(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ (1) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (4) وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (5) يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ (6) فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ (7) فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (8) وَيَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُورًا (9) وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ (10) فَسَوْفَ يَدْعُو ثُبُورًا (11) وَيَصْلَى سَعِيرًا (12) إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا (13) إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ (14) بَلَى إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا (15)}.
جب آسمان پھٹ جائے گا
(1) اور وہ کان لگائے ہوئے ہے اپنے رب
(کے حکم) کے لیے اور اس کے لائق یہی ہے
(2) اور جب زمین پھیلا دی جائے گی
(3) اور وہ ڈال دے گی جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہو جائے گی
(4) اور وہ کان لگائے ہوئے ہے اپنے رب کے لیے اور اس کے لائق بھی یہی ہے
(5) اے انسان! بلاشبہ تو سخت محنت کر رہا ہے اپنے رب کی طرف خوب محنت، سو
(تو) اس کو ملنے والا ہے
(6) پس لیکن جو شخص کہ دیا گیا وہ اپنا اعمال نامہ اپنے دائیں ہاتھ میں
(7) تو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا حساب آسان
(8) اور وہ لوٹے گا اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی
(9) اور لیکن جو شخص کہ دیا گیا وہ اپنا اعمال نامہ پیچھے پیٹھ اپنی کے
(10) تو ضرور وہ پکارے گا ہلاکت کو
(11)اور داخل ہو گا وہ بھڑکتی آگ میں
(12)بلاشبہ وہ تھا
(دنیا میں) اپنے اہل
(و عیال) میں خوش
(13) بلاشبہ اس نے سمجھا تھا کہ ہرگز نہیں لوٹ کر جائے گا وہ
(اللہ کی طرف)(14)کیوں نہیں!بلاشبہ اس کا رب تھا اس کو دیکھنے والا
(15)
#
{1 ـ 2} يقول تعالى مبيِّناً لما يكون في يوم القيامة من تغيُّر الأجرام العظام: {إذا السماء انشقَّتْ}؛ أي: انفطرت وتمايز بعضها من بعض، وانتثرت نجومُها، وخسف شمسُها وقمرها، {وأذِنَتْ لربِّها}؛ أي: استمعت لأمره وألقت سمعَها وأصاخت لخطابه، أي: حُقَّ لها ذلك؛ فإنَّها مسخَّرة مدبَّرة تحت مسخِّر ملكٍ عظيمٍ لا يُعصى أمره ولا يخالَف حكمُه.
[1، 2] قیامت کے دن بڑے بڑے اجرام فلکی میں جو تغیرات آئیں گے،
اللہ تعالیٰ نے ان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ﴾ یعنی جب آسمان پھٹ جائے گا اور پھٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہو جائے گا، اس کے ستارے بکھر جائیں گے اور اس کے سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے۔
﴿وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا﴾ اور وہ اپنے رب کے حکم کو غور سے سنے گا، اس پر کان لگائے گا اور اس کے خطاب کو سنے گا اور اس پر لازم بھی یہی ہے کیونکہ وہ اس عظیم بادشاہ کے دست تسخیر کے تحت مسخر اور مدبر ہے جس کے حکم کی نافرمانی کی جا سکتی ہے نہ اس کے فیصلے کی مخالفت۔
#
{3 ـ 5} {وإذا الأرض مُدَّتْ}؛ أي: رجفت وارتجَّت ونُسِفَتْ عليها جبالُها ودُكَّ ما عليها من بناء ومعلم فسويت، ومدَّها الله مدَّ الأديم، حتى صارت واسعةً جدًّا، تسع أهل الموقف على كثرتهم، فتصير قاعاً صفصفاً، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً، {وألقتْ ما فيها}: من الأموات والكنوز، {وتخلَّتْ}: منهم؛ فإنَّه ينفخ في الصور، فتخرج الأموات من الأجداث إلى وجه الأرض، وتخرج الأرض كنوزها، حتى تكون كالإسطوان العظيم، يشاهده الخلق ويتحسَّرون على ما هم فيه يتنافسون، {وأذِنَتْ لربِّها وحُقَّتْ}.
