آیت:
تفسیر سورۂ جاثیہ
تفسیر سورۂ جاثیہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 11 #
{حم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ (3) وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4) وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (5) تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (6) وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (7) يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (8) وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (9) مِنْ وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ وَلَا يُغْنِي عَنْهُمْ مَا كَسَبُوا شَيْئًا وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (10) هَذَا هُدًى وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ (11)}.
حٰمٓ(1) اتارنا کتاب کا اللہ کی طرف سے ہے جو بڑا زبردست نہایت حکمت والا ہے(2) بلاشبہ آسمانوں اور زمین میں البتہ نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے(3) اور تمھاری پیدائش میں اور (ان میں) جو وہ پھیلاتا ہے جانداروں سے، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں(4) اور بدل بدل کر آنے جانے میں رات اور دن کے اور (اس میں) جو نازل کیا اللہ نے آسمان سے رزق (پانی) پس زندہ کیا اس کےذریعے زمین کو بعد اس کےمردہ ہو جانے کے اور پھیرنے میں ہواؤ ں کے، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں(5) یہ آیتیں ہیں اللہ کی، تلاوت کرتے ہیں ہم ان کی آپ پر ساتھ حق کے، پس کس بات پر، اللہ کی (بات) اور اس کی آیات کے بعد، وہ ایمان لائیں گے؟(6) ہلاکت ہے واسطے ہر سخت جھوٹے گناہ گار کے(7) سنتا ہے وہ آیتیں اللہ کی جو تلاوت کی جاتی ہیں اس پر، پھر وہ اَڑتا ہے تکبر کرتا ہوا گویا کہ نہیں سنا اس نے انھیں پس خوش خبری دے دیجیے اسے ساتھ عذاب درد ناک کے(8) اور جب جانا اس نے ہماری آیتوں سے کچھ تو بنا لیا اس نے اس کو مذاق، یہی لوگ ہیں ان کے لیے ہے عذاب رسوا کن(9) ان کے آگے جہنم ہے اور نہیں کام آئے گا ان کے(وہ)جو کمایا انھوں نے کچھ بھی اور نہ (وہ)جن کو بنایا انھوں نے، سوائے اللہ کے، کارساز اور ان کے لیے عذاب ہے بہت بڑا (10) یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ساتھ آیتوں کے اپنے رب کی، ان کے لیے عذاب ہے عذاب نہایت درد ناک (11)
#
{1 ـ 2} يخبرُ تعالى خبراً يتضمَّن الأمرَ بتعظيم القرآن والاعتناء به؛ أنَّه {تنْزيلٌ من اللهِ}: المألوه المعبود؛ لما اتَّصف به من صفاتِ الكمال، وانفردَ به من النعم، الذي له العزَّة الكاملة والحكمة التَّامَّة.
[1، 2] اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ایسی خبر دیتا ہے جو قرآن کی تعظیم اور اس کے اہتمام کو متضمن ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ كتاب ﴿تَنْزِیْلُ﴾ ’’نازل کی گئی ہے۔‘‘﴿مِنَ اللّٰهِ﴾ ’’اللہ کی طرف سے ۔‘‘ جو معبود ہے، کیونکہ وہ صفات کمال سے متصف ہے۔ صرف وہی ہے جو نعمتیں عطا کرتا ہے جو غلبۂ کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔
#
{3 ـ 5} ثم أيَّد ذلك بما ذكره من الآيات الأفقيَّة والنفسيَّة؛ من خلق السماوات والأرض، وما بثَّ فيهما من الدوابِّ، وما أودعَ فيهما من المنافع، وما أنزل اللهُ من الماءِ الذي يحيي به اللهُ البلاد والعباد؛ فهذه كلُّها آياتٌ بيناتٌ وأدلة واضحاتٌ على صدقِ هذا القرآن العظيم وصحَّة ما اشتمل عليه من الحكم والأحكام، ودالاَّت أيضاً على ما لله تعالى من الكمال، وعلى البعث والنُّشور.
[5-3] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیات افقیہ و نفسیہ کا ذکر کر کے اس کی تائید فرمائی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر فرمایا نیز زمین کے اندر جو چوپائے پھیلائے، آسمان اور زمین میں جو منفعتیں ودیعت کیں، آسمان سے جو پانی نازل کیا، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ زمین اور اپنے بندوں کو زندگی بخشتا ہے، تائید کے لیے ان کا ذکر فرمایا۔ یہ سب اس قرآن عظیم کی صداقت اور ان حکمتوں اور احکام کی صحت کی کھلی نشانیاں اور ان پر واضح دلائل ہیں۔ نیز یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کمال کا مالک ہے نیز یہ قیامت اور حشرونشر پر دلالت کرتی ہیں۔
#
{6 ـ 10} ثم قسَّم تعالى الناسَ بالنسبة إلى الانتفاع بآياتِهِ وعدمِهِ إلى قسمين: قسمٌ يستدلُّون بها، ويتفكَّرون بها، وينتفعون فيرتفعون، وهم المؤمنون باللهِ وملائكتِهِ وكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر إيماناً تامًّا، وصل بهم إلى درجة اليقين، فزكَّى منهم العقول، وازدادتْ به معارفُهم وألبابُهم وعلومُهم. وقسمٌ يسمعُ آيات اللة سماعاً تقومُ به الحجةُ عليه، ثم يعرِض عنها ويستكبرُ، كأنه ما سمعها؛ لأنها لم تزكِّ قلبه ولا طهَّرته، بل بسبب استكباره عنها؛ ازداد طغيانُهُ، وأنه إذا علم من آيات الله شيئاً؛ اتَّخذها هزواً، فتوعَّده الله تعالى بالويل، فقال: {ويلٌ لكلِّ أفَّاكٍ أثيم}؛ أي: كذابٍ في مقاله، أثيمٍ في فعاله، وأخبر أن له عذاباً أليماً، وأن {من ورائهم جهنَّم}: تكفي في عقوبتهم البليغة، وأنه {لا يُغني عنهم ما كَسَبوا}: من الأموال {شيئاً ولا ما اتَّخذوا من دون اللهِ أولياءَ}: يستنصرون بهم، فخذلوهم أحوجَ ما كانوا إليهم لو نفعوا.
