آیت:
تفسیر سورۂ جمعہ
تفسیر سورۂ جمعہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 #
{يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (1)}.
تسبیح کرتی ہے (اس) اللہ کے لیے جو چیز ہے آسمانوں میں اور جو ہے زمین میں، (جو) بادشاہ ہے، نہایت پاکیزہ، بڑا زبردست، خوب حکمت والا(1)
#
{1} {الملكِ القدوسِ العزيزِ الحكيمِ}؛ أي: يسبح لله وينقاد لأمره ويتألَّهه ويعبده جميعُ ما في السموات والأرض؛ لأنَّه الكامل الملك، الذي له ملك العالم العلويِّ والسفليِّ؛ فالجميعُ مماليكه وتحت تدبيره. القُدُّوس المعظَّم المنزَّه عن كل آفة ونقص. العزيز القاهر للأشياء كلِّها. الحكيم في خلقه وأمره؛ فهذه الأوصاف العظيمة تدعو إلى عبادة الله وحدَه لا شريك له.
[1] یعنی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں، اس کو معبود مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں، کیونکہ وہ بادشاہ کامل ہے، جس کی عالم علوی اور عالم سفلی پر بادشاہی ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک اور اس کی تدبیر کے تحت ہے۔ ﴿ الْقُدُّوْسِ﴾ عظمت والا، ہر نقص اور ہر آفت سے پاک ہے ﴿ الْ٘عَزِیْزِ﴾ تمام اشیاء پر غالب ہے۔ ﴿ الْحَكِیْمِ﴾ وہ اپنی تخلیق و امر میں حکمت والا ہے۔ یہ عظیم اوصاف اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں۔
آیت: 2 - 4 #
{هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (2) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (3) ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (4)}.
وہ، وہ ذات ہے جس نے بھیجا ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے، وہ تلاوت کرتا ہے ان پر آیتیں اس کی، اور تزکیہ کرتا ہے ان کا،اور تعلیم دیتا ہے انھیں کتاب و حکمت کی، اور بلاشبہ تھے وہ پہلے (اس سے) البتہ گمراہی ظاہر میں(2) اور (آپ کو بھیجا) دوسرے لوگوں میں بھی انھی میں سے، کہ ابھی تک نہیں ملے وہ ساتھ ان کے اور وہ خوب غالب خوب حکمت والا ہے(3) وہ فضل ہے اللہ کا، وہ دیتا ہے یہ (فضل) جسے چاہتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے(4)
#
{2} {هو الذي بَعَثَ في الأمِّيِّين رسولاً}: المراد بالأمِّيِّين الذين لا كتاب عندهم ولا أثر رسالة من العرب وغيرهم ممَّن ليسوا من أهل الكتاب، فامتنَّ الله تعالى عليهم منَّةً عظيمةً أعظم من منَّته على غيرهم؛ لأنهم عادمون للعلم والخير، وكانوا في {ضلال مبين}؛ يتعبدون للأصنام والأشجار والأحجار، ويتخلَّقون بأخلاق السباع الضارية، يأكل قويُّهم ضعيفَهم، وقد كانوا في غاية الجهل بعلوم الأنبياء، فبعث الله فيهم رسولاً منهم يعرِفون نسبه وأوصافه الجميلة وصدقه، وأنزل عليه كتابه، {يَتْلو عليهم آياتِهِ}: القاطعة الموجبة للإيمان واليقين، {ويزكِّيهم}: بأن يفصِّل لهم الأخلاق الفاضلة ويحثَّهم عليها ويزجرهم عن الأخلاق الرذيلة، {ويعلِّمُهم الكتاب والحكمة}؛ أي: علم الكتاب والسنة، المشتمل على علوم الأوَّلين والآخرين، فكانوا بعد هذا التعليم والتزكية من أعلم الخلق، بل كانوا أئمة أهل العلم والدين وأكمل الخلق أخلاقاً وأحسنهم هدياً وسمتاً، اهتدوا بأنفسهم، وهَدَوا غيرهم، فصاروا أئمة المهتدين وقادة المتقين ، فلله تعالى عليهم ببعثة هذا الرسول أكملُ نعمة وأجلُّ منحة.
