(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{حم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ (3) فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (4) أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (5) رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (6) رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ (7) لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (8) بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ (9) فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ (10) يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (11) رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ (12) أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ (13) ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ (14) إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ (15) يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ (16)}
حٰمٓ
(1) قسم ہے کتاب واضح کی
(2) بلاشبہ نازل کیا ہم نے اس کو ایک بابرکت رات میں، بے شک ہم ہیں ڈرانے والے
(3) اس
(رات) میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر معاملے حکمت والے کا
(4) بطور حکم ہماری طرف سے، بے شک ہم ہیں
(رسول) بھیجنے والے
(5) رحمت
(مہربانی)سے آپ کے رب کی طرف سے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
(6) رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور
(ان کا) جو ان کے درمیان میں ہے، اگر ہو تم یقین کرنے والے
(7) نہیں کوئی معبود برحق مگر وہی، وہ زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے، رب ہے تمھارا اور رب ہےتمھارے پہلے باپ دادا کا
(8)بلکہ وہ شک میں کھیل رہے ہیں
(9) پس انتظار کیجیے! اس دن کا کہ لائے آسمان دھواں ظاہر
(10) ڈھانپ لے گا وہ لوگوں کو، یہ ہے عذاب درد ناک
(11) اے ہمارے رب! دور کر دے ہم سےیہ عذاب، بلاشبہ ہم ایمان لانے والے ہیں
(12) کیوں کر ہو گی ان کے لیے نصیحت؟ جبکہ آ چکا ان کے پاس ایک رسول بیان کرنے والا
(13) پھر منہ موڑ لیا انھوں نے اس سے اور کہا، وہ سکھایا ہوا دیوانہ ہے
(14) بے شک ہم دور کرنے والے ہیں عذاب کو تھوڑی دیر کے لیے، بلاشبہ تم دوبارہ وہی کرنے والے ہو
(15) جس دن ہم پکڑیں گے پکڑنا بڑا
(سخت) بلاشبہ ہم انتقام لینے والے ہیں
(16)
#
{1 ـ 3} هذا قسمٌ بالقرآن على القرآن، فأقسم بالكتاب المبين لكلِّ ما يحتاج إلى بيانه أنَّه أنزله {في ليلةٍ مباركةٍ}؛ أي: كثيرة الخير والبركة، وهي ليلةُ القدرِ، التي هي خيرٌ من ألف شهرٍ، فأنزل أفضلَ الكلام بأفضل الليالي والأيام على أفضل الأنام بلغة العرب الكرام؛ لينذِرَ به قوماً عمَّتهم الجهالةُ وغلبت عليهم الشَّقاوة، فيستضيئوا بنوره، ويقتبِسوا من هُداه، ويسيروا وراءه، فيحصُلُ لهم الخير الدنيويُّ والخير الأخرويُّ، ولهذا قال: {إنَّا كُنَّا منذِرينَ}.
[3-1] یہ قرآن پر قرآن ہی کی قسم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب مبین کی قسم کھائی جو ہر اس چیز کے لیے ہے جس کے بیان کی حاجت ہے۔ بے شک وہ اتاری گئی ہے:
﴿فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَؔكَةٍ ﴾ یعنی خیرکثیر اور برکت والی رات میں۔ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین کلام کو، بہترین رات، بہترین دن میں مخلوق میں سے افضل ہستی پر معززینِ اہل عرب کی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کو ڈرائے جنھیں جہالت نے اندھا کر رکھا ہے اور بدبختی ان پر غالب آچکی ہے، پس وہ اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اس کی ہدایت کو اختیار کریں اور اس کے پیچھے چلیں،
اس طرح انھیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو گی۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ ۰۰فِیْہَا﴾ ’’بے شک ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
#
{4} {فيها}؛ أي: في تلك الليلة الفاضلة التي نَزَلَ فيها القرآن، {يُفْرَقُ كلُّ أمرٍ حكيم}؛ أي: يفصل ويميَّز ويُكتب كلُّ أمر قدريٍّ وشرعيٍّ حكم الله به. وهذه الكتابة والفرقان الذي يكون في ليلة القدر إحدى الكتابات التي تُكتب وتميَّز، فتطابق الكتابَ الأوَّلَ الذي كتبَ الله به مقاديرَ الخلائق وآجالهم وأرزاقهم وأعمالهم وأحوالهم. ثم إنَّ الله تعالى قد وَكَلَ ملائكةً تكتب ما سيجري على العبد وهو في بطن أمِّه. ثم وَكَلَهم بعد خروجه إلى الدنيا؛ وَكَلَ به كراماً كاتبين يكتبون ويحفظون عليه أعماله. ثم إنَّه تعالى يقدِّرُ في ليلة القدر ما يكونُ في السنةِ، وكلُّ هذا من تمام علمه وكمال حكمتِهِ وإتقان حفظِهِ واعتنائه تعالى بخلقه.
[4] اس
(فضیلت والی) رات میں۔‘‘ جس میں قرآن نازل ہوا
﴿یُفْرَقُ كُ٘لُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ﴾ ’’ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی ہر حکم کا فیصلہ کیا جاتا اور ممیز کیا جاتا ہے، ہر کونی و قدری اور شرعی حکم کو، جس کا اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے، لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ کتابت اور تفریق و امتیاز جو لیلۃ القدر کو ہوتی ہے، ان کتابات
(لکھائیوں) میں سے ایک ہے جسے لکھا جاتا اور ممیز کیا جاتا ہے۔ وہ اولین کتاب کے مطابق ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ مخلوقات کی تقدیر، ان کا وقت مقرر، ان کا رزق، ان کے اعمال اور ان کے اموال وغیرہ درج کر دیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کر دیے ہیں کہ جو بندے پر گزرے گا وہ لکھ دیتے ہیں اور جب بندہ ماں کے پیٹ سے باہر دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر کراماً کاتبین مقرر کردیتا ہے جو اس کے اعمال لکھتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کو سال بھر میں پیش آنے والے واقعات کو مقدر کر دیتا ہے۔ یہ سب اس کے کمال علم، کمال حکمت، اس کی بہترین حفاظت اور اپنی مخلوق کے ساتھ کامل اعتنا کی بنا پر ہے۔
#
{5} {أمراً من عندنا}؛ أي: هذا الأمر الحكيم أمرٌ صادرٌ من عندنا. {إنَّا كنَّا مرسلينَ}: للرسل ومنزلينَ للكتب، والرسلُ تبلِّغ أوامر المرسَل وتخبِرُ بأقدارِهِ.
[5] ﴿اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ﴾ یعنی حکمت سے لبریز یہ حکم، ہماری طرف سے صادر ہوتا ہے
﴿اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْ٘نَ﴾ ہم رسول بھیجتے ہیں اور کتابیں نازل کرتے ہیں۔ یہ رسول، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے باخبر کرتے ہیں۔
#
{6} {رحمةً من ربِّك}؛ أي: إن إرسال الرسل وإنزال الكتب التي أفضلُها القرآن رحمةٌ من ربِّ العباد بالعباد؛ فما رحم الله عبادَه برحمةٍ أجلَّ من هدايتهم بالكتب والرسل، وكلُّ خير ينالونه في الدُّنيا والآخرة؛ فإنَّه من أجل ذلك وبسببه. {إنَّه هو السميعُ العليم}؛ أي: يسمع جميع الأصوات، ويعلم جميع الأمور الظاهرة والباطنة، وقد علم تعالى ضرورةَ العباد إلى رسله وكتبه، فرحمهم بذلك ومنَّ عليهم؛ فلله تعالى الحمدُ والمنةُ والإحسان.
