آیت:
تفسیر سورۂ نوح
تفسیر سورۂ نوح
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 28 #
{إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (1) قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ (2) أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (3) يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (4) قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا (5) فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا (6) وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا (7) ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا (8) ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا (9) فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (12) مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا (13) وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا (14) أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا (15) وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (16) وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا (17) ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا (18) وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا (19) لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا (20) قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا (21) وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا (22) وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا (23) وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا (24) مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا (25) وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (26) إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا (27) رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا (28)}.
بلاشبہ ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف یہ کہ ڈرا تو اپنی قوم کو پہلے اس سے کہ آئے ان کے پاس عذاب بہت درد ناک(1) نوح نے کہا، اے میری قوم! یقیناً میں تمھیں ڈرانے والا ہوں ظاہر(2) یہ کہ تم عبادت کرو اللہ کی اور ڈرو اس سے اور اطاعت کرو میری(3) وہ بخش دے گا تمھارے لیے تمھارے گناہ اور مہلت دے گا تمھیں ایک وقت مقرر تک بلاشبہ اللہ کا (مقرر) وقت جب آتا ہے تو نہیں مؤخر کیا جاتا وہ، کاش کہ ہوتے تم جانتے(4) نوح نے کہا، اے میرے رب ! بلاشبہ میں نے دعوت دی اپنی قوم کو رات اور دن(5) سو نہ زیادہ کیا انھیں میری دعوت نے مگر (حق سے) بھاگنے ہی میں (6) اور میں نے جب بھی دعوت دی ان کو، تاکہ بخشے تو انھیں تو کر لیں انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹ لیے انھوں نے (اپنے اوپر) اپنے کپڑے اور اڑے رہے وہ اور تکبر کیا انھوں نے تکبر کرنا بڑا (7) پھر میں نے دعوت دی انھیں بہ آواز بلند(8) پھر میں نے علانیہ کہا ان سے اور خفیہ کہا ان سے بالکل خفیہ(9) چنانچہ میں نے کہا، مغفرت مانگو تم اپنے رب سے، بلاشبہ وہ ہے بڑا بخشنے والا (10) وہ بھیجے گاآسمان(سے بارش) تم پر موسلا دھار (11) اور وہ بڑھائے گا تمھیں ساتھ مالوں اور بیٹوں کے، اور (پیدا) کرے گا تمھارے لیے باغات اور (جاری) کرے گا تمھارے لیے نہریں (12) کیا ہے تمھیں کہ نہیں عقیدہ رکھتے تم اللہ کے لیے وقار (عظمت )کا؟ (13) حالانکہ اس نے پیدا کیا تمھیں مختلف مرحلوں میں (14) کیا نہیں دیکھا تم نے کہ کس طرح پیدا کیے اللہ نے سات آسمان اوپر نیچے؟ (15) اور اس نے بنایا چاند کو ان میں نور اور بنایا سورج کو چراغ (16) اور اللہ نے اگایا ہے تمھیں زمین سے (خاص انداز سے) اگانا (17) پھر وہ لوٹائے گا تمھیں اس میں اور وہ نکالے گا تمھیں (دوبارہ) نکالنا (18) اور اللہ نے بنایا تمھارے لیے زمین کو بچھونا (19) تاکہ تم چلواس کی کشادہ راہوں میں (20) کہا نوح نے، اے میرے رب! بلاشبہ انھوں نے نافرمانی کی میری اور پیروی کی انھوں نے اس کی کہ نہیں زیادہ کیا اس کو اس کےمال اور اس کی اولاد نے مگر خسارے ہی میں (21) اور مکر کیا انھوں نے مکر بہت بڑا (22) اور کہا انھوں نے، بالکل نہ چھوڑنا تم اپنے معبودوں کو، اور نہ چھوڑنا تم ود کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور نہ یعوق کو اور نہ نسر کو (23) اور تحقیق انھوں نے گمراہ کیا بہتوں کو اور نہ زیادہ کر تو (یا اللہ!) ان ظالموں کو مگر گمراہی ہی میں (24) بوجہ اپنی خطاؤں کے غرق کیے گئے وہ، پھر داخل کیے گئے وہ آگ میں، تو نہ پایا انھوں نے اپنے لیے سوائے اللہ کے کوئی مدد گار (25) اور کہا نوح نے، اے میرے رب! نہ چھوڑ تو اوپر زمین کے(ان) کافروں میں سے کوئی رہنے سہنے والا (26) بلاشبہ تو نے اگر چھوڑا ان کو تو وہ گمراہ کریں گے تیرے بندوں کو، اور نہیں جنیں گے وہ مگر فاجر کافر ہی (27) اے مرے رب! تو مغفرت فرما میری اور میرے والدین کی اور (ہر) اس شخص کی جو داخل ہو میرے گھر میں مومن ہو کر اور ایمان والوں اور ایمان والیوں کی اور نہ زیادہ کر تو ظالموں کو مگر تباہی اور ہلاکت میں (28)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں، حضرت نوحu کے اپنی قوم کے اندر، ایک طویل زمانے تک رہنے، ان کو بار بار دعوت توحید دینے اور شرک سے روکنے کی بنا پر ان کا اکیلا قصہ ہی بیان نہیں کیا۔
#
{1} فأخبر تعالى أنَّه أرسل نوحاً إلى قومه رحمةً بهم وإنذاراً [لهم] من عذاب أليم؛ خوفاً من استمرارهم على كفرهم، فيهلكهم [اللَّهُ] هلاكاً أبديًّا، ويعذِّبهم عذاباً سرمديًّا.
[1] اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت نوح uکی قوم پر رحم کرتے ہوئے، ان کو درد ناک عذاب سے متنبہ کرتے اور ان کو اپنے کفر پر جمے رہنے سے ڈراتے ہوئے حضرت نوحu کوان کی طرف مبعوث فرمایا، مبادا اللہ تعالیٰ ان کو ابدی ہلاکت، سرمدی عذاب میں مبتلا کر دے۔
#
{2 ـ 4} فامتثل نوحٌ عليه السلام لذلك، وابتدر لأمر الله، فقال: {يا قوم إنِّي لكم نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: واضح النذارة بينها، وذلك لتوضيحه ما أنذر به وما أنذر عنه، وبأيِّ شيءٍ تحصُلُ النجاة؛ بيَّن ذلك بياناً شافياً، فأخبرهم وأمرهم بأصل ذلك ، فقال: {أنِ اعبُدوا الله واتَّقوه}: وذلك بإفراده تعالى بالعبادة والتوحيد والبعد عن الشرك وطرقه ووسائله؛ فإنَّهم إذا اتَّقوا الله؛ غَفَرَ ذنوبهم؛ وإذا غفر ذنوبهم، حصل لهم النجاة من العذاب والفوز بالثواب، {ويؤخِّرْكم إلى أجل مسمًّى}؛ أي: يمتِّعكم في هذه الدار ويدفع عنكم الهلاك إلى إجل مسمًّى؛ أي: مقدَّر البقاء في الدنيا بقضاء الله وقدره إلى وقتٍ محدودٍ، وليس المتاع أبداً؛ فإنَّ الموت لا بدَّ منه، ولهذا قال: {إنَّ أجَلَ الله إذا جاء لا يؤخَّرُ لو كنتُم تعلمون}: كما كفرتُم بالله وعاندتُم الحقَّ.
