آیت:
تفسیر سورۂ جن
تفسیر سورۂ جن
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 2 #
{قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (1) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا (2)}.
(اے رسول!) کہہ دیجیے! کہ وحی کی گئی ہے میری طرف یہ کہ غور سے سنا ایک جماعت نے جِنُّوں میں سے(قرآن)تو انھوں نے کہا، بلاشبہ ہم نے سنا قرآن عجیب(1) وہ راہنمائی کرتا ہے راہِ حق کی طرف سو ہم ایمان لائے اس پر، اور ہرگز نہیں شریک ٹھہرائیں گے ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی(2)
#
{1} أي: {قل}: يا أيُّها الرسول للناس، {أوحِيَ إليَّ أنَّه استمع نفرٌ من الجنِّ}: صرفهم الله إلى رسوله لسماع آياته؛ لتقوم عليهم الحجَّة وتتمَّ عليهم النعمة ويكونوا منذِرين لقومهم، وأمر [اللَّهُ] رسولَه أن يقصَّ نبأهم على الناس، وذلك أنَّهم لما حضروه؛ قالوا: أنصتوا، فلما أنصتوا؛ فهموا معانيه ووصلت حقائقُه إلى قلوبهم. {فقالوا إنَّا سمِعْنا قرآناً عَجَباً}؛ أي: من العجائب الغالية والمطالب العالية.
[1] ﴿قُ٘لْ﴾ اے رسول! لوگوں سے کہہ دیجیے ﴿اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ﴾ ’’میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو ) سنا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی آیات کے سماع کے لیے اپنے رسول کی طرف متوجہ کیا تاکہ ان پر حجت قائم ہو، ان پر نعمتوں کا اتمام ہو اور وہ اپنی قوم کو متنبہ کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ ان کا قصہ لوگوں کو سنا دیں۔ وہ قصہ یہ ہے کہ جب وہ رسول اللہ eکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے ’’خاموش رہو‘‘ پس جب وہ خاموش ہو گئے تو وہ قرآن کے معانی کے فہم سے بہرہ ور ہوئے اور قرآن کے حقائق ان کے دلوں تک پہنچ گئے۔ ﴿فَقَالُوْۤا اِنَّا سَمِعْنَا قُ٘رْاٰنًا عَجَبًا﴾’’تو انھوں نے کہا، ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔‘‘ یعنی ہم نے نہایت قیمتی اور تعجب خیز کلام اور نہایت بلند مطالب سنے ہیں۔
#
{2} {يهدي إلى الرُّشْدِ}: والرُّشدُ: اسمٌ جامعٌ لكلِّ ما يرشد الناس إلى مصالح دينهم ودنياهم، {فآمنَّا به ولن نُشْرِكَ بربِّنا أحداً}: فجمعوا بين الإيمان الذي يدخُلُ فيه جميع أعمال الخير، وبين التَّقوى المتضمِّنة لترك الشرِّ، وجعلوا السبب الداعي لهم إلى الإيمان وتوابعه ما علموه من إرشادات القرآن، وما اشتمل عليه من المصالح والفوائد واجتناب المضارِّ؛ فإنَّ ذلك آيةٌ عظيمةٌ وحجَّةٌ قاطعةٌ لمن استنار به واهتدى بهديه، وهذا الإيمانُ النافع المثمر لكلِّ خير، المبنيُّ على هداية القرآن؛ بخلاف إيمان العوائد والمَرْبى والإلف ونحو ذلك؛ فإنَّه إيمانُ تقليدٍ تحت خطر الشُّبُهات والعوارض الكثيرة.
[2] ﴿یَّهْدِیْۤ اِلَى الرُّشْدِ﴾ ’’وہ (قرآن) رشد کی طرف ہدایت کرتا ہے۔‘‘ ( رُشْدٌ) ہر اس چیز کے لیے جامع نام ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کرے ﴿فَاٰمَنَّا بِهٖ١ؕ وَلَ٘نْ نُّشْ٘رِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا﴾ ’’تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ پس انھوں نے ایمان کو، جس میں اعمال خیر داخل ہیں اور تقویٰ کو، جو ہر قسم کے شر کو ترک کرنے کو متضمن ہے، جمع کر لیا۔ انھوں نے اس کا سبب جس نے ان کو ایمان اور اس کے توابع کی طرف دعوت دی، قرآن کے ان ارشادات کو قرار دیا جن کا ان کو علم ہوا جو مصالح اور فوائد پر مشتمل اور ضرر سے خالی ہیں۔ یہ اس شخص کے لیے بہت بڑی دلیل اور قطعی حجت ہے جو اس سے روشنی حاصل کرتا ہے اور اس کے طریقے کو راہنما بناتا ہے۔یہی وہ ایمان ہے جو نفع مند ہے جو ہر بھلائی سے بہرہ مند کرتا ہے اور جو ہدایت قرآن پر مبنی ہے، برعکس عادی، پیدائشی اور رواجی ایمان کے، کیونکہ یہ تقلیدی ایمان ہے جو شبہات کے خطرات اور بے شمار عوارض میں گھرا ہوا ہے۔
آیت: 3 - 4 #
[{وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا (3) وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا (4)}].
اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی، نہیں بنائی اس نے کوئی بیوی اور نہ کوئی اولاد(3) اور یہ کہ تھے کہتے ہمارے بیوقوف اوپر اللہ کے جھوٹ(4)
#
{3} {وأنَّه تعالى جَدُّ رَبِّنا}؛ أي: تعالت عظمتُه وتقدَّسَتْ أسماؤُه، {ما اتَّخَذَ صاحبةً ولا ولداً}: فعلموا من جَدِّ الله وعظمتِهِ ما دلَّهم على بطلان مَنْ يزعُمُ أنَّ له صاحبةً أو ولداً؛ لأنَّ له العظمة والجلال في كلِّ صفة كمال، واتِّخاذُ الصاحبة والولد ينافي ذلك؛ لأنَّه يضادُّ كمال الغنى.
[3] ﴿ وَّاَنَّهٗ تَ٘عٰ٘لٰى جَدُّ رَبِّنَا﴾ یعنی اس کی عظمت بلند و بالا اور اس کے نام مقدس ہیں ﴿ مَا اتَّؔخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا﴾ ’’اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا‘‘ پس وہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی عظمت سے جان گئے جس سے اس شخص کا ابطال ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی یا اس کی اولاد ہے کیونکہ وہ ہر صفت کمال میں عظمت و کمال کا مالک ہے جبکہ بیوی اور بیٹا بنانا اس کے منافی ہے کیونکہ یہ کمال غنا کی ضد ہے۔
#
{4} {وأنَّه كان يقولُ سفيهُنا على الله شططاً}؛ أي: قولاً جائراً عن الصواب متعدياً للحدِّ، وما حمله على ذلك إلاَّ سفهُه وضعفُ عقله، وإلاَّ؛ فلو كان رزيناً مطمئناً؛ لعرف كيف يقول.
[4] یعنی وہ صواب سے ہٹی ہوئی اور حد سے گزری ہوئی بات کہتا ہے اور صرف اس کی سفاہت اور عقل کی کمزوری نے اسے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ ورنہ اگر وہ سنجیدہ اور مطمئن ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ کیسے بات کہنی ہے۔
آیت: 5 #
{وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا (5)}.
اور یہ کہ گمان کیا تھا ہم نے کہ ہرگز نہیں کہیں گے انسان اور جن اوپر اللہ کے جھوٹ(5)
#
{5} أي: كنَّا مغترِّين قبل ذلك، غرَّتنا السادة والرؤساء من الجنِّ والإنس، فأحسنَّا بهم الظنَّ، وحسبناهم لا يتجرؤون على الكذب على الله؛ فلذلك كنَّا قبل ذلك على طريقهم؛ فاليوم إذ بان لنا الحقُّ؛ سلكنا طريقه ، وانقَدْنا له، ولم نبالِ بقول أحدٍ من الخلق يعارض الهدى.
[5] یعنی اس سے پہلے ہم دھوکے میں مبتلا تھے، انسانوں اور جنات میں سے ہمارے سرداروں اور رؤ ساء نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ہمیں ان پر یقین تھا۔ ہم ان کے بارے میں سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے اس سے قبل ہم ان کے طریقے پر گامزن تھے، آج حق ہم پر واضح ہو چکا ہے، ہم اس کے راستے پر چل رہے ہیں اور ہم نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے، ہمیں مخلوق میں سے کسی کے ایسے قول کی کوئی پروا نہیں جو ہدایت کے منافی ہو۔
آیت: 6 #
{وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا (6)}.
اور یہ کہ تھے کچھ لوگ انسانوں میں سے کہ وہ پناہ پکڑتے تھے کچھ لوگوں کی جنوں میں سے سو انھوں نے زیادہ کر دیا ان کو سرکشی میں(6)
#
{6} أي: كان الإنس يعوذون بالجنِّ عند المخاوف والأفزاع ويعبُدونهم، فزاد الإنسُ الجنَّ رهقاً؛ أي: طغياناً وتكبراً، لمَّا رأوا الإنس يعبدونَهم ويستعيذون بهم، ويُحتمل أنَّ الضمير وهي الواو ترجع إلى {الجنِّ}؛ أي: زاد الجنُّ الإنسَ ذُعْراً وتخويفاً لما رأوْهم يستعيذون بهم ليلجِئوهم إلى الاستعاذة بهم والتمسُّك بما هم عليه، فكان الإنسيُّ إذا نزل بوادٍ مخوفٍ؛ قال: أعوذ بسيِّد هذا الوادي من سفهاء قومه.
