(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1) هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (2) خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (3) يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (4)}.
تسبیح کرتی ہے اللہ کے لیے جو چیز ہے آسمانوں میں اور جو ہے زمین میں، اسی کے لیے بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے
(ہر قسم کی) حمد اور وہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے
(1) وہ، وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا تمھیں، پس کچھ تم میں سے کافر ہیں اور کچھ تم میں سے مومن ہیں، اور اللہ ساتھ اس کےجو تم عمل کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے
(2) اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے اور اس نے صورت بنائی تمھاری پس اچھی بنائیں تمھاری صورتیں، اور اسی کی طرف واپسی ہے
(3) وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور جانتا ہے جو چھپاتے ہو تم اور جو ظاہر کرتے ہو تم، اور اللہ خوب جانتا ہے راز سینو ں کے
(4)
#
{1} هذه الآيات الكريمات مشتملاتٌ على جملةٍ كثيرةٍ واسعة من أوصاف الباري العظيمة، فذَكَرَ كمال ألوهيَّته سبحانه [وتعالى]، وسعة غناه، وافتقارَ جميع الخلائق إليه، وتسبيح من في السماوات والأرض بحمد ربِّها، وأنَّ المُلْكَ كلَّه لله؛ فلا يخرج عن ملكه مخلوقٌ ، والحمد كله له؛ حمدٌ على ما له من صفات الكمال، وحمدٌ على ما أوجده من الأشياء، وحمدٌ على ما شرعه من الأحكام وأسداه من النِّعم، وقدرتُه شاملةٌ لا يخرج عنها موجودٌ؛ فلا يعجِزُهُ شيءٌ يريده.
[1] یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اوصاف کے وسیع حصے پر مشتمل ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل الوہیت، بے پایاں غنا اور تمام مخلوق کے اس کے سامنے محتاج ہونے کا ذکر فرمایا ہے، نیز ذکر فرمایا کہ زمین اور آسمان کی تمام مخلوق اپنے رب کی حمد و ثنا کے ذریعے سے اس کی تسبیح بیان کرتی ہے، اقتدار تمام تر اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کے اقتدار سے کوئی چیز باہر نہیں۔ حمد و ثنا کا صرف وہی مالک ہے، اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ وہ صفات کمال کا مالک ہے، اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ اس نے تمام اشیاء کو وجود بخشا، اس کے لیے حمد ہے اس بنا پر کہ اس نے احکام شریعت مشروع کیے اور مخلوق کو نعمتیں عطا کیں۔ اس کی قدرت سب کو شامل ہے، موجودات میں سے کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔
#
{2} وذكر أنَّه خلق العباد، وجعل منهم المؤمن والكافر؛ فإيمانهم وكفرُهم كلُّه بقضاء الله وقدره، وهو الذي شاء ذلك منهم؛ بأنْ جعل لهم قدرةً وإرادةً بها يتمكَّنون من كلِّ ما يريدون من الأمر والنهي. {والله بما تعلمون بصيرٌ}.
[2] اس نے ذکر فرمایا کہ اس نے تمام بندوں کو تخلیق کیا ان میں مومن اور کافر بنائے۔ پس ان کا ایمان اور کفر تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے، یہی اس کی مشیت ہے، اس نے ان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا جس کی بنا پر وہ امر و نہی میں سے جس چیز کا ارادہ کریں، اس کا اختیار رکھتے ہیں۔
﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
#
{3} فلمَّا ذكر خلق الإنسان المأمور المنهيِّ؛ ذكر خلق باقي المخلوقات، فقال: {خَلَقَ السمواتِ والأرض}؛ أي: أجرامهما وجميع ما فيهما فأحسنَ خَلْقَهما {بالحقِّ}؛ أي: بالحكمة والغاية المقصودة له تعالى، {وصَوَّرَكم فأحسن صُوَرَكم}؛ كما قال تعالى: {لقد خَلَقْنا الإنسان في أحسن تقويم}: فالإنسان أحسن المخلوقات صورةً، وأبهاها منظراً. {وإليه المصيرُ}؛ أي: المرجع يوم القيامةِ، فيجازيكم على إيمانكم وكفركم، ويسألكم عن النِّعم والنعيم الذي أولاكم؛ هل قمتُم بشكره أم لم تقوموا به ؟
[3] اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی، جو مامورات و منہیات کا مکلف ہے، تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد باقی مخلوقات کا ذکر فرمایا،
چنانچہ فرمایا :﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو۔‘‘ یعنی تمام اجرام ارضی و فلکی اور ان چیزوں کو خوب اچھی طرح تخلیق فرمایا جو ان کے اندر ہیں
﴿بِالْحَقِّ﴾ ’’حق کے ساتھ۔‘‘ یعنی حکمت کے ساتھ اور اس غرض و غایت کے لیے، جو اللہ تعالیٰ کو مقصود و مطلوب ہے۔
﴿ وَصَوَّرَؔكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَؔكُمْ﴾ ’’اور اس نے تمھاری صورت گری کی اور تمھاری بہترین صورتیں بنائیں۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ (التین:95؍4) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ پس انسان صورت کے اعتبار سے تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت اور دلکش دکھائی دیتا ہے۔
﴿ وَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی قیامت کے دن اسی کی طرف تمھیں لوٹنا ہے ۔پس وہ تمھیں تمھارے ایمان اور کفر کی جزا و سزا دے گا، تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے تمھیں عطا کیں کہ آیا تم نے ان نعمتوں پر شکر ادا کیا ہے یا نہیں۔
#
{4} ثم ذكر عموم علمه، فقال: {يعلم ما في السمواتِ والأرض}؛ أي: من السرائر والظواهر والغيب والشهادة، {ويعلمُ ما تُسِرُّون وما تُعْلِنونَ والله عليمٌ بذاتِ الصُّدور}؛ أي: بما فيها من الأسرار الطيِّبة والخبايا الخبيثة والنيَّات الصالحة والمقاصد الفاسدة؛ فإذا كان عليماً بذات الصُّدور؛ تعيَّن على العاقل البصير أن يحرص ويجتهد في حفظ باطِنِه من الأخلاق الرذيلة واتِّصافه بالأخلاق الجميلة.
