(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{حم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (3) وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ (4) أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ (5)}.
حٰمٓ
(1) قسم ہے کتاب واضح کی
(2) بے شک کیا ہم نے اس کو قرآن عربی زبان میں، تاکہ تم سمجھو
(3) اور بلاشبہ وہ اصل کتاب میں ہمارے پاس یقیناً بہت بلند
(درجے والا) نہایت حکمت والا ہے
(4) کیا پس روک لیں گے ہم تم سے ذکر
(نصیحت) کو، اعراض کرتے ہوئے، اس لیے کہ ہو تم لوگ حد سے گزر جانے والے
(5)
#
{1 ـ 3} هذا قسمٌ بالقرآن على القرآن، فأقسم بالكتاب المبين، وأطلق، ولم يذكُرِ المتعلَّق؛ ليدلَّ على أنه مبينٌ لكل ما يحتاج إليه العباد من أمور الدُّنيا والدِّين والآخرة. {إنَّا جَعَلْناه قرآناً عربيًّا}: هذا المقسَم عليه أنَّه جُعِلَ بأفصح اللغاتِ وأوضحِها وأبينها، وهذا من بيانه. وذكر الحكمةَ في ذلك، فقال: {لعلَّكم تعقلونَ}؛ ألفاظَه ومعانيَه لتيسُّرها وقربها من الأذهان.
[3-1] یہ قرآن عظیم کی قرآن پر قسم ہے، اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی علی الاطلاق قسم کھائی اور متعلق کو ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس حقیقت پر دلالت کرے کہ یہ دین، دنیا اور آخرت کی ہر اس چیز کو بیان کر کے واضح کرتی ہے جس کی بندوں کو حاجت ہے۔
﴿اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُ٘رْءٰنًا عَرَبِیًّا ﴾ ’’ہم نے اس کو قرآن عربی بنایا ہے۔‘‘ یہ ہے وہ چیز جس پر قسم کھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سب سے فصیح،
سب سے واضح اور سب سے زیادہ زور بیان والی زبان میں نازل فرمایا اور یہ اس کا بیان ہے اور اس میں پنہاں حکمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ شاید کہ تم اس کے الفاظ و معانی کو، ان کے آسان اور اذہان کے قریب ہونے کی بنا پر سمجھ سکو۔
#
{4} {وإنَّه}؛ أي: هذا الكتاب {لدينا} في الملأ الأعلى في أعلى الرُّتب وأفضلها {لَعَلِيٌّ حكيمٌ}؛ أي: لعليٌّ في قدره وشرفه ومحله، حكيم فيما يشتمل عليه من الأوامر والنواهي والأخبار؛ فليس فيه حكمٌ مخالفٌ للحكمة والعدل والميزان.
[4] ﴿وَاِنَّهٗ﴾ یعنی یہ کتاب
﴿فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا ﴾ ’’
(لوح محفوظ) میں ہمارے پاس ہے۔‘‘ یعنی ملأاعلیٰ میں بلند ترین اور افضل ترین مرتبے میں ہے۔
﴿لَ٘عَلِیٌّ حَكِیْمٌ﴾ یعنی وہ بہت زیادہ قدروشرف اور بلند مقام کی حامل ہے۔ یہ کتاب جن اوامرونواہی اور اخبار پر مشتمل ہے، ان میں حکمت رکھی گئی ہے۔ اس میں کوئی حکم ایسا نہیں جو حکمت، عدل اور میزان کے خلاف ہو۔
#
{5} ثم أخبر تعالى أنَّ حكمته وفضلَه يقتضي أنْ لا يتركَ عباده هملاً لا يرسل إليهم رسولاً ولا ينزل عليهم كتاباً ولو كانوا مسرفين ظالمين، فقال: {أفنضرِبُ عنكم الذِّكْرَ صفحاً}؛ أي: أفنعرض عنكم ونترك إنزال الذِّكر إليكم ونضرب عنكم صفحاً لأجل إعراضِكم وعدم انقيادِكم [له]، بل ننزل عليكم الكتابَ، ونوضِّح لكم فيه كلَّ شيءٍ؛ فإنْ آمنتُم به واهتديتُم؛ فهو من توفيقِكم، وإلاَّ؛ قامت عليكم الحجَّة، وكنتُم على بيِّنة من أمركم.
[5] پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی حکمت اور اس کا فضل تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو مہمل اور آزاد نہ چھوڑے، ان کی طرف رسول بھیجے اور ان پر کتاب نازل کرے، خواہ وہ حد سے گزرنے والے ظالم ہی کیوں نہ ہوں ،
چنانچہ فرمایا: ﴿اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا ﴾ یعنی کیا ہم تم لوگوں سے تمھارے اعراض اور عدم اطاعت کی بنا پر منہ موڑ کر تمھاری طرف نصیحت نازل کرنا چھوڑ دیں؟ نہیں، بلکہ ہم تم پر کتاب نازل کریں گے جس میں تمھارے لیے ہر چیز واضح کریں گے۔ اگر تم ایمان لائے اور راہ راست پر چلے تو یہ تمھیں عطا کی گئی توفیق ہے ورنہ تم پر حجت قائم ہو جائے گی اور تمھارا معاملہ تمھارے سامنے واضح ہو جائے گا۔
{وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِنْ نَبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ (6) وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (7) فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَمَضَى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ (8)}.
اور کتنے ہی بھیجے ہم نے نبی پہلے لوگوں میں
(6) اور نہیں آتا ان کے پاس کوئی نبی مگر تھے وہ اس کے ساتھ ٹھٹھا ہی کرتے
(7) پس ہلاک کر دیا ہم نے ان سے کہیں زیادہ زور آور لوگوں کو اور گزر چکی ہے مثال پہلے لوگوں کی
(8)
#
{6 ـ 8} يقول تعالى: إنَّ هذه سنَّتُنا في الخلق أن لا نَتْرُكَهم هملاً؛ فكم {أرسَلْنا من نبيٍّ في الأوَّلين}: يأمرونهم بعبادة الله وحده لا شريك له، ولم يزل التكذيبُ موجوداً في الأمم. {وما يأتيهم من نبيٍّ إلاَّ كانوا به يستهزِئونَ}: جَحْداً لما جاء به، وتكبُّراً على الحقِّ، {فأهْلَكْنا أشدَّ} من هؤلاء {بطشاً}؛ أي: قوة وأفعالاً وآثاراً في الأرض، {ومضى مَثَلُ الأوَّلين}؛ أي: مضت أمثالُهم وأخبارُهم وبيَّنَّا لكم منها ما فيه عبرةٌ ومزدجَرٌ عن التكذيب والإنكار.
[8-6] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخلوق میں ہماری سنت یہ ہے کہ ہم انھیں مہمل اور بیکار نہیں چھوڑتے ۔ پس کتنے ہی
﴿وَؔكَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’نبی ہم نے پہلے لوگوں میں بھیجے۔‘‘ جو انھیں اللہ واحد کی عبادت کا حکم دیتے تھے جس کا کوئی شریک نہیں۔ تمام قوموں میں تکذیب ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔
﴿وَمَا یَ٘اْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ان کے پاس جو بھی نبی آیا وہ اس کی دعوت کا انکار اور حق کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرتے ہوئے اس کا تمسخر اڑاتے تھے۔
﴿فَاَهْلَكْنَاۤ اَشَدَّ مِنْهُمْ ﴾ ’’پس ہم نے انھیں ہلاک کیا جو سخت تھے۔‘‘ ان لوگوں سے
﴿بَطْشًا ﴾ ’’قوت میں‘‘ یعنی زمین کے اندر قوت، افعال اور آثار کے لحاظ سے
﴿وَّمَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یعنی ان لوگوں کی امثال و اخبار گزر چکی ہیں اور ان میں سے بہت سی مثالیں ہم تمھارے سامنے بیان کر چکے ہیں جن میں سامان عبرت اور تکذیب پر زجروتوبیخ ہے۔
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (9) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (10) وَالَّذِي نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَنْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذَلِكَ تُخْرَجُونَ (11) وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ (12) لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13) وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (14)}].
اور البتہ اگر سوال کریں آپ ان سے، کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو یقیناً وہ ضرور کہیں گے کہ پیدا کیا ان کو بڑے زبردست خوب جاننے والے نے
(9) وہ جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور بنائے تمھارے لیے اس میں راستے، تاکہ تم راہ پاؤ
(10) اور وہ جس نے نازل کیا آسمان سے پانی ایک اندازے سے، پھر زندہ کر دیا ہم نے اس کےذریعے سے مردہ شہر کو، اسی طرح تم
(دوبارہ) نکالے جاؤ گے
(11) اور وہ جس نے پیدا کیے جوڑے سب، اور بنائیں تمھارے لیے کشتیاں اور چوپائے کہ سوار ہوتے ہو تم
(ان پر) (12) تاکہ جم کر بیٹھو تم ان کی پیٹھوں پر ، پھر یاد کرو تم نعمت اپنے رب کی، جب برابر ہو کر بیٹھ جاؤ تم ان پر اور کہو تم، پاک ہے وہ
(اللہ) جس نے تابع کر دیا ہمارے اس کو اور نہیں تھے ہم اس کو قابو میں کر لینے والے
(13) اور بے شک ہم طرف اپنے رب کی ضرور لوٹنے والے ہیں
(14)
#
{9} يخبر تعالى عن المشركين أنَّك لو {سألتَهم مَنْ خَلَقَ السمواتِ والأرضَ ليقولنَّ}: الله وحدَه لا شريك له. {العزيز}: الذي دانت لعزَّته جميع المخلوقات. {العليم}: بظواهر الأمور وبواطنها وأوائلها وأواخراها. فإذا كانوا مقرِّين بذلك؛ فكيف يجعلون له الولدَ والصاحبةَ والشريكَ؟! وكيف يشركون به من لا يَخْلُقُ ولا يرزقُ ولا يميتُ ولا يحيي؟!
[9] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُ٘نَّ خَ٘لَ٘قَ٘هُنَّ الْ٘عَزِیْزُ الْعَلِیْمُ﴾ ’’
(اگر) آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ ان کو اللہ وحدہ لاشریک نے پیدا کیا جو غالب ہے جس کے غلبہ کے سامنے اولین و آخرین تمام مخلوقات اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ سرنگوں ہے۔ جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ اللہ کا بیٹا، اس کی بیوی اور اس کے شریک کیسے ٹھہراتے ہیں؟ اور ان ہستیوں کو اس کا شریک کیوں کر قرار دیتے ہیں جو پیدا کر سکتی ہیں نہ رزق عطا کر سکتی ہیں اور نہ زندگی اور موت ان کے اختیار میں ہے؟
#
{10} ثم ذكر أيضاً من الأدلَّة الدالَّة على كمال نعمته واقتداره بما خَلَقه لعباده من الأرض التي مَهَدها وجعلها قراراً للعباد يتمكَّنون فيها من كلِّ ما يريدون، {وجَعَلَ لكم فيها سُبُلاً}؛ أي: جعل منافذ بين سلاسل الجبال المتَّصلة تنفُذون منها إلى ما ورائها من الأقطار، {لعلَّكم تهتدونَ}: في السير في الطرق ولا تضيعون، ولعلَّكم أيضاً تهتدون في الاعتبار بذلك والادِّكار فيه.
[10] پھر اللہ تعالیٰ نے ان دلائل کا بھی ذکر کیا جو اس کی کامل نعمت و اقتدار پر دلالت کرتے ہیں، زمین کی اشیاء کو دلیل بنایا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیں، اس زمین کو بندوں کے لیے ٹھکانا بنایا جہاں وہ ہر اس چیز پر متمکن ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔
﴿وَّجَعَلَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا ﴾ ’’اور اس میں تمھارے لیے راستے بنا دیے۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے پہاڑی سلسلوں کے درمیان گزر گاہیں بنائیں جہاں سے گزر کر تم ان پہاڑوں کے پاس واقع ممالک کو جاتے ہو۔
﴿لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ﴾ تا کہ تم ان راستوں پر سفر کے دوران راہ پاؤ اور ضائع نہ ہو جاؤ اور تاکہ تم اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرو۔
#
{11} {والذي نَزَّلَ من السماءِ ماءً بقدرٍ}: لا يزيدُ ولا ينقُص، ويكون أيضاً بمقدار الحاجةِ؛ لا ينقُصُ بحيث لا يكون فيه نفعٌ، ولا يزيدُ بحيث يضرُّ العباد والبلاد، بل أغاث به العبادَ، وأنقذ به البلادَ من الشدَّة، ولهذا قال: {فأنشَرْنا به بلدةً ميتاً}؛ أي: أحييناها بعد موتها، {كذلك تُخْرَجونَ}؛ أي: فكما أحيا الأرض الميتة الهامدة بالماء؛ كذلك يحييكم بعدما تستكملونَ في البرزخ ليجازِيَكم بأعمالكم.
[11] ﴿وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ ﴾ ’’اور وہ ذات جس نے آسمان سے پانی اتارا اندازے کے ساتھ۔‘‘ وہ اس پانی میں کمی بیشی نہیں کرتا نیز پانی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے، یہ پانی کم نہیں ہوتا کہ فائدہ مفقود ہو جائے اور نہ اتنا زیادہ ہوتا ہے جس سے انسانوں اور زمین کو نقصان پہنچے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس پانی کے ذریعے سے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے زمین کو سختی سے بچاتا ہے۔ اس لیے فرمایا
﴿فَاَنْ٘شَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّؔیْتًا ﴾ یعنی ہم نے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا۔
﴿كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ﴾ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے سے بنجر اور مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح جب تم اپنے بزرخ کے مرحلے کو پورا کر لو گے، تو وہ تمھیں زندہ کرے گا اور تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{12} {والذي خَلَقَ الأزواجَ كلَّها}؛ أي: الأصناف جميعها مما تُنْبِتُ الأرض ومن أنفسِهم ومما لا يعلمون؛ من ليل ونهار، وحرٍّ وبرد، وذكر وأنثى ... وغير ذلك، {وجعل لكم من الفُلْكِ}؛ أي: السفن البحريَّة الشراعيَّة والناريَّة ما تركبون، {و} من {الأنعام ما تركبونَ}.
[12] ﴿وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا ﴾ ’’اور وہ ذات جس نے تمام چیزوں کے جوڑے پیدا کیے۔‘‘ یعنی وہ تمام اصناف جو زمین سے اگتی ہیں، خود ان کی ذات میں اور ان تمام اشیاء میں سے جن کا انھیں علم نہیں ،
مثلاً: رات دن، گرمی سردی اور مذکر مونث وغیرہ میں سے۔
﴿وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ ﴾ ’’اور تمھارے لیے کشتیاں بنائیں‘‘ یعنی تمام بادبانی اور دخانی کشتیاں جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
﴿وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْؔكَبُوْنَۙ ۰۰ ﴾’’اور چوپائے بھی جن پر تم سوار ہوتے ہو۔‘‘
#
{13} {لتستووا على ظهورِهِ}: وهذا شامل لظهورِ الفُلك ولظهور الأنعام؛ أي: لتستقرُّوا عليها. {ثم تذكروا نعمةَ ربِّكم إذا استويتُم عليه}: بالاعتراف بالنعمة لمن سخَّرها والثناء عليه تعالى بذلك، ولهذا قال: {وتقولوا سبحانَ الذي سخَّر لنا هذا وما كُنَّا له مقرِنينَ}؛ أي: لولا تسخيره لنا ما سَخَّر من الفلك والأنعام؛ ما كنا مُطيقينَ لذلك وقادِرين عليه، ولكن من لطفِهِ وكرمِهِ تعالى سخَّرها وذلَّلها ويسَّر أسبابها. والمقصودُ من هذا بيانُ أن الربَّ الموصوفَ بما ذكره من إفاضة النِّعم على العبادِ هو الذي يستحقُّ أن يُعبد، ويصلَّى له ويُسجَد.