[4-2] حضرت نوحu نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لیے آگے بڑھے اور فرمایا: ﴿ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ یعنی میں انذار اور تنبیہ کو واضح کر کے کھول کھول کر بیان کرتا ہوں۔ یہ اس لیے کہ آپ نے جس چیز کے ذریعے سے تنبیہ کی اس کو واضح کیا اور جس کے بارے میں تنبیہ کی گئی اس کو واضح کیا اور جس چیز کے ذریعے سے نجات حاصل ہوتی ہے، ان سب باتوں کو شافی طور پر بیان کیا۔ حضرت نوحu نے ان کو آگاہ کیا اور اس بارے میں بنیادی چیز کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا :﴿ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُ﴾ ’’یہ کہ اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔‘‘ اور یہ اس طرح کہ عبادت وتوحید میں اللہ تعالیٰ کو یکتا قرار دیا جائے اور شرک اور شرک کے تمام راستوں اور وسائل سے دوررہا جائے۔ کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے گا۔ جب وہ ان کے گناہ بخش دے گا تو انھیں عذاب سے نجات حاصل ہو جائے گی اور وہ ثواب سے بہرہ مند ہوں گے۔ ﴿ وَیُؤَخِّ٘رْؔكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى﴾ یعنی اس دنیا میں تمھیں متمتع کرے گا اور ایک مدت مقررہ تک ہلاکت کو تم سے دور ہٹا دے گا، یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے دنیا میں باقی رہنے کی مقدار ایک محدود وقت تک موخر کر دیا جائے گی اور یہ متاع ابدی نہیں ہے، موت کو ضرور آنا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَؔ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْؔ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی، کاش تم جانتے ہوتے۔‘‘ تو تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے نہ حق کے ساتھ عناد رکھتے۔
#
{5 ـ 7} فلم يجيبوا لدعوته، ولا انقادوا لأمره، فقال شاكياً لربِّه: {ربِّ إنِّي دعوتُ قومي ليلاً ونهاراً. فلم يزِدْهم دعائي إلاَّ فراراً}؛ أي: نفوراً عن الحقِّ وإعراضاً، فلم يبق لذلك فائدةٌ؛ لأنَّ فائدة الدَّعوة أن يحصل جميع المقصود أو بعضه، {وإنِّي كلَّما دعوتُهم لتغفرَ لهم}؛ أي: لأجل أن يستجيبوا؛ فإذا استجابوا؛ غفرتَ لهم، وهذا محضُ مصلحتهم، ولكن أبوا إلاَّ تمادياً على باطلهم ونفوراً عن الحقِّ، {جعلوا أصابِعَهم في آذانهم}؛ حَذَرَ سماع ما يقول لهم نبيُّهم نوحٌ عليه السلام، {واستَغْشَوا ثيابَهم}؛ أي: تغطوا بها غطاءً يغشاهم بعداً عن الحقِّ وبغضاً له، {وأصرُّوا}: على كفرهم وشرِّهم، {واستَكْبَروا}: على الحقِّ {استِكْباراً}: فشرهم ازداد وخيرهم بعد.
[7-5] پس انھوں نے نوح uکی دعوت کو قبول کیا نہ ان کے حکم کی اطاعت کی تو حضرت نوحu نے اپنے رب سے شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا: ﴿ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَهَارًاۙ۰۰ فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا﴾ ’’میرے رب! میں اپنی قوم کو دن رات بلاتا رہا لیکن وہ میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے۔‘‘ یعنی حق سے نفرت اور اس سے روگردانی میں اضافہ ہی ہوا ۔ پس دعوت کا کوئی فائدہ باقی نہ رہا کیونکہ دعوت کا فائدہ تب ہے کہ دعوت کے تمام مقاصد یا ان سے کچھ مقاصد حاصل ہوں۔ ﴿ وَاِنِّیْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ﴾ ’’اور میں نے جب بھی ان کو پکارا تاکہ تو ان کو بخش دے۔‘‘ یعنی اس وجہ سے کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں جب وہ دعوت کو قبول کر لیں گے تو ان کو بخش دیا جائے گا اور اس میں محض ان کی مصلحت ہے۔ مگر وہ اپنے باطل پر مصر اور حق سے دور بھاگتے رہے ﴿ جَعَلُوْۤا اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ﴾ ’’انھوں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔‘‘ اس ڈر سے کہ کہیں وہ باتیں ان کے کان میں نہ پڑ جائیں جو ان سے، ان کا نبی، نوح (u) کہتا ہے۔ ﴿ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَهُمْ﴾ یعنی حق سے بعد اور بغض کی بنا پر، اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ کر پردہ کر لیا ﴿ وَاَصَرُّوْا﴾ اور انھوں نے اپنے کفر اور شر پر اصرار کیا ﴿ وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا﴾ اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا، پس ان کا شر بڑھ گیا اور بھلائی ان سے دور ہو گئی۔
#
{8 ـ 9} {ثم إنِّي دعوتُهم جهاراً}؛ أي: بمسمع منهم كلهم، {ثم إنِّي أعلنتُ لهم وأسررتُ لهم إسراراً}: كل هذا حرصٌ ونصحٌ، وإتيانهم بكلِّ طريق يظنُّ به حصول المقصود.
