آیت:
تفسیر سورۂ انفال
تفسیر سورۂ انفال
آیت: 1 - 4 #
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (1) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (4)}.
سوال کرتے ہیں وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں، کہہ دیجیے! غنیمتیں اللہ اوراس کے رسول کے لیے ہیں، پس ڈرو تم اللہ سے اور اصلاح کرولو تم اپنی آپس میں اور اطاعت کرو تم اللہ کی اوراس کے رسول کی اگر ہوتم مومن(1) یقینا (کامل) مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ذکر کیا جائے اللہ کا تو ڈر جاتے ہیں دل ان کےاور جب تلاوت کی جاتی ہیں اوپر ان کے اس کی آیتیں تو زیادہ کردیتی ہیں وہ ان کو ایمان میں اور اوپر اپنے رب ہی کے وہ توکل کرتے ہیں(2)وہ لوگ جو قائم کرتے ہیں نماز اوراس سے جو رزق دیا ہم نے اس کو وہ خرچ کرتے ہیں(3) یہی لوگ ہیں مومن سچے، ان کے لیے درجے ہیں نزدیک ان کے رب کے اور بخشش ہے اور رزق باعزت(4)
#
{1} الأنفال: هي الغنائم التي يُنَفِّلُها اللهُ لهذه الأمة من أموال الكفار. وكانت هذه الآيات في هذه السورة قد نزلت في قصَّة بدرٍ، أول غنيمة كبيرة غنمها المسلمون من المشركين، فحصل بين بعض المسلمين فيها نزاعٌ، فسألوا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - عنها، فأنزل الله: {يسألونَكَ عن الأنفالِ}: كيف تُقْسَمُ؟ وعلى مَن تُقْسَمُ؟ {قل}: لهم الأنفال لله ورسولِهِ يضعانِها حيث شاءا؛ فلا اعتراض لكم على حكم الله ورسوله، بل عليكم إذا حكم الله ورسوله أن ترضوا بحكمهما وتسلِّموا الأمر لهما، وذلك داخلٌ في قوله: {فاتَّقوا الله}: بامتثال أوامره واجتناب نواهيه، {وأصلِحوا ذاتَ بينِكم}؛ أي: أصلِحوا ما بينكم من التشاحن والتقاطع والتدابر بالتوادد والتحاب والتواصل؛ فبذلك تجتمع كلمتُكم ويزولُ ما يحصُلُ بسبب التقاطع من التخاصُم والتشاجُر والتنازع. ويدخُلُ في إصلاح ذاتِ البين تحسينُ الخُلُق لهم والعفو عن المسيئين منهم؛ فإنه بذلك يزول كثير مما يكون في القلوب من البغضاء والتدابر، والأمر الجامع لذلك كله قوله: {وأطيعوا الله ورسولَه إن كنتم مؤمنين}: فإنَّ الإيمان يدعو إلى طاعة الله ورسوله؛ كما أنَّ من لم يطع الله ورسوله فليس بمؤمنٍ، ومن نقصت طاعتُهُ لله ورسوله؛ فذلك لنقص إيمانه.
[1] ﴿الْاَنْفَالِ ﴾ سے مراد غنائم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے مال میں سے اس امت کو عطا کی ہیں ۔ اس سورۂ مبارکہ کی یہ آیات کریمات غزوۂ بدر کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو کفار سے اولین مال غنیمت حاصل ہوا تو اس کے بارے میں بعض مسلمانوں میں نزاع واقع ہوگیا چنانچہ انھوں نے اس بارے میں رسول اللہe سے استفسار کیا۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ۔ ﴿یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ﴾ ’’وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ‘‘ ان کو کیسے تقسیم کیا جائے اور انھیں کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ ﴿قُ٘لِ ﴾ آپ ان سے کہہ دیجیے ﴿ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾ ’’غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں ‘‘ وہ جہاں چاہیں گے ان غنائم کو خرچ کریں گے۔ پس تمھیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ بلکہ تم پر فرض ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کر دیں تو تم ان کے فیصلے پر راضی رہو اور ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دو اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’پس اللہ سے ڈرو’’ اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے۔ ﴿ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ﴾ ’’اور صلح کرو آپس میں ‘‘ یعنی تم آپس کے بغض، قطع تعلقی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی، آپس کی مودت، محبت اور میل جول کے ذریعے سے اصلاح کرو۔ اس طرح تم میں اتفاق پیدا ہوگا اور قطع تعلق، مخاصمت اور آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ آپس کے معاملات کی اصلاح میں حسن اخلاق اور برا سلوک کرنے والوں سے درگزر کا بہت بڑا دخل ہے اس سے دلوں کا بغض اور نفرت دور ہو جاتی ہے اور ان تمام باتوں کی جامع بات یہ ہے ﴿ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جیسے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ مومن نہیں ، جس کی اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ناقص ہے اس کا ایمان بھی اتنا ہی ناقص ہے۔
#
{2} ولما كان الإيمانُ قسمين: إيماناً كاملاً يترتَّب عليه المدح والثناء والفوزُ التامُّ، وإيماناً دون ذلك؛ ذَكَرَ الإيمانَ الكامل، فقال: {إنما المؤمنون}: الألف واللام للاستغراق لشرائع الإيمان، {الذين إذا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قلوبُهم}؛ أي: خافت ورهبت فأوجبت لهم خشية الله تعالى الانكفافَ عن المحارم؛ فإنَّ خوف الله تعالى أكبر علاماته أن يَحْجُزَ صاحبَه عن الذنوب. {وإذا تُلِيَتْ عليهم آياتُهُ زادتهم إيماناً}: ووجه ذلك أنَّهم يلقون له السمع ويحضِرون قلوبهم لتدبُّره؛ فعند ذلك يزيد إيمانهم؛ لأنَّ التدبُّر من أعمال القلوب، ولأنَّه لا بدَّ أنْ يبيِّن لهم معنىً كانوا يجهلونَه ويتذكَّرون ما كانوا نَسوه أو يُحْدِثَ في قلوبهم رغبةً في الخير واشتياقاً إلى كرامة ربِّهم أو وَجَلاً من العقوبات وازدجاراً عن المعاصي، وكلُّ هذا مما يزداد به الإيمان. {وعلى ربِّهم}: وحده لا شريك له {يتوكَّلون}؛ أي: يعتَمِدون في قلوبهم على ربِّهم في جلب مصالحهم ودفع مضارِّهم الدينيَّة والدنيويَّة، ويثقون بأنَّ الله تعالى سيفعلُ ذلك، والتوكُّل هو الحامل للأعمال كلِّها؛ فلا توجَدُ ولا تكْمُلُ إلا به.
[2] چونکہ ایمان کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایمان کامل، جس پر مدح و ثنا اور کامل فوز و فلاح مترتب ہوتی ہے۔ (۲) ناقص ایمان۔ تو اس کامل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’مومن تو صرف وہ ہیں ‘‘ الف اور لام استغراق کے لیے ہے جو تمام شرائع ایمان کو شامل ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُ٘لُوْبُهُمْ ﴾ ’’کہ جب ذکر کیا جائے اللہ کا تو ڈر جائیں دل ان کے‘‘ یعنی ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور یہ ڈر خشیت الٰہی اور محارم سے اجتناب کا موجب بنتا ہے کیونکہ خوف الٰہی گناہوں سے باز آنے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ﴿ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا ﴾ ’’اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو زیادہ ہو جاتا ہے ان کا ایمان‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آیات الٰہی کو حضور قلب کے ساتھ غور سے سنتے ہیں تاکہ وہ ان میں غور و فکر کریں جس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو کیونکہ تدبر، اعمال قلوب میں شمار ہوتا ہے نیز ان کے لیے معانی کی بھی توضیح ہوتی ہے جن سے وہ لاعلم ہیں اور ان کو ان امور کی یاددہانی ہوتی ہے جن کو وہ فراموش کر چکے ہیں یا ان کے دلوں میں نیکیوں کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور اپنے رب کے اکرام و تکریم کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے یا ان کے دل میں عذاب سے خوف اور معاصی سے ڈر پیدا ہوتا ہے اور ان تمام امور سے ایمان بڑھتا ہے۔ ﴿ وَّعَلٰى رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور اپنے رب پر‘‘ یعنی اپنے رب وحدہ لا شریک پر ﴿ یَتَوَؔكَّلُ٘وْنَ ﴾ ’’وہ بھروسہ کرتے ہیں ‘‘ یعنی اپنے مصالح کے حصول اور دینی اور دنیاوی مضرتوں کو دور کرنے میں اپنے دلوں میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور انھیں پورا وثوق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام ضرور کرے گا۔ توکل ہی انسانوں کو تمام اعمال پر آمادہ کرتا ہے توکل کے بغیر اعمال وجود میں آتے ہیں نہ تکمیل پا سکتے ہیں ۔
#
{3} {الذين يقيمون الصلاة}: من فرائض ونوافل، بأعمالها الظاهرة والباطنة؛ كحضور القلب فيها، الذي هو رُوح الصلاة ولُبُّها، {ومما رزقْناهم ينفقونَ}: النفقاتِ الواجبةَ؛ كالزكوات والكفَّارات والنفقة على الزوجات والأقارب وما ملكت أيمانهم، والمستحبَّة؛ كالصدقة في جميع طرق الخير.
[3] ﴿ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’جو نماز پڑھتے ہیں ۔‘‘ فرض اور نفل نماز کو، اس کے ظاہری اور باطنی اعمال، مثلاً: حضور قلب، جو کہ نماز کی روح اور اس کا مغز ہے، کے ساتھ قائم کرتے ہیں ۔ ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾ ’’اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ‘‘ یعنی وہ نفقات واجبہ ، مثلاً:زکاۃ، کفارہ، بیویوں ، اقارب اور غلاموں پر خرچ کرتے ہیں اور نفقات مستحبہ ، مثلاً: بھلائی کے تمام راستوں میں صدقہ کرتے ہیں ۔
#
{4} {أولئك}: الذين اتَّصفوا بتلك الصفات، {هم المؤمنون حقًّا}: لأنهم جمعوا بين الإسلام والإيمان، بين الأعمال الباطنة والأعمال الظاهرة، بين العلم والعمل، بين أداء حقوق الله وحقوق عباده. وقدَّم تعالى أعمال القلوب لأنَّها أصلٌ لأعمال الجوارح وأفضلُ منها. وفيها دليلٌ على أن الإيمان يزيدُ وينقُصُ؛ فيزيدُ بفعل الطاعة وينقُصُ بضدِّها. وأنه ينبغي للعبد أن يتعاهَدَ إيمانه ويُنْميه. وأنَّ أولى ما يحصُلُ به ذلك تدبُّر كتاب الله تعالى والتأمُّل لمعانيه. ثم ذكر ثواب المؤمنين حقًّا، فقال: {لهم درجاتٌ عند ربِّهم}؛ أي: عاليةٌ بحسب علوِّ أعمالهم. {ومغفرةٌ}: لذُنوبهم، {ورزقٌ كريمٌ}: وهو ما أعدَّ الله لهم في دار كرامته مما لا عين رأتْ ولا أذن سمعتْ ولا خطر على قلبِ بشرٍ. ودلَّ هذا على أنَّ مَن لم يصِلْ إلى درجتهم في الإيمان وإن دَخَلَ الجنة؛ فلن ينال ما نالوا من كرامةِ الله التامَّةِ.
[4] ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا﴾ ’’وہی حقیقی مومن ہیں ‘‘ کیونکہ انھوں نے اسلام اور ایمان، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ، علم اور عمل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو جمع کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعمال قلوب کو مقدم رکھا ہے کیونکہ اعمال قلوب، اعمال جوارح کی بنیاد اور ان سے افضل ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ نیکی کے افعال سے ایمان بڑھتا ہے اور اس کے متضاد افعال سے ایمان گھٹتا ہے۔ نیز بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس کو نشوونما دے اور یہ مقصد کتاب اللہ میں تدبر اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے سے بدرجہ اولیٰ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے حقیقی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَهُمْ دَرَجٰؔتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور ان کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات بلند ہوں گے۔ ﴿ وَمَغْفِرَةٌ ﴾ اور ان کے گناہوں کی بخشش ﴿ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور عزت کی روزی۔‘‘ یہ وہ روزی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اکرام و عزت والے گھر میں اہل ایمان کے لیے تیار کر رکھی ہے جو کسی آنکھ نے دیکھی ہے نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی بشر کا طائر خیال وہاں تک پہنچا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی ایمان میں ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا، وہ اگرچہ جنت میں داخل ہو جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی کرامت تامہ جو انھیں حاصل ہوئی ہے، اسے حاصل نہیں ہوگی۔
آیت: 5 - 8 #
{كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ (5) يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (6) وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ (7) لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (8)}.
جس طرح کہ نکالا تھا آپ کو آپ کے رب نے آپ کے گھر سے ساتھ حق کےاور بلاشبہ کچھ لوگ مومنوں میں سے البتہ ناپسند کرتے تھے(5) وہ جھگڑتے تھے آپ سے حق میں بعد اس کے کہ واضح ہوگیا تھا وہ، گویا کہ ہانکے جارہے ہیں وہ موت کی طرف اور وہ دیکھ رہے ہیں (اسے) (6)اور جب وعدہ کررہا تھا تم سے اللہ دو گروہوں میں سے ایک کا کہ یقینا وہ تمھارے لیے ہے اور تم چاہتے تھے کہ جو غیر مسلح(گروہ) ہے وہی ہوتمھارے لیےاور چاہتا تھا اللہ کہ وہ ثابت کر دکھائے حق کو ساتھ اپنے حکموں کے اور کاٹ دے جڑ کافروں کی(7)تاکہ وہ حق کر دکھائے حق کو اور باطل کر دکھائے باطل کو، اگرچہ ناپسند کریں(اسے) مجرم لوگ(8)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم اور مبارک غزوہ کے ذکر سے قبل، اہل ایمان کی صفات بیان فرمائی ہیں جن کو انھیں اختیار کرنا چاہیے کیونکہ جو کوئی ان صفات کو اختیار کرتا ہے، اس کے احوال میں استقامت آجاتی ہے اور اس کے اعمال درست ہو جاتے ہیں ۔ جن میں سب سے بڑا عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
#
{5 ـ 6} فكما أنَّ إيمانهم هو الإيمان الحقيقي وجزاءهم هو الحقُّ الذي وعدهم الله به؛ كذلك أخرج الله رسوله - صلى الله عليه وسلم - من بيته إلى لقاء المشركين في بدرٍ بالحقِّ الذي يحبُّه الله تعالى وقد قدَّره وقضاه، وإنْ كان المؤمنون لم يخطُرْ ببالهم في ذلك الخروج أنَّه يكون بينهم وبين عدوِّهم قتالٌ؛ فحين تبيَّن لهم أنَّ ذلك واقعٌ؛ جعل فريقٌ من المؤمنين يجادلون النبي - صلى الله عليه وسلم - في ذلك ويكرهون لقاء عدوِّهم كأنَّما يُساقونَ إلى الموت وهم ينظُرون! والحال أن هذا لا ينبغي منهم، خصوصاً بعدما تبيَّن لهم أن خروجهم بالحقِّ ومما أمر الله به ورضيه؛ فبهذه الحال ليس للجدال فيها محلٌّ؛ لأنَّ الجدال محلُّه وفائدته عند اشتباه الحقِّ والتباس الأمر، فأما إذا وَضَحَ وبان؛ فليس إلا الانقياد والإذعان. هذا؛ وكثير من المؤمنين لم يجرِ منهم من هذه المجادلة شيءٌ ولا كرهوا لقاء عدوِّهم، وكذلك الذين عاتبهم الله انقادوا للجهاد أشدَّ الانقياد، وثبَّتهم الله، وقيَّض لهم من الأسباب ما تطمئنُّ به قلوبهم كما سيأتي ذكرُ بعضها.
[6,5] پس جیسے ان کا ایمان، سچا اور حقیقی ایمان ہے ان کے لیے جزا بھی حقیقی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو بدر کے مقام پر مشرکین کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کے لیے اس حق کے ساتھ باہر نکالا، جس حق کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس معرکے کو اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا تھا اگرچہ گھر سے نکلنا اور اپنے دشمن کے خلاف لڑنا کبھی ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ معرکہ ہو کر رہے گا تو مومنوں میں سے ایک گروہ نے اس بارے میں رسول اللہe سے جھگڑنا شروع کر دیا، وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کرتے تھے، گویا کہ ان کو، ان کے دیکھتے ہوئے، موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ رویہ ان کو زیب نہیں دیتا تھا خاص طور پر جب ان پر واضح ہوگیا تھا کہ ان کا گھر سے نکلنا حق پر مبنی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس صورت حال میں یہ بحث کرنے کا مقام نہیں تھا بحث کرنے کا محل و مقام وہ ہوتا ہے جہاں حق میں اشتباہ اور معاملے میں التباس ہو، وہاں بحث کرنا مفید ہوتا ہے۔ لیکن جب حق واضح اور ظاہر ہو جائے تو اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سرافگندہ ہونے کے سوا کوئی اور صورت نہیں رہتی۔ یہ تو تھی ان لوگوں کی بات مگر اکثر اہل ایمان نے اس بارے میں کسی قسم کی بحث نہیں کی اور نہ انھوں نے دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کیا۔ اس طرح وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا تھا انھوں نے جہاد کے لیے سر تسلیم خم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور ان کو وہ اسباب مہیا فرمائے جن سے ان کے دل مطمئن ہوگئے۔ جیسا کہ ان میں سے بعض اسباب کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔
#
{7} وكان أصلُ خروجهم يتعرَّضون لعير خرجت مع أبي سفيان بن حرب لقريش إلى الشام قافلة كبيرة، فلما سمعوا برجوعها من الشام؛ ندب النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - الناس، فخرج معه ثلاثمائة وبضعة عشر رجلاً معهم سبعون بعيراً يعتقبون عليها ويحملون عليها متاعَهم، فسمع بخبرهم قريشٌ، فخرجوا لمنع عيرهم في عَدَدٍ كثيرٍ وعُدَدٍ وافرة من السلاح والخيل والرجال، يبلغ عددهم قريباً من الألف، فوعد الله المؤمنين إحدى الطائفتين: إما أن يظفروا بالعير، أو بالنفير، فأحبوا العير لقلَّة ذات يد المسلمين ولأنَّها غير ذات الشوكة. ولكن الله تعالى أحبَّ لهم وأراد أمراً أعلى مما أحبُّوا، أراد أن يظفروا بالنَّفير الذي خرج فيه كبراء المشركين وصناديدُهم. فيريد اللهُ أن يُحِقَّ الحقَّ بكلماتِهِ فينصر أهله، {ويقطَعَ دابرَ الكافرين}؛ أي: يستأصل أهلَ الباطل ويُري عبادَهُ من نصرِهِ للحقِّ أمراً لم يكن يخطر ببالهم.
[7] ان کا مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کا اصل مقصد تو اس تجارتی قافلے کا راستہ روکنا تھا جو ابوسفیان کی قیادت میں قریش کا سامان تجارت لے کر شام گیا تھا، یہ ایک بہت بڑا قافلہ تھا۔ جب مسلمانوں کو قریش کے قافلے کی واپسی کی اطلاع ملی تو رسول اللہe نے اس قافلے کو روکنے کے لیے مسلمانوں کو اکٹھا کیا چنانچہ آپ کے ساتھ تین سو سے کچھ زائد مسلمان مدینہ منورہ سے نکلے۔ ستر اونٹوں کے ساتھ، جن پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے اور ان پر انھوں نے اپنا سامان لادا ہوا تھا۔ قریش کو بھی مسلمانوں کے باہر نکلنے کی خبر پہنچ گئی، وہ اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے کثیر تعداد میں جنگی ساز و سامان کی پوری تیاری، گھوڑ سواروں اور پیادوں کے ساتھ مکہ سے نکلے۔ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان دونوں گروہوں ، یعنی قافلہ یا فوج، میں سے ایک کے مقابلے میں ان کو فتح سے نوازے گا۔ مسلمانوں نے اپنی تنگ دستی کی وجہ سے قافلے کے ملنے کو پسند کیا۔ نیز قافلہ والوں کے پاس طاقت بھی زیادہ نہیں تھی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے لیے اس امر کو پسند کیا جو اس سے اعلیٰ و افضل تھا جسے مسلمان پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کفار کی فوج کے مقابلے میں ظفریاب ہوں جس کے اندر کفار کے بڑے سردار اور بہادر شہسوار لڑنے کے لیے آئے تھے۔ ﴿ وَیُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰؔتِهٖ ﴾ ’’اور اللہ چاہتا تھا کہ سچا کر دے حق کو اپنے کلمات سے‘‘ پس اس طرح وہ اہل حق کی مدد فرماتا ہے ﴿ وَیَقْ٘طَعَ دَابِرَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور کاٹ ڈالے جڑ کافروں کی‘‘ یعنی وہ اہل باطل کا استیصال کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نصرت حق کا ایسا معاملہ دکھاتا ہے کہ جس کے بارے میں کبھی ان کے دل میں خیال بھی نہیں گزرا ہوتا۔
#
{8} {لِيُحِقَّ الحقَّ}: بما يُظْهِرُ من الشواهد والبراهين على صحته وصدقه، {ويُبْطِل الباطل}: بما يقيم من الأدلة والشواهد على بطلانه، {ولو كره المجرمون}: فلا يبالي الله بهم.
[8] ﴿ لِیُحِقَّ الْحَقَّ ﴾ ’’تاکہ حق کو ثابت کردے۔‘‘ حق کی صحت اور صداقت کے شواہد اور براہین کو ظاہر کر کے۔ ﴿ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ ﴾ ’’اور باطل کو باطل کردے۔‘‘ اس کے بطلان پر دلائل اور شواہد قائم کر کے۔ ﴿ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’خواہ مجرموں کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو‘‘ پس اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں ۔
آیت: 9 - 14 #
{إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9) وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (10) إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (11) إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (12) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (13) ذَلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ (14)}.
جب فریاد کررہے تھے تم اپنے رب سے، پس قبول کرلی اس نے (فریاد) تمھاری کہ بے شک میں امداد کروں گا تمھاری ساتھ ایک ہزار فرشتوں کے، ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے(9)اور انھیں بنایا اس (مدد) کو اللہ نے مگر خوشخبری اور تاکہ مطمئن ہوجائیں اس سے تمھارے دل اورنہیں ہے نصرت مگر اللہ ہی کے پاس سے، بلاشبہ اللہ غالب ہے خوب حکمت والا(10)(یاد کرو) جب طاری کررہا تھا (اللہ) تم پر اونگھ امن دینے کے لیے اپنی طرف سے اور نازل فرما رہا تھا تم پر آسمان سے پانی (بارش) تاکہ وہ پاک کردے تمھیں اس کے ساتھ اور لے جائے تم سے نجاست شیطان کی اور تاکہ مضبوط کردے تمھارے دلوں کواور تاکہ ثابت رکھے اس کی وجہ سے قدموں کو(11) (یاد کرو)جب وحی کر رہا تھا آپ کا رب طرف فرشتوں کی کہ بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں، پس ثابت (قدم) رکھو تم ان کو جو ایمان لائے، عنقریب ڈالوں گا میں دلوں میں ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، رعب۔ پس مارو تم اوپر (ان کی) گردنوں کےاور ضرب لگاؤ ان کی (ہر) ہر پور پر(12) یہ ، اس لیے کہ بلاشبہ انھوں نے مخالفت کی اللہ اوراس کے رسول کی اور جو کوئی مخالفت کرے اللہ اوراس کے رسول کی تو یقینا اللہ سخت سزا دینے والا ہے(13) یہ (سزا) پس چکھو تم اس کواور بے شک کافروں کے لیے عذاب ہے آگ کا(14)
#
{9} أي: اذكروا نعمة الله عليكم لمَّا قارب التقاؤكم بعدوِّكم؛ استغثتُم بربِّكم وطلبتُم منه أن يعينكم وينصركم، {فاستجاب لكم}: وأغاثكم بعدَّة أمور؛ منها: أنَّ الله أمدَّكم {بألفٍ من الملائكة مردفينَ}؛ أي: يَرْدُفُ بعضُهم بعضاً.
[9] یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب اس نے دشمنوں کے ساتھ تمھاری مڈبھیڑ کو یقینی اور قریب کر دیا تو تم نے اپنے رب کو مدد کے لیے پکارا اور اس سے اعانت اور نصرت کے طلب گار ہوئے۔ ﴿فَاسْتَجَابَ لَكُمْ ﴾ ’’پس اس نے تمھاری پکار کا جواب دیا‘‘ اور متعدد امور کے ساتھ تمھاری مدد فرمائی، مثلاً: اللہ تعالیٰ نے تمھاری مدد کے لیے فرشتوں کو بھیجا۔ ﴿ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ ﴾ ’’ہزار فرشتے لگاتار آنے والے‘‘ یعنی وہ پے درپے ایک دوسرے کے پیچھے آرہے تھے۔
#
{10} {وما جعله الله}؛ أي: إنزال الملائكة {إلا بشرى}؛ أي: لتستبشر بذلك نفوسكم، {ولتطمئنَّ به قلوبُكم}: وإلاَّ؛ فالنصر بيد الله، ليس بكثرة عَدَدٍ ولا عُدَدٍ. {إن الله عزيزٌ}: لا يغالبُه مغالبٌ، بل هو القهار الذي يخذل من بلغوا من الكثرة وقوة العدد والآلات ما بلغوا، {حكيمٌ}: حيث قدَّر الأمور بأسبابها ووضع الأشياء مواضعها.
