آیت:
تفسیر سورۂ مطففین
تفسیر سورۂ مطففین
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ (1) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (2) وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ (3) أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ (4) لِيَوْمٍ عَظِيمٍ (5) يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (6)}.
ہلاکت ہے (ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کے لیے(1) وہ لوگ کہ جب وہ ناپ کر لیتے ہیں لوگوں سے تو پورا لیتے ہیں(2) اور جب وہ ناپ کر دیتے ہیں انھیں یا تول کر دیتے ہیں ان کو تو کم دیتے ہیں(3)کیا نہیں یقین رکھتے یہ لوگ کہ بلاشبہ وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے؟(4) اس یوم عظیم کے لیے(5) جس دن کھڑے ہوں گے لوگ سامنے رب العالمین کے(6)
#
{1 ـ 6} {ويلٌ}: كلمة عذابٍ وعقابٍ ، {للمطفِّفين}: وفسر الله المطفِّفين بأنهم {الذين إذا اكتالوا على الناس}؛ أي: أخذوا منهم وفاءً لهم عمَّا قِبَلَهم ، يستوفونه كاملاً من غير نقصٍ، {وإذا كالوهم أو وَزَنوهم}؛ أي: إذا أعطوا الناس حقَّهم الذي لهم عليهم بكيل أو وزن، {يُخْسِرونَ}؛ أي: ينقصِونَهم ذلك إمَّا بمكيال وميزان ناقصين، أو بعدم ملء المِكْيال والميزان، أو بغير ذلك؛ فهذا سرقةٌ لأموال الناس وعدمُ إنصاف لهم منهم. وإذا كان هذا وعيداً على الذين يَبْخَسونَ الناس بالمكيال والميزان؛ فالذي يأخذ أموالهم قهراً وسرقةً أولى بهذا الوعيد من المطفِّفين. ودلَّت الآية الكريمة على أنَّ الإنسان كما يأخذ من الناس الذي له يجب [عليه] أن يعطِيَهم كلَّ ما لهم من الأموال والمعاملات، بل يدخُلُ في عموم هذا الحجج والمقالات؛ فإنَّه كما أنَّ المتناظرين قد جرت العادة أنَّ كل واحدٍ منهما يحرص على ماله من الحجج؛ فيجب عليه أيضاً أن يبيِّن ما لخصمه من الحجَّة التي لا يعلمها، وأن ينظر في أدلَّة خصمه كما ينظر في أدلَّته هو، وفي هذا الموضع يُعْرَفُ إنصاف الإنسان من تعصُّبه واعتسافه وتواضُعُه من كِبْره وعقلُهُ من سَفَهِهِ، نسأل الله التوفيق لكلِّ خير. ثم توعَّد تعالى المطفِّفين، وتعجَّب من حالهم وإقامتهم على ما هم عليه، فقال: {ألا يظنُّ أولئك أنَّهم مبعوثونَ ليومٍ عظيمٍ. يومَ يقومُ الناسُ لربِّ العالمينَ}: فالذي جرَّأهم على التَّطفيف عدمُ إيمانهم باليوم الآخر؛ وإلاَّ؛ فلو آمنوا به وعرفوا أنهم سيقومون بين يدي الله فيحاسبهم على القليل والكثير؛ لأقلعوا عن ذلك وتابوا منه.