[6] یعنی انسان جنوں کی عبادت کرتے تھے اور خوف اور گھبراہٹ کے موقعوں پر جنات کی پناہ لیتے تھے ۔ پس انسانوں نے جنات کو زیادہ سرکش بنا دیا، یعنی جب جنوں نے دیکھا کہ انسان ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی پناہ طلب کرتے ہیں تو اس چیز نے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ کر دیا۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ضمیر جنات کی طرف لوٹتی ہو ، یعنی جب جنات نے انسانوں کو دیکھا کہ وہ ان کی پناہ پکڑتے ہیں تو انھوں نے ان کے خوف اور دہشت زدگی میں اور اضافہ کر دیا تاکہ وہ ان کو جنات کی پناہ لینے اور ان کے قول سے تمسک کرنے پر مجبور کریں۔ زمانۂ جاہلیت میں جب انسان کسی خوف ناک وادی میں پڑاؤ کرتا تو کہتا: ’’میں اس وادی کے سردار کی، اس کی قوم کے بیوقوفوں، سے پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
آیت: 7 #
{وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا (7)}.
اور یہ کہ انھوں نے بھی گمان کیا تھا جیسا کہ تم (جنوں) نے گمان کیا تھا یہ کہ ہرگز نہیں (دوبارہ)اٹھائے گا اللہ کسی کو بھی(7)
#
{7} أي: فلمَّا أنكروا البعث؛ أقدموا على الشرك والطغيان.
[7] یعنی جب انھوں نے حیات بعدالموت کا انکار کر دیا تو شرک اور سرکشی اختیار کرنے کی جرأت کی۔
آیت: 8 - 9 #
[{وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا (8) وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا (9)}].
اور یہ کہ ہم نے ٹٹولا آسمان کو تو پایا ہم نے اسے بھرا ہوا سخت پہرے داروں اور شعلوں سے(8) اور یہ کہ تھے ہم بیٹھا کرتے اس (آسمان) کے ٹھکانوں میں (باتیں) سننے کے لیے پس جو کوئی کان لگاتا ہے اب، پاتا ہے وہ اپنے لیے شعلہ گھات میں تیار(9)
#
{8 ـ 9} {وأنَّا لمسنا السماءَ}؛ أي: أتيناها واختبرناها، {فوجَدْناها مُلِئَتْ حرساً شديداً}: عن الوصول إلى أرجائها والدنوِّ منها، {وشُهُباً}: يرمى بها من استرقَ السمعَ، وهذا مخالفٌ لعادتنا الأولى؛ فإنَّا كنَّا نتمكَّن من الوصول إلى خبر السماء فإنا {كنَّا نقعدُ منها مقاعدَ للسمع}: فنتلقَّف من أخبار السماء ما شاء الله، {فمن يستمِع الآنَ يَجِدْ له شهاباً رصداً}؛ أي: مرصداً له معدًّا لإتلافه وإحراقه؛ أي: وهذا له شأنٌ عظيمٌ ونبأٌ جسيمٌ، وجزموا أنَّ الله تعالى أراد أن يحدِثَ في الأرض حادثاً كبيراً من خيرٍ أو شرٍّ؛ فلهذا قالوا:
[8] ﴿ وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَؔ﴾ یعنی جب ہم آسمان پر آئے اور وہاں کے حالات کی خبر لی ﴿ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا ﴾ ’’تو ہم نے بھرا ہوا پایا اس کو مضبوط چوکیدار سے۔‘‘ یعنی اس کے کناروں تک پہنچنے اور اس کے قریب آنے سے، اس کی حفاظت کی گئی تھی ﴿ وَّشُهُبًا ﴾ ’’اور انگاروں سے۔‘‘ ان شہابوں (انگاروں) کو ان (جنات) پر پھینکا جاتا ہے، جو آسمانوں کی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہماری پہلی عادت کے برعکس ہے، کیونکہ پہلے ہمارے لیے آسمان کی خبروں تک رسائی ممکن تھی۔ [9] ﴿ وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ﴾ ’’اس سے پہلے ہم سن گن لینےکے لیے آسمان کے ٹھکانوں پر بیٹھا کرتےتھے۔‘‘ ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق آسمان کی خبریں حاصل کرلیتے تھے ﴿ فَ٘مَنْ یَّ٘سْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابً٘ا رَّصَدًا﴾اب اگر کوئی سن گن لینے کی کوشش کرتاہے تو شہاب کو تیار پاتا ہے ، یعنی اس کی گھات لگائے ہوئے، اس کو تلف کرنے اور جلا ڈالنے کے لیے تیار ہوتا ہے، اس کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی خبر بہت بڑی ہے۔ انھیں قطعی طور پر یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ایک بڑا واقعہ وقوع پذیر کرنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ اس لیے انھوں نے کہا:
آیت: 10 #
{وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا (10)}.
اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کیا شر کا ارادہ کیا گیا ہے ان کے ساتھ جو زمین میں ہیں یا ارادہ کیا ہے ان کی بابت ان کے رب نے بھلائی کا؟ (10)
#
{10} أي: لا بدَّ من هذا أو هذا؛ لأنَّهم رأوا الأمر تغيَّر عليهم تغيُّراً أنكروه، فعرفوا بفطنتهم أنَّ هذا الأمر يريده الله ويحدِثُه في الأرض، وفي هذا بيانٌ لأدبهم إذ أضافوا الخير إلى الله تعالى، والشرُّ حذفوا فاعله تأدُّباً [مع اللَّه].
