(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{حم (1) عسق (2) كَذَلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (3) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (4) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (5) وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (6) وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (7) وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُمْ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (8) أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (9)}.
حٰمٓ
(1)عٓسٓقٓ
(2) اسی طرح وحی کرتا ہے آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے
(تھے) اللہ زبردست، خوب حکمت والا
(3) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہ بلند ہے خوب عظمت والا
(4) قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اپنے اوپر سے، اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور مغفرت مانگتے ہیں ان کے لیے جو زمین میں ہیں، خبردار! بلاشبہ اللہ، وہی ہے بڑا بخشنے والا نہایت مہربان
(5) اور وہ لوگ جنھوں نے بنا لیے اس کے سوا
(دوسرے) کارساز، اللہ نگہبان ہے ان پر اور نہیں ہیں آپ ان پر نگران
(6) اور اسی طرح وحی کی ہم نے آپ کی طرف ایک قرآن عربی کی، تاکہ ڈرائیں آپ مکہ
(والوں)کو اور ان کو جو ارد گرد ہیں اس کےاور ڈرائیں آپ جمع ہونے کے دن سے کہ نہیں ہے شک جس میں، ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک گروہ بھڑکنے والی آگ میں
(7) اور اگر چاہتا اللہ تو یقیناً کر دیتا ان
(سب)کو امت ایک ہی اور لیکن داخل کرتا ہے وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں اور ظالم، نہیں ہے ان کے لیے کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار
(8) کیا بنا لیے انھوں نے اس کے سوا
(دوسرے)کارساز؟ پس اللہ ہی ہے کارساز اور وہی زندہ کرے گا مردوں کو اور وہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے
(9)
#
{1 ـ 5} يخبر تعالى أنَّه أوحى هذا القرآن العظيم على النبيِّ الكريم كما أوحى إلى مَنْ قبلَه من الأنبياء والمرسلين؛ ففيه بيانُ فضلِهِ بإنزال الكتبِ وإرسال الرُّسل سابقاً ولاحقاً، وأنَّ محمداً - صلى الله عليه وسلم - ليس ببدع من الرسل، وأنَّ طريقَته طريقةُ مَنْ قبلَه، وأحوالَه تناسِبُ أحوالَ مَن قبلَه من المرسلين، وما جاء به يشابِهُ ما جاؤوا به؛ لأنَّ الجميع حقٌّ وصدقٌ، وهو تنزيلُ من اتَّصف بالألوهيَّة والعزَّة العظيمة والحكمة البالغةِ، وأنَّ جميع العالم العلويِّ والسفليِّ مُلْكُه وتحت تدبيرِهِ القدريِّ والشرعيِّ، وأنَّه {العليُّ} بذاتِهِ وقدرِهِ وقهرِهِ. {العظيم}: الذي من عظمتِهِ {تكادُ السمواتُ يتفطَّرْنَ من فوقِهِنَّ}: على عظمها وكونها جماداً، {والملائكةُ}: الكرامُ المقرَّبون خاضعون لعظمتِهِ مستكينون لعزَّته مذعنون بربوبِيَّته، {يسبِّحونَ بحمد ربِّهم}: ويعظِّمونه عن كل نقص، ويصِفونه بكل كمال، {ويستغفرونِ لِمَن في الأرض}: عما يصدُرُ منهم مما لا يليقُ بعظمة ربِّهم وكبريائِهِ، مع أنَّه تعالى {الغفورُ الرحيمُ}: الذي لولا مغفرتُه ورحمتُه؛ لعاجَلَ الخلقَ بالعقوبةِ المستأصِلَةِ.
وفي وصفِهِ تعالى بهذه الأوصاف بعد أن ذَكَرَ أنَّه أوحى إلى الرسل كلهم عموماً وإلى محمدٍ ـ صلى الله عليهم وسلم ـ خصوصاً إشارةٌ إلى أنَّ هذا القرآن الكريم فيه من الأدلةُ والبراهينُ والآياتُ الدالَّةُ على كمال الباري تعالى ووصفِهِ بهذه الأسماء العظيمة الموجبة لامتلاءِ القلوب من معرفتِهِ ومحبتِه وتعظيمِه وإجلالِه وإكرامِه وصرف جميع أنواع العبوديَّة الظاهرة والباطنة له تعالى، وأنَّ من أكبر الظُّلم وأفحش القول اتِّخاذ أندادٍ من دونِهِ، ليس بيدِهِم نفعٌ ولا ضرٌّ ، بل هم مخلوقون مفتقرون إلى الله في جميع أحوالهم.
[5-1] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے یہ قرآن عظیم، نبی کریم e کی طرف وحی کیا ہے جس طرح آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی کی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا ذکر ہے کہ اس نے گزشتہ زمانوں میں اور بعد میں آنے والے زمانوں میں کتابیں نازل کیں اور انبیاء و رسل مبعوث کیے۔ نیز یہ کہ محمد مصطفیe کوئی انوکھے رسول نہیں۔ آپ کا طریقہ وہی ہے جو پہلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ تھا۔ آپ کے احوال، گزشتہ انبیاء کے احوال سے مناسبت رکھتے ہیں۔ جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں، وہ گزشتہ انبیاء کی دعوت سے مشابہت رکھتی ہے کیونکہ ان کی دعوت اور آپ کی دعوت سب حق اور سچ ہے۔ اور یہ کتابیں اسی ہستی کی طرف سے نازل کی گئی ہیں، جو الوہیت، غلبۂ عظیم اور حکمت بالغہ سے موصوف ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر قدری اور تدبیر شرعی کے تحت ہیں۔
﴿الْ٘عَلِیُّ ﴾ وہ اپنی ذات، اپنی قدرت اور اپنے قہروغلبہ کے ساتھ بلند ہے
﴿ الْعَظِيْمُ ﴾’’وہ عظمت والا ہے۔‘‘ جس کی عظمتِ شان سے
﴿تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ ﴾ ’’قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں۔‘‘ باوجود اپنی عظمت اور مضبوطی کے
﴿وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ اور مکرم و مقرب فرشتے اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں، اس کے غلبہ کے سامنے عاجز اور اس کی ربوبیت کے سامنے مطیع اور فروتن ہیں۔
﴿یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اس کی تعظیم اور ہر نقص سے اس کی تنزیہ کرتے ہیں۔ اور ہر صفت کمال سے اسے متصف قرار دیتے ہیں۔
﴿وَیَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور جو زمین میں ہیں ان کے لیے وہ مغفرت طلب کرتے ہیں۔‘‘ ان سے جو ایسی باتیں صادر ہوتیں ہیں، جو ان کے رب کی عظمت اور کبریائی کے لائق نہیں، اس پر ان کے لیے بخشش مانگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
﴿هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’اللہ ہی بڑا بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ اگر اس کی مغفرت اور رحمت نہ ہوتی تو مخلوق پر فورا عذاب بھیج دیتا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا۔
اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و مرسلین کو عام طور پر اور نبی مصطفیٰ محمد e پر خاص طور پر وحی بھیجی، ان اوصاف سے اپنے آپ کو موصوف کرنے میں، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس قرآن کریم میں ایسے دلائل و براہین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال، اس کے ان اسمائے عظیم سے اپنے آپ کو موصوف کرنے پر دلالت کرتے ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ قلوب اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کی تعظیم اور اس کے جلال و اکرام سے لبریز ہوں، اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبودیت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے ہم سر بنانا، جن کے ہاتھ میں کوئی نفع و نقصان نہیں، سب سے بڑا ظلم اور قبیح ترین قول ہے۔ یہ خود ساختہ ہم سر و معبود تو محض مخلوق ہیں اور اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔
#
{6} ولهذا عقَّبه بقوله: {والذين اتَّخذوا من دونِهِ أولياءَ}: يتولَّوْنَهم بالعبادة والطاعة؛ كما يعبدون الله ويطيعونَه؛ فإنَّما اتَّخذوا الباطلَ، وليسوا بأولياءٍ على الحقيقة. {اللهُ حفيظٌ عليهم}: يحفظُ عليهم أعمالَهم فيجازيهم بخيرها وشرِّها، {وما أنت عليهم بوكيل}: فتسألُ عن أعمالهم، وإنَّما أنت مبلغٌ أديتَ وظيفتَك.
[6] بنا بریں اس کے بعد فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؔ﴾ ’’اور جنھوں نے اس کے سوا کارساز بنا رکھے ہیں۔‘‘ ان کی اس طرح عبادت اور اطاعت کرتے ہیں، جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرتے ہیں۔ یہ خود ساختہ معبود حقیقت میں والی اور مددگار نہیں ہیں۔ ان مشرکین نے محض باطل کو اختیار کر رکھا ہے۔
﴿اللّٰهُ حَفِیْؔظٌ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اللہ ان پر نگران ہے۔‘‘ وہ ان کے اعمال کو
(ان کے نامۂ اعمال) میں محفوظ کرتا ہے۔ سو وہ ان کے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا۔
﴿وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَؔكِیْلٍ ﴾ اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں۔‘‘ کہ آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے۔ آپ تو صرف پہنچا دینے والے ہیں اور آپ نے اپنا فرض پورا کر دیا۔
#
{7} ثم ذكر منَّته على رسوله وعلى الناس حيث أنزل اللهُ {قرآناً عربيًّا} بيِّنَ الألفاظِ والمعاني، {لتنذرَ أمَّ القرى}: وهي مكةُ المكرمةُ، {ومَنْ حولَها}: من قُرى العرب، ثم يسري هذا الإنذارُ إلى سائرِ الخَلْق، {وتنذرَ}: الناس {يوم الجَمْع}: الذي يجمعُ الله به الأوَّلين والآخرين، وتخبِرُهم أنَّه {لا ريبَ فيه}، وأنَّ الخلق ينقسمون فيه فريقينِ: فريقًا {في الجنة}: وهم الذين آمنوا بالله وصدَّقوا المرسلين، وفريقًا {في السعيرِ}: وهم أصنافُ الكفرة المكذِّبين.
[7] پھر اللہ تعالیٰ اپنے رسول e اور لوگوں پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے نازل کیا ہے
﴿قُ٘رْاٰنًا عَرَبِیًّا ﴾ ’’عربی قرآن ۔‘‘ جو اپنے الفاظ و معانی میں واضح ہے۔
﴿لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْ٘قُ٘رٰى ﴾ ’’تاکہ آپ اہلِ مکہ کو ڈرائیں۔‘‘ اس سے مکہ مکرمہ ہی مراد ہے۔
﴿وَمَنْ حَوْلَهَا ﴾ اور جو مکہ مکرمہ کے ارد گرد عرب بستیاں ہیں اور پھر یہ ڈرانا تمام مخلوق کو شامل ہوجاتا ہے۔
﴿وَتُنْذِرَ ﴾ تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں
﴿یَوْمَ الْ٘جَمْعِ ﴾ اس دن سےجس میں اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو جمع کرے گا۔ اور انھیں آگاہ کیجیے کہ
﴿لَا رَیْبَ فِیْهِ ﴾ اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں اور اس دن تمام مخلوق دو گروہوں میں تقسیم ہو گی۔
﴿فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ ﴾ ’’ایک گروہ جنت میں ہوگا۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انھوں نے انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی
﴿وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ﴾ ’’اور ایک گروہ آگ میں ہوگا۔‘‘ یہ لوگ کفار اور اہل تکذیب کی تمام اصناف پر مشتمل ہیں۔
#
{8} {و} مع هذا فلو شاءَ اللهُ لَجَعَلَ الناس {أمَّةً واحدةً}: على الهدى؛ لأنَّه القادر الذي لا يمتنع عليه شيء، ولكنه أراد أن يُدْخِلَ في رحمتِهِ مَنْ شاء من خواصِّ خلقِهِ، وأمَّا الظالمون الذين لا يَصْلُحون لصالح؛ فإنَّهم محرومون من الرحمة؛ فما لهم من دون الله من وليٍّ يتولاَّهم فيحصِّلُ لهم المحبوب، ولا نصيرٍ يدفعُ عنهم المكروهَ.
[8] ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ بایں ہمہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو بنا دیتا تمام لوگوں کو
﴿اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’ایک امت ‘‘ جو راہ ہدایت پر چلتی کیونکہ وہ قادر مطلق ہے، کسی چیز کو اس کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں مگر اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی مخلوق کے خاص بندوں میں سے جسے چاہے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔ رہے ظالم لوگ جن سے کوئی نیکی نہیں ہوتی تو وہ اس کی رحمت سے محروم رہیں گے۔
﴿مَا لَهُمْ﴾ ’’نہیں ہے ان کے لیے۔‘‘ اللہ کے سوا
﴿ مِّنْ وَّلِیٍّ ﴾’’کوئی کارساز۔‘‘ جو ان کی مدد کر سکے اور اس طرح ان کو اپنا محبوب و مرغوب مقصد حاصل ہو سکے۔
﴿وَّلَا نَصِیْرٍ ﴾ ’’اور نہ کوئی مددگار ہو گا۔‘‘، جو ان سے کسی تکلیف دہ امر کو دور کر سکے۔
#
{9} والذين اتَّخذوا من دونه أولياءَ يتولَّوْنهم بعبادتِهم إيَّاهم؛ فقد غلطوا أقبح غلط؛ {فالله هو الوليُّ} الذي يتولاَّه عبدُه بعبادته وطاعته والتقرُّب إليه بما أمكن من أنواع التقرُّبات، ويتولَّى عباده عموماً بتدبيره ونفوذِ القدر فيهم، ويتولَّى عباده المؤمنين خصوصاً بإخراجهم من الظُّلمات إلى النور، وتربيتهم بلطفه، وإعانتهم في جميع أمورهم. {وهو يُحيي الموتى وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ}؛ أي: هو المتصرِّف بالإحياء والإماتة ونفوذِ المشيئة والقدرةِ؛ فهو الذي يستحقُّ أن يُعْبَدَ وحدَه لا شريك له.
[9] ﴿اَمِ اتَّؔخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ﴾ ’’کیا ان لوگوں نے دوسروں کو اپنا کارساز بنا رکھا ہے؟‘‘ جو ان کی عبادت کے ذریعے سے ان کو اپنا مددگار بناتے ہیں، وہ قبیح ترین غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی والی و مددگار ہے، اس کا بندہ اس کی عبادت و اطاعت اور ہر ممکن وسیلۂ تقرب کے ذریعے سے اس کو اپنا سرپرست بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ عمومی طور پر تمام بندوں کا اپنی تدبیر اور ان پر قدرت کے نفاذ کے ذریعے سے سرپرست ہے اور خاص طور پر اپنے مومن بندوں کی اس طرح سرپرستی فرماتا ہے کہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اپنے لطف و کرم سے ان کی تربیت کرتا اور تمام امور میں ان پر اپنی اعانت کا فیضان کرتا ہے۔
﴿وَهُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰى ١ٞ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’اور وہی مردے زندہ کرے گا اور وہی ہر چیز پر قارد ہے۔‘‘ یعنی زندگی و موت اور نفوذ مشیت و قدرت میں وہی تصرف کرتا ہے اور وہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (10) فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (11) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (12)}.
اور جو کچھ کہ اختلاف کیا تم نے اس میں کسی چیز سے تو فیصلہ اس کا اللہ کی طرف ہے، یہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
(10) (وہ) پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا، بنائے اس نے تمھارے لیے تمھارے ہی نفسوں سے جوڑے اور چوپاؤ ں سے بھی
(ان کے) جوڑے، پھیلاتا ہے وہ تم کو اس میں، نہیں ہے اس کی مثل کوئی چیز اور وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
(11) اسی کے لیے ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین کی وہ کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اور وہی تنگ کرتا ہے، بلاشبہ وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
(12)
#
{10} يقول تعالى: {وما اختلفتُم فيه من شيءٍ}: من أصول دينِكم وفروعِهِ مما لم تتَّفقوا عليه {فحكمُهُ إلى الله}: يُرَدُّ إلى كتابِهِ وإلى سنَّة رسوله؛ فما حكما به؛ فهو الحقُّ، وما خالف ذلك؛ فباطلٌ. {ذلكم الله ربِّي}؛ أي: فكما أنَّه تعالى الربُّ الخالق الرازق المدبِّر؛ فهو تعالى الحاكمُ بين عبادِهِ بشرعِهِ في جميع أمورهم. ومفهومُ الآية الكريمة أنَّ اتِّفاق الأمَّة حجَّةٌ قاطعةٌ؛ لأنَّ الله تعالى لم يأمُرْنا أن نَرُدَّ إليه إلاَّ ما اخْتَلَفْنا فيه؛ فما اتَّفقنا عليه يكفي اتِّفاق الأمة عليه؛ لأنَّها معصومةٌ عن الخطأ، ولا بدَّ أن يكون اتِّفاقها موافقاً لما في كتاب الله وسنَّة رسوله. وقوله: {عليه توكلتُ}؛ أي: اعتمدتُ بقلبي عليه في جَلْب المنافع ودَفْع المضارِّ، واثقاً به تعالى في الإسعاف بذلك، {وإليه أنيبُ}؛ أي: أتوجَّه بقلبي وبدني إليه وإلى طاعته وعبادتِهِ، وهذان الأصلان كثيراً ما يذكُرُهما الله في كتابِهِ؛ لأنَّهما يحصُلُ بمجموعهما كمال العبدِ، ويفوتُهُ الكمال بفَوْتِهِما أو فَوْتِ أحدِهما؛ كقوله تعالى: {إيَّاك نعبدُ وإيَّاكَ نستعينُ}، وقوله: {فاعبُدْه وتوكَّلْ عليه}.
[10] ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ مِنْ شَیْءٍ ﴾ ’’اور جن باتوں میں تم آپس میں اختلاف رکھتے ہو۔‘‘ یعنی اپنے دین کے اصول و فروع میں اگر تم ایک دوسرے سے متفق نہ ہو۔
﴿فَحُكْمُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ تو اسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف لوٹایا جائے وہ دونوں جو فیصلہ کریں، وہی حق ہے اور جو ان دونوں کے خلاف ہو، وہ باطل ہے۔
﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّیْ ﴾ ’’یہی اللہ میرا رب ہے۔‘‘ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کا رب، خالق، رازق اور مدبر ہے، اسی طرح وہ اپنے بندوں کے درمیان ان کے تمام امور میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ کسی امر پر اتفاقِ امت حجتِ قطعی ہے کیونکہ جن امور میں ہمارے درمیان اختلاف نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ تب معلوم ہوا کہ جس چیز پر ہم اتفاق کریں تو امت کا اتفاق، اس کے حق ہونے کی دلیل کے لیے کافی ہے کیونکہ امت مجموعی طور پر معصوم عن الخطا ہے۔ اس لیے یہ لازمی امر ہے کہ کسی مسئلہ پر امت کا اتفاق، کتاب و سنت کے موافق ہو۔
﴿عَلَیْهِ تَوَؔكَّلْتُ ﴾ ’’میں نے اسی پر بھروسا کیا۔‘‘ جلب منفعت، دفع مضرت اور اپنی حاجت کے پورا ہونے کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ اسی پر اعتماد کرتا ہوں
﴿وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ ﴾ اور میں اپنے دل و جان سے اس کی طرف اور اس کی عبادت و اطاعت کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔یہ دو ایسے اصول ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب عظیم میں نہایت کثرت سے ذکر فرماتا ہے،
کیونکہ ان دونوں کے جمع ہونے سے بندۂ مومن کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے نہ ہونے یا ان میں سے کسی ایک سے محروم ہونے سے بندۂ مومن کمال سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِیَّ٘اكَ نَعْبُدُ وَاِیَّ٘اكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ:1؍4) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد کے طلب گار ہیں‘‘ اور فرمایا:
﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِ ﴾ (ہود:11؍123) ’’اس کی عبادت کیجیے اور اس پر بھروسہ کیجیے۔‘‘
#
{11} {فاطرُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: خالقُهما بقدرتِهِ ومشيئتِهِ وحكمتِهِ. {جَعَلَ لكم من أنفسِكم أزواجاً}: لتَسْكنوا إليها وتنتشرَ منكم الذُّرِّيَّة ويحصُلُ لكم من النفع ما يحصُل، {ومن الأنعام أزواجاً}؛ أي: ومن جميع أصنافِها نوعين ذكراً وأنثى؛ لتبقى وتنمو لمنافعكم الكثيرة، ولهذا عدَّاها باللام الدالَّة على التعليل؛ أي: جعل ذلك لأجلكم ولأجل النِّعمة عليكم، ولهذا قال: {يذرؤُكم فيه}؛ أي: يبثُّكم ويكثركم ويكثر مواشيكم بسبب أن جعل لكم من أنفسكم، وجعل لكم من الأنعام أزواجاً. {ليس كمثلِهِ شيءٌ}: أي: ليس يشبِهُه تعالى ولا يماثِلُه شيء من مخلوقاتِهِ لا في ذاته ولا في أسمائِهِ ولا في صفاتِهِ ولا في أفعالِهِ؛ لأنَّ أسماءه كلَّها حسنى، وصفاتِهِ صفاتُ كمال وعظمة، وأفعالَه تعالى أوجد بها المخلوقاتِ العظيمةَ من غير مشارك؛ فليس كمثله شيءٌ؛ لانفرادِهِ وتوحُّده بالكمال من كلِّ وجه. {وهو السميعُ}: لجميع الأصوات، باختلاف اللغات، على تفنُّن الحاجات. {البصير}: يرى دبيبَ النملة السوداء، في الليلة الظلماء، على الصخرة الصمَّاء، ويرى سَرَيانَ القوتِ في أعضاء الحيوانات الصغيرةِ جدًّا، وسريانَ الماء في الأغصان الدقيقة.
