقَّة، {وفرحوا بها}: واطمأنُّوا إليها؛ فبينما هم كذلك؛ إذ جاءتهم {ريحٌ عاصفٌ}: شديدة الهبوب، {وجاءهُم الموجُ من كلِّ مكان وظنُّوا أنهم أحيطَ بهم}؛ أي: عرفوا أنه الهلاك، فانقطع حينئذٍ تعلُّقهم بالمخلوقين، وعرفوا أنه لا يُنجيهم من هذه الشدَّة إلا الله وحده، فدعوه {مخلصين له الدين}: ووعدوا من أنفسهم على وجه الإلزام، فقالوا: {لئنْ أنجَيْتَنا من هذه لنكوننَّ من الشاكرينَ. فلما أنجاهم إذا هم يبغونَ في الأرض بغير الحقِّ}؛ أي: نسوا تلك الشدة وذلك الدعاء وما ألزموه أنفسهم، فأشركوا بالله مَن اعترفوا أنه لا يُنجيهم من الشدائد ولا يدفع عنهم المضايق؛ فهلا أخلصوا لله العبادة في الرخاء كما أخلصوه في الشدة؟! ولكنَّ هذا البغي يعود وَبالُه عليهم، ولهذا قال: {يا أيُّها الناس إنَّما بغيكم على أنفسكم متاعَ الحياة الدُّنيا}؛ أي: غاية ما تؤمِّلون ببغيكم وشرودكم عن الإخلاص لله أن تنالوا شيئاً من حُطام الدُّنيا وجاهها النزر اليسير الذي سينقضي سريعاً ويمضي جميعاً ثم تنتقلون عنه بالرغم. {ثم إلينا مرجِعُكم}: في يوم القيامة، {فننبِّئكم بما كنتُم تعملونَ}: وفي هذا غايةُ التحذير لهم عن الاستمرار على عملهم.
[23,22] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور تنگ دستی کے بعد فراخی کے وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے تو اب ان کی اس حالت کا ذکر فرماتا ہے جو اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ ان کی وہ حالت ہے جب وہ سمندر کے اندر سفر کرتے ہیں اور سمندر سخت جوش میں ہوتا ہے اور ان کو اس کے انجام کا خوف ہوتا ہے،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُؔكُمْ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ’’وہی ہے جو تمھیں چلاتا ہے خشکی اور سمندر میں ‘‘ یعنی ان اسباب کے ذریعے سے جو اس نے تمھیں مہیا کیے ہیں اور ان کی طرف تمھاری راہ نمائی فرمائی ہے۔
﴿حَتّٰۤى اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ﴾ ’’یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو‘‘ یعنی بحری جہازوں میں
﴿وَجَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ﴾ ’’اور لے کر چلیں وہ ان کو اچھی ہوا سے‘‘ یعنی وہ ہوا جو ان کی خواہش کے موافق بغیر کسی مشقت اور گھبراہٹ کے ان جہازوں کو چلاتی ہے۔
﴿وَّفَرِحُوْا بِهَا ﴾ ’’اور وہ خوش ہوں ساتھ ان کے‘‘ اور ان ہواؤں پر نہایت مطمئن ہوتے ہیں اور وہ اسی حال میں ہوتے ہیں کہ
﴿جَآءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ ﴾ ’’اچانک زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے۔‘‘ یعنی کشتیوں پر سخت ہوا آئی
﴿ وَّجَآءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُ٘لِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اُحِیْطَ بِهِمْ﴾ ’’اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور انھوں نے جان لیا کہ وہ گھر گئے‘‘ یعنی انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب ان کی ہلاکت یقینی ہے، تب اس وقت مخلوق سے ان کے تمام تعلق منقطع ہو جاتے ہیں اور انھیں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مصیبت اور سختی سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب اس وقت
﴿ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ ’’وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کو پکارتے ہیں ‘‘ اور الزامی طور پر اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں ، چنانچہ کہتے ہیں
﴿ لَىِٕنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ هٰؔذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے تو ہم تیرے شکر گزار ہو جائیں گے۔‘‘
﴿ فَلَمَّاۤ اَنْجٰؔىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ ’’پس جب اللہ نے ان کو نجات دے دی تو اسی وقت شرارت کرنے لگے زمین میں ناحق۔‘‘ یعنی وہ اس سختی کو جس میں وہ مبتلا تھے، ان دعاؤں کو جو وہ مانگتے رہے تھے اور ان وعدوں کو جو انھوں نے اپنے اوپر لازم کیے تھے،
فراموش کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں جس کے بارے میں انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ اس کے سوا کوئی ہستی انھیں ان سختیوں سے نجات دے سکتی ہے نہ ان کی تنگی دور کر سکتی ہے۔ پس انھوں نے اپنی فراخی اور کشادگی میں عبادت کو اللہ کے لیے خالص کیوں نہ کیا جس طرح انھوں نے سختی میں اپنی عبادت کو اللہ کے لیے خالص کیا تھا مگر اس بغاوت اور سرکشی کا وبال انھیں پر پڑے گا۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ١ۙ مَّؔتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’اے لوگو! تمھاری شرارت تمھی پر پڑے گی، نفع اٹھا لو دنیا کی زندگانی کا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے سرکشی و بغاوت اور اس کے لیے اخلاص سے دور بھاگنے میں ان کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ دنیا کے چند ٹکڑے اور اس کا مال و جاہ اور معمولی سے فوائد حاصل ہوں جو بہت جلد ختم ہو جائیں گے، سب کچھ ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تم اسے چھوڑ کر یہاں سے کوچ کر جاؤ گے۔
﴿ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ ﴾ ’’پھر ہمارے پاس ہی تمھیں لوٹ کر آنا ہے‘‘ یعنی قیامت کے روز
﴿ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’پھر ہم تمھیں بتلا دیں گے جو کچھ کہ تم کرتے تھے‘‘ اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کو ان کے اپنے ان اعمال پر جمے رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔
{إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (24)}.
یقینا مثال زندگانی دنیا کی مانند اس پانی کے ہے کہ ہم نے نازل کیا اس کو آسمان سے، پھر مل جل گئی اس کے سبب سے روئیدگی زمین کی، اس چیز میں سے جسے کھاتے ہیں انسان اور چوپائے، یہاں تک کہ جب پکڑی زمین نے رونق اپنی اور مزین ہو گئی اور گمان کر لیا اہل زمین نے کہ بے شک وہ قادر ہیں اس
(سے فائدہ اٹھانے) پر تو
(اچانک) آگیا اس پر ہمارا حکم
(عذاب) رات یا دن کو، پس کردیا ہم نے اس
(لہلہاتی کھیتی) کو کٹی ہوئی کھیتی
(کی طرح)، گویا کہ نہیں تھی وہ کل، اسی طرح ہم مفصل بیان کرتے ہیں اپنی آیتیں واسطے ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں
(24)
#
{24} وهذا المثل من أحسن الأمثلة، وهو مطابقٌ لحالة الدنيا؛ فإنَّ لذَّاتها وشهواتها وجاهها ونحو ذلك يزهو لصاحبه إن زها وقتاً قصيراً؛ فإذا استكمل وتمَّ؛ اضمحلَّ وزال عن صاحبه أو زال صاحبه عنه، فأصبح صِفْرَ اليدين منها، ممتلئ القلب من همِّها وحزنها وحسرتها؛ فذلك {كماءٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نباتُ الأرض}؛ أي: نبت فيها من كل صنفٍ وزوج بهيج، {مما يأكلُ الناس}: كالحبوب والثمار، {و} مما تأكل {الأنعامُ}: كأنواع العشب والكلأ المختلف الأصناف. {حتى إذا أخذتِ الأرضُ زُخْرُفَها وازَّيَّنَتْ}؛ أي: تزخرفت في منظرها واكتست في زينتها فصارت بهجةً للناظرين ونزهةً للمتفرِّجين وآيةً للمتبصِّرين، فصرت ترى لها منظراً عجيباً ما بين أخضر وأصفر وأبيض وغيره. {وظنَّ أهلُها أنَّهم قادرون عليها}؛ أي: حصل معهم طمعٌ بأن ذلك سيستمرُّ ويدوم لوقوف إرادتهم عنده وانتهاء مطالبهم فيه؛ فبينما هم في تلك الحالة؛ أتاها أَمْرُ اللهِ {ليلاً أو نهاراً فجعلناها حصيداً كأن لم تَغْنَ بالأمس}؛ أي: كأنها ما كانت، فهذه حالة الدُّنيا سواء بسواء. {كذلك نفصِّل الآيات}؛ أي: نبيِّنُها ونوضِّحها بتقريب المعاني إلى الأذهان وضرب الأمثال، {لقوم يتفكَّرون}؛ أي: يُعْمِلونَ أفكارهم فيما ينفعهم، وأما الغافل المعرضُ؛ فهذا لا تنفعه الآيات، ولا يزيلُ عنه الشكَّ البيانُ.
[24] یہ بہترین مثال ہے اور یہ مثال دنیا کی حالت سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ دنیا کی لذات و شہوات اور اس کا مال و جاہ دنیا کے حریص بندے کے لیے بہت پرکشش ہے اگرچہ اس کی چمک دمک بہت تھوڑے وقت کے لیے ہے۔ جب دنیا مکمل ہو جاتی ہے تو مضحمل ہو کر اپنے چاہنے والے سے زائل ہو جاتی ہے یا چاہنے والا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ پس بندہ دنیا سے خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور اس کا دل حزن و غم اور حسرت سے لبریز ہو جاتا ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے
﴿ كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ ﴾ ’’مانند اس پانی کے جسے ہم نے آسمان سے اتارا، پھر مل جل گیا اس سے سبزہ زمین کا‘‘ یعنی زمین کے اندر ہر قسم کی نباتات اور خوبصورت جوڑے اگ آئے
﴿ مِمَّا یَ٘اْكُ٘لُ النَّاسُ ﴾ ’’جو کہ کھائیں آدمی‘‘مثلاً: غلہ جات اور پھل وغیرہ۔
﴿ وَالْاَنْعَامُ﴾ ’’اور مویشی‘‘ یعنی اور وہ چیزیں جو مویشی کھاتے ہیں ،
مثلاً:مختلف اقسام کی گھاس پات، وغیرہ
﴿ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب پکڑی زمین نے اپنی رونق اور خوب مزین ہو گئی‘‘ یعنی جب اس کا منظر خوبصورت ہو جاتا ہے اور زمین خوبصورت لباس پہن لیتی ہے تو دیکھنے والوں کے لیے خوش منظر، غم ہلکا کرنے والوں کے لیے ذریعۂ تفریح اور بصیرت حاصل کرنے والوں کے لیے ایک نشانی بن جاتی ہے۔ تب تو عجیب نظارہ دیکھے گا جس میں سبز، زرد اور سفید رنگ دکھائی دیں گے۔
﴿ وَظَ٘نَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤ﴾ ’’اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ
(فصل) ان کے ہاتھ لگے گی‘‘ یعنی وہ سمجھنے لگتے ہیں یہ دنیا ان کے پاس ہمیشہ رہے گی کیونکہ ان کا ارادہ اسی پر ٹھہرا ہوا ہے اور ان کی طلب کی انتہا یہی ہے۔ پس وہ اسی حالت میں ہوتے ہیں کہ
﴿ اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَ٘غْ٘نَ بِالْاَمْسِ﴾ ’’ناگہاں پہنچا اس پر ہمارا حکم، رات کو یا دن کو، پھر کر دیا اس کو کاٹ کر ڈھیر، گویا کہ کل یہاں آبادی ہی نہ تھی‘‘ یعنی دنیا کی یہ خوبصورتی کبھی تھی ہی نہیں ۔ پس یہی حالت دنیا کی ہے، بالکل اس جیسی ہی۔
﴿ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ﴾ ’’ہم اسی طرح کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم ان آیات کو، ان کے معانی کو قریب لا کر اور مثالیں بیان کر کے واضح کرتے ہیں
﴿ لِقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّـرُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے سامنے جو غوروفکر کرتے ہیں ‘‘ یعنی اپنی فکر کو ان کاموں میں استعمال کرتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتے ہیں ۔ رہا غفلت میں ڈوبا ہوا اور روگردانی کرنے والا شخص تو یہ آیات اسے کوئی فائدہ دیتی ہیں نہ ان کا بیان اس کے شک کو زائل کر سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا حال اور اس کی نعمتوں کے حاصل کا ذکر کیا تو اب ہمیشہ باقی رہنے والے گھر کا شوق دلایا ہے،
چنانچہ فرمایا:
{وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (25) لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (26)}.
اور اللہ بلاتا ہے سلامتی کے گھر
(جنت) کی طرف اور وہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، طرف سیدھی راہ کے
(25) واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے کیں نیکیاں ، نیک بدلہ
(جنت) ہے اور مزید
(دیدار الٰہی) ہےاور نہیں ڈھانپے گی ان کے چہروں کو سیاہی اور نہ ذلت، یہی لوگ ہیں جنتی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(26)
#
{25} عمَّ تعالى عباده بالدعوة إلى دار السلام والحثِّ على ذلك والترغيب، وخصَّ بالهداية من شاء استخلاصه واصطفاءه؛ فهذا فضلُه وإحسانُه، والله يختصُّ برحمته من يشاءُ، وذلك عدلُه وحكمته، وليس لأحدٍ عليه حُجَّةٌ بعد البيان والرسل، وسمى الله الجنة دار السلام لسلامتها من جميع الآفات والنقائص، وذلك لكمال نعيمها وتمامه وبقائه وحسنه من كلِّ وجه.
[25] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف عام دعوت اور اس کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ وہ جس کو اپنے لیے خالص کر کے چن لینا چاہتا ہے اس کے لیے ہدایت کو مخصوص کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کے لیے اپنی رحمت کو مختص کر دیتا ہے، یہ اس کا عدل و حکمت ہے اور حق و باطل کو بیان کر دینے اور رسولوں کو مبعوث کرنے کے بعد کسی کے لیے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ’’دارالسلام‘‘ کے نام سے اس لیے موسوم کیا ہے کہ یہ تمام آفات اور نقائص سے محفوظ اور سلامت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نعمتیں کامل، ہمیشہ باقی رہنے والی اور ہر طرح سے خوبصورت ہیں ۔
#
{26} ولما دعا إلى دار السلام؛ كأن النفوس تشوَّقت إلى الأعمال الموجبة لها الموصلة إليها، فأخبر عنها بقوله: {للذين أحسنوا الحُسنى وزيادةٌ}؛ أي: للذين أحسنوا في عبادة الخالق، بأنْ عبدوه على وجه المراقبة والنصيحة في عبوديَّته، وقاموا بما قدروا عليه منها، وأحسنوا إلى عباد الله، بما يقدرون عليه من الإحسان القوليِّ والفعليِّ: من بذل الإحسان الماليِّ والإحسان البدنيِّ والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وتعليم الجاهلين ونصيحة المعرضين وغير ذلك من وجوه البرِّ والإحسان؛ فهؤلاء الذين أحسنوا لهم الحسنى، وهي الجنة الكاملة في حسنها، وزيادةٌ، وهي النظر إلى وجه الله الكريم، وسماع كلامه، والفوز برضاه، والبهجة بقربه؛ فبهذا حصل لهم أعلى ما يتمنَّاه المتمنُّون، ويسأله السائلون.
ثم ذكر اندفاع المحذور عنهم، فقال: {ولا يَرْهَقُ وجوهَهم قَتَرٌ ولا ذِلَّةٌ}؛ أي: لا ينالهم مكروهٌ بوجه من الوجوه؛ لأنَّ المكروه إذا وقع بالإنسان؛ تبيَّن ذلك في وجهه وتغيَّر وتكدَّر. وأما هؤلاء؛ فكما قال الله عنهم: {تعرِفُ في وجوههم نَضْرَةَ النعيم}، أولئك أصحاب الجنة الملازمون لها هم فيها خالدون، لا يحولون، ولا يزولون، ولا يتغيَّرون.
[26] اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلایا تو گویا ان نفوس کو ان اعمال کا اشتیاق پیدا ہوا جو ان کو اس گھر میں پہنچانے کے موجب ہیں ۔ فرمایا:
﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَةٌ﴾ ’’ان لوگوں کے واسطے جنھوں نے بھلائی کی، بھلائی اور مزید ہے‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے جنھوں نے خالق کی عبادت میں احسان سے کام لیا یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبودیت میں مراقبہ اور خیر خواہی کے ساتھ اس کی عبادت کی اور مقدور بھر اس عبودیت کو قائم رکھا اور اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندوں سے احسان قولی اور احسان فعلی کے ساتھ پیش آئے اور ان کے ساتھ مالی اور بدنی احسانات سے کام لیا، نیکی کا حکم دیا، برائی سے روکا، جہلا کو تعلیم دی، روگردانی کرنے والوں کی خیر خواہی کی، نیکی اور احسان کے دیگر تمام پہلوؤں پر عمل کیا۔
یہی وہ لوگ ہیں جو احسان کے مرتبہ پر فائز ہوئے اور انھی کے لیے
(الحسنی) ہے یعنی ایسی جنت جو اپنے حسن و جمال میں کامل ہے۔ مزید برآں ان کے لیے اور بھی انعام ہے یہاں
(زِیَادَۃ) ’’مزید‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرۂ انور کا دیدار، اس کے کلام مبارک کا سماع،
اس کی رضا کا فیضان اور اس کے قرب کا سرور ہے۔ اس ذریعے سے انھیں وہ بلند مقامات حاصل ہوں گے کہ تمنا کرنے والے ان کی تمنا کرتے ہیں اور سوال کرنے والے اللہ تعالیٰ سے انھی مقامات کا سوال کرتے ہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے محذورات کے دور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ﴾ ’’اور نہ چڑھے گی ان کے چہروں پر سیاہی اور نہ رسوائی‘‘ یعنی انھیں کسی لحاظ سے بھی کسی ناگوار صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ جب کوئی ناگوار امر واقع ہوتا ہے تو یہ ناگوار امر اس کے چہرے پر ظاہر ہو جاتا ہے اور چہرہ تغیر اور تکدر کا شکار ہو جاتا ہے۔ رہے یہ لوگ تو ان کی حالت ایسے ہوگی جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ﴾ (المصطففین: 83؍24) ’’تو ان کے چہروں میں نعمتوں کی تازگی معلوم کر لے گا۔‘‘
﴿اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ الْجَنَّةِ﴾ ’’یہی ہیں جنت میں رہنے والے‘‘
﴿هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ یعنی وہ جنت سے منتقل ہوں گے نہ اس سے دور ہوں گے اور نہ وہ تبدیل ہوں گے۔
{وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (27)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے کیے برے کام تو بدلہ برائی کا اس
(برائی) کے مثل ہی ہےاور ڈھانپ لے گی ان کو ذلت ، نہیں ہو گا واسطے ان کے، اللہ
(کے عذاب) سے کوئی بچانے والا،
(یوں محسوس ہوگا) گویا کہ اڑھا دیے گئے ان کے چہروں کو ٹکڑے رات کے جبکہ وہ اندھیری ہو، یہی لوگ ہیں اہل دوزخ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
(27)
#
{27} لما ذكر أصحاب الجنة؛ ذكر أصحاب النار، فذكر أن بضاعتهم التي اكتسبوها في الدنيا هي الأعمال السيِّئة المُسْخِطَة لله من أنواع الكفر والتَّكذيب وأصناف المعاصي، فجزاؤهم سيئةٌ مثلها؛ أي: جزاء يسؤوهم بحسب ما عملوا من السيئات على اختلاف أحوالهم، {وترهَقُهم}؛ أي: تغشاهم {ذِلَّةٌ}: في قلوبهم وخوفٌ من عذاب الله لا يدفعه عنهم دافعٌ ولا يعصِمُهم منه عاصمٌ، وتسري تلك الذِّلَّة الباطنة إلى ظاهرهم، فتكون سواداً في وجوههم. {كأنَّما أغْشِيَتْ وجوههم قطعاً من الليل مظلماً أولئك أصحابُ النار هم فيها خالدونَ}: فكم بين الفريقين من الفَرْقِ! ويا بُعْدَ ما بينهما من التفاوت! {وجوهٌ يومئذ ناضرةٌ. إلى ربِّها ناظِرَةٌ. ووجوهٌ يومئذٍ باسرةٌ. تَظُنُّ أنْ يُفْعَلَ بها فاقرةٌ}، {وجوهٌ يومئذٍ مسفرةٌ. ضاحكةٌ مستبشرةٌ. ووجوهٌ يومئذٍ عليها غَبَرَةٌ. ترهَقُها قَتَرةٌ. أولئك هم الكفرة الفجرة}.
[27] اصحاب جنت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کا ذکر فرمایا کہ ان کی کل کمائی جس کا انھوں نے دنیا میں اکتساب کیا، برے اعمال ہیں جن پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہے،
مثلاً:کفر کی مختلف انواع، انبیا کی تکذیب اور گناہ کی مختلف اقسام۔
﴿ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَا﴾ ’’تو برائی کا بدلہ بھی ویسا ہی ہوگا۔‘‘ یعنی ان کو ایسی جزا دی جائے گی جو ان کے مختلف احوال اور ان کے برے اعمال کے مطابق بری ہوگی۔
﴿وَتَرْهَقُهُمْ ﴾ ’’اور ان کو ڈھانک لے گی۔‘‘
﴿ ذِلَّةٌ﴾ ’’رسوائی‘‘ یعنی ان کے دلوں میں ذلت اور اللہ کے عذاب کا خوف ہوگا۔ کوئی ان سے اس خوف کو دور نہیں کر سکے گا اور نہ کوئی بچانے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے گا۔
یہ باطنی ذلت ان کے ظاہر میں بھی سرایت کر جائے گی اور ان کے چہرے کی سیاہی بن جائے گی۔
﴿كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’گویا کہ ڈھانک دیے گئے ان کے چہرے اندھیری رات کے ٹکڑوں سے، یہی لوگ ہیں جہنمی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ ان دو گروہوں کے احوال میں کتنا فرق ہے اور دونوں کے درمیان کتنا بعد اور تفاوت ہے!
﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ۰۰اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ۰۰وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍۭؔ بَ٘اسِرَةٌۙ۰۰تَظُ٘نُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ﴾ (القیامۃ: 75؍22-25) ’’اس روز بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں گے اور بہت سے چہرے اداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان پر مصیبت نازل ہونے والی ہے۔‘‘
﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ۰۰ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌۚ۰۰وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌۙ۰۰تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌؕ۰۰اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كَفَرَةُ الْفَجَرَةُ﴾ (عبس: 80؍38-42) ’’بہت سے چہرے اس روز روشن اور خنداں و شاداں ہوں گے اور کتنے ہی چہرے ہوں گے جو گرد سے اٹے ہوئے ہوں گے سیاہی نے ان کو ڈھانک رکھا ہوگا۔ یہ فجار اور کفار ہیں ۔‘‘
{وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ (28) فَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ (29) هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَا أَسْلَفَتْ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (30)}.
اور
(یاد کرو) جس دن ہم اکٹھا کریں گے ان کو، سب کو، پھر کہیں گے ہم ان لوگوں کے لیے جنھوں نے شرک کیا تھا،
(ٹھہرے رہو) اپنی اپنی جگہ پر تم اور تمھارے شریک
(معبودان باطلہ)، پھر ہم جدائی ڈال دیں گے ان کے درمیان اور کہیں گے ان کے شریک
(معبود) نہیں تھے تم ہماری عبادت کرتے
(28) پس کافی ہے اللہ گواہ درمیان ہمارے اور درمیان تمھارے، بلاشبہ تھے ہم تمھاری عبادت سے بالکل غافل
(29) وہاں جانچ
(جان) لے گا ہر نفس، جو کچھ اس نے کیا تھا پہلے
(دنیا میں ) اور وہ لوٹائے جائیں گے طرف اللہ کی، جو مالک ہے ان کا حقیقی اور گم ہو جائے گا ان سے جو تھے وہ افتراء باندھتے
(30)
#
{28} يقول تعالى: {ويوم نَحْشُرُهم جميعاً}؛ أي: نجمع جميع الخلائق لميعاد يوم معلوم، ونحضِرُ المشركين وما كانوا يعبدون من دون الله، {ثم نقولُ للذين أشركوا مكانَكم أنتم وشركاؤكم}؛ أي: الْزَمُوا مكانكم ليقعَ التَّحاكمُ والفَصْلُ بينكم وبينهم، {فَزَيَّلْنا بينَهم}؛ أي: فرَّقنا بينهم بالبعد البدني والقلبي، فحصلت بينَهم العداوةُ الشديدةُ بعد أن بَذَلوا لهم في الدُّنيا خالص المحبَّة وصفو الوداد، فانقلبت تلك المحبَّة والولاية بغضاً وعداوة. وتبرأ شركاؤهم منهم وقالوا: {ما كنتُم إيَّانا تعبدونَ}: فإننا ننزِّه الله أن يكون له شريكٌ أو نديدٌ.
[28] ﴿وَیَوْمَ نَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا ﴾ ’’اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے۔‘‘ یعنی ایک مقرر دن میں ہم تمام مخلوقات کو جمع کریں گے، ہم مشرکین اور ان کے ان معبودان باطل کو بھی اکٹھا کریں گے جن کی یہ مشرکین عبادت کیا کرتے تھے۔
﴿ ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُ٘رَؔكَآؤُكُمْ﴾ ’’پھر ہم کہیں گے شرک کرنے والوں کو کھڑے ہو اپنی اپنی جگہ، تم اور تمھارے شریک‘‘ یعنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو تاکہ تمھارے اور تمھارے معبودوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔
﴿ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ﴾ ’’پھر ہم ان کے درمیان تفرقہ ڈال دیں گے۔‘‘ یعنی ہم بُعد بدنی اور بُعد قلبی کے ذریعے سے ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے، دنیا میں وہ ایک دوسرے کے لیے خالص محبت و مودت رکھتے تھے۔ اب ان کے درمیان سخت عداوت ہوگی۔ یہ محبت اور دوستی سخت عداوت اور بغض میں بدل جائے گی۔
﴿ وَقَالَ شُ٘رَؔكَآؤُهُمْ﴾ ’’اور ان کے شریک کہیں گے۔‘‘ یعنی ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے۔
﴿ مَّا كُنْتُمْ اِیَّ٘انَا تَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’تم ہماری عبادت تو نہ کرتے تھے‘‘ کیونکہ ہم تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس سے پاک اور منزہ گردانتے ہیں کہ اس کا کوئی شریک اور ہمسر ہو۔
#
{29} {فكفى بالله شهيداً بيننا وبينكم إن كُنَّا عن عبادتكم لَغافلين}: ما أمرناكم بها ولا دعوناكم لذلك، وإنما عبدتم من دعاكم إلى ذلك، وهو الشيطان؛ كما قال تعالى: {ألم أعْهَدْ إليكم يا بني آدمَ أن لا تعبُدوا الشيطان إنَّه لكم عدوٌّ مبينٌ}، وقال: {ويومَ يحشُرُهم جميعاً ثم يقولُ للملائكة أهؤلاءِ إيَّاكم كانوا يعبدُونَ. قالوا سبحانَكَ أنت وَلِيُّنا من دونِهِم بل كانوا يعبُدونَ الجِنَّ أكثرُهُم بهم مؤمنونَ}: فالملائكة الكرام والأنبياء والأولياء ونحوهم يتبرؤون ممَّن عبدهم يوم القيامة، ويتنصَّلون من دعائهم إياهم إلى عبادتهم، وهم الصادقون البارُّون في ذلك.
[29] ﴿ فَ٘كَ٘فٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’پس اللہ کافی ہے گواہ، ہمارے اور تمھارے درمیان، یقینا ہم تمھاری عبادت سے بے خبر تھے۔‘‘ ہم نے تمھیں عبادت کا حکم دیا تھا نہ ہم نے تمھیں اس کی طرف بلایا تھا بلکہ درحقیقت تم نے تو اس کی عبادت کی ہے جس نے تمھیں اس شرک کی طرف دعوت دی اور وہ ہے شیطان مردود، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا تھا
﴿ اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّ٘یْطٰ٘نَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (یس: 36؍60) ’’اے اولاد آدم! کیا میں نے تمھیں کہہ نہ دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اَهٰۤؤُلَآءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۰۰قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ١ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْ٘جِنَّ١ۚ اَ كْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ﴾ (سباء:34؍40-41) ’’اور جس روز وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا کیا یہ لوگ تمھاری عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے تو پاک ہے، ان کی بجائے تو ہمارا دوست ہے بلکہ یہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر لوگ انھی کی بات مانتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے مکرم فرشتے، انبیائے کرامo اور اولیائے عظام وغیرہم قیامت کے روز ان لوگوں سے براء ت کا اظہار کریں گے جو ان کی عبادت کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو
(اس الزام سے) بری کریں گے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور وہ اپنی اس براء ت میں سچے ہوں گے۔
#
{30} فحينئذٍ يتحسَّر المشركون حسرةً لا يمكن وصفها، ويعلمون مقدار ما قدَّموا من الأعمال وما أسلفوا من رديء الخصال، ويتبيَّن لهم يومئذٍ أنهم كانوا كاذبين، وأنهم مفترون على الله، قد ضلَّت عبادتهم واضمحلَّت معبوداتهم وتقطَّعت بهم الأسباب والوسائل، ولهذا قال: {هنالك}؛ أي: في ذلك اليوم، {تَبْلو كلُّ نفس ما أسلفتْ}: أي: تتفقَّد أعمالها وكسبها وتتبعه بالجزاء وتجازى بحسبه إن خيراً فخيرٌ وإن شرًّا فشرٌّ، {وضلَّ عنهم ما كانوا يفترونَ}: من قولهم بصحَّة ما هم عليه من الشرك، وأنَّ ما يعبدون من دون الله تنفعهم، وتدفع عنهم العذاب.
