آیت:
تفسیر سورۂ منافقون
تفسیر سورۂ منافقون
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 6 #
{إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (1) اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (2) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ (3) وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (4) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ (5) سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (6)}
جب آتے ہیں آپ کے پاس منافق تو وہ کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ رسول ہیں اللہ کے اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ رسول ہیں اس کےاور اللہ شہادت دیتا ہے کہ یقیناً منافق البتہ جھوٹے ہیں(1) انھوں نے بنایا ہے اپنی قسموں کو ڈھال، پس روکا انھوں نے (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے، بلاشبہ وہ برا ہے جو ہیں وہ عمل کرتے(2) یہ اس لیے کہ بلاشبہ وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا تو مہر لگا دی گئی اوپر ان کے دلوں کے، پس وہ نہیں سمجھتے(3) اور جب دیکھتے ہیں آپ ان کو تو اچھے لگتے ہیں آپ کو ان کے جسم اور اگر وہ (کوئی بات) کہیں تو آپ کان لگائیں ان کی بات پر گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں ٹیک لگائی ہوئیں وہ گمان کرتے ہیں ہر بلند آواز کو اپنے خلاف ہی وہ دشمن ہیں (پورے) پس آپ بچیں ان سے، ہلاک کرے ان کو اللہ کہاں پھیرے جاتے ہیں وہ؟(4) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، آؤ استغفار کریں تمھارے لیے رسول اللہ تو موڑ لیتے ہیں وہ اپنے سر اور آپ دیکھیں گے انھیں کہ وہ رکتے ہیں اس حال میں کہ وہ تکبر کرتے ہیں(5) برابر ہے ان پر کیا آپ استغفار کریں ان کے لیے یا نہ استغفار کریں ان کے لیے، ہرگز نہیں بخشے گا اللہ ان کو، بلاشبہ اللہ نہیں ہدایت دیتا فاسق قوم کو(6)
#
{1} لمَّا قدم النبيُّ (- صلى الله عليه وسلم -) المدينة، وكَثُرَ الإسلام فيها وعزَّ ؛ صار أناس من أهلها من الأوس والخزرج يظهِرون الإيمان ويبطِنون الكفر؛ ليبقى جاهُهم وتُحْقَنَ دماؤهم وتَسْلَم أموالهم، فذكر الله من أوصافهم ما به يُعرفون؛ لكي يحذر العباد منهم ويكونوا منهم على بصيرةٍ، فقال: {إذا جاءك المنافقون قالوا}: على وجه الكذب: {نشهدُ إنَّك لرسولُ اللهِ}: وهذه الشهادة من المنافقين على وجه الكذب والنفاق، مع أنَّه لا حاجة لشهادتهم في تأييد رسوله، فإنَّ اللَّه {يعلمُ إنَّك لرسوله واللهُ يشهدُ إنَّ المنافقين لَكاذبونَ}: في قولهم ودعواهم، وأنَّ ذلك ليس بحقيقة منهم.
[1] جب نبی ٔ کریم e مدینہ تشریف لائے اور یہاں اسلام نہایت کثرت سے پھیل گیا اور اسے غلبہ حاصل ہوا تو اہل مدینہ، یعنی بنواوس اور بنوخزرج میں سے کچھ لوگ اسلام ظاہر کرنے اور باطن میں کفر رکھنے لگے تاکہ ان کا جاہ باقی، ان کی جان محفوظ اور ان کا مال سلامت رہے ،پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کے ذریعے سے وہ پہچانے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان سے بچیں اور لوگوں کو ان کے بارے میں بصیرت حاصل ہو، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِذَا جَآءَؔكَ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا﴾ جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿ نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ﴾ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ منافقین کی یہ گواہی جھوٹ اور نفاق پر مبنی ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی تائید کے لیے ان کی گواہی کی ضرورت ہی نہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ١ؕ وَاللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ لَكٰذِبُوْنَ﴾ ’’اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں۔ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔‘‘ وہ اپنے قول اور دعوے میں جھوٹے ہیں اور ان کے قول میں کوئی حقیقت نہیں۔
#
{2} {اتَّخذوا أيمانَهم جُنَّة}؛ أي: ترساً يتترَّسون بها من نسبتهم إلى النفاق، فصدُّوا عن سبيله بأنفسهم، وصدُّوا غيرهم ممَّن يخفى عليه حالُهم. {إنَّهم ساء ما كانوا يعملونَ}: حيث أظهروا الإيمان وأبطنوا الكفر وأقسموا على ذلك وأوهموا صدقهم.