[9,8] ﴿ ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا﴾ ’’پھر میں ان کو کھلے طور بلاتا رہا۔‘‘ یعنی میں ان سب کو سنا کر دعوت دیتا رہا ﴿ ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا﴾ ’’اورظاہر اور پوشیدہ، ہر طرح سمجھاتا رہا۔‘‘ یہ سب ان کے ایمان لانے کی حرص اور ان کی خیر خواہی ہے اور ان پر ہر اس طریقے کا استعمال ہے، جس کے ذریعے سے مقصد کے حصول کا گمان ہو۔
#
{10 ـ 12} {فقلتُ استَغْفِروا ربَّكم}؛ أي: اتركوا ما أنتم عليه من الذنوب واستغفروا الله منها؛ {إنَّه كان غفاراً}: كثير المغفرة لمن تاب واستغفر، فرغَّبهم بمغفرة الذُّنوب وما يترتب عليها من الثواب واندفاع العقاب، ورغَّبهم أيضاً بخير الدُّنيا العاجل، فقال: {يرسِلِ السماءَ عليكم مِدراراً}؛ أي: مطراً متتابعاً يروي الشعاب والوهاد، ويحيي البلاد والعباد، {ويُمْدِدْكُم بأموال وبنينَ}؛ أي: يكثر أموالكم التي تدركون بها ما تطلبون من الدُّنيا وأولادكم، {ويجعل لكم جناتٍ ويجعل لكم أنهاراً}: وهذا من أبلغ ما يكون من لَذَّاتِ الدُّنيا ومطالبها.
[12-10] ﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا﴾ یعنی میں نے انھیں کہا کہ تم جن گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہو، ان کو چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ سے ان گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا﴾ جو کوئی توبہ کر کے اس سے بخشش طلب کرتا ہے، وہ اسے کثرت سے بخشتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کی بخشش اور اس پر جو ثواب مترتب ہوتا ہے اور جو عذاب دور ہوتا ہے، اس کی ترغیب دی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو دنیا کی فوری بھلائی کے ذریعے سے ترغیب دی، چنانچہ فرمایا: ﴿ یُّرْسِلِ السَّمَآءَؔ عَلَیْكُمْ مِّؔدْرَارًا﴾ یعنی وہ تم پر لگاتار بارش برسائے گا جو وادیوں اور ٹیلوں کو سیراب کر دے گی، شہروں اور بندوں کو زندگی عطا کرے گی۔﴿ وَّیُمْدِدْؔكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ﴾ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے اموال میں، جن کے ذریعے سے تم دنیا کی ہر وہ چیز حاصل کرتے ہو، جس کی تمھیں طلب ہوتی ہے، اور تمھاری اولاد میں کثرت عطا کرے گا ﴿وَیَجْعَلْ لَّـكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّـكُمْ اَنْ٘هٰرًا﴾ ’’اور تمھارے لیے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا۔‘‘ یہ دنیا کی لذتوں اور اس کے مطالب کی انتہا ہے۔
#
{13 ـ 14} {ما لكم لا ترجونَ لله وَقارا}؛ أي: لا تخافون لله عظمةً وليس لله عندكم قَدْرٌ، {وقد خَلَقَكم أطواراً}؛ أي: خلقاً من بعد خلقٍ في بطن الأمِّ ثم في الرَّضاع ثم في سنِّ الطفوليَّة ثم التمييز ثم الشباب ثم إلى آخر ما يصل إليه الخلق؛ فالذي انفردَ بالخَلْق والتَّدبير البديع متعيَّنٌ أن يُفْرَدَ بالعبادة والتوحيد، وفي ذكر ابتداء خلقهم تنبيهٌ لهم على المعاد ، وأنَّ الذي أنشأهم من العدم قادرٌ على أن يعيدَهم بعد موتهم.