[30] تب اس وقت مشرکین کو اتنی زیادہ حسرت ہوگی کہ اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں اپنے اعمال کی مقدار کا علم ہو جائے گا اور انھیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان سے کیا ردی خصائل صادر ہوتے رہے ہیں ۔ اس روز ان پر عیاں ہو جائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کیا کرتے تھے۔ ان کی عبادتیں گم اور ان کے معبود نابود ہو جائیں گے اور ان کے تمام اسباب و وسائل منقطع ہو جائیں گے۔ بنابریں فرمایا:
﴿ هُنَالِكَ ﴾ ’’وہاں ‘‘ یعنی اس روز
﴿تَبْلُوْا كُ٘لُّ نَفْ٘سٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ﴾ ’’جانچ لے گا ہر کوئی جو اس نے پہلے کیا‘‘ یعنی ان کے اعمال کی پڑتال کی جائے گی اور ان کی نوعیت کے مطابق ان کو جزا دی جائے گی۔ اگر اعمال اچھے ہوں گے تو اچھی جزا ہوگی، اگر اعمال برے ہوں گے تو جزا بھی بری ہوگی۔
﴿رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰ٘ىهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ اللہ کی طرف لوٹا دیے جائیں گے، جو ان کا سچا مالک ہے اور جاتا رہے گا ان سے وہ جو جھوٹ باندھتے تھے‘‘ یعنی اپنے شرک کے بارے میں انھوں نے بہتان طرازی کی تھی کہ یہ معبودان باطل جن کی یہ عبادت کرتے تھے، ان کو فائدہ دے سکتے ہیں اور عذاب کو ان سے دور کر سکتے ہیں ۔
(اس روز ان بہتانوں کی حقیقت واضح ہو جائے گی)۔
{قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (31) فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (32) كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (33)}.
کہہ دیجیے! کون رزق دیتا ہے تمھیں آسمان اور زمین سے؟ یا کون ہے وہ جو مالک ہو کانوں اور آنکھوں کا؟ اورکون ہے وہ جو نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اورنکالتا ہے مردہ کو زندہ سے؟ اور کون ہے وہ جو تدبیر کرتا ہے تمام کاموں کی؟ پس وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دیجیے ! کیا پس نہیں ڈرتے تم
(اللہ سے)؟
(31) پس یہی ہے اللہ تمھارا رب سچا، پس کیا ہے بعد حق کے سوائے گمراہی کے؟ پس کہاں پھیرے جاتے ہو تم؟
(32) اسی طرح ثابت ہو گيا ہے کلمہ آپ کے رب کا اوپر ان لوگوں کے جنھوں نے نافرمانی کی، کہ بے شک وہ نہیں ایمان لائیں گے
(33)
#
{31} أي: قل لهؤلاء الذين أشركوا بالله ما لم ينزِّلْ به سلطاناً محتجًّا عليهم بما أقرُّوا به من توحيد الرُّبوبية على ما أنكروه من توحيد الإلهية: {قُلْ من يرزُقكم من السماء والأرض}: بإنزال الأرزاق من السماء وإخراج أنواعها من الأرض وتيسير أسبابها فيها. {أم من يملِكُ السمع والأبصار}؛ أي: من هو الذي خلقهما وهو مالكهما؟ وخصَّهما بالذكر من باب التنبيه على المفضول بالفاضل، ولكمال شرفهما ونفعهما. {ومن يُخْرِجُ الحيَّ من الميِّت}؛ كإخراج أنواع الأشجار والنبات من الحبوب والنَّوى، وإخراج المؤمن من الكافر، والطائر من البيضة ... ونحو ذلك، {ويخرِجُ الميِّتَ من الحيِّ}: عكس هذه المذكورات. {ومن يدبِّر الأمرَ}: في العالم العلويِّ والسفليِّ، وهذا شاملٌ لجميع أنواع التدابير الإلهيَّة؛ فإنك إذا سألتهم عن ذلك؛ {فسيقولونَ اللهُ}: لأنهم يعترفون بجميع ذلك، وأنَّ الله لا شريك له في شيء من المذكورات، {فقل} لهم إلزاماً بالحجَّة: {أفلا تتَّقون}: الله فتُخْلِصون له العبادة وحدَه لا شريك له، وتخلَعون ما تعبدُون من دونِهِ من الأنداد والأوثان.
[31] ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی ان کے توحید ربوبیت کے اقرار کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر حجت بناتے ہوئے ان مشرکین سے کہہ دیجیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔
﴿ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’کون ہے جو تمھیں روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے‘‘ یعنی آسمان سے رزق نازل کر کے اور زمین سے رزق کی مختلف اقسام کو نکال کر اور اس میں رزق کے اسباب کو آسان بنا کر
﴿اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ ﴾ ’’یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا‘‘ یعنی کون ہے جس نے ان دونوں قویٰ کو تخلیق کیا اور وہ ان کا مالک ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر ان دونوں قویٰ کا ذکر فرمایا، یہ مفضول پر فاضل کی فضیلت پر تنبیہ كےباب سے ہے، نیز ان کے شرف اور فوائد کی بنا پر ان کا ذکر کیا۔
﴿ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ﴾ ’’اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے‘‘مثلاً: شجر و نباتات کی تمام اقسام کو دانے اور گٹھلی سے پیدا کیا، مومن کو کافر سے جنم دیا اور پرندے کو انڈے سے تخلیق کیا۔
﴿ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ﴾ ’’اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے‘‘ یعنی مذکورہ تمام چیزوں کے برعکس
﴿ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ﴾ ’’اور کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔‘‘ یعنی کون ہے جو عالم علوی اور عالم سفلی کی تدبیر کرتا ہے؟ اور اس میں تدابیر الہٰیہ کی تمام اقسام شامل ہیں ۔
اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں
﴿ فَسَیَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ﴾ ’’تو وہ کہیں گے، اللہ‘‘ کیونکہ وہ ان تمام امور کا اقرار کرتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ۔
﴿ فَقُلْ ﴾ تو الزامی حجت کے طور پر ان سے کہہ دیجیے!
﴿ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ﴾ ’’پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ۔‘‘ کیا تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ خالص اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرتے اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی بندگی کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکتے۔
#
{32} {فذلِكُم}: الذي وصف نفسه بما وصفها به {الله ربُّكم}؛ أي: المألوه المعبود المحمود المربِّي جميع الخلق بالنِّعم، وهو {الحقُّ فماذا بعد الحقِّ إلا الضلالُ}: فإنه تعالى المنفرد بالخلق والتدبير لجميع الأشياء، الذي ما بالعباد من نعمة إلا منه، ولا يأتي بالحسنات إلا هو، ولا يدفع السيئات إلا هو، ذو الأسماء الحسنى والصفات الكاملة العظيمة والجلال والإكرام. {فأنَّى تُصْرَفون}: عن عبادة مَنْ هذا وصفُه إلى عبادة الذي ليس له من وجوده إلا العدم ولا يملِكُ لنفسه نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نُشوراً؛ فليس له من الملك مثقال ذرة، ولا شركة له بوجهٍ من الوجوه، ولا يشفع عند الله إلا بإذنه.
[32] ﴿فَذٰلِكُمُ ﴾ ’’پس یہی‘‘ یعنی وہ ہستی، جس نے اپنے مذکورہ اوصاف بیان کیے۔
﴿اللّٰهُ رَبُّكُمُ ﴾ ’’اللہ ہے، تمھارا رب‘‘ وہ معبود محمود ہے جو مختلف نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوقات کا مربی ہے۔
﴿الْحَقُّ١ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰ٘لُ﴾ ’’اور وہ حق ہے۔ پس حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا ہے؟‘‘ یعنی وہ تمھارا پروردگار برحق ہے، حق کے بعد، گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اکیلا ہی تمام کا ئنات کا خالق اور اس کی تدبیر کرتا ہے، بندوں کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی ہے۔ تمام بھلائیاں وہی لاتا ہے اور تمام برائیوں کو وہی دور کرتا ہے، وہ اسمائے حسنیٰ سے موسوم، صفات کاملہ سے موصوف اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔
﴿ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ ﴾ ’’پس تم کہاں پھیرے جاتے ہو‘‘ یعنی جس ہستی کے یہ اوصاف ہیں اسے چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کی طرف کیوں کر پھرے جا رہے ہو جن کا وجود عدم کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ جو خود اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور زندہ کرنے پر قادر نہیں ۔ جن کا اقتدار میں کسی بھی لحاظ سے ذرہ بھر بھی حصہ اور شراکت نہیں ۔ وہ اس کے پاس، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کر سکتیں ۔
#
{33} فتبًّا لمن أشرك به، وويحاً لمن كفر به؛ لقد عَدِموا عقولَهم بعد أن عَدِموا أديانهم، بل فقدوا دنياهم وأخراهم، ولهذا قال تعالى عنهم: {كذلك حقَّت كلمةُ ربِّك على الذين فَسَقوا أنَّهم لا يؤمنون}: بعد أن أراهم الله من الآيات البيِّنات والبراهين النيِّرات ما فيه عبرةٌ لأولي الألباب وموعظةٌ للمتَّقين وهدىً للعالمين.
[33] پس ہلاکت ہے اس کے لیے جو ایسوں کو شریک ٹھہراتا ہے اور برائی ہے اس کے لیے جو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ یقینا اپنے دین سے محروم ہونے کے بعد وہ اپنی عقلوں سے بھی محروم ہوگئے بلکہ وہ اپنی دنیا و آخرت بھی کھو بیٹھے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿ كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ فَسَقُوْۤا اَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح ثابت ہو گئی تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جو نافرمان ہوئے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو واضح نشانات اور روشن دلائل دکھائے جن میں عقل مندوں کے لیے عبرت، اہل تقویٰ کے لیے نصیحت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
{قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (34) قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (35) وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (36)}.
کہہ دیجیے! کیا ہے کوئی تمھارے
(بناوٹی) شریکوں میں سے جو پہلی بار پیدا کرے مخلوق کو ، پھر دوبارہ پیدا کر دے اسے؟ کہہ دیجیے ! اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو، پھر وہی دوبارہ
(بھی) پیدا کرے گا اس کو، پس کیسے ، پھرے جاتے ہو تم
(34)کہہ دیجیے! کیاہے کوئی تمھارے شریکوں میں سے جو ہدایت دیتا ہو حق کی طرف؟ کہہ دیجیے! اللہ ہی ہدایت دیتا ہے واسطے حق کے ، کیا پس جو ہدایت دیتا ہے حق کی طرف زیادہ حق دار ہے اس بات کا کہ اس کا اتباع کیا جائے یا وہ جو نہیں ہے خود ہدایت یافتہ مگر یہ کہ وہ ہدایت دیا جائے
(حق کی)؟ پس کیاہے تمھیں ؟ کیسے فیصلہ کرتے ہو تم؟
(35)اور نہیں اتباع کرتے اکثر ان کے مگر ظن کی، بلاشبہ ظن
(گمان) تو نہیں فائدہ دیتا حق سے کچھ بھی، بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے اس چیز کو جو وہ کر رہے ہیں
(36)
#
{34} يقول تعالى مبيِّناً عجز آلهة المشركين وعدم اتِّصافها بما يوجب اتِّخاذها آلهةً مع الله: {قل هل مِنْ شركائِكم مَن يَبْدَأ الخلقَ}؛ أي: يبتديه، {ثم يُعيده}: وهذا استفهامٌ بمعنى النفي والتقرير؛ أي: ما منهم أحدٌ يبدأ الخلق ثم يعيدُه، وهي أضعف من ذلك وأعجزُ، {قل الله يبدأ الخَلْق ثم يُعيده}: من غير مشاركٍ ولا معاونٍ له على ذلك. {فأنَّى تؤفَكون}؛ أي: تصرفون وتُحرفون عن عبادة المنفرد بالابتداء والإعادة إلى عبادة مَنْ لا يَخْلُقُ شيئاً وهم يُخْلَقون.
[34] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے معبودان باطل کی بے بسی اور ان کے ان صفات سے محروم ہونے کا، جو معبود گردانے جانے کی موجب ہیں ،
ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ قُ٘لْ هَلْ مِنْ شُ٘رَؔكَآىِٕكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! کیا ہے تمھارے شریکوں میں جو پیدا کرے مخلوق کو‘‘ یعنی پہلی مرتبہ اسے بنائے؟
﴿ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ﴾ ’’پھر اسے دوبارہ زندہ کرے‘‘ یہ استفہام بمعنی نفی اور اثبات کے ہے، یعنی مخلوق میں سے کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو مخلوق کی تخلیق کی ابتدا اور پھر اس کا اعادہ کر سکتی ہو، وہ ایسا کرنے سے یکسر عاجز اور کمزور ہے۔
#
{35} {قل هل من شركائِكُم من يَهْدي إلى الحقِّ}: ببيانه وإرشاده أو بإلهامه وتوفيقه، {قل اللهُ}: وحده {يَهْدي}: إلى الحقِّ بالأدلَّة والبراهين وبالإلهام والتوفيق والإعانة إلى سلوك أقوم طريق. {أمَّنْ لا يَهِدِّي}؛ أي: لا يهتدي {إلاَّ أن يُهْدى}: لعدم علمه ولضلاله، وهي شركاؤهم التي لا تهدي ولا تهتدي إلا أن تُهدى. {فما لكم كيف تحكُمون}؛ أي: أيُّ شيء جعلكم تحكمون هذا الحكم الباطل بصحَّة عبادة أحدٍ مع الله بعد ظهور الحجة والبرهان أنه لا يستحقُّ العبادة إلا الله وحدَه؟! فإذا تبيَّن أنه ليس في آلهتهم التي يعبُدون مع اللَّه أوصافٌ معنويَّة ولا أوصافٌ فعليَّة تقتضي أن تُعبد مع الله، بل هي متَّصفة بالنقائص الموجبة لبطلان إلهيَّتها؛ فلأيِّ شيء جُعِلتْ مع الله آلهة؟!
[35] ﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ﴾ ’’کہہ دیجیے! کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہی بغیر کسی شریک کی شراکت اور بغیر کسی معاون کی مدد کے تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے
﴿ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ﴾ ’’پس کہاں پھرے جاتے ہو تم؟‘‘ یعنی پھر اس ہستی کی عبادت سے منحرف ہو کر جو مخلوق کی ابتدا کرنے اور پھر اس کا اعادہ کرنے میں متفرد ہے، ایسی ہستیوں کی عبادت کر رہے ہو جو کچھ تخلیق کرنے سے قاصر بلکہ خود مخلوق ہیں ۔
﴿قُ٘لْ هَلْ مِنْ شُ٘رَؔكَآىِٕكُمْ مَّنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ﴾ ’’کہہ دیجیے! کیا ہے تمھارے شریکوں میں سے جو حق کی طرف رہنمائی کرے‘‘ یعنی اپنے بیان اور راہ نمائی یا اپنے الہام اور توفیق کے ذریعے سے، حق کی طرف راہ نمائی کر سکتا ہو۔
﴿قُ٘لِ اللّٰهُ ﴾ ’’کہہ دیجیے اللہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اکیلا
﴿ یَهْدِیْ لِلْحَقِّ﴾ ’’رہنمائی کرتا ہے حق کی طرف‘‘ دلائل و براہین اور الہام و توفیق کے ذریعے سے حق کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور راست ترین راستے پر گامزن ہونے میں مدد دیتا ہے۔
﴿ اَفَ٘مَنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّ٘بَؔعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیْۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّهْدٰؔى ﴾ ’’کیا پس جو شخص راہ بتائے صحیح، اس کی بات ماننی چاہیے یا اس کی جو آپ راہ نہ پائے مگر یہ کہ اس کو راہ بتلائی جائے۔‘‘ یعنی اپنے عدم علم اور گمراہی کے سبب سے اور اس سے مراد ان کے گھڑے ہوئے شریک ہیں جو کسی کو ہدایت دے سکتے ہیں نہ خود ہدایت یافتہ ہیں ، سوائے اس کے کہ خود ان کی راہ نمائی کی جائے۔
﴿ فَمَا لَكُمْ١۫ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ ﴾ ’’تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا فیصلہ کرتے ہو۔‘‘ یعنی کس چیز نے تمھیں اس پر آمادہ کیا ہے کہ تم یہ باطل فیصلہ کرتے ہو اور اس حقیقت پر دلیل و برہان کے ظاہر ہونے کے بعد کہ اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کی عبادت کی صحت کا حکم لگاتے ہو۔
جب یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ان کے معبودان باطل میں جن کی یہ عبادت کرتے ہیں ، وہ معنوی اور فعلی اوصاف موجود نہیں جو اس بات کا تقاضا کرتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت کی جائے بلکہ اس کے برعکس یہ معبودان باطل نقائص سے متصف ہیں جو ان کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہیں، تب وہ کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انھیں بھی معبود قرار دیتی ہے؟
#
{36} فالجواب: إنّ هذا من تزيين الشيطان للإنسان أقبحَ البهتان وأضلَّ الضلال، حتى اعتقد ذلك، وألفه، وظنَّه حقًّا وهو لا شيء، ولهذا قال: {وما يتَّبِعُ الذين يدعون من دون الله شركاء}؛ أي: ما يتبعون في الحقيقة شركاء لله؛ فإنه ليس لله شريكٌ أصلاً عقلاً ولا نقلاً، وإنَّما يتَّبِعون الظَّنَّ، و {إنَّ الظنَّ لا يغني من الحقِّ شيئاً}: فسمَّوها آلهة وعبدوها مع الله؛ {إن هي إلا أسماءٌ سمَّيْتموها أنتم وآباؤكم ما أنزلَ الله بها من سلطانٍ}. {إنَّ الله عليمٌ بما يفعلون}: وسيجازيهم على ذلك بالعقوبة البليغة.
[36] اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کو خوش نما بنا دینا شیطان کا کام ہے،
یہ قبیح ترین بہتان اور سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن یہی اس کا دل پسند اعتقاد بن گیا ہے اور وہ اسی کو حق سمجھتا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا یَتَّ٘بِـعُ اَ كْثَرُهُمْ﴾ ’’اور نہیں پیروی کرتے ان کے اکثر لوگ۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنے گھڑے ہوئے شریکوں کو پکارتے ہیں
﴿اِلَّا ظَنًّا﴾ ’’مگر گمان کی۔‘‘ یعنی وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے شریکوں کو نہیں پکارتے کیونکہ اصل میں عقلاً و نقلاً اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ، یہ لوگ محض اپنے ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں
﴿ اِنَّ الظَّ٘نَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْـًٔـا﴾ ’’اور بے شک گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا۔‘‘ پس انھوں نے ان کو معبود کے نام سے موسوم کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی عبادت بھی کرنے لگے
﴿ اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰ بَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ (النجم: 53؍23) ’’وہ تو صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباء و اجداد نے گھڑ لیے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے افعال کو خوب جانتا ہے اور وہ ان افعال پر انھیں سخت سزا دے گا۔
{وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (37) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (38) بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (39) وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ (40) وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (41)}.
اور نہیں ہے یہ قرآن کہ گھڑ لیا گیا ہو غیر اللہ کی طرف سے لیکن
( یہ تو) تصدیق کرنے والا ہے ان
(کتب) کی جو اس سے پہلے ہوئیں اور تفصیل بیان کرنے والا ہے تمام کتابوں کی، نہیں ہے کوئی شک اس میں ، رب العالمین کی طرف سے ہے
(37)کیا وہ
(کافر) کہتے ہیں کہ اس
(رسول) نے گھڑا ہے اسے؟ کہہ دیجیے! پس لے آؤ تم ایک ہی سورت اس جیسی اور بلا لو جنھیں
(بلانے کی) استطاعت رکھتے ہو تم سوائے اللہ کے، اگر ہو تم سچے
(38)بلکہ انھوں نے جھٹلایا ایسی چیز کو کہ نہیں طاقت رکھی اس کو جاننے کی اور ابھی تک نہیں آئی تھی ان کے پاس حقیقت اس کی، اسی طرح جھٹلایا تھا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پھر دیکھیے کیسا ہوا انجام ظالموں کا؟
(39) اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کےاور بعض ان میں سے وہ ہیں جو نہیں ایمان لاتے ساتھ اس کےاور آپ کا رب خوب جانتا ہے فساد کرنے والوں کو
(40) اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ کہہ دیجیے! میرے لیے میرا عمل ہے اور تمھارے لیے تمھارا عمل ، تم بری ہو اس سے جو میں عمل کرتا ہوں اور میں بری ہوں اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(41)
#
{37} يقول تعالى: {وما كان هذا القرآن أن يُفْتَرى من دون الله}؛ أي: غير ممكن ولا متصوَّر أن يُفترى هذا القرآن على الله [تعالى]؛ لأنه الكتابُ العظيم، الذي لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه، تنزيلٌ من حكيمٍ حميدٍ، وهو الكتاب الذي لو اجتمعت الإنسُ والجنُّ على أن يأتوا بمثله لا يأتون بمثله ولو كان بعضُهم لبعض ظهيراً، وهو الكتاب الذي تكلَّم به ربُّ العالمين؛ فكيف يقدِرُ أحدٌ من الخلق أن يتكلم بمثله أو بما يقاربه والكلام تابع لعظمة المتكلم ووصفه؟!! فإن كان أحدٌ يماثل اللهَ في عظمتِهِ وأوصاف كمالِهِ؛ أمكن أن يأتي بمثل هذا القرآن، ولو تنزَّلنا على الفرض والتقدير، فتقوَّله أحدٌ على ربِّ العالمين؛ لعاجله بالعقوبة وبادره بالنَّكال.
ولكنَّ الله أنزل هذا الكتاب رحمةً للعالمين وحجَّةً على العباد أجمعين، أنزله {تصديقَ الذي بين يديه}: من كتب الله السماوية؛ بأن وافَقَها وصدَّقها بما شهدت به وبشَّرت بنزوله، فوقع كما أخبرت، {وتفصيلَ الكتاب}: للحلال والحرام والأحكام الدينيَّة والقدريَّة والإخبارات الصادقة. {لا ريبَ فيه من ربِّ العالمين}؛ أي: لا شكَّ ولا مِرْيَةَ فيه بوجهٍ من الوجوه، بل هو الحقُّ اليقين، تنزيلٌ من ربِّ العالمين، الذي ربَّى جميع الخلق بنعمه، ومن أعظم أنواع تربيته أن أنزلَ عليهم هذا الكتاب الذي فيه مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، المشتمل على مكارم الأخلاق ومحاسن الأعمال.
[37] ﴿ وَمَا كَانَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور نہیں ہے یہ قرآن کہ اسے گھڑ لیا جائے اللہ کے ورے ورے ہی‘‘ یعنی یہ غیر ممکن اور غیر متصور ہے کہ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ پر گھڑ لیا گیا ہو کیونکہ یہ عظیم کتاب ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا
﴿ لَّا یَ٘اْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ١ؕ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (حم السجدۃ:41؍42) ’’باطل کا دخل اس میں آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ دانا اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے۔‘‘ یہ ایسی کتاب ہے
﴿ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْ٘سُ وَالْ٘جِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْ٘لِ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ لَا یَ٘اْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ٘ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍88) ’’اگر تمام انسان اور جن اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنا کر لائیں تو اس جیسی کوئی کتاب نہ لا سکیں گے خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔‘‘
یہ وہ کتاب ہے جس کے ذریعے سے جہانوں کے پروردگار نے بندوں کے ساتھ کلام کیا، تب مخلوق میں سے کوئی ہستی اس جیسے کلام یا اس کے قریب قریب کلام پر کیوں کر قادر ہو سکتی ہے۔ حالانکہ کلام متکلم کی عظمت اور اس کے اوصاف کے تابع ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہستی اپنی عظمت اور اپنے اوصاف کمال میں اللہ تعالیٰ جیسی ہو سکتی ہے تو اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اس قرآن جیسی کتاب بنا لائے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ کسی نے اللہ تعالیٰ پر کتاب گھڑ لی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور فوری سزا دیتا۔
﴿ وَلٰكِنْ ﴾ مگر اللہ تعالیٰ نے کائنات پر بے پایاں رحمت اور تمام بندوں پر حجت کے طور پر اس کتاب کو نازل فرمایا
﴿تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ ﴾ ’’تصدیق کرتی ہے پہلے کلام کی‘‘ یعنی آسمانی کتابیں جو اس سے پہلے نازل ہو چکی ہیں ان کی تصدیق ہے، یہ کتاب ان کی موافقت اور ان کی شہادت کی بنا پر ان کی تصدیق کرتی ہے، ان کتابوں نے اس کے نازل ہونے کی خوشخبری سنائی تھی اور پھر اسی طرح ہوا جس طرح ان کتب الہٰیہ نے خبر دی تھی۔
﴿ وَتَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اور کتاب کی تفصیل ہے۔‘‘ یعنی اس میں حلال و حرام، احکام دینی، احکام قدریہ اور اخبار صادقہ کی تفصیل ہے۔
﴿ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔‘‘ یعنی کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ یہ یقینی حق ہے اور جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی پرورش اور اس کی تربیت کی۔ سب سے بڑی تربیت کی قسم یہ ہے کہ اس نے ان پر یہ کتاب نازل فرمائی جو ان کے دینی اور دنیاوی مصالح پر مبنی اور مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق پر مشتمل ہے۔
#
{38} {أم يقولون}؛ أي: المكذِّبون به عناداً وبغياً: {افتراه}: محمدٌ على الله واختلقه، {قل}: لهم ملزماً لهم بشيءٍ، إن قدروا عليه؛ أمكن ما ادَّعوه، وإلاَّ كان قولهم باطلاً: {فأتوا بسورةٍ مثلِهِ وادْعوا مَنِ استطعتُم من دون الله إن كنتُم صادقينَ}: يعاونكم على الإتيان بسورةٍ مثله، وهذا محالٌ، ولو كان ممكناً؛ لادَّعوا قدرتهم على ذلك، ولأتوا بمثله، ولكنْ لما بانَ عجزُهم؛ تبيَّن أن ما قالوه باطلٌ، لا حظَّ له من الحجة.
[38] ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’کیا یہ کہتے ہیں ؟‘‘ یعنی اس کتاب کی تکذیب کرنے والے عناد اور تعدی کی بنا پر کہتے ہیں
﴿ افْتَرٰىهُ﴾ ’’اس نے خود اسے بنالیا ہے۔‘‘ یعنی محمدe نے اس کو تصنیف کیا ہے۔
﴿ قُ٘لْ﴾ ’’کہہ دیجیے۔‘‘ یعنی ان پر اس کو لازم کرتے ہوئے کہ وہ جس کا دعویٰ کرتے ہیں اگر اس پر قدرت رکھتے ہیں تو وہ
(اس جیسی کتاب) لے آئیں ورنہ ان کی بات باطل ہے۔
﴿وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اور بلا لو، جس کو تم بلا سکو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو‘‘ یعنی جو اس جیسی سورت بنا لانے میں تمھاری مدد کرے اور یہ محال ہے اگر ایسا کرنا ممکن ہوتا تو ضرور اس پر قدرت رکھنے کا دعویٰ کرتے اور اس جیسی کتاب لا دکھاتے۔ مگر چونکہ ان کی بے بسی ظاہر ہو گئی ہے اس لیے ان کا قول باطل ہوگیا جو کہ دلیل سے محروم ہے۔
#
{39} والذي حملهم على التكذيب بالقرآن المشتمل على الحقِّ الذي لا حقَّ فوقه أنَّهم لم يحيطوا به علماً؛ فلو أحاطوا به علماً وفهِموه حقَّ فهمِهِ؛ لأذعنوا بالتصديق به، وكذلك إلى الآن لم يأتهم تأويلُهُ الذي وعدهم أن يُنْزِلَ بهم العذابَ، ويُحِلَّ بهم النَّكالَ، وهذا التكذيب الصادرُ منهم من جنس تكذيب مَن قَبْلِهم، ولهذا قال: {كذلك كذَّب الذين من قبلهم فانظُرْ كيف كان عاقبةُ الظالمينَ}: وهو الهلاك الذي لم يبقِ منهم أحداً؛ فليحذر هؤلاء أن يستمرُّوا على تكذيبهم، فيحلَّ بهم ما أحلَّ بالأمم المكذبين والقرون المهلكين.
وفي هذا دليلٌ على التثبُّت في الأمور، وأنه لا ينبغي للإنسان أن يبادِرَ بقَبول شيء أو ردِّه قبل أن يحيطَ به علماً.
[39] وہ چیز جس نے ان کو قرآن، جو حق پر مشتمل ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی حق نہیں ، کی تکذیب پر آمادہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس کا علم نہیں رکھتے۔ اگر وہ اس کا علم رکھتے ہوتے اور اگر انھوں نے اس کو سمجھ لیا ہوتا جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے تو وہ ضرور اس کی حقانیت کی تصدیق کرتے۔ اسی طرح اب تک ان کے پاس ان کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے کی حقیقت، کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرے گا اور ان کو سزا دے گا...