[6] ﴿رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ یعنی رسول بھیجنا اور کتابیں نازل کرنا آپ کے رب کی رحمت کی بنا پر ہے، ان کتابوں میں افضل ترین کتاب قرآن کریم ہے جو بندوں کے رب کی طرف سے بندوں پر رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر اس سے بڑھ کر کوئی اور رحمت نہیں کہ وہ کتابوں اور رسولوں کے ذریعے سے انھیں ہدایت سے نوازتا ہے۔ دنیا و آخرت کی جس بھلائی سے بھی وہ بہرہ مند ہیں اس کا سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے
﴿اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ یعنی وہ تمام آوازوں کو سنتا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی امور کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ بندوں کو اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کی ضرورت ہے۔ پس اس نے ان پر رحم کرتے ہوئے احسان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہی حمدوستائش اور احسان کا مالک ہے۔
#
{7 ـ 8} {ربِّ السموات والأرض وما بينهما}؛ أي: خالق ذلك ومدبِّره والمتصرِّف فيه بما يشاء، {إن كنتُم موقِنين}؛ أي: عالمين بذلك علماً مفيداً لليقين؛ فاعْلموا أنَّ الربَّ للمخلوقات هو إلهها الحقُّ، ولهذا قال: {لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا معبود إلاَّ وجهه، {يحيي ويميتُ}؛ أي: هو المتصرِّف وحده بالإحياء والإماتة، وسيجمعكم بعد موتكم فيَجْزيكم بعَمَلِكم، إن خيراً فخيرٌ، وإن شرًّا فشرٌّ. {ربُّكم وربُّ آبائكم الأوَّلين}؛ أي: ربُّ الأوَّلين والآخرين؛ مربِّيهم بالنعم، الدافع عنهم النقم.
[7، 8] ﴿رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ﴾ ’’جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے۔‘‘ یعنی وہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے اور اپنی مشیت کے مطابق ان میں تصرف کرنے والا ہے۔
﴿اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ ﴾ اگر تم اس کے بارے میں ایسا علم رکھتے ہو جو یقین کا فائدہ دیتا ہے۔ پس جان لو کہ مخلوقات کا رب ہی ان کا معبود برحق ہے۔ اس لیے فرمایا:
﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
﴿یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ﴾ وہ اکیلا ہی زندگی عطا کرتا اور موت دیتا ہے۔ وہ تمھارے مرنے کے بعد تمھیں اکٹھا کرے گا اور تمھارے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ اگر اعمال اچھے ہوئے تو اچھی جزا ہو گی اور اگر اعمال برے ہوئے تو بری جزا ہوگی۔
﴿رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یعنی وہ اولین و آخرین کا رب، نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تربیت کرنے والا اور ان سے سختیوں کو دور کرنے والا ہے۔
#
{9} فلما قرَّر تعالى ربوبيَّته وألوهيَّته بما يوجب العلم التامَّ ويدفعُ الشكَّ؛ أخبر أنَّ الكافرين مع هذا البيان: {في شكٍّ يلعبونَ}؛ أي: منغمرون في الشُّكوك والشُّبهات، غافلون عمَّا خُلقوا له، قد اشتغلوا باللعب الباطل الذي لا يُجدي عليهم إلاَّ الضَّرر.
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور الوہیت کا اثبات کرنے کے بعد، جو کہ علم کامل کا موجب ہے اور شک کو دور کرتا ہے، فرمایا کہ کفار اس توضیح و تبیین کے باوجود
﴿فِیْ شَكٍّ یَّلْعَبُوْنَ ﴾ یعنی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر ان مقاصد سے غافل ہیں جن کے لیے انھیں تخلیق کیا گیا ہے اور لہوولعب میں مشغول ہیں جو انھیں نقصان کے سوا کچھ نہیں دیتے۔
#
{10 ـ 16} {فارتقِبْ}؛ أي: انتظر فيهم العذابَ؛ فإنَّه قد قربَ وآنَ أوانه، {يومَ تأتي السماءُ بدخانٍ مبينٍ. يغشى الناسَ}؛ أي: يعمُّهم ذلك الدخان، ويقال لهم: {هذا عذابٌ أليمٌ}. واختلف المفسِّرون في المراد بهذا الدُّخان:
فقيل: إنَّه الدخان الذي يغشى الناسَ ويعمُّهم حين تقرب النار من المجرمين في يوم القيامة، وأنَّ الله توعَّدهم بعذاب يوم القيامةِ، وأمر نبيَّه أن ينتظر بهم ذلك اليوم. ويؤيد هذا المعنى أنَّ هذه الطريقة هي طريقةُ القرآن في توعُّد الكفَّار والتأنِّي بهم وترهيبهم بذلك اليوم وعذابه وتسلية الرسول والمؤمنين بالانتظار بمن آذاهم. ويؤيِّده أيضاً أنَّه قال في هذه الآية: {أنَّى لهم الذِّكْرى وقد جاءَهُم رسولٌ مبينٌ}، وهذا يُقال يومَ القيامةِ للكفار حين يطلبون الرجوعَ إلى الدُّنيا، فيقال: قد ذهب وقتُ الرجوع.
وقيل: إنَّ المراد بذلك ما أصاب كفارَ قريش حين امتنعوا من الإيمان واستَكْبروا على الحقِّ، فدعا عليهم النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -، فقال: «اللهمَّ أعِنِّي عليهم بسنينَ كَسِني يوسُفَ». فأرسل الله عليهم الجوع العظيم، حتى أكلوا الميتات والعظام، وصاروا يَرَوْنَ الذي بين السماء والأرض كهيئة الدخان، وليس به، وذلك من شدَّة الجوع، فيكون على هذا قولُه: {يوم تأتي السماءُ بدخانٍ}: أن ذلك بالنسبة إلى أبصارهم وما يشاهدون، وليس بدخانٍ حقيقةً، ولم يزالوا بهذه الحالة حتى اسْتَرْحموا رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، وسألوه أن يَدْعُوَ اللهَ لهم أن يكشِفَه الله عنهم، [فَدَعا رَبَّه]؛ فكشفه الله عنهم، وعلى هذا فيكون قوله: {إنَّا كاشِفو العذابِ قليلاً إنَّكم عائدونَ}: إخبارٌ بأنَّ الله سيصرِفُه عنهم ، وتوعُّدٌ لهم أن يعودوا إلى الاستكبار والتكذيب، وإخبارٌ بوقوعه، فوقع، وأنَّ الله سيعاقِبُهم بالبطشة الكبرى، قالوا: وهي وقعةُ بدرٍ. وفي هذا القول نظرٌ ظاهرٌ.
وقيل: إنَّ المراد بذلك أن ذلك من أشراط الساعة، وأنَّه يكون في آخرِ الزَّمان دخانٌ يأخذُ بأنفاس الناس ويصيبُ المؤمنين منه كهيئةِ الدُّخان.
والقول هو الأول. وفي الآية احتمالُ أنَّ المراد بقوله: {فارْتَقِبْ يوم تأتي السماءُ بدُخانٍ مبينٍ. يغشى الناسَ هذا عذابٌ أليمٌ. ربَّنا اكشِفْ عنَّا العذابَ إنَّا مؤمنونَ. أنَّى لهم الذِّكرى وقد جاءهُم رسولٌ مبينٌ. ثم تولَّوا عنه وقالوا معلمٌ مجنونٌ}: أنَّ هذا كلَّه [يكون] يوم القيامةِ، وأنَّ قولَه تعالى: {إنَّا كاشفو العذابِ قليلاً إنَّكم عائدونَ. يوم نَبْطِشُ البطشةَ الكُبرى إنَّا منتقمونَ}: أنَّ هذا ما وقع لقريش كما تقدم.