وهذه الآية ونحوها دليلٌ لمذهب أهل السنة والجماعة من إثبات الصفاتِ ونفي مماثلة المخلوقات، وفيها ردٌّ على المشبِّهة في قوله: {ليس كمثلِهِ شيءٌ}، وعلى المعطِّلة في قوله: {وهو السميعُ البصيرُ}.
[11] ﴿فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت، مشیت اور حکمت سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔
﴿جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ﴾ ’’اسی نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے بنائے۔‘‘ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو، تمھاری نسل بڑھ سکے اور تمھیں فائدہ حاصل ہو
﴿وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا ﴾ ’’اور چوپایوں کے جوڑے بنائے۔‘‘ تمام اصناف سے نر اور مادہ دونوں اقسام بنائیں تاکہ ان کی نسل باقی رہ کر بڑھتی رہے اور تمھاری بہت سی ضرورتیں پوری ہوں۔ اس لیے اس کو ’’لام‘‘ کے ذریعے سے متعدی بنایا ہے، جو تعلیل پر دلالت کرتا ہے، یعنی اس نے یہ جوڑے تمھارے لیے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کے لیے بنائے ہیں ،
اس لیے فرمایا: ﴿یَذْرَؤُكُمْ فِیْهِ ﴾ یعنی وہ تمھیں پھیلاتا اور بڑھاتا ہے اور تمھارے مویشیوں کو بھی بڑھاتا ہے، اس طریقے سے کہ اس نے تمھارے لیے تم میں سے تمھارے جوڑے بنائے اور تمھارے لیے تمھارے مویشیوں کے جوڑے بنائے۔
﴿لَ٘یْسَ كَمِثْلِهٖ٘ شَیْءٌ ﴾ ’’ کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔‘‘ یعنی اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی ذات میں، اس کے اسماء میں، اس کی صفات میں اور اس کے افعال میں مشابہت رکھتی ہے نہ مماثلت کیونکہ اس کے تمام اسماء، اسمائے حسنیٰ ہیں اور اس کی تمام صفات، صفات کمال و عظمت ہیں۔ اس نے اپنے افعال کے ذریعے سے اتنی بڑی کائنات کو بغیر کسی مددگار کے وجود بخشا۔ پس اس جیسی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اپنے کمال میں واحد اور متفرد ہے۔
﴿وَهُوَ السَّمِیْعُ ﴾ ’’اور وہ خوب سننے والا ہے۔‘‘ یعنی مخلوقات کی مختلف زبانوں اور متنوع حاجات کے باوجود وہ سب کی آوازیں سنتا ہے
﴿الْبَصِیْرُ ﴾ ’’خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ وہ سیاہ رات میں، ٹھوس پتھر پر سیاہ چیونٹی کے رینگنے کو بھی دیکھتا ہے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے حیوان کے جسم میں سرایت کرتی ہوئی خوراک اور درخت کی باریک سے باریک ٹہنی میں سرایت کرتے ہوئے پانی کو بھی دیکھتا ہے۔ یہ آیت کریمہ،
صفات کے اثبات اور مخلوقات سے مماثلت کی نفی کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کے مذاہب پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد: ﴿لَ٘یْسَ كَمِثْلِهٖ٘ شَیْءٌ ﴾ میں مشبہہ ’’اہل تشبیہ‘‘ کا رد ہے اور
﴿وَهُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾ میں معطلہ ’’صفاتِ الٰہی کا انکار کرنے والوں‘‘ کا رد ہے۔
#
{12} وقوله: {له مقاليدُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: له ملك السماواتِ والأرضِ، وبيدِهِ مفاتيحُ الرحمةِ والأرزاق والنِّعم الظاهرة والباطنة؛ فكلُّ الخلق مفتقرون إلى الله في جَلْب مصالحهم ودَفْع المضارِّ عنهم في كلِّ الأحوال، ليس بيد أحدٍ من الأمر شيء، والله تعالى هو المعطي المانع الضارُّ النافع، الذي ما بالعباد من نعمةٍ إلاَّ منه، ولا يدفع الشرَّ إلاَّ هو، وما يفتح اللهُ للناس من رحمةٍ فلا ممسكَ لها وما يمسك فلا مرسلَ له من بعدِهِ، ولهذا قال هنا: {يبسُطُ الرزقَ لِمَن يشاءُ}؛ أي: يوسِّعه ويعطيه من أصناف الرزقِ ما شاء، {وَيَقْدِرُ}؛ أي: يضيِّق على مَنْ يشاء حتى يكونَ بقدر حاجتِهِ، لا يزيدُ عنها، وكلُّ هذا تابعٌ لعلمه وحكمتِهِ؛ فلهذا قال: {إنَّه بكلِّ شيءٍ عليمٌ}: فيعلم أحوالَ عبادِهِ، فيعطي كلًّا ما يَليقُ بحكمتِهِ، وتقتضيه مشيئتُه.
[12] ﴿لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی چابیاں ہیں۔‘‘ آسمانوں اور زمین کے اقتدار کا وہی مالک ہے اور اسی کے ہاتھ میں رحمت و رزق اور ظاہری و باطنی نعمتوں کی کنجیاں ہیں۔ تمام مخلوق ہر حال میں جلب مصالح اور دفع ضرر کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں، اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے اور محروم کرتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں نفع و نقصان ہے، بندوں کے پاس جو بھی نعمت ہے،
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے اور اس کے سوا کوئی ہستی شر کو دور نہیں کر سکتی۔ فرمایا: ﴿مَا یَفْ٘تَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَمَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ﴾ (فاطر:35؍2) ’’اللہ لوگوں پر جس رحمت کا دروازہ کھول دے، اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے، اس کے بعد اسے کوئی بھیجنے
(کھولنے) والا نہیں۔‘‘
﴿یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ ﴾ وہ اصناف رزق میں سے جس کے لیے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے کشادہ رزق عطا کرتا ہے
﴿وَیَقْدِرُ ﴾ جس کے لیے چاہتا ہے اس کا رزق تنگ کر دیتا،
یہاں تک کہ اسے صرف بقدر حاجت رزق عطا کرتا ہے اور حاجت سے زیادہ عطا نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ اس کے علم و حکمت کے تابع ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّهٗ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ﴾ ’’وہ اپنے بندوں کے احوال کو خوب جانتا ہے۔‘‘ ہر شخص کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جو اس کی مشیت تقاضا کرتی ہے اور جو اس کی حکمت کے لائق ہے۔
{شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (13)}.
مقرر کیا ہے اس نے تمھارے لیے
(وہ)دین کہ وصیت کی اس نے اس کی نوح کو اور وہ جس کی وحی کی ہم نے آپ کی طرف اور وہ کہ وصیت کی ہم نے اس کی ابراہیم اور موسٰی اور عیسٰی کو، یہ کہ قائم رکھو تم اس دین کو اور نہ جدا جدا ہو تم اس میں، گراں گزرتی ہے مشرکین پر وہ
(بات)کہ بلاتے ہیں آپ ان کو اس کی طرف، اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع کرتا ہے
(13)
#
{13} هذه أكبرُ منَّةٍ أنعم الله بها على عباده أنْ شَرَعَ لهم من الدين خيرَ الأديان وأفضلَها وأزكاها وأطهرَها، دين الإسلام، الذي شَرَعَه الله للمصطَفَيْن المختارين من عباده، بل شَرَعَه الله لخيار الخيار وصفوة الصفوة، وهم أولو العزم من المرسلين، المذكورون في هذه الآية، أعلى الخلق درجة وأكملهم من كلِّ وجه؛ فالدين الذي شرعه الله لهم لا بدَّ أن يكون مناسباً لأحوالهم موافقاً لكمالهم، بل إنَّما كَمَّلَهم الله، واصطفاهم بسبب قيامهم به؛ فلولا الدين الإسلاميُّ؛ ما ارتفع أحدٌ من الخلق؛ فهو روح السعادة وقطبُ رحى الكمال، وهو ما تضمَّنه هذا الكتاب الكريم ودعا إليه من التوحيد والأعمال والأخلاق والآداب. ولهذا قال: {أنْ أقيموا الدِّين}؛ أي: أمركم أن تقيموا جميعَ شرائع الدِّين أصوله وفروعه؛ تقيمونه بأنفسكم، وتجتهدون في إقامته على غيركم، وتعاونون على البرِّ والتَّقوى، ولا تعاونون على الإثم والعدوان، {ولا تتفرَّقوا فيه}؛ أي: ليحصل منكم الاتِّفاق على أصول الدين وفروعه، واحرصوا على أن لا تفرِّقَكم المسائل وتحزِّبَكم أحزاباً، فتكونون شيعاً يعادي بعضُكم بعضاً مع اتِّفاقكم على أصل دينكم.
ومن أنواع الاجتماع على الدين وعدم التفرق فيه ما أمر به الشارعُ من الاجتماعات العامَّة؛ كاجتماع الحجِّ والأعياد والجُمَع والصَّلوات الخمس والجهاد وغير ذلك من العبادات التي لا تتمُّ ولا تَكْمُلُ إلاَّ بالاجتماع لها وعدم التفرُّق. {كَبُرَ على المشركين ما تَدْعوهم إليه}؛ أي: شقَّ عليهم غايةَ المشقَّة؛ حيث دعوتَهم إلى الإخلاص لله وحدَه؛ كما قال عنهم: {وإذا ذُكِرَ اللهُ وحدَه اشمأزَّت قلوبُ الذين لا يؤمنون بالآخرة وإذا ذُكِرَ الذين من دونِهِ إذا هم يستبشرونَ}، وقولهم: {أجَعَلَ الآلهةَ إلهاً واحداً إنَّ هذا لشيءٌ عُجابٌ}. {الله يَجْتبي إليه مَن يشاءُ}؛ أي: يختار من خليقتِهِ مَنْ يعلم أنَّه يَصْلُحُ للاجتباء لرسالتِهِ وولايتِهِ، ومنه أنِ اجْتَبى هذه الأمَّة وفضَّلها على سائر الأمم واختارَ لها أفضلَ الأديان وخيرَها. {ويَهْدي إليه من ينيبُ}: هذا السبب الذي من العبد يتوصَّل به إلى هداية الله تعالى، وهو إنابتُه لربِّه، وانجذابُ دواعي قلبِهِ إليه، وكونُه قاصداً وجهه؛ فحسنُ مقصدِ العبد مع اجتهادِهِ في طلب الهدايةِ من أسباب التيسير لها؛ كما قال تعالى: {يَهْدي بهِ الله من اتَّبَعَ رضوانَه سُبُلَ السلام}.
وفي هذه الآية أنَّ الله {يَهْدي إليه مَن يُنيبُ}، مع قولِهِ: {واتَّبِعْ سبيلَ من أنابَ إليَّ}، مع العلم بأحوال الصحابة رضي الله عنهم وشدَّة إنابتهم: دليلٌ على أنَّ قولهم حجَّة، خصوصاً الخلفاء الراشدين رضي الله عنهم أجمعين.
[13] یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا۔ اس نے ان کے لیے دین اسلام مشروع کیا، جو تمام ادیان میں سب سے افضل اور سب سے پاک دین ہے۔ دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چنے ہوئے بندوں کے لیے مشروع کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے چنے ہوئے بندوں میں سے بھی خاص بندوں کے لیے اس دین کو مشروع کیا، جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا، جو ہر لحاظ سے تمام مخلوق میں سب سے کامل اور جن کا درجہ سب سے بلند ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو دین ان کے لیے مشروع فرمایا، ضروری ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مناسب حال اور ان کے کمال کے موافق ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دین کو قائم کرنے کے سبب سے کمال سے سرفراز فرمایا اور اپنے لیے چن لیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو تمام مخلوق میں کوئی بھی بلندی پر نہ پہنچ سکتا۔ اسلام سعادت کی روح اور کمال کی بنیاد ہے۔ اسلام وہی ہے جو اس کتاب کریم میں دیا گیا ہے اور جس کی طرف یہ کتاب دعوت دیتی ہے، یعنی توحید، اعمال صالحہ، مکارم اخلاق اور آداب وغیرہ۔
﴿اَنْ اَ٘قِیْمُوا الدِّیْنَ ﴾ یعنی اس نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم دین کے تمام اصول و فروع کو قائم کرو۔ ان کو خود اپنی ذات پر نافذ کرو، پھر دوسروں پر نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی پر تعاون نہ کرو۔
﴿وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ ﴾ ’’اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ تاکہ تم دین کے اصول و فروع پر متفق رہو۔ اس امر پر پوری توجہ رکھو کہ مسائل تم میں تفرقہ ڈال کر کہیں تمھیں گروہ در گروہ تقسیم نہ کر دیں اور یوں تم ایک دوسرے کے دشمن نہ بن جاؤ باوجودیکہ تمھارا دین ایک ہے۔ دین پر اجتماع اور عدم تفرقہ میں وہ اجتماعات عامہ بھی شامل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ،
مثلاً: حج، عیدین، جمعہ، نماز پنجگانہ اور جہاد وغیرہ ۔ یہ ایسی عبادات ہیں جو اجتماعات اور عدم تفرق کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔
﴿كَبُرَ عَلَى الْ٘مُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِ ﴾ یعنی جب آپ ان کو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بات ان پر بے انتہا شاق گزرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُ٘لُ٘وْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠ ﴾ (الزمر39؍45) ’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ مشرکین کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖ ۚ اِنَّ هٰؔذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ ﴾ (ص:38؍5) ’’کیا اس نے ان سارے معبودوں کی بجائے ایک ہی معبود بنا دیا، یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔‘‘
﴿اَللّٰهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ بنالیتا ہے۔‘‘ اللہ اپنی مخلوق میں ان لوگوں کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت، اس کی ولایت اور اس کی نعمت کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ اس طرح اس نے اس امت کا انتخاب کیا اور اسے تمام امتوں پر فضیلت سے نوازا اور اس کے لیے بہترین دین چنا۔
﴿وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ ’’اور جو اس کی طرف رجوع کرے وہ اسے اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ بندے کی طرف سے یہ سبب جس کے ذریعے سے وہ ہدایت الٰہی کی منزل تک پہنچتا ہے، اپنے رب کی طرف انابت، دلی محرکات کا اس کی طرف میلان اور اپنے رب کی رضا کو اپنا مقصد بنانا یہ تمام اسباب،
طلب ہدایت کے حصول کو آسان بناتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّ٘بَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰ٘مِ ﴾ (المائدہ:5؍16) ’’اس کتاب کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا چاہتے ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں فرمایا:
﴿وَیَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ ﴾ اور فرمایا:
﴿وَّاتَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ﴾ (لقمن:31؍15) ’’اور چلو اس شخص کے طریق پر جو ہماری طرف رجوع کیے ہوئے ہو۔‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں صحابہ کرام کے احوال معلوم ہیں اور ان کی شدت انابت بھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام خاص طور پر خلفائے راشدین کا قول حجت ہے۔
(y)
{وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (14) فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ (15)}.
اور نہ جدا جدا ہوئے وہ، مگر بعد اس کے کہ آ گیا ان کے پاس علم
(محض) سرکشی سے آپس میں، اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے سے
(طے) تھی آپ کے رب کی طرف سے ایک وقت مقرر تک، تو ضرور فیصلہ کر دیا جاتا ان کے درمیان، اور بلاشبہ وہ لوگ جو وارث بنائے گئے اس کتاب کے ان کے بعد، البتہ شک میں ہیں اس کی بابت، جو اضطراب انگیز ہے
(14) پس اسی
(دین) کی طرف آپ بلائیں اور ثابت قدم رہیں جیسے حکم دیا گیا ہے آپ کو اور نہ اتباع کریں ان کی خواہشات کی اور کہہ دیجیے: ایمان لایا میں ساتھ اس کےجو نازل کی اللہ نے کتاب سے، اور حکم دیا گیا ہوں میں کہ انصاف کروں تمھارے درمیان، اللہ رب ہے ہمارا اور رب ہے تمھارا، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال، نہیں کوئی جھگڑا ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان اللہ
(روز قیامت)یکجائی کر دے گا ہمارے درمیان اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
(15)
#
{14} لما أمَرَ تعالى باجتماع المسلمين على دينِهِم، ونهاهم عن التفرُّق؛ أخبرهم أنَّهم لا يَغْتَرُّوا بما أنزل الله عليهم من الكتاب؛ فإنَّ أهل الكتاب لم يتفرَّقوا حتى أنزل الله عليهم الكتابَ الموجبَ للاجتماع، ففعلوا ضدَّ ما يأمر به كتابُهم، وذلك كلُّه بغياً وعدواناً منهم؛ فإنَّهم تباغضوا، وتحاسدوا، وحصلت بينهم المشاحنةُ والعداوةُ، فوقع الاختلافُ؛ فاحذَروا أيُّها المسلمون أن تكونوا مثلهم. {ولولا كلمةٌ سبقتْ من ربِّك}؛ أي: بتأخير العذاب القاضي إلى أجل مسمًّى، {لَقُضِيَ بينهم}: ولكنَّ حكمتَه وحلمه اقتضى تأخيرَ ذلك عنهم. {وإنَّ الذين أُورِثوا الكتابَ من بعدِهم}؛ أي: الذين ورثوهم، وصاروا خَلَفاً لهم ممَّن ينتسب إلى العلم منهم، {لَفي شكٍّ منهُ مريبٍ}؛ أي: لفي اشتباهٍ كثير يوقعُ في الاختلاف؛ حيث اختلف سَلَفُهم بغياً وعناداً؛ فإنَّ خلفهم اختلفوا شكًّا وارتياباً، والجميعُ مشتركون في الاختلاف المذموم.