نہیں آئی۔ اور یہ تکذیب جو ان کی طرف سے صادر ہوئی ہے ان سے پہلے لوگوں کی طرف سے صادر ہونے والی تکذیب کی جنس سے ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُ٘رْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس دیکھو، کیسا ہوا انجام ظالموں کا‘‘ اس سے مراد وہ عذاب ہے جس نے ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا، لہٰذا ان لوگوں کو تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ کہیں ان پر بھی وہ عذاب نازل ہو جائے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی اور ہلاک ہونے والی قوموں پر نازل ہوا۔ یہ آیت کریمہ تمام امور میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور اس سے یہ راہ نمائی بھی حاصل ہوتی ہے کہ انسان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی چیز کے بارے میں پوری حقیقت حال معلوم کیے بغیر اسے قبول یا رد کر دے۔
#
{40} {ومنهم مَن يؤمنُ به}؛ أي: بالقرآن وما جاء به، {ومنهم من لا يؤمنُ به وربُّك أعلم بالمفسدين}: وهم الذين لا يؤمنون به على وجه الظُّلم والعناد والفساد، فسيجازيهم على فسادهم بأشدِّ العذاب.
[40] ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ ﴾ ’’اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کے‘‘ یعنی قرآن کریم اور اس کی لائی ہوئی تعلیم پر ایمان رکھتے ہیں
﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهٖ١ؕ وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور بعض وہ ہیں جو اس کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور آپ کا رب شرارت کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ یہاں مفسدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے ظلم، عناد اور فساد کی بنا پر قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے فساد کی پاداش میں انھیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔
#
{41} {وإن كَذَّبوكَ}: فاستمرَّ على دعوتك، وليس عليك من حسابهم من شيء، وما من حسابِكَ عليهم من شيءٍ، لكلٍّ عمله. {فقل لي عملي ولكم عمُلكم أنتم بريئون مما أعملُ وأنا بريٌ مما تعملون}؛ كما قال تعالى: {مَنْ عَمِلَ صالحاً فلنفسِهِ ومن أساء فَعَلَيْها}.
[41] ﴿ وَاِنْ كَذَّبُوْكَ ﴾ ’’اگر وہ آپ کو جھٹلاتے ہیں ‘‘ تو آپ ان کو اپنی دعوت پہنچاتے رہیے، ان کے حساب میں سے کچھ بھی آپ کے ذمے نہیں اور نہ آپ کا حساب ان کے ذمے ہے،
ہر شخص کا عمل اسی کے لیے ہے۔ فرمایا: ﴿ فَقُ٘لْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْؔـٓــُٔوْنَؔ مِمَّؔاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّؔا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے! میرے واسطے میرا عمل ہے اور تمھارے واسطے تمھارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمھارے عملوں سے بری ہوں ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے۔
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لیے، جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی پر ہے۔‘‘
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ (42) وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ (43) إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (44)}.
اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو کان لگاتے ہیں آپ کی طرف، کیا پس آپ سنا سکتے ہیں بہروں کو اگرچہ ہوں وہ نہ عقل رکھتے؟
(42) اوربعض ان میں سے وہ ہیں جودیکھتے ہیں آپ کی طرف، کیا پس آپ راہ دکھا سکتے ہیں اندھوں کو اگرچہ ہوں وہ نہ دیکھتے؟
(43) بلاشبہ اللہ نہیں ظلم کرتا لوگوں پر کچھ بھی لیکن لوگ اپنے آپ پر
(خود ہی) ظلم کرتے ہیں
(44)
#
{42} يخبر تعالى عن بعض المكذِّبين للرسول ولما جاء به: {و} إنَّ {منهم مَن يستمعون}: إلى النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وقت قراءته للوحي، لا على وجه الاسترشاد، بل على وجه التفرُّج والتكذيب وتطلُّب العثرات، وهذا استماعٌ غير نافع ولا مجدٍ على أهله خيراً، لا جرم انسدَّ عليهم باب التوفيق وحرموا من فائدة الاستماع، ولهذا قال: {أفأنت تُسْمِعُ الصُّمَّ ولو كانوا لا يعقلون}: وهذا الاستفهام بمعنى النفي المتقرِّر؛ أي: لا تُسمع الصمَّ الذين لا يستمعون القول ولو جهرتَ به، وخصوصاً إذا كان عقلُهم معدوماً؛ فإذا كان من المحال إسماع الأصمِّ الذي لا يعقل للكلام؛ فهؤلاء المكذِّبون كذلك ممتنعٌ إسماعك إيَّاهم إسماعاً ينتفعون به، وأما سماع الحجة؛ فقد سمعوا ما تقومُ عليهم به حجَّة الله البالغة؛ فهذا طريقٌ عظيمٌ من طرق العلم قد انسدَّ عليهم، وهو طريق المسموعات المتعلِّقة بالخبر.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جنھوں نے رسول
(e) کی اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی تکذیب کی،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ﴾ ’’اور ان میں سے بعض کان لگاتے ہیں آپ کی طرف‘‘ یعنی وحی کی قراء ت کے وقت نبی کریمe کو غور سے سنتے ہیں ،
رشد و ہدایت کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ تکذیب اور کمزوریاں تلاش کرنے کے لیے سنتے ہیں اور اس طرح کا سننا کوئی فائدہ نہیں دیتا اور سننے والے کو کوئی بھلائی عطا نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر توفیق کا دروازہ بند ہوگیا اور وہ سننے کے فائدے سے محروم ہوگئے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَفَاَنْتَ تُ٘سْمِعُ الصُّمَّؔ وَلَوْ كَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَؔ﴾ ’’کیا آپ بہروں کو سنائیں گے، اگرچہ وہ سمجھ نہ رکھتے ہوں ‘‘ یہ استفہام بمعنی نفی متقرر
(استفہام انکاری) ہے، یعنی آپ بہروں کو نہیں سنا سکتے جو بات کو غور سے نہیں سنتے خواہ آپ بآواز بلند کیوں نہ سنوائیں خاص طور پر جبکہ وہ عقل سے محروم ہوں ۔ جب بہرے کو سنوانا محال ہے جو کلام کو سمجھنے سے قاصر ہے، تب یہ تکذیب کرنے والے بھی اسی طرح سننے سے قاصر ہیں آپ ان کو بھی نہیں سنوا سکتے جس سے یہ نفع اٹھا سکیں ۔ رہا سماع حجت تو انھوں نے اتنا ضرور سن لیا جس سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت بالغہ قائم ہو۔ سماعت حصول علم کے راستوں میں سے ایک بہت بڑا راستہ ہے جو ان پر مسدود ہو چکا ہے اور یہ بھلائی سے متعلق مسموعات ہیں ۔
#
{43} ثم ذكر انسداد الطريق الثاني، وهو طريق النظر فقال: {ومنهم من ينظرُ إليك}: فلا يفيدُه نظرُه إليك، ولا سَبَرَ أحوالك شيئاً فكما أنَّك لا تهدي العمي ولو كانوا لا يبصرون؛ فكذلك لا تهدي هؤلاء؛ فإذا فسدت عقولُهم وأسماعهم وأبصارهم التي هي الطرق الموصلة إلى العلم ومعرفة الحقائق؛ فأين الطريق الموصل لهم إلى الحق؟!
ودلَّ قوله: {ومنهم من ينظُرُ إليك ... } الآية: أن النظر إلى حالة النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وهديه وأخلاقه وأعماله وما يدعو إليه من أعظم الأدلَّة على صدقه وصحَّة ما جاء به، وأنَّه يكفي البصير عن غيره من الأدلة.
[43] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے راستے کے مسدود ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ہے نظر کا راستہ، چنانچہ فرمایا
﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُ٘رُ اِلَیْكَ﴾ ’’اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں ۔‘‘ اور ان کا آپ کی طرف دیکھنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور نہ آپ کو کوئی راحت دے سکتا ہے۔ پس جس طرح آپ اندھوں کو راہ نہیں دکھا سکتے جو بصارت سے محروم ہیں اسی طرح آپ بہروں کی بھی راہ نمائی نہیں کر سکتے۔ جب ان کی عقل، سماعت اور بصارت، جو حصول علم اور معرفت حقائق کا ذریعہ ہیں ، خرابی کا شکار ہو جائیں تب ان کے لیے حق تک پہنچنے کا کون سا راستہ ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد
﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْظُ٘رُ اِلَیْكَ﴾ دلالت کرتا ہے کہ نبی کریمe کے احوال، آپ کے طریقوں ، آپ کے اخلاق اور آپ کے اعمال کو دیکھنا آپ اور آپ کی دعوت کی صداقت پر دلیل مہیا کرتا ہے اور یہ نظر، صاحب بصیرت کو دیگر دلائل سے مستغنی کر دیتی ہے۔
#
{44} وقوله: {إنَّ الله لا يظلِمُ الناس شيئاً}: فلا يزيدُ في سيِّئاتهم ولا يَنْقُص من حسناتهم، {ولكنَّ الناس أنفسهم يَظْلِمونَ}: يجيئهم الحقُّ قلا يقبلونه، فيعاقِبُهم الله بعد ذلك بالطبع على قلوبهم، والختم على أسماعهم وأبصارهم.
[44] ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْـًٔـا﴾ ’’اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا‘‘ پس وہ لوگوں کی برائیوں کو بڑھاتا ہے، نہ نیکیوں میں کمی کرتا ہے۔
﴿ وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَؔ ﴾ ’’لیکن لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔‘‘ ان کے پاس حق آتا ہے مگر یہ اسے قبول نہیں کرتے ہیں ، تب اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان کے دلوں ، ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دیتا ہے۔
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (45)}.
جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا تو
(انھیں یوں محسوس ہوگا) گویا کہ نہ رہے تھے وہ
(دنیا میں ) مگر ایک گھڑی دن سے، وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے آپس میں ، تحقیق خسارا پایا ان لوگوں نے جنھوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات کواور نہ تھے وہ ہدایت پر چلنے والے
(45)
#
{45} يخبر تعالى عن سرعة انقضاء الدنيا، وأن الله تعالى إذا حشر الناس وجمعهم ليوم لا ريبَ فيه كأنَّهم ما لبثوا إلا ساعةً من نهار، وكأنَّه ما مرَّ عليهم نعيمٌ ولا بؤسٌ، وهم يتعارفون بينهم كحالهم في الدنيا؛ ففي هذا اليوم يربح المتَّقون، ويخسر {الذين كذَّبوا بلقاء الله وما كانوا مهتدين} إلى الصراط المستقيم والدين القويم حيث فاتهم النعيمُ، واستحقُّوا دخول النار.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا نہایت سرعت سے ختم ہو جانے والی ہے اور اللہ تعالیٰ جس روز تمام لوگوں کو اکٹھا کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں ... تو ان کو یوں لگے گا گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ٹھہرے ہیں اور ان پر کسی نعمت یا تکلیف کے دن نہیں گزرے۔ وہ ایک دوسرے سے اس طرح متعارف ہوں گے جس طرح وہ دنیا میں متعارف تھے۔ اس روز متقی لوگ فائدے میں رہیں گے اور وہ لوگ نقصان اٹھائیں گے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو جھٹلایا، وہ راہ راست پر گامزن ہوئے نہ دین قویم پر چلے کیونکہ وہ نعمتوں سے محروم ہوں گے اور جہنم کے مستحق ہوں گے۔
{وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ (46)}.
اور اگر ہم دیکھا دیں آپ کو بعض وہ
(عذاب) کہ وعدہ کرتے ہیں ہم ان سے یا ہم وفات دے دیں آپ کو تو ہماری طرف ہی واپسی ہے ان کی، پھر اللہ گواہ ہے اوپر ان کاموں کے جو وہ کرتے ہیں
(46)
#
{46} أي: لا تحزن أيها الرسول على هؤلاء المكذِّبين، ولا تستعجلْ لهم؛ فإنهم لا بدَّ أن يصيبهم الذي نَعِدُهم من العذاب: إما في الدنيا فتراه بعينك وتَقَرُّ به نفسُك، وإما في الآخرة بعد الوفاء؛ فإنَّ مرجِعَهم إلى الله، وسينبِّئهم بما كانوا يعملون أحصاهُ [اللهُ] ونسوهُ، والله على كلِّ شيءٍ شهيدٌ؛ ففيه الوعيد الشديد لهم والتسلية للرسول الذي كذَّبه قومُه وعاندوه.
[46] اے رسول! ان جھٹلانے والوں کے بارے میں غمزدہ نہ ہوں اور نہ ان کے بارے میں عجلت سے کام لیں کیونکہ وہ عذاب ان پر ضرور نازل ہوگا جس کا ہم ان کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں یا تو یہ عذاب دنیا میں نازل ہوگا اور آپ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آپ کا دل ٹھنڈا ہوگا یا ان کے مرنے کے بعد انھیں آخرت میں اس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، انھیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ فرمائے گا اس نے ان کے اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے جبکہ انھوں نے فراموش کر دیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں کفار کے لیے سخت وعید ہے اور رسول اللہe کے لیے تسلی ہے جن کو ان کی قوم نے جھٹلایا اور ان سے عناد رکھا۔
{وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (47) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (48) قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (49)}.
اور واسطے ہر امت کے ایک رسول ہے، پس جب آگیا ان کا رسول تو فیصلہ کر دیا گیا درمیان ان کے ساتھ انصاف کےاور وہ نہیں ظلم کیے جاتے
(47) اور وہ
(کافر) کہتے ہیں کب
(پورا) ہو گا یہ وعدہ
(عذاب کا) اگر ہو تم سچے؟
(48)اور کہہ دیجیے! نہیں اختیار رکھتا میں واسطے اپنے نفس کے کسی نقصان کا اور نہ کسی نفع کا مگر جو چاہے اللہ، واسطے ہر امت کے ایک میعاد ہے، جب آجاتی ہے میعاد ان کی تو نہ وہ پیچھے رہ سکتے ہیں
(اس سے) ایک گھڑی اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
(49)
#
{47} يقول تعالى: {ولكلِّ أمةٍ}: من الأمم الماضية {رسولٌ}: يدعوهم إلى توحيد الله ودينه. فإذا جاءهم {رسولُهم} بالآيات؛ صدَّقه بعضُهم وكذَّبه آخرون، فيقضي الله بينَهم بالقسط بنجاة المؤمنين وإهلاك المكذبين. {وهم لا يُظْلَمونَ}: بأن يعذَّبوا قبل إرسال الرسول وبيان الحجَّة، أو يعذَّبوا بغير جرمهم.
[47] ﴿وَلِكُ٘لِّ اُمَّةٍ ﴾ ’’ہر امت کے لیے‘‘ یعنی گزشتہ امتوں میں سے ہر امت کے لیے
﴿ رَّسُوْلٌ﴾ ایک رسول مبعوث کیا گیا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دیتا تھا۔
﴿ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ﴾ ’’پس جب ان کا رسول آتا۔‘‘ یعنی ان کے پاس آیات الٰہی لے کر آتا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کی تصدیق کرتے اور دوسرے اس کو جھٹلاتے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرماتا، اہل ایمان کو نجات دیتا اور جھٹلانے والوں کو ہلاک کر دیتا۔
﴿ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا‘‘ یعنی رسول بھیجنے اور حجت قائم کرنے سے پہلے یا کسی جرم کے بغیر ان کو عذاب نہیں دیا گیا۔
#
{48 ـ 49} فليحذر المكذِّبون لك من مشابهة الأمم المهلَكين فيحلَّ بهم ما حلَّ بأولئك ولا يستبطئوا العقوبة ويقولوا: {متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}: فإنَّ هذا ظلمٌ منهم؛ حيث طَلَبوه من النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنه ليس له من الأمر شيءٌ، وإنما عليه البلاغ والبيان للناس، وأما حسابُهم وإنزال العذاب عليهم؛ فمن الله تعالى، يُنزَّلُ عليهم إذا جاء الأجلُ الذي أجَّله فيه والوقت الذي قدَّره فيه الموافقُ لحكمته الإلهية؛ فإذا جاء ذلك الوقت؛ لا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون. فليحذرِ المكذِّبون من الاستعجال؛ فإنهم مستعجلون بعذاب الله الذي إذا نزل لا يُرَدُّ بأسُه عن القوم المجرمين. ولهذا قال:
[49,48] اس لیے آپ کو جھٹلانے والے گزشتہ زمانوں میں ہلاک کی گئی قوموں کی مشابہت سے بچیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے جو ان قوموں پر نازل ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بارے میں یہ نہ سمجھیں کہ وہ دیر سے آئے گا اور پھر وہ یہ کہتے پھریں
﴿ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ ’’کب ہے یہ وعدہ،
اگر تم سچے ہو‘‘ یہ ان کی طرف سے سخت ظلم کا رویہ ہے کہ وہ نبیe سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ۔ آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا اور لوگوں کے سامنے بیان کر دینا ہے۔
رہا ان کا حساب و کتاب اور ان پر عذاب کا نازل کرنا تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب اس کی مدت معینہ اور حکمت الٰہیہ کے مطابق ان کا وقت مقررہ آن پہنچے گا تو ان کے ساتھ ایک گھڑی کی تاخیر کی جائے گی نہ تقدیم۔ اس لیے اس کی تکذیب کرنے والے جلدی مچانے سے بچیں کیونکہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا عذاب جب نازل ہوتا ہے تو مجرموں کی قوم پر نازل ہونے سے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ (50) أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ (51) ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (52)}.
کہہ دیجیے! بھلا بتلاؤ تم! اگر آجائے تم پر عذاب اس کا رات کو یا دن کو،
(تو کیا برداشت کر لوگے؟ پھر) کیا وہ چیز ہے کہ جلدی طلب کر رہے ہیں اس
(عذاب) کو مجرم؟
(50)کیا پھر جب واقع ہو جائے گا
(عذاب تب) ایمان لاؤ گے تم اس پر؟
(اس وقت کہا جائے گا) کیا اب
(ایمان لاتے ہو)؟ حالانکہ تھے تم اس کو جلدی طلب کرتے
(51) پھر کہا جائے گا واسطے ان لوگوں کے جنھوں نے ظلم کیا، چکھو تم عذاب ہمیشگی کا، نہیں بدلہ دیے جاؤ گے تم مگر ساتھ اس کے کہ تھے تم کماتے
(52)
#
{50} يقول تعالى: {قل أرأيتُم إن أتاكُم عذابُه بياتاً}: وقت نومكم بالليل، {أو نهاراً}: في وقت غفلتكم، {ماذا يَسْتَعْجِلُ منه المجرمون}؛ أي: أيَّ بشارة استعجلوا بها، وأيَّ عقاب ابتدروه؟
[50] ﴿قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَیَاتًا﴾ ’’کہہ دیجیے! بتلاؤ، اگر تمھارے پاس اس کا عذاب آجائے راتوں رات۔‘‘ یعنی رات کے وقت سوتے میں ۔
﴿اَوْ نَهَارًا﴾ ’’یا دن کو‘‘ یعنی تمھاری غفلت کے وقت
﴿مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’تو وہ کیا چیز ہے جس کے لیے مجرمین جلدی کا مطالبہ کررہے ہیں ؟‘‘ یعنی وہ کون سی بشارت ہے جس کے لیے یہ جلدی مچا رہے ہیں اور کون سا عذاب ہے جس کی طرف یہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔
#
{51} {أثُمَّ إذا ما وقع آمنتُم به}: فإنه لا ينفع الإيمان حين حلول عذاب الله، ويقال لهم توبيخاً وعتاباً في تلك الحال التي زعموا أنهم يؤمنون: {آلآن}: تؤمنون في حال الشدَّة والمشقَّة، {وقد كنتُم به تستعجلونَ}: فإنَّ سنة الله في عباده أنه يعتبهم إذا استعتبوه قبل وقوع العذاب؛ فإذا وقع العذابُ؛ لا ينفع نفساً إيمانُها؛ كما قال تعالى عن فرعون لما أدركه الغرق: {قالَ آمنتُ أنَّه لا إله إلاَّ الذي آمنت به بنو إسرائيل وأنا من المسلمينَ}، وأنَّه يُقال له: {آلان وقد عصيتَ قبلُ وكنت من المفسدين}، وقال تعالى: {فلم يكُ ينفعُهم إيمانُهم لما رأوا بأسنا سُنَّةَ الله التي قد خَلَتْ في عبادِهِ}، وقال هنا: {أثُمَّ إذا ما وقع آمنتُم به آلآنَ}: تدَّعون الإيمان ، {وقد كنتُم به تستعجلون}: فهذا ما عملت أيديكم، وهذا ما استعجلتُم به.
[51] ﴿ اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَ٘عَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ﴾ ’’کیا پھر جب وہ عذاب واقع ہو چکے گا، تب اس پر تم ایمان لاؤ گے؟‘‘ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا اور اس حال میں جبکہ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں ،
عتاب اور زجر و توبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا: ﴿آٰلْـٰٔنَ﴾ ’’اب‘‘ یعنی اب تم اس شدت اور سخت مشقت کی حالت میں ایمان لاتے ہو؟
﴿ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ﴾ تم تو اس عذاب کے لیے بہت جلدی مچایا کرتے تھے۔ اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وقوع عذاب سے قبل اگر وہ اسے منانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان سے اپنی ناراضی کو دور کر دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا عذاب واقع ہو جاتا ہے تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دیتا،
جیسا کہ فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اس نے کہا: ﴿اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (یونس: 10؍90) ’’میں ایمان لایا کہ اس ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی اس کے سامنے سر اطاعت خم کر دینے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ تو اس کو جواب دیا گیا:
﴿ آٰلْـٰٔنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَؔكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (یونس: 10؍91) ’’اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا ہے اور فساد کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
﴿ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ﴾ (المومن: 40؍85) ’’پس جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے تو اس وقت ان کا ایمان لانا ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔‘‘
اور یہاں فرمایا:
﴿ اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَ٘عَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْـٰٔنَ ﴾ ’’کیا جب وہ واقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤ گے؟
(تو کہا جائے گا) اب تم‘‘
( ایمان کا دعویٰ کرتے ہو؟) ﴿ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ﴾’’اسی کے لیے تو تم جلدی مچایا کرتے تھے۔‘‘ یہ ہے تمھارے ہاتھوں کی کمائی اور یہ ہے وہ، جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔
#
{52} {ثم قيل للذين ظلموا}: حين يوفون أعمالهم يوم القيامة: {ذوقوا عذابَ الخُلْدِ}؛ أي: العذاب الذي تخلدون فيه، ولا يَفْتُرُ عنكم ساعة. {هل تُجْزَوْنَ إلا بما كنتُم تكسِبون}: من الكفر والتكذيب والمعاصي.
[52] ﴿ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ ’’پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا۔‘‘ جب قیامت کے روز ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا
﴿ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ﴾ ’’چکھو عذاب ہمیشگی کا‘‘ یعنی وہ عذاب جس میں تم ہمیشہ رہو گے، یہ عذاب تم سے ایک گھڑی کے لیے دور نہ ہوگا
﴿هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ﴾ ’’اسی چیز کا بدلہ تمھیں دیا جا رہا ہے جو تم کماتے تھے‘‘ یعنی کفر، تکذیب رسالت اور معاصی کی تمھیں جزا دی جا رہی ہے۔
{وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ (53) وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (54) أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (55) هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (56)}.
اور وہ خبر دریافت کرتے ہیں آپ سے، کیا حق ہے وہ
( عذاب)؟ آپ کہہ دیجیے! ہاں ! قسم ہے میرے رب کی! بلاشبہ وہ یقینا حق ہےاور نہیں تم عاجز کر سکتے
(اللہ کو)(53) اور اگر بے شک ہو واسطے ہر نفس کے جس نے ظلم کیا، جو کچھ ہے زمین میں
(سارا) تو ضرور فدیہ دے دے گا وہ ساتھ اس کےاورچھپائیں گے وہ
(مجرم) ندامت کو جب دیکھیں گے عذاب اور فیصلہ کیا جائے گا درمیان ان کے ساتھ انصاف کےاور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے
(54) آگاہ رہو! بے شک واسطے اللہ ہی کے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، خبر دار! بلاشبہ وعدہ اللہ کا حق ہے لیکن اکثر ان کے نہیں جانتے
(55) وہی زندہ کرتا ہے اور
(وہی) مارتا ہےاوراسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
(56)
#
{53} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {ويستنبئونك أحقٌّ هو}؛ أي: يستخبرك المكذِّبون على وجه التعنُّت والعناد لا على وجه التبيُّن والاسترشاد. {أحقٌّ هو}؛ أي: أصحيح حشر العباد وبعثهم بعد موتهم ليوم المعاد وجزاء العباد بأعمالهم إن خيراً فخيرٌ وإن شرًّا فشرٌّ؟ {قل}: لهم مقسماً على صحَّته مستدلاًّ عليه بالدليل الواضح والبرهان: {إي ورَبِّي إنَّه لحقٌّ}: لا مِرْيَةَ فيه ولا شبهة تعتريه، {وما أنتُم بمعجِزين}: لله أن يبعثكم؛ فكما ابتدأ خلقكم ولم تكونوا شيئاً؛ كذلك يعيدكم مرَّة أخرى ليجازِيَكم بأعمالكم.
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے:
﴿وَیَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ﴾ ’’اور آپ سے دریافت کرتے ہیں ۔‘‘ یہ مکذبین تحقیق و تبیین اور طلب ہدایت کے لیے نہیں بلکہ عناد اور نکتہ چینی کے قصد سے آپ سے پوچھتے ہیں
﴿اَحَقٌّ هُوَ﴾ ’’کیا آیا یہ سچ ہے؟‘‘ یعنی کیا یہ بات صحیح ہے کہ انسانوں کے مرنے کے بعد قیامت کے روز انھیں دوبارہ زندہ کر کے جمع کیا جائے گا، پھر ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اچھے اعمال کا بدلہ اچھا ہوگا اور برے اعمال کا بدلہ برا ہوگا۔
﴿قُ٘لْ﴾ ’’کہہ دیجیے!‘‘ اس کی صحت پر قسم اٹھا کر اور واضح دلیل کے ذریعے سے اس پر استدلال کرتے ہوئے کہہ دیجیے!
﴿اِیْ وَرَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ﴾ ’’قسم ہے میرے رب کی، یہ یقینا حق ہے‘‘ یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں
﴿وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ﴾ ’’اور تم عاجز نہ کرسکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو دوبارہ اٹھانے سے عاجز اور بے بس نہیں کر سکتے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں تمھیں پیدا کیا ہے جبکہ تم کچھ بھی نہ تھے اسی طرح وہ دوبارہ تمھیں پیدا کر سکتا ہے تاکہ وہ تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دے۔
#
{54} {و} إذا كانت القيامة، فلو {أنَّ لكلِّ نفس ظلمتْ}: بالكفر والمعاصي جميع {ما في الأرض}: من ذهب وفضَّة وغيرهما؛ لتفتدي به من عذاب الله، {لافتدتْ به}: ولما نَفَعَها ذلك، وإنما النفع والضُّرُّ والثواب والعقاب على الأعمال الصالحة والسيئة، {وأسرُّوا}؛ أي: الذين ظلموا، {الندامةَ لما رأوا العذابَ}: ندموا على ما قدَّموا ولات حين مناص، {وقُضِيَ بينهم بالقِسْطِ}؛ أي: العدل التامِّ الذي لا ظلم ولا جور فيه بوجه من الوجوه.
[54] ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ جب قیامت برپا ہوگی
﴿لَوْ اَنَّ لِكُ٘لِّ نَ٘فْ٘سٍ ظَلَمَتْ ﴾ اگر ہو ہر گناہ گار کے پاس جس نے کفر و معاصی کے ذریعے سے ظلم کیا
﴿ مَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’جو کچھ زمین میں ہے‘‘ یعنی زمین میں جو سونا چاندی وغیرہ ہے تو وہ سب کا سب اپنے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے فدیہ میں دے دے۔
﴿لَافْتَدَتْ بِهٖ﴾ ’’تو وہ ضرور فدیے میں دے دے۔‘‘ مگر یہ فدیہ دینا اس کے کسی کام نہ آئے گا کیونکہ نفع و نقصان اور ثواب و عذاب تو نیک اور برے اعمال پر منحصر ہے۔
﴿ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّؔا رَاَوُا الْعَذَابَ﴾ ’’اور چھپے چھپے پچھتائیں گے وہ جب دیکھیں گے عذاب‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا دل ہی دل میں اپنے اعمال پر پچھتائیں گے مگر اب رہائی کا کوئی وقت نہیں ہو گا۔
﴿ وَقُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ﴾ ’’اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔‘‘ یعنی کامل انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ جس میں کسی پہلو سے بھی ظلم و جور نہیں ہوگا۔
#
{55} {ألا إن لله ما في السموات والأرض}: يحكم فيهم بحكمه الدينيِّ والقَدَريِّ، وسيحكم فيهم بحكمه الجزائيِّ، ولهذا قال: {ألا إنَّ وعدَ الله حقٌّ ولكن أكثرهم لا يعلمون}: فلذلك لا يستعدُّون للقاء الله، بل ربَّما لم يؤمنوا به، وقد تواترت عليه الأدلَّة القطعيَّة والبراهين النقليَّة والعقليَّة.
[55] ﴿اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’خبردار،
اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘ وہ ان کے درمیان حکم دینی اور حکم قدری کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے روز وہ حکم جزائی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’خبردار، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اس لیے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے تیاری نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات وہ تو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں رکھتے، حالانکہ نہایت تواتر کے ساتھ قطعی دلائل اور عقلی اور نقلی براہین اس ملاقات پر دلالت کرتے ہیں ۔
#
{56} {هو يُحيي ويُميتُ}؛ أي: هو المتصرِّف بالإحياء والإماتة وسائر أنواع التدابير لا شريك له في ذلك. {وإليه تُرجعون}: يوم القيامة، فيجازيكم بأعمالكم خيرها وشرِّها.