[10] ﴿وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور نہیں بنایا اس کو اللہ نے‘‘ یعنی فرشتوں کے نازل کرنے کو ﴿ اِلَّا بُشْ٘رٰى ﴾ ’’مگر خوش خبری‘‘ تاکہ اس سے تمھارے دل خوشی حاصل کریں ۔ ﴿ وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُ٘لُوْبُكُمْ﴾ ’’اور تمھارے دل مطمئن ہوں ‘‘ ورنہ فتح و نصرت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، فتح کثرت تعداد اور سازوسامان سے حاصل نہیں ہوتی۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ﴾ ’’بے شک اللہ غالب ہے۔‘‘ کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا بلکہ وہی غالب ہے وہ جن لوگوں سے علیحدہ ہو کر ان کی مدد چھوڑ دیتا ہے خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ اور آلات حرب خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں (غلبہ حاصل نہیں کر سکتے) ﴿ حَكِیْم ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے تمام امور کو ان کے اسباب کے ساتھ مقدر کیا ہے اور اس نے ہر چیز کو اس مقام پر رکھا ہے جو اس کے لیے مناسب ہے۔
#
{11} ومن نصرِهِ واستجابته لدعائكم أن أنزل عليكم نعاساً {يُغَشِّيكم}؛ أي: فيُذْهِب ما في قلوبكم من الخوف والوجل، ويكون {أمَنَةً}: لكم وعلامةً على النصر والطمأنينة. ومن ذلك أنه أنزل عليكم من السماء مطراً ليطهِّركم به من الحَدَث والخَبَث، وليطهِّركم به من وساوس الشيطان ورجزه، {ولِيَرْبِطَ على قلوبكم}؛ أي: يثبِّتها؛ فإنَّ ثبات القلب أصلُ ثبات البدن، {ويُثَبِّتَ به الأقدام}: فإن الأرض كانت سهلةً دهسةً، فلما نزل عليها المطر؛ تلبَّدت، وثبتت به الأقدام.
[11] اس کی فتح و نصرت اور تمھاری دعا کی قبولیت یہ ہے کہ اس نے تم پر اونگھ نازل کر دی ﴿ یُغَشِّیْكُمُ ﴾ ’’جو تمھیں ڈھانپ رہی تھی۔‘‘ یعنی تمھارے دل میں جو ڈر اور خوف تھا اسے دور کر رہی تھی۔ ﴿ اَمَنَةً ﴾ تمھارے لیے سکون کا باعث، فتح و نصرت اور اطمینان کی علامت تھی۔ اور اس کی نصرت ہی کی ایک صورت یہ تھی کہ اس نے تم پر آسمان سے بارش نازل کی تاکہ تم سے ناپاکی اور گندگی دور کر کے تمھیں پاک کرے اور شیطانی وسوسوں اور اس کی نجاست سے تمھاری تطہیر کرے۔ ﴿ وَلِیَ٘رْبِطَ عَلٰى قُ٘لُوْبِكُمْ ﴾ ’’اور تمھارے دلوں کو مضبوط کردے۔‘‘ یعنی دلوں کو مضبوطی اور ثبات بخشے کیونکہ دل کی مضبوطی بدن کی مضبوطی ہے۔ ﴿ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ ﴾ ’’اور جما دے اس کے ذریعے سے تمھارے قدم‘‘ کیونکہ زمین ہموار اور نرم تھی جب اس پر بارش نازل ہوئی تو سخت اور ٹھوس ہوگئی اور قدم مضبوطی سے جمنے لگے۔
#
{12} ومن ذلك أنَّ الله أوحى إلى الملائكة: {أنِّي معكم}: بالعون والنصر والتأييد، {فثبِّتوا الذين آمنوا}؛ أي: ألقوا في قلوبهم وألهموهم الجراءة على عدوِّهم ورغِّبوهم في الجهاد وفضله. {سألقي في قلوبِ الذين كَفَروا الرُّعْبَ}: الذي هو أعظم جندٍ لكم عليهم؛ فإنَّ الله إذا ثبَّت المؤمنين وألقى الرعب في قلوب الكافرين؛ لم يقدِرِ الكافرون على الثَّبات لهم، ومَنَحَهُمُ الله أكتافهم، {فاضربوا فوقَ الأعناق}؛ أي: على الرقاب، {واضرِبوا منهم كلَّ بنانٍ}؛ أي: مفصل. وهذا خطابٌ: إما للملائكة الذين أوحى [اللهُ] إليهم أن يثبِّتوا الذين آمنوا فيكون في ذلك دليلٌ أنَّهم باشروا القتال يوم بدر، أو للمؤمنين يشجِّعهم الله ويعلِّمهم كيف يقتلون المشركين وأنهم لا يرحمونهم.
[12] یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی کہ اس نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی۔ ﴿ اَنِّیْ مَعَكُمْ ﴾ ’’کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ۔‘‘ یعنی میری مدد، نصرت اور تائید تمھارے ساتھ ہے۔ ﴿ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’پس ثابت رکھو تم دل ایمان والوں کے‘‘ یعنی دشمن کے مقابلے میں ان کے دلوں کو مضبوط کرو اور ان کے دلوں کو جرأت سے لبریز کر دو اور انھیں جہاد کی ترغیب دو۔ ﴿ سَاُلْ٘قِیْ فِیْ قُ٘لُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ ﴾ ’’میں ڈال دو ں گا کافروں کے دلوں میں دہشت‘‘ جو کافروں کے مقابلے میں تمھارا سب سے بڑا لشکر ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے تو کفار ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں اہل ایمان کے قبضے میں دے دیتا ہے۔ ﴿ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ ﴾ ’’پس تم انکی گردنیں مارو‘‘ ﴿وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُ٘لَّ بَنَانٍ ﴾ ’’اور کاٹو ان کی پور پور‘‘ یعنی ان کے جوڑ جوڑ پر ضرب لگاؤ... یہ خطاب یا تو ان فرشتوں سے ہے جن کی طرف وحی کی گئی تھی کہ وہ اہل ایمان کے دل مضبوط کریں ، تب یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غزوۂ بدر میں فرشتے قتال میں شریک ہوئے... یا یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور انھیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ مشرکین کو کیسے قتل کریں اور یہ کہ وہ ان پر رحم نہ کریں ۔
#
{13} ذلك لأنَّهم شاقُّوا اللهَ ورسولَه؛ أي: حاربوهما وبارزوهما بالعداوة، {ومَن يشاقِقِ اللهَ ورسوله فإنَّ الله شديد العقاب}: ومن عقابه تسليطُ أوليائه على أعدائه وتقتيلهم.
[13] ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’یہ اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔‘‘ یعنی یہ اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی اور ان کے ساتھ عداوت کا اظہار کیا۔ ﴿ وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور جو مخالف ہوا اللہ اور اس کے رسول کا تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے‘‘ اور یہ بھی اس کا عذاب ہی ہے کہ اس نے اپنے اولیاء کو اپنے اعداء پر مسلط کیا اور ان کے ہاتھوں قتل کروایا۔
#
{14} {ذلكم}: العذاب المذكور، {فَذوقوهُ}: أيُّها المشاققون لله ورسولِهِ عذاباً معجَّلاً. {وأنَّ للكافرين عذابَ النارِ}. وفي هذه القصة من آيات الله العظيمة ما يدلُّ على أن ما جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - رسول الله حقًّا: منها: أنَّ الله وعَدَهم وعداً فأنجزَهُموه. ومنها: ما قال الله تعالى: {قد كانَ لَكُمْ آيةٌ في فئتينِ التَقَتا فئةٌ تقاتِلُ في سبيل اللهِ وأخرى كافرةٌ يَرَوْنَهم مِثْلَيْهِم رَأيَ العين ... } الآية. ومنها: إجابة دعوة الله للمؤمنين لما استغاثوه بما ذَكَره من الأسباب. وفيها الاعتناءُ العظيم بحال عباده المؤمنين وتقييضُ الأسباب التي بها ثَبَتَ إيمانُهم، وثبتتْ أقدامُهم، وزال عنهم المكروه والوساوس الشيطانية. ومنها: أن من لطف الله بعبده أن يُسَهِّلَ عليه طاعته وييسِّرها بأسبابٍ داخليَّة وخارجيَّة.
[14] ﴿ذٰلِكُمْ﴾ یہ عذاب مذکور ﴿ فَذُوْقُوْهُ ﴾ ’’پس چکھو تم اس کو‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والو! (اس دنیا کے) فوری عذاب کا مزا چکھ لو ﴿ وَاَنَّ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ ﴾ ’’اور کافروں کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔‘‘ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کچھ محمد رسول اللہe لے کر تشریف لائے ہیں ، وہ حق ہے۔ (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ایک وعدہ کیا اور یہ وعدہ پورا کر دیا۔ (۲) اس میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا١ؕ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَاُخْرٰؔى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْ٘لَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ﴾ (آل عمران: 3؍13) ’’تمھارے لیے ان دو گروہوں میں (جنگ بدر میں ) جن کی مڈبھیڑ ہوئی ایک نشانی تھی ایک گروہ وہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا، وہ اپنی آنکھوں سے انھیں اپنے سے دوگنا مشاہدہ کر رہے تھے‘‘۔ (۳) جب اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لیے پکارا تو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے ان کی دعا قبول فرمائی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کے حال اور ان اسباب کے مقدر کرنے کے ساتھ بڑا اعتناء پایا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اہل ایمان کے ایمان مضبوط اور ان میں ثابت قدمی پیدا ہو اور ان سے تمام ناپسندیدہ امور اور شیطانی وسوسے دور ہوں ۔ (۴) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر لطف و کرم ہے کہ وہ داخلی اور خارجی اسباب کے ذریعے سے اس کے لیے اطاعت کے راستوں کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔
آیت: 15 - 16 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ (15) وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (16)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب ملو تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، اکٹھے ہوکر تو نہ پھیرو ان سے (اپنی) پیٹھیں(15) اور جو شخص پھیرے گا ان سے اس دن اپنی پیٹھ، سوائے اس شخص کے جو پینترا بدلنے والا ہو لڑائی کے لیے یا پناہ پکڑنے والا ہو طرف (اپنی) کسی جماعت کی تو یقینا لوٹا وہ شخص ساتھ غضب کے اللہ کےاوراس کا ٹھکانا جہنم ہےاور بری ہے وہ جگہ ، پھرنے کی(16)
#
{15} يأمر تعالى عبادَهُ المؤمنين بالشجاعة الإيمانيَّة والقوَّة في أمره والسعي في جَلْب الأسباب المقويَّة للقلوب والأبدان، ونهاهم عن الفرار إذا التقى الزحفان، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا إذا لقيتُمُ الذين كَفَروا زحفاً}؛ أي: في صفِّ القتال وتزاحف الرجال واقتراب بعضهم من بعض، {فلا تولُّوهم الأدبارَ}: بل اثبُتوا لقتالِهِم واصبِروا على جِلادِهم؛ فإنَّ في ذلك نُصرةً لدين الله وقوَّةً لقلوب المؤمنين وإرهاباً للكافرين.
[15] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کو شجاعت ایمانی، اللہ کے معاملے میں قوت اور دلوں اور جسموں کو مضبوط کرنے والے اسباب فراہم کرنے کا حکم دیا ہے اور جب دونوں فوجوں کے درمیان معرکہ ہو تو میدان جنگ سے فرار ہونے سے منع کیا ہے۔ ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا﴾ ’’اے ایمان والو، جب بھڑو تم کافروں سے میدان جنگ میں ‘‘ یعنی جب لڑائی کے لیے صف بندی ہو چکی ہو، فوجیں ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہی ہوں اور جنگجو ایک دوسرے کے قریب آچکے ہوں ، ﴿ فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَ٘ارَ ﴾ ’’تو پھر کفار کے سامنے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو‘‘ بلکہ ان سے لڑنے کے لیے ثابت قدمی سے ڈٹ جاؤ اور ان کی قوت اور حملے کا صبر سے مقابلہ کرو۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اہل ایمان کے دلوں کی مضبوطی اور دشمنوں کو خوف زدہ کرنے کا باعث ہوگی۔
#
{16} {ومَن يُوَلِّهِم يومئذٍ دُبُرَهُ إلا متحرِّفاً لقتال أو متحيِّزاً إلى فئةٍ فقد باء}؛ أي: رجع {بغضبٍ من الله ومأواه}؛ أي: مقره {جهنَّم وبئس المصير}. وهذا يدلُّ على أن الفرار من الزحف من غير عذرٍ من أكبر الكبائر؛ كما وردت بذلك الأحاديث الصحيحة ، وكما نصَّ هنا على وعيده بهذا الوعيد الشديد. ومفهوم الآية أن المتحرِّف للقتال ـ وهو الذي ينحرفُ من جهة إلى أخرى ليكون أمكن له في القتال وأنكى لعدوِّه ـ فإنه لا بأس بذلك؛ لأنه لم يولِّ دُبُرَهُ فارًّا، وإنما ولَّى دُبُره ليستعلي على عدوِّه أو يأتيه من محلٍّ يصيب فيه غِرَّته أو ليخدِعَه بذلك أو غير ذلك من مقاصد المحاربين. وأن المتحيِّز إلى فئةٍ تمنعه وتعينه على قتال الكفار؛ فإنَّ ذلك جائزٌ؛ فإن كانت الفئة في العسكر؛ فالأمر في هذا واضح، وإن كانت الفئة في غير محلِّ المعركة؛ كانهزام المسلمين بين يدي الكافرين والتجائهم إلى بلد من بلدان المسلمين أو إلى عسكرٍ آخر من عسكر المسلمين؛ فقد ورد من آثار الصحابة ما يدلُّ على أنَّ هذا جائزٌ، ولعلَّ هذا يقيَّدُ بما إذا ظنَّ المسلمون أنَّ الانهزام أحمدُ عاقبة وأبقى عليهم، أما إذا ظنُّوا غلبتهم للكفار في ثباتهم لقتالهم؛ فيبعد في هذه الحال أن تكون من الأحوال المرخَّص فيها؛ لأنه على هذا لا يتصوَّر الفرار المنهيُّ عنه. وهذه الآية مطلقةٌ، وسيأتي في آخر السورة تقييدها بالعدد.
[16] ﴿ وَمَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَؔ ﴾ ’’اور جو کوئی پیٹھ پھیرے ان سے اس دن مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جا ملتا ہو فوج میں تو پھرا وہ‘‘ یعنی وہ لوٹا ﴿ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ ﴾ ’’اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانا‘‘ ﴿ جَهَنَّمُ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’جہنم ہے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی عذر کے بغیر، میدان جنگ سے فرار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے اور جیسا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرار ہونے والے کے لیے سخت وعید سنائی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جنگی چال کے طور پر میدان جنگ سے ہٹنے میں ، یعنی میدان جنگ میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر لڑنا تاکہ اس جنگی چال میں دشمن کو زک پہنچا سکے، کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ میدان جنگ سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا بلکہ اس نے دشمن پر غالب آنے کے لیے ایسا کیا ہے یا اس نے کسی پہلو سے دشمن پر حملہ کرنے کے لیے یا دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے یہ چال چلی ہے یا دیگر جنگی مقاصد کے لیے ایسا کیا ہے۔ اسی طرح کفار کے خلاف کمک کے طور پر ایک جماعت سے علیحدہ ہو کر دوسری جماعت میں جا کر ملنا بھی جائز ہے۔ اگر لشکر کا وہ گروہ جس کے ساتھ یہ گروہ جا کر ملا ہے، میدان جنگ میں موجود ہے تو ایسا کرنے کا جواز بالکل واضح ہے اور اگر وہ گروہ مقام معرکہ کی بجائے کسی اور مقام پر ہے ، مثلاً: مسلمانوں کا کفار کے مقابلے سے کسی ایک شہر سے پسپا ہو کر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا یا ایک میدان جنگ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ دشمن پر حملہ آور ہونا تو اس بارے میں صحابہ کرامؓ سے جو آراء منقول ہوئی ہیں وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں ۔ شاید پسپائی اس شرط سے مشروط ہے کہ مسلمان سمجھتے ہوں کہ پسپائی انجام کار ان کے لیے بہتر اور دشمن کے مقابلے میں زیادہ مفید ہو اور اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میدان جنگ میں جمے رہنے سے کفار پر ان کو غلبہ حاصل ہو جائے گا تو اس صورت حال میں یہ بعید ہے کہ پسپائی کا جواز ہو کیونکہ تب میدان جنگ سے فرار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے جس سے روکا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ مطلق ہے۔ (یعنی فرار کی ہر صورت ممنوع ہے) البتہ سورت کے آخر میں اس کو تعداد کے ساتھ مشروط کرنے کا بیان ہے۔ (دیکھیے آیت نمبر ۶۶ کی تفسیر)
آیت: 17 - 19 #
{فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (17) ذَلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ (18) إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ وَإِنْ تَنْتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَعُودُوا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ (19)}.
پس نہیں قتل کیا تم نے انھیں لیکن اللہ ہی نے قتل کیا ہے انھیں اورنہیں پھینکی تھی آپ نے (مٹھی بھر خاک) جبکہ پھینکی تھی آپ نے لیکن اللہ ہی نے پھینکی تھی وہ اور تاکہ نوازے وہ مومنوں کو اپنی طرف سے اچھے انعام سے، یقینا اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے(17) یہ تھی(حکمت) اور بے شک اللہ کمزور کرنے والا ہے تدبیر کافروں کی(18)اگر طلب کرتے ہوتو فیصلہ تو تحقیق آگیا ہے تمھارے پاس فیصلہ اوراگر باز آجاؤ تم تو وہ بہت بہتر ہے تمھارے لیےاور اگر تم ، پھر ایسا کرو گے تو ہم بھی دوبارہ ایسا ہی کریں گےاور ہرگز نہیں فائدہ دے گی تمھیں تمھاری جماعت کچھ اگرچہ وہ کثیر ہی ہواور یقینا اللہ ساتھ ہے مومنوں کے (19)
#
{17} يقول تعالى لما انهزم المشركون يوم بدرٍ وقتلهم المسلمونَ: {فلم تقتُلوهم}: بحولِكم وقوَّتكم، {ولكنَّ الله قتلهم}: حيث أعانكم على ذلك بما تقدَّم ذكره، {وما رميتَ إذْ رميتَ ولكنَّ الله رمى}: وذلك أنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - وقتَ القتال دخل العريش، وجعل يدعو الله، ويناشده في نصرته ، ثم خرج منه، فأخذ حَفْنَةً من تراب، فرماها في وجوه المشركين، فأوصلها الله إلى وجوههم، فما بقي منهم واحدٌ إلاَّ وقد أصاب وجهَهُ وفمه وعينيه منها ؛ فحينئذ انكسر حدهم وفتر زَندُهم وبان فيهم الفشل والضعف فانهزموا. يقول تعالى لنبيِّه: لستَ بقوَّتك حين رميتَ الترابَ أوصلتَهُ إلى أعينهم، وإنَّما أوصلناه إليهم بقوَّتنا واقتدارنا. {وَلِيُبْلِيَ المؤمنينَ منه بلاءً حسناً}؛ أي: إن الله تعالى قادرٌ على انتصار المؤمنين من الكافرين من دون مباشرةِ قتال، ولكنَّ الله أراد أن يمتحنَ المؤمنين ويوصِلَهم بالجهاد إلى أعلى الدرجات وأرفع المقامات ويعطيهم أجراً حسناً وثواباً جزيلاً. {إنَّ الله سميعٌ عليمٌ}: يسمع تعالى ما أسرَّ به العبد وما أعلن، ويعلم ما في قلبه من النيات الصالحة وضدِّها، فيقدِّر على العباد أقداراً موافقةً لعلمه وحكمته ومصلحة عباده، ويجزي كلاًّ بحسب نيَّته وعمله.
[17] جب غزوۂ بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے ان کو قتل کیا تو اس ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ ﴾ ’’تم نے ان کو قتل نہیں کیا۔‘‘ یعنی تم نے اپنی قوت سے ان کو قتل نہیں کیا ﴿ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ﴾ ’’لیکن اللہ نے ان کو قتل کیا‘‘ کیونکہ ان کے قتل پر اللہ تعالیٰ نے تمھاری مدد فرمائی تھی، جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرا۔ ﴿ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ﴾ ’’اور آپ نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی۔‘‘اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معرکہ شروع ہوا تو رسول اللہe ایک خیمہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے قسمیں دے دے کر فتح و نصرت کے لیے دعائیں کرنے لگے، پھر خیمے سے باہر تشریف لائے، آپe نے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر کفار کے چہروں کی طرف پھینکی اور اللہ تعالیٰ نے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچا دی، ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چہرے، منہ اور آنکھوں میں یہ خاک نہ پڑی ہو۔ پس اس وقت ان کی طاقت ٹوٹ گئی، ان کے ہاتھ شل ہوگئے، ان کے اندر کمزوری اور بزدلی ظاہر ہوئی پس وہ شکست کھا گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیe سے فرمایا ’’جب آپ نے کفار کی طرف خاک کی مٹھی پھینکی تو آپ نے اپنی قوت سے یہ خاک ان کے چہروں تک نہیں پہنچائی تھی بلکہ ہم نے اپنی قوت اور قدرت سے یہ خاک ان کے چہروں تک پہنچائی‘‘۔ ﴿وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءًؔ حَسَنًا ﴾ ’’اور تاکہ اللہ آزمائے مومنوں کو اپنی طرف سے خوب آزمانا‘‘ یعنی براہ راست لڑائی کے بغیر اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کی مدد کرنے پر قادر ہے مگر اللہ تعالیٰ مومنوں کا امتحان لینا اور جہاد کے ذریعے سے انھیں بلند ترین درجات اور اعلیٰ ترین مقامات پر فائز کرنا، نیز انھیں اجر حسن اور ثواب جزیل عطا کرنا چاہتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘ بندہ جو بات چھپا کر کرتا ہے یا اعلانیہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب سنتا ہے۔ بندے کے دل میں جو اچھی یا بری نیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت اور بندوں کے مصالح کے مطابق ان کی تقدیر مقرر کرتا ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا دیتا ہے۔
#
{18} {ذلكم}: النصر من الله لكم، {وأنَّ الله موهنُ كيدِ الكافرين}؛ أي: مُضْعِفُ كلَّ مكر وكيد يكيدون به الإسلام وأهله، وجاعلُ مكرهم محيقاً بهم.
[18] ﴿ ذٰلِكُمْ ﴾ یہ فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور بلاشبہ اللہ کافروں کی تدبیر کو کمزور کردینے والا ہے۔‘‘ یعنی کفار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو مکر و فریب اور سازشیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی چالوں کو کمزور کرتا ہے اور انھی کو ان کی چالوں میں پھنسا دیتا ہے۔
#
{19} {إن تستفتحوا}: أيُّها المشركون؛ أي: تطلبون من الله أن يوقع بأسه وعذابه على المعتدين الظالمين، {فقد جاءكم الفتحُ}: حين أوقع الله بكم من عقابِهِ ما كان نَكالاً لكم وعبرةً للمتقين. {وإن تنتهوا}: عن الاستفتاح {فهو خيرٌ لكم}: لأنَّه ربَّما أمهلكم ولم تُعَجَّلْ لكم النقمةُ. {وإن تعودوا}: إلى الاستفتاح وقتال حزب الله المؤمنين {نَعُدْ}: في نصرهم عليكم، {ولن تُغْنِيَ عنكم فئتُكم}؛ أي: أعوانكم وأنصاركم الذين تحاربون وتقاتلون معتمدين عليهم شيئاً. {وأنَّ الله مع المؤمنين}: ومن كان الله معه؛ فهو المنصور، وإن كان ضعيفاً قليلاً عدده. وهذه المعيَّة التي أخبر الله أنه يؤيِّد بها المؤمنين تكون بحسب ما قاموا به من أعمال الإيمان؛ فإذا أديل العدوُّ على المؤمنين في بعض الأوقات؛ فليس ذلك إلا تفريطاً من المؤمنين وعدم قيامٍ بواجب الإيمان ومقتضاه، وإلاَّ؛ فلو قاموا بما أمر الله به من كلِّ وجهٍ؛ لما انهزم لهم رايةٌ انهزاماً مستقرًّا ولا أدِيلَ عليهم عدوُّهم أبداً.