[4] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عموم علم کا ذکر کیا،
چنانچہ فرمایا :﴿ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی وہ ظاہر اور باطن، غیب اور حاضر سب کا علم رکھتا ہے
﴿وَیَعْلَمُ مَا تُ٘سِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ١ؕ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اور جو تمھارے سینوں کے اندر اچھے بھید چھپے ہوئے ہیں یا گندے، نیک نیتیں مستور ہیں یا برے مقاصد، سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے تو ایک عقل مند دیدہ ور شخص پر یہ بات متعین ٹھہری کہ وہ اپنے باطن کی اخلاق رذیلہ سے حفاظت کرے اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونے کا حریص ہو اور اس کی کوشش کرے۔
{أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (5) ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوْا وَاسْتَغْنَى اللَّهُ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (6)}.
کیا نہیں آئی تمھارے پاس خبر ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا
(اس سے) پہلے، پس چکھا انھوں نے وبال اپنے کام کا؟ اور ان کے لیے ہے عذاب بہت درد ناک
(5) یہ بوجہ اس کے ہے کہ بلاشبہ لاتے تھے ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں تو وہ کہتے، کیا بشر راہ دکھائیں گے ہمیں؟ پس انھوں نے کفر کیا اور رو گردانی کی اور بے پروائی کی اللہ نے، اور اللہ بے پروا خوب قابل تعریف ہے
(6)
#
{5} لما ذكر تعالى من أوصافه الكاملة العظيمة ما به يُعرف، ويُعبد، ويُبذل الجهدُ في مرضاته، وتُجتنبُ مساخِطُه؛ أخبر بما فعل بالأمم السابقين والقرون الماضين، الذين لم تَزَلْ أنباؤهم يتحدَّثُ بها المتأخرون، ويُخْبِرُ بها الصادقون، وأنَّهم حين جاءتهم رسلُهم بالحقِّ؛ كذَّبوهم، وعاندوهم فأذاقهم الله وَبالَ أمرِهم في الدُّنيا، وأخزاهم فيها. {ولهم عذابٌ أليمٌ}: في الدار الآخرة.
[5] جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور عظیم اوصاف کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے، اس کی رضا کے حصول میں کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ناراضی سے اجتناب کیا جاتا ہے ، تب اس نے آگاہ فرمایا کہ اس نے گزشتہ قوموں اور گزرے ہوئے زمانوں کے ساتھ کیا کیا جن کی خبریں متاخرین بیان کرتے چلے آئے ہیں اور سچے لوگ ان سے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ جب ان کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے تو انھوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ عناد رکھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا کے اندر ان کے کرتوتوں کے وبال کا مزا چکھا یا اور ان کو دنیا کے اندر رسوا کیا
﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے نہایت الم ناک عذاب ہے۔
#
{6} ولهذا ذكر السبب في هذه العقوبة، فقال: {ذلك}: النكال والوبال الذي أحللناه بهم {بأنَّه كانت تأتيهم رُسُلُهم بالبيناتِ}؛ أي: بالآيات الواضحات الدالَّة على الحقِّ والباطل، فاشمأزُّوا واستكبروا على رسلهم، وقالوا: {أبشرٌ يهدونَنا}؛ أي: ليس لهم فضلٌ علينا؛ ولأيِّ شيءٍ خصَّهم الله دوننا؟! كما قال في الآية الأخرى: {قالتْ لهم رسُلُهم إن نحنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكم ولكنَّ الله يمنُّ على مَن يشاءُ من عبادِه}: فهم حجروا فضل الله ومنَّته على أنبيائه أن يكونوا رسلاً للخلق، واستكبروا عن الانقياد لهم، فابْتُلوا بعبادة الأشجار والأحجار ونحوها، {فكفروا} بالله، {وتولَّوا} عن طاعته، {واستغنى الله} عنهم؛ فلا يبالي بهم ولا يضرُّه ضلالهم شيئاً. {والله غنيٌّ حميدٌ}؛ أي: هو الغنيُّ الذي له الغنى التامُّ المطلقُ من جميع الوجوه، الحميد في أقواله وأفعاله وأوصافه.