[10-6] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آیات سے انتفاع اور عدم انتفاع کی نسبت سے لوگوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے: پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان آیات پر غوروفکر کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں جس نے ان کو درجۂ یقین پر پہنچا دیا ہے۔ اس ایمان نے ان کی عقل کو پاک کر دیا ہے اور یوں ان کے معارف، ان کی خرد اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں، جس سے ان پر حجت قائم ہو جاتی ہے، پھر وہ تکبر و استکبار کرتے ہیں اور ان آیات سے منہ پھیر لیتے ہیں، گویا کہ انھوں نے ان آیات کو سنا ہی نہیں کیونکہ ان آیات نے ان کے قلب کا تزکیہ کیا ہے نہ ان کو پاک کیا ہے بلکہ ان آیات کے بارے میں ان کے تکبر کے باعث ان کی سرکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب انھیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں کچھ علم ہوتا ہے تو ان کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاکت کی وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿وَیْلٌ لِّ٘كُ٘لِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ﴾ ’’ہر جھوٹے، گناہ گار کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘ یعنی وہ جو اپنے قول میں سخت جھوٹا اور اپنے فعل میں سخت گناہ گار ہے۔ نیز آگاہ فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے اور یہ کہ ﴿مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ جَهَنَّمُ ﴾ ’’ان کے پیچھے جہنم ہے۔‘‘ جو ان کو سخت عذاب دینے کے لیے کافی ہے۔ ﴿وَلَا یُغْنِیْ عَنْهُمْ مَّا كَسَبُوْا شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی جو مال وہ کماتے ہیں ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ ﴿وَّلَا مَا اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ ﴾ اور نہ وہ کام آئیں گے۔ اللہ کے سوا جن سے یہ لوگ مدد طلب کرتے ہیں، پس یہ لوگ ان کو چھوڑ دیں گے اگر وہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہوتے تو وہ خود سب سے زیادہ اس کے محتاج تھے۔
#
{11} فلمَّا بيَّن آياته القرآنيَّة والعيانيَّة، وأن الناس فيها على قسمين؛ أخبر أن القرآن المشتملَ على هذه المطالب العالية؛ أنَّه هدىً، فقال: {هذا هدىً}: وهذا وصفٌ عامٌّ لجميع القرآن؛ فإنَّه يهدي إلى معرفة الله تعالى بصفاته المقدَّسة وأفعاله الحميدة، ويهدي إلى معرفة رسله وأوليائهم وأعدائهم وأوصافهم، ويهدي إلى الأعمال الصالحة، ويدعو إليها، ويبيِّن الأعمال السَّيئة وينهى عنها، ويهدي إلى بيان الجزاء على الأعمال، ويبيِّن الجزاء الدُّنيويَّ والأخرويَّ؛ فالمهتدون اهتَدَوا به فأفلحوا وسعدوا. {والذين كَفَروا بآيات ربِّهم}: الواضحة القاطعة، التي لا يكفرُ بها إلاَّ من اشتدَّ ظلمُه، وتضاعف طغيانه، {لهم عذابٌ من رجزٍ أليم}.
[11] جب اللہ تعالیٰ نے اپنی قرآنی آیات اور ظاہری نشانیوں کو واضح کر دیا اور لوگوں کے ان کے متعلق دو قسموں پر ہونےکو عیاں کر دیا تو قرآن کے باعثِ ہدایت ہونے کے متعلق آگاہ فرمایا جوکہ ان عالی مطالب پر مشتمل ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ ھٰذَا ھُدًی﴾ ’’یہ قرآن ہدایت ہے۔‘‘ یہ وصف پورے قرآن کے لیے عام ہے۔ قرآن نیک اعمال کی معرفت عطا کرتا ہے اور ان کی طرف دعوت دیتا ہے، برے اعمال کو بیان کرتا ہے اور ان سے روکتا ہے۔ قرآن اعمال کی جزا و سزا کو بیان کرتا ہے، جزائے دنیوی اور جزائے اخروی کو واضح کرتا ہے۔ پس ہدایت کے متلاشی لوگوں نے قرآن کے ذریعے سے ہدایت پائی اور یوں وہ فلاح اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی واضح اور قطعی آیات کا انکار کیا جن کا انکار صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو سخت ظالم ہوں اور ان کی سرکشی کئی گنا ہو ﴿لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّؔجْزٍ اَلِیْمٌ ﴾ ان کے لیے سخت قسم کا دردناک عذاب ہے۔
آیت: 12 - 13 #
{اللَّهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (12) وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (13)}
اللہ وہ ہے جس نے مسخر کر دیا تمھارے لیے سمندر کو تاکہ چلیں کشتیاں اس میں اس کے حکم سے اور تاکہ تلاش کرو تم اس کا فضل اور تاکہ تم شکر کرو (12) اور مسخر کر دیا اس نے تمھارے لیے جو آسمانوں اور جو زمین میں ہے سب اپنی طرف سے، بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں (13)
#
{12} يخبر تعالى عن فضله على عباده وإحسانه إليهم بتسخير البحر لسير المراكب والسُّفن بأمره وتيسيره ، {لتَبْتَغوا من فضله}: بأنواع التجارات والمكاسب، {ولعلَّكم تشكرون}: الله تعالى؛ فإنكم إذا شكرتُموه؛ زادكم من نعمِهِ وأثابكم على شكركم أجراً جزيلاً.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے آسانی پیدا کر کے جہازوں اور کشتیوں کو چلانے کے لیے سمندر کو مسخر کیا۔ ﴿وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘﴾ تاکہ تم مختلف قسم کی تجارتوں اور مکاسب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر سکو۔ ﴿وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور جب تم اس کا شکر ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اور زیادہ نعمتیں عطا کرے گا اور تمھاری شکر گزاری پر بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔
#
{13} {وسخَّر لكم ما في السمواتِ وما في الأرض جميعاً منه}؛ أي: من فضله وإحسانه، وهذا شامل لأجرام السماواتِ والأرض، ولما أودعَ الله فيهما من الشمس والقمر والكواكب الثَّوابت والسيَّارات وأنواع الحيوانات وأصناف الأشجار والثَّمرات وأجناس المعادن وغير ذلك ممَّا هو معدٌّ لمصالح بني آدم ومصالح ما هو من ضروراتِهِ؛ فهذا يوجب عليهم أن يبذلوا غايةَ جهدِهِم في شكر نعمته، وأن تغلغلَ أفكارهم في تدبُّر آياته وحكمِهِ، ولهذا قال: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يتفكَّرون}. وجملة ذلك أنَّ خلقها وتدبيرها وتسخيرها دالٌّ على نفوذ مشيئة الله وكمال قدرتِهِ. وما فيها من الإحكام والإتقان وبديع الصنعة وحسن الخِلْقة دالٌّ على كمال حكمته وعلمه. وما فيها من السعة والعظمة والكثرة دالٌّ على سعة ملكه وسلطانه. وما فيها من التخصيصات والأشياء المتضادَّات دليلٌ على أنه الفعَّال لما يريد. وما فيها من المنافع والمصالح الدينيَّة والدنيويَّة دليلٌ على سعة رحمته وشمول فضلِهِ وإحسانِهِ وبديع لطفهِ وبرِّه، وكلُّ ذلك دالٌّ على أنّه وحدَه المألوه المعبودُ الذي لا تنبغي العبادة والذُّلُّ والمحبَّة إلا له، وأنَّ رسله صادقون فيما جاؤوا به. فهذه أدلةٌ عقليةٌ واضحةٌ لا تقبل ريباً ولا شكًّا.
[13] ﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّؔنْهُ﴾ ’’اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو تمھارے لیے مسخر کردیا۔‘‘ یعنی اپنے فضل و احسان سے۔ یہ آیت کریمہ آسمانوں اور زمین کے تمام اجسام اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ودیعت کی ہے ، مثلاً: سورج، چاند، کواکب، ستارے، سیارے، حیوانات کی مختلف انواع، درختوں اور پھلوں کی مختلف اصناف ، معدنیات کی اقسام اور دیگر چیزیں جن کے اندر بنی آدم کے مصالح اور ان کی ضروریات ہیں۔ یہ چیز اس بات کو واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں پوری کوشش کریں اور اپنے فکر کو اس کی آیات اور حکمتوں میں تدبیر کرنے میں صرف کریں۔ بنابریں فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَؔكَّـرُوْنَ۠ ﴾ ’’بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ان آیات میں سے اس کائنات کی تخلیق، اس کی تدبیر اور اس کی تسخیر ہے، جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نفوذ اور اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتی ہے۔ اس کائنات میں پائی جانے والی مضبوطی، مہارت، انوکھی صنعت اور حسن تخلیق اس کی حکمت کاملہ اور اس کے علم کی دلیل ہے۔ اس کائنات کی وسعتیں اور اس کی عظمت و کثرت، اللہ تعالیٰ کے وسیع اقتدار و سلطنت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کائنات میں تخصیصات اور متضاد اشیاء کا وجود، اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کائنات میں موجود دینی اور دنیاوی منافع و مصالح اس کی بے پایاں رحمت، لامحدود فضل و احسان اور اس کے گوناگوں لطف و کرم پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں سے ہر چیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ یکتا ہے اور وہی ایک معبود ہے جس کے سوا کوئی اس چیز کا مستحق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، اس سے محبت کی جائے اور اس کے سامنے تذلل کا اظہار کیا جائے۔ نیز ہر چیز اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو کچھ لے کر آئے ہیں، سب صداقت پر مبنی ہے ۔یہ واضح عقلی دلائل ہیں جو کسی قسم کے شک و ریب کا شائبہ قبول نہیں کرتے۔
آیت: 14 - 15 #
{قُلْ لِلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (14) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (15)}.