[10] یعنی خیر یا شر میں سے ایک لازمی امر ہے کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا کہ ان پر معاملہ بدل چکا ہے جو ان کو اچھا نہ لگا۔ پس انھوں نے اپنی فطانت سے پہچان لیا کہ یہ معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور زمین پر وقوع میں لانا چاہتا ہے۔اس آیت کریمہ میں ان کے ادب کا بیان ہے کیونکہ انھوں نے خیر کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور ادب کی بنا پر شر کے فاعل کو حذف کر دیا۔
آیت: 11 #
[{وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا (11)}].
اور یہ کہ کچھ ہم میں سے نیک ہیں اور کچھ ہم میں سے اس کے علاوہ ہیں ، تھے ہم مختلف طریقوں (مذاہب) پر (11)
#
{11} {وأنَّا منَّا الصالحون ومنَّا دون ذلك}؛ أي: فساق وفجار وكفار، {كنَّا طرائِقَ قِدَداً}؛ أي: فرقاً متنوعةً وأهواءً متفرقةً؛ كلُّ حزبٍ بما لديهم فرحون.
[11] ﴿ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰؔلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ﴾ ’’اور یہ کہ کوئی ہم میں سے نیک ہیں اور کوئی اور طرح کے۔‘‘ یعنی فساق، فجار اور کفار ﴿ كُنَّا طَرَآىِٕقَ قِدَدًا﴾ ’’ہمارے کئی طرح کے مذہب ہیں۔‘‘ یعنی مختلف و متنوع گروہ اور متفرق خواہشات ہیں۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ اسی پر فرحاں و شاداں ہے۔
آیت: 12 #
{وَأَنَّا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ نُعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَنْ نُعْجِزَهُ هَرَبًا (12)}.
اور یہ کہ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ ہرگز نہیں عاجز کر سکیں گے ہم اللہ کو زمین میں، اور ہرگز نہیں عاجز کر سکیں گے ہم اس کو بھاگ کر (12)
#
{12} أي: وأنَّا في وقتنا الآن تبيَّن لنا كمال قدرة الله وكمال عجزنا، وأنَّ نواصينا بيد الله؛ فلن نعجِزَه في الأرض ولن نعجِزَه إن هَرَبْنا وسَعَيْنا بأسباب الفرار والخروج عن قدرته، لا ملجأ منه إلاَّ إليه.
[12] یعنی اس وقت ہم پر پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل قدرت کا مالک اور ہم کامل طور پر بے بس ہیں، ہماری پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، ہم زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ اگر ہم فرار ہوں تو فرار ہو کر اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کر سکتے، ہم نے فرار کے اسباب کے ذریعے سے اس کے دست قدرت سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس سے بھاگ کر اس کے سوا کہیں ٹھکانا اور پناہ گاہ نہیں۔
آیت: 13 - 14 #
[{وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا (13) وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا (14)}].
اور یہ کہ جب سنی ہم نے ہدایت (کی بات) تو ایمان لے آئے ہم اس پر،پس جو کوئی ایمان لائے گا اپنے رب پر تو نہیں ڈرے گا وہ کسی نقصان سے اور نہ ظلم و زیادتی سے (13) اور یہ کہ کچھ ہم میں سے مسلمان ہیں اور کچھ ہم میں سے ظالم ہیں، پس جو کوئی اسلام لایا تو انھوں نے تلاش کر لی راہ حق (14)
#
{13} {وأنَّا لمَّا سمِعنا الهدى}: وهو القرآن الكريم الهادي إلى الصراط المستقيم، وعرفنا هدايته وإرشاده؛ أثَّر في قلوبنا، فآمنَّا به، ثم ذكروا ما يرغِّب المؤمن، فقالوا: {فمن يؤمِن بربِّه فلا يخافُ بخساً ولا رَهَقاً}؛ أي: من آمن به إيماناً صادقاً؛ فلا عليه نقصٌ ولا أذىً يلحقُه، وإذا سَلِمَ من الشرِّ؛ حصل له الخيرُ؛ فالإيمان سببٌ داعٍ إلى [حصول] كلِّ خيرٍ وانتفاء كلِّ شرٍّ.
[13] ﴿ وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدٰۤى ﴾ ’’اور جب ہم نے ہدایت (کی کتاب) سنی۔‘‘ اور وہ قرآن کریم ہے جو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے، ہم نے اس کی رشد و ہدایت کو پہچان لیا ہے اور اس نے ہمارے دلوں پر اثر کیا ﴿ اٰمَنَّا بِهٖ﴾ ’’تو ہم اس پر ایمان لے آئے‘‘ پھر انھوں نے اس بات کا ذکر کیا جو مومن کو ترغیب دیتی ہے، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ فَ٘مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَهَقًا﴾ یعنی جو کوئی اپنے رب پر سچا ایمان لے آیا، اسے کسی نقصان سے واسطہ پڑے گا نہ کوئی تکلیف لاحق ہو گی اورجب وہ شر سے محفوظ ہو گیا تو اسے بھلائی حاصل ہو گئی۔ پس ایمان ایک ایسا سبب ہے جو ہر قسم کی بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے اور ہر قسم کے شر کی نفی کرتا ہے۔
#
{14} {وأنَّا منَّا المسلمونَ ومنَّا القاسطونَ}؛ أي: الجائرون العادلون عن الصراط المستقيم، {فَمَنْ أسلم فأولئك تَحَرَّوْا رَشَداً}؛ أي: أصابوا طريق الرشد الموصل لهم إلى الجنة ونعيمها.