[19] ﴿ اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا ﴾ ’’اور اگر تم چاہتے ہو فیصلہ‘‘ اے مشرکو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کرتے ہو کہ وہ ظلم و تعدی کا ارتکاب کرنے والوں پر اپنا عذاب نازل کر دے۔ ﴿ فَقَدْ جَآءَكُمُ الْ٘فَتْحُ﴾ ’’تو تحقیق آچکا تمھارے پاس فیصلہ‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنا عذاب نازل کیا جو تمھارے لیے سزا اور متقین کے لیے عبرت ہے ﴿ وَاِنْ تَنْتَهُوْا ﴾ ’’اور اگر تم باز آجاؤ۔‘‘ یعنی اگر تم فیصلہ چاہنے سے باز آجاؤ۔ ﴿ فَهُوَ خَیْرٌ لَّـكُمْ﴾ ’’تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘ کیونکہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ تمھیں مہلت دیتا ہے اور تمھیں فوراً سزا نہیں دیتا۔ ﴿وَلَ٘نْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْـًٔـا وَّلَوْ كَثُ٘رَتْ﴾ ’’اور تمھاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمھارے کچھ بھی کام نہ آئے گی۔‘‘ یعنی وہ انصار و اعوان تمھارے کچھ کام نہ آئیں گے جن کے بھروسے پر تم جنگ کر رہے ہو، چاہے وہ کتنے ہی زیادہ ہوں ۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے‘‘ اور اللہ تعالیٰ جن کے ساتھ ہوتا ہے وہی فتح و نصرت سے نوازے جاتے ہیں خواہ وہ کمزور اور تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ معیت، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے اہل ایمان کی تائید فرماتا ہے، ان کے اعمالِ ایمان کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر بعض اوقات دشمنوں کو اہل ایمان پر فتح حاصل ہوتی ہے تو یہ اہل ایمان کی کوتاہی، واجبات ایمان اور اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ورنہ اگر وہ ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں تو ان کا پرچم کبھی سرنگوں نہ ہو اور دشمن کو کبھی ان پر غالب آنے کا موقع نہ ملے۔
آیت: 20 - 21 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ (20) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (21)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اوراس کے رسول کی اورنہ منہ پھیرو تم اس سے، جبکہ تم سن رہے ہو(20) اورنہ ہوتم مانند ان لوگوں کی جنھوں نے کہا تھا سن لیا ہم نے حالانکہ وہ نہیں سنتے تھے(21)
#
{20} لما أخبر تعالى أنه مع المؤمنين؛ أمرهم أن يقوموا بمقتضى الإيمان الذي يدركون معيَّتَه، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا أطيعوا اللهَ ورسولَه}: بامتثال أمرِهما واجتنابِ نهيِهما. {ولا تَوَلَّوْا عنه}؛ أي: عن هذا الأمر الذي هو طاعة الله وطاعة رسوله، {وأنتم تسمعونَ}: ما يُتلى عليكم من كتاب الله وأوامره ووصاياه ونصائحه؛ فتولِّيكم في هذه الحال من أقبح الأحوال.
[20] چونکہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں جن سے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’اے ایمان والو، اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی‘‘ یعنی ان کے اوامر کی پیروی اور ان کے نواہی سے اجتناب کر کے ﴿ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ ﴾ ’’اور اس سے روگردانی نہ کرو۔‘‘ یعنی اس معاملے سے منہ نہ موڑو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی اطاعت ہے۔ ﴿ وَاَنْتُمْ تَ٘سْمَعُوْنَ ﴾ ’’اور تم سنتے ہو۔‘‘ حالانکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس کے اوامر، اس کی وصیتوں اور اس کی نصیحتوں کی جو تلاوت کی جاتی ہے، تم اسے سنتے ہو۔ اس حال میں تمھارا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنا بدترین حال ہے۔
#
{21} {ولا تكونوا كالذين قالوا سمِعْنا وهم لا يسمعون}؛ أي: لا تكتفوا بمجرَّدِ الدعوى الخالية التي لا حقيقة لها؛ فإنها حالة لا يرضاها الله ولا رسوله، فليس الإيمانُ بالتمنِّي والتحلِّي، ولكنَّه ما وَقَرَ في القلوب، وصدَّقته الأعمال.
[21] ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ ’’اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنھوں نے کہا ہم نے سن لیا اور وہ سنتے نہیں ‘‘ یعنی مجرد خالی خولی دعووں پر اکتفا نہ کرو جن کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں ۔ ایمان محض تمناؤں اور دعوؤں سے مزین ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ ایمان وہ ہے جو دل میں جاگزیں ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں ۔
آیت: 22 - 23 #
{إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (22) وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (23)}.
بے شک بدترین، زمین پر چلنے والے، اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں جو نہیں عقل رکھتے(22) اور اگر جانتا اللہ ان میں کوئی بھلائی تو ، البتہ سنوادیتا وہ انھیں اوراگر سنواتا وہ انھیں تو ضرور منہ پھیر لیتے وہ اور وہ اعراض کرنے والے ہوتے(23)
#
{22} يقول تعالى: {إنَّ شرَّ الدوابِّ عند الله}: مَنْ لم تُفِذْ فيهم الآيات والنذر، وهم {الصُّمُّ}: عن استماع الحق، {البكم}: عن النطق به، {الذين لا يعقلونَ}: ما ينفعهم ويؤثرونَه على ما يضرُّهم؛ فهؤلاء شرٌّ عند الله من شرار الدواب ؛ لأنَّ الله أعطاهم أسماعاً وأبصاراً وأفئدة ليستعملوها في طاعة الله، فاستعملوها في معاصيه، وعدموا بذلك الخير الكثير؛ فإنَّهم كانوا بصدد أن يكونوا من خيار البريَّة، فأبوا هذا الطريق، واختاروا لأنفسهم أن يكونوا من شرِّ البريَّة. والسمعُ الذين نفاه الله عنهم سمعُ المعنى المؤثِّر في القلب، وأما سمعُ الحجَّة؛ فقد قامت حجَّة الله تعالى عليهم بما سمعوه من آياته.
[22] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’سب جان داروں سے بدتر اللہ کے ہاں ‘‘ جن کو معجزات اور ڈرانے والے کوئی فائدہ نہیں دیتے، وہ ہیں جو۔ ﴿ الصُّمُّ ﴾ حق سننے سے بہرے ہیں ۔ ﴿ الْبُكْمُ ﴾ حق بولنے سے گونگے ہیں ۔ ﴿ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ ﴾ وہ کسی ایسی چیز کو سمجھ نہیں سکتے جو ان کو فائدہ دیتی ہے اور نہ اسے اس چیز پر ترجیح دے سکتے ہیں جو انھیں نقصان دیتی ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین چوپاؤں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کان، آنکھ اور عقل سے نوازا تاکہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے راستے میں استعمال کریں مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی راہ میں استعمال کیا اور اس وجہ سے وہ خیر کثیر سے محروم ہوگئے۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ بہترین مخلوق بننے کی کوشش کرتے مگر انھوں نے اس راستے پر چلنے سے انکار کر دیا اور انھوں نے بدترین مخلوق بننا پسند کیا۔ وہ سماعت، جس کی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نفی کی ہے، وہ ہے دل میں اثر کرنے والے معانی کی سماعت.... رہی سماعت حجت تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جو آیات سنی ہیں اس کی وجہ سے ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہے۔
#
{23} وإنما لم يُسمعْهم السماعَ النافع؛ لأنَّه لم يعلم فيهم خيراً يَصْلُحون به لسماع آياته. {ولو علم الله فيهم خيراً لأسمَعَهم ولو أسمَعَهم}: على الفرض والتقدير، {لَتَوَلَّوا}: عن الطاعة {وهم معرضونَ}: لا التفات لهم إلى الحقِّ بوجه من الوجوه. وهذا دليلٌ على أن الله تعالى لا يمنع الإيمان والخير إلاَّ لمن لا خير فيه الذي لا يزكو لديه ولا يثمرُ عنده، وله الحمد تعالى والحكمة في هذا.
[23] اللہ تعالیٰ نے ان کو سماع نافع سے محروم کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں جس کی وجہ سے ان میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے کی صلاحیت ہوتی۔﴿ وَلَوْ اَسْمَعَهُمْ ﴾ ’’اور اگر اب وہ ان کو سنا دے‘‘ یعنی اگر یہ فرض کر لیا جائے ﴿ لَتَوَلَّوْا ﴾ ’’تو وہ ضرور پھر جائیں ‘‘ یعنی اللہ کی اطاعت سے ﴿وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾ ’’اور وہ اعراض کرنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ کسی طور بھی حق کی طرف التفات نہیں کریں گے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ صرف اس شخص کو ایمان اور بھلائی سے محروم کرتا ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی اور نہ بھلائی اس کے پاس پھلتی پھولتی ہے۔ اس بارے میں وہ نہایت قابل تعریف اور دانائی کا مالک ہے۔
آیت: 24 - 25 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (24) وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (25)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کہنا مانو تم اللہ کا اوراس کے رسول کا جب بلائے وہ تمھیں طرف اس (امر) کی جو زندگی بخشتا ہے تمھیں اور جان لو تم کہ یقینا اللہ حائل ہوجاتا ہے درمیان بندے اوراس کے دل کےاور بلاشبہ اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے تم(24) اور ڈرو اس فتنے سے جو نہیں پہنچے گا(صرف) انھی لوگوں کو، جنھوں نے ظلم کیا تم میں سے خاص طورپر اور جان لو تم! بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے(25)
#
{24} يأمر تعالى عباده المؤمنين بما يقتضيه الإيمان منهم، وهو الاستجابة لله وللرسول؛ أي: الانقياد لما أمرا به والمبادرة إلى ذلك والدعوة إليه، والاجتناب لما نهيا عنه والانكفاف عنه والنهي عنه. وقوله: {إذا دعاكم لما يُحييكم}: وصفٌ ملازمٌ لكل ما دعا الله ورسوله إليه وبيانٌ لفائدته وحكمته؛ فإن حياة القلب والروح بعبوديَّة الله تعالى ولزوم طاعته وطاعة رسوله على الدوام. ثم حذَّر عن عدم الاستجابة لله وللرسول، فقال: {واعلموا أنَّ الله يَحول بين المرء وقلبِهِ}: فإياكم أن تردُّوا أمر الله أول ما يأتيكم، فيُحال بينكم وبينه إذا أردتموه بعد ذلك، وتختلف قلوبكم؛ فإن الله يَحولُ بين المرء وقلبه؛ يقلِّب القلوب حيث شاء، ويصرِّفها أنَّى شاء، فليكثرِ العبد من قول: يا مقلِّب القلوب! ثبِّتْ قلبي على دينك. يا مصرِّف القلوب! اصرفْ قلبي إلى طاعتك. {وأنَّه إليه تُحشرون}؛ أي: تُجمعون ليوم لا ريبَ فيه، فيجازي المحسن بإحسانه والمسيء بعصيانه.
[24] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو ان کے ایمان کا تقاضا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرنا، اس کی تعمیل کے لیے سبقت کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اور انھوں نے جس چیز سے روکا ہے اس سے باز رہنا اور اس سے اجتناب کرنا۔ ﴿ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ﴾ ’’جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمھاری زندگی ہے‘‘ یہ ہر اس امر کا وصف لازم ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولe دعوت دیتے ہیں اور نیز یہ اس کے حکم کے فائدے اور حکمت کو بیان کرتا ہے کیونکہ قلب و روح کی زندگی کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی عبودیت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی اطاعت کے دائمی التزام پر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک نہ کہنے پر ڈراتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْ٘مَرْءِ وَقَلْبِهٖ ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان۔‘‘ اس لیے جب اللہ تعالیٰ کا حکم پہلی بار تمھارے پاس آئے تو اس کو ٹھکرانے سے بچو کیونکہ پھر اگر اس کے بعد اس کا ارادہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور تمھارے درمیان حائل ہو جائے گا اور تمھارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ جیسے چاہتا ہے اسے ادل بدل کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ پس بندے کو بہت کثرت سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ، اَللّٰہُمَّ مُصَرِّف الْقُلُوبِ صَرِّفْ قَلْبِی عَلٰی طَاعَتِکَ)( صحیح مسلم، القدر، ح:2654) فرمایا: ﴿ وَاَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’اور یہ کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤگے۔‘‘ یعنی تم سب اس دن اکٹھے کیے جاؤ گے جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں وہ نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزا اور بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دے گا۔
#
{25} {واتَّقوا فتنةً لا تُصيبَنَّ الذين ظلموا منكم خاصةً}: بل تصيب فاعل الظُّلم وغيره، وذلك إذا ظهر الظلم فلم يغيَّر؛ فإنَّ عقوبته تعمُّ الفاعل وغيره. وتقوى هذه الفتنة بالنهي عن المنكر وقمع أهل الشرِّ والفساد وأن لا يُمَكَّنوا من المعاصي والظُّلم مهما أمكن. {واعلموا أنَّ الله شديدُ العقاب}: لمن تعرَّض لمساخطِهِ وجانبَ رضاه.
[25] ﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَآصَّةً﴾ ’’اور اس فتنے سے بچو، جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہیں آئے گا‘‘ بلکہ یہ فتنہ ظلم کرنے والوں اور دیگر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ جب ظلم غالب آجائے اور اس کو بدلا نہ جائے تو اس کی سزا ظلم کرنے والوں اور دوسرے لوگوں ، سب کے لیے عام ہوتی ہے۔ اس لیے برائیوں سے منع کر کے، اہل شر کا قلع قمع کر کے کہ وہ ظلم اور معاصی کا ارتکاب نہ کر سکیں ، اس فتنہ سے بچا جائے۔ ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لیتا ہے اور اس کی رضا کو ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دیتا ہے۔
آیت: 26 #
{وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (26)}.
اور یاد کرو جب تم (بہت) تھوڑے تھے، کمزور سمجھے جاتے تھے زمین میں، خوف کھاتے تھے تم اس بات سے کہ (کہیں) اچک (نہ) لے جائیں تمھیں لوگ، پس جگہ دی اللہ نے تمھیں اور تمھاری تائید کی ساتھ اپنی نصرت کےاور رزق دیا تمھیں پاکیزہ چیزوں سے تاکہ تم شکر گزار ہو(26)
#
{26} يقول تعالى ممتنًّا على عباده في نصرهم بعد الذِّلَّة وتكثيرهم بعد القِلَّة وإغنائهم بعد العيلة: {واذكُروا إذ أنتم قليلٌ مستَضْعَفون في الأرض}؛ أي: مقهورون تحت حكم غيركم، {تخافون أن يَتَخَطَّفَكُم الناسُ}؛ أي: يأخذونكم، {فآواكم وأيَّدكم بنصرِهِ ورَزَقَكم من الطّيِّبات}: فجعل لكم بلداً تأوون إليه، وانتصر من أعدائكم على أيديكم، وغنمتم من أموالهم ما كنتم به أغنياء، {لعلَّكم تشكرونَ}: الله على مِنَّتِهِ العظيمة وإحسانه التامِّ بأن تعبدوه، ولا تشركوا به شيئاً.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا تذکرہ کرتا ہے کہ وہ کمزور اور مغلوب تھے، اس نے ان کو اپنی نصرت سے نوازا، وہ قلیل تھے اس نے ان کو کثرت عطا کی اور وہ تنگ دست تھے، اس نے ان کو فراخی عطا کی۔ چنانچہ فرمایا: ﴿وَاذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، کمزور تھے زمین میں ‘‘ یعنی تم غیروں کی حکومت میں محکوم و مجبور تھے ﴿ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَكُمُ۠ النَّاسُ ﴾ ’’تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں اچک نہ لیں ‘‘ ﴿ فَاٰوٰىكُمْ وَاَیَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ ﴾ ’’تو اس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو تقویت دی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایک شہر عطا کیا جہاں تم نے پناہ لی، اللہ تعالیٰ نے تمھارے ہاتھوں تمھارے دشمنوں کو شکست دی، تم نے ان سے مال غنیمت حاصل کیا جس کے ذریعے سے تم مال دار ہوگئے۔ ﴿ لَعَلَّـكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ یعنی شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور کامل احسان پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اور اس کے ساتھ شرک سے اجتناب کر کے اس کا شکر ادا کرو۔
آیت: 27 - 28 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (27) وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (28)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت خیانت کرو تم اللہ اوراس کے رسول سےاور (نہ)خیانت کرو تم اپنی آپس کی امانتوں میں جبکہ تم جانتے ہو(27) اور جان لو! یقینا تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں اور بلاشبہ اللہ، اس کے ہاں اجر عظیم ہے(28)
#
{27} يأمر تعالى عباده المؤمنين أن يؤدُّوا ما ائتمنهم الله عليه من أوامره ونواهيه؛ فإنَّ الأمانة قد عرضها الله على السماوات والأرض والجبال فأبَيْنَ أن يَحْمِلْنها وأشفَقْنَ منها وحملها الإنسانُ إنَّه كان ظلوماً جهولاً؛ فمن أدَّى الأمانة؛ استحقَّ من الله الثواب الجزيل، ومن لم يؤدِّها، بل خانها؛ استحقَّ العقاب الوبيل، وصار خائناً لله وللرسول ولأمانته، منقصاً لنفسه بكونه اتَّصفت نفسه بأخس الصفات وأقبح الشيات، وهو الخيانة، مفوتاً لها أكمل الصفات وأتمها، وهي الأمانة.
[27] اللہ تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اس نے اوامر و نواہی کی جو امانت ان کے سپرد کی ہے، وہ اسے ادا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو وہ ڈر گئے اور انھوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا اور انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا کیونکہ وہ نہایت ظالم اور نادان ہے۔ پس جو کوئی امانت ادا کرتا ہے وہ بے پایاں ثواب کا مستحق بن جاتا ہے اور جو کوئی یہ امانت ادا نہیں کرتا تو سخت عذاب اس کے حصے میں آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول (e ) اور اپنی امانت میں خیانت کا مرتکب قرار پاتا ہے، وہ اپنے آپ کو خیانت جیسی خسیس ترین صفات اور بدترین علامات سے متصف کر کے اپنے نفس کو نقصان میں ڈالتا ہے اور امانت جیسی بہترین اور کامل ترین صفات سے محروم ہو جاتا ہے۔
#
{28} ولما كان العبد ممْتَحَناً بأمواله وأولاده، فربما حمله محبَّتهُ ذلك على تقديم هوى نفسه على أداء أمانته؛ أخبر الله تعالى أنَّ الأموال والأولاد فتنةٌ يبتلي الله بهما عباده، وأنها عاريَّة ستؤدَّى لمن أعطاها وتردُّ لمن استَوْدَعَها. {وأنَّ الله عنده أجرٌ عظيمٌ}: فإن كان لكم عقلٌ ورأيٌ؛ فآثِروا فضله العظيم على لذَّة صغيرةٍ فانيةٍ مضمحلَّةٍ؛ فالعاقل يوازِنُ بين الأشياء، ويؤثِرُ أولاها بالإيثار وأحقَّها بالتقديم.
[28] چونکہ بندے کو اس کے مال اور اولاد کے ذریعے سے امتحان میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے بسا اوقات مال اور اولاد کی محبت میں بندہ خواہشات نفس کو امانت کی ادائیگی پر ترجیح دیتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مال اور اولاد ایک آزمائش ہے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بندے کو عاریتاً عطا کی گئی ہیں جو عنقریب اس ہستی کو واپس لوٹانا ہوں گی جس نے یہ چیزیں عاریتاً عطا کی تھیں ۔ ﴿ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ پس اگر تم میں کوئی عقل اور رائے ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل عظیم کو چھوٹی سی فانی اور ختم ہو جانے والی لذت پر ترجیح نہ دو۔ عقل مند شخص تمام اشیاء کے درمیان موازنہ کرتا ہے اور بہترین چیز کو ترجیح دیتا ہے اور تقدیم کی مستحق چیز کو مقدم رکھتا ہے۔
آیت: 29 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (29)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر ڈرو تم اللہ سے تو وہ بنادے گا تمھارے لیے کسوٹی (دلیل حق) اور مٹا دے گا تم سے تمھاری برائیاں اور بخش دے گا تمھیں اور اللہ مالک ہے فضل عظیم کا(29)
#
{29} امتثالُ العبد لتقوى ربه عنوان السعادة وعلامة الفلاح، وقد رتَّب اللَّه على التقوى من خير الدنيا والآخرة شيئاً كثيراً، فذكر هنا أنَّ مَن اتَّقى اللَّه؛ حصل له أربعةُ أشياء، كلُّ واحدٍ منها خيرٌ من الدنيا وما فيها: الأول: الفُرقان، وهو العلم والهدى الذي يفرِّق به صاحبه بين الهدى والضلال والحقِّ والباطل والحلال والحرام وأهل السعادة من أهل الشقاوة. الثاني والثالث: تكفير السيئات ومغفرة الذنوب، وكل واحد منهما داخلٌ في الآخر عند الإطلاق، وعند الاجتماع يفسَّر تكفير السيئات بالذُّنوب الصغائر، ومغفرة الذنوب بتكفير الكبائر. الرابع: الأجر العظيم والثوابُ الجزيل لمن اتَّقاه وآثر رضاه على هوى نفسه. {والله ذو الفضل العظيم}.
[29] بندے کا اپنے رب سے تقویٰ اختیار کرنا سعادت کا عنوان اور فلاح کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی بہت سی بھلائی کا دارومدار تقویٰ پر رکھا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے اسے چار چیزیں عطا ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز دنیا و مافیہا سے کہیں بہتر ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ صاحب تقویٰ مومن کو ’’فرقان‘‘ عطا کرتا ہے۔ فرقان سے مراد علم و ہدایت ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل، حلال اور حرام، خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ (۲،۳)برائیوں کو مٹانا اور گناہوں کو بخش دینا۔ اطلاق اور اجتماع کے وقت یہ دونوں امور ایک دوسرے میں داخل ہیں ۔ (السئیات) برائیوں کے مٹانے کی تفسیر گناہ صغیرہ سے اور گناہوں (الذنوب) کو بخش دینے کی تفسیر کبیرہ گناہوں کو مٹا دینے سے کی جاتی ہے۔ (۴) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنی خواہش نفس پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتا ہے، اس کے لیے بہت بڑا اجر اور بے پایاں ثواب ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘
آیت: 30 #
{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (30)}.
اور یاد کیجیے! جب تدبیر کررہے تھے آپ کی بابت وہ لوگ جنھوں نے کفر کیاتاکہ وہ قید کردیں آپ کو یا قتل کردیں آپ کو یا نکال دیں آپ کواور تدبیریں کر رہے تھے وہ اور تدبیر کر رہا تھا اللہ بھی اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے(30)
#
{30} أي: {و} اذكر أيُّها الرسول ما مَنَّ الله بك عليك، {إذ يَمْكُرُ بك الذين كفروا}: حين تشاور المشركون في دار الندوة فيما يصنعون بالنبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: إما أن يُثْبِتوه عندهم بالحبس ويوثِقوه، وإما أن يقتلوه فيستريحوا بزعمهم من شرِّه! وإما أن يخرِجوه ويُجْلوه من ديارهم؛ فكلٌّ أبدى من هذه الآراء رأياً رآه، فاتفق رأيُهم على رأي رآه شريرهم أبو جهل لعنه الله، وهو أن يأخذوا من كلِّ قبيلةٍ من قبائل قريش فتى، ويعطوه سيفاً صارماً، ويقتله الجميع قِتلةَ رجل واحدٍ؛ ليتفرَّق دمُهُ في القبائل، فيرضى بنو هاشم ثَمَّ بديتِهِ، فلا يقدرون على مقاومة جميع قريش ، فترصَّدوا للنبي - صلى الله عليه وسلم - في الليل ليوقعوا به إذا قام من فراشه، فجاءه الوحي من السماء، وخَرَجَ عليهم، فَذَرَّ على رؤوسهم التراب وخرج، وأعمى الله أبصارهم عنه، حتى إذا استبطؤوه؛ جاءهم آتٍ وقال: خيَّبكم الله! قد خرج محمدٌ وذَرَّ على رؤوسكم الترابَ! فنفض كلٌّ منهم التراب [عن] رأسه ، ومنع الله رسولَه منهم، وأذِنَ له في الهجرة إلى المدينة، فهاجر إليها، وأيَّده الله بأصحابه المهاجرين والأنصار، ولم يزل أمره يعلو حتى دخل مكة عنوةً وقَهَرَ أهلها فأذعنوا له وصاروا تحت حكمِهِ بعد أن خرج مستخفياً منهم خائفاً على نفسه؛ فسبحان اللطيف بعبده الذي لا يغالبه مغالبٌ. وقوله:
[30] یعنی اے رسولe! اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کیجیے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے، ﴿ وَاِذْ یَمْؔكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’جب سازش کرتے تھے کافر آپ کے بارے میں ‘‘ جب مشرکین مکہ نے ’’دارالندوہ‘‘ میں مشورہ کیا کہ رسولe کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ (۱) آپ کو بیڑیاں پہنا کر محبوس کر دیا جائے۔ (۲) آپ کو قتل کر دیا جائے تاکہ... بزعم خود... ہمیشہ کے لیے آپ سے نجات حاصل کر لیں ۔ (۳) آپ کو مکہ سے نکال باہر کر کے ملک بدر کر دیا جائے۔ ہر شخص نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آخر کار تمام لوگوں نے اس مجلس میں شریک شریر ترین آدمی، ابوجہل (لَعَنَہُ اللہُ) کی رائے سے اتفاق کیا کہ قریش کے تمام قبائل سے ایک ایک آدمی لے کر اسے تیز تلوار دی جائے اور تمام لوگ بیک وقت حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیں تاکہ تمام قبائل آپ کے قتل کے ذمہ دار ٹھہریں ۔ اس صورت میں بنو ہاشم آپ کی دیت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں گے اور قصاص لینے کے لیے قریش کے تمام قبائل کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، چنانچہ وہ رات کے وقت گھات لگا کر بیٹھ گئے تاکہ جب آپ اپنے بستر سے بیدار ہوں تو آپ پر حملہ کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے وحی نازل ہوئی۔ آپ باہر تشریف لائے، آپ نے ان سب کے سروں میں خاک ڈالی اور وہاں سے نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اندھا کر دیا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو کسی آنے والے نے کہا ’’وائے تمھاری ناکامی! محمد (e ) تو نکل گیا اور تمھارے سروں میں خاک بھی ڈال گیا ہے۔‘‘انھوں نے اپنے سروں سے مٹی جھاڑی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو بچا لیا اور آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ پس آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی اور یوں آپ کو غلبہ حاصل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آپ فاتح بن کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ تمام قریش مکہ نے آپ کی اطاعت قبول کر لی اور آپ کے ماتحت آگئے حالانکہ اس سے پہلے آپ ان سے چھپ کر جان کے خوف سے وہاں سے نکلے تھے۔ پس پاک ہے وہ ہستی جو اپنے بندوں کو لطف و کرم سے نوازتی ہے اور جس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔
آیت: 31 - 34 #
{وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (31) وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (32) وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (33) وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (34)}.