کہہ دیجیے! ان لوگوں سے جو ایمان لائے، درگزر کریں وہ ان لوگوں سے جو نہیں امید رکھتے اللہ کے دنوں کی (جن میں وہ گرفت کرتا ہے) تاکہ بدلہ دے وہ کچھ لوگوں کو ساتھ اس کے جو تھے وہ کماتے (14) جس نے عمل کیا نیک تو (اس کا فائدہ) اسی کے لیے ہے اور جس نے کیا برا کام تو اسی پر (اس کا وبال) ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (15)
#
{14 ـ 15} يأمر تعالى عبادَه المؤمنين بحسن الخلق والصَّبر على أذيَّة المشركين به الذين {لا يرجون أيام الله}؛ أي: لا يرجون ثوابَه ولا يخافون وقائعَه في العاصين؛ فإنَّه تعالى سيجزي كلَّ قوم {بما كانوا يكسبون}: فأنتم يا معشر المؤمنين يجزيكم على إيمانكم وصفحكم وصبركم ثواباً جزيلاً، وهم إن استمرُّوا على تكذيبهم؛ فلا يحلُّ بكم ما حلَّ بهم من العذاب الشديد والخزي، ولهذا قال: {مَن عَمِلَ صالحاً فلنفسِهِ ومَن أساءَ فعليها ثم إلى ربِّكم تُرْجَعون}.
[14، 15] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ حسن اخلاق سے کام لیں اور ان مشرکین کی ایذا رسانی پر صبر کریں جو ایام الٰہی کی امید نہیں رکھتے یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے امیدوار ہیں نہ گناہ گاروں کے بارے میں سنت الٰہی سے خائف ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو اس کی کمائی کا بدلہ دے گا۔ پس اے مومنوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان، تمھارے درگزر اور تمھارے صبر کی جزا کے طور پر تمھیں ثواب جزیل سے بہرہ مند کرے گا۔ اگر کفار و مشرکین اپنی تکذیب پر جمے رہے تو تم پر رسوا کن وہ سخت عذاب نازل نہیں ہو گا جو ان پر نازل ہوگا۔ بنابریں فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا١ٞ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’جو کوئی نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو کوئی برا عمل کرتا ہے تو وہی اس کا خمیازہ بھگتے گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 16 - 17 #
ثم قال تعالى: {وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (16) وَآتَيْنَاهُمْ بَيِّنَاتٍ مِنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (17)}.
اور البتہ تحقیق دی ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت اور رزق دیا ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے اور فضیلت دی ہم نے ان کو اوپر جہانوں کے (16) اور دیں ہم نے ان کو واضح دلیلیں دین کی بابت، پس نہیں اختلاف کیا انھوں نے مگر بعد اس کے کہ آ گیا ان کے پاس علم، محض ضد سے آپس کی، بلاشبہ آپ کا رب فیصلہ کرے گا ان کے درمیان دن قیامت کے، ان چیزوں میں کہ تھے وہ ان میں اختلاف کرتے (17)
#
{16} أي: ولقد أنعمنا على بني إسرائيل نعماً لم تحصُل لغيرهم من الناس، وآتيناهم {الكتاب}؛ أي: التوراة والإنجيل والحكم بين الناس والنبوَّة التي امتازوا بها، وصارت النبوَّة في ذرِّيَّة إبراهيم عليه السلام، أكثرهم من بني إسرائيل، {ورزَقْناهم من الطيِّبات}: من المآكل والمشارب والملابس وإنزال المنِّ والسلوى عليهم، {وفضَّلناهم على العالمين}؛ أي: على الخلق بهذه النعم. ويخرج من هذا العموم اللفظي هذه الأمة؛ فإنهم خير أمة أخرجت للناس، والسياق يدلُّ على أن المراد غير هذه الأمة؛ فإن الله يقصُّ علينا ما امتنَّ به على بني إسرائيل وميَّزهم على غيرهم. وأيضاً؛ فإن الفضائل التي فاق بها بنو إسرائيل من الكتاب والحكم والنبوة وغيرها من النعوت قد حصلت كلُّها لهذه الأمة، وزادت عليهم هذه الأمة فضائل كثيرة؛ فهذه الشريعة شريعة بني إسرائيل جزء منها؛ فإنَّ هذا الكتاب مهيمنٌ على سائر الكتب السابقة، ومحمدٌ - صلى الله عليه وسلم - مصدِّق لجميع المرسلين.
[16] ہم نے بنی اسرائیل کو ایسی ایسی نعمتیں عطا کیں جو دوسروں کو حاصل نہ تھیں۔ ہم نے انھیں ﴿الْكِتٰبَ﴾یعنی تورات و انجیل سے سرفراز کیا۔ اور ﴿الْحُکْمُ﴾ ہم نے انھیں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی قوت اور ﴿النُّبُوَّةَ﴾نبوت عطا کی۔ نبوت کی وجہ سے وہ دنیا میں ممتاز ہوئے۔ ابراہیمu کی اولاد میں سب سے زیادہ بنی اسرائیل کے گھرانے میں نبوت رہی۔﴿وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰؔتِ ﴾ اور ہم نے انھیں ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں سے پاکیزہ چیزوں سے نوازا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا۔ ﴿وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ﴾ اور ان نعمتوں کے ذریعے سے ہم نے انھیں تمام خلائق پر فضیلت دی۔ اس عموم لفظی سے امت محمدیہ خارج ہے کیونکہ امت محمدیہ بہترین امت ہے جو لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ آیت کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس سے امت مسلمہ کے سوا دیگر امتوں پر فضیلت مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل پر احسان کیا اور انھیں دیگر قوموں سے ممیز کیا۔ نیز وہ فضائل جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو فوقیت حاصل ہے ، مثلاً: کتاب کا عطا کیا جانا، حکومت اور نبوت وغیرہ جیسے دیگر اوصاف تو وہ اس امت کو بھی حاصل ہیں ۔اس کے علاوہ اس امت کے بہت سے فضائل ان پر مستزاد ہیں، پھر بنی اسرائیل کی شریعت امت محمدیہ کی شریعت کا ایک جز ہے۔ یہ کتاب عظیم، گزشتہ تمام کتابوں پر نگہبان ہے اور حضرت محمد مصطفیe گزشتہ تمام رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔
#
{17} {وآتيناهم}؛ أي: آتينا بني إسرائيل {بيناتٍ}؛ أي: دلالاتٍ تبيِّن الحقَّ من الباطل {من الأمر}: القدريّ الذي أوصله الله إليهم، وتلك الآيات هي المعجزاتُ التي رأوها على يد موسى عليه السلام؛ فهذه النعم التي أنعم الله بها على بني إسرائيل تقتضي الحالُ أن يقوموا بها على أكمل الوجوه، وأنْ يجتمعوا على الحقِّ الذي بيَّنه الله لهم، ولكن انعكسَ الأمر، فعاملوها بعكس ما يجبُ، وافترقوا فيما أمروا بالاجتماع به، ولهذا قال: {فما اختلفوا إلاَّ من بعدِ ما جاءهم العلمُ}؛ أي: الموجب لعدم الاختلاف، وإنَّما حملهم على الاختلاف، البغيُ من بعضهم على بعض والظُّلم. {إنَّ ربَّك يقضي بينهم يوم القيامةِ فيما كانوا فيه يختلفون}: فيميِّز المحقَّ من المبطل، والذي حمله على الاختلاف الهوى أو غيره.