[6-1] ﴿وَیْلٌ﴾ ’’ہلاکت ہے۔‘‘ یہ عذاب اور عقاب کا کلمہ ہے ﴿لِّلْمُطَفِّفِیْنَ﴾ ’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اَلْمُطَفِّفِینَ کی تفسیر بیان فرمائی کہ ﴿الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ ﴾یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں، تو ان سے کسی کمی کے بغیر پورا لیتے ہیں ﴿ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ ﴾ اور جب لوگوں کو ان کا حق عطا کرتے ہیں، جو کسی ناپ تول کی صورت میں ان کے ذمہ ہوتا ہے۔ ﴿ یُخْسِرُوْنَ﴾ تو اس میں کمی کرتے ہیں یا تو ناپ کے ناقص پیمانے اور تولنے کی ناقص ترازو کے ذریعے سے یا ناپ تول کے پیمانے کو پوری طرح نہ بھرتے ہوئے کمی کرتے ہیں، یا اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے کمی کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کے اموال کی چوری اور ان کے ساتھ بے انصافی ہے۔جب ان لوگوں کے لیے یہ وعید ہے جو ناپ تول کے ذریعے سے لوگوں کے اموال میں کمی کرتے ہیں تو وہ لوگ اس وعید کے، ناپ تول میں کمی کرنے والوں سے زیادہ مستحق ہیں، جو جبراً لوگوں سے مال چھینتے ہیں یا چوری کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انسان جس طرح لوگوں سے اپنا حق وصول کرتا ہے اسی طرح اس پر فرض ہے کہ وہ اموال و معاملات میں لوگوں کے حقوق ادا کرے، بلکہ اس کے عموم میں دلائل و مقالات بھی شامل ہیں، کیونکہ جیسے آپس میں مناظرہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی دلیل بیان کرنے کا حریص ہوتا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اس دلیل کو بھی بیان کرے جو اس کے مخالف کے علم میں نہیں ہوتی، نیز وہ اپنے مخالف کے دلائل پر بھی اسی طرح غور کرے جس طرح وہ اپنے دلائل پر غور کرتا ہے۔ اس مقام پر انسان کے انصاف اور اس کے تعصب و ظلم، اس کی تواضع اور تکبر، اس کی عقل اور سفاہت کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ہم اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی بھلائی کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی اور ان کے حال اور ان کے اپنے اس طرز عمل پر قائم رہنے پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلَا یَظُ٘نُّ اُولٰٓىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُ٘وْنَۙ۰۰ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ۰۰یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’کیا انھیں اپنے مرنے کے بعد عظیم دن کے لیے جی اُٹھنے کا خیال نہیں؟ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھرے ہوں گے۔‘‘ پس جس چیز نے ان کے اندر کم ناپنے تولنے کی جرأت پیدا کی ہے، وہ ہے آخرت پر ان کا عدم ایمان، ورنہ اگر وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتے اور انھیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی کہ وہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور وہ ان کے اعمال پر، کم ہوں یا زیادہ، ان کا محاسبہ کرے گا ، تو وہ اس کام سے رک جاتے اور اس سے توبہ کر لیتے۔
آیت: 7 - 17 #
{كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (7) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (9) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (10) الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (11) وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (12) إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (13) كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (14) كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ (15) ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ (16) ثُمَّ يُقَالُ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (17)}.
یقیناً بلاشبہ نامہ ٔ اعمال فاجروں کا سجین میں ہے(7) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کہ کیا ہے سجین؟(8) ایک کتاب ہے لکھی ہوئی(9) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (10) وہ جو جھٹلاتے ہیں یوم جزا کو (11) اور نہیں جھٹلاتا اسے مگر ہر وہ شخص کہ وہ حدسے گزرنے والا گنہگار (12) جب تلاوت کی جاتی ہیں اس پر ہماری آیتیں تو وہ کہتا ہے، (یہ)کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی (13) ہرگز نہیں!بلکہ زنگ لگا دیا ہے ان کے دلوں پر اس نے جو تھے وہ کماتے (14) یقیناً! بلاشبہ وہ (کافر) اپنے رب (کے دیدار) سے اس دن اوٹ میں رکھے جائیں گے (15) پھر بلاشبہ وہ داخل ہوں گے جہنم میں (16) پھر کہا جائے گا یہ ہے وہ جو تھے تم اس کو جھٹلاتے (17)
#
{7 ـ 9} يقول تعالى: {كلاَّ إنَّ كتاب الفجَّارِ}: وهذا شاملٌ لكلِّ فاجرٍ من أنواع الكفرة والمنافقين والفاسقين، {لفي سِجِّينٍ}. ثم فسَّر ذلك بقوله: {وما أدراكَ ما سِجِّينٌ. كتابٌ مرقومٌ}؛ أي: كتاب مذكور فيه أعمالهم الخبيثة. والسِّجِّينُ: المحلُّ الضيِّق الضَّنك، وسِجِّين ضدّ علِّيين، الذي هو محلُّ كتاب الأبرار كما سيأتي. وقد قيل: إنَّ سجِّين هو أسفل الأرض السابعة مأوى الفجَّار ومستقرُّهم في معادهم.