[6] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس عقوبت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ ذٰلِكَ﴾ یہ سزا اور وبال جو ہم نے ان پر نازل کیا ہے، اس سبب سے ہے
﴿ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے جو حق اور باطل پر دلالت کرتے تھے،
مگر انھوں نے ناگواری سے منہ پھیر لیا اور اپنے رسولوں کے ساتھ تکبر سے پیش آئے۔ اور کہنے لگے: ﴿ اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا﴾ ’’کیا ایک بشر ہماری راہنمائی کرتا ہے؟‘‘ یعنی انھیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، تب کس بنا پر اللہ نے ہمیں چھوڑ کر انھیں
(نبوت کے لیے) مختص کیا۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (ابراہیم:14؍11) ’’ان کے رسولوں نے ان سے کہا: ہم بھی تمھاری مانند بشر ہی ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، نواز دیتا ہے۔‘‘ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو انبیائے کرامo سے روک دیا کہ وہ مخلوق کی طرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہوں اور تکبر سے ان کی اطاعت نہ کی۔ اور اس طرح وہ شجر و حجر کی عبادت میں مبتلا ہو گئے۔
﴿ فَكَ٘ـفَرُوْا﴾ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا
﴿ وَتَوَلَّوْا﴾ اور اس کی اطاعت سے منہ موڑ گئے
﴿ وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے اور وہ ان کی پروانہیں کرتا اور ان کی گمراہی اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
﴿ وَاللّٰهُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾ وہ ایسا غنی ہے جو ہر لحاظ سے غنائے کامل اور مطلق کا مالک ہے۔ وہ اپنے اقوال، افعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔
{زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (7)}
دعویٰ کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا یہ کہ ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے وہ، کہہ دیجیے! کیوں نہیں؟ قسم ہے میرے رب کی! ضرور اٹھائے جاؤ گے تم ، پھر ضرور خبر دیے جاؤ گے تم ساتھ اس چیز کے جو عمل کیا تم نے اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے
(7)
#
{7} يخبر تعالى عن عناد الكافرين وزعمهم الباطل وتكذيبهم بالبعث بغير علمٍ ولا هدىً ولا كتابٍ منيرٍ، فأمر أشرف خلقِهِ أن يُقْسِمَ بربِّه على بعثهم وجزائهم بأعمالهم الخبيثة وتكذيبهم بالحقِّ. {وذلك على الله يسيرٌ}: فإنَّه وإن كان عسيراً، بل متعذِّراً بالنسبة إلى الخلق؛ فإنَّ قُواهم كلهم لو اجتمعت على إحياء ميتٍ واحدٍ؛ ما قدروا على ذلك، وأمَّا الله تعالى، فإنَّه إذا أراد شيئاً؛ قال له: كنْ فيكون؛ قال تعالى: {ونُفِخَ في الصُّورِ فَصَعِقَ مَن في السموات ومن في الأرض إلاَّ مَن شاء الله ثم نُفِخَ فيه أخرى فإذا هم قيامٌ ينظُرونَ}.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کے عناد، ان کے زعم باطل اور ان کے کسی علم، کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر قیامت کو جھٹلانے کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔ پس اس نے اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو حکم دیا کہ وہ اس بات پر اپنے رب کی قسم کھائیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ، پھر ان کو ان کے اعمال بد اور ان کی تکذیب حق کی سزا دی جائے گی
﴿ وَذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ﴾ ’’اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔‘‘ خواہ یہ مخلوق کی نسبت سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہی ہو کیونکہ اگر تمام مخلوق کے قویٰ ایک مردہ چیز کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو وہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ۔ رہا اللہ تعالیٰ،
تو وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے: ’’ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَنُ٘فِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُ٘فِخَ فِیْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِیَامٌ یَّنْظُ٘رُوْنَ﴾ (الزمر: 39؍68) ’’جب صور پھونکا جائے گا، تو وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، بے ہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جسے اللہ
(بے ہوش کرنا نہ) چاہے، پھر اسے دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا تو اسی لمحہ سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘
{فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (8)}
پس ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اور اس کےرسول کے اور
(ساتھ) اس نور کے وہ جو نازل کیا ہم نے اور اللہ ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو، خوب خبردار ہے
(8)
#
{8} لمَّا ذكر تعالى إنكارَ مَنْ أنكر البعث، وأنَّ ذلك منهم موجبٌ كفرَهم بالله وآياته؛ أمر بما يعصمُ من الهلكة والشقاء، وهو الإيمان به وبرسوله وبكتابه ، وسمَّاه الله نوراً؛ لأنَّ النور ضدُّ الظلمة؛ فما في الكتاب الذي أنزله الله من الأحكام والشرائع والأخبار أنوارٌ يُهتدى بها في ظُلمات الجهل المدلهمَّة، ويمشى بها في حِنْدِسِ الليل البهيم، وما سوى الاهتداء بكتاب الله؛ فهي علومٌ ضررها أكثر من نفعها، وشرُّها أكثر من خيرها، بل لا خير فيها ولا نفع؛ إلاَّ ما وافق ما جاءت به الرسل، والإيمانُ بالله ورسوله وكتابه يقتضي الجزم التامَّ واليقين الصادق بها والعمل بمقتضى ذاك التصديق من امتثال الأوامر واجتناب النواهي. {والله بما تعملونَ خبيرٌ}: فيجازيكم بأعمالكم الصالحة والسيِّئة.
[8] چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کے انکار کا ذکر کیا ہے جو قیامت کا انکار کرتے ہیں نیز یہ بھی ذکر کیا کہ ان کا یہ انکار اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کے ساتھ ان کے کفر کا موجب ہے، اس لیے اس نے اس چیز کا حکم دیا جو ہلاکت اور بدبختی سے بچاتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول
(e) اور اس کی کتاب پر ایمان، اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نور سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس کی ضد تاریکی ہے۔ جو احکام، قوانین اور اخبار اس کتاب میں ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے، روشنی ہیں جس کے ذریعے سے جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں راہ نمائی حاصل ہوتی ہے اور جس کے ذریعے سے رات کی سیاہ تاریکی میں چلا جاتا ہے۔ کتاب اللہ کی راہ نمائی کے سوا تمام علوم ایسے ہیں جن کے نقصانات ان کے فوائد سے بڑھ کر اور جن کا شر ان کی خیر سے زیادہ ہے بلکہ اس میں کوئی خیر اور کوئی فائدہ ہی نہیں، سوائے اس کے جو انبیاء و مرسلین کی لائی ہوئی تعلیمات کے موافق ہو۔اللہ تعالیٰ، اس کے رسول
(e) اور اس کی کتاب پر ایمان، عزم کامل ان
(احکامات و قوانین) پر یقین صادق، اس تصدیق کے مقتضیٰ یعنی اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتے ہیں۔
﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ﴾ ’’اور اللہ تمھارے عملوں سے باخبر ہے۔‘‘ پس وہ تمھارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔
{يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (10)}
جس دن وہ جمع کرے گا تمھیں جمع کرنے کے دن یہی دن ہے نقصان کا اور جو کوئی ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور عمل کرے صالح تو اللہ دور کر دے گا اس سے اس کی برائیاں اور داخل کرے گا اس کو ایسے باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں ابد تک، یہی ہے کامیابی بہت بڑی
(9) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور تکذیب کی ہماری آیتوں کی، یہ لوگ جہنمی ہیں، ہمیشہ رہیں گے اس میں، اور برا ہے وہ ٹھکانا
(10)
#
{9} يعني: اذكُروا يومَ الجمع الذي يجمع الله به الأوَّلين والآخرين، ويقفُهم موقفاً هائلا عظيماً، وينبِّئهم بما عملوا؛ فحينئذٍ يظهر الفرق والتغابن بين الخلائق، ويُرفع أقوامٌ إلى علِّيين في الغرف العاليات والمنازل المرتفعات المشتملة على جميع اللَّذَّات والشهوات، ويُخفض أقوامٌ إلى أسفل سافلين محلِّ الهمِّ والغمِّ والحزن والعذاب الشديد، وذلك نتيجة ما قدَّموه لأنفسهم وأسلفوه أيَّام حياتهم، ولهذا قال: {ذلك يومُ التغابنِ}؛ أي: يظهر فيه التغابن والتفاوت بين الخلائق، ويغبن المؤمنون الفاسقين، ويعرِفُ المجرمون أنَّهم على غير شيء، وأنَّهم هم الخاسرون. فكأنَّه قيل: بأيِّ شيءٍ يحصلُ الفلاحُ والشقاء والنعيم والعذاب؟ فذكر [تعالى] أسباب ذلك بقوله: {ومَن يؤمِن بالله}: إيماناً تامًّا شاملاً لجميع ما أمر الله بالإيمان به، {ويعملْ صالحاً}: من الفرائض والنوافل؛ من أداء حقوق الله وحقوق عباده، {يُدْخِلْه جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}: فيها ما تشتهيه الأنفسُ، وتلذُّ الأعينُ، وتختارهُ الأرواح، وتحنُّ إليه القلوب، ويكون نهاية كلِّ مرغوب. {خالدين فيها أبداً ذلك الفوزُ العظيمُ}.
[9] یعنی اکٹھا ہونے کے دن کو یاد کرو، جس دن اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اکٹھا کر کے ایک بہت ہولناک مقام پر کھڑا کرے گا، پھر وہ ان کو ان کے اعمال کے بارے میں آگاہ کرے گا جو وہ کرتے رہے تھے، اس وقت خلائق کے درمیان امتیاز اور فرق ظاہر ہو گا، کچھ لوگ اعلیٰ علیین کے درجے پر فائز ہو کر عالی شان بالا خانوں اور بلند و بالا منازل میں ہوں گے،
جو تمام اقسام کی لذات و شہوات پر مشتمل ہوں گی۔ کچھ لوگوں کو اسفل سافلین کے مقام پر گرا دیا جائے گا جو غم و ہموم اور سخت حزن و عذاب کا مقام ہو گا یہ ان اعمال کا نتیجہ ہے جو انھوں نے آگے بھیجے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے دوران ان کو پیش کیا تھا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِ﴾ ’’یہ نقصان اٹھانے کا دن ہے۔‘‘ یعنی اس دن خلائق کے درمیان نقصان اور تفاوت ظاہر ہو گا۔ اس دن اہل ایمان فاسقوں کو نقصان دیں گے، مجرم جان لیں گے کہ ان کے پلے تو کچھ بھی نہیں وہ تو محض خسارے میں ہیں۔
گویا کہ پوچھا گیا ہے کہ فلاح اور بدبختی، نعمتیں اور عذاب کس چیز سے حاصل ہوتے ہیں،
اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے، ایسا ایمان جو ان تمام امور کو شامل ہے جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
﴿ وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ ’’اور وہ نیک اعمال کرتا ہے۔ ‘‘ یعنی فرائض و نوافل، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرتا ہے۔
﴿یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’اللہ تعالیٰ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔‘‘ ان جنتوں میں ہر وہ چیز ہو گی جس کی نفس خواہش کریں گے، جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، جس کو ارواح چن لیں گی، جس کی دل آرزو کریں گے اور وہ ہر مرغوب کی انتہا ہو گی۔
﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ ’’ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
#
{10} {والذين كفروا وكذَّبوا بآياتنا}؛ أي: كفروا بها من غير مستندٍ شرعيٍّ ولا عقليٍّ، بل جاءتهم الأدلَّة والبيِّنات، فكذَّبوا بها وعاندوا ما دلَّت عليه، {أولئك أصحابُ النار خالدين فيها وبئسَ المصيرُ}: لأنَّها جمعت كلَّ بؤسٍ وشدةٍ وشقاءٍ وعذابٍ.
[10] ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ ﴾ یعنی جنھوں نے ان آیات کا کسی شرعی یا عقلی دلیل کے بغیر انکار کیا، بلکہ ان کے پاس دلائل اور واضح نشانیاں آئیں، انھوں نے ان دلائل کو جھٹلایا اور جس چیز پر یہ دلالت کرتے تھے اس سے عناد رکھا۔
﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ ’’وہی اہل دوزخ ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ کیونکہ اس میں ہر قسم کی مصیبت، سختی، بدبختی اور عذاب ہو گا۔
{مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (11) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (12) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (13)}.