[14] اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر مجتمع رہنے کا حکم دیا اور تفرقہ سے منع کیا۔ اس کے بعد انھیں خبردار کیا کہ وہ اس بات پر غرور نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتاب نازل فرمائی۔ کیونکہ اہل کتاب نے کتاب نازل ہونے کے بعد جو اجتماع و اتحاد کی موجب تھی، ایک دوسرے سے اختلاف کیا ، لہٰذا ان کا عمل کتاب اللہ کے حکم کے خلاف تھا اور یہ سب کچھ ان کی طرف سے بغاوت اور عدوان کی وجہ سے صادر ہوا۔ کیونکہ انھوں نے آپس میں بغض، کینہ اور حسد کا رویہ رکھا جس سے ان کے درمیان عداوت پیدا ہوئی اور اس طرح اختلاف پیدا ہوا۔ اے مسلمانو! ان جیسا رویہ اختیار کرنے سے بچو۔
﴿وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’اور اگر تمھارے رب کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لیے فیصلہ نہ ٹھہر چکا ہوتا۔‘‘ یعنی فیصلہ کن عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر کر دینے کا فیصلہ
﴿لَّ٘قُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ ﴾ ’’تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔‘‘ مگر اللہ کی حکمت اور اس کا حکم اس تاخیر کے متقاضی تھے۔
﴿وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُ٘وا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﴾ ’’اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے۔‘‘ یعنی علم سے انتساب رکھنے والے لوگ جو ان کے وارث ہوئے اور ان کے جانشین ٹھہرے۔
﴿لَ٘فِیْ شَكٍّ مِّؔنْهُ مُرِیْبٍ ﴾ بہت زیادہ شک و اشتباہ میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان میں اختلاف واقع ہو گیا۔ جہاں ان کے اسلاف نے بغاوت اور عناد کے سبب سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کیا وہاں اخلاف نے بھی شک و ریب کی بنا پر اختلاف کیا۔ اختلاف مذموم میں سب لوگ شریک تھے۔
#
{15} {فلذلك فادعُ}؛ أي: فللدين القويم والصراط المستقيم، الذي أنزل الله به كُتُبَه وأرسل رُسُله؛ فادعُ إليه أمَّتك، وحضَّهم عليه، وجاهد عليه مَنْ لم يقبَلْه. {واستَقِمْ}: بنفسك {كما أمرتَ}؛ أي: استقامةً موافقةً لأمر الله؛ لا تفريط ولا إفراط، بل امتثالاً لأوامر الله، واجتناباً لنواهيه، على وجه الاستمرار على ذلك؛ فأمَرَه بتكميل نفسه بلزوم الاستقامة، وبتكميل غيرِهِ بالدَّعوة إلى ذلك. ومن المعلوم أنَّ أمر الرسولِ - صلى الله عليه وسلم - أمرٌ لأمَّته إذا لم يَرِدْ تخصيصٌ له. {ولا تتَّبِعْ أهواءهم}؛ أي: أهواء المنحرفين عن الدِّين من الكفرة والمنافقين، إمَّا باتِّباعهم على بعض دينهم، أو بترك الدَّعوة إلى الله، أو بترك الاستقامة؛ فإنَّك إن اتَّبعت أهواءهم من بعد ما جاءك من العلم إنَّك إذاً لَمِنَ الظالمين، ولم يقل ولا تتَّبِع دينَهم؛ لأنَّ حقيقة دينهم الذي شَرَعَه الله لهم هو دينُ الرسل كلِّهم، ولكنَّهم لم يتَّبِعوه، بل اتَّبعوا أهواءهم واتَّخذوا دينهم لهواً ولعباً، {وقل}: لهم عند جدالهم ومناظرتهم: {آمنتُ بما أنزلَ اللهُ من كتابٍ}؛ أي: لتكنْ مناظرتُك لهم مبنيةً على هذا الأصل العظيم، الدالِّ على شرف الإسلام وجلالته وهيمنتِهِ على سائر الأديان، وأنَّ الدين الذي يزعُمُ أهل الكتاب أنَّهم عليه جزءٌ من الإسلام، وفي هذا إرشادٌ إلى أنَّ أهل الكتاب إن ناظروا مناظرة مبنيَّة على الإيمان ببعض الكتب أو ببعض الرسل دون غيرِهِ؛ فلا يسلمُ لهم ذلك؛ لأنَّ الكتابَ الذي يدعون إليه والرسولَ الذي ينتسبونَ إليه من شرطِهِ أن يكون مصدِّقاً بهذا القرآن وبمن جاء به؛ فكتابُنا ورسولُنا لم يأمرنا إلاَّ بالإيمان بموسى وعيسى والتوراة والإنجيل التي أخبر بها وصدَّق بها وأخبر أنَّها مصدقة له ومقرَّة بصحته، وأما مجرَّدُ التوراة والإنجيل وموسى وعيسى الذين لم يوصفوا لنا ولم يوافِقوا لكتابِنا؛ فلم يأمرْنا بالإيمان بهم.
وقوله: {وأمِرْتُ لأعدلَ بينكم}؛ أي: في الحكم فيما اختلفتُم فيه؛ فلا تَمْنَعُني عداوتُكم وبُغضكم يا أهل الكتاب من العدل بينكم، ومن العدل في الحكم بين أهل الأقوال المختلفة من أهل الكتاب وغيرهم أن يُقْبَلَ ما معهم من الحقِّ ويردَّ ما معهم من الباطل. {الله ربُّنا وربُّكم}؛ أي: هو ربُّ الجميع، لستم بأحقَّ به منا، {لنا أعمالُنا ولكُم أعمالُكم}: من خيرٍ وشرٍّ، {لا حجَّةَ بيننا وبينكم}؛ أي: بعدما تبيَّنت الحقائق واتَّضح الحقُّ من الباطل والهدى من الضلال؛ لم يبقَ للجدال والمنازعة محلٌّ؛ لأنَّ المقصود من الجدال إنَّما هو بيانُ الحقِّ من الباطل؛ ليهتدي الراشدُ، ولتقومَ الحجةُ على الغاوي. وليس المرادُ بهذا أنَّ أهلَ الكتاب لا يجادَلون، كيف والله يقولُ: {ولا تجادِلوا أهلَ الكتابِ إلاَّ بالتي هي أحسنُ}؟! وإنَّما المرادُ ما ذكرنا. {الله يجمعُ بينَنا وإليه المصير}: يوم القيامةِ، فيجزي كلاًّ بعملِهِ، ويتبيَّن حينئذٍ الصادق من الكاذب.
[15] ﴿فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ﴾ یعنی اس دین قویم اور صراط مستقیم کی طرف اپنی امت کو دعوت دیجیے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے کتابیں نازل فرمائیں اور رسول مبعوث کیےاور انھیں اس کی ترغیب دیجیے اور اس کی خاطر ان لوگوں سے جہاد کیجیے جو اس کو قبول نہیں کرتے۔
﴿وَاسْتَقِمْ ﴾ ’’اور خود بھی استقامت اختیار کیجیے‘‘
﴿كَمَاۤ اُمِرْتَ ﴾ ’’جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔‘‘ استقامت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حکم کی موافقت ہے، جس میں کوئی افراط و تفریط نہ ہو بلکہ اس میں دائمی طور پر اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب ہو۔ سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تکمیل کے لیے استقامت کے التزام اور دوسروں کی تکمیل کے لیے اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا نیز ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ e کو دیے گئے حکم کا اطلاق امت پر بھی ہوتا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ حکم صرف آپ کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔
﴿وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔهُمْ ﴾ یعنی دین سے منحرف لوگوں ، یعنی کفارومنافقین کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ یہ اتباع یا تو ان کے دین کے کسی حصے کی اتباع کے ذریعے سے یا اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو ترک کرنے یا استقامت کو ترک کرنے سے واقع ہوتی ہے۔ اگر آپ نے علم کے آ جانے کے بعد بھی، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کا شمار ظالموں میں ہو گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ارشاد میں )وَلَا تَتَّبِـعْ دِینَھُمْ( نہیں کہا کیونکہ حقیقت میں ان کا دین جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مشروع فرمایا ہے، وہی دین ہے جو تمام انبیاء و مرسلین کا دین ہے، مگر ان کے متبعین نے اس دین کی پیروی نہ کی بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے اور اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا۔
﴿وَقُ٘لْ ﴾ ان کے مناظرہ اور بحث کرنے پر کہہ دیجیے
﴿اٰمَنْتُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ﴾ ’’جو کتاب اللہ نے نازل کی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘ یعنی ان کے ساتھ آپ کا بحث و مناظرہ، اس عظیم اصول پر مبنی ہونا چاہیے جو اسلام کے شرف و جلال پر دلالت کرتا ہے اور تمام ادیان پر اس کے نگران ہونے کا اور یہ اہل کتاب جس دین پر چلنے کے دعویدار ہیں، وہ بھی اسلام کا ایک جزو ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے کہ اگر اہل کتاب، بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لا کر اور دیگر کا انکار کر کے مناظرہ کریں تو یہ قابل قبول نہیں کیونکہ جس کتاب کی طرف یہ لوگ دعوت دیتے ہیں اور جس رسول کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی صداقت کی شرط یہ ہے کہ وہ اس قرآن کی اور اس کو لانے والے کی تصدیق کرتا ہو۔ پس ہماری کتاب اور ہمارا رسول
(e) ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰi تورات اور انجیل پر ایمان لائیں جن کی قرآن مجید نے تصدیق کی ہے ان کے بارے یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ قرآن کی تصدیق اور اس کی صحت کا اقرار کرتی ہیں۔ مجرد تورات و انجیل اور حضرت موسیٰ و عیسیٰi، جو ہمارے اوصاف بیان کرتے ہیں نہ ہماری کتاب کی موافقت کرتے ہیں، تو ان پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم نہیں دیا۔
﴿وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَكُمْ ﴾ ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔‘‘ یعنی ان امور میں فیصلہ کرتے وقت جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو ۔ اے اہل کتاب! تمھاری عداوت اور میرے خلاف تمھارا بغض مجھے تمھارے درمیان انصاف کرنے سے روک سکتا ہے نہ اہل کتاب وغیرہ میں مختلف اقوال کے قائلین کے درمیان فیصلے میں عدل سے باز رکھ سکتا ہے اور نہ ان کے ساتھ جو حق ہے اسے قبول کرنے اور ان کے باطل کو رد کرنے سے روک سکتاہے۔
﴿اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ﴾ ’’اللہ ہی ہمارا اور تمھارا رب ہے۔‘‘ یعنی وہ سب کا رب ہے، تم ہم سے زیادہ اس کے مستحق نہیں ہو۔
﴿لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ﴾ ’’ہمارے اچھے برے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اچھے برے اعمال تمھارے لیے ہیں۔‘‘
﴿لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ ﴾ ’’ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔‘‘ حقائق کے عیاں ہو جانے،
باطل میں سے حق اور گمراہی میں سے ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد حجت بازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کیونکہ بحث و مباحثہ کا مقصد محض حق اور باطل کو واضح کرنا ہوتا ہے تاکہ ہدایت یافتہ شخص اس سے راہ نمائی حاصل کرے اور گمراہ پر حجت قائم ہو جائے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اہل کتاب مباحثہ نہیں کرتے اور یہ مراد ہو بھی کیسے سکتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ (العنکبوت:29؍46) ’’اہل کتاب کے ساتھ بحث مباحثہ نہ کرو، مگر احسن طریقے سے۔‘‘ اس سے مراد وہی ہے جو ہم نے ذکر کر دی ہے۔
﴿اَللّٰهُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا١ۚ وَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا ، پھر وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کی جزا دے گا۔ اس وقت واضح ہو جائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔
{وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (16)}.
اور وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں اللہ کے بارے میں، بعد اس کے کہ مان لیا گیا اس کو، ان کی دلیل کمزور ہے نزدیک ان کے رب کے اور اوپر ان کے غضب ہے اور ان کے لیے ہے عذاب سخت
(16)
#
{16} وهذا تقريرٌ لقوله: {لا حجَّة بيننا وبينكم}؛ فأخبر هنا أنَّ {الذين يحاجُّون في الله}: بالحجج الباطلة والشُّبه المتناقضة {من بعد ما استُجيبَ}: للَّه؛ أي: من بعد ما استجاب لله أولو الألباب والعقول لما بيَّن لهم من الآيات القاطعة والبراهين الساطعة؛ فهؤلاء المجادلون للحقِّ من بعدما تبيَّن {حجَّتُهم داحضةٌ}؛ أي: باطلةٌ مدفوعةٌ {عند ربِّهم}؛ لأنَّها مشتملةٌ على ردِّ الحقِّ، وكلُّ ما خالف الحقَّ؛ فهو باطلٌ، {وعَلَيهم غَضَبٌ}: بعصيانهم وإعراضهم عن حجج الله وبيناته وتكذيبها، {ولهم عذابٌ شديدٌ}: هو أثر غضبِ الله عليهم؛ فهذه عقوبة كلِّ مجادل للحقِّ بالباطل.
[16] یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
﴿لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ ﴾ (الشوریٰ: 15/42) کا بیان ہے،
چنانچہ یہاں آگاہ فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یُحَآجُّوْنَ فِی اللّٰهِ ﴾ ’’جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔‘‘ یعنی باطل دلائل اور متناقض شبہات کے ذریعے سے ۔
﴿مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَهٗ﴾ ’’اس
(الله كی ذات) کے تسلیم کیے جانے کے بعد۔‘‘ یعنی اس کے بعد کہ جب عقل سے بہرہ مند لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی دعوت پر لبیک کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے قطعی دلائل اور روشن براہین بیان کر دیے تھے تو وہ لوگ جو حق کے واضح ہو جانے کے بعد، حق کے ساتھ مجادلہ کرتے ہیں۔
﴿حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ ﴾ ان کی حجت باطل اور ناقابل قبول ہے۔
﴿عِنْدَ رَبِّهِمْ ﴾ ’’ان کے رب کے نزدیک۔‘‘ کیونکہ یہ ایسے امور پر مشتمل ہے جو حق کے خلاف ہیں اور جو چیز حق کے خلاف ہو وہ باطل ہوتی ہے۔
﴿وَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ ﴾ ان کی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کے دلائل و براہین سے روگردانی اور ان کو جھٹلانے کے سبب سے، ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔
﴿وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے شدید عذاب ہے۔‘‘ یہ سخت عذاب اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے اور یہ ہر اس شخص کی سزا ہے جو باطل دلائل سے حق کے خلاف جھگڑتا ہے۔
{اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ (17) يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (18)}.
اللہ وہ ہے جس نے نازل کی کتاب ساتھ حق کے اور ترازو اور کیا معلوم آپ کو شاید قیامت قریب ہی ہو
(17) جلدی مانگتے ہیں اس
(قیامت) کو وہ لوگ جو نہیں ایمان رکھتے اس پر اور وہ لوگ جو ایمان لائے، ڈرنے والے ہیں اس سے، اور وہ جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے، آگاہ رہو! بلاشبہ وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں قیامت کے بارے میں، البتہ وہ دور کی گمراہی میں
(مبتلا) ہیں
(18)
#
{17} لما ذكر تعالى أنَّ حججه واضحةٌ بينةٌ بحيث استجاب لها كلُّ مَن فيه خيرٌ؛ ذكر أصلَها وقاعدتَها، بل جميع الحجج التي أوصلها إلى العباد ترجِعُ إليه، فقال: {الله الذي أنزل الكتابَ بالحقِّ والميزانِ}: فالكتاب هو هذا القرآنُ العظيم الذي نزل بالحقِّ، واشتمل على الحقِّ والصدق واليقين، وكلُّه آياتٌ بيناتٌ وأدلَّة واضحاتٌ على جميع المطالب الإلهيَّة والعقائد الدينيَّة، فجاء بأحسن المسائل وأوضح الدَّلائل.
وأما الميزان؛ فهو العدل والاعتبار بالقياس الصحيح والعقل الرجيح؛ فكلُّ الدلائل العقليَّة من الآيات الأفقيَّة والنفسيَّة والاعتبارات الشرعيَّة والمناسبات والعلل والأحكام والحِكَم داخلةٌ في الميزان الذي أنزله الله تعالى ووضعه بين عبادِهِ لِيَزِنوا به ما أثبته وما نفاه من الأمور، ويعرفوا به صدقَ ما أخبر به وأخبرتْ به رسلُه. فما خرج عن هذين الأمرين ـ عن الكتاب والميزان ـ مما قيل: إنَّه حجةٌ أو برهانٌ أو دليلٌ أو نحو ذلك من العبارات؛ فإنَّه باطلٌ متناقضٌ قد فسدت أصولُه وانهدمت مبانيه وفروعه، يعرِفُ ذلك مَنْ خَبَرَ المسائل ومآخِذَها، وعرف التمييز بين راجح الأدلَّة من مرجوحِها، والفرق بين الحجج والشُّبه.
وأما من اغترَّ بالعبارات المزخرفة والألفاظ المموِّهة ولم تنفذْ بصيرتُه إلى المعنى المراد؛ فإنَّه ليس من أهل هذا الشأن، ولا من فرسانِ هذا الميدانِ؛ فوِفاقه وخلافُه سيان. ثم قال تعالى مخوِّفاً للمستعجلين لقيام الساعةِ المنكرينَ لها، فقال: {وما يدريكَ لعلَّ الساعةَ قريبٌ}؛ أي: ليس بمعلوم بُعدها ولا متى تقومُ؛ فهي في كلِّ وقتٍ متوقَّع وقوعُها مخوفٌ وجبتُها.
[17] یہ واضح کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کے دلائل واضح اور روشن ہیں، کیونکہ ہر وہ شخص ان کو قبول کرتا ہے جس میں کچھ بھی بھلائی ہے، ان کا قاعدہ اور اصول بیان کیا بلکہ تمام دلائل بیان کیے جو اس نے بندوں کو عطا کیے ہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ ﴾ ’’اللہ ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور میزان۔‘‘ کتاب سے مراد قرآن عظیم ہے، جو حق کے ساتھ نازل ہوا اور حق، صدق اور یقین پر مشتمل ہے۔ تمام مطالب الٰہیہ اور عقائد دینیہ کے بارے میں وہ روشن نشانیوں اور واضح دلائل پر مشتمل ہے یہ کتاب عظیم بہترین مسائل اور واضح ترین دلائل لے کر آئی ہے۔
میزان سے مراد قیاس صحیح اور عقل راجح کے ذریعے سے عدل و تعبیر ہے ، چنانچہ تمام عقلی دلائل یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیاں، شرعی تعبیرات، مناسبات، علتیں، احکام اور حکمتیں، میزان میں داخل ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرما کر بندوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ان امور کا وزن کریں جن کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے یا جن کی اس نے نفی کی ہے اور ان امور کو پہچانیں جن کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور ان امور کو پہچانیں جو کتاب اور میزان پر پورے نہیں اترتے اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حجت، برہان یا دلیل یا اس قسم کی کوئی تعبیر ہے کیونکہ یہ سب باطل اور متناقض ہیں ۔ ان کے اصول فاسد اور ان کی بنیاد اور ان کی فروع منہدم ہو گئے۔
اس میزان کے ذریعے سے مسائل کی خبر اور اس کے ماخذ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے دلائل راجحہ اور دلائل مرجوحہ کے درمیان امتیاز اور اس کے ذریعے سے دلائل اور شبہات کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو آراستہ عبارات،
ملمع شدہ خوبصورت الفاظ کے فریب میں مبتلا ہو کر معنیٔ مراد میں بصیرت حاصل نہیں کرتا تو وہ اس شان کے لوگوں میں شامل ہے نہ اس میدان کا شاہسوار ہے۔ پس اس کی موافقت اور مخالفت برابر ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو۔‘‘ یعنی اس کے دور ہونے کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کب قائم ہو گی؟ پس اس کا وقوع ہر وقت متوقع ہے اور اس کے واقع ہونے کی آواز بہت خوفناک ہو گی۔
#
{18} {يستعجل بها الذين لا يؤمنون بها}: عناداً وتكذيباً وتعجيزاً لربِّهم، {والذين آمنوا مشفِقونَ منها}؛ أي: خائفون؛ لإيمانهم بها، وعلمهم بما تشتمل عليه من الجزاء بالأعمال، وخوفهم لمعرفتهم بربِّهم أنْ لا تكون أعمالُهم منجيةً [لهم] ولا مسعدةً، ولهذا قال: {ويعلمون أنَّها الحقُّ}: الذي لامِرْيَةَ فيه، ولا شكَّ يعتريه. {ألا إنَّ الذين يُمارونَ في الساعةِ}؛ أي: بعدما امتروا فيها، ماروا الرسل وأتباعهم بإثباتها؛ فهم في شقاق {بعيدٍ}؛ أي: معاندةٌ ومخاصمةٌ غير قريبة من الصواب، بل في غاية البعد عن الحق. وأيُّ بعد أبعد ممَّن كذَّب بالدار التي هي الدار على الحقيقة؟ وهي الدار التي خُلِقَتْ للبقاء الدائم والخلود السرمد، وهي دارُ الجزاء التي يُظْهِرُ الله فيها عدلَه وفضلَه، وإنَّما هذه الدار بالنسبة إليها كراكبٍ قال في ظلِّ شجرةٍ ثم رَحَلَ وتركَها، وهي دار عبورٍ وممرٍّ لا محلُّ استقرارٍ، فصدقوا في الدار المضمحلَّة الفانية حيث رأوها وشاهدوها، وكذَّبوا بالدار الآخرة التي تواترت بالأخبار عنها الكتب الإلهية والرسل الكرام وأتباعهم، الذين هم أكمل الخلقِ عقولاً وأغزرُهم علماً وأعظمُهم فطنةً وفهماً.
[18] ﴿یَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهَا ﴾ ’’اس کی جلدی انھیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے۔‘‘ یعنی منکرین حق عناد اور تکذیب کے طور پر اور اپنے رب کو قیامت قائم کرنے سے عاجز سمجھتے ہوئے قیامت کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا ﴾ ’’اور اہل ایمان اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی اور وہ اپنے رب کی مغفرت کی بنا پر ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال نجات کے حصول میں مدد نہ کر سکیں۔ بنابریں فرمایا:
﴿وَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ ﴾ ’’اور وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے۔‘‘ جس میں کوئی جھگڑا ہے نہ شک۔
﴿اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنَ فِی السَّاعَةِ ﴾ ’’آگاہ رہو! جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔‘‘ یعنی قیامت میں شک کرنے کے علاوہ قیامت کے بارے میں انبیاء اور ان کے پیرو کاروں سے جھگڑا کرتے ہیں، پس وہ دور کی مخالفت میں ہیں، یعنی صواب و درستی کے قریب نہیں ہیں بلکہ حق سے انتہائی دور معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ اس شخص سے بڑھ کر حق سے کون دور ہو سکتا ہے جس نے آخرت کے گھر کو جھٹلایا، جو حقیقی گھر ہے جو دائمی طور پر باقی رہنے اور خلود سرمدی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور وہ دارالجزا ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و عدل کو ظاہر کرے گا۔ دنیا کے گھر کی اس دائمی گھر سے بس اتنی سی نسبت ہے جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے تلے آرام کرے ، پھر اس سایہ دار درخت کو چھوڑ کر کوچ کر جائے۔ یہ تو عبوری گھر اور گزرگاہ ہے، ہمیشہ رہنے کا ٹھکانا نہیں۔ چونکہ انھوں نے اس دارفانی کو دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا اس لیے انھوں نے اس کی تصدیق کی اور آخرت کے گھر کو جھٹلایا، جس کے بارے میں کتب الٰہیہ میں تواتر کے ساتھ اخبار وارد ہوئی ہیں اور انبیائے کرامo اور ان کے پیروکاروں نے آگاہ کیا، جو عقل میں سب سے زیادہ کامل، علم میں سب زیادہ وسعت کے حامل اور سب سے زیادہ فہم و فطانت رکھنے والے نفوس قدسیہ ہیں۔
{اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (19) مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ (20)}.