[2] ﴿ اِتَّؔخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً ﴾ یعنی انھوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا رکھا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کو نفاق سے منسوب ہونے سے بچاتے ہیں ﴿ فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ انھوں نے خود کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک رکھا اور دوسرے لوگوں کو بھی روکتے ہیں جن پر ان کا حال مخفی ہے۔ ﴿اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ کچھ شک نہیں یہ جو کام کرتے ہیں، وہ برے ہیں۔‘‘ کہ انھوں نے ایمان ظاہر کیا اور کفر کو چھپایا، اپنے ایمان پر قسمیں کھائیں اور اپنی صداقت کا تأثر دیا۔
#
{3} {ذلك}: الذي زين لهم النفاق، {بـ} سبب {أنَّهم} لا يَثْبُتون على الإيمان، بل {آمنوا ثم كفروا فَطُبِعَ على قلوبهم}: بحيث لا يدخلها الخيرُ أبداً. {فهم لا يَفْقَهون}: ما ينفعهم ولا يَعونَ ما يعودُ بمصالحهم.
[3] ﴿ ذٰلِكَ﴾ وہ چیز جس نے ان کے سامنے نفاق کو مزین کر دیا ﴿ بِاَنَّهُمْ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایمان پر ثابت قدم نہیں ہیں، بلکہ ﴿ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَ٘طُ٘بِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ﴾ ’’وہ ایمان لائے، پھر کافر ہوگئے تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی۔‘‘ کہ بھلائی ان کے دلوں میں کبھی بھی داخل نہیں ہو سکے گی۔ ﴿ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ﴾ پس وہ سمجھتے نہیں کہ کون سی چیز انھیں فائدہ دیتی ہےاور وہ یاد نہیں رکھتے کہ کیا چیز ان کے مصالح کے لیے فائدہ مند ہے؟
#
{4} {وإذا رأيتَهم تُعْجِبُكَ أجسامُهم}: من روائها ونضارتها، {وإن يقولوا تَسْمَعْ لقولِهم}؛ أي: من حسن منطقهم تستلذُّ لاستماعه؛ فأجسامُهم وأقوالُهم معجبةٌ، ولكن ليس وراء ذلك من الأخلاق الفاضلة والهَدي الصالح شيءٌ، ولهذا قال: {كأنَّهم خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ}: لا منفعة فيها ولا يُنال منها إلاَّ الضَّرر المحض. {يَحْسَبون كلَّ صيحةٍ عليهم}: وذلك لجبنهم وفزعهم وضعف قلوبِهم ورَيْبها ؛ يخافون أن يُطَّلع عليها؛ فهؤلاء {هم العدو} على الحقيقة؛ لأنَّ العدوَّ البارز المتميِّز أهونُ من العدوِّ الذي لا يشعَر به، وهو مخادعٌ ماكرٌ، يزعم أنَّه وليٌّ، وهو العدو المبين. {فاحذَرْهم قاتَلَهُمُ الله أنَّى يُؤْفَكونَ}؛ أي: كيف يُصْرَفُون عن الدين الإسلاميِّ بعدما تبينت أدلَّته واتَّضحت معالمه إلى الكفر الذي لا يُفيدهم إلاَّ الخسار والشقاء.
