آیت:
تفسیر سورۂ محمد
تفسیر سورۂ محمد
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ (1) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ (2) ذَلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَبِّهِمْ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ (3)}.
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور روکا اللہ کی راہ سے ضائع کر دیے اللہ نے ان کے عمل(1) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر بھی جو نازل کیا گیا محمد پر اور وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے، اللہ نے دور کر دیں ان سے ان کی برائیاں اور اصلاح کر دی ان کے حال کی(2) یہ اس لیے کہ بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، انھوں نے پیروی کی باطل کی، اور بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے انھوں نے پیروی کی حق کی اپنے رب کی طرف سے، اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ لوگوں کے لیے مثالیں ان کی(3)
#
{1} هذه الآياتُ مشتملاتٌ على ذكرِ ثواب المؤمنين، وعقاب العاصين، والسببُ في ذلك، ودعوة الخلق إلى الاعتبار بذلك، فقال: {الذين كفروا وصدُّوا عن سبيل الله}: وهؤلاء رؤساءُ الكفر وأئمَّة الضلال، الذين جمعوا بين الكفر بالله وآياتِهِ والصدِّ لأنفسهم وغيرهم عن سبيل الله، التي هي الإيمانُ بما دعت إليه الرُّسل واتِّباعه؛ فهؤلاء {أضلَّ} الله {أعمالَهم}؛ أي: أبطلها وأشقاهم بسببها، وهذا يشمَلُ أعمالهم التي عملوها لِيَكيدوا بها الحقَّ وأولياء الله، إنَّ الله جَعَلَ كيدَهم في نحورهم، فلم يدرِكوا مما قصدوا شيئاً، وأعمالُهم التي يرجون أن يثابوا عليها؛ إنَّ الله سيُحْبِطُها عليهم، والسبب في ذلك أنَّهم اتَّبعوا الباطل، وهو كلُّ غايةٍ لا يُراد بها وجه الله من عبادة الأصنام والأوثان. والأعمال التي في نصر الباطل لما كانت باطلةً؛ كانت الأعمال لأجلها باطلة.
[1] یہ آیات کریمہ اہل ایمان کے ثواب، نافرمانوں کے عذاب، اس کے سبب اور مخلوق کو اس سے عبرت حاصل کرنے کے ذکر پر مشتمل ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ یہ رؤ سائے کفر اور ائمۂ ضلالت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ کے راستے ، یعنی انبیاء و رسل اور ان کی دعوت سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو روک رکھا ہے۔ ﴿ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ ﴾ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے باطل کر دیا اور اس سبب سے ان کو بدبختی میں مبتلا کر دیا۔ یہ ان کے اعمال کو شامل ہے جو یہ لوگ اس لیے کرتے تھے تاکہ حق اور اولیاء اللہ کے خلاف سازشیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فریب اور سازشوں کو ان کے سینوں ہی میں دبا دیا اور وہ اپنے مقصد کو نہ پا سکے۔ اور ان کے وہ اعمال جن پر وہ ثواب کی امید رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کو اکارت کر دے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے باطل کی پیروی کی۔ اور اس سے مراد ہر وہ غایت مطلوب ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو، مثلاً: بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت۔ چونکہ باطل کی مدد کے لیے کیے گئے تمام اعمال باطل ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے کیے گئے تمام اعمال اکارت ہیں۔
#
{2} وأما {الذين آمنوا} بما أنزل اللهُ على رسلِهِ عموماً وعلى محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - خصوصاً، {وعملوا الصالحات}: بأن قاموا بما عليهم من حقوق الله وحقوق العباد الواجبة والمستحبَّة، {كفَّر الله عنهم سيئاتِهِم}: صغارها وكبارها، وإذا كُفِّرَتْ سيئاتُهم؛ نَجَوْا من عذاب الدُّنيا والآخرة، {وأصلح بالَهم}؛ أي: أصلح دينهم ودنياهم وقلوبهم وأعمالهم، وأصلَحَ ثوابَهم بتنميتِهِ وتزكيتِهِ، وأصلح جميع أحوالهم.
[2] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ لیکن ﴿ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ وہ لوگ جو اس چیز پر ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر نازل کی خاص طور پر جو حضرت محمد مصطفیe پر نازل کی۔ ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ اور انھوں نے اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ و مستحبہ کو ادا کرتے ہوئے نیک اعمال کیے﴿ كَ٘فَّرَ﴾ ’’مٹا دے گا‘‘ اللہ تعالیٰ﴿ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ ﴾ ان کے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو۔جب ان کے گناہ مٹا دیے گئے تو انھوں نے دنیا اور آخرت کے عذاب سے نجات پائی۔ ﴿ وَاَصْلَ٘حَ بَ٘الَهُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ ان کے دین و دنیا، ان کے قلوب اور ان کے اعمال کی اصلاح کرے گا، ان کے ثواب کو نشوونما دے کر اس کی اصلاح کرے گا، نیز اللہ تعالیٰ ان کے تمام احوال کی اصلاح کرے گا۔
#
{3} والسبب في ذلك أنهم اتَّبعوا الحقَّ الذي هو الصدق واليقين وما اشتمل عليه هذا القرآن العظيم الصادر من ربهم الذي ربَّاهم بنعمته ودبَّرهم بلطفه، فربَّاهم تعالى بالحقِّ، فاتَّبعوه، فصلحت أمورُهم، فلمَّا كانت الغايةُ المقصودة لهم متعلقةً بالحقِّ المنسوب إلى الله الباقي الحقِّ المبين؛ كانت الوسيلة صالحةً باقيةً، باقٍ ثوابها. {كذلك يضرِبُ الله للناس أمثالَهم}؛ حيث بيَّن لهم تعالى أهل الخير وأهل الشرِّ، وذكر لكلٍّ منهم صفةً يُعرفَون بها ويتميَّزون؛ لِيَهْلِكَ من هَلَكَ عن بيِّنة ويحيا من حَيَّ عن بينةٍ.
[3] اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ اتَّبَعُوا الْحَقَّ ﴾’’انھوں نے حق کی اتباع کی‘‘ جو صدق و یقین اور جس پر یہ قرآن عظیم مشتمل ہے ﴿ مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ان کے رب کی طرف سے صادر ہوا ہے جس نے اپنی نعمتوں سے ان کی تربیت کی اور اپنے لطف و کرم سے ان کی تدبیر کی پس اللہ تعالیٰ نے حق کے ذریعے سے ان کی تربیت کی، انھوں نے حق کی اتباع کی تب ان کے تمام امور درست ہو گئے۔ چونکہ ان کا منتہائے مقصود حق سے متعلق ہے، جو ہمیشہ باقی رہنے والے اللہ کی طرف منسوب اور حق مبین تھا، اس لیے یہ وسیلہ درست اور باقی رہنے والا اور اس کا ثواب بھی باقی رہنے والا ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اہل خیر اور اہل شر کو کھول کھول کر بیان کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کے اوصاف بیان کر دیے جن کے ذریعے سے ان کو پہچانا جاتا ہے اور ان کے ذریعے سے ان میں امتیاز کیا جاتا ہے ﴿ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔‘‘
آیت: 4 - 6 #
{فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ (4) سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ (5) وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ (6)}.
پس جب ملو تم (جہاد میں) ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا تو(مارو) مارنا گردنیں (ان کی) یہاں تک کہ جب خوب قتل کر چکو تم ان کو تو مضبوطی سے باندھ دو (قیدیوں کو) بیڑ یوں میں، پھر یا تو (ان پر) احسان کرنا ہے اس کےبعد، اور یا فدیہ (تاوان) لینا ہے یہاں تک کہ رکھ (ڈال) دے لڑائی اپنے ہتھیار(حکم)یہی ہے، اور اگر چاہتا اللہ (تو خود ہی ) البتہ بدلہ لے لیتا ان سے اور لیکن (تمھیں حکم دیا ہے) تا کہ آزمائے وہ تمھارے بعض کو ساتھ بعض کے اور وہ لوگ جو قتل (شہید) کیے گئے اللہ کی راہ میں، پس ہرگز نہیں ضائع کرے گا وہ اعمال ان کے(4) عنقریب وہ رہنمائی کرے گا ان کی اور اصلاح کرے گا ان کے حال کی(5) اور وہ داخل کرے گا انھیں (اس) جنت میں کہ خوب پہچان کروا چکا ہے وہ اس کی ان کو(6)
#
{4} يقول تعالى مرشداً عباده إلى ما فيه صلاحُهم ونصرُهم على أعدائهم: {فإذا لقيتُم الذين كفروا}: في الحرب والقتال؛ فاصدُقوهم القتال واضرِبوا منهم الأعناق حتى تُثْخِنوهم وتكسروا شوكتهم وتبطلوا شِرَّتهم؛ فإذا فعلتم ذلك ورأيتم الأسر أولى وأصلح؛ {فشدُّوا الوثَاقَ}؛ أي: الرباط، وهذا احتياط لأسرهم لئلاَّ يهربوا؛ فإذا شُدَّ منهم الوَثاق؛ اطمأنَّ المسلمون من حربهم ومن شرِّهم؛ فإذا كانوا تحت أسرِكم؛ فأنتُم بالخيار بين المنِّ عليهم وإطلاقهم بلا مال ولا فداء، وإمّا أن تفدوهم بأن لا تطلقوهم حتى يشتروا أنفسهم، أو يشترِيَهم أصحابُهم بمال أو بأسير مسلم عندهم، وهذا الأمر مستمرٌّ {حتى تَضَعَ الحربُ أوزارها}؛ أي: حتى لا يبقى حربٌ وتبقَون في المسالمة والمهادنة؛ فإنَّ لكلِّ مقام مقالاً، ولكلِّ حال حكماً. فالحال المتقدِّمة إنَّما هي إذا كان قتالٌ وحربٌ؛ فإذا كان في بعض الأوقات لا حرب فيه لسبب من الأسباب؛ فلا قتل ولا أسر. {ذلك}: الحكم المذكور في ابتلاء المؤمنين بالكافرين ومداولة الأيام بينهم وانتصار بعضهم على بعض، {ولو يشاءُ الله لانتصَرَ منهم}: فإنه تعالى على كلِّ شيءٍ قديرٌ، وقادرٌ على أن لا ينتصرَ الكفار في موضع واحدٍ أبداً، حتى يبيدَ المسلمونَ خضراءهم، {ولكن لِيَبْلُوَ بعضَكم ببعض}: ليقوم سوقُ الجهاد، وتتبيَّن بذلك أحوال العباد الصادق من الكاذب، وليؤمن مَنْ آمن إيماناً صحيحاً عن تبصرةٍ لا إيماناً مبنيًّا على متابعة أهل الغلبة؛ فإنَّه إيمانٌ ضعيفٌ جدًّا، لا يكاد يستمرُّ لصاحبه عند المحن والبلايا. {والذين قُتِلوا في سبيل الله}: لهم ثوابٌ جزيلٌ وأجرٌ جميلٌ، وهم الذين قاتلوا مَنْ أمِروا بقتالهم؛ لتكون كلمة الله هي العليا؛ فهؤلاء لن {يضِلَّ} الله {أعمالَهم}؛ أي: لن يحبِطَها ويبطلها، بل يتقبَّلها وينمِّيها لهم ويظهر من أعمالهم نتائجها في الدنيا والآخرة.
[4] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرتے ہوئے، جن میں ان کی بھلائی اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں نصرت ہے ارشاد فرماتا ہے: ﴿ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ جب جنگ اور قتال میں تمھارا کفار سے سامنا ہو تو ان کے خلاف بہادری سے لڑو اور ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ ان کو اچھی طرح کچل دو اور جب تم ان کی طاقت کو توڑ چکو اور تم سمجھو کہ ان کو قیدی بنانا زیادہ بہتر ہے۔ ﴿ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ﴾ تو انھیں مضبوطی سے باندھ لو۔ یہ ان کو قیدی بنانے کے لیے احتیاط ہے تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ جب ان کو مضبوطی سے باندھ دیا جائے گا تو مسلمان ان کی طرف سے جنگ اور ان کے شر سے محفوظ ہو جائیں گے۔ جب وہ تمھاری قید میں آ جائیں، تو تمھیں اختیار ہے کہ تم ان پر احسان کرتے ہوئے مال لیے بغیر چھوڑ دو یا ان سے فدیے لے لویعنی تم ان کو اس وقت تک آزاد نہ کرو جب تک کہ وہ اپنا فدیہ ادا نہ کریں یا ان کے ساتھی فدیہ میں کچھ مال ادا نہ کریں یا اس کے بدلے میں کسی مسلمان قیدی کو، جو ان کی قید میں ہو، آزاد نہ کریں۔ یہ حکم دائمی ہے ﴿ حَتّٰى تَ٘ضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا﴾ حتیٰ کہ جنگ باقی نہ رہے اور تمھارے درمیان صلح اور امن قائم ہو جائے۔ کیونکہ ہر مقام کے لیے ایک قول اور ہر صورت حال کے لیے ایک حکم ہے۔ گزشتہ صورت حال اس وقت تھی جب جنگ اور قتال کی حالت تھی۔ جب کسی وقت، کسی سبب کی بنا پر جنگ اور قتال نہ ہو تو قتل اور قیدی بنانے کا فعل بھی نہ ہو گا۔ ﴿ ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ حکم مذکور ہے کفار کے ذریعے سے اہل ایمان کی آزمائش، ان کے درمیان گردش ایام اور ایک دوسرے کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بارے میں ہے﴿ وَلَوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ﴾ ’’اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ کسی ایک ہی موقع پر کفار سے انتقام نہ لے تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی اصل ہی ختم نہ ہوجائے ﴿ وَلٰكِنْ لِّیَبْلُوَاۡ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ﴾ ’’لیکن اس نے چاہا کہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمھاری آزمائش کرے۔‘‘ تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے تاکہ بندوں کے احوال کھلتے رہیں، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا رہے، جو کوئی ایمان لائے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے، وہ مسلمانوں کے غلبے سے مطیع ہو کر ایمان نہ لائے، کیونکہ یہ تو بہت ہی کمزور ایمان ہے اور ایسا ایمان رکھنے والا شخص امتحان اور آزمائش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے۔‘‘ ان کے لیے ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں، جن کے خلاف ان کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اعمال کو باطل اور ضائع نہیں کرے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرما کر ان کو بڑھائے گا۔ دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کے نتائج ظاہر ہوں گے۔
#
{5} {سيهديهم}: إلى سلوك الطريق الموصلة إلى الجنة، {ويصلِحُ بالَهم}؛ أي: حالهم وأمورهم، وثوابُهم يكون صالحاً كاملاً لا نَكَدَ فيه ولا تنغيصَ بوجه من الوجوه.
