آیت:
تفسیر سورۂ حٰم السجدہ
تفسیر سورۂ حٰم السجدہ
آیت: 1 - 8 #
{حم (1) تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (2) كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (3) بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (4) وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ (5) قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (7) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (8)}.
حٰمٓ(1) (یہ قرآن )نا زل کیا ہوا ہے رحمٰن رحیم کی طرف سے(2) ایک ایسی کتاب ہے کہ کھول کر بیان کی گئی ہیں آیتیں اس کی درآں حا لیکہ قرآن ہے عربی، اس قوم کے لیے جو علم رکھتی ہے(3) خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا، پس منہ موڑلیا اکثر نے ان میں سے پس وہ نہیں سنتے(4) اور انھوں نے کہا، ہمارے دل پردوں میں ہیں اس بات سے کہ بلاتا ہے تو ہمیں اس کی طرف اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ (کارک) ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے درمیان ایک پردہ ہے، پس تو (اپنا) کام کر، بلاشبہ ہم (اپنا) کام کرنے والے ہیں(5)کہہ دیجیے:بے شک میں تو ایک بشر ہوں تمھاری مثل، وحی کی جاتی ہے میری طرف یہ کہ معبود تمھارا معبود ہے ایک ہی، پس یکسوئی سے متوجہ رہو اس کی طرف اور بخشش مانگو اس سے اور ہلاکت ہے مشرکین کے لیے(6) وہ لوگ جو نہیں دیتے زکاۃ اور وہ آخرت کا بھی، وہ انکار کرنے والے ہیں(7) بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک ان کے لیے اجر ہے غیر منقطع(8)
#
{2} يخبر تعالى عبادَه أنَّ هذا الكتاب الجليل والقرآن الجميل {تنزيلٌ}: صادر {من الرحمنِ الرحيم}: الذي وسعتْ رحمتُه كلَّ شيء، الذي من أعظم رحمته وأجلِّها إنزال هذا الكتاب، الذي حصل به من العلم والهدى والنور والشفاء والرحمة والخير الكثير ما هو من أجلِّ نعمِهِ على العباد، وهو الطريق للسعادة في الدارين.
[2] اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب جلیل اور قرآن جمیل ﴿تَنْزِیْلٌ ﴾ اتارا گیا ہے‘‘ یعنی صادر ہواہے ﴿مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ ’’رحمان و رحیم کی طرف سے‘‘ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، جس کی سب سے بڑی اور سب سے جلیل القدر نعمت یہ ہے کہ اس نے یہ کتاب نازل کی جس سے علم و ہدایت، نوروشفا، رحمت اور خیر کثیر حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ ہے۔
#
{3} ثم أثنى على الكتاب بتمام البيان، فقال: {فُصِّلَتْ آياتُه}؛ أي: فُصِّلَ كلُّ شيء من أنواعه على حِدَتِهِ، وهذا يستلزمُ البيان التامَّ والتفريق بين كلِّ شيء وتمييز الحقائق، {قرآناً عربيًّا}؛ أي: باللغة الفصحى أكمل اللغات، فصلت آياتُهُ وجُعِلَ عربيًّا. {لقوم يَعْلَمونَ}؛ أي: لأجل أن يتبيَّنَ لهم معناه كما يتبيَّن لفظه، ويتَّضحَ لهم الهدى من الضلال والغيُّ من الرشاد، وأمَّا الجاهلون الذين لا يزيدُهم الهدى إلاَّ ضلالاً ولا البيانُ إلا عمىً؛ فهؤلاء لم يَسُقِ الكلامَ لأجلهم، و {سواء عليهم أأنذرتهم أم لم تنذِرْهم لا يؤمنون}.
[3] پھر اللہ نے اس کتاب جلیل کی پوری طرح مدح و ثنا بیان کی ، چنانچہ فرمایا: ﴿فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ﴾ ’’جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں۔‘‘ ہر چیز کی تمام انواع کو علیحدہ علیحدہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ چیز بیانِ کامل، ہر چیز کے درمیان تفریق اور حقائق کے مابین امتیاز کو مستلزم ہے۔ ﴿قُ٘رْاٰنًا عَرَبِیًّا ﴾ یعنی فصیح عربی میں، جو کامل ترین زبان ہے جس کی آیات کو تفصیل سے بیان گیا ہے اور اس کتاب کو قرآن عربی بنایا گیا ہے۔ ﴿لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ ’’علم رکھنے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی (یہ قرآن) اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ علم رکھنے والے لوگوں پر جس طرح اس کے الفاظ واضح ہیں، اس کے معانی بھی واضح ہوں، اور ان کے سامنے ہدایت اور گمراہی نمایاں ہو کر ایک دوسرے سے ممیز ہو جائیں۔ اور رہے جہلاء جن کو ہدایت گمراہی میں اور بیا ن اور اندھے پن میں اضافہ کرتا ہے، تو ان لوگوں کے لیے یہ کلام نہیں لایا گیا۔ ﴿سَوَؔآءٌؔ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَؔ﴾ (البقرۃ: 2؍6) ’’ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
#
{4} {بشيراً ونذيراً}؛ أي: بشيراً بالثواب العاجل والآجل، ونذيراً بالعقاب العاجل والآجل، وذكر تفصيلَهما، وذكر الأسبابَ والأوصاف التي تحصل بها البشارةُ والنذارةُ، وهذه الأوصاف للكتاب مما يوجب أن يُتَلَقَّى بالقَبول والإذعان والإيمان والعمل به، ولكن أعرض أكثر الخلق عنه إعراض المستكبرين، {فهم لا يسمعون}: له سماع قبول وإجابةٍ، وإن كانوا قد سمِعوه سماعاً تقوُم عليهم به الحجَّة الشرعيَّة.
[4] ﴿بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ﴾ یعنی دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنانے والا اور دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا، پھر تبشیر و انذار کی تفصیل کا ذکر کیا اور ان اسباب و اوصاف کا ذکر کیا جن کے ذریعے سے تبشیر و انذار حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اس کتاب کے وہ اوصاف ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ اسے قبول کیا جائے، اس کے سامنے سراطاعت خم کیا جائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ مگر اکثر لوگوں نے اس طرح روگردانی کی ہے جس طرح متکبرین کا وتیرہ ہے۔ ﴿فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ اور وہ اسے قبول کرنے کے ارادے سے نہیں سنتے اگرچہ وہ اسے اس طرح ضرور سنتے ہیں جس سے ان پر شرعی حجت قائم ہو جائے۔
#
{5} {وقالوا}؛ أي: هؤلاء المعرضون عنه مبيِّنين عدم انتفاعهم به بسدِّ الأبواب الموصلة إليه: {قلوبُنا في أكِنَّةٍ}؛ أي: أغطية مغشَّاة، {مما تَدْعونا إليه وفي آذاننا وقرٌ}؛ أي: صمم فلا نسمع لك {ومن بيننا وبينِك حجابٌ}: فلا نراك؛ القصدُ من ذلك أنَّهم أظهروا الإعراض عنه من كلِّ وجه، وأظهروا بُغْضَه والرِّضا بما هم عليه، ولهذا قالوا: {فاعْمَلْ إنَّنا عاملون}؛ أي: كما رضيت بالعمل بدينك؛ فإنَّنا راضون كلَّ الرضا بالعمل في ديننا، وهذا من أعظم الخذلان؛ حيث رضوا بالضَّلال عن الهدى، واستبدلوا الكفرَ بالإيمان، وباعوا الآخرةَ بالدنيا.
[5] ﴿وَقَالُوْا ﴾ یعنی اس کتاب کریم سے روگردانی کرنے والے، اس سے اپنے عدم انتفاع اور اس تک پہنچانے والے دروازوں کے بند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿قُلُوْبُنَا فِیْۤ اَكِنَّةٍ ﴾ ’’ہمارے دل پردوں میں ہیں۔‘‘ یعنی پردوں میں ڈھانپے ہوئے ہیں۔ ﴿مِّؔمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ وَفِیْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ ﴾ ’’اس چیز سے جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اور اس سے ہمارے کانوں میں بوجھ ہے۔‘‘ یعنی ہمارے کانوں میں گرانی ہے پس ہم سن نہیں سکتے۔ ﴿وَّمِنْۢ بَیْنِنَا وَبَیْنِكَ حِجَابٌ ﴾ ’’اور ہمارے اور تمھارے درمیان پردہ ہے۔‘‘ اس لیے ہم تجھے دیکھ نہیں سکتے۔ ان کا مقصد صرف ہر لحاظ سے اس کتاب عظیم سے اعراض کا اظہار تھا، انھوں نے اس کتاب سے اپنے بغض اور اپنے باطل موقف پر پسندیدگی کا اظہار کیا، اس لیے انھوں نے کہا: ﴿فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ﴾ ’’پس تو اپنا کام کیے جا، ہم اپناکام کرنے والے ہیں۔‘‘ یعنی جیسے اپنے دین پر عمل کرنا تم پسند کرتے ہو ویسے ہی ہم بھی اپنے دین پر پوری پسندیدگی کے ساتھ عمل پیراہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سب سے بڑی محرومی ہے کہ وہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی پر راضی ہو گئے، ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا اور دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ دیا۔
#
{6 ـ 7} {قل}: لهم يا أيُّها النبيُّ: {إنَّما أنا بشرٌ مثلُكُم يوحى إليَّ}؛ أي: هذه صفتي ووظيفتي: أني بشرٌ مثلكم، ليس بيدي من الأمر شيء، ولا عندي ما تستعجِلون به، وإنَّما فضَّلني الله عليكم وميَّزني وخصَّني بالوحي الذي أوحاه إليَّ وأمرني باتِّباعه ودعوتِكُم إليه. {فاستَقيموا إليه}؛ أي: اسلكوا الصراط الموصل إلى الله تعالى بتصديقِ الخبر الذي أخبر به واتِّباع الأمر واجتناب النهي، هذا حقيقة الاستقامة، ثم الدوام على ذلك، وفي قوله: {إليه}: تنبيهٌ على الإخلاص، وأنَّ العامل ينبغي له أن يَجْعَلَ مقصودَه وغايتَه التي يعمل لأجلها الوصولَ إلى الله وإلى دار كرامتِهِ؛ فبذلك يكون عملُه خالصاً صالحاً نافعاً، وبفواتِهِ يكون عملُه باطلاً. ولمَّا كان العبدُ ولو حَرَصَ على الاستقامةِ لا بدَّ أن يحصلَ منه خللٌ بتقصير بمأمور أو ارتكاب منهيٍّ؛ أمره بدواء ذلك بالاستغفار المتضمِّن للتوبة، فقال: {واستغفِروه}، ثم توعَّد من ترك الاستقامة فقال: {وويلٌ للمشركينَ. الذين لا يُؤتونَ الزَّكاةَ}؛ أي: الذين عَبَدوا من دونِهِ مَنْ لا يملك نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، ودسُّوا أنفسهم فلم يزكُّوها بتوحيد ربِّهم والإخلاص له، ولم يُصَلُّوا ولا زَكَّوْا؛ فلا إخلاص للخالق بالتوحيد والصلاةِ، ولا نفع للخلق بالزَّكاة وغيرها. {وهم بالآخرةِ هم كافرونَ}؛ أي: لا يؤمنون بالبعث ولا بالجنة والنار؛ فلذلك لما زال الخوفُ من قلوبهم؛ أقدموا على ما أقدموا عليه مما يضرُّهم في الآخرة.
[6، 7] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے نبی! ان سے کہہ دیجیے: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ ﴾ ’’میں تو تمھارے جیسا ہی ایک انسان ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘ یعنی میرا وصف اور میرا وظیفہ یہ ہے کہ میں تمھارے جیسا بشر ہوں، میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں اور نہ میرے اختیار میں وہ عذاب ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس وحی کے ذریعے سے مجھے تم پر فضیلت عطا کی، اس کے ذریعے سے مجھے تم سے ممتاز کیا اور اس کے لیے مجھے مختص کیا، جو وحی اس نے میری طرف بھیجی، مجھے اس کی اتباع اور تمھیں اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا۔ ﴿فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ ﴾ ’’ لہٰذا سیدھے اس طرف متوجہ رہو‘‘ یعنی میں جن امور کے بارے میں تمھیں خبر دے رہا ہوں اس کی تصدیق، اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کر کے، اس راستے پر گامزن ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے ۔ یہ حقیقت استقامت ہے۔ اور پھر اس پر قائم رہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اِلَیْهِ ﴾ میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی عمل کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچنا قرار دے، اس طرح اس کا عمل خالص، صالح اور نفع مند ہو گا اور اخلاص کی عدم موجودگی سے اس کا عمل باطل ہو جائے گا اور چونکہ بندہ، خواہ وہ استقامت کا کتنا ہی حریص کیوں نہ ہوں، مامورات میں تقصیر، منہیات کے ارتکاب کی بنا پر خلل کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو استغفار کی دوا کے استعمال کا حکم دیا ہے، جو توبہ کو متضمن ہے، پس فرمایا: ﴿وَاسْتَغْفِرُوْهُ ﴾ ’’اور اس سے مغفرت طلب کرو۔‘‘ پھر ترک استقامت پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی، چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَیْلٌ لِّ٘لْ٘مُشْرِكِیْنَۙ۰۰ الَّذِیْنَ لَا یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ ﴾’’مشرکین کے لیے ہلاکت ہے۔ جو زکاۃ نہیں دیتے۔‘‘ یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی کو نفع و نقصان دینے کا اختیار رکھتی ہیں نہ موت و حیات کا اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا۔ انھوں نے اپنے آپ کو گندگی میں دھنسا لیا ہے اور اپنے رب کی توحید اور اخلاص کے ذریعے سے اپنے آپ کو پاک نہیں کرتے، وہ نماز پڑھتے ہیں نہ زکاۃ دیتے ہیں اور وہ توحید اور نماز کے ذریعے سے اپنے رب کے لیے اخلاص رکھتے ہیں نہ زکاۃ کے ذریعے سے مخلوق کو نفع پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں۔‘‘ یعنی وہ حیات بعدالموت پر ایمان رکھتے ہیں نہ جنت اور جہنم پر، اس لیے ان کے دلوں سے خوف زائل نہیں ہو گا۔ انھوں نے ایسے ایسے کام کیے ہیں جو آخرت میں انھیں سخت نقصان دیں گے۔
#
{8} ولما ذَكَرَ الكافرين؛ ذَكَرَ المؤمنين ووَصْفَهم وجزاءهم، فقال: {إن الذين آمنوا}: بهذا الكتاب وما اشتمل عليه ممَّا دعا إليه من الإيمان وصدَّقوا إيمانَهم بالأعمال الصالحة الجامعة للإخلاص والمتابعة، {لهم أجرٌ}؛ أي: عظيم {غيرُ ممنونٍ}؛ أي: غير مقطوع ولا نافذٍ، بل هو مستمرٌّ مدى الأوقات، متزايدٌ على الساعات، مشتملٌ على جميع اللذَّات والمشتَهَيات.
[8] اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان کے اوصاف اور ان کی جزا کا ذکر فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے‘‘ یعنی اس کتاب پر اور ان امور پر ایمان لائے جن پر کتاب مشتمل ہے اور ان اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی جو اخلاص للہ اور متابعت رسول کے جامع ہیں۔ ﴿لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ﴾ ’’ان کے لیے (ختم) نہ ہونے والا اجر ہے۔‘‘ یعنی ان کے لیے اجر عظیم ہے جو کبھی منقطع ہو گا نہ ختم ہو گا بلکہ وہ ہمیشہ رہے گا اور ہر گھڑی بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ یہ اجر ہر قسم کی لذات و مشتہیات پر مشتمل ہو گا۔
آیت: 9 - 12 #
{قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (9) وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (10) ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (11) فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (12)}.
کہہ دیجیے! کیا بے شک تم البتہ کفر کرتے ہو ساتھ اس ذات کے جس نے پیدا کیا زمین کو دو دن میں اور بناتے ہو تم اس کے لیے شریک، وہ رب ہے جہانوں کا(9) اور بنائے اس نے اس میں مضبوط پہاڑ اس کے اوپر اور برکت دی اس میں اور اندازہ کیا اس میں اس کی غذاؤ ں کا (یہ سارے کام ہوئے) چار دن میں، یکساں طور پر پوچھنے والوں کے لیے (10) پھر وہ متوجہ ہوا آسمان کی طرف جبکہ وہ دھواں تھا، پس کہا اللہ نے اس سے اور زمین سے، آؤ تم دونوں خوشی یا ناخوشی سے، تو کہا ان دونوں نے، آئے ہم برضاو رغبت(خوشی خوشی) (11) پس بنا دیا ان کو سات آسمان دو دن میں اور القا کیا اس نے ہر آسمان میں اس کا کام اور مزین کیا ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے اور (اس کی) حفا ظت (بھی) کی، یہ اندازہ ہے غالب خوب جاننے والے کا (12)
#
{9 ـ 10} ينكرُ تعالى ويَعَجّب من كفر الكافرين به، الذين جعلوا معه أنداداً، يُشْرِكونهم معه، ويبذُلون لهم ما يشاؤون من عباداتهم، ويسوُّونهم بالربِّ العظيم الملك الكريم، الذي خلق الأرض الكثيفة العظيمة في يومين، ثم دحاها في يومين؛ بأن جعل فيها رواسيَ من فوقها تُرْسيها عن الزوال والتزلزل وعدم الاستقرارِ؛ فكمَّل خلقها ودحاها وأخرج أقواتها وتوابعَ ذلك {في أربعةِ أيام سواءً للسائلين}: عن ذلك؛ فلا ينبِّئك مثلُ خبير؛ فهذا الخبر الصادق الذي لا زيادة فيه ولا نقص.