[4] ﴿ وَاِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ﴾ ’’اور جب آپ انھیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی خوش نمائی اور تروتازگی کی وجہ سے ﴿ وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَ٘سْمَعْ لِقَوْلِهِمْ﴾ یعنی آپ ان کے حسن کلام کی وجہ سے ان کی باتوں کو سن کر لذت حاصل کرتے ہیں۔ پس ان کے اقوال اور اجسام بہت اچھے لگتے ہیں، مگر ان کے پیچھے اخلاق فاضلہ ہیں نہ اچھا لائحہ عمل، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ﴾ ’’گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگائی گئی ہیں۔‘‘ جن میں کوئی منفعت نہیں ہوتی اور ان سے صرف نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ﴿ یَحْسَبُوْنَ كُ٘لَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْ﴾ ’’وہ ہر زور کی آواز کو سمجھتے ہیں کہ انھی پر (بلا آئی) ہے۔‘‘ اور یہ ان کی بز دلی، خوف ، دلی کمزوری اور دلوں میں شکوک و شبہات کے سبب سے ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ان باتوں کا پتہ نہ چل جائے۔یہی لوگ ہیں ﴿ هُمُ الْعَدُوُّ﴾ جو حقیقی دشمن ہیں کیونکہ ظاہر اور پہچاناہوا دشمن اس دشمن کی نسبت کم نقصان دہ ہے جس کے بارے میں معلوم نہ ہو، وہ دھوکے باز اور چالاک ہو اور وہ یہ ظاہر کرتا ہو کہ وہ دوست ہے، حالانکہ وہ کھلا دشمن ہے۔ ﴿ فَاحْذَرْهُمْ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١ٞ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ﴾’’پس آپ ان سے بچیں، اللہ انھیں ہلاک کرے، یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟‘‘ دین اسلام کے دلائل واضح ہو جانے اور اس کے کارنامے نمایاں ہو جانے کے بعد بھی دین اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف کیسے مائل ہو رہے ہیں ، جو انھیں خسارے اور بدبختی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔
#
{5} {وإذا قيل}: لهؤلاء المنافقين: {تعالَوْا يَسْتَغْفِرْ لكم رسولُ الله}: عمَّا صدر منكم؛ لتحسن أحوالكم، وتُقبل أعمالكم؛ امتنعوا من ذلك أشدَّ الامتناع، و {لَوَّوْا رؤوسَهم}: امتناعاً من طلب الدُّعاء من الرسول، {ورأيتَهم يصدُّون}: عن الحقِّ بغضاً له، {وهم مستكبِرونَ}: عن اتِّباعه بغياً وعناداً. فهذه حالُهم عندما يُدْعَوْنَ إلى طلب الدُّعاء من الرسول.
[5] ﴿ وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ﴾ یعنی جب ان منافقین سے کہا جاتا ہے ﴿ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ﴾آؤ تاکہ رسول تمھارے ان گناہوں کے بارے میں تمھارے لیے استغفار کریں جو تم سے صادر ہوئے ہیں، تاکہ تمھارے احوال درست اور تمھارے اعمال قبول ہوں مگر وہ نہایت شدت سے ایسا کرنے سے رکے رہے۔ ﴿ لَوَّ٘وْا رُءُوْسَهُمْ﴾ ’’تو اپنے سر ہلادیتے ہیں۔‘‘ رسول سے دعا طلب کرنے سے بچنے کے لیے۔ ﴿ وَرَاَیْتَهُمْ یَصُدُّوْنَ﴾ ’’اور آپ انھیں دیکھتے کہ وہ حق کے ساتھ بغض کی وجہ سے حق کو قبول کرنے سے رک جاتے ہیں ﴿ وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ﴾ اور وہ سرکشی ، عناد اور تکبر کی بنا پر حق کی اتباع نہیں کرتے۔جب رسول اللہ e سے مغفرت کی دعا کرانے کے لیے ان کو بلایا جاتا ہے تو ان کی یہ حالت ہوتی ہے (جس کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے)۔
#
{6} وهذا من لطف الله وكرامته لرسوله؛ حيث لم يأتوا إليه فيستغفر لهم، فإنَّه {سواءٌ} أستغفر لهم أمْ لم يَسْتَغْفِر لهم فَـ {لن يَغْفِرَ اللهُ لهم}؟ وذلك لأنَّهم قومٌ فاسقون خارجون عن طاعة الله مؤثِرون للكفر على الإيمان؛ فلذلك لا ينفع فيهم استغفارُ الرسول لو استغفر لهم؛ كما قال تعالى: {استَغْفِر لهم أو لا تَسْتَغْفِرْ لهم إن تَسْتَغْفِرْ لهم سبعينَ مرةً فلن يَغْفِرَ الله لهم}. {إنَّ الله لا يَهْدي القوم الفاسقينَ}.
[6] اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول e پر لطف و کرم ہے کہ وہ آپ سے مغفرت کی دعا کروانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے کیونکہ رسول اللہe ان کے لیے مغفرت طلب کریں یا نہ کریں، ان پر برابر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نافرمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلے ہوئے اور ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے لوگ ہیں، اس لیے رسول (e) کا استغفار انھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَ٘سْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَ٘سْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَ٘نْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ﴾ (التوبہ: 9؍80) ’’آپ ان کے لیے استغفار کریں، یا ان کے لیے استغفار نہ کریں، اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ’’اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت سے بہرہ مند نہیں کرتا۔‘‘
آیت: 7 - 8 #
{هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ (7) يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (8)}.