[5] ﴿ سَیَهْدِیْهِمْ﴾ اللہ تعالیٰ ان کو اس راستے کی طرف چلنے کی توفیق عطا کرے گا جو جنت کی طرف جاتا ہے ﴿ وَیُصْلِحُ بَالَهُمْ﴾ اللہ تعالیٰ ان کے احوال اور معاملات کی اصلاح کرے گا، ان کا ثواب درست اور کامل ہو گا، جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تنگی ہو گی نہ تکدر۔
#
{6} {ويدخِلُهم الجنةَ عرَّفَها لهم}؛ أي: عرَّفها أولاً بأن شوَّقهم إليها، ونعتها لهم، وذكر لهم الأعمال الموصلة إليها، التي من جملتها القتل في سبيل الله، ووفَّقهم للقيام بما أمرهم به ورغَّبهم فيه، ثم إذا دخلوا الجنة؛ عرَّفهم منازلهم وما احتوتْ عليه من النعيم المقيم والعيش السليم.
[6] ﴿ وَیُدْخِلُهُمُ الْؔجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ﴾ ’’اور انھیں اس جنت میں داخل کرے گا جس سے انھیں شناسا کر دیا ہے۔‘‘ یعنی اولاً ان کے سامنے جنت کے اوصاف اور اس جنت تک پہنچنے کے اعمال بیان کرنے کے ساتھ ان میں ان کا شوق پیدا کر کے اس سے متعارف اور واقف کرایا اور ان جملہ اعمال میں اللہ کے راستے میں شہادت بھی شامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کو بجا لانے کی توفیق عطا کی اور ان میں رغبت پیدا کی۔ پھر جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کی منازل، ان کے اندر موجود نعمتوں اور ہر قسم کے تکدر سے پاک زندگی سے متعارف کرائے گا۔
آیت: 7 - 9 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (7) وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ (8) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (9)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم مدد کرو گے اللہ (کے دین) کی تو وہ مدد کرے گا تمھاری اور ثابت رکھے گا قدم تمھارے(7) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، پس ہلاکت ہے ان کے لیے، اور ضائع کر دے گا وہ (اللہ) اعمال ان کے(8) یہ اس لیے کہ بلاشبہ انھوں نے ناپسند کیا اس چیز کو جونازل کی اللہ نے، پس برباد کر دیے اس نے اعمال ان کے(9)
#
{7} هذا أمرٌ منه تعالى للمؤمنين أن يَنْصُروا الله بالقيام بدينِهِ والدعوة إليه وجهاد أعدائه، والقصد بذلك وجه الله؛ فإنَّهم إذا فعلوا ذلك؛ نصرهم وثبَّت أقدامهم؛ أي: يربط على قلوبهم بالصبر والطمأنينة والثبات، ويصبِّر أجسادهم على ذلك، ويعينُهم على أعدائهم؛ فهذا وعدٌ من كريم صادق الوعد أنَّ الذي ينصُرُه بالأقوال والأفعال سينصُرُه مولاه، وييسِّر له أسباب النصر من الثبات وغيره.
[7] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ اقامت دین، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت، اور اس کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے ذریعے سے اس کی مدد کریں اور ان تمام امور میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ جب وہ یہ تمام کام کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور ان کو ثابت قدمی عطا کرے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ طمانیت اور ثبات کے ذریعے سے ان کے دلوں کو مضبوط کرے گا، ان کے اجساد کو ان امور کو برداشت کرنے کی قوت عطا فرمائے گا۔ اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرمائے گا۔ یہ ایک کریم اور وعدے کی سچی ہستی کا وعدہ ہے کہ جو کوئی اپنے قول و فعل سے اس کی مدد کرے گا تو وہ بھی اپنے دوست کی مدد کرے گا اور اسے فتح و نصرت کے اسباب یعنی ثابت قدمی وغیرہ عطا کرے گا۔
#
{8} وأمَّا الذين كفروا بربِّهم ونصروا الباطل؛ فإنَّهم في تعس؛ أي: انتكاس من أمرهم وخذلانٍ، {وأضلَّ أعمالَهم}؛ أي: أبطل أعمالهم التي يَكيدونَ بها الحقَّ، فرجع كيدُهم في نحورهم، وبطلت أعمالُهم التي يزعمون أنهم يريدون بها وجه الله.
[8] رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور باطل کی مدد کی تو ان کے لیے ہلاکت ہے، کیونکہ وہ الٹے پاؤ ں رسوائی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ ﴿ وَاَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان کے ان اعمال کو باطل کر دے گا جن کے ذریعے سے وہ حق کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ ان کا مکر و فریب انھی پر الٹ جائے گا، اور ان کے اعمال باطل ہو جائیں گے جن کے بارے میں انھیں زعم تھا کہ یہ اعمال انھوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے ہیں۔
#
{9} ذلك الإضلال والتعس للذين كفروا بسبب أنَّهم {كرهوا ما أنزل الله} من القرآن الذي أنزله [اللَّه] صلاحاً للعباد وفلاحاً لهم، فلم يقبلوه، بل أبغضوه وكرهوه، {فأحبط أعمالهم}.
[9] کفار کو گمراہ کرنے اور ان کے لیے ہلاکت کے مقدر ہونے کا سبب یہ ہے ﴿ كَرِهُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ﴾ کہ انھیں قرآن سخت ناپسند تھا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا، جسے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی بھلائی اور ان کی فلاح کے لیے نازل فرمایا، مگر انھوں نے اسے قبول نہ کیا، بلکہ اسے ناپسند کیا اور اس کے ساتھ بغض رکھا ﴿فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ﴾ ’’تو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے۔‘‘
آیت: 10 - 11 #
{أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا (10) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ (11)}
کیا پس نہیں سیر کی انھوں نے زمین میں، پھر دیکھتے وہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے؟ تباہی ڈال دی اللہ نے ان پر، اور کافروں کے لیے اس جیسی سزائیں ہیں (10) یہ اس لیے کہ بلاشبہ اللہ مدد گار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے، اور بے شک کافر لوگ، نہیں کوئی مددگار ان کا (11)
#
{10} أي: أفلا يسير هؤلاء المكذِّبون بالرسول - صلى الله عليه وسلم -، {فينظروا كيف كان عاقبةُ الذين من قبلهم}: فإنَّهم لا يجدون عاقبتهم إلاَّ شرَّ العواقب؛ فإنَّهم لا يلتفتون يمنةً ولا يسرةً إلاَّ وجدوا ما حولهم قد بادوا وهلكوا واستأصلهم التكذيبُ والكفرُ، فخمدوا، ودمَّر الله عليهم أموالهم وديارهم، بل دمَّر أعمالهم ومكرهم، وللكافرين في كلِّ زمان ومكان أمثالُ هذه العواقب الوخيمة والعقوبات الذميمة، وأما المؤمنونَ؛ فإنَّ الله تعالى يُنجيهم من العذاب، ويُجْزِلُ لهم كثير الثواب.
[10] رسول مصطفیe کی تکذیب کرنے والے یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے کیوں نہیں؟ ﴿ فَیَنْظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا۔‘‘ کیونکہ وہ اپنے انجام کو بدترین انجام پائیں گے۔ کیونکہ وہ اپنے دائیں بائیں جدھر بھی دیکھیں گے وہ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو پائیں گے کہ وہ ہلاک ہو گئے، ان کے کفر اور تکذیبِ انبیاء نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی، ان کا نام و نشان مٹ گیا، اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کے اموال اور گھر بار کو تباہ و برباد کر دیا بلکہ ان کے اعمال اور ان کی سازشوں کا تار و پود بکھیر دیا۔ ہر زمان و مکان میں کافروں کا اسی قسم کا برا انجام ہوتا ہے، اور انھیں بری سزائیں ملتی ہیں، رہے اہل ایمان، تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب سے نجات دیتا ہے اور انھیں بے پایاں ثواب عطا کرتا ہے۔
#
{11} {ذلك بأنَّ الله مولى الذين آمنوا}: فتولاَّهم برحمته، فأخرجهم من الظلمات إلى النور، وتولَّى جزاءهم ونصرهم، {وأنَّ الكافرين}: بالله تعالى؛ حيث قطعوا عنهم ولاية الله، وسدُّوا على أنفسهم رحمته {لا مولى لهم}: يهديهم إلى سبل السلام، ولا يُنجيهم من عذاب الله وعقابه، بل أولياؤُهُم الطاغوتُ؛ يخرِجونَهم من النورِ إلى الظُّلمات، أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون.
[11] ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا والی و مددگار ہے۔‘‘ اس نے اپنی رحمت سے ان کی سر پرستی کی، انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لایا ان کی جزا اور فتح و نصرت کی ذمہ داری لی۔ ﴿ وَاَنَّ الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی سر پرستی کے تعلق کو قطع کر دیا اور اپنے آپ پر اس کی رحمت کے دروازے بند کر لیے۔ ﴿ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ ان کا کوئی والی و مددگار نہیں ہے جو سلامتی کے راستوں کی طرف ان کی راہ نمائی کرے، انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی سزا سے بچائے بلکہ ان کے سر پرست تو طاغوت ہیں جو انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے آتے ہیں۔ یہی لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
آیت: 12 #
{إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ (12)}
بلاشبہ اللہ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، باغات میں، چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں (دنیا ہی کا)، اور وہ کھاتے ہیں جس طرح کھاتے ہیں چوپائے اور آگ ہی ٹھکانا ہے ان کا (12)
#
{12} لما ذكر تعالى أنه وليُّ المؤمنين؛ ذكر ما يفعل بهم في الآخرة من دخول الجناتِ، التي تجري من تحتها الأنهار، التي تسقي تلك البساتين الزاهرة، والأشجار الناضرة المثمرة؛ لكلِّ زوج بَهيج، وكل فاكهة لذيذة. ولمَّا ذَكَرَ أن الكافرين لا مولى لهم؛ ذكر أنَّهم وُكِلوا إلى أنفسهم، فلم يتَّصفوا بصفات المروءة ولا الصفات الإنسانية، بل نزلوا عنها دركاتٍ، وصاروا كالأنعام التي لا عقل لها ولا فضل، بل جلُّ همِّهم ومقصدهم التمتُّع بلذَّات الدُّنيا وشهواتها، فترى حركاتهم الظاهرة والباطنة دائرةً حولها غير متعدِّيةٍ لها إلى ما فيه الخير والسعادة، ولهذا كانت النارُ مثوى لهم؛ أي: منزلاً معدًّا لا يخرجون منها ولا يفتَّر عنهم من عذابها.
