آیت:
تفسیر سورۂ اَحقاف
تفسیر سورۂ اَحقاف
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{حم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (2) مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ (3)}.
حٰمٓ(1) نازل کرنا کتاب کا اللہ کی طرف سے ہے، جو بڑا زبردست خوب حکمت والا ہے(2) نہیں پیدا کیا ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، مگر ساتھ حق اور وقت مقرر کے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان چیزوں سے (جن سے) وہ ڈرائے گئے، منہ موڑنے والے ہیں(3)
#
{2} هذا ثناءٌ منه تعالى على كتابه العزيز وتعظيمٌ له، وفي ضمن ذلك إرشادُ العباد إلى الاهتداء بنوره والإقبال على تدبُّر آياته واستخراج كنوزِهِ.
[2] یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنی کتاب عزیز کی ثنا اور تعظیم ہے اور اس ضمن میں بندوں کے لیے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ وہ اس کتاب کی روشنی سے راہ نمائی حاصل کریں، اس کی آیات میں تدبر کریں اور اس کے خزانوں کا استخراج کریں۔
#
{3} ولمَّا بيَّن إنزال كتابه المتضمِّن للأمر والنهي؛ ذكر خلقه السماواتِ والأرض، فجمع بين الخَلْق والأمر، {ألا له الخلقُ والأمر}؛ كما قال تعالى: {الله الذي خَلَقَ سبع سماواتٍ ومن الأرض مِثْلَهُنَّ يتنزَّلُ الأمرُ بينَهُنَّ}، وكما قال تعالى: {ينزِّلُ الملائكة بالرُّوح من أمرِهِ على مَن يشاءُ من عبادِهِ أنْ أنذِروا أنَّه لا إله إلا أنا فاتَّقونِ. خلقَ السمواتِ والأرض بالحقِّ}؛ فالله تعالى هو الذي خَلَقَ المكلَّفين، وخلق مساكِنَهم، وسخَّر لهم ما في السماوات وما في الأرض، ثم أرسل إليهم رسله، وأنزل عليهم كُتُبَه، وأمرهم ونهاهم، وأخبرهم أنَّ هذه الدارَ دارُ أعمال وممرٌّ للعمال، لا دار إقامة لا يرحلُ عنها أهلُها، وهم سينتقلون منها إلى دار الإقامة والقرارة وموطن الخلود والدوام، وإنَّما أعمالُهم التي عملوها في هذه الدار سيجدون ثوابها في تلك الدار كاملاً موفَّراً، وأقام تعالى الأدلَّة الدالَّة على تلك الدار، وأذاق العباد نموذجاً من الثواب والعقاب العاجل؛ ليكون أدعى لهم إلى طلب المحبوب والهرب من المرهوب، ولهذا قال هنا: {ما خَلَقْنا السمواتِ والأرضَ وما بينهما إلاَّ بالحقِّ}؛ أي: لا عبثاً ولا سدىً، بل ليعرف العبادُ عظمة خالقهما، ويستدلُّوا على كماله، ويعلموا أنَّ الذي خلقهما على عظمهما قادرٌ على أن يعيدَ العباد بعد موتِهِم للجزاء، وأنَّ خلقهما وبقاءهما مقدرٌ إلى أجل مسمًّى. فلما أخبر بذلك، وهو أصدق القائلين، وأقام الدليل، وأنار السبيل؛ أخبر مع ذلك أنَّ طائفةً من الخلق قد أبوا إلا إعراضاً عن الحقِّ وصدوفاً عن دعوة الرسل، فقال: {والذين كفروا عمَّا أُنذروا معرضون}. وأمَّا الذين آمنوا؛ فلمَّا علموا حقيقة الحال؛ قبلوا وصايا ربِّهم، وتلقَّوْها بالقبول والتسليم، وقابلوها بالانقياد والتعظيم، ففازوا بكلِّ خير، واندفع عنهم كلُّ شرٍّ.
[3] جب اللہ تعالی نے اس کتاب کو نازل کرنے کے بارے میں فرمایا، جو امرونہی کو متضمن ہے، تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا بھی ذکر فرمایا پس اس نے خلق و امر کو جمع کر دیا۔ ﴿ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ﴾ (الاعراف:7؍54) جیسا کہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْ٘لَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ﴾ (الطلاق:65؍12) ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے۔‘‘اور جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ یُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۰۰ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ﴾ (النحل:16؍2) ’’اللہ ہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو (اس بات سے) آگاہ کر دو کہ بلاشبہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، لہٰذا تم مجھ ہی سے ڈرو۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔‘‘ تو اللہ تعالی ہی نے مکلفین کو پیدا کیا، ان کے مساکن بنائے، ان کے لیے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو مسخر کر دیا‘‘پھر ان کی طرف رسول بھیجے، ان پر اپنی کتابیں نازل کیں، انھیں نیکی کا حکم دیا اور بدی سے روکا، انھیں خبردار کیا کہ یہ دنیا عمل کا گھر اور اہل عمل کے لیے گزرگاہ ہے، یہ دنیا اقامت کی جگہ نہیں کہ اس کے رہنے والے یہاں سے کوچ نہیں کریں گے، وہ عنقریب یہاں سے جائے قرار اور ہمیشہ رہنے والے دائمی ٹھکانے اور اقامت گاہ میں منتقل ہوں گے۔وہ اس گھر میں، اپنے اعمال کی جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں، کامل اور وافر جزا پائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالی نے اس گھر کے اثبات کے لیے دلائل قائم کیے اور نمونے کے طور پر اسی دنیا میں بندوں کو ثواب و عقاب کا مزا چکھایا تاکہ امر محبوب کی طلب اور امر مرہوب سے دور بھاگنے کا داعیہ زیادہ شدت سے پیدا ہو۔ بنابریں فرمایا: ﴿ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، برحق پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو عبث اور بے کار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ بندے ان کے خالق کی عظمت کو پہچانیں اور اس کے کمال پر ان سے استدلال کریں اور تاکہ بندے جان لیں کہ وہ ہستی جس نے ان کو پیدا کیا ہے، وہ بندوں کو ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے، نیز آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان کی بقا کا وقت ﴿ اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى﴾ ’’ایک مدت مقررہ تک ہے۔‘‘ معین ہے۔ جب اللہ تعالی نے اس حقیقت سے آگاہ فرمایا… اور وہ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے… اس پر دلائل قائم کیے اور راہ حق کو روشن کر دیا، تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ مخلوق میں سے ایک گروہ نے حق سے روگردانی کی اور انبیاء و رسل کی دعوت کو ٹھکرایا۔ فرمایا:﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَمَّاۤ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ﴾ ’’اور کافروں کو جس چیز کی نصیحت کی جاتی ہے، وہ اس سے اعراض کرلیتے ہیں۔‘‘ اور رہے اہل ایمان، تو انھیں جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے رب کی نصیحتوں کو قبول کر کے ان کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور اطاعت و تعظیم کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ پس وہ ہر بھلائی حاصل کرنے اور ہر برائی کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
آیت: 4 - 6 #
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (4) وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5) وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ (6)}.
کہہ دیجیے! بھلا بتلاؤ تو! جن چیزوں کو تم پکارتے (پوجتے) ہو سوائے اللہ کے، دکھاؤ مجھے کیا چیز پیدا کی ہے، انھوں نے زمین میں سے؟ یا ہے ان کا کوئی حصہ آسمانوں میں؟ لاؤ تم میرے پاس کوئی کتاب پہلے سے (نازل شدہ) اس (قرآن) سے، یا بقیہ علم سے، اگر ہو تم سچے(4) اور کون شخص زیادہ گمراہ ہے اس سے جو پکارتا ہے سوائے اللہ کے اس کو کہ نہیں جواب دے سکتا وہ اسے روز قیامت تک؟ اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں(5) اور جب اکٹھے کیے جائیں گے لوگ، تو ہوں گے وہ ان کے دشمن، اور ہوں گے وہ ان کی عبادت سے کفر (انکار) کرنے والے(6)
#
{4} أي: {قل}: لهؤلاء الذين أشركوا بالله أوثاناً وأنداداً لا تملك نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً، قل لهم مبيناً عجز أوثانهم، وأنَّها لا تستحقُّ شيئاً من العبادة: {أروني ماذا خَلَقوا من الأرض أمْ لهم شِرْكٌ في السمواتِ}: هل خلقوا من أجرام السماوات والأرض شيئاً؟ هل خلقوا جبالاً؟ هل أجْرَوْا أنهاراً؟ هل نشروا حيواناً؟ هل أنبتوا أشجاراً؟ هل كان منهم معاونةٌ على خلق شيءٍ من ذلك؟ لا شيء من ذلك بإقرارهم على أنفسهم فضلاً عن غيرهم. فهذا دليلٌ عقليٌّ قاطعٌ على أنَّ كلَّ من سوى الله؛ فعبادتُه باطلةٌ. ثم ذكر انتفاء الدليل النقليِّ، فقال: {ائتوني بكتابٍ من قبل هذا}: الكتاب، يدعو إلى الشرك، {أو أثارةٍ من علم}: موروث عن الرسل يأمر بذلك. من المعلوم أنَّهم عاجزون أن يأتوا عن أحدٍ من الرسل بدليل يدلُّ على ذلك، بل نجزم ونتيقَّن أنَّ جميع الرسل دَعَوْا إلى توحيد ربِّهم ونَهَوْا عن الشرك به، وهي أعظم ما يؤثَر عنهم من العلم؛ قال تعالى: {ولقد بَعَثْنا في كلِّ أمةٍ رسولاً أنِ اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوتَ}، وكلُّ رسول قال لقومه: {اعبُدوا الله ما لكم من إلهٍ غيرُه}، فعُلِمَ أنَّ جدال المشركين في شركهم غير مستندين على برهانٍ ولا دليل، وإنَّما اعتمدوا على ظنونٍ كاذبةٍ وآراءٍ كاسدةٍ وعقولٍ فاسدةٍ، يدلك على فسادها استقراء أحوالهم وتتبُّع علومهم وأعمالهم والنظرُ في حال من أفْنَوْا أعمارهم بعبادته؛ هل أفادهم شيئاً في الدُّنيا أو في الآخرة.