وہ، وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہ خرچ کرو تم ان پر جو پاس ہیں رسول اللہ کے یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں اور اللہ ہی کے لیے ہیں خزانے آسمانوں اور زمین کے اور لیکن منافق نہیں سمجھتے(7) وہ کہتے ہیں، البتہ اگر لوٹ کر گئے ہم مدینہ کی طرف تو ضرور نکال ديں گے، معزز ترین لوگ اس (مدینہ) سے ذلیل ترین لوگوں کو، اور اللہ ہی کے لیے ہے عزت اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے اور لیکن منافق (اس حقیقت کو) نہیں جانتے(8)
#
{7} وهذا من شدَّة عداوتهم للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم - والمسلمين، لما رأوا اجتماع أصحابه وائتلافَهم ومسارعتَهم في مرضاة الرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ قالوا بزعمهم الفاسد: {لا تُنفِقوا على مَنْ عندَ رسول حتى يَنفَضُّوا}: فإنَّهم على زعمهم لولا أموالُ المنافقين ونفقاتُهم عليهم؛ لما اجتمعوا في نصرة دين الله! وهذا من أعجب العجب أن يدَّعِيَ هؤلاء المنافقون الذين هم أحرصُ الناس على خذلان الدين وأذيَّة المسلمين مثل هذه الدَّعوى التي لا تَروجُ إلاَّ على مَنْ لا علم له بالحقائق ، ولهذا قال تعالى ردًّا لقولهم: {ولله خزائنُ السمواتِ والأرض}: فيؤتي الرزق مَنْ يشاءُ، ويمنعه من يشاء، وييسِّر الأسباب لمن يشاء، ويعسِّرها على مَنْ يشاء. {ولكنَّ المنافقينَ لا يفقهونَ} فلذلك قالوا تلك المقالة التي مضمونُها أنَّ خزائن الرزقِ في أيديهم وتحت مشيئتهم.
[7] یہ ان کی نبی ٔاکرم e اور مسلمانوں کے ساتھ شدت عداوت ہے کہ جب انھوں نے صحابہ کرام y کا اتحاد، ان کی باہمی الفت اور رسول اللہ e کی رضا کی طلب میں ان کی مسارعت کو دیکھا تو اپنے زعم فاسد کے مطابق کہنے لگے: ﴿ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى یَنْفَضُّوْا﴾ ’’تم ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔‘‘ کیونکہ... ان کے زعم باطل کے مطابق... اگر منافقین کے اموال اور نفقات نہ ہوتے تو مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے اکٹھے نہ ہوتے۔ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ یہ منافقین، جو دین کی مدد چھوڑنے اور مسلمانوں کو اذیت دینے کی لوگوں میں سب سے زیادہ خواہش رکھتے ہیں، اس قسم کا دعویٰ کریں جس کو صرف وہی شخص قبول کر سکتا ہے جس کو حقائق کا علم نہیں۔ اس لیے الله تعالى نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے۔‘‘ پس وہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق سے محروم کر دیتا ہے، جسے چاہتا ہے اس کے لیے رزق کے ذرائع آسان بنا دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق کے ذرائع بہت مشکل کر دیتا ہے ﴿ وَلٰكِنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَهُوْنَ﴾ ’’لیکن منافق نہیں سمجھتے۔‘‘ اس لیے انھوں نے یہ بات کہی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ رزق کے خزانے ان کے قبضۂ قدرت اور ان کی مشیت کے تحت ہیں۔
#
{8} {يقولون لئن رَجَعْنا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأعزُّ منها الأذلَّ}: وذلك في غزوة المريسيع، حين صار بين بعض المهاجرين والأنصار بعض كلام كدَّرَ الخواطر؛ ظهر حينئد نفاقُ المنافقين، وتبيَّن ما في قلوبهم ، وقال كبيرهم عبدُ الله بنُ أبيِّ بنُ سلول: ما مَثَلُنا ومَثَلُ هؤلاء ـ يعني: المهاجرين ـ إلاَّ كما قال القائل: سَمِّنْ كلبك يأكلك. وقال: لئنْ رجَعْنا إلى المدينة لَيُخْرِجَنَّ الأعزُّ منها الأذلَّ؛ بزعمه أنَّه هو وإخوانه المنافقين الأعزُّون، وأنَّ رسول الله ومن اتَّبعه هم الأذلُّون، والأمر بعكس ما قال هذا المنافق، فلهذا قال تعالى: {ولله العزَّةُ ولرسوله وللمؤمنين}: فهم الأعزَّاء، والمنافقون وإخوانُهم من الكفار هم الأذلاَّء. {ولكنَّ المنافقين لا يعلمون}: ذلك؛ فلذلك زعموا أنَّهم الأعزَّاء اغتراراً بما هم عليه من الباطل.