وإذا أنزلت هذه الآيات على هذين المعنيين؛ لم تجد في اللفظ ما يمنعُ من ذلك، بل تَجِدُها مطابقةً لهما أتمَّ المطابقة، وهذا الذي يظهر عندي ويترجَّح. والله أعلم.
[16-10] ﴿فَارْتَقِبْ ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہونے کا انتظار کیجیے، یہ عذاب بہت قریب ہے اور اس کا وقت آن پہنچا ہے
﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ۰۰ یَّغْشَى النَّاسَ ﴾ ’’جس دن آسمان صریح دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا۔‘‘ یہ دھواں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان سے کہا جائے گا:
﴿هٰؔذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ یہ بہت درد ناک عذاب ہے۔
اہل تفسیر میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس دھویں سے کیا مراد ہے،
چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ دھواں ہے کہ جب مجرم جہنم کی آگ کے قریب پہنچیں گے تو یہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کو اندھا کر دے گا۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت کے روز جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور نبی اکرم e کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں۔ اس تفسیر کی اس بات سے تائید ہوتی ہے کہ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے روز کے بارے میں کفار کو وعید سناتا ہے اور اس روز کے عذاب سے انھیں ڈراتا ہے۔ رسول e اور مومنین کو تسلی دیتے ہوئے ان کو تکلیفیں پہنچانے والے کفار کے بارے میں انتظار کا حکم دیتا ہے۔ نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اس وقت ان کو نصیحت کہاں مفید ہوگی جبکہ ان کے پاس واضح رسول پہنچ چکے۔‘‘ یہ ارشاد کفار کو قیامت کے روز اس وقت سنایا جائے گا جب وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست کریں گے،
چنانچہ ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں لوٹ جانے کا وقت گزر چکا ہے۔
اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو کفار قریش پر اس وقت نازل ہوا جب انھوں نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور حق کے مقابلے میں تکبر کیا۔ رسول اللہ e نے ان کے لیے بدعا فرمائی: ’اَللّٰھُمَّ أَعِنِّی عَلَیْھِمْ بِسِنِینَ کَسِنِی یُوسُفُ‘ ’’اے اللہ! ان کے مقابلے میں ان قحط کے سالوں کے ذریعے سے میری مدد فرما جیسا کہ حضرت یوسف کے زمانے میں قحط کے سال تھے‘‘
(صحیح البخاري، الأدب، باب تسمیۃ الولید، حدیث: 6200، و صحیح مسلم، صفات المنافقین، باب الدخان، حدیث: 2798) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا قحط بھیجا یہاں تک کہ وہ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور ان کی یہ حالت ہو گئی کہ انھیں آسمان اور زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا،
حالانکہ دھواں نہیں تھا۔ یہ کیفیت بھوک کی شدت کی وجہ سے تھی۔
تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جو وہ مشاہدہ کریں گے وہ ان کی بصارت کی نسبت سے ہو گا۔ وہ حقیقت میں دھواں نہیں ہو گا،
ان پر یہی حالت طاری رہی یہاں تک کہ انھوں نے رسول اللہ e سے رحم کی بھیک مانگتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان سے اس قحط کو دور کر دے ۔پس اللہ تعالیٰ نے اس قحط کو ہٹا دیا۔
تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّـكُمْ عَآىِٕدُوْنَ﴾ ’’ہم تھوڑے دنوں کے لیے عذاب ٹال دیتے ہیں، مگر تم پھر
(کفر کی طرف) لوٹ آتے ہو۔‘‘ میں اس بات کی خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب تم سے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور یہ ان کے تکبر اور تکذیب کے رویہ کو دوبارہ اختیار کرنے پر سخت وعید ہے۔ نیز اس عذاب کے وقوع کی پیش گوئی ہے۔ پس یہ عذاب واقع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب انھیں ایک زبردست عذاب کی گرفت میں لے گا اور
(بعض) اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد جنگ بدر ہے۔ یہ قول بظاہر محل نظر ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ آخری زمانے میں ایک دھواں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور وہ سانس نہیں لے سکیں گے، مگر اہل ایمان کو دھواں بس عام دھویں کی طرح تکلیف دے گا۔
پہلا قول،
صحیح تفسیر ہے۔
آیات کریمہ:﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍۙ۰۰ یَّغْشَى النَّاسَ١ؕ هٰؔذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۰۰ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ۰۰ اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌۙ۰۰ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌ﴾ میں اس امر کا بھی احتمال موجود ہے کہ یہ سب کچھ قیامت کے روز واقع ہو گا اور رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی:
﴿اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّـكُمْ عَآىِٕدُوْنَۘ۰۰ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى ١ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ تو یہ ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جو قریش کو پیش آئے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔
جب ان آیات کریمہ کو ان دونوں معنی پر محمول کیا جائے تو آپ آیات کے الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں پائیں گے جو اس سے مانع ہو بلکہ آپ اس کے الفاظ کو ان معانی کے پوری طرح مطابق پائیں گے، میرے نزدیک یہی معنی ظاہر اور راجح ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ (17) أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (18) وَأَنْ لَا تَعْلُوا عَلَى اللَّهِ إِنِّي آتِيكُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (19) وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ (20) وَإِنْ لَمْ تُؤْمِنُوا لِي فَاعْتَزِلُونِ (21) فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ (22) فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ (23) وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ (24) كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (25) وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (26) وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ (27) كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ (28) فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ (29) وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ (30) مِنْ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِنَ الْمُسْرِفِينَ (31) وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (32) وَآتَيْنَاهُمْ مِنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُبِينٌ (33)}
اور البتہ تحقیق آزمایا ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو اور آیا
(تھا)ان کے پاس رسول معزز
(17) (اس نے فرعون سے کہا )یہ کہ حوالے کر دو میرے اللہ کے بندوں کو، بے شک میں تمھارے لیے رسول ہوں امانت دار
(18) اور یہ کہ نہ سرکشی کرو تم مقابل اللہ کے، بلاشبہ میں لاتا ہوں تمھارے پاس دلیل واضح
(19) اور بے شک پناہ لی ہے میں نے اپنے رب اور تمھارے رب کی اس بات سے کہ تم سنگسار کر دو مجھے
(20) اور اگر نہیں ایمان لاتے تم میری بات پر تو الگ ہو جاؤ تم مجھ سے
(21) پس پکارا اس نے اپنے رب کو کہ بلاشبہ یہ لوگ تو مجرم ہیں
(22) (حکم ہوا) پس لے چل میرے بندوں کو رات کے وقت، بے شک تم پیچھا کیے جاؤ گے
(23) اور چھوڑ دے سمندر کو تھما ہوا، بلاشبہ وہ لشکر ہیں کہ غرق کیے جائیں گے وہ
(اس میں) (24) کتنے ہی چھوڑ گئے وہ باغات اور چشمے
(25) اور کھیتیاں اور محل عمدہ
(26) اور سامان راحت کہ تھے وہ ان میں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے
(27) اسی طرح ہوا، اور وارث کر دیا ہم نے ان کا ایک دوسری قوم کو
(28) پس نہ روئے ان پر آسمان اور زمین اور نہ تھے وہ مہلت دیے گئے
(29) اور البتہ تحقیق نجات دی ہم نے بنی اسرائیل کو عذاب رسوا کن سے
(30) (یعنی ) فرعون سے، بلاشبہ تھا وہ ایک سرکش، حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے
(31) اور تحقیق پسند کیا ہم نے ان کو، اپنے علم پر، اوپر جہانوں کے
(32) اور دی
(تھیں) ہم نے ان کو نشانیاںوہ کہ ان میں تھی آزمائش صریح
(33)
#
{17} لما ذكر تعالى تكذيبَ من كذَّب الرسول محمداً - صلى الله عليه وسلم -؛ ذكر أن لهم سلفاً من المكذِّبين، فذكر قصَّتهم مع موسى، وما أحلَّ الله بهم؛ ليرتدعَ هؤلاء المكذِّبون عن ما هم عليه، فقال: {ولقد فتنَّا قبلهم قوم فرعون}؛ أي: ابتليناهم واختبرناهم بإرسال رسولنا موسى بن عمران إليهم، الرسول الكريم الذي فيه من الكرم ومكارم الأخلاق ما ليس في غيره.