[9، 10] اللہ تبارک وتعالیٰ تعجب کے ساتھ کفار کے کفر کا انکار کرتا ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ہم سر گھڑ رکھے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہوا ہے، ان کی عبادت کرتے ہیں، انھیں رب عظیم اور مالک کریم کے برابر گردانتے ہیں، جس نے اتنی بڑی زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا، پھر دو دن میں اس کو ہموار کیا، اس کے اندر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیے جو اسے مٹنے، ہلنے اور عدم استقرار سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق کی تکمیل کی، پھر پھیلا کر ہموار کیا، اس میں سے خوراک اور اس کی توابعات نکالیں ﴿فِیْۤ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ١ؕ سَوَآءًؔ لِّلسَّآىِٕلِیْ٘نَ ﴾ ’’چار دن میں، سوال کرنے والوں کے لیے یکساں ہے۔‘‘ یہ اس بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے ٹھیک ٹھیک جواب ہے۔ تجھے یہ خبر ایک خبردار ہستی کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ہے اور یہ ایسی سچی خبر ہے جس میں کوئی کمی ہے نہ بیشی۔
#
{11} {ثم}: بعد أن خَلَقَ الأرض {استوى}؛ أي: قصد {إلى}: خلق {السماء وهي دخانٌ}: قد ثار على وجه الماء، {فقال لها}: ولمَّا كان هذا التخصيصُ يوهِمُ الاختصاص؛ عَطَفَ عليه بقوله: {وللأرض ائْتِيا طوعاً أو كَرْهاً}؛ أي: انقادا لأمري طائعتين أو مُكْرَهَتَيْن؛ فلا بدَّ من نفوذه، {قالتا أتَيْنا طائعينَ}؛ أي: ليس لنا إرادةٌ تخالف إرادتك.
[11] ﴿ثُمَّ ﴾ یعنی زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوٰۤى ﴾ قصد کیا ﴿اِلَى السَّمَآءِ ﴾ آسمان کی تخلیق کا ﴿وَهِیَ دُخَانٌ ﴾ ’’اور وہ دھواں تھا۔‘‘ جو پانی کی سطح پر اٹھ رہا تھا۔ ﴿فَقَالَ لَهَا ﴾ ’’پس آسمان سے کہا‘‘ چونکہ اس میں اختصاص کا وہم تھا اس لیے اس پر اپنے اس فرمان کا عطف ڈالا: ﴿وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا ﴾ ’’اور زمین سے کہ دونوں آؤ ! خوشی سے یا ناخوشی سے۔‘‘ یعنی میرے حکم کی طوعاً یا کرہاً تعمیل کرو یہ نافذ ہو کر رہے گا ﴿قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ ﴾ ’’دونوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں۔‘‘ ہمارا ارادہ تیرے ارادے کی مخالفت نہیں کر سکتا۔
#
{12} {فقضاهنَّ سبعَ سمواتٍ في يومين}: فتمَّ خلقُ السماواتِ والأرض في ستة أيام؛ أولها يوم الأحد، وآخرها يوم الجمعة، مع أنَّ قدرةَ الله ومشيئتَه صالحةٌ لخلق الجميع في لحظة واحدة، ولكن مع أنَّه قدير؛ فهو حكيمٌ رفيقٌ؛ فمن حكمته ورفقه أن جعل خَلْقَها في هذه المدة المقدرة. واعلم أنَّ ظاهر هذه الآية مع قوله تعالى في النازعات لما ذَكَرَ خَلْقَ السماواتِ؛ قال: {والأرضَ بعد ذلك دحاها}: يَظْهَرُ منهما التعارضُ! مع أنَّ كتاب الله لا تعارض فيه ولا اختلاف! والجواب عن ذلك ما قاله كثير من السلف: أنَّ خلقَ الأرض وصورتَها متقدِّم على خلق السماواتِ كما هنا. ودَحْيُ الأرض بأن {أخرجَ منها ماءها ومَرْعاها. والجبالَ أرساها}: متأخِّرٌ على خلقِ السماوات؛ كما في سورة النازعات، ولهذا قال [فيها]: {والأرضَ بعد ذلك دَحاها. أخْرَجَ منها ... } إلى آخره، ولم يقلْ: والأرضَ بعد ذلك خَلَقها. وقوله: {وأوحى في كلِّ سماءٍ أمرَها}؛ أي: الأمر والتدبير اللائقَ بها، التي اقتضتْه حكمةُ أحكم الحاكمين، {وزيَّنَّا السماء الدُّنيا بمصابيحَ}: هي النجوم؛ يُستنار بها ويُهتدى، وتكون زينةً وجمالاً للسماء ظاهراً وجمالاً لها باطناً بجعلها رجوماً للشياطين؛ لئلاَّ يسترق السمعَ فيها. {ذلك}: المذكور من الأرض وما فيها والسماء وما فيها {تقديرُ العزيز العليم}: الذي عزَّتُه قَهَرَ بها الأشياء ودبَّرها وخَلَق بها المخلوقات. {العليم} الذي أحاط علمُهُ بالمخلوقات والغائب والشاهد. فترك المشركين الإخلاصَ لهذا الربِّ العظيم الواحد القهَّار، الذي انقادتِ المخلوقاتُ لأمره، ونفذَ فيها قدرُه من أعجب الأشياء، واتِّخاذهم له أنداداً يسوُّونهم به وهم ناقصون في أوصافهم وأفعالهم أعجب وأعجب، ولا دواء لهؤلاء إن استمرَّ إعراضُهم إلاَّ العقوبات الدنيويَّة والأخرويَّة؛ فلهذا خوَّفهم بقوله:
[12] ﴿فَ٘قَ٘ضٰ٘ىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ ﴾ ’’ پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔‘‘ پس آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دنوں میں مکمل ہو گئی۔ پہلا دن اتوار اور آخری دن جمعہ تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت تمام کائنات کو لمحہ میں تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر وہ قدرت رکھنے کے ساتھ ساتھ رفق اور حکمت والا بھی ہے، یہ اس کی حکمت اور رفق ہی ہے کہ اس نے اس کائنات کی تخلیق اس مقررہ مدت میں کی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس آیت کریمہ اور سورۃ النازعات کی آیت: ﴿وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰؔىهَا۰۰﴾ (النّٰزعٰت: 79؍30) ’’اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔‘‘ میں بظاہر تعارض دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی تعارض ہے نہ اختلاف… سلف میں بہت سے اہل علم نے اس کا جواب دیا ہے کہ زمین کی تخلیق اور اس کی صورت گری آسمانوں کی تخلیق سے متقدم ہے۔ جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے اور زمین کو پھیلانا ﴿اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعٰىهَا۪۰۰۳۱ وَالْجِبَالَ اَرْسٰؔىهَا﴾ (النّٰزعٰت: 79؍31۔32) ’’اس نے اس میں سے اس کا پانی جاری کیا اور چارہ اگایا، پھر اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔‘‘ آسمانوں کی تخلیق سے متأخر ہے جیسا کہ سورۃ النازعات میں آتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰؔىهَاؕ۰۰ اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعٰىهَا۪۰۰وَالْجِبَالَ اَرْسٰؔىهَا﴾ (النزعت: 32-30/79)اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا: (وَالْاَرْضَ بَعَدَ ذٰلِکَ خَلَقَھَا) ﴿وَاَوْحٰى فِیْ كُ٘لِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا ﴾ ’’اور ہر آسمان کی طرف اس کے کام کا حکم بھیجا۔‘‘ یعنی ہر آسمان کے لائق امروتدبیر وحی کی جوا حکم الحاکمین کی حکمت کا تقاضا تھا۔ ﴿وَزَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ﴾ ’’اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں کے ذریعے سے مزین کیا۔‘‘ اس سے مراد ستارے ہیں جن سے روشنی اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ظاہری طور پر یہ ستارے آسمان کی زینت اور خوبصورتی ہیں ﴿وَحِفْظًا ﴾ اور باطنی طور پر شیاطین سے حفاظت کے لیے ان کو شہاب ثاقب بنایا ہے تاکہ وہ آسمانوں سے سن گن نہ لے سکیں۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی زمین، آسمانوں اور ان میں جوکچھ ہے، سب کا یہ مذکورہ انتظام ﴿تَقْدِیْرُ الْ٘عَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ﴾ ’’منصوبہ ہے ایک زبردست ہستی کا جو علیم بھی ہے۔‘‘ یعنی زبردست ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے جو اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر تمام اشیاء پر غالب ہے اور ان کی تدبیر کر رہی ہے اور اس نے اپنی قوت اور غلبے سے تمام مخلوقات کو تخلیق کیا۔ ﴿الْعَلِیْمِ ﴾ جس کے علم نے غائب اور شاہد، تمام مخلوقات کا اپنے علم کے ساتھ احاطہ کر رکھا ہے۔ پس مشرکین کا اس رب عظیم اور واحد قہار کے لیے اخلاص کو ترک کر دینا، جس کے سامنے تمام مخلوق سرافگندہ ہے اور تمام کائنات پر اس کی قدرت نافذ ہے، سب سے زیادہ تعجب انگیز چیز ہے، پھر خودساختہ معبود بنانا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دینا، حالانکہ وہ اپنے اوصاف و افعال میں ناقص ہیں، اس سے بھی عجیب تر ہے۔ اگر یہ اپنی روگردانی پر جمے رہے تو دنیاوی اور اخروی عذاب کے سوا ان کا کوئی علاج نہیں۔ اس لیے ان کو ڈراتے ہوئے فرمایا:
آیت: 13 - 14 #
{فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ (13) إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (14)}.
پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دیجیے: میں نے ڈرا دیا تم کو کڑک (آسمانی عذاب) سے مثل کڑک عاد اور ثمود کے(13) جب آئے ان کے پاس رسول ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے یہ (کہتے ہوئے)کہ نہ عبادت کرو تم مگر اللہ ہی کی، تو انھوں نے کہا، اگر چاہتا ہمارا رب تو البتہ نازل کر دیتا فرشتے، پس بلاشبہ ہم تو ساتھ اس چیز کے، کہ بھیجے گئے ہو تم ساتھ اس کے، انکار کرنے والے ہیں (14)
#
{13 ـ 14} أي: فإن أعرض هؤلاء المكذِّبون بعدما بُيِّنَ لهم من أوصافِ القرآن الحميدة ومن صفات الإله العظيم، {فقل أنذرتُكم صاعقةً}؛ أي: عذاباً يستأصِلكم ويجتاحُكم، {مثل صاعقة عادٍ وثمودَ}: القبيلتين المعروفتين؛ حيث اجتاحهم العذابُ، وحلَّ عليهم وَبيل العقاب، وذلك بظلمهم وكفرهم؛ حيث {جاءتهم الرسل من بين أيديهم ومن خلفهم}؛ أي: يَتْبَع بعضهم بعضاً متوالين، ودعوتُهم جميعاً واحدة: {أن لا تَعْبُدوا إلاَّ الله}؛ أي: يأمرون بالإخلاص لله، ويَنْهَوْنَهم عن الشرك به، فردُّوا رسالتهم وكذَّبوهم، و {قالوا لو شاء ربُّنا لأنزل ملائكةً}؛ أي: وأما أنتم؛ فبشرٌ مثلنا، {فإنَّا بما أرْسِلْتم به كافرون}: وهذه الشبهة لم تزل متوارثةً بين المكذِّبين بالأمم، وهي من أوهى الشُّبه؛ فإنَّه ليس من شرط الإرسال أن يكون المرسل ملكاً، وإنَّما شرط الرسالة أن يأتي الرسول بما يدلُّ على صدقه، فليقدحوا إن استطاعوا بصدقِهم بقادح عقليٍّ أو شرعيٍّ، ولن يستطيعوا إلى ذلك سبيلاً.
[13، 14] یعنی اگر یہ مکذبین اس کے باوجود بھی اعراض کریں، حالانکہ ان کے سامنے قرآن کے اوصاف حمیدہ اور رب عظیم کی صفات جلیلہ بیان کی جاچکی ہیں۔ ﴿فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً ﴾ ’’تو کہہ دیجیے: میں تمھیں ایسی کڑک سے ڈراتا ہوں‘‘ یعنی کہ میں تمھیں ایسے عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمھاری جڑ کاٹ کر رکھ دے گا۔ ﴿مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ﴾ ’’جیسی کڑک قوم عاد اور ثمود پر گری تھی۔‘‘ عاد اور ثمود یہ دو معروف قبیلے تھے، ان پر ٹوٹنے والے عذاب نے ان کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا تھا اور انھیں سخت سزا دی گئی، یہ سب کچھ ان کے ظلم اور کفر کے باعث تھا۔ ﴿اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ ﴾ ’’جب ان کے پاس رسول ان کے آگے سے اور پیچھے سے آئے۔‘‘ یعنی یکے بعد دیگرے لگاتار رسول آئے، ان تمام رسولوں کی دعوت ایک تھی۔ ﴿اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ ﴾ ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا حکم دیتے تھے اور شرک سے روکتے تھے، مگر انھوں نے انبیائے کرام کی دعوت کو رد کرتے ہوئے ان کی تکذیب کی اور کہنے لگے: ﴿ لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَؔلٰٓىِٕكَةً﴾ ’’اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اتار دیتا۔‘‘ رہے تم، تو تم ہماری ہی طرح بشر ہو ﴿فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’پس تم جو دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے۔‘‘ اور یہ شبہ تمام کافر قوموں میں نسل در نسل متوارث چلا آرہا ہے اور یہ انتہائی کمزور شبہ ہے۔ کیونکہ رسالت کے لیے یہ شرط نہیں کہ جس کو رسول بنا کر بھیجا جا رہا ہو، وہ فرشتہ ہو ۔ رسالت کی شرط صرف یہ ہے کہ رسول ایسی دعوت پیش کرے جو اس کی صداقت کی دلیل ہو، لہٰذا اگر وہ کر سکتے ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ عقلی اور شرعی دلائل کی بنیاد پر جرح و قدح کریں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔
آیت: 15 - 16 #
{فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (15) فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ (16)}.
پس لیکن عاد (قوم) نے تو تکبر کیا زمین میں ناحق اور انھوں نے کہا، کون ہے زیادہ سخت ہم سے قوت میں؟ کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک اللہ جس نے پیدا کیا ان کو، وہ زیادہ سخت ہے ان سے قوت میں، اور تھے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے (15) پس بھیجی ہم نے ان پر ہوا سخت منحوس ثابت ہونے والے دنوں میں تاکہ چکھائیں ہم ان کو عذاب رسوائی کا زندگانی ٔدنیا میں، اور البتہ عذاب آخرت کا بہت زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور وہ مدد نہیں کیے جائیں گے (16)
یہ ان مذکورہ بالا دو قوموں یعنی عادوثمود کا مفصل قصہ ہے۔
#
{15} فأمَّا عادٌ؛ فكانوا مع كفرهم بالله وجحدهم بآيات الله وكفرهم برسله مستكبرين {في الأرض} قاهرين لمن حولَهم من العباد ظالمين لهم قد أعجبتهم قُوَّتُهم، {وقالوا مَنْ أشدُّ منا قُوَّةً}: قال تعالى ردًّا عليهم بما يعرفه كلُّ أحدٍ: {أولم يَرَوا أنَّ الله الذي خلقهم هو أشدُّ منهم قوةً}: فلولا خلقُه إيَّاهم؛ لم يوجدوا؛ فلو نظروا إلى هذه الحال نظراً صحيحاً؛ لم يغترُّوا بقوَّتِهم.
[15] فرمایا: ﴿فَاَمَّا عَادٌ ﴾ قوم عاد اپنے کفر، آیات الٰہی اور انبیاء و مرسلین کی تکذیب کے ساتھ ساتھ، زمین پر تکبر کے ساتھ رہتے تھے۔ اپنے اردگرد بندگان الٰہی پر قہر اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے، ان کی قوت نے ان کو فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ﴿وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ٘ةً ﴾ ’’اور وہ کہتے تھے: بھلا ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا جواب دیا جسے ہر شخص جانتا ہے۔ ﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا، وہ ان سے قوت میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ ان کو تخلیق نہ کرتا تو وہ کبھی وجود میں نہ آسکتے، اگر وہ اپنے اس حال پر صحیح طریقے سے غور کرتے تو کبھی اپنی طاقت کے فریب میں مبتلا نہ ہوتے۔
#
{16} فعاقبهم الله عقوبةً تناسب قوَّتهم التي اغترُّوا بها، {فأرسلنا عليهم ريحاً صرصراً}؛ أي: ريحاً عظيمةً من قوتها وشدَّتها، لها صوتٌ مزعجٌ كالرعد القاصف، فسخَّرها الله {عليهم سبعَ ليالٍ وثمانيةَ أيَّام حسوماً فترى القومَ فيها صرعى كأنَّهم أعجازُ نخل خاويةٍ}، {نحسات}: فدمَّرتهم وأهلكتهم فأصبحوا لا يُرى إلاَّ مساكنُهم، وقال هنا: {لنذيقَهم عذابَ الخِزْي في الحياة الدُّنيا}: الذي اختزوا به وافتُضِحوا بين الخليقة، {ولَعذابُ الآخرة أخزى وهم لا يُنصَرونَ}؛ أي: لا يُمنعون من عذاب الله، ولا يَنْفَعون أنفسَهم.