[17] ﴿وَاٰتَیْنٰهُمْ ﴾ اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کیے﴿بَیِّنٰتٍ ﴾ ’’دلائل۔‘‘ جو حق کو باطل سے واضح کرتے ہیں۔ ﴿مِّنَ الْاَمْرِ ﴾ یعنی امر قدری سے جو اللہ تعالیٰ نے ان تک پہنچایا ہے۔ یہ آیات وہ معجزات ہیں جن کا انھوں نے موسیٰu کے ذریعے سے مشاہدہ کیا، یہ ان سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ بہترین طریقے سے ان کو قائم رکھیں، حق پر مجتمع رہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے واضح کیا ہے۔ مگر انہوں نے اس کے برعکس حق کے ساتھ اس سے متضاد معاملہ کیا جو ان پر واجب تھا۔ پس جس معاملے میں ان کو مجتمع رہنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں انھوں نے اختلاف کیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿فَمَا اخْتَلَفُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾ ’’پس انھوں نے جو اختلاف کیا تو علم آجانے کے بعد (آپس کی ضد سے) کیا۔‘‘ یعنی وہ علم جو عدم اختلاف کا موجب تھا صرف ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی نے انھیں اس اختلاف پر آمادہ کیا۔ ﴿اِنَّ رَبَّكَ یَقْ٘ضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’پس انھوں نے جو اختلاف کیا تو علم آجانے کے بعد (آپس کی ضد سے) کیا۔‘‘ پس وہ حق شعاروں کو ان لوگوں سے علیحدہ کر دے گا جنھوں نے باطل کو اختیار کیا اور جن کو خواہش نفس نے اختلاف پر آمادہ کیا۔
آیت: 18 - 19 #
{ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (18) إِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (19)}.
پھر کر دیا ہم نے آپ کو اوپر ایک طریقے کے دین کے، پس آپ پیروی کریں اس کی اور نہ پیروی کریں ان لوگوں کی خواہشات کی جو نہیں علم رکھتے (18) بلاشبہ وہ ہرگز نہیں کام آئیں گے آپ کے اللہ سے کچھ بھی، اور بے شک ظالم لوگ، بعض ان کے دوست ہیں بعض کے، اور اللہ دوست ہے متقیوں کا(19)
#
{18} أي: ثمَّ شرعنا لك شريعةً كاملةً تدعو إلى كلِّ خير، وتنهى عن كل شرٍّ من أمرنا الشرعيِّ، {فاتَّبِعْها}؛ فإنَّ في اتِّباعها السعادة الأبديَّة والصلاح والفلاح، {ولا تتَّبِعْ أهواء الذين لا يعلمونَ}؛ أي: الذين تكون أهويتُهم غيرَ تابعةٍ للعلم ولا ماشيةٍ خلفه، وهم كلُّ من خالف شريعةَ الرسول - صلى الله عليه وسلم - هواه وإرادتُه؛ فإنَّه من أهواء الذين لا يعلمون.
[18] یعنی ہم نے آپ کے لیے ایک شریعت کامل کو مشروع کیا جو ہمارے حکم شرعی سے، ہر بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور ہر برائی سے روکتی ہے۔ ﴿فَاتَّبِعْهَا﴾ ’’پس اس کی اتباع کرو۔‘‘ کیونکہ اس کی اتباع میں ابدی سعادت، صلاح اور فلاح ہے۔ ﴿وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور ان لو گوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جن کی خواہشات علم کے تابع ہیں نہ علم کی پیروی کرتی ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی خواہش اور ارادہ شریعتِ رسولe کے خلاف ہے تو ان کی خواہشات ان لوگوں کی خواہشات کے زمرے میں آتی ہیں جو علم سے بے بہرہ ہیں۔
#
{19} {إنَّهم لن يُغنوا عنك من اللهِ شيئاً}؛ أي: لا ينفعونك عند الله، فيحصِّلوا لك الخير، ويدفعوا عنك الشرَّ إنِ اتَّبعتهم على أهوائهم، ولا تصلُحُ أن توافِقَهم وتوالِيَهم؛ فإنَّك وإياهم متباينون، وبعضهم وليٌّ لبعض. {والله وليُّ المتَّقين}: يخرجهم من الظلمات إلى النور بسبب تقواهم وعملهم بطاعته.
[19] ﴿اِنَّهُمْ لَ٘نْ یُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی اگر تو ان کی خواہشات نفس کی پیروی کرے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے کہ تجھے کوئی بھلائی حاصل ہو یا تجھ سے کوئی برائی دور ہو۔ تیرے لیے درست نہیں کہ تو ان کی موافقت کرے اور ان سے موالات رکھے، کیونکہ آپ اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ﴿ وَاللّٰهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ متقیوں کا دوست ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ متقین کو ان کے تقویٰ اور نیک عمل کے سبب سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔
آیت: 20 #
{هَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (20)}
یہ (قرآن، اس میں) بصیرت افروز دلائل ہیں لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں (20)
#
{20} أي: {هذا} القرآن الكريم والذِّكْر الحكيم {بصائرُ للناس}؛ أي: يحصُلُ به التبصرةُ في جميع الأمور للناس، فيحصُلُ به الانتفاع للمؤمنين، {و} الهدى والرحمةُ {لقوم يوقنونَ}: فيهتدون به إلى الصراط المستقيم في أصول الدِّين وفروعه، ويحصُلُ به الخير والسرور والسعادة في الدُّنيا والآخرة، وهي الرحمة، فتزكو به نفوسُهم، وتزدادُ به عقولُهم، ويزيدُ به إيمانُهم ويقينُهم، وتقوم به الحجَّةُ على من أصرَّ وعاند.
[20] ﴿هٰؔذَا ﴾ یعنی یہ قرآن کریم اور ذکر حکیم ﴿بَصَآىِٕرُ لِلنَّاسِ ﴾ ’’بصیرتیں ہیں لوگوں کے لیے۔‘‘ یعنی اس کے ذریعے سے لوگوں کو تمام امور میں بصیرت حاصل ہوتی ہے اور اہل ایمان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے﴿ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ﴾ ’’یقین رکھنے والوں کے لیے۔‘‘ پس وہ اس کے ذریعے سے دین کے اصول و فروع میں صراط مستقیم کی طرف راہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں بھلائی، مسرت اور سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور یہ رحمت ہے۔پس اس سے ان کے نفس پاک ہوتے ہیں، اس سے ان کی عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے ان کا ایمان و ایقان بڑھتا ہے اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے، جو گمراہی پر اصرار کرتا اور عناد سے کام لیتا ہے۔
آیت: 21 #
{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (21)}.