[12] اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا سر پرست ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں داخل کرے گا، جہاں نہریں بہتی ہوں گی جو خوبصورت باغات، ہر قسم کے تر و تازہ پھل اور میوے دار درختوں کو سیراب کریں گی۔ چونکہ کفار کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ان کا کوئی والی و مددگار نہیں، اس لیے فرمایا کہ ان کو ان کے نفس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ بنابریں وہ مروت کی صفات سے متصف ہو سکے نہ انسانی صفات سے بلکہ وہ نچلی سطح پر گر کر چوپایوں کی مانند ہو گئے ہیں جو عقل سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ ان کا سب سے بڑا مقصد صرف دنیا کی لذات و شہوات سے متمتع ہونا ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ان کی ظاہری و باطنی حرکات انھی لذات و شہوات کے دائرہ میں ہوتی ہیں اور ان امور کے لیے نہیں ہوتیں جن میں خیر اور سعادت ہوتی ہے۔ بنابریں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، یعنی جہنم کے اندر ان کے لیے گھر تیار کیا گیا ہو گا۔ جہاں ان کے عذاب میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہو گا۔
آیت: 13 #
{وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِنْ قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ (13)}
اور کتنی ہی بستیاں، وہ شدید تر تھیں قوت میں آپ کی (اس) بستی (مکہ) سے، جس سے نکالا ہے اس (کے رہنے والوں) نے آپ کو، ہلاک کر دیا ہم نے ان کو، پس نہیں تھا کوئی (بھی) مدد کرنے والا ان کی (13)
#
{13} أي: وكم من قرية من قُرى المكذِّبين هي أشدُّ قوةً من قريتك في الأموال والأولاد والأعوان والأبنية والآلات، أهلكناهم حين كذَّبوا رُسُلنا، ولم تُفِدْ فيهم المواعظُ؛ فلم نجدْ لهم ناصراً، ولم تغنِ عنهم قوتُهم من عذاب الله شيئاً؛ فكيف حال هؤلاء الضعفاء أهل قريتك إذ أخرجوك عن وطنك، وكذَّبوك وعادَوْك، وأنت أفضل المرسلين وخير الأولين والآخرين؟! أليسوا بأحقَّ من غيرهم بالإهلاك والعقوبة، لولا أنَّ الله تعالى بعثَ رسوله بالرحمة والتأنِّي بكل كافرٍ وجاحدٍ.
[13] تکذیب کرنے والوں کی بستیوں میں سے کتنی ہیں جو اموال و اولاد، اعوان و انصار اور عمارات و آلات کے لحاظ سے آپ کی بستی سے زیادہ طاقتور تھیں ﴿اَهْلَكْنٰهُمْ ﴾جب انھوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا، ان کو وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ دیا نہ ہم نے ان کا کوئی مددگار پایا نہ ان کی قوت اور طاقت اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کام آسکی۔ تب آپ کی بستی والے ان کمزور لوگوں کا کیا حال ہے، جب انھوں نے آپ کو آپ کے وطن سے نکال دیا، آپ کی تکذیب کی، آپ سے عداوت رکھی حالانکہ آپe افضل المرسلین اور خیرالاولین ولآخرین ہیں؟ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو رحمت اور ہر کافر اور منکرِ حق پر نرمی کے ساتھ مبعوث نہ کیا ہوتا، تو کیا یہ لوگ ہلاکت اور سزا کے دوسروں سے زیادہ مستحق نہیں؟
آیت: 14 #
{أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ (14)}
کیا پس جو شخص کہ وہ ہے اوپر واضح دلیل کے اپنے رب کی طرف سے، مانند اس شخص کے ہے کہ مزین کر دی گئی اس کے لیے بدعملی اس کی اور پیروی کی انھوں نے اپنی خواہشات کی؟ (14)
#
{14} أي: لا يستوي مَنْ هو على بصيرة من أمر دينِهِ علماً وعملاً قد علم الحقَّ واتَّبعه، ورجا ما وعده الله لأهل الحقِّ؛ كمن هو أعمى القلب، قد رَفَضَ الحقَّ وأضلَّه واتَّبع هواه بغير هدى من الله، ومع ذلك يرى أنَّ ما هو عليه هو الحقُّ؛ فما أبعد الفرق بين الفريقين! وما أعظم التفاوت بين الطائفتين! أهل الحقِّ وأهل الغيِّ.
[14] یعنی وہ شخص جو اپنے امور دین میں علم و عمل کے اعتبار سے بصیرت سے بہرہ ور ہے، علم حق سے سرفراز اور اس کی اتباع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل حق کے ساتھ جو وعدہ کر رکھا ہے، اس پر اسے پورا یقین ہے کیا ایسے شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو دل کا اندھا ہے، جس نے حق کو چھوڑ کر اسے گم کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کے بغیر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی۔ بایں ہمہ وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے؟ دونوں فریقوں کے درمیان کتنا فرق اور دونوں گروہوں، یعنی اہل حق اور اہل باطل کے درمیان کتنا تفاوت ہے۔
آیت: 15 #
{مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ (15)}
مثال اس جنت کی جس کا وعدہ کیے گئے متقی لوگ، (یہ ہے)، اس میں نہریں ہیں (ایسے) پانی کی کہ نہیں وہ بدلنے والا اور نہریں ہیں ایسے دودھ کی کہ نہیں تبدیل ہوا (کبھی) ذائقہ اس کا اور نہریں ہیں ایسی شراب کی جو لذیذ ہے پینے والوں کے لیے اور نہریں ہیں شہدکی جو صاف کیا ہوا ہے اور ان کے لیے اس میں ہرقسم کے پھل ہوں گے اور مغفرت ہو گی ان کے رب (کی طرف) سے، (کیا یہ لوگ) مانند ان لوگوں کے ہو سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں آگ میں، اور وہ پلائے جائیں گے پانی سخت گرم کھولتا ہوا؟ پس وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا ان کی آنتیں (15)
#
{15} أي: مثل الجنة التي أعدَّها الله لعباده الذين اتَّقوا سَخَطَه، واتَّبعوا رضوانه؛ أي: نعتها وصفتها الجميلة، {فيها أنهارٌ من ماءٍ غير آسنٍ}؛ أي: غير متغيِّر لا بوخم ولا بريح منتنةٍ ولا بمرارة ولا بكدورةٍ، بل هو أعذب المياه وأصفاها وأطيبها ريحاً وألذّها شرباً، {وأنهار من لبنٍ لم يتغيَّر طعمُه}: بحموضة ولا غيرها، {وأنهار من خمرٍ لَذَّةٍ للشاربين}؛ أي: يلتذُّ بها شاربه لذةً عظيمةً، لا كخمر الدنيا الذي يُكره مذاقُه ويُصَدِّع الرأس ويغوِّلُ العقلَ، {وأنهار من عسل مصفًّى}: من شمعه وسائر أوساخه. {ولهم فيها من كلِّ الثمرات}: من نخيل وعنبٍ وتفاح ورمانٍ وأترجٍّ وتينٍ وغير ذلك ممَّا لا نظير له في الدُّنيا؛ فهذا المحبوبُ المطلوبُ قد حَصَلَ لهم. ثم قال: {ومغفرة من ربِّهم}: يزول بها عنهم المرهوبُ؛ فأيُّ هؤلاء خيرٌ أم {من هو خالدٌ في النار}: التي اشتدَّ حرُّها وتضاعف عذابُها، {وسُقوا}: فيها {ماءً حميماً}؛ أي: حارًّا جدًّا، {فقطَّع أمعاءهم}: فسبحان من فاوت بين الدارين والجزاءين والعاملين والعملين.
[15] یعنی جنت جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کے لیے تیار کیا جو اس کی ناراضی سے ڈر گئے اور اس کی رضا کی پیروی کی کہ یہ اس کی صفت اور اس کا وصف جمیل ہے ﴿ فِیْهَاۤ اَنْ٘هٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ﴾ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو کسی مضر صحت امر، بدبو، حرارت اور گدلے پن کی وجہ سے متغیر نہ ہو گا بلکہ وہ صاف ترین اور شیریں ترین پانی ہو گا، اس کی خوشبو بہترین اور پینے میں نہایت لذیذ ہو گا۔ ﴿ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ لَّـبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ﴾ ’’اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلتا‘‘ یعنی خراب اور کھٹا ہو جانے کے باعث اس کا ذائقہ متغیر نہ ہوا ہو گا۔ ﴿ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّ٘لشّٰرِبِیْنَ﴾ ’’اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لیے بڑی لذت ہے‘‘ یعنی اس شراب سے بہت زیادہ لذت حاصل ہو گی، دنیا کی شراب کی مانند نہیں کہ جس کا ذائقہ نہایت ناخوشگوار ہوتا ہے، جو سر کو چکرا دیتی ہے اور عقل کو خراب کر دیتی ہے ﴿ وَاَنْ٘هٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّ٘صَفًّى﴾ ’’اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہے۔‘‘ یعنی یہ شہد موم اور دیگر ہر قسم کے میل کچیل سے پاک ہو گا۔ ﴿ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ الثَّ٘مَرٰتِ﴾ جنت میں کھجور، انگور، سیب، انار، لیموں، انجیر اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے پھل ہوں گے جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ یہ تمام محبوب و مطلوب چیزیں انھیں حاصل ہوں گی۔ پھر فرمایا: ﴿ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ﴾ ’’اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے۔‘‘ جس سے وہ امور زائل ہوجائیں گے جو ڈرانے والے ہیں۔ پس یہ لوگ بہتر ہیں یا وہ شخص جو ہمیشہ آگ میں رہے گا، جس کی حرارت نہایت شدید ہو گی اور اس کا عذاب کئی گنا ہو گا ﴿وَسُقُوْا﴾ ’’اور انھیں پلایا جائے گا۔‘‘ یعنی جہنم میں ﴿ مَآءً حَمِیْمًا﴾ سخت کھولتا ہوا پانی ﴿ فَ٘قَ٘طَّ٘عَ اَمْعَآءَهُمْ﴾ جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے دونوں گھروں یعنی جنت اور جہنم، دونوں قسم کی جزاؤ ں، دونوں قسم کے عمل کرنے والوں اور دونوں قسم کے اعمال میں تفاوت رکھا۔
آیت: 16 - 17 #
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ (16) وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ (17)}
اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو کان لگاتے ہیں آپ کی طرف، یہاں تک کہ جب وہ نکلتے ہیں آپ کے پاس سے، تو کہتے ہیں ان لوگوں سے کہ وہ دیے گئے علم، کیا کہا تھا اس (پیغمبر) نے ابھی؟ یہی وہ لوگ ہیں کہ مہر لگا دی ہے اللہ نے اوپر ان کے دلوں کے، اور پیروی کی انھوں نے اپنی خواہشات کی (16) اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی، اللہ نے زیادہ کیا ان کو ہدایت میں اور دیا انھیں تقویٰ ان کا (17)
#
{16} يقول تعالى: ومن المنافقين {مَن يستمعُ إليك}: ما تقول؛ استماعاً لا عن قَبول وانقيادٍ، بل معرضةٌ قلوبهم عنه، ولهذا قال: {حتى إذا خرجوا من عندك قالوا للذين أوتوا العلم}: مستفهمينَ عمَّا قلتَ وما سمعوا ممَّا لم يكنْ لهم فيه رغبةٌ: {ماذا قال آنفاً}؛ أي: قريباً! وهذا في غاية الذمِّ لهم؛ فإنَّهم لو كانوا حريصين على الخير؛ لألْقَوْا إليه أسماعهم ووعتْه قلوبُهم وانقادتْ له جوارحهم، ولكنَّهم بعكس هذه الحال، ولهذا قال: {أولئك الذين طَبَعَ الله على قلوبهم}؛ أي: ختم عليها وسدَّ أبواب الخير التي تصل إليها بسبب اتِّباعهم أهواءهم التي لا يهوون فيها إلاَّ الباطل.
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقین میں ایسے لوگ بھی ہیں ﴿ مَّنْ یَّ٘سْتَمِعُ اِلَیْكَ﴾ کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں اسے سنتے ہیں، قبول کرنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی غرض سے نہیں، بلکہ اس طرح سنتے ہیں کہ ان کے دل اس سے روگرداں ہوتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿ حَتّٰۤى اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ﴾ ’’یہاں تک کہ جب آپ کے پاس سے نکل کر جاتے ہیں، تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے، ان سے کہتے ہیں۔‘‘ جو کچھ آپ نے کہا اور جو کچھ انھوں نے سنا جس میں انھیں کوئی رغبت نہ تھی، اس کے بارے میں استفہام کے انداز میں کہتے ہیں: ﴿ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا﴾ یعنی ابھی ابھی آپe نے کیا کہا؟ یہ ان کا انتہائی مذموم رویہ ہے، کیونکہ اگر وہ بھلائی کے خواہش مند ہوتے تو آپ کی بات غور سے سنتے، ان کے دل اس بات کو محفوظ کر لیتے، ان کے جوارح اس کی اطاعت میں سرنگوں ہوتے، مگر ان کا حال تو اس کے برعکس تھا، اس لیے فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، ان کے لیے بھلائی کے تمام دروازے بند کر دیے، کیونکہ انھوں نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی جن میں وہ محض باطل کی خواہش رکھتے تھے۔
#
{17} ثم بيَّن حالَ المهتدين، فقال: {والذين اهتدَوْا}: بالإيمان والانقياد واتِّباع ما يرضي الله {زادهم هدىً}: شكراً منه تعالى لهم على ذلك، {وآتاهم تَقْواهم}؛ أي: وفَّقهم للخير، وحفِظَهم من الشرِّ. فذكر للمهتدين جزاءين: العلم النافع، والعمل الصالح.