[16] اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی سزا دی جو ان کی اس قوت سے عین مناسبت رکھتی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور تھے۔﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا ﴾ یعنی ہم نے ان پر انتہائی سخت طوفانی آندھی بھیجی جس میں بجلی کی کڑک کی مانند سخت ہولناک آواز تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طوفانی ہوا کو ان پر ﴿ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ﴾ (الحاقۃ: 69؍7) ’’ لگاتار سات رات اور آٹھ دن تک چلائے رکھا، اس ہوا میں تو ان لوگوں کو اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھتا گویا وہ کھجوروں کے خالی تنے ہیں۔‘‘ ﴿نَحِسَاتٍ﴾یعنی یہ دن ان کے لیے منحوس تھا۔اس ہوا نے ان کو ہلاک کرکے تباہ و برباد کر دیا اور ان کی یہ حالت ہو گئی کہ ان کے اجڑے ہوئے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ﴿لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’تاکہ ہم انھیں دنیا کی زندگی ہی میں رسوائی کا عذاب چکھائیں‘‘ اس عذاب کی وجہ سے انھوں نے مخلوق میں فضیحت اور رسوائی کا سامنا کیا۔ ﴿وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی ذلیل کرنے والا ہے، اور ان کی مددنہیں کی جائے گی۔‘‘ کوئی ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو روک سکے گا نہ وہ اپنے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے۔
آیت: 17 - 18 #
{وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (17) وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (18)}.
اور لیکن ثمود (قوم) پس رہنمائی کی ہم نے ان کی تو انھوں نے پسند کیا اندھے پن کو اوپر ہدایت کے، پس پکڑ لیا ان کو کڑک نے عذابِ رسوائی کی بسبب اس کے جو تھے وہ کماتے (17) اور نجات دی ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور تھے وہ تقوٰی اختیار کرتے (18)
#
{17} {وأما ثمودُ}: وهم القبيلة المعروفة، الذين سكنوا الحجرَ وحواليه، الذين أرسل الله إليهم صالحاً عليه السلام يدعوهم إلى توحيدِ ربِّهم وينهاهم عن الشرك، وآتاهم الله الناقةَ آيةً عظيمةً لها شِربٌ ولهم شِربُ يوم معلوم، يشربون لبنَها يوماً ويشربون من الماء يوماً، وليسوا ينفقون عليها، بل تأكل من أرض الله، ولهذا قال هنا: {وأمَّا ثمودُ فهَدَيْناهم}؛ أي: هداية بيان، وإنما نصَّ عليهم، وإن كان جميع الأمم المهلكة قد قامتْ عليهم الحجَّةُ وحصل لهم البيانُ؛ لأن آية ثمودَ آيةٌ باهرةٌ قد رآها صغيرهم وكبيرهم وذكرهم وأنثاهم، وكانت آيةً مبصرةً، فلهذا خصَّهم بزيادة البيان والهدى، ولكنَّهم من ظلمهم وشرِّهم استحبُّوا {العمى} الذي هو الكفر والضلال {على الهدى} الذي هو العلم والإيمان، فأخذهم {العذاب} بما كانوا يكسِبون، لا ظُلماً من الله لهم.
[17] ﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ ﴾ اور رہے ثمود تو یہ ایک معروف قبیلہ ہے جو حجر اور اس کے اردگرد کے علاقے میں آباد تھا۔ جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحu کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو ان کے رب کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کو شرک سے روکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزے کے طور پر اونٹنی عطا کی، جس کے لیے پانی پینے کا ایک دن مقرر تھا۔ ثمود کے لوگ ایک دن اس اونٹنی کا دودھ پیتے تھے اور ایک دن پانی پیتے تھے اور اس پر انھیں کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ اونٹنی زمین پر چر کر گزارہ کرتی تھی۔ اس لیے ثمود کے بارے میں فرمایا: ﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ ﴾ ’’جو ثمود تھے، ہم نے انھیں سیدھا راستہ دکھایا۔‘‘ یہاں ہدایت سے مراد ہدایت بیان ہے۔ ہرچندکہ ہلاکت کا شکار ہونے والی تمام امتوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی اور راہ راست ان کے سامنے واضح کر دی گئی، مگر اللہ تعالیٰ نے ثمود کے لیے ہدایت کا ذکر اس لیے کیا کیونکہ ان کو بہت بڑا معجزہ عطا کیا گیا تھا، اس معجزے کو ان کے بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہدایت اور بیان کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ مگر انھوں نے اپنے شر اور ظلم کی وجہ سے ہدایت یعنی علم و ایمان کی بجائے، اندھے پن یعنی کفر اور گمراہی کو پسند کیاتو جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے، اس کی وجہ سے انھیں عذاب نے پکڑ لیا اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ظلم نہ تھا۔
#
{18} {ونجَّيْنا الذين آمنوا وكانوا يتَّقونَ}؛ أي: نجَّى الله صالحاً عليه السلام ومن اتَّبعه من المؤمنين المتَّقين للشرك والمعاصي.
[18] ﴿وَنَجَّیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے اور (نافرمانی سے) بچتے رہے‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحu اور ان کی اتباع کرنے والے ان مومنین کو نجات دی جو شرک اور معاصی سے بچتے رہے۔
آیت: 19 - 24 #
{وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (19) حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (20) وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (21) وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ (22) وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23) فَإِنْ يَصْبِرُوا فَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ وَإِنْ يَسْتَعْتِبُوا فَمَا هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ (24)}.
اور جس دن (ہانک ہانک کر) جمع کیا جائے گا اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف، پس وہ رو کے جائیں گے(19) یہاں تک کہ جب وہ آجائیں گے اس کےپاس تو گواہی دیں گے ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیں ، ساتھ ان (عملوں) کے جو تھے وہ کرتے (20) اور وہ کہیں گے اپنی جلدوں سے کیوں گواہی دی تم نے ہمارے خلاف؟ تو وہ کہیں گی بلوایا ہمیں اللہ نے جس نے بلوایا ہر چیز کو اور اسی نے پیدا کیا تمھیں پہلی مرتبہ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (21) اور نہیں تھے تم پردہ کرتے اس(خوف) سے کہ گواہی دیں گے تمھارے خلاف تمھارے کان اور نہ تمھاری آنکھیں اور نہ تمھاری جلدیں اورلیکن گمان کیا تم نے کہ بلاشبہ اللہ نہیں جانتا بہت سے ان عملوں کو جو تم کرتے (تھے) (22) اور یہ تمھارا گمان وہ جو گمان کیا تم نے اپنے رب کے بارے میں، اسی نے ہلاک کیا تم کو، پس ہو گئے تم خسارہ پانے والوں میں سے (23) پس اگر وہ صبر کریں تو بھی آگ ہی ٹھکانا ہے ان کے لیے ، اور اگر وہ معافی طلب کریں گے تو نہیں ہوں گے وہ معاف کیے گئے لوگوں میں سے (24)
#
{19} يخبر تعالى عن أعدائه الذين بارزوه بالكفر به وبآياتِهِ وتكذيب رسلِهِ ومعاداتهم ومحاربتهم وحالِهِم الشنيعةِ حين يُحشرونَ؛ أي: يجمعون {إلى النار فهم يُوزَعونَ}؛ أي: يردُّ أولهم على آخرهم، ويتبعُ آخرُهم أوَّلهم، ويساقون إليها سوقاً عنيفاً، لا يستطيعون امتناعاً ولا يَنصرون أنفسَهم ولا هم يُنصرون.
[19] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دشمنوں کے بارے میں خبر دیتا ہے جنھوں نے اس کے ساتھ اور اس کی آیات کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کی تکذیب اور ان کے خلاف جنگ کی، کہ قیامت کے روز ان کا کتنا برا حال ہو گا، جب ان کو اکٹھا کیا جائے گا۔ ﴿اِلَى النَّارِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ ﴾ ’’آگ کی طرف، پس وہ روکے جائیں گے۔‘‘ ان کے پہلے شخص کو آخری شخص کے آنے تک روکے رکھا جائے گا اور آخری شخص پہلے شخص کی پیروی کرے گا، پھر نہایت سختی کے ساتھ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا وہ جہنم سے بچ نہیں سکیں گے وہ اپنی مددخود کر سکیں گے نہ ان کی مدد کی جا سکے گی۔
#
{20} {حتى إذا ما جاؤوها}؛ أي: حتى إذا وردوا على النار وأرادوا الإنكارَ أو أنكروا ما عملوه من المعاصي، {شَهِدَ عليهم سمعُهم وأبصارُهم وجلودُهم}: عمومٌ بعد خصوص، {بما كانوا يعملونَ}؛ أي: شهد عليهم كلُّ عضو من أعضائهم؛ فكل عضو يقول: أنا فعلتُ كذا وكذا يوم كذا وكذا، وخصَّ هذه الأعضاء الثلاثة؛ لأنَّ أكثر الذُّنوب إنما تقع بها أو بسببها.
[20] ﴿حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا ﴾ یعنی جب وہ سب جہنم میں وارد ہوں گے اور اپنی بداعمالیوں کا انکار کرنے کا ارادہ کریں گے۔ ﴿شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ ﴾ ’’تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف شہادت دیں گے۔‘‘ یہ خصوص کے بعد عموم ہے۔ ﴿بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔‘‘ یعنی ان کا ہر ہر عضو ان کے خلاف گواہی دے گا۔ ان کا ہر ہر عضو یہ کہے گا ’’میں نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کیا تھا۔‘‘ پھر ان تین اعضاء کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ اکثر گناہوں کا ارتکاب یہی تین اعضاء کرتے ہیں، یا انھی کے سبب سے اکثر گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے۔
#
{21} فإذا شهدتْ عليهم، عاتبوها {وقالوا لجلودِهِم}: هذا دليلٌ على أنَّ الشهادة تقع من كلِّ عضو كما ذكرنا، {لم شهِدتُم علينا}: ونحن ندافعُ عنكنَّ؟ {قالوا أنطَقَنا اللهُ الذي أنطق كلَّ شيءٍ}: فليس في إمكاننا الامتناعُ عن الشهادة حين أنطقنا الذي لا يَستعصي أحد عن مشيئتِهِ ، {وهو خَلَقَكم أولَ مرةٍ}: فكما خلقكم بذواتكم وأجسامِكم؛ خلق أيضاً صفاتِكم، ومن ذلك الإنطاق. {وإليه تُرْجَعون}: في الآخرة، فيجزيكم بما عملتُم. ويُحتمل أنَّ المراد بذلك الاستدلال على البعثِ بالخَلْقِ الأول كما هو طريقة القرآن.
[21] جب یہ اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے تو یہ ان اعضاء پر سخت ناراض ہوں گے ﴿وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ ﴾ ’’اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے:‘‘ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر عضو کی طرف سے گواہی واقع ہو گی جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ﴿لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا ﴾ ’’تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟‘‘ حالانکہ ہم تمھارا دفاع کیا کرتے تھے ﴿قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیْۤ اَنْطَقَ كُ٘لَّ شَیْءٍ ﴾ ’’تووہ جواب دیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوتِ گویائی بخشی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے۔‘‘ لہٰذا گواہی دینے سے انکار کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس کی مشیت کے سامنے کسی چیز کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ ﴿وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ ’’اور اس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا‘‘ جس طرح اس نے تمھاری ذوات و اجسام کو تخلیق فرمایا اسی طرح تمھاری صفات کو بھی تخلیق فرمایا اور گویائی بھی انھی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ ﴿وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور تم (آخرت میں) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ پھر وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد تخلیق اول کے ذریعے سے مرنے کے بعد زندہ کیے جانے پر استدلال ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم کا طریقہ ہے۔
#
{22} {وما كنتُم تستَتِرونَ أن يشهدَ عليكم سمعُكم ولا أبصارُكم ولا جلودُكم}؛ أي: وما كنتُم تختفون عن شهادة أعضائكم عليكم ولا تحاذِرون من ذلك. {ولكن ظننتُم}: بإقدامِكم على المعاصي {أنَّ الله لا يعلمُ كثيراً مما تعمَلونَ}: فلذلك صَدَرَ منكم ما صَدَرَ.
[22] ﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَاۤ اَبْصَارُؔكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ ﴾ ’’اور (گناہ کرتے وقت) تم اس بات کے خوف سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور تمھارے چمڑے تمھارے خلاف شہادت دیں گے۔‘‘ یعنی تم اپنے اعضاء کی گواہی سے اپنے آپ کو چھپا سکتے ہو نہ اس سے بچ سکتے ہو۔ ﴿وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ ﴾ ’’لیکن تم یہ سمجھتے رہے‘‘ گناہوں کا ارتکاب کر کے ﴿اَنَّ اللّٰهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّؔمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ کو تمھارے بہت سے عملوں کی خبر ہی نہیں۔‘‘ اسی لیے تم سے یہ گناہ صادر ہوئے۔
#
{23} وهذا الظنُّ صار سبب هلاكهم وشقائهم، ولهذا قال: {وذلكم ظنُّكم الذي ظَنَنتُم بربِّكم}: الظنَّ السيِّئَ؛ حيث ظننتُم به ما لا يليقُ بجلاله، {أرداكم}؛ أي: أهلككم، {فأصبحتُم من الخاسرين}: لأنفسهم وأهليهم وأديانهم؛ بسبب الأعمال التي أوجَبَها لكم ظنُّكم القبيح بربِّكم. فحقَّتْ عليكم كلمةُ العقاب والشقاءِ، ووجب عليكم الخلودُ الدائم في العذاب، الذي لا يُفَتَّر عنهم ساعة.
[23] ان کا یہ گمان ان کی ہلاکت اور بدبختی کا سبب بنا۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ ﴾ ’’تمھارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے متعلق کر رکھا تھا‘‘ یعنی تم نے اپنے رب کے بارے میں برا گمان کیا جو اس کے جلال کے لائق نہ تھا۔ ﴿اَرْدٰىكُمْ ﴾ ’’وہی تمھیں لے ڈوبا۔‘‘ یعنی اس نے تمھیں ہلاک کر دیا۔ ﴿فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ ’’ لہٰذا تم خسارہ پانے والوں میں ہوگئے۔‘‘ تم نے اپنے اعمال کے سبب سے، جن کا موجب اپنے رب کے بارے میں تمھارا براگمان تھا، اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں اور اپنے دین کو خسارے میں ڈالا۔ بنابریں تم عذاب اور بدبختی کے مستحق ٹھہرے اور تمھارے لیے عذاب جہنم میں دائمی خلود واجب ہوا، یہ عذاب ایک گھڑی کے لیے بھی تم سے علیحدہ نہ ہو گا۔
#
{24} {فإن يَصْبِروا فالنارُ مثوىً لهم}: فلا جَلَدَ عليها ولا صبرَ، وكلُّ حالة قُدِّرَ إمكانُ الصبر عليها؛ فالنار لا يمكن الصبرُ عليها، وكيف الصبرُ على نار قد اشتدَّ حرُّها وزادت على نار الدنيا بسبعين ضعفاً وعظم غليانُ حميمها وزاد نَتَنُ صديدها وتضاعف بردُ زمهريرِها، وعظُمَتْ سلاسِلُها وأغلالها، وكَبُرَتْ مقامِعها، وغَلُظَ خُزَّانها، وزال ما في قلوبهم من رحمتهم، وختام ذلك سَخَطُ الجبار، وقوله لهم حين يدعونه ويستغيثون: {اخسؤوا فيها ولا تُكَلِّمونِ}. {وإن يَسْتَعْتِبوا}؛ أي: يطلبوا أن يزال عنهم العتبُ، فيرجعوا إلى الدنيا؛ ليستأنفوا العمل، {فما هم من المُعْتَبين}: لأنَّه ذهب وقته، وعُمِّروا ما يُعَمَّر فيه من تذكَّر، وجاءهم النذير، وانقطعت حجتهم، مع أنَّ استعتابهم كذبٌ منهم، فلو رُدُّوا؛ لَعادوا لما نُهوا عنه وإنَّهم لَكاذبون.
[24] ﴿فَاِنْ یَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ﴾ ’’اب اگر یہ صبر کریں (یا نہ کریں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے۔‘‘ اس پر کسی بھی حالت میں صبر نہیں ہوگا۔ اگر کسی حال میں صبر کا امکان فرض کر لیا جائے تاہم آگ کے سامنے صبر کرنا ممکن نہیں اور اس آگ پر صبر کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے جس کی حرارت بے انتہا شدید ہے، اس کی حرارت دنیا کی آگ کی حرارت سے ستر گنا زیادہ ہے، اس کا پانی شدید گرم ہو گا، اس کی پیپ بے انتہا بدبودار ہو گی، جہنم کے ٹھنڈے طبقے کی ٹھنڈک کئی گنا زیادہ ہو گی، اس کی زنجیریں، طوق اور گرز بہت بڑے ہوں گے۔ اس کے داروغے نہایت درشت مزاج ہوں گے اور ان کے دلوں سے ہر قسم کا رحم نکل چکا ہو گا اور آخری چیز یہ کہ جبار کی سخت ناراضی ہو گی ، چنانچہ جب وہ اسے مدد کے لیے پکاریں گے تو وہ فرمائے گا: ﴿اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ ﴾ (المؤمنون: 23؍108) ’’دفع ہو جاؤ ، اسی میں پڑے رہو اور میرے ساتھ کلام نہ کرو۔‘‘ ﴿وَاِنْ یَّسْتَعْتِبُوْا۠﴾ ’’اگر وہ توبہ کرنا چاہیں‘‘ یعنی اگر وہ عتاب الٰہی کا ازالہ چاہتے ہوئے درخواست کریں گے کہ انھیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے تاکہ وہ نئے سرے سے عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کر سکیں۔ ﴿فَمَا هُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِیْنَ ﴾ ’’تو ان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔‘‘ کیونکہ اس کا وقت گزر چکا تھا، اس گزرے ہوئے عرصے کے دوران ان کو غوروفکر کا موقع دیا گیا اور ان کے پاس برے انجام سے خبردار کرنے والے بھی آئے۔ ان کی حجت منقطع ہو گئی، نیز ان کی عتاب دور کرنے کی التجا بھی محض جھوٹ ہے۔ ﴿وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍28) ’’اگر ان کو لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا اور بے شک یہ جھوٹے ہیں۔‘‘
آیت: 25 #
{وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمْ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ (25)}.