کیا گمان کر لیا ہے ان لوگوں نے جنھوں نے ارتکاب کیا برائیوں کا، یہ کہ کر دیں گے ہم ان کو مانند ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، برابر ہے جینا ان کا اور مرنا ان کا، برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں (21)
#
{21} أي: أم حسب المسيئون المكثِرون من الذُّنوب المقصِّرون في حقوق ربِّهم، {أن نجعَلَهم كالذين آمنوا وعملوا الصالحات}: بأن قاموا بحقوق ربِّهم، واجتنبوا مساخِطَه، ولم يزالوا مؤثِرين رضاه على هوى أنفسهم؛ أي: أحسبوا أن يكونوا {سواءً} في الدُّنيا والآخرة؟ ساء ما ظنُّوا وحسبوا، وساء ما حكموا به؛ فإنَّه حكمٌ يخالف حكمة أحكم الحاكمين وخير العادلين، ويناقِضُ العقول السليمة والفطر المستقيمة، ويضادُّ ما نزلت به الكتب وأخبرت به الرُّسل، بل الحكم الواقع القطعيُّ أنَّ المؤمنين العاملين الصالحات، لهم النَّصر والفلاح والسعادة والثواب في العاجل والآجل؛ كلٌّ على قدر إحسانه، وأنَّ المسيئين لهم الغضبُ والإهانةُ والعذاب والشقاء في الدُّنيا والآخرة.
[21] یعنی کیا کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرنے والے گناہ گار لوگ اور اپنے رب کے حقوق میں کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں ﴿اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’کہ ہم ان کو ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنے رب کے حقوق قائم کیے، اسے ناراض کرنے سے اجتناب کیا اور ہمیشہ اس کی رضا کو اپنی خواہشات نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ﴿سَوَآءًؔ﴾ وہ دنیا و آخرت میں مساوی ہوں گے؟ ان کا اندازہ اور ان کا یہ گمان بہت برا ہے۔ اور بہت برا ہے وہ فیصلہ جو انھوں نے کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو احکم الحاکمین، سب سے بڑھ کر عادل ہستی کی حکمت کے خلاف، عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے متناقض اور ان اصولوں کے متضاد ہے جنھیں لے کر کتابیں نازل ہوئیں اور جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے آگاہ کیا۔ فی الواقع قطعی فیصلہ یہ ہے کہ اہل ایمان جو نیک عمل کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کی نیکی کے مطابق نصرت، فلاح، سعادت اور دنیا و آخرت کا ثواب ہے اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ، رسوائی، عذاب اور بدبختی ہے۔
آیت: 22 #
{وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (22)}
اور پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے اور تاکہ بدلہ دیا جائے ہر نفس کو ساتھ اس کے جو اس نے کمایا اور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے (22)
#
{22} أي: خلق الله السماواتِ والأرضَ بالحكمة، ولِيُعْبَدَ وحدَه لا شريك له، ثم يجازي بعد ذلك من أمرهم بعبادته، وأنعم عليهم بالنِّعم الظاهرة والباطنة؛ هل شكروا الله تعالى وقاموا بالمأمور؟ أم كفروا فاستحقُّوا جزاء الكَفور؟
[22] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ تخلیق فرمایا تاکہ اسی اکیلے کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا محاسبہ کرے گا جن کو اس نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور انھیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں یا کفر کا رویہ اختیار کر کے کفار کی سزا کے مستحق بنتے ہیں۔
آیت: 23 - 26 #
{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (23) وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (24) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (25) قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (26)}.
کیا پس دیکھا آپ نے اس کو جس نے بنا لیا اپنا معبود اپنی خواہش کو اور گمراہ کر دیا اس کو اللہ نے علم پر اور مہر لگا دی اس کے کان اور اس کے دل پر اور کر دیا اس کی آنکھ پر پردہ؟ پس کون ہے جو ہدایت دے اسے بعد اللہ کے؟ کیا پس نہیں تم نصیحت پکڑتے (23) اور کہا انھوں نے: نہیں ہے یہ (زندگی) سوائے ہماری زندگانی دنیا کے، ہم مرتے اور زندہ ہوتے ہیں اور نہیں ہلاک کرتا ہمیں مگر زمانہ ہی، اور نہیں ہے ان کے لیے اس کا کوئی علم، نہیں ہیں وہ مگر گمان کرتے (24) اور جب تلاوت کی جاتی ہیں ان پر ہماری آیتیں اس حال میں کہ وہ واضح ہیں تو نہیں ہوتی دلیل ان کی مگر یہی کہ انھوں نے کہا، لے آؤ ہمارے باپ دادوں کو اگر ہو تم سچے (25) کہہ دیجیے! اللہ ہی زندہ کرتا ہے تم کو ، پھرمارتا ہے تم کو ، پھر وہی جمع کرے گا تمھیں روز قیامت میں، کہ نہیں ہے کوئی شک اس میں، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (26)
#
{23} يقول تعالى: {أفرأيتَ}: الرجل الضالَّ الذي، {اتَّخذ إلهه هواهُ}: فما هَوِيَهُ سلكه؛ سواء كان يُرْضي الله أم يسخطه، {وأضلَّه الله على علم}: من الله [تعالى] أنَّه لا تَليق به الهداية. ولا يزكو عليها، {وخَتَمَ على سمعِهِ}: فلا يسمع ما ينفعُه، {وقلبِهِ}: فلا يعي الخير، {وجَعَلَ على بصرِهِ غشاوةً}: تمنعُه من نظر الحقِّ. {فمن يهديه من بعد الله}؛ أي: لا أحد يهديه، وقد سدَّ الله عليه أبوابَ الهداية، وفتح له أبواب الغِواية، وما ظلمه الله، ولكن هو الذي ظلم نفسه، وتسبَّب لمنع رحمة الله عليه. {أفلا تذكَّرون}: ما ينفعكم فتسلكونه وما يضرُّكم فتجتنبونه؟!
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَفَرَءَیْتَ ﴾ کیا آپ نے اس گمراہ شخص کو دیکھا ﴿مَنِ اتَّؔخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ﴾ ’’جس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا‘‘ جس راستے پر چاہا، چلتا رہا، خواہ اس راستے پر چلنے کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے یا اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ ﴿وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ اللہ تعالیٰ نے یہ جانتے ہوئے اسے گمراہی میں پھینک دیا کہ وہ ہدایت کے لائق نہیں اور نہ ہدایت کے ذریعے سے وہ پاک ہی ہو سکتا ہے۔ ﴿وَّخَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ ﴾ ’’اور اس کے کانوں پر مہر لگادی۔‘‘ اس لیے وہ کوئی ایسی چیز نہیں سن سکتا جو اس کے لیے فائدہ مند ہو ﴿وَقَلْبِهٖ﴾ ’’اور اس کے دل پر۔‘‘ پس وہ بھلائی کو یاد نہیں رکھ سکتا ﴿وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ﴾ ’’اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔‘‘ جو اسے حق دیکھنے سے روکتا ہے ﴿فَ٘مَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ﴾ ’’پس کون ہے جو اس کو اللہ کے بعد ہدایت دے؟‘‘ اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دیے اور گمراہی کے دروازے کھول دیے، کوئی شخص اس کو ہدایت سے بہرہ مند نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ظلم نہیں کیا بلکہ اس نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا، اس نے ایسے اسباب اختیار کیے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مانع تھے۔ ﴿اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’کیا تم (اس چیز سے) نصیحت نہیں پکڑتے۔‘‘ جو تمھیں فائدہ دے اور تم اسے اختیار کرتے اور جو چیز تمھیں نقصان دے تم اس سے اجتناب کرتے۔
#
{24} {وقالوا}؛ أي: منكرو البعث: {ما هي إلاَّ حياتُنا الدُّنيا نموت ونحيا وما يُهْلِكُنا إلاَّ الدَّهر}: إن هي إلاَّ عاداتٌ وجريٌ على رسوم الليل والنهار، يموت أناس ويحيا أناس، وما مات؛ فليس براجع إلى الله ولا مجازيه بعمله. وقولهم هذا صادرٌ عن غير علم، {إنْ هم إلاَّ يظنُّون}: فأنكروا المعاد، وكذبوا الرسل الصادقين من غير دليل دلَّهم ولا برهان، إنْ هي إلاَّ ظنون واستبعاداتٌ خالية عن الحقيقة.