[17] پھر اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ لوگوں کا حال بیان کیا۔ فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْنَ اهْتَدَوْا﴾ وہ لوگ جنھوں نے ایمان، اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کے ذریعے سے ہدایت پائی ﴿ زَادَهُمْ هُدًى﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کی قدر و توقیر کے لیے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا ﴿ وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ ﴾ ’’اور انھیں ان کی پرہیزگاری عطا فرمائی۔‘‘ یعنی انھیں خیر کی توفیق بخشی اور شر سے ان کی حفاظت کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دو قسم کی جزا کا ذکر کیا ہے یعنی علم نافع اور عمل صالح۔
آیت: 18 #
{فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ (18)}
سو نہیں انتظار کرتے وہ مگر قیامت کا یہ کہ آئے ان کے پاس اچانک، پس تحقیق آ چکی ہیں نشانیاں اس کی، پس کہاں ہو گا ان کے لیے، جب آ جائے گی ان کے پاس قیامت، نصیحت (حاصل کرنا) ان کا؟ (18)
#
{18} أي: فهل ينظر هؤلاء المكذِّبون أو ينتظرون {إلاَّ الساعة أن تأتِيَهُم بغتةً}؛ أي: فجأة وهم لا يشعرون، {فقد جاء أشراطُها}؛ أي: علاماتها الدالَّة على قربِها {فأنى لهم إذا جاءتهم ذِكْراهم}؛ أي: من أين لهم إذا جاءتْهم الساعةُ وانقطعتْ آجالهم أن يتذكَّروا ويستعتبوا؛ قد فات ذلك وذهب وقتُ التذكُّر؛ فقد عُمِّروا ما يتذكَّر فيه من تذكَّر وجاءهم النذير. ففي هذا الحثُّ على الاستعداد قبل مفاجأة الموت؛ فإنَّ موت الإنسان قيامُ ساعته.
[18] کیا یہ اہل تکذیب منتظر ہیں ﴿ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً﴾ کہ قیامت کی گھڑی ان کے پاس آئے، یعنی اچانک آ جائے انھیں شعور بھی نہ ہو ﴿ فَقَدْ جَآءَؔ اَشْرَاطُهَا﴾ یعنی قیامت کی وہ علامات آ چکی ہیں جو اس کے قریب آجانے پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ فَاَنّٰى لَهُمْ اِذَا جَآءَتْهُمْ ذِكْرٰىهُمْ﴾ یعنی جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی، ان کی مدت مقررہ اختتام کو پہنچ جائے گی تو ان کا نصیحت پکڑنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہونا کس کام آئے گا؟ یہ سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل گیا، نصیحت پکڑنے کا وقت گزر گیا، انھوں نے وہ عمر گزار لی، جس کے اندر نصیحت پکڑی جا سکتی تھی حالانکہ ان کے پاس برے انجام سے ڈرانے والا بھی آیا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ موت کے اچانک آ جانے سے پہلے پہلے، اس کی تیاری کر لینی چاہیے، کیونکہ انسان کی موت ہی اس کے لیے قیامت کی گھڑی ہے۔
آیت: 19 #
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ (19)}
پس آپ جان لیجیے کہ بلاشبہ نہیں کوئی معبود مگر اللہ ہی اور بخشش مانگیے اپنے گناہ کی اور مومن مَردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی اور اللہ جانتا ہے چلنا پھرنا تمھارا اور ٹھکانا تمھارا(19)
#
{19} العلم لا بدَّ فيه من إقرار القلب ومعرفتِهِ بمعنى ما طُلِبَ منه علمه، وتمامه أن يعملَ بمقتضاه. وهذا العلم الذي أمر اللهُ به، وهو العلم بتوحيد الله، فرضُ عينٍ على كلِّ إنسان، لا يسقطُ عن أحدٍ كائناً مَن كان، بل كلٌّ مضطرٌّ إلى ذلك. والطريق إلى العلم بأنَّه لا إله إلاَّ الله أمورٌ: أحدُها ـ بل أعظمها ـ: تدبُّر أسمائه وصفاته وأفعاله الدالَّة على كماله وعظمتِهِ وجلالِهِ؛ فإنَّها توجب بذل الجهد في التألُّه له والتعبُّد للربِّ الكامل الذي له كلُّ حمدٍ ومجدٍ وجلال وجمال. الثاني: العلمُ بأنَّه تعالى المنفردُ بالخلق والتدبير، فيعلم بذلك أنَّه المنفرد بالألوهية. الثالث: العلم بأنَّه المنفرد بالنعم الظاهرة والباطنة الدينيَّة والدنيويَّة؛ فإنَّ ذلك يوجب تعلُّق القلب به ومحبَّته والتألُّه له وحده لا شريك له. الرابع: ما نراه ونسمعه من الثوابِ لأوليائِهِ القائمين بتوحيدِهِ من النصر والنعم العاجلة، ومن عقوبتِهِ لأعدائِهِ المشركين به؛ فإنَّ هذا داعٍ إلى العلم بأنَّه تعالى وحده المستحقُّ للعبادة كلِّها. الخامس: معرفة أوصاف الأوثان والأنداد التي عُبِدَتْ مع الله واتُّخِذت آلهة، وأنَّها ناقصةٌ من جميع الوجوه، فقيرةٌ بالذات، لا تملك لنفسها ولا لعابديها نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، ولا ينصرون مَن عبدهم ولا ينفعونهم بمثقال ذرَّةٍ من جلب خيرٍ أو دفع شرٍّ؛ فإنَّ العلم بذلك يوجب العلم بأنَّه لا إله إلا الله وبطلان إلهيَّة ما سواه. السادس: اتِّفاق كتب الله على ذلك وتواطؤها عليه. السابع: أن خواصَّ الخلق الذين هم أكملُ الخليقة أخلاقاً وعقولاً ورأياً وصواباً وعلماً ـ وهم الرسلُ والأنبياءُ والعلماء الربانيُّون ـ قد شهِدوا لله بذلك. الثامن: ما أقامه الله من الأدلَّة الأفقيَّة والنفسيَّة التي تدلُّ على التوحيد أعظم دلالةٍ وتنادي عليه بلسان حالها بما أوْدَعَها من لطائف صنعتِهِ وبديع حكمتِهِ وغرائب خلقِهِ؛ فهذه الطرق التي أكثر الله من دعوةِ الخلق بها إلى أنَّه لا إله إلاَّ الله، وأبداها في كتابه وأعادها، عند تأمُّل العبد في بعضها؛ لا بدَّ أن يكون عنده يقينٌ وعلمٌ بذلك؛ فكيف إذا اجتمعت وتواطأت واتَّفقت وقامت أدلَّة للتوحيد من كلِّ جانب؟! فهناك يرسخُ الإيمان والعلم بذلك في قلب العبد؛ بحيث يكون كالجبال الرواسي، لا تزلزِلُه الشُّبه والخيالات، ولا يزداد على تكرُّر الباطل والشُّبه إلاَّ نموًّا وكمالاً. هذا، وإن نظرتَ إلى الدليل العظيم والأمر الكبير ـ وهو تدبُّر هذا القرآن العظيم والتأمُّل في آياته؛ فإنَّه البابُ الأعظم إلى العلم بالتوحيد، ويحصُلُ به من تفاصيله وجمله ما لا تحصل في غيره. وقوله: {واستغفر لذنبِك}؛ أي: اطلب من الله المغفرة لذنبك؛ بأنْ تفعلَ أسباب المغفرةِ من التوبة والدُّعاء بالمغفرة والحسنات الماحية وترك الذُّنوب والعفو عن الجرائم، {و} استغفر أيضاً {للمؤمنين والمؤمناتِ}؛ فإنَّهم بسبب إيمانهم كان لهم حقٌّ على كلِّ مسلم ومسلمةٍ، ومن جملة حقوقهم أن يُدعَى لهم ويُسْتَغْفَرَ لذُنوبهم، وإذا كان مأموراً بالاستغفار لهم المتضمِّن لإزالة الذُّنوب وعقوباتها عنهم؛ فإنَّ من لوازم ذلك النُّصح لهم، وأن يحبَّ لهم من الخير ما يحبُّ لنفسه، ويكره لهم من الشرِّ ما يكرهُ لنفسِهِ، ويأمرهم بما فيه الخيرُ لهم، وينهاهم عمَّا فيه ضررُهم، ويعفو عن مساويهم ومعايبهم، ويحرصُ على اجتماعهم اجتماعاً تتألف به قلوبُهم، ويزول ما بينهم من الأحقاد المفضية للمعاداة والشقاق، الذي به تكثُرُ ذنوبهم ومعاصيهم. {واللهُ يعلم مُتَقَلَّبَكُم}؛ أي: تصرُّفاتكم وحركاتكم وذهابكم ومجيئكم، {ومَثْواكم}: الذي به تستقرُّون؛ فهو يعلمكم في الحركات والسَّكَنات، فيجازيكم على ذلك أتمَّ الجزاء وأوفاه.
[19] علم میں اقرارِ قلب اور اس معنی کی معرفت، جو علم اس سے طلب کرتا ہے، لازمی امر ہے اور علم کی تکمیل یہ ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا جائے۔ اور یہ علم جس کے حصول کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم ہے اور ہر انسان پر فرض عین ہے اور کسی پر بھی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ساقط نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کے لیے اس کا حصول ضروری ہے۔ اس علم کے حصول کا طریق کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، چند امور پر مبنی ہے: (۱) سب سے بڑا امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں تدبر کیا جائے جو اس کے کمال اور اس کی عظمت و جلال پر دلالت کرتے ہیں۔ کیونکہ اسماء و صفات میں تدبر، عبادت میں کوشش صرف کرنے اور رب کامل کے لیے تعبد کا موجب ہوتا ہے جو ہر قسم کی حمد و مجد اور جلال و جمال کا مالک ہے۔ (۲) اس حقیقت کا علم کہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے، اس کے ذریعے سے اس بات کا علم حاصل ہو گا کہ وہ الوہیت میں بھی متفرد ہے۔ (۳) اس امر کا علم کہ ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے میں وہ متفرد ہے۔ یہ علم دل کے اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے، اس سے محبت کرنے، اس اکیلے کی عبادت کرنے کا موجب بنتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ (۴) ہم یہ جو دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لیے، جو اس کی توحید کو قائم کرتے ہیں، فتح و نصرت اور دنیاوی نعمتیں ہیں اور اس کے دشمن مشرکین کے لیے سزا اور عذاب ہے… یہ چیز اس علم کے حصول کی طرف دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور تمام تر عبادت کا وہی مستحق ہے۔ (۵) ان بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کے اوصاف کی معرفت، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے اور انھیں معبود بنا لیا گیا ہے، کہ یہ ہر لحاظ سے ناقص اور بالذات محتاج ہیں، یہ خود اپنے لیے اور اپنے عبادت گزاروں کے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، ان کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ یہ دوبارہ زندگی ہی عطا کر سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے جو ان کی عبادت کرتے ہیں بھلائی عطا کرنے اور شر کو دور کرنے میں ان کے ذرہ بھر کام نہیں آ سکتے۔ کیونکہ ان اوصاف کا علم، اس حقیقت کے علم کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، نیز یہ علم اللہ کے ماسوا کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہے۔ (۶) حقیقت توحید پر اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں اتفاق کرتی ہیں۔ (۷) اللہ تعالیٰ کے خاص بندے، جو اخلاق، عقل، رائے، صواب اور علم کے اعتبار سے اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامل ہیں، یعنی انبیاء و مرسلین اور علمائے ربانی، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ (۸) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دلائل افقیہ اور نفسیہ قائم کیے ہیں، جو توحید الٰہی پر سب سے بڑی دلیل ہیں، اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اس کی باریک کاری گری، اس کی عجیب و غریب حکمتوں اور اس کی انوکھی تخلیق کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کثرت سے اس امر کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کو اپنی کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے اور بار بار ان کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض پر غور و فکر کرنے سے بندے کو علم اور یقین حاصل ہونا، ایک لازمی امر ہے، تب بندے کو کیوں کر علم اور یقین حاصل نہ ہو گا جب دلائل ہر جانب سے مجتمع اور متفق ہو کر توحید پر دلالت کرتے ہوں۔ یہاں بندۂ مومن کے دل میں، توحید پر ایمان اور اس کا علم راسخ ہو کر پہاڑوں کی مانند بن جاتے ہیں، شبہات و خیالات انھیں متزلزل نہیں کر سکتے، باطل اور شبہات کے بار بار وارد ہونے سے ان کی نشوونما اور ان کے کمال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ اس عظیم دلیل اور بہت بڑے معاملے کو دیکھیں اور وہ ہے قرآن عظیم میں تدبر اور اس کی آیات میں غور و فکر... تو یہ علم توحید تک پہنچنے کے لیے بہت بڑا دروازہ ہے، اس کے ذریعے سے توحید کی وہ تفاصیل حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجیے، یعنی توبہ مغفرت کی دعا، ایسی نیکیوں کے ذریعے سے جو گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، گناہوں کو ترک اور جرائم کو معاف کر کے مغفرت کے اسباب پر عمل کیجیے۔﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ اسی طرح بخشش طلب کیجیے ﴿لِلْمُؤْمِنِیْنَ۠ وَالْمُؤْمِنٰتِ﴾ مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سبب سے، ہر مسلمان مرد اور عورت پر حق رکھتے ہیں اور ان کے جملہ حقوق میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ ان کے لیے دعا کی جائے اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگی جائے۔ جب آپ ان کے لیے استغفار پر مامور ہیں جو ان سے گناہوں اور ان کی سزا کے ازالے کو متضمن ہے تب اس کے لوازم میں سے ہے کہ ان کی خیر خواہی کی جائے، ان کے لیے بھلائی کو پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، ان کے لیے برائی کو ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، انھیں ان کاموں کا حکم دیں جن میں ان کے لیے بھلائی ہے اور ان کاموں سے روکیں جن سے ان کو ضرر پہنچتا ہے، ان کی کوتاہیوں اور عیبوں کو معاف کر دیں، ان کے ساتھ اس طرح اکٹھے رہنے کی خواہش رکھیں جس سے ان کے دل اکٹھے رہیں، اور ان کے درمیان کینہ اور بغض زائل ہو جو عداوت اور ایسی مخالفت کا سبب بنتا ہے جس سے ان کے گناہ اور معاصی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ حرکات و تصرفات اور تمھاری آمدورفت کو خوب جانتا ہے۔ ﴿وَمَثْوٰىكُمْ﴾ اور تمھاری رہائش کی جگہ کو بھی جانتا ہے۔ جہاں تم ٹھہرتے ہو وہ تمھاری حرکات و سکنات کو جانتا ہے۔ وہ تمھیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
آیت: 20 - 23 #
{وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ (20) طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ (21) فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ (23)}.
اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ایمان لائے، کیوں نہیں نازل کی گئی کوئی سورت؟ پھر جب نازل کی جاتی ہے کوئی سورت محکم اور ذکر کیا جاتا ہے اس میں قتال (جہاد) کا تو دیکھتے ہیں آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ آپ کی طرف مانند دیکھنے اس شخص کے کہ غشی طاری ہو گئی ہو اس پر بہ سبب موت کے پس ہلاکت ہے ان کے لیے (20) اطاعت کرنا اور بھلی بات کہنا (بہتر ہے) پس جب پختہ ہو جائے حکم (جہاد کا) پس اگر وہ سچے رہیں اللہ سے تو ہو گا (یہ سچ) بہتر ان کے لیے (21) پس تحقیق توقع ہے تم (سے) اگر حکمران بن جاؤ تم یہ کہ فساد کرو تم زمین میں اور کاٹ ڈالو تم اپنی رشتے داریاں (22) یہی وہ لوگ ہیں کہ لعنت کی ان پر اللہ نے، پس اس نے بہرا کر دیا ان کو اور اندھی کر دیں آنکھیں ان کی (23)
#
{20} يقول تعالى: {ويقولُ الذين آمنوا}: استعجالاً ومبادرةً للأوامر الشاقَّة: {لولا نُزِّلَتْ سورةٌ}؛ أي: فيها الأمر بالقتال، {فإذا أنزِلَتْ سورةٌ محكمةٌ}؛ أي: ملزم العمل بها، {وذُكِرَ فيها القتالُ}: الذي هو أشقُّ شيء على النفوس؛ لم يثبتْ ضعفاء الإيمان على امتثال هذه الأوامر، ولهذا قال: {رأيتَ الذين في قلوبِهِم مرضٌ ينظُرون إليك نَظَرَ المغشيِّ عليه من الموت}: من كراهتهم لذلك وشدَّته عليهم، وهذا كقوله تعالى: {ألم تَرَ إلى الذين قيل لهم كُفُّوا أيدِيَكم وأقيموا الصلاة وآتوا الزَّكاة فلمَّا كُتِبَ عليهم القتالُ إذا فريقٌ منهم يخشَوْن الناس كخشية الله أو أشدَّ خشيةً}.
[20] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ وہ لوگ جو ایمان لائے مشکل کاموں کے لیے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں ﴿ لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ﴾ ’’کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی۔‘‘ یعنی جس میں قتال کا حکم دیا گیا ہو ﴿ فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ﴾ ’’پس جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے۔‘‘ یعنی اس کے عمل کو لازم ٹھہرایا گیا ہو ﴿ وَّذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ﴾ ’’اس میں جہاد کا ذکر ہو۔‘‘ جو کہ نفس پر سب سے زیادہ گراں ہوتا ہے۔ تو جن کا ایمان کمزور تھا وہ اس پر ثابت قدم نہ رہے، اس لیے فرمایا: ﴿ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُ٘رُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْ٘مَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ﴾ ’’جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے، تم نے ان کو دیکھا کہ تمھاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں، جس طرح کسی پر موت کی بے ہوشی طاری ہو رہی ہو۔‘‘ ان کے قتال کو ناپسند کرنے اور اس کی شدت کے باعث، یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَاَ٘قِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّؔا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّؔنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً﴾ (النساء:4؍77) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا، جن سے کہا گیا، اپنے ہاتھوں کو روک لو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ کا یہ حال ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔‘‘ ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے حال کے زیادہ لائق ہے۔
#
{20 ـ 21} ثم ندبهم تعالى إلى ما هو الأليقُ بحالهم، فقال: {فأولى لهم. طاعةٌ وقولٌ معروفٌ}؛ أي: فأولى لهم أن يمتثلوا الأمر الحاضر المحتَّم عليهم، ويَجْمَعوا عليه هِمَمَهم، ولا يطلبوا أن يَشْرَعَ لهم ما هو شاقٌّ عليهم، وليفرَحوا بعافية الله تعالى وعفوِهِ، {فإذا عزم الأمر}؛ أي: جاءهم أمر جدٍّ وأمر محتَّم، ففي هذه الحال، لو {صَدَقوا الله}: بالاستعانة به وبذل الجهد في امتثاله، {لكان خيراً لهم}: من حالهم الأولى، وذلك من وجوه: منها: أنَّ العبد ناقصٌ من كلِّ وجه، لا قدرة له إلاَّ إن أعانه الله؛ فلا يطلب زيادة على ما هو قائم بصدده. ومنها: أنَّه إذا تعلَّقت نفسُه بالمستقبل؛ ضعف عن العمل بوظيفة وقته الحاضر وبوظيفة المستقبل، أما الحال؛ فلأنَّ الهمَّة انتقلت عنه إلى غيره، والعمل تبعٌ للهمَّة. وأما المستقبل؛ فإنَّه لا يجيء حتى تفتُرَ الهمَّة عن نشاطها، فلا يُعان عليه. ومنها: أنَّ العبد المؤمِّل للآمال المستقبلة، مع كسله عن عمل الوقت الحاضر، شبيهٌ بالمتألِّي الذي يجزم بقدرته على ما يستقبل من أموره؛ فأحرى به أن يُخْذَلَ ولا يقوم بما همَّ به و [وطّن] نفسه عليه؛ فالذي ينبغي أن يجمع العبد همَّه وفكرتَه ونشاطَه على وقته الحاضر، ويؤدِّي وظيفته بحسب قدرته، ثم كلَّما جاء وقتٌ؛ استقبله بنشاط وهمَّةٍ عاليةٍ مجتمعةٍ غير متفرِّقة، مستعيناً بربِّه في ذلك؛ فهذا حريٌّ بالتوفيق والتسديد في جميع أموره.
[21,20] ﴿ فَاَوْلٰى لَهُمْۚ۰۰ طَاعَةٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ﴾ یعنی ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکم ہی کی تعمیل کریں جو ان پر واجب کیا گیا ہے، اسی پر اپنے ارادوں کو جمع رکھیں اور یہ مطالبہ نہ کریں کہ ان کے لیے ایسا حکم مشروع کیا جائے جس کی تعمیل ان پر شاق گزرے۔ اور انھیں اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ عفو و عافیت پر خوش ہونا چاہیے۔ ﴿ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ﴾ ’’پس جب بات پختہ ہوگئی۔‘‘ یعنی جب کوئی سخت اور واجب معاملہ آ گیا تو اس حال میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر کے اور اس کی اطاعت میں پوری کوشش کے ذریعے سے، اس کے ساتھ صدق کا معاملہ رکھتے ﴿ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ﴾ تو یہ حال ان کے پہلے حال سے بہتر ہوتا، اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں: (۱) بندہ ہر لحاظ سے ناقص و ناتمام ہے، اسے کوئی قدرت حاصل نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے، لہٰذا وہ اس سے زیادہ طلب نہ کرے جس کے کنارے پر وہ کھڑا ہوا ہے۔ (۲) جب اس کا نفس مستقبل سے متعلق ہو جاتا ہے، تو وہ حاضر اور مستقبل کے کام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتا ہے۔ رہی موجودہ صورتِ حال، تو ارادہ اور ہمت، اس سے نکل کر دوسری طرف (مستقبل کی امیدوں میں) منتقل ہو جاتے ہیں اور عمل ارادے کے تابع ہوتا ہے اور رہا مستقبل تو اس کے آتے آتے ہمت جواب دے جاتی ہے تو اسے کسی کام کی توفیق اور مدد حاصل نہیں ہوتی۔ تب اس کے خلاف مدد نہیں کی جاتی۔ (۳) وہ بندہ جو وقت موجود میں، عمل میں اپنی سستی اور کاہلی کے باوجود مستقبل سے امیدیں وابستہ کرتا ہے، وہ اس سست اور کوتاہ اندیش آدمی کی طرح ہے جسے مستقبل میں پیش آنے والے امور پر قدرت رکھنے کا قطعی یقین ہے۔ اس کے لائق یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جائے اور جس امر کا ارادہ کیا ہے اسے نہ کرے اور نفس کو اس پر آمادہ کر لیا ہے ۔مناسب ہے کہ بندہ اپنے ارادے، اپنی فکر اور اپنی نشاط کو وقت موجود پر مجتمع کرے اور اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق اپنے وظیفے کو ادا کرے۔ پھر جب بھی کوئی وقت آئے تو نشاط اور مجتمع بلند ارادے کے ساتھ کسی تفرقہ کے بغیر اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اس کا استقبال کرے۔ پس یہ شخص اپنے تمام امور میں توفیق اور درستی عطا کیے جانے کا مستحق ہے۔
#
{22} ثم ذكر تعالى حال المتولِّي عن طاعة ربِّه، وأنَّه لا يتولَّى إلى خيرٍ، بل إلى شرٍّ، فقال: {فهل عسيتُمْ إن تَوَلَّيْتُم أن تفسدوا في الأرض وتقطِّعوا أرحامكم}؛ أي: فهما أمران: إمَّا التزامٌ لطاعة الله وامتثالٌ لأوامره؛ فثَمَّ الخيرُ والرشدُ والفلاح. وإمَّا إعراضٌ عن ذلك وتولي عن طاعةِ الله؛ فما ثَمَّ إلاَّ الفساد في الأرض بالعمل بالمعاصي وقطيعة الأرحام.
[22] پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کا ذکر فرماتا ہے جو اپنے رب کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے، خیر کی طرف آنے کی بجائے شر کی طرف بھاگتا ہے ، لہٰذا فرمایا: ﴿فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ﴾ ’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘ یعنی یہ دو امور ہیں یا تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر التزام اور اس کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، پس وہاں بھلائی، ہدایت اور فلاح ہے۔ یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی اور اس سے اعراض کرنا، تب اس صورت حال میں فساد فی الارض، معصیت پر عمل اور قطع رحمی کے سوا کچھ نہیں۔
#
{23} {أولئك الذين}: أفسدوا في الأرض، وقطَّعوا أرحامهم. {لَعَنَهم الله}: بأن أبعدهم عن رحمته وقربوا من سخط الله {فأصمَّهم وأعمى أبصارَهم}؛ أي: جعلهم لا يسمعون ما ينفَعُهم ولا يبصِرونه؛ فلهم آذانٌ ولكن لا تسمعُ سماع إذعانٍ وقَبولٍ، وإنَّما تسمع سماعاً تقومُ بها حجةُ الله عليها، ولهم أعينٌ ولكن لا يبصِرون بها العبرَ والآيات، ولا يلتفتونَ بها إلى البراهين والبيِّنات.
[23] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ﴾ جنھوں نے زمین میں فساد پھیلایا اور قطع رحمی کی ﴿ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ ﴾ وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے قریب ہو گئے۔ ﴿ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال کر دیا کہ وہ ایسی بات سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں جو انھیں فائدہ دے۔ پس ان کے کان ہیں جس سے ان پر حجت قائم ہوتی ہے۔ وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر وہ ان آنکھوں سے عبرتوں اور آیات کو دیکھتے ہیں نہ دلائل و براہین کی طرف التفات کرتے ہیں۔
آیت: 24 #
{أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (24)}
کیا پس نہیں غور وفکر کرتے وہ لوگ قرآن میں یا دلوں پر تالے لگے ہیں ان کے؟ (24)
#
{24} أي: فهلاَّ يتدبَّر هؤلاء المعرضون لكتاب الله ويتأمَّلونه حقَّ التأمُّل؛ فإنهم لو تدبَّروه؛ لدلَّهم على كلِّ خيرٍ، ولحذَّرهم من كلِّ شرٍّ، ولملأ قلوبَهم من الإيمان وأفئدتهم من الإيقان، ولأوصلهم إلى المطالب العالية والمواهبِ الغالية، ولبيَّن لهم الطريقَ الموصلة إلى الله وإلى جنَّته ومكمِّلاتها ومفسداتها، والطريقَ الموصلة إلى العذابِ، وبأيِّ شيء يُحذر ، ولعرَّفهم بربِّهم وأسمائه وصفاته وإحسانه، ولشوَّقهم إلى الثواب الجزيل، ورهَّبهم من العقاب الوبيل، {أم على قلوبٍ أقفالُها}؛ أي: قد أغلق على ما فيها من الإعراض والغفلة والاعتراض ، وأقفِلَت فلا يدخلها خيرٌ أبداً؟! هذا هو الواقع.