اور مقرر کر دیے ہم نے ان کے لیے کچھ ہم نشین، پس اچھے کر دکھائے انھوں نے ان کے لیے و ہ جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور ثابت ہو گئی ان پر بات ساتھ ان امتوں کے جو گزر چکیں ان سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے، بلاشبہ تھے وہ خسارہ پانے والوں میں سے (25)
#
{25} أي: {وقيَّضْنا}: لهؤلاء الظالمين الجاحدين للحقِّ {قرناءَ}: من الشياطين؛ كما قال تعالى: {ألم تَرَ أنَّا أرسَلْنا الشياطينَ على الكافرين تَؤُزُّهم أزًّا}؛ أي: تزعِجُهم إلى المعاصي، وتحثُّهم عليها، بسبب ما زيّنوا {لهم ما بين أيديهم وما خلفهم}: فالدنيا زخرفوها بأعينهم ودَعَوْهم إلى لذاتها وشهواتها المحرَّمة، حتى افْتَتَنوا فأقدَموا على معاصي الله وسَلَكوا ما شاؤوا من محاربة الله ورسوله، والآخرة بَعَّدوها عليهم وأنْسَوْهم ذِكْرَها، وربما أوقعوا عليهم الشُّبه بعدم وقوعها، فترحَّلَ خوفُها من قلوبهم، فقادوهم إلى الكفر والبدع والمعاصي. وهذا التسليطُ والتقييضُ من الله للمكذِّبين الشياطين بسبب إعراضِهم عن ذِكْرِ الله وآياته وجحودِهم الحقَّ؛ كما قال تعالى: {ومَنْ يَعْشُ عن ذِكْرِ الرحمن نُقَيِّضْ له شيطاناً فهو له قرينٌ. وإنَّهم لَيَصُدُّونَهم عن السبيل ويَحْسَبونَ أنَّهم مهتدونَ}. {وحقَّ عليهم القولُ}؛ أي: وجب عليهم ونزل القضاءُ والقدرُ بعذابهم {في} جملة {أمم قد خَلَتْ من قبلِهِم من الجنِّ والإنس إنَّهم كانوا خاسرين}: لأديانهم وآخرتهم، ومن خَسِرَ؛ فلا بدَّ أن يَذِلَّ ويشقى ويعذَّبَ.
[25] یعنی ہم نے حق کا انکار کرنے والے ان ظالموں کے لیے ﴿قُ٘رَنَآءَ ﴾ ’’ہم نشین‘‘ شیاطین کو ساتھی مقرر کر دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّـاۤ٘ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّا﴾ (مریم: 19؍83) ’’کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کفار کی طرف شیاطین کو بھیجتے ہیں جو انھیں برائی پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ انھیں گناہ کا ارتکاب کرنے کے لیے بے قرار رکھتے ہیں اور ان کو بہکاتے رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان شیاطین نے مزین کردیا۔﴿ لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ﴾ ’’ان کے لیے جو ان کے آگے تھا اور جو ان کے پیچھے تھا۔‘‘ پس ان شیاطین نے دنیا اور اس کی خوبصورتی کو ان کی آنکھوں کے سامنے مزین کر دیا اور انھیں اس کی لذات و شہوات محرمہ کے حوالے کر دیا، یہاں تک کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا اقدام کیا اور جیسے چاہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے خلاف جنگ کی راہ چل نکلے اور انھوں نے آخرت کو ان سے دور کر دیا اور اس کی یاد کو فراموش کرا دیا۔ بسااوقات آخرت کے وقوع کے بارے میں ان کے دلوں میں شبہات پیدا کیے جس سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف چلا گیا اور وہ ان کو لے کر کفر، بدعات اور معاصی کی راہوں پر گامزن ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان مکذبینِ حق پر شیاطین کو مسلط کرنا، ان کی اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی آیات سے روگردانی اور ان کے انکار حق کے سبب سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُ٘قَ٘یِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَ٘رِیْنٌ۰۰۳۶ وَاِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ (الزخرف: 43؍36۔37) ’’جو شخص رحمان کے ذکر سے غفلت برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہوتا ہے، یہ شیاطین انھیں راہ راست پر چلنے سے روک دیتے ہیں اور یہ اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ راہ راست پر چل رہے ہیں۔‘‘ ﴿وَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ’’اور ان پر حکم الٰہی ثابت ہوگیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا قول ان پر واجب ہو گیا اور اس کی قضاوقدر کا فیصلہ، عذاب کے ساتھ ان پر نازل ہو گیا۔ ﴿فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ١ۚ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ ﴾ ’’جنوں اور انسانوں کی جماعتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکیں (جن پر بھی اللہ کا وعدہ پورا ہوا) کہ بے شک یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ جو اپنے دین اور آخرت کے بارے میں گھاٹے میں پڑ گئے اور جو شخص گھاٹے میں پڑ جائے تو اسے ذلت ، اور عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آیت: 26 - 29 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (26) فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (27) ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (28) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ (29)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، نہ سنو تم اس قرآن کو اور غل مچاؤ اس (کے پڑھنے کے وقت) میں تاکہ تم غالب آ جاؤ (26) پس البتہ ہم ضرور چکھائیں گے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا عذاب سخت اور البتہ ہم ضرور بدلہ دیں گے ان کو برے عملوں کا جو تھےوہ کرتے(27) یہ بدلہ ہے اللہ کے دشمنوں کا آگ، ان کے لیے اس میں گھر ہے ہمیشہ کا، بدلہ اس کا جو تھے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے(28) اور کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اے ہمارے رب! دکھا ہم کو وہ دونوں (فریق) جنھوں نے گمراہ کیا تھا ہم کو جنوں اور انسانوں میں سے، کر دیں ہم انھیں نیچے اپنے قدموں کے تاکہ ہوں وہ سب سے نچلے لوگوں میں سے(29)
#
{26} يخبر تعالى عن إعراض الكفار عن القرآن وتواصيهم بذلك، فقال: {وقال الذين كَفَروا لا تَسْمَعوا لهذا القرآن}؛ أي: أعرضوا عنه بأسماعكم، وإيَّاكم أن تلتفتوا أو تُصْغوا إليه وإلى مَنْ جاء به؛ فإن اتَّفق أنكم سمعتموه أو سمعتُم الدعوة إلى أحكامه، فالغَوْا فيه؛ أي: تكلَّموا بالكلام الذي لا فائدةَ فيه، بل فيه المضرَّة، ولا تمكِّنوا مع قدرتكم أحداً يملكُ عليكم الكلام به وتلاوةَ ألفاظه ومعانيه، هذا لسانُ حالهم ولسانُ مقالهم في الإعراض عن هذا القرآن. {لعلَّكم}: إن فعلتُم ذلك {تغلِبونَ}: وهذا شهادةٌ من الأعداء، وأوضحُ الحقِّ ما شهدت به الأعداءُ؛ فإنَّهم لم يحكموا بغلبتهم لِمَنْ جاء بالحقِّ إلاَّ في حال الإعراض عنه والتواصي بذلك، ومفهومُ كلامِهم أنَّهم إنْ لم يَلْغَوا فيه، بل استمعوا إليه وألقوا أذهانَهم؛ أنَّهم لا يغلبونَ؛ فإنَّ الحقَّ غالبٌ غير مغلوب، يعرِفُ هذا أصحابُ الحقِّ وأعداؤه.
[26] اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کے بارے میں کفار کی روگردانی اور اس روگردانی کے ضمن میں ان کی ایک دوسرے کو وصیت سے آگاہ فرماتا ہے: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَ٘سْمَعُوْا لِهٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ ﴾ ’’اور کافر (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو‘‘ یعنی اس قرآن کو سننے سے گریز کرو، اس کی طرف کوئی التفات کرو نہ اس کے لانے والے کی بات کی طرف کوئی توجہ دو۔ اگر تمھیں اس کے سننے کا کبھی اتفاق ہو یا اس کے احکام سننے کی دعوت دی جائے تو اس کی مخالفت کرو۔ ﴿وَالْغَوْا فِیْهِ ﴾ ’’(جب پڑھا جائے تو) خوب شور مچاؤ‘‘ یعنی ایسی باتیں کرو جن کا کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ الٹا نقصان ہو۔ جہاں تک تمھارے بس میں ہو کسی کو اپنے ساتھ، قرآن کی بات کرنے اور اس کے الفاظ یا اس کے معانی کی تلاوت کی اجازت نہ دو۔ اس قرآن مجید سے اعراض کے بارے میں یہ ان کی زبانِ حال اور زبانِ مقال ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تم‘‘ اگر تم نے یہ سب کچھ کیا ﴿تَغْلِبُوْنَ ﴾ ’’تم غالب رہو۔‘‘ یہ دشمنوں کی طرف سے گواہی ہے اور واضح ترین حق وہ ہوتا ہے جس کی گواہی خود دشمن دیں۔ کیونکہ انھوں نے اس شخص پر جو حق لے کر آیا، اپنے غلبے کا حکم صرف اعراض اور روگردانی کے حال میں ایک دوسرے کو روگردانی کی وصیت کی صورت میں لگایا۔ ان کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس کی تلاوت میں خلل نہ ڈالیں اور اسے غور سے سنیں تو وہ کبھی غالب نہیں آسکتے کیونکہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا۔ اس حقیقت کو اصحاب حق اور اعدائے حق سب جانتے ہیں۔
#
{27} ولمَّا كان هذا ظلماً منهم وعناداً؛ لم يبقَ فيهم مطمعٌ للهداية، فلم يبقَ إلاَّ عذابُهم ونَكالُهم، ولهذا قال: {فَلَنُذيقَنَّ الذين كَفَروا عذاباً شديداً ولَنَجْزِيَنَّهم أسوأ الذي كانوا يعمَلون}: وهو الكفر والمعاصي؛ فإنَّها أسوأ ما كانوا يعملون؛ لكونهم يعملون المعاصي وغيرها؛ فالجزاء بالعقوبة إنَّما هو على عمل الشرك ، ولا يظلمُ ربُّك أحداً.
[27] چونکہ یہ سب کچھ ان کے ظلم اور عناد کے باعث تھا، اس لیے ان کی ہدایت کی توقع باقی نہیں رہی اب ان کے لیے عذاب اور سزا باقی رہ گئی تھی۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَلَنُذِیْقَ٘نَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَذَابً٘ا شَدِیْدًا١ۙ وَّلَنَجْزِیَنَّهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’پس ہم بھی کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور ان کے برے عملوں کی، جو وہ کرتے تھے، سزا دیں گے۔‘‘ اس سے مراد کفر اور معاصی ہے اور یہ ان کے بدترین اعمال ہیں۔ یہ عذاب کی سزا ان کے شرک کی جزا ہے۔ ﴿وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف: 18/49) ’’اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘
#
{28} {ذلك جزاءُ أعداءِ الله}: الذين حاربوه وحاربوا أولياءه؛ بالكفر والتكذيب والمجادلة والمجالدةِ. {[النار] لهم فيها دارُ الخلدِ}؛ أي: الخلود الدائم، الذي لا يفتَّر عنهم العذابُ ساعةً ولا هم يُنصرون، وذلك {جزاءً بما كانوا بآياتِنا يجحَدونَ}؛ فإنَّها آياتٌ واضحةٌ وأدلةٌ قاطعةٌ مفيدةٌ لليقين، فأعظم الظُّلم وأكبر العناد جَحْدُها والكفر بها.
[28] ﴿ذٰلِكَ جَزَآءُ اَعْدَآءِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے دشمنوں کی یہی سزا ہے‘‘ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کی اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے ساتھ جنگ کی۔ ان کی جزا ان کے کفر، تکذیب، مجادلہ اور جنگ کے سبب سے ﴿النَّارُ١ۚ لَهُمْ فِیْهَا دَارُ الْخُلْدِ ﴾ ’’جہنم کی آگ (ہے) جس میں ان کا ہمیشگی کا گھر ہے۔‘‘ یعنی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے گھڑی بھر کے لیے ان سے عذاب دور نہیں ہو گا اور نہ ان کی مدد ہی کی جائے گی۔ ﴿جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ﴾ ’’یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔‘‘ کیونکہ یہ نہایت واضح آیات اور قطعی دلائل ہیں جو یقین کا فائدہ دیتے ہیں، لہٰذا ان کا انکار کرنا سب سے بڑا عناد اور سب سے بڑا ظلم ہے۔
#
{29} {وقال الذين كفروا}؛ أي: الأتباع منهم؛ بدليل ما بعدَه على وجه الحنق على مَنْ أضلَّهم: {ربَّنا أرِنا اللَّذَين أضلاَّنا من الجنِّ والإنس}؛ أي: الصنفين اللذين قادانا إلى الضَّلال والعذاب من شياطين الجنِّ وشياطين الإنس الدعاة إلى جهنَّم، {نجعَلْهما تحتَ أقدامِنا ليكونا من الأسفلينَ}؛ أي: الأذلِّين المهانين؛ كما أضلُّونا وفتنونا وصاروا سبباً لنزولنا؛ ففي هذا بيانُ حنقِ بعضهم على بعض، وتبرِّي بعضهم من بعض.
[29] ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور کافروں نے کہا‘‘ اس سے مراد متبعین ہیں اور اس کی دلیل بعد میں آنے والا کلام ہے یعنی یہ کفار ان لوگوں پر سخت غصے کی وجہ سے یہ بات کہیں گے جنھوں نے ان کو گمراہ کیا ﴿رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ لوگ دکھلادے جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔‘‘ یعنی جن و انس کی دونوں اصناف، جنھوں نے گمراہی اور عذاب کی طرف ہمیں دعوت دی اور اس راہ میں ہماری قیادت کی، وہ ہمیں دکھا۔ ﴿نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْ٘نَ ﴾ ’’ہم انھیں اپنے پاؤ ں تلے روند ڈالیں، تاکہ وہ سب سے زیادہ ذلیل و خوار لوگوں میں شمار ہوں۔‘‘ انھوں نے ہمیں گمراہ کیا، ہمیں فتنے میں مبتلا کیا اور ہمیں جہنم میں ڈالنے کا سبب بنے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جہنمی ایک دوسرے کے خلاف سخت بغض رکھیں گے اور ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔
آیت: 30 - 32 #
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ (32)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کہا، ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم گئے، اترتے ہیں ان پر فرشتے(یہ کہتے ہوئے)کہ نہ خوف کرو تم اور نہ غم کھاؤ اورخوش ہو جاؤ تم ساتھ جنت کے، وہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (30) ہم دوست ہیں تمھارے زندگانی ٔدنیا میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے ہے اس میں جو چاہیں گے تمھارے جی اور تمھارے لیے ہے اس میں جو تم مانگو گے (31) بطور مہمانی کے بڑے بخشنے والے نہایت مہربان کی طرف سے (32)
#
{30} يخبر تعالى عن أوليائِهِ، وفي ضمن ذلك تنشيطُهم والحثُّ على الاقتداء بهم، فقال: {إنَّ الذين قالوا ربُّنا الله ثم اسْتَقاموا}؛ أي: اعترفوا ونطقوا ورَضُوا بربوبيَّة الله تعالى واستَسْلَموا لأمره، ثم استقاموا على الصراط المستقيم علماً وعملاً؛ فلهم البُشرى في الحياةِ الدُّنيا وفي الآخرة. {تتنزَّلُ عليهم الملائكةُ}: الكرام؛ أي: يتكرَّر نزولهم عليهم مبشِّرين لهم عند الاحتضار {أن لا تخافوا}: على ما يستقبلُ من أمركم، {ولا تحزَنوا}: على ما مضى، فنفوا عنهم المكروه الماضي والمستقبل. {وأبشِروا بالجنَّة التي كنتُم توعدون}: فإنَّها قد وجبت لكم وثبتت، وكان وعد الله مفعولاً.
[30] اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا ذکر فرماتا ہے اور اس ضمن میں اہل ایمان میں نشاط پیدا کرتا اور انھیں ان کی اقتدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ﴾ ’’بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، پھر وہ اس پر ڈٹ گئے‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اعتراف کر کے اس کا اعلان کیا، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر راضی ہوئے، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ، پھر علم و عمل کے اعتبار سے راہ راست پر استقامت کے ساتھ گامزن ہوئے۔ ان کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ ﴿تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’ان پر (نہایت عزت و اکرام والے) فرشتے نازل ہوتے ہیں‘‘ یعنی ان کا نزول بتکرار ہوتا ہے۔ وہ ان کے پاس حاضر ہو کر خوشخبری دیتے ہیں: ﴿اَلَّا تَخَافُوْا ﴾ ’’نہ ڈرو‘‘ یعنی اس معاملے پر خوف نہ کھاؤ جو مستقبل میں تمھیں پیش آنے والا ہے۔ ﴿وَ لَا تَحْزَنُوْا ﴾ ’’اور نہ غمگین رہو‘‘ یعنی جو کچھ گزر چکا ہے اس پر غم نہ کھاؤ ۔ گویا ماضی اور مستقبل میں ان سے کسی بھی ناگوار امر کی نفی کر دی گئی ہے۔ ﴿وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ﴾ ’’اور تمھیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘ یہ جنت تمھارے لیے واجب ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو پورا ہو کر رہے گا۔
#
{31} ويقولون لهم أيضاً مثبِّتين لهم ومبشِّرين: {نحنُ أولياؤكم في الحياة الدُّنيا وفي الآخرِة}: يحثُّونهم في الدنيا على الخيرِ ويُزَيِّنونه لهم، ويرهِّبونهم عن الشرِّ ويقبِّحونه في قلوبهم، ويَدْعون الله لهم، ويثبِّتونهم عند المصائبِ والمخاوف، وخصوصاً عند الموت وشدَّته والقبر وظلمته وفي القيامة وأهوالِها، وعلى الصراط وفي الجنَّة؛ يهنُّونهم بكرامة ربِّهم، ويدخُلون عليهم من كلِّ باب، سلامٌ عليكم بما صبرتُم فنعم عُقبى الدار، ويقولون لهم أيضاً: {ولكم فيها}؛ أي: في الجنة، {ما تشتهي أنفسُكم}: قد أُعِدَّ وهُيِّئ، {ولكم فيها ما تَدَّعون}؛ أي: تطلبون من كلِّ ما تتعلَّق به إرادتُكم وتطلُبونه، من أنواع اللَّذَّات والمشتهيات، مما لا عينٌ رأت ولا أذنٌ سمعت ولا خطرَ على قلب بشر.