[4] ﴿ قُ٘لْ﴾ یعنی ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالی کا شریک ٹھہرایا، جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جن کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے کی قدرت ہی رکھتے ہیں۔ان کے معبودوں کی بے بسی بیان کرتے ہوئے، نیز یہ کہ وہ عبادت کے ذرہ بھر بھی مستحق نہیں۔ ان سے کہہ دیجیے: ﴿ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِ﴾ ’’مجھے دکھاؤ کہ انھوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔‘‘ کیا انھوں نے اجرام فلکی میں کچھ پیدا کیا، انھوں نے پہاڑ پیدا کیے یا دریا جاری کیے۔ کیا انھوں نے روئے زمین پر حیوانات پھیلائے یا درخت اگائے اور کیا انھوں نے تمام چیزوں کی تخلیق میں معاونت کی ہے۔ دوسروں کی تخلیق تو کجا، خود ان کے لیے اپنے اقرار کے مطابق وہ اپنے بارے میں بھی کسی چیز پر قادر نہیں ہیں، پس یہ اس حقیقت پر قطعی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ پھر اللہ تعالی نے ان کے پاس نقلی دلیل کے عدم وجود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِیْتُوْنِیْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰؔذَاۤ﴾ ’’اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ ۔‘‘ یعنی کوئی ایسی کتاب جو شرک کی دعوت دیتی ہو۔ ﴿ اَوْ اَثٰ٘رَةٍ مِّنْ عِلْمٍ﴾ یا رسولوں کی طرف سے کوئی موروث علم ہو جو ان عقائد کا حکم دیتا ہو… اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ انبیاء و رسل سے منقول کوئی دلیل لانے سے عاجز ہیں بلکہ ہم جزم و یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ تمام انبیاء و مرسلین نے اپنے رب کی توحید کی دعوت دی ہے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے روکا ہے اور یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جو ان کے علم میں سے منقول ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُ٘لِّ اُمَّؔةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُ٘وْتَ﴾ (النحل:16؍36) ’’اور بلاشبہ ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا (جو ان کو حکم دیتا تھا)کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘ ہر رسول نے اپنی قوم سے کہا: ﴿ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ﴾ (الاعراف:7؍59) ’’اللہ کی عبادت کرو، تمھارا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ شرک کے بارے میں مشرکین کی بحث و جدال کسی برہان اور دلیل پر مبنی نہیں، ان کا اعتماد جھوٹے نظریات، گھٹیا آراء اور فاسد عقل پر ہے۔ان کے احوال کا استقرا اور ان کے علوم و اعمال کا تتبع ان نظریات کے فاسد ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نیز ان لوگوں کے احوال پر غور کرنے سے ان کا بطلان ثابت ہوتا ہے جنھوں نے طاغوت کی عبادت میں اپنی عمریں گنوا دیں۔ کیا طاغوت نے دنیا یا آخرت میں انھیں کوئی فائدہ دیا؟
#
{5 ـ 6} ولهذا قال تعالى: {ومن أضلُّ ممَّن يدعو من دونِ الله من لا يستجيبُ له إلى يوم القيامةِ}؛ أي: مدة مقامه في الدنيا لا ينتفع به مثقال ذرَّة، {وهم عن دعائهم غافلون}: لا يسمعون منهم دعاءً ولا يجيبون لهم نداءً. هذا حالهم في الدُّنيا، ويوم القيامة يكفرون بشرككم، وإذا حُشِرَ الناس كانوا لهم أعداء يلعن بعضُهم بعضاً، ويتبرأ بعضُهم من بعض وكانوا بعبادتهم كافرين.
[6,5] اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا کسی ایسی ذات کو پکارے جو قیامت تک اس کا جواب نہ دے سکے۔‘‘ یعنی جتنی مدت اس کا دنیا میں قیام ہے وہ اس سے ذرہ بھر فائدہ نہیں اٹھا سکتا ﴿ وَهُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ ’’اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں۔‘‘ وہ ان کی کوئی دعا سن سکتے ہیں نہ ان کی کسی پکار کا جواب دے سکتے ہیں یہ ان کا دنیا میں حال ہے اور قیامت کے روز وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے۔ ﴿ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءًؔ﴾ ’’اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے۔‘‘ وہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے ﴿ وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ﴾ ’’اور وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔‘‘
آیت: 7 - 10 #
{وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (7) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ كَفَى بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (8) قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (9) قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (10)}
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں واضح ، تو کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر (انکار) کیا حق (قرآن) کا، جب آیا وہ ان کے پاس، یہ جادو ہے ظاہر(7)بلکہ وہ کہتے ہیں کہ (خود) گھڑا ہے اس نے اس کو، کہہ دیجیے: اگر (خود) گھڑا ہے میں نے اس کو تو نہیں اختیار رکھتے تم میرے لیے اللہ (کے عذاب) سے کچھ بھی، وہ خوب جانتا ہے ان باتوں کو کہ گفتگو کرتے ہو تم اس(قرآن)کے بارے میں کافی ہے وہ(اللہ)گواہ میرے درمیان اور تمھارے درمیان، اور وہ بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے(8) کہہ دیجیے: نہیں ہوں میں انوکھا رسولوں میں سے اور نہیں جانتا میں کہ کیا کیا جائے گا میرے ساتھ اور نہ تمھارے ساتھ نہیں پیروی کرتا میں مگر اسی کی جو وحی کی جاتی ہے میری طرف، اور نہیں میں مگر ڈرانے والا ظاہر(9) کہہ دیجیے، بھلا بتلاؤ تو! اگر ہو وہ (قرآن) اللہ کی طرف سے، اور کفر کیا تم نے اس کے ساتھ، اور گواہی دی ایک گواہ نے بنی اسرائیل میں سے اس جیسی (کتاب) پر، پھر ایمان لایا وہ اور تکبر کیا تم نے بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم لوگوں کو (10)
#
{7} أي: {وإذا تُتْلى}: على المكذِّبين {آياتُنا بيناتٍ}: بحيث تكون على وجهٍ لا يُمترى بها، ولا يشكُّ في وقوعها وحقِّها؛ لم تفِدْهم خيراً، بل قامت عليهم بذلك الحجة، ويقولون من إفكهم وإفترائهم {للحقِّ لمَّا جاءهم هذا سحرٌ مبينٌ}؛ أي: ظاهرٌ لا شكَّ فيه. وهذا من باب قلب الحقائق، الذي لا يروجُ إلاَّ على ضعفاء العقول، وإلاَّ؛ فبين الحقِّ الذي جاء به الرسولُ - صلى الله عليه وسلم - وبين السحر من المنافاة والمخالفة أعظم ممَّا بين السماء والأرض، وكيف يقاسُ الحقُّ ـ الذي علا وارتفع ارتفاعاً علا على الأفلاك، وفاق بضوئه ونوره نور الشمس، وقامت الأدلَّة الأفقيَّة والنفسيَّة عليه، وأقرَّت به، وأذعنت أولو البصائر والعقول الرزينة بالباطل الذي هو السحرُ الذي لا يصدُرُ إلاَّ من ضالٍّ ظالمٍ خبيث النفس خبيث العمل؛ فهو مناسبٌ له وموافقٌ لحاله؟! وهل هذا إلاَّ من البهرجة؟!
[7] اور جب ان جھٹلانے والوں کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں ﴿ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ﴾ ’’ہماری واضح آیات‘‘ اور وہ اس طرح واقع ہوتی ہیں کہ ان کے واقع ہونے اور حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ آیات انھیں کوئی فائدہ نہیں دیتیں بلکہ ان کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ وہ اپنی بہتان طرازی اور افترا پردازی کی بنا پر کہتے ہیں ﴿ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ١ۙ هٰؔذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’حق کے بارے میں، جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے‘‘یعنی ظاہر جادو ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ان کا یہ قول قلب حقائق کے زمرے میں آتا ہے، جو ضعیف العقل لوگوں میں میں رواج پاسکتا ہے۔ورنہ حق، جسے محمد مصطفیe لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور جادو کے مابین بہت بڑا تفاوت اور منافات ہے جو زمین و آسمان کے تفاوت سے بڑھ کر ہے۔ وہ حق، جو غالب اور افلاک کی بلندیوں پر پہنچا ہوا ہے جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہے، جس کی حقانیت پر دلائلِ آفاق اور دلائلِ نفس دلالت کرتے ہیں، جس کے سامنے اصحاب بصیرت اور خردمند لوگ سرنگوں ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں،اسے باطل پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟ جو جادو ہے، جو ظالم، گمراہ، خبیث النفس اور خبیث العمل شخص کے سوا کسی اور سے صادر نہیں ہو سکتا۔ پس جادو ایسے ہی شخص کے لیے مناسب اور اس کے موافق حال ہوتا ہے۔کیا یہ باطل کے سوا کچھ اور ہے؟
#
{8} {أم يقولون افتراه}؛ أي: افترى محمدٌ هذا القرآن من عند نفسه؛ فليس من عند الله، {قل} لهم: {إن افتريتُهُ}؛ فالله عليَّ قادرٌ وبما تفيضون فيه عالمٌ؛ فكيف لم يعاقبني على افترائي الذي زعمتم؛ فهل {تملِكون لي من الله شيئاً}: إنْ أرادني الله بضرٍّ أو أرادني برحمةٍ؟ {كفى به شهيداً بيني وبينَكم}: فلو كنت متقولاً عليه؛ لأخذ مني باليمين، ولعاقبني عقاباً يراه كلُّ أحدٍ؛ لأنَّ هذا أعظم أنواع الافتراء لو كنت متقوِّلاً. ثم دعاهم إلى التوبة مع ما صدر منهم من معاندة الحقِّ ومخاصمته، فقال: {وهو الغفورُ الرحيم}؛ أي: فتوبوا إليه، وأقلعوا عما أنتم فيه يغفر لكم ذنوبكم، ويرحمكم فيوفقكم للخير، ويثيبكم جزيل الأجر.
[8] ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ﴾ یعنی کیا وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمدe نے خود اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہے۔ ﴿قُ٘لْ﴾ ان سے کہہ دیجیے: ﴿ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ﴾ ’’اگر میں نے اسے بنایا ہے۔‘‘ پس اللہ مجھ پر قدرت رکھتا ہے اور جس کام میں تم مشغول ہو اسے بھی خوب جانتا ہے۔ اس نے مجھے اس افترا پردازی کی سزا کیوں کر نہ دی جس کو تم میری طرف منسوب کرتے ہو؟ پس کیا ﴿ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِیْ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔؔا﴾ اگر اللہ تعالی مجھے کسی ضرر میں مبتلا کرنے یا رحمت سے نوازنے کا ارادہ کرے تو تم اللہ تعالی کے مقابلے میں میرے لیے کسی بھی چیز کا اختیار رکھتے ہو؟ ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوْنَ فِیْهِ١ؕ كَ٘فٰى بِهٖ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ﴾ ’’وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو۔ وہی میرے اور تمھارے درمیان گواہ کافی ہے۔‘‘ پس اگر میں نے اللہ تعالی پر جھوٹ گھڑا ہوتا تو مجھے اپنی گرفت میں لے کر ایسی سزا دیتا جسے ہر کوئی دیکھتا، کیونکہ اگر میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو یہ سب سے بڑی افترا پردازی ہوتی۔ پھر اللہ تبارک وتعالی نے ان کو، حق کے بارے میں ان کے عناد اور مخاصمت کے باوجود توبہ کی طرف بلایا اور فرمایا: ﴿ وَهُوَ الْ٘غَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ یعنی توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو جاؤ ، اپنے گناہوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالی تمھارے گناہ بخش دے گا، تم پر رحم فرمائے گا، تمھیں بھلائی کی توفیق سے نوازے گا اور تمھیں بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔
#
{9} {قلْ ما كنتُ بدعاً من الرُّسل}؛ أي: لست بأول رسول جاءكم حتى تستغربوا رسالتي وتستنكروا دعوتي؛ فقد تقدَّم من الرسل والأنبياء من وافقت دعوتي دعوتهم؛ فلأيِّ شيء تنكرون رسالتي؟! {وما أدري ما يُفْعَلُ بي ولا بكم}؛ أي: لست إلاَّ بشراً، ليس بيدي من الأمر شيء، والله تعالى [هو] المتصرِّفُ بي وبكم، الحاكم عليَّ وعليكم، ولست آتي بالشيء من عندي. {وما أنا إلاَّ نذيرٌ مبينٌ}: فإنْ قبلتُم رسالتي وأجبتُم دعوتي؛ فهو حظُّكم ونصيبُكم في الدُّنيا والآخرة، وإن رددتُم ذلك عليَّ؛ فحسابُكم على الله، وقد أنذرْتكم، ومن أنذر فقد أعذر.