[17] رسول مصطفی جناب محمد e کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ گزشتہ زمانوں میں بھی جھٹلانے والے موجود تھے اور موسیٰu کے ساتھ ان کے قصے کا ذکر فرمایا نیز اس عذاب کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کیا تاکہ جھٹلانے والے اپنے اس رویے سے باز آجائیں ،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ﴾ یعنی ہم نے ان کو، اپنے رسول کریم، حضرت موسیٰ بن عمرانu کو ان کی طرف مبعوث کر کے آزمایا جن میں بھلائی اور مکارم اخلاق بدرجہ اتم موجود تھے جو کسی اور میں موجود نہ تھے۔
#
{18} {أنْ أدُّوا إليَّ عبادَ الله}؛ أي: قال لفرعون وملئهِ: أدُّوا إليَّ عباد الله؛ يعني بهم: بني إسرائيل؛ أي: أرسلوهم وأطلقوهم من عذابكم وسومكم إيَّاهم سوء العذاب؛ فإنَّهم عشيرتي وأفضل العالمين في زمانهم، وأنتم قد ظلمتُموهم واستعبدتُموهم بغير حقٍّ، فأرسلوهم ليعبدوا ربَّهم. {إنِّي لكم رسولٌ أمينٌ}؛ أي: رسول من ربِّ العالمين، أمينٌ على ما أرسلني به، لا أكتُمُكم منه شيئاً، ولا أزيد فيه ولا أنقُصُ، وهذا يوجبُ تمامَ الانقياد له.
[18] ﴿اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ ﴾ یعنی موسیٰu نے فرعون اور اس کے سرداروں سے کہا: ’’اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو‘‘ اس سے حضرت موسیٰu کی مراد بنی اسرائیل تھے، یعنی بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دواور اپنے بدترین عذاب سے انھیں رہائی دے دو، کیونکہ بنی اسرائیل میرا قبیلہ ہے اور اپنے زمانے میں یہ افضل ترین لوگ ہیں۔ تم نے ان کو ناحق غلام بنا کر ان پر ظلم روا رکھا ہوا ہے۔ پس ان کو آزادی دے دو تاکہ یہ اپنے رب کی عبادت کریں۔
﴿اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ میں رب کائنات کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، جو پیغام میرے ذریعے سے بھیجا گیا ہے میں اس پر امین ہوں، میں اس میں سے تم سے کچھ نہیں چھپاتا، میں اس میں کچھ اضافہ کرتا ہوں نہ اس میں کمی کرتا ہوں اور یہ چیز کامل اطاعت کی موجب ہے۔
#
{19} {وأن لا تَعْلوا على الله}: بالاستكبار عن عبادتِهِ والعلوِّ على عباد الله. {إنِّي آتيكُم بسلطانٍ مبينٍ}؛ أي: بحجَّة بيِّنةٍ ظاهرةٍ، وهو ما أتى به من المعجزات الباهرات والأدلَّة القاهرات.
[19] ﴿وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِ﴾ ’’اور الله كے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔‘‘ تکبر و استکبار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اپنے آپ کو بلند نہ سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آؤ ۔
﴿اِنِّیْۤ اٰتِیْكُمْ بِسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’بے شک میں تمھارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں‘‘ اس سے مراد وہ بڑے بڑے معجزات اور وہ زبردست اور ناقابل تردید دلائل ہیں جو موسیٰu لے کر تشریف لائے۔
#
{20} فكذَّبوه وهمُّوا بقتله، فلجأ إلى الله من شرِّهم، فقال: {وإنِّي عذتُ بربِّي وربِّكم أن تَرْجُمونِ}؛ أي: تقتلوني أشرَّ القِتلاتِ بالرجم بالحجارة.
[20] پس انھوں نے موسیٰuکی تکذیب کی اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت موسیٰu نے ان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لیتے ہوئے کہا:
﴿وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ﴾ یعنی میں اس بات سے اپنے اور تمھارے رب کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم بدترین طریقے، یعنی رجم کے ذریعے سے مجھے قتل کرو۔
#
{21} {وإن لم تؤمنوا لي فاْعَتِزلوِن}؛ أي: لكم ثلاث مراتب: الإيماُن بي، وهو مقصودي منكم. فإنْ لم تَحْصُل منكم هذه المرتبة؛ فاعتزلون لا عليَّ ولا لي؛ فاكفوني شرَّكم. فلم تحُصل منهم المرتبة الأولى ولا الثانية، بل لم يزالوا متمرِّدين عاتين على الله محاربين لنبيِّه موسى عليه السلام غير ممكِّنين له من قومه بني إسرائيل.
[21] ﴿وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ ﴾ ’’اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے الگ رہو۔‘‘ یعنی تمھارے لیے تین راستے ہیں:
۱۔ مجھ پر ایمان لے آؤ اور یہی تم سے میرا مطلوب و مقصود ہے۔
۲۔ اگر مجھے تم سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو، تم میری مخالفت کرو نہ میری تائید کرو مجھ سے اپنے شر کو دور رکھو۔
۳۔ پس ان کفار سے پہلا اور دوسرا مقصد حاصل نہ ہوا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں سرکشی ہی کرتے رہے اور اس کے نبی موسیٰu کے خلاف جنگ نہ چھوڑی اور نہ ان کی قوم بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔
#
{22} {فدعا ربَّه أنَّ هؤلاء قومٌ مجرمونَ}؛ أي: قد أجرموا جرماً يوجب تعجيل العقوبةِ، فأخبر عليه السلام بحالهم، وهذا دعاء بالحال التي هي أبلغ من المقال؛ كما قال عن نفسه عليه السلام: {ربِّ إنِّي لما أنزلتَ إليَّ من خيرٍ فقيرٌ}.
[22] ﴿فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ ﴾ ’’انھوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں۔‘‘ انھوں نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جو فوری سزا کا موجب ہے۔ پس موسیٰu نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کا حال بیان کیا اور زبان حال کے ذریعے سے یہ دعا کی جو کہ زبانِ مقال سے زیادہ بلیغ ہے ، جیسا کہ خود اپنے لیے
(زبانِ مقال سے) یہ دعا کی تھی:
﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ﴾ (القصص: 28؍24) ’’اے میرے رب! جو بھلائی تو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘
#
{23} فأمره الله أن يسريَ بعباده ليلاً، وأخبره أنَّ فرعون وقومه سيتَّبِعونه.