[31] وہ ثابت قدمی کے لیے ان کی ہمت بڑھاتے اور ان کو خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے: ﴿نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔‘‘ وہ دنیا کے اندر انھیں بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں اور بھلائی کو ان کے سامنے مزین کرتے ہیں۔ وہ ان کو برائی سے ڈراتے ہیں اور ان کے دلوں میں برائی کو قبیح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں اور مصائب اور مقاماتِ خوف میں ان کو ثابت قدم رکھتے ہیں۔ خاص طور پر موت کی سختیوں، قبر کی تاریکیوں، قیامت کے روز پل صراط کے ہولناک منظر کے وقت ان کی ہمت بڑھاتے ہیں اور جنت کے اندر ان کے رب کی طرف سے عطا کردہ اکرام و تکریم پر انھیں مبارک باد دیتے اور ہر دروازے میں سے داخل ہوتے ہوئے ان سے کہیں گے: ﴿سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾ (الرعد: 13؍24) ’’تم پر سلامتی ہے، دنیا میں تمھارے صبر کے سبب سے، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر!‘‘ نیز وہ ان سے یہ بھی کہیں گے: ﴿وَلَكُمْ فِیْهَا ﴾ ’’اور اس میں تمھارے لیے‘‘ یعنی جنت کے اندر ﴿ مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ ﴾ ’’جو چیز تمھارے نفس چاہیں گے‘‘ وہ تیار اور مہیا ہو گی۔ ﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ﴾ ’’اور تمھارے لیے ہوگا جو کچھ تم طلب کرو گے‘‘ یعنی لذات و شہوات میں سے جس چیز کا تم ارادہ کرو گے تمھیں حاصل ہو گی۔ ان لذات کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے قلب میں اس کا خیال گزرا ہے۔
#
{32} {نزلاً من غفورٍ رحيم}؛ أي: هذا الثواب الجزيل والنعيم المقيم نُزُلٌ وضيافةٌ من غفورٍ غفر لكم السيئات، رحيم حيث وفَّقكم لفعل الحسنات ثم قَبِلَها منكم؛ فبمغفِرَتِهِ أزال عنكم المحذورَ، وبرحمتِهِ أنالكم المطلوب.
[32] ﴿نُزُلًا ﴾ یہ بے پایاں ثواب اور ہمیشہ رہنے والی نعمت، مہمانی اور ضیافت ہے ﴿مِّنْ غَفُوْرٍ ﴾ ’’بخش دینے والی ہستی کی طرف سے‘‘ جس نے تمھارے گناہوں کو بخش دیا ہے۔ ﴿رَّحِیْمٍ ﴾ ’’اور بہت ہی رحم کرنے والی ہستی کی طرف سے‘‘ جس نے تمھیں نیکیوں کی توفیق دی ، پھر ان نیکیوں کو قبول فرمایا۔ اس نے اپنی مغفرت سے برائی کو تم سے دور کیا اور اپنی رحمت سے تمھارا مطلوب تمھیں عطا کیا۔
آیت: 33 #
{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (33)}.
اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے اعتبار سے، اس شخص سے جس نے بلایا اللہ کی طرف اور عمل کیا نیک اور کہا، بے شک میں تو فرماں برداروں میں سے ہوں (33)
#
{33} هذا استفهامٌ بمعنى النفي المتقرِّر؛ أي: لا أحد {أحسنُ قولاً}؛ أي: كلاماً وطريقةً وحالة {ممَّن دعا إلى الله}: بتعليم الجاهلين، ووعظ الغافلين والمعرِضين، ومجادلةِ المبطِلين؛ بالأمر بعبادة الله بجميع أنواعها، والحثِّ عليها، وتحسينها مهما أمكن، والزجر عما نهى الله عنه، وتقبيحِهِ بكلِّ طريق يوجب تركَه، خصوصاً من هذه الدعوة إلى أصل دين الإسلام وتحسينه، ومجادلة أعدائِهِ بالتي هي أحسن، والنهي عما يضادُّه من الكفرِ والشرك، والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر. ومن الدعوة إلى الله تحبيبُهُ إلى عبادِهِ؛ بذِكْر تفاصيل نِعَمِهِ وسعةِ جودِهِ وكمال رحمتِهِ وذكرِ أوصاف كمالِهِ ونعوت جلاله. ومن الدعوة إلى الله الترغيبُ في اقتباس العلم والهدى من كتاب الله وسنَّة رسوله، والحثُّ على ذلك بكلِّ طريق موصل إليه. ومن ذلك الحثُّ على مكارم الأخلاق، والإحسانُ إلى عموم الخلق، ومقابلةُ المسيء بالإحسان، والأمرُ بصلة الأرحام وبرِّ الوالدين. ومن ذلك الوعظُ لعموم الناس في أوقات المواسم والعوارض والمصائب بما يناسبُ ذلك الحال، إلى غير ذلك ممَّا لا تنحصر أفرادُه بما يشمله الدعوة إلى الخير كله، والترهيبُ من جميع الشرِّ. ثم قال تعالى: {وعمل صالحاً}؛ أي: مع دعوته الخلق إلى الله بادَرَ هو بنفسِهِ إلى امتثال أمرِ الله بالعمل الصالح الذي يُرضي ربَّه، {وقال إنَّني من المسلمين}؛ أي: المنقادين لأمره، السالكين في طريقه، وهذه المرتبةُ تمامها للصدِّيقين الذين عملوا على تكميل أنفسِهم وتكميل غيرِهم وحصلت لهم الوراثةُ التامَّةُ من الرسل؛ كما أنَّ من أشرِّ الناس قولاً من كان من دعاة الضَّلال السالكين لسُبُله، وبين هاتين المرتبتين المتباينتين، التي ارتفعتْ إحداهما إلى أعلى علِّيين، ونزلت الأخرى إلى أسفل سافلين، مراتبُ لا يعلمُها إلاَّ الله، وكلها معمورةٌ بالخلق، ولكلٍّ درجاتٌ مما عملوا، وما ربُّك بغافل عما يعملون.
[33] یہ استفہام متحقق اور ثابت شدہ نفی کے معنوں میں ہے۔ یعنی کسی کا قول اچھا نہیں، یعنی کسی کا کلام، طریقہ اور حال اس شخص سے بڑھ کر اچھا نہیں ﴿مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’جس نے اللہ کی طرف بلایا‘‘ جو جہلاء کو تعلیم کے ذریعے سے، غافلین اور اعراض کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعے سے اور اہل باطل کو بحث و جدال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام انواع کی عبادت کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا ہے اور جیسے بھی ممکن ہو اس عبادت کی تحسین کرتا ہے۔ اور ہر اس چیز پر زجروتوبیخ کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو اور ہر اس طریقے سے اس کی قباحت بیان کرتا ہے جو اس کے ترک کرنے کا موجب ہے۔ خاص طور پر یہ دعوت اصول دین اسلام، اس کی تحسین اور اس کے دشمنوں کے ساتھ احسن طریقے سے مباحثہ و مجادلہ کی دعوت، اس دعوت کے متضاد امور ، مثلاً: کفروشرک سے ممانعت، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تفاصیل، اس کے لامحدود جودو احسان، اس کی کامل رحمت، اس کے اوصاف کمال اور نعوت جلال کے ذکر کے ذریعے سے اس کے بندوں میں اس کی محبت پیدا کرنا، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول سے علم و ہدایت کے حصول کی ترغیب اور ہر طریقے سے اس پر آمادہ کرنا، دعوت الی اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ مکارم اخلاق کی ترغیب، تمام مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا، برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا، صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سب دعوت الی اللہ کا حصہ ہے۔ مختلف مواقع، حوادث اور مصائب پر حالات کی مناسبت سے عام لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا دعوت الی اللہ میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض ہر بھلائی کی ترغیب اور ہر برائی سے ترہیب دعوت الی اللہ میں شامل ہے۔ پھر فرمایا: ﴿وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ ’’اور نیک عمل کیے‘‘ یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ، خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عمل صالح کرتا ہو ﴿وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور کہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں‘‘ یعنی جو اس کے حکموں کے تابع اور اس کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ تمام ترصدیقین کا مرتبہ ہے، جو اپنی تکمیل اور دوسروں کی تکمیل کے لیے عمل پیرا رہتے ہیں۔ انھیں انبیاء و مرسلین کی مکمل وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح گمراہی کے راستے پر چلنے والے گمراہ داعیوں کا قول بدترین قول ہے۔ ان دو متباین مراتب کے درمیان، جن میں ایک اعلی علیین کا مرتبہ اور دوسرا اسفل السافلین کا مرتبہ ہے، اتنے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہر مرتبہ لوگوں سے معمور ہے ﴿وَلِكُ٘لٍّ دَرَجٰؔتٌ مِّؔمَّا عَمِلُوْا١ؕ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍132) ’’اور ہر شخص کے لیے اس کے عمل کے مطابق درجہ ہے اور آپ کا رب ان اعمال سے بے خبر نہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘
آیت: 34 - 35 #
{وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (34) وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (35)}.
اور نہیں برابر ہوتی نیکی اور نہ برائی، ٹالیے(برائی کو) ایسی بات سے کہ وہ احسن ہو، تو یکایک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے(ایسا ہو جائے گا) گویا کہ وہ دوست ہے نہایت گہرا (34) اور نہیں سکھلائی جاتی یہ (خصلت) مگر انھی لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور نہیں سکھلائی جاتی یہ (خصلت) مگر اسی کو جو بڑا نصیبے والا ہے (35)
#
{34} يقول تعالى: {ولا تَسْتَوي الحسنةُ ولا السيئةُ}؛ أي: لا يستوي فعلُ الحسنات والطاعاتِ لأجل رضا الله تعالى ولا فعل السيئات والمعاصي التي تُسْخِطُه ولا تُرضيه، ولا يستوي الإحسانُ إلى الخلق ولا الإساءة إليهم لا في ذاتها ولا في وصفها ولا في جزائها. {هل جزاءُ الإحسان إلاَّ الإحسانُ}. ثم أمر بإحسان خاصٍّ، له موقعٌ كبيرٌ، وهو الإحسان إلى مَنْ أساء إليك، فقال: {ادفعْ بالتي هي أحسنُ}؛ أي: فإذا أساء إليك مسيءٌ من الخلق، خصوصاً من له حقٌّ كبيرٌ عليك؛ كالأقارب والأصحاب ونحوهم، إساءةً بالقول أو بالفعل؛ فقابِلْه بالإحسان إليه؛ فإنْ قَطَعَكَ؛ فصِلْه، وإنْ ظلمكَ؛ فاعفُ عنه، وإن تكلَّم فيك غائباً أو حاضراً؛ فلا تقابِلْه، بل اعفُ عنه وعامِلْه بالقول الليِّن، وإن هَجَرَكَ وترك خطابك؛ فطيِّبْ له الكلام وابذلْ له السلام؛ فإذا قابلتَ الإساءة بالإحسان؛ حصل فائدةٌ عظيمةٌ. {فإذا الذي بينَك وبينَه عداوةٌ كأنَّه وليٌّ حميمٌ}؛ أي: كأنه قريبٌ شفيقٌ.
[34] ﴿وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ﴾ ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوسکتیں‘‘ یعنی نیکی اور اطاعت کا فعل، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر سرانجام دیا گیا اور بدی اور گناہ کا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہو، کبھی برابر نہیں ہو سکتے، مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور مخلوق کے ساتھ برا سلوک دونوں برابر نہیں ہو سکتے، اپنی ذات میں برابر ہو سکتے ہیں نہ اپنے اوصاف میں اور نہ اپنی جزا میں۔ فرمایا: ﴿هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ﴾ (الرحمن: 55؍60) ’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے احسانِ خاص کا ذکر فرمایا، اس کا بڑا مقام ہے اور وہ ہے اس شخص کے ساتھ احسان کرنا، جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِدْفَ٘عْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ ’’آپ (بدی کا) ایسی بات سے دفاع کیجیے جو اچھی ہو‘‘ یعنی جب کبھی لوگوں میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ برا سلوک کرے، خاص طور پر وہ شخص، جس کا آپ پر بہت بڑا حق ہے، مثلاً: عزیز و اقارب اور دوست احباب وغیرہ۔ یہ برا سلوک قول کے ذریعے سے ہو یا فعل کے ذریعے سے، اس کا مقابلہ ہمیشہ حسن سلوک سے کریں۔ اگر اس نے آپ سے قطع رحمی کی ہے تو آپ اس سے صلہ رحمی کریں، اگر وہ آپ پر ظلم کرے، آپ اس کو معاف کریں اگر وہ آپ کے بارے میں آپ کی موجودگی میں کوئی بات کہے یا غیر موجودگی میں کوئی بات کہے تو آپ اس کا مقابلہ نہ کریں بلکہ اس کو معاف کر دیں اور اس کے ساتھ انتہائی نرمی سے بات کریں۔ اگر وہ آپ سے بول چال چھوڑ دے تو آپ اس سے اچھی طرح بات کریں اور اسے کثرت سے سلام کریں۔ جب آپ اس کی برائی کے بدلے حسن سلوک سے پیش آئیں گے تو آپ کو عظیم فائدہ حاصل ہو گا۔ ﴿فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ﴾ ’’کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔‘‘ یعنی گویا کہ وہ قریبی اور انتہائی مشفق ہے۔
#
{35} {وما يُلَقَّاها}؛ أي: وما يوفَّق لهذه الخصلة الحميدة {إلاَّ الذين} صَبَّرُوا نفوسَهم على ما تكره، وأجبروها على ما يحبُّه الله؛ فإنَّ النفوس مجبولةٌ على مقابلة المسيء بإساءتِهِ، وعدم العفو عنه؛ فكيف بالإحسان؛ فإذا صبَّر الإنسان نفسَه وامتثل أمر ربِّه وعرف جزيلَ الثواب وعلمَ أنَّ مقابلته للمسيء بجنس عمله لا يفيده شيئاً ولا يزيدُ العداوة إلاَّ شدة، وأنَّ إحسانه إليه ليس بواضع قدرَه، بل مَنْ تواضَعَ لله رَفَعَه؛ هان عليه الأمرُ وفعل ذلك متلذِّذاً مستحلياً له. {وما يُلَقَّاها إلاَّ ذو حظٍّ عظيم}: لكونها من خصال خواصِّ الخلق، التي ينال بها العبد الرفعةَ في الدُّنيا والآخرة، التي هي من أكبرِ خصال مكارم الأخلاق.
[35] ﴿وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ ﴾ ’’اور نہیں نصیب ہوتی یہ (صفت)‘‘ یعنی اس خصلت حمیدہ کی توفیق نہیں دی جاتی ہے۔ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ﴾ ’’مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں۔‘‘ جو اپنے نفس کو ان امور کا پابند بناتے ہیں، جنھیں ان کے نفس ناپسند کرتے ہیں اور انھیں ایسے امور پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ نفس انسانی کی جبلت ہے کہ وہ برائی کا مقابلہ برائی اور عدم عفو سے کرتا ہے۔ تب وہ احسان کیوں کر کر سکتا ہے؟ جب انسان اپنے نفس کو صبر کا پابند بنالیتا ہے اور اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے بے پایاں ثواب کو جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرنا اسے کچھ فائدہ نہیں دے گا اور عداوت صرف شدت ہی میں اضافے کا باعث ہو گی اور یہ بھی علم ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اس کی قدرومنزلت کم نہیں ہو گی، بلکہ جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے رفعت عطا کرتا ہے، تب معاملہ اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اس فعل کو سرانجام دیتے ہوئے لذت محسوس کرتا ہے۔ ﴿وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ ’’اور یہ مقام انھی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں۔‘‘ یہ خاص لوگوں کی خصلت ہے جس کے ذریعے سے بندے کو دنیا و آخرت میں رفعت عطا ہوتی ہے اور یہ مکارم اخلاق میں سب سے بڑی خصلت ہے۔
آیت: 36 - 39 #
{وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (36) وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (37) فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ (38) وَمِنْ آيَاتِهِ أَنَّكَ تَرَى الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِي أَحْيَاهَا لَمُحْيِ الْمَوْتَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (39)}.
اور اگر ابھارے آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تو پناہ مانگیے اللہ کی، یقیناً وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (36) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند، نہ سجدہ کرو تم سورج کو اور نہ چاند کو اور سجدہ کرو اللہ کو جس نے پیدا کیا ان (سب) کو، اگر ہو تم صرف اسی کی عبادت کرتے (37) پس اگر وہ تکبر کریں، تو وہ لوگ جو آپ کے رب کے پاس ہیں، وہ تسبیح کرتے ہیں اس کی رات کو اور دن کو اور وہ نہیں تھکتے (38) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ دیکھتے ہیں آپ زمین کو دبی ہوئی(بنجر) پس جب نازل کیا ہم نے اس پر پانی تو وہ لہلہانے لگی اور ابھر آئی(بلند ہو کر) بلاشبہ وہ (اللہ) جس نے زندہ کیا اس(زمین)کو البتہ زندہ کرنے و الا ہے مردوں کو، بے شک وہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(39)
#
{36} لما ذكر تعالى ما يُقَابَلُ به العدوُّ من الإنس، وهو مقابلة إساءته بالإحسان؛ ذكر ما يُدْفَعُ به العدوٌّ الجنيُّ، وهو الاستعاذةُ بالله والاحتماء من شرِّه، فقال: {وإمَّا ينزغَنَّك من الشيطانِ نزعٌ}؛ أي: أي وقت من الأوقات أحسستَ بشيء من نَزَغات الشيطانِ؛ أي: من وساوسه وتزيينه للشرِّ وتكسيله عن الخير وإصابة ببعض الذنوب وإطاعة له ببعض ما يأمر به، {فاستَعِذْ بالله}؛ أي: اسأله مفتقراً إليه أن يعيذَكَ ويعصِمَك منه. {إنَّه هو السميع العليم}: فإنَّه يسمعُ قولك وتضرُّعك، ويعلمُ حالك واضطرارك إلى عصمتِهِ وحمايتِهِ.