[9] ﴿ قُ٘لْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾ یعنی میں کوئی پہلا رسول نہیں جو تمھارے پاس آیا ہوں کہ تم میری رسالت کو عجیب و غریب پاؤ اور میری دعوت کا انکار کرو، مجھ سے پہلے بھی انبیاء و رسل آچکے ہیں، میری دعوت اور ان کی دعوت میں موافقت ہے ، پھر تم کس بنا پر میری رسالت کا انکار کر رہے ہو۔ ﴿ وَمَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِكُمْ﴾ ’’میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟‘‘ یعنی میں تو صرف ایک بشر ہوں، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں، میرے اور تمھارے بارے میں صرف اللہ تعالی ہی تصرف کرتا ہے، مجھ پر اور تم پر وہی اپنے فیصلے نافذ کرتا ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ پیش نہیں کرتا ﴿ وَمَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اور میں تو صرف علی الاعلان ڈرانے والا ہوں۔‘‘ لہٰذا اگر تم میری رسالت کو مانتے ہوئے میری دعوت کو قبول کر لو تو یہ دنیا و آخرت میں تمھاری خوش نصیبی اور تمھارا بہرۂ وافر ہے۔ اور اگر تم اس دعوت کو ٹھکرا دو تو تمھارا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔میں نے تو تمھیں برے انجام سے خبردار کر دیا ہے اور جس نے خبردار کر دیا وہ بریٔ الذمہ ہے۔
#
{10} {قل أرأيتُم إن كان من عندِ الله وكفرتُم به وشَهِدَ شاهدٌ من بني إسرائيل على مثلِهِ فآمن واستكبرتُم}؛ أي: أخبروني لو كان هذا القرآن من عند الله، وشهد على صحَّته الموفَّقون من أهل الكتاب، الذين عندهم من الحقِّ ما يعرفون أنَّه الحقُّ، فآمنوا به واهتدَوْا، فتطابقتْ أنباء الأنبياء وأتباعهم النبلاء واستكبرتُم أيُّها الجهلاء الأغبياء؛ فهل هذا إلا أعظم الظلم وأشدُّ الكفر؟! {إنَّ الله لا يهدي القوم الظالمين}: ومن الظُّلم الاستكبار عن الحقِّ بعد التمكُّن منه.
[10] ﴿ قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَكَفَرْتُمْ بِهٖ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ٘ فَاٰمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ﴾ یعنی مجھے بتاؤ اگر یہ قرآن اللہ تعالی کی طرف سے ہو اور اہل کتاب میں سے ان توفیق یافتہ لوگوں نے بھی اس کی صحت کی شہادت دی ہو، جن کے پاس حق ہے اور وہ پہچانتے ہیں کہ یہ بھی حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئے اور ہدایت یافتہ ہوئے، تو انبیاء کرام کی خبر اور ان کی متبعین میں مطابقت ہوگئی۔اے جاہل اور کم عقل لوگو!کیا یہ (تمھارا رویہ)سب سے بڑے ظلم اور شدید ترین کفر کے سوا کچھ اور ہے؟ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ اور یہ ظلم ہے کہ حق قبول کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود تکبر سے اسے ٹھکرا دیا جائے۔
آیت: 11 - 12 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ (11) وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ (12)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے جو ایمان لائے، اگر ہوتا وہ (دین) بہتر نہ پہل کرتے وہ ہم سے اس کی طرف، اور جب نہ ہدایت پائی انھوں نے اس (قرآن) کے ذریعے سے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے قدیم (11) اور اس (قرآن) سے پہلے کتاب تھی موسیٰ کی، پیشوا اور رحمت، اور یہ (قرآن) کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں، تاکہ وہ ڈرائے ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا، اور خوش خبری نیکی کرنے والوں کے لیے (12)
#
{11 ـ 12} أي: قال الكفار بالحقِّ معاندين له ورادِّين لدعوته: {لو كان خيراً ما سبقونا إليه}؛ أي: ما سَبَقَنا إليه المؤمنون، أي: لكنّا أول مبادرٍ به وسابق إليه! وهذا من البهرجة في مكان؛ فأيُّ دليل يدلُّ على أنَّ علامة الحقِّ سبق المكذبين به للمؤمنين؟! هل هم أزكى نفوساً؟! أم أكمل عقولاً؟! أم الهدى بأيديهم؟! ولكن هذا الكلام الذي صدر منهم يعزُّون به أنفسهم، بمنزلة من لم يقدرْ على الشيء ثم طَفِقَ يذمُّه، ولهذا قال: {وإذْ لم يَهْتَدوا به فسيقولونَ هذا إفكٌ قَديمٌ}؛ أي: هذا السبب الذي دعاهم إليه أنهم لما لم يهتدوا بهذا القرآن، وفاتهم أعظمُ المواهب وأجلُّ الرغائب؛ قدحوا فيه بأنَّه كذبٌ، وهو الحقُّ الذي لا شكَّ فيه ولا امتراء يعتريه، {الذي} قد وافق الكتب السماويَّة، خصوصاً أكملها وأفضلها بعد القرآن، وهي التوراة التي أنزلها الله على {موسى إماماً ورحمة}؛ أي: يقتدي بها بنو إسرائيل ويهتدون بها، ويحصُلُ لهم خير الدنيا والآخرة. {وهذا}: القرآن {كتابٌ مصدقٌ}: للكتب السابقة، شهد بصدِقها وصدَّقها بموافقته لها، وجَعَلَه الله {لساناً عربيًّا}: ليسهل تناوله ويتيسر تذكُّره؛ {لينذر الذين ظلموا}: أنفسهم بالكفر والفسوق والعصيان إن استمرُّوا على ظلمهم بالعذاب الوبيل، ويبشر المحسنين في عبادة الخالق وفي نفع المخلوقين بالثواب الجزيل في الدُّنيا والآخرة، ويذكِّر الأعمال التي ينذر عنها والأعمال التي يبشر بها.
[12,11] حق کا انکار کرنے والے، اس سے عناد رکھنے والے اور اس کی دعوت کو ٹھکرانے والے کفار کہتے ہیں۔ ﴿ لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَاۤ اِلَیْهِ﴾ ’’اگر یہ بہتر ہوتا تو یہ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔‘‘ یعنی مومنین ہم پر سبقت نہ لے جا سکتے، ہم اس بھلائی کی طرف سب سے پہلے آگے بڑھنے والے اور اس کی طرف سب سے زیادہ سبقت کرنے والے ہوتے۔ ان کا یہ قول ایک لحاظ سے باطل ہے… کون سی دلیل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حق کی علامت یہ ہے کہ اہل تکذیب اہل ایمان پر سبقت لے جائیں؟ کیا وہ زیادہ پاک نفس اور عقل و خرد میں زیادہ کامل ہیں؟ کیا ہدایت ان کے ہاتھ میں ہے؟ مگر یہ کلام جو ان سے صادر ہوا، جسے وہ اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اس شخص کے کلام کی مانند ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو اور وہ اس چیز کی مذمت کرنا شروع کر دے۔اسی لیے فرمایا: ﴿ وَاِذْ لَمْ یَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ۠ هٰؔذَاۤ اِفْكٌ قَدِیْمٌ﴾ ’’اور جب وہ اس سے ہدایت یاب نہ ہوئے تو اب کہتے ہیں کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔‘‘ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر انھوں نے اس قرآن سے راہ نمائی حاصل نہ کی اور یوں وہ عظیم ترین نوازشات اور جلیل ترین عطیات سے محروم ہو گئے۔اسے جھوٹ کہہ کر اس میں جرح و قدح کی، حالانکہ یہ حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ یہ قرآن ان کتب سماویہ کی موافقت بھی کرتا ہے جو اس سے قبل نازل ہو چکی ہیں، خاص طور پر تورات کی جو قرآن کریم کے بعد افضل ترین کتاب ہے۔ ﴿ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّرَحْمَةً﴾ ’’موسیٰ(u) کی کتاب جو راہنما اور رحمت ہے۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل اس کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور انھیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ وَهٰؔذَا﴾ یعنی یہ قرآن ﴿ كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ﴾ گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے، ان کی صداقت کی گواہی دیتا ہے اور ان کی موافقت کر کے ان کی تصدیق کرتا ہے ﴿ لِّسَانًا عَرَبِیًّا﴾ اللہ تعالی نے اس کو عربی زبان میں اتارا تاکہ اس کو اخذ کرنا سہل اور اس سے نصیحت حاصل کرنا آسان ہو ﴿ لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ تاکہ یہ ان لوگوں کو برے انجام سے خبردار کرے جنھوں نے کفر، فسق اور نافرمانی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اگر وہ اپنے ظلم پر جمے رہیں تو ان کو دردناک عذاب سے ڈرائے۔ اور اپنے خالق کی عبادت میں احسان کرنے اور مخلوق کو نفع پہنچانے والوں کے لیے، دنیا و آخرت میں ثواب جزیل کی خوشخبری دے۔اور ان اعمال کا ذکر کرے جن سے ڈرایا گیاہے اور ان اعمال کا ذکر کرے جن پر خوشخبری دی گئی ہے۔
آیت: 13 - 14 #
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (13) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (14)}.
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ قائم رہے(اس پر)، پس نہیں کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے (13) یہ لوگ ہیں جنتی، ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں، جزا ہے اس کی جو تھے وہ عمل کرتے (14)
#
{13} أي: إنَّ الذين أقرُّوا بربِّهم، وشهدوا له بالوحدانيَّة، والتزموا طاعته، وداموا على ذلك، و {استقاموا} مدَّة حياتهم؛ {فلا خوفٌ عليهم}: من كل شرٍّ أمامهم، {ولا هم يحزنونَ}: على ما خلَّفوا وراءهم.
[13] یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کا اقرار کرتے ہیں، اس کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں، اس کی اطاعت کا التزام کرتے ہیں اور اس پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں ﴿ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ عمر بھر استقامت سے کام لیتے ہیں ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ﴾ تو آنے والے کسی شر سے ان کے لیے خوف نہیں ﴿ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ اور نہ انھیں اس چیز پر حزن و غم ہے جو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
#
{14} {أولئك أصحابُ الجنَّة}؛ أي: أهلها الملازمون لها، الذين لا يبغون عنها حِوَلاً ولا يريدونَ بها بدلاً، {خالدين فيها جزاءً بما كانوا يعملونَ}: من الإيمان بالله، المقتضي للأعمال الصالحة، التي استقاموا عليها.
[14] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ﴾ یعنی وہ اہل جنت اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں جہاں سے وہ منتقل ہونا چاہیں گے نہ اس کو بدلنا چاہیں گے ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالی پر ایمان جو ان اعمال صالحہ کا مقتضی تھا جن پر یہ ہمیشہ قائم رہے۔
آیت: 15 - 16 #
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (16)}.