[23] پس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں اور یہ بھی بتا دیا کہ فرعون اور اس کی قوم ان کا پیچھا کرے گی۔
#
{24} {واتْرُكِ البحرَ رهواً}؛ [أي: بحاله]، وذلك أنَّه لما سرى موسى ببني إسرائيل كما أمره الله، ثم تبعهم فرعونُ، فأمر الله موسى أن يضرِبَ البحر، فضربه، فصار اثني عشر طريقاً، وصار الماء من بين تلك الطرق كالجبال العظيمةِ، فسلكه موسى وقومُه، فلما خرجوا منه؛ أمره الله أن يترُكَه {رهواً}؛ أي: بحاله؛ ليسلُكَه فرعونُ وجنودُه. {إنَّهم جندٌ مغرَقون}: فلمَّا تكامل قومُ موسى خارجين منه وقومُ فرعونَ داخلينَ فيه؛ أمره الله تعالى أن يَلْتَطِمَ عليهم، فغرقوا عن آخرهم، وتركوا ما مُتِّعوا به من الحياة الدُّنيا، وأورثه الله بني إسرائيل الذين كانوا مستعبَدِين لهم.
[24] ﴿وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ﴾ ’’سمندر کو اس کے حال پر کھلا
(ساکن) چھوڑ دے ۔‘‘ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ جب موسیٰu اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت نکل پڑے اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ سمندر پر اپنا عصا ماریں، پس انھوں نے سمندر پر اپنا عصا مارا تو سمندر میں بارہ راستے بن گئے اور سمندر کا پانی ان راستوں کے مابین پہاڑوں کی مانند کھڑا ہوگیا۔ حضرت موسیٰu اور ان کی قوم سمندر میں سے گزر گئی۔ جب بنی اسرائیل سمندر سے باہر نکل آئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ سمندر کو اس طرح اپنے حال پر چھوڑ دیں، تاکہ فرعون اور اس کے لشکر ان راستوں میں داخل ہو جائیں۔
﴿اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ﴾ ’’یقیناً وہ ایسا لشکر ہے جو غرق کر دیا جائے گا۔‘‘ جب حضرت موسیٰu کی قوم مکمل طور پر سمندر سے باہر نکل آئی اور فرعون کے لشکر سب کے سب سمندر میں داخل ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ اپنی موجوں کے ذریعے سے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ پس وہ آخری آدمی تک سب غرق ہو گئے اور دنیاوی مال و متاع چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنا دیا، جو ان کے غلام بن کر رہ رہے تھے۔
#
{25 ـ 28} ولهذا قال: {كم تركوا من جناتٍ وعيونٍ. وزروع ومقام كريم. ونعمةٍ كانوا فيها فاكهينَ. كذلك وأوْرَثْناها}؛ أي: هذه النعمة المذكورة {قوماً آخرينَ}. وفي الآية الأخرى: {كذلك وأوْرَثْناها بني إسرائيلَ}.
[28-25] بنابریں فرمایا:
﴿كَمْ تَرَؔكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍۙ ۰۰وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ كَرِیْمٍۙ۰۰ وَّنَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ ۰۰كَذٰلِكَ١۫ وَاَوْرَثْنٰهَا ﴾ ’’وہ بہت سے باغ اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور عمدہ و نفیس مکان اور آرائش کے سامان جن میں وہ مزے سے رہتے تھے، یہ بات اسی طرح ہے اور ہم نے اس کا وارث بنایا۔‘‘ یعنی اس مذکورہ نعمت کا
﴿قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ﴾ دوسرے لوگوں کو ۔ ایک دوسری آیت کریمہ میں آتا ہے:
﴿كَذٰلِكَ١ؕ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ (الشعراء: 26؍59) ’’اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔‘‘
#
{29} {فما بكتْ عليهم السماءُ والأرضُ}؛ أي: لمَّا أتلفهم الله وأهلكهم لم تبكِ عليهم السماء والأرض؛ أي: لم يُحزنْ عليهم ولم يُؤس على فراقهم، بل كلٌّ استبشر بهلاكِهِم وتلفِهِم، حتى السماء والأرض؛ لأنَّهم ما خَلَّفوا من آثارِهم إلاَّ ما يسوِّدُ وجوهَهم ويوجبُ عليهم اللعنةَ والمقتَ من العالمين. {وما كانوا مُنظَرين}؛ أي: ممهَلين عن العقوبة، بل اصطلمتْهم في الحال.
[29] ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ ﴾ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا تو ان پر آسمان رویا نہ زمین یعنی ان کے لیے کسی نے حزن و غم کا اظہار کیا نہ ان کی جدائی پر کسی کو افسوس ہوا بلکہ ان کی ہلاکت اور بربادی پر سب خوش ہوئے حتیٰ کہ زمین و آسمان نے بھی مسرت کا اظہار کیا کیونکہ انھوں نے اپنے پیچھے ایسے کرتوت چھوڑے ہیں جو ان کے چہروں کو سیاہ کرتے ہیں اور ان پر لعنت اور لوگوں کی ناراضی کا موجب ہیں۔
﴿وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ ﴾ یعنی عذاب کو ٹال کر ان کو مہلت نہ دی گئی بلکہ اسی وقت ان کو نیست و نابود کر دیا گیا۔
#
{30 ـ 31} ثم امتنَّ تعالى على بني إسرائيلَ، فقال: {ولقد نَجَّيْنا بني إسرائيلَ من العذابِ المهينِ}: الذي كانوا فيه {من فرعونَ}: إذ يذبحُ أبناءَهم ويستحيي نساءَهم، {إنَّه كان عالياً}؛ أي: مستكبراً في الأرض بغير الحقِّ، {من المسرفين}: المتجاوزين لحدودِ الله المتجرِّئين على محارمه.
[30، 31] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ﴾ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔‘‘ جس میں وہ مبتلا تھے۔
﴿مِنْ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’فرعون سے‘‘ کیونکہ فرعون ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تھا۔
﴿اِنَّهٗ كَانَ عَالِیًا ﴾ بلاشبہ وہ زمین میں ناحق تکبر کرتا تھا۔
﴿مِّنَ الْ٘مُسْرِفِیْنَ ﴾ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والوں اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کرنے والوں میں سے تھا۔
#
{32} {ولقد اختَرْناهم}؛ أي: اصطفيناهم وانتَقَيْناهم {على علم}: منَّا بهم وباستحقاقهم لذلك الفضل {على العالَمين}؛ أي: عالمي زمانهم ومَنْ قبلهم وبعدَهم، حتى أتى اللهُ بأمة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - ففضَلوا العالمينَ كلَّهم، وجعلهم الله خير أمَّة أخرجت للناس، وامتنَّ عليهم بما لم يمتنَّ به على غيرهم.
[32] ﴿وَلَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ ﴾ اور ہم نے انھیں پاک صاف کر کے چن لیا۔
﴿عَلٰى عِلْمٍ ﴾ اپنے علم کی بنا پر اور اس فضیلت کے لیے ان کے استحقاق کی بنا پر
﴿عَلَى الْعٰلَمِیْنَ﴾ اپنے زمانے، اپنے سے پہلے اور بعد کے زمانے کے تمام لوگوں پر، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ qکو برپا کیا اور اس کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے بہترین امت قرار دیا جو تمام دنیا کی راہنمائی کے لیے کھڑی کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ احسانات کیے جو دوسرے پر نہ کیے۔
#
{33} {وآتَيْناهم}؛ أي: بني إسرائيل {من الآياتِ}: الباهرة والمعجزات الظاهرةِ {ما فيه بلاءٌ مبينٌ}؛ أي: إحسانٌ كثيرٌ ظاهرٌ منَّا عليهم وحجَّة عليهم على صحَّة ما جاءهم به نبيُّهم موسى عليه السلام.