[14,13] ﴿ مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا﴾ تمھیں کیا ہے، تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے لیے اس سے خوف نہیں کھاتے اور تمھارے ہاں اللہ تعالیٰ کی کوئی قدر نہیں؟ ﴿ وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا﴾ ’’حالانکہ اس نے تمھیں مختلف اطوار میں پیدا کیا۔‘‘ یعنی ماں کے پیٹ میں، تخلیق کے مختلف مراحل میں پیدا کیا، پھر رضاعت، پھر سن طفولیت، پھر سن تمیز اور پھر جوانی میں منتقل کیا، پھر اس مرحلے میں لے گیا جہاں تمام مخلوق پہنچتی ہے۔ پس وہ ہستی جو تخلیق اور بے مثال تدبیر میں منفرد ہے، صرف اسی کے لیے عبادت اور توحید مختص ہے۔ بندوں کی تخلیق کی ابتدا کے ذکر میں معاد کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہستی جو انھیں عدم سے وجود میں لائی، ان کے مرنے کے بعد انھیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔
#
{15 ـ 16} واستدلَّ أيضاً بخلقِ السماواتِ التي هي أكبر من خلق الناس، فقال: {ألم تَرَوْا كيف خَلَقَ الله سبع سمواتٍ طباقاً}؛ أي: كلّ سماءٍ فوق الأخرى، {وجعل القمر فيهنَّ نوراً}: لأهل الأرض، {وجعل الشمسَ سِراجاً}: ففيه تنبيهٌ على عظم خلق هذه الأشياء، وكثرة المنافع في الشمس والقمر، الدالَّة على رحمة الله وسعة إحسانه؛ فالعظيم الرحيم يستحقُّ أن يعظَّم ويُحبَّ ويُخاف ويُرجى.
[16,15] اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی تخلیق سے بھی استدلال کیا ہے، جن کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ تَرَوْا كَیْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا﴾ ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اورپر تلے بنائے ہیں۔‘‘ یعنی ہر آسمان کو دوسرے آسمان کے اوپر پیدا کیا۔ ﴿ وَّجَعَلَ الْ٘قَ٘مَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا﴾ ’’ اور چاند کو ان میں نور بنایا۔‘‘ یعنی زمین والوں کے لیے ﴿ وَّجَعَلَ الشَّ٘مْسَ سِرَاجًا﴾ ’’اور سورج کو چراغ بنایا۔‘‘ اس میں ان اشیاء کی تخلیق کے بڑے ہونے، نیز سورج اور چاند کے فوائد کی کثرت کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے بے پایاں احسان پر دلالت کرتی ہے۔ پس وہ عظیم اور رحیم ہستی مستحق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے، اس سے ڈرا جائے اور امید رکھی جائے۔
#
{17 ـ 18} {والله أنبتَكم من الأرض نباتاً}: حين خلق أباكم آدمَ وأنتم في صلبِهِ، {ثم يعيدُكم فيها}: عند الموت، {ويخرِجُكم إخراجاً}: للبعث والنشور؛ فهو الذي يملك الحياة والموت والنشور.