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں تو کہتے ہیں تحقیق سن لیا ہم نے، اگر چاہیں ہم تو کہہ سکتے ہیں ہم بھی مثل اس کی، نہیں ہے یہ مگر داستانیں پہلوں کی(31) اور جب کہا انھوں نے، اے اللہ! اگر ہے یہ (قرآن) حق تیری طرف سے تو برسا ہم پر پتھر آسمان سے یا لے آ ہم پر عذاب درد ناک(32) اور نہیں ہے اللہ کے عذاب دے انھیں جبکہ آپ بھی ان کے اندر موجود ہوں اور نہیں ہے اللہ عذاب دینے والا ان کو جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں(33) اور (اب) کیا وجہ ہے ان کے لیے کہ نہ عذاب دے انھیں اللہ جبکہ وہ روکتے ہیں مسجد حرام سے، درآں حالیکہ نہیں ہیں وہ مختار اس کے ؟ نہیں ہیں مختار اس کے مگر متقی لوگ ہی اور لیکن اکثر ان کے نہیں جانتے(34)
#
{31} يقول تعالى في بيان عناد المكذِّبين للرسول - صلى الله عليه وسلم -: {وإذا تُتْلى عليهم آياتُنا}: الدالَّة على صدق ما جاء به الرسول، {قالوا قد سَمِعْنا لو نشاء لَقُلْنا مثل هذا إن هذا إلا أساطيرُ الأوَّلين}: وهذا من عنادهم وظلمهم؛ وإلاَّ؛ فقد تحدَّاهم الله أن يأتوا بسورة من مثله، ويدعوا من استطاعوا من دون الله، فلم يقدروا على ذلك، وتبيَّن عجزهم؛ فهذا القول الصادر من هذا القائل مجرَّد دعوى كذَّبه الواقع، وقد علم أنه - صلى الله عليه وسلم - أميٌّ، لا يقرأ، ولا يكتب، ولا رحل ليدرس من أخبار الأولين، فأتى بهذا الكتاب الجليل الذي لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيلٌ من حكيم حميدٍ.
[31] رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے آپ کے ساتھ جو عناد رکھتے تھے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِذَا تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا ﴾ ’’اور جب ان پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں ‘‘ جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جو رسول اللہ لے کر آئے ہیں ﴿ قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْ٘لَ هٰؔذَاۤ١ۙ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ ’’تو کہتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسی بات کہہ سکتے ہیں ، یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں ‘‘ یہ انھوں نے ظلم اور عناد کی بنا پر کہا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں اور اللہ کے سوا جس کسی کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہیں بلا لیں ۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکے جس سے ان کی بے بسی ظاہر ہوگئی۔ قائل سے صادر ہونے والا یہ قول مجرد دعویٰ ہے، جس کا جھوٹ ہونا ثابت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ نبی اکرمe پڑھے ہوئے نہ تھے، آپ لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، گزشتہ قوموں کی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لیے آپ نے کہیں سفر نہیں کیا تھا، بایں ہمہ آپ نے یہ جلیل القدر کتاب پیش کی جس کے سامنے سے یا پیچھے سے باطل دخل اندازی نہیں کر سکتا، یہ کتاب حکمت والے اور قابل تعریف اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔
#
{32} {وإذْ قالوا اللهمَّ إن كان هذا}: الذي يدعو إليه محمدٌ، {هو الحقَّ من عندك فأمطِرْ علينا حجارةً من السماء أو ائتِنا بعذابٍ أليم}: قالوه على وجه الجزم منهم بباطلهم، والجهل بما ينبغي من الخطاب؛ فلو أنَّهم إذا قاموا على باطلهم من الشبه والتمويهات ما أوجب لهم أن يكونوا على بصيرةٍ ويقينٍ منه قالوا لمن ناظَرَهم وادَّعى أن الحقَّ معه: إنْ كان هذا هو الحقَّ من عندك؛ فاهِدنا له؛ لكان أولى لهم وأستر لظلمهم؛ فمذ قالوا: {اللهمَّ إن كان هذا هو الحقَّ من عندك ... } الآية؛ عُلم بمجرَّد قولهم أنهم السفهاء الأغبياء الجهلة الظالمون.
[32] ﴿وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ﴾ ’’اور جب انھوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے‘‘ جس کی طرف محمد مصطفیe دعوت دیتے ہیں ﴿ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’تو ہم پر برسا دے پتھر آسمان سے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لا۔‘‘انھوں نے اپنے باطل پر ڈٹے ہوئے اور آداب تخاطب سے جہالت کے ساتھ، پورے جزم سے یہ بات کہی تھی۔ اگر انھوں نے.... جبکہ وہ اپنے باطل پر ملمع سازی کر رہے تھے جو ان کے لیے یقین اور بصیرت کی موجب تھی.... اپنے ساتھ مناظرہ کرنے والے اس شخص سے یہ کہا ہوتا جو اس بات کا مدعی ہے کہ حق اس کے ساتھ ہے ’’اگر وہ چیز جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ حق ہے تو ہماری بھی راہ نمائی کیجیے۔‘‘تو یہ چیز ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتی اور ان کے ظلم و تعدی کی زیادہ اچھے طریقے سے پردہ پوشی کر سکتی تھی۔ پس جب سے انھوں نے کہا ﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ ﴾ ان کی مجرد اسی بات سے معلوم ہوگیا کہ وہ انتہائی بے وقوف، بے عقل، جاہل اور ظالم ہیں ۔
#
{33} فلو عاجلهم الله بالعقاب؛ لما أبقى منهم باقيةً، ولكنَّه تعالى دَفَعَ عنهم العذابَ بسبب وجود الرسول بين أظهرهم، فقال: {وما كان الله لِيُعَذِّبَهم وأنت فيهم}: فوجوده - صلى الله عليه وسلم -[بين أظهرهم] أمَنَةٌ لهم من العذاب، وكانوا مع قولهم هذه المقالة التي يظهِرونها على رؤوس الأشهاد يدرون بقُبحها، فكانوا يخافون من وقوعها فيهم، فيستغفرونَ الله تعالى؛ فلهذا قال: {وما كان الله ليُعَذِّبَهم وهم يستغفرونَ}: فهذا مانعٌ يمنع من وقوع العذاب بهم بعدما انعقدتْ أسبابُه.
[33] اگر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے میں جلدی کرتا تو ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا کیونکہ ان کے اندر رسول (e ) موجود ہیں اس لیے فرمایا ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ﴾ ’’اللہ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب نہیں دے گا‘‘ پس رسول اللہe کا وجود مبارک ان کے لیے عذاب سے امن کی ضمانت تھی۔ اپنے اس قول کے باوجود، جس کا وہ برسر عام اظہار کرتے تھے، وہ اس قول کی قباحت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لیے وہ اس کے وقوع سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کیا کرتے تھے۔
#
{34} ثم قال: {وما لهم أن لا يعذِّبَهم الله}؛ أي: أيُّ شيء يمنعُهم من عذاب الله وقد فعلوا ما يوجِبُ ذلك؟ وهو صدُّ الناس عن المسجد الحرام، خصوصاً صدَّهم النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه الذين هم أولى به منهم، ولهذا قال: {وما كانوا}؛ أي: المشركون، {أولياءه}: يُحتمل أنَّ الضمير يعود إلى الله؛ أي: أولياء الله، ويحتمل أن يعود إلى المسجد الحرام؛ أي: وما كانوا أولى به من غيرهم. {إن أولياؤُهُ إلا المتَّقون}: وهم الذين آمنوا بالله ورسوله وأفردوا الله بالتوحيد والعبادة وأخلصوا له الدين. {ولكنَّ أكثرهم لا يعلمونَ}: فلذلك ادَّعوا لأنفسهم أمراً غيرُهم أولى به.
[34] بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جبکہ وہ معافی مانگنے والے ہوں گے‘‘ یہی وہ مانع تھا جو عذاب کو واقع ہونے سے روک رہا تھا حالانکہ اس کے اسباب منعقد ہو چکے تھے، پھر فرمایا: ﴿ وَمَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے‘‘ یعنی کون سی چیز ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کر سکتی ہے حالانکہ ان کے کرتوت ایسے ہیں جو اس عذاب کو واجب ٹھہراتے ہیں اور وہ ہے ان کا لوگوں کو مسجد حرام میں عبادت سے روکنا، خاص طور پر انھوں نے نبی مصطفیe اور آپ کے اصحاب کرام کو مسجد حرام سے روکا حالانکہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے وہی سب سے زیادہ مستحق تھے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَا كَانُوْۤا ﴾ ’’اور نہیں تھے وہ‘‘ یعنی مشرکین ﴿ اَوْلِیَآءَهٗ ﴾ ’’اس کا اختیار رکھنے والے‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی ( اولیاء اللہ) نیز یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر کا مرجع مسجد حرام ہو یعنی وہ مسجد حرام کے دوسرے لوگوں سے زیادہ مستحق نہ تھے۔ ﴿ اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْ٘مُتَّقُوْنَ ﴾ ’’اس کا اختیار رکھنے والے تو وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں ‘‘ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں جنھوں نے صرف اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق قرار دیا اور اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا، ﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ اسی لیے وہ اپنے لیے ایسے امور کے مدعی ہیں جن کے دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہیں ۔
آیت: 35 #
{وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (35)}.
اور نہیں تھی نماز ان (مشرکین) کے بیت اللہ کے پاس مگر سیٹیاں اور تالیاں بجانا ہی، پس چکھو تم عذاب بوجہ اس کے جو تھے تم کفر کرتے(35)
#
{35} يعني: أن الله تعالى إنما جعل بيته الحرام ليقامَ فيه دينُه وتُخْلَصَ له فيه العبادة؛ فالمؤمنون هم الذين قاموا بهذا الأمر، وأما هؤلاء المشركون الذين يصدُّون عنه؛ فما كان صلاتُهم فيه، التي هي أكبر أنواع العبادات {إلَّا مُكاءً وتصديةً}؛ أي: صفيراً وتصفيقاً؛ فعلَ الجهلة الأغبياء، الذين ليس في قلوبهم تعظيمٌ لربِّهم ولا معرفة بحقوقه ولا احترام لأفضل البقاع وأشرفها؛ فإذا كانت هذه صلاتهم فيه؛ فكيف ببقيَّة العبادات؟! فبأيِّ شيء كانوا أولى بهذا البيت من المؤمنين، الذين هم في صلاتهم خاشعون، والذين هم عن اللغو معرضون؟! ... إلى آخر ما وصفهم الله به من الصفات الحميدة والأفعال السديدة لا جرم أورثهم الله بيته الحرام ومكَّنهم منه، وقال [لهم] بعدما مكَّن لهم فيه: {يا أيُّها الذين آمنوا إنَّما المشركون نَجَسٌ فلا يَقْرَبوا المسجدَ الحرامَ بعد عامهم هذا}، وقال هنا: {فذوقوا العذابَ بما كنتُم تكفرون}.
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد حرام صرف اس لیے بنائی ہے کہ اس میں اس کے دین کو قائم کیا جائے اور اس میں خالص اسی کی عبادت کی جائے۔ پس اہل ایمان ہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی اور رہے یہ مشرکین جنھوں نے لوگوں کو مسجد حرام سے روکا تو ان کی نماز، جو کہ سب سے بڑی عبادت ہے، ﴿ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصْدِیَةً﴾ ’’سیٹیوں اور تالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ‘‘ جو کہ جہلا اور کم عقل لوگوں کا فعل ہے جن کے دل اپنے رب کی تعظیم سے خالی ہوتے ہیں ، جو اپنے رب کے حقوق کی معرفت سے تہی دست ہوتے ہیں اور ان کے دل میں افضل ترین خطۂ زمین کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ جب ان کی نماز کا یہ حال ہے تو ان کی بقیہ عبادات کا کیا حال ہوگا؟ پس ان میں کون سی چیز ایسی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ان مومنوں سے زیادہ بیت اللہ کا مستحق سمجھتے ہیں ، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ، جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام اوصاف حمیدہ اور افعال سدیدہ موجود ہیں جو ان کے اللہ نے بیان فرمائے ہیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے محترم گھر کا وارث بنایا اور اس پر ان کو قدرت عطا کی... اور پھر ان کو اس پر قدرت عطا کرنے کے بعد فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ (التوبۃ: 9؍28) ’’اے مومنو! مشرکین تو ناپاک ہیں ، اس لیے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں ۔‘‘اور یہاں فرمایا: ﴿ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ﴾ ’’اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔‘‘
آیت: 36 - 37 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ (36) لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (37)}.
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، خرچ کرتے ہیں وہ اپنے مال تاکہ روکیں وہ (لوگوں کو) اللہ کے رستے سے، سو عنقریب خرچ کریں گے وہ ان مالوں کو، پھر ہوگا وہ (خرچ کرنا) ان پر (باعث) حسرت، پھر وہ مغلوب کردیے جائیں گےاور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، طرف جہنم کی اکٹھے کیے جائیں گے(36) تاکہ الگ کر دے اللہ، ناپاک کو پاک سےاور کردے ناپاک (، یعنی ) اس کے بعض کو اوپر بعض کے، پس اوپر تلے ڈھیر لگا دے وہ اس کا اکٹھا، پھر ڈال دے اسے جہنم میں، یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے(37)
#
{36} يقول تعالى مبيناً لعداوة المشركين وكيدهم ومكرهم ومبارزتهم لله ولرسوله وسعيهم في إطفاء نوره وإخماد كلمتِهِ، وأنَّ وبالَ مكرِهم سيعود عليهم، ولا يَحيقُ المكر السِّيئ إلاَّ بأهله، فقال: {إنَّ الذين كفروا ينفقون أموالَهم لِيَصُدُّوا عن سبيل الله}؛ أي: ليبطلوا الحقَّ، وينصروا الباطل، ويَبْطُلَ توحيدُ الرحمن، ويقومَ دينُ عبادة الأوثان. {فسينفقونها}؛ أي: فسيصدِرون هذه النفقة، وتَخِفُّ عليهم، لتمسُّكهم بالباطل، وشدة بغضهم للحق، ولكنها ستكون {عليهم حسرةً}؛ أي: ندامةً وخزياً وذلاًّ، {ثم يُغْلَبون}: فتذهب أموالهم وما أمَّلوا، ويعذَّبون في الآخرة أشدَّ العذاب، ولهذا قال: {والذين كفروا إلى جهنَّم يُحشرون}؛ أي: يجمعون إليها ليذوقوا عذابها، وذلك لأنَّها دار الخبث والخبثاء.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی عداوت، ان کے مکر و فریب، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کی مخالفت، اللہ کے چراغ کو بجھانے کے لیے ان کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو نیچا دکھانے کے لیے ان کی تگ و دو کا ذکر کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ ان کے مکر و فریب اور ان کی سازشوں کا وبال انھی پر پڑے گا۔ مکر و فریب کی برائی صرف فریب کاروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’کافر اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ اللہ کے راستے سے روکیں ‘‘ یعنی تاکہ وہ حق کا ابطال کر کے باطل کی مدد کریں اور اللہ رحمن کی وحدانیت کی نفی کر کے بتوں کی عبادت کے دین کو قائم کریں ۔ ﴿ فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ﴾ ’’سو ابھی اور خرچ کریں گے‘‘ یعنی یہ نفقات ان سے ابھی اور صادر ہوں گے اور یہ نفقات انھیں بہت خفیف محسوس ہوں گے کیونکہ وہ باطل سے چمٹے ہوئے ہیں اور حق کے خلاف سخت بغض رکھتے ہیں ، ﴿ ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ﴾ ’’پھر آخر ہو گا وہ ان پر افسوس‘‘ یعنی ان کو ندامت، رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا ہوگا، ﴿ ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ﴾ ’’پھر وہ مغلوب ہوں گے‘‘ پس ان کے مال و متاع اور آرزوئیں خاک میں مل جائیں گی اور آخرت میں انھیں سخت عذاب دیا جائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’تمام کفار کو جہنم میں اکٹھا کیا جائے گا‘‘ تاکہ وہ جہنم کا عذاب چکھیں کیونکہ جہنم ہی خبیث مردوں اور ان کی خباثت کا ٹھکانا ہے۔
#
{37} والله تعالى يريد أن يَميز الخبيثَ من الطيب، ويجعلَ كلَّ واحدةٍ على حِدَةٍ وفي دار تخصُّه، فيجعل الخبيث بعضه على بعض من الأعمال والأموال والأشخاص، {فَيَرْكُمَهُ جميعا فيجعله في جهنم أولئك هم الخاسرون}: الذين خسروا أنفسهم وأهليهم يوم القيامة، ألا ذلك هو الخسران المبين.
[37] اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کر کے دونوں کو اپنے اپنے مخصوص ٹھکانوں میں داخل کر دے، پس خبیث اعمال، خبیث اموال اور خبیث اشخاص ، سب کو جمع کردے ﴿ فَیَرْؔكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ ﴾ ’’پھر اس کو ڈھیر کر دے اکٹھا، پھر ڈال دے اس کو جہنم میں ، یہی لوگ ہیں نقصان اٹھانے والے‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہنا، یہی کھلا خسارہ ہے۔
آیت: 38 - 40 #
{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ (38) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (39) وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (40)}.
کہہ دیجیے! ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، اگر باز آجائیں وہ تو بخش دیا جائے گا ان کے لیے جو کچھ پہلے گزر چکا اور اگر دوبارہ ایسا ہی کریں گے وہ تو تحقیق گزر چکی ہے (ہماری) سنت پہلے لوگوں(میں) (38)اور لڑو تم ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ (شرک)اور ہوجائے دین سارا کا سارا اللہ ہی کا، پس اگر باز آجائیں وہ (کافر) تو یقینا اللہ، ساتھ اس کے جو وہ عمل کرتے ہیں، خوب دیکھنے والا ہے(39) اور اگر وہ منہ پھیر یں تو جان لو! یقینا اللہ ہی تمھارا کار ساز ہےاور وہ اچھا کارساز ہےاور اچھا مدد گار ہے(40)
#
{38} هذا من لطفه تعالى بعباده؛ لا يمنعُهُ كفرُ العباد ولا استمرارُهم في العناد من أن يدعُوهم إلى طريق الرشاد والهدى وينهاهم عما يُهْلِكُهم من أسباب الغيِّ والرَّدى، فقال: {قل للذين كفروا إن يَنتَهوا}: عن كفرهم، وذلك بالإسلام لله وحده لا شريك له، {يُغْفَرْ لهم ما قد سَلَفَ}: منهم من الجرائم. {وإن يعودوا}: إلى كفرِهم وعنادهم، {فقد مضتْ سُنَّةُ الأولين}: بإهلاك الأمم المكذِّبة؛ فلينتظروا ما حلَّ بالمعاندين؛ فسوف يأتيهم أنباءُ ما كانوا به يستهزئون. فهذا خطابُهُ للمكذِّبين.
[38] یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ان کا کفر اور ان کا دائمی عناد اسے اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ انھیں رشد و ہدایت کے راستے کی طرف بلائے اور انھیں گمراہی اور ہلاکت کی راہوں پر چلنے سے منع کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا ﴾ ’’کفار سے کہہ دیجیے اگر وہ باز آجائیں ۔‘‘ یعنی اگر وہ کفر سے باز آجائیں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ، کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں ۔ ﴿ یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ ’’تو بخش دیا جائے گا جو کچھ ہو چکا ہے‘‘ یعنی ان سے جن جرائم کا ارتکاب ہو چکا ہے ﴿ وَاِنْ یَّعُوْدُوْا﴾ ’’اگر وہ اعادہ کریں ۔‘‘ یعنی اگر وہ اپنے کفر اور عناد کا اعادہ کریں ﴿ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ ’’تو تحقیق گزر چکا ہے طریقہ پہلوں کا‘‘ یعنی رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کو ہلاک کرنے کا، پس وہ بھی اسی عذاب کا انتظار کریں جو ان معاندین حق پر نازل ہوا تھا.... عنقریب ان کے پاس وہی خبریں آئیں گی جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یہ خطاب تو جھٹلانے والوں سے تھا۔
#
{39} وأمَّا خطابه للمؤمنين عندما أمرهم بمعاملة الكافرين؛ فقال: {وقاتلوهم حتى لا تكونَ فتنةٌ}؛ أي: شركٌ وصدٌّ عن سبيل الله، ويذعنوا لأحكام الإسلام. {ويكونَ الدِّينُ كلُّه لله}: فهذا المقصود من القتال والجهاد لأعداء الدين: أن يُدْفَعَ شرُّهم عن الدين، وأن يُذَبَّ عن دين الله الذي خَلقَ الخلق له، حتى يكون هو العالي على سائر الأديان. {فإن انتهوا}: عن ما هم عليه من الظلم، {فإنَّ الله بما يعملون بصير}: لا تخفى عليه منهم خافيةٌ.
[39] رہا وہ خطاب جو اہل ایمان کو کفار کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیتے وقت اہل ایمان کے ساتھ تھا تو اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: ﴿ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ﴾ ’’اور ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ نہ رہے فساد‘‘ یعنی جب تک کہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور نہ ہو جائیں اور کفار اسلام کے احکام کے سامنے سرنگوں نہ ہو جائیں ۔ ﴿ وَّیَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾ ’’اور ہو جائے حکم سب اللہ کا‘‘ پس دشمنان دین کے خلاف جہاد اور قتال کا یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو کفار کے شر سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی، جس کے لیے تمام کائنات تخلیق کی گئی ہے، حفاظت کی جائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے۔ ﴿فَاِنِ انْتَهَوْا ﴾ ’’پس اگر وہ باز آجائیں ۔‘‘ اپنے ظلم کے رویے سے ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’تو بے شک اللہ ان کے کاموں کو دیکھتا ہے‘‘ اور اللہ تعالیٰ سے ان کی کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔
#
{40} {وإن تولَّوا}: عن الطاعة، وأوضعوا في الإضاعة، {فاعلموا أنَّ الله مولاكم نعم المولى}: الذي يتولَّى عباده المؤمنين، ويوصِلُ إليهم مصالحهم وييسِّر لهم منافعهم الدينيَّة والدنيويَّة. {ونعم النصيرُ}: الذي ينصُرُهم فيدفع عنهم كيدَ الفجَّار وتكالب الأشرار، ومَن كان الله مولاه وناصره؛ فلا خوفٌ عليه، ومَنْ كان الله عليه؛ فلا عزَّ له ولا قائمة له.
[40] ﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا ﴾ ’’اور اگر وہ روگردانی کریں ۔‘‘ یعنی اگر اطاعت سے منہ موڑ کر کفروسرکشی میں سرگرم ہو جائیں۔ ﴿ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰ٘ىكُمْ١ؕ نِعْمَ الْمَوْلٰى ﴾ ’’تو جان لو کہ اللہ تمھارا حمایتی ہے، کیا اچھا حمایتی ہے‘‘ جو اپنے مومن بندوں کی سرپرستی کرتا ہے، انھیں ان کے مصالح بہم پہنچاتا ہے اور ان کے لیے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ﴿ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ﴾ ’’اور کیا اچھا مددگار ہے‘‘ جو ان کی مدد کرتا ہے، ان کے خلاف فساق و فجار کی سازشوں کو ناکام بناتا ہے اور اشرار کی عداوت سے حفاظت کرتا ہے اور جس کا سرپرست اور حامی و ناصر اللہ تعالیٰ ہو تو اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور جس کا اللہ تعالیٰ مخالف ہو اسے کوئی مدد اور سہارا نہیں دے سکتا۔
آیت: 41 - 42 #
{وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (41) إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ (42)}.