[5-3] ﴿وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ﴾ ’’اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔‘‘ یعنی زمین کانپے گی اور ڈر جائے گی، اس کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور اس پر موجود عمارتیں اور علامتیں ڈھا دی جائیں گی اور زمین کو ہموار اور برابر کر دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ زمین کو اس طرح پھیلا دے گا جس طرح چمڑے کو پھیلایا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ بہت وسیع ہو جائے گی جس میں
(اللہ تعالیٰ کے حضور حساب کتاب کے لیے) کھڑے ہونے کے لیے لوگوں کی کثرت کے باوجود پوری گنجائش ہو گی۔ پس زمین ہموار چٹیل میدان بن جائے گی جس میں تجھے کوئی نشیب وفراز نظر نہیں آئے گا۔
﴿وَاَلْقَتْ مَا فِیْهَا﴾ ’’اور جو کچھ اس میں ہے، اسے نکال کر ڈال دے گی۔‘‘ یعنی تمام مردوں اور
(مدفون) خزانوں کو باہر نکال پھینکے گی
﴿وَتَخَلَّتْ﴾ اور ان سے خالی ہو جائے گی، کیونکہ جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مردے قبروں سے نکل کر سطح زمین پر آجائیں گے، زمین اپنے خزانوں کو نکال باہر کرے گی اور وہ ایک بہت بڑے ستون کے مانند ہوں گے جن کا مخلوق مشاہدہ کرے گی اور جس چیز کے لیے وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے، اس پر حسرت کا اظہار کریں گے۔
﴿وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْؕ۰۰﴾ ’’اور وہ اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گی اور اسی کے لائق وہ ہے۔‘‘
#
{6} {يا أيُّها الإنسانُ إنَّك كادحٌ إلى ربِّكَ كدحاً فملاقيه}؛ أي: إنك ساعٍ إلى الله وعاملٌ بأوامره ونواهيه ومتقرِّبٌ إليه إمَّا بالخير وإمَّا بالشرِّ، ثم تلاقي الله يوم القيامةِ؛ فلا تعدم منه جزاءً بالفضل أو العدل؛ بالفضل إن كنت سعيداً، وبالعقوبة إن كنت شقيًّا.
[6] ﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ﴾ ’’ اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی طرف جانے میں کوشاں ہو، اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرتے ہو، بھلائی کے ذریعے سے یا برائی کے ذریعے سے اس کے قریب ہورہے ہو ، پھر قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو گے، پس تم اس کی طرف سے فضل کے ساتھ یا عدل کے ساتھ جزا سے محروم نہیں ہو گے۔ اگر تم خوش بخت نکلے تو جزا فضل پر مبنی ہو گی اور اگر تم بدبخت نکلے تو سزا عدل پر مبنی ہو گی۔
#
{7 ـ 9} ولهذا ذكر تفصيل الجزاء، فقال: {فأمَّا مَنْ أوتي كتابه بيمينِهِ}: وهم أهل السعادة، {فسوف يحاسَبُ حساباً يسيراً}: وهو العرض اليسير على الله، فيقرِّره الله بذنوبه، حتى إذا ظنَّ العبدُ أنَّه قد هلك؛ قال الله تعالى: إنِّي قد سترتُها عليك في الدُّنيا وأنا أستُرها لك اليوم ، {وينقلبُ إلى أهله}: في الجنة {مسروراً}: لأنَّه قد نجا من العذاب وفاز بالثواب.
[9-7] اس لیے اللہ تعالیٰ نے جزا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ﴾ ’’پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔‘‘ یہ خوش بخت لوگ ہیں
﴿فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابً٘ا یَّسِیْرًا﴾ ’’تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کے حضور آسان پیشی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا، حتیٰ کہ بندہ سمجھے گا کہ وہ ہلاک ہو گیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں دنیا میں تیرے گناہوں کو چھپاتا تھا اور آج بھی تیرے گناہوں کو چھپاؤ ں گا۔
﴿وَّیَنْقَلِبُ اِلٰۤى اَهْلِهٖ٘﴾ اور وہ جنت میں اپنے گھروالوں کی طرف لوٹے گا
﴿ مَسْرُوْرًا ﴾ ’’خوش ہوکر۔‘‘ کیونکہ اس نے عذاب سے نجات حاصل کی اور ثواب سے فوز یاب ہوا۔
#
{10 ـ 15} {وأمَّا مَن أوتي كتابَه وراء ظهرِهِ}؛ أي: بشماله من وراء ظهره ، {فسوفَ يدعو ثُبوراً}: من الخزي والفضيحة، وما يجد في كتابه من الأعمال التي قدَّمها ولم يتبْ منها، {ويصلى سعيراً}؛ أي: تحيط به السعير من كلِّ جانب، ويقلَّب على عذابها، وذلك لأنَّه {كان في أهلِهِ مسروراً}: لا يخطُرُ البعث على باله، وقد أساء، ولا يظنُّ أنَّه راجعٌ إلى ربِّه وموقوفٌ بين يديه. {بلى إنَّ ربَّه كان به بصيراً}: فلا يحسُنُ أن يترُكَه سدىً لا يُؤمر ولا يُنهى ولا يُثاب ولا يُعاقب.