[13] ﴿لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ﴾ ’’ تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو۔‘‘ اور یہ آیت تمام مویشیوں کی پیٹھ کو شامل ہے، یعنی تم ان سواریوں کی پیٹھ پر استقرار پکڑو۔
﴿ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ ﴾ پھر جب تم ان پر ٹھیک طرح سے بیٹھ جاؤ،
تو اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس ہستی کا ذکر کرو جس نے ان کو تمھارے لیے مسخر کیا ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰؔنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰؔذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَ﴾ اور کہو: اگر اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں اور مویشیوں کو ہمارے لیے مسخر نہ کیا ہوتا تو ہم ان کو مسخر کرنے کی طاقت اور قدرت نہیں رکھتے تھے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے ان سواریوں کو ہمارے لیے مسخر کیا اور ان کے اسباب مہیا کیے۔ اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رب جو مذکورہ اوصاف سے متصف ہے جس نے بندوں پر ان نعمتوں کا فیضان کیا ہے وہی اس چیز کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اس کی نماز پڑھی جائے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے۔
{وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (15) أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَ (16) وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (17) أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ (18) وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ (19) وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ مَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (20) أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ (21) بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ (22) وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ (23) قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (24) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (25)}.
اور بنا لیا انھوں نے اس کے لیے، اس کےبندوں میں سے ایک حصہ، بلاشبہ انسان البتہ بہت ناشکرا ہے صریح
(15) کیا لیں اس نے ان میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے، بیٹیاں اورنوزا تم کو ساتھ بیٹوں کے
(16) حالانکہ جب خوشخبری دی جاتی ہے ایک کو ان میں سے ساتھ اس کے کہ بیان کی اس نے رحمان کے لیے مثال تو ہو جاتا ہے اس کا چہرہ سیاہ اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے
(17) کیا
(اس کو اولاد ٹھہرایا ہے؟) جس کی پرورش کی جاتی ہے زیور میں اور وہ بحث و حجت میں نہیں ہے
(بات کو) واضح کرنے والی
(18) اور ٹھہرایا ہے انھوں نے فرشتوں کو، وہ جو بندے ہیں رحمن کے، عورتیں، کیا وہ حاضر تھے ان کی پیدائش کے وقت؟ضرور لکھی جائے گی شہادت ان کی اور وہ سوال کیے جائیں گے
(19) اور انھوں نے کہا: اگر چاہے رحمن تو نہ عبادت کریں ہم ان کی، نہیں ہے واسطے ان کے اس کی بابت کوئی علم، نہیں ہیں وہ مگر اٹکل پچو باتیں کرتے
(20) یا دی ہے ہم نے ان کو کوئی کتاب اس سے پہلے، پس وہ اس کو تھامنے والے ہیں؟
(21) (نہیں)بلکہ انھوں نے کہا: بلاشبہ پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر اور ہم تو ان کے نشانات ِقدم ہی کے پیچھے چلنے والے ہیں
(22) اور اسی طرح نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا، مگر کہا ان کے خوش حال لوگوں نے، بلاشبہ پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر اور ہم تو ان کے نشانات ِ قدم ہی کی اقتدا کرنے والے ہیں
(23) پیغمبر نے کہا: خواہ لاؤ ں میں تمھارے پاس صحیح تر، اس سے کہ پایا تم نے اس پر اپنے باپ دادوں کو؟ انھوں نے کہا، یقیناً ہم تو ساتھ اس کے، کہ بھیجے گئے ہو تم ساتھ اس کے، انکار کرنے والے ہیں
(24) تو بدلہ لیا ہم نے ان سے، پس دیکھیے! کیا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا؟
(25)
#
{15} يخبر تعالى عن شناعةِ قول المشركين الذين جعلوا لله تعالى ولداً، وهو الواحد الأحدُ الفرد الصَّمد، الذي لم يتَّخذ صاحبة ولا ولداً، ولم يكنْ له كفُواً أحدٌ. وأنَّ ذلك باطلٌ من عدة أوجه: منها: أنَّ الخلقَ كلَّهم عباده، والعبوديَّة تنافي الولادة. ومنها: أنَّ الولد جزءٌ من والدِهِ، والله تعالى بائنٌ من خلقِهِ مباينٌ لهم في صفاته ونعوت جلاله، والولدُ جزءٌ من الوالدِ؛ فمحالٌ أن يكون لله تعالى ولدٌ.
[15] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے قول کی قباحت بیان کرتا ہے،
جنھوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے حالانکہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے اور یہ متعدد وجوہ سے باطل ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے بندے ہیں اور بندگی اولاد ہونے کے منافی ہے۔
۲۔ بیٹا اپنے والد کا جز ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے علیحدہ ہے وہ اپنی صفات کمال اور نعوت جلال میں تمام مخلوق سے الگ ہے جبکہ بیٹا والد کا جز ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونا محال ہے۔
#
{16} ومنها: أنَّهم يزعُمون أنَّ الملائكةَ بناتُ الله، ومن المعلوم أنَّ البناتِ أدونُ الصنفينِ؛ فكيف يكون لله البناتُ ويصطفيهم بالبنين ويفضِّلهم بها؟! فإذاً؛ يكونون أفضلَ من الله! تعالى اللهُ عن ذلك علوًّا كبيراً!
[16] ۳۔ کفار سمجھتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں حالانکہ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ بیٹیاں کمزور ترین صنف ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تو بیٹیاں ہوں اور ان کو وہ بیٹے عطا کرے اور بیٹوں کے ذریعے سے ان کو فضیلت عطا کرے۔ اس صورت میں تو مخلوق اللہ تعالیٰ سے افضل ہے اور اللہ سے بالاوبلندتر ہے۔
#
{17}: ومنها: أنَّ الصنف الذي نَسبوه لله ـ وهو البنات ـ أدون الصنفين وأكرههما لهم، حتى إنَّهم من كراهتهم لذلك {إذا بُشِّرَ أحدُهم بما ضَرَبَ للرحمن مثلاً ظلَّ وجهُهُ مسودًّا}؛ من كراهته وشدَّة بغضه؛ فكيف يجعلون لله ما يكرهون؟!
[17] ۴۔ وہ صنف، جس کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، یعنی بیٹیاں، تو یہ کمزور ترین اور خود ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند صنف ہے حتیٰ کہ ان کی کراہت کا یہ حال ہے۔
﴿وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا ﴾ ’’ان میں سے کسی کو بیٹی کی ولادت کی، جسے وہ رحمان کی طرف منسوب کرتا ہے، خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے‘‘ یعنی سخت ناپسندیدگی اور ناراضی کے باعث اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے۔ ایسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے لیے کیوں کر مقرر کرتے ہیں جسے وہ خود ناپسند کرتے ہیں۔
#
{18} ومنها: أنَّ الأنثى ناقصةٌ في وصفها وفي منطقها وبيانها، ولهذا قال تعالى: {أوَمَن يُنَشَّأ في الحِلْيَةِ}؛ أي: يجمَّل فيها لنقص جمالِهِ، فيجمَّل بأمرٍ خارج منه ، {وهو في الخصام}؛ أي: عند الخصام الموجب لإظهارِ ما عند الشخص من الكلام {غيرُ مبينٍ}؛ أي: غير مبينٍ لحجَّته ولا مفصح عمَّا احتوى عليه ضميرُه؛ فكيف ينسبونهنَّ لله تعالى؟!
[18] ۵۔ عورت اپنے وصف،
اپنی منطق اور اپنے بیان کے اعتبار سے ناقص ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْؔحِلْیَةِ ﴾ ’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے۔‘‘ یعنی اپنے حسن و جمال میں کمی کی وجہ سے آرائش کرتی ہے اور ایک امر خارج سے خوبصورتی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
﴿وَهُوَ فِی الْخِصَامِ ﴾ اور بحث اور جھگڑے کے وقت، جو اس چیز کا موجب ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واضح کرے۔
﴿غَیْرُ مُبِیْنٍ ﴾ تو وہ اپنی بات کو واضح اور اپنے مافی الضمیر کو کھول کر بیان نہیں کرسکتی تو یہ مشرکین اسے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے منسوب کرتے ہیں۔
#
{19} ومنها: أنَّهم {جعلوا الملائكة الذين هم عبادُ الرحمن إناثاً}: فتجرؤوا على الملائكة العباد المقرَّبين، ورقَّوهم عن مرتبة العبادة والذُّلِّ إلى مرتبة المشاركة لله في شيء من خواصِّه، ثم نزلوا بهم عن مرتبةِ الذُّكوريَّة إلى مرتبة الأنوثيَّة؛ فسبحان من أظهر تناقضَ مَنْ كَذَبَ عليه وعاند رسله! ومنها: أنَّ الله ردَّ عليهم بأنَّهم لم يشهدوا خَلْقَ الله لملائكته؛ فكيف يتكلَّمون بأمرٍ من المعلوم عند كلِّ أحدٍ أنَّه ليس لهم به علمٌ؟! ولكن لا بدَّ أن يُسألوا عن هذه الشهادة، وستُكْتَبُ عليهم ويعاقَبون عليها.
[19] ۶۔ انھوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں، عورتیں قرار دے دیا پس اس طرح انھوں نے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے بارے میں جسارت کی، انھوں نے ان کو بندگی اور اطاعت کے مرتبہ سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی بعض صفات میں مشارکت کے مرتبہ پر فائز کر دیا، پھر ان کو مذکر کے مرتبہ سے نیچے مؤنث کے مرتبہ پر لے آئے۔ پس پاک ہے وہ ذات ہے جس نے ان لوگوں کے تناقض کو ظاہر کر دیا جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور اس کے رسولوں کے ساتھ عناد رکھا۔
۷۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کے ذریعے سے ان کے دعوے کا رد کیا کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو تخلیق فرمایا، پس وہ کسی ایسے معاملے میں کیسے بات کرتے ہیں جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس ضمن میں ان کے پاس کوئی علم نہیں۔ ان سے اس شہادت کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا، اس شہادت کو ان پر لازم کر دیا جائے گا اور اس پر ان کو سزا دی جائے گی۔
#
{20} وقوله تعالى: {وقالوا لو شاء الرحمنُ ما عَبَدْناهُم}: فاحتجُّوا على عبادتهم الملائكة بالمشيئةِ، وهي حجةٌ لم يزل المشركونَ يطرِقونها، وهي حجةٌ باطلةٌ في نفسها عقلاً وشرعاً؛ فكلُّ عاقل لا يقبلُ الاحتجاج بالقدر، ولو سَلَكَه في حالةٍ من أحواله؛ لم يثبت عليها قدمه، وأمّا شرعاً؛ فإنَّ الله تعالى أبطل الاحتجاج به، ولم يذكُرْه عن غير المشركين به المكذِّبين لرسله؛ فإنَّ الله تعالى قد أقام الحجَّة على العباد؛ فلم يبقَ لأحدٍ عليه حجةٌ أصلاً، ولهذا قال هنا: {ما لهم بذلك من علم إنْ هم إلاَّ يَخْرُصونَ}؛ أي: يتخرَّصون تخرُّصاً لا دليل عليه، ويتخبَّطون خَبْطَ عشواء.
[20] ﴿وَقَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ ﴾ ’’اور کہتے ہیں، اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔‘‘ فرشتوں کی عبادت کرنے کے لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دلیل بنایا۔ مشرکین ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دلیل بناتے چلے آئے ہیں۔ یہ عقلی اور شرعی طور پر فی نفسہ باطل دلیل ہے۔ کوئی عقل مند شخص تقدیر کی دلیل کو قبول نہیں کر سکتا۔ اگر وہ کسی حال میں اس راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ رہا شرعی طور پر مشیت الٰہی کو دلیل بنانا، تو اللہ تعالیٰ نے مشیت کی دلیل کو باطل ٹھہرا دیا ہے۔ مشرکین اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے سوا کسی نے مشیت الٰہی کو دلیل نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت قائم کر دی ہے۔ اب بندوں کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہی۔
#
{21} ثم قال: {أم آتيناهُم كتاباً من قبلِهِ فهم به مستمسكون}: يخبِرُهم بصحَّة أفعالهم وصدق أقوالهم؟! ليس الأمر كذلك؛ فإنَّ الله أرسل محمداً نذيراً إليهم، وهم لم يأتهم نذيرٌ غيره؛ أي: فلا عقل ولا نقل، وإذا انتفى الأمران؛ فلا ثَمَّ إلاَّ الباطل.
[21] بنابریں فرمایا:
﴿مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ١ۗ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ ’’ان کو اس کا کچھ علم نہیں وہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔‘‘ جس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی اور وہ شب کو اونٹنی کی مانند ٹیڑھی چال چلتے ہیں۔
﴿اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ٘ فَهُمْ بِهٖ مُسْتَمْسِكُوْنَ۠ ﴾ ’’کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس سے سند پکڑتے ہیں؟‘‘ یعنی جو ان کے افعال کی صحت اور اقوال کی صداقت کے بارے میں خبر دیتی ہو، مگر معاملہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیe کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے سوا اور کوئی ڈرانے والا ان کے پاس نہیں آیا ۔جب عقل و نقل سے دونوں امور کی نفی ثابت ہو گئی، تب وہاں باطل کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
#
{22} نعم؛ لهم شبهةٌ من أوهى الشُّبه، وهي تقليد آبائهم الضالِّين، الذين ما زال الكفرة يردُّون بتقليدهم دعوة الرسل، ولهذا قال هنا: {بل قالوا إنَّا وَجَدْنا آباءَنا على أمَّةٍ}؛ أي: على دين وملَّة، {وإنَّا على آثارهم مهتدون}؛ أي: فلا نتَّبع ما جاء به محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -.
[22] ہاں،
ایک شبہ باقی ہے جو کمزور ترین شبہ ہے اور وہ ہے اپنے گمراہ آباء و اجداد کی تقلیدجس کی وجہ سے یہ کافر اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکراتے رہے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ ﴾ ’’بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے۔‘‘ یعنی ایک دین اور ملت پر
﴿وَّاِنَّا عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ ’’اور ہم انھی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔‘‘ اس لیے ہم اس چیز کی پیروی نہیں کریں گے جو محمد
(e) لے کر آئے ہیں۔
#
{23} {وكذلك ما أرسلنا من قبلِكَ في قريةٍ من نذيرٍ إلاَّ قال مترفوها}؛ أي: منعَّموها وملؤها الذين أطغَتْهم الدُّنيا وغرَّتهم الأموال واستكبروا على الحقِّ: {إنَّا وجَدْنا آباءنا على أمَّةٍ وإنَّا على آثارهم مقتدون}؛ أي: فهؤلاء ليسوا ببدع منهم، وليسوا بأول من قال هذه المقالة. وهذا الاحتجاج من هؤلاء المشركين الضالِّين بتقليدهم لآبائِهِم الضالِّين ليس المقصودُ به اتباعَ الحقِّ والهدى، وإنَّما هو تعصبٌ محضٌ، يُرادُ به نصرة ما معهم من الباطل.
[23] ﴿وَؔكَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤ﴾ ’’اور اسی طرح ہم نے تم سے پہلے کسی بستی میں کوئی ہدایت دینے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے کہا۔‘‘ یعنی بستی کے وہ لوگ جو نعمتوں سے نوازے گئے تھے اور وہ اشراف جن کو دنیا نے سرکش اور مال و دولت نے مغرور بنا دیا تھا اور وہ حق کے مقابلے میں تکبر کا رویہ رکھے ہوئے تھے۔ کہا:
﴿اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ ﴾ ’’ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقش قدم کی اقتدا کر رہے ہیں۔ ‘‘پس ان لوگوں کا یہ رویہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور نہ یہ پہلے لوگ ہی ہیں جنھوں نے یہ بات کہی ہو۔ ان گمراہ مشرکین کا اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو دلیل بنانے کا مقصد حق اور ہدایت کی اتباع نہیں، بلکہ یہ تو محض تعصب ہے جس کا مقصد اپنے باطل موقف کی تائید و نصرت ہے۔
#
{24} ولهذا كلُّ رسول يقول لِمَنْ عارَضَه بهذه الشُّبهة الباطلة: {أولو جئتُكم بأهدى ممَّا وَجَدْتُم عليه آباءَكم}؛ أي: أفتتَّبعوني لأجل الهُدى؟ {قالوا إنَّا بما أرْسِلْتُم به كافرونَ}: فعُلِمَ بهذا أنَّهم ما أرادوا اتِّباعَ الحقِّ والهدى، وإنَّما قصدُهم اتِّباع الباطل والهوى.