[9-7] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ﴾ ’’ہرگز نہیں! بدکاروں کے اعمال‘‘ یہ آیت کریمہ کفار، منافقین اور فاسقین کے مختلف انواع کے تمام فاجروں کو شامل ہے ﴿ لَ٘فِیْ سِجِّیْنٍ﴾ ’’سِجِّین میں ہیں۔‘‘ پھر اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر فرمائی ﴿ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّیْنٌؕ۰۰ كِتٰبٌ مَّرْقُ٘وْمٌ﴾ ’’تجھے کس چیز نے بتایا کہ سجین کیا ہے۔ لکھی ہوئی کتاب ہے‘‘ یعنی وہ کتاب جس میں ان کے اعمال خبیثہ مذکور ہیں۔ اَلسِّجِّینُ سے مراد تنگ جگہ ہے اور سِجِّین ، عِلِّیِّین کی ضد ہے جو کہ ابرار کی کتاب کا محل و مقام ہے، جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں آئے گا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سَجِّین ساتویں زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے جو کہ معاد میں فجار کا مستقر اور ٹھکانا ہے۔
#
{10 ـ 13} {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}. ثم بيَّنهم بقوله: {الذين يكذِّبون بيوم الدِّين}؛ أي: يوم الجزاء، يوم يدين الله الناس فيه بأعمالهم. {وما يكذِّبُ به إلاَّ كلُّ معتدٍ}: على محارم الله متعدٍّ من الحلال إلى الحرام. {أثيمٍ}؛ أي: كثير الإثم؛ فهذا يحمله عدوانه على التكذيب، ويوجب له كبره ردَّ الحقِّ ، ولهذا {إذا تُتْلى عليه} آيات الله الدالَّة على الحقِّ وعلى صدق ما جاءت به الرسل؛ كذَّبها وعاندها وقال: هذه {أساطيرُ الأوَّلين}؛ أي: من ترَّهات المتقدِّمين وأخبار الأمم الغابرين، ليس من عند الله؛ تكبُّراً وعناداً.
[13-10] ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی ہے۔‘‘پھر مُکَذِّبِین کو اس طرح واضح فرمایا ﴿ الَّذِیْنَ یُكَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ﴾ جو یوم جزا کو جھٹلاتے ہیں، جس دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ ﴿ وَمَا یُكَذِّبُ بِهٖۤ اِلَّا كُ٘لُّ مُعْتَدٍ ﴾ ’’اسے صرف وہی جھٹلا تا ہے جو حد سے نکل جاتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم میں تجاوز کرنے والا ، حلال کی حدود کو پھلانگ کر حرام میں داخل ہونے والا۔ ﴿ اَثِیْمٍ ﴾ بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ۔اس کا ظلم اور سرکشی اسے تکذیب پر آمادہ کرتی ہے اور اس کے لیے تکبر اور حق کو رد کرنے کا موجب بنتی ہے۔اس لیے فرمایا: ﴿ اِذَا تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا ﴾ ’’جب اس کوہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں۔‘‘ جو حق پر اور اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جس کو رسول لے کر آئے ہیں تو گناہوں کا ارتکاب کرنے والے نے ان آیات کو جھٹلایا اور ان سے عناد رکھا اور ﴿ قَالَ ﴾ کہنے لگا یہ تو ﴿ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ ‘‘ یعنی وہ تکبر اور عناد کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ تو متقدمین کے جھوٹے قصے اور گزری ہوئی قوموں کی خبریں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں۔