اور وصیت کی ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اٹھایا اس کو اس کی ماں نے تکلیف سے اور جنا اس نے اسے تکلیف سے اور اس کا حمل اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے ہے حتیٰ کہ جب پہنچا وہ اپنی جوانی (کی قوتوں) کو اور پہنچا چالیس برس کو کہا اس نے اے میرے رب! توفیق دے تو مجھے یہ کہ شکر کروں میں تیری (اس) نعمت کا وہ جو تونے کی مجھ پر اور میرے والدین پر، اور یہ کہ عمل کروں میں نیک کہ تو پسند کرے اس کو، اور اصلاح کر تو میرے لیے میری اولاد میں، بلاشبہ میں نے توبہ کی تیری طرف، اور بلاشبہ میں مسلمانوں میں سے ہوں (15) یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم قبول کرتے ہیں ان سے اچھے عمل جو کیے انھوں نے اورہم درگزر کرتے ہیں ان کی برائیوں سے، (وہ ہوں گے)جنتیوں میں، وعدہ ہے سچا جو تھے وہ وعدہ دیے جاتے (16)
#
{15} هذا من لطفه تعالى بعباده وشكره للوالدين أن وصَّى الأولاد وعهد إليهم أن يحسنوا إلى والديهم بالقول اللطيف والكلام الليِّن وبَذْل المال والنفقة وغير ذلك من وجوه الإحسان، ثم نبَّه على ذكر السبب الموجب لذلك، فذكر ما تحمَّلته الأمُّ من ولدها، وما قاستْه من المكاره وقت حَمْلِها، ثم مشقَّة ولادتها المشقَّة الكبيرة، ثم مشقَّة الرضاع وخدمة الحضانة، وليست المذكوراتُ مدة يسيرة ساعة أو ساعتين، وإنما ذلك مدة طويلة قدرها {ثلاثون شهراً}: للحمل تسعة أشهر ونحوها، والباقي للرضاع، هذا الغالب. ويستدلُّ بهذه الآية مع قوله: {والوالداتُ يرضِعْن أولادهنَّ حولينِ كاملينِ}: أنَّ أقلَّ مدَّة الحمل ستة أشهر؛ لأنَّ مدَّة الرضاع وهي سنتان إذا سقطت منها السنتان؛ بقي ستة أشهر مدة للحمل، {حتى إذا بلغ أشُدَّه}؛ أي: نهاية قوَّته وشبابه وكمال عقله، {وبَلَغَ أربعين سنةً قال ربِّ أوْزِعْني}؛ أي: ألهمني ووفقني، {أنْ أشكر نعمتَك التي أنعمتَ عليَّ وعلى والديَّ}؛ أي: نعم الدين ونعم الدنيا، وشكره بصرف النعم في طاعة مسديها وموليها ومقابلة منَّته بالاعتراف والعجز عن الشكر والاجتهاد في الثناء بها على الله، والنعم على الوالدين نعم على أولادهم وذُرِّيَّتهم لأنَّهم لا بدَّ أن ينالهم منها ومن أسبابها وآثارها، خصوصاً نعم الدين؛ فإنَّ صلاح الوالدين بالعلم والعمل من أعظم الأسباب لصلاح أولادهم، {وأنْ أعمل صالحاً ترضاه}: بأنْ يكونَ جامعاً لما يصلِحُه سالماً مما يفسِدُه؛ فهذا العمل الذي يرضاه الله ويقبله ويثيبُ عليه، {وأصلحْ لي في ذُرِّيَّتي}: لما دعا لنفسه بالصلاح؛ دعا لذرِّيَّته أن يصلح الله أحوالهم، وذكر أنَّ صلاحهم يعود نفعه على والديهم؛ لقوله: {وأصلِحْ لي}. {إني تبتُ إليك}: من الذَّنوب والمعاصي ورجعت إلى طاعتك، {وإنِّي من المسلمين}.
[15] یہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور والدین کی قدر و توقیر ہے کہ اس نے اولاد کو حکم دیا اور ان کو اس امر کا پابند کیا کہ وہ نرم و ملائم بات، مال و نفقہ اور دیگر طریقوں سے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، پھر اس کے سبب موجب کی طرف اشارہ کیا، پھر اس مرحلے کا ذکر فرمایا جس میں ماں اپنے بچے کو اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس حمل کے دوران تکالیف برداشت کرتی ہے، پھر ولادت کے وقت بہت بڑی مشقت کا سامنا کرتی ہے،پھر رضاعت اور پرورش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ مذکورہ مشقت تھوڑی سی مدت، گھڑی دو گھڑی کے لیے نہیں بلکہ وہ مدت یعنی ﴿ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ﴾ اس کو پیٹ میں اٹھانے اور اس کی رضاعت کا طویل عرصہ ﴿ ثَلٰ٘ثُوْنَ شَ٘هْرًا﴾ ’’تیس مہینے ہے۔‘‘ جن میں سے غالب طور پر نو ماہ کے لگ بھگ حمل اور باقی رضاعت کے لیے ہیں۔اس آیت کریمہ کو اللہ تعالی کے ارشاد: ﴿ وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْ٘نِ كَامِلَیْ٘نِ﴾ (البقرۃ:2؍233) ’’اور مائیں اپنی اولاد کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔‘‘ کے ساتھ ملا کر استدلال کیا جاتا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ رضاعت کی مدت کو، جو کہ دو سال ہے، تیس مہینوں میں سے نکال دیا جائے تو حمل کی مدت چھ ماہ بچتی ہے۔ ﴿ حَتّٰۤى اِذَا بَلَ٘غَ اَشُدَّهٗ ﴾ یعنی وہ اپنی قوت و شباب کی انتہا اور اپنی عقل کے کمال کو پہنچ جاتا ہے ﴿ وَبَلَ٘غَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ﴾ ’’اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے توفیق دے۔‘‘ یعنی اے میرے رب مجھے الہام کر اور مجھے توفیق عطا کر ﴿ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ ﴾ ’’کہ تونے جو احسان مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں ان کا شکر گزار رہوں۔‘‘ یعنی دین اور دنیا کی نعمتیں اور اس کا شکر کرنا یہ ہے کہ ان نعمتوں کو، منعم کی اطاعت میں صرف کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ان نعمتوں کی شکر گزاری سے عجز کے اعتراف اور ان نعمتوں پر اللہ تعالی کی حمدوثنا میں کوشاں رہا جائے۔ والدین کو نعمتوں سے نوازا جانا، ان کی اولاد کو ان نعمتوں کو نوازا جانا ہے کیونکہ ان نعمتوں اور ان کے اسباب و آثار کا اولاد تک پہنچنا لابدی امر ہے، خاص طور پر دین کی نعمت، کیونکہ علم و عمل کے ذریعے سے والدین کا نیک ہونا اولاد کے نیک ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ﴿ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ﴾ ’’اور ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو‘‘ وہ اس طرح کہ وہ ان اعمال کا جامع ہو جو اسے نیک بناتے ہیں اور ان اعمال سے پاک ہو جو اسے خراب کرتے ہیں، یہی وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالی کو پسند ہیں اور جن کو اللہ تعالی قبول فرما کر ان پر ثواب عطا کرتا ہے۔﴿ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ ’’اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔‘‘ جب اس نے اپنے لیے نیکی کی دعا کی تو اس نے اپنی اولاد کے لیے بھی دعا کی کہ اللہ تعالی ان کے احوال کو درست فرما دے۔نیز ذکر فرمایا کہ اولاد کی نیکی کا فائدہ والدین کی طرف لوٹتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَاَصْلِحْ لِیْ﴾ ’’اور میرے لیے اصلاح کردے۔‘‘ ﴿ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ﴾ میں گناہ اور معاصی سے تیرے پاس توبہ کرتا ہوں اور تیری اطاعت کی طرف لوٹتا ہوں ﴿ وَاِنِّیْ مِنَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ﴾ اور بے شک میں تیرے مطیع بندوں میں سے ہوں۔
#
{16} {أولئك}: الذين ذكرت أوصافهم {الذين نتقبَّلُ عنهم أحسنَ ما عملوا}: وهو الطاعاتُ؛ لأنَّهم يعملون أيضاً غيرها، {ونتجاوزُ عن سيِّئاتِهم في}: جملة {أصحاب الجنة}: فحصل لهم الخيرُ والمحبوبُ، وزال عنهم الشرُّ والمكروه. {وعدَ الصِّدْقِ الذي كانوا يوعدونَ}؛ أي: هذا الوعدُ الذي وعَدْناهم هو وعدٌ صادقٌ من أصدق القائلين الذي لا يُخلف الميعادَ.
[16] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ وہ لوگ جن کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں ﴿ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا﴾ ’’یہی وہ ہیں، جن کے نیک اعمال ہم قبول کریں گے۔‘‘ اس سے مراد نیکیاں ہیں، وہ اس کے علاوہ بھی نیک عمل کرتے ہیں۔ ﴿ وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِهِمْ فِیْۤ اَصْحٰؔبِ الْجَنَّةِ﴾ ’’اور ان کے گناہوں سے تجاوز فرمائیں گے (یہی) اہل جنت میں ہوں گے۔‘‘ یعنی جملہ اہل جنت کے ساتھ، سو ان کو بھلائی اور مطلوب محبوب حاصل ہو گا، شر اور ناپسندیدہ امور زائل ہو جائیں گے ﴿ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی یہ وعدہ جو ہم نے ان کے ساتھ کیا تھا، سب سے زیادہ سچی ہستی کا وعدہ ہے، جو کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتی۔
آیت: 17 - 19 #
{وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (17) أُولَئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ (18) وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (19)}.
اور وہ جس نے کہا اپنے والدین سے اف ہے تم دونوں پر، کیا تم دونوں وعدہ دیتے ہو مجھے یہ کہ نکالا جاؤ ں گا میں(قبر سے)حالانکہ گزر چکی ہیں(بہت سی) امتیں مجھ سے پہلے، جبکہ وہ دونوں فریاد کرتے ہیں اللہ سے، ہلاک ہو جائے تو! ایمان لے آ، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، پس وہ کہتا ہے: نہیں ہے یہ مگر (قصے) کہانیاں پہلے لوگوں کی (17) یہ وہ لوگ ہیں کہ ثابت ہو گئی ان پر بات (عذاب کی) ، ان امتوں میں جو گزر چکیں پہلے ان سے جنوں اور انسانوں میں سے بے شک وہ تھے خسارہ پانے والے (18) اور ہر ایک کے لیے درجے ہیں (مطابق) اس کےجو عمل کیے انھوں نے اور تاکہ پورا دے ان کو (اللہ بدلہ) ان کے اعمال کا، اور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے(19)
#
{17} لما ذكر تعالى حالَ الصالح البارِّ لوالديه؛ ذكر حالة العاقِّ، وأنَّها شرُّ الحالات، فقال: {والذي قال لوالديه}: إذ دعياه إلى الإيمان بالله واليوم الآخر، وخوَّفاه الجزاء، وهذا أعظم إحسان يصدُرُ من الوالدين لولدهما أن يَدْعُواه إلى ما فيه سعادتُه الأبديَّة وفلاحه السرمديُّ، فقابلهما بأقبح مقابلة، فقال: {أفٍّ لكُما}؛ أي: تبًّا لكما، ولما جئتما به. ثم ذكر وجه استبعادِه وإنكاره لذلك، فقال: {أتعدانِني أنْ أُخْرَجَ}: من قبري إلى يوم القيامة {وقد خلتِ القرونُ من قبلي}: على التكذيب، وسلفوا على الكفر، وهم الأئمَّة المقتدى بهم لكلِّ كفورٍ وجهول ومعاندٍ. {وهما}؛ أي: والداه {يستغيثان الله}: عليه ويقولان له: {ويلكَ آمِنْ}؛ أي: يبذلان غاية جهدهما ويسعيان في هدايته أشدَّ السعي، حتى إنَّهما من حرصهما عليه إنهما يستغيثان الله له استغاثةَ الغريق، ويسألانه سؤال الشريق، ويعذلان ولدهما، ويتوجَّعان له، ويبيِّنان له الحقَّ، فيقولان: {إنَّ وعد الله حقٌّ}، ثم يقيمان عليه من الأدلَّة ما أمكنهما، وولدُهما لا يزداد إلا عتوًّا ونفوراً واستكباراً عن الحقِّ وقدحاً فيه، {فيقول ما هذا إلاَّ أساطير الأولينَ}؛ أي: إلا منقولٌ من كتب المتقدِّمين، ليس من عند الله، ولا أوحاه الله إلى رسوله، وكل أحدٍ يعلم أنَّ محمداً - صلى الله عليه وسلم - أميٌّ لا يكتب ولا يقرأ، ولا يتعلَّم من أحد؛ فمن أين يتعلَّمه، وأنَّى للخلق أن يأتوا بمثل هذا القرآن ولو كان بعضُهم لبعضٍ ظهيراً؟!