[24] بنابریں ہر رسول نے، ایسے لوگوں سے جنھوں نے اس باطل شبہ کی بنا پر اس کی مخالفت کی،
کہا ہے: ﴿ اَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰؔى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْ ﴾ ’’اگرچہ میں تمھارے پاس ایسا دین لاؤ ں کہ جس راستے پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہ اس سے کہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ یعنی کیا تم ہدایت کی خاطر میری پیروی کرو گے؟
﴿قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’انھوں نے کہا: جو
(دین) تم دے کر بھیجے گئے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ حق اور ہدایت کی اتباع نہ تھا۔ ان کا مقصد تو صرف باطل اور خواہشات نفس کی پیروی تھا۔
#
{25} {فانتَقَمْنا منهم}: بتكذيبِهم الحقَّ وردِّهم إيَّاه بهذه الشبهة الباطلة، {فانظُرْ كيف كان عاقبةُ المكذِّبين}: فليحذرْ هؤلاء أن يستمرُّوا على تكذيبهم فيصيبهم ما أصابهم.
[25] ﴿فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ﴾ پس اس باطل شبہ کی بنیاد پر ان کے حق کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کا ہم نے ان سے انتقام لیا۔
﴿فَانْ٘ظُ٘رْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠ ﴾ ’’پس دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘ پس ان لوگوں کو اپنی تکذیب پر جمے رہنے سے بچنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ (26) إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (27) وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (28) بَلْ مَتَّعْتُ هَؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُبِينٌ (29) وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ (30) وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (31) أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (32)}.
اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے، بلاشبہ میں بیزار ہوں ان
(بتوں) سے جن کی تم عبادت کرتے ہو
(26) سوائے اس
(اللہ) کے جس نے پیدا کیا مجھے، پس بے شک وہ عنقریب رہنمائی کرے گا میری
(27) اور کرد یا اس
(کلمہ ٔ توحید)کو ایک کلمہ باقی رہنے والا اپنی اولاد میں، تاکہ وہ رجوع کریں
(28)بلکہ فائدہ پہنچایا میں نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو، یہاں تک کہ آیا ان کے پاس حق اور رسول کھول کر بیان کرنے والا
(29) اور جب آیا ان کے پاس حق، تو کہا انھوں نے، یہ تو جادو ہے اور بلاشبہ ہم اس کےساتھ کفر کرنے والے ہیں
(30) اور انھوں نے کہا، کیوں نہیں نازل کیا گیا یہ قرآن کسی آدمی پر ان دونوں شہروں میں سے، جو بڑا ہو
(31) کیا وہ تقسیم کرتے ہیں رحمت آپ کے رب کی؟ ہم ہی نے تقسیم کی ہے ان کے درمیان ان کی روزی زندگانیٔ دنیا میں اور بلند کیا ہم نے ان کے بعض کو اوپر بعض کے درجوں میں، تاکہ بنائے ان کا بعض، بعض کو خدمت گار، اور رحمت آپ کے رب کی بہت بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں
(32)
#
{26} يخبر تعالى عن ملَّة إبراهيم الخليل عليه السلام، الذي ينتسب إليه أهلُ الكتاب والمشركون، وكلُّهم يزعم أنَّه على طريقته، فأخبر عن دينِهِ الذي ورَّثَه في ذرِّيَّته، فقال: {وإذْ قال إبراهيمُ لأبيه وقومِهِ}: الذين اتَّخذوا من دون الله آلهةً يعبُدونهم ويتقرَّبون إليهم: {إنَّني براءٌ ممَّا تعبدونَ}؛ أي: مبغضٌ له مجتنبٌ معادٍ لأهله.
[26] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خلیل حضرت ابراہیمu کی ملت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جن سے یہ مشرکین اور اہل کتاب اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے طریقے پر چل رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے دین کے بارے میں، جو ان کی ذریت کو وراثت میں ملا ہے، خبر دی ہے ،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖۤ ﴾ ’’اور جب ابراہیم
(u) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا‘‘ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کچھ دوسرے معبود بنا لیے تھے، وہ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
﴿اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ﴾ ’’جن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو، بلاشبہ میں ان سے بیزار ہوں۔‘‘ یعنی میں اس خود ساختہ معبود سے جس کی تم عبادت کرتے ہو، سخت نفرت کرتا ہوں اور اس کی عبادت کرنے والوں سے عداوت رکھتا ہوں اور ان سے دور رہتا ہوں۔
#
{27} {إلاَّ الذي فَطَرني}؛ فإنِّي أتولاَّه وأرجو أن يَهْدِيَني للعلم بالحقِّ والعمل بالحقِّ؛ فكما فَطَرني ودَبَّرَني بما يُصْلِحُ بدني ودُنياي، فسيهديني لما يُصْلِحُ ديني وآخرتي.
[27] ﴿اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ ﴾ ’’ہاں جس نے مجھے پیدا کیا۔‘‘ پس میں اسی کو اپنا سرپرست بناتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ حق کے علم و عمل کے راستے میں میری راہ نمائی فرمائے گا اور جس طرح اس نے مجھے پیدا کیا اور ان امور کے ذریعے سے میری تدبیر کی جو میرے بدن اور میری دنیا کے لیے درست ہیں، اسی طرح
﴿فَاِنَّهٗ سَیَهْدِیْنِ ﴾ وہ ان امور میں بھی میری راہ نمائی فرمائے گا جو میرے دین اور میری آخرت کے لیے درست ہیں۔
#
{28} {وجَعَلَها}؛ أي: هذه الخصلَة الحميدَة التي هي أمُّ الخصال وأساسُها، وهي إخلاصُ العبادة لله وحده، والتبرِّي من عبادة ما سواه {كلمةً باقيةً في عقبِه}؛ أي: في ذرِّيَّتِهِ ، {لعلَّهم}: إليها {يرجِعونَ}: لشهرتها عنه وتوصيته لذُرِّيَّتِهِ وتوصية بعض بنيه كإسحاق ويعقوب لبعض؛ كما قال تعالى: {ومَن يرغَبُ عن مِلَّةِ إبراهيم إلاَّ من سَفِهَ نفسه ... } إلى آخر الآيات.
[28] ﴿وَجَعَلَهَا ﴾ ’’اور اس کو کیا۔‘‘ یعنی اس خصلت حمیدہ کو جو تمام خصائل کی اساس ہے اور وہ ہے، صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی عبادت کو خالص کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے براء ت اور بیزاری کا اظہار کرنا،
﴿كَلِمَةًۢ بَ٘اقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ﴾ ’’باقی رہنی والی بات اس کے پیچھے آنے والوں میں۔‘‘ یعنی آپ کی ذریت میں
﴿لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ شاید وہ اس بنا پر اس کلمۂ اخلاص کی طرف رجوع کریں کیونکہ اس کا آپ کی طرف منسوب ہونا شہرت رکھتا ہے،
نیز اس بنا پر کہ آپ نے اپنی اولاد کو اس کلمۂ اخلاص کی وصیت کی اور آپ کی اولاد میں سے بعض جیسے: اسحاقu اور یعقوبu نے دوسرے نسبی بیٹوں کو اسی کلمۂ اخلاص کی وصیت کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰؔهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَ٘مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ۰۰اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۰۰ وَوَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰؔهٖمُ بَنِیْهِ وَیَعْقُوْبُ١ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُ٘نَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ۰۰ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَؔ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْ٘مَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبـَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ۰۰ ﴾ (البقرہ:2؍133-130) ’’ اور کون بے رغبتی کرسکتا ہے ملت ابراہیم سے سوائے اس کے جس نے اپنے نفس کو احمق بنالیا اور بے شک ہم نے ابراہیم کو دنیا میں چن لیا اور یقینا وہ آخرت میں ضرور نیکو کاروں میں سے ہو گا اور جب ابراہیم سے اس کے رب نے کہا: فرمانبردار ہو جا! تو اس نے کہا :میں رب العالمین کا فرمانبردار ہو گیا ابراہیم نے اور یعقوب نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی
(کلمۂ حق) کی وصیت کی: اے میرے بیٹو !بے شک اللہ نے تمھارے لیے یہ دین چن لیا ہے، پس تمھیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ کیا جب یعقوب کو موت آئی اس وقت تم موجود تھے؟
جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا :میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟
انھوں نے کہا: ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں۔ ‘‘
#
{29} فلم تزلْ هذه الكلمة موجودةً في ذرِّيَّته عليه السلام حتى دخلهم التَّرفُ والطغيانُ، فقال تعالى: {بل متَّعْتُ هؤلاء وآباءَهم}: بأنواع الشَّهَوات، حتى صارت هي غايتهم ونهاية مقصودِهم، فلم تزلْ يتربَّى حبُّها في قلوبهم، حتى صارت صفاتٍ راسخةً وعقائدَ متأصلةً. {حتى جاءهم الحقُّ}: الذي لا شكَّ فيه ولا مِرْيَةَ ولا اشتباه، {ورسولٌ مبينٌ}؛ أي: بيِّن الرسالة، قامت أدلَّة رسالته قياماً باهراً بأخلاقه ومعجزاتِهِ، وبما جاء به، وبما صدَّق به المرسلين وبنفس دعوتِهِ - صلى الله عليه وسلم -.
[29] یہ کلمۂ اخلاص ابراہیمuکی اولاد میں ہمیشہ موجود رہا ہے،
یہاں تک کہ خوشحالی اور سرکشی ان پر غالب آ گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَاٰبَآءَهُمْ ﴾ میں نے ان کو اور ان کے آباء واجداد کو مختلف انواع کی شہوات سے متمتع ہونے دیا یہاں تک کہ یہی شہوات ان کا مطمح نظر اور ان کا مقصد بن گئیں، ان کے دلوں میں ان شہوات کی محبت پھلتی پھولتی رہی، حتی کہ ان کی صفات اور بنیادی عقائد بن گئیں۔
﴿حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ ﴾ ’’حتیٰ کہ ان کے پاس حق پہنچ گیا۔‘‘ جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ
﴿وَرَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور صاف صاف سنانے والا رسول۔‘‘ یعنی آپ کی رسالت واضح تھی آپ کے اخلاق و معجزات سے آپ کی رسالت پر واضح اور نمایاں دلائل قائم ہوئے جو آپ لے کر مبعوث ہوئے ا ور انبیاء و مرسلین نے آپ کی تصدیق کی اور خود آپ کی دعوت سے بھی آپ کی رسالت پر دلائل قائم ہوتے ہیں۔
#
{30} {ولمَّا جاءهم الحقُّ}: الذي يوجِبُ على من له أدنى دينٍ ومعقول أن يَقْبَلَه وينقادَ له، {قالوا هذا سحرٌ وإنَّا به كافرونَ}: وهذا من أعظم المعاندة والمشاقَّة؛ فإنَّهم لم يكتفوا بمجرَّد الإعراض عنه، بل ولا جحده، فلم يرضَوْا حتى قدحوا به قدحاً شنيعاً، وجعلوه بمنزلة السحر الباطل الذي لا يأتي به إلاَّ أخبثُ الخلق وأعظمُهم افتراءً، والذي حَمَلَهم على ذلك طغيانُهم بما متَّعهم الله به وآباءهم.
[30] ﴿وَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ ﴾ ’’اور جب ان کے پاس حق پہنچ گیا۔‘‘ جو اس شخص پر جس میں ادنیٰ سا دین اور عقل ہے، واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس کو قبول کرے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔
﴿قَالُوْا هٰؔذَا سِحْرٌ وَّاِنَّا بِهٖ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’انھوں نے کہا: یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔‘‘ اور یہ سب سے بڑا عناد اور سب سے بڑی مخالفت ہے، پھر انھوں نے مجرد انکار اور روگردانی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے حق کو جھٹلایا۔ پس وہ اس وقت تک راضی نہ ہوئے جب تک کہ انھوں نے اس میں جرح و قدح نہ کی اور اسے جادو قرار نہ دے دیا، جسے بدترین لوگ اور سب سے بڑے افترا پرداز ہی پیش کرتے ہیں۔اور جس چیز نے ان کو اس رویے پر آمادہ کیا وہ ہے ان کی سرکشی اور اللہ تعالیٰ کا ان کو اور ان کے آباء کو سامان زیست سے نوازنا۔
#
{31} {وقالوا}: مقترحينَ على الله بعقولهم الفاسدة: {لولا نُزِّلَ هذا القرآنُ على رجل من القريتينِ عظيمٍ}؛ أي: معظَّم عندهم مبجَّل من أهل مكة أو أهل الطائف؛ كالوليد بن المغيرة ونحوه ممَّن هو عندَهم عظيم.
[31] ﴿وَقَالُوْا ﴾ یعنی انھوں نے اپنی عقل فاسد کے مطابق اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:
﴿لَوْلَا نُزِّلَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْ٘قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾ ’’یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہ کیا گیا؟‘‘ جو مکہ اور طائف کے لوگوں کے ہاں معظم اور معزز ہوتا اور وہ شخص ہوتا جو ان کے ہاں سردار شمار ہوتا ہے ،
مثلاً: ولیدبن مغیرہ وغیرہ۔
#
{32} قال الله ردًّا لاقتراحهم: {أهم يقسِمونَ رحمةَ ربِّكَ}؛ أي: أهُم الخزَّانُ لرحمة الله، وبيدهم تدبيرُها، فيعطون النبوَّة والرسالة من يشاؤون، ويمنعونها ممَّن يشاؤون؟! {نحن قسَمْنا بينَهم معيشَتَهم في الحياة الدُّنيا ورَفَعْنا بعضَهم فوق بعض درجاتٍ}؛ أي: في الحياة الدُّنيا، {و} الحال أنَّ رحمةَ {ربِّك خيرٌ ممَّا يجمعونَ}: من الدُّنيا؛ فإذا كانت معايشُ العبادِ وأرزاقُهم الدنيويَّة بيد الله تعالى، هو الذي يقسِمُها بين عباده، فيبسِطُ الرزق على من يشاءُ ويضيِّقُه على مَن يشاءُ بحسب حكمته؛ فرحمتُه الدينيَّةُ ـ التي أعلاها النبوَّة والرسالة ـ أولى وأحرى أن تكونَ بيدِ الله تعالى؛ فالله أعلمُ حيثُ يجعلُ رسالَتَه.
فعُلم أنَّ اقتراحهم ساقطٌ لاغٍ، وأنَّ التدبير للأمور كلِّها دينيِّها ودنيويِّها بيد الله وحده، هذا إقناعٌ لهم من جهة غلطهم في الاقتراح الذي ليس في أيديهم منه شيءٌ، إن هو إلاَّ ظلمٌ منهم وردٌّ للحقِّ. وقولهم: {لولا نُزِّلَ هذا القرآنُ على رجل من القريتين عظيم}: لو عرفوا حقائقَ الرجال والصفاتِ التي بها يُعْرَفُ علوُّ قدر الرجل، وعِظَمُ منزلته عند الله وعند خلقِهِ؛ لعلموا أنَّ محمد بن عبد الله بن عبد المطلب هو أعظمُ الرجال قدراً، وأعلاهم فخراً، وأكملُهم عقلاً، وأغزرُهم علماً، وأجلُّهم رأياً وعزماً وحزماً، وأكملُهم خلقاً، وأوسعُهم رحمةً، وأشدُّهم شفقةً، وأهداهم وأتقاهم، وهو قطبُ دائرة الكمال، وإليه المنتهى في أوصاف الرجال، ألا وهو رجلُ العالم على الإطلاق؛ يعرف ذلك أولياؤه وأعداؤه؛ إلاَّ من ضلَّ وكابَرَ؛ فكيف يُفَضِّلُ عليه المشركون مَنْ لم يَشُمَّ مثقال ذرَّةٍ مِنْ كَماله، ومَنْ حَزْمُه ومنتهى عقلِهِ أنْ جعل إلهه الذي يعبُدُه ويدعوه ويتقرَّب إليه صنماً أو شجراً أو حجراً لا يضرُّ ولا ينفع ولا يُعطي ولا يمنعُ، وهو كَلٌّ على مولاه، يحتاجُ لمن يقوم بمصالحه؟! فهل هذا إلا من فعل السُّفهاء والمجانين؟! فكيف يُجعلُ مثلُ هذا عظيماً؟! أم كيف يُفَضَّلُ على خاتم الرسل وسيد ولد آدم - صلى الله عليه وسلم -؟! ولكنَّ الذين كفروا لا يعقلون.