[56] ﴿هُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ﴾ ’’وہی جان بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے اور وہ ہر قسم کی تدبیر کرتا ہے اور تدبیر کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں
﴿ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ’’اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤگے۔‘‘ قیامت کے روز۔ پس وہ تمھیں تمھارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (57) قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (58)}.
اے لوگو! تحقیق آگئی ہے تمھارے پاس نصیحت تمھارے رب کی طرف سے اور شفا واسطے ان
(بیماریوں ) کے جو سینوں میں ہیں اور ہدایت اور رحمت واسطے مومنوں کے
(57) کہہ دیجیے! ساتھ اللہ کے فضل اور ساتھ اس کی رحمت کے تو ساتھ اس کے پس چاہیے کہ وہ
(لوگ) خوش ہوں ، وہ
(اللہ کا فضل) بہت بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں
(58)
#
{57} يقول تعالى مرغِّباً للخلقِ في الإقبال على هذا الكتاب الكريم بذكْر أوصافه الحسنة الضروريَّة للعباد فقال: {يا أيُّها الناس قد جاءتكم موعظةٌ من ربِّكم}؛ أي: تعظكم وتنذركم عن الأعمال الموجبة لسخط الله، المقتضية لعقابه، وتحذِّركم عنها ببيان آثارها ومفاسدها، {وشفاءٌ لما في الصدور}: وهو هذا القرآن، شفاءٌ لما في الصدور من أمراض الشهوات الصَّادة عن الانقياد للشرع، وأمراض الشُّبهات القادحة في العلم اليقينيِّ؛ فإنَّ ما فيه من المواعظ والترغيب والترهيب والوعد والوعيد مما يوجب للعبد الرغبة والرهبة، وإذا وُجِدَتْ فيه الرغبة في الخير والرَّهبة عن الشرِّ ونمتا على تكرُّر ما يرد إليها من معاني القرآن؛ أوجب ذلك تقديم مراد الله على مراد النفس، وصار ما يرضي اللهَ أحبَّ إلى العبد من شهوة نفسه، وكذلك ما فيه من البراهين والأدلَّة التي صرَّفها الله غاية التصريف وبيَّنها أحسن بيان مما يزيل الشُّبه القادحة في الحقِّ ويصل به القلب إلى أعلى درجات اليقين، وإذا صحَّ القلب من مرضه، ورَفَلَ بأثواب العافية؛ تبعتْه الجوارحُ كلُّها؛ فإنها تصلُح بصلاحه وتفسُد بفساده.
{وهدىً ورحمةٌ للمؤمنين}: فالهدى هو العلم بالحقِّ والعمل به، والرحمةُ هي ما يحصل من الخير والإحسان والثواب العاجل والآجل لمن اهتدى به؛ فالهدى أجلُّ الوسائل، والرحمةُ أكملُ المقاصد والرغائب، ولكنْ لا يهتدي به ولا يكون رحمةً إلاَّ في حقِّ المؤمنين، وإذا حصل الهدى وحلَّت الرحمة الناشئة عنه؛ حصلت السعادةُ والفلاح والربح والنجاح والفرح والسرور.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ کتاب کریم کے اوصاف حسنہ جو بندوں کے لیے ضروری ہیں بیان کر کے،
اس کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی‘‘ یعنی وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اور وہ تمھیں ان اعمال سے ڈراتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے موجب اور اس کے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں ۔ وہ ان اعمال کے اثرات اور مفاسد بیان کر کے تمھیں ان سے بچاتا ہے۔
﴿وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ﴾ ’’اور شفا دلوں کے روگ کی‘‘ اور وہ یہی قرآن ہے جو امراض قلب،
مثلاً:امراض شہوات، جو شریعت کی اطاعت سے روکتے ہیں اور امراض شبہات، جو علم یقینی میں قادح ہیں ... کے لیے شفا ہے۔ اس کتاب کریم کے اندر مواعظ، ترغیب و ترہیب اور وعد و وعید کے جو مضامین ہیں وہ بندے کے لیے رغبت و رہبت کے موجب ہیں ۔ جب آپ اس کتاب کریم میں بھلائی کی طرف رغبت، برائی سے ڈر اور قرآن کے معانی میں بتکرار ایسا اسلوب پاتے ہیں تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کی مراد کو نفس کی مراد پر مقدم رکھنے کی موجب بنتی ہے اور بندۂ مومن کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی رضا شہوت نفس سے زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔
اسی طرح اس کے اندر جو دلائل و براہین ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے اور انھیں بہترین اسلوب میں بیان کیا ہے جو ایسے شبہات کو زائل کر دیتا ہے جو حق میں قادح ہیں اور اس کے ذریعے سے قلب یقین کے بلند ترین مراتب پر پہنچ جاتا ہے اور جب قلب اپنی بیماری سے صحت یاب ہو جاتا ہے اور وہ لباس عافیت کو زیب تن کر لیتا ہے تو جوارح اس کی پیروی کرتے ہیں اس لیے کہ جوارح، دل کی درستی سے درست رہتے ہیں اگر دل فاسد ہو جاتا ہے تو جوارح بھی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
﴿ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْ٘مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔‘‘ پس ہدایت حق کے علم اور اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اور ’’رحمت‘‘ سے مراد وہ بھلائی، احسان اور دنیاوی و اخروی ثواب ہے جو ہدایت یافتہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ تب معلوم ہوا کہ ہدایت جلیل ترین وسیلہ اور رحمت کامل ترین مقصود و مطلوب ہے۔ اس کی طرف صرف اہل ایمان ہی کو راہ نمائی عطا ہوتی ہے اور اہل ایمان ہی رحمت سے نوازے جاتے ہیں ۔ جب بندۂ مومن کو ہدایت حاصل ہوتی ہے اور اسے ہدایت سے جنم لینے والی رحمت سے نواز دیا جاتا ہے تو وہ سعادت، فلاح، نفع، کامیابی، فرحت اور سرور کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
#
{58} ولذلك أمر تعالى بالفرح بذلك، فقال: {قلْ بفضل الله}: الذي هو القرآنُ، الذي هو أعظم نعمة ومِنَّة وفضل تفضَّل الله به على عباده، ورحمتِهِ: الدين والإيمان وعبادة الله ومحبَّته ومعرفته. {فبذلك فَلْيَفْرَحوا هو خيرٌ مما يجمعون}: من متاع الدُّنيا ولذَّاتها؛ فنعمة الدين المتَّصلة بسعادة الدارين لا نسبة بينها وبين جميع ما في الدُّنيا مما هو مضمحلٌّ زائل عن قريب. وإنَّما أمر الله تعالى بالفرح بفضله ورحمته؛ لأنَّ ذلك مما يوجب انبساط النفس ونشاطها وشكرها لله تعالى وقوَّتها وشدَّة الرغبة في العلم والإيمان الداعي للازدياد منهما، وهذا فرحٌ محمودٌ؛ بخلاف الفرح بشهوات الدُّنيا ولذَّاتها أو الفرح بالباطل؛ فإنَّ هذا مذمومٌ؛ كما قال تعالى عن قوم قارون له: {لا تَفْرَحْ إنَّ الله لا يحبُّ الفرحين}، وكما قال تعالى في الذين فرحوا بما عندهم من الباطل المناقض لما جاءت به الرسل: {فلَّما جاءتْهم رسلُهم بالبيِّناتِ فرحوا بما عندَهم من العلم}.
[58] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خوش ہونے کا حکم دیا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ بِفَضْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ کے فضل کے ساتھ‘‘ فضل سے مراد قرآن ہے جو سب سے بڑی نعمت، احسان اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔
﴿ وَبِرَحْمَتِهٖ ﴾ ’’اور اس کی مہربانی کے ساتھ‘‘ یعنی دین، ایمان، اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت اور اس کی معرفت۔
﴿ فَبِذٰلِكَ فَلْ٘یَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّؔمَّؔا یَجْمَعُوْنَ ﴾ ’’پس اسی پر انھیں خوش ہونا چاہیے، یہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی دنیا کی متاع اور اس کی لذات سے بہتر ہے۔ دین کی نعمت، جس سے دنیا و آخرت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام مال و متاع کا اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ۔ دنیا کا مال و متاع تو عنقریب مضمحل ہو کر زائل ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت پر خوش ہونے کا صرف اس لیے حکم دیا ہے کہ یہ نفس کے انبساط، نشاط، اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے شکر، اس کی قوت، علم و ایمان میں شدید رغبت کا موجب اور علم و ایمان میں ازدیاد کا داعی ہے۔ یہ فرحت اور خوشی محمود ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی شہوات و لذات اور باطل پر خوش ہونا مذموم ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون کے بارے میں اس کی قوم کا قول نقل فرمایا ہے
﴿ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْ٘فَرِحِیْنَ﴾ (القصص: 28؍76) ’’خوشی میں اتراؤ مت! اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو اپنے اس باطل پر اتراتے تھے جو انبیاء و رسل کی لائی ہوئی وحی کے متناقض تھا۔
﴿ فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ (غافر: 40؍83) ’’جب ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو
(بزعم خود) جو علم ان کے پاس تھا اس کی بنا پر اترانے لگے۔‘‘
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ (59) وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ (60)}.
کہہ دیجیے! بھلا بتلاؤ تو! جو نازل کیا ہے اللہ نے واسطے تمھارے رزق، پس بنایا تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال، کہہ دیجیے! کیا اللہ نے حکم دیاہے واسطے تمھارے یا اوپر اللہ کے افتراء باندھتے ہو تم؟
(59)اور کیا گمان ہے ان لوگوں کاجو باندھتے ہیں اوپر اللہ کے جھوٹ، روز قیامت کے بارے میں ؟ بلاشبہ اللہ یقینا بڑے فضل والا ہے اوپر لوگوں کے لیکن اکثر ان کے نہیں شکر کرتے
(60)
#
{59} يقول تعالى منكراً على المشركين الذين ابتدعوا تحريم ما أحلَّ الله وتحليلَ ما حرَّمه: {قلْ أرأيتُم ما أنزل الله لكم من رزقٍ}؛ يعني: أنواع الحيوانات المحلَّلة التي جعلها الله رزقاً لهم ورحمة في حقِّهم، قل لهم موبِّخاً على هذا القول الفاسد: {آللهُ أذِنَ لكم أم على الله تفترونَ}: ومن المعلوم أنَّ الله لم يأذنْ لهم؛ فعُلِمَ أنهم مفترون.
[59] مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دینے کے لیے تحریم و تحلیل کے جو ضابطے ایجاد کیے تھے،
ان پر نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے، بھلا بتلاؤ! اللہ نے تمھارے لیے جو روزی اتاری‘‘ یعنی حلال جانوروں کی مختلف اقسام جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ذریعۂ رزق اور رحمت بنایا ہے۔
﴿فَجَعَلْتُمْ مِّؔنْهُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا﴾ ’’پس ٹھہرایا تم نے اس میں سے کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال‘‘ یعنی اس فاسد قول پر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے
﴿ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’کیا اللہ نے تم کو حکم دیا یا اللہ پر تم جھوٹ باندھتے ہو؟‘‘ اور یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات کا ہرگز حکم نہیں دیا پس ثابت ہوا کہ یہ لوگ افتراء پرداز ہیں ۔
#
{60} {وما ظنُّ الذين يفترون على الله الكذبَ يوم القيامة}: أن يفعل الله بهم من النَّكال ويُحِلَّ بهم من العقاب؛ قال تعالى: {ويومَ القيامة ترى الذين كذبوا على الله وجوهُهُم مسودَّةٌ}.
{إنَّ الله لذو فضل على الناس}: كثير وذو إحسان جزيل. ولكنَّ أكثر الناس لا يشكرون، إما أن لا يقوموا بشكرها، وإما أن يستعينوا بها على معاصيه، وإما أن يحرِّموا منها، ويردُّوا ما منَّ الله به على عباده، وقليلٌ منهم الشاكر الذي يعترف بالنعمة، ويثني بها على الله، ويستعين بها على طاعته.
ويستدل بهذه الآية على أنَّ الأصل في جميع الأطعمة الحلُّ؛ إلاَّ ما وَرَدَ الشرع بتحريمه؛ لأن الله أنكر على من حرَّم الرزق الذي أنزله لعباده.
[60] ﴿ وَمَا ظَ٘نُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور کیا خیال ہے اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کا قیامت کے دن‘‘ یہ کہ ان کو سزا دے گا اور ان پر عذاب نازل کرے گا،
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ﴾ (الزمر: 39؍60) ’’اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا، آپ قیامت کے روز دیکھیں گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہو رہے ہوں گے۔‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ ﴾ ’’بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت زیادہ فضل و احسان کرنے والا ہے۔
﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘ یا تو اس کی صورت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتے یا وہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں استعمال کرتے ہیں یا ان میں سے بعض نعمتوں کو حرام ٹھہرا کر ان کو ٹھکرا دیتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور پھر اس نعمت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرتے ہیں ۔
اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ کھانے والی تمام اشیاء میں اصل حلت ہے جب تک کہ اس کی حرمت پر شرعی حکم وارد نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر نکیر فرمائی ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس رزق کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا۔
{وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (61)}.
اور نہیں ہوتے آپ کسی حالت میں اور نہیں تلاوت کرتے آپ اس کی طرف سے
(نازل شدہ) قرآن کا کچھ حصہ اور نہیں عمل کرتے تم لوگ کوئی عمل مگر ہوتے ہیں ہم اوپر تمھارے شاہد جب شروع ہوتے ہو تم اس
(کام) میں اور نہیں پوشیدہ ہوتی آپ کے رب سے
( کوئی بھی چیز) ذرہ برابر زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ
(کوئی چیز) چھوٹی اس سے اور نہ بڑی مگر
(وہ ہے) کتاب واضح میں
(61)
#
{61} يخبر تعالى عن عموم مشاهدته واطِّلاعه على جميع أحوال العباد في حركاتهم وسَكَناتهم، وفي ضمن هذا الدعوة لمراقبته على الدوام، فقال: {وما تكونُ في شأنٍ}؛ أي: حال من أحوالك الدينيَّة والدنيويَّة، {وما تتلو منه من قرآنٍ}؛ أي: وما تتلو من القرآن الذي أوحاه الله إليك، {ولا تعملون من عمل}: صغيرٍ أو كبيرٍ، {إلاَّ كنَّا عليكم شهوداً إذ تُفيضون فيه}؛ أي: وقت شروعكم فيه واستمراركم على العمل به، فراقبوا الله في أعمالكم، وأدُّوها على وجه النصيحة والاجتهاد فيها، وإيَّاكم وما يَكره الله تعالى؛ فإنه مطَّلع عليكم عالمٌ بظواهركم وبواطنكم. {وما يعزُبُ عن ربِّك}؛ أي: ما يُغابُ عن علمه وسمعه وبصره ومشاهدته {من مثقال ذرَّةٍ في الأرض ولا في السماء ولا أصغرَ من ذلك ولا أكبرَ إلا في كتابٍ مُبين}؛ أي: قد أحاط به علمُه وجرى به قلمُه. وهاتان المرتبتان من مراتب القضاء والقدر كثيراً ما يُقرِنُ الله بينهما، وهما العلم المحيط بجميع الأشياء وكتابته المحيطة بجميع الحوادث؛ كقوله تعالى: {ألم تَعْلَمْ أنَّ الله يعلمُ ما في السماء والأرض إنَّ ذلك في كتابٍ إنَّ ذلك على الله يسيرٌ}.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے عمومی مشاہدہ کے بارے میں خبر دیتا ہے، نیز وہ فرماتا ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال اور ان کی حرکات و سکنات سے آگاہ ہے اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ انھیں دائمی مراقبہ کی دعوت دیتا ہے۔ فرمایا
﴿ وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَاْنٍ ﴾ ’’اور تم جس حال میں ہوتے ہو۔‘‘ یعنی آپ اپنے دینی اور دنیاوی احوال میں سے جس حال میں بھی ہوتے ہیں ۔
﴿ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُ٘رْاٰنٍ ﴾ ’’یا قرآن میں کچھ پڑھتے ہو۔‘‘ یعنی آپ قرآن میں سے جو کچھ تلاوت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کیا
﴿ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ ﴾ ’’اور جو بھی عمل آپ کرتے ہیں ‘‘ یعنی کوئی چھوٹا یا بڑا عمل۔
﴿ اِلَّا كُنَّا عَلَیْكُمْ شُ٘هُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ﴾ ’’مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم مصروف ہوتے ہو اس میں ‘‘ یعنی تمھارے کام شروع کرنے اور اس کام میں تمھارے استمرار کے وقت، لہٰذا اپنے تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کو مدنظر رکھو اور تمام اعمال کو خیر خواہی اور خوب کوشش سے بجا لاؤ۔ جو امور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ان سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے تمام باطنی اور ظاہری امور سے آگاہ ہے۔
﴿ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ﴾ ’’اور نہیں غائب رہتا آپ کے رب سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم، اس کے سمع و بصر اور اس کے مشاہدہ سے باہر نہیں ۔
﴿ مِنْ مِّؔثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَلَاۤ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَاۤ اَكْبَرَ اِلَّا فِیْؔ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’ایک ذرہ بھر، زمین میں نہ آسمان میں اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا مگر وہ کھلی ہوئی کتاب میں ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس پر اس کا قلم جاری ہو چکا ہے۔ یہ دونوں مراتب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مراتب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اکثر ان کو مقرون بیان کیا ہے۔
۱۔ تمام اشیاء کا احاطہ کرنے والا علم الٰہی۔
۲۔ تمام حوادث کا احاطہ کرنے والی تقدیر
(کتاب) الٰہی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ فِیْؔ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ﴾ (الحج: 22؍70) ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب کچھ کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور بے شک یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (64)}.
آگاہ رہو! بے شک اولیاء اللہ، نہ کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے
(62) وہ لوگ جو ایمان لائے اور تھے وہ ڈرتے
(اللہ سے) (63) واسطے ان کے خوش خبری ہے دنیا میں زندگی میں اور آخرت میں
(بھی)، نہیں تبدیلی ہوتی اللہ کی باتوں میں ، یہی ہے کامیابی بہت بڑی
(64)
#
{62} يخبر تعالى عن أوليائه وأحبائه ويذكر أعمالهم وأوصافهم وثوابهم، فقال: {ألا إنَّ أولياء الله لا خوفٌ عليهم}: فيما يستقبلونه مما أمامهم من المخاوف والأهوال، {ولا هم يحزنونَ}: على ما أسلفوا؛ لأنهم لم يسلِفوا إلاَّ صالح الأعمال، وإذا كانوا لا خوفٌ عليهم ولا هم يحزنون؛ ثبت لهم الأمنُ والسعادةُ والخير الكثير الذي لا يعلمه إلا الله تعالى.
[62] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اولیاء اور محبوب لوگوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ان کے اعمال و اوصاف اور ان کے ثواب کا ذکر کرتا ہے،
چنانچہ فرماتا ہے: ﴿ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ﴾’’خبردار، اللہ کے جو دوست ہیں ، ان پر کوئی خوف نہ ہو گا‘‘ یعنی قیامت کے روز میدان محشر میں جو خوفناک اور ہولناک حالات ہوں گے، وہاں انھیں کوئی خوف نہ ہوگا۔
﴿ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ ’’اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ ان اعمال پر جو انھوں نے پہلے کیے ہوں گے کیونکہ انھوں نے اعمال صالحہ کے سوا کچھ نہیں کیا ہو گا۔ چونکہ انھیں کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے، اس لیے وہاں ان کے لیے امن و سعادت اور خیر کثیر ہو گا جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
#
{63} ثم ذكر وصفَهم، فقال: {الذين آمنوا}: بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وبالقدر خيره وشرِّه، وصدَّقوا إيمانهم باستعمال التقوى بامتثال الأوامر واجتناب النواهي؛ فكلُّ من كان مؤمناً تقيًّا؛ كان لله تعالى وليًّا.
[63] پھر اللہ تبارک تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’وہ جو ایمان لائے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں ، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں ، اس کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں ، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے اور تقویٰ کے استعمال، اللہ تعالیٰ کے اوامر کی فرماں برداری اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔
پس ہر وہ شخص جو مومن اور متقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہے۔
#
{64} و {لهم البُشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة}: أما البشارة في الدُّنيا؛ فهي الثناء الحسن والمودَّة في قلوب المؤمنين والرؤيا الصالحة وما يراه العبد من لطف الله به وتيسيره لأحسن الأعمال والأخلاق وصرفه عن مساوئ الأخلاق، وأما في الآخرة؛ فأولها البشارة عند قبض أرواحهم؛ كما قال تعالى: {إنَّ الذين قالوا ربُّنا الله ثم استقاموا تتنزَّلُ عليهم الملائكة ألا تخافوا ولا تحزنوا وأبشروا بالجنَّة التي كنتُم توعَدون}: وفي القبر ما يُبَشَّر به من رضا الله تعالى والنعيم المقيم، وفي الآخرة تمام البشرى بدخول جنات النعيم والنجاة من العذاب الأليم. {لا تبديلَ لكلماتِ الله}: بل ما وعد الله؛ فهو حقٌّ لا يمكن تغييره ولا تبديله؛ لأنَّه الصادق في قيله، الذي لا يقدر أحدٌ أن يخالفه فيما قدره وقضاه. {ذلك هو الفوزُ العظيمُ}: لأنه اشتمل على النجاة من كلِّ محذور، والظَّفر بكل مطلوب محبوب، وحَصَرَ الفوز فيه؛ لأنه لا فوز لغير أهل الإيمان والتقوى.
والحاصل أنَّ البُشرى شاملةٌ لكل خير وثواب رتَّبه الله في الدنيا والآخرة على الإيمان والتقوى، ولهذا أطلق ذلك فلم يقيِّده.
[64] اسی لیے فرمایا:
﴿ لَهُمُ الْ٘بُشْرٰؔى فِی الْحَؔیٰؔوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ ’’ان کے لیے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ‘‘ دنیا کے اندر بشارت سے مراد، ثنائے حسن، مومنوں کے دلوں میں محبت و مودت، سچے خواب، بندۂ مومن کا اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے بہرہ ور ہونا، اللہ تعالیٰ کا بہترین اعمال و اخلاق کے راستوں کو آسان کر دینا اور بندے کو برے اخلاق سے دور کر دینا ہے اور آخرت کی بشارتوں میں اولین بشارت یہ ہے کہ روح قبض کیے جانے کے موقع پر ان کو بشارت دی جاتی ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (حم السجدۃ: 41؍30) ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور نہ غم زدہ ہو اور جنت کی خبر سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ اور قبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی خوشخبری دی جائے گی اور قیامت کے روز نعمتوں بھری جنت میں دخول اور دردناک عذاب سے نجات کے ساتھ اس خوشخبری کا اتمام ہوگا۔
﴿ لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کے کلمات بدلتے نہیں ‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ حق ہے جس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے قول میں سچا ہے اور اس کی مقرر کی ہوئی قضا و قدر میں کوئی شخص اس کی مخالفت نہیں کر سکتا۔
﴿ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی ہے بڑی کامیابی‘‘ کیونکہ یہ تمام محذورات سے نجات اور ہر محبوب چیز کے حصول میں ظفریابی پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’’فوز‘‘ کو حصر کے ساتھ بیان کیا ہے کیونکہ فوز و فلاح اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں ۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ بشارت ہر خیر و ثواب کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ایمان اور تقویٰ پر مرتب فرمایا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس کو تقیید کے ساتھ نہیں بلکہ مطلق بیان کیا ہے۔
{وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (65)}.
اور نہ غمگین کریں آپ کو باتیں ان کی، بلاشبہ عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے ساری کی ساری، وہی خوب سنتا، جانتا ہے
(65)
#
{65} أي: ولا يحزُنْك قول المكذِّبين فيك من الأقوال التي يتوصَّلون بها إلى القدح فيك وفي دينك؛ فإن أقوالهم لا تُعِزُّهم ولا تضرُّك شيئاً. {إنَّ العزَّة لله جميعاً}؛ يؤتيها من يشاء ويمنعها ممن يشاء، قال تعالى: {من كان يريد العزة فلله العزة جميعاً} أي: فليطلبها بطاعته؛ بدليل قوله بعده: {إليه يصعدُ الكَلِمُ الطِّيبُ والعمل الصالح يرفعُه}: ومن المعلوم أنك على طاعة الله، وأنَّ العزَّة لك ولأتباعك من الله. {ولله العزَّةُ ولرسوله وللمؤمنين}. وقوله: {هو السميع العليم}؛ أي سمعه قد أحاط بجميع الأصوات؛ فلا يخفى عليه شيء منها؛ وعلمه قد أحاط بجميع الظواهر والبواطن؛ فلا يَعْزُبُ عنه مثقالُ ذرة في السماوات والأرض ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، وهو تعالى يسمعُ قولك وقول أعدائك فيك، ويعلم ذلك تفصيلاً؛ فاكتفِ بعلم الله وكفايته؛ فمن يتَّق الله فهو حسبه.
[65] یعنی جھٹلانے والوں کی باتوں میں سے کوئی بات، جن کے ذریعے سے وہ آپ پر اور آپ کے دین پر نکتہ چینی کرتے ہیں... آپ کو غم زدہ نہ کرے کیونکہ ان کی یہ باتیں ان کو عزت فراہم کر سکتی ہیں نہ آپ کو کوئی نقصان دے سکتی ہیں ۔
﴿ اِنَّ الْ٘عِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا﴾ ’’بے شک عزت سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے عزت سے محروم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْ٘عِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْ٘عِزَّةُ جَمِیْعًا﴾ (فاطر: 35؍10) ’’جو کوئی عزت کا طلب گار ہے تو عزت تمام تر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔‘‘ جسے عزت چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے سے اسے طلب کرے اور اس کی دلیل بعد میں آنے والا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو اس کی تائید کرتا ہے
﴿ اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْ٘عَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ﴾ (فاطر: 35؍10) ’’پاک باتیں اسی کی طرف بلند ہوتی ہیں اور عمل صالح اس کو بلند کرتا ہے۔‘‘ یہ بات معلوم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت صرف آپ اور آپ کے متبعین کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلِلّٰهِ الْ٘عِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ٘ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ۠ ﴾ (المنافقون: 63؍8) ’’عزت تمام تر اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے لیے ہے۔‘‘
﴿ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾ ’’وہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اس کی سماعت نے تمام آوازوں کا احاطہ کر رکھا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس کا علم تمام ظاہری اور باطنی چیزوں پر محیط ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ، کوئی چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر بھی چیز اس سے اوجھل نہیں ۔ وہ آپ کی بات سنتا ہے اور اس بارے میں آپ کے دشمنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور پوری تفصیل کا علم رکھتا ہے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے علم اور کفایت کو کافی سمجھیے۔ اس لیے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔
{أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (66) هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (67)}.
آگاہ رہو! بے شک اللہ ہی کے لیے ہے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں اور نہیں پیروی کرتے وہ لوگ جو پکارتے ہیں سوائے اللہ کے
( دوسرے شریکوں کو)، شریکوں کی نہیں پیروی کرتے وہ
(حقیقت میں ) مگر صرف گمان کی اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل
(خود گھڑ کر باتیں ) کرتے
(66) وہی ہے
(اللہ) جس نے بنایا واسطے تمھارے رات کو تاکہ تم سکون کرو اس میں اور
(بنایا) دن دکھلانے والا
(روشن)، بلاشبہ اس میں یقینا بہت بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں
(67)
#
{66} يخبر تعالى أن له ما في السماوات والأرض خلقاً وملكاً [وعبيدًا]، يتصرَّف فيهم بما يشاء من أحكامه؛ فالجميع مماليك لله مسخَّرون مدبَّرون لا يستحقُّون شيئاً من العبادة وليسوا شركاء لله بوجه من الوجوه، ولهذا قال: {وما يتَّبع الذين يدعون من دون الله شركاء إن يتَّبِعون إلاَّ الظَّنَّ}: الذي لا يغني من الحقِّ شيئاً، {وإنْ هم إلاَّ يخرصُون}: في ذلك خرصٌ وإفك وبهتان؛ فإن كانوا صادقين في أنها شركاء لله؛ فليُظْهِروا من أوصافها ما تستحقُّ به مثقال ذرَّة من العبادة؛ فلن يستطيعوا؛ فهل منهم أحدٌ يخلق شيئاً أو يرزق أو يملك شيئاً من المخلوقات أو يدبِّر الليل والنهار الذي جعله الله قياماً للناس؟!