[17] اللہ تبارک و تعالی نے اس صالح شخص کا حال بیان کرنے کے بعد جو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے، اس شخص کا حال بیان کیا ہے جو اپنے والدین کا نافرمان ہے، نیز ذکر فرمایا کہ یہ بدترین حال ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ﴾ ’’اور جس نے اپنے والدین سے کہا۔‘‘ یعنی جب انھوں نے اس کو اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسے بداعمالیوں کی سزا سے ڈرایا اور یہ عظیم ترین احسان ہے جو والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے صادر ہوتا ہے کہ وہ انھیں ایسے امور کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں ابدی سعادت اور سرمدی فلاح ہے مگر وہ بدترین طریقے سے اپنے والدین کے ساتھ پیش آیا، اس نے کہا: ﴿ اُفٍّ لَّـكُمَاۤ﴾ یعنی ہلاکت ہو تمھارے لیے اور اس دعوت کے لیے جسے تم پیش کرتے ہو،پھر اس نے اپنے انکار اور اس امر کا ذکر کیا جسے وہ محال سمجھتا تھا، اور کہا: ﴿ اَتَعِدٰؔنِنِیْۤ اَنْ اُخْرَجَ﴾ کیا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ قیامت کے روز مجھے میری قبر سے نکالا جائے گا ﴿ وَقَدْ خَلَتِ الْ٘قُ٘رُوْنُ مِنْ قَ٘بْلِیْ﴾ ’’حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔‘‘ جو تکذیب اور کفر کی راہ پر گامزن تھے، جو ہر کافر، جاہل اور معاندِ حق کے راہ نما اور مقتدیٰ تھے۔ ﴿ وَهُمَا﴾ یعنی اس کے والدین ﴿ یَسْتَغِیْثٰ٘نِ﴾ اس کے بارے میں اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے ہوئے کہتے تھے: ﴿ وَیْلَكَ اٰمِنْ﴾ یعنی وہ اس کی ہدایت کے لیے انتہائی جدوجہد اور پوری کوشش کر رہے تھےحتی کہ اس کے ایمان کی سخت حرص کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح مدد مانگ رہے تھے جیسے ڈوبتا ہوا شخص مدد کے لیے پکارتا ہے۔وہ اس طرح اللہ تعالی سے سوال کر رہے تھے، جیسے کوئی اچھو لگا ہوا شخص سوال کرتا ہے۔وہ اپنے بیٹے کو ملامت کرتے تھے، اس کے لیے سخت درمند تھے اور اس کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ﴿ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ﴾ ’’بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ پھر اس پر دلائل قائم کر رہے تھے، مگر ان کا بیٹا تھا کہ اس میں سرکشی، نفرت اور حق کے بارے میں تکبر اور جرح و قدح میں اضافہ ہی ہو رہا تھا ﴿ فَیَقُوْلُ مَا هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ یعنی جواب میں کہتا تھا یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ گزشتہ کتابوں میں سے نقل کردہ کہانیاں ہیں، یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں اور نہ اللہ تعالی نے اپنے رسول پر ان کو وحی ہی کیا ہے۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جناب محمد مصطفیe امی ہیں جو لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہے، آپ تعلیم حاصل کرتے بھی کہاں سے اور مخلوق اس جیسا قرآن کہاں سے لاتی، خواہ سب لوگ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوتے؟
#
{18} {أولئك الذين}: بهذه الحالة الذَّميمة {حقَّ عليهم القولُ}؛ أي: حقَّت عليهم كلمة العذاب {في} جملة {أمم قد خَلَتْ من قبلهم من الجنِّ والإنس}: على الكفر والتكذيب، فسيدخل هؤلاء في غمارهم، ويغرقون في تيَّارهم. {إنَّهم كانوا خاسرينَ}: والخسران فواتُ رأس مال الإنسان، وإذا فقد رأسَ مالِهِ؛ فالأرباح من باب أولى وأحرى؛ فهم قد فاتهم الإيمان، ولم يحصِّلوا شيئاً من النعيم، ولا سلموا من عذاب الجحيم.
[18] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ﴾ یعنی اس مذموم حالت کے حاملین ﴿ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ﴾ ان پر کلمۂ عذاب واجب ہوگیا ﴿ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ﴾ ’’وہ ان جنات اور انسانوں کے گروہ کے ساتھ شامل ہوں گے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔‘‘ ان جملہ قوموں میں جو کفر اور تکذیب پر جمی رہیں عنقریب وہ اپنے کرتوتوں کے سمندر میں غرق ہوں گے۔ ﴿ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ ’’یقیناً وہ نقصان پانے والے تھے۔‘‘ اور خسران انسان کے رأس المال کے ضائع ہونے کا نام ہے۔ جب رأس المال ہی مفقود ہو تو منافع سے محرومی تو بدرجہ اولی ہے۔پس وہ ایمان سے محروم ہو گئے ہیں انھیں کوئی نعمت حاصل ہوئی نہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے۔
#
{19} {ولكلٍّ}: من أهل الخير وأهل الشرِّ {درجاتٌ مما عملوا}؛ أي: كلٌّ على حسب مرتبته من الخير والشرِّ، ومنازلهم في الدار الآخرة على قدر أعمالهم، ولهذا قال: {ولِيُوَفِّيهم أعمالَهم وهم لا يُظْلَمونَ}: بأن لا يزاد في سيِّئاتهم ولا ينقصَ من حسناتِهِم.
[19] ﴿ وَلِكُ٘لٍّ﴾ یعنی اہل خیر اور اہل شر میں سے ہر ایک ﴿ دَرَجٰؔتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا﴾ خیر اور شرکے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر اور اپنے اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق آخرت میں اپنے اپنے درجہ پر ہو گا۔بنابریں فرمایا: ﴿وَلِیُوَفِّیَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کی برائیوں میں کوئی اضافہ کیا جائے گا نہ ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔
آیت: 20 #
{وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (20)}.
اور جس دن پیش کیے جائیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا آگ پر (کہا جائے گا) لے لیا تم نے(پورا حصہ)اپنی لذتوں کا اپنی زندگانی ٔدنیا میں، اور فائدہ اٹھا لیا تم نے ان سے ، پس آج بدلہ دیے جاؤ گے تم عذابِ ذلت کا بہ سبب اس کے کہ تھے تم تکبر کرتے زمین میں ناحق اور بہ سبب اس کے کہ تھے تم نافرمانی کرتے (20)
#
{20} يذكر تعالى حال الكفار عند عرضهم على النار حين يُوَبَّخون ويُقَرَّعون، فيقال لهم: {أذهبتم طيباتِكُم في حياتكم الدُّنيا}؛ حيث اطمأننتم إلى الدُّنيا، واغتررتم بلذَّاتها، ورضيتم بشهواتها، وألهتكم طيِّباتُها عن السعي لآخرتكم، وتمتَّعتم تمتُّع الأنعام السارحة؛ فهي حظُّكم من آخرتكم. {فاليوم تُجْزَوْنَ عذاب الهون}؛ أي: العذاب الشديد الذي يهينكم، ويفضحكم [بما كنتُم تقولون على الله غير الحقِّ] ؛ أي: تنسبون الطريق الضالَّة التي أنتم عليها إلى الله وإلى حكمِهِ وأنتم كَذَبة في ذلك، {وبما كنتُم تفسُقونَ}؛ أي: تتكبَّرون عن طاعته، فجمعوا بين قول الباطل والعمل بالباطل والكذب على الله بنسبته إلى رضاه والقدح في الحقِّ والاستكبار عنه، فعوقبوا أشدَّ العقوبة.
[20] اللہ تبارک و تعالی کفار کا حال بیان کرتا ہے، جب ان کو جہنم کے سامنے پیش کیا جائے گا اور زجروتوبیخ کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا: ﴿ اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰؔتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا ﴾ ’’تم اپنی دنیا کی زندگی میں لذتیں حاصل کرچکے۔‘‘ کیونکہ تم دنیا پر مطمئن ہو گئے، اس کی لذتوں کے دھوکے میں مبتلا ہو گئے، اس کی شہوات کو پسند کر لیا اور اس کی طیبات نے تمھیں آخرت کی کوششوں سے غافل کر دیا ﴿ وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا﴾ ’’اور ان سے متمتع ہوچکے۔‘‘ جیسے چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے مویشی فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ تمھاری آخرت میں سے تمھارا حصہ ہے ﴿ فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ﴾ یعنی آج تمھیں سخت عذاب دیا جائے گا جو تمھیں رسوا کر کے رکھ دے گا۔ اور یہ اس سبب سے ہے جو تم اللہ پر ناحق بات کہاکیا کرتے تھے، یعنی گمراہی کی طرف لے جانے والے جس راستے پر تم گامزن تھے تم اسے اللہ تعالی اور اس کے حکم کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حالانکہ تم اس بارے میں جھوٹے تھے۔ ﴿ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ﴾ یعنی تم تکبر کرتے تھے اور اللہ تعالی کی اطاعت کے دائرہ سے نکل گئے تھے۔پس انھوں نے قول باطل، عمل باطل، اللہ تعالی پر اس کی رضا کے بارے میں جھوٹ، حق کے بارے میں قدح اور حق کے بارے میں تکبر کو جمع کیا، اس لیے ان کو سخت سزا دی گئی۔
آیت: 21 - 26 #
{وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (21) قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (22) قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ (23) فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (24) تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ (25) وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (26)}.
اور یاد کریں عاد کے بھائی (ہود) کو، جب اس نے ڈرایا اپنی قوم کو احقاف میں اور تحقیق گزر چکے کئی ڈرانے والے اس(ہود)سے پہلے اور اس کےبعد، اس(بات)سے کہ نہ عبادت کرو تم(کسی کی) سوائے اللہ کے، بلاشبہ میں ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک عظیم دن کے (21) انھوں نے کہا، کیا آیا ہے تو ہمارے پاس تاکہ پھیر دے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے؟ پس لے آ تو ہمارے پاس وہ جس کا وعدہ دیتا ہے ہمیں، اگر ہے تو سچوں میں سے (22) ہود نے کہا، یقیناً (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں پہنچاتا ہوں تم کو وہ چیزکہ بھیجا گیا ہوں میں اس کےساتھ اور لیکن میں دیکھتا ہوں تمھیں ایسے لوگ کہ تم جہالت کرتے ہو (23) پس جب انھوں نے دیکھا اس کو کہ ایک بادل سامنے چلا آ رہا ہے ان کی وادیوں کے تو کہا، یہ بادل ہے ہم پر بارش برسانے والا(بادل نہیں)بلکہ یہ وہ عذاب ہے کہ جلدی طلب کرتے تھے تم اس کو (وہ)ہوا ہے، اس میں نہایت درد ناک عذاب ہے (24) وہ تباہ کر دے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے، پس وہ (ایسے) ہو گئے کہ نہ دکھائی دیتا تھا (کچھ بھی) سوائے ان کے گھروں کے اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم لوگوں کو (25) اور البتہ تحقیق قدرت دی تھی ہم نے ان کو اس چیز کی کہ نہیں قدرت دی ہم نے تمھیں اس کی، اور دیے تھے ہم نے ان کو کان اور آنکھیں اور دل، پس نہ فائدہ دیا ان کو ان کے کانوں نے اور نہ ان کی آنکھوں نے اور نہ ان کے دلوں نے کچھ بھی جبکہ تھے وہ انکار کرتے اللہ کی آیتوں کا اور گھیر لیا ان کو اس (عذاب) نے کہ تھے وہ جس کا ٹھٹھا کرتے (26)
#
{21} أي: {واذكر}: بالثناء الجميل {أخا عادٍ}: وهو هودٌ عليه السلام، حيث كان من الرسل الكرام، الذين فضَّلهم الله تعالى بالدَّعوة إلى دينه وإرشاد الخلق إليه، {إذْ أنذر قومَه}: وهم عادٌ {بالأحقافِ}؛ أي: في منازلهم المعروفة بالأحقاف، وهي الرمال الكثيرة في أرض اليمن، {وقد خَلَتِ النُّذُر من بين يديه ومن خلفِهِ}: فلم يكن بدعاً منهم ولا مخالفاً لهم، قائلاً لهم: {أن لا تعبُدوا إلاَّ الله إنِّي أخافُ عليكم عذابَ يوم عظيم}: فأمرهم بعبادة الله الجامعة لكلِّ قول سديدٍ وعمل حميدٍ، ونهاهم عن الشِّرْكِ والتَّنديد، وخوفهم إنْ لم يطيعوه العذابَ الشَّديد، فلم تُفِدْ فيهم تلك الدعوة.