[14] ﴿ وَّاَنَّا مِنَّا الْ٘مُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ﴾ ’’اور بے شک ہم میں بعض فرماں بردار ہیں اور بعض ( نافرمان) گناہ گار ہیں۔‘‘ یعنی صراط مستقیم سے ہٹنے اور اس کو چھوڑنے والے ﴿ فَ٘مَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا﴾ پس جو فرماں بردار ہوئے۔ انھوں نے رشد و ہدایت کا راستہ پا لیا، جو ان کو جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچاتا ہے۔
آیت: 15 - 2 #
{وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا (15) [وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا (16) لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا (17)}] (2).
اور لیکن وہ جو ظالم ہیں تو وہ ہیں جہنم کا ایندھن (15) اور (وحی کی گئی ہے) یہ کہ اگر قائم رہیں وہ سیدھے راستے پر تو البتہ ہم پلائیں ان کو پانی وافر (16) تاکہ ہم آزمائیں ان کو اس میں اور جو کوئی اعراض کرے گا ذکر سے اپنے رب کے تو وہ (رب) داخل کرے گا اسے عذاب سخت میں (17)
#
{15 ـ 17} {وأما القاسطون فكانوا لجهنم حطباً}: وذلك جزاءً على أعمالهم، لا ظلم من الله لهم، فإنَّهم {لو استقاموا على الطريقةِ}: المثلى، {لأسْقَيْناهم ماءً غَدَقاً}؛ أي: هنيئاً مريئاً، ولم يمنعْهم ذلك إلاَّ ظلمهم وعدوانهم، {لِنَفْتِنَهم فيه}؛ أي: لنختبرهم [فيه] ونمتحِنَهم ليظهر الصادق من الكاذب، {ومن يعرِضْ عن ذكر ربِّه يَسْلُكْه عذاباً صَعَداً}؛ أي: من أعرض عن ذكر الله الذي هو كتابه، فلم يتَّبِعْه وينقدْ له، بل لها عنه وغفل ؛ يَسْلُكْه عذاباً صَعَداً؛ أي: بليغاً شديداً.
[15] یعنی ظالم لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کی پاداش میں جہنم رسید کرے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں بلکہ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔ [16] یعنی اگر وہ ﴿ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِیْقَةِ ﴾ ’’سیدھے راستے پر رہتے ‘‘ ﴿ لَاَسْقَیْنٰهُمْ۠ مَّآءًؔ غَدَقًا﴾ ’’تو ہم انھیں وافر پانی پلاتے ۔‘‘ یعنی وہ مزے سے بستے لیکن ان کے ظلم وعدوان نے انھیں اس سے روک دیا۔ [17] ﴿لِنَفْتِنَہُمْ فِیْهِ﴾ یعنی تاکہ ہم ان کو آزمائیں اور ان کا امتحان لیں تاکہ جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق ظاہر ہو جائے ﴿ وَمَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ یَسْلُكْهُ عَذَابً٘ا صَعَدًا﴾ ، یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ذکر ...جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ...سے روگردانی کرے، اس کی اتباع کرے نہ اس کی اطاعت کرے بلکہ اس کے بارے میں غافل رہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب دے گا، یعنی سختی کی انتہا کو پہنچا ہوا عذاب۔
آیت: 18 - 28 #
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (18) [وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا (19) قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا (20) قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا (21) قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا (22) إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا (23) حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا (24) قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا (25) عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (27) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (28)}].