وفي هذه الآية تنبيهٌ على حكمة الله تعالى في تفضيل الله بعضَ العباد على بعض في الدُّنيا؛ {ليتَّخِذَ بعضُهم بعضاً سخريًّا}؛ أي: ليسخِّر بعضُهم بعضاً في الأعمال والحِرَف والصنائع؛ فلو تساوى الناس في الغنى ولم يحتج بعضُهم إلى بعض؛ لتعطَّلَت كثيرٌ من مصالحهم ومنافعهم.
وفيها دليلٌ على أنَّ نعمتَه الدينيَّة خير من النعمة الدنيويَّة؛ كما قال تعالى في الآية الأخرى: {قل بفضل اللهِ وبرحمتِهِ فبذلك فَلْيَفْرَحوا هو خيرٌ ممَّا يجمعونَ}.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
﴿اَهُمْ یَقْ٘سِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ﴾ یعنی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کی رحمت کی تدبیر ہے کہ جس کو چاہیں نبوت اور رسالت عطا کردیں اور جس کو چاہیں اس سے محروم کر دیں
﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰؔتٍ ﴾ ’’ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کیا، اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کیے۔‘‘ یعنی اس دنیاوی زندگی میں ۔
﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ حال یہ ہے کہ
﴿رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ﴾ ’’آپ کے رب کی رحمت اس
(دنیا) سے بہتر ہے جو یہ اکٹھی کر رہے ہیں۔‘‘
جب بندوں کی معیشت اور ان کا دنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے، اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے تو اس کی رحمت دینی جس میں سب سے اعلیٰ و افضل نبوت اور رسالت ہے، اس چیز کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت سے کسے سرفراز فرمائے۔
پس معلوم ہوا کہ کفار کا اعتراض لغو اور ساقط ہے۔ تمام دینی اور دنیاوی معاملات کی تدبیر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے۔ یہ ان کے اعتراض کی غلطی پر توجہ دلانا ہے، جو ان کے اختیار میں نہیں،
یہ تو محض ان کا ظلم اور حق کو ٹھکرانا ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا: ﴿لَوْلَا نُزِّلَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْ٘قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾ اگر وہ لوگوں کے حقائق اور انسانی صفات کی معرفت رکھتے، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں انسان کی بلند قدرومنزلت اور عظمت کا اندازہ کیا جاتا ہے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلبe، لوگوں میں عظیم ترین قدر و منزلت کے حامل، فخر میں سب سے اعلیٰ، عقل میں سب سے کامل، علم میں سب سے بڑھ کر، رائے اور عزم و حزم میں جلیل ترین، اخلاق میں بہترین، آپ کی رحمت کا دامن وسیع ترین، سب سے زیادہ شفقت رکھنے والے، سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ آپ دائرۂ کمال کے مرکز اور انسانی اوصاف کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں، آگاہ رہو کہ علی الاطلاق آپ ہی مرد کائنات ہیں۔
اس بات کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں، پس یہ مشرکین آپ پر کسی شخص کو کیوں کر فضیلت دے رہے ہیں جس میں ذرہ بھر یہ کمالات نہیں اور اس کے جرم و حمق کی انتہا یہ ہے کہ اس نے پتھر کو اپنا معبود بنا لیا، اس کی عبادت کرتا ہے، مصائب و حاجات میں اس کو پکارتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے، جو اس کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، وہ کچھ عطا کر سکتا ہے نہ کسی چیز سے محروم کر سکتا ہے، وہ سراسر اپنے مالک پر بوجھ ہے اور کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کے مصالح کی دیکھ بھال کرے۔ کیا یہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا فعل نہیں؟ ایسے شخص کو کیوں کر عظیم قرار دیا جا سکتا ہے ؟ یا خاتم المرسلین اور بنی آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیe پر کیوں کر فضیلت دی جاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جنھوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے، سمجھتے ہی نہیں۔
اس آیت کریمہ میں بندوں کی ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ فضیلت میں پنہاں اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے
﴿لِّیَؔتَّؔخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾ ’’تاکہ ایک،
دوسرے سے خدمت لے۔‘‘ یعنی تاکہ وہ کاموں اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے خدمت لیں۔ اگر مال کے لحاظ سے تمام لوگ برابر ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج نہ رہتے اور اس طرح ان کے بہت سے مصالح اور منافع معطل ہو کر رہ جاتے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی نعمت دنیاوی نعمت سے بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿قُ٘لْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْ٘یَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّؔمَّؔا یَجْمَعُوْنَ ﴾ (یونس:10؍؍58) ’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے، اسی پر ان کو خوش ہونا چاہیے یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
{وَلَوْلَا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ (33) وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِئُونَ (34) وَزُخْرُفًا وَإِنْ كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (35)}.
اور اگر نہ ہوتی یہ بات کہ ہو جائیں گے لوگ ایک ہی گروہ
(متفق کفر پر) تو بنا دیتے ہم ان لوگوں کے لیے جو کفر کرتے ہیں ساتھ رحمن کے،
(یعنی ) ان کے گھروں کے لیے چھتیں چاندی سے اور سیڑھیاں
(بھی) جن پر وہ اوپر چڑھتے
(33) اور ان کے گھروں کے لیے دروازے اور تخت بھی، جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں
(34) اور سونے کے بھی، اور نہیں ہے سب کچھ یہ مگر سامان زندگانیٔ دنیا کا اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے
(35)
#
{33 ـ 35} يخبر تعالى بأنَّ الدُّنيا لا تسوى عنده شيئاً، وأنَّه لولا لطفُه ورحمتُه بعباده التي لا يقدم عليها شيئاً؛ لوسَّع الدُّنيا على الذين كفروا توسيعاً عظيماً، ولَجَعَلَ {لبيوتهم سُقُفاً من فضَّة ومعارجَ}؛ أي: درجاً من فضة، {عليها يظهرونَ}: إلى سطوحهم، {ولبيوتِهِم أبواباً وسُرراً عليها يتَّكِئونَ}: من فضَّة، ولجعل لهم {زُخْرفاً}؛ أي: لزخرف لهم دُنياهم بأنواع الزخارف وأعطاهم ما يشتهون، ولكن منعه من ذلك رحمتُه بعباده؛ خوفاً عليهم من التسارع في الكفر وكثرة المعاصي بسبب حبِّ الدُّنيا. ففي هذا دليلٌ على أنَّه يمنع العبادَ بعضَ أمور الدُّنيا منعاً عامًّا أو خاصًّا لمصالحهم، وأنَّ الدُّنيا لا تزن عند الله جناح بعوضة. وأنَّ كلَّ هذه المذكورات متاعُ الحياة الدُّنيا منغصة مكدرة فانية، وأنَّ الآخرة عند الله تعالى خيرٌ للمتَّقين لربِّهم بامتثال أوامره واجتناب نواهيه؛ لأنَّ نعيمَها تامٌّ كاملٌ من كلِّ وجهٍ، وفي الجنة ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين، وهم فيها خالدون. فما أشدَّ الفرقَ بين الدارين!
[35-33] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، اگر اپنے بندوں پر اس کا لطف و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی، جس کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے تو ان لوگوں پر جنھوں نے کفر کیا، دنیا کو بہت زیادہ کشادہ کر دیتا اور بنا دیتا
﴿لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ ﴾ ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں بھی چاندی كى۔
﴿عَلَیْهَا یَظْ٘هَرُوْنَ﴾ جس کے ذریعے سے وہ اپنی چھتوں پر چڑھتے۔
﴿وَلِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابً٘ا وَّسُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّـكِــُٔوْنَ﴾اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت، جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی کے ہوتے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے بنا دیتا
﴿زُخْرُفًا﴾ ’’سونا‘‘ یعنی مختلف انواع کی خوبصورتی کے ذریعے سے ان کی دنیا کو آراستہ کر دیتا اور انھیں وہ سب کچھ عطا کر دیتا جو وہ چاہتے۔ مگر بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے ایسا کرنے سے روک دیا کہ کہیں وہ دنیا کی محبت کے باعث کفر اور کثرت معاصی میں ایک دوسرے پر سبقت نہ کرنے لگیں۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے مصالح کی خاطر، ان کو عام طور پر یا خاص طور پر، بعض دنیاوی امور سے محروم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن نہیں رکھتی، مذکورہ بالا تمام چیزیں، دنیاوی زندگی کی متاع ہیں جو تکدر کی حامل اور فانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آخرت ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کرتے ہیں کیونکہ آخرت کی نعمتیں ہر لحاظ سے کامل ہیں۔ جنت میں ہر وہ چیز مہیا ہو گی جسے نفس چاہتے ہیں، آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ دونوں گھروں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے!
{وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ (36) وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (37) حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَالَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ (38) وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ (39)}
اور جو اندھا ہو جائے
(تغافل کرلے) رحمٰن کے ذکر سے تو مقرر کر دیتے ہیں ہم اس کے لیے ایک شیطان کو، پس وہ اس کا ہم نشین ہو جاتا ہے
(36) اور بلاشبہ وہ البتہ روکتے ہیں ان کو سیدھے راستے سے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ ہدایت پر چلنے والے ہیں
(37) یہاں تک کہ جب آئے گا وہ ہمارے پاس تو کہے گا: اے کاش! ہوتی میرے اور تیرے درمیان دوری مشرق اور مغرب کی، پس بہت برا ہے ہم نشین
(38) اور ہرگز نہ نفع د ے گی تم کو آج، جبکہ ظلم کیا تم نے، یہ بات کہ تم
(سب) عذاب میں شریک ہو
(39)
#
{36} يخبر تعالى عن عقوبَتهِ البليغةِ بمن أعرضَ عن ذكرِهِ، فقال: {ومن يَعْشُ}؛ أي: يعرِضُ ويصدُّ {عن ذِكْرِ الرحمن}: الذي هو القرآنُ العظيمُ، الذي هو أعظم رحمة رحم بها الرحمن عبادَه؛ فمن قَبِلَها؛ فقد قبل خير المواهب، وفاز بأعظم المطالب والرغائب، ومن أعرض عنها وردَّها؛ فقد خاب وخسِرَ خسارةً لا يسعدُ بعدها أبداً، وقيَّض له الرحمن شيطاناً مريداً يقارِنُه ويصاحِبُه ويعِدُه ويمنِّيه ويؤزُّه إلى المعاصي أزًّا.
[36] جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ اس کے لیے سخت سزا کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یَّعْشُ ﴾ یعنی جو منہ موڑتا ہے
﴿عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ ﴾ ’’رحمان کے ذکر سے‘‘ جو قرآن عظیم ہے جو سب سے بڑی رحمت ہے جس کے ذریعے سے اللہ رحمان نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے۔ جو کوئی اس کو قبول کرے وہ بہترین عطیے کو قبول کرتا ہے اور وہ سب سے بڑے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جو کوئی اس رحمت سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دے ، وہ خائب و خاسر ہوتا ہے، اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایک سرکش شیطان مسلط کر دیتا ہے جو اس کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا ہے، اسے امیدیں دلاتا ہے اور اسے گناہوں پر ابھارتا ہے۔
#
{37} {وإنَّهم لَيَصُدُّونهم عن السبيل}؛ أي: الصراط المستقيم والدين القويم، {ويحسَبون أنَّهم مهتدونَ}: بسبب تزيين الشيطانِ للباطل وتحسينِهِ له وإعراضِهِم عن الحقِّ، فاجتمع هذا وهذا. فإن قيل: فهل لهذا من عذرٍ من حيث إنَّه ظنَّ أنَّه مهتدٍ وليس كذلك؟ قيل: لا عذر لهذا وأمثاله الذين مصدرُ جهلهم الإعراضُ عن ذكرِ الله مع تمكُّنهم على الاهتداء، فزهدوا في الهدى مع القدرة عليه، ورغِبوا في الباطل؛ فالذنبُ ذنبُهم والجرم جرمُهم.
[37] ﴿وَاِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ﴾ یعنی وہ انھیں صراط مستقیم اور دین قویم سے روکتے ہیں
﴿وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ شیطان کے باطل کو مزین کرنے ، اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے اور اپنےاعراض کے باعث وہ اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ پس دونوں برائیاں اکٹھی ہو گئیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ آیا اس شخص کے لیے کوئی عذر ہے جو اپنے آپ کو ہدایت یافتہ سمجھتا ہے، حالانکہ وہ ہدایت یافتہ نہیں ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ اس شخص اور اس قسم کے دیگر لوگوں کے لیے کوئی عذر نہیں، جن کی جہالت کا مصدر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی ہے، حالانکہ وہ ہدایت حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے قدرت رکھنے کے باوجود ہدایت سے منہ موڑا اور باطل کی طرف راغب ہوئے، اس لیے یہ گناہ ان کا گناہ اور یہ جرم ان کا جرم ہے۔
#
{38} فهذه حالةُ هذا المعرِض عن ذكرِ الله في الدُّنيا مع قرينه، وهو الضَّلال والغيُّ وانقلاب الحقائق، وأما حاله إذا جاء ربَّه في الآخرة؛ فهو شرُّ الأحوال، وهو الندم والتحسُّر والحزن الذي لا يُجْبَر مصابُه والتبرِّي من قرينه، ولهذا قال تعالى: {حتى إذا جاءنا قال يا ليتَ بيني وبينَكَ بُعْدَ المشرقينِ فبئس القرينُ}؛ كما في قوله تعالى: {ويومَ يَعَضُّ الظالمُ على يديه يقولُ يا ليتني اتَّخذتُ مع الرسولِ سبيلاً. يا ويلتَى ليتني لم أتَّخِذْ فلاناً خليلاً. لقدْ أضَلَّني عن الذِّكْرِ بعد إذ جاءني وكان الشيطانُ للإنسانِ خَذولاً}.
[38] اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرنے والے کا، اپنے ساتھی کی معیت میں یہ حال تو دنیا کے اندر ہے اور وہ گمراہی، بدراہی اور حقائق کو بدلنے کا جرم ہے۔ رہا ۔اس کا وہ حال جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گا، تو وہ بدترین حال ہو گا، ندامت،
حسرت اور حزن و غم کا حال ہو گا جو اس کی مصیبت کی تلافی کر سکے گا نہ اس کے ساتھی سے نجات دلا سکے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰؔلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْ٘مَشْرِقَیْنِ فَ٘بِئْسَ الْ٘قَرِیْنُ ﴾ ’’حتی کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا، اے کاش! مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا،
پس تو برا ساتھی ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۰۰ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَؔكَانَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا ﴾ (الفرقان:25؍27-29) ’’اور اس روز جب ظالم اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور حسرت سے کہے گا، کاش میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، ذکر
( یعنی قرآن) کے آجانے کے بعد، اس نے مجھے گمراہ کر ڈالااور شیطان تو انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔‘‘
#
{39} وقوله تعالى: {ولَن يَنفَعَكُم اليومَ إذ ظلمتُم أنَّكم في العذابِ مشترِكونَ}؛ أي: ولا ينفعكم يوم القيامةِ اشتراكُكم في العذاب أنتم وقرناؤكم وأخلاَّؤكم، وذلك لأنكم اشتركتُم في الظُّلم فاشتركتم في عقابه وعذابِهِ، ولن ينفَعَكم أيضاً روح التسلِّي في المصيبة؛ فإنَّ المصيبة إذا وقعت في الدُّنيا واشترك فيها المعاقَبون؛ هان عليهم بعضُ الهون، وتسلَّى بعضُهم ببعضٍ، وأما مصيبةُ الآخرة؛ فإنَّها جَمَعَتْ كلَّ عقابٍ ما فيه أدنى راحةٍ، حتى ولا هذه الراحة. نسألُك يا ربَّنا العافيةَ وأن تُريحنا برحمتِكَ.