[21] ﴿ وَاذْكُرْ﴾ یعنی ثنائے جمیل کے ساتھ ذکر کر ﴿ اَخَا عَادٍ﴾ قوم عاد کے بھائی اس سے مراد ہودu ہیں کیونکہ ان کا شمار ان مرسلین کرام میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالی نے، اپنے دین کی طرف دعوت اور اس کی طرف مخلوق کی راہ نمائی کی وجہ سے فضیلت دی ﴿ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ ﴾ ’’جب انھوں نے اپنی قوم کو ڈرایا۔‘‘ اور وہ تھے قوم عاد ﴿ بِالْاَحْقَافِ ﴾ یعنی ان کے وہ گھر جو وادی احقاف میں معروف ہیں۔ ’’احقاف‘‘ سے مراد ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جو ارض یمن میں واقع ہیں۔ ﴿وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖۤ ﴾ یعنی حضرت ہود ان میں سے کوئی انوکھے نبی نہ تھے اور نہ گزشتہ انبیاء کی مخالفت کرنے والے تھے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے ہدایت کرنے والے گزرے ہیں۔ حضرت ہودu نے ان کو یہ کہتے ہوئے ڈرایا ﴿ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ یعنی ان کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا جو راست گوئی اور قابل ستائش عمل کی جامع ہے، انھیں شرک اور خدا سازی سے منع کیا اور انھیں اس بات سے ڈرایا کہ اگر انھوں نے ان کی اطاعت نہ کی تو ان پر سخت عذاب نازل ہو گا، مگر اس دعوت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔
#
{22} فَـ {قَالوا أجئتنا لِتأفِكَنا عن آلهتنا}؛ أي: ليس لك من القصد ولا معك من الحقِّ إلاَّ أنك حِدتنا على آلهتنا، فأردتَ أن تصرِفَنا عنها، {فأتِنا بما تَعِدُنا إن كنتَ من الصادقين}: وهذا غاية الجهل والعناد.
[22] ﴿ قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا ﴾ یعنی تیرے سامنے کوئی مقصد ہے نہ تیرے پاس حق ہے، سوائے اس کے کہ تو ہمارے معبودوں کے ساتھ حسد رکھتا ہے اور تو ہمیں، ہمارے معبودوں سے پھیرنا چاہتا ہے ﴿فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’پس اگر تم سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر لے آؤ ۔‘‘ یہ جہالت اور عناد کی انتہا ہے۔
#
{23} {قال إنَّما العلمُ عند اللهِ}: فهو الذي بيده أزمَّةُ الأمور ومقاليدُها، وهو الذي يأتيكم بالعذاب إن شاء، {وأبَلِّغُكُم ما أرسلتُ به}؛ أي: ليس عليَّ إلاَّ البلاغُ المبين، {ولكني أراكم قوماً تجهلونَ}: فلذلك صدر منكم ما صدر من هذه الجرأة الشديدة.
[23] ﴿قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ پس وہی ہے جس کے ہاتھ میں تمام امور کی زمام اختیار اور جس کے قبضہ قدرت میں تمام معاملات کی کنجیاں ہیں اور اگر وہ چاہے تو وہی تم پر عذاب بھیج سکتا ہے ﴿وَاُبَلِّغُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ ﴾ واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا مجھ پر کوئی اور ذمہ داری نہیں ﴿ وَلٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ ﴾ ’’لیکن میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم جاہل قوم ہو۔‘‘ اسی وجہ سے تمھاری طرف سے اس جرأت کا ارتکاب ہوا ہے۔
#
{24 ـ 25} فأرسل اللهُ عليهم العذاب العظيم، وهو الريحُ التي دمَّرتهم وأهلكتهم، ولهذا قال: {فلما رأوْه}؛ أي: العذاب، {عارضاً مستقبلَ أودِيَتِهِم}؛ أي: معترضاً كالسَّحاب، قد أقبل على أوديتهم التي تسيلُ فتسقي نوابتهم ويشربون من آبارها وغدرانها، {قالوا}: مستبشرين: {هذا عارضٌ ممطِرنُا}؛ أي: هذا السحاب سيمطرنا. قال تعالى: {بل هو ما استعجَلْتُم به}؛ أي: هذا الذي جنيتُم به على أنفسِكم حيث قلتُم: {فأتِنا بما تَعِدُنا إن كنتَ من الصادقين}. {ريحٌ فيها عذابٌ أليمٌ. تدمِّرُ كلَّ شيءٍ}: تمرُّ عليه من شدَّتها ونحسها، فسلَّطها الله {عليهم سبع ليالٍ وثمانية أيام حسوماً، فترى القوم فيها صَرْعى كأنَّهم أعجازُ نخل خاويةٍ}، {بأمر ربِّها}؛ أي: بإذنه ومشيئته، {فأصبحوا لا يرى إلاَّ مساكِنُهُم}: قد تلفتْ مواشيهم وأموالُهم وأنفسهم. {كذلك نجزي القوم المجرمين}: بسبب جرمِهِم وظُلمهم.
[25,24] پس اللہ تعالی نے ان پر عذاب نازل فرمایا۔ وہ عذاب ایک ایسی ہوا کی شکل میں تھا جس نے ان کو ہلاک اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ﴿ فَلَمَّا رَاَوْهُ ﴾ جب انھوں نے اس عذاب کو دیکھا جو ﴿ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْ﴾ بادل کی طرح پھیلتے ہوئے ان کی وادیوں کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں سیلاب کا پانی بہتا تھا جہاں سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے، ان وادیوں کے کنو وں اور تالابوں سے پانی پیتے تھے۔ ﴿ قَالُوْا﴾ (تو) انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ﴿ هٰؔذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا﴾ یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖ﴾ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم نے خود اپنے لیے چنا ہے کہ تم نے کہا تھا ﴿ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’ہمارے پاس وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے۔‘‘ ﴿رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۰۰ تُدَمِّرُ كُ٘لَّ شَیْءٍۭ﴾ ’’یہ ایک ایسی ہوا ہے جس کے اندر درد ناک عذاب ہے جوہر چیز کو ہلاک کر دے گی۔‘‘ یعنی یہ ہوا جس چیز پر سے گزرتی اپنی شدت اور نحوست کی وجہ سے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی۔پس اللہ تعالیٰ نے اسے ان پر لگاتار سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل رکھا﴿سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ﴾ (الحاقۃ: 7/69) ’’لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن (آپ وہاں ہوتے) تو اس ہوا میں لوگوں کو پچھاڑے اور مرے ہوئے دیکھتے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوتے ہیں‘‘﴿ ؔ بِاَمْرِ رَبِّهَا﴾ یعنی اپنے رب کے حکم اور اس کی مشیت سے ﴿ فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰۤى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ﴾ ’’وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے مکانات کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔‘‘ اس ہوا نے ان کے مویشیوں، ان کے مال و متاع اور خود ان کو نیست و نابود کر دیا۔ ﴿ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ ’’ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘ ان کے جرم اور ظلم کے سبب سے۔
#
{26} هذا مع أنَّ الله قد أدرَّ عليهم النِّعم العظيمة فلم يشكُروه ولا ذكَروه، ولهذا قال: {ولقد مكَّنَّاهم فيما إن مَكَّنَّاكم فيه}؛ أي: مكنَّاهم في الأرض يتناولون طيباتها، ويتمتَّعون بشهواتها، وعمَّرناهم عمراً يتذكَّر فيه من تذكَّر ويتَّعظ فيه المهتدي؛ أي: ولقد مكَّنَّا عاداً كما مكَّنَّاكم يا هؤلاء المخاطبون؛ أي: فلا تحسبوا أنَّ ما مَكَّنَّاكم فيه مختصٌّ بكم، وأنَّه سيدفع عنكم من عذاب الله شيئاً، بل غيرُكم أعظمُ منكم تمكيناً، فلم تُغْنِ عنهم أموالُهم ولا أولادُهم ولا جنودُهم من الله شيئاً، {وجَعَلْنا لهم سمعاً وأبصاراً وأفئدةً}؛ أي: لا قصور في أسماعهم ولا أبصارهم ولا أذهانهم حتى يقال: إنَّهم تركوا الحقَّ جهلاً منهم وعدم تمكُّن من العلم به ولا خلل في عقولهم، ولكنَّ التوفيقَ بيدِ الله، {فما أغنى عنهم سمعُهم ولا أبصارُهم ولا أفئدتُهم من شيءٍ}: لا قليل ولا كثير، وذلك بسبب أنهم يجحدون آيات الله الدَّالَّة على توحيدِهِ وإفرادِهِ بالعبادة، {وحاق بهم ما كانوا به يستهزِئون}؛ أي: نزل بهم العذاب الذي يكذِّبون بوقوعه، ويستهزِئون بالرسل الذين حذَّروهم منه.