[36] اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ انسان کو اپنے دشمن انسان کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے، یعنی اسے اس کی برائی کے مقابلے میں حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اس کے بعد ذکر فرمایا کہ انسان شیطان کو، جو اس کا دشمن ہے، کیسے دور ہٹائے؟ اور وہ اس طرح کہ بندہ شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاِمَّا یَنْ٘زَغَنَّكَ مِنَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ نَزْغٌ ﴾ ’’اگر تمھیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہو۔‘‘ یعنی آپ کسی بھی وقت، شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کریں، یعنی شیطان کا وسوسہ، اس کا شر کو آراستہ کرنا اور خیر کو بدنما بنا کر پیش کرنا، یا اس کے کسی حکم کی اطاعت کا خدشہ محسوس کریں۔ ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ﴾ ’’تو اللہ کی پناہ مانگیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرتے ہوئے اس سے سوال کریں کہ وہ آپ کو پناہ دے اور آپ کو شیطان سے محفوظ رکھے۔ ﴿اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾ کیونکہ وہ آپ کی بات اور عاجزانہ دعا کو سنتا ہے، وہ آپ کے حال کو جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ اس کی حمایت و حفاظت کے ضرورت مند ہیں۔
#
{37} ثم ذكر تعالى أن {من آياتِهِ}: الدالَّة على كمال قدرته ونفوذِ مشيئتِهِ وسعةِ سلطانِهِ ورحمتِهِ بعباده وأنَّه الله وحده لا شريك له، {الليلُ والنهارُ}: هذا بمنفعة ضيائِهِ وتصرُّف العباد فيه، وهذا بمنفعة ظُلَمِهِ وسكون الخلقِ فيه، {والشمسُ والقمرُ}: اللذان لا تستقيم معايِشُ العباد ولا أبدانُهم ولا أبدانُ حيواناتهم إلاَّ بهما، وبهما من المصالح ما لا يُحصى عَدَدُه. {لا تسجُدوا للشمس ولا للقمرِ}: فإنَّهما مدبَّران مسخَّران مخلوقان، {واسجُدوا لله الذي خَلَقَهُنَّ}؛ أي اعبدوه وحدَه؛ لأنَّه الخالق العظيم، ودعوا عبادة ما سواه من المخلوقات، وإن كَبُر جرمه وكثرت مصالحه فإنَّ ذلك ليس منه، وإنَّما هو من خالقه تبارك وتعالى {إن كنتُم إيَّاه تعبُدون}: فخصُّوه بالعبادة وإخلاص الدين له.
[37] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمِنْ اٰیٰتِهِ ﴾ ’’اس کی نشانیوں میں سے‘‘ جو اس کے کمال قدرت، نفوذ مشیت، لامحدود قوت اور بندوں پر بے پایاں رحمت پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿الَّیْلُ وَالنَّهَارُ ﴾ ’’دن اور رات ہیں۔‘‘ دن اپنی روشنی کی منفعت کی بنا پر نشانی ہے کہ لوگ دن کی روشنی میں اپنے کام کاج کے لیے چلتے پھرتے ہیں۔ رات اپنی تاریکی کی منفعت کی بنا پر نشانی ہے کہ مخلوق رات کی تاریکی میں آرام کرتی ہے۔ ﴿وَالشَّ٘مْسُ وَالْ٘قَ٘مَرُ ﴾ ’’اور سورج اور چاندہیں۔‘‘ جن کے بغیر بندوں کی معاش، ان کے ابدان اور ان کے حیوانات کے ابدان درست نہیں رہتے۔ سورج اور چاند کے ساتھ مخلوق کے بے شمار مصالح وابستہ ہیں۔ ﴿لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّ٘مْسِ وَلَا لِلْ٘قَ٘مَرِ ﴾ ’’سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو‘‘ کیونکہ یہ دونوں تو مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں ﴿وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَ٘لَ٘قَ٘هُنَّ ﴾ ’’اور اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی اسی اکیلے کی عبادت کرو کیونکہ وہی خالق عظیم ہے اور اس کے سوا تمام مخلوقات کی عبادت چھوڑ دو خواہ وہ کتنی ہی بڑی اور ان کے فوائد کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ مصالح اور فوائد ان کے خالق کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیں۔ جو نہایت بابرکت اور بلند ہے، ﴿اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ پس اسی کے لیے اپنی عبادت کو خاص کرو اور اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرو۔
#
{38} {فإن استكْبَروا}: عن عبادة الله تعالى، ولم ينقادوا لها؛ فإنَّهم لن يضرُّوا الله شيئاً، والله غنيٌّ عنهم، وله عبادٌ مكرمون، لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يؤمرونَ، ولهذا قال: {فالذين عند ربِّكَ}؛ يعني: الملائكة المقرَّبين، {يسبِّحون له بالليل والنهارِ وهم لا يسأمونَ}؛ أي: لا يملُّون من عبادته؛ لقوَّتهم وشدَّة الداعي القويِّ منهم إلى ذلك.
[38] ﴿فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا ﴾ اگر وہ تکبرو استکبار کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی آیات و براہین کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، اللہ ان سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ مکرم بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ ﴾ ’’پس جو تیرے رب کے پاس ہیں‘‘ یعنی مقرب فرشتے ﴿یُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا یَسْـَٔمُوْنَ﴾ ’’وہ دن رات اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اکتاتے نہیں، کیونکہ وہ نہایت طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کے اندر عبادت کا داعیہ بھی نہایت قوی ہوتا ہے۔
#
{39} {ومن آياتِهِ}: الدالَّة على كمال قدرته وانفراده بالمُلك والتَّدبير والوحدانيَّة، {أنَّك ترى الأرضَ خاشعةً}؛ [أي]: لا نباتَ فيها، {فإذا أنزلْنا عليها الماءَ}؛ أي: المطر، {اهتزَّتْ}؛ أي: تحرَّكت بالنبات، {وَرَبَتْ}: ثم أنبتت من كلِّ زوج بهيج؛ فحيي بها العبادُ والبلادُ. {إنَّ الذي أحياها}: بعد موتها وهمودها {لَمُحيي الموتى}: من قبورهم إلى يوم بعثِهِم ونشورِهِم. {إنَّه على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فكما لم تعجزْ قدرتُه على إحياءِ الأرض بعد موتِها لا تعجزُ عن إحياء الموتى.
[39] ﴿وَمِنْ اٰیٰتِهٖۤ﴾ ’’اور اس کی نشانیوں میں سے‘‘ جو اس کے کمال قدرت اور ملکیت و تدبیر کائنات اور وحدانیت میں متفرد ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ایک نشانی یہ ہے ﴿اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً ﴾ ’’کہ بے شک تو زمین کو دبی ہوئی دیکھتا ہے۔‘‘ یعنی اس کے اندر کوئی نباتات نہیں ہوتی ﴿فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ ﴾ ’’پس جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں۔‘‘ یعنی بارش برساتے ہیں ﴿اهْتَزَّتْ ﴾ ’’تو وہ شاداب ہو جاتی ہے۔‘‘ یعنی نباتات کے ساتھ لہلہا اٹھتی ہے۔ ﴿وَرَبَتْ ﴾ ’’اور ابھرنے لگتی ہے‘‘ یعنی وہ ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگاتی ہے، جس سے تمام بندوں اور زمین کی زندگی ہوتی ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْۤ اَحْیَاهَا ﴾ ’’بے شک جس نے اس (زمین) کو زندہ کیا‘‘ جس نے اس کے مر جانے اور بنجر ہو جانے کے بعد اس کو زندہ کیا ﴿لَمُحْیِ الْمَوْتٰى ﴾ وہ قبروں سے مردوں کو بھی قیامت کے روز زندہ کرے گا۔ ﴿اِنَّهٗ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ جس طرح اس کی قدرت زمین کے مردہ اور بنجر ہو جانے کے بعد اس کو زندہ کرنے سے عاجز نہیں اسی طرح وہ مردوں کو زندہ کرنے میں بھی بے بس نہیں۔
آیت: 40 - 42 #
{إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (40) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (41) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (42)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو کج روی کرتے ہیں ہماری آیتوں میں نہیں وہ مخفی رہتے ہم پر، کیا پس جو شخص ڈالا جائے گا آگ میں، وہ بہتر ہے یا وہ جو آئے گا امن سے دن قیامت کے؟ عمل کرو تم جو چاہو، بے شک وہ (اللہ) ساتھ اس کےجوتم عمل کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے (40) بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ساتھ ذکر (قرآن) کے جب آیا وہ ان کے پاس(تو وہ ہلاک ہوں گے) اور بے شک وہ البتہ ایک کتاب ہے بہت زبردست (41) نہیں آ سکتا اس کےپاس باطل اس کےآگے سے اور نہ اس کےپیچھے سے، وہ نازل کر دہ ہے بڑی حکمت والی قابل تعریف ذات کی طرف سے (42)
#
{40} الإلحادُ في آيات الله: الميلُ بها عن الصواب بأيِّ وجه كان: إمَّا بإنكارها وجحودِها وتكذيبِ مَنْ جاء بها، وإمَّا بتحريفِها وتصريفِها عن معناها الحقيقيِّ وإثباتِ معانٍ ما أرادها الله منها، فتوعَّد تعالى مَنْ ألحد فيها بأنَّه لا يخفى عليه، بل هو مطَّلع على ظاهره وباطنه، وسيجازيه على إلحادِهِ بما كان يعملُ، ولهذا قال: {أفمن يُلْقَى في النار}: مثل الملحدِ بآيات الله {خيرٌ أم من يأتي آمناً يوم القيامةِ}: من عذاب الله، مستحقًّا لثوابه؟ من المعلوم أنَّ هذا خيرٌ. لمَّا تبيَّن الحقُّ من الباطل والطريق المنجي من عذابِهِ من الطريق المهلِكِ؛ قال: {اعملوا ما شِئْتُم}: إن شئتُم؛ فاسلكوا طريق الرُّشدِ الموصلة إلى رضا ربِّكم وجنته، وإن شئتُم؛ فاسْلُكوا طريق الغيِّ المسخطة لربكم الموصلة إلى دار الشقاءِ. {إنَّه بما تعملون بصيرٌ}: يجازيكم بحسب أحوالِكم وأعمالكم؛ كقوله تعالى: {وقُل الحقُّ من ربِّكم فَمَن شاء فليؤمِن ومَن شاء فَلْيَكْفُر}.
[40] اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد سے مراد ہے کہ ان کو کسی بھی لحاظ سے حق و صواب سے ہٹا دینا۔ یا تو ان آیات الٰہی کا انکار کر دینا اور ان آیات کو لانے والے رسول کی تکذیب کرنا، یا ان آیات الٰہی کو ان کے حقیقی معانی سے ہٹا کر، ایسے معانی کا اثبات کرنا جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے الحاد کرنے والوں کو وعید سنائی ہے کہ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، اسے اس کے ظاہر و باطن کی اطلاع ہےاور وہ عنقریب اسے اس کے الحاد کی سزا دے گا۔ بنابریں فرمایا: ﴿اَفَ٘مَنْ یُّ٘لْ٘قٰى فِی النَّارِ ﴾ ’’کیا جو شخص آگ میں ڈالا جائے گا۔‘‘ مثلاً: اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد کرنے والا ﴿خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن و امان سے آئے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ و مامون اور اس کے ثواب کا مستحق ہے؟ اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہی شخص بہتر ہے۔ جب باطل سے حق واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والا راستہ ہلاکت کی گھاٹیوں میں پہنچانے والے راستے سے الگ ہو گیا تو فرمایا: ﴿اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ﴾ ’’تم جو چاہو کرلو۔‘‘ چاہو تو ہدایت کا راستہ اختیار کر لو جو رضائے الٰہی اور جنت کی منزل کو جاتا ہے، اور چاہو تو گمراہی کے راستے کو اختیار کر لو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بدبختی کی منزل پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ ﴿اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’بے شک جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس لیے وہ تمھارے احوال و اعمال کے مطابق جزا دے گا۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿وَقُ٘لِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَ٘مَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْ٘یَكْ٘فُ٘رْ ﴾ (الکہف: 18؍29) ’’کہہ دیجیے: حق تمھارے رب کی طرف سے ہے، جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا رویہ اختیار کرے۔‘‘
#
{41 ـ 42} ثم قال تعالى: {إنَّ الذين كفروا بالذِّكْر}؛ أي: يجحدون القرآن الكريم، المذكِّر للعباد جميع مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة والأخرويَّة، المعلي لِقَدْر من اتَّبعه، {لمَّا جاءهم}: نعمة من ربِّهم على يد أفضل الخلقِ وأكملهم. {و} الحال {إنَّه}: كتابٌ جامعٌ لأوصاف الكمال، {عزيزٌ}؛ أي: منيعٌ مِن كلِّ مَن أراده بتحريف أو سوءٍ، ولهذا قال: {لا يأتيه الباطلُ من بين يديهِ ولا من خلفهِ}؛ أي: لا يَقْرَبُهُ شيطانٌ من شياطين الإنس والجنِّ لا بسرقةٍ ولا بإدخال ما ليس منه به ولا بزيادةٍ ولا نقص؛ فهو محفوظٌ في تنزيله، محفوظةٌ ألفاظهُ ومعانيه، قد تكفَّل مَنْ أنزلَه بحفظِهِ؛ كما قال تعالى: {إنَّا نحنُ نَزَّلْنا الذِّكْر وإنَّا له لحافظونَ}. {تنزيلٌ من حكيم}: في خلقِهِ وأمرِهِ، يضع كلَّ شيء موضِعه وينزلها منازِلَها {حميدٍ}: على ما له من صفات الكمال ونعوت الجلال، وعلى ما له من العدل والإفضال؛ فلهذا كان كتابُهُ مشتملاً على تمام الحكمة وعلى تحصيل المصالح والمنافع ودفع المفاسدِ والمضارِّ التي يُحْمَدُ عليها.
[41، 42] پھرفرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ ﴾ ’’بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے انکار کیا ذکر (قرآن کریم) کا‘‘ یعنی جو لوگ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں، جو بندوں کو ان کے دینی، دنیاوی اور اخروی مصالح کی یاد دہانی کراتا ہے اور جو اس کی اتباع کرے اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ ﴿لَمَّا جَآءَهُمْ ﴾ ’’جبکہ وہ ان کے پاس آیا۔‘‘ یعنی افضل اور کامل ترین ہستی کے ذریعے سے ان کے رب کی طرف سے نعمت کے طور پر آیا۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ حال یہ ہے کہ ﴿اِنَّهٗ لَكِتٰبٌ ﴾ ’’بے شک وہ ایک کتاب ہے‘‘ یہ اوصافِ کمال کی جامع کتاب ہے۔ ﴿عَزِیْزٌ﴾ ’’زبردست‘‘ یعنی ہر قسم کے ارادۂ تحریف اور برائی سے محفوظ و مامون ہے۔اسی لیے فرمایا: ﴿لَّا یَ٘اْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ﴾ ’’اس پر جھوٹ کا دخل آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے۔‘‘ یعنی شیاطین جن و انس میں سے کوئی شیطان، چوری یا دخل اندازی یا کمی بیشی کے ارادے سے اس کے قریب نہیں آسکتا۔ یہ اپنی تنزیل میں محفوظ اور اس کے الفاظ و معانی ہر تحریف سے مامون و مصئون ہیں۔ جس ہستی نے اسے نازل کیا ہے اس نے اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے اور فرمایا: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰؔفِظُوْنَؔ﴾ (الحجر: 15؍9) ’’بے شک ہم نے ’’ذکر‘‘ (یعنی قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ ﴿تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ ﴾ یعنی اس ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے خلق و امر میں حکمت والی ہے۔ جو ہر چیز کو اس کے مناسب حال مقام پر رکھتی ہے۔ ﴿حَمِیْدٍ ﴾ ’’قابل تعریف ہے‘‘ جو اپنی صفات کمال، نعوت جلال اور اپنے عدل و احسان پر قابل تعریف ہے، بنابریں اس کی کتاب تمام ترحکمت، تحصیل مصالح و منافع اور دفع مفاسد کی تکمیل پر مشتمل ہے جن پر وہ ہستی قابل تعریف ہے۔
آیت: 43 #
{مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ (43)}.
نہیں کہا جاتا آپ سے مگر وہی جو تحقیق کہا گیا رسولوں سے آپ سے پہلے، بے شک آپ کا رب بخشش والا اور درد ناک عذاب دینے والا ہے (43)
#
{43} أي: {ما يُقالُ لك}: أيُّها الرسول من الأقوال الصادرةِ ممَّن كذَّبك وعاندك {إلاَّ ما قد قيل للرسل من قبلِكَ}؛ أي: من جنسها، بل ربَّما إنهم تكلَّموا بكلام واحدٍ؛ كتعجبِّ جميع الأمم المكذِّبة للرُّسل من دعوتهم إلى الإخلاص لله وعبادتِهِ وحدَه لا شريك له، وردِّهم هذا بكلِّ طريق يقدرون عليه، وقولهم: ما أنتم إلا بشرٌ مثلنا، واقتراحُهم على رسلهم الآياتِ التي لا يلزمُهُم الإتيانُ بها ... ونحو ذلك من أقوال أهل التكذيب؛ لما تشابهت قلوبهم في الكفر؛ تشابهتْ أقوالهم، وصَبَرَ الرسلُ عليهم السلام على أذاهم وتكذيبِهم؛ فاصْبِرْ كما صبر مَنْ قبلك. ثم دعاهم إلى التوبةِ والإتيانِ بأسباب المغفرة، وحذَّرهم من الاستمرار على الغيِّ، فقال: {إنَّ ربَّك لذو مغفرةٍ}؛ أي: عظيمة يمحو بها كلَّ ذنب لمن أقلع وتاب، {وذو عقابٍ أليم}: لمن أصرَّ واستكبر.