[8] ﴿ یَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ﴾ ’’وہ کہتے تھے: ’’البتہ اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو معزز ترین لوگ وہاں سے ذلیل ترین لوگوں کو نکال دیں گے۔‘‘ یہ واقعہ غزوۂ مریسیع میں پیش آیا، جب کچھ مہاجرین اور انصار کے درمیان تلخ کلامی اور شکر رنجی پیدا ہوئی، اس وقت منافقین کا نفاق سامنے آ گیا اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا ظاہر ہوا۔ ان کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا: ’’ہماری اور ان کی ( یعنی مہاجرین کی) مثال تو بس وہ ہے جیسا کہ کسی کا قول ہے: اپنے کتے کو موٹا کرو تجھے ہی کھائے گا۔‘‘ اور کہنے لگا : ﴿ لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ﴾ ’’اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ ‘‘ اس کے زعم باطل کے مطابق وہ اور اس کے بھائی دیگر منافقین باعزت لوگ ہیں، اور رسول مصطفیe اور آپ کی اتباع کرنے والے ذلیل ہیں، حالانکہ معاملہ اس منافق کے قول کے برعکس تھا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلِلّٰهِ الْ٘عِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ٘ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ۠﴾ ’’حالانکہ عزت اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے ہے اور مومنوں کے لیے ہے۔‘‘ پس یہی عزت والے ہیں، منافقین اور ان کے بھائی ہی ذلیل ہیں۔ ﴿ وَلٰكِنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’مگر منافقین اس حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے وہ اپنے باطل موقف کے فریب میں مبتلا ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہی عزت والے ہیں۔
آیت: 9 - 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (9) وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ (10) وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (11)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ غافل کر دے تمھیں تمھارا مال اور نہ تمھاری اولاد اللہ کے ذکر سے اور جو کوئی کرے یہ کام تو وہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے(9) اور خرچ کرو تم اس میں سے جو رزق دیا ہے ہم نے تمھیں، پہلے اس سے کہ آئے کسی ایک کو تم میں سے موت ، پھر وہ کہے، اے میرے رب! کیوں نہیں ڈھیل (مہلت) دی تو نے مجھے ایک تھوڑی مدت تک کہ صدقہ کرتا میں اور ہو جاتا میں صالح لوگوں میں سے؟ (10) اور ہرگز نہیں ڈھیل (مہلت) دے گا اللہ کسی نفس کو جب آ جائے گی اجل اس کی، اور اللہ خوب خبردار ہے ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو (11)
#
{9} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالإكثار من ذِكْرِه؛ فإنَّ في ذلك الربح والفلاح والخيراتِ الكثيرةَ، وينهاهم أنْ تَشْغَلَهم أموالُهم وأولادُهم عن ذِكره؛ فإنَّ محبَّة المال والأولاد مجبولةٌ عليها أكثر النفوس، فتقدِّمها على محبة الله، وفي ذلك الخسارة العظيمة، ولهذا قال تعالى: {ومَن يفعلْ ذلك}؛ أي: يُلْهِهِ مالُه وولدُه عن ذكر الله، {فأولئك هم الخاسرونَ}: للسعادة الأبديَّة والنعيم المقيم؛ لأنَّهم آثروا ما يفنى على ما يبقى؛ قال تعالى: {إنَّما أموالكم وأولادُكم فتنةٌ والله عنده أجرٌ عظيمٌ}.