[26] اس کے باوجود کہ اللہ تعالی نے ان کو بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا، انھوں نے اس کا شکر ادا کیا نہ اس کا ذکر، اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ مَكَّـنّٰهُمْ فِیْمَاۤ اِنْ مَّكَّـنّٰكُمْ فِیْهِ﴾ ’’اور ہم نے ان کو ایسی قدرت سے نوازا جو کہ تمھیں نہیں عطا کی۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں زمین میں اقتدار و اختیار عطا کیا، وہ زمین کی نعمتیں استعمال کرتے اور اس کی شہوات سے متمتع ہوتے تھے، ہم نے انھیں ایک عمر تک آباد رکھا اس عرصے کے دوران نصیحت حاصل کرنے والے نے نصیحت حاصل کی اور ہدایت یافتہ نے ہدایت پائی۔ اے مخاطبین!ہم نے قوم عاد کو بھی اسی طرح اقتدار و اختیار عطا کیا تھا جیسے تمھیں عطا کیا ہے، اس لیے یہ نہ سمجھو کہ ہم نے تم کو جو اقتدار عطا کیا ہے وہ صرف تمھارے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اقتدار تم سے اللہ تعالی کے عذاب کو دور کر دے گا۔بلکہ دوسروں کو تم سے بڑھ کر اقتدار حاصل تھا، مگر اللہ تعالی کے مقابلے میں ان کے مال، اولاد اور لشکر کسی کام نہ آئے۔ ﴿ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـِٕدَةً﴾ ’’اور ہم نے انھیں کان، آنکھیں اور دل دیے۔‘‘ یعنی ان کی سماعت، ان کی بصارت اور ان کے اذہان میں کسی قسم کی کمی نہ تھی کہ یہ کہا جاتا کہ انھوں نے کم علمی اور علم پر قدرت نہ رکھنے اور عقل میں کسی خلل کی وجہ سے حق کو ترک کیا… مگر توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿ فَمَاۤ اَغْ٘نٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَاۤ اَبْصَارُهُمْ وَلَاۤ اَفْـِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ﴾ ’’پس ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے دل کچھ کام نہ آئے۔‘‘ یعنی تھوڑا یا بہت، کسی کام نہ آئے کیونکہ ﴿ اِذْ كَانُوْا یَجْحَدُوْنَ١ۙ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ﴾ وہ اللہ تعالی کی آیات کا انکار کرتے تھے‘‘ جو اللہ تعالی کی توحید اور اکیلے عبادت کا مستحق ہونے پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠﴾ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہوا، جس کے وقوع کا وہ انکار اور انبیاء و مرسلین کے ساتھ استہزا کیا کرتے تھے جو ان کو اس عذاب سے ڈراتے تھے۔
آیت: 27 - 28 #
{وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (27) فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ وَذَلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (28)}
اور البتہ تحقیق ہلاک (تباہ) کر دیں ہم نے جو تمھارے آس پاس ہیں بستیاں اور ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیں آیتیں تاکہ وہ (ہماری طرف) رجوع کریں (27) پس کیوں نہ مدد کی ان کی ان لوگوں نے جنھیں ٹھہرایا تھا انھوں نے سوائے اللہ کے قرب حاصل کرنے کے لیے معبود، بلکہ گم ہو گئے وہ (معبود) ان سے، اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور جو کچھ کہ تھے وہ افترا باندھتے (28)
#
{27 ـ 28} يحذِّر تعالى مشركي العرب وغيرهم بإهلاك الأمم المكذِّبين الذين هم حول ديارهم، بل كثيرٌ منهم في جزيرة العرب؛ كعادٍ وثمودَ ونحوهم، وأنَّ الله تعالى صَرَّفَ لهم {الآياتِ}؛ أي: نوَّعها من كل وجه، {لعلهم يرجِعونَ}: عمَّا هم عليه من الكفر والتكذيب، فلمَّا لم يؤمنوا؛ أخذهم اللهُ أخذَ عزيزٍ مقتدرٍ، ولم تنفعْهم آلهتُهم التي يَدْعون من دون الله من شيءٍ، ولهذا قال هنا: {فلولا نَصَرَهُم الذين اتَّخذوا من دون الله قُرباناً آلهةً}؛ أي: يتقرَّبون إليهم ويتألَّهونهم لرجاء نفعهم. {بل ضلُّوا عنهم}: فلم يُجيبوهم ولا دَفَعوا عنهم، {وذلك إفْكُهُمْ وما كانوا يفترونَ}: من الكذب الذي يُمَنُّون به أنفسَهم؛ حيث يزعُمون أنَّهم على الحقِّ، وأنَّ أعمالهم ستنفعُهم، فضلَّت وبطلت.
[28,27] اللہ تبارک و تعالی عرب کے مشرکین اور دیگر مشرکین کو ڈراتا ہے کہ اس نے انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو تباہ و برباد کر دیا جو ان مشرکین کے اردگرد آباد تھیں بلکہ ان میں سے بہت سی قومیں تو جزیرۃ العرب میں آباد تھیں، مثلاً: عاد اور ثمود وغیرہ، اللہ تعالی نے ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں ، یعنی انھیں ہر نوع کی نشانیاں پیش کیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ یعنی شاید کہ وہ اپنے کفر اور تکذیب کے رویے سے باز آجائیں۔ جب وہ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالی نے ان کو اس طرح پکڑا جس طرح زبردست اور قدرت رکھنے والی ہستی پکڑتی ہے، ان کے ان خداؤ ں نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا جن کو وہ اللہ کے بغیر پکارا کرتے تھے۔اس لیے یہاں فرمایا: ﴿ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُ٘رْبَ٘انًا اٰلِهَةً﴾ ’’لہٰذا ان لوگوں نے جن کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا تقرب کا ذریعہ بنایا گیا، ان کی مدد کیوں نہ کی۔‘‘ یعنی ان کا تقرب حاصل کرتے اور ان سے فائدے کی امید پر ان کی عبادت کرتے تھے ﴿ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ﴾ بلکہ ان کے معبودوں نے ان کی پکار کا کوئی جواب دیا نہ عذاب کو ان سے دور کر سکے۔ ﴿ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ یعنی وہ جھوٹ گھڑا کرتے تھے، جس کی بنا پر وہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور ان کے اعمال ان کو فائدہ دیں گے، مگر وہ اعمال بے کار اور باطل ہو گئے۔
آیت: 29 - 32 #
{وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (29) قَالُوا يَاقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (30) يَاقَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (31) وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (32)}.
اور(یاد کریں)جب ہم نے پھیر دی آپ کی طرف ایک جماعت جنوں کی، و ہ سنتے تھے قرآن، پس جب وہ حاضر ہوئے اس(کی تلاوت)کو تو انھوں نے کہا خاموش رہو پس جب ختم کی گئی(تلاوت) تو لوٹے وہ(جن)اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے(بن کر) (29) انھوں نے کہا اے ہماری قوم! بے شک ہم نے سنی ہے ایک کتاب جو نازل کی گئی ہے بعد موسیٰ کے ، وہ تصدیق کرنے والی ہے ان (کتابوں) کی جو اس سے پہلے ہیں، وہ رہنمائی کرتی ہے حق کی طرف اور راہ مستقیم کی طرف (30) اے ہماری قوم! قبول کر لو اللہ کے داعی(کی بات)کو، اور ایمان لے آؤ اس پر وہ بخش دے گا تمھارے لیے تمھارے گناہ، اور بچائے گا وہ تمھیں نہایت درد ناک عذاب سے (31) اور جو کوئی نہیں قبول کرے گا اللہ کے داعی(کی بات)کو تو نہیں ہے وہ عاجز کرنے والا(اللہ کو) زمین میں اور نہیں ہو گا اس کا، سوائے اس (اللہ) کے، کوئی حمایتی ہی(بلکہ)یہ لوگ ہیں کھلی گمراہی میں (32)
#
{29} كان الله تعالى قد أرسل رسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم - إلى الخلق إنسهم وجنهم، وكان لا بدَّ من إبلاغ الجميع لدعوة النبوَّة والرسالة؛ فالإنس يمكنه عليه الصلاة والسلام دعوتُهم وإنذارُهم، وأمَّا الجنُّ؛ فصَرَفَهم الله إليه بقدرته وأرسل إليه {نفراً من الجنِّ يستمعونَ القرآن فلمَّا حَضَروه قالوا أنصِتوا}؛ أي: وصَّى بعضُهم بعضاً بذلك، {فلما قُضِيَ}: وقد وَعَوْه وأثَّر ذلك فيهم، {ولَّوْا إلى قومِهِم منذِرين}: نصحاً منهم لهم، وإقامة لحجَّة الله عليهم، وقيَّضهم الله معونةً لرسوله - صلى الله عليه وسلم - في نشر دعوتِهِ في الجنِّ.
[29] اللہ تبارک و تعالی نے جناب محمد مصطفیe کی تمام مخلوق،یعنی انسانوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔اس لیے تمام مخلوق کو نبوت و رسالت کی تبلیغ ضروری ہے۔انسانوں کو دعوت دینا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تو آپ کے لیے ممکن ہے۔رہے جنات تو اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے ان کو آپ کی طرف پھیر دیا، اللہ تعالی نے بھیجی ﴿ نَفَرًا مِّنَ الْ٘جِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ١ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْا﴾ آپ کی طرف ’’جنات کی ایک جماعت تاکہ وہ قرآن سنیں جب وہ آپ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے خاموش ہو جاؤ ‘‘یعنی انھوں نے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ ﴿ فَلَمَّا قُ٘ضِیَ﴾ جب قرآن پڑھا جا چکا اور انھوں نے اس کو یاد کر لیا اور قرآن نے ان پر اثر کیا ﴿ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ﴾ اپنی قوم کی خیرخواہی کرنے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے اپنی قوم کے پاس گئے۔اللہ تعالی نے اپنے رسولe کی مدد کرنے اور جنات میں آپ کی دعوت کو پھیلانے کے لیے جنات کو مقرر فرمایا۔
#
{30} {قالوا يا قومَنا إنَّا سَمِعْنا كتاباً أنزِلَ من بعدِ موسى}: لأنَّ كتاب موسى أصلٌ للإنجيل وعمدةٌ لبني إسرائيل في أحكام الشرع، وإنَّما الإنجيل متمِّم ومكمِّل ومغيِّر لبعض الأحكام، {مصدِّقاً لما بين يديه يَهْدي}: هذا الكتاب الذي سَمِعْناه، {إلى الحقِّ}: وهو الصوابُ في كلِّ مطلوبٍ وخبرٍ، {وإلى طريقٍ مستقيمٍ}: موصل إلى الله وإلى جنَّته من العلم بالله وبأحكامه الدينيَّة وأحكام الجزاء.
[30] ﴿ قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰؔى﴾ ’’انھوں نے کہا: اے قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔‘‘ یہاں انجیل کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیاکیونکہ حضرت موسیu کی کتاب انجیل کے لیے اصل اور بنی اسرائیل کے لیے احکام شریعت کی بنیاد ہے۔انجیل تو حضرت موسیu کی کتاب کی تکمیل اور بعض احکام میں ترمیم کرتی ہے۔ ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ﴾ ’’اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور راہنمائی کرتی ہے۔‘‘ یعنی یہ کتاب جو ہم نے سنی ہے ﴿ اِلَى الْحَقِّ﴾ حق کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، حق سے مراد ہے، ہر مطلوب اور ہر خبر میں راہ صواب۔ ﴿وَاِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’اور سیدھے راستے کی طرف‘‘ راہ نمائی کرتی ہے جو اللہ تعالی اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔مثلا اللہ تعالی کے بارے میں علم، نیز اس کے احکام دینی اور احکام جزا کا علم۔
#
{31} فلمَّا مَدَحوا القرآن وبيَّنوا محلَّه ومرتبته؛ دَعَوْهم إلى الإيمان به، فقالوا: {يا قومَنا أجيبوا داعيَ اللهِ}؛ أي: الذي لا يدعو إلاَّ إلى ربِّه، لا يدعوكم إلى غرض من أغراضِهِ ولا هوى، وإنَّما يدعوكم إلى ربِّكم لِيُثيبَكم، ويزيلَ عنكم كلَّ شرٍّ ومكروه، ولهذا قالوا: {يغفرْ لكم من ذُنوبِكُم ويُجِرْكُم من عذابٍ أليم}: وإذا أجارهم من العذاب الأليم؛ فما ثمَّ بعد ذلك إلاَّ النعيم؛ فهذا جزاءُ من أجاب داعي الله.
[31] جب وہ قرآن کی مدح و توصیف اور اس کا مقام اور مرتبہ بیان کر چکے تو انھوں نے اپنی قوم کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا: ﴿یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ﴾ ’’اے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات قبول کرو۔‘‘ یعنی جو صرف اپنے رب کی طرف دعوت دیتا ہے وہ اپنی کسی غرض اور کسی لالچ کے لیے تمھیں دعوت نہیں دیتا وہ تو تمھیں صرف تمھارے رب کی طرف بلاتا ہے تاکہ تمھارا رب تمھیں ثواب عطا کرے اور تم سے ہر برائی اور شر کو دور کر دے۔ اس لیے انھوں نے کہا: ﴿ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُجِرْؔكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ ’’ اللہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں ددناک عذاب سے پناہ میں رکھے گا۔‘‘ جب اس نے انھیں درد ناک عذاب سے نجات دے دی تو اس کے بعد نعمتوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔اور یہ اس شخص کے لیے جزا ہے جو اللہ تعالی کے داعی کی دعوت پر لبیک کہتا ہے۔
#
{32} {ومَن لا يُجِبْ داعيَ الله فليس بمعجزٍ في الأرضِ}: فإنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ، فلا يفوته هاربٌ ولا يغالِبُه مغالبٌ، {وليس له من دونِهِ أولياءُ أولئك في ضلالٍ مبينٍ}، وأيُّ ضلال أبلغُ من ضلال مَنْ نادَتْه الرسل، ووصلتْ إليه النُّذُر بالآيات البيِّنات والحجج المتواتراتِ فأعرض واستكبر؟!