اللہ بہت مہربان ہے اپنے بندوں کے ساتھ، وہ رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب طاقت ور، زبردست ہے
(19) جو شخص ارادہ کرتا ہے آخرت کی کھیتی کا، زیادتی کرتے ہیں ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اور جو شخص ارادہ کرتا ہے دنیا کی کھیتی کا، دیتے ہیں ہم اس کو اس میں سے کچھ اور نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ
(20)
#
{19} يخبر تعالى بلطفه بعبادِهِ: ليعرفوه ويحبُّوه ويتعرَّضوا للطفه وكرمه، واللُّطف من أوصافه تعالى معناه: الذي يدرِكُ الضمائر والسرائر، الذي يوصِلُ عباده ـ وخصوصاً المؤمنين ـ إلى ما فيه الخيرُ لهم من حيثُ لا يعلمون ولا يحتسبون. فمن لطفِهِ بعبدِهِ المؤمن أنْ هداه إلى الخير هدايةً لا تخطُرُ ببالِهِ بما يسَّر له من الأسباب الدَّاعية له إلى ذلك من فطرته على محبَّة الحقِّ والانقياد له وإيزاعه تعالى لملائكتِهِ الكرام أن يُثَبِّتوا عبادَهُ المؤمنين ويحثُّوهم على الخير ويُلْقوا في قلوبهم من تزيين الحقِّ ما يكون داعياً لاتِّباعه. ومن لطفِهِ أن أمر المؤمنين بالعباداتِ الاجتماعية التي بها تقوى عزائِمُهُم وتنبعثُ هِمَمُهم ويحصُلُ منهم التنافس على الخير والرغبة فيه واقتداء بعضهم ببعض. ومن لطفِهِ أن قَيَّضَ كلَّ سبب يعوقُه ويحولُ بينه وبين المعاصي، حتى إنَّه تعالى إذا علم أنَّ الدُّنيا والمال والرياسة ونحوها مما يتنافس فيه أهلُ الدُّنيا تقطعُ عبدَه عن طاعتِهِ أو تحمِلُه على الغفلة عنه أو على معصيتِهِ؛ صرفها عنه، وقَدَرَ عليه رِزْقَه، ولهذا قال هنا: {يرزُقُ مَن يشاءُ}: بحسب اقتضاء حكمته ولطفه، {وهو القويُّ العزيزُ}: الذي له القوَّة كلُّها؛ فلا حول ولا قوة لأحدٍ من المخلوقين إلاَّ به، الذي دانت له جميع الأشياء.
[19] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے لطف و کرم سے آگاہ فرماتا ہے تاکہ وہ اسے پہچانیں ، اس سے محبت کریں اور اس کے فضل و کرم کے حصول کے درپے رہیں۔لطف اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو ضمائر اور نیتوں میں چھپے ہوئے بھیدوں کو بھی جانتی ہے، جو اپنے بندوں کو، خاص طور پر اہل ایمان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جس کے بارے میں انھیں کوئی علم ہوتا ہے نہ گمان۔ یہ بندۂ مومن پر اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے بھلائی کے اسباب مہیا کر کے اسے بھلائی کی راہ دکھائی، جس کا اس کے دل میں خیال تک نہیں آتا، اس کی فطرت میں موجود یہ اسباب محبت حق اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتے ہیں، نیز یہ کہ اس نے اپنے مکرم فرشتوں کو الہام کیا کہ وہ اس کے مومن بندوں کو ثابت قدم رکھیں، انھیں بھلائی کی ترغیب دیں، ان کے دلوں میں حق کو مزین کریں تاکہ یہ تزیین حق، اتباع حق کی دعوت دے۔
یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کو اجتماعی عبادات کا حکم دیا جن کے ذریعے سے ان کے عزائم میں قوت آتی ہے، ان کی ہمتیں بیدار ہوتی ہیں ،بھلائی میں رغبت پیدا ہوتی ہے، بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کی پیروی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندے کو ہر سبب مہیا کیا جو اسے معاصی سے باز رکھتا ہے اور اس کے اور معاصی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دنیا، مال و متاع اور ریاست وغیرہ، جس کی خاطر دنیا دار ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بندے کو اس کی اطاعت سے دور کر دے گی یا اس میں غفلت پیدا کر دے گی یا اسے معصیت پر ابھارے گی،
تو وہ اس دنیا کو اس سے دور ہٹا دیتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ اپنی حکمت کے تقاضے اور اپنے لطف و کرم کے مطابق جسے چاہتا ہے رزق سے بہرہ مند کرتا ہے
﴿وَهُوَ الْقَوِیُّ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’اور وہ بہت قوت والا، نہایت غالب ہے۔‘‘ وہ تمام قوت کا مالک ہے اس کی مدد کے بغیر مخلوق میں کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں ۔اسی کے سامنے کائنات سرنگوں ہے۔
#
{20} ثم قال تعالى: {من كان يريدُ حَرْثَ الآخرةِ}؛ أي: أجرها وثوابَها، فآمن بها وصدَّق وسعى لها سعيها، {نَزِدْ له في حرثِهِ}: بأن نضاعِف عمله وجزاءه أضعافاً كثيرة؛ كما قال تعالى: {ومَنْ أراد الآخرةَ وسعى لها سَعْيَها وهو مؤمنٌ فأولئكَ كان سَعْيُهُمْ مَشْكوراً}، ومع ذلك؛ فنصيبه من الدُّنيا لا بدَّ أن يأتِيَهُ، {ومَن كانَ يريدُ حَرْثَ الدُّنيا}: بأن كانت الدُّنيا هي مقصودَه وغايةَ مطلوبِهِ، فلم يقدِّم لآخرته، ولا رجا ثوابَها، ولم يخشَ عقابَها، {نؤتِهِ منها}: نصيبَه الذي قُسِمَ له، {وما له في الآخرةِ من نصيبٍ}: قد حُرِم الجنَّة ونعيمها، واستحقَّ النار وجحيمها. وهذه الآيةُ شبيهةٌ بقوله تعالى: {مَن كان يريدُ الحياةَ الدُّنيا وزينَتَها نوفِّ إليهم أعمالَهم فيها وهم فيها لا يُبْخَسونَ ... } إلى آخر الآيات.
[20] پھر فرمایا:
﴿مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’جو آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہو۔‘‘ یعنی جو کوئی آخرت کا اجروثواب چاہتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے، اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے حصول کے لیے پوری طرح کوشاں رہتا ہے
﴿نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖ﴾ ’’ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم اس کے عمل اور اس کی جزا کو کئی گنا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍19) ’’جو کوئی آخرت کا گھر چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرے جیسا کہ کوشش کا حق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔‘‘ اس کے باوجود دنیا میں سے اس کے لیے مقرر کیا گیا حصہ اسے ضرور ملے گا۔
﴿وَمَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا ﴾ ’’اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے۔‘‘ یعنی دنیا ہی اس کا مطلوب و مقصود ہو، آخرت کے لیے کچھ بھی آگے نہ بھیجے، اسے آخرت کے ثواب کی امید ہے نہ اس کے عذاب کا ڈر۔
﴿نُؤْتِهٖ مِنْهَا ﴾ تو ہم اسے دنیا میں سے اس کا حصہ عطا کرتے ہیں جو اس کے لیے مقرر ہے۔
﴿وَمَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ ﴾ ’’اور اس کے لیے آخرت کا کچھ حصہ نہیں ہوگا۔‘‘ اس پر جنت حرام کر دی گئی اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا مستحق ٹھہرا۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے:
﴿مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَهُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ ۰۰ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ١ۖٞ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (ہود:11؍15، 16) ’’جو لوگ اس دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کے طلب گار ہیں ہم انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں عطا کر دیتے ہیں اور اس میں ان کو کوئی گھاٹا نہیں دیا جاتا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انھوں نے دنیا میں کیا تھا، وہ سب اکارت ہے اور جو کچھ وہ کرتے تھے، سب برباد ہونے والا ہے۔‘‘
{أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (21) تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (22) ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ (23)}.
کیا ان کے لیے
(اور) شریک ہیں جنھوں نے مقرر کیا ہے ان کے لیے وہ دین کہ نہیں حکم دیا اس کا اللہ نے، اور اگر نہ ہوتی بات فیصلہ کرنے
(کے وعدے)کی تو یقیناً
(فوراً ہی) فیصلہ کر دیا جاتا ان کے درمیان، اور بلاشبہ ظالم لوگ، ان کے لیے عذاب ہے درد ناک
(21) آپ دیکھیں گے ظالموں کو، ڈررہے ہوں گے ان
(عملوں کی جزا سے) جو انھوں نے کمائے اور وہ
(جزا ضرور) واقع ہو گی ان پر اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، وہ سبزہ زاروں میں ہوں گے باغوں کے، ان کے لیے ہو گا جو وہ چاہیں گے اپنے رب کے پاس، یہی ہے وہ فضل بہت بڑا
(22) یہ
(فضل) وہی ہے جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو، وہ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک،
کہہ دیجیے: نہیں سوال کرتا میں تم سے اس پر کسی صلے کا، مگر محبت کا رشتے داری کی وجہ سے اور جو شخص کماتا ہے کوئی نیکی تو زیادہ کرتے ہیں ہم اس کے لیے اس میں بھلائی کو، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت قدردان ہے
(23)
#
{21} يخبر تعالى أنَّ المشركين اتَّخذوا شركاء يوالونهم ويشتركون هم وإيَّاهم في الكفر وأعمالِهِ من شياطين الإنس الدُّعاة إلى الكفر، {شَرَعوا لهم من الدِّينِ ما لمْ يأذَنْ به اللهُ}: من الشِّرك والبدع وتحريم ما أحلَّ اللهُ وتحليل ما حرَّم اللهُ ونحو ذلك ممَّا اقتضته أهواؤُهم، مع أنَّ الدِّين لا يكون إلاَّ ما شَرَعَه الله تعالى لِيَدينَ به العبادُ ويتقرَّبوا به إليه؛ فالأصلُ الحَجْرُ على كلِّ أحدٍ أن يَشْرَعَ شيئاً ما جاء عن اللهِ وعن رسولِهِ؛ فكيف بهؤلاء الفَسَقَةِ المشتركين هم [وآباؤهم] وهم على الكفر. {ولولا كلمةُ الفصل لَقُضِيَ بينَهم}؛ أي: لولا الأجلُ المسمَّى الذي ضَرَبَه الله فاصلاً بين الطوائفِ المختلفة، وأنَّه سيؤخِّرهم إليه؛ لَقُضِي بينهم في الوقت الحاضر بسعادة المحقِّ وإهلاك المبطل؛ لأن المُقتضي للإهلاك موجود، ولكنْ أمامهم العذابُ الأليمُ في الآخرة؛ هؤلاء وكلُّ ظالم.
[21] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لیے جن کے ساتھ وہ دوستی رکھتے ہیں اور وہ کفر کے داعی انسانی شیاطین کے ساتھ کفر اور اعمال کفر میں شریک ہیں
﴿شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَ٘اْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ﴾ ’’انھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے انھیں حکم نہیں دیا۔‘‘ یعنی شرک اور بدعات کو رواج دیا، اپنی خواہشات نفس کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور اس کی محرمات کو حلال قرار دیا، حالانکہ دین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ دین قرار دے تاکہ لوگ اسے دین بنائیں اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کریں ۔اس بارے میں اصول یہ ہے کہ ہر شخص کے لیے کسی ایسی چیز کو شریعت قرار دینا ممنوع ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے نہ آئی ہو… تب ان فساق کو شریعت سازی کا کیوں کر اختیار دیا جا سکتا ہے جو کفار کے کفر میں شریک ہیں۔
﴿وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْ٘فَصْلِ لَ٘قُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ ﴾ ’’اور اگر پہلے سے طے شدہ بات نہ ہوتی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کیا جاچکا ہوتا۔‘‘ یعنی اگر مدت مقرر نہ کر دی گئی ہوتی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والے تمام گروہوں کے درمیان فیصلہ کن قرار دیا ہے نیز یہ کہ وہ ان تمام لوگوں کو اس مدت تک مہلت دے گا تو اللہ تعالیٰ اسی وقت حق پرست کی سعادت اور باطل پرست کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیتا کیونکہ ہلاکت کا تقاضا موجود ہے، مگر ان لوگوں کو اور ہر ظالم کو آخرت میں دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہے۔
#
{22} وفي ذلك اليوم {ترى الظالمين}: أنفسَهم بالكفرِ والمعاصي، {مشفقينَ}؛ أي: خائفين وجلين، {مما كَسَبَوا}: أن يعاقَبوا عليه، ولمَّا كان الخائفُ قد يقعُ به ما أشفق منه وخافه وقد لا يقعُ؛ أخبر أنَّه {واقعٌ بهم}: العقابُ الذي خافوه؛ لأنَّهم أتوا بالسبب التامِّ الموجب للعقاب من غير معارض من توبةٍ ولا غيرِها، ووصلوا موضعاً فات فيه الإنظارُ والإمهالُ. {والذين آمنوا} بقلوبهم بالله وبكتبِهِ ورسلِهِ وما جاؤوا به، {وعملوا الصالحات}: يشمَلُ فيه كلَّ عمل صالح من أعمال القلوب وأعمال الجوارح من الواجباتِ والمستحبَّات؛ فهؤلاء {في روضاتِ الجناتِ}؛ أي: الرَّوضات المضافة إلى الجنَّات، والمضاف يكون بحسب المضاف إليه؛ فلا تسألْ عن بهجةِ تلك الرياض المونقةِ، وما فيها من الأنهار المتدفِّقة، والفياض المُعْشِبة، والمناظر الحسنة، والأشجار المثمرة، والطيورِ المغرِّدة، والأصوات الشجيَّة المطرِبة، والاجتماع بكلِّ حبيب، والأخذ من المعاشرةِ والمنادمةِ بأكمل نصيب؛ رياض لا تزداد على طول المدى إلاَّ حسناً وبهاءً، ولا يزدادُ أهلُها إلاَّ اشتياقاً إلى لَذَّاتِها ووداداً. {لهم ما يشاؤونَ}: فيها؛ أي: في الجنات؛ فمهما أرادوا؛ فهو حاصل، ومهما طلبوا؛ حصل، مما لا عينٌ رأتْ، ولا أذنٌ سمعتْ، ولا خطرَ على قلبِ بشرٍ. ذلك {الفضلُ الكبيرُ}: وهل فوز أكبرُ من الفوز برضا الله تعالى والتنعُّم بقربِهِ في دار كرامته؟!
[22] اس روز
﴿تَرَى الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تم ظالموں کو دیکھو گے۔‘‘ جنھوں نے کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کیا۔
﴿مُشْفِقِیْنَ ﴾ یعنی ڈر رہے ہوں گے
﴿مِمَّا كَسَبُوْا ﴾ ’’اس
(انجام) سے جو انھوں نے
(اپنے اعمال سے) کیا۔‘‘ کہ انھیں اپنی بداعمالیوں کی سزا ملے گی۔ چونکہ ڈرنے والے کے ساتھ کبھی تو وہ چیز پیش آجاتی ہے جس سے ڈرتا ہے اور کبھی وہ چیز پیش نہیں آتی اس لیے آگاہ فرمایا کہ وہ
﴿ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ﴾ عذاب ان پر ضرور واقع ہو گا جس سے وہ ڈرتے ہیں۔ کیونکہ اس نے اس کامل سبب کو اختیار کیا ہے جو عذاب کا موجب ہے اور اس موجب عذاب کا کوئی معارض بھی نہیں،
مثلاً: توبہ وغیرہ۔ مزید برآں وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں مہلت کا وقت گزر گیا ہے۔
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ اور وہ لوگ جو اپنے دل سے اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کا اظہار کیا۔
﴿وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾ ’’او ر عمل کیے نیک۔‘‘ اس میں اعمال قلوب، اعمال جوارح، اعمال واجبہ اور اعمال مستحبہ سب شامل ہیں، لہٰذا یہ لوگ
﴿فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ ﴾ ’’بہشتوں کے باغات میں ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ ان باغات میں ہوں گے جو جنت کی طرف مضاف
(منسوب) ہیں اور مضاف، مضاف الیہ کے مطابق ہوتا ہے۔
مت پوچھیے کہ ان خوبصورت باغات کی خوبصورتی، ان میں اچھل اچھل کر بہتی ہوئی ندیاں، بیلوں سے ڈھکے ہوئے درخت کے جھنڈ، حسین مناظر، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، چہچہاتے ہوئے پرندے، طرب انگیز آوازیں، تمام دوستوں سے ملاقاتیں اور اس ہم نشینی سے حاصل ہونے والا بہرۂ کامل کیسا ہو گا؟ وہ ایسے باغات ہوں گے کہ دور دور تک حسن ہی حسن ہو گا، ان باغات کے رہنے والوں میں ان باغات کی لذات کی چاہت اور اشتیاق میں اضافہ ہوگا۔
﴿لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ ﴾ یعنی ان باغات میں وہ جس چیز کا ارادہ کریں گے وہ فوراً انھیں حاصل ہو گی اور جب بھی طلب کریں گے حاضر کر دی جائے گی، جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے طائر خیال میں اس کا گزر ہوا ہے۔
﴿ذٰلِكَ هُوَ الْ٘فَضْلُ الْكَبِیْرُ ﴾ ’’یہی ہے بہت بڑا فضل۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیابی اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر میں اس کے تقرب کی نعمت سے بہرہ مند ہونے سے بڑھ کر بھی کوئی فضل ہے؟
#
{23} {ذلك الذي يبشِّر الله به عبادَه الذين آمنوا وعمِلوا الصالحاتِ}؛ أي: هذه البشارة العظيمة التي هي أكبرُ البشائر على الإطلاق بَشَّرَ بها الرحيم الرحمن على يد أفضل خلقه لأهل الإيمان والعمل الصالح؛ فهي أجلُّ الغايات، والوسيلةُ الموصلةُ إليها أفضلُ الوسائل، {قل لا أسألُكُم عليه}؛ أي: على تبليغي إيَّاكم هذا القرآن ودعوتكم إلى أحكامه {أجراً}؛ فلستُ أريدُ أخذَ أموالكم ولا التولِّي عليكم والترأس ولا غير ذلك من الأغراض {إلاَّ المودَّةَ في القُربى}.
يُحتمل أنَّ المراد: لا أسألُكُم عليه أجراً؛ إلاَّ أجراً واحداً، هو لكم، وعائدٌ نفعُه إليكم، وهو أن تَوَدُّوني وتحبُّوني في القرابة؛ أي: لأجل القرابة، ويكون على هذا المودَّة الزائدة على مودَّة الإيمان؛ فإنَّ مودَّة الإيمان بالرسول وتقديم محبَّته على جميع المحابِّ بعد محبَّة الله فرضٌ على كلِّ مسلم، وهؤلاء طَلَبَ منهم زيادةً على ذلك أن يحبُّوه لأجل القرابِةِ؛ لأنَّه - صلى الله عليه وسلم - قد باشر بدعوته أقربَ الناس إليه، حتى إنَّه قيل: إنَّه ليس في بطون قريش أحدٌ إلاَّ ولرسول اللهِ - صلى الله عليه وسلم - فيه قرابةٌ.
ويُحتملُ أنَّ المرادَ: إلاَّ مودة الله تعالى المودة الصادقة، وهي التي يصحبُها التقرُّب إلى الله والتوسُّل بطاعته الدالَّة على صحَّتها وصدقها، ولهذا قال: {إلاَّ المودَّة في القربى}؛ أي: في التقرُّب إلى الله.
وعلى كلا القولين؛ فهذا الاستثناءُ دليلٌ على أنَّه لا يسألكم عليه أجراً بالكلِّيَّة؛ إلاَّ أن يكون شيئاً يعود نفعُه إليهم؛ فهذا ليس من الأجر في شيء، بل هو من الأجر منه لهم - صلى الله عليه وسلم -؛ كقوله تعالى: {وما نَقَموا منهم إلاَّ أن يؤمِنوا بالله العزيزِ الحميدِ}، وقولهم: ما لفلان عندك ذنبٌ إلاَّ أنَّه محسنٌ إليك.