[2] ﴿اَلْاُمِّیّٖنَ﴾ سے مراد عرب وغیرہ کے وہ لوگ ہیں، جن کے پاس کوئی (آسمانی) کتا ب ہے نہ رسالت کے آثاراور وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر دوسروں کی نسبت بہت بڑا احسان فرمایا، کیونکہ وہ علم اور بھلائی سے بے بہرہ تھے، اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے، شجر و حجر اور بتوں کی پوجا کرتے تھے، شکاری درندوں کے سے اخلاق رکھتے تھے، طاقت ور کمزور کو کھا جاتا تھا، اور وہ انبیاء کرام کے علوم سے بالکل جاہل تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا، جس کے نسب، اوصاف جمیلہ اور صداقت کو وہ خوب جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رسول پر کتاب نازل کی ﴿ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ﴾ وہ ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات قاطعہ کی تلاوت کرتا تھا جو ایمان و یقین کی موجب ہیں ﴿ وَیُزَؔكِّیْهِمْ﴾ اور اخلاق فاضلہ کی تعلیم اور ان کی ترغیب کے ذریعے سے ان کو پاک کرتا تھا اور اخلاق رذیلہ سے ان کو روکتا تھا۔ ﴿ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ﴾ اور ان کو کتاب و سنت کا علم سکھاتا تھا جو اولین و آخرین کے علم پر مشتمل تھا، چنانچہ اس تعلیم و تزکیہ کے بعد وہ مخلوق میں سب سے زیادہ عالم ، بلکہ اہل علم و دین کے امام ہوگئے وہ سب سے زیادہ کامل اخلاق کے مالک اور لائحہ عمل کے اعتبار سے سب سے اچھے بن گئے۔ انھوں نے خود بھی راہ راست اختیار کی اور دوسروں کو بھی اس پر گامزن کیا پس اس طرح وہ ہدایت یافتہ لوگوں کے امام اور اہل تقویٰ کے قائد بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رسولe کو مبعوث فرما کر ان کو کامل ترین نعمت اور جلیل ترین عطیے سے نوازا۔
#
{3} وقوله: {وآخرين منهم لَمَّا يَلْحَقوا بهم}؛ أي: وامتنَّ على آخرين من غيرهم، أي: من غير الأمِّيِّين ممَّن يأتي بعدهم ومن أهل الكتاب {لما يلحقوا بهم}؛ أي: فيمن باشر دعوة الرسول؛ يحتمل أنَّهم لَمَّا يلحقوا بهم في الفضل، ويحتمل أن يكونوا لمَّا يلحقوا بهم في الزمان، وعلى كلٍّ؛ فكلا المعنيين صحيحٌ؛ فإن الذين بعث الله فيهم رسوله وشاهدوه وباشروا دعوته حصل لهم من الخصائص والفضائل ما لا يمكن أحداً أن يلحقَهم فيها.
[3] ﴿ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے علاوہ اہل کتاب میں سے دیگر لوگوں پر احسان فرمایا جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے، یعنی ان لوگوں میں جن تک رسول اللہe کی دعوت پہنچی تھی۔اس میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ وہ فضیلت میں ابھی ان تک نہیں پہنچ سکے اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ وہ ان کا زمانہ نہیں پا سکے، بہرحال دونوں احتمالات کے مطابق دونوں معنیٰ صحیح ہیں۔ بلاشبہ وہ لوگ جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول مبعوث کیا، جنھوں نے اسے دیکھا اور اس کی دعوت کا ساتھ دیا، ان کو ایسے خصائص اور فضائل حاصل ہیں، کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ان خصائص اور فضائل میں ان تک پہنچ سکے۔
#
{4} وهذا من عزَّته وحكمته؛ حيث لم يترك عباده هَمَلاً ولا سُدىً، بل ابتعث فيهم الرسل وأمرهم ونهاهم، وذلك من [فضل اللَّه العظيم] الذي يؤتيه مَن يشاءُ من عباده، وهو أفضل من نعمته عليهم بعافية البدن وسعة الرزق وغير ذلك من النِّعم الدُّنيوية؛ فلا أفضل من نعمة الدين التي هي مادة الفوز والسعادة الأبديَّة.
[4] یہ اس کا غلبہ اور حکمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو مہمل اور بے کار نہیں چھوڑا، بلکہ ان میں رسول مبعوث فرمائے، ان کو امر و نہی کا مکلف بنایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑ افضل ہے، اور وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اس فضل سے بہرہ مند کرتا ہے، ان پر یہ نعمت بدنی عافیت اور رزق کی کشادگی جیسی دنیاوی نعمتوں سے افضل ہے۔ پس دین کی نعمت سے بڑی کوئی نعمت نہیں، دین کی نعمت فوز و فلاح اور ابدی سعادت کی روح ہے۔
آیت: 5 - 8 #
{مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (5) قُلْ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (6) وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (7) قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (8)}.