[33] ﴿وَاٰتَیْنٰهُمْ ﴾ اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کیے۔
﴿مِّنَ الْاٰیٰتِ ﴾ بڑے واضح معجزات اور ظاہری نشانیاں
﴿مَا فِیْهِ بَلٰٓـؤٌا مُّبِیْنٌ ﴾ ’’جن میں صاف اور صریح آزمائش تھی۔‘‘ یہ ہماری طرف سے ان پر بہت بڑا احسان اور ان کے نبی موسیٰu جو کچھ ان کے پاس لے کر آئے ہیں، اس پر ایک دلیل ہے۔
{إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ (34) إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ (35) فَأْتُوا بِآبَائِنَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (36) أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (37)}
بلاشبہ یہ لوگ البتہ کہتے ہیں
(34) نہیں ہے یہ مگر مرنا ہمارا پہلا ہی، اور نہیں ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے
(35) پس لے آؤ تم ہمارے باپ دادوں کو اگر ہو تم سچے
(36) کیا وہ بہتر ہیں یا قوم تبع اور وہ لوگ جو ان سے پہلے ہوئے؟ ہلاک کر دیا ہم نے ان کو، بلاشبہ تھے وہ مجرم لوگ
(37)
#
{34 ـ 35} يخبر تعالى {إنَّ هؤلاء}: المكذِّبين، يقولون: مستبعِدين للبعث والنُّشور: {إنْ هي إلاَّ موتَتُنا الأولى وما نحنُ بمُنشَرينَ}؛ أي: ما هي إلاَّ الحياة الدُّنيا؛ فلا بعثَ ولا نشورَ، ولا جنةَ ولا نارَ.
[34، 35] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ﴾ بے شک یہ جھٹلانے والے لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور قیامت کو بہت بعید سمجھتے ہوئے کہتے ہیں:
﴿اِنْ هِیَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ ﴾ ’’یہ ہماری بس پہلی بار کی موت ہے اور ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔‘‘ یعنی یہ ہماری صرف دنیا ہی کی زندگی ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا نہ جنت اور جہنم کا کوئی وجود ہے۔
#
{36} ثم قالوا متجرِّئين على ربِّهم معجزين له: {فأتوا بآبائِنا إن كنتُم صادقينَ}: وهذا من اقتراح الجَهَلَةِ المعانِدين في مكان سحيقٍ؛ فأيُّ ملازمة بين صدق الرسول - صلى الله عليه وسلم - وأنَّه متوقِّف على الإتيان بآبائهم؛ فإنَّ الآيات قد قامت على صدِق ما جاءهم به وتواترتْ تواتراً عظيماً من كلِّ وجه؟!
[36] پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتے ہوئے اور اسے عاجز سمجھتے ہوئے کہا:
﴿فَاْتُوْا بِاٰبَآىِٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرلاؤ ۔‘‘ یہ عناد پسند جہلاء کا مطالبہ تھا، جو بہت دور کی کوڑی لائے تھے۔ بھلا! رسول کریم e کی صداقت اور ان جہلاء کے آباء و واجداد کو زندہ کر کے ان کے سامنے لانے میں کون سا تلازم ہے؟ آپ کی دعوت کی صداقت پر، آیات و دلائل، ہر لحاظ سے نہایت تواتر سے دلالت کرتے ہیں۔
#
{37} قال تعالى: {أهم خيرٌ}؛ أي: هؤلاء المخاطبون، {أم قومُ تُبَّع والذين من قبلِهِم أهْلَكْناهم إنَّهم كانوا مجرمين}؟ فإنَّهم ليسوا خيراً منهم، وقد اشتركوا في الإجرام؛ فليتوقَّعوا من الهلاك ما أصاب إخوانهم المجرمين.
[37] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَهُمْ خَیْرٌ ﴾ ’’کیا یہ بہتر ہیں؟‘‘ یعنی یہ مخاطبین
﴿اَمْ قَوْمُ تُ٘بَّعٍ١ۙ وَّالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ اَهْلَكْنٰهُمْ١ٞ اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ ’’یا قوم تبع اور وہ لوگ جو ان سے پہلے ہوچکے۔ ہم نے انھیں ہلاک کردیا بے شک وہ مجرم تھے۔‘‘ پس یہ لوگ قوم تبع وغیرہ سے بہتر نہیں، یہ بھی جرم کے ارتکاب میں ان کے شریک ہیں۔ پس یہ بھی اس ہلاکت کی توقع رکھیں جو ان کے جرم شریک بھائیوں پر واقع ہوئی تھی۔
{وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (38) مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (39) إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ (40) يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (41) إِلَّا مَنْ رَحِمَ اللَّهُ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (42)}.
اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان میں ہے، کھیلتے ہوئے
(38) نہیں پیدا کیا ہم نے ان دونوں کو مگر ساتھ حق
(ایک مقصد) کے، اور لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے
(39) بلاشبہ دن فیصلے کا، ٹھہرایا ہوا وقت ہے ان کا سب کا
(40) اس دن نہیں کام آئے گا کوئی دوست کسی دوست کے کچھ بھی اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے
(41) مگر جس پر رحم کیا اللہ نے، بلاشبہ وہ بڑا زبردست، بہت رحم کرنے والا ہے
(42)
#
{38 ـ 39} يخبر تعالى عن كمال قدرتِهِ وتمام حكمتِهِ، وأنَّه ما خَلَقَ السماواتِ والأرض لاعباً، ولا لهواً، وسدىً من غير فائدة، وأنَّه ما خلقهما {إلاَّ بالحقِّ}؛ أي: نفسُ خلقهما بالحقِّ، وخلقُهما مشتملٌ على الحقِّ، وأنه أوجدهما لِيَعبدوه وحدَه لا شريك له، وليأمر العبادَ وينهاهم ويثيبَهم ويعاقِبَهم. {ولكنَّ أكثرَهم لا يعلمونَ}؛ فلذلك لم يتفكَّروا في خَلْقِ السماواتِ والأرض.
[38، 39] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت تامہ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو کھیل تماشے کے طور پر، عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ، ان کا پیدا کرنا ہی حق ہے اور ان کی پیدائش حق ہی پر مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لیے وجود بخشا ہے تاکہ وہ اللہ واحد کی عبادت کریں تاکہ وہ اپنے بندوں کو حکم دے اور منع کرے، ان کو ثواب عطا کرے اور سزا دے۔
﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن ان سب میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے انھوں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں کبھی غوروفکر نہیں کیا۔
#
{40} {إنَّ يوم الفصل}: وهو يوم القيامة، الذي يفصِلُ الله به بين الأولين والآخرين وبين كل مختلفين، {ميقاتُهم}؛ أي: الخلائق {أجمعين}: كلُّهم سيجمعُهم الله فيه، ويحضِرُهم ويحضِرُ أعمالهم، ويكون الجزاء عليها.
[40] ﴿اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ ﴾ ’’بے شک فیصلے کا دن۔‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے، جب اللہ اولین و آخرین اور اختلاف کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے گا
﴿مِیْقَاتُهُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ یعنی تمام خلائق کے لیے ایک وقت مقرر ہے اس وقت میں اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا، ان کو اور ان کے اعمال کو اپنے سامنے حاضر کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔
#
{41} لا ينفع {مولى عن مولى شيئاً}: لا قريب عن قريبه، ولا صديق عن صديقه، {ولا هم يُنصَرونَ}؛ أي: يمنعون من عذاب الله عزَّ وجلَّ؛ لأنَّ أحداً من الخلق لا يملك من الأمر شيئاً.