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے حکم ہی سے اور جو کوئی ایمان لائے ساتھ اللہ کے وہ ہدایت دیتا ہے اس کے دل کو اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
(11) اور اطاعت کرو تم اللہ کی او ر اطاعت کرو تم رسول کی، پس اگر رو گردانی کرو تم تو بلاشبہ ہمارے رسول پر ہے پہنچا دینا ظاہر
(12) اللہ، نہیں کوئی معبود سوائے اس کے اور اللہ ہی پر پس چاہیے توکل کریں مومن
(13)
#
{11} يقول تعالى: {ما أصاب من مصيبةٍ إلاَّ بإذنِ الله}: وهذا عامٌّ لجميع المصائب في النفس والمال والولد والأحباب ونحوهم؛ فجميع ما أصاب العباد بقضاء الله وقدره؛ قد سبق بذلك علمُ الله وجرى به قلمُه ونفذت به مشيئتُه واقتضتْه حكمتُه، ولكنَّ الشأن كل الشأن: هل يقومُ العبد بالوظيفة التي عليه في هذا المقام أم لا يقوم بها؟ فإنْ قام بها؛ فله الثواب الجزيل والأجر الجميل في الدُّنيا والآخرة؛ فإذا آمن أنها من عند الله، فرضي بذلك وسلَّم لأمره؛ هدى الله قلبه، فاطمأنَّ ولم ينزعجْ عند المصائب؛ كما يجري ممَّن لم يهدِ الله قلبه، بل يرزقه الله الثبات عند ورودِها والقيام بموجب الصبر، فيحصل له بذلك ثوابٌ عاجلٌ مع ما يدَّخر اللهُ له يوم الجزاء من الأجر العظيم ؛ كما قال تعالى: {إنَّما يُوَفَّى الصابرون أجرهم بغير حساب}.
وعُلِمَ من ذلك أنَّ من لم يؤمنْ بالله عند ورود المصائب؛ بأن لم يلحظْ قضاء الله وقدره بل وقف مع مجرَّد الأسباب؛ أنَّه يُخذل ويَكِلُه الله إلى نفسه، وإذا وُكِلَ العبد إلى نفسه؛ فالنفس ليس عندها إلاَّ الهلع والجزع الذي هو عقوبةٌ عاجلةٌ على العبد قبل عقوبة الآخرة على ما فرَّط في واجب الصبر، هذا ما يتعلَّق بقوله: {ومَن يؤمِنْ بالله يَهْدِ قلبَه} في مقام المصائب الخاصِّ، وأمَّا ما يتعلَّق بها من حيث العموم اللَّفظيُّ؛ فإنَّ الله أخبر أنَّ كلَّ مَنْ آمنَ؛ أي: الإيمان المأمور به، وهو الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشرِّه، وصدَّق إيمانه بما يقتضيه الإيمان من لوازمه وواجباته؛ أنَّ هذا السبب الذي قام به العبدُ أكبرُ سببٍ لهداية الله له في أقواله وأفعاله وجميع أحواله وفي علمه وعمله، وهذا أفضل جزاءٍ يعطيه الله لأهل الإيمان؛ كما قال تعالى مخبراً أنَّه يثبِّت
المؤمنين في الحياة الدنيا وفي الآخرة، وأصل الثبات ثباتُ القلب وصبرُه ويقينُه عند ورود كلِّ فتنة، فقال: {يُثبِّتُ الله الذين آمنوا بالقول الثابتِ في الحياة الدُّنيا وفي الآخرة}؛ فأهلُ الإيمان أهدى الناس قلوباً وأثبتُهم عند المزعجات والمقلقات، وذلك لما معهم من الإيمان.
[11] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ ’’جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کےحکم سے آتی ہے۔‘‘ یہ آیت کریمہ جان، مال، اولاد اور احباب کے مصائب وغیرہ سب کو شامل ہے، چنانچہ بندوں پر نازل ہونے والے تمام مصائب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، اس پر اس کا قلم جاری ہو چکا، اس پر اس کی مشیت نافذ ہو چکی اور اس کی حکمت نے اس کا تقاضا کیا ۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ آیا بندے نے اس ذمہ داری کو پورا کیا جو اس مقام پر اس پر عائد تھی یا وہ اس کو پورا نہ کر سکا؟اگر اس نے اس ذمہ داری کو پورا کیا تو اس کے لیے دنیا و آخرت میں ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ پس جب وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تب اس پر راضی ہوا، اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، تو اللہ اس کے قلب کو ہدایت سے بہرہ مند کر دیتا ہے ، پس وہ مطمئن ہو جاتا ہے، تب وہ مصائب کے وقت گھبراتا نہیں، جیسا کہ اس شخص کا وتیرہ ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہیں کرتا، مگر مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی اور موجبات صبر کو قائم کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے، اس سے اس کو دنیاوی ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ،
جزا و سزا کے دن کے لیے ثواب کو ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰؔبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر: 39؍10) ’’جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے حد و حساب اجر عطا کیا جائے گا۔‘‘
اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو کوئی مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا لحاظ نہیں کرتا بلکہ محض اسباب کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔
جب بندہ نفس پر بھروسہ کرتا ہے تو نفس کے پاس چیخ و پکار اور بے صبری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہ فوری سزا ہے جو آخرت کی سزا سے پہلے بندے کو اس دنیا میں اس پاداش میں ملتی ہے کہ اس نے صبر میں کوتاہی کی جو اس پر واجب تھا۔یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق ہے
﴿ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ﴾ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے تو مصائب کے خاص مقام میں بھی اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت عطا کرتا ہے۔ رہی وہ چیز جو عموم لفظی کی حیثیت سے اس سے تعلق رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ایمان لایا ، یعنی ایسا ایمان جو مامور بہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا، پھر ایمان جن لوازم و واجبات کا تقاضا کرتا ہے، اس کے ایمان نے ان کی تصدیق کی۔ یہ سبب جس کو بندے نے اختیار کیا، اس کے اقوال و افعال، اس کے تمام احوال اور اس کے علم و عمل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ بہترین جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی سے بہرہ مند کرتا ہے۔
اصل ثابت قدمی، دل کی ثابت قدمی، اس کا صبر اور ہر قسم کے فتنہ کے وارد ہونے کے وقت اس کا یقین ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ﴾ (ابراہیم:14؍27) ’’اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے مضبوط بات کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثبات عطا کرتا ہے۔‘‘ پس اہل ایمان کے دل لوگوں میں سب سے زیادہ راہ ہدایت پر اور وہ گھبراہٹ اور خوف کے موقعوں پر سب سے زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایمان ہے۔
#
{12} وقوله: {وأطيعوا الله وأطيعوا الرسولَ}؛ أي: في امتثال أمرهما واجتناب نهيهما؛ فإنَّ طاعة الله وطاعة رسولِهِ مدارُ السعادة وعنوانُ الفلاح، {فإن تولَّيْتُم}؛ أي: عن طاعة الله وطاعة رسوله، {فإنَّما على رسولنا البلاغُ المبينُ}؛ أي: يبلِّغُكم ما أرسل به إليكم بلاغاً بيِّناً واضحاً، فتقوم عليكم به الحجَّة، وليس بيده من هدايتكم ولا من حسابكم شيءٌ ، وإنَّما يحاسبكم على القيام بطاعة الله وطاعة رسوله أو عدم ذلك، عالمُ الغيب والشهادة.