[43] ﴿مَا یُقَالُ لَكَ ﴾ ’’نہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کے بارے میں‘‘ اے رسول! یہ اقوال جو آپ کی تکذیب کرنے والوں اور آپ سے عناد رکھنے والوں کی زبان سے صادر ہو رہے ہیں۔ ﴿اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’مگر وہی جو تم سے پہلے رسولوں سے کہا گیا‘‘ یعنی یہ اقوال ان اقوال کی جنس سے ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہے گئے، بلکہ بسااوقات انھوں نے ایک جیسی بات کہی، مثلاً: انبیاء و مرسلین کی تکذیب کرنے والی امتوں نے اخلاص للہ اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت پر تعجب کا اظہار کیا اور ہر ممکن طریقے سے اس دعوت کو رد کیا۔ وہ بھی کہتے تھے: ﴿مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا﴾ (يٰسٓ:36؍15) ’’تم ہماری ہی طرح بشر ہو۔‘‘ اسی طرح ان کا اپنے رسولوں سے معجزات کا مطالبہ کرنا جن کا دکھانا ان پر لازم نہ تھا اور اسی قسم کے دیگر الفاظ جو اہل تکذیب کی زبان سے صادر ہوئے۔ چونکہ کفر میں ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لیے ان کے اقوال بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین نے کفار کی ایذا رسانی اور ان کی تکذیب پر صبر کیا اس لیے آپ بھی صبر کیجیے جس طرح آپ سے قبل انبیاء و مرسلین نے صبر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو توبہ اور اسباب مغفرت کی طرف آنے کی دعوت دی اور انھیں اپنی گمراہی پر جمے رہنے سے ڈرایا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ ﴾ ’’بے شک آپ کا رب معاف کردینے والا بھی ہے‘‘ یعنی تیرا رب عظیم مغفرت کا مالک ہے جو اس شخص کے ہر گناہ کو مٹا دیتا ہے جو توبہ کر کے گناہ سے رک جاتا ہے۔ ﴿وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’اور دردناک سزا دینے والا بھی ہے۔‘‘ اس شخص کے لیے دردناک عذاب ہے جو تکبر کرتے ہوئے گناہ پر اصرار کرتا ہے۔
آیت: 44 #
{وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (44)}.
اور اگر کرتے ہم اس کو قرآن عجمی زبان کا تو البتہ وہ کہتے، کیوں نہیں کھول کر بیان کی گئیں آیتیں اس کی؟ کیا(کتاب) عجمی اور (رسول) عربی؟ کہہ دیجیے: وہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، ہدایت اور شفا ہے، اور وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے، ان کے کانوں میں ڈاٹ (کارک) ہے اور وہ ان کے حق میں اندھا پن ہے، یہ لوگ (گویا) پکارے جاتے ہیں دور جگہ سے (44)
#
{44} يخبر تعالى عن فضله وكرمه؛ حيث أنزل كتابَه عربيًّا على الرسول العربيِّ بلسانِ قومه ليبيِّن لهم، وهذا مما يوجب لهم زيادةَ الاعتناء به والتلقِّي له والتسليم، وأنَّه لو جعله قرآناً أعجميًّا بلغة غير العرب؛ لاعترض المكذِّبون، وقالوا: {لولا فُصِّلَتْ آياتُه}؛ أي: هلاَّ بُيِّنت آياته ووُضِّحت وفُسِّرت، {أأعجميٌّ وعربيٌّ}؛ أي: كيف يكون محمدٌ عربيًّا والكتابُ أعجميًّا؟! هذا لا يكونُ. فنفى الله تعالى كلَّ أمر يكون فيه شبهةٌ لأهل الباطل عن كتابِهِ، ووصَفَه بكلِّ وصفٍ يوجب لهم الانقيادَ، ولكنِ المؤمنون الموفَّقون انتفعوا به وارتفعوا، وغيرُهم بالعكس من أحوالِهِم، ولهذا قال: {قل هو للذين آمنوا هُدىً وشفاءٌ}؛ أي: يهديهم لطريق الرشدِ والصراط المستقيم، ويعلِّمهم من العلوم النافعة ما به تحصُل الهداية التامَّةُ، وشفاءٌ لهم من الأسقام البدنيَّة والأسقام القلبيَّة؛ لأنَّه يزجر عن مساوئ الأخلاق وأقبح الأعمال، ويحث على التوبة النَّصوح التي تغسل الذُّنوب وتشفي القلب. {والذين لا يؤمنونَ}: بالقرآن {في آذانِهِم وقرٌ}؛ أي: صممٌ عن استماعه وإعراضٌ، {وهو عليهم عمىً}؛ أي: لا يبصرون به رشداً، ولا يهتدون به، ولا يزيدهم إلاَّ ضلالاً؛ فإنَّهم إذا ردُّوا الحقَّ؛ ازدادوا عمىً إلى عماهم وغيًّا إلى غيِّهم. {أولئك ينادَوْن من مكانٍ بعيدٍ}؛ أي: ينادون إلى الإيمان ويُدْعَوْن إليه فلا يستجيبون؛ بمنزلة الذي ينادَى وهو في مكان بعيدٍ، لا يسمع داعياً ولا يجيب منادياً. والمقصودُ أنَّ الذين لا يؤمنون بالقرآن لا ينتفعون بهُداه ولا يبصِرون بنورِهِ ولا يستفيدونَ منه خيراً؛ لأنَّهم سدُّوا على أنفسهم أبواب الهدى بإعراضهم وكفرِهم.
[44] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل وکرم کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اپنی کتاب رسول عربی e پر آپ کی قوم کی زبان، عربی میں نازل کی تاکہ اس سے ان پر راہ ہدایت واضح ہو جائے۔ اس کتاب کریم کا یہ وصف زیادہ اعتنا کا موجب ہے اور اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ سر تسلیم خم کر کے اسے قبول کیا جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عظیم کو کسی عجمی زبان میں بھیجا ہوتا تو اس کی تکذیب کرنے والے کہتے۔ ﴿لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ﴾ اس کی آیات کو واضح کیوں نہ کیا گیا، اس کی تفسیر کیوں نہ بیان کی گئی ﴿ءَؔاَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ ﴾ ’’یہ کیا بات ہے کہ کتاب عجمی زبان میں اور مخاطب عربی‘‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمد e عربی ہیں اور کتاب عجمی ہو؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے اپنی کتاب سے ہر امر کی نفی کر دی جس میں اہل باطل کے لیے کوئی شبہ ہو سکتا ہے اور اسے ایسے اوصاف سے موصوف فرمایا جو ان پر اطاعت کو واجب ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق سے نوازا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بلنددرجے پاتے ہیں اور دیگر لوگوں کے احوال اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ بنابریں فرمایا: ﴿قُ٘لْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَآءٌ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ جو ایمان لاتے ہیں، ان کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے۔‘‘ یعنی یہ کتاب انھیں رشد و ہدایت اور راہ راست دکھاتی ہے اور انھیں علوم نافعہ کی تعلیم دیتی ہے جس سے ہدایت کامل حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب عظیم میں ان کے جسمانی اور روحانی امراض کی شفا ہے۔ کیونکہ کتاب، برے اخلاق اور برے اعمال پر ان کی زجروتوبیخ کرتی ہے اور انھیں ایسی خالص توبہ پر آمادہ کرتی ہے جو گناہوں کو دھو کر قلوب کو شفا بخشتی ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’وہ لوگ جو (قرآن پر) ایمان نہیں لاتے‘‘ ﴿فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْ٘رٌ ﴾ ’’ان کے کانوں میں بوجھ ہے۔‘‘ یعنی وہ اس کو سننے سے محروم اور اس سے روگردانی کا شکار ہیں۔ ﴿وَّهُوَ عَلَیْهِمْ عَمًى ﴾ ’’یہ ان کے حق میں اندھا پن ہے۔‘‘ جس کی وجہ سے انھیں رشدوہدایت نظر آتی ہے نہ راہ راست ملتی ہے۔ یہ کتاب ان کی گمراہی میں اضافہ کرتی ہے۔ کیونکہ جب یہ لوگ حق کو ٹھکرا دیتے ہیں تو ان کے اندھے پن میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان پر ایک اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۭؔ بَعِیْدٍ ﴾ ’’یہ وہ ہیں جنھیں دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔‘‘ یعنی جنھیں ایمان کے لیے پکارا اور اس کی طرف بلایا جا رہا ہو اور یہ جواب نہ دے سکتے ہوں۔ ایسے لوگ اس شخص کی مانند ہیں جسے بہت دور سے پکارا جا رہا ہو، جسے پکارنے والے کی آواز سنائی دیتی ہو نہ وہ جواب دے سکتا ہو۔ مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے، اس کی راہنمائی اور اس کی روشنی سے مستفید ہو سکتے ہیں نہ انھیں اس عظیم کتاب سے کوئی بھلائی حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے اعراض اور کفر کے سبب سے خود اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر لیے ہیں۔
آیت: 45 - 46 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (45) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (46)}.
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کوکتاب، پس اختلاف کیا گیا اس میں، اور اگر نہ ہوتی ایک بات، جو پہلے سے (طے) ہو چکی تھی آپ کے رب کی طرف سے، تو البتہ فیصلہ کر دیا جاتا درمیان ان کے، اور بے شک وہ البتہ شک میں ہیں اس کی طرف سے، جو اضطراب میں ڈالنے والا ہے (45) جس نے عمل کیا نیک، تو اس کےاپنے ہی لیے ہے اور جس نے برا کیا تو اسی پر ہے وبال(اس کا) اور نہیں ہے آپ کا رب ظلم کرنے والا بندوں پر (46)
#
{45} يقول تعالى: {ولقد آتَيْنا موسى الكتابَ}: كما آتَيْناك الكتابَ، فصنع به الناسُ ما صنعوا معك؛ اختلفوا فيه: فمنهم من آمنَ به واهتدى وانتفع، ومنهم من كذَّبه ولم ينتفِعْ به، وإنَّ الله تعالى لولا حِلْمُهُ وكلمتُهُ السابقة بتأخير العذاب إلى أجل مسمّى لا يتقدَّم عليه ولا يتأخر؛ {لَقُضِيَ بينهم}: بمجرَّد ما يتميَّز المؤمنون من الكافرين؛ بإهلاك الكافرين بالحال؛ لأنَّ سبب الهلاك قد وَجَبَ وحقَّ. {وإنَّهم لَفي شكٍّ منه مريبٍ}؛ أي: قد بلغ بهم إلى الريبِ الذي يُقْلِقُهم؛ فلذلك كذَّبوه وجحدوه.
[45] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ(u) کو بھی کتاب عطا کی تھی‘‘ جس طرح آپ(e) کو کتاب عطا کی ہے۔ لوگوں نے حضرت موسیٰu کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو آپ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پس لوگوں نے اس کتاب کے بارے میں اختلاف کیا۔ ان میں سے کچھ لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، انھوں نے اس سے راہنمائی حاصل کی اور اس سے مستفید ہوئے اور کچھ لوگوں نے اس کتاب کی تکذیب کی اور اس سے مستفید نہ ہو سکے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم اور سابقہ فیصلے کی بنا پر ان پر عذاب کو ایک مدت مقررہ تک مؤخر نہ کرتا، جس سے یہ عذاب آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ ﴿لَ٘قُ٘ضِیَ بَیْنَهُمْ ﴾ ’’تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا‘‘ جس سے اہل ایمان اور کفار کے درمیان فرق واضح ہو جاتا اور کافروں کو اسی حال میں ہلاک کر دیا جاتا کیونکہ ان کی ہلاکت کا سبب پورا ہو چکا تھا۔ ﴿وَاِنَّهُمْ لَ٘فِیْ شَكٍّ مِّؔنْهُ مُرِیْبٍ ﴾ ’’اور یہ اس (قرآن) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔‘‘ شک نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں وہ متزلزل ہو گئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس کی تکذیب کی۔
#
{46} {مَن عَمِلَ صالحاً}: وهو العملُ الذي أمر الله به ورسوله {فَلِنَفْسِهِ}: نفعه وثوابه في الدنيا والآخرة. {ومن أساء فعليها}: ضررُه وعقابُه في الدُّنيا والآخرة، وفي هذا حثٌّ على فعل الخير وترك الشرِّ، وانتفاعُ العاملين بأعمالهم الحسنةِ، وضررُهم بأعمالهم السيئةِ، وأنَّه لا تزِرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى. {وما ربُّك بظلام للعبيدِ}: فيحمِّلُ أحداً فوق سيئاتِهِ.
[46] ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا ﴾ ’’جس نے نیک کام کیے۔‘‘ عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہو۔ ﴿فَلِنَفْسِهٖ﴾ دنیا و آخرت میں اس کا ثواب اور فائدہ اسی کے لیے ہے ﴿وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا ﴾ ’’جس نے برے کام کیے ان کا ضرر اسی کو ہوگا۔‘‘ دنیا و آخرت میں اس کا نقصان اور عذاب بھی وہی بھگتے گا۔ اس آیت کریمہ میں فعل خیر اور ترک شر کی ترغیب دی گئی ہے نیز اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اصحاب اعمال اپنے نیک اعمال سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور برے اعمال سے ان کو ضرر پہنچتا ہے۔ نیز یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ ’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا کہ ان پر ان کی برائیوں سے بڑھ کر عذاب مسلط کر دے۔
آیت: 47 - 48 #
{إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِنْ شَهِيدٍ (47) وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَدْعُونَ مِنْ قَبْلُ وَظَنُّوا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ (48)}.
اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے علم قیامت (کے آنے)کا اور نہیں نکلتا کوئی پھل اپنے غلافوں سے اور نہیں حمل سے ہوتی کوئی مادہ اور نہ (کوئی بچہ) جنتی ہے مگر اس کے علم ہی سے اور جس دن پکارے گا وہ ان کو، کہا ں ہیں میرے شریک؟ وہ کہیں گے: ہم نے بتلا دیا تجھ کو، نہیں ہے ہم میں سے کوئی گواہ (اس بات کا) (47)اور گم ہو جائیں گے ان سے وہ جن کو تھے وہ پکارتے اس سے پہلے اور وہ گمان کریں گے کہ نہیں ہے ان کے لیے کوئی بھاگنے کی جگہ (48)
#
{47 ـ 48} هذا إخبارٌ عن سعة علمهِ تعالى واختصاصِهِ بالعلم الذي لا يطَّلع عليه سواه، فقال: {إليه يُرَدُّ علمُ الساعةِ}؛ أي: جميع الخلق يَرُدُّ علمها إلى الله تعالى، ويقرُّون بالعجز عنه؛ الرسلُ والملائكةُ وغيرُهم. {وما تَخْرُجُ من ثمراتٍ من أكمامها}؛ أي: وعائها الذي تخرُجُ منه، وهذا شاملٌ لثمرات جميع الأشجار التي في البلدان والبراري؛ فلا تخرُجُ ثمرةُ شجرةٍ من الأشجار إلاَّ وهو يعلمُها علماً تفصيليًّا. {وما تحمِلُ من أنثى}: من بني آدم وغيرهم من أنواع الحيوانات إلاَّ بعلمه، {ولا تضعُ} [أنثى حملَها] {إلاَّ بعلمِهِ}؛ فكيف سوَّى المشركون به تعالى مَنْ لا علم عنده ولا سمعَ ولا بصرَ؟ {ويوم يناديهم}؛ أي: المشركين به يوم القيامةِ توبيخاً وإظهاراً لكذِبِهم، فيقول لهم: {أين شركائي}: الذين زعمتُم أنَّهم شركائي، فعبدتُموهم وجادلتُم على ذلك وعاديتُم الرسل لأجلهم ؟ {قالوا}: مقرِّين ببطلان إلهيتهم وشركتهم مع الله: {آذَنَّاكَ ما مِنَّا من شهيدٍ}؛ أي: أعلمناك يا ربَّنا واشهدْ علينا أنَّه ما منَّا أحدٌ يشهد بصحة إلهيَّتهم وشركتهم؛ فكلُّنا الآن [قد] رجعنا إلى بطلان عبادتها وتبرَّأنا منها، ولهذا قال: {وضلَّ عنهم ما كانوا يَدْعونَ}: من دون الله؛ أي: ذهبت عقائدُهم وأعمالُهم التي أفَنَوا فيها أعمارهم على عبادة غير الله، وظنُّوا أنها تفيدُهم، وتدفعُ عنهم العذاب، وتشفع لهم عند اللهِ، فخاب سعيُهم، وانتقض ظنُّهم، ولم تُغْنِ عنهم شركاؤهم شيئاً. {وظنُّوا}؛ أي: أيقنوا في تلك الحال {ما لهم من مَحيصٍ}؛ أي: منقذٍ ينقذُهم ولا مغيثٍ ولا ملجأٍ. فهذه عاقبةُ من أشركَ بالله غيرَه، يُبَيِّنُها اللهُ لعباده، ليحذروا الشركَ به.