اور یہ کہ مسجدیں (صرف) اللہ ہی کے لیے ہیں، پس نہ پکار و تم اللہ کے ساتھ کسی کو بھی (18) اور یہ کہ جب کھڑا ہوا بندہ اللہ کا (محمدe) کہ وہ پکارے اس (اللہ) کو تو قریب تھے وہ کہ ہوں وہ اس پر بھیڑ کر کے پل پڑنے والے(19) کہہ دیجیے! بس میں تو پکارتا ہوں اپنے رب ہی کو اور نہیں شریک ٹھہراتا میں اس کے ساتھ کسی کو (20) کہہ دیجیے! بلاشبہ میں نہیں اختیار رکھتا تمھارے لیے کسی نقصان کا اور نہ بھلائی کا (21) کہہ دیجیے! یقیناً ہرگز نہیں پناہ دے گا مجھے اللہ (کے عذاب) سے کوئی بھی اور ہرگز نہیں پاؤں گا میں اس کے سوا کوئی پناہ گاہ (22) (نہیں اختیار رکھتا میں) سوائے پہنچا دینے کے اللہ کا (حکم) اور اس کےپیغامات اور جو کوئی نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کےرسول کی تو بلاشبہ اس کے لیے آتش جہنم ہے ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں ابد تک (23) یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں گے وہ (عذاب) کہ وعدہ دیے جاتے ہیں وہ (اس کا) تو یقیناً جان لیں گے وہ کہ کون کمزور تر ہے باعتبار مدد گار کے اور کم تر ہے عدد میں (24) کہہ دیجیے! نہیں جانتا میں کیا قریب ہے وہ (عذاب) جس کا وعدہ دیے جاتے ہو تم یا (مقرر) کرتا ہے اس کے لیے میرا رب کوئی لمبی مدت؟ (25) (وہی) عالم الغیب ہے، پس نہیں مطلع کرتا وہ اپنے غیب پر کسی کو بھی (26) مگر جسے وہ پسند کرے (، یعنی ) رسول کو تو بے شک وہ مقرر کرتا ہے اس (رسول) کے آگے اور اس کے پیچھے محافظ (27) تاکہ وہ جان لے یہ کہ انھوں نے پہنچا دیے ہیں پیغامات اپنے رب کے، اور اللہ نے احاطہ کر رکھا ہے ان چیزوں کا جو ان کے پاس ہیں، اور اس نے شمار کر رکھا ہے ہر چیز کا گنتی کے اعتبار سے (28)
#
{18} {وأنَّ المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحداً}؛ أي: لا دعاء عبادةٍ ولا دعاء مسألةٍ؛ فإنَّ المساجد التي هي أعظم محالِّ العبادة مبنيَّةٌ على الإخلاص لله والخضوع لعظمته والاستكانة لعزَّته.
[18] یعنی مساجد میں دعائے عبادت يا دعائے مسئلہ غرضیکہ کوئی سی بھی دعا اللہ کے سوا کسی سے نہ کی جائے کیونکہ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سب سے بڑا مقام و محل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، اس کی عظمت کے سامنے خضوع اور اس کے غلبے کے سامنے فروتنی کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہیں۔
#
{19} {وأنَّه لمَّا قام عبدُ اللهِ يدعوه}؛ أي: يسأله ويتعبَّد له ويقرأ القرآن كاد الجنُّ من تكاثُرِهم عليه، {يكونون عليه لِبَداً}؛ أي: متلبِّدين متراكمين حرصاً على [سماع] ما جاء به من الهدى.
[19] ﴿وَاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ ﴾ یعنی جب اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے اور قرآن پڑھتا ہے تو قریب ہے کہ جنات اپنی کثرت کے باعث ﴿ عَلَیْهِ لِبَدًا﴾ اور جو آپ ہدایت لے کر آئے ہیں، اس میں حرص کی بنا پر، آپ پر ہجوم کریں۔
#
{20} {قل}: لهم يا أيُّها الرسول، مبيِّناً حقيقة ما تدعو إليه: {إنَّما أدعو ربِّي ولا أشرِكُ به أحداً}؛ أي: أوحِّده وحده لا شريك له، وأخلع ما دونَه من الأنداد والأوثان، وكلُّ ما يتَّخذه المشركون من دونه.
[20] ﴿ قُ٘لْ﴾ اے رسول! جس چیز کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں، اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے: ﴿ اِنَّمَاۤ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَاۤ اُشْرِكُ بِهٖۤ اَحَدًا﴾ ’’بے شک میں اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا ہوں، اس کا کوئی شریک نہیں، میں اس کے سوا تمام خود ساختہ ہم سروں، بتوں اور ان ہستیوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جن کو مشرکین نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا ہے۔
#
{21 ـ 22} {قل إنِّي لا أملِكُ لكم ضَرًّا ولا رَشَداً}: فإنِّي عبدٌ ليس لي من الأمر والتصرُّفِ شيءٌ ، {قلْ إنِّي لن يُجيرَني من اللهِ أحدٌ}؛ أي: لا أحدَ أستجير به ينقذني من عذاب الله، وإذا كان الرسولُ الذي هو أكملُ الخلق لا يملكُ ضرًّا ولا رشداً ولا يمنعُ نفسَه من الله شيئاً إن أراده بسوءٍ؛ فغيرُهُ من الخلق من باب أولى وأحرى، {ولن أجدَ من دونِهِ مُلْتَحَداً}؛ أي: ملجأ ومنتصراً.