[12] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَاَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ ’’اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور
(اس کے) رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ یعنی ان دونوں کے اوامر کی تعمیل اور ان کے نواہی سے اجتناب میں ان کی اطاعت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول eکی اطاعت، سعادت کا مدار اور فلاح کا عنوان ہے
﴿ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول
(e) کی اطاعت سے روگردانی کرو
﴿ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ﴾ ’’تو ہمارے رسول تو صرف پر کھول کر پہنچادینا ہے۔‘‘ یعنی ہمارے رسول پر تو وہی ہے جو اسے دے کر تمھاری طرف بھیجا گیا ہے اور وہ سب کچھ نہایت واضح طور پر تمھیں پہنچا دیتا ہے جس کے ذریعے سے تم پر حجت قائم ہوتی ہے، تمھاری ہدایت اس کے قبضۂ قدرت میں ہے نہ تمھارا حساب اس کے اختیار میں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت اور عدم اطاعت کے بارے میں تمھارا محاسبہ وہ ہستی کرے گی جو غیب اور عیاں کا علم رکھنے والی ہے۔
#
{13} {الله} الذي {لا إله إلاَّ هو}؛ أي: هو المستحق للعبادة والألوهيَّة؛ فكل معبودٍ سواه فباطلٌ. {وعلى الله فليتوكَّل المؤمنون}؛ أي: فليعتمدوا عليه في كلِّ أمرٍ نابهم وفيما يريدون القيام به؛ فإنَّه لا يتيسَّر أمرٌ من الأمور إلاَّ بالله ولا سبيل إلى ذلك إلاَّ بالاعتماد على الله، ولا يتمُّ الاعتماد على الله حتى يُحْسِنَ العبدُ ظنَّه بربِّه ويثق به في كفايته الأمر الذي يعتمد عليه به، وبحسب إيمان العبد يكون توكُّله قوةً وضعفاً.
[13] ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ ’’اللہ
(وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود
(برحق) نہیں۔‘‘ یعنی وہ عبادت اور الوہیت کا مستحق ہے اس کے سوا ہر معبود باطل ہے
﴿وَعَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَؔكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ پس اہل ایمان کو ہر معاملے میں جو بھی انھیں پیش آئے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ کوئی معاملہ آسان نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پر بندے کا اعتماد اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک بندے کا اپنے رب کے ساتھ حسن ظن نہ ہو اور اس معاملے میں اس کے کافی ہونے کا وثوق نہ ہو، جس پر وہ بھروسہ کر رہا ہے۔ اور بندے کے ایمان کے مطابق اس کے توکل میں قوت اور ضعف ہوتا ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (14) إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (15)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بلاشبہ بعض تمھاری بیویاں اور
(بعض) تمھاری اولاد دشمن ہیں تمھارے ،سو بچو تم ان سے اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے
(14) یقیناً تمھارے مال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں اور اللہ، اس کے ہاں تو اجر عظیم ہے
(15)
#
{14 ـ 15} هذا تحذيرٌ من الله للمؤمنين عن الاغترار بالأزواج والأولاد؛ فإنَّ بعضهم عدوٌّ لكم، والعدوُّ هو الذي يريد لك الشرَّ، فوظيفتُك الحذرُ ممَّن هذه صفته ، والنفس مجبولة على محبّة الأزواج والأولاد، فنصح تعالى عباده أن توجب لهم هذه المحبة الانقياد لمطالب الأزواج والأولاد، التي فيها محذورٌ شرعيٌّ ، ورغَّبهم في امتثال أوامره وتقديم مرضاته بما عنده من الأجر العظيم، المشتمل على المطالب العالية والمحابِّ الغالية، وأن يؤثِروا الآخرة على الدُّنيا الفانية المنقضية. ولما كان النهيُ عن طاعة الأزواج والأولاد فيما هو ضررٌ على العبد والتحذير من ذلك قد يوهِمُ الغِلْظَةَ عليهم وعقابهم؛ أمَرَ تعالى بالحذر منهم والصفح عنهم والعفو؛ فإنَّ في ذلك من المصالح ما لا يمكن حصرُه، فقال: {وإن تَعْفوا وتَصْفَحوا وتَغْفِروا فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}؛ لأنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فمن عفا؛ عفا الله عنه، ومن صَفَحَ؛ صفح [اللَّه] عنه، ومن عامَلَ الله [تعالى] فيما يحبُّ، وعامل عباده بما يحبُّون وينفعهم؛ نال محبَّة الله ومحبَّة عباده واستوسق له أمره.