[39] ﴿وَلَ٘نْ یَّنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّـكُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ ﴾ قیامت کے روز تمھارا اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ عذاب میں اشتراک، تمھارے کسی کام نہ آئے گا، چونکہ تم ظلم میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اس لیے اس عذاب میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی ہو۔ مصیبت میں تسلی بھی تمھارے کوئی کام نہ آئے گی۔ کیونکہ جب دنیا میں مصیبت واقع ہوتی ہے اور مصیبت زدگان اس میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی مصیبت قدرے ہلکی ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہیں۔ آخرت کی مصیبت میں تو ہر قسم کی عقوبت جمع ہوگی، اس میں ادنیٰ سی راحت بھی نہ ہو گی۔ یہاں تک کہ یہ دنیاوی راحت بھی نہ ہو گی۔ اے ہمارے رب! ہم تجھ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی رحمت سے راحت عطا کر۔
{أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (40) فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ (41) أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ (42) فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (43) وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ (44) وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (45)}
کیا پس آپ سنا سکتے ہیں بہروں کو یا راہ دکھا سکتے ہیں اندھوں کو اور
(ان کو) جو ہیں صریح گمراہی میں؟
(40) پس اگر ہم لے جائیں آپ کو
(دنیا سے) تو بے شک ہم ان سے بدلہ لینے والے ہیں
(41) یا دکھا دیں ہم آپ کو وہ
(عذاب) جس کا وعدہ کیا ہے ہم نے ان سے، تو بلاشبہ ہم ان پر قدرت رکھنے والے ہیں
(42) پس آپ مضبوطی سے تھام لیں اس چیز کو جو وحی کی گئی آپ کی طرف، بلاشبہ آپ اوپر سیدھے راستے کے ہیں
(43) اور بلاشبہ وہ البتہ ایک نصیحت ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے اور عنقریب تم سوال کیے جاؤ گے
(44) اور پوچھیے
(ان سے) جن کو ہم نے بھیجا آپ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے، کیا بنائے ہم نے سوائے رحمن کے کوئی اور معبود کہ وہ پوجے جائیں؟
(45)
#
{40} يقولُ تعالى لرسولِهِ - صلى الله عليه وسلم - مسلياً له عن امتناع المكذِّبين عن الاستجابة له وأنَّهم لا خيرَ فيهم ولا فيهم زكاءٌ يدعوهم إلى الهدى: {أفأنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ}؛ أي: الذين لا يسمعون، {أو تَهْدي العُمْيَ}: الذين لا يبصرون أو تهدي مَنْ هو {في ضلال مبين}؛ أي: بيِّن واضح لعلمِهِ بضلالِهِ ورضاه به؛ فكما أنَّ الأصمَّ لا يسمعُ الأصوات، والأعمى لا يبصِر، والضالَّ ضلالاً مبيناً لا يهتدي؛ فهؤلاء قد فسدتْ فِطَرُهم وعقولُهم بإعراضهم عن الذِّكر، واستحدثوا عقائدَ فاسدةً وصفاتٍ خبيثةً تمنعهم وتَحولُ بينَهم وبينَ الهُدى، وتوجِبُ لهم الازديادَ من الرَّدى.
[40] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول e کو، اہل تکذیب کے ایمان نہ لانے اور آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنے پر تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے نیز واضح فرماتا ہے کہ ان میں کوئی بھلائی ہے نہ پاکیزگی جو انھیں ہدایت کی طرف بلائے۔
﴿اَفَاَنْتَ تُ٘سْمِعُ الصُّمَّ ﴾ ’’کیا آپ بہرے کو سنا سکتے ہیں۔‘‘ جو سنتے نہیں۔
﴿اَوْ تَهْدِی الْ٘عُمْیَ ﴾ ’’یا اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں؟‘‘ جو دیکھتے نہیں یاکیا آپ اس شخص کی راہ نمائی کر سکتے ہیں
﴿مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ﴾ جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے، کیونکہ وہ اپنی گمراہی اور اس کے بارے میں اپنی پسندیدگی کو خوب جانتا ہے۔ پس جس طرح بہرہ آوازوں کو نہیں سن سکتا اور اندھا دیکھ نہیں سکتا اسی طرح گمراہ شخص جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے ہدایت نہیں پاسکتا۔ قرآن سے ان کی روگردانی کی بنا پر ان کی فطرت اور عقل فاسد ہو گئی اور انھوں نے عقائد فاسدہ گھڑ لیے اور ان میں صفات خبیثہ پیدا ہوگئیں جو انھیں ایمان لانے سے روکتی ہیں اور ان کے اور ہدایت کے درمیان حائل ہیں اور ان کی تباہی میں اضافے کی موجب ہیں۔
#
{41} فهؤلاء لم يبقَ إلاَّ عذابُهم ونَكالُهم إمَّا في الدُّنيا أو في الآخرة، ولهذا قال تعالى: {فإمَّا نَذْهَبَنَّ بك فإنَّا منهم منتَقِمونَ}؛ أي: فإنْ ذهَبْنا بك قبل أن نُرِيَكَ ما نعِدُهم من العذابِ؛ فاعلمْ بخبرنا الصادق أنَّا منهم منتقمون.
[41] اب ان لوگوں کے لیے عذاب اور سزا کے سوا کچھ باقی نہیں اور یہ عذاب انھیں دنیا ہی میں دے دیا جائے گا یا آخرت میں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ﴾ یعنی ہم نے ان کے ساتھ جس عذاب کا وعدہ کیا ہے، آپ کو وہ عذاب دکھانے سے پہلے اگر آپ کو اٹھا لیں تو ہماری سچی خبر کی بنا پر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان سے انتقام لیں گے۔
#
{42} {أو نُرِيَنَّكَ الذي وَعَدْناهم}: من العذاب، {فإنَّا عليهم مقتدرونَ}: ولكن ذلك متوقِّف على اقتضاءِ الحكمة لتعجيلِهِ أو تأخيرِهِ؛ فهذه حالك وحالُ هؤلاء المكذِّبين.
[42] ﴿اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ ﴾ ’’یا تمھیں دکھا دیں
(وہ عذاب) جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے‘‘
﴿فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ ﴾ ’’ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔‘‘ مگر اس عذاب کی تعجیل و تاخیر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تقاضے پر موقوف ہے۔یہ ہے آپ کا حال اور ان مکذبین کا حال۔
#
{43} وأمَّا أنت؛ {فاستمسِكْ بالذي أوحِيَ إليك}: فعلاً واتِّصافاً بما يأمر بالاتِّصاف به، ودعوةً إليه، وحرصاً على تنفيذِهِ بنفسك وفي غيرك. {إنَّك على صراطٍ مستقيم}: موصل إلى اللهِ وإلى دارِ كرامتِهِ، وهذا مما يوجِبُ عليك زيادةَ التمسُّك به والاهتداء، إذا علمتَ أنَّه حقٌّ وعدلٌ وصدقٌ تكون بانياً على أصل أصيل، إذا بنى غيرُكَ على الشكوكِ والأوهام والظُّلم والجَوْر.
[43] سو آپ
﴿فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِیْۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ ﴾ اپنے افعال میں اس چیز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور ان صفات سے متصف ہوں جن سے متصف ہونے کا آپ کو یہ وحی حکم دیتی ہے، اس کی طرف دعوت دیں، اس کو اپنی ذات اور دوسروں پر نافذ کرنے کی خواہش رکھیں۔
﴿اِنَّكَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ بے شک آپ سیدھے راستے پر ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو آپ پر اس سے تمسک کرنے اور اس سے راہ نمائی حاصل کرنے کو اور زیادہ واجب کرتی ہے۔ جب آپ جانتے ہیں کہ یہ حق، عدل اور سچائی ہے تو آپ اسی اصل اصیل پر قائم رہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے شرک، اوہام اور ظلم وجور کو بنیاد بنا رکھا ہے۔
#
{44} {وإنَّه}؛ أي: هذا القرآن الكريم، ذِكْرٌ {لك ولقومِكَ}؛ أي: فخرٌ لكم ومنقبةٌ جليلةٌ ونعمةٌ لا يقادر قدرها ولا يعرف وصفها، ويذكِّرُكم أيضاً ما فيه من الخير الدنيويِّ والأخرويِّ، ويحثُّكم عليه، ويذكِّرُكم الشرَّ ويرهِّبُكم عنه. {وسوف تُسألونَ}: عنه؛ هل قُمتم به فارتفعتُم وانتفعتُم؟ أم لم تقوموا به فيكون حجةً عليكم وكفراً منكم بهذه النعمة؟
[44] ﴿وَاِنَّهٗ﴾ یعنی یہ قرآن کریم
﴿لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ﴾ ’’تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ذکر
(نصیحت) ہے۔‘‘ تم لوگوں کے لیے فخر، منقبت جلیلہ اور ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ اس کے وصف کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ نیز یہ قرآن تمھارے سامنے اس دنیاوی اور اخروی بھلائی کو بیان کرتا ہے جس پر یہ مشتمل ہے اور تمھیں اس کی ترغیب دیتا ہے اور تمھیں برائی کے بارے میں بتاتا اور اس سے ڈراتا ہے
﴿وَسَوْفَ تُ٘سْـَٔلُوْنَ ﴾ ’’اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘ اس کے بارے میں کہ آیا تم نے اس کو قائم کر کے رفعت حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایا، یا تم نے اس کو قائم نہیں کیا تو یہ تمھارے خلاف حجت ہو اور تمھاری طرف سے اس نعمت کی ناسپاسی گردانی جائے؟
#
{45} {واسأل مَنْ أرْسَلْنا من قبلك من رسِلنا أجعلنا من دونِ الرحمن آلهةً يُعْبَدون}: حتى يكون للمشركين نوعُ حجَّةٍ يتَّبِعون فيها أحداً من الرسل؛ فإنَّك لو سألتهم واستخبرت عن أحوالهم؛ لم تجدْ أحداً منهم يدعو إلى اتِّخاذ إلهٍ آخر مع الله، وأنَّ كلَّ الرُّسل من أوَّلهم إلى آخرِهم يدعون إلى عبادةِ الله وحدَه لا شريك له؛ قال تعالى: {ولقد بَعَثْنا في كلِّ أمَّةٍ رسولاً أنِ اعبُدوا الله واجْتَنِبوا الطاغوتَ}، وكلُّ رسول بعثه الله يقولُ لقومه: {اعبُدوا الله ما لَكُم من إلهٍ غيرُه}، فدلَّ هذا أنَّ المشركين ليس لهم مستندٌ في شركهم لا من عقل صحيح ولا نقل عن الرسل.
[45] ﴿وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ ﴾ ’’اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو! جنھیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کیے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے۔‘‘یہاں تک کہ وہ الٰہ مشرکین کے لیے ایک قسم کی حجت بن جاتے جس میں وہ انبیاء و مرسلین میں کسی کی اتباع کرتے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں اور انبیاء و مرسلین کے احوال کی خبر دریافت کریں تو آپ ایک بھی ایسا رسول نہیں پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو معبود بنا لینے کی دعوت دیتا ہو، آپ دیکھیں گے اول سے لے کر آخر تک تمام رسول، اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں ،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُ٘لِّ اُمَّؔةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُ٘وْتَ ﴾ (النحل:16؍36) ’’ہم نے ہر قوم میں ایک رسول مبعوث کیا، جو انھیں دعوت دیتا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘ ہر رسول نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا، اپنی قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ مشرکین کے پاس اپنے شرک پر کوئی دلیل نہیں، عقل صحیح کی رو سے نہ رسولوں کی تعلیمات میں سے نقل صحیح کی رو سے۔
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (46) فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِآيَاتِنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَضْحَكُونَ (47) وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا وَأَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (48) وَقَالُوا يَاأَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ (49) فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (50) وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَاقَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي أَفَلَا تُبْصِرُونَ (51) أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ (52) فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ (53) فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (54) فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (55) فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ (56)}
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے موسیٰ کو ساتھ اپنی نشانیوں کے فرعون اور اس
(کی قوم) کے سرداروں کی طرف،
پس موسیٰ نے کہا: بے شک میں رسول ہوں رب العالمین کا
(46) پس جب آیا وہ ان کے پاس ساتھ ہماری نشانیوں کے تو یکایک وہ ان کی بابت
(مذاق سے) ہنستے تھے
(47) اور نہیں دکھاتے تھے ہم ان کو کوئی نشانی مگر وہ زیادہ بڑی ہوتی تھی اس جیسی
(پہلی نشانی) سے، اور پکڑا ہم نے ان کو ساتھ عذاب کے تاکہ وہ رجوع کریں
(48) اور کہا انھوں نے، اے جادوگر! دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے ساتھ اس
(عہد) کے جو عہد کیا ہے اس نے تجھ سے، بے شک ہم ضرور ہدایت پانے والے ہیں
(49) پس جب ہٹا لیتے ہم ان سے عذاب تو اسی وقت وہ عہد توڑ دیتے
(50) اور پکارا فرعون نے اپنی قوم میں،
(اور) کہا: اے میری قوم! کیا نہیں ہے میرے لیے بادشاہی مصر کی اور یہ نہریں جو چلتی ہیں میرے
(محل کے) نیچے سے؟ کیا پس نہیں دیکھتے تم؟
(51)بلکہ میں بہتر ہوں اس
(موسیٰ) سے، کہ جو ایک کم تر ہے اور نہیں قریب کہ وہ واضح بات کر سکے
(52) پس کیوں نہیں ڈالے گئے اس پر کنگن سونے کے یا آتے اس کےساتھ فرشتے جمع ہو کر
(53) پس ہلکا کر دیا اس نے اپنی قوم
(کی عقل) کو، سو انھوں نے اطاعت کی اس کی، بلاشبہ تھے وہی لوگ نافرمانی کرنے والے
(54) پس جب غصہ دلایا انھوں نے ہمیں تو بدلہ لیا ہم نے ان سے اور غرق کر دیا ہم نے ان سب کو
(55) پس کر دیا ہم نے ان کو گئے گزرے اور
(عبرت کی) مثال پچھلوں کے لیے
(56)
#
{46} لما قال تعالى: {واسألْ مَنْ أرسلْنا من قبلك من رسلنا أجَعَلْنا من دونِ الرحمن آلهةً يُعْبَدون}؛ بيَّن تعالى حالَ موسى ودعوتَهُ التي هي أشهرُ ما يكونُ من دَعَوات الرسل، ولأنَّ الله تعالى أكثر من ذِكْرِها في كتابه، فذكر حالَه مع فرعون [فقال]: {ولقد أرْسَلْنا موسى بآياتنا}: التي دلَّت دلالةً قاطعةً على صحَّة ما جاء به؛ كالعصا والحية وإرسال الجراد والقمَّل ... إلى آخر الآيات، {إلى فرعون وملئِهِ فقال إنِّي رسولُ ربِّ العالمين}: فدعاهم إلى الإقرار بربِّهم، ونهاهم عن عبادةِ ما سواه.
[46] جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ ﴾ (الزخرف 45/43)تو حضرت موسیٰp اور ان کی دعوت کا ذکر فرمایا، جو انبیاء و مرسلین کی دعوت میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے، نیز اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا سب سے زیادہ ذکر کیا ہے،
پس اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ کا حال بیان فرمایا: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰؔى بِاٰیٰتِنَاۤ﴾ ’’ہم نے موسیٰ
(u) کو نشانیاں دے کر بھیجا۔‘‘ جو قطعی طور پر دلالت کرتی ہیں کہ جو چیز حضرت موسیٰu لے کر آئے ہیں وہ صحیح ہے،
مثلاً: عصا، سانپ، ٹدی دل بھیجنا ، جوئیں پڑنا اور دیگر تمام آیات و معجزات وغیرہ۔
﴿اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’فرعون کی طرف اور اس کے سرداروں کی طرف۔ پس انہوں نے کہا، میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔‘‘ سو حضرت موسیٰu نے ان کو اپنے رب کے اقرار کی دعوت دی اور انھیں غیراللہ کی عبادت سے روکا۔
#
{47 ـ 48} {فلمَّا جاءهم بآياتِنا إذا هم منها يضحَكونَ}؛ أي: ردُّوها وأنكروها واستهزؤوا بها ظلماً وعلوًّا، فلم يكنْ لقصورٍ بالآيات وعدم وضوح فيها، ولهذا قال: {وما نُريهم من آيةٍ إلاَّ هي أكبرُ من أختِها}؛ أي: الآيةُ المتأخرةُ أعظم من السابقة، {وأخذناهم بالعذاب}: كالجراد والقمل والضفادع والدَّم آياتٍ مفصلاتٍ، {لعلَّهم يرجِعون}: إلى الإسلام ويُذْعِنون له؛ ليزولَ شركهم وشرُّهم.