{ومَن يَقْتَرِفْ حسنةً}: من صلاةٍ أو صوم أو حجٍّ أو إحسانٍ إلى الخلق، {نَزِدْ له فيها حُسْناً}: بأن يشرحَ الله صدرَه وييسِّر أمره ويكون سبباً للتوفيق لعمل آخر، ويزدادَ بها عملُ المؤمن ويرتفعَ عند الله وعند خلقِهِ، ويحصُلَ له الثوابُ العاجل والآجل. {إنَّ الله غفورٌ شكورٌ}: يغفر الذنوبَ العظيمةَ، ولو بلغتْ ما بلغتْ عند التوبة منها، ويشكر على العمل القليل بالأجرِ الكثيرِ؛ فبمغفرتِهِ يغفرُ الذنوبَ ويستُر العيوبَ، وبشكرِهِ يتقبَّل الحسناتِ ويضاعِفُها أضعافاً كثيرةً.
[23] ﴿ذٰلِكَ الَّذِیْ یُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’یہی وہ ہے جس کی اللہ اپنے بندوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں بشارت دیتا ہے۔‘‘ یہ عظیم خوشخبری جو بلاشبہ علی الاطلاق سب سے بڑی خوشخبری ہے، جس سے رحمان و رحیم نے، مخلوق میں سے بہترین ہستی کے ذریعے سے ایمان اور عمل صالح کے حاملین کو سرفراز فرمایا ہے۔ یہ جلیل ترین غایت مقصود ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا وسیلہ افضل ترین وسیلہ ہے۔
﴿قُ٘لْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے! میں اس پر تم سے کوئی سوال نہیں کرتا۔‘‘ یعنی تمھیں یہ قرآن پہنچانے اور تمھیں اس کے احکام کی طرف دعوت دینے پر
﴿اَجْرًا ﴾ ’’اجر کا۔‘‘ میں تم سے تمھارا مال لینا چاہتا ہوں نہ تمھارا سردار بننا چاہتا ہوں اور نہ میری کوئی اور ہی غرض ہے
﴿اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْ٘قُ٘رْبٰى﴾ ’’مگر قرابت داری کی محبت۔‘‘ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد ہو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے ایک اجر کے، وہ تمھارے ہی لیے ہے، اس کا فائدہ بھی تمھیں ہی پہنچتا ہے ، یعنی تم مجھ سے رشتہ داری کی وجہ سے محبت کرو اور یہ مودت، ایمان کی مودت سے زائد چیز ہے کیونکہ رسول
(e) پر ایمان کی مودت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد رسول کی محبت کو تمام محبتوں پر مقدم رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایمان کی محبت زائد قرابت داری کی بنا پر اس سے محبت کرو کیونکہ رسول اللہ e نے قریب ترین رشتہ داروں تک اپنی دعوت پہنچائی۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ قریش کے گھرانوں میں کوئی ایسا گھرانہ نہ تھا جس کے ساتھ رسول اللہ e کی رشتہ داری نہ ہو ۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی مودت و محبت ہو اور یہ ایسی محبت ہے جس کی مصاحبت میں تقرب الٰہی اور توسل ہوتے ہیں جن کی بنیاد اطاعت ہے، جو اس مودت و محبت کی صحت و صداقت کی دلیل ہے،
اسی لیے فرمایا: ﴿ اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرنے کے لیے۔
دونوں اقوال کے مطابق، یہ استثنا اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اکرم e تم سے اس پر کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے، سوائے اس چیز کے کہ جس کا فائدہ خود تمھی کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ کسی بھی طرح کوئی اجر نہیں،
بلکہ یہ تو ان کے لیے رسول اللہ e کی طرف سے اجر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ (البروج:85؍8) ’’وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لائے،
جو زبردست اور قابل تعریف ہے۔‘‘ اور جیسے کسی کا یہ کہنا:تمھارے نزدیک فلاں شخص کا بس یہی گناہ ہے کہ وہ تمھارے ساتھ بھلائی کرنے والا ہے۔
﴿وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً ﴾ ’’اور جو کوئی نیکی کاکام کرے گا۔‘‘ یعنی نماز، روزہ اور حج پر کاربند رہتا ہے اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔
﴿نَّزِدْ لَهٗ فِیْهَا حُسْنًا ﴾ ’’ہم اس کے لیے اس میں بھلائی بڑھا دیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے سینے کو کھول دیتا ہے، اس کے معاملے کو آسان کر دیتا ہے اور یہ نیکی کسی دوسرے نیک عمل کی توفیق کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس ذریعے سے مومن کے اعمال صالحہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک اس کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور وہ دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بہت قدردان ہے۔‘‘ وہ توبہ کرنے پر تمام بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ وہ تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ اجر عطا کر کے اس عمل کی قدر دانی کرتا ہے۔ پس وہ اپنی مغفرت کے ذریعے سے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور عیبوں کو چھپاتا ہے اور اپنی قدر دانی کی بنا پر نیکیوں کو قبول کر کے ان میں کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔
{أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَإِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (24)}.
کیا وہ کہتے ہیں گھڑ لیا ہے اس نے اوپر اللہ کے جھوٹ؟ پس اگر چاہے اللہ تو مہر لگا دے اوپر آپ کے دل کے اور مٹاتا ہے اللہ باطل کو اور ثابت کرتا ہے حق کو اپنی باتوں سے، بلاشبہ وہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے
(24)
#
{24} يعني: أم يقولُ المكذِّبون للرسول - صلى الله عليه وسلم - جرأة منهم وكذباً: {افْتَرى على اللهِ كَذِباً}: فَرَمَوْكَ بأشنع الأمور وأقبحها، وهو الافتراءُ على الله بادِّعاء النبوَّة والنسبة إلى الله ما هو بريءٌ منه، وهم يعلمونَ صِدْقَكَ وأمانَتَكَ؛ فكيف يتجرؤونَ على هذا الكذبِ الصُّراح؟! بل تجرؤوا بذلك على الله تعالى؛ فإنَّه قدحٌ في الله؛ حيث مكَّنك من هذه الدعوة العظيمة المتضمِّنة ـ على موجب زعمهم ـ أكبر الفسادِ في الأرض؛ حيث مكَّنه الله من التَّصريح بالدَّعوة، ثم بنسبتها إليه، ثم يؤيِّده بالمعجزات الظاهرات والأدلَّة القاهرات والنصر المبين والاستيلاء على مَنْ خالَفَهُ، وهو تعالى قادرٌ على حسم هذه الدَّعوة من أصلها ومادَّتها، وهو أن يختِم على قلب الرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ فلا يعي شيئاً، ولا يدخل إليه خيرٌ، وإذا خُتِمَ على قلبه؛ انحَسَم الأمرُ كلُّه وانقطعَ؛ فهذا دليلٌ قاطعٌ على صحَّة ما جاء به الرسولُ، وأقوى شهادة من اللهِ له على ما قال، ولا يوجُد شهادةٌ أعظم منها ولا أكبر، ولهذا من حكمته ورحمته وسنَّته الجارية أنه يمحو الباطل ويزيلُه، وإن كان له صولةٌ في بعض الأوقات؛ فإنَّ عاقبته الاضمحلال، {ويُحِقُّ الحقَّ بكلماتِهِ}: الكونيَّة التي لا تبدَّل ولا تغيَّر ، ووعده الصادق، وكلماته الدينيَّة التي تحقِّق ما شرعه من الحقِّ وتثبِّته في القلوب وتبصِّر أولي الألباب، حتى إنَّ من جملة إحقاقِهِ تعالى الحقَّ أن يقيِّضَ له الباطلَ ليقاوِمَه؛ فإذا قاومه؛ صال عليه الحقُّ ببراهينِهِ وبيِّناتِهِ، فظهر من نوره وهداه ما به يضمحلُّ الباطل وينقمع ويتبيَّن بطلانُه لكلِّ أحدٍ، ويظهر الحقُّ كلَّ الظُّهور لكلِّ أحدٍ. {إنَّه عليمٌ بذات الصُّدور}؛ أي: بما فيها وما اتَّصفت به من خيرٍ وشرٍّ وما أكنَّته ولم تُبْدِهِ.
[24] کیا رسول
(e) کو جھٹلانے والے یہ لوگ اپنی جسارت اور کذب بیانی کی بنا پر کہتے ہیں :
﴿افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا ﴾ ’’اس
(رسول) نے اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے۔‘‘ پس انھوں نے آپ پر بدترین اور قبیح ترین بہتان لگایا، وہ یہ کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کر کے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا جبکہ آپ اس سے بری ہیں، حالانکہ وہ آپ کی صداقت اور امانت کو خوب جانتے ہیں، وہ اس صریح جھوٹ کی کیوں کر جرأت کر رہے ہیں؟ بلکہ اس ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں جرح و قدح ہے کہ اس نے آپ کے لیے اس عظیم دعوت کو ممکن بنایا جو ان کے زعم کے موجب زمین کے اندر سب سے بڑے فساد کو متضمن ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس صراحت کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کا اختیار بخشا، مزید برآں وہ ظاہری معجزات، بڑے بڑے دلائل، فتح مبین اور آپ کی مخالفت کرنے والوں پر غلبہ عطا کر کے آپ کی تائید کرتا ہے۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ اس دعوت کو اس کی جڑ اور بنیاد سے ختم کرنے پر قادر ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ رسول
(e) کے قلب پر مہر لگا دے تاکہ اس کے اندر کوئی بھلائی داخل نہ ہو، جب آپ کے قلب پر مہر لگا دی جائے گی تو تمام معاملہ ختم ہو جائے گا۔
رسول اللہ e جو کچھ لے کر آئے ہیں اس کی صحت پر یہ اس کی قطعی دلیل اور آپ کے نبوت کے دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوی ترین شہادت ہے، اس سے عظیم اور اس سے بڑی کوئی اور شہادت نہیں مل سکتی۔ بنابریں یہ اس کی حکمت، رحمت اور سنت جاریہ ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات اسے غلبہ حاصل ہوتا ہے، مگر انجام کار باطل نیست و نابود ہوتا ہے۔
﴿وَیُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ﴾ وہ اپنے سچے وعدے اور احکام تکوینی کے ذریعے سے حق کو حق کر دکھاتا ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں، نیز اپنے ان کے کلمات دینیہ کے ذریعے سے بھی حق کو حق کر دکھاتا ہے جو ان احکام حق کو ثابت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیے ہیں اور انھیں قلوب میں جاگزیں کرتے ہیں اور خرد مندوں کو بصیرت سے بہرہ مند کرتے ہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ کا حق کو حق ثابت کرنا یہ ہے کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کے لیے باطل کو مقرر کر دیتا ہے۔ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق اپنے دلائل و براہین کے ساتھ باطل پر حملہ آور ہوتا ہے، تب نور حق اور اس کی ہدایت ظاہر ہوتے ہیں جس سے باطل مضمحل ہو کر نیست و نابود ہو جاتا ہے اور ہر ایک پر باطل کا بطلان واضح اور ہر ایک کے لیے حق پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے۔
﴿اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ یعنی جو کچھ دلوں میں ہے اور جن اچھے برے اوصاف سے دل متصف ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور اسے ظاہر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔
{وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (25) وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ (26) وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ (27) وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ (28)}.
اور وہی ہے جو قبول کرتا ہے توبہ اپنے بندوں کی اور معاف کر دیتا ہے برائیاں اور جانتا ہے جو تم کرتے ہو
(25) اور قبول کرتا ہے
(دعا) ان لوگوں کی جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک اور زیادہ دیتا ہے ان کو اپنے فضل سے، اور کافر لوگ، ان کے لیے ہے عذاب بہت سخت
(26) اور اگر فراخ کر دے اللہ رزق واسطے اپنے بندوں کے تو ضرور وہ سرکشی کریں زمین میں اور لیکن وہ نازل کرتا ہے ساتھ ایک اندازے کے جتنا چاہتا ہے، بلاشبہ وہ اپنے بندوں سے خوب خبردار، انھیں خوب دیکھنے والا ہے
(27) اور وہ، وہ ہے جو نازل کرتا ہے بارش بعد ان کے ناامید ہو جانے کے اور عام کر دیتا ہے اپنی رحمت کو اور وہ کارساز ہے تعریف کے لائق
(28)
#
{25} هذا بيانٌ لكمال كرم الله تعالى وسَعَةِ جودِهِ وتمام لطفِهِ بقبول التوبةَ الصادرة {عن عبادِهِ}: حين يُقْلِعونَ عن ذُنوبهم ويندمون عليها ويعزِمون على أن لا يعاوِدوها إذا قَصَدوا بذلك وجهَ ربِّهم؛ فإنَّ الله يقبلُها بعدما انعقدتْ سبباً للهلاك ووقوع العقوباتِ الدنيويَّة والدينيَّة، فيعفو {عن السَّيِّئاتِ}: ويمحوها، ويمحو أثرها من العيوب، وما اقتضتْه من العقوباتِ، ويعودُ التائبُ عنده كريماً كأنَّه ما عمل سوءاً قطُّ، ويحبُّه ويوفِّقه لما يقرِّبه إليه.
ولما كانت التوبةُ من الأعمال العظيمة التي قد تكون كاملةً بسبب تمام الإخلاص والصدق فيها، وقد تكونُ ناقصةً عند نقصِهِما، وقد تكون فاسدةً إذا كان القصدُ منها بلوغَ غَرَضٍ من الأغراض الدنيويَّة، وكان محلُّ ذلك القلبَ الذي لا يعلمه إلاَّ الله؛ ختم هذه الآية بقوله: {ويعلم ما تفعلونَ}.
[25] یہ اللہ تعالیٰ کے کمال فضل و کرم، اس کی وسعت جود اور اس کے لطف کامل کا بیان ہے کہ وہ اپنے بندوں سے صادر ہونے والی توبہ کو قبول کرتا ہے جب وہ گناہوں کو ترک کر کے ان پر نادم ہوتے ہیں اور ان گناہوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں ۔جب وہ اس توبہ میں خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کا قصد رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس توبہ کو قبول کرتا ہے، جبکہ یہ گناہ ہلاکت اور دنیاوی و اخروی عذاب کا سبب بن چکے تھے۔
﴿وَیَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ ﴾ اللہ تعالیٰ برائیوں کو مٹا دیتا ہے، ان کے برے اثرات اور عقوبات کو بھی ختم کر دیتا ہے جن کا تقاضا یہ برائیاں کرتی ہیں اور توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوبارہ اچھے لوگوں کے زمرے میں شمار ہونے لگتا ہے گویا کہ اس نے کبھی کوئی برا کام کیا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اسے ایسے اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو اسے اس کا قرب عطا کرتے ہیں۔ چونکہ توبہ عظیم اعمال میں شمار ہوتی ہے، جو کبھی تو کامل صدق و اخلاص کی بنا پر کامل ہوتی ہے اور کبھی صدق و اخلاص میں کمی کے سبب سے ناقص ہوتی ہے اور کبھی توبہ فاسد ہوتی ہے جب توبہ کا مقصد کوئی دنیاوی غرض ہو، اور توبہ کا محل قلب ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کو اس ارشاد پر ختم فرمایا :﴿وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾ ’’اور تم جو عمل کرتے ہو، وہ جانتاہے۔‘‘
#
{26} فالله تعالى دعا جميع العباد إلى الإنابة إليه والتوبةِ من التقصيرِ، فانقسموا بحسب الاستجابةِ له إلى قسمين: مستجيبين، وَصَفَهم بقوله: {ويستجيبُ الذين آمنوا وعملوا الصالحاتِ}؛ أي: يستجيبون لربِّهم لما دعاهم إليه، وينقادون له، ويلبُّون دعوته؛ لأنَّ ما معهم من الإيمان والعمل الصالح يحمِلُهم على ذلك؛ فإذا استجابوا له؛ شَكَرَ الله لهم، وهو الغفورُ الشَّكور، وزادهم {من فضلِهِ}: توفيقاً ونشاطاً على العمل، وزادهم مضاعفةً في الأجر زيادةً عن ما تستحقُّه أعمالهم من الثواب والفوز العظيم. وأما غير المستجيبين لله، وهم المعاندون الذين كفروا به وبرسله؛ فلهم عذابٌ شديدٌ في الدُّنيا والآخرة.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام بندوں کو اپنی طرف انابت اور تقصیر پر توبہ کرنے کی دعوت دی ہے پس بندے اس دعوت کو قبول کرنے کے بارے میں دو اقسام میں منقسم ہیں:
۱۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا وصف بیان فرمایا ہے:
﴿وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ یعنی ان کا رب انھیں جس چیز کی طرف بلاتا ہے وہ اس کی پکار کا جواب دیتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں کیونکہ ان کے اعمال اور عمل صالح انھیں ایسا کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں تو وہ ان کی قدر کرتا ہے وہ بہت بخشنے والا اور نہایت قدردان ہے۔
﴿وَیَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ٘﴾ ’’اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے عمل کے لیے ان کی توفیق و نشاط میں اضافہ کرتا ہے، ان کے اعمال جس ثواب اور فوزعظیم کے مستحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اس سے کئی گنا زیادہ اجر عطا کرتا ہے۔
۲۔ رہے وہ جو اللہ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور وہ معاندین حق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والے ہیں۔
﴿لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ﴾ ان کے لیے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے۔
#
{27} ثم ذكر أن من لطفِهِ بعبادِهِ أنَّه لا يوسِّع عليهم الدُّنيا سعةً تضرُّ بأديانهم، فقال: {ولو بَسَطَ الله الرزقَ لعبادِهِ لَبَغَوْا في الأرض}؛ أي: لغفلوا عن طاعة الله، وأقبلوا على التمتُّع بشهوات الدُّنيا، فأوجبت لهم الإكباب على ما تشتهيه نفوسُهم، ولو كان معصيةً وظلماً. {ولكن يُنَزِّلُ بَقَدَرٍ ما يشاءُ}: بحسب ما اقتضاه لطفُه وحكمتُه، {إنَّه بعباده خبيرٌ بصيرٌ}: كما في بعض الآثار أنَّ الله تعالى يقول: «إنَّ مِنْ عبادي من لا يُصْلِحُ إيمانَه إلاّ الغنى، ولو أفقرتُه؛ لأفسده ذلك، وإنَّ من عبادي من لا يُصْلِحُ إيمانَه إلاّ الفقرُ، ولو أغنيته؛ لأفسده ذلك، وإنَّ من عبادي من لا يُصْلِحُ إيمانَه إلاَّ الصحةُ، ولو أمرضتُه؛ لأفسده ذلك، وإنَّ من عبادي من لا يُصْلِحُ إيمانَه إلاَّ المرضُ، ولو عافيتُه؛ لأفسده ذلك، إنِّي أدبِّر أمر عبادي بعلمي بما في قلوبهم، إني خبيرٌ بصيرٌ».
[27] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے لطف و کرم کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں پر دنیا کو اتنی زیادہ فراخ نہیں کرتا، جس سے ان کے دین کو نقصان پہنچے،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق میں فراخی کردیتا تو وہ زمین میں فساد کرنے لگتے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل ہو کر شہوات دنیا سے تمتع میں مصروف ہو جاتے اور دنیا انھیں ان کی خواہشات نفس میں مشغول کر دیتی خواہ وہ معصیت اور ظلم ہی کیوں نہ ہوتے۔
﴿وَلٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُ ﴾ ’’لیکن وہ اپنے اندازے سے جو چیز چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔‘‘ یعنی اپنے لطف و کرم اور حکمت کے تقاضے کے مطابق
﴿اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ ﴾ ’’یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر،
خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ جیسا کہ ایک اثر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف غنا ہی کرتا ہے اگر میں اسے فقروفاقہ میں مبتلا کر دوں تو یہ فقروفاقہ اسے فاسد کر کے رکھ دے گا اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح فقر کے سوا کوئی اور چیز نہیں کرتی اگر میں اسے غنا عطا کر دوں تو وہ ان کے ایمان کو خراب کردے اور میرے بندوں میں سے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح، صحت کے سوا کسی چیز سے نہیں ہوتی اگر میں انھیں بیمار کر دوں تو وہ انھیں فاسد کر کے رکھ دے اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف مرض سے ہوتی ہے اگر میں انھیں عافیت سے نواز دوں تو یہ عافیت ان کے ایمان کو فاسد کر دے۔ بندوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، اس کے بارے میں اپنے علم کے مطابق بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہوں۔ بے شک میں خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہوں۔‘‘
(العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواہیۃ، الإیمان، باب تدبیر الخلق بما یصلح الإیمان، حدیث: 27 اس حدیث کی سند ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجرa نے کہا ہے لیکن اس کا معنی و مفہوم درست ہے۔ (فتح ا لباري: 415/11)
#
{28} {وهو الذي يُنَزِّل الغيثَ}؛ أي: المطر الغزير الذي به يغيثُ البلاد والعباد {من بعدِ ما قَنَطوا}: وانقطع عنهم مُدَّةً ظنُّوا أنه لا يأتيهم، وأيسوا، وعملوا لذلك الجدب أعمالاً، فينزِلُ الله الغيث، {وينشُرُ} به {رحمتَه} من إخراج الأقواتِ للآدميِّين وبهائمهم، فيقع عندهم موقعاً عظيماً، ويستبشرون بذلك ويفرحون. {وهو الوليُّ}: الذي يتولَّى عباده بأنواع التَّدبير، ويتولَّى القيام بمصالح دينهم ودنياهم {الحميد}: في ولايته وتدبيره، الحميد على ما له من الكمال وما أوصله إلى خلقه من أنواع الأفضال.