[15-10] ﴿وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَؔ كِتٰبَهٗ وَرَآءَؔ ظَهْرِهٖ﴾اور جس کو نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں اور اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا
﴿فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا﴾ یعنی جب وہ اپنے اعمال بد، جو اس نے
(دنیا میں آخرت کے لیے) آگے بھیجے تھے اور ان سے توبہ نہیں کی تھی، اپنے اعمال نامے میں موجود پائے گا تو رسوائی اور فضیحت سے موت کو پکارے گا
﴿وَّیَصْلٰى سَعِیْرًا﴾ ’’اور دوزخ میں داخل ہوگا۔‘‘ یعنی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اسے ہر جانب سے گھیر لے گی اور اس کے عذاب پر اسے الٹ پلٹ کرے گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا میں
﴿ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ٘ مَسْرُوْرًا﴾ ’’ اپنے گھر والوں میں مسرور رہتا تھا۔‘‘ اس کے دل میں حیات بعدالممات کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا۔ اس نے برائی کا اکتساب کیا اور اسے یقین نہ تھا کہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹنا اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔
﴿بَلٰۤى١ۛۚ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًا﴾ ’’ہاں ہاں اس کا رب اس کو دیکھ رہا تھا۔‘‘ پس یہ اچھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے بے کار چھوڑ دے، اس کو حکم دیا جائے، نہ کسی چیز سے روکا جائے اور اسے ثواب عطا کیا جائے، نہ عذاب دیا جائے۔
{فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (16) وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ (17) وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (18) لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (19) فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (20) وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ (21) بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُكَذِّبُونَ (22) وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ (23) فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (24) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (25)}.
پس قسم کھاتا ہوں میں شفق کی
(16) اور رات کی اور جو کچھ وہ جمع کرتی
(سمیٹتی) ہے
(17) اور چاند کی جب وہ پورا ہو جاتا ہے
(18) یقیناً تم ضرور سوا رہو گے
(پہنچو گے) ایک حال پر بعد دوسرے حال کے
(19) پس کیا ہے ان
(کافروں) کو کہ نہیں ایمان لاتے وہ؟
(20) اور جب پڑھا جاتا ہے ان پر قرآن تو نہیں سجدہ کرتے وہ
(21)بلکہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ جھٹلاتے ہیں
(22) اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ
(سینوں میں) محفوظ رکھتے ہیں
(23) پس خوشخبری دے دیجیے ان کو عذاب درد ناک کی
(24)مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، ان کے لیے اجر ہے نہ ختم ہونے والا
(25)
#
{16 ـ 19} أقسم في هذا الموضع بآيات الليل، فأقسم بالشَّفق؛ الذي هو بقيَّة نور الشمس الذي هو مفتتح الليل، {والليل وما وَسَقَ}؛ أي: احتوى عليه من حيواناتٍ وغيرها، {والقمرِ إذا اتَّسَقَ}؛ أي: امتلأ نوراً بإبداره، وذلك أحسن ما يكون وأكثر منافع. والمقسَم عليه قوله: {لَتَرْكَبُنَّ}؛ أي: أيُّها الناس {طبقاً}: بعد {طبقٍ}؛ أي: أطواراً متعدِّدة وأحوالاً متباينة من النُّطفة إلى العلقة إلى المضغة إلى نفخ الرُّوح، ثم يكون وليداً وطفلاً ومميزاً ، ثم يجري عليه قَلَمُ التَّكليف والأمر والنَّهي، ثم يموت بعد ذلك، ثم يُبْعَثُ ويجازى بأعماله؛ فهذه الطبقات المختلفة الجارية على العبد دالَّة على أنَّ الله وحده هو المعبودُ الموحَّدُ المدبِّرُ لعباده بحكمته ورحمته، وأنَّ العبد فقيرٌ عاجزٌ تحت تدبير العزيز الرحيم.
