آیت:
تفسیر سورۂ انفطار
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ (1) وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (2) وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ (3) وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ (4) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ (5)}.
جب آسمان پھٹ جائے گا(1) اور جب تارے بکھر جائیں گے(2) اور جب سمندر چلا دیے جائیں گے(3) اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی(4) تو جان لے گا ہر نفس جو آگے بھیجا اس نے اور (جو) پیچھے چھوڑا(5)
#
{1 ـ 5} أي: إذا انشقَّت السماء، وانفطرت، وتناثرت نجومُها، وزال جمالُها، وفُجِّرت البحار، فصارت بحراً واحداً، وبُعْثِرَتِ القبور بأن أُخْرِج ما فيها من الأموات وحُشِروا للموقف بين يدي الله للجزاء على الأعمال؛ فحينئذٍ ينكشف الغطاء، ويزول ما كان خفيًّا، وتعلم كلُّ نفس ما معها من الأرباح والخسران. هنالك يعضُّ الظالم على يديه إذا رأى ما قدَّمت يداه وأيقن بالشقاء الأبديِّ والعذاب السَّرمديِّ، وهنالك يفوز المتَّقون المقدِّمون لصالح الأعمال بالفوز العظيم والنعيم المقيم والسلامة من عذاب الجحيم.
[5-1] یعنی جب آسمان پھٹ کر پراگندہ ہو جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے اور ان کا حسن و جمال زائل ہو جائے گا، جب سمندر بہہ کر ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور ایک ہی سمندر بن جائیں گے، قبریں شق کر کے اکھاڑ دی جائیں گی، اور ان میں سے مردے باہر نکال لیے جائیں گے اور ان کو اعمال کی جزا و سزا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا کرنے کے لیے جمع کیا جائے گا، پس اس وقت پردہ ہٹ جائے گا اور وہ سب کچھ زائل ہو جائے گا جو چھپاہوا تھا۔ اور ہر نفس جان لے گا کہ اس کے پاس کیا نفع اور خسران ہے، اس وقت جب ظالم دیکھے گا کہ اس کے ہاتھوں نے کیا کمائی آگے بھیجی ہے اور شقاوت ابدی اور عذاب سرمدی کا یقین ہو جائے گا تو وہ (حسرت اور پشیمانی سے) اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا۔ اس وقت متقین جنھوں نے صالح اعمال آگے بھیجے ہیں، عظیم کامیابی، دائمی نعمتوں اور جہنم کے عذاب سے سلامتی سے بہرہ مند ہوں گے۔
آیت: 6 - 12 #
{يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (6) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (7) فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (8) كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ (9) وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (12)}.
اے انسان! کس چیز نے دھوکے میں ڈالا تجھے اپنے رب کریم کی بابت؟(6) وہ جس نے تجھے پیدا کیا ، پھر تجھے ٹھیک ٹھاک کیا ، پھر تجھے معتدل بنایا(7) جس صورت میں اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا(8) ہرگز نہیں!بلکہ تم جھٹلاتے ہو جزا کو(9) جبکہ بلاشبہ تم پر نگران ہیں (10) معزز لکھنے والے (11) وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو (12)
#
{6 ـ 8} يقول تعالى معاتباً للإنسان المقصِّر في حقِّه المتجرِّئ على معاصيه: {يا أيُّها الإنسان ما غَرَّك بربِّك الكريم}: أتهاوناً منك في حقوقه؟ أم احتقاراً منك لعذابه؟! أم عدم إيمانٍ منك بجزائِهِ؟! أليس هو {الذي خَلَقَكَ فسوَّاك}: في أحسن تقويم، {فعَدَلَك}: وركَّبك تركيباً قويماً معتدلاً في أحسن الأشكال وأجمل الهيئات؟! فهل يَليق بك أن تكفُرَ نعمة المنعِم أو تَجْحَدَ إحسان المحسن؟! إنْ هذا إلاَّ من جهلك وظلمك وعنادك وغشمك؛ فاحمد الله إذْ لم يجعلْ صورتَكَ صورة كلبٍ أو حمارٍ أو نحوهما من الحيوانات، ولهذا قال تعالى: {في أيِّ صورةٍ ما شاء ركَّبَك}.
[8-6] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حق میں تقصیر اور اپنی نافرمانیوں کی جسارت کا ارتکاب کرنے والے انسان پر عتاب کرتے ہوئے فرماتاہے ﴿ يٰۤاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَ٘رَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ﴾ ’’اے انسان! تجھے اپنے بارے میں کس چیز نے دھوکہ دیا۔‘‘ کیا تمھاری طرف سے اس کے حقوق سے استہزا کے طور پر یا اس کے عذاب کی تحقیر کے طور پر یا اس کی جزا و سزا پر تمھارے عدم ایمان کی بنا پر؟ کیا وہ ہستی ﴿ الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ﴾ جس نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا ﴿فَعَدَلَكَ﴾ اور اس نے تجھے درست اور معتدل ترکیب پر، حسین ترین شکل اور جمیل ترین ہیئت میں پیدا کیا۔ تب کیا تمھارے لیے یہ مناسب ہے کہ تم منعم کی نعمت کی ناشکری اور محسن کے احسان کا انکار کرو، بلاشبہ یہ محض تمھاری جہالت، تمھارے ظلم، تمھارے عناد اور تمھاری طرف سے حق کو غصب کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، پس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھے کتے، گدھے یا کسی اور حیوان کی شکل و صورت عطا نہیں کی۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَؔكَّبـَكَ﴾ ’’جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔‘‘
#
{9 ـ 12} وقوله: {كلاَّ بل تكذِّبونَ بالدِّين}؛ أي: مع هذا الوعظ والتَّذكير لا تزالون مستمرِّين على التَّكذيب بالجزاء، وأنتم لا بدَّ أن تُحاسبوا على ما عمِلْتُم، وقد أقام الله عليكم ملائكةً كراماً، يكتُبون أقوالكم وأفعالكم ويَعْلَمونها ، فدخل في هذا أفعالُ القلوبِ وأفعالُ الجوارح؛ فاللائق بكم أن تكرِموهم وتُجِلُّوهم.