مثال ان لوگوں کی کہ اٹھوائے گئے وہ تورات ‘‘ پھر نہ اٹھایا انھوں نے اس کو، مانند مثال اس گدھے کی ہے جو اٹھاتا ہے کتابیں ،بری مثال ہے اس قوم کی جنھوں نے جھٹلایا اللہ کی آیات کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم قوم کو(5) کہہ دیجیے، اے لوگو جو یہودی ہوئے! اگر دعویٰ کرو تم اس بات کا کہ بلاشبہ تم دوست ہو اللہ کے سوائے (دوسرے) لوگوں کے تو تم تمنا کرو موت کی اگر ہو تم سچے(6) اور نہیں تمنا کریں گے وہ اس کی کبھی بھی بوجہ اس کے جو آگے بھیجا ہے ان کے ہاتھوں نے اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو(7) کہہ دیجیے! بلاشبہ موت، وہ کہ بھاگتے ہو تم اس سے، تو یقیناً وہ ملنے والی ہے تمھیں، پھر لوٹائے جاؤ گے تم طرف اس کی (جو) جانتا ہے غیب اور حاضر کو، پس وہ خبر دے گا تمھیں ساتھ اس چیز کے کہ جو تھے تم عمل کرتے(8)
#
{5} لمَّا ذكر تعالى منَّته على هذه الأمة الذين بَعَثَ فيهم النبيَّ الأميَّ وما خصَّهم الله [به] من المزايا والمناقب التي لا يلحقهم فيها أحدٌ، وهم الأمة الأميَّة، الذين فاقوا الأوَّلين والآخرين، حتى أهل الكتاب الذين يزعمون أنهم العلماء الربانيون والأحبار المتقدِّمون؛ ذكر أن الذين حمَّلهم الله التوراة من اليهود وكذا النصارى وأمرهم أن يتعلَّموها ويعملوا بها فلم يحملوها ولم يقوموا بما حُمِّلوا به؛ أنَّهم لا فضيلة لَهم، وأنَّ مَثَلَهم كمثل الحمار الذي يحمل فوق ظهره أسفاراً من كتب العلم؛ فهل يستفيد ذلك الحمار من تلك الكتب التي فوق ظهره؟! وهل تلحقه فضيلةٌ بسبب ذلك؟! أم حظُّه منها حملها فقط؟ فهذا مَثَلُ علماء أهل الكتاب ، الذين لم يعملوا بما في التوراة الذي من أجلِّه وأعظمه الأمر باتِّباع محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - والبشارة به والإيمان بما جاء به من القرآن؛ فهل استفاد مَن هذا وصفه من التوراة إلاَّ الخيبة والخسران وإقامة الحجَّة عليه؛ فهذا المثل مطابقٌ لأحوالهم. {بئس مَثَلُ القوم الذين كذَّبوا} بآياتنا الدالَّة على صدق رسولنا وصحة ما جاء به {والله لا يَهْدي القوم الظالمين}؛ أي: لا يرشدهم إلى مصالحهم ما دام الظلم لهم وصفاً والعناد لهم نعتاً.