[24] کتاب اللہ سے روگردانی کرنے والے یہ لوگ، کتاب اللہ میں تدبر اور غور و فکر کیوں نہیں کرتے، جیسا کہ غور و فکر کرنے کا حق ہے، اگر انھوں نے اس میں اچھی طرح تدبر کیا ہوتا تو یہ ہر بھلائی کی طرف ان کی راہ نمائی کرتی، انھیں ہر برائی سے بچاتی، ان کے دلوں کو ایمان سے اور ان کی عقلوں کو ایقان سے لبریز کر دیتی، وہ انھیں بلند مقاصد اور انمول عطیات تک پہنچاتی، ان کے سامنے وہ راستہ روشن کر دیتی جو انھیں اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے، نیز اس جنت کی تکمیل کرنے والے امور پر اور اس کو فاسد کرنے والے امور پر دلالت کرتی، انھیں وہ راستہ بھی دکھاتی جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جاتا ہے اور یہ بھی بتاتی کہ کس چیز کے ذریعے سے اس سے بچا جائے۔ وہ انھیں ان کے رب، اس کے اسماء و صفات اور اس کے احسان کی معرفت عطا کرتی، ان میں بے پایاں ثواب حاصل کرنے کا شوق پیدا کرتی اور انھیں درد ناک عذاب سے ڈراتی۔ ﴿ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾ ’’یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔‘‘ یعنی دلوں میں روگردانی، غفلت اور اعتراضات کوٹ کوٹ کر بھر دیے گئے ، پھر ان کو بند کر کے ان پر تالے لگا دیے پس ان میں بھلائی کبھی داخل نہیں ہو گی؟ فی الواقع ان کا یہی حال ہے۔
آیت: 25 - 28 #
{إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ (25) ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ (26) فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ (27) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ (28)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو پھر گئے اپنی پیٹھوں پر بعد اس کے کہ واضح ہو گئی ان کے لیے ہدایت، شیطان نے مزین کر دیے ان کے لیے (عمل) اور ڈھیل دی ان کو اللہ نے (25) یہ (پھرنا) بوجہ اس کےکہ بے شک انھوں نے کہا ان سے جنھوں نے ناپسند کیا اس چیزکو جو نازل کی اللہ نے عنقریب ہم اطاعت کریں گے تمھاری بعض کاموں میں اور اللہ جانتا ہے راز ان کے (26) پس کیا حال ہو گا جب (روحیں) قبض کریں گے ان کی فرشتے، مارتے ہوں گے ان کے مونہوں کو اور ان کی پیٹھوں کو؟ (27) یہ (مار) اس سبب سے کہ بے شک پیروی کی انھوں نے اس چیز کی کہ اس نے ناراض کر دیا اللہ کو، اور ناپسند کی انھوں نے رضامندی اس کی، پس برباد کر دیے اللہ نے اعمال ان کے (28)
#
{25} يخبر تعالى عن حالة المرتدِّين عن الهدى والإيمان على أعقابهم إلى الضلال والكفران، ذلك لا عن دليل دلَّهم ولا برهان، وإنَّما هو تسويلٌ من عدوِّهم الشيطان، وتزيينٌ لهم وإملاءٌ منه لهم؛ {يعِدُهم ويمنِّيهم وما يعِدُهُم الشيطانُ إلاَّ غروراً}.
[25] اللہ تبارک و تعالیٰ ان مرتدین کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو ہدایت اور ایمان کو چھوڑ کر الٹے پاؤ ں کفر اور گمراہی کی طرف لوٹ گئے، ان کا کفر کی طرف واپس لوٹنا کسی دلیل اور برہان کی بنا پر نہیں، بلکہ ان کے دشمن کے ان کو گمراہ کرنے، اس کی تزئین اور اس کی ترغیب کی بنا پر ہے ﴿ یَعِدُهُمْ وَیُمَنِّیْهِمْ١ؕ وَمَا یَعِدُهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اِلَّا غُ٘رُوْرًا﴾ (النساء: 4؍120) ’’شیطان ان سے وعدے کرتاہے اور انھیں امید دلاتا ہے مگر شیطان کے وعدے دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
#
{26} و {ذلك}: أنَّهم قد تبيَّن لهم الهدى، فزهدوا فيه ورفضوه، و {قالوا للذين كرِهوا ما نَزَّلَ الله}: من المبارزين العداوة لله ولرسوله: {سنُطيعكم في بعض الأمرِ}؛ أي: الذي يوافق أهواءهم؛ فلذلك عاقبهم الله بالضلال والإقامة على ما يوصِلُهم إلى الشقاء الأبديِّ والعذاب السرمديِّ، {واللهُ يعلمُ إسرارَهم}: فلذلك فضحهم، وبيَّنها لعباده المؤمنين؛ لئلاَّ يغترُّوا بها.
[26] اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے سامنے راہ ہدایت واضح ہو چکی ہے مگر انھوں نے اس سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیا ﴿قَالُوْا لِلَّذِیْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ﴾ ’’انھوں نے ان لوگوں سے کہا جنھوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا:‘‘ جو اللہ اور اس کے رسولe سے عداوت رکھتے ہیں ﴿سَنُطِیْعُكُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ﴾ ’’ہم بعض کاموں میں تمھاری اطاعت کریں گے۔‘‘ جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہیں پس اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی کی پاداش میں اور ان کے ایسے رویے پر قائم رہنے، جو انھیں ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی طرف لے جاتا ہے، کے سبب ان کو سزا دی۔ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ﴾ ’’اور اللہ ان کے راز جانتا ہے۔‘‘ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیحت کی اور اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے بیان کیا، تاکہ وہ فریب میں مبتلا نہ رہیں۔
#
{27} {فكيف} ترى حالَهم الشنيعة ورؤيتهم الفظيعة، {إذا توفَّتْهم الملائكةُ}: الموكلون بقبض أرواحهم، {يضرِبون وجوهَهم وأدبارَهم}: بالمقامع الشديدة.
[27] ﴿ فَكَیْفَ﴾ ’’پس کیسا ‘‘ ان کا برا حال اور ان کا بدترین نظارہ آپ دیکھیں گے ﴿ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ﴾ جب فرشتے جو ان کی روح قبض کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ﴿ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَ٘ارَهُمْ﴾’’ وہ (سخت گرزوں سے) ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مار رہے ہوں گے۔‘‘
#
{28} {ذلك}: العذابُ الذي استحقُّوه ونالوه، بسبب {أنَّهم اتَّبعوا ما أسخَطَ اللهَ}: من كل كفرٍ وفسوقٍ وعصيانٍ، {وكرهوا رِضْوانَه}: فلم يكن لهم رغبةٌ فيما يقرِّبهم إليه ولا يدنيهم منه، {فأحبط أعمالَهم}؛ أي: أبطلها وأذهبها، وهذا بخلاف من اتَّبع ما يُرضي الله وكره سخطه؛ فإنَّه سيكفِّر عنه سيئاتِهِ ويضاعِفُ له أجره وثوابه.
[28] ﴿ ذٰلِكَ﴾ یہ عذاب، جس کے وہ مستحق ٹھہرے اور اس میں انھیں ڈالا گیا اس سبب سے ہے ﴿ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَاۤ اَسْخَطَ اللّٰهَ﴾ کہ انھوں نے ہر کفر و فسق اور گناہ کی پیروی کرکے اللہ کو ناراض کیا۔ ﴿ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ﴾ ’’اور اس کی رضامندی کو انھوں نے ناپسند کیا۔‘‘ پس انھیں ایسے امور میں رغبت نہ تھی جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنتے ہیں اور نہ ایسے اعمال میں رغبت تھی جو انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ ﴿ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ﴾ سو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو باطل اور اکارت کر دیا، یہ اس شخص کے معاملے کے برعکس ہے جو ان امور کی اتباع کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو ناپسند کرتا ہے، پس عنقریب اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو مٹا دے گا اور اس کے لیے اپنے اجر و ثواب کو کئی گنا کر دے گا۔
آیت: 29 - 31 #
{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَنْ لَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ (29) وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَعْمَالَكُمْ (30) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ (31)}.
کیا گمان کیا ہے ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ ہے یہ کہ ہرگز نہیں نکالے (ظاہر کرے) گا اللہ کینے ان کے؟(29) اور اگر ہم چاہتے (تو) البتہ ہم دکھاتے آپ کو وہ (منافق) ، پھر ضرور پہچان لیتے آپ ان کو ان کے چہروں کی علامات سے اور یقیناً آپ پہچان لیں گے ان کو انداز گفتگو سے اور اللہ جانتا ہے اعمال تمھارے (30) اور البتہ ہم ضرور آزمائیں گے تمھیں یہاں تک کہ معلوم کر لیں ہم مجاہدین کو تم میں سے اورصبر کرنے والوں کو اور جانچ لیں ہم حالات تمھارے (31)
#
{29} يقول تعالى: {أم حَسِبَ الذين في قلوبهم مرضٌ}: من شبهة أو شهوة؛ بحيث تخرِجُ القلب عن حال صحَّته واعتداله، أن الله لا يخرج ما في قلوبهم من الأضغانِ والعداوةِ للإسلام وأهله! هذا ظنٌّ لا يَليقُ بحكمة الله؛ فإنَّه لا بدَّ أن يميِّز الصادق من الكاذب، وذلك بالابتلاء بالمحنِ التي مَن ثَبَتَ عليها ودام إيمانُه فيها؛ فهو المؤمن حقيقةً، ومَن ردَّته على عقبيه، فلم يصبرْ عليها، وحين أتاه الامتحان جَزعَ وضَعُفَ إيمانه وخرج ما في قلبِهِ من الضَّغَن وتبيَّن نفاقُه؛ هذا مقتضى الحكمة الإلهيَّة.
[29] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ﴾ ’’کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے انھوں نے خیال کیا۔‘‘ یعنی وہ جن کے دلوں میں کوئی ایسا شبہ یا خواہش ہے جو قلب کو صحت اور اعتدال کی حالت سے خارج کر دیتا ہے کہ ان کے دلوں میں ہے ۔﴿اَضْغَانَهُمْ﴾ وہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے جو کینہ اور عداوت ہے، اللہ اسے ظاہر نہیں کرے گا؟ یہ ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے لائق نہیں اور یہ ضروری ہے کہ وہ جھوٹے میں سے سچے کو واضح کرے اور یہ چیز آزمائش اور امتحان سے ثابت ہوتی ہے۔ جو کوئی اس امتحان میں پورا اترا اور اس کا ایمان ثابت رہا وہی حقیقی مومن ہے اور جس کو اس امتحان و ابتلا نے الٹے پاؤ ں پھیر دیا اور اس نے اس پر صبر نہ کیا، اور جب اس پر امتحان آیا تو اس نے جزع فزع کیا اور اس کا ایمان کمزور ہو گیا۔ اس کے دل میں جو بغض اور کینہ تھا ظاہر ہو گیا اور یوں اس کا نفاق ظاہر ہو گیا۔ یہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔
#
{30} مع أنَّه تعالى قال: {لو نشاء لأرَيْناكَهم فلَعَرَفْتَهم بسيماهم}؛ أي: بعلاماتهم التي هي كالرسم في وجوههم، {ولتعرِفَنَّهم في لحنِ القول}؛ أي: لا بدَّ أن يظهرَ ما في قلوبهم ويتبيَّن بفلتاتِ ألسنتهم؛ فإنَّ الألسنَ مغارفُ القلوب، يظهر فيها ما في القلوب من الخير والشرِّ، {والله يعلمُ أعمالَكم}: فيجازيكم عليها.
[30] اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ نَشَآءُ لَاَرَیْنٰـكَ٘هُمْ۠ فَلَ٘عَرَفْتَهُمْ۠ بِسِیْمٰىهُمْ﴾ ’’اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور آپ انھیں ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے۔‘‘ یعنی ان کی ان علامات کے ذریعے سے آپ ان کو پہچان لیں گے جو گویا ان کے چہروں پر مرقوم ہیں ﴿ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ ’’اور یقیناً آپ انھیں ان کی بات کے انداز سے پہچان لیں گے۔‘‘ یعنی یہ ایک لازمی امر ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے وہ ظاہر اور ان کی زبان کی لغزش سے واضح ہو کر رہے گا کیونکہ زبان دل کی نقیب ہوتی ہے جو خیر اور شر دل میں ہوتا ہے اسے زبان ظاہر کر دیتی ہے ﴿ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ﴾ ’’اور اللہ تمھارے اعمال سے واقف ہے۔‘‘ پس وہ تمھیں اس کی جزا دے گا۔
#
{31} ثم ذَكَرَ أعظم امتحانٍ يمتحنُ به عبادَه، وهو الجهادُ في سبيل الله، فقال: {ولَنَبْلُوَنَّكم}؛ أي: نختبر إيمانكم وصبركم، {حتى نعلمَ المجاهدين منكم والصابرين ونبلوَ أخبارَكم}: فمن امتثل أمر الله وجاهدَ في سبيل الله بنصر دينِهِ وإعلاءِ كلمتِهِ؛ فهو المؤمن حقًّا، ومن تكاسل عن ذلك؛ كان ذلك نقصاً في إيمانه.