[14، 15] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ ان میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں۔ اور دشمن وہ ہوتا ہے جو تمھارے خلاف برائی کا ارادہ رکھتا ہو اور تمھارا وظیفہ
(ذمہ داری) ایسے شخص سے بچنا ہے جس کی یہ صفت ہو۔ بیویوں اور اولاد کی محبت نفس کی جبلت ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ایسی محبت کے بارے میں نصیحت کی ہے جو ان کے لیے بیوی اور اولاد کے ایسے مطالبات کے سامنے جھکنے کا موجب بنتی ہے جس میں کوئی شرعی ممانعت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احکام کی تعمیل اور اس ثواب عظیم کے لیے اس کی رضا کو مقدم رکھنے کی ترغیب دی ہے جو بلند مطالب اور عالی قدر محبت پر مشتمل ہے اور اس امر کی ترغیب دی ہے کہ وہ آخرت کو ختم ہو جانے والی فانی دنیا پر ترجیح دیں۔
چونکہ ایسے امور میں بیویوں اور اولاد کی اطاعت سے روکا گیا ہے اور ان سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے جن میں بندے کے لیے ضرر ہے، اس سے بیوی اور اولاد کے بارے میں درشتی اور سختی متوہم ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے بچنے اور ان کے ساتھ عفو و درگزر کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے، اس میں بہت سے مصالح ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں،
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ کیونکہ عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے، لہٰذا جو کوئی معاف کر دے ، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرتا ہے، جو کوئی درگزر کرے، اللہ تعالیٰ اس سے درگزر کرتا ہے، جو کوئی ایسے امر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرتا ہے جو اسے پسند ہے اور اس کے بندوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے فائدہ مند ہے ، تو وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے بندوں کی محبت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس کے معاملے کی حفاظت کی جاتی ہے۔
{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (16) إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (17) عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (18)}.
پس ڈرو تم اللہ سے جتنی استطاعت رکھتے ہو اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو تم
(ہوگا یہ) بہتر تمھارے نفسوں کے لیے اور جو کوئی بچا لیا گیا حرص سے اپنے نفس کی تو یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
(16) اگر تم قرض دو اللہ کو قرض حسنہ تو وہ بڑھائے گا اس کو تمھارے لیے اور بخش دے گا تمھیں اور اللہ بڑا قدر دان، خوب حوصلے والا ہے
(17) جاننے والا ہے پوشیدہ اور ظاہر کا، زبردست، خوب حکمت والا
(18)
#
{16} يأمر تعالى بتقواه التي هي امتثالُ أوامره واجتنابُ نواهيه، وقيَّد ذلك بالاستطاعة والقدرة. فهذه الآية تدلُّ على أنَّ كلَّ واجبٍ عجز عنه العبد يسقُطُ عنه، وأنَّه إذا قدر على بعض المأمور وعجز عن بعضه؛ فإنَّه يأتي بما يقدر عليه ويسقُطُ عنه ما يعجزُ عنه؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «إذا أمرتُكم بأمرٍ؛ فأتوا منه ما استطعتُم ». ويدخل تحت هذه القاعدة الشرعيَّة من الفروع ما لا يدخُل تحت الحصر. وقوله: {واسمعوا}؛ أي: اسمعوا ما يعِظُكم الله به وما يَشْرَعُه لكم من الأحكام واعلموا ذلك وانقادوا له، {وأطيعوا}: الله ورسولَه في جميع أموركم، {وأنفِقوا}: من النفقات [الشرعية] الواجبة والمستحبَّة؛ يَكُنْ ذلك الفعل منكم خيراً لكم في الدُّنيا والآخرة؛ فإنَّ الخير كلَّه في امتثال أوامر الله [تعالى] وقَبول نصائحه والانقياد لشرعه، والشرَّ كلَّه في مخالفة ذلك، ولكن ثَمَّ آفةٌ تمنعُ كثيراً من الناس من النفقة المأمور بها، وهو الشحُّ المجبولة عليه أكثر النفوس؛ فإنَّها تشحُّ بالمال وتحبُّ وجوده وتكره خروجه من اليد غاية الكراهة، فمن وقاه اللَّهُ [تعالى] {شُحَّ نفسِه}: بأن سمحت نفسه بالإنفاق النافع لها، {فأولئك هم المفلحونَ}: لأنَّهم أدركوا المطلوب ونجوا من المرهوب، بل لعلَّ ذلك شاملٌّ لكلِّ ما أمر به العبدُ ونهي عنه؛ فإنَّه إن كانت نفسُه شحيحةً لا تنقاد لما أمرت به ولا تخرِج ما قِبَلَها؛ لم يفلح، بل خسر الدنيا والآخرة، وإن كانت نفسه نفساً سمحة مطمئنةً منشرحةً لشرع الله طالبةً لمرضاته ؛ فإنَّها ليس بينها وبين فعل ما كلِّفت به إلاَّ العلم به ووصول معرفته إليها والبصيرة بأنَّه مُرضٍ لله [تعالى]، وبذلك تفلح وتنجح وتفوز كلَّ الفوز.