[5] جب اللہ تعالیٰ نے اس امت پر اپنے احسانات کا ذکر فرمایا، جن کے اندر اپنا نبئ امی (e) مبعوث فرمایاتو ان کے ایسے خصوصی مناقب کا ذکر کیا جن میں کوئی شخص ان تک نہیں پہنچ سکا۔ اس سے مراد نبئ اُمی کی امت کے لوگ ہیں جو اولین و آخرین پر فوقیت لے گئے، حتیٰ کہ اہل کتاب پر بھی فوقیت لے گئے جو اپنے آپ کو علمائے ربانی اور احبار متقدمین سمجھتے تھے ... تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہود و نصاریٰ میں سے وہ لوگ جن پر تورات کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور ان کو حکم تھا کہ وہ تورات کی تعلیم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں، انھوں نے اس ذمہ داری کو اٹھایا نہ پورا کیا، ان کے لیے کوئی فضیلت نہیں اور ان کی مثال اس گدھے کی سے ہے جس کی پیٹھ پرعلمی کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ کیا یہ گدھا ان کتابوں سے مستفید ہو سکتا ہے جو اس کی پیٹھ پر لاد دی گئی ہیں؟ کیا اس سبب سے اسے کوئی فضیلت ہو سکتی ہے یا اس کا نصیب تو بس ان کتابوں کو اٹھانا ہے؟ یہی مثال اہل کتاب کے ان علماء کی ہے جو تورات کے احکامات پر عمل نہیں کرتے، جن میں سے جلیل ترین اور عظیم ترین حکم حضرت محمد مصطفیe کی اتباع کا حکم، آپ کی بعثت کی بشارت اور آپ جو قرآن لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے کا حکم ہے، پس جس کا یہ وصف ہو وہ ناکامی اور خسارے اور اس کے خلاف حجت کے قائم ہونے کے سوا کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے؟ یہ مثال ان کے احوال کے عین مطابق ہے۔ ﴿ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے۔‘‘ یعنی وہ آیات جو ہمارے رسول اللہ e کی صداقت اور جو کچھ آپ لے کر تشریف لائے ہیں اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ﴿وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کرتا۔‘‘ یعنی جب تک ظلم ان کا وصف اور عنادان کی صفت ہے، تب تک اللہ تعالیٰ ان کی ان کے مصالح کی طرف راہ نمائی نہیں کرے گا۔
#
{6} ومن ظلم اليهود وعنادهم أنَّهم يعلمون أنَّهم على باطل ويزعمون أنَّهم على حقٍّ، وأنَّهم أولياء لله من دون الناس! ولهذا أمر الله رسوله أن يقولَ لهم: إن كنتُم صادقين في زعمِكُم أنَّكم على الحقِّ وأولياء الله؛ {فَتَمَنَّوُا الموتَ}: وهذا أمرٌ خفيفٌ؛ فإنَّهم لو علموا أنَّهم على حقٍّ؛ لما توقَّفوا عن هذا التحدِّي الذي جعله الله دليلاً على صدقهم إن تَمَنَّوْه و كَذِبِهم إن لم يَتَمَنَّوْه.
[6] یہود کا ظلم اور عناد یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ باطل پر ہیں مگر وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور تمام لوگوں میں سے صرف وہی اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اپنے زعم میں سچے ہو کہ تم حق پر ہو اور اللہ تعالیٰ کے دوست ہو ﴿فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ﴾ ’’تو تم موت کی آرزو کرو۔‘‘ اور یہ بڑا خفیف سا معاملہ ہے کیونکہ اگر انھیں یقین ہے کہ وہ حق پر ہیں تو مقابلے کی اس دعوت (موت کی تمنا) پر توقف نہ کرتے جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کی دلیل اور موت کی تمنا نہ کرنے کو ان کے کذب کی دلیل قرار دیا ہے۔
#
{7} ولمَّا لم يقعْ منهم مع الإعلانِ لهم بذلك؛ عُلِمَ أنَّهم عالمون ببطلان ما هم عليه وفساده، ولهذا قال: {ولا يَتَمَنَّوْنَه أبداً بما قدَّمت أيديهم}؛ أي: من الذنوب والمعاصي التي يستوحشون من الموت من أجلها، {واللهُ عليمٌ بالظالمين}: فلا يمكن أن يَخْفى عليه من ظلمهم شيءٌ.
[7] اس اعلان کے باوجود جب (انھوں نے اس کو قبول نہ کیا اور) ان سے موت کی تمنا واقع نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے موقف کے بطلان اور اس کے فساد کو جانتے ہیں اس لیے فرمایا :﴿ وَلَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ۠ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’اور وہ اس موت کی کبھی آرزو نہ کریں گے بسبب اس کے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔‘‘ یعنی گناہ اور معاصی جن کی وجہ سے وہ موت سے خائف ہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اس پر ان کے ظلم میں سے کچھ چھپ سکے۔
#
{8} هذا؛ وإن كانوا لا يَتَمَنَّوْنَ الموت بما قدَّمت أيديهم، بل يفرُّون منه غايةَ الفرار؛ فإنَّ ذلك لا يُنجيهم، بل لابدَّ أن يُلاقيهم الموتُ الذي قد حَتَّمه الله على العباد [وكتبه عليهم]، ثم بعد الموت واستكمال الآجال يُرَدُّ الخَلْقُ كلُّهم يوم القيامةِ إلى عالم الغيب والشهادة، فينبِّئهم بما كانوا يعملون من خيرٍ وشرٍّ قليل وكثيرٍ.