[47، 48] ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّؔنْهَا یَضْحَكُوْنَ ﴾ ’’پس جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آئے تو وہ نشانیوں سے مذاق کرنے لگے۔‘‘ یعنی انھوں نے ان آیات کا انکار کر کے ان کو ٹھکرا دیا اور ظلم و تکبر سے ان کا تمسخر اڑایا۔
یہ سب کچھ آیات اور نشانیوں میں کسی کمی اور ان میں عدم وضوح کی وجہ سے نہ تھا اس لیے فرمایا
﴿وَمَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا ﴾ ’’ہم انھیں جو نشانی دکھاتے تووہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر ہوتی۔‘‘ یعنی بعد والی نشانیاں گزشتہ نشانیوں سے بڑی تھیں۔
﴿وَاَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ ﴾ ’’اور ہم نے انھیں عذاب میں پکڑا۔‘‘ مثلاً: ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون جیسی مفصل نشانیوں کے ساتھ ہم نے ان کو پکڑا۔
﴿لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ شاید کہ وہ اسلام کی طرف لوٹیں اور اس کی اطاعت کریں تاکہ ان کا شرک اور شر زائل ہو۔
#
{49} {وقالوا} عندما نزل عليهم العذاب: {يا أيُّها الساحرُ}: يعنون: موسى عليه السلام، وهذا إمَّا من باب التهكُّم به، وإمَّا أن يكون هذا الخطاب عندهم مدحاً، فتضرَّعوا إليه بأن خاطبوه بما يخاطبون به مَنْ يزعُمون أنَّهم علماؤهم، وهم السحرة، فقالوا: {يا أيها الساحرُ ادعُ لنا ربَّك بما عَهِدَ عندك}؛ أي: بما خصَّك الله به وفضَّلك به من الفضائل والمناقب أن يكشفَ عنَّا العذاب، {إنَّنا لمهتدونَ}: إنْ كشف الله عنَّا ذلك.
[49] ﴿وَقَالُوْا ﴾ یعنی ان پر عذاب نازل ہوتا تو کہتے
﴿یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ﴾ ’’اے جادوگر!‘‘ اس سے ان کی مراد موسیٰu تھے، ان کا یہ طرز خطاب یا تو استہزا و تمسخر کے باب سے تھا یا یہ خطاب ان کے ہاں مدح تھا،
پس انھوں نے عاجز آ کر موسیٰu کو ایسے خطاب کے ساتھ مخاطب کیا جس کے ساتھ وہ ایسے لوگوں کو خطاب کرتے تھے جن کو وہ اہل علم سمجھتے تھے۔ پس وہ کہنے لگے: ﴿یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ﴾ ’’اے جادوگر! اس عہد کے مطابق جو تیرے رب نے تجھ سے کررکھا ہے اس سے دعا کر۔‘‘ یعنی جس چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تجھے خصوصیت بخشی اور فضائل و مناقب عطا کیے، اس کے ذریعے سے دعا کر کہ اللہ ہم سے عذاب کو دور کر دے۔
﴿اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ ﴾ اگر اللہ نے ہم سے عذاب کو ہٹا دیا تو ہم راہ راست اختیار کر لیں گے۔
#
{50} {فلمَّا كَشَفْنا عنهم العذابَ إذا هم ينكُثون}؛ أي: لم يفوا بما قالوا، بل غدروا، واستمرُّوا على كفرهم، وهذا كقولِهِ تعالى: {فأرسَلْنا عليهم الطُّوفان والجرادَ والقمَّلَ والضفادع والدَّم آياتٍ مفصَّلات فاستكبروا وكانوا قوماً مجرِمين}، ولما وقع عليهم الرجزُ؛ قالوا: {يا موسى ادعُ لنا رَبَّكَ بما عهدَ عندك لئنْ كَشَفْتَ عنَّا الرجزَ لنؤمننَّ لك ولنرسلنَّ معك بني إسرائيلَ. فلمَّا كَشَفْنا عنهم الرِّجْزَ إلى أجل هم بالغوه إذا هم ينكُثونَ}.
[50] ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِذَا هُمْ یَنْكُ٘ثُوْنَ ﴾ ’’پس جب ہم نے ان سے عذاب دور کردیا،
تو انھوں نے قول وقرار توڑ دیا۔‘‘ یعنی انھوں نے جو عہد کیا تھا اسے پورا نہ کیا بلکہ عہد کو توڑ ڈالا اور اپنے کفر پر جمے رہے۔ ان کا یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْ٘قُ٘مَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰ٘تٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ۰۰ وَلَمَّا وَقَ٘عَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّ٘كَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ١ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَ٘نَّ لَكَ وَلَـنُرْسِلَ٘نَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ۰۰ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ ﴾ (الاعراف: 7؍133-135) ’’پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ان پر ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک بھیجے اور ان پر خون برسایا یہ سب الگ الگ نشانیاں دکھائیں،
مگر انھوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔ جب کبھی ان پر عذاب نازل ہوتا تو کہتے: اے موسیٰ! تجھ سے تیرے رب نے وعدہ کیا ہے اس بنا پر ہمارے لیے دعا مانگ اگر تو ہم سے عذاب ہٹا دے تو ہم تجھ پرایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ جب ہم نے ان سے عذاب کو ایک وقت مقررہ تک کے لیے، جس کو وہ پہنچنے والے تھے، ٹال دیا تو وہ اپنے عہد سے پھر گئے۔‘‘
#
{51} {ونادى فرعونُ في قومه قال}: مستعلياً بباطلِهِ قد غرَّه مُلكه وأطغاه مالُه وجنودُه: {يا قوم أليس لي ملكُ مصرَ}؛ أي: ألست المالك لذلك المتصرف فيه؟ {وهذه الأنهار تجري من تحتي}؛ أي: الأنهار المنسحبة من النيل في وسط القصور والبساتين. {أفلا تبصِرونَ}: هذا الملكَ الطويلَ العريض؟! وهذا من جهله البليغ؛ حيث افتخر بأمرٍ خارج عن ذاته، ولم يفخرْ بأوصافٍ حميدةٍ، ولا أفعال سديدةٍ.
[51] ﴿وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ ﴾ ’’اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا۔‘‘ یعنی اپنے باطل موقف کی بنا پر تکبر کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اس کے اقتدار نے اس کو فریب میں مبتلا کردیا تھا اور اس کے مال اور لشکروں نے اس کو سرکش بنا دیا تھا۔
﴿یٰقَوْمِ اَلَ٘یْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ ﴾ یعنی کیا میں ملک مصر کا مالک اور اس میں تصرف کرنے والا نہیں۔
﴿وَهٰؔذِهِ الْاَنْ٘هٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ﴾ ’’اور یہ نہریں میرے نیچے چلتی ہیں۔‘‘ یعنی یہ نہریں جو دریائے نیل میں سے نکل کر محلات اور باغات میں سے ہو کر بہہ رہی ہیں۔
﴿اَفَلَا تُ٘بْصِرُوْنَ﴾ کیا تم اس وسیع و عریض سلطنت کو دیکھتے نہیں؟ یہ اس کی بے انتہا جہالت کے سبب سے تھا کیونکہ اس نے اوصاف حمیدہ اور افعال سدیدہ کی بجائے ایسے معاملے پر فخر کا اظہار کیا جو اس کی ذات سے خارج تھا۔
#
{52} {أم أنا خيرٌ من هذا الذي هو مَهينٌ}؛ يعني قبَّحه الله بالمَهينِ موسى بن عمران كليم الرحمن الوجيه عند الله؛ أي: أنا العزيز وهو الذَّليل المهان المحتقر؛ فأَيُّنا خيرٌ؟! {و} مع هذا؛ فلا {يكادُ يُبينُ} عما في ضميرِهِ بالكلام؛ لأنَّه ليس بفصيح اللسان، وهذا ليس من العيوب في شيءٍ، إذا كان يُبين ما في قلبِهِ، ولو كان ثقيلاً عليه الكلام.
[52] ﴿اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰؔذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ ﴾ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے، حقیر سے اس کی مراد رحمان کے کلیم اور بلند مرتبہ ہستی موسیٰ بن عمرانp تھے۔ یعنی میں غالب اور قوت والا ہوں اور موسیٰ نہایت ذلیل اور حقیر، تب ہم میں سے کون بہتر ہے۔
﴿وَّ ﴾ ’’اور۔‘‘ بایں ہمہ
﴿لَا یَكَادُ یُبِیْنُ ﴾ موسیٰ اپنے مافی الضمیر کا گفتگو کے ذریعے سے اظہار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ فصیح اللسان نہیں ہے… مگر یہ کوئی عیب نہیں، جبکہ وہ اپنے مافی القلب کو واضح کر سکتا ہو خواہ بولنا اس کے لیے بوجھل ہی کیوں نہ ہو۔
#
{53} ثم قال فرعونُ: {فلولا ألْقِيَ عليه أسورةٌ من ذهبٍ}؛ أي: فهلاَّ كان موسى بهذه الحالة: أن يكون مزيناً مجملاً بالحُلِيِّ والأساور، {أو جاء معه الملائكة مقترنين}: يعاونونه على دعوته ويؤيِّدونه على قوله.
[53] پھر فرعون نے کہا:
﴿فَلَوْلَاۤ اُلْ٘قِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ ﴾ ’’پس اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں آپڑے۔‘‘ کہ اس کی یہ حالت ہوتی کہ وہ کنگن اور زیور سے آراستہ ہوتا۔
﴿اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ ﴾ یا فرشتے اس کے پکارنے پر، اس کی مدد کرتے اور اس کی بات کی تائید کرتے۔
#
{54} {فاستخفَّ قومَه فأطاعوه}؛ أي: استخفَّ عقولَهم بما أبدى لهم من هذه الشُّبه، التي لا تسمن ولا تغني من جوع، ولا حقيقة تحتها، وليست دليلاً على حقٍّ ولا على باطل، ولا تروج إلاَّ على ضعفاء العقول؛ فأيُّ دليل يدلُّ على أن فرعون محقٌّ لكون ملك مصرَ له وأنهاره تجري من تحته؟! وأيُّ دليل يدلُّ على بطلان ما جاء به موسى لقلَّة أتباعِهِ وثقل لسانِهِ وعدم تحليةِ الله له؟! ولكنَّه لقي ملأ لا معقول عندَهم؛ فمهما قال؛ اتَّبعوه؛ من حقٍّ وباطل. {إنَّهم كانوا قوماً فاسقينَ}: فبسبب فسقِهِم قيَّض لهم فرعونَ، يزيِّن لهم الشركَ والشرَّ.
[54] ﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ﴾ یعنی فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کی عقل کو حقیر جانا اور یوں اس نے ان کے سامنے ان شبہات کا اظہار کیا جن کا کوئی فائدہ اور ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ شبہات حق پر دلالت کرتے تھے نہ باطل پر۔ یہ صرف کم عقل لوگوں ہی کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مصر پر فرعون کے اقتدار اور اس کے محلات میں نہروں کے بہنے میں، اس کے برحق ہونے کی کون سی دلیل ہے؟ موسیٰu کی زبان کی ثقالت، ان کے متبعین کی قلت اور ان کو ان کی والدہ کی طرف سے سونے کے کنگنوں سے آراستہ نہ کرنے میں ان کی دعوت کے بطلان کی کون سی دلیل ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ فرعون کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا جو معقولات سے بے بہرہ تھے، فرعون حق یا باطل جو کچھ بھی کہتا تھا وہ بے چون و چرا اسے مان لیتے تھے۔
﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔‘‘ پس ان کے فسق کے سبب سے، ان پر فرعون کو مسلط کر دیا گیا جو ان کے سامنے شرک اور شر کو مزین کرتا تھا۔
#
{55 ـ 56} {فلمَّا آسفونا}؛ أي: أغضبونا بأفعالهم، {انتَقَمْنا منهم فأغْرَقْناهم أجمعين. فجعلناهم سَلَفاً ومثلاً للآخرين}: ليعتبر بهم المعتبرونَ، ويتَّعِظَ بأحوالهم المتَّعظون.
[55، 56] ﴿فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا ﴾ یعنی جب انھوں نے اپنی بداعمالیوں کے ذریعے سے ہمیں ناراض کر دیا۔
﴿انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْ٘رَقْنٰهُمْ۠ اَجْمَعِیْنَۙ۰۰ فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّمَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ ﴾ ’’ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کردیا۔ اور ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لیے عبرت بنا دیا۔‘‘ تاکہ ان کے احوال سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والے نصیحت حاصل کریں۔
{وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (57) وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ (58) إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ (59) وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ (60) وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (61) وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (62) وَلَمَّا جَاءَ عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (63) إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (64) فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ (65)}.
اور جب بیان کی گئی ابن مریم کی مثال تو یکایک آپ کی قوم اس سے چلاتی ہے
(خوشی سے) (57) اور انھوں نے کہا، کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ
(عیسٰی)؟ نہیں بیان کی انھوں نے آپ کے لیے یہ مثال مگر جھگڑنے کے لیے، بلکہ وہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو
(58) نہیں ہے وہ
(عیسیٰ) مگر ایک ایسا بندہ کہ انعام کیا ہم نے اس پر اور بنا دیا ہم نے اس کو ایک نمونہ واسطے بنو اسرائیل کے
(59) اور اگر چاہتے ہم تو البتہ کر دیتے ہم تم میں سے فرشتے زمین میں، وہ جانشین ہوتے
(60) اور بے شک وہ البتہ ایک نشانی ہے واسطے قیامت کے، پس نہ ہرگز شک کرو تم اس
(کے آنے) میں اور پیروی کرو تم میری، یہی ہے راستہ سیدھا
(61) اور نہ روک دے تم کو شیطان، بلاشبہ وہ تمھارا دشمن ہے صریح
(62) اور جب آیا عیسٰی ساتھ واضح دلائل کے تواس نے کہا :تحقیق آیا ہوں میں تمھارے پاس ساتھ حکمت کے اور تاکہ واضح کروں میں تمھارے لیے بعض وہ باتیں کہ اختلاف کرتے ہو تم اس میں، پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری
(63) بلاشبہ اللہ، وہ رب ہے میرا اور رب ہے تمھارا، پس تم
(سب) اسی کی عبادت کرو، یہی ہے راستہ سیدھا
(64) پس
(ایک دوسرے سے) اختلاف کیا گروہوں نے
(جو پیدا ہوئے)ان کے درمیان ہی میں سے، پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ظلم کیا، عذاب سے ایک دردناک دن کے
(65)
#
{57} يقول تعالى: {ولما ضُرِبَ ابنُ مريم مثلاً}؛ أي: نُهي عن عبادته وجُعلت عبادتُه بمنزلة عبادة الأصنام والأنداد، {إذا قومُك}: المكذِّبون لك {منه}؛ أي: من أجل هذا المثل المضروب، {يَصُدُّون}؛ أي: يستلجُّون في خصومتهم لك ويصيحون ويزعُمون أنَّهم قد غَلَبوا في حجَّتهم وأفلجوا.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا ﴾ ’’اور جب مریم کے بیٹے کی مثال بیان کی گئی ۔‘‘ یعنی جب ابن مریم کی عبادت سے منع کیا گیا اور اس کی عبادت کو بتوں کی عبادت قرار دیا گیا۔
﴿اِذَا قَوْمُكَ ﴾ ’’تو آپ کی قوم‘‘ یعنی جو آپ کو جھٹلانے والے ہیں۔
﴿مِنْهُ ﴾ یعنی اس ضرب المثل کی وجہ سے
﴿یَصِدُّوْنَ﴾ آپ کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں، چیختے چلاتے اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے دلیل کے ذریعے سے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
#
{58} {وقالوا أآلهتنُا خيرٌ أم هو}؛ يعني: عيسى؛ حيث نُهي عن عبادة الجميع، وشورك بينهم بالوعيد على من عَبَدهم، ونزل أيضاً قوله تعالى: {إنَّكم وما تَعْبُدونَ من دونِ الله حَصَبُ جهنَّمَ أنتُم لها وارِدونَ}. ووجه حجَّتهم الظالمة أنَّهم قالوا: قد تقرَّر عندنا وعندك يا محمدُ أنَّ عيسى من عبادِ الله المقرَّبين الذين لهم العاقبة الحسنة؛ فَلِمَ سوَّيْت بينه وبينها في النهي عن عبادة الجميع؟! فلولا أن حجَّتك باطلةٌ؛ لم تتناقضْ؟! ولم قلت: {إنَّكم وما تعبُدون من دون الله حَصَبُ جهنَّم أنتم لها وارِدونَ}؟! وهذا اللفظ بزعمهم يعمُّ الأصنام وعيسى؛ فهل هذا إلاَّ تناقضٌ؟ وتناقضُ الحجَّة دليلٌ على بطلانها! هذا أنهى ما يقررون به هذه الشبهة الذين فرحوا بها واستبشروا وجعلوا يصدُّون ويتباشرون. وهي ـ ولله الحمدُ ـ من أضعف الشُّبه وأبطلها؛ فإنَّ تسوية الله بين النهي عن عبادة المسيح وبين النهي عن عبادة الأصنام؛ لأنَّ العبادة حقٌّ لله تعالى، لا يستحقُّها أحدٌ من الخلق لا الملائكة المقرَّبون ولا الأنبياء المرسلون ولا من سواهم من الخلق؛ فأيُّ شبهةٍ في تسوية النهي عن عبادة عيسى وغيره؟!