[28] ﴿وَهُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ ﴾ یعنی وہی موسلادھار بارش برساتا ہے جس کے ذریعے سے وہ زمین اور بندوں کی مدد کرتا ہے
﴿مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا ﴾ ’’اس کے بعد کہ وہ مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔‘‘ ایک مدت سے ان سے بارش منقطع ہو چکی ہوتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اب بارش نہیں ہو گی اور یوں وہ مایوس ہو کر قحط سالی کے لیے کوئی کام کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ بارش برسا دیتا ہے
﴿وَیَنْ٘شُ٘رُ ﴾ وہ اس بارش کے ذریعے سے پھیلاتا ہے
﴿رَحْمَتَهٗ﴾ ’’اپنی رحمت کو۔‘‘ انسانوں اور ان کے چوپایوں کی خوراک کا سامان پیدا کر کے اور انسانوں کے نزدیک یہ بارش بہت اچھے موقع پر برستی ہے، اس موقع پر وہ خوش ہوتے اور فرحت کا اظہار کرتے ہیں۔
﴿وَهُوَ الْوَلِیُّ ﴾ ’’اور وہی کارساز ہے۔‘‘ جو مختلف تدابیر کے ساتھ اپنے بندوں کی سرپرستی اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کا انتظام کرتا ہے۔
﴿الْحَمِیْدُ ﴾ وہ سرپرستی اور تدبیر و انتظام میں قابل ستائش ہے، اور کمال کا مالک ہونے اور مخلوق کو جو مختلف نعمتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں، اس پر وہ قابل ستائش ہے۔
{وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ (29)}.
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں اور زمین کا اور جو پھیلائے اس نے ان میں جاندار، اور وہ ان کے جمع کرنے پر، جب چاہے، قادر ہے
(29)
#
{29} أي: ومن أدلَّة قدرتِهِ العظيمة وأنَّه سيُحيي الموتى بعد موتهم: {خَلْقُ} هذه {السمواتِ والأرضِ}؛ على عِظَمِهما وسعتهما، الدالُّ على قدرته وسعة سلطانه، وما فيهما من الإتقان والإحكام دالٌّ على حكمته، وما فيهما من المنافع والمصالح دالٌّ على رحمتِهِ، وذلك يدلُّ على أنَّه المستحقُّ لأنواع العبادة كلِّها، وأنَّ إلهيَّة ما سواه باطلةٌ. {وما بثَّ فيهما}؛ أي: نشر في السماواتِ والأرض من أصناف الدوابِّ، التي جعلها الله مصالحَ ومنافعَ لعبادِهِ. {وهو على جمعهم}؛ أي: جمع الخلق بعد موتِهِم لموقفِ القيامةِ {إذا يشاءُ قديرٌ}: فقدرتُه ومشيئتُه صالحان لذلك، ويتوقَّف وقوعُه على وجود الخبر الصادق، وقد عُلم أنَّه قد تواترت أخبار المرسلين وكتبهم بوقوعه.
[29] ﴿وَمِنْ اٰیٰتِهٖ﴾’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے۔‘‘ یعنی اس کی عظیم قدرت کہ جس میں مُردوں کو زندہ کرنا بھی ہے، کے جملہ دلائل میں سے ایک دلیل
﴿ خَلْ٘قُ ﴾ ’’پیدائش‘‘ ان
﴿السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کی۔‘‘ ان کی عظمت اور وسعت کے ساتھ، وہ اللہ کی قدرت اور وسعت سلطنت پر دلالت کرتی ہے اور ان کی تخلیق میں مہارت اور مضبوطی ہے، وہ اس کی حکمت پر اور ان کے اندر جو منافع اور مصالح رکھے گئے ہیں، وہ اس کی رحمت کی دلیل ہیں اور یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی الوہیت باطل ہے۔
﴿وَمَا بَثَّ فِیْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے آسمانوں اور زمین میں جانداروں کی اصناف پھیلائیں اور ان کو اپنے بندوں کے لیے منافع اور مصالح قرار دیا۔
﴿وَهُوَ عَلٰى جَمْعِهِمْ ﴾ یعنی وہ تمام مخلوق کو ان کے مرنے کے بعد قیامت کے موقف کے لیے جمع کرنے پر
﴿اِذَا یَشَآءُ قَدِیْرٌ ﴾ ’’جب چاہے، خوب قادر ہے‘‘ پس اس کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا وقوع، خبر صادق کے وجود پر موقوف ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ انبیاء و مرسلین اور ان کی کتابوں کی طرف سے اس کے وقوع کی خبر نہایت تواتر کے ساتھ دی گئی ہے۔
{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ (30) وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (31)}.
اور جو بھی پہنچتی ہے تم کو کوئی مصیبت توبسبب اس کےجو کمایا تمھارے ہاتھوں نے اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے
(30) اور نہیں ہو تم عاجز کرنے والے
(اسے) زمین میں اور نہیں ہے تمھارے لیے سوائے اللہ کے کوئی کارساز اور نہ کوئی مددگار
(31)
#
{30} يخبر تعالى أنَّه ما أصاب العبادَ من مصيبةٍ في أبدانهم وأموالهم وأولادهم وفيما يحبُّون ويكون عزيزاً عليهم إلاَّ بسبب ما قدَّمته أيديهم من السيئاتِ، وأنَّ ما يعفو الله عنه أكثرُ؛ فإنَّ الله لا يظلم العبادَ، ولكن أنفسَهم يظلمونَ، {ولو يؤاخِذُ اللهُ الناس بما كَسَبوا ما تَرَكَ على ظهرها من دابَّةٍ}.
[30] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ بندوں کو ان کے ابدان، اموال، اولاد اور ان کی محبوب اور عزیز چیزوں میں جو بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے اس کا سبب ان کے ہاتھوں سے کمائی ہوئی برائیاں ہیں اور وہ برائیاں جو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے، اس سے بھی زیادہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، بندے خود اپنے آپ پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
﴿وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ ﴾ (فاطر:35؍45) ’’اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا۔‘‘
#
{31} وليس إهمالاً منه تعالى تأخيرُ العقوباتِ ولا عجزاً: فما {أنتُم بمعجزينَ في الأرض}؛ أي: معجزينَ قدرةَ الله عليكم، بل أنتم عاجزون في الأرض، ليس عندكم امتناعٌ عما ينفذه الله فيكم، {وما لكم من دونِ الله من وليٍّ}: يتولاَّكم، فيحصِّل لكم المنافع {ولا نصيرٍ}: يدفع عنكم المضارَّ.
[31] اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقوبات کو موخر کرنا، کسی بھول کی بنا پر ہے نہ کسی عجز کی بنا پر ۔
﴿وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور تم زمین میں
(اسے) عاجز نہیں کرسکتے۔‘‘ یعنی تم پر جو اللہ تعالیٰ کو قدرت حاصل ہے اس بارے میں تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں پاؤ گے۔ بلکہ تم زمین کے اندر بے بس اور عاجز ہو۔ اللہ تم پر جو حکم نافذ کرتا ہے تم اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
﴿وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ ﴾ ’’اللہ کے سوا تمھارا کوئی دوست نہیں۔‘‘ جو تمھاری سرپرستی کرے اور تمھیں فوائد عطا کرے
﴿وَّلَا نَصِیْرٍ ﴾ ’’اور نہ مددگار‘‘ جو تم سے ضرر رساں چیزوں کو دور کرے۔
{وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (32) إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (33) أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيرٍ (34) وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِنَا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ (35)}.
اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں چلنے والی کشتیاں سمندر میں، مانند پہاڑوں کے
(32) اگر وہ چاہے تو ٹھہرا دے ہوا کو، تو ہو جائیں وہ
(کشتیاں)کھڑی ہونے والی اس
(سمندر) کی سطح پر، بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں واسطے ہر صابر، شاکرکے
(33) یا
(چاہے تو) تباہ کر دے ان کو بسبب اس کےجو انھوں نے کمایا اور
(چاہے تو) درگزر کر دے بہت سوں سے
(34) اور
(تاکہ) جان لیں وہ لوگ جو جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں کہ نہیں ہے ان کے لیے کوئی بھاگنے کی جگہ
(35)
#
{32} أي: ومن أدلَّة رحمته وعنايته بعباده {الجواري في البحر}: من السُّفن والمراكب الناريَّة والشراعيَّة التي من عظمها {كالأعلامِ}، وهي الجبالُ الكبارُ التي سخَّر لها البحر العجاج، وحفظها من التطام الأمواج، وجعلها تحمِلُكم وتحمِلُ أمتعتَكم الكثيرةَ إلى البلدان والأقطارِ البعيدة، وسخَّر لها من الأسباب ما كان معونةً على ذلك.
[32] یعنی اپنے بندوں پر رحمت اور عنایت کے جملہ دلائل میں سے ایک دلیل
﴿الْجَوَارِ فِی الْبَحْرِ ﴾ ’’سمندر میں جہاز‘‘ کشتیاں، دخانی اور بادبانی جہاز ہیں جو اپنی بڑی جسامت کی بنا پر
﴿كَالْاَعْلَامِ﴾ بڑے بڑے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو مسخر کر دیا اور متلاطم موجوں سے ان کی حفاظت کی، یہ کشتیاں انھیں اور ان کے سامان تجارت کو دور دور ملکوں اور شہروں تک لے جاتی ہیں اور ان کے لیے ایسے اسباب مہیا کیے جو ان کو ان ملکوں اور شہروں تک جانے میں مدد دیتے ہیں۔
#
{33 ـ 34} ثم نبَّه على هذه الأسباب بقوله: {إن يشأ يُسْكِنِ الريحَ}: التي جعلها الله سبباً لمشيها، {فيَظْلَلْنَ}؛ أي: الجواري {رواكدَ}: على ظهر البحر لا تتقدَّم ولا تتأخَّر. ولا ينتقض هذا بالمراكب الناريَّة؛ فإنَّ من شرط مشيِها وجودَ الريح، وإنْ شاء الله تعالى؛ أوبق الجواري بما كسب أهلها؛ أي: أغرقها في البحر وأتلفها، ولكنَّه يحلم ويعفو عن كثيرٍ. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لكلِّ صبارٍ شكورٍ}؛ أي: كثير الصبر على ما تكرهه نفسه، ويشقُّ عليها فيكرِهها عليه من مشقَّة طاعة أو رَدْع داعٍ إلى معصية أو رَدْع نفسِهِ عند المصائب عن التسخُّط، شكورٍ في الرخاء، وعند النعم يعترفُ بنعمةِ ربِّه، ويخضع له، ويصرِفُها في مرضاتِهِ؛ فهذا الذي ينتفع بآيات الله، وأمَّا الذي لا صبر عنده ولا شكر له عند نعم الله؛ فإنَّه معرضٌ أو معاندٌ لا ينتفع بالآيات.
[33، 34] پھر اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنْ یَّشَاْ یُسْكِنِ الرِّیْحَ ﴾ ’’اگر وہ
(اللہ) چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔‘‘ جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں کے چلنے کا سبب بنایا ہے،
﴿فَیَظْلَلْ٘نَ ﴾ ’’اور وہ رہ جائیں۔‘‘ یعنی مختلف انواع کی کشتیاں
﴿رَوَاكِدَ ﴾ سطح سمندر پر ٹھہر جائیں، آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ یہ چیز دخانی کشتیوں کے متناقض نہیں ہے کیونکہ دخانی کشتیوں کے چلنے کے لیے ہوا کا موجود ہونا شرط ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کشتیوں کو، ان پر سوار ہونے والوں کے کرتوتوں کے سبب سے تباہ کر دے یعنی سمندر میں غرق کر کے تلف کر دے، مگر وہ حلم سے کام لیتا ہے اور بہت سے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ ﴾ ’’بے شک صبر شکر کرنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی جو ان امور پر بہت صبر کرنے والا ہے جن کو اس کا نفس ناپسند کرتا ہے اور اس پر یہ امور شاق گزرتے ہیں وہ اپنے نفس کو اس مشقت اور اطاعت پر مجبور کرتا ہے، معصیت کے داعی کو اور مصیبت کے وقت نفس کو اللہ تعالیٰ پر ناراضی سے روکتا ہے
﴿شَكُوْرٍ﴾ نعمتوں اور آسودہ حالی میں شکر ادا کرتا ہے، وہ اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق صرف کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو صبر سے بہرہ ور ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو یہ شخص یا تو آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والا یا ان سے عناد رکھنے والا ہے، وہ آیات الٰہی سے مستفید نہیں ہوسکتا۔
#
{35} ثم قال تعالى: {ويعلم الذين يجادلون في آياتنا}: لِيُبْطِلوها بباطلهم، {ما لهم من محيصٍ}؛ أي: لا ينقذهم منقذٌ مما حلَّ بهم من العقوبة.
[35] پھر فرمایا:
﴿وَّیَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا ﴾ ’’اور جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیتوں کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔‘‘تاکہ اپنے باطل نظریے کے ذریعے سے انھیں جھٹلاتے ہیں۔
﴿مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ ﴾ اس عذاب سے انھیں کوئی بچا نہیں سکے گا جو ان پر نازل ہو گا۔
{فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (39)}.
پس جو بھی دیے گئے ہو تم کسی چیز سے تو وہ سامان ہے زندگانیٔ دنیا کا، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ کہیں بہتر اور بہت پائیدار ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر وہ بھروسا کرتے ہیں
(36) اور وہ لوگ جو بچتے ہیں کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اور جب غصے ہوتے ہیں تو وہ معاف کر دیتے ہیں
(37) اور وہ جنھوں نے حکم مانا اپنے رب کا اور قائم کی انھوں نے نماز اور ان کا کام ہے مشورہ کرنا آپس میں، اور اس میں سے جو دیا ہم نے ان کو، وہ خرچ کرتے ہیں
(38) اور وہ لوگ کہ جب پہنچتا ہے ان کو ظلم تو وہ بدلہ لیتے ہیں
(39)
#
{36} هذا تزهيدٌ في الدُّنيا وترغيبٌ في الآخرة وذكرُ الأعمال الموصلةِ إليها؛ فقال: {فما أوتيتم من شيءٍ}: من ملكٍ ورياسةٍ وأموال وبنينَ وصحَّةٍ وعافيةٍ بدنيَّةٍ، {فمتاعُ الحياةِ الدُّنيا}: لذَّةٌ منغصةٌ منقطعةٌ، {وما عندَ اللهِ}: من الثواب الجزيل والأجر الجليل والنعيم المقيم {خيرٌ} من لَذَّات الدُّنيا، خيريَّة لا نسبةَ بينهما {وأبقى}: لأنَّه نعيمٌ لا منغِّص فيه ولا كَدَرَ ولا انتقالَ.
ثم ذكر لمن هذا الثواب، فقال: {للذين آمنوا وعلى ربِّهم يتوكَّلونَ}؛ أي: جمعوا بين الإيمان الصحيح المستلزم لأعمال الإيمان الظاهرة والباطنة، وبين التوكُّل الذي هو الآلةُ لكلِّ عمل؛ فكلُّ عمل لا يَصْحَبُه التوكُّل؛ فغير تامٍّ، وهو الاعتماد بالقلب على الله في جَلْب ما يحبُّه العبد ودَفْع ما يكرهُهُ مع الثِّقة به تعالى.
[36] اس آیت کریمہ میں دنیا کو ترک کرنے اور آخرت کو اختیارکرنے کی ترغیب اور ان اعمال کا ذکر ہے جو آخرت کی منزل تک پہنچاتے ہیں ،
چنانچہ فرمایا: ﴿فَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ ﴾ ’’پس جو کچھ تمھیں دیا گیا ہے۔‘‘ یعنی اقتدار، ریاست، سرداری، مال، بیٹے اور بدنی صحت و عافیت وغیرہ۔
﴿فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’پس دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے۔‘‘ یعنی منقطع ہونے والی لذت ہے۔
﴿وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ بے پایاں ثواب، جلیل القدر اور دائمی نعمتوں میں سے وہ
﴿خَیْرٌ ﴾ لذات دنیا سے بہتر ہے، اخروی نعمتوں اور دنیا کی لذتوں کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں۔
﴿وَّاَبْقٰى ﴾ ’’اور زیادہ پائدار ہیں۔‘‘ کیونکہ یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ ان میں کوئی تکدر ہے نہ یہ ختم ہونے والی ہیں اور نہ یہ کہیں اور منتقل ہوں گی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کو اس ثواب سے بہرہ مند کیا جائے گا ،
چنانچہ فرمایا :﴿لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَؔكَّلُوْنَ﴾ یعنی جنھوں نے ایمان صحیح، جو ظاہری اور باطنی ایمان کے اعمال کو مستلزم ہے اور توکل کو جمع کر لیا ہے جو ہر عمل کا آلہ ہے پس ہر عمل جس کی مصاحبت میں توکل نہ ہو، غیرمکمل ہے۔ اور جس چیز کو بندہ پسند کرتا ہے اسے حاصل کرنے اور جسے ناپسند کرتا ہے اسے دور کرنے میں قلب کے اللہ تعالیٰ پر پورے وثوق کے ساتھ بھروسہ کرنے کا نام توکل ہے۔
#
{37} {والذين يَجتنبونَ كبائرَ الإثم والفواحشَ}: والفرق بين الكبائرِ والفواحشِ ـ مع أنَّ جميعَهما كبائرُ ـ أنَّ الفواحشَ هي الذُّنوب الكبارُ التي في النفوس داعٍ إليها كالزِّنا ونحوه، والكبائرُ ما ليس كذلك، هذا عند الاقتران، وأمَّا مع إفرادِ كلٍّ منهما عن الآخر؛ فإنَّ الآخر يدخُلُ فيه. {وإذا ما غضبوا هم يغفِرونَ}؛ أي: قد تخلَّقوا بمكارم الأخلاق ومحاسن الشِّيم، فصار الحلم لهم سَجِيَّة وحسن الخلق لهم طبيعةً، حتى إذا أغضَبَهم أحدٌ بمقاله أو فعاله؛ كظموا ذلك الغضب، فلم يُنْفِذوه، بل غفروه، ولم يقابِلوا المسيءَ إلاَّ بالإحسان والعفو والصفح، فترتَّب على هذا العفو والصفح من المصالح ودفع المفاسد في أنفسهم وغيرهم شيءٌ كثير؛ كما قال تعالى: {ادفَعْ بالتي هي أحسنُ فإذا الذي بينَكَ وبينَه عدواةٌ كأنَّه وليٌّ حميمٌ. وما يُلَقَّاها إلاَّ الذينَ صَبَروا وما يُلَقَّاها إلاَّ ذو حَظٍّ عظيم}.