[66] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اسی کی ملکیت ہے وہ جیسے چاہتا ہے اپنے احکام کے ذریعے سے اس میں تصرف کرتا ہے۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی مملوک،
اس کے سامنے مسخر اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ تمام مخلوق عبادت کا کچھ بھی استحقاق نہیں رکھتی اور کسی بھی لحاظ سے مخلوق اللہ تعالیٰ کی شریک نہیں بن سکتی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا یَتَّ٘بِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ ﴾ ’’اور یہ جو پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے، سو یہ کچھ نہیں مگر پیروی کرنے والے ہیں اپنے گمان کی‘‘ یعنی وہ ظن اور گمان، جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا
﴿ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ ﴾ ’’اور وہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اس بارے میں محض اندازوں اور بہتان و افترا سے کام لیتے ہیں ۔ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے میں اگر وہ سچے ہیں تو ان کے وہ اوصاف سامنے لائیں جو ان کو ذرہ بھر عبادت کا مستحق قرار دیتے ہوں ۔ وہ کبھی ایسا نہیں کر سکیں گے۔ کیا ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کوئی چیز پیدا کر سکتا ہو؟ یا وہ رزق عطا کرتا ہو؟ یا وہ مخلوقات میں سے کسی چیز کا مالک ہو؟ یا وہ گردش لیل و نہار کی تدبیر کرتا ہو؟ جس نے اسے لوگوں کی روزی کا سبب بنایا؟
#
{67} و {هو الذي جعل لكم الليل لتسكنوا فيه}: في النوم والراحة بسبب الظلمة التي تغشى وجه الأرض؛ فلو استمرَّ الضياءُ؛ لما قروا ولما سكنوا. {و} جعل الله {النهار مبصراً}؛ أي: مضيئاً يبصر به الخلقُ فيتصرَّفون في معايشهم ومصالح دينهم ودنياهم. {إنَّ في ذلك لآيات لقوم يسمعون}: عن الله سمعَ فَهْم وقَبول واسترشاد، لا سمع تعنُّت وعناد؛ فإنَّ في ذلك لآيات لقوم يسمعون يستدلُّون بها على أنه وحده المعبود، وأنَّه الإله الحق، وأن إلهية ما سواه باطلة، وأنه الرءوف الرحيم العليم الحكيم.
[67] ﴿ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ ﴾ ’’وہی اللہ ہے جس نے بنایا تمھارے واسطے رات کو تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو‘‘ تاکہ اس تاریکی کے سبب سے جو تمام روئے زمین کو ڈھانک لیتی ہے، نیند اور راحت میں سکون پاؤ، اگر سورج کی روشنی ہمیشہ برقرار رہتی تو انھیں قراروسکون نہ ملتا۔
﴿وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا﴾ ’’اور دن کو
(بنایا) دکھلانے والا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے دن کو روشن بنایا تاکہ دن کی روشنی میں مخلوق دیکھ سکے، لوگ اپنی معاش اور اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لیے چل پھر سکیں ۔
﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ﴾ ’’اس میں سننے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ جو سمجھنے، قبول کرنے اور رشد و ہدایت طلب کرنے کے لیے سنتے ہیں ۔ عناد اور نکتہ چینی کے لیے نہیں سنتے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں اور ان نشانیوں سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود اور معبود برحق ہے اور اس کے سوا ہر ایک ہستی کی الوہیت باطل ہے اور یہ کہ وہی رؤف و رحیم اور علم و حکمت والا ہے۔
{قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (68) قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (69) مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (70)}.
کہا انھوں نے، بنائی ہے اللہ نے اولاد، پاک ہے وہ
(اولاد سے)، وہ بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اورجو کچھ زمین میں ہے، نہیں ہے تمھارے پاس کوئی دلیل اس بات کی، کیا کہتے ہو تم اوپر اللہ کے وہ بات جس کا نہیں علم رکھتے تم؟
(68) کہہ دیجیے! بے شک وہ لوگ جو باندھتے ہیں اوپر اللہ کے جھوٹ، نہیں فلاح پائیں گے وہ
(69) تھوڑا سا فائدہ اٹھانا ہے دنیا میں ، پھر ہماری ہی طرف واپسی ہے ان کی، پھر ہم چکھائیں گے انھیں عذاب شدید بوجہ اس کے جو تھے وہ کفر کرتے
(70)
#
{68} يقول تعالى مخبراً عن بهت المشركين لربِّ العالمين: {قالوا اتَّخذ الله ولداً}: فنزَّه نفسه عن ذلك بقوله: {سبحانه}؛ أي: تنزه عما يقول الظالمون في نسبة النقائص إليه علوًّا كبيراً. ثم برهن عن ذلك بعدة براهين: أحدها قوله: {هو الغنيُّ}؛ أي: الغِنَى منحصرٌ فيه، وأنواع الغنى مستغرقة فيه؛ فهو الغني الذي له الغنى التامُّ بكل وجه واعتبار من جميع الوجوه؛ فإذا كان غنيًّا من كل وجه؛ فلأيِّ شيء يتَّخذ الولد؟! ألحاجة منه إلى الولد؟ فهذا منافٍ لغناه؛ فلا يتَّخِذ أحدًا ولداً إلا لنقص في غناه؟!
البرهان الثاني قوله: {له ما في السموات وما في الأرض}: وهذه كلمة جامعة عامةٌ، لا يخرج عنها موجودٌ من أهل السماوات والأرض، الجميع مخلوقون عبيدٌ مماليك، ومن المعلوم أن هذا الوصفَ العامَّ ينافي أن يكون له [منهم] ولدٌ؛ فإنَّ الولد من جنس والده، لا يكون مخلوقاً ولا مملوكاً؛ فملكيَّته لما في السماوات والأرض عموماً تنافي الولادة.
البرهان الثالث قوله: {إن عندكم من سُلطانٍ بهذا}؛ أي: هل عندكم من حجَّةٍ وبرهان يدلُّ على أنَّ لله ولداً؟! فلو كان لهم دليلٌ؛ لأبدَوْه، فلما تحدَّاهم وعجَّزهم عن إقامة الدليل؛ عُلم بطلان ما قالوه، وأنَّ ذلك قولٌ بلا علم، ولهذا قال: {أتقولون على الله ما لا تعلمون}: فإنَّ هذا من أعظم المحرَّمات.
[68] اللہ رب العالمین کے بارے میں مشرکین کی بہتان طرازی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ قَالُوا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا﴾ ’’انھوں نے کہا،
ٹھہرا لی ہے اللہ نے اولاد‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اس سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ﴾ ’’وہ پاک ہے۔‘‘ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی طرف جو نقائص منسوب کرتے ہیں وہ ان سے بلند و برتر ہے،
پھر اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں متعدد دلائل ذکر کیے ہیں :
(۱) ﴿ هُوَ الْغَنِیُّ﴾ ’’وہ بے نیاز ہے‘‘ یعنی غنا
(بے نیازی) اسی میں منحصر ہے اور غنا کی تمام اقسام کا وہی مالک ہے۔ وہ غنی ہے جو ہر پہلو، ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے غنائے کامل کا مالک ہے۔ جب وہ ہر لحاظ سے غنی ہے تب وہ کس لیے بیٹا بنائے گا؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ بیٹے کا محتاج ہے؟ یہ تو اس کے غنا اور بے نیازی کے منافی ہے۔ کوئی شخص صرف اپنے غنا میں نقص کی بنا پر بیٹا بناتا ہے۔
(۲) دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔‘‘ یہ عام اور جامع کلمہ ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات اس کی ملکیت سے خارج نہیں ، تمام موجودات اس کی مخلوق، اس کے بندے اور مملوک ہیں اور یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ یہ وصف عام اس بات کے منافی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو کیونکہ بیٹا اپنے باپ کی جنس سے ہوگا جو مخلوق ہوگا نہ مملوک۔ پس آسمانوں اور زمین کا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونا ولادت
(اولاد ہونے) کے منافی ہے۔
(۳) تیسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
﴿ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭؔ بِهٰؔذَا﴾ ’’تمھارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ۔‘‘ یعنی تمھارے پاس تمھارے اس دعوی پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ اسے ضرور پیش کرتے۔ جب انھیں دلیل پیش کرنے کے لیے کہا گیا اور وہ دلیل قائم کرنے سے عاجز آگئے تو ان کے دعوے کا بطلان ثابت ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان کا قول بلا علم ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ﴾ ’’کیا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے‘‘ پس بلاعلم اللہ تعالیٰ کی طرف بات منسوب کرنا سب سے بڑا حرام ہے۔
#
{69 ـ 70} {قل إنَّ الذين يفترون على الله الكذبَ لا يفلحون}؛ أي: لا ينالون مطلوبهم ولا يحصُل لهم مقصودهم، وإنما يتمتَّعون في كفرهم وكذبهم في الدُّنيا قليلاً، ثم ينتقلون إلى الله ويرجعون إليه، فيذيقهم {العذاب الشديد بما كانوا يكفرون}، وما ظلمهم الله، ولكن أنفسهم يظلمون.
[70,69] ﴿قُ٘لْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، وہ کامیاب نہیں ہوں گے‘‘ یعنی وہ اپنا مطلوب و مقصود حاصل نہ کر سکیں گے، وہ دنیا کی زندگی میں اپنے کفر اور جھوٹ کے ذریعے سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں گے پھر لوٹ کر اللہ کے حضور حاضر ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت عذاب کا مزا چکھائے گا۔
﴿ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران: 3؍117) ’’اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‘‘
{وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ (71) فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (72) فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ (73)}.
اور آپ پڑھیں ان پر خبر نوح کی، جب اس نے کہا اپنی قوم سے، اے میری قوم! اگر ہے گراں گزرتا تم پر میرا کھڑا ہونا اور میرا نصیحت کرنا ساتھ اللہ کی آیتوں کے تو اللہ ہی پر توکل کیا میں نے، پس متفقہ فیصلہ کر لو تم
(میرے خلاف) اپنے معاملے کا اپنے شریکوں سمیت، پھر نہ رہے معاملہ تمھارا تم پر مبہم، پھر نافذ کردو
(اپنا فیصلہ) مجھ پراور نہ مہلت دو مجھے
(71) پس اگر منہ پھیر لوتم تو نہیں سوال کیا میں نے تم سے کسی اجر کا، نہیں ہے اجر میرا مگر اوپر اللہ کےاور حکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ ہوں میں فرماں برداروں میں سے
(72) پس جھٹلایا انھوں نے اس کو تو ہم نے نجات دی اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں اور بنا دیا ہم نے انھیں جانشین
(ان کا) اور غرق کر دیا ہم نے ان لوگوں کو جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، پس دیکھیے کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ڈرائے گئے تھے
(73)
#
{71} يقول تعالى لنبيه: واتلُ على قومك {نبأ نوح}: في دعوته لقومه حين دعاهم إلى الله مدةً طويلةً فمكث فيهم ألف سنة إلا خمسين عاماً، فلم يزدهم دعاؤه إياهم إلا طغياناً، فتملَّلوا منه وسئموا، وهو عليه الصلاة والسلام غير متكاسل ولا متوانٍ في دعوتهم، فقال لهم: {يا قوم إن كانَ كَبُرَ عليكم مَقامي وتذكيري بآيات الله}؛ أي: إن كان مقامي عندكم وتذكيري إيَّاكم ما ينفعهم بآيات الله الأدلَّة الواضحة البيِّنة، قد شقَّ عليكم، وعَظُم لديكم، وأردتم أن تنالوني بسوء أو تردُّوا الحقَّ. {فعلى الله توكَّلْتُ}؛ أي: اعتمدتُ على الله في دفع كلِّ شرٍّ يُراد بي وبما أدعو إليه؛ فهذا جندي وعدتي. وأنتم؛ فأتوا بما قدرتم عليه من أنواع العُدَد والعَدَد، {فأجمِعوا أمركم}: كلكم بحيث لا يتخلَّف منكم أحدٌ ولا تدَّخروا من مجهودكم شيئاً، {و} أحضروا {شركاءكم}: الذين كنتم تعبدونهم وتوالونهم من دون الله ربِّ العالمين، {ثم لا يكُنْ أمرُكم عليكم غُمَّةً}؛ أي: مشتبهاً خفيًّا، بل ليكنْ ذلك ظاهراً علانيةً. {ثم اقضوا إليَّ}؛ أي: اقضوا عليَّ بالعقوبة والسوء الذي في إمكانكم، {ولا تنظرون}؛ أي: لا تمهلوني ساعةً من نهار.
فهذا برهانٌ قاطعٌ وآيةٌ عظيمةٌ على صحة رسالته وصدق ما جاء به؛ حيث كان وحده لا عشيرة تحميه ولا جنود تؤويه، وقد بَادَى قومه بتسفيه آرائهم وفساد دينهم وعَيْب آلهتهم، وقد حملوا من بغضه وعداوته ما هو أعظم من الجبال الرواسي، وهم أهل القدرة والسطوة، وهو يقولُ لهم: اجتمعوا أنتم وشركاؤكم ومن استطعتم، وأبدوا كلَّ ما تقدرون عليه من الكيد، فأوقعوا بي إن قدرتُم على ذلك، فلم يقدروا على شيءٍ من ذلك، فعُلِمَ أنه الصادق حقًّا، وهم الكاذبون فيما يدعون.
[71] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمدe سے فرماتا ہے:
﴿ وَاتْلُ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور ان کو سنایئے‘‘ یعنی اپنی قوم کے سامنے تلاوت کر دیجیے
﴿ نَبَاَ نُوْحٍ﴾ ’’نوح کا حال‘‘ یعنی جناب نوحu کی دعوت کا حال، جو انھوں نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی تھی وہ ایک طویل مدت تک ان کو دعوت دیتے رہے۔ پس وہ اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس برس تک رہے مگر ان کی دعوت نے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کیا اور وہ آپ کی دعوت سے اکتا گئے اور سخت تنگ آگئے۔ نوحu نے ان کو دعوت دینے میں کسی سستی کا مظاہرہ کیا نہ کوتاہی کا، چنانچہ آپ ان سے کہتے رہے
﴿یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْكِیْرِیْ ﴾ ’’اے میری قوم! اگر بھاری ہوا ہے تم پر میرا کھڑا ہونا اور میرا نصیحت کرنا‘‘ یعنی میرا تمھارے پاس ٹھہرنا اور تمھیں وعظ و نصیحت کرنا جو تمھارے لیے فائدہ مند ہے
﴿ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی آیتوں سے‘‘ یعنی واضح دلائل کے ذریعے سے اور یہ چیز تمھارے لیے بہت بڑی اور تم پر شاق گزرتی ہے اور تم مجھے نقصان پہنچانے یا دعوت حق کو ٹھکرانے کا ارادہ رکھتے ہو۔
﴿ فَ٘عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّؔلْتُ ﴾ ’’تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے‘‘ یعنی اس تمام شر کو دفع کرنے میں جو تم مجھے اور میری دعوت کو پہنچانا چاہتے ہو، میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ یہی توکل، میرا لشکر اور میرا تمام ساز و سامان ہے اور تم اپنے تمام تر سروسامان اور تعداد کے ساتھ جو کچھ کر سکتے ہو کر لو
﴿ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَؔكُمْ ﴾ ’’اب تم سب مل کر مقرر کرو اپنا کام‘‘ تم تمام لوگ اکٹھے ہو کر، کہ تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے، میرے خلاف جدوجہد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔
﴿ وَ شُ٘رَؔكَآءَكُمْ ﴾ ’’اور جمع کرو اپنے شریکوں کو‘‘ یعنی ان تمام شریکوں کو بلا لو، جن کی تم اللہ رب العالمین کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو اور انھیں تم اپنا والی و مددگار بناتے ہو۔
﴿ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُؔكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّؔةً ﴾ ’’پھر نہ رہے تم کو اپنے کام میں اشتباہ‘‘ یعنی اس بارے میں تمھارا معاملہ مشتبہ اور خفیہ نہ ہو بلکہ تمھارا معاملہ ظاہر اور علانیہ ہو۔
﴿ ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ ﴾ ’’پھر وہ کام میرے حق میں کر گزرو۔‘‘ یعنی میرے خلاف جو کچھ تمھارے بس میں ہے، سزا اور عقوبت کا فیصلہ سنا دو۔
﴿ وَلَا تُنْظِرُوْنِ ﴾ ’’اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘ یعنی تم مجھے دن کی ایک گھڑی کے لیے بھی مہلت نہ دو۔
یہ نوحu کی رسالت کی صحت اور آپ کے دین کی صداقت کی قطعی دلیل اور بہت بڑی نشانی ہے کیونکہ آپ تنہا تھے آپ کا کوئی قبیلہ تھا جو آپ کی حمایت کرتا نہ آپ کے پاس کوئی فوج تھی جو آپ کی حفاظت کرتی۔ حضرت نوح کی قوم نے اپنی حماقت انگیز آراء، فساد دین اور اپنے خود ساختہ معبودان کے عیوب کا پرچار کیا اور آپ کے ساتھ بغض اور عداوت کا مظاہرہ کیا جو پہاڑوں اور چٹانوں سے زیادہ سخت تھی وہ مشرکین قدرت اور سطوت رکھنے والے لوگ تھے۔ نوحu نے ان سے فرمایا ’’تم، تمھارے گھڑے ہوئے شریک اور جن کو تم بلانے کی استطاعت رکھتے ہو، سب اکٹھے ہو جاؤ اور میرے خلاف جو چال تم چل سکتے ہو اگر قدرت رکھتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔‘‘ پس وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ تب معلوم ہوا کہ حضرت نوحu سچے اور وہ اپنی دھمکیوں میں جھوٹے تھے۔
#
{72} ولهذا قال: {فإن تولَّيْتم}: عن ما دعوتكم إليه؛ فلا موجب لتولِّيكم؛ لأنه تبيَّن أنكم لا تولون عن باطل إلى حقٍّ، وإنما تولُّون عن حقٍّ قامت الأدلَّة على صحته إلى باطل قامت الأدلَّة على فساده، ومع هذا؛ {فما سألتكم من أجرٍ}: على دعوتي وعلى إجابتكم، فتقولوا: هذا جاءنا ليأخذ أموالنا فتمتنعون لأجل ذلك. {إن أجري إلاَّ على الله}؛ أي: لا أريدُ الثواب والجزاء إلا منه، {و} أيضاً؛ فإني ما أمرتكم بأمر وأخالفكم إلى ضدِّه. بل {أمِرْتُ أن أكون من المسلمين}: فأنا أولُ داخل وأولُ فاعل لما أمرتكم به.
[72] اس لیے فرمایا:
﴿ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ ﴾ ’’پس اگر تم میری دعوت سے منہ موڑتے ہو‘‘ اور اس کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ بات تمھارے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ تم باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس تم تو حق سے منہ موڑ کر باطل کی طرف جا رہے ہو جس کے فاسد ہونے پر دلائل قائم ہو چکے ہیں۔ بایں ہمہ
﴿ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ﴾ ’’میں نے تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگا۔‘‘ یعنی میں اپنی دعوت اور تمھاری لبیک پر تم سے کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتا تاکہ تم میرے بارے میں یہ نہ کہتے پھرو کہ یہ تو ہمارے مال ہتھیانے کے لیے آیا ہے اور اسی وجہ سے ہم اس کی دعوت قبول نہیں کرتے۔
﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ﴾ ’’میرا معاوضہ تو اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ثواب اور اجر کا طلب گار نہیں ۔
﴿ وَ ﴾ نیز میں تمھیں کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس کی مخالفت کر کے اس کی متضاد بات پر عمل کروں بلکہ
﴿ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’مجھے حکم ہے کہ میں فرماں بردار رہوں ‘‘ پس جن امور کا میں تمھیں حکم دیتا ہوں سب سے پہلے میں خود ان میں داخل ہوتا ہوں اور سب سے پہلے میں خود اس پر عمل کرتا ہوں ۔
#
{73} {فكذَّبوه}: بعدما دعاهم ليلاً ونهاراً وسرًّا وجهاراً فلم يزِدْهم دعاؤه إلا فراراً. {فنجَّيْناه ومن معه في الفلك}: الذي أمرناه أن يصنعه بأعيننا، وقلنا له: إذا فار التنُّور؛ فاحمل فيها من كلٍّ زوجين اثنين، وأهلَك؛ إلاَّ مَن سَبَقَ عليه القول، ومَنْ آمن، ففعل ذلك، فأمر الله السماء بماءٍ منهمرٍ، وفجَّر الأرض عيوناً فالتقى الماء على أمرٍ قد قُدِرَ، وحملناهُ على ذاتِ ألواح ودُسُر، تجري بأعيننا. {وجعلناهم خلائف}: في الأرض بعد إهلاك المكذِّبين، ثم بارك الله في ذرِّيَّته وجعل ذريته هم الباقين، ونشرهم في أقطار الأرض، {وأغرقنا الذين كذبوا بآياتنا}: بعد ذلك البيان وإقامة البرهان. {فانظرْ كيف كان عاقبةُ المنذَرين}: وهو الهلاك المخزي واللعنة المتتابعة عليهم في كلِّ قرنٍ يأتي بعدهم، لا تسمع فيهم إلا لوماً، ولا ترى إلا قدحاً وذمًّا؛ فليحذر هؤلاء المكذِّبون أن يحلَّ بهم ما حلَّ بأولئك الأقوام المكذِّبين من الهلاك والخزي والنَّكال.
[73] ﴿ فَكَذَّبُوْهُ﴾ ’’پس انھوں نے نوح کو جھٹلایا‘‘ حضرت نوحu نے ان کو شب و روز اور کھلے چھپے دعوت دی مگر آپ کی دعوت نے ان کے فرار میں اضافہ کے سوا کچھ نہ کیا
﴿ فَنَجَّیْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ ﴾ ’’پس ہم نے نجات دی اس کو اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے‘‘ یعنی وہ کشتی جس کے بارے میں ہم نے حضرت نوحu کو حکم دیا تھا کہ وہ اسے ہماری آنکھوں کے سامنے بنائیں ۔ جب تنور سے پانی ابل پڑا تو ہم نے انھیں حکم دیا
﴿ احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُ٘لٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ﴾ (ھود:11؍40) ’’ہر قسم کے جانوروں میں سے جوڑا جوڑا لے لو اور اپنے گھر والوں کو، سوائے اس کے جس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کو بھی ساتھ لے لینا جو ایمان لا چکا ہو۔‘‘ چنانچہ نوحu نے ایسا ہی کیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان کو حکم دیا اس نے زور دار مینہ برسایا اور زمین کے چشمے ابل پڑے اور پانی اس کام کے لیے جمع ہو چکا تھا جس کے بارے میں فیصلہ ہو چکا تھا
﴿ وَحَمَلْنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ﴾ (القمر: 54؍13) ’’اور ہم نے نوح کو ایک ایسی کشتی میں سوار کیا جو تختوں اور میخوں سے بنائی گئی تھی۔‘‘ جو ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔
﴿ وَجَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓىِٕفَ﴾ ’’اور ہم نے انھیں خلیفہ بنایا۔‘‘ یعنی جھٹلانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے انھیں زمین میں جانشین بنایا، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحu کی نسل میں برکت ڈالی اور ان کی نسل ہی کو باقی رکھا اور ان کو زمین کے کناروں تک پھیلا دیا۔
﴿ وَاَغْ٘رَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا﴾ ’’اور ہم نے ان کو غرق کر دیا جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا‘‘ یعنی جنھوں نے واضح کر دینے اور دلیل قائم کر دینے کے بعد بھی ہماری آیات کی تکذیب کی
﴿ فَانْظُرْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ ﴾ ’’پس دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جن کو ڈرایا گیا تھا۔‘‘ ان کا انجام رسوا کن ہلاکت تھی اور مسلسل لعنت تھی جو ہر زمانے میں ان کا پیچھا کرتی رہی، آپ ان کے بارے میں صرف حرف ملامت ہی سنیں گے اور ان کے بارے میں برائی اور مذمت کے سوا کچھ نہیں دیکھیں گے... پس ان جھٹلانے والوں کو اس عذاب سے ڈرنا چاہیے جو انبیا و رسل کو جھٹلانے والی ان قوموں پر ہلاکت انگیز اور رسوا کن عذاب نازل ہوا تھا۔
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ (74)}.
پھر بھیجے ہم نے بعد نوح کے کئی رسول طرف ان کی قوموں کے، پس آئے وہ ان کے پاس ساتھ واضح دلیلوں کے، سو نہ ہوئے وہ کہ ایمان لے آتے ساتھ اس چیز کے کہ جھٹلا چکے تھے وہ اسے پہلے، اسی طرح ہم مہر لگا دیتے ہیں دلوں پر حد سے تجاوز کرنے والوں کے
(74)
#
{74} أي: ثم بعثنا من بعد نوح عليه السلام، {رسلاً إلى قومِهم}: المكذِّبين يدعونهم إلى الهدى ويحذِّرونهم من أسباب الرَّدى، {فجاؤوهم بالبيِّنات}؛ أي: كل نبي أيدَّ دعوته بالآيات الدالَّة على صحة ما جاء به. {فما كانوا ليؤمنوا بما كذَّبوا به من قبلُ}؛ يعني: أن الله تعالى عاقبهم حيث جاءهم الرسول فبادروا بتكذيبه، طبع الله على قلوبهم، وحال بينهم وبين الإيمان بعد أن كانوا متمكِّنين منه؛ كما قال تعالى: {ونقلِّبُ أفئِدَتَهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أولَ مرَّةٍ}. ولهذا قال هنا: {كذلك نطبعُ على قلوب المعتدين}؛ أي: نختم عليها فلا يدخلها خيرٌ، وما ظلمهم الله، ولكنَّهم ظلموا أنفسهم بردِّهم الحقَّ لما جاءهم وتكذيبهم الأول.
[74] ﴿ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ ﴾ ’’پھر بھیجے ہم نے اس کے بعد‘‘ یعنی نوحu کے بعد
﴿ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ ﴾ ’’کئی پیغمبر ان کی قوموں کی طرف‘‘ یعنی جھٹلانے والوں کی طرف، جو ان کو ہدایت کی طرف بلاتے تھے اور انھیں ہلاکت کے اسباب سے ڈراتے تھے۔
﴿ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’پس وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے‘‘ یعنی ہر نبی نے اپنی دعوت کی تائید میں ایسے دلائل پیش کیے، جو ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتے تھے۔
﴿ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ﴾ ’’پس ان سے یہ نہ ہوا کہ وہ اس بات پر ایمان لے آئیں جسے وہ اس سے پہلے جھٹلا چکے تھے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت سزا دی جب ان کے پاس رسول آیا اور انھوں نے اس کی تکذیب میں جلدی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور وہ ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگیا۔ وہ اس سے قبل ایمان لانے پر متمکن تھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام: 6؍110) ’’ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے اور جس طرح وہ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے،
نشانیاں آنے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ بنابریں یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ نَ٘طْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ ’’اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ۔‘‘ پس ان کے دلوں میں کسی قسم کی بھلائی داخل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود ہی حق کو ٹھکرا کر... جب حق ان کے پاس آیا اور اس کو اولین مرتبہ جھٹلا کر... اپنی جانوں پر ظلم کیا۔
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَى وَهَارُونَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ (75) فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ هَذَا لَسِحْرٌ مُبِينٌ (76) قَالَ مُوسَى أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ أَسِحْرٌ هَذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ (77) قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ (78) وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ (79) فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَى أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ (80) فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ (81) وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (82) فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَى خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَنْ يَفْتِنَهُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ (83) وَقَالَ مُوسَى يَاقَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ (84) فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (85) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (86) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (87) وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (88) قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (89) وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (90) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (91) فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (92) وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّى جَاءَهُمُ الْعِلْمُ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (93)}.