#
{14 ـ 17} وأمَّا مَن أنصف وكان مقصودُه الحقَّ المبين؛ فإنَّه لا يكذِّب بيوم الدين؛ لأنَّ الله قد أقام عليه من الأدلَّة القاطعة والبراهين [الساطعة] ما يجعله حقَّ اليقين ، وصار لبصائرهم بمنزلة الشمس للأبصار؛ بخلاف مَنْ ران على قلبه كسبُه وغطَّتْه معاصيه؛ فإنَّه محجوبٌ عن الحقِّ، ولهذا جوزي على ذلك بأن حُجِبَ عن الله كما حُجِبَ قلبُه [في الدنيا] عن آيات الله. {ثم إنَّهم}: مع هذه العقوبة البليغة، {لصالو الجحيم. ثم يقالُ}: لهم توبيخاً وتقريعاً: {هذا الذي كنتُم به تكذِّبونَ}: فذكر لهم ثلاثة أنواع من العذاب: عذاب الجحيم، وعذاب التوبيخ واللوم، وعذاب الحجاب عن ربِّ العالمين، المتضمِّن لسخطه وغضبه عليهم، وهو أعظم عليهم من عذاب النار. ودلَّ مفهومُ الآية على أنَّ المؤمنين يرون ربَّهم يوم القيامة، وفي الجنة، ويتلذَّذون بالنَّظر إليه أعظم من سائر اللَّذَّات ويبتهجون بخطابه ويفرحون بقربه؛ كما ذكر الله ذلك في عدَّة آيات من القرآن، وتواتر فيه النقل عن رسول الله. وفي هذه الآيات التَّحذير من الذُّنوب؛ فإنَّها ترين على القلب وتغطِّيه شيئاً فشيئاً، حتى ينطمسَ نورُه وتموتَ بصيرتُه، فتنقلب عليه الحقائق، فيرى الباطل حقًّا والحقَّ باطلاً. وهذا من أعظم عقوبات الذُّنوب.
[17-14] رہا وہ شخص جو انصاف پسند ہے اور اس کا مقصود بھی واضح حق ہے، تو وہ قیامت کے دن کو نہیں جھٹلا سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر قطعی دلائل اور براہین قائم کیے ہیں جنھوں نے اسے حق الیقین بنا دیا ہے، ان کے دلوں کی بصیرت کے لیے یہ وہی حیثیت اختیار کر گیا جو ان کی آنکھوں کے لیے سورج کی ہے۔ اس کے برعکس جس کے دل کو اس کے کسب نے زنگ آلود کر دیا اور اس کے گناہوں نے اس کو ڈھانپ لیا، وہ حق سے محجوب ہے۔ بنابریں اس کو یہ جزا دی گئی کہ جس طرح اس کا دل آیات الٰہی سے محجوب ہے، اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب رہے گا۔ ﴿ ثُمَّ اِنَّهُمْ ﴾ پھر اس انتہائی عقوبت کے بعد وہ لوگ یقیناً ﴿ لَصَالُوا الْؔجَحِیْمِ﴾ جہنم میں جھونکے جائیں گے ، پھر زجر و توبیخ کے طور پر ان سے کہا جائے گا: ﴿ هٰؔذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ﴾ یہی ہے وہ چیز جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب کی تین انواع کا ذکر کیا ہے:(۱)جہنم کا عذاب (۲) زجر و توبیخ اور ملامت کا عذاب (۳)اور رب کائنات سے محجوب ہونے کا عذاب، جو ان پر اس کی ناراضی اور غضب کو متضمن ہے اور یہ ان کے لیے جہنم کے عذاب سے بڑھ کر ہو گا۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اہل ایمان قیامت کے روز جنت میں اپنے رب کا دیدار کریں گے، وہ تمام لذات سے بڑھ کر اس دیدار سے لذت حاصل کریں گے۔ اس کے ساتھ ہم کلامی سے خوش ہوں گے اور اس کے قرب سے فرحت حاصل کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں اس کا ذکر کیا ہے اور رسول اللہe سے بھی نہایت تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ ان آیات میں گناہوں سے تحذیر ہے۔ کیونکہ ان کا اثر دل پر ہوتا ہے اوروہ آہستہ آہستہ اسے ڈھانپ لیتے ہیں حتی کہ وہ اس کے نور کو ختم کردیتے ہیں، اس کی بصیرت ختم کردیتے ہیں ، پھر انسان پر حقائق پلٹ جاتے ہیں۔ وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگتا ہے اور یہ گناہوں کی سب سے بڑی سزا ہے۔
آیت: 18 - 28 #
{كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (18) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ (21) إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (22) عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (23) تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ (24) يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (25) خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (26) وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍ (27) [عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ] (28)}.