[19-16] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مقام پر رات کی نشانیوں کی قسم کھائی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے شفق کی قسم کھائی جو سورج کی باقی ماندہ روشنی ہے، جس سے رات کا افتتاح ہوتا ہے۔
﴿ وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ﴾ ’’اور رات کی اور ان چیزوں کی قسم جن کو وہ اکھٹا کر لیتی ہے۔‘‘ یعنی جو حیوانات وغیرہ کو اکٹھا کر تی ہے
﴿ وَالْ٘قَ٘مَرِ اِذَا اتَّ٘سَقَ﴾ اور چاند کی جب چاند ماہ کامل بن جانے پر نور سے لبریز ہو جائے،
اس وقت چاند خوبصورت ترین اور انتہائی منفعت بخش ہوتا ہے۔ اور جس پر قسم کھائی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ لَـتَرْؔكَبُنَّ﴾ اے لوگو! تم گزرتے ہو
﴿ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ﴾ ’’متعدد اور متباین اطوار و احوال میں سے ۔‘‘ یعنی نطفے سے جمے ہوئے خون کی حالت تک اور بوٹی سے روح پھونکے جانے تک، پھر بچہ ہوتا ہے، بچے سے لڑکا اور پھر ممیز لڑکا بن جاتا ہے، پھر اس پر تکلیف اور امر و نہی کا قلم جاری ہوتا ہے ، پھر وہ مر جاتا ہے، پھر اسے اس کے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔بندے پر گزرنے والے یہ مختلف مراحل، دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے۔ وہ اکیلا ہی اپنی حکمت و رحمت سے اپنے بندوں کی تدبیر کرتا ہے، نیز یہ کہ بندہ محتاج اور عاجز اور غالب و مہربان کے دست تدبیر کے تحت ہے۔
#
{20 ـ 24} ومع هذا؛ فكثيرٌ من الناس لا يؤمنون، {وإذا قُرِئَ عليهم القرآنُ لا يَسْجُدونَ}؛ أي: لا يخضعون للقرآن ولا ينقادون لأوامره ونواهيه، {بل الذين كفروا يكذِّبون}؛ أي: يعاندون الحقَّ بعدما تبيَّن؛ فلا يُسْتَغْرَبُ عدم إيمانهم وانقيادهم للقرآن؛ فإنَّ المكذِّب بالحقِّ عناداً لا حيلة فيه، {والله أعلم بما يُوعون}؛ أي: بما يعملونه وينوونه سرًّا؛ فالله يعلم سِرَّهم وجهرهم، وسيجازيهم بأعمالهم، ولهذا قال: {فبشِّرْهم بعذابٍ أليم}: وسميت البشارة بشارةً؛ لأنَّها تؤثِّر في البشرة سروراً أو غمًّا.
[24-20] بایں ہمہ بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے
﴿ وَاِذَا قُ٘رِئَ عَلَیْهِمُ الْ٘قُ٘رْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَ﴾ ’’اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘ یعنی قرآن کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں نہ اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرتے ہیں۔
﴿ بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُكَذِّبُوْنَ﴾ بلکہ کفار حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس سے عناد رکھتے ہیں، اس لیے قرآن پر ان کا عدم ایمان اور قرآن کے لیے ان کی عدم اطاعت کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ عناد کی بنا پر حق کی تکذیب کرنے والے کے لیے اس بارے میں کوئی حیلہ نہیں۔
﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ﴾ یعنی جو کچھ وہ عمل کرتے ہیں یا وہ اپنی نیت میں چھپاتے ہیں،
اللہ تعالیٰ ان کے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے ۔پس عنقریب وہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ ’’پس انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔‘‘ بشارت کو بشارت اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مسرت اور غم کے اعتبار سے جلد پر اثر انداز ہوتی ہے۔
#
{25} فهذه حال أكثر الناس؛ التكذيب بالقرآن، وعدم الإيمان به. ومن الناس فريقٌ هداهم الله فآمنوا بالله وقبلوا ما جاءتهم به الرُّسُل، فَـ {آمنوا وعملوا الصالحات}: فهؤلاء {لهم أجرٌ غير ممنونٍ}؛ أي: غير مقطوع، بل هو أجرٌ دائمٌ ممَّا لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطرَ على قلبِ بشرٍ. والحمد لله.
[25] یہ ہے اکثر لوگوں کا حال، قرآن کی تکذیب اور اس پر عدم ایمان کے اعتبار سے۔ لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا، پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے اور انھوں نے اس چیز کو قبول کر لیا جو رسول لے کر آئے، پس وہ ایمان لائے اور نیک کام کیے۔ یہی وہ لوگ ہیں
﴿ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ﴾ جن کے لیے بے انتہا، یعنی کبھی بھی منقطع نہ ہونے والا اجر بلکہ دائمی اجر ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور ہی میں اس کے طائر خیال کا گزر ہوا ہے۔