[21] رسول کریمe كو كہا جا رہا ہے کہ آپ انھیں اس بات کی وضاحت کردیں کہ میں تو ایک بندہ ہوں، معاملے اور تصرف میں مجھے کوئی اختیار نہیں۔ [22] ﴿ قُ٘لْ اِنِّیْ لَ٘نْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ﴾ ’’کہہ دیجیے: مجھے ہرگز کوئی اللہ سے نہیں بچا سکتا‘‘ یعنی میں کسی سے فریاد رسی نہیں چاہتا جو مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائے۔ جب رسول اللہe جو مخلوق میں کامل ترین ہستی ہیں کسی نقصان اور رشد و ہدایت کا اختیار نہیں رکھتے، اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے تو آپ اپنے آپ کو اس سے بچا نہیں سکتے توپھر مخلوق میں سے دیگر لوگوں کا اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہ ہونا اولیٰ و احری ہے۔ ﴿ وَّلَ٘نْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ اور اس کے سوا میں کوئی پناہ گاہ اور بچ نکلنے کی جگہ نہیں پاتا۔
#
{23} {إلاَّ بلاغاً من الله ورسالاتِهِ}؛ أي: ليس لي مزيَّةٌ على الناس إلاَّ أنَّ الله خصَّني بإبلاغ رسالاته ودعوة خلقِهِ إليه ، وبذلك تقوم الحجَّةُ على الناس، {ومن يَعْصِ الله ورسولَه فإنَّ له نارَ جهنَّمَ خالدين فيها أبداً}: وهذا المراد به المعصية الكفريَّة كما قيَّدتها النُّصوص الأخر المحكمة، وأمَّا مجرَّد المعصية؛ فإنَّه لا يوجب الخلود في النار؛ كما دلَّت على ذلك آيات القرآن والأحاديث عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -، وأجمع عليه سَلَفُ الأمَّة وأئمَّة هذه الأمَّة.
[23] ﴿اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِسٰؔلٰ٘تِهٖ﴾ مجھے لوگوں پر کوئی خصوصیت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق تک اپنی رسالت پہنچانے اور ان کو اپنی طرف دعوت دینے کے لیے مجھے مختص کیا ہے اور اسی سے لوگوں پر حجت قائم ہوتی ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا﴾ ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے، ایسے لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اس سے مراد معصیتِ کفر یہ ہے جیسا کہ دیگر محکم نصوص اس کو مقید کرتی ہیں۔رہی مجرد معصیت تو وہ جہنم میں خلود کی موجب نہیں جیسا کہ قرآن کی آیات اورنبی ٔاکرمeکی احادیث دلالت کرتی ہیں، اس پر امت کے تمام اسلاف اور تمام ائمہ کا اجماع ہے۔
#
{24} {حتى إذا رأوا ما يوعدونَ}؛ أي: شاهدوه عياناً وجزموا أنَّه واقعٌ بهم، {فسيعلمون}: في ذلك الوقت حقيقة المعرفة، {مَنْ أضعفُ ناصراً وأقلُّ عدداً}: حين لا ينصرُهُم غيرهم، ولا أنفسهم ينتصِرونَ، وإذْ يُحْشَرون فرادى كما خُلِقوا أوَّلَ مرَّةٍ.
[24] ﴿ حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ ﴾ یعنی جب وہ عیاں طور پر اس کا مشاہدہ کریں گے اور انھیں یقین آ جائے گا کہ وہ ان پر واقع ہونے والا ہے ﴿فَسَیَعْلَمُوْنَ۠﴾ تب انھیں حقیقت معلوم ہو گی کہ ﴿ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَ٘قَلُّ عَدَدًا﴾’’مددگار کس کے کمزور ہیں اور شمار کن کاتھوڑا ہے۔‘‘ جب کوئی دوسرا ان کی مدد کر سکے گا نہ وہ خود اپنی مدد کر سکیں گے اور جب انھیں اکیلے اکیلے اٹھایا جائے گا جیسا کہ وہ پہلی مرتبہ پیدا کیے گئے تھے۔
#
{25 ـ 26} {قل} لهم إنْ سألوك فقالوا: متى هذا الوعد؟: {إنْ أدري أقريبٌ ما توعدونَ أمْ يجعلُ له ربِّي أمداً}؛ أي: غايةً طويلةً؛ فعلمُ ذلك عند الله {عالمُ الغيب فلا يُظْهِرُ على غيبِهِ أحداً}: من الخلق، بل انفرد بعلم الضمائر والأسرار والغيوب.
[25] ﴿ قُ٘لْ﴾ ’’کہہ دیجیے:‘‘ اگر وہ آپ سے پوچھیں: ﴿مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ ﴾ (یونس: 48/10)’’یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟‘‘ تو ان سے کہہ دیجیے: ﴿ اِنْ اَدْرِیْۤ اَ٘قَ٘رِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَهٗ رَبِّیْۤ اَمَدًا﴾ ’’میں نہیں جانتا کہ تم سے جو وعدہ کیا جاتاہے، وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی مدت دراز کردی ہے؟‘‘ یعنی وہ کوئی طویل مدت مقرر کرتا ہے تو اس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ [26] مخلوق میں سے کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ اکیلا ہی ضمائر، اسرار اور غیوب کا علم رکھتا ہے۔
#
{27} {إلاَّ منِ ارتضى من رسول}؛ أي: فإنَّه يخبره بما اقتضت حكمته أن يخبِرَه به، وذلك لأنَّ الرسل ليسوا كغيرهم؛ فإنَّ الله أيَّدهم بتأييدٍ ما أيَّده أحداً من الخلق، وحفظ ما أوحاه إليهم حتى يبلِّغوه على حقيقته؛ من غير أن تَقْرَبَهُ الشياطينُ فيزيدوا فيه أو يَنْقُصوا، ولهذا قال: {فإنَّه يَسْلُكُ من بينِ يديهِ ومن خلفِهِ رَصَداً}؛ أي: يحفظونه بأمر الله.