[31] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے بڑے امتحان کا ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَنَبْلُوَنَّـكُمْ﴾ یعنی ہم تمھارے ایمان اور صبر کا امتحان لیں گے ﴿ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰؔهِدِیْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰؔبِرِیْنَ١ۙ وَنَبْلُوَاۡ اَخْبَارَؔكُمْ﴾ ’’تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ہم ان کو معلوم کرلیں۔‘‘ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، اس کے دین کی مدد اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، وہی حقیقی مومن ہے، اور جو کوئی اس بارے میں سستی اور تن آسانی سے کام لیتا ہے، تو اس کے ایمان میں نقص ہے۔
آیت: 32 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ (32)}.
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اور روکا انھوں نے اللہ کی راہ سے، اور مخالفت کی رسول (u) کی بعد اس کے کہ واضح ہو گئی ان کے لیے ہدایت، ہرگز نہیں بگاڑ سکیں گے وہ اللہ کا کچھ بھی اور عنقریب وہ (اللہ) برباد کرے گا اعمال ان کے (32)
#
{32} هذا وعيدٌ شديدٌ لمن جمع أنواع الشرِّ كلِّها من الكفر بالله وصدِّ الخلق عن سبيل الله الذي نَصَبَه موصلاً إليه، {وشاقُّوا الرسولَ من بعدِ ما تبيَّن لهم الهُدى}؛ أي: عاندوه وخالفوه عن عمدٍ وعنادٍ، لا عن جهل وغيٍّ وضلال؛ فإنَّهم {لن يضرُّوا الله شيئاً}؛ فلا ينقص به ملكه، {وسيُحْبِطُ أعمالَهم}؛ أي: مساعيهم التي بذلوها في نصر الباطل؛ بأنْ لا تثمرَ لهم إلاَّ الخيبة والخسران، وأعمالهم التي يرجون بها الثواب لا تُقبل؛ لعدم وجودِ شرطها.
[32] یہ آیت کریمہ اس شخص کے لیے نہایت سخت وعید ہے جس میں ہر قسم کا شر جمع ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر، مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے تک پہنچانے کے لیے مقرر کیا ہوا ہے۔ ﴿ وَشَآقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْهُدٰؔى﴾ یعنی انھوں نے رسول اللہe کے ساتھ عناد رکھا، جہالت، گمراہی اور ضلالت کی وجہ سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر عناد کی وجہ سے ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد آپ کی مخالفت کی ﴿ لَ٘نْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْـًٔؔا﴾ ’’اور وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے۔‘‘ پس اس سے اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ ﴿ وَسَیُحْبِطُ اَعْمَالَهُمْ﴾ اور اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو رائیگاں کر دے گا جو وہ باطل کی مدد کے لیے کر رہے ہیں، یعنی ان کو ناکامی اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا اور ان کے وہ اعمال جن پر انھیں ثواب کی امیدیں ہیں، قبولیت کی شرائط کے عدم وجود کی بنا پر قبول نہ کیے جائیں گے۔
آیت: 33 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (33)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، اور نہ باطل کرو اپنے عملوں کو (33)
#
{33} يأمر تعالى المؤمنين بأمرٍ به تتمُّ [أمورُهم] وتحصل سعادتُهم الدينيَّة والدنيويَّة، وهو طاعتُه وطاعة رسولِهِ في أصول الدين وفروعه، والطاعةُ هي امتثال الأمر واجتنابُ النهي على الوجه المأمور به بالإخلاص وتمام المتابعة، وقوله: {ولا تبطلوا أعمالكم}: يشملُ النهي عن إبطالها بعد عملها بما يفسِدُها مِن مَنٍّ بها وإعجابٍ وفخرٍ وسمعةٍ، ومن عملٍ بالمعاصي التي تضمحلُّ معها الأعمال ويحبطُ أجرُها. ويشمل النهي عن إفسادِها حال وقوعها بقطِعها أو الإتيان بمفسدٍ من مفسداتها. فمبطلاتُ الصلاة والصيام والحجِّ ونحوها كلُّها داخلةٌ في هذا ومنهيٌّ عنها. ويستدلُّ الفقهاء بهذه الآية على تحريم قطع الفرض وكراهةِ قطع النفل من غير موجبٍ لذلك، وإذا كان الله قد نهى عن إبطال الأعمال؛ فهو أمرٌ بإصلاحها وإكمالها وإتمامها والإتيان بها على الوجهِ الذي تَصْلُحُ به علماً وعملاً.
[33] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ایسی بات کا حکم دیتا ہے جس کے ذریعے سے انھیں دینی اور دنیاوی سعادت حاصل اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ ہے دین کے اصول و فروع اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی اطاعت۔ اور اطاعت سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اخلاص اور کامل متابعت کے ساتھ مامور بہ طریقے سے تعمیل کرنا اور نواہی سے اجتناب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿ وَلَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ﴾ ’’اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔‘‘ میں نہی عمل کو بجا لانے کے بعد اس کو فاسد کرنے والے امور کے ذریعے سے اس کے باطل کرنے کو شامل ہے، مثلاً: نیکی کرنے کے بعد احسان جتلانا، تکبر ، فخر اور شہرت کی خواہش کرنا وغیرہ، نیز ایسے گناہوں کا ارتکاب جو نیک اعمال کو مضمحل کر کے ان کے اجر و ثواب کو ضائع کر دیتے ہیں۔ نیز یہ نہی عمل کو اس کے وقوع کے وقت، اس کو فاسد کرنے کو شامل ہے، مثلاً: عمل کو مکمل کیے بغیر چھوڑ دینا یا کسی ایسے امر کا ارتکاب کرنا جو اس عمل کی مفسدات میں شمار ہوتا ہے۔ پس نماز، روزہ اور حج کو باطل کرنے والے امور اسی زمرے میں آتے ہیں اور ان سے روکا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاءS بغیر کسی موجب کے فرض کو منقطع کرنے کی تحریم اور نفل کو منقطع کرنے کی کراہت پر استدلال کرتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اعمال کو باطل کرنے سے روکا ہے تو اس نے گویا اعمال کی اصلاح، اس کی تکمیل و اتمام اور ان کو اس طرح بجا لانے کا حکم دیا ہے جو علم و عمل کے اعتبار سے درست ہو۔
آیت: 34 - 35 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ (34) فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (35)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور روکا انھوں نے اللہ کی راہ سے ، پھر وہ مر گئے اس حال میں کہ وہ کافر ہی تھے، تو ہرگز نہیں بخشے گا اللہ ان کو (34) سو نہ سستی کرو تم اور (نہ) بلاؤ تم صلح کی طرف جب کہ تم (ہی) بلند (غالب) ہو اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور ہرگز نہیں کم گرے گا، تم سے (ثواب) تمھارے عملوں کا (35)
#
{34} هذه الآية والتي في البقرة قوله: {ومَن يرتَدِدْ منكم عن دينِهِ فيمتْ وهو كافرٌ فأولئك حبطتْ أعمالُهم في الدُّنيا والآخرةِ}: مقيِّدتانِ لكلِّ نصٍّ مطلق فيه إحباط العمل بالكفر؛ فإنَّه مقيدٌ بالموت عليه، فقال هنا: {إنَّ الذين كفروا}: بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، {وصدُّوا}: الخلق {عن سبيل الله}: بتزهيدهم إيَّاهم بالحقِّ، ودعوتهم إلى الباطل وتزيينه، {ثم ماتوا وهم كفارٌ}: لم يتوبوا منه، {فلن يَغْفِرَ اللهُ لهم}: لا بشفاعة ولا بغيرها؛ لأنَّه قد تحتَّم عليهم العقاب، وفاتهم الثواب، ووجب عليهم الخلود في النار، وسُدَّت عليهم رحمة الرحيم الغفار. ومفهومُ الآية الكريمة أنَّهم إن تابوا من ذلك قبل موتِهِم؛ فإنَّ الله يغفرُ لهم ويرحمهُم ويدخِلُهم الجنَّة، ولو كانوا مفنينَ أعمارَهم في الكفر به والصدِّ عن سبيله والإقدام على معاصيه. فسبحان من فَتَحَ لعبادِهِ أبوابَ الرحمة ولم يغلِقْها عن أحدٍ ما دام حيًّا متمكناً من التوبة. وسبحان الحليم الذي لا يعاجل العاصين بالعقوبة، بل يعافيهم ويرزقُهم كأنَّهم ما عصوه مع قدرته عليهم.
[34] یہ آیت کریمہ اور وہ جو سورۂ بقرہ میں وارد ہوئی ہے یعنی ﴿ وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ﴾ (البقرہ:2؍217) ’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے اور کفر کی حالت میں مر جائے، پس ان لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں اکارت جائیں گے۔‘‘ یہ دونوں آیات ہر اس نصِ مطلق کو، جس میں کفر کی بنا پر اعمال کے اکارت جانے کا ذکر کیا گیا ہے، مقید کرتی ہیں۔ پس یہ حکم اس پر موت کے ساتھ مقید ہے۔یہاں فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ بے شک وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کیا ﴿ وَصَدُّوْا﴾ اور مخلوق کو روکا ﴿ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کی راہ سے ‘‘ انھیں راہ حق سے دور کرنے، باطل کی طرف دعوت دینے اور باطل کو مزین کرنے كے ذريعے سے﴿ ثُمَّ مَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ﴾ ’’پھر کافر ہی مر گئے۔‘‘ اور انھوں نے کفر سے توبہ نہ کی ﴿ فَلَ٘نْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ﴾ تو اللہ تعالیٰ انھیں کسی سفارش وغیرہ کے ذریعے سے نہ بخشے گا۔ ان کے لیے عذاب واجب ہو چکا، وہ ثواب سے محروم ہو گئے اور جہنم میں ان کا ہمیشہ رہنا لازم ہو گیا ان پر رحیم و غفار کی رحمت کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ اپنی موت سے پہلے توبہ کر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ انھیں بخش دے گا، ان پر رحم کر کے جنت میں داخل کر دے گا خواہ انھوں نے اپنی عمریں کفر، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کیوں نہ گزاری ہوں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیے، اس نے کسی شخص پر، جب تک وہ زندہ ہے اور توبہ کرنے پر قادر ہے، اپنی رحمت کے دروازوں کو بند نہیں کیا... اور پاک ہے وہ ذات جو نہایت حلم والی ہے، جو گناہ گاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتی، بلکہ ان کو معاف کرتی ہے اور انھیں رزق عطا کرتی ہے، گویا انھوں نے کبھی اس کی نافرمانی کی ہی نہیں، حالانکہ وہ ہستی ان پر پوری قدرت رکھتی ہے۔
#
{35} ثم قال تعالى: {فلا تَهِنوا}؛ أي: تضعفوا عن قتال عدوِّكم، ويستولي عليكم الخوف، بل اصبروا، واثبتوا، ووطِّنوا أنفسَكم على القتال والجِلادِ طلباً لمرضاة ربِّكم ونصحاً للإسلام وإغضاباً للشيطان، {و} لا {تَدْعوا إلى}: المسالمة والمتاركة بينكم وبين أعدائكم طلباً للراحة، {و} الحال أنَّكم {أنتم الأعْلَوْن واللهُ معكم ولن يَتِرَكُم}؛ أي: ينقصكم {أعمالَكم}: فهذه الأمور الثلاثة كلٌّ منها مقتضٍ للصبر وعدم الوهن كونهم الأعلين؛ أي: قد توفرت لهم أسباب النصر ووعدوا من الله بالوعد الصادق؛ فإنَّ الإنسان لا يهن إلاَّ إذا كان أذلَّ من غيره وأضعف عدداً أو عُدداً وقوةً داخليةً وخارجيةً. الثاني: أنَّ الله معهم؛ فإنَّهم مؤمنون، والله مع المؤمنين بالعون والنصر والتأييد، وذلك موجبٌ لقوَّة قلوبهم وإقدامهم على عدوهم. الثالث: أنَّ الله لا يَنْقُصهم من أعمالهم شيئاً، بل سيوفِّيهم أجورهم ويزيدُهم من فضله، خصوصاً عبادة الجهاد؛ فإنَّ النفقة تضاعَفُ فيه إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرةٍ، وقال تعالى: {ذلك بأنَّهم لا يصيبُهم ظمأٌ ولا نصبٌ ولا مخمصةٌ في سبيل الله ولا يطؤون موطِئاً يغَيظُ الكفارَ ولا ينالون من عدوٍّ نيلاً إلاَّ كُتِبَ لهم به عملٌ صالحٌ إنَّ الله لا يُضِيعُ أجرَ المحسنين. ولا ينفقونَ نفقةً صغيرةً ولا كبيرةً ولا يقطعونَ وادياً إلاَّ كُتِبَ لهم لِيَجْزِيَهم الله أحسنَ ما كانوا يعملون}. فإذا عرف الإنسان أنَّ الله تعالى لا يُضِيعُ عملَه وجهاده؛ أوجب له ذلك النشاط وبذل الجهد فيما يترتَّب عليه الأجر والثواب؛ فكيف إذا اجتمعتْ هذه الأمور الثلاثة؟! فإنَّ ذلك يوجب النشاط التامَّ. فهذا من ترغيب الله لعباده وتنشيطهم وتقويةِ أنفسهم على ما فيه صلاحُهم وفلاحُهم.