[24] ﴿وَقَالُوْا ﴾ یعنی منکرین آخرت کہتے ہیں: ﴿مَا هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ ﴾ یہ تو سب صرف عادات ہیں اور گردش لیل و نہار کے ساتھ جاری ہیں کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ جنم لیتے ہیں، جو کوئی مر جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر نہیں جاتا اور نہ اس کو اس کے عمل کی جزا و سزا ہی دی جائے گی۔ ان کا یہ قول بغیر کسی علم کے صادر ہوا ہے۔ ﴿اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ ﴾ پس انھوں نے معاد کا انکار کیا اور کسی دلیل و برہان کے بغیر سچے رسولوں کی تکذیب کی۔ یہ محض وہم و گمان اور ایسے استبعادات ہیں جو حقیقت سے خالی ہیں۔
#
{25} ولهذا قال تعالى: {وإذا تُتلى عليهم آياتُنا بيِّناتٍ ما كان حجَّتَهم إلاَّ أن قالوا ائتوا بآبائنا إن كنتُم صادقين}: وهذا جراءة منهم على الله؛ حيث اقترحوا هذا الاقتراح، وزعموا أنَّ صدق رسل الله متوقِّف على الإتيان بآبائهم، وإنَّهم لو جاؤوهم بكلِّ آيةٍ؛ لم يؤمنوا؛ إلاَّ إن اتَّبعتهم الرسل على ما قالوا، وهم كَذَبَةٌ فيما قالوا، وإنما قصدُهم دفع دعوة الرسل، لا بيانُ الحق.
[25] بنابریں فرمایا: ﴿وَاِذَا تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَآىِٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ کہہ دیتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباؤ اجداد کو اٹھالاؤ۔‘‘یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ مطالبہ کیا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی صداقت اس بات پر موقوف ہے کہ ان کے آباء و اجداد کو زندہ کر کے ان کے سامنے لایا جائے، انبیاء و رسل ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے آئیں وہ ہرگز نہیں مانیں گے جب تک کہ رسول ان کا وہ مطالبہ پورا نہیں کرتے جو انھوں نے پیش کیا ہے۔ وہ اپنے قول میں سخت جھوٹے ہیں ان کا مقصد بیان حق نہیں بلکہ صرف رسولوں کی دعوت کو ٹھکرانا ہے۔
#
{26} قال تعالى: {قلِ اللهُ يحييكم ثم يميتُكم ثم يجمعُكم إلى يوم القيامةِ لا ريبَ فيه ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمون}: وإلاَّ؛ فلو وصل العلم باليوم الآخر إلى قلوبهم؛ لعملوا له أعمالاً وتهيؤوا له.
[26] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُ٘لِ اللّٰهُ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یَجْمَعُكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ ہی تم کو زندہ کرتا، پھر تم کو مارتا ہے ، پھر تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اگر یوم آخرت کا علم ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچا ہوتا تو وہ ضرور اس کے لیے تیاری کرتے اور نیک عمل کرتے۔
آیت: 27 - 37 #
{وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ (27) وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (28) هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (29) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (30) وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنْتُمْ قَوْمًا مُجْرِمِينَ (31) وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ (32) وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (33) وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (34) ذَلِكُمْ بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (35) فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (36) وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (37)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور جس دن قائم ہو گی قیامت، اس دن خسارے میں رہیں گے باطل پرست (27) اور دیکھیں گے آپ ہر اُمت کو گھٹنوں کے بل (گری ہوئی) ہر اُمت بلائی جائے گی اپنے نامۂ اعمال کی طرف، آج تم بدلہ دیے جاؤ گے (اس کا) جو تھے تم عمل کرتے (28) یہ ہماری کتاب ہے، یہ بولتی ہے تمھاری بابت سچ سچ، بلاشبہ ہم لکھواتے تھے جو تھے تم عمل کرتے(29) پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، پس داخل کر ے گا ان کو رب ان کا اپنی رحمت میں، یہی ہے کامیابی واضح (30) اور لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا) کیا پس نہیں تھیں آیتیں میری تلاوت کی جاتیں تم پر، پس تم نے تکبر کیا اور تھے تم لوگ مجرم (31) اور جب کہا گیا (تم سے) کہ بلاشبہ وعدہ اللہ کا حق ہے، اور قیامت نہیں ہے کوئی شک اس (کے آنے) میں، تو تم نے کہا:نہیں جانتے ہم کیا ہے قیامت؟ نہیں خیال کرتے ہم مگر ایک گمان ہی اور نہیں ہم (اس کا) یقین کرنے والے (32)اور ظاہر ہو جائیں گی ان کے سامنے برائیاں ان چیزوں کی جو انھوں نے کیں اور گھیر لے گا ان کو وہ (عذاب) کہ تھے وہ ساتھ اس کے ٹھٹھا کرتے (33) اور کہا جائےگا: آج ہم بھول جائیں گے تمھیں جیسے بھول گئے تھے تم ملاقات کو اپنے اس دن کی اور ٹھکانا تمھارا آگ ہے اور نہیں ہے تمھارے لیے کوئی مدد گار (34) یہ بسبب اس کے کہ بے شک تم نے بنایا اللہ کی آیتوں کو ہنسی مذاق، اور دھوکے میں ڈال دیا تم کو زندگانی دنیا نے، پس آج نہ نکالے جائیں گے وہ اس (آگ) سے اور نہ ان سے توبہ ہی کا مطالبہ کیا جائے گا (35) پس اللہ ہی کے لیے ہیں سب تعریفیں، جو رب ہے آسمانوں کا اور رب ہے زمین کا، رب ہے سارے جہانوں کا (36) اور اسی کے لیے بڑائی ہے آسمانوں اور زمین میں اور وہ بڑا زبردست خوب حکمت والا ہے (37)
#
{27} يخبر تعالى عن سعة ملكِهِ وانفرادِهِ بالتصرُّف والتدبير في جميع الأوقات، وأنَّه {يوم تقومُ الساعةُ}؛ ويَجمع الخلائق لموقف القيامة؛ يحصُلُ الخسار على المبطلين، الذين أتوا بالباطل ليدحِضوا به الحقَّ، وكانت أعمالهم باطلةً لأنَّها متعلِّقة بالباطل، فبطلت في يوم القيامة، اليوم الذي تستبين فيه الحقائق واضمحلَّت عنهم، وفاتَهم الثوابُ، وحصلوا على أليم العقاب.