[32] ﴿ وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَ٘لَ٘یْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’جو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات قبول نہیں کرے گا تو وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے، کوئی بھاگنے والا اس سے بھاگ سکتا ہے نہ کوئی مقابلہ کرنے والا اس پر غالب آ سکتا ہے۔ ﴿ وَلَ٘یْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾ اس شخص کی گمراہی سے بڑھ کر کون سی گمراہی ہو سکتی ہے، جسے انبیاء و رسلo نے دعوت دی، جس کے پاس برے انجام سے ڈرانے والے واضح دلائل اور متواتر براہین لے کر پہنچے مگر اس نے روگردانی اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔
آیت: 33 #
{أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (33)}.
کیا نہیں دیکھا (جانا) انھوں نے یہ کہ بے شک اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اورزمین کو اور نہ تھکا وہ ان کے پیدا کرنے سے(بے شک وہ)قادر ہے اس پر کہ زندہ کرے مُردوں کو، کیوں نہیں!بلاشبہ وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے (33)
#
{33} هذا استدلالٌ منه تعالى على الإعادة بعد الموت بما هو أبلغُ منها، وهو {أنَّه الذي خلقَ السماواتِ والأرضَ} على عظمهما وسعتهما وإتقان خلقهما من دون أن يَكْتَرِثَ بذلك، ولم يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ؛ فكيف تعجِزُه إعادتُكم بعد موتكم وهو {على كل شيءٍ قديرٌ}؟!
[33] یہ اللہ تعالی کی طرف سے مرنے کے بعد اعادۂ حیات پر ایسے امر کے ذریعے سے استدلال ہے جو اس سے زیادہ بلیغ ہے،یعنی وہ ہستی جس نے آسمانوں اور زمین کی عظمت ان کی وسعت اور ان کی تخلیق میں مہارت کے باوصف، کسی مشقت کے بغیر تخلیق کیا اور ان کو تخلیق کرتے ہوئے وہ تھکی نہیں، تو تمھارے مرنے کے بعد تمھاری زندگی کا اعادہ اسے کیسے عاجز کر سکتا ہے، حالانکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت: 34 - 35 #
{وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (34) فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ بَلَاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ (35)}
اور جس دن پیش کیے جائیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، آگ پر، (تو کہا جائے گا) کیا نہیں ہے یہ حق؟ وہ کہیں گے، کیوں نہیں، قسم ہمارے رب کی!(یہ حق ہے)اللہ فرمائے گا پس چکھو تم (یہ) عذاب بوجہ اس کےکہ تھے تم کفر کرتے (34) پس آپ صبر کریں جس طرح صبر کیا عزم و ہمت والے رسولوں نے، اور نہ جلدی طلب کریں(عذاب) ان کے لیے گویا کہ وہ(کافر)، جس دن دیکھیں گے اس(عذاب)کو جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں (تو سمجھیں گے کہ) نہیں ٹھہرے وہ (دنیا میں) مگر ایک گھڑی ہی دن کی (یہ تو) پہنچا دینا ہے، سو نہیں ہلاک کیا جائے گا (کوئی اور) سوائے نافرمان لوگوں کے (35)
#
{34} يخبر تعالى عن حال الكفار الفظيعة عند عرضِهِم على النار التي كانوا يكذِّبون بها، وأنَّهم يوبَّخون ويُقال لهم: {أليس هذا بالحقِّ}؛ فقد حضرتُموه وشاهدتُموه عياناً، {قالوا بلى وربِّنا}: فاعترفوا بذنوبهم وتبين كذبهم، {قال فَذُوقُوا العَذابَ بما كنتُم تكفُرون}؛ أي: عذاباً لازماً دائماً كما كان كفرُكم صفةً لازمةً.
[34] جہنم کے سامنے پیش کیے جانے پر، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے، کفار کی جوحالت ہوگی،اللہ تعالی اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ ان کو زجروتوبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: ﴿ اَلَ٘یْسَ هٰؔذَا بِالْحَقِّ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا﴾ ’’کیا یہ حق نہیں ہے؟ تو کہیں گے، کیوں نہیں ہمارے رب!‘‘ پس وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے اور ان کا جھوٹ واضح ہو جائے گا۔ ﴿ قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْ٘فُرُوْنَ﴾ ’’اللہ فرمائے گا: اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو‘‘ یعنی ہمیشہ چمٹے رہنے والے عذاب کا مزا چکھو، جس طرح کفر تمھاری دائمی اور لازمی صفت تھی۔
#
{35} ثم أمر تعالى رسوله أن يصبِرَ على أذيَّة المكذِّبين المعادين له، وأن لا يزال داعياً لهم إلى الله، وأن يقتديَ بصبرِ أولي العزم من المرسَلين سادات الخَلْق أولي العزائم والهِمَم العالية، الذين عَظُم صَبْرُهم وتمَّ يقينُهم؛ فهم أحقُّ الخلق بالأسوة بهم والقفو لآثارهم والاهتداء بمنارِهِم، فامتثل - صلى الله عليه وسلم - لأمر ربِّه، فصبر صبراً لم يصبِرْه نبيٌّ قبله، حتى رماه المعادون له عن قوسٍ واحدةٍ، وقاموا جميعاً بصدِّه عن الدَّعوة إلى الله، وفعلوا ما يمكنهم من المعاداة والمحاربة، وهو - صلى الله عليه وسلم - لم يزل صادعاً بأمر الله، مقيماً على جهاد أعداء الله، صابراً على ما ينالُه من الأذى، حتى مكَّن الله له في الأرض، وأظهر دينَه على سائر الأديان وأمَّته على الأمم، فصلى الله عليه وسلم تسليماً. وقوله: {ولا تستعجل لهم}؛ أي: لهؤلاء المكذِّبين المستعجلين للعذاب؛ فإنَّ هذا من جهلهم وحمقهم؛ فلا يستخفنَّكَ بجهلهم ولا يَحْمِلْك ما ترى من استعجالهم على أنْ تدعُوَ الله عليهم بذلك؛ فإنَّ كلَّ ما هو آتٍ قريبٌ، و {كأنَّهم} حين {يَرَوْنَ ما يوعدونَ لم يَلْبَثوا} في الدُّنيا {إلاَّ ساعةً من نهارٍ}؛ فلا يحزُنْك تمتُّعهم القليل وهم صائرون إلى العذاب الوبيل، {بلاغٌ}؛ أي: هذه الدنيا متاعها وشهواتها ولذَّاتها بلغةٌ منغصةٌ ودفعُ وقتٍ حاضر قليل، أو هذا القرآن العظيم ـ الذي بيَّنَّا لكم فيه البيانَ التامَّ ـ بلاغٌ لكم وزادٌ إلى الدار الآخرة، ونِعْم الزادُ والبلغةُ، زادٌ يوصل إلى دار النعيم، ويعصِمُ من العذابِ الأليم؛ فهو أفضل زاد يتزوَّده الخلائقُ، وأجلُّ نعمة أنعم الله بها عليهم، {فهل يُهْلَكُ}: بالعقوبات {إلاَّ القومُ الفاسقون}؛ أي: الذين لا خير فيهم، وقد خرجوا عن طاعة ربِّهم، ولم يَقْبَلوا الحقَّ الذي جاءتهم به الرسل، وأعذر الله لهم وأنذرهم، فبعد ذلك إذ يستمرُّون على تكذيبهم وكفرهم، نسأل الله العصمة.
[35] پھر اللہ تعالی نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ آپ کو جھٹلانے والوں اور آپ سے عداوت رکھنے والوں کی ایذا رسانی پر صبر کریں اور ان کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے رہیں ،نیز یہ کہ وہ اولوالعزم انبیاء و رسل کی پیروی کریں جو تمام مخلوق کے سردار، عزیمتوں کے مالک اور بلندہمت تھے، جن کا صبر بہت عظیم اور جن کا یقین کامل تھا۔ پس تمام مخلوق میں وہی سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو نمونہ بنایا جائے ،ان کے آثار کی پیروی کی جائے اور ان کی روشنی سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ چنانچہ رسول مصطفیe نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا صبر کیا کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے ایسا صبر نہیں کیا۔ آپ کے تمام دشمنوں نے آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیے، ان سب نے اللہ تعالی کی طرف دعوت کا راستہ روکا، محاربت اور عداوت میں ان سے جو کچھ ممکن تھا انھوں نے کیا… مگر رسول اللہe اللہ تعالی کے احکام کو بیان کرتے رہے، اللہ تعالی کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے اور جو اذیتیں آپ کو پہنچتیں، ان پر صبر کرتے رہے… یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو زمین پر اقتدار سے سرفراز فرمایا، اس نے آپ کے دین کو تمام ادیان پر اور آپ کی امت کو تمام امتوں پر غالب کر دیا… صلی اللّٰہ علیہ وسلم تسلیما۔ ﴿ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ﴾ یعنی عذاب کے لیے جلدی مچانے والے اہل تکذیب کے لیے جلدی نہ کیجیے۔ یہ سب ان کی جہالت اور حماقت کے سبب سے ہے اور ان کی جہالت آپ کو ہلکا اور حقیر نہ سمجھے۔ان کا جلدی مچانا آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ آپ ان کے لیے بددعا کریں، کیونکہ ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ١ۙ لَمْ یَلْبَثُوْۤا﴾ ’’جس دن یہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (خیال کریں گے) گویا وہ نہیں رہے۔‘‘ یعنی دنیا کے اندر ﴿ اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ﴾ ’’مگر گھڑی بھر دن کی‘‘ پس نہایت قلیل مدت کے لیے ان کا متمتع ہونا آپ کو غم زدہ نہ کرے۔بالآخر انھیں سخت عذاب کا سامنا ہے۔ ﴿ بَلٰ٘غٌ٘﴾ یہ دنیا، اس کی متاع اور اس کی لذات و شہوات، تھوڑے وقت کے لیے اور ختم ہونے والی چیز ہے۔ اور یہ قرآن عظیم جو ہم نے پوری طرح تمھارے سامنے بیان کر دیا ہے، تمھارے لیے کافی اور آخرت کے لیے زاد راہ ہے، کتنا اچھا ہے یہ زادراہ! یہ ایسا زادراہ ہے جو نعمتوں بھری جنت تک پہنچاتا اور دردناک عذاب سے بچاتا ہے، یہ افضل ترین زادراہ ہے جسے مخلوق اپنے ساتھ لیتی ہے اور یہ جلیل ترین نعمت ہے جس سے اللہ تعالی نے ان کو نوازا ہے۔ ﴿ فَهَلْ یُهْلَكُ﴾ ’’وہی ہلاک ہوں گے۔‘‘ یعنی عقوبات کے ذریعے سے ﴿ اِلَّا الْقَوْمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ﴾ جن کے اندر کوئی بھلائی نہیں، وہ اپنے رب کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے اور انھوں نے اس حق کو قبول نہ کیا جو ان کے پاس رسول لے کر آئے تھے، ان کی کوتاہی کے باوجود اللہ تعالی نے ان کا عذر قبول کیا، ان کو برے انجام سے ڈرایا، مگر وہ اپنے کفر اور تکذیب پر جمے رہے۔ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس رویے سے بچائے۔