[18,17] ﴿وَاللّٰهُ اَنْۢـبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا﴾ ’’اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے۔‘‘ جب تمھارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور تم اس کی صلب میں تھے۔﴿ ثُمَّ یُعِیْدُكُمْ فِیْهَا﴾ ’’ پھر تمھیں اسی میں لوٹائے گا۔‘‘یعنی موت کے وقت ﴿ وَیُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا﴾ اور وہ تمھیں حشر و نشر کے لیے زمین سے نکالے گا۔ وہی ہے جو زندگی عطا کرنے، موت دینے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر اختیار رکھتا ہے۔
#
{19 ـ 20} {والله جعل لكم الأرض بساطاً}؛ أي: مبسوطةً مهيئة للانتفاع بها، {لِتَسْلُكوا منها سُبُلاً فِجاجاً}: فلولا أنَّه بسطها؛ لما أمكن ذلك، بل ولا أمكنهم حرثها وغرسها وزرعها والبناء والسكون على ظهرها.
[20,19] ﴿ وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا﴾ ’’اور اللہ ہی نے زمین کو تمھارے لیے فرش بنایا۔‘‘ یعنی زمین کو استفادے کی خاطر پھیلا کر تیار کر دیا ﴿لِّتَسْلُكُوْا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا﴾ ’’تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو۔‘‘ پس اگر اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلایا نہ ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا بلکہ زمین پر کھیتی باڑی کرنا، باغ لگانا، زراعت کرنا ، عمارتیں تعمیر کرنا اور سکونت اختیار کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔
#
{21 ـ 24} {قال نوحٌ}: شاكياً لربِّه: إنَّ هذا الكلام والوعظ والتَّذكير ما نَجَعَ فيهم ولا أفاد: {إنَّهم عَصَوْني}: فيما أمرتُهم به، {واتَّبعوا مَنْ لم يَزِده مالُه وولدُه إلاَّ خساراً}؛ أي: عَصَوُا الرسول الناصح الدالَّ على الخير، واتَّبعوا الملأ والأشراف الذين لم تَزِدْهم أموالُهم ولا أولادُهم إلاَّ خساراً؛ أي: هلاكاً وتفويتاً للأرباح؛ فكيف بِمَنِ انقادَ لهم وأطاعهم؟! {ومكروا مَكْراً كُبَّاراً}؛ أي: مكراً كبيراً بليغاً في معاندة الحقِّ. قالوا لهم داعين إلى الشرك مزينين له: {لا تَذَرُنَّ آلهتكم}: فدعوهم إلى التعصُّب على ما هم عليه من الشرك، وأن لا يَدَعوا ما عليه آباؤهم الأقدمون، ثم عيَّنوا آلهتهم، فقالوا: {ولا تَذَرُنَّ ودًّا ولا سُواعاً ولا يَغوثَ ويعوقَ ونَسْراً}: وهذه أسماء رجال صالحين؛ لما ماتوا؛ زيَّن الشيطان لقومهم أن يصوِّروا صورهم؛ لينشطوا بزعمهم على الطاعةِ إذا رأوها، ثم طال الأمدُ، وجاء غير أولئك، فقال لهم الشيطانُ: إنَّ أسلافَكم يعبدونهم ويتوسَّلون بهم، وبهم يُسْقَوْن المطر، فعبدوهم، ولهذا وصَّى رؤساؤهم للتابعين لهم أن لا يَدَعوا عبادة هذه الأصنام ، {وقد أضلُّوا كثيراً}؛ أي: أضلَّ الكبار والرؤساء بدعوتهم كثيراً من الخلق. {ولا تزِدِ الظالمينَ إلاَّ ضلالاً}؛ أي: لو كان ضلالهم عند دعوتي إيَّاهم للحقِّ ؛ لكان مصلحةً، ولكن لا يزيدون بدعوة الرؤساء إلاَّ ضلالاً؛ أي: فلم يبق محلٌّ لنجاحهم وصلاحهم.