[27] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی بادشاہی کی وسعت اور تمام اوقات میں تصرف اور تدبیر میں اپنے تفرد کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، نیز خبر دیتا ہے: ﴿وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ ﴾ ’’ جس روز قیامت برپا ہوگی۔‘‘ اور تمام مخلوق قیامت کے میدان میں جمع ہوگی تو باطل پرستوں کو، جنھوں نے حق کو نیچا دکھانے کے لیے باطل کو اختیار کیا، خسارہ حاصل ہو گا۔ ان کے اعمال ضائع ہوں گے، کیونکہ وہ باطل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن جب تمام حقائق عیاں ہوں گے اس دن ان کے اعمال باطل اور مضمحل ہو جائیں گے۔ان کا ثواب ختم ہوجائے گا اور انھیں دردناک عذاب ہوگا۔
#
{28} ثم وصف تعالى شدَّة يوم القيامةِ وهَوْلَهُ ليحذره العباد ويستعدَّ له العُبَّاد، فقال: {وترى}: أيُّها الرائي لذلك اليوم، {كلَّ أمَّةٍ جاثيةً}: على ركبها خوفاً وذعراً وانتظاراً لحكم الملك الرحمن. {كلُّ أمة تُدعى إلى كتابها}؛ أي: إلى شريعة نبيِّهم الذي جاءهم من عند الله، وهل قاموا بها فيحصُلُ [لهم] الثواب والنجاة؟ أم ضيعوها فيحصُلُ لهم الخسران؟ فأمَّة موسى يُدعون إلى شريعة موسى، وأمَّة عيسى كذلك، وأمَّة محمد كذلك، وهكذا غيرهم؛ كلُّ أمة تُدعى إلى شرعها الذي كلفت به، هذا أحد الاحتمالات في الآية، وهو معنى صحيحٌ في نفسه، غير مشكوك فيه. ويحتمل أن المراد بقوله: {كلُّ أمَّة تُدعى إلى كتابها}؛ أي: إلى كتاب أعمالها وما سطر عليها من خير وشرٍّ، وأنَّ كلَّ أحدٍ يُجازى بما عمله بنفسه؛ كقوله تعالى: {مَنْ عَمِلَ صالحاً فلنفسه ومن أساء فعليها}. ويحتمل أن المعنيين كليهما مرادٌ من الآية.
[28] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے دن کی شدت اور اس کی ہولناکی کا ذکر فرمایا تاکہ لوگوں کو اس سے ڈرائے اور لوگ اس کے لیے تیاری کریں۔ ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَتَرٰى ﴾ اے اس دن کو دیکھنے والے! تو دیکھے گا کہ ﴿كُ٘لَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً ﴾ ہر امت خوف اور دہشت سے گھٹنوں کے بل گری ہوئی مالک رحمان کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ﴿كُ٘لُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا ﴾ ’’ہر گروہ کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔‘‘ یعنی ہر امت کو اس کے نبی کی شریعت کی طرف بلایا جائے گا، جسے لے کر وہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوا تھا کہ آیا انھوں نے اس شریعت کو قائم کیا تھا کہ ان کو ثواب اور نجات حاصل ہو یا انھوں نے اسے ضائع کر دیا، تب ان کو خسارہ حاصل ہو؟ تو حضرت موسیٰu کی امت کو شریعت موسیٰ، حضرت عیسیٰu کی امت کو شریعت عیسیٰ اور حضرت محمدe کی امت کو شریعت محمدی کی طرف بلایا جائے گا۔ اسی طرح دیگر تمام امتوں کو ان کی اپنی اپنی شریعت کی طرف بلایا جائے گا جس کے وہ مکلف ہیں۔ آیت کریمہ سے ایک تو اسی معنی کا احتمال بھی ہے اور فی نفسہ یہ معنی صحیح ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک اور معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ کے ارشاد: ﴿كُ٘لُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَا ﴾ سے مراد یہ ہو کہ ہر امت کو اس کے نامۂ اعمال اور خیروشر کی طرف جو ان کے نامہ اعمال میں درج کیا گیا تھا، بلایا جائے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا و سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لیے کرے گا اور جو کوئی برائی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔‘‘ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ آیت کریمہ سے دونوں معنی مراد ہوں۔
#
{29} ويدل على هذا قولُه: {هذا كتابُنا ينطِقُ عليكم بالحقِّ}؛ أي: هذا كتابنا الذي أنزلنا عليكم يفصِلُ [بينكم] بالحقِّ الذي هو العدل، {إنَّا كنا نَسْتَنسِخُ ما كنتُم تعملون}: فهذا كتابُ الأعمال.
[29] اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس پر دلیل ہے:﴿هٰؔذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّ ﴾ ’’یہ ہماری تحریر ہے جو تمھارے اوپر ٹھیک ٹھیک گواہی دے رہی ہے۔‘‘ یعنی ہماری یہ کتاب جو آپ پر نازل کی ہے وہ تمھارے درمیان حق اور ا نصاف سے فیصلہ کرتی ہے۔ ﴿اِنَّا كُنَّا نَ٘سْتَ٘نْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’بے شک جو کچھ تم کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔‘‘ اس سے مراد نامۂ اعمال ہے۔
#
{30} ولهذا فصَّل ما يفعل الله بالفريقين، فقال: {فأمَّا الذين آمنوا وعملوا الصالحات}: إيماناً صحيحاً، وصدَّقوا إيمانَهم بالأعمال الصالحة من واجبات ومستحبَّات، {فيدخِلُهم ربُّهم في رحمتِهِ}: التي محلُّها الجنة، وما فيها من النعيم المقيم والعيش السليم. {ذلك هو الفوزُ المبينُ}؛ أي: المفاز والنجاة والربح والفلاح الواضح البيِّن، الذي إذا حصل للعبد؛ حصل له كلُّ خير، واندفع عنه كلُّ شرٍّ.
[30] اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ دونوں گروہوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ، چنانچہ فرمایا: ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ جو لوگ صحیح طور پر ایمان لائے اور اعمال صالح یعنی واجبات و مستحبات پر عمل کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی ﴿فَیُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِیْ رَحْمَتِهٖ ﴾ ’’پس ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔‘‘ جس کا مقام جنت ہے اور اس میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور تکدر سے پاک زندگی ہے۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ ﴾ یہی واضح کامیابی، نجات، نفع اور فلاح ہے جو بندے کو جب حاصل ہو تو اسے ہر بھلائی حاصل ہو جاتی ہے اور اس سے ہر برائی دور ہو جاتی ہے۔
#
{31} {وأمَّا الذين كفروا}: بالله، فيقال لهم توبيخاً وتقريعاً: {أفلم تكن آياتي تُتْلى عليكم}، وقد دلَّتكم على ما فيه صلاحكم ونهتْكم عما فيه ضررُكم، وهي أكبر نعمة وصلت إليكم لو وفِّقتم لها، ولكن استكبرتُم عنها وأعرضتُم وكفرتُم بها، فجنيتُم أكبر جناية، وأجرمتم أشدَّ الجرم؛ فاليوم تجزون ما كنتم تعملون.
[31] ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ اور جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو انھیں زجروتوبیخ کے طور پر کہا جائے گا: ﴿اَفَلَمْ تَكُ٘نْ اٰیٰتِیْ تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْكُمْ ﴾ ’’کیا تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟‘‘ ان آیات نے ان امور کی طرف راہنمائی کی جن میں تمھاری بھلائی تھی اور ان امور سے روکا جن میں تمھارے لیے ضرر تھا، یہ سب سے بڑی نعمت تھی جو تم تک پہنچی اگر تم نے ان کی موافقت کی ہوتی لیکن تم نے تکبر کے ساتھ ان سے روگردانی کی اور ان کا انکار کیا، پس اس طرح تم نے سب سے بڑے جرم کا ارتکاب کیا، لہٰذا آج تمھیں تمھارے کرتوتوں کی سزا دی جائے گی۔
#
{32} ويوبَّخون أيضاً بقوله: {وإذا قيل إنَّ وعدَ الله حقٌّ والساعة لا ريبَ فيها قلتم}: منكرين لذلك: {ما ندري ما الساعة إن نظنُّ إلاَّ ظنًّا وما نحن بمستيقنينَ}: فهذه حالهم في الدُّنيا، وحال البعث الإنكار له، وردُّوا قولَ مَنْ جاء به.