اور جان لو تم کہ جو غنیمت حاصل کرو تم کسی چیز سے تو بے شک اللہ کے لیے ہے پانچواں حصہ اس کااور رسول کے لیے اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ، اگر ہوتم ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور (ساتھ) اس کے جو اتارا ہم نے اوپر اپنے بندے کے، دن فیصلے کے، جس دن کہ ملیں دو جماعتیں اور اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(41)جس وقت کہ تھے تم قریب کے کنارے پر اور وہ (تمھارے دشمن) تھے دور کے کنارے پر اور قافلہ نیچے کی جانب تھا تم سےاور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو ضرور اختلاف کرتے تم وقت (مقرر کرنے) میں لیکن (اللہ نے یوں ہی جمع کردیا) تاکہ پورا کر دے اللہ اس کام کو کہ تھا وہ کیا ہواتاکہ ہلاک ہوجو ہلاک ہو دلیل سے (حجت قائم ہونے کے بعد) اور زندہ رہے جو زندہ رہے دلیل سے(حق پہچان کر)اور بے شک اللہ سنتا جانتا ہے(42)
#
{41} يقول تعالى: {واعلموا أنَّما غنمتُم من شيءٍ}؛ أي: أخذتم من مال الكفار قهراً بحقٍّ قليلاً كان أو كثيراً، {فأنَّ لله خُمُسَه}؛ أي: وباقيه لكم أيها الغانمون؛ لأنه أضاف الغنيمة إليهم، وأخرج منها خمسها، فدلَّ على أن الباقي لهم، يُقسم على ما قسمه رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: للراجل سهمٌ، وللفارس سهمان لفرسه وسهم له، وأما هذا الخمس؛ فيقسم خمسة أسهم: سهمٌ لله ولرسوله يُصْرَف في مصالح المسلمين العامة من غير تعيين لمصلحة؛ لأنَّ الله جعله له ولرسوله، والله ورسوله غنيَّان عنه، فعُلِمَ أنه لعباد الله؛ فإذا لم يعيِّن الله له مصرفاً؛ دلَّ على أن مَصْرِفَه للمصالح العامة. والخمس الثاني: لذي القربى، وهم قرابة النبي - صلى الله عليه وسلم - من بني هاشم وبني المطلب، وأضافه الله إلى القرابة دليلاً على أنَّ العلة فيه مجرَّد القرابة، فيستوي فيه غنيُّهم وفقيرهم ذكرهم وأنثاهم. والخمس الثالث: لليتامى، وهم الذين فقدت آباؤهم وهم صغارٌ، جعل الله لهم خُمُسَ الخمس رحمةً بهم، حيث كانوا عاجزين عن القيام بمصالحهم، وقد فُقِدَ من يقوم بمصالحهم. والخمس الرابع: للمساكين؛ أي: المحتاجين الفقراء من صغار وكبار ذكور وإناث. والخمس الخامس: لابن السبيل، و [هو] الغريب المنقطَعُ به في غير بلده، وبعض المفسرين يقول: إن خمس الغنيمة لا يخرُجُ عن هذه الأصناف، ولا يلزم أن يكونوا فيه على السواء، بل ذلك تَبَعٌ للمصلحة، وهذا هو الأولى. وجعل الله أداء الخُمُس على وجهه شرطاً للإيمان، فقال: {إن كُنتم آمنتُم بالله وما أنزلْنا على عبدِنا يوم الفرقان}: وهو يوم بدرٍ، الذي فرَّق الله به بين الحقِّ والباطل، وأظهر الحقَّ وأبطل الباطل. {يوم التقى الجمعانِ}: جمع المسلمين وجمع الكافرين؛ أي: إن كان إيمانُكم بالله وبالحقِّ الذي أنزله الله على رسوله يوم الفرقان الذي حصل فيه من الآيات والبراهين ما دلَّ على أن ما جاء به هو الحقُّ. {والله على كلِّ شيء قدير}: لا يغالبه أحدٌ إلا غلبه.
[41] ﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ﴾’’اور جان رکھو کہ تم مال غنیمت سے جو کچھ حاصل کرو۔‘‘ یعنی کفار کا جو مال تم فتح یاب ہو کر حق کے ساتھ حاصل کرو، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ﴿ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ﴾ ’’تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔‘‘اور باقی تمھارے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غنیمت کی اضافت ان کی طرف کی ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ نکال دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پانچواں حصہ نکال کر باقی ان میں اسی طرح تقسیم کیا جائے گا جس طرح رسول اللہe نے تقسیم فرمایا تھا...، یعنی پیادے کے لیے ایک حصہ اور سوار کے لیے دو حصے، ایک حصہ خود اس کے لیے اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کے لیے(لیکن حدیث سے سوار کے لیے تین حصے ثابت ہوتے ہیں‘ دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ خود اس کے لیے۔ ) ’اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَھْمَیْنِ وَلِصَاحِبِہٖ سَھْمًا‘(صحیح البخاري، الجہاد والسیر، باب سھام الفرس، حدیث: 2863، 4228) (ص۔ی) رہا خمس تو اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے، ان میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولe کے لیے مختص ہے جو کسی تعین کے بغیر عام مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اللہ اور رسولe کا حصہ قرار دیا ہے اور اللہ اور اس کا رسولe اس سے بےنیاز ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حصہ درحقیقت بندگان الٰہی کے لیے ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف متعین نہیں فرمائے اس لیے واضح ہوا کہ اس کو مصالح عامہ میں صرف کیا جائے گا۔ خمس کا دوسرا حصہ، ذو القربیٰ کے لیے ہے اور یہاں ذو القربیٰ سے مراد رسول اللہe کے قرابت دار یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ۔ ذو القربیٰ کی طرف اس کی اضافت اس امر کی دلیل ہے کہ اس حکم کی علت مجرد قرابت ہے جس میں ان کے مال دار اور محتاج، مرد اور عورتیں سب شامل ہیں ۔ خمس کا تیسرا حصہ، یتیموں کے لیے ہے جن کے باپ فوت ہو چکے ہیں اور خود وہ بہت کمسن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی بنا پر ان کے لیے خمس کا پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے کیونکہ وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کسی ایسی ہستی سے بھی محروم ہیں جو ان کے مصالح کا انتظام کرے۔ خمس کا چوتھا حصہ مساکین، یعنی چھوٹوں ، بڑوں ، مردوں اور عورتوں میں سے محتاج اور تنگ دستوں کے لیے ہے۔ خمس کا آخری حصہ مسافروں کی بہبود کے لیے ہے۔ (اِبْنُ السَّبِیل) سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان مذکورہ مصارف سے باہر خرچ نہ کیا جائے، البتہ یہ لازم نہیں کہ ان اصناف مذکورہ میں برابر برابر تقسیم کیا جائے بلکہ مصالح کے مطابق ان کے درمیان اس مال کو تقسیم کیا جائے گا .... یہی رائے زیادہ قرین صواب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خمس کو اس طریقے سے خرچ کرنا ایمان کی شرط قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْ٘فُرْقَانِ ﴾ ’’اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر فیصلے کے دن‘‘ (یوم الفرقان) سے مراد یوم بدر ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور باطل میں فیصلہ کیا۔ حق کو غالب کیا اور باطل کا بطلان ظاہر کیا۔ ﴿یَوْمَ الْ٘تَ٘قَى الْ٘جَمْعٰنِ﴾ ’’جس دن بھڑ گئیں دونوں فوجیں‘‘ یعنی مسلمانوں کے گروہ اور کفار کے گروہ کی مڈبھیڑ ہوئی... یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور اس حق پر ایمان رکھتے ہو جو اس نے اپنے رسولe پر بدر کے روز نازل فرمایا، جس سے ایسے دلائل اور براہین حاصل ہوئے جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہe جو کچھ لائے ہیں ، وہ حق ہے ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ کا مقابلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی غالب آتا ہے۔
#
{42} {إذ أنتم بالعُدْوَةِ الدُّنيا}؛ أي: بعُدْوَة الوادي القريبة من المدينة. وهم بعدوته؛ أي: جانبه البعيدة من المدينة؛ فقد جمعكم وادٍ واحدٌ. {والركب}: الذي خرجتُم لطلبه، وأراد الله غيره {أسفلَ منكم}: مما يلي ساحل البحر. {ولو تواعدتُم}: أنتم وإيَّاهم على هذا الوصف وبهذه الحال، {لاختلفتُم في الميعادِ}؛ أي: لا بدَّ من تقدُّم أو تأخُّر أو اختيار منزل أو غير ذلك مما يعرض لكم أو لهم يصدُفُكم عن ميعادهم. ولكنَّ: اللهَ جمعكم على هذه الحال، {لِيَقْضِيَ الله أمرا كان مفعولا}؛ أي: مقدراً في الأزل لا بدَّ من وقوعه. {لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عن بيِّنة}؛ أي: ليكون حجَّة وبيَّنة للمعاند، فيختار الكفر على بصيرة وجزم ببطلانه، فلا يبقى له عذرٌ عند الله. {ويحيا مَنْ حَيَّ عن بيِّنةٍ}؛ أي: يزداد المؤمن بصيرةً ويقيناً بما أرى الله الطائفتين من أدلَّة الحقِّ وبراهينه ما هو تذكرة لأولي الألباب. {وإن الله لسميعٌ عليمٌ}: سميعٌ لجميع الأصوات باختلاف اللُّغات على تفنُّن الحاجات، عليمٌ بالظواهر والضمائر والسرائر والغيب والشهادة.
[42] ﴿اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا﴾ ’’جس وقت تم قریب کے ناکے پر تھے۔‘‘ یعنی جب تم مدینہ سے قریب ترین وادی میں تھے۔ ﴿ وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى﴾ ’’اور وہ (کفار) مدینہ سے بعید ترین وادی میں تھے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے تم دونوں گروہوں کو ایک ہی وادی میں جمع کر دیا ﴿ وَالرَّؔكْبُ ﴾ ’’اور قافلہ‘‘ یعنی وہ تجارتی قافلہ جس کے تعاقب میں تم نکلے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ کچھ اور ہی تھا ﴿ اَسْفَلَ مِنْكُمْ ﴾ ’’تم سے نیچے کی طرف تھا‘‘ یعنی وہ ساحل کے ساتھ ساتھ تھا۔ ﴿ وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ ﴾ ’’اور اگر تم آپس میں قرار داد کرلیتے۔‘‘ اگر تم نے اور کفار نے اس حال میں اور اس وصف کے ساتھ ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہوتا ﴿ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ﴾ ’’تو نہ پہنچتے وعدے پر ایک ساتھ‘‘ یعنی مقررہ میعاد میں تقدیم و تاخیر یا جگہ کے انتخاب وغیرہ میں کسی عارضہ کی بنا پر تم میں اختلاف واقع ہو جاتا جو تمھیں میعاد مقررہ پر پہنچنے سے روک دیتا۔ ﴿ وَلٰكِنْ ﴾ ’’اور لیکن‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس حال میں اکٹھا کر دیا۔ ﴿ لِّ٘یَقْ٘ضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ﴾ ’’تاکہ اللہ اس امر کو پورا کرے (جو روز ازل سے مقرر ہے) جس کا واقع ہونا لابدی ہے۔‘‘﴿ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ ’’تاکہ مرے جس کو مرنا ہے دلیل کے واضح ہونے کے بعد‘‘ تاکہ معاند حق کے خلاف حجت اور دلیل قائم ہو جائے تاکہ اگر وہ کفر اختیار کرے تو پوری بصیرت کے ساتھ اختیار کرے اور اس کے بطلان کا اسے پورا یقین ہو اور یوں اللہ کے حضور پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو۔ ﴿ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ ’’اور زندہ رہے جس کو جینا ہے دلیل کے واضح ہونے کے بعد‘‘ یعنی تاکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں پر جو حق کے دلائل واضح کیے ہیں اس کی بنا پر اہل ایمان کے یقین اور بصیرت میں اضافہ ہو۔ یہ دلائل و براہین عقل مندوں کے لیے یاددہانی ہے۔ ﴿ وَاِنَّ اللّٰهَ لَ٘سَمِیْعٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سننے والا ہے‘‘ تمام آوازوں کو، زبانوں کے اختلاف اور مخلوق کی مختلف حاجات کے باوجود۔ ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری اعمال، ضمیر میں چھپی ہوئی نیتوں اور بھیدوں ، غائب اور حاضر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
آیت: 43 - 44 #
{إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (43) وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (44)}.
جب دکھلاتا تھا ان (کافروں) کو اللہ آپ کے خواب میں تھوڑااور اگر دکھاتا وہ آپ کو انھیں زیادہ تو تم پست ہمت ہوجاتے اور ضرور باہم نزاع کرتے اس معاملے میں لیکن اللہ نے بچا لیا، بے شک وہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے(43) اور جب دکھلاتا تھا وہ تمھیں ان کافروں کو، جب ملے تم، تمھاری آنکھوں میں تھوڑااور تھوڑا دکھلاتا تھا تم کو ان کی آنکھوں میں تاکہ پورا کردے اللہ اس کام کو کہ تھا وہ کیا ہوا اور طرف اللہ ہی کی لوٹائے جاتے ہیں سارے کام(44)
#
{43} وكان الله قد أرى رسولَه المشركين في الرؤيا العدو قليلاً، فبشَّر بذلك أصحابه، فاطمأنَّت قلوبُهم وثبتت أفئدتهم. {ولو أراكَهم اللهُ كثيراً}: فأخبرتَ بذلك أصحابك، {لَفَشِلْتُم ولَتَنازَعْتُم في الأمر}: فمنكم من يرى الإقدامَ على قتالهم ومنكم من لا يرى ذلك، والتنازع مما يوجب الفشل ، {ولكنَّ الله سلَّم}؛ أي: لطف بكم. {إنَّه عليمٌ بذات الصُّدور}؛ أي: بما فيها من ثبات وجَزَع وصدق وكذب، فعلم الله من قلوبكم ما صار سبباً للطفه وإحسانِهِ بكم وصدق رؤيا رسوله، فأرى الله المؤمنين عدوَّهم قليلاً في أعينهم، ويقلِّلكم يا معشر المؤمنين في أعينهم؛ فكلٌّ من الطائفتين ترى الأخرى قليلة؛ لِتُقْدِمَ كلٌّ منهما على الأخرى. {ليقضيَ اللهُ أمراً كان مفعولاً}: من نصر المؤمنين، وخذلان الكافرين، وقتل قادتهم ورؤساء الضلال منهم، ولم يَبْقَ منهم أحدٌ له اسم يذكر، فيتيسَّر بعد ذلك انقيادُهم إذا دُعوا إلى الإسلام، فصار أيضاً لطفاً بالباقين، الذين مَنَّ الله عليهم بالإسلام. {وإلى الله تُرْجَعُ الأمور}؛ أي: جميع أمور الخلائق تَرْجِعُ إلى الله، فَيميزُ الخبيثَ من الطيب، ويحكمُ في الخلائق بحكمه العادل الذي لا جَوْر فيه ولا ظلم.
[43] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو آپ کے خواب میں مشرکین کی بہت کم تعداد دکھائی۔ اس بنا پر آپ نے اپنے اصحاب کرامy کو خوشخبری دے دی اس سے وہ مطمئن اور ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَوْ اَرٰؔىكَ٘هُمْ كَثِیْرًا ﴾ ’’اور اگر اللہ ان کو بہت کرکے تمھیں دکھاتا۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے آپe کو کفار کثیر تعداد میں دکھائے ہوتے اور پھر آپ نے اس کی خبر اپنے اصحابy کو دی ہوتی ﴿لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ ﴾ تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور جو معاملہ تمھیں درپیش تھا اس میں جھگڑنا شروع کر دیتے، کوئی کہتا کہ آگے بڑھ کر کفار سے لڑائی کرو اور کوئی اس رائے کے خلاف ہوتا اور جھگڑا کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ ﴿ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ﴾ ’’اور لیکن اللہ نے بچا لیا‘‘ یعنی اللہ نے تم پر لطف و کرم کیا ﴿ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ ’’بے شک وہ سینوں کی باتوں تک سے واقف ہے۔‘‘ یعنی تمھارے سینوں میں ثابت قدمی یا بے صبری، سچائی یا جھوٹ جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں کی اس کیفیت کو جان لیا جو تم پر اس کے لطف و احسان اور اس کے رسولe کے خواب کی صداقت کا باعث بنی۔ [44] اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نگاہوں میں ان کے دشمن کو تھوڑا کر کے دکھایا... اور اے مومنو! تمھیں ان کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا، چنانچہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کو اپنا مدمقابل تھوڑا نظر آتا تھا تاکہ دونوں میں سے ہر ایک، دوسرے پر پیش قدمی کرنے میں تامل نہ کرے۔ ﴿ لِیَقْ٘ضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا﴾ ’’تاکہ اللہ تعالیٰ اس امر کو پورا کر دے جس کا پورا ہونا مقدر تھا‘‘ یعنی اہل ایمان کو فتح و نصرت عطا کرے، کفار کو ان کے حال پر چھوڑ کر ان سے علیحدہ ہو جائے، چنانچہ ان کے راہ نما اور گمراہ سردار قتل ہوئے اور ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص باقی نہ بچا، پھر اس کے بعد جب کفار کو اسلام کی دعوت دی گئی تو ان کا مطیع ہونا آسان ہوگیا اور یہ چیز باقی بچ جانے والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا باعث بنی جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا کر کے ان پر احسان فرمایا۔ ﴿وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ﴾ ’’اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔‘‘ یعنی مخلوق کے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹتے ہیں ، اللہ تعالیٰ پاک اور ناپاک کو علیحدہ علیحدہ کرتا ہے، تمام مخلوقات پر عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کو نافذ کرتا ہے جس میں کوئی ظلم و جور نہیں ہوتا۔
آیت: 45 - 49 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (45) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (46) وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (47) وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكُمْ إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ (48) إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَّ هَؤُلَاءِ دِينُهُمْ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (49)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب ٹکراؤ تم کسی جماعت سے تو ثابت قدم رہو اور یاد کرو اللہ کو بہت تاکہ تم فلاح پاؤ(45) اور اطاعت کرو اللہ کی اوراس کے رسول کی اورنہ نزاع کرو آپس میں، پس کم ہمت ہو جاؤ گے تم اور جاتی رہے گی تمھاری ہوا اور صبر کرو، بے شک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے(46) اور نہ ہو تم مانند ان لوگوں کی جو نکلے اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے دکھلانے کے لیے اور روکتے تھے وہ اللہ کی راہ سے اوراللہ اس کو جو وہ عمل کرتے ہیں، گھیرنے والا ہے(47) اور جب مزین کر دکھائے ان کے لیے شیطان نے ان کے عمل اور کہا، نہیں کوئی غالب آنے والا تم پر آج کے دن لوگوں میں سے اور میں پشت پناہ ہوں تمھارا، پس جب آمنے سامنے ہوئیں دونوں جماعتیں تو پھر گیا وہ اوپر اپنی دونوں ایڑیوں کے اور کہا، بے شک میں بیزار ہوں تم سے، تحقیق میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، بے شک میں ڈرتا ہوں اللہ سےاور اللہ سخت سزا دینے والا ہے(48) جبکہ کہتے تھے منافق اور وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں روگ تھا، دھوکے میں ڈال دیا ہے ان کو ان کے دین نےاور جو کوئی بھروسہ کرے اوپر اللہ کے تو یقینا اللہ زبردست، خوب حکمت والا ہے(49)
#
{45} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا إذا لَقيتُم فئةً}؛ أي: طائفة من الكفار تقاتلكم، {فاثبُتوا}: لقتالها، واستعمِلوا الصبر وحبس النفس على هذه الطاعة الكبيرة، التي عاقبتُها العزُّ والنصر، واستعينوا على ذلك بالإكثار من ذكر اللَّه. {لعلَّكم تفلحون}؛ أي: تدركون ما تطلبون من الانتصار على أعدائكم؛ فالصبرُ والثبات والإكثار من ذِكْر الله من أكبر الأسباب للنصر.
[45] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً ﴾ ’’اے ایمان والو! جب ملو تم کسی گروہ کو‘‘ یعنی کفار کا گروہ جو تمھارے ساتھ جنگ کرتا ہے ﴿ فَاثْبُتُوْا﴾ ’’تو ثابت قدم رہو۔‘‘ یعنی کفار کے خلاف جنگ میں ثابت قدم رہو، صبر سے کام لو اور اس عظیم نیکی میں جس کا انجام عزت و نصرت ہے، اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ اور اس بارے میں کثرت ذکر سے مدد لو۔ ﴿ تُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ یعنی شاید تم وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤ جو تمھارا مطلوب و منشا ہے، یعنی دشمنوں کے مقابلے میں فتح و نصرت۔ پس صبر، ثابت قدمی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت، فتح و نصرت کے سب سے بڑے اسباب ہیں ۔
#
{46} {وأطيعوا الله ورسوله}: في استعمال ما أمرا به والمشي خلف ذلك في جميع الأحوال، {ولا تنازعوا}: تنازعاً يوجِبُ تشتُت القلوب وتفرقها، {فتفشلوا}؛ أي: تجبُنوا، {وتذهبَ ريحُكم}؛ أي: تنحلُّ عزائمكم وتُفرَّقُ قوتكم ويُرْفَعُ ما وُعِدتم به من النصر على طاعة الله ورسوله، {واصبروا}: نفوسَكم على طاعة الله. {إنَّ الله مع الصابرين}: بالعون والنصر والتأييد.
[46] ﴿ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ جس چیز کا وہ دونوں حکم دیں اس کو استعمال کرنے اور تمام احوال میں ان کے پیچھے چلنے میں ﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا ﴾ ’’اور آپس میں نہ جھگڑنا۔‘‘ یعنی اس طرح نہ جھگڑو جس سے تمھارے دل تشتت اور افتراق کا شکار ہو جائیں ۔ ﴿فَتَفْشَلُوْا﴾ ’’پس تم بزدل ہوجاؤ گے۔‘‘ ﴿ وَتَذْهَبَ رِیْحُكُمْ ﴾ ’’اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘ یعنی عزائم کمزور اور تمھاری طاقت بکھر جائے گی اور تم سے فتح و نصرت کا وہ وعدہ اٹھا لیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مشروط ہے۔ ﴿ وَاصْبِرُوْا ﴾ ’’اور صبر سے کام لو۔‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم رکھو ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد، فتح و نصرت اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
#
{47} واخشعوا لربكم واخضعوا له، {ولا تكونوا كالذين خَرَجوا من ديارهم بطراً ورِئاءَ الناس ويصدُّون عن سبيل الله}؛ أي: هذا مقصدهم الذي خرجوا إليه، وهذا الذي أبرزهم من ديارِهم؛ لقصدِ الأشَرِ والبطر في الأرض، وليراهم الناس ويفخروا لديهم، والمقصود الأعظم أنهم خرجوا ليصدُّوا عن سبيل الله من أراد سلوكه. {والله بما يعملون محيطٌ}: فلذلك أخبركم بمقاصدهم، وحذَّركم أن تشبَّهوا بهم؛ فإنه سيعاقبهم على ذلك أشدَّ العقوبة، فليكنْ قصدُكم في خروجكم وجهَ الله تعالى، وإعلاء دين الله، والصدَّ عن الطرق الموصلة إلى سَخَطِ الله وعقابِهِ، وجَذْبَ الناس إلى سبيل الله القويم الموصل لجنات النعيم.
[47] اس لیے اس سے ڈرو اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔﴿ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَ٘ارِهِمْ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلاتے ہوئے نکلے اور وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے‘‘ یعنی یہ ان کا مقصد تھا جس کے لیے وہ نکل کر آئے تھے، یہی ان کا منشا تھا جس نے ان کو ان کے گھر سے نکالا تھا، ان کا مقصد صرف غرور اور زمین میں تکبر کا اظہار تھا تاکہ لوگ ان کو دیکھیں اور وہ ان کے سامنے فخر کا اظہار کریں ۔ گھروں سے نکلنے میں ان کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ ان لوگوں کو روکیں جو اللہ کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ﴾ ’’اور اللہ کے احاطہ میں ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ‘‘ اسی لیے اس نے تمھیں ان کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا ہے اور تمھیں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے ڈرایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ عنقریب انھیں سخت سزا دے گا۔ پس گھروں سے نکلنے میں تمھارا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب، دین کی سربلندی، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی منزل کو جانے والے راستے سے روکنا اور اللہ تعالیٰ کے سیدھے راستے کی طرف لوگوں کو کھینچنا ہو جو نعمتوں سے بھری جنت کو جاتا ہے۔
#
{48} {وإذ زيَّنَ لهم الشيطان أعمالهم}: حسَّنها في قلوبهم [وخدعهم]، {وقال لا غالبَ لكمُ اليومَ من الناس}: فإنكم في عَدَدٍ وعُدَدٍ وهيئةٍ لا يقاومكم فيها محمدٌ ومن معه. {وإني جارٌ لكم}: من أن يأتيكم أحدٌ ممَّن تخشون غائلته؛ لأنَّ إبليس قد تبدَّى لقريش في صورة سراقة بن مالك بن جُعْشُم المدلجي، وكانوا يخافون من بني مدلج لعداوةٍ كانت بينهم، فقال لهم الشيطان: أنا جارٌ لكم! فاطمأنت نفوسُهم وأتوا على حَرْدٍ قادرينَ. فلما {تراءتِ الفئتان}: المسلمون والكافرون، فرأى الشيطان جبريلَ عليه السلام يَزَع الملائكة؛ خاف خوفاً شديداً، {ونكص على عقبيه}؛ أي: ولى مدبراً، {وقال}: لمن خدعهم وغرهم: {إني بريء منكم إني أرى ما لا ترون}؛ أي: أرى الملائكة الذين لا يدان لأحد بقتالهم؛ {إني أخاف الله}؛ أي: أخاف أن يعاجِلَني بالعقوبة في الدنيا، {والله شديد العقاب}. ومن المحتمل أن يكون الشيطان [قد] سوَّلَ لهم، ووسوس في صدورهم أنَّه لا غالبَ لهم اليوم من الناس وأنَّه جار لهم، فلما أوردهم موارِدَهم؛ نكص عنهم، وتبرَّأ منهم؛ كما قال تعالى: {كَمَثَل الشيطان إذْ قال للإنسانِ اكفُرْ فلمَّا كَفَرَ قال إنِّي بريءٌ منك إني أخافُ اللهَ ربَّ العالمين فكانَ عاقِبَتَهُما أنَّهما في النارِ خالِدَيْن فيها وذلك جزاء الظالمين}.