[24-21] ﴿ قَالَ نُوْحٌ﴾ نوح u نے اپنے رب کے حضور شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے اندر اس کلام اور وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہیں دیا ﴿ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ﴾ اے میرے رب! انھوں نے ان تمام امور میں میری نافرمانی کی ہے جن کا میں نے ان کو حکم دیا ﴿ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَوَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًا﴾ یعنی انھوں نے خیر خواہی کرنے اور بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والے رسول کی نافرمانی کی اور ان بڑے لوگوں اور اشراف کی پیروی کی جن کو ان کے مال اور اولاد نے خسارے میں ڈالا، یعنی ان کو ہلاکت میں مبتلا کیا اور منافع سے محروم کر دیا، تب اس شخص کا کیا حال ہو گا جس نے ان کی اطاعت کی اور ان کے احکام پر عمل کیا؟ ﴿ وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًؔا﴾ یعنی انھوں نے حق کے خلاف عناد میں بہت بڑی چال چلی ﴿وَقَالُوْا﴾اور انھوں نے شرک کی دعوت دیتے اور اس کو مزین کرتے ہوئے کہا: ﴿ لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ﴾ ’’اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔‘‘ انھوں نے ان کو اس شرک کے تعصب کی طرف بلایا جس پر وہ عمل پیرا تھے اور کہا کہ وہ اس دین کو نہ چھوڑیں جس کو ان کے پہلے آباء و اجداد نے اختیار کیا ہوا تھا، پھر انھوں نے اپنے معبودوں کا نام لے کر کہا :﴿ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا١ۙ ۬ وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا﴾ ’’ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔‘‘ یہ نیک لوگوں کے نام ہیں، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے سامنے یہ مزین کر دیا کہ وہ ان نیک لوگوں کے بت بنائیں تاکہ ... بزعم خود ... جب وہ ان کو دیکھیں تو ان کو اطاعت میں نشاط حاصل ہو۔ جب طویل زمانہ گزر گیا اور ان کے بعد دوسرے لوگ آئے تو شیطان نے ان سے کہا ’’تمھارے اسلاف ان بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کو وسیلہ بنایا کرتے تھے، اور ان کے وسیلے سے بارش مانگا کرتے تھےتو انھوں نے ان کی پوجا شروع کردی، اسی لیے ان کے سرداروں نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی کہ وہ ان بتوں کی عبادت کو نہ چھوڑیں۔ ﴿ وَقَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا﴾ یعنی ان بڑوں اور سرداروں نے اپنی دعوت کے ذریعے سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ﴿ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا﴾ ’’تو تُو ان کو اور گمراہ کردے۔‘‘ میرے ان کو حق کی دعوت دینے کے وقت اگر وہ گمراہ ہوتے تو یہ مصلحت تھی مگر ان سرداروں کی دعوت سے ان کی گمراہی میں اضافہ ہی ہوا ہے، یعنی اب ان کی کامیابی اور اصلاح کا کوئی امکان باقی نہیں۔
#
{25} ولهذا ذكر الله عذابَهم وعقوبتهم الدنيويَّة والأخرويَّة، فقال: {ممَّا خطيئاتِهِم أغْرِقوا}: في اليمِّ الذي أحاط بهم، {فأدْخِلوا ناراً}: فذهبت أجسادُهم في الغرق وأرواحُهم للنار والحرق. وهذا كلُّه بسبب خطيئاتهم التي أتاهم نبيُّهم [نوح] ينذِرُهم عنها ويخبِرُهم بشؤمها ومغبَّتها، فرفضوا ما قال، حتى حلَّ بهم النَّكال، {فلم يجِدوا لهم من دونِ الله أنصاراً}: ينصُرونهم حين نزل بهم الأمرُ الأمرُّ، ولا أحد يقدر يعارِضُ القضاء والقدر.