[41] اس دن کوئی رشتہ دار اپنے کسی رشتہ دار کے کام آئے گا اور نہ کوئی دوست کسی دوست کے کام آئے گا
﴿وَّلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ ’’اور نہ انھیں کہیں سے کوئی مدد ملے گی۔‘‘ نہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچایا جا سکے گا کیونکہ مخلوق میں سے کوئی ہستی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی۔
#
{42} {إلاَّ مَن رَحِمَ اللهُ إنَّه هو العزيزُ الرحيمُ}: فإنَّه هو الذي ينتفع ويرتفع برحمةِ الله تعالى التي تسبَّب إليها، وسعى لها سعيها في الدنيا. ثم قال تعالى:
[42] ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْ٘عَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’مگر جس پر اللہ مہربانی کرے۔ وہ تو غالب، مہربان ہے۔‘‘ پس یہی لوگ ہوں گے جو فائدہ اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بلند مراتب پر فائز ہوں گے جس کو انھوں نے دنیا کے اندر مراتب کے حصول کا سبب بنایا اور اس کے لیے پوری کوشش کی،
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ (43) طَعَامُ الْأَثِيمِ (44) كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ (45) كَغَلْيِ الْحَمِيمِ (46) خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَى سَوَاءِ الْجَحِيمِ (47) ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ (48) ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (49) إِنَّ هَذَا مَا كُنْتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ (50)}.
بلاشبہ درخت تھوہر کا
(43) کھانا ہے گناہ گار کا
(44) مانند پگھلے ہوئے تانبے کے، کھولے گا وہ پیٹوں میں
(45) مانند کھولنے تیز گرم پانی کے
(46) پکڑو اسے اور دھکیل کر لے جاؤ اسے عین درمیان جہنم کے
(47) پھر انڈیلو اوپر اس کے سر کے عذاب تیز گرم پانی کا
(48) (کہا جائے گا:)چکھ! بے شک تو
(اپنے خیال میں) بڑا معزز مکرم تھا
(49) بلاشبہ یہ
(عذاب) وہ ہے کہ تھے تم اس کی بابت شک کرتے
(50)
#
{43 ـ 50} لما ذَكَرَ يوم القيامة، وأنه يفصِلُ بين عباده فيه؛ ذَكَرَ افتراقهم إلى فريقين: فريقٍ في الجنة، وفريقٍ في السعير، وهم الآثمون بعمل الكفر والمعاصي، وأنَّ طعامهم {شجرة الزَّقُّوم}: شرُّ الأشجار وأفظعُها، وأنَّ طعامها {كالمهل}؛ أي: كالصديد المنتن خبيث الريح والطعم شديد الحرارة، {يَغْلي في} بطونهم {كغَلْي الحميم}، ويُقال للمعذَّب: {ذُقْ}: هذا العذاب الأليم والعقاب الوخيم، {إنَّك أنتَ العزيزُ الكريمُ}؛ أي: بزعمك أنك عزيزٌ ستمتنع من عذاب الله، وأنك كريم على الله لا يصيبُك بعذابٍ؛ فاليوم تبيَّن لك أنَّك أنت الذَّليل المهان الخسيس. {إنَّ هذا} العذاب العظيم، {ما كنتُم به تمترونَ}؛ أي: تشكُّون؛ فالآن صار عندكم حقَّ اليقين.
[50-43] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کا ذکر فرمایا نیز یہ بھی واضح فرمایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا، تو اس کے بعد فرمایا کہ بندے دو گروہوں میں تقسیم ہوں گے، ان میں سے ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں اور جہنم میں جانے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کیا اور
﴿اِنَّ﴾ ’’بے شک‘‘ ان کا کھانا
﴿شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ﴾ ’’زقوم کا درخت ہو گا‘‘ جو بدترین اور سب سے گندا درخت ہے۔ اس درخت کا ذائقہ
﴿كَالْ٘مُهْلِ ﴾ بدبودار پیپ کے مانند ہے، جس کی بو اور ذائقہ انتہائی گندا اور وہ سخت گرم ہو گا۔وہ ان کے پیٹوں میں اس طرح جوش کھائے گا۔
﴿ كَ٘غَ٘لْیِ الْحَمِیْمِ ﴾ ’’جس طرح کھولتا ہوا پانی جوش کھاتا ہے۔‘‘
عذاب میں گرفتار مجرم سے کہا جائے گا
﴿ذُقْ ﴾ اس دردناک عذاب اور بدترین سزا کا مزا چکھ
﴿اِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ الْكَرِیْمُ ﴾ ’’تو اپنے آپ کو بڑا معزز اور شریف سمجھتا تھا۔‘‘ یعنی تو اپنے زعم کے مطابق بہت زبردست اور طاقت ور تھا اور سمجھتا تھا کہ تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے گا اور تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو بہت باعزت سمجھتے ہوئے خیال کرتا تھا کہ وہ تجھے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا۔ پس آج تجھ پر واضح ہو گیا کہ تو انتہائی ذلیل و رسوا ہے۔
﴿اِنَّ هٰؔذَا ﴾ بے شک یہ عذاب عظیم وہ ہے
﴿مَا كُنْتُمْ بِهٖ تَمْتَرُوْنَ ﴾ جس کے بارے میں تم شک کیا کرتے تھے، اب تمھیں اس کے بارے میں حق الیقین حاصل ہو گیا۔
{إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ (51) فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (52) يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَ (53) كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (54) يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ (55) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (56) فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (57) فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (58) فَارْتَقِبْ إِنَّهُمْ مُرْتَقِبُونَ (59)}
بے شک متقین امن چین کی جگہ میں ہوں گے
(51) باغات میں اور چشموں میں
(52) پہنیں گے وہ باریک ریشم اور گاڑھا ریشم آمنے سامنے بیٹھے ہوئے
(53) اسی طرح ہو گا، اور بیویاں بنا دیں گے ہم ان کی موٹی آنکھوں والی حوروں کو
(54) طلب کریں گے وہ اس میں ہر قسم کا پھل اطمینان سے
(55) نہیں چکھیں گے وہ اس میں موت
(کی تلخی) ، سوائے پہلی موت
(کی تلخی) کے اور بچایا اس
(اللہ) نے ان کو عذاب دوزخ سے
(56) فضل کی وجہ سے آپ کے رب کی طرف سے، یہی ہے کامیابی بڑی
(57) پس بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا اس
(قرآن) کو آپ کی زبان میں، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
(58) پس آپ انتظار کیجیے! بلاشبہ وہ بھی انتظار کرنے والے ہیں
(59)
#
{51 ـ 53} هذا جزاءُ المتَّقين لله، الذي اتَّقوا سَخَطه وعذابه بتركهم المعاصي وفعلهم الطاعات، فلمَّا انتفى السخط عنهم والعذابُ؛ ثبت لهم الرِّضا من الله والثواب العظيم في ظلٍّ ظليل من كثرة الأشجار والفواكه، وعيونٍ سارحةٍ تجري من تحتهم الأنهار يفجِّرونها تفجيراً، في جنات النعيم، فأضاف الجناتِ إلى النعيم؛ لأن كُلَّ ما اشتملت عليه، كله نعيمٌ وسرورٌ كامل من كلِّ وجهٍ، ما فيه منغصٌ ولا مكدرٌ بوجه من الوجوه، ولباسُهم من الحرير الأخضر من السندس والإستبرق؛ أي: غليظ الحرير ورقيقه ممَّا تشتهيهُ أنفسُهم، {متقابلين}: في قلوبهم ووجوههم في كمال الراحة والطمأنينة والمحبَّة والعشرة الحسنة والآداب المستحسنة.