[37] ﴿وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ ﴾ ’’اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔‘‘ کبائر اور فواحش میں، دونوں کے گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود، فرق یہ ہے کہ فواحش وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کے لیے نفس انسانی میں داعیہ موجود ہوتا ہے،
مثلاً: زنا وغیرہ اور کبائر وہ گناہ ہیں جن کے لیے نفس میں داعیہ موجود نہیں ہوتا، یہ مفہوم دونوں کے اکٹھا استعمال کے وقت ہے۔ اور رہا ان کا انفرادی وجود، تو وہ سب کبائر میں داخل ہیں۔
﴿وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَ﴾ ’’اور جب وہ غصے میں آتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں۔‘‘ یعنی انھوں نے مکارم اخلاق اور محاسن عادات سے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے، حلم ان کی فطرت اور حسن خلق ان کی طبیعت بن گیا ہے حتیٰ کہ جب کبھی کوئی شخص کسی قول یا فعل کے ذریعے سے انھیں ناراض کر دیتا ہے تو وہ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے، بلکہ قصور بخش دیتے ہیں اور وہ اس کے مقابلے میں حسن سلوک اور عفوودرگزر سے کام لیتے ہیں۔ پس اس عفوودگزر پر،
خود ان کی ذات میں اور دوسروں میں بہت سے مصالح مترتب اور بہت سے مفاسد دور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِدْفَ٘عْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۰۰ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا١ۚ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (حم السجدۃ:41؍34، 35) ’’برائی کو نیکی کے ذریعے سے دور کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص بھی جس کی آپ کے ساتھ دشمنی ہے، جگری دوست بن جائے گا، اس وصف سے صرف وہی لوگ بہرہ مند ہوتے ہیں، جو صبر کرتے ہیں اور یہ وصف صرف انھیں لوگوں کو عطا ہوتا ہے جو بڑے نصیبے والے ہیں۔‘‘
#
{38} {والذين استجابوا لربِّهم}؛ أي: انقادوا لطاعته، ولبَّوْا دعوته، وصار قصدُهُم رضوانَه وغايتُهُم الفوزَ بقربِهِ، ومن الاستجابة لله إقامُ الصَّلاة وإيتاءُ الزَّكاة؛ فلذلك عطفَهما على ذلك من باب عطف العامِّ على الخاصِّ الدالِّ على شرفه وفضله، فقال: {وأقاموا الصلاةَ}؛ أي: ظاهرها وباطنها فرضها ونفلها، {ومما رَزَقْناهم يُنفِقونَ}: من النفقات الواجبة؛ كالزكاة والنفقة على الأقارب ونحوهم، والمستحبَّة؛ كالصدقات على عموم الخلق. {وأمرُهُم}: الدينيُّ والدنيويُّ، {شورى بينهم}؛ أي: لا يستبدُّ أحدٌ منهم برأيه في أمر من الأمور المشتركة بينهم، وهذا لا يكون إلاَّ فرعاً عن اجتماعهم وتوالُفِهم وتوادُدِهم وتحابُبِهم؛ وكمال عقولهم أنَّهم إذا أرادوا أمراً من الأمور التي تحتاجُ إلى إعمال الفكرِ والرأي فيها؛ اجتمعوا لها وتشاوروا وبحثوا فيها، حتى إذا تبيَّنت لهم المصلحةُ؛ انتهزوها وبادروها، وذلك كالرأي في الغزو والجهاد وتولية الموظَّفين لإمارةٍ أو قضاءٍ أو غيره، وكالبحث في المسائل الدينيَّة عموماً؛ فإنَّها من الأمور المشتركة، والبحثُ فيها لبيان الصَّواب مما يحبُّه الله، وهو داخلٌ في هذه الآية.
[38] ﴿وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ ﴾ ’’اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں۔‘‘ یعنی جو اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا ان کا مطمحِ نظر اور اس کے قرب کا حصول ان کی غرض و غایت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دعوت کا جواب دینے سے مراد ہے، نماز قائم کرنا اور زکاۃ ادا کرنا، اس لیے ان کا استجابت پر عطف کیا ہے، یہ خاص پر عام کے عطف کے باب میں سے ہے،
جو اس کے فضل و شرف کی دلیل ہے۔
اس لیے فرمایا: ﴿وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ﴾ یعنی اس کے ظاہر و باطن اور فرائض و نوافل کو قائم کرتے ہیں۔
﴿وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ ’’اور ہم نے جو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی نفقات واجبہ ،
مثلاً: زکاۃ اور اقارب پر خرچ کرنا وغیرہ اور نفقات مستحبہ ،
مثلاً: عام مخلوق پر صدقہ کرنا۔
﴿وَاَمْرُهُمْ ﴾ ان کے دینی اور دنیاوی معاملات
﴿شُوْرٰى بَیْنَهُمْ ﴾ ’’باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔‘‘ یعنی مشترکہ امور میں ان میں سے کوئی بھی اپنی رائے کو مسلط نہیں کرتا۔ یہ وصف ان کی اجتماعیت، آپس کی الفت، مودت اور محبت ہی کا حصہ ہے۔ ان کا کمال عقل ہے کہ جب وہ کسی ایسے کام کا ارادہ کرتے ہیں جس میں غوروفکر کی ضرورت ہو تو وہ اکٹھے ہو کر اس بارے میں بحث و تمحیص اور آپس میں مشورہ کرتے ہیں، جب ان پر مصلحت واضح ہو جاتی ہے تو اسے جلدی سے قبول کر لیتے ہیں، جیسے غزوہ، جہاد، امارت یا قضا وغیرہ کے لیے عمّال مقرر کرنے میں مشورہ کرنا اور دینی مسائل میں بحث و تحقیق کرنا کیونکہ یہ اعمال مشترکہ امور میں شمار ہوتے ہیں تاکہ صحیح رائے واضح ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ یہ بھی اسی آیت کریمہ کے تحت آتا ہے۔
#
{39} {والذين إذا أصابَهُمُ البغيُ}؛ أي: وصل إليهم من أعدائهم {هم ينتصرونَ}: لقوَّتهم وعزَّتهم، ولم يكونوا أذلاَّء عاجزين عن الانتصارِ؛ فوصَفَهم بالإيمان، والتوكُّل على الله، واجتنابِ الكبائر والفواحش الذي تُكَفَّرُ به الصغائرُ، والانقياد التامِّ، والاستجابة لربِّهم، وإقامة الصلاة، والإنفاق في وجوه الإحسان، والمشاورة في أمورهم، والقوَّة، والانتصار على أعدائِهِم؛ فهذه خصالُ الكمال قد جَمَعوها، ويلزم من قيامِها فيهم فِعْلُ ما هو دونَها وانتفاءُ ضدِّها.
[39] ﴿وَالَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الْ٘بَغْیُ ﴾ ’’اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم و تعدی ہو۔‘‘ یعنی ان کے دشمنوں کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی کی جاتی ہے
﴿هُمْ یَنْ٘تَصِرُوْنَ ﴾ ’’وہ بدلہ لیتے ہیں۔‘‘ اپنی قوت و طاقت کی بنا پر ان سے بدلہ لیتے ہیں، وہ کمزور اور بدلہ لینے سے عاجز نہیں ہیں۔
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ایمان، اللہ پر توکل، کبائر و فواحش سے اجتناب جس سے صغیرہ گناہ مٹ جاتے ہیں، مکمل اطاعت، اپنے رب کی دعوت کو قبول کرنے، نماز قائم کرنے، نیکی کے راستوں میں خرچ کرنے، اپنے معاملات میں باہم مشورہ کرنے، دشمن کے خلاف قوت استعمال کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے سے متصف کیا ہے۔ وہ ان خصائل کمال کے جامع ہیں اور یوں ان سے کمتر افعال کے صدور اور مرقومہ بالاخصائل کی اضداد کی نفی لازم آتی ہے۔
{وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (41) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (43)}.
اور بدلہ برائی کا برائی ہے اسی کی مثل، پس جو معاف کر دے اور صلح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بلاشبہ وہ نہیں پسند کرتا ظالموں کو
(40) اور البتہ جس نے بدلہ لیا بعد اپنے آپ پر ظلم ہونے کے تو یہی لوگ ہیں کہ نہیں ہے اوپر ان کے کوئی راستہ
(گرفت کرنے کا) (41) بلاشبہ راستہ تو ان لوگوں پر ہے جو ظلم کرتے ہیں لوگوں پر اور سرکشی کرتے ہیں زمین میں ناحق، یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہے عذاب درد ناک
(42) اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بے شک یہ ہمت کے کاموں سے ہے
(43)
#
{40} ذكر الله في هذه الآية مراتبَ العقوباتِ، وأنَّها على ثلاث مراتب: عدلٌ، وفضلٌ، وظلمٌ. فمرتبةُ العدل: جزاءُ السيئةِ بسيئةٍ مثِلها؛ لا زيادة ولا نقص؛ فالنفسُ بالنفس، وكلُّ جارحة بالجارحة المماثلة لها، والمال يُضْمَنُ بمثله.
ومرتبةُ الفضل: العفو والإصلاحُ عن المسيء، ولهذا قال: {فمَنْ عفا وأصلَحَ فأجرُهُ على الله}؛ يجزيه أجراً عظيماً وثواباً كثيراً، وشَرَطَ الله في العفو الإصلاح فيه ليدلَّ ذلك على أنَّه إذا كان الجاني لا يَليقُ بالعفوِ عنه، وكانت المصلحةُ الشرعيةُ تقتضي عقوبتَه؛ فإنَّه في هذه الحال لا يكون مأموراً به، وفي جعل أجرِ العافي على الله مما يهيجُ على العفوِ وأنْ يعامِلَ العبدُ الخَلْقَ بما يحبُّ أن يعامِلَه الله به؛ فكما يحبُّ أن يعفوَ الله عنه؛ فليعفُ عنهم، وكما يحبُّ أن يسامِحَه الله؛ فليسامِحْهم؛ فإنَّ الجزاء من جنس العمل.
وأما مرتبةُ الظُّلم؛ فقد ذَكَرَها بقوله: {إنَّه لا يحبُّ الظالمين}: الذين يجنون على غيرِهِم ابتداءً، أو يقابلون الجاني بأكثر من جنايتِهِ؛ فالزيادة ظلمٌ.
[40] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عقوبات کے مراتب بیان کیے ہیں،
عقوبات کے تین مراتب ہیں: عدل، فضل اور ظلم۔ 1کسی کمی بیشی کے بغیر، برائی کے بدلے میں اسی جیسی برائی، مرتبۂ عدل ہے۔ پس جان کے بدلے جان ہے،
عضو کے بدلے اس جیسا عضو اور مال کی ضمان اسی جیسا مال ہے۔ 2برائی کرنے والے کو معاف کر کے اصلاح کرنا مرتبۂ فضل ہے اس لیے فرمایا: ﴿فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’پس جو کوئی درگزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم اور ثواب جزیل عطا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے درگزر کرنے میں اصلاح کی شرط دلالت کرتی ہے کہ اگر مجرم عفو کے لائق نہ ہو اور مصلحت شرعیہ اس کو سزا دینے کا تقاضا کرتی ہو تو اس صورت میں وہ عفو پر مامور نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا معاف کرنے والے کو اجر عطا کرنا، عفو پر آمادہ کرتا ہے نیز اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ وہ معاملہ کرے، جو وہ اپنے بارے میں چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کرے۔ جیسا کہ وہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے، لہٰذا اسے بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو معاف کر دے۔ اور جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ نرمی کرے، تب اسے بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی کرے۔ کیونکہ جزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔
3 رہا مرتبۂ ظلم، تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے۔
﴿اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ جو دوسروں پر زیادتی کرنے میں ابتدا کرتے ہیں، یا جرم کرنے والے سے اس کے جرم سے بڑھ کر بدلہ لیتے ہیں تو یہ زیادتی ظلم ہے۔
#
{41} {ولَمَنِ انتصر} من {بعد ظلمِهِ}؛ أي: انتصر ممَّن ظَلَمه بعد وقوع الظُّلم عليه {فأولئك ما عليهم من سبيل}؛ أي: لا حرج عليهم في ذلك. ودلَّ قولُه: {والذين إذا أصابَهُمُ البَغْيُ}، وقوله: {ولَمَنِ انتصر بعد ظلمِهِ}: أنَّه لا بدَّ من إصابة البغي والظُّلم ووقوعه، وأما إرادةُ البغي على الغير وإرادةُ ظلمه من غيرِ أن يَقَعَ منه شيءٌ؛ فهذا لا يجازَى بمثله، وإنَّما يؤدَّب تأديباً يردعُه عن قول أو فعل صدر منه.
[41] ﴿وَلَ٘مَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ﴾ جو ظلم کے وقوع کے بعد ظلم کرنے والے سے بدلہ لیتا ہے۔
﴿فَاُولٰٓىِٕكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد:
﴿وَالَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الْ٘بَغْیُ ﴾ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد:
﴿وَلَ٘مَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ﴾ دلالت کرتے ہیں کہ ظلم و زیادتی کے وقوع کے بعد بدلہ لینا ضروری ہے۔
رہا کسی پر ظلم اور زیادتی کا ارادہ کرنا اور ابھی اس سے ظلم و زیادتی واقع نہیں ہوئی تو اسے وہ سزا تو نہیں دی جائے گی جو جرم کے ارتکاب پر دی جاتی ہے، البتہ اس کو تادیبی سزا ضرور دی جائے گی جو اسے اس قول و فعل سے باز رکھ سکے جو اس سے صادر ہوا۔
#
{42} {إنَّما السبيلُ}؛ أي: إنَّما تتوجَّه الحجَّة بالعقوبة الشرعيَّة {على الذين يظلِمونَ الناس ويَبْغونَ في الأرض بغير الحقِّ}: وهذا شاملٌ للظُّلم والبغي على الناس في دمائهم وأموالهم وأعراضهم. {أولئك لهم عذابٌ أليمٌ}؛ أي: موجعٌ للقلوب والأبدان بحسب ظلمهم وبغيهم.
[42] ﴿اِنَّمَا السَّبِیْلُ ﴾ یعنی عقوبت شرعیہ کی حجت تو صرف انھی لوگوں پر قائم ہوگی۔
﴿عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ ’’جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔‘‘ یہ آیت لوگوں کے خون، مال اور ناموس کے بارے میں ظلم و زیادتی کو شامل ہے
﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ یعنی ان کے ظلم و زیادتی کے مطابق ان کے قلوب و ابدان کو سخت تکلیف دینے والا عذاب ہو گا۔
#
{43} {وَلَمَن صَبَرَ}: على ما ينالُه من أذى الخلق، {وغَفَرَ}: لهم بأن سمح لهم عمَّا يصدر منهم {إنَّ ذلك لَمِنْ عزم الأمور}؛ أي: لمن الأمور التي حثَّ اللهُ عليها وأكَّدها وأخبر أنَّه لا يُلَقَّاها إلاَّ أهلُ الصبر والحظوظِ العظيمة، ومن الأمور التي لا يوفَّق لها إلاَّ أولو العزائم والهمم وذوو الألباب والبصائر؛ فإنَّ ترك الانتصار للنفس بالقول أو الفعل من أشقِّ شيء عليها، والصبر على الأذى والصفح عنه ومغفرتِهِ ومقابلتِهِ بالإحسان أشقُّ وأشقُّ، ولكنَّه يسيرٌ على من يسَّره الله عليه وجاهد نفسَه على الاتِّصاف به، واستعانَ اللهَ على ذلك، ثم إذا ذاقَ العبدُ حلاوته، ووجد آثارَه؛ تلقَّاه برحب الصدرِ وسعة الخُلُق والتلذُّذ فيه.
[43] ﴿وَلَ٘مَنْ صَبَرَ ﴾ ’’اور جو صبر کرے۔‘‘ یعنی مخلوق کی طرف سے جو تکلیف اسے پہنچتی ہے اس پر صبر کرتا ہے۔
﴿وَغَ٘فَرَ ﴾ یعنی ان سے جو جرم واقع ہوا، ان سے مسامحت کرتے ہوئے ان کو بخش دیتا ہے۔
﴿اِنَّ ذٰلِكَ لَ٘مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ﴾ یعنی یہ چیز ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ، اس پر تاکید فرمائی اور آگاہ فرمایا کہ یہ صرف انھی لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو صبر سے بہرہ مند اور بڑے نصیبے والے ہیں اور یہ ان امور میں سے ہے جن کی توفیق بڑے عزم و ہمت اور عقل و بصیرت والوں کو حاصل ہوتی ہے۔
نفس کے لیے قول یا فعل سے انتقام نہ لینا انتہائی باعث مشقت ہے اور اذیت پر صبر کرنا، اس سے درگزر کرنا، اس کو بخش دینا اور اس کے مقابلے یں حسن سلوک سے پیش آنا تو بہت ہی پرمشقت کام ہے، مگر یہ اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے اور وہ بھی اس وصف سے متصف ہونے کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے، پھر بندہ جب اذیت برداشت کرنے کی حلاوت کو چکھ لیتا ہے اور اس کے آثار کو دیکھ لیتا ہے تو اسے شرح صدر، کشادہ دلی اور ذوق و شوق سے قبول کرتا ہے۔
{وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ وَلِيٍّ مِنْ بَعْدِهِ وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِنْ سَبِيلٍ (44) وَتَرَاهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا خَاشِعِينَ مِنَ الذُّلِّ يَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ وَقَالَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا إِنَّ الظَّالِمِينَ فِي عَذَابٍ مُقِيمٍ (45) وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ أَوْلِيَاءَ يَنْصُرُونَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ سَبِيلٍ (46)}.
اور جسے گمراہ کر دے اللہ تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی کارساز اس کے بعد، اور آپ دیکھیں گے ظالموں کو، جب دیکھیں گے وہ عذاب،
تو کہیں گے: کیا ہے واپس جانے کا کوئی راستہ؟
(44) اور دیکھیں گے آپ ان کو کہ پیش کیے جائیں گے وہ اس
(جہنم) پر، جھکے ہوئے ذلت کی وجہ سے، دیکھتے ہوں گے چھپی نگاہ سے، اور کہیں گے وہ لوگ جو ایمان لائے
(تھے)، بلاشبہ خسارہ پانے والے تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں ڈالااپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دن قیامت کے، آگاہ رہو! بلاشبہ ظالم لوگ ہی دائمی عذاب میں ہوں گے
(45) اور نہیں ہوں گے ان کے لیے کوئی دوست، جو مدد کریں ان کی سوائے اللہ کے، اور جس کو گمراہ کر دے اللہ تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی راستہ
(ہدایت کا) (46)
#
{44} يخبر تعالى أنَّه المنفرد بالهداية والإضلال، وأنَّه {مَنْ يُضْلِل اللهُ}: بسبب ظلمه {فما له من وليٍّ من بعدِهِ}: يتولَّى أمره ويهديه، {وترى الظالمين لمَّا رأوا العذابَ}: مرأى ومنظراً فظيعاً صعباً شنيعاً يُظْهِرونَ النَّدم العظيم والحزنَ على ما سَلَفَ منهم، و {يقولونَ هل إلى مَرَدٍّ من سبيل}؛ أي: هل لنا طريقٌ أو حيلةٌ إلى رجوعنا إلى الدُّنيا لنعملَ غير الذي كنَّا نعملُ، وهذا طلبٌ للأمر المُحال الذي لا يمكنُ.
[44] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہدایت عطا کرنے اور اصلاح کرنے میں یکتا ہے۔
﴿وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ ﴾ جسے اللہ تعالیٰ اس کے ظلم کے سبب سے گمراہ کر دے۔
﴿فَمَا لَهٗ مِنْ وَّلِیٍّ مِّنْۢ بَعْدِهٖ﴾ ’’تو اس کے بعد اس کا کوئی دوست نہیں۔‘‘ جو اس کے معاملے کی سرپرستی کرے اور اس کی راہ نمائی کرے۔
﴿وَتَرَى الظّٰلِمِیْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ﴾ اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب کا بہت ہی برا، بہت مشکل اور نہایت قبیح منظر دیکھیں گے تو وہ بہت زیادہ ندامت اور اپنے گزشتہ کرتوتوں پر افسوس کا اظہار کریں گے۔
﴿یَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ اور کہیں گے: کیا دنیا میں دوبارہ جانے کا کوئی طریقہ یا کوئی حیلہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے مختلف کام کریں جو ہم پہلے کیا کرتے تھے۔ ان کی یہ درخواست ایک امر محال کے لیے ہو گی جس کا پورا ہونا ممکن نہیں۔
#
{45} {وتراهم يُعْرَضونَ عليها}؛ أي: على النار {خاشعينَ من الذُّلِّ}؛ أي: ترى أجسامَهم خاشعةً للذُّلِّ الذي في قلوبهم، {ينظُرونَ من طرفٍ خفيٍّ}؛ أي: ينظرون إلى النار مسارقةً وشزراً من هيبتها وخوفِها، {وقال الذين آمنوا}: حين ظهرتْ عواقبُ الخلق وتبيَّنَ أهلُ الصدق من غيرِهم: {إنَّ الخاسرينَ}: على الحقيقة، {الذين خَسِروا أنفسَهم وأهليهم يوم القيامةِ}: حيث فوَّتوا أنفسَهم جزيل الثواب وحصلوا على أليم العقاب وفُرِّقَ بينهم وبين أهليهم فلم يجتمعوا بهم آخر ما عليهم. {ألا إنَّ الظالمينَ}: أنفسَهم بالكفر والمعاصي {في عذابٍ مقيم}؛ أي: في سوائه ووسطه منغمِرين لا يخرُجون منه أبداً، ولا يُفَتَّرُ عنهم وهم فيه مُبْلِسونَ.