[35] اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ فَلَا تَهِنُوْا﴾ یعنی اپنے دشمن کے ساتھ قتال کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ اور تم پر خوف غالب نہ آئے، بلکہ صبر کرو اور ثابت قدم رہو اپنے رب کی رضا، اسلام کی خیر خواہی اور شیطان کو ناراض کرنے کے لیے اپنے نفس کو قتال اور جانفشانی پر آمادہ کرو اور محض آرام حاصل کرنے کے لیے تم دشمن کو امن اور صلح کی دعوت نہ دو۔﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ حالانکہ ﴿ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ١ۖ ۗ وَاللّٰهُ مَعَكُمْ وَلَ٘نْ یَّتِرَؔكُمْ﴾ ’’تم ہی غالب رہو گے اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ کمی نہیں کرے گا‘‘﴿ اَعْمَالَكُمْ﴾ ’’تمھارے اعمال میں۔‘‘ یہ تین امور، ان میں سے ہر ایک صبر اور عدم ضعف کا تقاضا کرتا ہے: (۱) ان کا غالب آنا، یعنی ان کے لیے فتح و نصرت کے وافر اسباب مہیا کر دیے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ سچا وعدہ کیا گیا ہے انسان صرف اس وقت کمزور ہوتا ہے جب وہ مخالفین کی نسبت کمتر تعداد، سازوسامان اور داخلی اور خارجی قوت کے اعتبار سے ان کی نسبت کمزور ہو۔ (۲) اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید کے ذریعے سے اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں کو طاقت اور قوت عطا کرنے اور دشمن کے خلاف اقدام کرنے کی موجب ہے۔ (۳) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا بلکہ انھیں پورا پورا اجر عطا کرے گا اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ عطا کرے گا۔ خاص طور پر جہاد کی عبادت میں، کیونکہ جہاد میں خرچ کیے ہوئے مال کا اجر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلَا یَطَـُٔوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّـیْلًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ۰۰ وَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً وَّلَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیً٘ا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (التوبہ:9؍120-121) ’’یہ اس سبب سے ہے کہ انھیں اللہ کے راستے میں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، پیاس، تھکاوٹ یا بھوک کی تکلیف، یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں جس سے کفار کو غصہ آئے، یا دشمنوں سے کچھ حاصل کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کے لیے ایک نیک عمل لکھ لیا جاتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اور جو تھوڑا یا بہت خرچ کرتے ہیں، یا کوئی وادی طے کرتے ہیں تو سب کچھ ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزا دے۔‘‘ جب انسان کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل اور جہاد کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا تو یہ چیز اس کے لیے نشاط اور ان امور میں کوشش کرنے کی موجب بنتی ہے جن پر اجر و ثواب مترتب ہوتے ہیں۔ تب کیسی کیفیت ہو گی اگر یہ تینوں مذکورہ امور مجتمع ہوں؟ بلاشبہ یہ چیز نشاط کامل کی موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ترغیب اور ایسے امور کے لیے ان میں نشاط اور قوت پیدا کرنا ہے جن میں ان کی بھلائی اور فلاح ہے۔
آیت: 36 - 38 #
{إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ (36) إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ (37) هَاأَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (38)}
یقیناً حیاتِ دنیا (تو ایک) کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو (تو) وہ (اللہ) دے گا تمھیں اجر تمھارے، اور وہ نہیں مانگے گا تم سے مال تمھارے (36) اگر اللہ سوال کرے تم سے اس (تمام) مال کا، پھر وہ خوب اصرار کرے تم سے تو تم بخیلی کرو گے، اور وہ نکال باہر کرے گا کینے تمھارے (37) سنو! تم (تو) وہ لوگ ہو کہ بلائے جاتے ہو تاکہ تم خرچ کرو اللہ کی راہ میں ، پھر بعض تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں، اور جو بخل کرتا ہے تو یقیناً وہ بخل کرتا ہے اپنے آپ سے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم محتاج ہو اور اگر تم روگردانی کرو گے تو (اللہ) بدل لائے گا (دوسرے) لوگ سوائے تمھارے، پھر نہ ہوں گے وہ تم جیسے (38)
#
{36 ـ 37} هذا تزهيدٌ منه تعالى لعباده في الحياة الدُّنيا؛ بإخبارِهم عن حقيقة أمرِها؛ بأنها لعبٌ ولهوٌ؛ لعبٌ في الأبدان ولهوٌ في القلوب، فلا يزال العبدُ لاهياً في ماله وأولاده وزينتِهِ ولذاتِهِ من النساء والمآكل والمشارب والمساكن والمجالس والمناظر والرياسات، لاعباً في كلِّ عمل لا فائدةَ فيه، بل هو دائرٌ بين البطالة والغفلة والمعاصي، حتى يستكملَ دُنياه ويَحْضُرُه أجلُه؛ فإذا هذه الأمورُ قد ولَّت وفارقتْ ولم يحصُلِ العبدُ منها على طائل، بل قد تبيَّن له خسرانُه وحرمانُه وحضر عذابُه؛ فهذا موجبٌ للعاقل الزهد فيها وعدم الرغبة فيها والاهتمام بشأنها، وإنَّما الذي ينبغي أن يهتمَّ به ما ذكره بقوله: {وإن تؤمنوا وتَتَّقوا}: بأنْ تؤمنوا بالله وملائكتِهِ وكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر، وتقوموا بتقواه التي هي من لوازم الإيمان ومقتضياته، وهي العمل بمرضاته على الدوام، مع ترك معاصيه؛ فهذا الذي ينفع العبد، وهو الذي ينبغي أن يُتنافسَ فيه وتُبذل الهمم والأعمالُ في طلبه، وهو مقصودُ الله من عباده؛ رحمةً بهم ولطفاً؛ ليثيبَهم الثوابَ الجزيل، ولهذا قال: {وإن تؤمنوا وتَتَّقوا يؤتِكُم أجورَكم ولا يَسْألْكُم أموالَكم}؛ أي: لا يريدُ تعالى أن يكلفكم ما يشقُّ عليكم ويُعْنِتَكُم من أخذِ أموالكم وبقائكم بلا مال أو يَنْقُصَكم نقصاً يضرُّكم، ولهذا قال: {إن يسألْكُموها فيُحْفِكُم تبخَلوا ويخرِجْ أضغانَكُم}؛ أي: ما في قلوبكم من الضَّغن إذا طُلِبَ منكم ما تكرهون بذلَه.
[37,36] یہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو اس دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے، کہ دنیا محض لہو و لعب ہے، یعنی بدن کے لیے لعب قلوب کے لیے لہو، اس میں زہد کی ترغیب ہے۔ پس بندہ اپنے مال و متاع، اولاد، اپنی زیب و زینت، اپنی بیویوں، ماکولات و مشروبات سے حصول لذت اپنے مساکن و مجالس، مناظر اور ریاست میں مگن ہو کر غافل اور ہر بے فائدہ عمل میں کھیلتا رہتا ہے بلکہ وہ بے کاری، غفلت اور گناہوں کے دائرے میں گھرا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنی دنیا کی زندگی کو مکمل کر لیتا ہے اور اس کی اجل آ جاتی ہے۔ جب یہ تمام چیزیں منہ موڑ کر بندے سے جدا ہو جاتی ہیں اور بندے کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا خسارہ اور محرومی واضح ہو جاتی ہے اور اس کا عذاب آ موجود ہوتا ہے تو یہ چیز خردمند شخص کے لیے، دنیا میں زہد، عدم رغبت اور اس کے معاملے میں اہتمام کی موجب ہے ۔ وہ کام جو ہر چیز سے زیادہ اہتمام کے لائق ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا﴾ ’’اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لاؤ اور تقویٰ پر قائم رہو جو ایمان کے لوازم اور اس کے تقاضوں میں سے ہے۔ اور تقویٰ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو ترک کرتے ہوئے، دائمی طور پر اس کی رضا کے مطابق عمل کرنا۔ تو یہ عمل بندے کو فائدہ دیتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو اس لائق ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کی جائے اور اس کی طلب میں اپنے عزم و ارادے اور اپنی جدوجہد کو صرف کیا جائے۔ اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے، ان پر رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر مطلوب و مقصود ہے، تاکہ انھیں بے پایاں ثواب عطا کرے ۔بنابریں فرمایا: ﴿وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِكُمْ اُجُوْرَؔكُمْ وَلَا یَسْـَٔلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ﴾ ’’اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں تمھارا اجر دے گا اور تم سے تمھارا مال طلب نہیں کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا جو تمھارے لیے مشقت اور مشکل کا باعث ہو، مثلاً: وہ تم سے مال لے کر تمھیں مال کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا یا تمھیں کسی ایسے نقصان سے دو چار نہیں کرنا چاہتا جس سے تمھیں ضرر پہنچے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ اِنْ یَّسْـَٔلْكُ٘مُوْهَا فَیُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَیُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ﴾ یعنی جب وہ تم سے اس چیز کا مطالبہ کرے جس کو خرچ کرنا تم ناپسند کرتے ہو تو وہ دلوں میں چھپے ہوئے کینے اور بدنیتی کو ظاہر کر دے گا ۔
#
{38} والدليل على أنَّ الله لو طلب منكم أموالكم وأحفاكم بسؤالها أنَّكم تمتنعون منها، أنَّكم {تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقوا في سبيل الله}: على هذا الوجه الذي فيه مصلحكتم الدينيَّة والدنيويَّة، {فمنكم من يبخلُ}؛ أي: فكيف لو سألكم وطلب منكم أموالكم في غير أمرٍ تَرَوْنَه مصلحة عاجلة؟! أليس من باب أولى وأحرى امتناعكم من ذلك؟! ثم قال: {ومَن يبخلْ فإنَّما يبخلُ عن نفسِهِ}: لأنَّه حرم نفسه ثوابَ الله تعالى، وفاته خيرٌ كثيرٌ، ولن يضرَّ الله بترك الإنفاق شيئاً، فإن {الله}: هو {الغني وأنتم الفقراءُ}: تحتاجون إليه في جميع أوقاتكم لجميع أموركم، {وإن تَتَوَلَّوا}: عن الإيمان بالله وامتثال ما يأمركم به؛ {يستبدِلْ قوماً غيرَكم ثمَّ لا يكونوا أمثالَكُم}: في التولِّي، بل يطيعونَ الله ورسولَه ويحبُّون الله ورسوله؛ كما قال تعالى: {يا أيُّها الذينَ آمنوا من يَرْتَدَّ منكم عن دينِهِ فسوف يأتي الله بقوم يحبُّهم ويحبُّونَه}.
[38] اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے تمھارے اموال طلب کرے اور تمھارے تمام مال کا سوال کر کے تمھیں تنگ کرے تو تم اس کی تعمیل نہ کرو گے اور یہ کہ ﴿ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ تمھیں اس طریقے سے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے، جس میں تمھاری دینی اور دنیاوی مصلحت ہے ﴿ فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ﴾ ’’پس تم میں سے جو شخص بخل کرے۔‘‘ تب تمھارا کیا حال ہو، اگر اللہ تعالیٰ تم سے، کسی ایسے معاملے میں خرچ کرنے کے لیے، تمھارے مال کا سوال کرے، جہاں خرچ کرنے میں تمھیں کوئی فوری فائدہ نظر نہ آتا ہو، تو تمھارا اس معاملے میں خرچ کرنے سے باز رہنا زیادہ اولیٰ ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ سے بخل کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے محروم کر لیا اور اس سے خیر کثیر فوت ہو گئی۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا بے شک اللہ تعالیٰ ﴿اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْ٘فُ٘قَرَآءُ﴾ ’’ بے نیاز ہے اور تم اپنے تمام اوقات اور تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔ ﴿ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا ﴾ یعنی اگر تم ایمان باللٰہ اور ان امور پر عمل کرنے سے منہ موڑ لو جن کا اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے۔ ﴿ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَؔكُمْ١ۙ ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ﴾ ’’تو وہ تمھاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمھاری طرح کے نہیں ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی میں تمھاری مانند نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗۤ﴾ (المائدہ:5؍54) ’’اے ایمان لانے والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جاتا ہے تو عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔‘‘