[48] ﴿ وَاِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَعْمَالَهُمْ ﴾ ’’اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے۔‘‘ یعنی شیطان نے ان کے دلوں میں ان کے اعمال خوبصورت بنا دیے اور انھیں دھوکے میں ڈال دیا۔ ﴿ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ ﴾ ’’اور اس نے کہا آج تم پر کوئی غالب نہیں ہو گا لوگوں میں سے‘‘ کیونکہ تم تعداد، ساز و سامان اور ہیئت کے اعتبار سے اتنے طاقتور ہو کہ محمد (e) اور اس کے ساتھی تمھارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ﴿ وَاِنِّیْ جَارٌ لَّـكُمْ﴾ ’’اور میں تمھارا حمایتی ہوں ‘‘ میں اس کے مقابلے میں تمھارا ساتھی ہوں جس کے شب خون سے تم ڈرتے ہو کیونکہ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں قریش کے پاس آیا، قریش اور بنو مدلج کے درمیان عداوت تھی اس لیے قریش ان کے شب خون سے بہت خائف تھے۔ شیطان نے ان سے کہا ’’میں تمھارے ساتھ ہوں ‘‘ چنانچہ ان کے دل مطمئن ہوگئے اور وہ غضب ناک ہو کر آئے۔ ﴿فَلَمَّا تَرَآءَؔتِ الْفِئَتٰ٘نِ ﴾ ’’پس جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں ۔‘‘ مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا اور شیطان نے جبریلu کو دیکھا کہ وہ ترتیب کے ساتھ فرشتوں کی صف بندی کر رہے ہیں تو سخت خوفزدہ ہوا ﴿ نَكَ٘صَ عَلٰى عَقِبَیْهِ ﴾ ’’تو وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا۔‘‘ یعنی پسپا ہو کر الٹے پاؤں واپس بھاگا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ اور جن کو اس نے دھوکہ اور فریب دیا تھا ان سے کہنے لگا ﴿ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّؔنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ ﴾ ’’میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں ، میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے‘‘ یعنی میں ان فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ﴿ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ﴾ ’’مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے اس دنیا ہی میں عذاب نہ دے دے ﴿ وَاللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال کر ان کے سامنے یہ بات مزین کر دی ہو کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، آج میں تمھارا رفیق ہوں اور جب وہ ان کو میدان جنگ میں لے آیا تو براء ت کا اظہار کرتے ہوئے پسپا ہو کر ان کو چھوڑ کر بھاگ گیا، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿كَمَثَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ١ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّؔنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۰۰فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَاۤ اَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْهَا١ؕ وَذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ ﴾ (الحشر: 59؍16، 17) ’’ان کی مثال شیطان کی سی ہے اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب اس نے کفر کیا تو کہنے لگا، میں تجھ سے بری ہوں ۔ میں تو اللہ، جہانوں کے رب سے ڈرتا ہوں ۔ پس دونوں کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔‘‘
#
{49} {إذ يقول المنافقون والذين في قلوبهم مرضٌ}؛ أي: شكٌّ وشبهةٌ من ضعفاء الإيمان للمؤمنين حين أقدموا مع قلَّتهم على قتال المشركين مع كثرتهم: {غرَّ هؤلاء دينُهم}؛ أي: أوردهم الدينُ الذي هم عليه هذه الموارد التي لا يدان لهم بها ولا استطاعةَ لهم بها، يقولونه احتقاراً لهم واستخفافاً لعقولهم، وهم والله الأخفاءُ عقولاً الضعفاءُ أحلاماً؛ فإنَّ الإيمان يوجبُ لصاحبه الإقدام على الأمور الهائلةِ التي لا يقدِمُ عليها الجيوش العظام؛ فإنَّ المؤمن المتوكِّل على الله الذي يعلم أنه ما من حولٍ ولا قوةٍ ولا استطاعةٍ لأحدٍ إلا بالله تعالى، وأنَّ الخلق لو اجتمعوا كلُّهم على نفع شخص بمثقال ذرَّةٍ؛ لم ينفعوه، ولو اجتمعوا على أن يضرُّوه؛ لم يضرُّوه؛ إلا بشيءٍ قد كتبه الله عليه، وعلم أنَّه على الحقِّ، وأن الله تعالى حكيمٌ رحيمٌ في كلِّ ما قدَّره وقضاه؛ فإنَّه لا يبالي بما أقدم عليه من قوَّةٍ وكثرةٍ، وكان واثقاً بربِّه مطمئن القلب لا فزعاً ولا جباناً، ولهذا قال: {ومن يتوكَّلْ على الله فإنَّ الله عزيزٌ}: لا يغالِبُ قوتَه قوةٌ. {حكيمٌ}: فيما قضاه وأجراه.
[49] ﴿اِذْ یَقُوْلُ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ’’اس وقت منافق اور جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے۔‘‘ یعنی جب اہل ایمان اپنی قلت اور مشرکین کی کثرت کے باوجود لڑائی کے لیے نکلے تو ضعیف الایمان لوگ جن کے دلوں میں شک و شبہ تھا، اہل ایمان سے کہنے لگے ﴿ غَ٘رَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ ﴾ ’’ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یعنی جس دین پر یہ کاربند ہیں اس دین نے انھیں اس ہلاکت انگیز مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے۔ یہ بات وہ اہل ایمان کو حقیر اور کم عقل سمجھتے ہوئے کہتے تھے، حالانکہ وہ خود… اللہ کی قسم… کم عقل اور بے سمجھ تھے۔ کیونکہ جذبۂ ایمان مومن کو ایسے ہولناک مقامات میں کود جانے پر آمادہ کرتا ہے جہاں بڑے بڑے لشکر آگے بڑھنے سے گریز کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا مومن جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں ۔ اگر تمام لوگ کسی شخص کو ذرہ بھر فائدہ پہنچانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر اس کو نقصان پہنچانے پر اکٹھے ہو جائیں تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ مومن جانتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی قضا و قدر میں حکمت والا اور نہایت رحمت کرنے والا ہے اس لیے جب وہ کوئی اقدام کرتا ہے تو وہ (مخالفین کی) کثرت اور قوت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ اطمینان قلب کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے۔ وہ گھبراتا ہے نہ بزدلی دکھاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَؔكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ﴾ ’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ غالب ہے‘‘ کوئی طاقت اس کی طاقت پر غالب نہیں آسکتی۔ ﴿حَكِیْمٌ ﴾ ’’وہ حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنی قضا و قدر میں نہایت حکمت والا ہے۔
آیت: 50 - 52 #
{وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (50) ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (51) كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ (52)}.
اور کاش! دیکھیں آپ جبکہ جان قبض کرتے ہیں ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا، فرشتے، مارتے ہیں وہ (فرشتے) ان کے چہروں کو اور ان کی پیٹھوں کو اور (کہتے ہیں) چکھو عذاب جلانے والا(50)یہ بسبب اس کے ہے جو آگے بھیجا تمھارے ہاتھوں نے اور یہ کہ بے شک اللہ نہیں ہے ظلم کرنے والا اپنے بندوں پر(51)جیسے عادت تھی آل فرعون اوران لوگوں کی جو ان سے پہلے تھے، کفر کیا انھوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو پکڑ لیا ان کو اللہ نے بسبب ان کے گناہوں کے، بے شک اللہ طاقت ور سخت سزا دینے والا ہے(52)
#
{50} يقول تعالى: {ولو ترى}: الذين كفروا بآيات الله حين توفَّاهم الملائكةُ الموكلون بقبض أرواحهم وقد اشتد بهم القلق وعظم كربهم والملائكة {يضرِبون وجوهَهم وأدبارَهم}: يقولون لهم: أخرجوا أنفسكم! ونفوسُهم متمنِّعة متعصِّية على الخروج؛ لعلمها ما أمامها من العذاب الأليم. ولهذا قال: {وذوقوا عذابَ الحريق}؛ أي: العذاب الشديد المحرق.
[50] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کفر کا ارتکاب کرنے والوں کو اس وقت دیکھیں جب موت کے فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہوں گے، ان کو سخت قلق ہوگا اور وہ سخت تکلیف اور کرب میں ہوں گے ﴿ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَ٘ارَهُمْ﴾ ’’مارتے ہیں وہ ان کے مونہوں پر اور ان کے پیچھے‘‘ اور ان سے کہتے ہیں ۔ ’’اپنی جان نکالو‘‘ ان کی جانیں نکلنے سے انکار کریں گی کیونکہ انھیں علم ہے کہ انھیں کس دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ﴾ ’’اور عذاب آتش چکھو۔‘‘ یعنی نہایت سخت اور جلانے والے عذاب کا مزا چکھو۔
#
{51} ذلك العذاب حصل لكم غير ظلم ولا جور من ربكم، وإنما هو بما قدَّمت أيديكم من المعاصي التي أثرت لكم ما أثرت.
[51] یہ عذاب تمھیں تمھارے رب کی طرف سے کسی ظلم و جور کی وجہ سے نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ یہ صرف تمھارے گناہوں کی پاداش ہے جن کی یہ تاثیر ہے جس نے یہ اثر دکھایا ہے۔
#
{52} وهذه سنة الله في الأولين والآخرين؛ فإنَّ دأب هؤلاء المكذِّبين؛ أي: سنتهم وما أجرى اللَّه عليهم من الهلاك بذنوبهم، {كدأب آل فرعون والذين من قبلهم}: من الأمم المكذبة، {كفروا بآياتِ الله فأخَذَهم الله}: بالعقاب {بذنوبهم إنَّ الله قويٌّ شديد العقاب}: لا يعجِزُه أحدٌ يريد أخذه. {ما من دابَّةٍ إلا هو آخذٌ بناصيتها}.
[52] اور اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے۔ کیونکہ ان جھٹلانے والوں کی عادت اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کی ہلاکت ایسے ہی ہے ﴿ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’جیسے عادت آل فرعون کی تھی اور ان کی جو ان سے پہلے تھے‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین کی تکذیب کرنے والی گزشتہ قوموں میں سے ﴿ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’انھوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو پکڑ لیا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو پکڑ لیا ﴿بِذُنُوْبِهِمْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’ان کے گناہوں پر، یقینا اللہ طاقت ور ہے، سخت عذاب کرنے والا۔‘‘اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کے ساتھ جس کی گرفت کرنا چاہے تو اسے کوئی بے بس نہیں کر سکتا۔ ﴿مَؔا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا﴾ (ھود: 11؍56) ’’زمین پر چلنے والا جو بھی جانور ہے اللہ نے اس کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔‘‘
آیت: 53 - 54 #
{ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (53) كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَكُلٌّ كَانُوا ظَالِمِينَ (54)}.
یہ اس واسطے کہ بے شک اللہ نہیں ہے بدلنے والا کسی نعمت کا جو انعام کی ہو اس نے اوپر کسی قوم کے، یہاں تک کہ وہ خود ہی بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہے اور بلاشبہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے(53) جیسے عادت تھی آلِ فرعون اوران لوگوں کی جو ان سے پہلے تھے، انھوں نے جھٹلایا اپنے رب کی آیتوں کو تو ہلاک کردیا ہم نے ان کو بسبب ان کے گناہوں کےاور غرق کردیا ہم نے آل فرعون کواور سب تھے وہ ظالم(54)
#
{53} {ذلك}: العذاب الذي أوقعه الله بالأمم المكذِّبة وأزال عنهم ما هم فيه من النِّعم والنعيم بسبب ذنوبهم وتغييرهم ما بأنفسهم، فإنَّ {الله لم يكن مغيِّراً نعمةً أنعمها على قوم}: من نعم الدِّين والدُّنيا، بل يبقيها ويزيدُهم منها إن ازدادوا له شكراً، {حتى يغيِّروا ما بأنفسهم}: من الطاعة إلى المعصية، فيكفروا نعمة الله، ويبدِّلوا بها كفراً، فيسلُبُهم إيَّاها ويغيِّرها عليهم كما غيروا ما بأنفسهم، ولله الحكمة في ذلك والعدل والإحسان إلى عباده ؛ حيث لم يعاقبهم إلاَّ بظُلمهم، وحيث جَذَبَ قلوب أوليائه إليه بما يذيقُ العباد من النَّكال إذا خالفوا أمره. {وأنَّ الله سميعٌ عليمٌ}: يسمع جميعَ ما نطق به الناطقون، سواءٌ من أسرَّ القول ومن جهر به. ويعلم ما تنطوي عليه الضمائرُ وتخفيه السرائرُ، فيُجري على عباده من الأقدار ما اقتضاه علمُهُ، وجرت به مشيئتُهُ.
[53] ﴿ ذٰلِكَ ﴾ وہ عذاب جو اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والی قوموں پر نازل فرمایا تھا اور وہ نعمتیں جو انھیں حاصل تھیں ، ان سے سلب کر لی گئی تھیں ، اس کا سبب ان کے گناہ اور ان کا اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار کرنا تھا۔ ﴿ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ ﴾ ’’اللہ بدلنے والا نہیں ہے اس نعمت کو جو دی اس نے کسی قوم کو‘‘ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرتا ہے تو ان کو سلب نہیں کرتا بلکہ ان کو باقی رکھتا ہے اور اگر وہ شکر کرتے رہیں تو ان میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ﴾ ’’جب تک وہی نہ بدل ڈالیں اپنے دلوں کی بات‘‘ یعنی جب تک کہ وہ اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار نہیں کرتے، پس جب وہ نعمتوں کی ناشکری کرتے اور ان کے بدلے کفر کرتے ہیں ... تب اللہ تعالیٰ ان سے ان نعمتوں کو چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو اس طرح بدل ڈالتا ہے جس طرح انھوں نے اپنے رویے کو بدل ڈالا۔ اس بارے میں اپنے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ حکمت اور عدل و احسان پر مبنی ہے۔ کیونکہ وہ ان کو عذاب نہیں دیتا مگر ان کے ظلم کے سبب سے اور بندے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو عبرت ناک سزا دیتا ہے، جس سے وہ اپنے اولیا کے دل اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ﴿ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘ بولنے والے جو کچھ بولتے ہیں خواہ وہ آہستہ آواز سے بات کریں یا اونچی آواز میں ، اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سنتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو بندوں کے ضمیر میں مخفی اور ان کی نیتوں میں چھپا ہوا ہے، وہ اپنے بندوں کی تقدیر میں وہی کچھ جاری کرتا ہے جس کا اس کا علم اور اس کی مشیت تقاضا کرتے ہیں ۔
#
{54} {كدأب آل فرعون}؛ أي: فرعون وقومه، {والذين من قبلهم كذَّبوا بآيات ربِّهم}: حين جاءتهم، {فأهْلَكْناهم بذُنوبهم}: كل بحسب جرمه، {وأغْرَقنا آلَ فرعون وكلٌّ}: من المهلَكين المعذَّبين {كانوا ظالمين}: لأنفسهم ساعين في هلاكها، لم يظلمْهُمُ الله ولا أخَذَهم بغير جُرم اقترفوه؛ فليحذرِ المخاطَبون أن يشابهوهم في الظلم، فيُحِلَّ الله بهم من عقابه ما أحلَّ بأولئك الفاسقين.
[54] ﴿ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’جیسی عادت آل فرعون کی۔‘‘ یعنی فرعون اور اس کی قوم کی عادت ﴿ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور ان کی جو ان سے پہلے لوگ تھے، انھوں نے رب کی آیتوں کو جھٹلایا‘‘ یعنی جب ان کے پاس ان کے رب کی نشانیاں آئیں تو انھوں نے ان کی تکذیب کی۔ ﴿فَاَهْلَكْنٰهُمْ۠ بِذُنُوْبِهِمْ ﴾ ’’پس ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے باعث ہلاک کردیا۔‘‘ ہر ایک کو اس کے جرم کے مطابق۔ ﴿ وَكُ٘لٌّ٘ ﴾ ’’اور وہ سب‘‘ یعنی تمام ہلاک ہونے والے اور جن پر عذاب نازل کیا گیا۔ ﴿ كَانُوْا ظٰ٘لِمِیْنَ ﴾ ’’ظالم تھے۔‘‘ یعنی وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا اور نہ ان کو کسی ایسے جرم میں پکڑا ہے جس کا انھوں نے ارتکاب نہ کیا ہو۔ پس ان لوگوں کو، جو ان آیات کریمات کے مخاطب ہیں ، ظلم میں ان قوموں کی مشابہت سے بچنا چاہیے، ورنہ ان پر بھی اللہ تعالیٰ وہی عذاب نازل کرے گا جو ان فساق و فجار لوگوں پر نازل کیا تھا۔
آیت: 55 - 57 #
{إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (55) الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ (56) فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ [يَذَّكَّرُونَ] (57)}.
بے شک بدترین زمین پر چلنے والے، اللہ کے نزدیک، وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا، پس وہ نہیں ایمان لاتے(55) وہ لوگ کہ عہد باندھا آپ نے ان سے، پھر توڑ دیتے رہے وہ اپنا عہد ہر مرتبہ اور وہ (ذرا) نہیں ڈرتے(56) پس اگر پائیں آپ ان کو لڑائی میں تو بھگا دیں ان کے ذریعے سے ان لوگوں کو جو ان کے پیچھے ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں(57)
#
{55 ـ 56} هؤلاء الذين جمعوا هذه الخصالَ الثلاث ـ الكفر وعدم الإيمان والخيانة ـ بحيث لا يثبُتون على عهدٍ عاهدوه ولا قول قالوه هم {شرُّ الدوابِّ عند الله}: فهم شرٌّ من الحمير والكلاب وغيرها؛ لأنَّ الخير معدوم منهم، والشرَّ متوقَّع فيهم.
[56,55] فرمایا ﴿ اِنَّ ﴾ بے شک وہ لوگ جن میں یہ تین خصلتیں جمع ہیں ...، یعنی کفر، عدم ایمان اور خیانت... خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ جو عہد کرتے ہیں ، اس پر ثابت قدمی نہیں دکھاتے اور جو بات کرتے ہیں ، اس پر پکے نہیں رہتے ﴿ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’سب جان داروں میں بدتر ہیں اللہ کے ہاں ‘‘ پس وہ گدھوں اور کتوں اور دیگر چوپایوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ ان کے اندر بھلائی معدوم ہے اور برائی متوقع ہے۔
#
{57} فإذْهابُ هؤلاء ومحقُهم هو المتعيِّن؛ لئلاَّ يسري داؤهم لغيرهم، ولهذا قال: {فإمَّا تَثْقَفَنَّهُم في الحربِ}؛ أي: تجدنَّهم في حال المحاربة؛ بحيث لا يكون لهم عهدٌ وميثاقٌ. {فشَرِّدْ بهم مَنْ خلفَهم}؛ أي: نكِّل بهم غيرهم، وأوقِعْ بهم من العقوبة ما يصيرون عبرةً لمن بعدهم، {لعلَّهم}؛ أي: من خلفهم [يتقون] صنيعهم؛ لئلاَّ يصيبهم ما أصابهم. وهذه من فوائد العقوبات والحدود المرتَّبة على المعاصي أنها سببٌ لازدجار من لم يعمل المعاصي بل وزجراً لمن عملها أن لا يعاوِدَها. ودل تقييدُ هذه العقوبة في الحرب أنَّ الكافر ولو كان كثير الخيانة سريع الغدر؛ أنه إذا أُعْطِيَ عهداً؛ لا يجوز خيانته وعقوبته.
[57] لہذا ان کو ختم کرنا اور ہلاک کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی بیماری دوسروں میں نہ پھیلے، اسی لیے فرمایا۔ ﴿ فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ ﴾ ’’پس جب تم ان کو حالت جنگ میں پاؤ‘‘ جبکہ تمھارے اور ان کے درمیان عہد و میثاق نہ ہو۔ ﴿ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ ﴾ ’’تو ان کو ایسی سزا دو کہ دیکھ کر بھاگ جائیں ان کے پچھلے‘‘ یعنی ان کے ذریعے سے دوسروں کو سبق سکھا دیں اور ان کو ایسی سزا دیں کہ وہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان بن جائیں ۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ ﴾ ’’شاید کہ وہ‘‘ یعنی بعد میں آنے والے ﴿ یَذَّكَّـرُوْنَ﴾ ’’نصیحت پکڑیں ۔‘‘ ان کے کرتوتوں سے نصیحت پکڑیں تاکہ ان پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ یہ سزاؤں اور حدود کے فوائد ہیں جو گناہوں پر مترتب ہوتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے زجر و توبیخ کا سبب ہیں ، جنھوں نے گناہ نہیں کیے بلکہ ان کے لیے بھی جنھوں نے گناہ کا ارتکاب کیا تاکہ وہ گناہ کا اعادہ نہ کریں ۔ اس عقوبت کے لیے حالت جنگ کی قید لگانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کافر.... اگرچہ بہت زیادہ خیانت کا ارتکاب کرنے والا بد عہد ہو.... جب اس سے معاہدۂ امن کر لیا جائے تو اس عہد میں خیانت کرنا اور اسے عقوبت دینا جائز نہیں ۔
آیت: 58 #
{وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (58)}.
اور اگر آپ ڈریں کسی قوم کی بد عہدی سے تو پھینک دیں ان کی طرف (ان کا عہد) اوپر برابری کے، بے شک اللہ نہیں پسند کرتا بدعہدی کرنے والوں کو(58)
#
{58} أي: وإذا كان بينك وبين قوم عهدٌ وميثاقٌ على ترك القتال، فخفتَ منهم خيانةً؛ بأن ظهر من قرائن أحوالهم ما يدلُّ على خيانتهم من غير تصريح منهم بالخيانة. {فانبِذْ إليهم}: عهدَهم؛ أي: ارمه عليهم، وأخبرهم أنَّه لا عهدَ بينك وبينهم {على سواءٍ}؛ أي: حتى يستوي علمُك وعلمُهم بذلك، ولا يحلُّ لك أن تغدرهم أو تسعى في شيء مما مَنَعَهُ موجبُ العهدِ حتى تخبرهم بذلك. {إنَّ الله لا يُحِبُّ الخائنين}: بل يُبْغِضُهم أشدَّ البغض؛ فلا بدَّ من أمرٍ بيِّنٍ يبرئكم من الخيانة. ودلَّت الآية على أنه إذا وجدت الخيانة [المحققة] منهم؛ لم يحتج أن ينبذ إليهم عهدَهم؛ لأنَّه لم يخفَ منهم، بل عُلِمَ ذلك، ولعدم الفائدة، ولقوله: {على سواءٍ}، وهنا قد كان معلوماً عند الجميع غدرُكم. ودلَّ مفهومُها أيضاً أنه إذا لم يخفْ منهم خيانةً؛ بأنْ لم يوجدْ منهم ما يدلُّ على ذلك؛ أنَّه لا يجوز نبذ العهد إليهم، بل يجب الوفاء [به] إلى أن تتمَّ مدتُه.
[58] یعنی جب آپe کے اور کسی قوم کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد اور میثاق ہو اور آپ کو اس قوم کی طرف سے خیانت اور بدعہدی کا خدشہ ہو یعنی ان کی طرف سے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کے بغیر، ایسے قرائن و احوال ہوں جو عہد میں ان کی خیانت پر دلالت کرتے ہوں ﴿ فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’تو انھی کی طرف پھینک دیں ۔‘‘ ان کا عہد، یعنی ان کی طرف پھینک دیں اور ان کو اطلاع دے دیں کہ آپ کے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ﴿عَلٰى سَوَآءٍ﴾ ’’تاکہ تم اور وہ برابر ہو جاؤ‘‘ یعنی معاہدہ ٹوٹنے کے بارے میں آپe کا علم اور ان کا علم مساوی ہو، آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ ان کے ساتھ بدعہدی کریں یا کوئی ایسی کوشش کریں کہ موجبات عہد اس سے مانع ہو، جب تک کہ آپ ان کو اس کے بارے میں آگاہ نہ کر دیں ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىِٕنِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتا ہے۔ اس لیے معاملے کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے جو تمھیں خیانت سے بری کر دے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب ان کی خیانت متحقق ہو جائے تو ان کی طرف معاہدہ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی طرف سے کوئی اخفا نہیں رہا بلکہ ان کی بد عہدی معلوم ہو چکی ہے علاوہ ازیں اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں اور نیز اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ عَلٰى سَوَآءٍ﴾ ’’برابر‘‘ اور یہاں ان کی بد عہدی سب کو معلوم ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر ان کی طرف سے کسی خیانت کا خدشہ نہ ہو یعنی ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہ پائی جاتی ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتی ہو تو عہد کو ان کی طرف پھینکنا جائز نہیں بلکہ اس معاہدے کو مدت مقررہ تک پورا کرنا واجب ہے۔
آیت: 59 #
{وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ (59)}.