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس میں نفع، فوز و فلاح اور بے شمار بھلائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مال اور اولاد کی محبت میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے سے روکا ہے کیونکہ مال اور اولاد کی محبت اکثر نفوس کی جبلت ہے، پس وہ مال اور اولاد کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بہت بڑا خسارہ ہے اس لیے فرمایا :﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ﴾ جسے اس کے مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کر دیتے ہیں ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ﴾ ’’تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے بارے میں خسارے میں رہنے والے ہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ رہنے والی چیز پر فانی چیز کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُؔكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾ (التغابن:64؍15) ’’بے شک تمھارے مال ا ور تمھاری اولاد آزمائش ہیں، اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
#
{10} وقوله: {وأنفقوا ممَّا رَزَقْنَاكُم}: يدخلُ في هذه النفقات الواجبة من الزكاة والكفارات ، ونفقة الزوجات والمماليك، ونحو ذلك، والنفقات المستحبَّة؛ كبذل المال في جميع المصالح، وقال: {ممَّا رَزَقْناكم}: ليدلَّ ذلك على أنَّه تعالى لم يكلِّف العباد من النفقة ما يُعْنِتُهُمْ ويشقُّ عليهم، بل أمرهم بإخراج جزءٍ ممَّا رزقهم ويسَّره ويسَّر أسبابه، فليشكروا الذي أعطاهم بمواساة إخوانهم المحتاجين، وليبادروا بذلك، الموت الذي إذا جاء؛ لم يمكن العبد أن يأتي بمثقال ذرَّة من الخير، ولهذا قال: {من قبل أن يأتيَ أحدَكم الموتُ فيقولَ}: متحسراً على ما فَرَّطَ في وقت الإمكان، سائلاً الرجعةَ التي هي محالٌ: {ربِّ لولا أخَّرْتَني إلى أجل قريبٍ}؛ أي: لأتدارك ما فرَّطتُ فيه، {فأصَّدَّقَ}: من مالي ما به أنجو من العذاب، وأستحقُّ [به] جزيل الثواب، {وأكن من الصالحين}: بأداء المأموراتِ كلِّها واجتناب المنهيَّات، ويدخل في هذا الحجُّ وغيره.
[10] ﴿ وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ’’اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو۔‘‘ اس حکم میں تمام نفقات واجبہ ، مثلاً: زکاۃ، کفارات، اہل و عیال اور غلاموں وغیرہ کا نان و نفقہ اور تمام نفقات مستحبہ ، مثلاً: تمام مصالح میں مال خرچ کرنا شامل ہیں اور فرمایا: ﴿ مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ﴾ یہ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے نفاق کا مکلف نہیں بنایا جو ان کے لیے نہایت مشکل ہو اور ان پر شاق گزرے، بلکہ ان کو اس رزق میں سے کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکالنے کا حکم دیا ہے، جو اسی نے ان کو عطا اور میسر کیا اور اس کے اسباب مہیا کیے۔ پس انھیں چاہیے کہ وہ اپنے نادار بھائیوں کی مالی مدد کر کے اس ہستی کا شکر ادا کریں جس نے ان کو رزق عطا کیا ہے اور موت سے پہلے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ موت جب آ جائے گی تو بندے کے لیے ممکن نہ ہو گا کہ وہ ذرہ بھر بھی بھلائی کر سکے، اس لیے فرمایا :﴿ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ﴾ ’’اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے اور پھر وہ کہنے لگے۔‘‘ یعنی اس کوتاہی پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے جو اس وقت واقع ہوئی جب اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ممکن تھا اور واپس لوٹائے جانے کی التجا کرتے ہوئے، حالانکہ یہ محال ہو گا، کہے گا: ﴿ رَبِّ لَوْلَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَ٘رِیْبٍ﴾ ’’اے میرے رب! تو نے مجھے تھو ڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی؟‘‘ تاکہ جو میں نے کوتاہی کی ہے اس کا تدارک کر سکوں۔ ﴿ فَاَصَّدَّقَ﴾ پس اپنے مال میں سے صدقہ کروں جس کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ ں اور ثواب جزیل کا مستحق ٹھہروں ﴿ وَ اَكُ٘نْ مِّنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ اور تمام مامورات کو ادا کر کے اور تمام منہیات سے اجتناب کر کے صالحین میں شامل ہو سکوں اور اس میں حج وغیرہ بھی شامل ہے۔
#
{11} وهذا السؤال والتَّمني قد فات وقتُه، ولا يمكن تداركه، ولهذا قال: {ولن يؤخِّرَ اللهُ نفساً إذا جاء أجَلُها}: المحتوم لها. {والله خبيرٌ بما تعملون}: من خير وشرٍّ، فيجازيكم على ما علمه منكم من النيِّات والأعمال.
[11] اس التجا اور تمنا کا وقت چلا گیا، جس کا تدارک ممکن نہیں، بنابریں فرمایا :﴿ وَلَ٘نْ یُّؤَخِّ٘رَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا﴾ ’’اور اللہ ہر گز مہلت نہیں دیتا کسی نفس کو جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے۔‘‘ جس کا آنا حتمی ہے ۔ ﴿ وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی تم جو اچھے یا برے اعمال کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان کی خبر رکھتا ہے وہ تمھاری نیتوں اور اعمال کے بارے میں اپنے علم کے مطابق تمھیں تمھارے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