[58] ﴿وَقَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَ ﴾ ’’اور کہنے لگے: کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا یہ؟‘‘ یعنی عیسیٰ
(u) کیونکہ تمام خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے اور ان سب کو جن کی یہ عبادت کرتے ہیں وعید میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا ہے:
﴿اِنَّـكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ﴾ (الانبیاء:21؍98) ’’تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، سب جہنم کا ایندھن ہو۔ اور تم سب اس میں داخل ہوکر رہو گے۔‘‘ ان کی اس بے موقع دلیل کی توجیہ یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ اے محمد
(e) !تمھارے نزدیک اور ہمارے نزدیک یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عیسیٰu اللہ تعالیٰ کے ان مقرب بندوں میں سے ہیں جن کا انجام بہت اچھا ہے ، پھر تو نے عیسیٰu اور ہمارے معبودوں کو ان کی عبادت کی ممانعت میں برابر کیوں کر قرار دے دیا؟
اگر تیری دلیل باطل نہ ہوتی تو اس میں کوئی تناقض نہ ہوتا اور تو نے یہ کیوں کہا: ﴿اِنَّـكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ﴾ (الانبياء: 98/21)ان کے زعم کے مطابق یہ حکم عیسیٰu اور تمام بتوں کو شامل ہے۔ تب کیا یہ تناقض نہیں؟ اور دلیل کا تناقض دلیل کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔
یہ بعید ترین دلیل ہے جس کے ذریعے سے لوگ اس شبہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر یہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شور مچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے ہیں، حالانکہ یہ شبہ...الحمدللّٰہ… کمزور ترین اور باطل ترین شبہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحu کی عبادت کی ممانعت اور بتوں کی عبادت کی ممانعت کو مساوی قرار دیا ہے اور چونکہ عبادت اللہ تعالیٰ کا حق ہے، مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے، انبیاء و مرسلین اور دیگر کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، اس لیے عیسیٰu کی عبادت کی ممانعت اور دیگر خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی ممانعت کے مساوی ہونے میں کون سا شبہ ہے؟
#
{59} وليس تفضيل عيسى [عليه] السلام وكونِهِ مقرّباً عند ربِّه ما يدلُّ على الفرق بينَه وبينَها في هذا الموضع، وإنَّما هو كما قال تعالى: {إنْ هو إلاَّ عبدٌ أنْعَمْنا عليه}: بالنبوَّة والحكمة والعلم والعمل، {وجَعَلْناه مثلاً لبني إسرائيل}: يعرِفون به قدرةَ الله تعالى على إيجادِهِ من دون أبٍ. وأمَّا قوله تعالى: {إنَّكم وما تعبدونَ من دونِ الله حَصَبُ جهنَّم أنتم لها واردونَ}؛ فالجواب عنها من ثلاثة أوجه: أحدها: أنَّ قوله: {إنَّكم وما تعبُدونَ من دونِ الله} أنَّ {ما} اسمٌ لما لا يعقل لا يدخل فيه المسيح ونحوه. الثاني: أنَّ الخطاب للمشركين الذين بمكَّة وما حولها، وهم إنَّما يعبدون أصناماً وأوثاناً ولا يعبدون المسيح. الثالث: أنَّ الله قال بعد هذه الآية: {إنَّ الذين سبقتْ لهم منَّا الحُسنى أولئك عنها مبعَدونَ}؛ فلا شكَّ أن عيسى وغيره من الأنبياء والأولياء داخلونَ في هذه الآية.
[59] اس مقام پر عیسیٰu کی فضیلت اور آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کی عبادت اور بتوں کی عبادت کی حرمت میں کوئی فرق ہے۔ حضرت عیسیٰu کی حیثیت تو وہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ ﴾ ’’وہ تو ہمارے ایک بندے ہیں جن پر ہم نے انعام کیا۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں نبوت و حکمت اور علم و عمل کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
﴿وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کے لیے انھیں ایک نمونہ بنادیا۔‘‘ ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل نے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو باپ کے بغیر بھی وجود میں لانے کی قدرت رکھتا ہے۔رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد
﴿اِنَّـكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ﴾ (الانبیاء: 21؍98) تو اس کا جواب تین طرح سے دیا جاتا ہے:
اول:
﴿اِنَّـكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ میں ’’ما‘‘ غیر ذی عقل کے لیے استعمال ہوا ہے،
اس میں حضرت مسیحu داخل نہیں ہیں۔
ثانی: یہ خطاب مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والے مشرکین سے ہے،
جو بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔
ثالث: اس آیت کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّؔنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جن کے لیے پہلے ہی سے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہو چکا ہے، وہ اس جہنم سے دور کھے جائیں گے۔‘‘ بلاشبہ عیسیٰ u ، انبیاء و مرسلینo اور اولیاء اللہ Sاس آیت کریمہ میں داخل ہیں۔
#
{60} ثم قال تعالى: {ولو نشاءُ لَجَعَلْنا منكم ملائكةً في الأرض يخلُفون}؛ أي: لجعلنا بَدَلَكم ملائكةً يخلُفونكم في الأرض، ويكونون في الأرض حتى نرسل إليهم ملائكةً من جنسهم، وأما أنتم يا معشرَ البشر؛ فلا تطيقونَ أن ترسل إليكم الملائكةُ؛ فمن رحمة الله بكم أن أرسلَ إليكم رُسُلاً من جنسكم تتمكَّنون من الأخذ عنهم.
[60] اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓىِٕكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ ﴾ یعنی اگر ہم چاہتے تو تمھاری جگہ فرشتوں کو مقرر کر دیتے جو زمین میں تمھاری جانشینی کرتے اور زمین میں رہتے حتی کہ ہم فرشتوں کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجتے۔ اے نوع بشری! تم یہ طاقت نہیں رکھتے کہ فرشتوں کو رسول بنا کر تمھاری طرف مبعوث کیا جائے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ اس نے تمھاری جنس ہی سے تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا جس سے سیکھنے کی تم طاقت رکھتے ہو۔
#
{61} {وإنَّه لَعِلْمٌ للساعة}؛ أي: وإنَّ عيسى عليه السلام لدليلٌ على الساعة، وأنَّ القادر على إيجادِهِ من أمٍّ بلا أبٍ قادرٌ على بعثِ الموتى من قبورِهم، أو: وإنَّ عيسى عليه السلام سينزلُ في آخر الزمان ويكونُ نزولُه علامةً من علامات الساعة، {فلا تَمْتَرُنَّ بها}؛ أي: لا تشكُّنَّ في قيام الساعة؛ فإنَّ الشكَّ فيها كفر، {واتَّبعونِ}: بامتثال ما أمرتُكم واجتنابِ ما نهيتُكم، {هذا صراطٌ مستقيمٌ}: موصلٌ إلى الله عزَّ وجلَّ.
[61] ﴿وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ﴾ ’’اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔‘‘ یعنی حضرت عیسیٰu کا وجود قیامت کی دلیل ہے۔ وہ ہستی جو حضرت عیسیٰu کو بغیر باپ کے وجود میں لانے پر قادر ہے، وہ مردوں کو ان کی قبروں میں سے دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت بھی رکھتی ہے… یا اس بات کی دلیل ہے کہ عیسیٰu آخری زمانے میں نازل ہوں گے اور ان کا نزول قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔
﴿فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا ﴾ یعنی قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں شک نہ کرو، اس کے بارے میں شک کرنا کفر ہے۔
﴿وَاتَّبِعُوْنِ﴾ اور جو میں نے تمھیں حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرو اور جس سے روکا ہے اس سے اجتناب کرو۔
﴿هٰؔذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾ ’’یہی سیدھا راستہ ہے ۔‘‘جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔
#
{62} {ولا يَصُدَّنَّكُمُ الشيطانُ}: عما أمركم الله به؛ فإنَّ الشيطانَ {لكم عدوٌّ مبينٌ}: حريصٌ على إغوائكم، باذلٌ جهدَه في ذلك.
[62] ﴿وَلَا یَصُدَّنَّـكُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ ﴾ اور شیطان تمھیں اس چیز سے نہ روک دے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے۔ بے شک شیطان
﴿لَكُمْ عَدُوٌّ ﴾ ’’تمھارا دشمن ہے۔‘‘ وہ تمھیں گمراہ کرنے کا حریص ہے اور اس بارے میں وہ پوری جدوجہد کر رہا ہے۔
#
{63} {ولمَّا جاء عيسى بالبيِّناتِ}: الدالَّة على صدق نبوَّته وصحَّة ما جاءهم به من إحياء الموتى وإبراء الأكمه والأبرص ونحو ذلك من الآيات، {قال}: لبني إسرائيل: {قد جئتُكم بالحكمةِ}: النبوَّة والعلم بما ينبغي على الوجه الذي ينبغي، {ولأبيِّنَ لكم بعضَ الذي تختلفون فيه}؛ أي: أبين لكم صوابَه وجوابَه، فيزول عنكم بذلك اللبس، فجاء عليه السلام مكمِّلاً ومتمِّماً لشريعة موسى عليه السلام ولأحكام التوراة، وأتى ببعض التسهيلاتِ الموجبة للانقياد له وقَبول ما جاءهم به. {فاتَّقوا الله وأطيعونِ}؛ أي: اعبدوا الله وحدَه لا شريك له، وامتثلوا أمره، واجتنبوا نهيَه، وآمنوا بي، وصدِّقوني، وأطيعون.
[63] ﴿وَلَمَّا جَآءَ عِیْسٰؔى بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ جب حضرت عیسیٰ u وہ دلائل لے کر آئے جو ان کی نبوت کی صداقت اور ان کی دعوت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے تھے،
مثلاً: مردوں کو زندہ کرنا، مادرزاد اندھے اور برص زدہ کو شفایاب کرنا اور دیگر معجزات
﴿قَالَ ﴾ تو عیسیٰu نے بنی اسرائیل سے فرمایا:
﴿قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ ﴾ میں تمھارے پاس نبوت اور ان امور کا علم لے کر آیا ہوں جس کا علم تمھیں ہونا چاہیے اور اس طریقے سے ہونا چاہیے جو مناسب ہے۔
﴿وَلِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ ﴾ یعنی تاکہ میں تمھارے سامنے تمھارے اختلافات میں راہ صواب اور جواب واضح کر دوں اور اس طرح تمھارے شکوک و شبہات زائل ہو جائیں۔ پس عیسیٰu شریعت موسوی اور احکام تورات کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، آپ بعض آسانیاں لے کر آئے جو آپ کی اطاعت اور آپ کی دعوت کو قبول کرنے کی موجب تھیں۔
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ ’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرو، مجھ پر ایمان لاؤ ، میری تصدیق اور میری اطاعت کرو۔
#
{64} {إنَّ الله هو ربِّي وربُّكم فاعبُدوه هذا صراطٌ مستقيمٌ}: ففيه الإقرارُ بتوحيدِ الرُّبوبيَّة بأنَّ الله هو المربِّي جميع خلقه بأنواع النِّعم الظاهرة والباطنة، والإقرارُ بتوحيد العبوديَّة بالأمر بعبادة الله وحدَه لا شريك له، وإخبار عيسى عليه السلام أنَّه عبدٌ من عباد الله، ليس كما قال النصارى فيه: إنَّه ابنُ الله أو ثالثُ ثلاثة، والإخبارُ بأنَّ هذا المذكور صراطٌ مستقيمٌ موصلٌ إلى الله وإلى جنَّته.
[64] ﴿اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰؔذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ﴾ ’’یقیناً اللہ میرا رب بھی ہے اور تمھارا بھی، لہٰذا اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔‘‘اس آیت کریمہ میں توحید ربوبیت کا اقرار ہے، اللہ تعالیٰ مختلف انواع کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی تربیت کرتا ہے۔ نیز توحید عبودیت کا اقرار ہے یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور عیسیٰu کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ وہ بھی اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے ہیں۔ ’’وہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا یا تین میں سے تیسرا‘‘ نہیں ہیں جیسا کہ نصاریٰ کا خیال ہے اور یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ یہی راستہ سیدھا راستہ ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت تک پہنچاتا ہے۔
#
{65} فلما جاءهم عيسى عليه السلام بهذا، {اختلف الأحزابُ}: المتحزِّبون على التكذيب، {من بينِهِم}: كلٌّ قال بعيسى عليه السلام مقالةً باطلةً وردَّ ما جاء به؛ إلاَّ من هدى الله من المؤمنين، الذين شهدوا له بالرسالة، وصدَّقوا بكل ما جاء به، وقالوا: إنَّه عبدُ الله ورسوله. {فويلٌ للذين ظلموا [من عذاب يوم أليم]}؛ أي: ما أشدَّ حزن الظالمين! وما أعظم خسارَهم في ذلك اليوم!
[65] جب حضرت عیسیٰu یہ دعوت لے کر ان کے پاس آئے
﴿فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ ﴾ تو آپ کی تکذیب پر گروہ بندی کرنے والوں نے اختلاف کیا
﴿مِنْۢ بَیْنِهِمْ﴾ ان میں سے ہر گروہ نے حضرت عیسیٰu کے بارے میں باطل بات کہی اور جو کچھ آپ لے کر آئے تھے اسے رد کر دیا، سوائے مومنین کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا، جنھوں نے رسالت کی گواہی دی اور ہر اس چیز کی تصدیق کی جو آپ لے کر آئے تھے اور کہا کہ عیسیٰu اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔
﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ ﴾ ’’پس ظالموں کے لیے ہلاکت ہے دردناک عذاب والے دن سے۔‘‘ ظالموں کو کتنا شدید حزن و غم ہو گا، اس روز انھیں کتنے بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
{هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (66) الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (67) يَاعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (68) الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ (69) ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ (70) يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (71) وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (72) لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا تَأْكُلُونَ (73)}
نہیں انتظار کرتے وہ مگر قیامت کا کہ آجائے ان کے پاس اچانک، اور انھیں شعور تک نہ ہو
(66) (سب) دوست اس دن، بعض ان کے واسطے بعض کے دشمن ہوں گے، سوائے متقین کے
(67) اے میرے بندو! نہیں ہے کوئی خوف تم پر آج اور نہ تم غمگین ہو گے
(68) وہ لوگ جو ایمان لائے ساتھ ہماری آیتوں کے اور تھے وہ فرماں بردار
(69) داخل ہو جاؤ تم جنت میں، تم
(خود) اور تمھاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے
(انعام و اکرام سے) (70) دَور چلایا جائے گا ان پر رکابیوں کا سونے کی اور آبخوروں کا اور اس میں وہ ہو گا جو چاہیں گے ان کے نفس اور لذت اندوز ہوں
(ان سے) آنکھیں اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے
(71) اور یہ وہ جنت ہے کہ وارث بنائے گئے ہو تم اس کےبسبب اس کےجو تھے تم عمل کرتے
(72) تمھارے لیے اس میں پھل ہوں گے بہت سے، جن میں سے تم کھاؤ گے
(73)
#
{66} يقول تعالى: ما ينتظر المكذِّبون؟! وما يتوقَّعون {إلاَّ الساعة أن تأتِيَهم بغتةً وهم لا يشعرونَ}؛ أي: فإذا جاءت؛ فلا تسألوا عن أحوال من كَذَّب بها واستهزأ بمن جاء بها.