یقیناً! بلاشبہ نامہ ٔ اعمال نیک لوگوں کا عِلِّیِّین میں ہے (18) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کہ کیا ہے عِلِّیُّون؟(19) ایک کتاب ہے لکھی ہوئی (20) حاضر ہوتے ہیں اس پر مقرب (فرشتے) (21) بلاشبہ نیک لوگ البتہ نعمت (جنت) میں ہوں گے (22) مسہریوں پر (بیٹھے) دیکھ رہے ہوں گے (23) آپ پہچانیں گے ان کے چہروں میں تازگی نعمت کی(24)وہ پلائے جائیں گے خالص شراب مہر لگی ہوئی میں سے(25)اس کی مہر کستوری کی ہو گی اور اس میں پس چاہیے رغبت کریں رغبت کرنے والے (26) اور اس کی ملاوٹ تسنیم سے ہو گی (27) یعنی ایک چشمہ ہے پئیں گے اس میں سے مقرب بندے (28)
#
{18 ـ 21} لما ذكر أنَّ كتاب الفجَّار في أسفل الأمكنة وأضيقها؛ ذكر أنَّ كتاب الأبرار في أعلاها وأوسعها وأفسحها، وأنَّ كتابهم المرقوم {يشهدُهُ المقرَّبون}: من الملائكة الكرام وأرواح الأنبياء والصِّدِّيقين والشهداء ، وينوِّه الله بذكرهم في الملأ الأعلى. وعليُّون: اسم لأعلى الجنة.
[21-18] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فجار کے اعمال نامے کا ذکر کرنے کے بعد کہ وہ سب سے نچلے اور سب سے تنگ پر مقام ہو گا، ابرار کے اعمال نامے کا ذکر کیا کہ ان کا اعمال نامہ سب سے بلند ، نہایت وسیع اور سب سے کھلے مقام پر ہو گا۔ اور ان کی لکھی ہوئی کتاب ﴿ یَّشْهَدُهُ الْ٘مُقَرَّبُوْنَ۠﴾ کا مشاہدہ مکرم فرشتے، انبیاء، صدیقین اور شہداء کی ارواح کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملأاعلیٰ میں بلند آواز سے ان کا تذکرہ کرے گا۔﴿ عِلِّيُّوْنَ﴾ جنت کے بلند ترین حصے کا نام ہے۔
#
{22 ـ 28} فلمَّا ذَكَرَ كتابَهم؛ ذَكَرَ أنَّهم في نعيم، وهو اسمٌ جامعٌ لنعيم القلب والرُّوح والبدن. {على الأرائِكِ}؛ أي: على السرر المزيَّنة بالفرش الحسان، {ينظُرونَ}: إلى ما أعدَّ الله لهم من النعيم، وينظرون إلى وجه ربِّهم الكريم، {تعرِفُ}: أيُّها الناظر ، {في وجوههم نَضْرَةَ النَّعيم}؛ أي: بهاءه ونضارته ورونقه؛ فإنَّ توالي اللَّذَّات والمسرَّات والأفراح يكسب الوجه نوراً وحسناً وبهجةً، {يُسْقَوْنَ من رحيقٍ}: وهو من أطيب ما يكون من الأشربة وألذها، {مختوم} ذلك الشرابُ {ختامُه مسكٌ}: يُحتمل أن المراد مختومٌ عن أن يداخِلَه شيءٌ يُنْقِصُ لذَّته أو يفسِدُ طعمه، وذلك الختام الذي ختم به مسكٌ، ويحتمل أنَّ المراد أنَّه الذي يكون في آخر الإناء الذي يشربون منه الرحيق حثالة، وهي المسك الأذفر؛ فهذا الكدر منه الذي جرت العادة في الدُّنيا أنه يراق يكون في الجنَّة بهذه المثابة. {وفي ذلك}: النعيم المقيم الذي لا يعلم حسنه ومقداره إلاَّ الله، {فَلْيَتَنافَسِ المتنافسونَ}؛ أي: فليتسابقوا في المبادرة إليه والأعمال الموصلة إليه؛ فهذا أولى ما بُذِلَتْ فيه نفائس الأنفاس، وأحرى ما تزاحمت للوصول إليه فحول الرجال. ومزاجُ هذا الشراب {مِنْ تَسْنيم}: وهي عين {يشربُ بها المقرَّبون}: صرفاً، وهي أعلى أشربة الجنة على الإطلاق؛ فلذلك كانت خالصةً للمقرَّبين، الذين هم أعلى الخلق منزلة، وممزوجة لأصحاب اليمين؛ أي: مخلوطة بالرحيق وغيره من الأشربة اللذيذة.