[53-51] یہ تقویٰ شعار لوگوں کی جزا ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے ڈر کر گناہوں کو ترک کیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جب ان سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کی نفی ہوگئی تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا ثابت ہو گئی۔ نیز ثواب عظیم کے طور پر انھیں بے شمار درختوں کے گھنے سائے، پھل اور چشمے عطا ہوں گے، ان درختوں کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جن کو اہل ایمان نعمتوں بھری جنت میں اپنے لیے نکال لیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جنت کی اضافت نعمتوں کی طرف کی ہے، کیونکہ جنت جن چیزوں پر مشتمل ہے وہ سب نعمتیں ہیں جو ہر لحاظ سے کامل ہوں گی اور کسی طرح بھی ان میں کوئی رکاوٹ اور کسی قسم کا کوئی تکدر نہ ہو گا۔ جنت کے اندر ان کے لیے سبز ریشم اور اطلس کے لباس ہوں گے، یعنی ان کے من پسند دبیز اور باریک ریشم کے لباس ہوں گے۔
﴿مُّتَقٰبِلِیْ٘نَ﴾ یعنی مکمل راحت، اطمینان، محبت، حسن معاشرت اور بہترین آداب کے ساتھ، ان کے دل اور چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔
#
{54} {كذلك}: النعيم التام والسرور الكامل، {وزوَّجْناهم بحورٍ} ؛ أي: نساء جميلات من جمالهنَّ وحسنهنَّ أنَّه يَحارُ الطرفُ في حسنهنَّ، وينبهر العقل بجمالهنَّ وينخلبُ اللبُّ لكمالهن، {عينٍ}؛ أي: ضخام الأعين حسانها.
[54] ﴿كَذٰلِكَ ﴾ یہ نعمت تامہ اور سرور کامل اسی طرح ہوں گے۔
﴿وَزَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ ﴾ اور حسین و جمیل عورتوں کے ساتھ ہم ان کا نکاح کریں گے، جن کے حسن کی وجہ سے نگاہیں حیرت زدہ، ان کے جمال کو دیکھ کر عقل مبہوت اور ان کے کمال کو دیکھ کر خرد فریفتہ ہو جائے گی۔
﴿عِیْنٍ﴾ یعنی وہ بڑی بڑی اور خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی۔
#
{55} {يَدْعون فيها}: أي: الجنة {بكلِّ فاكهةٍ}: مما له اسمٌ في الدُّنيا ومما لا يوجدُ له اسمٌ ولا نظير في الدنيا؛ فمهما طلبوه من أنواع الفاكهة وأجناسها؛ أحضر لهم في الحال من غير تعبٍ ولا كلفةٍ، آمنين من انقطاع ذلك، وآمنين من مضرَّته، وآمنين من كلِّ مكدِّر، وآمنين من الخروج منها والموت.
[55] ﴿یَدْعُوْنَ فِیْهَا﴾ ’’وہ اس میں منگوائیں گے۔‘‘ یعنی جنت کے اندر
﴿بِكُ٘لِّ فَاكِهَةٍ ﴾ ہر قسم کا پھل جن میں سے بعض کا تو دنیا میں نام ہے اور بعض کا دنیا میں نام ہے نہ نظیر ہے۔ وہ جب کبھی بھی انواع و اقسام کے پھل اور میوے طلب کریں گے، ان کے سامنے بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے حاضر کر دیے جائیں گے۔
﴿اٰمِنِیْنَ﴾ وہ ان پھلوں کے ختم ہونے اور ان کے کسی ضرر کے خوف سے مامون، ہر قسم کے تکدر سے پاک اور جنت سے نکالے جانے اور موت سے محفوظ ہوں گے۔
#
{56} ولهذا قال: {لا يذوقون فيها الموتَ إلاَّ الموتةَ الأولى}؛ أي: ليس فيها موتٌ بالكلِّية، ولو كان فيها موتٌ يُستثنى؛ لم يستثنِ الموتةَ الأولى التي هي الموتة في الدنيا، فتمَّ لهم كلُّ محبوب مطلوب، {ووقاهم عذابَ الجحيم}.
[56] ﴿لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ﴾ ’’وہ وہاں پہلی موت کے علاوہ کسی موت کا ذائقہ نہیں چکھیں گے۔‘‘جنت میں بالکل موت نہیں آئے گی، اگر جنت میں کوئی موت اس آیت کریمہ سے مستثنیٰ ہوتی تو اللہ تعالیٰ پہلی موت، جو دنیا کی موت ہے، مستثنیٰ قرار نہ دیتا۔ پس جنت میں ان کے لیے ہر محبوب و مطلوب کی تکمیل ہوگی۔
﴿وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۰۰ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے گا۔‘‘
#
{57} {فضلاً من ربِّك}؛ أي: حصول النعيم واندفاع العذاب عنهم من فضل الله عليهم وكرمِهِ؛ فإنَّه تعالى هو الذي وفَّقهم للأعمال الصالحة، التي بها نالوا خير الآخرة وأعطاهم أيضاً ما لمْ تبلُغْه أعمالُهم. {ذلك هو الفوزُ العظيمُ}: وأيُّ فوزٍ أعظمُ من نيل رضوان الله وجنَّته والسلامة من عذابه وسخطِهِ.
[57] ﴿فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’یہ آپ کے رب کا فضل ہوگا۔‘‘ یعنی نعمتوں کا حاصل ہونا اور عذاب کا دور ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ آخرت کی بھلائی سے سرفراز ہوئے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ کچھ عطا کیا جو ان کے اعمال کی پہنچ سے باہر تھا۔
﴿ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی جنت سے بہرہ مند ہونے اور اس کی ناراضی اور عذاب سے سلامت رہنے سے بڑھ کر کون سی کامیابی ہو سکتی ہے؟
#
{58} {فإنما يَسَّرْناه}؛ أي: القرآن {بلسانِكَ}؛ أي: سهَّلْناه بلسانك الذي هو أفصحُ الألسنةِ على الإطلاق وأجلُّها، فتيسر به لفظه، وتيسر به معناه، {لعلَّهم يتذكَّرون}: ما فيه نفعُهم فيفعلونَه، وما فيه ضررُهم فيترُكونه.
[58] ﴿فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ ﴾ ’’پس ہم نے اس
(قرآن) کو آسان بنایا۔‘‘
﴿بِلِسَانِكَ ﴾ ’’آپ کی زبان میں۔‘‘ یعنی ہم نے اسے آپ کی زبان کے ذریعے سے سہل بنایا جو علی الاطلاق فصیح ترین اور جلیل ترین زبان ہے، اس کے الفاظ اور معانی نہایت آسان ہیں۔
﴿لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘ کہ وہ ان فوائد پر غور کریں اور جس کام میں ان کا نفع ہے، وہ کر لیں اور جس میں ضرر ہے، وہ ترک کر دیں۔
#
{59} {فارتَقِبْ}؛ أي: انتظرْ ما وعدك ربُّك من الخير والنصر. {إنَّهم مرتقبونَ}: ما يحلُّ بهم من العذاب، وفرقٌ بين الارتقابين: رسول الله وأتباعه يرتقبون الخير في الدُّنيا والآخرة، وضدُّهم يرتقبون الشرَّ في الدُّنيا والآخرة.
[59] ﴿فَارْتَقِبْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ جس بھلائی اور نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا انتظار کیجیے۔
﴿اِنَّهُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ ﴾ وہ بھی اس عذاب کے منتظر ہیں، جو ان پر نازل ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کے انتظار میں فرق کیا ہے۔ رسول اللہ e دنیا اور آخرت کی بھلائی کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے برعکس کفار دنیا و آخرت کے شر کا انتظار کرتے ہیں۔