[8] وہ اگرچہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے موت کی تمنا نہیں کرتے، بلکہ موت سے بہت زیادہ بھاگتے ہیں، مگر ان کا موت سے بھاگنا ان کو موت سے بچا نہیں سکے گا، بلکہ موت ان سے ضرور ملاقات کرے گی، جسے اللہ نے اپنے بندوں پر لکھ دیا ہے۔ پھر زندگی کی مدت پوری کرنے اور مرنے کے بعد قیامت کے روز تمام مخلوق کو غیب اور موجود کا علم رکھنے والی ہستی کے سامنے پیش کیا جائے گا وہ ان کو ان کے اچھے برے اور قلیل و کثیر اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گی۔
آیت: 9 - 11 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (9) فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (10) وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (11)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب اذان دی جائے نماز کے لیے دن جمعہ کے، تو دوڑو تم طرف ذکر اللہ کے اور چھوڑ دو خرید و فروخت کرنا، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگر ہو تم جانتے(9) پھر جب ادا کر لی جائے نماز تو پھیل جاؤ تم زمین میں اور تلاش کرو فضل اللہ کا، اور یاد کرو اللہ کو خوب، شاید کہ تم فلاح پاؤ (10) اور جب دیکھا انھوں نے (سامان) تجارت یا کوئی تماشہ تو وہ دوڑ پڑے اس کی طرف اور چھوڑ دیا انھوں نے آپ کو کھڑا ہوا ،کہہ دیجیے! جو اللہ کے پاس ہے (وہ) بہت بہتر ہے تماشے سے اور (سامان) تجارت سے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے (11)
#
{9} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالحضور لصلاة الجمعة والمبادرة إليها من حين يُنادى لها والسعي إليها، والمراد بالسَّعْي هنا المبادرة [إليها] والاهتمام لها وجعلها أهمَّ الأشغال، لا العدو الذي قد نُهِيَ عنه عند المضيِّ إلى الصلاة. وقوله: {وذَروا البيعَ}؛ أي: اتركوا البيع إذا نودي للصلاة وامضوا إليها؛ فإنَّ {ذلكم خيرٌ لكم}: من اشتغالكم بالبيع، أو تفويتكم الصلاة الفريضة التي هي من آكدِ الفروض {إن كنتُم تعلمون}: أن ما عند الله خيرٌ وأبقى، وأنَّ مَنْ آثر الدُّنيا على الدين؛ فقد خسر الخسارة الحقيقيَّة؛ من حيث يظنُّ أنَّه يربح.
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو جمعہ کی نماز میں شریک ہونے، اور اس کے لیے جب اذان دی جائے تو اس کی طرف جلدی کرنے اور کوشاں ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہاں ’’سعی‘‘ سے مراد جلدی کرنا ، اہتمام کرنا اور جمعہ کی نماز کو سب سے اہم کام قرار دینا ہے، اس سے مراد دوڑنا نہیں جس کو نماز کے لیے جاتے وقت ممنوع کیا گیا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَذَرُوا الْ٘بَیْعَ﴾ یعنی جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان دے دی جائے تو خرید و فروخت چھوڑ دو اور نماز کے لیے چل پڑو۔ ﴿ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ ﴾ کیونکہ جمعہ کی نماز تمھارے خرید و فروخت میں مشغول ہونے سے اور تمھارے فرض نماز کو ضائع کرنے سے بہتر ہے، جوتمام فرائض سے زیادہ مؤکد ہے۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے اور جو کوئی دنیا کو دین پر ترجیح دیتا ہے وہ حقیقی خسارے میں پڑتا ہے جبکہ وہ سمجھتا یہ ہے کہ وہ نفع حاصل کر رہا ہے ۔
#
{10} وهذا الأمر بترك البيع موقَّت مدَّة الصلاة؛ {فإذا قُضِيَتِ الصلاةُ فانتشروا في الأرض}: لطلب المكاسب والتجارات، ولما كان الاشتغال بالتجارة مَظِنَّةُ الغفلة عن ذكر الله؛ أمر الله بالإكثار من ذكره؛ لينجبر بهذا، فقال: {واذكروا الله كثيراً}؛ أي: في حال قيامكم وقعودكم وعلى جنوبكم، {لعلَّكم تفلحون}: فإنَّ الإكثار من ذِكْر الله أكبر أسباب الفلاح.