[28-22] اللہ تعالیٰ نے ان کی کتاب کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ نعمتوں میں ہوں گے اور یہ قلب کی ، روح کی اور بدن کی نعمت کے لیے جامع نام ہے۔﴿عَلَى الْاَرَآىِٕكِ﴾ یعنی نہایت خوبصورت بچھونوں سے آراستہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ﴿ یَنْظُ٘رُوْنَ﴾ ان نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں اور اپنے رب کریم کا دیدار کر رہے ہوں گے۔ ﴿ تَعْرِفُ﴾ اے دیکھنے والے تو پہچان لے گا ﴿ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ﴾ ’’ان کے چہروں پر نعمت کی خوبصورتی‘‘ اس کی تر و تازگی اور اس کی رونق، کیونکہ لذتوں، مسرتوں اور فرحتوں کا پے در پے حاصل ہونا، چہرے کو نور، خوبصورتی اور خوشی عطا کرتا ہے۔ ﴿ یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ﴾ یہ رحیق تمام شرابوں میں سب سے عمدہ اور سب سے لذیذ شراب ہے جو انھیں پلائی جائے گی ﴿ مَّخْتُوْمٍ﴾ یہ خالص شراب سربمہر ہو گی ﴿ خِتٰؔمُهٗ مِسْكٌ﴾ ’’جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد ہے کہ اس پر مہر لگی ہو گی یعنی کوئی چیز اس میں داخل ہو کر اس کی لذت کو کم اور اس کے ذائقے کو خراب نہیں کرے گی، یہ مہر جو اس پر لگی ہوئی ہو گی مشک کی مہر ہو گی۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ مشروب ہے جو آخرت میں تلچھٹ کے طور پر اس برتن میں رہ جائے گا، جس میں وہ خالص شراب پئیں گے اور یہ تلچھٹ مشک اذفر ہو گا۔ یہ تلچھٹ جس کے بارے میں دنیا میں عادت یہ ہے کہ اسے گرا دیا جاتا ہے، جنت میں اس کی یہ منزلت ہو گی۔ ﴿ وَفِیْ ذٰلِكَ﴾ یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمت میں جس کے حسن اور مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ﴿ فَلْیَتَنَافَ٘سِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾ پس مسابقت کرنے والوں کو اس نعمت تک پہنچانے والے عمل کے ذریعے سے اس کی طرف آگے بڑھنے میں مسابقت کرنی چاہیے۔ یہ اس چیز کی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس میں نفیس سے نفیس مال خرچ کیا جائے اور یہ اس چیز کی بھی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے بڑے بڑے لوگ باہم مزاحم ہوں۔ اور اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی اور یہ ایک چشمہ ہے۔ ﴿ یَّشْرَبُ بِهَا الْ٘مُقَرَّبُوْنَ۠﴾ ’’جہاں سے صرف اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہی پئیں گے۔‘‘ اور یہ علی الاطلاق جنت کی اعلیٰ ترین شراب ہے، بنابریں یہ خالص صورت میں صرف مقربین کے لیے ہو گی، جو مخلوق میں سب سے بلند مرتبہ لوگ ہیں، اصحاب الیمین کے لیے آمیزش کے ساتھ ہو گی یعنی خالص شراب وغیرہ دیگر لذیذ مشروبات کے ساتھ اس کی آمیزش ہو گی۔
آیت: 29 - 36 #
{إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (29) وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ (30) وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (31) وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ (32) وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (33) فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ (34) عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (35) هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (36)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے تھے وہ ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنستے تھے(29) اور جب وہ گزرتے تھے ان(مسلمانوں) کے پاس سے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے (30) اور جب وہ لوٹتے تھے اپنے اہل کی طرف تو لوٹتے دل لگی کرتے ہوئے (31) اور جب وہ (کافر) دیکھتے تھے، ان کو تو کہتے تھے بلاشبہ یہ لوگ گمراہ ہیں (32) حالانکہ نہیں بھیجے گئے تھے وہ ان پر نگران بنا کر (33) پس آج، وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہوں گے (34) مسہریوں پر (بیٹھے) دیکھ رہے ہوں گے (35) کیا بدلہ دے دیے گے کافر اس کا جو تھے وہ کرتے؟ (36)
#
{29 ـ 33} لما ذكر تعالى جزاء المجرمينَ وجزاء المحسنين، وذكر ما بينهما من التفاوت العظيم؛ أخبر أنَّ المجرمين كانوا في الدُّنيا يسخرون بالمؤمنين ويستهزِئون بهم و {يضحكون}: منهم، فَـ {يتغامَزون}: بهم عند مرورهم عليهم احتقاراً لهم وازدراءً، ومع هذا تراهم مطمئنِّين لا يخطُر الخوف على بالهم، {وإذا انقلبوا إلى أهِلِهم}: صباحاً أو مساءً، {انقلبوا فَكِهين}؛ أي: مسرورين مغتبطين، وهذا أشدُّ ما يكون من الاغترار؛ أنَّهم جمعوا بين غاية الإساءة مع الأمن في الدُّنيا، حتى كأنَّهم قد جاءهم كتابٌ وعهدٌ من الله أنَّهم من أهل السعادة، وقد حكموا لأنفسهم أنَّهم أهلُ الهدى، وأنَّ المؤمنين ضالُّون؛ افتراءً على الله، وتجرؤوا على القول عليه بلا علم. قال تعالى: {وما أُرْسِلوا عليهم حافظين}؛ أي: وما أرسلوا وكلاء على المؤمنين، ملزمين بحفظ أعمالهم، حتى يحرصوا على رميهم بالضَّلال، وما هذا منهم إلاَّ تعنُّتٌ وعنادٌ وتلاعبٌ ليس له مستندٌ ولا برهانٌ.