پھر بھیجا ہم نے بعد ان کے موسیٰ اور ہارون کو طرف فرعون اور اس
(کی قوم) کے سرداروں کی، ساتھ اپنی آیتوں کے، پس تکبر کیا انھوں نے اور تھے وہ لوگ مجرم
(75) پھر جب آگیا ان کے پاس حق ہماری طرف سے تو کہا انھوں نے ، بلاشبہ یہ تو جادو ہے ظاہر
(76) کہا موسیٰ نے، کیا تم کہتے ہو
(یہ) واسطے حق کے جبکہ وہ آیا تمھارے پاس؟ کیا جادو ہے یہ؟ حالانکہ نہیں فلاح پاتے جادوگر
(77) کہا انھوں نے، کیا آیا ہے تو ہمارے پاس کہ پھیر دے ہمیں اس
(طریقے) سے کہ پایا ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کواور ہو واسطے تم دونوں کے بڑائی زمین میں ؟ اور نہیں ہیں ہم تم دونوں پر ایمان لانے والے
(78) اور کہا فرعون نے، لے آؤ تم میرے پاس ہرجادوگر ماہر کو
(79) پس جب آگئے تمام جادوگر تو کہا ان سے موسیٰ نے، ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو
(80) سو جب انھوں نے ڈالا تو کہا موسیٰ نے ، وہ چیز کہ لائے ہو تم اس کو، جادو ہے۔ بلاشبہ اللہ عنقریب باطل کردے گا اسے، بے شک اللہ ، نہیں سنوارتا کام فساد کرنے والوں کا
(81) اور ثابت کرتا ہے اللہ حق کو ساتھ اپنے کلمات کے، اگرچہ ناپسند کریں مجرم لوگ
(82)پس نہ ایمان لائے موسیٰ پر مگر کچھ لوگ اس کی قوم میں سے، ڈرتے ہوئے فرعون سے اور اس کے درباریوں سے
(اس اندیشے سے) کہ فتنے میں ڈالے وہ ان کو،اور بلاشبہ فرعون ، البتہ سرکشی کرنے والا تھا زمین
(مصر) میں اور بے شک وہ ، البتہ حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا
(83)اور کہا موسیٰ نے، میری قوم! اگر ہو تم ایمان لائے ساتھ اللہ کے تو اسی پر توکل کرو تم اگر ہو تم فرماں بردار
(84) پس کہا انھوں نے ، اوپر اللہ ہی کے توکل کیا ہم نے، اے ہمارے رب! نہ بنا تو ہمیں فتنہ واسطے ظالم قوم کے
(85) اور تو نجات دے ہمیں ساتھ اپنی رحمت کے کافر قوم سے
(86) اور وحی کی ہم نے طرف موسیٰ اور اس کے بھائی کی، یہ کہ بناؤ تم واسطے اپنی قوم کے مصر میں کچھ گھراور بناؤ تم اپنے گھروں کو قبلہ اورقائم کرو نمازاورخوش خبری دے دیجیے مومنوں کو
(87)اور کہا موسیٰ نے، اے ہمارے رب! بے شک تو نے دی فرعون اور اس
(کی قوم) کے سرداروں کو زینت اورمال زندگانیٔ دنیا میں ، اے ہمارے رب! تاکہ وہ گمراہ کریں تیری راہ سے، اے ہمارے رب! مٹا دے مال ان کے اور سخت کردے دل ان کے، پس نہ ایمان لائیں وہ یہاں تک کہ دیکھ لیں وہ عذاب درد ناک
(88)اللہ نے کہا، تحقیق قبول کرلی گئی ہے دعا تمھاری، سو ثابت قدم رہو تم دونوں اور مت پیروی کرو راستے کی ان لوگوں کے جو نہیں علم رکھتے
(89) اور پار کر دیا ہم نے بنی اسرائیل سمندر سے، پھر تعاقب کیا ان کا فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اورظلم و زیادتی کرتے ہوئے، یہاں تک کہ جب پا لیا اس کو غرقابی نے تو کہا فرعون نے ، ایمان لایا میں
(ساتھ اس بات) کہ بلاشبہ نہیں کوئی معبود سوائے اس ذات کے کہ ایمان لائے ہیں ساتھ اس کے بنو اسرائیل اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں
(90) (اللہ نے فرمایا) کیا اب
(ایمان لایا ہے؟) جبکہ تو نافرمان تھا پہلےاور تھا تو فساد کرنے والوں میں سے
(91) پس آج نجات دیں گے
(باہر نکال پھینکیں گے) ہم تجھے
(سمندر سے) تیر ے بدن سمیت تاکہ ہو تو واسطے ان کے جو تیرے پیچھے
(آنے والے) ہیں ، نشانی۔ اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے ، البتہ غافل ہیں
(92)اور البتہ تحقیق ٹھکانا دیا ہم نے بنی اسرائیل کو ٹھکانا اچھا اور رزق دیاہم نے انھیں پاکیزہ چیزوں سے، پھر نہ اختلاف کیا انھوں نے یہاں تک کہ آگیا ان کے پاس علم، بلاشبہ آپ کا رب فیصلہ کرے گا درمیان ان کے دن قیامت کے، اس چیز میں کہ تھے وہ اس میں اختلاف کرتے
(93)
#
{75} أي: ثم بعثْنا من بعد هؤلاء الرسل الذين أرسلهم الله إلى القوم المكذِّبين المهلَكين {موسى}: ابن عمران كليم الرحمن أحد أولي العزم من المرسلين وأحد الكبار المقتدى بهم المنزَّل عليهم الشرائع المعظَّمة الواسعة. {و} جعلنا معه أخاه {هارون} وزيراً. بعثناهما {إلى فرعون ومَلَئِهِ}؛ أي: كبار دولته ورؤسائهم؛ لأنَّ عامتهم تَبَعٌ للرؤساء، {بآياتنا}: الدالة على صدق ما جاء به من توحيد الله والنهي عن عبادة ما سوى الله تعالى. {فاستكبروا}: عنها ظلماً وعلوًّا بعدما استيقنوها، {وكانوا قوماً مجرِمين}؛ أي: وصفهم الإجرام والتكذيب.
[75] ﴿ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ ’’پھر ان کے بعد ہم نے بھیجا۔‘‘ یعنی ان رسولوں کے بعد جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان قوموں کی طرف مبعوث فرمایا جنھوں نے رسولوں کی تکذیب کی اور ہلاک ہوگئے۔
﴿ مُّوْسٰؔى﴾ اللہ رحمن کے کلیم موسیٰ بن عمرانu کو، جو ایک اولوالعزم رسول تھے۔ ان کا شمار بڑے بڑے رسولوں میں کیا جاتا ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے جن پر شریعت کے بڑے بڑے احکام نازل کیے گئے۔
﴿ وَهٰؔرُوْنَ﴾ اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارونu کو ان کا وزیر بنایا اور ان دونوں کو مبعوث کیا۔
﴿ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡؔىِٕهٖ﴾ ’’فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔‘‘ یعنی فرعون، اس کے اکابرین اور رؤسا سلطنت کی طرف کیونکہ عوام رؤسا کے تابع ہوتے ہیں
﴿ بِاٰیٰتِنَا﴾ ’’اپنی نشانیوں کے ساتھ۔‘‘ ان کو ایسی آیات کے ساتھ مبعوث کیا جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں جنھیں یہ دونوں رسول لے کر آئے تھے، یعنی توحید الٰہی اور غیر اللہ کی عبادت سے ممانعت۔
﴿ فَاسْتَكْبَرُوْا﴾ ’’پس انھوں نے تکبر کیا۔‘‘ یعنی انھوں نے ان آیات کو دل میں مان لینے کے بعد ظلم کی بنا پر ان سے تکبر کیا
﴿ وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ﴾ ’’اور وہ گناہ گار لوگ تھے‘‘ یعنی جرم اور تکذیب کا ارتکاب ان کا وصف تھا۔
#
{76} {فلما جاءهم الحقُّ من عندنا}: الذي هو أكبر أنواع الحقِّ وأعظمُها، وهو من عند الله، الذي خضعت لعظمته الرقاب، وهو ربُّ العالمين المربِّي جميع خلقه بالنعم، فلما جاءهم الحقُّ من عند الله على يد موسى؛ ردُّوه فلم يقبلوه، و {قالوا إنَّ هذا لسحرٌ مبينٌ}: لم يكفهم قبحهم الله إعراضهم ولا ردُّهم إياه، حتى جعلوه أبطل الباطل، وهو السحر الذي حقيقته التمويه، بل جعلوه سحراً مبيناً ظاهراً، وهو الحقُّ المبين.
[76] ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ﴾ ’’پس جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا‘‘ جو حق کی تمام انواع میں سب سے بڑی نوع ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس کی عظمت کے سامنے سب سرافگندہ ہو جاتے ہیں اور وہ ہے اللہ رب العالمین، جو نعمتوں کے ذریعے سے اپنی تمام مخلوق کا مربی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسیٰu کے ہاتھ پر حق آیا تو انھوں نے اس کو ٹھکرا دیا اور قبول نہ کیا۔
﴿ قَالُوْۤا اِنَّ هٰؔذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور کہا، یہ تو کھلا جادو ہے‘‘ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انھوں نے یہی کافی نہیں سمجھا کہ انھوں نے حق سے اعراض کیا اور اس کو رد کر دیا... بلکہ انھوں نے اس حق کو سب سے بڑا باطل، یعنی جادو قرار دے دیا جس کی حقیقت صرف ملمع سازی ہے... بلکہ انھوں نے اسے کھلا جادو قرار دے دیا... حالانکہ وہ واضح حق ہے۔
#
{77} ولهذا {قال} لهم {موسى} موبخاً لهم عن ردِّهم الحقَّ الذي لا يردُّه إلا أظلم الناس: {أتقولون للحقِّ لما جاءكم}؛ أي: أتقولون: إنَّه سحرٌ مبينٌ. {أسحرٌ هذا}؛ أي: فانظروا وصفه وما اشتمل عليه؛ فبمجرَّد ذلك يجزم بأنه الحق، {ولا يفلح الساحرون}: لا في الدنيا ولا في الآخرة؛ فانظروا لمن تكون له العاقبة، ولمن له الفلاحُ وعلى يديه النجاحُ، وقد علموا بعد ذلك وظهر لكلِّ أحدٍ أن موسى عليه السلام هو الذي أفلح، وفاز بظَفَر الدُّنيا والآخرة.
[77] اس لیے حضرت موسیٰu نے... ان کے حق ٹھکرانے پر کہ جسے لوگوں میں سب سے بڑا ظالم شخص ہی ٹھکراتا ہے...
ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْ﴾ ’’کیا تم یہ کہتے ہو حق کو، جب وہ تمھارے پاس آیا‘‘ یعنی کیا تم حق کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ کھلا جادو ہے
﴿ اَسِحْرٌ هٰؔذَا﴾ ’’کیا یہ جادو ہے؟‘‘ یعنی اس کے اوصاف میں غور کرو کہ وہ کس چیز پر مشتمل ہے۔ مجرد اسی کے ذریعے سے قطعی طور پر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ حق ہے۔
﴿ وَلَا یُفْ٘لِحُ السّٰؔحِرُوْنَ﴾ ’’اور جادوگر فلاح نہیں پاتے۔‘‘ یعنی جادوگر دنیا میں فلاح پاتے ہیں نہ آخرت میں ۔ پس غور کرو کہ انجام کس کا اچھا ہے، کس کے لیے فلاح ہے اور کس کے ہاتھ پر کامیابی ہے۔ اس کے بعد انھیں معلوم ہوگیا اور ہر ایک پر عیاں ہوگیا کہ وہ موسیٰu تھے جنھوں نے فلاح پائی اور دنیا و آخرت میں ظفریاب ہوئے۔
#
{78} {قالوا} لموسى رادِّين لقوله بما لا يرد به: {أجئتنا لِتَلْفِتَنا عمَّا وَجَدْنا عليه آباءنا}؛ أي: أجئتنا لتصدَّنا عما وَجَدْنا عليه آباءنا من الشرك وعبادة غير الله وتأمرنا بأن نعبد الله وحده لا شريك له؛ فجعلوا قول آبائهم الضالين حجَّة يردُّون بها الحقَّ الذي جاءهم به موسى عليه السلام. وقوله: {وتكون لكما الكبرياءُ في الأرض}؛ أي: وجئتمونا لتكونوا أنتم الرؤساء ولتخرِجونا من أراضينا؟ وهذا تمويهٌ منهم وترويجٌ على جهالهم وتهييجٌ لعوامِّهم على معاداة موسى وعدم الإيمان به، وهذا لا يحتجُّ به من عرف الحقائق وميَّز بين الأمور؛ فإنَّ الحجج لا تُدفَعُ إلا بالحجج والبراهين، وأما من جاء بالحقِّ؛ فَرُدَّ قوله بأمثال هذه الأمور؛ فإنها تدلُّ على عجز موردها عن الإتيان بما يردُّ القول الذي جاء به خصمه؛ لأنه لو كان له حجَّة؛ لأوردها، ولم يلجأ إلى قوله: قصدك كذا أو مرادك كذا، سواء كان صادقاً في قوله وإخباره عن قصد خصمه أم كاذباً، مع أنَّ موسى عليه الصلاة والسلام كلُّ من عرف حاله وما يدعو إليه؛ عرف أنه ليس له قصدٌ في العلو في الأرض، وإنما قصده كقصد إخوانه المرسلين، هداية الخلق وإرشادهم لما فيه نفعهم. ولكن حقيقة الأمر كما نطقوا به بقولهم: {وما نحن لكما بمؤمنين}؛ أي: تكبُّراً وعناداً، لا لبطلان ما جاء به موسى وهارون، ولا لاشتباهٍ فيه، ولا لغير ذلك من المعاني سوى الظلم والعدوان وإرادة العلوِّ الذي رموا به موسى وهارون.
[78] ﴿ قَالُوْۤا﴾ انھوں نے موسیٰu کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا:
﴿ اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّؔا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا﴾ ’’کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو تاکہ تم ہمیں اس دین سے روک دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘ مثلاً: شرک اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ اور تم ہمیں حکم دیتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں چنانچہ انھوں نے اپنے گمراہ باپ دادا کے قول کو حجت بنا لیا جس کی بنیاد پر انھوں نے اس حق کو ٹھکرا دیا جسے موسیٰu لے کر آئے تھے۔
﴿وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے۔‘‘ یعنی تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو تاکہ تم سردار بن جاؤ اور تم ہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہر کرو۔ یہ ان کی طرف سے خلاف حقیقت بات اور جہالت کی حوصلہ افزائی ہے۔ نیز ان کا مقصد عوام کو موسیٰu کی عداوت پر ابھارنا اور ان پر ایمان لانے سے گریز کرنا ہے۔
جو شخص حقائق کو سمجھتا اور معاملات کی خامی اور خوبی میں امتیاز کر سکتا ہے وہ ان کی اس بات کو قابل حجت اور قابل اعتنا خیال نہیں کرتا کیونکہ دلائل کا رد دلائل اور براہین ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے لیکن جو شخص حق پیش کرتا ہے اور اس کی بات کو اس قسم کے اقوال سے رد کر دیا جائے تو یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رد کرنے والا ایسی دلیل لانے سے عاجز ہے جو مدمقابل کے قول کو رد کر دے کیونکہ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور پیش کرتا اور اپنے مدمقابل کو یہ نہ کہتا ’’تیرا مقصد یہ ہے‘‘ اور ’’تیری مراد وہ ہے‘‘ خواہ وہ اپنے مدمقابل کے مقصد اور مراد کے بارے میں خبر دینے میں سچا ہے یا جھوٹا... تاہم اس کے باوجود جو کوئی حضرت موسیٰu کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ موسیٰu کا مقصد زمین میں تغلب نہ تھا۔ ان کا مقصد تو وہی تھا جو دیگر انبیاء و مرسلین کا تھا... یعنی مخلوق کی ہدایت اور ان کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرنا جو ان کے لیے فائدہ مند ہیں ۔ حقیقت دراصل یہ ہے جیسا کہ خود انھوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا
﴿ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے‘‘ یعنی انھوں نے تکبر اور عناد کی وجہ سے یہ کہا تھا ’’ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ جناب موسیٰ اور ہارونu نے جو دعوت پیش کی تھی وہ باطل تھی اور اس کی وجہ یہ بھی نہ تھی کہ اس میں یا اس کے معانی وغیرہ میں کوئی اشتباہ تھا۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی اور ارادۂ تغلب کے سوا کچھ نہ تھا جس کا الزام وہ موسیٰu پر لگا رہے تھے۔
#
{79} {وقال فرعون}؛ معارضاً للحقِّ الذي جاء به موسى ومغالباً لملئِهِ وقومه: {ائتوني بكلِّ ساحر عليم}؛ أي: ماهر بالسحر متقن له. فأرسل في مدائن مصر من أتاه بأنواع السَّحرة على اختلاف أجناسهم وطبقاتهم.
[79] ﴿ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ ’’اور فرعون نے کہا۔‘‘ یعنی فرعون نے موسیٰu کی لائی ہوئی دعوت حق کی مخالفت،
اپنے سرداروں اور اپنی قوم کے لیے غلبہ کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ﴿ ائْتُوْنِیْ بِكُ٘لِّ سٰؔحِرٍ عَلِیْمٍ﴾ ’’سب ماہر فن جادوگروں کو ہمارے پاس لے آؤ۔‘‘ یعنی ہر ماہر اور پختہ جادوگر کو میری خدمت میں حاضر کرو۔ اس نے مصر کے شہروں میں ہرکارے دوڑائے تاکہ وہ مختلف قسم کے جادوگروں کو اس کے پاس لے کر آئیں ۔
#
{80} {فلما جاء السحرة}: للمغالبة لموسى ، {قال لهم موسى ألقوا ما أنتم ملقون}؛ أي: أيَّ شيء أردتم، لا أعيِّن لكم شيئاً، وذلك لأنَّه جازمٌ بغلبتِهِ غير مبالٍ بهم وبما جاؤوا به.
[80] ﴿ فَلَمَّؔا جَآءَ السَّحَرَةُ﴾ ’’پس جب جادو گر آئے‘‘ یعنی موسیٰu کا مقابلہ کرنے کے لیے
﴿ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْ٘قُوْنَ﴾ ’’تو ان سے موسیٰ نے کہا، ڈالو جو تم ڈالتے ہو۔‘‘ یعنی تم وہی کرو جو تم ارادہ رکھتے ہو میں تمھارے لیے کچھ مقرر نہیں کروں گا... اور ایسا کہنے کی وجہ یہ تھی کہ موسیٰu کو ان پر غالب آنے کا پورا یقین تھا، اس لیے ان کو اس بات کی پروا نہ تھی کہ وہ جادو کا کون سا کرتب دکھاتے ہیں ۔
#
{81} {فلما ألقوا}: حبالَهم وعصيَّهم إذا هي كأنها حيَّاتٌ تسعى، فقال {موسى ما جئتم به السحر}؛ أي: هذا السحر الحقيقي العظيم، ولكن مع عظمته {إنَّ الله سيبطِلُه إنَّ الله لا يُصْلِحُ عمل المفسدين}؛ فإنَّهم يريدون بذلك نصر الباطل على الحق، وأيُّ فساد أعظم من هذا؟! وهكذا كل مفسد عمل عملاً واحتال كيداً أو أتى بمكرٍ؛ فإنَّ عملَه سيبطُل ويضمحلُّ، وإن حصل لعمله روجان في وقت ما؛ فإن مآله الاضمحلال والمَحْق، وأما المصلحون الذين قصدُهم بأعمالهم وجهُ الله تعالى، وهي أعمال ووسائل نافعةٌ مأمورٌ بها؛ فإنَّ الله يصلحُ أعمالهم ويرقِّيها ويُنَمِّيها على الدوام.
[81] ﴿فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا﴾ ’’پس جب انھوں نے ڈالا۔‘‘ یعنی جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو یوں لگا جیسے دوڑتے ہوئے سانپ ہوں ۔
﴿ قَالَ مُوْسٰؔى مَا جِئْتُمْ بِهِ١ۙ السِّحْرُ ﴾ ’’موسیٰ نے کہا جو تم نے پیش کیا ہے، وہ جادو ہے‘‘ یعنی یہ بہت بڑا اور حقیقی جادو ہے۔ مگر اس جادو کے بڑے ہونے کے باوجود
﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَیُبْطِلُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ ’’اللہ اسے باطل کر دے گا، یقینا اللہ شریروں کے کام کو نہیں سنوارتا۔‘‘ کیونکہ وہ اس کے ذریعے سے حق کے خلاف باطل کی مدد کرنا چاہتے تھے اور اس سے بڑا اور کون سا فساد ہو سکتا ہے؟ اسی طرح ہر مفسد جب کوئی کام کرتا ہے یا کوئی چال چلتا ہے یا حق کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے تو اس کا عمل باطل ہو کر زائل ہو جاتا ہے ہر چند کہ کسی وقت مفسد کا عمل رائج ہو جاتا ہے مگر مآل کار اسے مٹنا اور زائل ہونا ہے۔ رہے اصلاح کار تو ان کے اعمال میں ان کا مقصد، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ اعمال و وسائل فائدہ مند ہیں اور ان اعمال کا ان کو حکم دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان میں ترقی عطا کرتا ہے اور ان کو ہمیشہ نشوونما دیتا رہتا ہے۔
#
{82} فألقى موسى عصاه، فتلقَّفت جميع ما صنعوا، فبطل سِحْرُهم، واضمحلَّ باطلهم. {و} أحقَّ {اللهُ الحقَّ بكلماته ولو كره المجرمون}: فألقي السحرة حين تبيَّن لهم الحقُّ، فتوعَّدهم فرعون بالصلب وتقطيع الأيدي والأرجل، فلم يبالوا بذلك، وثبتوا على إيمانهم.
[82] موسیٰu نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ان کے جادو کو نگلتا چلا گیا۔ پس ان کا جادو باطل اور ان کا باطل زائل ہو کر رہ گیا۔
﴿ وَیُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ﴾ ’’اور اللہ سچا کرتا ہے حق بات کو اپنے حکم سے، اگرچہ گناہ گاروں کو نا گوار ہو‘‘ جب جادوگروں کے سامنے حق واضح ہوگیا تو انھوں نے موسیٰu کے سامنے سر اطاعت خم کر دیا۔ فرعون نے ان کو سولی پر لٹکانے اور ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کی دھمکی دی مگر انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور وہ اپنے ایمان میں ثابت قدم رہے۔
#
{83} وأما فرعون ومَلَؤه وأتباعهم؛ فلم يؤمن منهم أحدٌ، بل استمرُّوا في طغيانهم يعمهون، ولهذا قال: {فما آمن لموسى إلا ذُرِّيَّةٌ من قومه}؛ أي: شباب من بني إسرائيل صبروا على الخوف لما ثبت في قلوبهم الإيمان، {على خوفٍ من فرعون ومَلَئِهم أن يفتِنَهم}: عن دينهم. {وإنَّ فرعونَ لعالٍ في الأرض}؛ أي: له القهر والغلبة فيها؛ فحقيقٌ بهم أن يخافوا من بطشته، {و} خصوصاً {إنه كان من المسرفين}؛ أي: المتجاوزين للحدِّ في البغي والعدوان. والحكمة ـ والله أعلم ـ بكونه ما آمن لموسى إلا ذُرِّيَّةٌ من قومه: أنَّ الذُّرِّيَّة والشباب أقبلُ للحقِّ وأسرع له انقياداً؛ بخلاف الشيوخ ونحوهم ممَّن تربَّى على الكفر؛ فإنهم بسبب ما مكث في قلوبهم من العقائد الفاسدة أبعد من الحقِّ من غيرهم.
[83] رہا فرعون،
اس کے اشراف قوم اور ان کے متبعین تو ان میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا بلکہ وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ﴾ ’’پس نہیں ایمان لایا موسیٰ پر مگر کچھ لڑکے اس کی قوم کے‘‘ یعنی بنی اسرائیل کے کچھ نوجوان ایمان لے آئے، جنھوں نے دلوں میں ایمان کے جاگزیں ہو جانے کی وجہ سے خوف کے مقابلے میں صبر سے کام لیا۔
﴿ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ﴾ ’’فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں ان کو آزمائش میں نہ ڈال دیں ‘‘ یعنی ان کے دین کے معاملے میں
﴿ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اور بے شک فرعون ملک میں متکبرو متغلب تھا۔‘‘ یعنی زمین میں فرعون کو غلبہ اور اقتدار حاصل تھا اس لیے وہ اس کی گرفت سے سخت خائف تھے۔
﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ خاص طور پر
﴿ اِنَّهٗ لَ٘مِنَ الْ٘مُسْرِفِیْنَ ﴾ ’’وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔‘‘ یعنی ظلم اور تعدی میں حد سے تجاوز کرنے والا تھا۔ موسیٰu پر ان کی قوم کے نوجوانوں کے ایمان لانے میں حکمت یہ ہے۔ واللہ اعلم... کہ حق کو نوجوان زیادہ قبول کرتے ہیں اور اس کی اطاعت میں زیادہ سرعت سے آگے بڑھتے ہیں ۔ اس کے برعکس بوڑھے جنھوں نے کفر میں پرورش پائی ہوتی ہے، ان کے دلوں میں چونکہ عقائد فاسدہ راسخ ہوتے ہیں ، اس وجہ سے وہ، دوسروں کی نسبت حق سے زیادہ دور ہوتے ہیں ۔
#
{84} {وقال موسى}: موصياً لقومه بالصبر، ومذكِّراً لهم ما يستعينون به على ذلك، فقال: {يا قوم إن كنتُم آمنتُم بالله}: فقوموا بوظيفة الإيمان، وعلى الله {توكَّلوا إن كنتُم مسلمينَ}؛ أي: اعتمدوا عليه والجؤوا إليه واستنصروه.
[84] ﴿ وَقَالَ مُوْسٰؔى﴾ موسیٰu نے اپنی قوم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اور ان امور کو اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے جو صبر میں مدد کرتے ہیں ،
کہا: ﴿ یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ ﴾ ’’اے میری قوم، اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر‘‘ تو وظیفۂ ایمان کو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
﴿ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ ﴾ ’’تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرو، اسی کی پناہ لو اور اسی سے مدد طلب کرو۔
#
{85} {فقالوا}: ممتثلين لذلك: {على الله توكَّلْنا ربَّنا لا تَجْعَلْنا فتنةً للقوم الظالمين}؛ أي: لا تسلطهم علينا فَيَفْتِنُونا أو يَغْلِبُونا، فَيُفْتَنُون بذلك، ويقولون: لو كانوا على حقٍّ لما غُلِبوا.
[85] ﴿ فَقَالُوْا﴾ تو انھوں نے موسیٰu کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کہا:
﴿ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا١ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْ٘قَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کی آزمائش کا نشانہ نہ بنانا‘‘ یعنی ظالموں کو ہم پر مسلط نہ کر کہ وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کریں یا وہ غالب آکر ہمیں آزمائش میں ڈالیں اور کہیں کہ اگر یہ لوگ حق پر ہوتے تو مغلوب نہ ہوتے۔
#
{86} {ونجِّنا برحمتك من القوم الكافرين}: لنسلم من شرِّهم ولنقيم على ديننا على وجهٍ نتمكَّن به من إقامة شرائعه وإظهاره من غير معارض ولا منازع.
[86] ﴿ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور ہمیں اپنی رحمت سے کافر قوم سے نجات عطا فرما۔‘‘ تاکہ ہم ان کے شر سے محفوظ ہو سکیں اور اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے شرعی احکام کو قائم اور بغیر کسی مخالفت اور نزاع کے ان کا اظہار کر سکیں ۔
#
{87} {وأوحينا إلى موسى وأخيه}: حين اشتدَّ الأمر على قومهما من فرعون وقومه وحرصوا على فتنتهم عن دينهم، {أن تبوَّآ لقومكما بمصر بيوتاً}؛ أي: مروهم أن يجعلوا لهم بيوتاً يتمكَّنون به من الاستخفاء فيها، {واجعلوا بيوتَكم قبلةً}؛ أي: اجعلوها محلاًّ تصلون فيها حيث عجزتم عن إقامة الصلاة في الكنائس والبيع العامَّة. {وأقيموا الصلاة}: فإنها معونةٌ على جميع الأمور، {وبشِّر المؤمنين}: بالنصر والتأييد وإظهار دينهم؛ فإن مع العسر يسراً، إن مع العسر يسراً. وحين اشتدَّ الكرب وضاق الأمر؛ فرَّجه الله ووسعه.
[87] ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰؔى وَاَخِیْهِ ﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی۔‘‘ جب فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے موسیٰ اور ہارونi کی قوم کے ساتھ معاملہ بہت سخت ہوگیا اور انھوں نے چاہا کہ وہ ان کو ان کے دین کے بارے میں آزمائش میں ڈالیں
﴿ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِـمِصْرَ بُیُوْتًا﴾ ’’کہ تم دونوں اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ۔‘‘ یعنی تم اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ مصر میں اپنے لیے کچھ گھر مقرر کر لیں جہاں وہ چھپ سکیں ۔
﴿وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً ﴾ ’’اور اپنے گھروں کو قبلہ
(یعنی مسجدیں ) ٹھہراؤ۔‘‘ یعنی جب تم کنیسوں اور عام عبادت گاہوں میں نماز ادا نہ کر سکو تو گھروں کو نماز کی جگہ بنا لو۔
﴿وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ﴾ ’’اورنماز قائم کرو‘‘ کیونکہ نماز تمام معاملات میں مدد کرتی ہے۔
﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مومنوں کو خوشخبری سنادو۔‘‘ یعنی اہل ایمان کو نصرت و تائید اور غلبۂ دین کی خوشخبری سنا دیجیے کیونکہ تنگی کے ساتھ آسانی اور آسانی کے ساتھ تنگی آتی ہے۔ جب تکلیف بڑھ جاتی ہے اور معاملہ تنگ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کشادہ کر دیتا ہے۔
#
{88} فلما رأى موسى القسوة والإعراض من فرعون وملئهم؛ دعا عليهم وأمَّن هارون على دعائه، فقال: {ربَّنا إنك آتيت فرعونَ وملأَهُ زينةً}: يتزينون بها من أنواع الحليِّ والثياب والبيوت المزخرفة والمراكب الفاخرة والخدام، {وأموالاً}: عظيمةً {في الحياة الدُّنيا ربَّنا لِيُضِلُّوا عن سبيلك}؛ أي: إن أموالهم لم يستعينوا بها إلاَّ على الإضلال في سبيلك فيَضِلُّون ويُضِلُّون. {ربَّنا اطمسْ على أموالهم}؛ أي: أتلفها عليهم إما بالهلاك وإما بجعلها حجارةً غير منتفع بها، {واشدُدْ على قلوبهم}؛ أي: قسِّها، {فلا يؤمنوا حتَّى يَرَوُا العذاب الأليم}: قال ذلك غضباً عليهم حيث تجرؤوا على محارم الله وأفسدوا عباد الله وصدُّوا عن سبيله، ولكمال معرفته بربِّه بأنَّ الله سيعاقبهم على ما فعلوا بإغلاق باب الإيمان عليهم.