اور نہ گمان کریں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کہ وہ بچ نکلے، بے شک وہ نہیں عاجز کر سکتے (اللہ کو) (59)
#
{59} أي: لا يحسب الكافرون بربِّهم المكذِّبون بآياته أنهم سبقوا الله وفاتوه؛ فإنهم لا يعجزونه، والله لهم بالمرصاد، وله تعالى الحكمة البالغة في إمهالهم وعدم معاجلتهم بالعقوبة، التي من جملتها ابتلاء عباده المؤمنين وامتحانُهم وتزوُّدهم من طاعته ومراضيه ما يصلون به إلى المنازل العالية واتصافُهم بأخلاق وصفات لم يكونوا بغيره بالغيها؛ فلهذا قال لعباده المؤمنين:
[59] یعنی اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے اور اس کی آیات کو جھٹلانے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بازی لے گئے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گھات میں ہے اور کفار کو مہلت دینے اور ان کو سزا دینے میں عجلت نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پنہاں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کی آزمائش، ان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رضا کو زاد راہ بنانا جس کے ذریعے سے وہ مقامات بلند پر پہنچتے ہیں اور ان کا اپنے آپ کو ان اخلاق و اوصاف سے متصف کرنا جن کے بغیر وہ اس منزل پر نہیں پہنچ سکتے تھے .... سب اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہی کا حصہ ہے۔
آیت: 60 #
{وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (60)}.
اور تیاری کرو ان (کافروں) کے لیے ، جتنی استطاعت رکھو تم، قوت کی اور (تیار) بندھے ہوئے گھوڑے (فراہم کرنے) کی، خوف زدہ کردو گے تم اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور دوسروں کو ان کے علاوہ، نہیں جانتے تم ان کو، اللہ ہی جانتا ہے ان کواور جو بھی خرچ کرو گے تم کوئی چیز اللہ کی راہ میں، پورا دیا جائے گا تمھیں (اس کا اجر) اور تم نہیں ظلم کیے جاؤ گے (60)
#
{60} أي: {وأعدُّوا}: لأعدائكم الكفار الساعين في هلاككم وإبطال دينكم، {ما استطعتُم من قوَّةٍ}؛ أي: كل ما تقدرون عليه من القوَّة العقليَّة والبدنيَّة وأنواع الأسلحة ونحو ذلك مما يعين على قتالهم، فدخل في ذلك أنواع الصناعات التي تُعمل فيها أصنافُ الأسلحة والآلات من المدافع والرشاشات والبنادق والطيارات الجويَّة والمراكب البريَّة والبحريَّة [والحصون] والقلاع والخنادق وآلات الدفاع والرأي والسياسة التي بها يتقدَّم المسلمون ويندفعُ عنهم به شرُّ أعدائهم وتعلُّم الرمي والشجاعة والتدبير، ولهذا قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «ألا إنَّ القوَّة الرمي». ومن ذلك الاستعداد بالمراكب المحتاج إليها عند القتال، ولهذا قال تعالى: {ومِن رِباط الخيل تُرهِبونَ به عدوَّ الله وعدوَّكم}: وهذه العلة موجودةٌ فيها في ذلك الزمان، وهي إرهاب الأعداء. والحكمُ يدور مع علَّته؛ فإذا كان موجوداً شيء أكثر إرهاباً منها ـ كالسيارات البريَّة والهوائيَّة المعدَّة للقتال التي تكون النكاية فيها أشد؛ كانت مأموراً بالاستعداد بها والسعي لتحصيلها، حتى إنها إذا لم توجد إلا بتعلُّم الصناعة؛ وجب ذلك؛ لأنَّ ما لا يتمُّ الواجب إلا به فهو واجب. وقوله: {تُرْهِبونَ به عدوَّ اللهِ وعدوَّكم}: ممن تعلمون أنهم أعداؤكم، {وآخرين مِن دونهم لا تعلمونَهم}: ممَّن سيقاتلونكم بعد هذا الوقت الذي يخاطبهم الله به، {الله يعلمُهم}: فلذلك أمرهم بالاستعداد لهم. ومن أعظم ما يُعين على قتالهم بذلُ النفقات المالية في جهاد الكفار، ولهذا قال تعالى مرغباً في ذلك: {وما تنفقوا من شيءٍ في سبيل الله}: قليلاً كان أو كثيراً، {يوفَّ إليكم}: أجره يوم القيامة مضاعفاً أضعافاً كثيرة، حتى إن النفقة في سبيل الله تضاعف إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة، {وأنتم لا تُظلمون}؛ أي: لا تُنْقَصون من أجرها وثوابها شيئاً.
[60] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے فرمایا: ﴿وَاَعِدُّوْا ﴾ ’’اور تیار کرو تم‘‘یعنی اپنے کفار دشمنوں کے لیے تیار کرو جو تمھیں ہلاک کرنے اور تمھارے دین کے ابطال کے درپے رہتے ہیں ۔ ﴿ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُ٘وَّ٘ةٍ ﴾ ’’اپنی طاقت بھر قوت۔‘‘ یعنی قوت عقلیہ، قوت بدنیہ اور مختلف انواع کا اسلحہ، جو دشمن کے خلاف جنگ میں تمھاری مدد کرے۔ کفار کے خلاف اس تیاری میں وہ تمام صنعتیں آجاتی ہیں جن سے اسلحہ اور آلات حرب بنائے جاتے ہیں ، مثلاً: توپیں ، مشین گنیں ، بندوقیں ، جنگی طیارے، بری اور بحری سواریاں ، دفاعی قلعہ بندیاں ، مورچے اور دیگر دفاعی آلات حرب وغیرہ۔ نیز حکمت عملی اور سیاست کاری میں مہارت پیدا کرنا، جس کے ذریعے سے وہ آگے بڑھ سکیں اور دشمن کے شر سے اپنا دفاع کر سکیں ۔ نشانہ بازی، شجاعت اور جنگی منصوبہ سازی کی تعلیم حاصل کرنا۔ اسی لیے نبی اکرمe نے فرمایا: (اَلاَ اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ) ’’سن لو، قوت سے مراد تیر اندازی ہے‘‘(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمي… الخ، حدیث: 1917) کیونکہ عہد رسالت میں تیراندازی، جنگ کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ نیز ان گاڑیوں کی تیاری، جو جنگ میں ونقل و حرکت میں کام آتی ہیں ، جنگی استعداد میں شمار ہوتی ہیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَّمِنْ رِّبَ٘اطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّؔكُمْ ﴾ ’’اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر، کہ اس سے دھاک بٹھاؤ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر‘‘ اس حکم کی علت، اس زمانے میں بھی موجود ہے اور وہ ہے دشمنوں کو مرعوب رکھنا۔ حکم کا دارومدار علت پر ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں ایسے آلات اور سامان حرب موجود ہوں جن کے ذریعے سے دشمن کو مذکورہ چیزوں سے زیادہ خوف زدہ رکھا جا سکتا ہو...، یعنی گاڑیاں اور ہوائی طیارے جو جنگ میں کام آتے ہیں اور جن کی ضرب بھی کاری ہے.... تو ان کو حاصل کر کے ان کے ذریعے سے جنگی استعداد بڑھانا فرض ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس سامان حرب کو صنعت کی تعلیم حاصل کیے بغیر، حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تعلیم حاصل کرنا بھی فرض ہو گا کیونکہ فقہی قاعدہ ہے (مَالَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلَّا بِہٖ فَھُوَ وَاجِبٌ) ’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّؔكُمْ ﴾ میں ’’تمھارے دشمن‘‘ سے مراد وہ ہیں جن کے بارے میں تم جانتے ہو کہ وہ تمھارے دشمن ہیں ۔ ﴿ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ١ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ۠﴾ ’’اور دوسروں پر ان کے سوا، جن کو تم نہیں جانتے‘‘ یعنی جن کے بارے میں تمھیں معلوم نہیں جو اس وقت کے بعد، جب اللہ تم سے مخاطب ہے، تمھارے ساتھ لڑائی کریں گے۔ ﴿ اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ ﴾ ’’اللہ ان کو جانتا ہے‘‘ پس اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ دشمن کے خلاف جنگ میں جو چیز سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ ہے کفار کے خلاف جہاد میں مال خرچ کرنا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں ‘‘ خواہ یہ قلیل ہو یا کثیر ﴿ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ ﴾ ’’وہ پورا پورا تمھیں دیا جائے گا‘‘ یعنی قیامت کے روز اس کا اجر کئی گنا کر کے ادا کیا جائے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کا ثواب سات سو گنا سے لے کر اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دیا جائے گا۔ ﴿ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾ ’’اور تمھاری حق تلفی نہ ہوگی‘‘ یعنی تمھارے لیے اس کے اجر و ثواب میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔
آیت: 61 - 64 #
{وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (61) وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (62) وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (63) يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (64)}.
او ر اگر جھکیں وہ واسطے صلح کے تو جھک جائیں آپ بھی اس کے لیے اور بھروسہ کیجیے اللہ پر، بے شک وہی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے(61) اور اگر ارادہ کریں وہ یہ کہ دھوکہ دیں آپ کو تو بے شک کافی ہے آپ کو اللہ، وہی ہے جس نے تائید کی آ پ کی اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے(62) اور الفت ڈال دی اس نے درمیان ان کے دلوں کے، اگر خرچ کر دیتے آپ جو کچھ زمین میں ہے سارا، نہیں الفت ڈال سکتے تھے آپ درمیان ان کے دلوں کے لیکن اللہ ہی نے الفت ڈال دی درمیان ان کے بے شک وہ زبردست، حکمت والا ہے(63) اے نبی! کافی ہے آپ کو اللہ اور وہ جنھوں نے پیروی کی آپ كی مومنوں میں سے(64)
#
{61} يقول تعالى {وإن جنحوا}؛ أي: الكفار المحاربون؛ أي: مالوا إلى السَّلْم؛ أي: الصلح وترك القتال، {فاجنحْ لها وتوكَّلْ على الله}؛ أي: أجبهم إلى ما طلبوا متوكلاً على ربِّك؛ فإنَّ في ذلك فوائد كثيرةً: منها: أن طلب العافية مطلوبٌ كلَّ وقت؛ فإذا كانوا هم المبتدئين في ذلك؛ كان أولى لإجابتهم. ومنها: أن في ذلك إجماماً لِقُواكم واستعداداً منكم لقتالهم في وقت آخر إن احتيج إلى ذلك. ومنها: أنَّكم إذا أصلحتُم وأمن بعضكم بعضاً وتمكَّن كلٌّ من معرفة ما عليه الآخر؛ فإن الإسلام يعلو ولا يُعلى عليه؛ فكلُّ مَن له عقلٌ وبصيرة إذا كان معه إنصافٌ؛ فلا بدَّ أن يؤثره على غيره من الأديان؛ لحسنه في أوامره ونواهيه، وحسنه في معاملته للخلق والعدل فيهم. وأنه لا جور فيه ولا ظلم بوجه؛ فحينئذ يكثر الراغبون فيه والمتَّبعون له، فصار هذا السلم عوناً للمسلمين على الكافرين.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِنْ جَنَحُوْا ﴾ ’’اگر وہ مائل ہوں ۔‘‘ یعنی جنگ کرنے والے کفار: ﴿ لِلسَّلْمِ ﴾ ’’صلح کی طرف۔‘‘ یعنی صلح اور ترک قتال کی طرف ﴿ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’تو آپ بھی اس (صلح) کی طرف مائل ہو جائیں اور اللہ پر بھروسہ کریں ‘‘ یعنی جو چیز وہ طلب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو دے دو۔ کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں ، مثلاً : (۱) ہر وقت طلب عافیت مطلوب ہے اور اگر وہ طلب عافیت میں ابتدا کرتے ہیں تو اس کا مثبت جواب دینا اولیٰ ہے۔ (۲) اس سے تمھاری قوتیں جمع ہوں گی اور کسی دوسرے وقت اگر ان کے خلاف جنگ ناگزیر ہو جائے تو تمھاری یہ جنگی استعداد تمھارے کام آئے گی۔ (۳) اگر تم نے صلح کر لی اور ایک دوسرے سے مامون ہوگئے اور ایک دوسرے کے اطوار کی معرفت حاصل کر لی۔ تو اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غالب آتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ پس ہر وہ شخص جو عقل و بصیرت سے بہرہ ور ہے اگر وہ انصاف سے کام لیتا ہے تو وہ اسلام کو، اس کے اوامر و نواہی کی خوبی، مخلوق کے ساتھ اس کے حسن معاملہ اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کی بنا پر دوسرے ادیان پر ترجیح دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی ظلم و جور نہیں اور کثرت سے لوگ اس کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔ تب یہ صلح کفار کے خلاف مسلمانوں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
#
{62 ـ 63} ولا يُخاف من السلم إلا خَصْلة واحدة، وهي أن يكون الكفار قصدهم بذلك خَدْع المسلمين وانتهاز الفرصة فيهم، فأخبرهم الله أنَّه حسبُهم وكافيهم خداعهم، وأنَّ ذلك يعود عليهم ضرره، فقال: {وإن يريدوا أن يَخْدَعوك فإنَّ حسبَك الله}؛ أي: كافيك ما يؤذيك، وهو القائم بمصالحك ومهمَّاتك؛ فقد سبق لك من كفايته لك ونصره ما يطمئنُّ به قلبك، فَلَهُوَ {الذي أيَّدك بنصره وبالمؤمنين}؛ أي: أعانك بمعونة سماويَّة، وهو النصر منه الذي لا يقاومه شيء، ومعونة بالمؤمنين بأن قيَّضهم لنصرك، {وألَّف بين قلوبهم}: فاجتمعوا، وائتلفوا، وازدادت قوَّتهم بسبب اجتماعهم، ولم يكن هذا بسعي أحدٍ، ولا بقوَّة غير قوَّة الله، فلو {أنفقت ما في الأرض جميعاً}: من ذهبٍ وفضة وغيرهما لتأليفهم بعد تلك النفرة والفرقة الشديدة، {ما ألَّفْتَ بين قلوبهم}: لأنه لا يقدر على تقليب القلوب إلا الله تعالى. {ولكنَّ الله ألَّف بينهم إنَّه عزيزٌ حكيمٌ}: ومن عزَّته أن ألَّف بين قلوبهم وجمعها بعد الفرقة؛ كما قال تعالى: {واذكُروا نعمة الله عليكم إذ كنتُم أعداءً فألَّفَ بين قلوبِكُم فأصبحتُم بنعمتِهِ إخواناً وكنتُم على شفا حُفْرَةٍ من النار فأنقذكم منها}.
[63,62] اس صلح میں صرف ایک بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں کفار کا مقصد مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اس کے ذریعے سے صرف وقت اور مہلت حاصل کرنا نہ ہو .... اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ کفار کے مکر و فریب کے مقابلے میں ان کے لیے کافی ہے اور اس مکر و فریب کا ضرر انھی کی طرف لوٹے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کو اللہ کافی ہے‘‘ یعنی آپ کو جو ایذا پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہے وہی ہے جو آپ کے مصالح اور امور ضروریہ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور کفایت اس سے پہلے بھی تھی جس پر آپ کا قلب مطمئن تھا۔ ﴿هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد سے اور مومنوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔‘‘ یعنی وہی ہے جس نے آسمانی مدد کے ذریعے سے آپ کی اعانت فرمائی اور یہ اس کی طرف سے ایسی مدد ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی نیز اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمانا یہ ہے کہ ان کو آپ کی مدد پر مقرر فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِهِمْ﴾ ’’اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا‘‘ پس وہ اکٹھے ہوگئے اور اس سبب سے، ان کی قوت میں اضافہ ہوگیا۔ یہ سب کچھ اللہ کی طاقت کے سوا کسی اور کی کوشش اور طاقت کے سبب سے نہ تھا۔ ﴿ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ﴾ ’’اگر آپ خرچ کر دیتے جو کچھ زمین میں ہے سارا‘‘ اس شدید نفرت اور افتراق کے ہوتے ہوئے جو ان میں پایا جاتا تھا اگر آپ زمین کا تمام سونا، چاندی وغیرہ ان کے دلوں کو جوڑنے کے لیے خرچ کر دیتے۔ ﴿ مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’پھر بھی آپ ان کے دلوں کو کبھی جوڑ نہ سکتے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی دلوں کو بدلنے پر قادر نہیں ۔ ﴿ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ﴾ ’’لیکن اللہ نے الفت ڈال دی ان میں ، بے شک وہ غالب ہے حکمت والا‘‘ یہ اس کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں الفت ڈال دی اور ان کے افتراق اور تفرقہ کے بعد ان کو اکٹھا اور متحد کر دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءًؔ فَاَلَّفَ بَیْنَ قُ٘لُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَؔكُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْؔقَذَكُمْ مِّنْهَا﴾ (آل عمران: 3؍103) ’’اور اللہ کی نعمت کو، جو تم پر ہوئی یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، پس اللہ نے تمھیں اس سے بچا لیا۔‘‘
#
{64} ثم قال تعالى: {يا أيها النبيُّ حسبك الله}؛ أي: كافيك، {ومن اتَّبعك من المؤمنين}؛ أي: وكافي أتباعك من المؤمنين. وهذا وعدٌ من الله لعباده المؤمنين المتَّبعين لرسوله بالكفاية والنصرة على الأعداء؛ فإذا أتوا بالسبب الذي هو الإيمان والاتباع؛ فلا بدَّ أن يكفِيَهم ما أهمَّهم من أمور الدين والدنيا، وإنما تتخلَّف الكفاية بتخلُّف شرطها.
[64] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ ﴾ ’’اے نبی اللہ آپ کو کافی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ ﴿ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور آپ کے متبعین اہل ایمان کے لیے (بھی) کافی ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے، جو اس کے رسول کے اطاعت گزار ہیں ، کافی ہونے کا اور ان کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت کا وعدہ ہے۔ جب انھوں نے ایمان اور اتباع رسول کے سبب کو اختیار کیا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دین و دنیا کی پریشانیوں سے ان کے لیے کافی ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ کی کفایت تو صرف اپنی شرط کے معدوم ہونے پر معدوم ہوتی ہے۔
آیت: 65 - 66 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ (65) الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (66)}.
اے نبی! ابھاریے مومنوں کو اوپر لڑائی کے، اگر ہوں گے تم میں سے بیس صبر کرنے والے تو غالب آئیں گے وہ دو سوپر۔ اوراگر ہوں گے تم میں سے ایک سو تو غالب آئیں گے وہ ہزار پر، ان میں سے جنھوں نے کفر کیا، اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے(65) اب تخفیف کردی اللہ نے تم سے اور جان لیا اس نے کہ تمھارے اندر کمزوری ہے۔ پس اگر ہوں گے تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے تو غالب آئیں گے وہ دو سوپراوراگر ہوں گے تم میں سے ایک ہزار تو غالب آئیں گے وہ دو ہزار پر، اللہ کے حکم سےاور اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے(66)
#
{65} يقول تعالى لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: {يا أيُّها النبيُّ حرِّض المؤمنين على القتال}؛ أي: حُثَّهم ونهِّضْهم إليه بكل ما يقوِّي عزائمهم وينشط هممهم؛ من الترغيب في الجهاد ومقارعة الأعداء، والترهيب من ضدِّ ذلك، وذكر فضائل الشجاعة والصبر، وما يترتَّب على ذلك من خير الدنيا والآخرة، وذكر مضارِّ الجبن، وأنه من الأخلاق الرذيلة المنقصة للدين والمروءة، وأن الشجاعة بالمؤمنين أولى من غيرهم، {إن تكونوا تألَمونَ فإنَّهم يألَمونَ كما تألَمونَ وترجونَ من الله ما لا يرجون}. {إن يكن منكم}: أيها المؤمنون، {عشرون صابرون يغلبوا مائتين وإن يكن منكُم مائةٌ يغلبوا ألفاً من الذين كفروا}: يكون الواحد بنسبة عشرة من الكفار، وذلك بأنَّ الكفار {قومٌ لا يفقهون}؛ أي: لا علم عندهم بما أعدَّ الله للمجاهدين في سبيله؛ فهم يقاتلون لأجل العلوِّ في الأرض والفساد فيها، وأنتم تفقهون المقصود من القتال أنَّه لإعلاء كلمة الله، وإظهار دينه، والذبِّ عن كتاب الله وحصول الفوز الأكبر عند الله، وهذه كلُّها دواعٍ للشجاعة والصبر والإقدام على القتال.
[65] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَى الْقِتَالِ﴾ ’’اے نبی! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو۔‘‘ یعنی آپ انھیں ہر اس طریقے کے ذریعے سے قتال پر آمادہ کریں جس سے ان کے عزائم مضبوط ہوں اور ان کے ارادوں میں نشاط پیدا ہو، یعنی جہاد اور دشمن سے مقابلے کی ترغیب دی جائے اور جہاد سے باز رہنے کے انجام سے ڈرایا جائے۔ شجاعت اور صبر کے فضائل اور ان پرمرتب ہونے والی دین و دنیا کی بھلائی کا ذکر کیا جائے۔ بزدلی کے نقصانات بیان کیے جائیں اور یہ واضح کیا جائے کہ بزدلی ایک انتہائی رذیل اور ناقص خصلت ہے اور شجاعت کا اہل ایمان کی صفت ہونا دوسروں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ﴾ (النساء: 4؍104) ’’اگر تمھیں تکلیف پہنچتی ہے تو انھیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمھیں پہنچتی ہے تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘﴿ اِنْ یَّؔكُنْ مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’اے مومنو! اگر ہوں تم میں سے‘‘ ﴿ عِشْ٘رُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ١ۚ وَاِنْ یَّؔكُنْ مِّؔنْكُمْ مِّؔائَةٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں گے وہ دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں گے ہزار کافروں پر‘‘ یعنی ایک مومن دس کافروں کا مقابلہ کرے گا اور اس کا سبب یہ ہے ﴿ بِاَنَّهُمْ ﴾ ’’کہ وہ‘‘ یعنی کفار ﴿ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ ﴾ ’’ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘ یعنی انھیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لیے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ پس یہ کفار زمین میں اقتدار، تغلب اور اس میں فساد پھیلانے کے لیے لڑتے ہیں اور تم (اے مسلمانو)! اس جنگ کا مقصد سمجھتے ہو کہ یہ جنگ اعلائے کلمۃ اللہ، دین کے غلبہ، کتاب اللہ کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی کامیابی کے حصول کے لیے ہے اور یہ تمام امور شجاعت ، صبر و ثبات اور اقدام علی القتال کے اسباب ہیں ۔
#
{66} ثُمَّ إن هذا الحكم خففه الله على العباد، فقال: {الآن خفَّف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفاً}: فلذلك اقتضت رحمته وحكمته التخفيف. {فإن يكن منكم مائةٌ صابرةٌ يغلبوا مائتين وإن يكن منكم ألفٌ يغلبوا ألفين بإذن الله والله مع الصابرين}: بعونه وتأييده. وهذه الآيات صورتها صورة الإخبار عن المؤمنين بأنهم إذا بلغوا هذا المقدار المعيَّن يغلبون ذلك المقدار المعيَّن، في مقابلته من الكفار، وأن الله يمتنُّ عليهم بما جعل فيهم من الشجاعة الإيمانية، ولكنَّ معناها وحقيقتها الأمر، وأنَّ الله أمر المؤمنين في أول الأمر أن الواحد لا يجوز له أن يفرَّ من العشرة والعشرة من المائة والمائة من الألف، ثم إنَّ الله خفَّف ذلك، فصار لا يجوز فرار المسلمين من مثليهم من الكفار؛ فإن زادوا على مثليهم؛ جاز لهم الفرار. ولكن يرِدُ على هذا أمران: أحدهما: أنها بصورة الخبر، والأصل في الخبر أن يكون على بابه، وأنَّ المقصود بذلك الامتنان والإخبار بالواقع. والثاني: تقييدُ ذلك العدد أن يكونوا صابرين؛ بأن يكونوا متدرِّبين على الصبر، ومفهوم هذا أنَّهم إذا لم يكونوا صابرين؛ فإنه يجوز لهم الفرار، ولو أقل من مثليهم، إذا غَلَبَ على ظنِّهم الضرر؛ كما تقتضيه الحكمة الإلهية. ويجاب عن الأول بأنَّ قوله: {الآن خفَّف الله عنكم ... } إلى آخرها: دليلٌ على أن هذا الأمر لازمٌ وأمر محتَّم، ثم إن الله خفَّفه إلى ذلك العدد؛ فهذا ظاهرٌ في أنه أمر، وإن كان في صيغة الخبر، وقد يقال: إن في إتيانه بلفظ الخبر نكتةٌ بديعة لا توجد فيه إذا كان بلفظ الأمر، وهي تقوية قلوب المؤمنين، والبشارة بأنهم سيغلبون الكافرين. ويجاب عن الثاني: أن المقصود بتقييد ذلك بالصابرين أنه حثٌّ على الصبر، وأنه ينبغي منكم أن تفعلوا الأسباب الموجبة لذلك؛ فإذا فعلوها؛ صارت الأسباب الإيمانيَّة والأسباب الماديَّة مبشِّرة بحصول ما أخبر الله به من النصر لهذا العدد القليل.