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ تقویٰ کا حکم دیتا ہے جو اس کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے کا نام ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو استطاعت اور قدرت سے مقید رکھا ہے۔یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ واجب جس کو ادا کرنے سے بندہ عاجز ہو، اس سے ساقط ہو جاتا ہے اگر کچھ امور پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور کچھ پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ صرف انھی امور پر عمل کرے گا جن پر عمل کرنے کی وہ قدرت رکھتا ہے اور جن پر عمل کرنے سے عاجز ہے،
وہ اس سے ساقط ہو جائیں گے۔ جیسا کہ نبی اکرم e نے فرمایا: ’إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘ ’’جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں استطاعت ہے اس کے مطابق اس پر عمل کرو۔‘‘
(صحیح البخاري، الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول اللہﷺ، ح: 2788 و صحیح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ح: 1337 و مسند أحمد: 428/2 واللفظ لہ)اس شرعی قاعدہ میں اتنی زیادہ فروع داخل ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَاسْمَعُوْا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جو تمھیں نصیحت کرتا ہے اور اس نے جو احکام تمھارے لیے مشروع کیے، ان کو سنو، ان کو جان لو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کر دو
﴿ وَاَطِیْعُوْا﴾ اور اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو
﴿ وَاَنْفِقُوْا﴾ اور شرعی نفقات واجبہ اور مستحبہ خرچ کرو، تمھارا یہ فعل
﴿ خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ﴾ دنیا و آخرت میں تمھارے لیے بہتر ہو گا کیونکہ بھلائی تمام تر اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کرنے، اس کے نصائح کو قبول کرنے اور اس کی شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں ہے اور شر تمام تر اس کی مخالفت کرنے میں ہے۔ مگر وہاں ایک اور آفت بھی ہے جو بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مامور بہ نفقات سے روکتی ہے اور وہ ہے بخل جو اکثر نفوس کی جبلت ہے۔ نفس مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں، اس کی موجودگی کو پسند کرتے ہیں اور مال کے ہاتھ سے نکلنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُ٘حَّ نَفْسِهٖ﴾ ’’اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچالیا گیا۔‘‘ یعنی اللہ نے اس کو مال خرچ کرنے کی توفیق عطا کر دی جو اس کے لیے فائدہ مند ہے
﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ کیونکہ انھوں نے مطلوب کو پا لیا اور ڈرائے جانے والے امور سے نجات پائی۔ بلکہ شاید یہ ہر اس امر کو شامل ہے، جس کا بندے کو حکم دیا گیا اور اس سے اس کو روکا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس کا نفس بخیل ہے تو اس حکم کی اطاعت نہیں کرے گا جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور مامور بہ نفقات کو ہاتھ سے نہیں نکالے گا تو اس نے فلاح نہیں پائی بلکہ دنیا و آخرت میں خسارے میں رہا۔ اگر اس کا نفس سخی ہے، اللہ تعالیٰ کی شریعت پر انشراح کے ساتھ مطمئن اور اس کی رضا کا طلب گار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس فعل کے درمیان جس کا وہ مکلف کیا گیا ہے، اس فعل کے علم ، اللہ تعالیٰ کی رضا کی معرفت اور اس چیز کی بصیرت کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کر رہا ہے، اس طریقے سے فلاح پائے گا اور تمام تر کامیابی سے بہرہ مند ہو گا۔
#
{17} ثم رغَّب تعالى في النفقة، فقال: {إن تقرِضوا الله قرضاً حسناً}: وهو كلُّ نفقة كانت من الحلال إذا قَصَدَ بها العبدُ وجه الله تعالى ووضعها موضعها، {يضاعِفْه لكم}: النفقة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعفٍ إلى أضعافٍ كثيرة، {و} مع المضاعفة أيضاً {يَغْفِرْ} اللهُ {لكم}: بسبب الإنفاق والصدقة ذنوبَكم؛ فإنَّ الذُّنوبَ يكفرها [اللَّهُ] بالصدقات والحسنات؛ {إنَّ الحسنات يُذْهِبْنَ السيئات}. {والله شكورٌ حليمٌ}: لا يعاجِلُ من عصاه، بل يُمْهِلُه ولا يُهْمِلُه، {ولو يؤاخِذُ اللهُ الناس بما كَسَبوا ما ترك على ظهرها من دابَّةٍ ولكن يؤخِّرُهم إلى أجلٍ مسمًّى}، والله تعالى شكورٌ، يقبلُ من عباده اليسير من العمل، ويجازيهم عليه الكثير من الأجر، ويشكر تعالى لمن تحمَّل من أجله المشاقَّ والأثقال وأنواع التَّكاليف الثقال، ومن ترك شيئاً لله؛ عوَّضه الله خيراً منه.
[17] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انفاق کی ترغیب دی،
فرمایا: ﴿ اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا﴾ ’’اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو۔‘‘ اپنی حلال کمائی میں سے ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، جبکہ اس خرچ کرنے سے بندے کا مطلوب و مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، اور اس کو صحیح مقام پر خرچ کرنا قرض حسنہ ہے
﴿ یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ﴾ ’’تو وہ اسے تمھارے لیے کئی گنا کردے گا۔‘‘ یعنی وہ تمھارے لیے اس کے ثواب کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ گناتک کر دے گا۔
﴿ وَ﴾ اور ثواب کو کئی گنا کرنے کے ساتھ ساتھ
﴿ یَغْفِرْ لَكُمْ﴾ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کے سبب سے تمھارے گناہوں کو بخش دے گا کیونکہ گناہوں کو صدقات اور نیکیاں مٹاتی ہیں
﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّؔیِّاٰتِ﴾ (ھود:11؍114) ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔‘‘
﴿ وَاللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾ ’’اور اللہ نہایت قدردان،
بردبار ہے۔‘‘ جو کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ اسے پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ اسے مہلت دیتا ہے اسے مہمل نہیں چھوڑتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّ٘رُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى﴾ (فاطر:35؍45) ’’اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے سبب سے پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا مگر وہ انھیں ایک مقررہ مدت کے لیے مہلت دیتا ہے۔‘‘
﴿ وَاللّٰهُ شَكُوْرٌ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تھوڑے سے عمل کو بھی قبول کرتا ہے اور اس پر انھیں بہت زیادہ اجر عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا قدر دان ہے جو اس کی خاطر مشقتیں، بوجھ اور مختلف انواع کی بھاری تکالیف برداشت کرتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے۔
#
{18} {عالمُ الغيبِ والشهادةِ}؛ أي: ما غاب من العباد من الجنود التي لا يعلمها إلاَّ هو وما يشاهدونه من المخلوقات. {العزيزُ}: الذي لا يغالَب ولا يمانَع، الذي قهر جميع الأشياء. {الحكيمُ}: في خلقه وأمره، الذي يضع الأشياء مواضعها.
[18] ﴿ عٰؔلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ ﴾ ’’وہ پوشیدہ اور ظاہر کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ ان لشکروں کا علم رکھتا ہے جو بندوں کی نظروں سے غائب ہیں اور وہ ان مخلوقات کا بھی علم رکھتا ہے جن کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں
﴿ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ جس کے مقابلے میں کوئی غالب آ سکتا ہے نہ رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ تمام اشیاء پر غالب ہے
﴿الْحَكِیْمُ﴾ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے، جو تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