[27] ﴿اِلَّا مَنِ ارْتَ٘ضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ﴾ ’’مگر جس رسول کو پسند فرمائے۔‘‘ پس اسے صرف اسی غیب سے آگاہ کرتا ہے جس سے آگاہ کرنا اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے رسول دیگر انسانوں کی مانند نہیں ہیں کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تائید سے نوازا ہے جس سے اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں نوازا، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جو وحی کی اس کی حفاظت بھی کی حتیٰ کہ رسول اس وحی کی حقیقت کو پہنچ گئے، بغیر اس کے کہ شیاطین اس کے قریب آئیں اور اس میں کمی بیشی کر سکیں، اس لیے فرمایا: ﴿فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا﴾ ’’وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
#
{28 ـ 29} {ليعلم} بذلك {أن قد أبْلَغوا رسالات ربِّهم}: بما جعله لهم من الأسباب، {وأحاط بما لَدَيْهم}؛ أي: بما عندهم وما أسرُّوه وما أعلنوه، {وأحصى كلَّ شيءٍ عدداً}.
[28] ﴿ لِّیَعْلَمَ﴾ تاکہ اسے معلوم ہو جائے ﴿ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰؔلٰتِ رَبِّهِمْ﴾ ’’کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچادیے ہیں۔‘‘ ان اسباب کے ذریعے سے جو ان کے لیے اس نے مہیا کیے ﴿ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْهِمْ﴾ ’’اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘ ، یعنی جو کچھ ان کے پاس ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور جسے وہ ظاہر کرتے ہیں۔ ﴿ وَاَحْصٰى كُ٘لَّ شَیْءٍ عَدَدًا﴾ اور ہر چیز کو اس نے شمار کر رکھا ہے۔‘‘
فوائد: یہ سورۂ مبارکہ متعدد فوائد پر مشتمل ہے: (۱) اس سورت سے جنات کا وجود ثابت ہوتا ہے، نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنات امر و نہی کے مکلف ہیں، ان کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی جیسا کہ یہ اس سورت میں صریح طور پر مذکور ہے۔ (۲) اس سورۂ کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہe جس طرح انسانوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، اسی طرح جنات کی طرف بھی مبعوث تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف بھیجا تاکہ وہ قرآن کو غور سے سنیں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور پھر اسے اپنی قوم تک پہنچائیں۔ (۳) اس سورۂ مبارکہ سے جنات کی ذہانت اور ان کی معرفتِ حق کا اثبات ہوتا ہے اور جس چیز نے انھیں ایمان لانے پر آمادہ کیا وہ یہ ہے کہ ہدایت قرآن ان پر متحقق ہو گئی، نیز اپنے خطاب میں حسن ادب کی بنا پر (ایمان لانے پر آمادہ ہوئے) ۔ (۴) اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول e پر کامل عنایت تھی اور وہ قرآن اس کی حفاظت میں تھا جسے رسول اللہ eلے کر تشریف لائے۔ پس جب آپ کی نبوت کی بشارتیں شروع ہوئیں، ستاروں کے ذریعے سے آسمان محفوظ تھے، ۔ شیاطین اپنی اپنی جگہیں چھوڑ کر بھاگ گئے اور گھبرا کر اپنی گھاتوں سے نکل گئے۔ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر اس قدر رحم فرمایا جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ان کے رب نے ان کو رشد و ہدایت سے بہرہ ور کرنے کا ارادہ کیا، پس نے ارادہ فرمایا کہ اپنے دین و شریعت اور اپنی معرفت کو زمین پر ظاہر کرے جس سے دلوں کو بہجت و سرور حاصل ہو، خرد مند لوگ خوش ہوں، شعائر اسلام ظاہر ہوں اور اہل اصنام اور اہل اوثان کا قلع قمع ہو۔ (۵) اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ جنات میں رسول اللہ e(سے قرآن) کو سننے اور آپ پر ہجوم کرنے کی شدید خواہش تھی۔ (۶) یہ سورہ کریمہ توحید کے حکم اور شرک کی ممانعت پر مشتمل ہے، نیز اس میں مخلوق کی حالت بیان کی گئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ذرہ بھر عبادت کا مستحق نہیں کیونکہ جب رسول مصطفیٰ محمدeجو مخلوق میں افضل اور کامل ترین ہستی ہیں، کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ خود اپنی ذات کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے تو معلوم ہوا کہ اسی طرح تمام مخلوق کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ پس جس مخلوق کا یہ وصف ہو، اس کو معبود بنانا خطا اور ظلم ہے۔ (۷) اس سورۂ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ علوم غیب کا علم رکھنے میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے مخلوق میں سے کوئی ہستی غیب کا علم نہیں جانتی، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہو اور کسی چیز کا علم عطا کرنے کے لیے اسے مختص کرے۔