[45] ﴿وَتَرٰىهُمْ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا ﴾ ’’اور تم ان کو دیکھو گے کہ وہ دوزخ
(کی آگ) کے سامنے لائے جائیں گے۔‘‘
﴿خٰشِعِیْنَ مِنَ الذُّلِّ ﴾ یعنی آپ ان کے اجسام کو اس ذلت کی وجہ سے عاجز اور بے بس دیکھیں گے جو ان کے دلوں میں جاگزیں ہے۔
﴿یَنْظُ٘رُوْنَ مِنْ طَرْفٍ خَ٘فِیٍّ ﴾ یعنی وہ جہنم کو اس کی ہیبت اور خوف کی وجہ سے چوری چوری ترچھی نظر سے دیکھیں گے۔
﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ﴾ جب مخلوق کا انجام ظاہر اور اہل صدق دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے،
تو اہل ایمان کہیں گے: ﴿اِنَّ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ حقیقت میں خسارے والے وہ لوگ ہیں
﴿الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالا۔‘‘ کیونکہ انھوں نے اپنے آپ کو بے پایاں ثواب سے محروم کر لیا اور دردناک عذاب کو حاصل کیا۔ ان کے اور ان کے گھر والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی اور وہ ان کے ساتھ کبھی اکٹھے نہ ہوں گے۔
﴿اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’آگاہ رہو! بے شک ظالم ہی۔‘‘ یعنی جنھوں نے کفر اور معاصی کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کیا۔
﴿فِیْ عَذَابٍ مُّقِیْمٍ ﴾ ’’ہمیشگی کے عذاب میں رہیں گے۔‘‘ یعنی وہ دردناک عذاب کے عین وسط میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکل سکیں گے نہ ان سے عذاب منقطع ہو گا اور وہ اس عذاب کے اندر سخت مایوس ہوں گے۔
#
{46} {وما كان لهم من أولياءَ يَنصُرونَهم من دونِ الله}: كما كانوا في الدُّنيا يُمَنُّون أنفسَهم بذلك ؛ ففي القيامةِ يتبيَّن لهم ولغيرِهم أنَّ أسبابهم التي أمَّلوها تقطَّعت، وأنَّه حين جاءهم عذابُ الله لم يُدْفَعْ عنهم، {ومن يُضْلِلِ الله فما له مِن سبيل}: تحصُلُ به هدايتُه؛ فهؤلاء ضلُّوا حين زعموا في شركائِهِم النفعَ ودفعَ الضُّرِّ، فتبيَّن حينئذٍ ضلالُهم.
[46] ﴿وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ اَوْلِیَآءَؔ یَنْصُرُوْنَهُمْ۠ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ کے سوا ان کے کوئی دوست نہیں ہوں گے جو ان کی مدد کرسکیں۔‘‘ جیسا کہ وہ دنیا میں اپنے آپ کو امیدیں دلایا کرتے تھے۔ پس قیامت کے روز ان پر اور دوسرے لوگوں پر عیاں ہو جائے گا کہ وہ اسباب جن کے ساتھ انھوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، منقطع ہو گئے اور جب ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ان پر سے ہٹایا نہ جاسکے گا۔
﴿وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ سَبِیْلٍ﴾ ’’اور جسے اللہ گمراہ کردے، اس کے لیے کوئی راستہ نہیں۔‘‘ کوئی ایسا طریقہ نہیں جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو حاصل کر سکیں۔ یہ لوگ اس وقت گمراہ ہوئے جب یہ سمجھتے تھے کہ ان خود ساختہ شریکوں میں نفع پہنچانے اور نقصان کو دور کرنے کی طاقت ہے، تب ان کی گمراہی واضح ہوجائے گی۔
{اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ (47) فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ كَفُورٌ (48)}.
تم حکم قبول کرو اپنے رب کا پہلے اس کے کہ آ جائے وہ دن کہ نہیں ہے پھرنا اس کا اللہ کی طرف سے نہیں ہو گی تمھارے لیے کوئی جائے پناہ اس دن اور نہ ہو گا تمھارے لیے
(چھپ کر)انجان بن جانا
(47) پس اگر وہ منہ موڑیں، تو نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگران، نہیں ہے آپ کے ذمے مگر پہنچا دینا ہی اور بلاشبہ جب ہم چکھاتے ہیں انسان کو اپنی طرف سے رحمت تو وہ خوش ہوتا ہے ساتھ اس کے، اور اگر پہنچتی ہے ان کو کوئی تکلیف، بسبب ان
(اعمال) کے جو آگے بھیجے ان کے ہاتھوں نے، تو بلاشبہ انسان بہت ہی ناشکرا ہے
(48)
#
{47} يأمر تعالى عبادَه بالاستجابة له بامتثال ما أمَرَ به واجتنابِ ما نهى عنه وبالمبادرةِ بذلك وعدم التَّسويف {مِن قبل أن يأتِيَ}: يوم القيامة، الذي إذا جاء؛ لا يمكنُ ردُّه واستدراكُ الفائتِ، وليس للعبد في ذلك اليوم ملجأ يلجأ إليه فيفوتُ ربَّه ويهربُ منه، بل قد أحاطتِ الملائكةُ بالخليقة من خلفهم، ونودوا: {يا معشرَ الجِنِّ والإنسِ إنِ استَطَعْتُم أن تَنفُذوا من أقطارِ السمواتِ والأرضِ فانفُذوا لا تَنفُذون إلاَّ بسلطانٍ}: وليس للعبد في ذلك اليوم نكيرٌ لما اقترفَه وأجرمَه، بل لو أنكر؛ لشهدتْ عليه جوارحُه. وهذه الآيةُ ونحوُها فيها ذمُّ الأمل والأمرُ بانتهازِ الفرصة في كلِّ عمل يَعْرِضُ للعبد؛ فإنَّ للتأخير آفاتٍ.
[47] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیں،
وہ جس چیز کا حکم دے اس کی تعمیل کریں اور جس چیز سے روکے اس سے اجتناب کریں اس کو ٹالنے کی بجائے اس پر جلدی سے عمل کریں قیامت کے دن کے آنے سے پہلے کہ جب وہ آئے گا تو اس کو روکا جا سکے گا نہ کسی رہ جانے والی چیز کا تدارک ہو سکے گا۔ اس دن بندے کے پاس کوئی پناہ گاہ نہ ہوگی جہاں وہ پناہ لے کر اپنے رب سے بچ سکے اور اس سے بھاگ سکے۔ بلکہ فرشتے تمام خلائق کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہوں گے اور ان کو پکار کر کہا جائے گا: ﴿یٰمَعْشَرَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰ٘نٍ﴾ (الرحمن:55؍33) ’’اے جن و انس کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جانے کی طاقت رکھتے ہو تو پھر نکل جاؤ ، تم نکل نہیں سکتے مگر طاقت کے ساتھ۔‘‘ اس روز بندہ اپنے کیے ہوئے جرائم کا انکار نہیں کرسکے گا، بلکہ اگر وہ انکار کرے گا تو اس کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔
اس آیت اور اس نوع کی دیگر آیات کریمہ میں جھوٹی امیدوں کی مذمت کی گئی ہے اور ہر وہ عمل جو بندے کو پیش آسکتا ہے، فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ تاخیر میں بہت سی آفتیں ہیں۔
#
{48} {فإنْ أعْرَضوا}: عمَّا جئتُم به بعد البيانِ التامِّ {فما أرسلناكَ عليهم حفيظاً}: تحفظُ أعمالَهم وتسألُ عنها، {إنْ عليكَ إلاَّ البلاغُ}: فإذا أديتَ ما عليك؛ فقد وجب أجرُكَ على الله، سواء استجابوا أم أعرضوا، وحسابُهم على الله الذي يحفظُ عليهم صغير أعمالِهم وكبيرَها وظاهرَها وباطنها. ثم ذكر تعالى حالةَ الإنسان، وأنَّه إذا أذاقه الله رحمةً من صحَّةِ بدنٍ ورزقٍ رغدٍ وجاه ونحوه؛ {فرِحَ بها}؛ أي: فرح فرحاً مقصوراً عليها لا يتعدَّاها، ويلزم من ذلك طمأنينته بها وإعراضه عن المنعم. {وإن تُصِبْهم سيئةٌ}؛ أي: مرضٌ أو فقرٌ أو نحوهما {بما قدَّمتْ أيديهم فإنَّ الإنسانَ كفورٌ}؛ أي: طبيعته كفرانُ النعمة السابقة والتسخُّط لما أصابه من السيِّئةِ.
[48] ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا ﴾ بیان کامل کے بعد اگر یہ لوگ اس چیز سے منہ موڑیں جو آپ نے پیش کی۔
﴿فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا ﴾ ’’تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘ کہ آپ ان کے اعمال کی نگرانی کریں اور آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے ۔
﴿اِنْ عَلَیْكَ اِلَّا الْ٘بَلٰ٘غُ٘﴾ ’’آپ کے ذمے صرف
(احکام) پہنچا دینا ہے۔‘‘ جب آپ نے اپنی ذمہ داری کو پورا کر دیا تو اللہ تعالیٰ پر آپ کا اجر واجب ٹھہرا، خواہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کریں یا روگردانی کریں، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے جس نے ان کے چھوٹے بڑے اور ظاہری، باطنی اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی حالت بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے یعنی اسے جسمانی صحت، رزق کی فراوانی اور عزت و جاہ عطا کرتا ہے۔ تو
﴿فَرِحَ بِهَا ﴾ ’’وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس طرح خوش ہوتا ہے کہ اس کی خوشی انھی چیزوں پر مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس کے اس رویے سے، ان چیزوں پر اس کی طمانیت اور منعم حقیقی سے روگردانی لازم آتی ہے۔
﴿وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ﴾’’ اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے۔‘‘ یعنی کوئی مرض یا فقر وغیرہ لاحق ہوتا ہے
﴿بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَاِنَّ الْاِنْسَانَ كَفُوْرٌ ﴾ ’’ان اعمال کے سبب جو انھوں نے کیے، تو انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔‘‘ یعنی اس کی فطرت میں سابقہ نعمت کی ناشکری اور اسے جو تکلیف پہنچتی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ سے ناراضی رچی بسی ہوئی ہے۔
{لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)}.
اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، پیدا کرتا ہے وہ جو چاہتا ہے، بخشتا ہے جسے چاہتا ہے
(صرف)لڑکیاں اور بخشتا ہے جسے چاہتا ہے
(صرف)لڑکے
(49) یا ملا کر دیتا ہے ان کو لڑکے اور لڑکیاں اور کر دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بانجھ، بلاشبہ وہ خوب جاننے والا بہت قدرت رکھنے والا ہے
(50)
#
{49 ـ 50} هذه الآية فيها الإخبارُ عن سعةِ ملكِهِ تعالى ونفوذِ تصرُّفه في الملك في الخلق لما يشاء والتدبير لجميع الأمور، حتى إنَّ تدبيره تعالى من عمومِهِ أنَّه يتناول المخلوقة عن الأسباب التي يباشِرُها العباد؛ فإنَّ النِّكاحَ من الأسباب لولادة الأولاد؛ فالله تعالى هو الذي يعطيهم من الأولاد ما يشاءُ؛ فمِنَ الخلق مَن يَهَبُ له إناثاً، ومنهم من يَهَبُ له ذكوراً، ومنهم من يزوِّجُه؛ أي: يجمع له ذكوراً وإناثاً، ومنهم مَنْ يجعلُه عقيماً لا يولَد له. {إنه عليمٌ}: بكلِّ شيءٍ. {قديرٌ}: على كل شيءٍ. فيتصرَّف بعلمه وإتقانه الأشياء وبقدرتِهِ في مخلوقاته.
[49، 50] اس آیت کریمہ میں، اللہ تعالی کے لامحدود اقتدار، اپنی مخلوق اور اپنی ملکیت میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف کے نفاذ اور تمام امور کی تدبیر کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عمومی تدبیر اسباب سے پیدا شدہ ان اشیاء کو بھی شامل ہے جنھیں بندے اختیار کرتے ہیں۔ پس نکاح تو اولاد کے لیے ایک سبب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ انھیں جو چاہتا ہے اولاد عطا کرتا ہے، مخلوق میں کسی کو بیٹیاں عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے عطا کرتا ہے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے، کسی کو بانجھ رکھتا ہے اور ان کو اولاد پیدا نہیں ہوتی۔
﴿اِنَّهٗ عَلِیْمٌ ﴾ بے شک وہ ہر چیز کا علم اور
﴿قَدِیْرٌ ﴾ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، وہ اپنے علم اور مہارت کے ذریعے سے تمام اشیاء میں اور اپنی قدرت کے ذریعے سے تمام مخلوقات میں تصرف کرتا ہے۔
{وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (51) وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (52) صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ (53)}.
اور نہیں لائق واسطے کسی بشر کے یہ کہ کلام کرے اس سے اللہ، مگر الہام
(دل میں القا) کر کے یا پردے کے پیچھے سے یا بھیج کر فرشتہ، پس وہ
(وحی) پہنچاتا اس کےحکم سے جو وہ چاہتا، بلاشبہ وہ بہت بلند ہے نہایت حکمت والا
(51) اور اسی طرح وحی کی ہم نے آپ کی طرف ایک روح
(قرآن) اپنے حکم سے، نہیں تھے آپ جانتے، کیا ہے کتاب اور نہ ایمان، اور لیکن بنا دیا ہم نے اس کو نور، ہدایت کرتے ہیں ہم اس کےذریعے سے جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے اور بلاشبہ آپ البتہ رہنمائی کرتے ہیں طرف سیدھے راستے کی
(52) اللہ کے راستے کی، وہ
(اللہ) جس کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، آگاہ رہو! اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں سب معاملات
(53)
#
{51} لما قال المكذِّبون لرسل الله الكافرون بالله: {لولا يكلِّمُنا الله أو تأتينا آيةُ}: من كِبرهم وتجبُّرهم؛ ردَّ الله عليهم بهذه الآية الكريمة، وأنَّ تكليمه تعالى لا يكونُ إلاَّ لخواصِّ خلقه؛ للأنبياء والمرسلين وصفوته من العالمين، وأنَّه يكون على أحد هذه الأوجه: إمَّا أن يكلِّمَه الله وحياً، بأن يُلْقِيَ الوحيَ في قلبِ الرسول من غير إرسال مَلَكٍ ولا مخاطبةٍ منه شفاهاً، {أو} يكلِّمَه منه شفاهاً، لكنه {من وراء حجابٍ}؛ كما حصل لموسى بن عمران كليم الرحمن، {أو} يكلِّمَه الله بواسطة الرسول الملكيِّ؛ فيرسل {رسولاً}؛ كجبريل أو غيره من الملائكة، {فيوحي بإذنه}؛ أي: بإذن ربِّه لا بمجرَّد هواه؛ إنَّه تعالى عليُّ الذات عليُّ الأوصاف، عظيمُها، عليُّ الأفعال، قد قهر كلَّ شيء، ودانت له المخلوقات، {حكيمٌ} في وضعه كلَّ شيء في موضعه من المخلوقات والشرائع.
[51] چونکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے تکبر اور سرکشی کی بنا پر کہتے تھے:
﴿لَوْلَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ ﴾ (البقرہ:2؍118) ’’ہمارے ساتھ اللہ کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟
‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے ان کا رد کیا اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں سے صرف اپنے خاص بندوں یعنی رسولوں سے کلام کرتا ہے اور وہ بھی ذیل کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں:
(۱) یا تو وہ ان کے ساتھ وحی کے ذریعے سے کلام کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ فرشتہ بھیجے بغیر اور بالمشافہ مخاطب ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے قلب پر وحی کا القا کرتا ہے۔
(۲) ﴿اَوْ ﴾ یا اس کے ساتھ بالمشافہ کلام کرتا ہے، مگر
﴿مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ﴾ پردے کے پیچھے سے جیسا کہ حضرت موسیٰ بن عمرانp کو شرف کلام حاصل ہوا۔
(۳) ﴿اَوْ ﴾ یا اللہ تعالیٰ فرشتے کے توسط سے کلام کرتا ہے پس
﴿یُرْسِلَ رَسُوْلًا ﴾ ’’وہ کسی پیغام رساں کو بھیجتا ہے۔‘‘ مثلاً: جبریلu کو یا دیگر فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو۔
﴿فَیُوْحِیَ بِـاِذْنِهٖ﴾ پس وہ فرشتہ مجرد اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اپنے رب کے حکم سے وحی القا کرتا ہے۔
﴿ اِنَّهٗ﴾ ’’بے شک وہ‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے اوصاف میں بہت بلند اور افعال میں بہت عظیم ہے، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام مخلوق اس کی مطیع ہے۔
﴿حَكِیْمٌ ﴾ تمام مخلوقات اور شرائع میں سے ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھنے میں حکمت والا ہے۔
#
{52} {وكذلك} حين أوحينا إلى الرسل قبلك، {أوحَيْنا إليك رُوحاً من أمرِنا}: وهو هذا القرآن الكريم، سمَّاه روحاً؛ لأنَّ الروح يحيا به الجسدُ، والقرآن تحيا به القلوبُ والأرواح، وتحيا به مصالحُ الدُّنيا والدين؛ لما فيه من الخير الكثير والعلم الغزير، وهو محضُ منَّة الله على رسولِهِ وعباده المؤمنين من غير سببٍ منهم، ولهذا قال: {ما كنتَ تَدْري}؛ أي: قبل نزوله عليك {ما الكتابُ ولا الإيمانُ}؛ أي: ليس عندك علمٌ بأخبار الكتب السابقة، ولا إيمانٌ وعملٌ بالشرائع الإلهيَّة، بل كنت أميًّا لا تخطُّ ولا تقرأ، فجاءك هذا الكتابُ الذي {جَعَلْناه نوراً نَهدي به من نشاءُ من عبادِنا}: يستضيئون به في ظُلُماتِ الكفر والبدع والأهواء المُرْدِيَة، ويعرِفون به الحقائقَ، ويهتدون به إلى الصراط المستقيم. {وإنَّك لَتَهْدي إلى صراط مستقيم}؛ أي: تبيِّنُه لهم، وتوضِّحه، [وتنيره] وترغِّبهم فيه، وتَنْهاهم عن ضدِّه، وترهِّبهم منه.
[52] ﴿وَؔكَذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح‘‘ جب ہم نے آپ سے پہلے انبیاء و مرسلین کی طرف وحی بھیجی تو
﴿اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ﴾ ’’ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح بھیجی۔‘‘ اور وہ روح یہ قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو روح کے نام سے موسوم کیا کیونکہ روح سے جسد زندہ ہوتا ہے اور قرآن سے قلب و روح زندہ ہوتے ہیں۔ قرآن سے دین و دنیا کے مصالح کو زندگی ملتی ہے کیونکہ اس میں خیر کثیر اور بے پایاں علم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسولe اور اپنے اہل ایمان بندوں پر ان کی طرف سے کسی سبب کے بغیر،
محض احسان ہے۔
بنابریں فرمایا: ﴿مَا كُنْتَ تَدْرِیْ ﴾ ’’آپ نہیں جانتے تھے‘‘ یعنی آپ پر قرآن نازل ہونے سے پہلے
﴿مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ﴾ ’’کتاب کو نہ ایمان کو‘‘ یعنی آپ کے پاس کتب سابقہ کی خبروں کا علم تھا نہ شرائع الٰہیہ پر ایمان و عمل کا علم بلکہ آپ تو امی تھے، لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے۔ پس آپ کے پاس یہ کتاب آئی۔
﴿جَعَلْنٰهُ نُوْرًؔا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ﴾ ’’ہم نے اسے نور اور ہدایت بنایا ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔‘‘ جس سے ہمارے بندے کفروبدعت کی تاریکیوں اور ہلاک کر دینے والی خواہشات میں، روشنی حاصل کرتے ہیں، اس کتاب کے ذریعے سے حقائق کو پہچانتے ہیں اور اس کتاب سے راہ نمائی حاصل کر کے صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔
﴿وَاِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ یعنی آپ ان کے سامنے صراط مستقیم واضح کرتے ہیں، صراط مستقیم کی ترغیب دینے اور اس کے متضاد راستوں پر چلنے سے روکتے اور ان سے ڈراتے ہیں۔
#
{53} ثم فسَّر الصراط المستقيم، فقال: {صراطِ الله الذي له ما في السمواتِ وما في الأرضِ}؛ أي: الصراط الذي نَصَبَهُ الله لعبادِهِ وأخبرهم أنَّه موصلٌ إليه وإلى دار كرامتِهِ. {ألا إلى الله تصيرُ الأمورُ}؛ أي: ترجِعُ جميع أمورِ الخير والشرِّ، فيجازي كلاًّ بعملِهِ ؛ إنْ خيراً فخيرٌ وإن شرًّا فشرٌّ.
[53] پھر اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی یہ وہ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمایا اور انھیں آگاہ کیا کہ یہ راستہ اس کے پاس اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے۔
﴿اَلَاۤ اِلَى اللّٰهِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُ ﴾ یعنی تمام اچھے برے معاملات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہو گا تو اچھی جزا ہو گی اور اگر برا عمل ہو گا تو بری جزا ہو گی۔