[88] جب موسیٰu نے فرعون اور اس کے سرداران سلطنت کی قساوت اور روگردانی کے رویے کا مشاہدہ کیا تو ان کے لیے بددعا کی اور ہارونu نے اس پر آمین کہی، چنانچہ جناب موسیٰ نے دعا کی
﴿ رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِیْنَةً ﴾ ’’اے ہمارے رب! بے شک دی ہے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو زینت۔‘‘ یعنی وہ مختلف انواع کے زیورات، ملبوسات، سجے ہوئے گھر، اعلیٰ قسم کی سواریاں اور خدام وغیرہ، دنیاوی آرائشوں کو اپنے لیے زینت بناتے ہیں ۔
﴿وَّاَمْوَالًا﴾ اور بڑے بڑے مال
﴿ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِكَ﴾ ’’دنیا کی زندگی میں ، اے ہمارے رب تاکہ وہ تیرے راستے سے لوگوں کو بہکائیں ‘‘ یعنی وہ اپنے مال و دولت کو تیرے راستے سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، خود گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔
﴿رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ان کے مال کو برباد کردے۔‘‘ یعنی ان کے مال و دولت کو، تباہی کے ذریعے سے تلف کر دے یا اسے پتھر بنا دے جس سے یہ استفادہ نہ کر سکیں ۔
﴿ وَاشْدُدْ عَلٰى قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’اور ان کے دلوں کو سخت کر دے۔‘‘
﴿ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ﴾ ’’پس وہ نہ ایمان لائیں ، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں ‘‘ یہ بددعا انھوں نے سخت غصے کی وجہ سے کی تھی کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کی تھی، اللہ کے بندوں کو خراب کر کے ان کو اللہ کے راستے سے روک دیا تھا، نیز موسیٰu کو اپنے رب کی کامل معرفت حاصل تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایمان کا دروازہ بند کر کے ان کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دے گا۔
#
{89} {قال} الله تعالى: {قد أُجيبتْ دعوتُكما}: هذا دليلٌ على أن موسى يدعو وهارون يؤمِّن على دعائه، وإن الذي يؤمِّن يكون شريكاً للداعي في ذلك الدعاء. {فاستقيما}: على دينكما، واستمرَّا على دعوتكما، {ولا تتَّبِعانِّ سبيل الذين لا يعلمون}؛ أي: لا تتبعانِّ سبيل الجهَّال الضلاَّل، المنحرفين عن الصراط المستقيم، المتَّبعين لطرق الجحيم.
[89] ﴿ قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا ﴾ ’’اللہ نے فرمایا تمھاری دعا قبول ہوئی‘‘... آیت کریمہ میں تثنیہ کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ موسیٰu دعا کرتے جاتے تھے اور ہارونu آمین کہتے جاتے تھے اور وہ شخص جو دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہتا ہے، وہ دعا کرنے والے کی دعا میں شریک ہوتا ہے۔
﴿فَاسْتَقِیْمَا﴾ ’’پس دونوں ثابت قدم رہنا۔‘‘ یعنی دونوں اپنے دین پر ثابت قدم اور اپنی دعوت پر جمے رہو۔
﴿ وَلَا تَ٘تَّ٘بِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اور بے علم لوگوں کے راستے پر نہ چلنا۔‘‘ یعنی جہلاء کے راستے کی پیروی نہ کرو جنھوں نے صراط مستقیم سے انحراف کر کے جہنم کا راستہ اختیار کیا۔
#
{90} فأمر الله موسى أن يسري ببني إسرائيل ليلاً، وأخبره أنهم سَيَتَّبِعُونه ، وأرسل فرعونُ في المدائن حاشرين يقولون: إنَّ هؤلاء ـ أي: موسى وقومه ـ لشرذِمَةٌ قليلون. وإنَّهم لنا لغائظونَ. وإنا لجميعٌ حاذرونَ. فجمع جنودَه قاصيهم ودانيهم، فأتبعهم بجنوده بغياً وعدواً؛ أي: خروجهم باغين على موسى وقومه ومعتدين في الأرض، وإذا اشتدَّ البغي واستحكم الذنبُ؛ فانتظِر العقوبةَ. {وجاوزنا ببني إسرائيل البحر}: وذلك أنَّ الله أوحى إلى موسى لما وصل البحر أن يضرِبَه بعصاه، فضربه، فانفلق اثني عشر طريقاً، وسلكه بنو إسرائيل، وساق فرعون وجنودهم خلفهم داخلين، فلما استكمل موسى وقومُه خارجين من البحر وفرعونُ وجنودُه داخلين فيه؛ أمر الله البحر، فالتطم على فرعون وجنوده، فأغرقَهم وبنو إسرائيل ينظُرون، حتى إذا أدرك فرعونَ الغرقُ وجزم بهلاكه؛ {قال آمنتُ أنَّه لا إله إلاَّ الذي آمنتْ به بنو إسرائيلَ}: وهو الله الإله الحقُّ الذي لا إله إلا هو، {وأنا من المسلمينَ}؛ أي: المنقادين لدين الله، ولما جاء به موسى.
[90] اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیں اور انھیں اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ فرعون کے لشکر ضرور ان کا پیچھا کریں گے۔ فرعون نے تمام شہروں میں ہرکارے دوڑا دیے جو اعلان کرتے تھے کہ یہ لوگ یعنی موسیٰu اور ان کی قوم
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ۰۰وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىِٕظُوْنَۙ۰۰وَاِنَّا لَ٘جَمِیْعٌ حٰؔذِرُوْنَ﴾ (الشعراء: 26؍54-56) ’’ایک قلیل سی جماعت ہے۔ یہ ہمیں ناراض کر رہے ہیں اور ہم پوری طرح بسازوسامان تیار ہیں ۔‘‘ پس فرعون نے دور اور نزدیک سے تمام لشکر جمع کر لیے اور اس نے اپنے لشکر لے کر ظلم و زیادتی کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ اس نے موسیٰu اور ان کی قوم پر ظلم اور زمین میں زیادتی کرتے ہوئے انھیں گھروں سے نکالا۔ جب ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے اور گناہ جڑ پکڑ لیں تو عذاب کا انتظار کرو۔
﴿ وَجٰؔوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ ﴾ ’’اور پار کر دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے‘‘ اور یہ اس طرح ہوا کہ جب موسیٰu بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ سمندر پر اپنا عصا ماریں ، انھوں نے سمندر پر عصا مارا تو سمندر کا پانی پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور بنی اسرائیل ان پر چلتے ہوئے پار نکل گئے۔ فرعون اور اس کے پیچھے پیچھے اس کے لشکر سمندر میں داخل ہوگئے۔ جب موسیٰu اور ان کی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر آگئے اور فرعون اور اس کی قوم مکمل طور پر سمندر میں داخل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا اور سمندر کے تلاطم نے فرعون اور اس کی فوجوں کو اپنی گرفت میں لے کر غرق کر دیا اور بنی اسرائیل یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ جب فرعون ڈوبنے لگا اور اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تو پکار اٹھا
﴿اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’میں ایمان لایا اس بات پر کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے‘‘ کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
﴿ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین اور ان تمام امور کو مانتا ہوں جو موسیٰu لے کر آئے۔
#
{91} قال الله تعالى مبيِّناً أنَّ هذا الإيمان في هذه الحالة غير نافع له: {آلآنَ}: تؤمن وتقرُّ برسول الله، {وقد عصيتَ قبلُ}؛ أي: بارزت بالمعاصي والكفر والتكذيب، {وكنت من المفسدينَ}: فلا ينفعُك الإيمان كما جرتْ عادةُ الله أن الكفار إذا وصلوا إلى هذه الحالة الاضطراريَّة أنَّه لا ينفعهم إيمانهم؛ لأنَّ إيمانهم صار إيماناً مشاهداً؛ كإيمان من ورد القيامة، والذي ينفعُ إنما هو الإيمان بالغيب.
[91] اللہ تبارک و تعالیٰ نے... یہ واضح کرتے ہوئے کہ اس صورت حال میں ایمان لانا فائدہ نہیں دیتا...
فرمایا: ﴿ آٰلْـٰٔنَ ﴾ ’’اب‘‘ یعنی اب تو ایمان لاتا ہے اور اللہ کے رسول کا اقرار کرتا ہے؟
﴿ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ ﴾ ’’حالانکہ پہلے نافرمانی کرتا رہا۔‘‘ یعنی اس سے قبل کھلے عام کفر اور معاصی کا ارتکاب کیا کرتا اور اللہ کے رسول کو جھٹلایا کرتا تھا۔
﴿ وَؔكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور تو شرارتیوں میں سے تھا‘‘ پس اب تجھے تیرا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا۔ جیسا کہ عادت الٰہی ہے کہ جب کفار اس اضطراری حالت کو پہنچ جاتے ہیں تو ان کا ایمان لانا انھیں کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ ان کا ایمان مشاہدے پر مبنی ہوتا ہے، جیسے اس شخص کا ایمان جو قیامت کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایمان لے آئے۔ جو ایمان مفید ہے وہ ایمان بالغیب ہے۔
#
{92} {فاليوم ننجِّيك ببدنِكَ لتكون لمن خلفك آيةً}: قال المفسِّرون: إنَّ بني إسرائيل لما في قلوبهم من الرعب العظيم من فرعون، كأنَّهم لم يصدِّقوا بإغراقه، وشكُّوا في ذلك، فأمر الله البحر أن يلقِيَهُ على نجوة مرتفعةٍ ببدنه؛ ليكون لهم عبرة وآية. {وإنَّ كثيراً من الناس عن آياتنا لغافلون}: فلذلك تمرُّ عليهم وتتكرَّر فلا ينتفعون بها؛ لعدم إقبالهم عليها، وأما من له عقلٌ وقلبٌ حاضر؛ فإنَّه يرى من آيات الله ما هو أكبر دليل على صحَّة ما أخبرت به الرسل.
[92] ﴿ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً﴾ ’’پس آج ہم تیرے بدن کو بچائے دیتے ہیں تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لیے نشانی ہو‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے دلوں پر فرعون کا رعب اور دہشت چھائی ہوئی تھی۔ گویا انھیں فرعون کے ڈوبنے کا یقین نہیں آرہا تھا اور اس بارے میں انھیں شک تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ فرعون کی لاش کو کسی بلند جگہ پر ڈال دے تاکہ وہ لوگوں کے لیے نشان عبرت بن جائے۔
﴿ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ ﴾ ’’اور اکثر لوگ ہماری آیتوں سے بے خبر ہیں ‘‘ بنابریں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بتکرار ان کے سامنے آتی ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور وہ شخص جو عقل اور دل بیدار رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات ان امور پر سب سے بڑی دلیل ہیں جنھیں رسول لے کر آئے ہیں ۔
#
{93} {ولقد بوَّأنا بني إسرائيل مُبَوَّأ صِدْقٍ}؛ أي: أنزلهم الله وأسكنهم في مساكن آل فرعون، وأورثهم أرضهم وديارهم، {ورزقناهم من الطيِّباتِ}: من المطاعم والمشارب وغيرهما، {فما اختلفوا}: في الحقِّ {حتَّى جاءهم العلمُ}: الموجب لاجتماعهم وائتلافهم، ولكن بغى بعضهم على بعضٍ، وصار لكثيرٍ منهم أهوية وأغراض تخالف الحقَّ، فحصل بينهم من الاختلاف شيء كثيرٌ. {إنَّ ربَّك يقضي بينَهم يوم القيامة فيما كانوا فيه يختلفون}: بحكمه العدل الناشئ عن علمه التامِّ وقدرته الشاملة.
وهذا هو الداء الذي يعرض لأهل الدين الصحيح، وهو أنَّ الشيطان إذا أعجزوه أن يطيعوه في ترك الدين بالكلِّيَّة، سعى في التحريش بينهم وإلقاء العداوة والبغضاء، فحصل من الاختلاف ما هو موجبُ ذلك، ثم حصل من تضليل بعضهم لبعضٍ وعداوة بعضهم لبعض ما هو قرَّة عين اللعين، وإلا؛ فإذا كان ربُّهم واحداً ورسولهم واحداً ودينهم واحداً ومصالحهم العامة متَّفقة؛ فلأيِّ شيء يختلفون اختلافاً يفرِّق شملهم ويشتِّت أمرهم ويَحُلُّ رابطتهم ونظامهم فيفوِّتُ من مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة ما يفوِّت ويموت من دينهم بسبب ذلك ما يموت؟! فنسألك اللهمَّ لطفاً بعبادك المؤمنين، يجمع شملهم، ويرأبُ صدعَهم، ويردُّ قاصِيَهم على دانيهم يا ذا الجلال والإكرام!
[93] ﴿ وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ ﴾ ’’اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھی جگہ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون کے مسکنوں میں آباد کیا اور ان کو آل فرعون کی اراضی اور ان کے گھروں کا مالک بنا دیا۔
(تاریخی طورپر یہ بات صحیح نہیں ۔ بنو اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے۔ اس سے مراد شام و فلسطین کی سرزمین ہے جہاں بنو اسرائیل کو حضرت موسیٰu کی وفات کے بعد غلبہ و تمکن حاص ہوا۔ (ص۔ى) ﴿ وَّرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ﴾ ’’اور کھانے کو ستھری چیزیں دیں ‘‘ مطعومات اور مشروبات وغیرہ
﴿ فَمَا اخْتَلَفُوْا﴾ ’’پس ان میں پھوٹ نہیں پڑی‘‘ یعنی حق کے بارے میں
﴿حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ﴾ ’’حتیٰ کہ ان کے پاس علم آ گیا‘‘ جو ان کے اتحاد و اجتماع کا موجب تھا مگر انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف ظلم اور تعدی سے کام لیا اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنی اپنی خواہشات اور اغراض کے پیچھے لگ گئے جو حق کے خلاف تھیں اور یوں ان میں بہت زیادہ اختلاف واقع ہوگیا۔
﴿ اِنَّ رَبَّكَ یَقْ٘ضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ ’’بے شک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ، تمھارا رب قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت عدل سے جو علم کامل اور قدرت شاملہ سے جنم لیتی ہے، قیامت کے روز ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ یہی وہ بیماری ہے، جس سے دین صحیح کے پیروکاروں کو سابقہ پڑتا ہے۔ شیطان جب کلی طور پر بندوں کو اپنی اطاعت کروانے اور دین ترک کروانے سے عاجز آجاتا ہے، تب وہ ان کے درمیان اختلافات ابھارتا ہے اور ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیتا ہے اس طرح وہ ان میں اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو شیطان کا مقصد پورا کرنے کا موجب بنتے ہیں ، پھر ایک دوسرے پر گمراہی کے فتوے لگانے سے ایک دوسرے کے خلاف عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز اس لعین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
ورنہ جب ان کا رب ایک ہے، ان کا رسول ایک ہے، ان کا دین ایک ہے اور ان کے مصالح عامہ بھی متفق علیہ ہیں ، پھر کس لیے وہ ایسے اختلافات میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کی وحدت کو پارہ پارہ کرتے ہیں ، ان کے اتحاد کو پراگندہ کرتے ہیں ، ان کے نظم اور ربط کی رسی کو کھول دیتے ہیں اور یوں ان کے دینی اور دنیاوی مصالح فوت ہو جاتے ہیں اور اختلافات کے سبب سے دین کے بہت سے امور معدوم ہو جاتے ہیں ۔
اے اللہ! ہم تیرے مومن بندوں کے لیے تیرے لطف و کرم کا سوال کرتے ہیں ، جو ان کے بکھرے ہوئے امور کو مجتمع کر دے، جو ان کے درمیان حائل خلیج کو پر کر دے، جو ان کے دور اور نزدیک کے لوگوں کو اکٹھا کر دے... یا ذالجلال والاکرام۔
{فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (94) وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ (95)}.
پس اگر ہوں آپ شک میں اس
(کتاب) سے جو نازل کی ہم نے آپ کی طرف تو پوچھیے ان لوگوں سے جو پڑھتے ہیں کتاب آپ سے پہلے، ، البتہ تحقیق آگیا ہے آپ کے پاس حق آپ کے رب کی طرف سے، پس نہ ہوں آپ شک کرنے والوں میں سے
(94)اور نہ ہوں آپ ان لوگوں میں سے جنھوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو، پس ہو جائیں گے آپ
(اس طرح) خسارہ پانے والوں میں سے
(95)
#
{94} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {فإن كنتَ في شكٍّ مما أنزلنا إليك}: هل هو صحيحٌ أم غير صحيح، {فاسأل الذين يقرؤون الكتاب من قبلك}؛ أي: اسأل أهل الكتب المنصفين والعلماء الراسخين؛ فإنهم سيقرُّون لك بصدق ما أخبرت به وموافقته لما معهم.
فإن قيل: إن كثيراً من أهل الكتاب من اليهود والنصارى، بل ربما كان أكثرهم ومعظمهم، كذَّبوا رسول الله، وعاندوه، وردُّوا عليه دعوته، والله تعالى أمر رسوله أن يستشهدَ بهم، وجعل شهادتَهم حجةً لما جاء به وبرهاناً على صدقه؛ فكيف يكونُ ذلك؟! فالجوابُ عن هذا من عدة أوجه:
منها: أنَّ الشهادة إذا أضيفت إلى طائفةٍ أو أهل مذهبٍ أو بلدٍ ونحوهم؛ فإنَّها إنما تتناول العدول الصادقين منهم، وأما مَنْ عداهم؛ فلو كانوا أكثر من غيرهم؛ فلا عبرة فيهم؛ لأن الشهادة مبنيَّة على العدالة والصدق، قد حصل ذلك بإيمان كثيرٍ من أحبارهم الرَّبانيِّين؛ كعبد الله بن سلام وأصحا به وكثيرٍ ممَّن أسلم في وقت النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وخلفائه ومن بعدهم.
ومنها: أن شهادة أهل الكتاب للرسول مبنيَّة على كتابهم التوراة الذي ينتسبون إليه؛ فإذا كان موجوداً في التوراة ما يوافق القرآن ويصدِّقُه ويشهدُ له بالصحَّة؛ فلو اتَّفقوا من أولهم وآخرهم على إنكار ذلك؛ لم يقدحْ بما جاء به الرسول.
ومنها: أنَّ الله تعالى أمر رسوله أن يستشهد بأهل الكتاب على صحَّة ما جاءه وأظهر ذلك وأعلنه على رؤوس الأشهاد، ومن المعلوم أن كثيراً منهم من أحرص الناس على إبطال دعوة الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ فلو كان عندهم ما يردُّ ما ذكره الله؛ لأبدَوْه وأظهروه وبيَّنوه، فلما لم يكنْ شيءٌ من ذلك؛ كان عدم ردِّ المعادي وإقرار المستجيب من أدلِّ الأدلَّة على صحَّة هذا القرآن وصدقه.
ومنها: أنه ليس أكثر أهل الكتاب ردَّ دعوة الرسول، بل أكثرُهم استجاب لها وانقاد طوعاً واختياراً؛ فإنَّ الرسولَ بُعِثَ وأَكْثَرُ أهل الأرض المتديِّنين أهل الكتاب ، فلم يمكثْ دينُه مدةً غير كثيرة حتى انقاد للإسلام أكثر أهل الشام ومصر والعراق وما جاورها من البلدان التي هي مقرُّ دين أهل الكتاب ولم يبقَ إلا أهل الرياسات الذين آثروا رياساتهم على الحقِّ ومَنْ تبِعَهم من العوامِّ الجهلة ومن تديَّن بدينهم اسماً لا معنى؛ كالإفرنج الذين حقيقة أمرهم أنَّهم دهريَّة منحلُّون عن جميع أديان الرسل، وإنَّما انتسبوا للدين المسيحيِّ ترويجاً لملكهم وتمويهاً لباطلهم؛ كما يعرف ذلك من عرف أحوالهم البيِّنة الظاهرة.
وقوله: {لقد جاءك الحق}؛ أي: الذي لا شكَّ فيه بوجه من الوجوه، {من ربِّك فلا تكوننَّ من الممترينَ }: كقوله تعالى: {كتابٌ أُنزِلْ إليكَ فلا يكن في صدرك حرجٌ منه}.
[94] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے:
﴿ فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ﴾ ’’اگر آپ اس کی بابت شک میں ہیں جو ہم نے آپ کی طرف اتارا‘‘ کہ آیا یہ صحیح ہے یا غیر صحیح ہے؟
﴿ فَسْـَٔلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ﴾ ’’تو ان سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ‘‘ یعنی انصاف پسند اہل کتاب اور راسخ العلم علماء سے پوچھیے وہ اس چیز کی صداقت کا اقرار کریں گے جس کی آپ کو خبر دی گئی ہے اور وہ یہ بھی اعتراف کریں گے وہ اس ہدایت کے موافق ہے جو ان کے پاس ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بہت سے لوگوں نے بلکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے رسول اللہe کی تکذیب کی، آپ سے عناد رکھا اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب سے اپنی صداقت پر گواہی لیں اور ان کی گواہی کو اپنی دعوت پر حجت اور اپنی صداقت پر دلیل بنائیں ... یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب متعدد پہلوؤں سے دیا جاتا ہے۔
(۱) جب شہادت کی اضافت کسی گروہ، کسی مذہب کے ماننے والوں یا کسی شہر کے لوگوں کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ان میں عادل اور سچے ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ خواہ اکثریت ہی میں کیوں نہ ہوں ، ان کی شہادت معتبر نہیں کیونکہ شہادت، عدالت اور صدق پر مبنی ہوتی ہے اور یہ مقصد بہت سے ربانی احبار کے ایمان سے حاصل ہوگیا تھا،
مثلاً:عبداللہ بن سلامt اور ان کے اصحاب اور بہت سے دیگر اہل کتاب جو نبی اکرمe اور آپ کے خلفاء کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں ایمان لاتے رہے۔
(۲) رسول اللہe کی صداقت پر اہل کتاب کی شہادت دراصل ان کی کتاب تورات، جس کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ، کے بیان پر مبنی ہے جب تورات میں ایسا مواد موجود ہو جو قرآن کی موافقت اور اس کی تصدیق کرتا ہو اور اس کی صحت کی شہادت دیتا ہو، تب اگر اولین و آخرین تمام اہل کتاب اس کے انکار پر متفق ہو جائیں تو ان کا یہ انکار رسول اللہe کے لائے ہوئے قرآن میں قادح نہیں ۔
(۳) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ اپنے لائے ہوئے قرآن کی صداقت پر اہل کتاب سے استشہاد کریں اور ظاہر ہے کہ یہ حکم علی الاعلان دیا گیا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل کتاب میں بہت سے لوگ رسول اللہe کی دعوت کے ابطال کے بڑے حریص تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسا مواد موجود ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو رد کرسکتا تو وہ ضرور اسے پیش کرتے چونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی اس لیے دشمنوں کا عدم جواب اور مستجیب کا اقرار اس قرآن اور صداقت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔
(۴) اکثر اہل کتاب ایسے نہ تھے جنھوں نے رسول اللہe کی دعوت کو رد کر دیا ہو بلکہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ تھے جنھوں نے آپ کی دعوت کو قبول کر لیا تھا اور انھوں نے اپنے اختیار سے آپ کی اطاعت کی کیونکہ جب رسول اللہe مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر اکثر لوگ اہل کتاب تھے۔ اسلام پر زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ شام، مصر، عراق اور ان کے آس پاس کے علاقوں کے اکثر لوگ مسلمان ہوگئے، یہ ممالک اہل کتاب کے مذہب کا گڑھ تھے۔ اسلام قبول کرنے سے صرف وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جن کے پاس سرداریاں تھیں اور جنھوں نے اپنی سرداریوں کو حق پر ترجیح دی تھی، نیز وہ لوگ باقی رہ گئے جنھوں نے ان سرداروں کی پیروی کی جو حقیقی طور پر نہیں بلکہ برائے نام اس دین کی طرف منسوب تھے،
مثلاً:فرنگی، جن کے دین کی حقیقت یہ ہے کہ وہ دہریے ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین کے مذاہب کے دائرے سے خارج ہیں وہ صرف ملکی رواج کے طور پر اور اپنے باطل پر ملمع کی خاطر دین مسیح کی طرف منسوب ہیں ۔ جیسا کہ ان کے حالات کی معرفت رکھنے والے جانتے ہیں ۔
﴿ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ﴾’’تحقیق آ گیا آپ کے پاس حق‘‘ جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں
﴿ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾ ’’آپ کے رب کی طرف سے،
پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ‘‘ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَؔكُ٘نْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّؔنْهُ ﴾ (الاعراف:7؍2) ’’یہ کتاب ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے، پس آپ کے دل میں کوئی تنگی نہیں آنی چاہیے۔‘‘
#
{95} {ولا تكونَنَّ من الذين كذَّبوا بآيات الله فتكون من الخاسرين}: وحاصل هذا أنَّ الله نهى عن شيئين: الشكِّ في هذا القرآن، والامتراء منه. وأشد من ذلك التكذيب به، وهو آيات الله البينات، التي لا تقبل التكذيب بوجه، ورتَّب على هذا الخسار، وهو عدم الربح أصلاً، وذلك بفوات الثواب في الدنيا والآخرة، وحصول العقاب في الدنيا والآخرة، والنهي عن الشيء أمرٌ بضدِّه، فيكون أمراً بالتصديق التامِّ بالقرآن وطمأنينة القلب إليه والإقبال عليه علماً وعملاً؛ فبذلك يكون العبدُ من الرابحين، الذين أدركوا أجلَّ المطالب وأفضل الرغائب وأتمَّ المناقب، وانتفى عنهم الخسارُ.
[95] ﴿ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ﴾ ’’اور آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا پس آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ ان دونوں آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
(قرآن کریم کے بارے میں ) دو چیزوں سے منع کیا ہے۔
۱۔ قرآن مجید میں شک کرنا اور اس کے بارے میں جھگڑنا۔
۲۔ اور اس سے بھی شدید تر چیز اس کی تکذیب کرنا ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی واضح آیات ہیں جن کو کسی لحاظ سے بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا اور تکذیب کا نتیجہ خسارہ ہے اور وہ ہے منافع کا بالکل معدوم ہونا اور یہ خسارہ دنیا و آخرت کے ثواب کے فوت ہونے اور دنیا و آخرت کے عذاب سے لاحق ہوتا ہے۔ کسی چیز سے روکنا دراصل اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔ تب قرآن کی تکذیب سے منع کرنا درحقیقت قرآن کی تصدیق کامل، اس پر طمانیت قلب اور علم و عمل کے اعتبار سے اس کی طرف توجہ دینے کا نام ہے اور یوں بندۂ مومن نفع کمانے والوں میں شامل ہو جاتا ہے جو جلیل ترین مقاصد بہترین خواہشات اور کامل ترین مناقب کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس خسارے کی نفی ہو جاتی ہے۔
{إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ (96) وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (97)}.
بے شک وہ لوگ کہ ثابت ہو چکا ہے ان پر حکم آپ کے رب کا، نہیں ایمان لائیں گے وہ
(96) اور اگر چہ آجائیں ان کے پاس ساری نشانیاں ، یہاں تک کہ دیکھ لیں وہ عذاب درد ناک
(97)
#
{96 ـ 97} يقول تعالى: {إنَّ الذين حقَّتْ عليهم كلمةُ ربِّك}؛ أي: إنهم من الضالين الغاوين أهل النار، لا بدَّ أن يصيروا إلى ما قدَّره الله وقضاه؛ فلا يؤمنون ولو جاءتهم كلُّ آية؛ فلا تزيدُهم الآيات إلا طغياناً وغيًّا إلى غيِّهم، وما ظلمهم الله ولكن ظلموا أنفسهم بردِّهم للحقِّ لما جاءهم أول مرة، فعاقبهم الله بأن طبع على قلوبهم وأسماعهم وأبصارهم فلا يؤمنوا حتى يَرَوا العذاب الأليم الذي وُعِدوا به؛ فحينئذٍ يعلمون حقَّ اليقين أنَّ ما هم عليه هو الضلال وأنَّ ما جاءتهم به الرسلُ هو الحقُّ، ولكنْ في وقتٍ لا يُجدي عليهم إيمانهم شيئاً؛ فيومئذٍ لا ينفع الذين ظلموا معذِرَتُهم ولا هم يُسْتَعْتَبون. وأما الآياتُ؛ فإنَّها تنفعُ مَنْ له قلبٌ أو ألقى السمع وهو شهيدٌ.
[97,96] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ﴾ ’’جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا حکم قرار پاچکا ہے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جن پر یہ بات صادق آئی کہ وہ گمراہ، بھٹکے ہوئے اور جہنمی ہیں تو یہ لابدی ہے کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں مقدر ہو چکا ہے اگر ان کے پاس ہر قسم کی نشانی اور معجزہ بھی آجائے، تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ آیات و معجزات ان کی سرکشی اور گمراہی میں اضافہ ہی کرتے ہیں ۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے حق کو جھٹلا کر، جب حق ان کے پاس پہلی مرتبہ آیا خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر، کانوں پر اور آنکھوں پر مہر لگا دی اور اب وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس وقت حق یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ وہ اب تک جس راستے پر چلتے رہے ہیں وہ گمراہی کا راستہ ہے اور جو چیز رسول لے کر آئے ہیں وہ حق ہے مگر اس روز ان کا ایمان لانا انھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اس روز ظالموں کی معذرت کسی کام نہ آئے گی اور ان کی کوئی معذرت قبول نہ ہوگی۔ آیات و معجزات صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں جو دل رکھتے ہیں اور توجہ سے سنتے ہیں ۔
{فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (98)}.
پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی ایسی کہ ایمان لائی ہو وہ
(عذاب سے پہلے)، پھر نفع دیا ہوا اس کو اس کے ایمان
(لانے) نے، سوائے
(لوگ) قوم یونس کے، جب ایمان لائے وہ تو دور کر دیا ہم نے ان سے عذاب رسوائی کا دنیا کی زندگی میں اور ہم نے فائدہ دیا انھیں ایک وقت
(مقرر) تک
(98)
#
{98} يقول تعالى: {فلولا كانت قريةٌ}: من القرى المكذبين، {آمنتْ}: حين رأتِ العذاب، {فنفعها إيمانُها}؛ أي: لم يكن منهم أحدٌ انتفع بإيمانه حين رأى العذاب؛ كما قال تعالى عن فرعون ما تقدَّم قريباً لما قال: {آمنتُ أنَّه لا إله إلا الذي آمنت به بنو إسرائيلَ وأنا من المسلمين}، فقيل له: {آلآن وقد عصيتَ قبلُ وكنتَ من المفسدين}، وكما قال تعالى: {فلمَّا جاءهم بأسُنا قالوا آمنَّا بالله وحدَه وكَفَرْنا بما كُنَّا به مشركين. فلم يك يَنْفَعُهُم إيمانُهم لما رأوا بأسنا سُنَّةَ الله التي قد خلتْ في عباده}، وقال تعالى: {حتى إذا جاء أحدَهُم الموتُ قال ربِّ ارجعونِ. لعلِّي أعملُ صالحاً فيما تركتُ، كلاَّ}، والحكمة في هذا ظاهرةٌ؛ فإنَّ الإيمان الاضطراريَّ ليس بإيمان حقيقة، ولو صرف عنه العذاب والأمر الذي اضطره إلى الإيمان؛ لرجع إلى الكفران. وقوله: {إلاَّ قومَ يونس لما آمنوا بعدما رأوا العذاب كَشَفْنا عنهم عذابَ الخِزْي في الحياة الدُّنيا ومتعناهم إلى حين}: فهم مستَثْنَوْن من العموم السابق، ولا بدَّ لذلك من حكمة لعالم الغيب والشَّهادة لم تصلْ إلينا ولم تدرِكْها أفهامُنا؛ قال الله تعالى: {وإنَّ يونُسَ لمن المرسلين ... } إلى قوله: {فأرسلْناه إلى مائةِ ألفٍ أو يزيدونَ. فآمنوا فمتَّعْناهم إلى حينٍ}. ولعلَّ الحكمة في ذلك أنَّ غيرهم من المهلَكين لو رُدُّوا لعادوا لما نُهوا عنه، وأما قوم يونس؛ فإنَّ اللهَ أعلمَ أنَّ إيمانهم سيستمرُّ، بل قد استمرَّ فعلاً، وثبتوا عليه. والله أعلم.
[98] ﴿ فَلَوْلَا كَانَتْ قَ٘رْیَةٌ﴾ ’’پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی‘‘ یعنی جھٹلانے والی بستیوں میں سے،
﴿ اٰمَنَتْ ﴾ ’’کہ وہ ایمان لائی‘‘ جب انھوں نے عذاب دیکھا
﴿فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَاۤ ﴾ ’’پھر کام آیا ہو ان کو ان کا ایمان لانا‘‘ یعنی ان تمام بستیوں میں سے کسی بستی کو عذاب دیکھ کر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا جیسا کہ فرعون کے ایمان لانے کے بارے میں گزشتہ صفحات میں قریب ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گزر چکا ہے اور جیسے فرمایا:
﴿ فَلَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَؔكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۰۰فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ﴾ (غافر: 40؍84-85) ’’پس جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور ان کا ہم نے انکار کیا جن کو ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کو ان کے ایمان لانے نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔‘‘ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْ٘مَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۰۰ لَ٘عَ٘لِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَؔكْتُ كَلَّا ﴾ (المومنون: 23؍99-100) ’’حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو وہ کہے گا اے میرے پروردگار! مجھے دنیا میں پھر واپس بھیج دے شاید کہ میں جسے پیچھے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ، ہرگز نہیں !‘‘
اور اس میں حکمت ظاہر ہے کہ ایمان اضطراری حقیقی ایمان نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو دور ہٹا لے جس سے مجبور ہو کر انھوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا تو وہ پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں گے۔ فرمایا
﴿ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُ٘سَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ ﴾ ’’سوائے یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائی،
(عذاب دیکھ لینے کے بعد) تو ہم نے ان پر سے ذلت کا عذاب اٹھا لیا دنیا کی زندگی میں اور ایک وقت تک ہم نے ان کو فائدہ پہنچایا‘‘ پس حضرت یونسu کی قوم گزشتہ عموم سے مستثنیٰ ہے اس میں ضرور اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادۃ کی حکمت پوشیدہ ہے۔ جہاں تک پہنچنے اور اس کے ادراک سے ہمارا فہم قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿ وَاِنَّ یُوْنُ٘سَ لَ٘مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَؕ۰۰.....وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ۰۰فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ ﴾ (الصافات: 37؍139-148) ’’اور یونس اللہ کے رسولوں میں سے تھا جب وہ
(گھر سے) بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوا، اس وقت قرعہ ڈالا گیا تو اس نے زک اٹھائی پس اس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والوں میں سے تھا۔ پس اگر وہ اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتا تو قیامت کے روز تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا، پھر ہم نے اس کو
(مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) اس حالت میں کھلے میدان میں ڈال دیا کہ وہ بیمار تھا اور اس پر کدو کی بیل اگا دی اور اس کو ایک لاکھ یا کچھ اوپر لوگوں کی طرف مبعوث کیا۔ پس وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ان کو ایک وقت مقررہ تک فائدہ اٹھانے دیا۔‘‘
شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر حضرت یونسu کی قوم کے علاوہ کوئی اور قوم ہوتی اور ان پر سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا تو وہ پھر اسی کام کا اعادہ کرتے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور رہا یونسu کی قوم کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتا تھا کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہیں گے بلکہ وہ قائم رہے۔ واللہ اعلم
{وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (99) وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (100)}.
اور اگر چاہتا رب آپ کا تو ایمان لے آتے وہ لوگ جو زمین میں ہیں سب کے سب سارے ہی، کیا پس آپ مجبور کریں گے لوگوں کو یہاں تک کہ ہو جائیں وہ مومن؟
(99)اور نہیں ہے
(ممکن) واسطے کسی نفس کے یہ کہ ایمان لائے وہ مگر ساتھ حکم اللہ کےاورکرتا ہے اللہ پلیدی
(عذاب) اوپر ان لوگوں کے جو نہیں عقل رکھتے
(100)
#
{99} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم -: {ولو شاء ربُّك لآمن مَن في الأرض كلهم جميعاً}: بأن يلهمهم الإيمان ويوزعَ قلوبهم للتقوى؛ فقدرتُه صالحةٌ لذلك، ولكنَّه اقتضتْ حكمته أن كان بعضهم مؤمنين وبعضهم كافرين. {أفأنت تكرِهُ الناس حتى يكونوا مؤمنين}؛ أي: لا تقدِرُ على ذلك، وليس في إمكانك، ولا قدرة غير الله شيء من ذلك.
[99] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے:
﴿ وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا﴾ ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین میں رہنے والے سب کے سب ایمان لے آتے‘‘ یعنی ان کے دلوں میں ایمان الہام کر دیتا اور ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے درست کر دیتا۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لائیں اور بعض لوگ کافر رہیں ۔
﴿ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ‘‘ یعنی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ یہ چیز غیر اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہے۔
#
{100} {وما كان لنفس أن تؤمنَ إلاَّ بإذنِ الله}: بإرادته ومشيئته وإذنه القَدَرِيِّ الشرعيِّ؛ فمن كان من الخَلْقِ قابلاً لذلك يزكو عنده الإيمان؛ وفَّقه وهداه، {ويجعلُ الرجسَ}؛ أي: الشرَّ والضلال {على الذين لا يعقلِونَ}: عن الله أوامرَهُ ونواهيه، ولا يُلقون بالاً لنصائحه ومواعظه.
[100] ﴿ وَمَا كَانَ لِنَفْ٘سٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’اور کسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ ایمان لائے مگر اللہ کے حکم سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت اور اس کے قدری و شرعی حکم سے۔ پس مخلوق میں سے جو اس کے قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے تو ایمان اس کے پاس پھلتا پھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو توفیق سے نوازتا اور اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔
﴿ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ ﴾ ’’اور ڈالتا ہے وہ گندگی‘‘ یعنی شر اور گمراہی
﴿ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَؔ﴾ ’’ان لوگوں پر جو سوچتے نہیں ‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی اور اس کے نصائح و مواعظ پر کان نہیں دھرتے۔
{قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ (101) فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (102) ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ (103)}.
آپ کہہ دیجیے! دیکھو
(اور غور کرو اس میں ) جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور نہیں فائدہ دیتیں نشانیاں اور تنبیہات ان لوگوں کو جو نہیں ایمان لاتے
(101) پس نہیں انتظار کرتے وہ مگر مثل ایام ان لوگوں کے جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے، کہہ دیجیے! پس انتظار کرو تم، بے شک میں بھی تمھارے ساتھ ہوں انتظار کرنے والوں میں سے
(102) پھر نجات دیتے ہیں ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے، اسی طرح، حق ہے ہم پر
(یہ کہ) نجات دیں ہم مومنوں کو
(103)
#
{101} يدعو تعالى عباده إلى النظر لما في السماوات والأرض، والمراد بذلك نظر الفكر والاعتبار والتأمُّل لما فيها وما تحتوي عليه والاستبصار؛ فإن في ذلك لآياتٍ لقوم يؤمنون وعبراً لقوم يوقنون، تدلُّ على أنَّ الله وحده المعبود المحمود ذو الجلال والإكرام والأسماء والصفات العظام، {وما تُغني الآياتُ والنُّذُر عن قوم لا يؤمنون}؛ فإنهم لا ينتفعون بالآيات؛ لإعراضهم وعنادهم.
[101] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین میں غور کریں اور اس سے مراد یہ ہے کہ تفکر اور عبرت کی نظر سے آسمان کو دیکھیں ، ان میں جو کچھ موجود ہے اس میں تدبر کریں اور بصیرت حاصل کریں ۔ ان میں اہل ایمان کے لیے نشانیاں اور اہل ایقان کے لیے عبرت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود محمود ہے، وہی صاحب جلال واکرام اور عظیم اسماء و صفات کا مالک ہے۔
﴿وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور کچھ کام نہیں آتیں نشانیاں اور ڈرانے والے ان لوگوں کو جو ایمان لانے والے نہیں ‘‘ کیونکہ یہ لوگ اپنے اعراض اور عناد کی وجہ سے آیات الٰہی سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
#
{102 ـ 103} {فهل ينتظرون إلاَّ مثلَ أيام الذين خَلَوْا من قبلهم}؛ أي: فهل ينتظر هؤلاء الذين لا يؤمنون بآيات الله بعدَ وضوحها إلاَّ مثلَ أيام الذين خَلَوْا من قبلهم؛ أي: من الهلاك والعقاب؛ فإنَّهم صنعوا كصنيعهم، وسنةُ الله جاريةٌ في الأولين والآخرين. {قُلْ فانتظِروا إني معكم من المنتظرين}: فستعلمون لمَن تكون له العاقبة الحسنةُ والنجاةُ في الدنيا والآخرة. وليست إلاَّ للرسل وأتباعهم، ولهذا قال: {ثم نُنَجِّي رسلنا والذين آمنوا}: من مكاره الدنيا والآخرة وشدائدهما. {كذلك حقًّا علينا}: أوجبناه على أنفسنا، {نُنْجِ المؤمنين}: فإنَّ الله يدافعُ عن الذين آمنوا؛ فإنَّه بحسب ما مع العبد من الإيمان؛ تحصُلُ له النجاة من المكاره.
[103,102] ﴿فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’پس وہ لوگ صرف ان لوگوں کے سے واقعات کا انتظار کررہے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ۔‘‘ یعنی یہ لوگ جو آیات الٰہی کے واضح ہو جانے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کو بھی اسی طرح عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا جائے، جیسے ان کے پہلوں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ ان کے اعمال بھی وہی تھے جو ان کے اعمال ہیں اور سنت الٰہی اولین و آخرین میں جاری و ساری ہے۔
﴿قُ٘لْ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْ٘مُنْتَظِرِیْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! پس انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔‘‘ عنقریب تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انجام اچھا ہے،
دنیا اور آخرت میں نجات کس کے لیے ہے اور یہ نجات صرف انبیاء و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کے لیے ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’پھر ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو
(دنیا و آخرت کی تکالیف اور شدائد سے) نجات دیتے ہیں۔‘‘
﴿كَذٰلِكَ١ۚ حَقًّا عَلَیْنَا ﴾ ’’اسی طرح ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ یعنی ہم نے اپنے اوپر واجب ٹھہرایا ہے۔
﴿ نُ٘نْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’کہ ایمان والوں کو نجات دیں گے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ، مومن بندوں میں جذبۂ ایمان کی مقدار کے مطابق، ان کا دفاع کرتا ہے اس سے انھیں تکلیف دہ امور سے نجات ملتی ہے۔
{قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (104) وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (105) وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (106)}.
کہہ دیجیے، اے لوگو! اگر ہو تم شک میں ، میرے دین سے
(متعلق) تو نہیں عبادت کرتا میں ان کی جن کی تم عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے لیکن میں تو عبادت کرتاہوں اللہ کی وہ جو وفات دیتا ہے تمھیں اور حکم دیا گیا ہوں میں اس بات کا کہ ہوں میں مومنوں میں سے
(104) اور یہ کہ سیدھا رکھیں آپ منہ اپنا واسطے دین
(اسلام) کے ، یکسو ہو کر! اور ہرگز نہ ہوں آپ مشرکین میں سے
(105)اور مت پکاریں آپ سوائے اللہ کے ان کو جو نہ نفع دے سکتے ہیں آپ کواور نہ نقصان دے سکتے ہیں آپ کو، پس اگر آپ نے
(ایسا) کیا تو بلاشبہ آپ بھی اس وقت ظالموں میں سے ہوں گے
(106)
#
{104} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - سيد المرسلين وإمام المتقين وخير الموقنين: {قل يا أيُّها الناس إن كنتُم في شكٍّ من ديني}؛ أي: في ريب واشتباه؛ فإني لست في شكٍّ منه، بل لديَّ العلم اليقيني أنه الحقُّ وأن ما تدعون من دون الله باطلٌ، ولي على ذلك الأدلَّةُ الواضحةُ والبراهينُ الساطعةُ، ولهذا قال: {فلا أعبدُ الذين تعبدونَ من دون الله}: من الأنداد والأصنام وغيرهما؛ لأنها لا تَخْلُقُ ولا ترزقُ ولا تدبِّر شيئاً من الأمور، وإنما هي مخلوقةٌ مسخَّرة ليس فيها ما يقتضي عبادتها. {ولكنْ أعبدُ الله الذي يتوفَّاكم}؛ أي: هو الله الذي خلقكم، وهو الذي يميتكم ثم يبعثكم ليجازيكم بأعمالكم؛ فهو الذي يستحقُّ أن يُعبد، ويصلَّى له، [ويخضع]، ويسجد، {وأمِرْتُ أن أكون من المؤمنين}.
[104] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول سید المرسلین، امام المتقین،
خیر الموقنین حضرت محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿ قُ٘لْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْ دِیْنِیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے اے لوگو! اگر تم میرے لائے ہوئے دین کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو۔‘‘ تو میں اس بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں علم الیقین رکھتا ہوں کہ یہ حق ہے اور تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو،
وہ سب باطل ہیں ۔ میں اپنے اس موقف پر واضح دلائل اور روشن براہین رکھتا ہوں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’پس جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تمھارے خود ساختہ ہمسروں اور بتوں کی عبادت نہیں کرتا کیونکہ یہ پیدا کر سکتے ہیں نہ رزق عطا کر سکتے ہیں اور نہ تدبیر کائنات میں ان کا کوئی اختیار ہے، یہ تو خود مخلوق اور اللہ کی قدرت کے سامنے مسخر ہیں ، ان میں کوئی ایسی صفات نہیں پائی جاتیں جو ان کی عبادت کا تقاضا کرتی ہوں
﴿ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ﴾ ’’لیکن میں تو اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو کھینچ لیتا ہے تمھاری روحیں ‘‘ یعنی وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، وہی تمھیں موت دے گا، پھر وہ تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا اور تمھیں تمھارے اعمال کا بدلہ دے گا... پس وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کے لیے نماز پڑھی جائے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔
#
{105} {وأن أقِمْ وجهكَ للدين حنيفاً}؛ أي: أخلص أعمالك الظاهرة والباطنة لله، وأقم جميع شرائع الدين، {حنيفاً}؛ أي: مقبلاً على الله معرضاً عما سواه. {ولا تكوننَّ من المشركين}: لا في حالهم ولا تكنْ معهم.
[105] ﴿ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔‘‘
﴿ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا﴾ ’’اور یہ کہ سیدھا کر اپنا منہ دین پر یک طرفہ ہو کر‘‘ یعنی اپنے ظاہری اور باطنی اعمال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیجیے اور یکسو ہو کر تمام شرائع کو قائم کیجیے، یعنی ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی طرف اپنی توجہ کو مبذول رکھیے۔
﴿ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔‘‘ ان کا حال اختیار کیجیے، نہ ان کا ساتھ دیجیے۔
#
{106} {ولا تدعُ من دون الله ما لا ينفعُك ولا يضرُّك}: وهذا وصفٌ لكلِّ مخلوق أنه لا ينفع ولا يضرُّ، وإنما النافع الضارُّ هو الله تعالى. {فإن فعلت}؛ أي: دعوت من دون الله ما لا ينفعك ولا يضرك، {فإنَّك إذاً} لمن {الظالمين}؛ أي: الضارين أنفسهم بإهلاكها، وهذا الظلم هو الشرك؛ كما قال تعالى: {إنَّ الشِّرك لظلمٌ عظيمٌ}: فإذا كان خيرُ الخلق لو دعا مع الله غيره؛ لكان من الظالمين المشركين؛ فكيف بغيره؟!
[106] ﴿ وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَلَا یَضُرُّكَ﴾ ’’اور اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو مت پکاریں جو آپ کو فائدہ پہنچا سکیں نہ نقصان‘‘ کیونکہ یہ وصف ہر مخلوق کا ہے، مخلوق کوئی فائدہ دے سکتی ہے نہ نقصان، نفع اور نقصان پہنچانے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے
﴿ فَاِنْ فَعَلْتَ ﴾ ’’اگر ایسا کرو گے۔‘‘ یعنی اگر آپ نے اللہ کے بغیر کسی ہستی کو پکارا جو کسی کو نفع دے سکتی ہے نہ نقصان
﴿ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔‘‘ یعنی آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنھوں نے ہلاکت کے ذریعے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۰۰﴾ (لقمان: 31؍13) ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارے تو اس کا شمار مشرکوں میں ہو جاتا ہے تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
{وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (107)}.
اگر پہنچائے آپ کو اللہ کوئی تکلیف تو نہیں کوئی بھی دور کرنے والا اسے سوائے اس کے اور اگر ارادہ کرے اللہ آپ کے ساتھ کسی بھلائی کا تو نہیں کوئی بھی رد کرنے والا اس کے فضل کو، پہنچاتا ہے وہ اس
(فضل) کو جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سےاور وہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے
(107)
#
{107} هذا من أعظم الأدلَّة على أن الله وحده المستحقُّ للعبادة؛ فإنَّه النافع الضارُّ المعطي المانع الذي إذا مسَّ بضُرٍّ كفقر ومرض ونحوها: {فلا كاشف له إلاَّ هو}: لأن الخلق لو اجتمعوا على أن ينفعوا بشيء لم ينفعوا إلا بما كتبه الله ولو اجتمعوا على أن يضرُّوا أحداً؛ لم يقدروا على شيء من ضرره إذا لم يرده [اللهُ]. ولهذا قال: {وإن يُرِدْكَ بخيرٍ فلا رادَّ لفضله}؛ أي: لا يقدر أحدٌ من الخلق أن يردَّ فضله وإحسانه؛ كما قال تعالى: {ما يَفْتَح الله للناس من رحمةٍ فلا مُمْسِكَ لها وما يُمْسِك فلا مرسِلَ له من بعده}. {يصيبُ به مَن يشاء مِن عباده}؛ أي: يختص برحمته من شاء من خلقه والله ذو الفضل العظيم، {وهو الغفور}: لجميع الزَّلات، الذي يوفِّق عبده لأسباب مغفرته، ثم إذا فعلها العبد؛ غفر الله ذنوبه كبارها وصغارها، {الرحيمُ}: الذي وسعت رحمتُه كلَّ شيء ووصل جودُه إلى جميع الموجودات؛ بحيث لا تستغني عن إحسانه طرفة عين.
فإذا عرف العبد بالدليل القاطع أن الله هو المنفرد بالنعم وكشف النقم وإعطاء الحسنات وكشف السيئات والكربات، وأنَّ أحداً من الخلق ليس بيده من هذا شيءٌ إلا ما أجراه الله على يده؛ جزم بأنَّ الله هو الحقُّ وأن ما يدعون من دونه هو الباطلُ ولهذا لما بين الدليل الواضح؛ قال بعده:
[107] یہ آیت کریمہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عبادت کا مستحق ہے کیونکہ نفع و نقصان اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہی عطا کرتا ہے وہی محروم کرتا ہے۔ جب کوئی تکلیف ،
مثلاً: فقر اور مرض وغیرہ لاحق ہوتا ہے
﴿ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ﴾ ’’تو اس کے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا۔‘‘ کیونکہ اگر تمام مخلوق اکٹھی ہو کر کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے اور اگر تمام مخلوق اکٹھی ہو کر کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَاِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ٘﴾ ’’اور اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی پھیرنے والا نہیں ‘‘ یعنی مخلوق میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اس کے فضل و احسان کو روک سکے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ مَا یَفْ٘تَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَمَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ﴾ (فاطر: 35؍2) ’’اللہ لوگوں کے لیے اپنی رحمت کا جو دروازہ کھول دے تو اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا اور جو دروازہ بند کر دے اس کے بعد اسے کوئی کھول نہیں سکتا۔‘‘
﴿ یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ ’’وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، پہنچاتا ہے‘‘ یعنی وہ مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے
﴿ وَهُوَ الْ٘غَفُوْرُ ﴾ اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو مغفرت کے اسباب کی توفیق سے نوازتا ہے۔ بندہ جب ان اسباب پر عمل کرتا ہے تو اللہ اس کے تمام کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
﴿ الرَّحِیْمُ ﴾ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اس کا جود و احسان تمام موجودات تک پہنچتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے فضل و احسان سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔
جب بندہ قطعی دلیل کے ذریعے سے یہ معلوم کر لے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے جو نعمتوں سے نوازتا ہے، وہی تکالیف کو دور کرتا ہے، وہی بھلائیاں عطا کرتا ہے، وہی برائیوں اور تکالیف کو ہٹاتا ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی ایسی نہیں جس کے ہاتھ میں یہ چیزیں ہوں ، سوائے اس کے جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ جاری فرما دے... تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور وہ ہستیاں ، جنھیں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں ، سب باطل ہیں ۔
{قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (108) وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (109)}.
کہہ دیجیے، اے لوگو! یقینا آ گیا ہے تمھارے پاس حق
(قرآن) تمھارے رب کی طرف سے ، پس جس شخص نے ہدایت کو اپنایا تو یقینا وہ ہدایت کو اپنائے گا اپنے ہی نفس کے لیے اور جس نے گمراہی اختیار کی تو یقینا وہ گمراہی اختیار کرے گا اپنے ہی نفس کے برے کواور نہیں ہوں میں تم پر نگران
(108) اور پیروی کریں آپ اس چیز کی جو وحی کی جاتی ہے آپ کی طرف اور صبر کریں یہاں تک کہ فیصلہ کرے اللہ اور وہ سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
(109)
#
{108} أي: {قل}: يا أيها الرسول لما تبيَّن البرهان: {يا أيها الناس قد جاءكم الحقُّ من ربِّكم}؛ أي: الخبر الصادق المؤيَّد بالبراهين الذي لا شكَّ فيه بوجهٍ من الوجوه، وهو واصلٌ إليكم من ربِّكم، الذي من أعظم تربيته لكم أن أنزل إليكم هذا القرآن، الذي فيه تبيانٌ لكلِّ شيء، وفيه من أنواع الأحكام والمطالب الإلهية والأخلاق المَرْضِيَّة ما فيه أعظم تربيةٍ لكم وإحسانٍ منه إليكم؛ فقد تبيَّن الرشد من الغي، ولم يبقَ لأحدٍ شبهة. {فمن اهتدى}: بهدى الله؛ بأن علم الحقَّ وتفهَّمه وآثره على غيره فلنفسه. والله تعالى غنيٌّ عن عباده، وإنَّما ثمرة أعمالهم راجعةٌ إليهم. {ومن ضلَّ}: عن الهدى؛ بأن أعرض عن العلم بالحقِّ أو عن العمل به، {فإنما يَضِلُّ عليها}: ولا يضرُّ الله شيئاً فلا يضر إلا نفسه. {وما أنا عليكم بوكيل}: فأحفظُ أعمالكم وأحاسبكم عليها، وإنَّما أنا لكم نذيرٌ مبينٌ، والله عليكم وكيلٌ؛ فانظروا لأنفسكم ما دمتم في مدة الإمهال.
[108] بنابریں ،
جب اللہ تعالیٰ نے واضح دلیل بیان کردی تو اس کے بعد فرمایا: ﴿ قُ٘لْ ﴾ چونکہ دلیل و برہان واضح ہوگئی اس لیے اے رسول فرما دیجیے!
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’اے لوگو! تمھارے رب کے ہاں سے تمھارے پاس حق آچکا ہے۔‘‘ یعنی تمھارے پاس سچی خبر آگئی ہے جس کی تائید دلائل و براہین سے ہوتی ہے جس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی شک نہیں اور یہ خبر تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے پہنچی ہے، جس کی تمھارے لیے سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے تم پر یہ قرآن نازل کیا، جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے یہ قرآن مختلف انواع کے احکام، مطالب الہیہ اور اخلاق حسنہ پر مشتمل ہے جن میں تمھاری تربیت کا بہترین سامان موجود ہے۔ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ پس گمراہی سے ہدایت کا راستہ واضح ہوگیا اور کسی کے لیے کوئی شبہ باقی نہ رہا۔
﴿ فَ٘مَنِ اهْتَدٰؔى ﴾ ’’اب جو کوئی راہ پر آئے‘‘ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کے ذریعے سے راہ ہدایت اپنا لی۔ وہ یوں کہ اس نے حق معلوم کر لیا اور پھر اسے اچھی طرح سمجھ لیا اور دیگر ہر چیز پر اسے ترجیح دی
﴿ فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ﴾ ’’پس وہ راہ پاتا ہے اپنے بھلے کو‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے نیاز ہے۔ بندوں کے اعمال کے ثمرات انھی کی طرف لوٹتے ہیں
﴿ وَمَنْ ضَلَّ ﴾ ’’اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے۔‘‘ یعنی جو حق کے علم یا اس پر عمل سے روگردانی کر کے ہدایت کی راہ سے بھٹک جائے
﴿ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا﴾ ’’تو وہ بہکا پھرے گا اپنے برے کو‘‘ یعنی وہ اپنے لیے گمراہی اختیار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ صرف اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
﴿ وَمَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَؔكِیْلٍ﴾ ’’اور میں تم پر داروغہ نہیں ‘‘ کہ تمھارے اعمال کی نگرانی کروں اور ان کا حساب کتاب رکھوں ۔ میں تو تمھیں کھلا ڈرانے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ تمھارا نگران اور وکیل ہے۔ جب تک تم اس مہلت کی مدت میں ہو، اپنے آپ پر نظر رکھو۔
#
{109} {واتبع}: أيها الرسول ما أوحي إليك علماً وعملاً وحالاً ودعوةً إليه، {واصبرْ}: على ذلك؛ فإنَّ هذا أعلى أنواع الصبر، وإنَّ عاقبته حميدةٌ؛ فلا تكسل ولا تضجر، بل دُمْ على ذلك واثبتْ، {حتى يحكم الله}: بينك وبين مَنْ كذَّبك. {وهو خير الحاكمين}: فإنَّ حكمه مشتملٌ على العدل التامِّ والقِسْط الذي يُحمد عليه. وقد امتثل - صلى الله عليه وسلم - أمر ربِّه، وثبت على الصراط المستقيم، حتى أظهر الله دينه على سائر الأديان، ونصره على أعدائه بالسيف والسنان، بعدما نصره الله عليهم بالحجَّة والبرهان، فلله الحمدُ والثناء الحسن كما ينبغي لجلاله وعظمته وكماله وسعة إحسانه.
[109] ﴿وَاتَّ٘بِـعْ ﴾ ’’اور پیروی کیے جاؤ۔‘‘ اے رسول!
﴿ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ ﴾ ’’اس کی جو حکم آپ کی طرف بھیجا جاتا ہے۔‘‘ یعنی علم، عمل، حال اور دعوت میں اس وحی کی اتباع کیجیے جو آپ کی طرف بھیجی گئی ہے
﴿ وَاصْبِرْ ﴾ ’’اور
(اس پر) صبر کیجیے‘‘ کیونکہ یہ صبر کی بلند ترین نوع ہے اور اس کا انجام بھی قابل ستائش ہے۔ سستی اور کسل مندی کا شکار ہوں ، نہ تنگ دل ہوں بلکہ اس پر قائم و دائم اور ثابت قدم رہیں ۔
﴿ حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ﴾ ’’یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے۔‘‘ یعنی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درمیان اور آپ کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر دے۔
﴿ وَهُوَ خَیْرُ الْحٰؔكِمِیْنَ ﴾ ’’اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘ کیونکہ اس کا فیصلہ کامل عدل و انصاف پر مبنی ہے جو قابل تعریف ہے۔
نبی کریمe نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور صراط مستقیم پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دیا۔ آپ کو آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں دلائل و براہین کے ذریعے سے نصرت عطا کرنے کے بعد شمشیر و سناں کے ذریعے سے فتح و نصرت سے نوازا۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ہر قسم کی حمد و ستائش اور ثنائے حسن جیسا کہ اس کی عظمت و جلال، اس کے کمال اور اس کے بے پایاں احسان کے لائق ہے۔