[29-33] اللہ تعالیٰ نے مجرموں کی جزا اور نیکو کاروں کی جزا کا ذکر کرنے اور ان کے درمیان جو عظیم تفاوت ہے، اس کو بیان کرنے کے بعد آگاہ فرمایا کہ یہ مجرم دنیا میں اہل ایمان کا تمسخر اڑاتے، ان کے ساتھ استہزا کرتے اور ان پر ہنستے تھے۔ جب اہل ایمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ مجرم حقارت اور عیب چینی کے ساتھ، باہم اشارے کرتے تھے ۔بایں ہمہ آپ ان کو مطمئن دیکھیں گے خوف ان کے دل میں راہ نہیں پاتا۔ ﴿ وَاِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمُ ﴾ ’’اور جب وہ اپنے گھر کو لوٹتے۔‘‘ یعنی صبح و شام ﴿ انْقَلَبُوْا فَـكِهِیْنَ﴾ تو مسرور اور خوش و خرم لوٹتے۔ یہ سب سے بڑی فریب خوردگی ہے کہ انھوں نے دنیا میں برائی کو امن کے ساتھ اکٹھا کر دیا، گویا کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب یا عہد آ گیا ہے کہ وہ اہل سعادت ہیں، انھوں نے اپنے بارے میں حکم لگایا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ لوگ ہیں اور اہل ایمان گمراہ لوگ ہیں، یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور بلا علم بات کہنے کی جسارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرْسِلُوْا عَلَیْهِمْ حٰؔفِظِیْنَ﴾ یعنی ان کو اہل ایمان پر وکیل اور ان کے اعمال کی حفاظت کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ وہ ان پر گمراہی کا بہتان لگانے کی حرص رکھیں، اور یہ ان کی طرف سے محض، عیب جوئی، عناد اور محض کھیل تماشا ہے، اس کی کوئی دلیل ہے نہ برہان۔
#
{34 ـ 36} ولهذا كان جزاؤهم في الآخرة من جنس عملهم؛ قال تعالى: {فاليوم}؛ أي: يوم القيامة، {الذين آمنوا من الكفَّارِ يضحكون}: حين يرونَهم في غَمَراتِ العذاب يتقلَّبون وقد ذهب عنهم ما كانوا يفترون، والمؤمنون في غاية الراحة والطمأنينة {على الأرائكِ}: وهي السرر المزيَّنة، {ينظُرون}: إلى ما أعدَّ الله لهم من النعيم، وينظرون إلى وجه ربِّهم الكريم. {هل ثُوِّبَ الكفارُ ما كانوا يفعلون}؛ أي: هل جوزوا من جنس عملهم؟ فكما ضحكوا في الدنيا من المؤمنين ورمَوْهم بالضلال؛ ضحك المؤمنون منهم في الآخرة، حين رأوهم في العذاب والنَّكال الذي هو عقوبةُ الغيِّ والضَّلال. نعم؛ ثُوِّبوا ما كانوا يفعلون عدلاً من الله وحكمةً. والله عليمٌ حكيمٌ.
[36-34] اس لیے آخرت میں ان کی جزا ان کے عمل کی جنس میں سے ہو گی۔ ﴿ فَالْیَوْمَ﴾ یعنی قیامت کے دن ﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُوْنَ﴾ ’’مومن کافروں سے ہنسی کریں گے۔‘‘ جب وہ ان کو عذاب کی سختیوں میں چلتے پھرتے دیکھیں گے اور وہ سب کچھ جا چکا ہو گا جو وہ بہتان طرازی کیا کرتے تھے، تب ان کی ہنسی اڑائیں گے۔ اہل ایمان انتہائی راحت و اطمینان میں ﴿ عَلَى الْاَرَآىِٕكِ﴾ آراستہ اور مزین پلنگوں پر بیٹھے ﴿ یَنْظُ٘رُوْنَ﴾ ان نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ نیز اپنے رب کریم کے چہرے کا دیدار کر رہے ہوں گے۔ ﴿ هَلْ ثُ٘وِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ کیا ان کو ان کے عمل کی جنس میں سے جزا دی گئی؟ جس طرح انھوں نے دنیا کے اندر مومنوں کی ہنسی اڑائی، ان پر گمراہی کا بہتان لگایا، آخرت میں جب مومن ان کو عذاب میں، جو ان کی گمراہی اور ضلالت کی سزا ہے، مبتلا دیکھیں گے تو وہ بھی ان کی ہنسی اڑائیں گے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی حکمت کی بنا پر کفار کو اپنے افعال کا پورا بدلہ مل گیا۔ اللہ تعالیٰ علم والا اور حکمت والا ہے۔