[10] خرید و فروخت کو چھوڑ دینے کا یہ حکم صرف جمعہ کی نماز کی مدت تک کے لیے ہے۔﴿ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’پس جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ۔‘‘ کام کاج اور تجارت کے لیے ، چونکہ تجارت میں مشغول ہونا، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہونے کا مقام ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کی کثرت کا حکم دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تلافی ہو جائے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا﴾ یعنی اپنے کھڑے ہونے، بیٹھنے اور اپنے لیٹنے کے احوال میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ ﴿ لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ کیونکہ ذکر الٰہی کی کثرت فلاح کا سب سے بڑا سبب ہے۔
#
{11} {وإذا رَأوْا تجارةً أو لهواً انفضُّوا إليها}؛ أي: خرجوا من المسجد حرصاً على ذلك اللهو وتلك التجارة وتركوا الخير، {وتركوكَ قائماً}: تخطُبُ الناس، وذلك في يوم الجمعة، بينما النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - يخطب الناس؛ إذ قَدِمَ المدينةَ عيرٌ تحمل تجارةً، فلمَّا سمع الناس بها وهم في المسجد؛ انفضُّوا من المسجد ، وتركوا النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - يخطبُ استعجالاً لما لا ينبغي أن يُستعجل له وترك أدب، {قل ما عندَ الله}: من الأجر والثواب لمن لازم الخير وصَبَّرَ نفسَه على عبادة الله ، {خيرٌ من اللهوِ ومن التجارةِ}: التي وإن حَصَلَ منها بعض المقاصد؛ فإنَّ ذلك قليلٌ منقضٍ ، مفوتٌ لخير الآخرة، وليس الصبر على طاعة الله مفوتاً للرزق؛ {فإنَّ الله خير الرازقين}؛ فمن اتَّقى الله؛ رزقه من حيث لا يحتسب.
[11] ﴿ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَنِا انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا﴾ ’’جب وہ کوئی سودا بکتا یا لہو ولعب دیکھتے ہیں تو اس لہو ولعب یا تجارت کی حرص میں مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں اور بھلائی کو چھوڑ دیتے ہیں ﴿ وَتَرَؔكُوْكَ قَآىِٕمًا﴾ اور آپ لوگوں کو کھڑے خطاب کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا، نبی اکرمe لوگوں کو (جمعہ کا) خطبہ دے رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں ایک تجارتی قافلہ آیا۔ جب لوگوں نے مسجد میں قافلے کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ مسجد سے نکل گئے اور ایک ایسے معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہe کو خطبہ دیتے چھوڑ دیا، جس کے لیے عجلت میں ادب کو ترک کر مناسب نہ تھا۔﴿قُ٘لْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس شخص کے لیے جو بھلائی کا التزام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر اپنے نفس کو صبر کا خوگر بناتا ہے، جو اجر و ثواب ہے ﴿ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّؔجَارَةِ﴾ وہ لہو و لعب اور اس تجارت سے بہتر ہے جس سے اگر چہ بعض مقاصد حاصل ہوتے ہیں تاہم وہ بہت قلیل، ختم ہونے والے رزق اور آخرت کی بھلائی کو فوت کر دینے والے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر رزق کو فوت نہیں کرتا کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے، جہاں سے اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا۔
ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں: (۱) اہل ایمان پر جمعہ کی نماز فرض ہے، اس میں شرکت کے لیے جلدی کرنا، اس کے لیے کوشش کرنا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ (۲) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن دو خطبے فرض ہیں اور ان میں حاضر ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کی تفسیر دوخطبوں سے کی ہے، اور اس کی طرف کوشش کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے۔ (۳) اس سورۂ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت ممنوع اور حرام ہے، اور یہ صرف اس وجہ سے ہے تاکہ واجب سے غافل ہو کر خرید و فروخت میں مشغول ہونے سے واجب فوت نہ ہوجائے ۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو اصل میں مباح ہو، مگر جب اس سے کسی واجب کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اس حال میں یہ کام جائز نہیں ہے۔ (۴) ان آیات کریمہ میں، جمعہ کے دن دونوں خطبوں میں حاضر ہونے کا حکم ہے اور جو حاضر نہیں ہوتا اس کی مذمت مستفاد ہوتی ہے، دونوں خطبوں میں خاموش رہنا اس کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ (۵) وہ بندہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ نفس کے لہو و لعب، تجارت اور شہوات میں حاضر ہونے کے دواعی نفس کو وہ بھلائیاں یاد کرائے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خواہشات پر ترجیح دیتی ہیں۔