[12-9] فرمایا: ﴿ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالـدِّیْنِ﴾ یعنی اس وعظ و تذکیر کے باوجود تم جزا و سزا کی تکذیب پر جمے ہوئے ہو۔ حالانکہ تم نے جو اعمال کیے ہیں ان پر ضرور تمھارا محاسبہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر مکرم فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جو تمھارے اقوال اور افعال کو لکھتے رہتے ہیں، انھیں ان اقوال و افعال کا علم ہے۔ اس میں افعال قلوب ، افعال جوارح سب داخل ہیں۔ پس تمھارے لیے مناسب ہے کہ تم ان کا اکرام و اجلال اور احترام کرو۔
آیت: 13 - 19 #
{إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (13) وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ (14) يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ (15) وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ (16) وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (17) ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (18) يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ (19)}.
بلاشبہ نیک لوگ ، البتہ نعمت (جنت) میں ہوں گے(13)اوربلا شبہ بدکار لوگ ، البتہ جہنم میں ہوں گے(14) وہ داخل ہوں گے اس میں یوم جزا کو (15) اور نہ وہ اس سے غائب ہوں گے (16) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کہ کیا ہے یوم جزا؟ (17) پھر کس چیز نے خبر دی آپ کوکہ کیا ہے یوم جزا؟ (18) اس دن نہیں اختیار رکھے گا کوئی نفس کسی نفس کے لیے کچھ بھی، اور حکم اس دن صرف اللہ ہی کا ہو گا(19)
#
{13 ـ 19} المراد بالأبرار هم: القائمون بحقوق الله وحقوق عباده، الملازمون للبرِّ في أعمال القلوب وأعمال الجوارح؛ فهؤلاء جزاؤهم النعيم في القلب والرُّوح والبدن في دار الدُّنيا وفي دار البرزخ وفي دار القرار، {وإنَّ الفجَّارَ}: الذين قصَّروا في حقوق الله وحقوق عباده، الذين فَجَرَتْ قلوبُهم ففَجَرَتْ أعمالُهم، {لفي جحيمٍ}؛ أي: عذابٍ أليمٍ في دار الدُّنيا ودار البرزخ وفي دار القرار، {يَصْلَوْنها}: ويعذَّبون بها أشدَّ العذاب {يومَ الدِّينِ}؛ أي: يوم الجزاء على الأعمال، {وما هم عنها بغائبينَ}؛ أي: بل هم ملازمون لها لا يخرُجون منها، {وما أدراك ما يومُ الدِّينِ. ثمَّ ما أدراكَ ما يومُ الدِّينِ}: في هذا تهويلٌ لذلك اليوم الشديد، الذي يحيِّر الأذهان، {يومَ لا تملِكُ نفسٌ لنفسٍ شيئاً}: ولو كانت قريبةً أو حبيبةً مصافيةً ؛ فكلُّ مشتغل بنفسه لا يطلب الفكاك لغيرها. {والأمرُ يومئذٍ لله}: فهو الذي يفصل بين العباد، ويأخُذُ للمظلوم حقَّه من ظالمه. والله أعلم.
[19-13] ﴿الْاَبْرَارَ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرتے ہیں، اعمال قلوب اور اعمال جوارح میں نیکی کا التزام کرتے ہیں۔ پس ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں، برزخ میں اور آخرت میں، قلب و روح اور بدن کی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ ﴿ وَاِنَّ الْؔفُجَّارَ ﴾ ’’اور بے شک فاجر لوگ۔‘‘ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق میں کوتاہی کی، جن کے دل بگڑ گئے، تب ان کے اعمال بھی بگڑ گئے ﴿ لَ٘فِیْ جَحِیْمٍ ﴾ وہ اس دنیا میں، برزخ میں اور آخرت میں درد ناک عذاب میں رہیں گے۔ ﴿ یَّصْلَوْنَهَا ﴾ ’’وہ اس میں داخل ہوں گے۔‘‘ اور اس کے ذریعے سے انھیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا ﴿ یَوْمَ الدِّیْنِ ﴾ اعمال کی جزا و سزا کے دن۔ ﴿ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَآىِٕبِیْنَ﴾ اور وہ اس سے چھپ نہیں سکیں گے، بلکہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور اس سے کبھی نہیں نکلیں گے۔ ﴿ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِۙ۰۰ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ﴾ ’’اور تجھے کس چیز نے خبر دی کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر (میں کہتا ہوں کہ) تجھے کس چیز نے خبر دی کہ بدلے کا دن کیا ہے؟‘‘ ان آیات کریمہ میں اس سخت دن کا ہول دلایا گیا ہے جو ذہنوں کو حیرت زدہ کر دے گا۔ ﴿ یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْ٘سٌ لِّ٘نَفْ٘سٍ شَیْـًٔؔا﴾ اس روز کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، خواہ وہ اس کا قریبی رشتہ دار یا مخلص دوست ہی کیوں نہ ہو، ہر ایک کو خود اپنی پڑی ہو گی، وہ کسی اور کی نجات کا طلب گار نہ ہو گا۔ ﴿ وَالْاَمْرُ یَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ﴾ اس روز تمام تر حکم اللہ ہی کا ہو گا۔ وہی بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور مظلوم کا حق ظالموں سے لے کر دے گا۔