[32] نیز انھیں زجروتوبیخ کرتے ہوئے یہ بھی کہا جائے گا: ﴿وَاِذَا قِیْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّالسَّاعَةُ لَا رَیْبَ فِیْهَا قُلْتُمْ ﴾ ’’اور جب کہا جاتاتھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں تو تم کہتے تھے۔‘‘ اس کا انکار کرتے ہوئے :﴿مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَةُ١ۙ اِنْ نَّ٘ظُ٘نُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ﴾ ’’ہمیں نہیں معلوم کہ قیامت کی گھڑی کیا ہوتی ہے، بس ہمیں تو صرف ایک گمان سا ہے اور ہمیں اس پر یقین نہیں ہے۔‘‘ یہ تو تھا ان کا دنیا میں حال اور قیامت کے احوال کے وہ منکر تھے اور جو حیات بعدالموت کی خبر لایا، انھوں نے اس کے قول کو ٹھکرا دیا ۔
#
{33} قال تعالى: {وبدا لهم سيئاتُ ما عملوا}؛ أي: وظهر لهم يوم القيامةِ عقوباتُ أعمالهم، {وحاق بهم}؛ أي: نزل {ما كانوا به يستهزِئون}؛ أي: نزل بهم العذابُ الذي كانوا في الدُّنيا يستهزئون بوقوعه وبمن جاء به.
[33] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا ﴾ یعنی قیامت کے دن ان کے سامنے ان کے اعمال کی سزا ظاہر ہوگی۔ ﴿وَحَاقَ بِهِمْ ﴾ اور نازل ہوگا ان پر ﴿مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔‘‘ یعنی ان پر وہ عذاب نازل ہو گا جس کے واقع ہونے اور اس کے وقوع کی خبر دینے والے کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔
#
{34} {وقيل اليوم ننساكم}؛ أي: نترككم في العذاب {كما نسيتُم لقاء يومكم هذا}؛ فإنَّ الجزاء من جنس العمل، {ومأواكم النارُ}؛ أي: هي مقرُّكم ومصيركم. {وما لكم من ناصرينَ}: ينصرونَكم من عذابِ الله ويدفعون عنكم عقابه.
[34] ﴿وَقِیْلَ الْیَوْمَ نَنْسٰىكُمْ ﴾ ’’اور کہا جائے گا: آج ہم تمھیں بھلا دیں گے۔‘‘ یعنی ہم تمھیں عذاب میں چھوڑ دیں گے۔ ﴿كَمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ﴾ ’’جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا۔‘‘ کیونکہ جزا عمل کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ ﴿وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ ﴾ یعنی جہنم تمھارا ٹھکانا اور ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ ﴿وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰ٘صِرِیْنَ ﴾ ’’اور تمھارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں تمھاری مدد کر سکے اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹا سکے۔
#
{35} {ذلكم}: الذي حصل لكم من العذاب. بسبب {أنَّكم اتَّخذتم آياتِ الله هزواً}: مع أنها موجبةٌ للجدِّ والاجتهاد وتلقِّيها بالسرور والاستبشار والفرح، {وغرَّتْكُم الحياة الدُّنيا}: بزخارفها ولذَّاتها وشهواتها، فاطمأننتُم إليها، وعملتم لها، وتركتم العمل للدار الباقية. {فاليومَ لا يُخْرَجونَ منها ولا هم يُسْتَعْتَبونَ}؛ أي: ولا يُمْهَلون ولا يردُّون إلى الدُّنيا ليعملوا صالحاً.
[35] ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ یہ عذاب جس میں تم مبتلا ہو اس سبب سے ہے کہ ﴿ اتَّؔخَذْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا﴾ ’’تم نے آیات الٰہی کا تمسخر اڑایا ۔‘‘حالانکہ یہ جدوجہد کی موجب تھیں نیز اس امر کی موجب تھیں کہ ان کو مسرت، خوش دلی اور فرحت سے قبول کیا جاتا۔ ﴿وَّغَرَّتْكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا﴾ اور دنیا نے اپنی چکا چوند اور اپنی لذات و شہوات کے ذریعے سے تمھیں دھوکے میں ڈال دیا، پس تم اس سے مطمئن ہو گئے، اس کے لیے عمل کرتے رہے اور ہمیشہ باقی رہنے والے گھر کے لیے عمل کو چھوڑ بیٹھے۔ ﴿فَالْیَوْمَ لَا یُخْرَجُوْنَ مِنْهَا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۠ ﴾ ’’پس آج وہ اس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔‘‘ یعنی انھیں مہلت دی جائے گی نہ انھیں دنیا کی طرف لوٹایا جائے گا کہ وہ نیک عمل کر لیں۔
#
{36} {فلله الحمدُ}: كما ينبغي لجلال وجهه وعظيم سلطانه، {ربِّ السمواتِ وربِّ الأرض ربِّ العالمين}؛ أي: له الحمد على ربوبيته لسائر الخلق ؛ حيث خلقهم وربَّاهم، وأنعم عليهم بالنعم الظاهرة والباطنة.
[36] ﴿فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ﴾ ’’پس اللہ ہی کے لیے ہر قسم کی حمد ہے۔‘‘ جیسی کہ اس کے جلال اور اس کی عظمت سلطان کے لائق ہے۔ ﴿رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’جو آسمانوں اور زمین کا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات کی ربوبیت کے بارے میں وہ لائق حمدوثنا ہے کہ اس نے ان کو تخلیق کیا ان کی تربیت کی اور انھیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔
#
{37} {وله الكبرياءُ في السمواتِ والأرض}؛ أي: له الجلال والعظمة والمجدُ؛ فالحمد فيه الثناء على الله بصفات الكمال ومحبَّته تعالى وإكرامه، والكبرياء فيها عظمتُه وجلالُه، والعبادة مبنيَّة على ركنين: محبة الله والذُّلُّ له، وهما ناشئان عن العلم بمحامد الله وجلاله وكبريائه، {وهو العزيز}: القاهر لكلِّ شيء. {الحكيم}: الذي يضعُ الأشياء مواضِعَها؛ فلا يشرع ما يشرعُه إلاَّ لحكمة ومصلحة، ولا يخلُقُ ما يخلُقُه إلاَّ لفائدةٍ ومنفعةٍ.
[37] ﴿وَلَهُ الْكِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے بڑائی ہے۔‘‘ یعنی وہی جلال، عظمت اور مجد کا مالک ہے۔ پس حمد میں صفات کمال کے ذریعے سے اللہ کی ثنا، اس کی محبت اور اس کا اکرام ہے اور کبریائی میں اس کی عظمت اور اس کا جلال ہے۔ عبادت دو ارکان پر مبنی ہے: اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے سامنے اظہار تذلل اور یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کے جلال اور اس کی کبریائی کے علم سے پیدا ہوتی ہیں۔ ﴿وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’اور وہ ہر چیز پر غالب ہے ﴿الْحَكِیْمُ ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ جس نے تمام اشیاء کو اپنے اپنے مقام پر رکھا ہے۔ اس نے جو چیز بھی مشروع کی، وہ حکمت کے تحت مشروع کی ہے اور جو چیز بھی پیدا کی وہ فائدے اور منفعت کے لیے پیدا کی ہے۔