[25] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیاوی اور اخروی عذاب اور عقوبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مِمَّا خَطِیْٓــٰٔتِهِمْ۠ اُغْ٘رِقُوْا﴾ ’’وہ اپنے گناہوں کے سبب غرق کردیے گئے۔‘‘ سمندر کی مانند سیلاب میں غرق کر دیے گئے جس نے ان کو گھیر لیا تھا۔ ﴿ فَاُدْخِلُوْا نَارًا﴾’’پس وہ آگ میں ڈال دیے گئے۔‘‘ ان کے اجساد پانی میں چلے گئے اور ارواح آگے کے حوالے کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ ان کے گناہوں کے سبب سے تھا جن کے بارے میں ان کا نبی نوح (u) آ کر انھیں متنبہ کرتا رہا، ان کے گناہوں کی نحوست اور ان کے برے انجام سے آگاہ کرتا رہا۔ ان کے نبی نے جو کچھ کہا، انھوں نے اس کو دور پھینک دیا، یہاں تک کہ ان پر عذاب نازل ہو گیا۔ ﴿ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًؔا﴾ پس انھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہ ملے جو ان کی اس وقت مدد کرتے جب ان پر عذاب نازل ہوا اور نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی کا مقابلہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
#
{26 ـ 27} {وقال نوحٌ ربِّ لا تَذَرْ على الأرضِ من الكافرين ديَّاراً}: يدور على وجه الأرض. وذكر السبب في ذلك، فقال: {إنَّك إن تَذَرْهُم يُضِلُّوا عبادك ولا يَلِدوا إلاَّ فاجراً كفَّاراً}؛ أي: بقاؤهم مفسدةٌ محضةٌ لهم ولغيرهم، وإنَّما قال نوحٌ ذلك؛ لأنَّه مع كثرة مخالطته إيَّاهم ومزاولته لأخلاقهم؛ علم بذلك نتيجة أعمالهم؛ فلهذا استجاب الله له دعوته فأغرقهم أجمعين، ونجَّى نوحاً ومن معه من المؤمنين.
[27,26] ﴿ وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا﴾ ’’نوح (u) نے دعا کی، میرے رب! کسی کافر کو روئے زمین پر بسا نہ رہنے دے۔‘‘ جو روئے زمین پر گھومتا پھرتا رہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب بھی ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًؔا﴾ ’’اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی ناشکرگزار ہوگی۔‘‘ یعنی ان کا باقی رہنا، خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے محض فساد کا باعث ہو گا۔ حضرت نوحu نے یہ بات اس لیے کہی تھی کیونکہ ان کے ساتھ کثرت اختلاط اور ان کے اخلاق سے واسطہ ہونے کی بنا پر آپ کو ان کے اعمال کا نتیجہ معلوم تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نوح u کی دعا قبول فرما لی، پس اللہ نے ان سب کو غرق کر دیا اور حضرت نوحu اور ان کے ساتھ جو اہل ایمان تھے ان سب کو بچا لیا۔
#
{28} {ربِّ اغفِرْ لي ولوالديَّ ولِمَنْ دَخَلَ بيتي مؤمناً}: خصَّ المذكورين لتأكُّد حقِّهم وتقديم برِّهم، ثم عمَّم الدُّعاء، فقال: {وللمؤمنين والمؤمنات ولا تزِدِ الظالمينَ إلا تَباراً}؛ أي: خساراً ودماراً وهلاكاً.
[28] ﴿ رَبِّ اغْ٘فِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا﴾ ’’اے میرے رب! مجھے میرے ماں باپ کو اور اس کو جو ایمان لاکر میرے گھر میں آئے بخش دے ۔‘‘ حضرت نوحu نے (اپنی دعا کے لیے) مذکورہ لوگوں کو مختص کیا کیونکہ ان کے حق مؤکد اور ان کے ساتھ نیکی مقدم ہے، پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہوئے کہا: ﴿ وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ۠ وَالْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًؔا﴾ ’’اورایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور ظالم لوگوں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔‘‘ یعنی ظالموں کے لیے حسرت، تباہی اور ہلاکت میں اضافہ کر۔