[66] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اس حکم میں تخفیف کر دی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَ٘لْ٘ـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا﴾ ’’اب بوجھ ہلکا کر دیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔‘‘اسی لیے اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کر دی جائے، چنانچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ ﴿وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے۔ مگر اس کا معنی اور حقیقی منشا امر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں ) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافروں اور سو مومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں ۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے۔ مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں ۔ (۱) یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ (۲) اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے یعنی انھوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لیے فرار جائز ہے خواہ کافر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَ٘لْ٘ـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ ﴾ سے لے کر ﴿ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ تک... اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرایہ اگرچہ خبر کا ہے مگر اس سے مراد امر ہے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا.... اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لیے تقویت اور بشارت ہے کہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے یعنی تمھارے لیے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں ۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے... یعنی اہل ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔
آیت: 67 - 69 #
{مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (67) لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (68) فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (69)}.
نہیں لائق کسی نبی کے کہ ہوں اس کے پاس قیدی(اور وہ انھیں قتل نہ کرے) یہاں تک کہ وہ خوب خوں ریزی کرلے زمین میں، ارادہ کرتے ہوتم سامان دنیا کااوراللہ ارادہ کرتا ہے آخرت کااوراللہ زبردست، حکمت والا ہے(67) اگر نہ ہوتی (ایک بات) لکھی ہوئی اللہ کی طرف سے پہلے ہی تو پہنچتا تم کو اس (کے بدلے) میں جو لیا تم نے، عذاب بڑا(68) پس کھاؤ تم اس سے جو لیا تم نے غنیمت کا مال، حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے(69)
#
{67} هذه معاتبة من الله لرسوله وللمؤمنين يوم بدر إذ أسروا المشركين وأبقوهم لأجل الفداء، وكان رأي أمير المؤمنين عمر بن الخطاب في هذه الحال قتلَهم واستئصالهم، فقال تعالى: {ما كان لنبيٍّ أن يكونَ له أسرى حتَّى يُثْخِنَ في الأرض}؛ أي: ما ينبغي ولا يليق به إذا قاتل الكفار الذين يريدون أن يطفئوا نور الله، ويسعَوْن لإخماد دينه وأن لا يبقى على وجه الأرض مَن يعبدُ الله أن يتسرَّع إلى أسرهم وإبقائهم لأجل الفداء الذي يحصُلُ منهم، وهو عَرَضٌ قليلٌ بالنسبة إلى المصلحة المقتضية لإبادتهم وإبطال شرِّهم؛ فما دام لهم شرٌّ وصولةٌ؛ فالأوفق أن لا يؤسروا؛ فإذا أُثخنوا، وبَطَلَ شرُّهم، واضمحلَّ أمرُهم؛ فحينئذٍ لا بأس بأخذ الأسرى منهم وإبقائهم. يقول تعالى: {تريدون}: بأخذكم الفداء وإبقائهم {عَرَضَ الحياة الدُّنيا}؛ أي: لا لمصلحة تعودُ إلى دينكم. {والله يريدُ الآخرة}: بإعزاز دينه ونصر أوليائه وجعل كلمتهم عاليةً فوق غيرهم، فيأمركم بما يوصل إلى ذلك. {والله عزيزٌ حكيمٌ}؛ أي: كامل العزة، لو شاء أن ينتصر من الكفار من دون قتال؛ لفعلَ، ولكنه حكيمٌ يبتلي بعضكم ببعض.
[67] یہ غزوہ بدر کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولe اور اہل ایمان پر عتاب ہے جب انھوں نے مشرکین کو جنگی قیدی بنایا اور ان سے معاوضہ لینے کے لیے اپنے پاس رکھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابt کی رائے یہ تھی کہ ان سے مالی معاوضہ لینے کی بجائے، ان کو قتل کر کے ان کی جڑ کاٹ دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْ٘خِنَ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’نبی کے شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں یہاں تک کہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں کثرت سے خون نہ بہادے۔‘‘ یعنی نبی کے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ جب وہ کفار کے ساتھ جنگ کرے جو اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھانا اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو .... تو محض فدیہ کی خاطر (کفار کو قتل کرنے کی بجائے) قیدی بنانا شروع کر دے۔ یہ فدیہ اس مصلحت کی نسبت سے بہت حقیر ہے جو ان کے قلع قمع اور ان کے شر کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے جب تک ان میں شر اور حملہ کرنے کی قوت موجود ہے اس وقت تک بہتر یہی ہے کہ ان کو (قتل کرنے کی بجائے) جنگی قیدی نہ بنایا جائے۔ جب خونریزی کے بعد کفار کا قلع قمع اور مشرکین کے شر کا سدباب ہو جائے اور ان کا معاملہ کمزور پڑ جائے تب ان کو (میدان جنگ میں ) قیدی بنانے اور ان کی جان بخشی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ تُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’تم چاہتے ہو‘‘ یعنی تم ان کی جان بخشی کر کے اور اس کے عوض فدیہ لے کر ﴿ عَرَضَ الدُّنْیَا ﴾ ’’دنیاوی مال و متاع لینا‘‘یعنی تم کسی ایسی مصلحت کی خاطر ان کی جان بخشی نہیں کر رہے جو دین کی طرف راجع ہو۔ ﴿ وَاللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ دین کو عزت سے نواز کر، اپنے اولیاء کی مدد کر کے اور دیگر قوموں پر انھیں غلبہ بخش کر تمھارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے پس وہ تمھیں انھی امور کا حکم دیتا ہے جو اس منزل مراد پر پہنچاتے ہیں ۔ ﴿وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کامل غلبے کا مالک ہے اگر وہ کسی لڑائی کے بغیر کفار پر فتح دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ مگر وہ حکمت والا ہے وہ تمھیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے۔
#
{68} {لولا كتابٌ من الله سَبَقَ}: به القضاء والقدر؛ أنَّه قد أحلَّ لكم الغنائم، وأنَّ الله رفع عنكم أيُّها الأمة العذاب، {لمسَّكم فيما أخذتم عذابٌ عظيمٌ}. وفي الحديث: «لو نزل عذابٌ يوم بدر؛ ما نجا منه إلا عمر».
[68] ﴿ لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ ﴾ ’’اگر اللہ کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر مقرر نہ ہو چکی ہوتی اور تمھارے لیے غنائم کو حلال نہ کر دیا گیا ہوتا اور اے امت مسلمہ ... تم سے عذاب کو نہ اٹھا لیا گیا ہوتا ﴿ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’تو تم نے جو فدیہ حاصل کیا ہے اس کی پاداش میں تمھیں عذاب عظیم آلیتا‘‘ اور حدیث میں آتا ہے ’’اگر بدر کے روز (قیدیوں کے فدیہ کے معاملے میں ) عذاب نازل ہوتا تو عمر(t) کے سوا کوئی نہ بچتا۔ (تفسیر الدر المنثور: 3؍366)
#
{69} {فكلوا مما غنمتُم حلالاً طيِّباً}: وهذا من لطفه تعالى بهذه الأمة أن أحلَّ لها الغنائم ولم تحلَّ لأمة قبلها، {واتَّقوا الله}: في جميع أموركم، ولازموها شكراً لنعم الله عليكم. {إنَّ الله غفورٌ}: يغفر لمن تاب إليه جميع الذنوب، ويغفر لمن لم يشركْ به شيئاً جميع المعاصي، {رحيمٌ}: بكم حيث أباح لكم الغنائم وجعلها حلالاً طيباً.
[69] ﴿ فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰ٘لًا طَیِّبًا﴾ ’’پس کھاؤ تم جو تم کو غنیمت میں ملا، حلال پاکیزہ‘‘ یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس کے لیے غنائم کو حلال کر دیا حالانکہ اس سے قبل کسی امت پر غنائم کو حلال نہیں کیا گیا تھا۔ ﴿ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌؔ ﴾ ’’بے شک اللہ بخشنے والا ہے۔‘‘ جو کوئی توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے اور جس نے شرک نہیں کیا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش دے گا۔ (اگر چاہے گا) ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے کہ اس نے تم پر مال غنیمت کو مباح کیا اور اس کو تمھارے لیے حلال اور پاک قرار دیا۔
آیت: 70 - 71 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِمَنْ فِي أَيْدِيكُمْ مِنَ الْأَسْرَى إِنْ يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِمَّا أُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (70) وَإِنْ يُرِيدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (71)}.
اے نبی! کہہ دیجیے! ان سے جو تمھارے ہاتھوں میں(گرفتار) قیدی ہیں، اگر جانے گا اللہ تمھارے دلوں میں بھلائی تو دے گا وہ تمھیں زیادہ بہتر اس سے جو (فدیے میں) لیا گیا تم سے اور بخش دے گا تمھیں اوراللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے(70) اور اگر ارادہ کریں وہ آپ سے خیانت کا تو تحقیق وہ خیانت کرچکے ہیں اللہ سے اس سے پہلے تو قدرت دی اللہ نے (آپ کو) ان پراور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے(71)
#
{70} وهذه نزلت في أسارى يوم بدر ، وكان من جملتهم العباس عمُّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فلما طلب منه الفداء؛ ادَّعى أنه مسلم قبل ذلك، فلم يسقِطوا عنه الفداء، فأنزل الله تعالى جبراً لخاطره ومَنْ كان على مثل حالِهِ: {يا أيُّها النبيُّ قلْ لِمَن في أيديكم من الأسرى إن يعلم اللهُ في قلوبكم خيراً يؤتِكُم خيراً ممَّا أُخِذَ منكم}؛ أي: من المال، بأن ييسِّر لكم من فضله خيراً كثيراً مما أخذ منكم، {ويَغْفِرْ لكم}: ذنوبكم ويدخلكم الجنة. {والله غفورٌ رحيمٌ}: وقد أنجز الله وعده للعباس وغيره، فحصل له بعد ذلك من المال شيءٌ كثيرٌ، حتى إنه مرَّة لما قدم على النبي - صلى الله عليه وسلم - مال كثير؛ أتاه العباس، فأمره أن يأخذ منه بثوبه ما يطيق حملَه، فأخذ منه ما كاد أن يعجزَ عن حمله.
[70] یہ آیت کریمہ اسیران بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان قیدیوں میں رسول اللہe کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ جب رہائی کے عوض ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے عرض کیا کہ انھوں نے اس سے قبل اسلام قبول کیا ہوا تھا۔ مگر مسلمانوں نے ان سے فدیہ کو ساقط نہ کیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور ان لوگوں کی دل جوئی کی خاطر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جو اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں ۔ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُ٘لْ لِّ٘مَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُ٘لُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّؔمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ ﴾ ’’اے نبی ان سے کہہ دو! جو تمھارے ہاتھوں میں قیدی ہیں ، اگر اللہ تمھارے دلوں میں کچھ نیکی جانے گا تو تمھیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے‘‘ یعنی جو مال تم سے لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے بدلے خیر کثیر عطا کرے گا۔ ﴿ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ﴾ ’’اور (اللہ تعالیٰ) تمھارے گناہ بخش دے گا‘‘ اور تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عباسt سے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اس کے بعد انھیں بہت زیادہ مال حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ ایک مرتبہ رسول اللہe کے پاس بہت زیادہ مال آیا، حضرت عباسt آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے کپڑے میں جتنا مال اٹھا سکتے ہیں لے لیں ۔ انھوں نے اتنا مال لیا کہ ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔
#
{71} {وإن يريدوا خيانَتَكَ}: في السعي لحربك ومنابذتك، {فقد خانوا الله من قبلُ فأمْكَنَ منهم}: فليحذَروا خيانتك؛ فإنه تعالى قادرٌ عليهم، وهم تحت قبضته. {والله عليمٌ حكيمٌ}؛ أي: عليم بكل شيء، حكيم يضع الأشياء مواضعها، ومن علمه وحكمته أن شَرَعَ لكم هذه الأحكام الجليلة الجميلة، وقد تكفَّل بكفايتكم شأنَ الأسرى وشرَّهم إن أرادوا خيانةً.
[71] ﴿ وَاِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَكَ ﴾ ’’اور اگر یہ لوگ آپ سے دغا کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ یعنی اگر وہ آپe کے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کر کے خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں ﴿ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ ﴾ ’’تو وہ خیانت کر چکے ہیں اللہ کی اس سے پہلے، پس اس نے ان کو پکڑوا دیا‘‘ پس وہ آپ کے ساتھ خیانت کرنے سے بچیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر اختیار رکھتا ہے اور وہ اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ اور یعنی اللہ تعالیٰ علیم ہے، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے، وہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھتا ہے۔ یہ اس کا علم و حکمت ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے نہایت خوبصورت اور جلیل القدر احکام وضع فرمائے اور کفار کے شر اور ان کی خیانت کے ارادے کے مقابلے میں تمھاری کفایت کا ذمہ لیا۔
آیت: 72 #
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا {وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (72)}.
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اورانھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا ساتھ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ جنھوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور مدد کی، یہی لوگ ہیں کہ بعض ان کے حمایتی ہیں بعض کےاور وہ جو ایمان لائے اور نہیں ہجرت کی انھوں نے، نہیں ہے تمھارے لیے ان کی حمایت سے کچھ بھی، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں۔ اوراگر وہ مدد طلب کریں تم سے دین(کے کام) میں تو تم پر واجب ہے مدد کرنا مگر مقابلے میں اس قوم کے کہ تمھارے درمیان اوران کے درمیان کوئی عہد ہواور اللہ ان کو جو تم عمل کرتے ہودیکھنے والا ہے(72)
#
{72} هذا عقدُ موالاة ومحبَّة عقدها الله بين المهاجرين الذين آمنوا وهاجروا في سبيل الله وتركوا أوطانهم لله لأجل الجهاد في سبيل الله وبين الأنصار الذين آوَوْا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه وأعانوهم في ديارهم وأموالهم وأنفسهم؛ فهؤلاء بعضُهم أولياءُ بعض؛ لكمال إيمانهم وتمام اتِّصال بعضهم ببعض. {والذين آمنوا ولم يهاجروا ما لكم من ولايتهم من شيء حتى يهاجروا} فإنَّهم قطعوا ولايتكم بانفصالهم عنكم في وقت شدَّة الحاجة إلى الرجال، فلمَّا لم يهاجروا؛ لم يكن لهم من ولاية المؤمنين شيءٌ، لكنَّهم {إن استنصروكم في الدين}؛ أي: لأجل قتال من قاتلهم؛ [لأجل دينهم] {فعليكُمُ النصرُ}: والقتال معهم، وأما من قاتلوهم لغير ذلك من المقاصد؛ فليس عليكم نصرهم. وقوله تعالى: {إلَّا على قوم بينكم وبينَهم ميثاقٌ}؛ أي: عهدٌ بترك القتال؛ فإنهم إذا أراد المؤمنون المتميِّزون الذين لم يهاجروا قتالهم؛ فلا تعينوهم عليهم؛ لأجل ما بينَكم وبينَهم من الميثاق. {والله بما تعملونَ بصيرٌ}: يعلمُ ما أنتم عليه من الأحوال، فيشرعُ لكم من الأحكام ما يَليقُ بكم.
[72] یہ موالات اور محبت کا رشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے درمیان.....جو ایمان لائے، جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا .... اور انصار کے درمیان قائم کیا، جنھوں نے رسول اللہe اور آپ کے اصحاب کرامy کو پناہ دی، اپنے گھر، مال اور خود ان کی ذات کے بارے میں ان کی مدد کی۔ یہ سب لوگ، اپنے کامل ایمان اور ایک دوسرے کے ساتھ مکمل اتصال کی بنا پر ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا﴾ ’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی، تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں ، جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں ‘‘ کیونکہ انھوں نے تم سے علیحدہ ہو کر تمھاری ولایت و دوستی کا رشتہ ایسے وقت میں منقطع کر لیا جبکہ تمھیں مردوں کی مدد کی سخت ضرورت تھی اور چونکہ انھوں نے ہجرت نہیں کی اس لیے مومنین کی طرف سے ان کی کوئی دوستی نہیں ۔ البتہ ﴿ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْؔكُمْ فِی الدِّیْنِ﴾ ’’اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں ۔‘‘ یعنی اگر کوئی قوم ان کے خلاف لڑائی کرے اور یہ اس لڑائی میں تم سے مدد مانگیں ﴿فَعَلَیْكُمُ النَّ٘صْرُ ﴾’’تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔‘‘ یعنی تم پر ان کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمن کے خلاف لڑنا واجب ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے لڑتے ہیں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب نہیں ۔ ﴿ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭؔ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّؔیْثَاقٌ ﴾ ’’مگر ان لوگوں کے مقابلہ میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہوچکا ہے (مدد نہیں کرنی چاہیے) ۔ ‘‘ یعنی جن کے ساتھ تمھارا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے اور وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی اگر ان کے ساتھ لڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو ان کے خلاف ان مومنوں کی مدد نہ کرو کیونکہ تمھارے اور ان کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’اور اللہ تمھارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ یعنی وہ تمھارے احوال اور رویے کو جانتا ہے، اس لیے اس نے تمھارے لیے ایسے احکام مشروع کیے ہیں جو تمھارے احوال کے لائق ہیں ۔
آیت: 73 #
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (73)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، بعض ان کے حمایتی ہیں بعض کے۔ اگر (مسلمانو!) نہ کرو گے تم ایسا(باہم حمایت) تو ہوگا فتنہ زمین میں اور فساد بڑا(73)
#
{73} لما عقد الولاية بين المؤمنين؛ أخبر أن الكفار حيث جمعهم الكفر فبعضُهم أولياء بعض ؛ فلا يواليهم إلاَّ كافر مثلهم، وقوله: {إلَّا تفعلوه}؛ أي: موالاة المؤمنين ومعاداة الكافرين؛ بأن والَيْتموهم كلَّهم أو عاديتموهم كلَّهم أو واليتم الكافرين وعاديتم المؤمنين، {تكن فتنةٌ في الأرض وفسادٌ كبيرٌ}: فإنه يحصُلُ بذلك من الشرِّ ما لا ينحصر من اختلاط الحقِّ بالباطل والمؤمن بالكافر وعدم كثير من العبادات الكبار كالجهاد والهجرة وغير ذلك من مقاصد الشرع والدين التي تفوت إذا لم يُتَّخذ المؤمنون وحدهم أولياء بعضهم لبعض.
[73] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے درمیان موالات کا رشتہ قائم کر دیا تو اس نے آگاہ فرمایا کہ چونکہ کفار کو ان کے کفر نے اکٹھا کر دیا ہے اس لیے وہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں اور ان جیسے کفار کے سوا ان کا کوئی ولی اور دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِلَّا تَفْعَلُوْهُ ﴾ ’’تو (مومنو) اگر تم (بھی) یہ (کام) نہ کرو گے۔‘‘ یعنی اگر تم مومنوں کے ساتھ موالات اور کفار کے ساتھ عداوت کے اصول پر عمل نہیں کرو گے یعنی تم اہل ایمان کی حمایت اور کفار سے دشمنی نہیں کرو گے یا تم کفار کی حمایت کرو گے اور اہل ایمان سے دشمنی رکھو گے ﴿ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِیْرٌ ﴾ ’’تو ملک میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔‘‘ یعنی حق و باطل اور مومن و کافر کے اختلاط سے ایک ایسی برائی جنم لے گی جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور بہت سی بڑی بڑی عبادات ، مثلاً: جہاد اور ہجرت وغیرہ معدوم ہو جائیں گی۔ جب اہل ایمان صرف اہل ایمان ہی کو اپنا دوست اور حمایتی نہیں بنائیں گے تو شریعت اور دین کے اس قسم کے مقاصد فوت ہو جائیں گے۔
آیت: 74 - 75 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ {حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (74) وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (75)}.
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا انھوں نے اللہ کی راہ میں اور (اسی طرح) وہ لوگ جنھوں نے (مہاجرین کو) جگہ دی اور مدد کی(ان کی) یہی ہیں مومن سچے، انھی کے لیے ہے مغفرت اور روزی باعزت(74) اور وہ لوگ جو ایمان لائے بعد میں اور ہجرت کی انھوں نے اور جہاد کیا تمھارے ساتھ (مل کر)، پس یہ لوگ تم ہی میں سے ہیں اور رشتے دار بعض ان میں سے زیادہ حق دار ہیں ساتھ بعض کے اللہ کی کتاب میں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے(75)
گزشتہ آیات میں مہاجرین و انصار کے رشتہ موالات کا تذکرہ تھا اور ان آیات میں ان کی مدح اور ثواب کا ذکر ہے، چنانچہ فرمایا:
#
{74} فقال: {والذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله والذين آوَوْا ونصروا أولئك هم المؤمنون }: من المهاجرين والأنصار؛ هم: المؤمنون {حقًّا}؛ لأنهم صدَّقوا إيمانهم بما قاموا به من الهجرة والنصرة والموالاة بعضهم لبعض وجهادهم لأعدائهم من الكفار والمنافقين. {لهم مغفرة}: من الله تُمحى بها سيئاتهم وتضمحلُّ بها زلاَّتُهم. {و} لهم {رزقٌ كريمٌ}؛ أي: خير كثير من الربِّ الكريم في جنات النعيم، وربما حصل لهم من الثواب المعجَّل ما تَقَرُّ به أعينهم، وتطمئنُّ به قلوبهم.
[74] ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْۤا ﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنھوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور ان کی مدد کی۔‘‘ یعنی مہاجرین و انصار ﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ﴾ یعنی وہی سچے مومن ہیں کیونکہ انھوں نے ہجرت، نصرت دین، ایک دوسرے کے ساتھ موالات اور اپنے دشمنوں کفار و منافقین کے ساتھ جہاد کر کے اپنے ایمان کی تصدیق کی ہے۔ ﴿ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ’’ان کے لیے مغفرت ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ جس سے ان کی برائیاں محو ہو جائیں گی اور ان کی لغزشیں ختم ہو جائیں گی ﴿ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور عزت کی روزی۔‘‘ یعنی ان کے لیے ان کے رب کی طرف سے نعمتوں بھری جنتوں میں خیر کثیر ہے۔ بسا اوقات اس دنیا ہی میں انھیں بہت جلد ثواب عطا کر دیا جاتا ہے جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور دل مطمئن ہوتے ہیں ۔
#
{75} وكذلك مَن جاء بعد هؤلاء المهاجرين والأنصار ممَّن اتَّبعهم بإحسان فآمن وهاجر وجاهد في سبيل الله. {فأولئك منكم}: لهم ما لكم وعليهم ما عليكم؛ فهذه الموالاة الإيمانية، وقد كانت في أول الإسلام لها وقع كبيرٌ وشأنٌ عظيم، حتى إنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - آخى بين المهاجرين والأنصار أخوَّة خاصَّة غير الأخوة الإيمانية العامة، وحتى كانوا يتوارثون بها، فأنزل الله: {وأولو الأرحام بعضُهم أولى ببعض في كتاب الله} فلا يرثه إلا أقاربه من العصبات وأصحاب الفروض فإن لم يكونوا؛ فأقرب قراباته من ذوي الأرحام كما دلَّ عليه عموم الآية الكريمة، وقوله: {في كتاب الله}؛ أي: في حكمه وشرعه. {إنَّ الله بكلِّ شيء عليمٌ}: ومنه ما يعلمه من أحوالكم التي يجري من شرائعه الدينية عليكم ما يناسبها.
[75] اسی طرح جو لوگ ان مہاجرین و انصار کے بعد آئیں ، نیکیوں میں ان کی اتباع کریں ، ایمان لائیں ، ہجرت کریں اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں ﴿فَاُولٰٓىِٕكَ مِنْكُمْ ﴾ ’’پس وہ لوگ تم ہی میں سے ہیں ‘‘ ان کے وہی حقوق ہیں جو تمھارے حقوق ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمھارے ذمے ہیں ۔ ایمان پر مبنی یہ موالات اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی ... اس کی بہت بڑی وقعت اور عظیم شان ہے۔ حتی کہ نبی مصطفیe نے مہاجرین و انصار کے درمیان جو اخوت قائم کی تھی، وہ خاص اخوت تھی۔ جو اخوت عامہ و ایمانیہ کے علاوہ ہے، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی۔ ﴿ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُ٘هُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ﴾ ’’اور رشتے دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں ایک دوسرے کے، اللہ کے حکم میں ‘‘ اس لیے میت کی وراثت صرف انھی لوگوں کو ملے گی جو اصحاب الفروض ہیں یا وہ میت کا عصبہ ہیں ۔ اگر میت کا عصبہ اور اصحاب الفروض موجود نہ ہوں تو ذوالارحام میں سے وہ لوگ وارث بنیں گے جو رشتہ میں میت کے سب سے زیادہ قریب ہیں جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ ﴿ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی کتاب میں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی کتاب میں ۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ اس کے احاطہ علم میں تمھارے احوال بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مناسبت سے تم پر دینی اور شرعی احکام جاری کرتا ہے۔