[47، 48] یہ اللہ تعالیٰ کے وسیع علم کا ذکر ہے۔ نیز یہ ان امور کا ذکر ہے جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے، جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، چنانچہ فرمایا: ﴿اِلَیْهِ یُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ ’’قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔‘‘ یعنی تمام مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔ تمام انبیاء و مرسلین اور فرشتے وغیرھم اس بارے میں اپنے عجز اور بے بسی کا اقرار کرتے ہیں۔ ﴿وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِهَا ﴾ ’’اور نہ تو پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں۔ یہ تمام درختوں کے پھل کو شامل ہے جو شہروں میں یا جنگلوں میں اگتے ہیں۔ کسی درخت پر جو پھل بھی لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تفصیلی طور پر جانتا ہے۔ ﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى ﴾ ’’اور نہیں حاملہ ہوتی کوئی مادہ۔‘‘ بنی آدم اور تمام حیوانات میں سے حاملہ جو حمل اٹھاتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ ﴿وَلَا تَ٘ضَعُ ﴾ ’’اور نہ كوئی حاملہ بچہ جنم دیتی ہے ﴿ اِلَّا بِعِلْمِهٖ﴾ مگر اس کے علم سے۔‘‘ مشرکین نے ان ہستیوں کو کیسے اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہرا دیا جو سن سکتی ہیں نہ دیکھ سکتی ہیں۔ ﴿وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ ﴾ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین کو، زجروتوبیخ کے طور پر اور ان کے جھوٹ کو ظاہر کرتے ہوئے پکارے گا اور فرمائے گا: ﴿اَیْنَ شُ٘رَؔكَآءِیْ ﴾ ’’میرے شریک کہاں ہیں۔‘‘ جن کو تم میرا شریک سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرتے تھے اس کی بنا پر تم جھگڑتے اور رسولوں سے عداوت رکھتے تھے۔ ﴿قَالُوْۤا ﴾ وہ اپنے خودساختہ معبودوں کی الوہیت اور ان کی شرکت کے بطلان کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿اٰذَنّٰكَ١ۙ مَا مِنَّا مِنْ شَهِیْدٍ﴾ ’’ہم آپ سے کہہ چکے کہ (آج) ہم میں سے کوئی (ایسی) گواہی دینے والا نہیں۔‘‘ یعنی اے ہمارے رب ہم تیرے سامنے اقرار کرتے ہیں، تو گواہ رہنا کہ ہم میں سے کوئی بھی ان معبودان باطل کی الوہیت اور شرکت کی گواہی نہیں دیتا۔ اب ہم سب ان کی عبادت کے بطلان کا اقرار اور ان سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَدْعُوْنَ ﴾ ’’اور گم ہوجائیں گے ان سے وہ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یعنی ان کے وہ تمام عقائد اور اعمال اکارت جائیں گے جن کے اندر انھوں نے غیراللہ کی عبادت کرتے ہوئے عمریں گزاریں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے یہ خودساختہ معبود انھیں کوئی فائدہ دیں گے، ان سے عذاب دور کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے۔ ان کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی، ان کا گمان جھوٹا ثابت ہوگا اور ان کے خودساختہ شرکاء ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ ﴿وَظَنُّوْا ﴾ اور اس حال میں انھیں یقین آ جائے گا ﴿مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ﴾ کہ کوئی ان کو بچانے والا ہے نہ کوئی مدد کو پہنچنے والا اور نہ ان کو کوئی جائے پناہ ہی ملے گی۔ یہ ہے اس شخص کا انجام جس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ شرک سے بچیں۔
آیت: 49 - 51 #
{لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ (49) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِنْدَهُ لَلْحُسْنَى فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ (50) وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ (51)}.
نہیں تھکتا انسان بھلائی مانگنے سے اور اگر پہنچے اسے تکلیف، تو وہ انتہائی مایوس سخت ناامید ہو جاتا ہے (49) اور البتہ اگر چکھائیں ہم اسے رحمت اپنی طرف سے بعد اس تکلیف کے جو پہنچی اسے تو وہ یقیناً کہتا ہے: یہ تو میرے لیے ہے اور نہیں گمان کرتا میں قیامت کو قائم ہونے والی اور البتہ اگر میں لوٹایا گیا اپنے رب کی طرف تو بلاشبہ میرے لیے اس کےپاس البتہ بھلائی ہی ہو گی، پس البتہ ہم ضرور بتلائیں گے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ساتھ اس کےجو انھوں نے عمل کیے اور البتہ ہم ضرورچکھائیں گے ان کو عذاب سخت (50) اور جب احسان کرتے ہیں ہم انسان پر تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور دور ہو جاتا ہے اپنے پہلو کے ساتھ اور جب پہنچتی ہے اسے تکلیف تو دعائیں کرنے والا ہو جاتا ہے لمبی چوڑی (51)
#
{49} هذا إخبارٌ عن طبيعة الإنسان من حيثُ هو، وعدم صبرِه وجَلَدِه، لا على الخير ولا على الشرِّ، إلاَّ مَن نقله الله من هذه الحال إلى حال الكمال، فقال: {لا يسأمُ الإنسانُ من دعاءِ الخيرِ}؛ أي: لا يملُّ دائماً من دعاء الله في الغنى والمال والولدِ وغير ذلك من مطالب الدُّنيا، ولا يزال يعملُ على ذلك، ولا يقتنعُ بقليل ولا بكثيرٍ منها؛ فلو حصل له من الدُّنيا ما حصل؛ لم يزل طالباً للزيادة. {وإن مَسَّهُ الشرُّ}؛ أي: المكروه كالمرض والفقر وأنواع البلايا، {فَيؤوسٌ قنوطٌ}؛ أي: ييأس من رحمة الله تعالى، ويظنُّ أن هذا البلاء هو القاضي عليه بالهلاكِ، ويتشوَّشُ من إتيان الأسبابِ على غير ما يحبُّ ويطلبُ؛ إلاَّ الذين آمنوا وعملوا الصالحات؛ فإنَّهم إذا أصابهم الخيرُ والنعمةُ والمحابُّ؛ شكروا الله تعالى، وخافوا أن تكونَ نعمُ الله عليهم استدراجاً وإمهالاً، وإن أصابتْهم مصيبةٌ في أنفسهم وأموالهم وأولادِهم؛ صبروا ورَجَوا فضل ربِّهم فلم ييأسوا.
[49] اس آیت کریمہ میں انسان کی فطرت و طبیعت کا بیان ہے کہ وہ خیر پر صبر کر سکتا ہے نہ شر پر۔ سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے نکال کر حالت کمال میں منتقل کر دے۔ فرمایا: ﴿لَا یَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ ﴾ یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے، اپنی فوزوفلاح، مال، اولاد اور دیگر دنیاوی مطالب و مقاصد کے لیے دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں اکتاتا اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہتا ہے وہ قلیل یا کثیر کسی چیز پر قناعت نہیں کرتا، اگر اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے تب بھی وہ مزید دنیا طلب کرتا رہے گا۔ ﴿وَاِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ’’اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے۔‘‘ یعنی بیماری ،فقر اور مختلف مصائب وغیرہ اسے لاحق ہوں۔ ﴿فَیَـُٔوْسٌ قَنُوْطٌ ﴾ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت اسے ہلاک کر ڈالے گی اور ایسے اسباب اختیار کرنے کی فکر کرتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اس رویے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ان لوگوں کو اگر بھلائی، نعمت اور کوئی محبوب چیز عطا ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس چیز سے بھی ڈرتے ہیں کہ یہ نعمتیں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج اور مہلت نہ ہوں۔ اگر انھیں اپنی جان، مال اور اولاد میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو صبر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔
#
{50} ثم قال تعالى: {ولئِنْ أذَقْناه}؛ أي: الإنسان الذي لا يسأم من دُعاء الخير وإن مسَّه الشرُّ فيؤوسٌ قنوطٌ {رحمةً منَّا}؛ أي: بعد ذلك الشرِّ الذي أصابه؛ بأنْ عافاه الله من مرضِهِ أو أغناه من فقرِهِ؛ فإنَّه لا يشكر الله تعالى؛ بل يبغي ويطغى ويقول: {هذا لي}؛ أي: أتاني لأنِّي له أهلٌ وأنا مستحقٌّ له، {وما أظنُّ الساعةَ قائمةً}، وهذا إنكارٌ منه للبعث، وكفرٌ للنعمة والرحمة التي أذاقها الله له، {ولئن رُجِعْتُ إلى ربِّي إنَّ لي عنده للحُسْنى}؛ أي: على تقدير إتيان الساعة، وأنِّي سأرجع إلى ربي؛ إنَّ لي عنده للحسنى؛ فكما حصلت لي النعمة في الدُّنيا؛ فإنَّها ستحصُلُ لي في الآخرة! وهذا من أعظم الجرأة والقول على الله بلا علم؛ فلهذا توعَّده [اللَّهُ] بقولِهِ: {فَلَنُنَبِّئَنَّ الذين كفروا بما عَمِلوا ولَنُذيقَنَّهم من عذابٍ غليظٍ}؛ أي: شديد جدًّا.
[50] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ ﴾ ’’اور اگر ہم اسے چکھاتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ شخص جو بھلائی کی دعا سے اکتاتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ ﴿رَحْمَةً مِّؔنَّا ﴾ ’’اپنی طرف سے رحمت۔‘‘ یعنی اس برائی کے بعد جو اسے پہنچتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اسے مرض سے شفا دیتا ہے یا اس کا فقر دور کر کے غنی بنا دیتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ وہ بغاوت اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے: ﴿هٰؔذَا لِیْ ﴾ یعنی یہ مجھے عطا ہوا ہے کیونکہ میں اس کا اہل اور مستحق ہوں۔ ﴿وَمَاۤ اَ٘ظُ٘نُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً ﴾ ’’اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت برپا ہوگی‘‘ یہ اس کی طرف سے انکار قیامت ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور رحمت کی ناسپاسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ ﴿وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّیْۤ اِنَّ لِیْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰى ﴾ فرض کیا اگر قیامت کی گھڑی آہی جائے اور مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے تو میرے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بھلائی ہے۔ جس طرح دنیا میں مجھے نعمتوں سے نوازا گیا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی مجھے نعمتوں سے بہرہ مند کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے بڑی جسارت اور بلاعلم قول ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿فَلَنُنَبِّئَنَّ۠ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا١ٞ وَلَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ ﴾ ’’پس کافر جو عمل کرتے ہیں، وہ ہم انھیں ضرور بتائیں گے اور انھیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘ یعنی نہایت سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
#
{51} {وإذا أنْعَمْنا على الإنسان}: بصحَّة أو رزقٍ أو غيرهما {أعرضَ}: عن ربِّه وعن شكرِهِ، {ونأى}؛ أي: ترفَّع {بجانبِهِ}: عجباً وتكبراً، {وإن مسَّه الشرُّ}: أي: المرضُ أو الفقرُ أو غيرُهما {فذو دعاءٍ عريضٍ}؛ أي: كثير جدًّا؛ لعدم صبره؛ فلا صبر في الضرَّاء ولا شكر في الرَّخاء؛ إلاَّ مَنْ هداه الله ومنَّ عليه.
[51] ﴿وَاِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ ﴾ یعنی جب ہم انسان کو صحت اور رزق وغیرہ کی نعمت سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ ﴿اَعْرَضَ ﴾ تو وہ اپنے رب اور اس کی شکر گزاری سے روگردانی کرتا ہے۔ ﴿وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ﴾ اور تکبر اور خود پسندی کی بنا پر کنارہ کش ہوجاتا ہے۔ ﴿وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ’’اور اگر اسے برائی پہنچتی ہے۔‘‘ یعنی اگر مرض اور فقر اسے آ لیتا ہے۔ ﴿فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ﴾ تو عدم صبر کی بنا پر بہت دعائیں کرتا ہے، پس کوئی بھی تنگی میں صبر کرتا ہے نہ فراخی میں شکر۔ سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا ہو۔
آیت: 52 - 54 #
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (52) سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (53) أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (54)}.
کہہ دیجیے: بھلا دیکھو تو! اگر ہو وہ (قرآن) اللہ کی طرف سے، پھر انکار کرو تم اس کا، تو کون زیادہ گمراہ ہے اس شخص سے کہ ہے وہ مخالفت میں دور کی (52) عنقریب دکھائیں گے ہم ان کو اپنی نشانیاں کناروں میں اور ان کے نفسوں میں، یہاں تک کہ واضح ہو جائے گا ان کے لیے کہ بے شک وہ (قرآن)حق ہے، کیا کافی نہیں ہے آپ کا رب (اس بات پر) کہ بے شک وہ اوپر ہر چیز کے گواہ ہے (53) خبردار! بے شک وہ لوگ شک میں ہیں اپنے رب کی ملاقات سے، خبردار! بے شک وہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے (54)
#
{52} أي: {قل}: لهؤلاء المكذِّبين بالقرآن المسارعين إلى الكُفران: {أرأيتُم إن كانَ}: هذا القرآنُ {من عندِ الله}: من غير شكٍّ ولا ارتيابٍ، {ثم كفرتُم به مَنْ أضلُّ ممَّنْ هو في شقاقٍ بعيدٍ}؛ أي: معاندة لله ولرسوله؛ لأنَّه تبيَّن لكم الحقُّ والصوابُ، ثم عدلتُم عنه لا إلى حقٍّ، بل إلى باطل وجهل؛ فإذاً تكونون أضلَّ الناس وأظلَمَهم.
[52] ﴿قُ٘لْ ﴾ قرآن کی تکذیب اور کفران نعمت میں جلدی کرنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ ﴾ ’’مجھے بتایئے اگر یہ ہو‘‘ یعنی یہ قرآن ﴿مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ ﴿ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهٖ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِیْ شِقَاقٍۭؔ بَعِیْدٍ ﴾ ’’ پھر تم اس سے انکار کرو تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہےجو اس (قرآن) کی مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (e) کی مخالفت اورعناد میں، کیونکہ حق تم پر واضح ہو چکا ہے اس کے باوجود تم نے اس سے منہ موڑا۔ تم نے حق کو نہیں بلکہ باطل اور جہالت کو اختیار کیا ہے۔ تب تم لوگوں میں سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے بڑھ کر ظالم ہو۔
#
{53} فإنْ قلتُم أو شككتُم بصحَّته وحقيقتِهِ؛ فسيقيم الله لكم، ويريكم من آياتِهِ في الآفاق؛ كالآياتِ التي في السماء وفي الأرض وما يُحْدِثُه الله تعالى من الحوادثِ العظيمة الدالَّة للمستبصر على الحقِّ. {وفي أنفسِهِم}: مما اشتملتْ عليه أبدانُهم من بديع آياتِ الله وعجائبِ صنعتِهِ وباهر قدرتِهِ، وفي حلول العقوبات والمَثُلات في المكذِّبين ونصر المؤمنين، {حتى يتبيَّن لهم}: من تلك الآياتِ بياناً لا يقبل الشكَّ، {أنَّه الحقُّ}: وما اشتمل عليه حقٌّ، وقد فعل تعالى؛ فإنَّه أرى عباده من الآيات ما به تبيَّن [لهم] أنه الحقُّ، ولكن الله هو الموفِّق للإيمان مَنْ شاء، والخاذل لمن يشاء. {أو لم يكفِ بربِّك أنَّه على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}؛ أي: أولم يكفِهم ـ على أنَّ القرآن حقٌّ، ومن جاء به صادقٌ ـ شهادةُ الله تعالى؛ فإنَّه قد شهد له بالصدق، وهو أصدقُ الشاهدين، وأيَّده ونصره نصراً متضمِّناً لشهادته القوليَّة عند من شكَّ فيها.
[53] اگر تمھیں اس کی حقیقت اور صحت میں کوئی شک ہے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا اور دلائل قائم کرے گا، مثلاً: آسمان اور زمین کی نشانیاں اور ایسے بڑے بڑے حوادث دکھائے گا جنھیں اللہ تعالیٰ وجود میں لاتا ہے جو صاحب بصیرت کے لیے حق پر دلالت کرتے ہیں۔ ﴿وَفِیْۤ اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’اور خود ان کے نفسوں میں بھی۔‘‘ ایسی نشانیاں ہیں جو اس کی تعجب خیز کاریگری اور اس کی لامحدود قدرت میں سے ہیں، نیز اہل تکذیب پر عذاب اور عبرتناک سزاؤ ں کے نزول اور اہل ایمان کی نصرت میں ان کے لیے دلائل ہیں۔ ﴿حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ ﴾ ’’حتی کہ ان پر واضح ہوجائے گا۔‘‘ ان آیات سے جن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ ﴿اَنَّهُ الْحَقُّ ﴾ ’’بلاشبہ وہ حق ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، جس سے حق واضح ہو جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ایمان کی توفیق سے نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے حال پر چھوڑ کر اس سے الگ ہو جاتا ہے۔ ﴿اَوَلَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ﴾ ’’کیا یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا رب ہر شے پر گواہ ہے۔‘‘ یعنی کیا ان کے لیے اس حقیقت پر اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی نہیں کہ قرآن حق ہے اور اس کو پیش کرنے والی ہستی سچی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی صداقت کی گواہی دی ہے اور وہ سب سے سچا گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی کی تائید فرمائی اور نصرت سے نوازا جو اس شخص کے لیے شہادت قولی کو متضمن ہے، جو اس میں شک کرتا ہے۔
#
{54} {ألا إنِّهم في مِرْيَةٍ من لقاءِ ربِّهم}؛ أي: في شكٍّ من البعث والقيامةِ، وليس عندَهم دارٌ سوى الدار الدُّنيا؛ فلذلك لم يعملوا للآخرة، ولم يلتفتوا لها. {ألا إنَّه بكلِّ شيءٍ محيطٌ}: علماً وقدرةً وعزةً.
[54] ﴿اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’آگاہ رہو! یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات سے شک میں ہیں۔‘‘ یعنی وہ حیات بعدالموت اور قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں، ان کے نزدیک دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں، اس لیے وہ آخرت کے لیے کوئی کام کرتے ہیں نہ آخرت کی طرف التفات کرتے ہیں۔ ﴿اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ مُّؔحِیْطٌ ﴾ آگاہ رہو! بے شک اس نے اپنے علم، قدرت اور غلبہ سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