[66] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تکذیب کرنے والے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا وہ توقع رکھتے ہیں کہ
﴿اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’قیامت ان پر اچانک آموجود ہو اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘ یعنی جب قیامت کی گھڑی آجائے گی، تو ان لوگوں کے احوال کے بارے میں مت پوچھو جنھوں نے قیامت کی تکذیب کی، اس کا اور اس کے بارے میں آگاہ کرنے والے کا مذاق اڑایا۔
#
{67} وإن الأخِلاَّء يومَ القيامةِ، المتخالِّين على الكفر والتكذيب ومعصية الله، {بعضُهم لبعض عدوٌّ}: لأنَّ خُلَّتَهم ومحبَّتهم في الدُّنيا لغير الله، فانقلبت يوم القيامة عداوة {إلاَّ المتَّقين}: للشرك والمعاصي؛ فإنَّ محبَّتهم تدوم وتتَّصل بدوام مَنْ كانت المحبَّة لأجلِهِ.
[67] ﴿اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭؔ﴾ یعنی کفر ،تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ایک دوسرے کے ساتھ دوستی رکھنے والے قیامت کے دن
﴿بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ﴾ ’’ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔‘‘ کیونکہ دنیا میں ان کی دوستی اور محبت غیراللہ کی خاطر تھی تو قیامت کے دن یہ دوستی، دشمنی میں بدل جائے گی۔
﴿اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ سوائے ان لوگوں کی دوستی کے جو شرک اور معاصی سے بچتے رہے۔ پس ان کی محبت دائمی ہو گی کیونکہ جس ہستی کی خاطر انھوں نے محبت کی اس کو دوام حاصل ہے۔
#
{68} ثُمَّ ذكر ثواب المتَّقين، وأنَّ الله تعالى يناديهم يوم القيامةِ بما يسرُّ قلوبَهم ويذهب عنهم كلَّ آفةٍ وشرٍّ، فيقول: {يا عبادِ لا خوفٌ عليكُم اليومَ ولا أنتُم تَحْزَنونَ}؛ أي: لا خوفٌ يلحقُكم فيما تستقبِلونه من الأمور، ولا حزنٌ يُصيبُكم فيما مضى منها، وإذا انتفى المكروه من كلِّ وجه؛ ثبت المحبوب المطلوب.
[68] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ شعار لوگوں کا ذکر فرمایا،
نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ انھیں قیامت کے روز پکارے گا جس سے ان کے دل خوش ہو جائیں گے اور ان سے ہر قسم کی آفت اور شر دور ہو جائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ﴿یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ﴾ ’’اے میرے بندو! آج تمھیں کچھ خوف ہے نہ غم۔‘‘ جن امور کا تمھیں سامنا کرنا ہو گا، ان کے بارے میں تمھیں کوئی خوف لاحق نہیں ہو گا اور جو امور گزر چکے ہیں ان پر تم غمزدہ نہ ہو گے اور جب ناگوار امور کی ہر پہلو سے نفی ہو گئی تو محبوب و مطلوب امر ثابت ہو گیا۔
#
{69} {الذين آمنوا بآياتنا وكَانوا مُسلِمِينَ}؛ أي: وصفهم الإيمانُ بآيات الله، وذلك يشمل للتصديق بها، وما لا يتمُّ التصديق إلاَّ به من العلم بمعناها والعمل بمقتضاها، وكانوا مسلمينَ لله منقادينَ له في جميع أحوالِهِم، فجمعوا بين الاتِّصاف بعمل الظاهر والباطن.
[69] ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَكَانُوْا مُسْلِمِیْنَ﴾ یعنی ان کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ چیز ان آیات کی تصدیق کو بھی شامل ہے نیز یہ چیز ان آیات کے معانی کے علم اور ان پر عمل کو بھی شامل ہے، جس کے بغیر تصدیق کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور وہ اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ پس انھوں نے اعمالِ ظاہر اور اعمالِ باطن کو جمع کر لیا۔
#
{70} {ادخُلوا الجنَّةَ}: التي هي دارُ القرار {أنتُم وأزواجُكم}؛ أي: مَنْ كان على مثل عملِكُم من كلِّ مقارن لكم من زوجةٍ وولدٍ وصاحبٍ وغيرهم، {تُحْبَرونَ}؛ أي: تَنعمون وتُكْرمون، ويأتيكم من فضل ربِّكم من الخيرات والسرور والأفراح واللَّذَّات ما لا تُعَبِّرُ الألسنُ عن وصفه.
[70] ﴿اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ ﴾ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ ‘‘ جو کہ جائے قرار ہے۔
﴿اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ﴾ یعنی تمھارے ساتھ رہنے والے ،
مثلاً: بیوی، اولاد اور دوست وغیرہ، جن کے تمھارے جیسے اعمال ہیں۔
﴿تُحْبَرُوْنَ ﴾ یعنی تمھیں نعمتیں بخشی جائیں گی اور تمھیں اکرام سے نوازا جائے گا اور تم اپنے رب کے فضل و کرم یعنی بھلائی، مسرتوں، فرحتوں اور لذتوں سے بہرہ ور ہو گے، زبان جن کا وصف بیان کرنے سے قاصر ہے۔
#
{71} {يطافُ عليهم بصحافٍ من ذهبٍ وأكوابٍ}؛ أي: تدور عليهم خدَّامهم من الولدانِ المخلَّدين بطعامِهم بأحسنِ الأواني وأفخرِها، وهي صحافُ الذهب، وبشرابهم بألطف الأواني، وهي الأكواب التي لا عرى لها، وهي من أصفى الأواني، من فضة أعظم من صفاءِ القوارير، {وفيها}؛ أي: الجنة {ما تشتهيه الأنفسُ وتلذُّ الأعينُ}: وهذا اللفظ جامعٌ، يأتي على كلِّ نعيم وفرح وقرَّة عين وسرور قلبٍ؛ فكلُّ ما تشتهيه النُّفوس من مطاعم ومشارب وملابس ومناكح، ولذّته العيون من مناظر حسنةٍ وأشجارٍ محدقةٍ ونعم مونقةٍ ومبانٍ مزخرفةٍ؛ فإنَّه حاصلٌ فيها معدٌّ لأهلها على أكمل الوجوه وأفضلها؛ كما قال تعالى: {لهم فيها فاكهةٌ ولهم ما يَدَّعونَ}. {وأنتم فيها خالدونَ}: وهذا هو تمامُ نعيم أهل الجنة، وهو الخُلْدُ الدائمُ فيها، الذي يتضمَّن دوام نعيمِها وزيادتَه وعدم انقطاعه.
[71] ﴿یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّاَكْوَابٍ ﴾ یعنی ان کے ہمیشہ رہنے والے خدمت گار لڑکے، بہترین فاخرہ برتنوں میں، ان کا کھانا لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے، یعنی سونے کے طشتوں میں اور شفاف ترین برتنوں میں ان کو مشروبات پیش کریں گے، یعنی ایسے پیالوں میں جن کے کنڈے نہ ہوں گے، یہ چاندی کے شفاف ترین پیالے ہوں گے، جو شیشے سے بڑھ کر صاف و شفاف ہوں گے۔
﴿وَفِیْهَا ﴾ یعنی جنت میں
﴿مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْ٘فُ٘سُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ ﴾ ’’اور جو جی چاہے گا اور جو آنکھوں کو اچھا لگے گا۔‘‘ یہ ایک جامع لفظ ہے جو ہر قسم کی نعمت و فرحت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کو شامل ہے۔
ان کو ہر وہ چیز حاصل ہو گی جس کی نفس خواہش کرتے ہیں ،
مثلاً: انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات، ملبوسات، بیویاں جن سے آنکھوں کو لذت حاصل ہو گی، حسین مناظر، گھنے درخت،
خوبصورت نعمتیں اور سجے سجائے محلات ان کو جنت میں ملیں گے جو بہترین طریقے سے جنت میں رہنے والوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ﴾ (یٰسین: 36؍57) ’’جنت میں ان کے لیے میوے اور ہر وہ چیز ہو گی جو وہ طلب کریں گے۔‘‘
﴿وَاَنْتُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ اور یہی اہل جنت پر اتمام نعمت ہے اور وہ ہے جنت میں ان کا دوام اور خلود، جو جنت کی نعمتوں کے دوام، ان میں اضافے اور عدم انقطاع کو متضمن ہے۔
#
{72} {وتلك الجنَّة}: الموصوفة بأكمل الصفات هي {التي أورِثْتُموها بما كُنتُم تعملونَ}؛ أي: أورثكم الله إيَّاها بأعمالكم، وجعلها من فضلِهِ جزاء لها، وأودع فيها من رحمتِهِ ما أودعَ.
[72] ﴿وَتِلْكَ الْؔجَنَّةُ ﴾ وہ جنت جو کامل ترین اوصاف سے موصوف ہے
﴿الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’جس کے تم مالک بنا دیے گئے ، وہ تمھارے اعمال کا صلہ ہے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں تمھارے اعمال کے بدلے میں عطا کی ہے اور اپنے فضل و کرم سے اس کو اعمال کی جزا قرار دیا اور اس نے اپنی رحمت سے اس میں ہر چیز عطا کر دی۔
#
{73} {لكم فيها فاكهةٌ كثيرةٌ}؛ كما في الآية الأخرى: {فيهما من كلِّ فاكهةٍ زوجانِ}، {منها تأكلونَ}؛ أي: مما تتخيَّرون من تلك الفواكه الشهيَّة والثمار اللذَّيذة تأكلون.
[73] ﴿لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ ﴾ ’’وہاں تمھارے لیے بہت سے پھل ہیں۔‘‘ جیسا کہ ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا:
﴿فِیْهِمَا مِنْ كُ٘لِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰؔنِ﴾ (الرحمن:55؍52) ’’ان جنتوں میں تمام پھل دو دو اقسام کے ہوں گے۔‘‘
﴿مِّؔنْهَا تَاْكُلُوْنَ ﴾ یعنی تم ان مزے دار میووں اور لذیذ پھلوں کو چن چن کر کھاؤ گے۔
جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا، چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (74) لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (75) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا هُمُ الظَّالِمِينَ (76) وَنَادَوْا يَامَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ (77) لَقَدْ جِئْنَاكُمْ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (78)}.
بلاشبہ مجرم لوگ عذاب جہنم ہی میں ہمیشہ رہیں گے
(74) نہیں ہلکا کیا جائے گا ان سے وہ
(عذاب) اور وہ اس میں مایوس ہوں گے
(75) اور نہیں ظلم کیا ہم نے ان پر اور لیکن تھے وہ خود ہی ظلم کرنے والے
(76) اور پکاریں گے وہ، اے مالک! چاہیے کہ فیصلہ ٔ
(موت) صادر کر دے ہم پر تیرا رب، وہ کہے گا، بے شک تم
(اسی میں) ٹھہرنے والے ہو
(77) البتہ تحقیق لائے ہم تمھارے پاس حق، لیکن اکثر تمھارے حق کو ناپسند کرنے والے ہی تھے
(78)
#
{74} {إنَّ المجرمينَ}: الذين أجرموا بكفرهم وتكذيبهم {في عذاب جهنَّم}؛ أي: منغمرون فيه، محيطٌ بهم العذاب من كلِّ جانب، {خالدونَ}: فيه لا يخرُجونَ منه أبداً.
[74] ﴿اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ جنھوں نے کفر اور تکذیب کے جرم کا ارتکاب کیا
﴿فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ﴾ وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے عذاب انھیں ہر جانب سے گھیر لے گا۔
﴿خٰؔلِدُوْنَ﴾ وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس عذاب سے باہر نہیں نکلیں گے۔
#
{75} و {لا يُفَتَّرُ عنهم}: العذابُ ساعةً [لا بإزالته] ولا بتهوين عذابه، {وهم فيه مُبْلِسونَ}؛ أي: آيسون من كلِّ خير، غير راجين للفرج، وذلك أنَّهم ينادون ربَّهم، فيقولون: {ربَّنا أخْرِجْنا منها فإنْ عُدْنا فإنَّا ظالمونَ. قال اخسؤوا فيها ولا تُكَلِّمونَ}.
[75] ﴿لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ ﴾ ایک گھڑی کے لیے بھی انھیں عذاب سے چھٹکارا نہیں ملے گا، نہ تو عذاب ختم ہو گا اور نہ اس میں نرمی ہی ہوگی۔
﴿وَهُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ﴾ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس اور ہر خوشی سے ناامید ہوں گے۔ وہ اپنے رب کو پکاریں گے:
﴿رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰ٘لِمُوْنَ۰۰ قَالَ اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ﴾ (المومنون: 23؍107، 108) ’’اے ہمارے رب! ہمیں جہنم سے نکال لے،
اگر ہم نے دوبارہ گناہ کیے تو ہم ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’اسی میں ذلیل و خوار ہو کر پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔‘‘
#
{76} وهذا العذابُ العظيم بما قدَّمت أيديهم وبما ظلموا به أنفسَهم، والله لم يظلِمْهم ولم يعاقِبْهم بلا ذنبٍ ولا جرم.
[76] یہ عذاب عظیم ان کی بداعمالیوں کا نتیجہ اور اس ظلم کی پاداش ہے جو انھوں نے اپنے آپ پر کیا۔اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرتا اور نہ وہ کسی کو گناہ اور جرم کے بغیر ہی سزا دیتا ہے۔
#
{77} {ونادوا}: وهم في النار لعلَّهم يحصل لهم استراحةٌ: {يا مالِكُ ليقضِ علينا ربُّك}؛ أي: لِيُمِتْنا فنستريحَ؛ فإنَّنا في غمٍّ شديدٍ وعذابٍ غليظٍ لا صبر لنا عليه ولا جَلَد، فَـ {قال} لهم مالكٌ خازنُ النار حين طلبوا منه أن يَدْعُوَ الله لهم أن يقضي عليهم: {إنَّكم ماكثونَ}؛ أي: مقيمون فيها لا تخرجون عنها أبداً، فلم يحصُلْ لهم ما قصدوه، بل أجابهم بنقيض قصدِهِم، وزادَهم غمًّا إلى غمِّهم.
[77] ﴿وَنَادَوْا ﴾ ’’اور وہ پکاریں گے۔‘‘ درآں حالیکہ وہ آگ میں ہوں گے، شاید کہ انھیں کوئی آرام ملے۔
﴿یٰمٰلِكُ لِیَقْ٘ضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ ﴾ ’’اے مالك! تمھارا رب ہمارا کام تمام کردے۔‘‘ یعنی تیرا رب ہمیں موت دے دے تاکہ ہم عذاب سے آرام پائیں کیونکہ ہم شدید غم اور سخت عذاب میں مبتلا ہیں، ہم اس عذاب پر صبر کر سکتے ہیں نہ ہم میں اسے برداشت کرنے کی قوت ہے۔
﴿قَالَ ﴾ جب وہ جہنم کے داروغہ ’’ مالک‘‘ سے التماس کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ انھیں موت عطا کر دے تو مالک جواب دے گا:
﴿اِنَّـكُمْ مّٰكِثُوْنَ ﴾ تم جہنم ہی میں رہو گے اور اس میں سے کبھی نہیں نکلو گے۔ انھیں ان کا مقصد حاصل نہیں ہو گا بلکہ انھیں ان کے مقصد کے بالکل الٹ جواب دیا جائے گا اور ان کے غم میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
#
{78} ثم وبَّخهم بما فعلوا، فقال: {لقد جئناكم بالحقِّ}: الذي يوجب عليكم أن تتَّبِعوه، فلو تبعْتُموه؛ لفزتُم وسعدتُم، {ولكنَّ أكثركم للحقِّ كارهونَ}: فلذلك شقيتُم شقاوةً لا سعادة بعدها.
[78] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے افعال بد پر زجروتوبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا:
﴿لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ ﴾ ’’بلاشبہ ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے۔‘‘ جو اس بات کا موجب ہے کہ تم اس کی اتباع کرو اور اگر تم نے حق کی اتباع کی ہوتی تو تم فوزوسعادت سے بہرہ مند ہو تے۔
﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ ﴾ ’’لیکن تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے رہے۔‘‘ بنابریں تم ایسی بدبختی کا شکار ہو گئے کہ اس کے بعد کوئی سعادت نہیں۔
{أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ (79) أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ (80)}
بلکہ انھوں نے پختہ فیصلہ کیا ایک کام کا، تو ہم بھی قطعی فیصلہ کرنے والے ہیں
(79) کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ بلاشبہ ہم نہیں سنتے بھید ان کا اور سرگوشی کرنا ان کا؟ کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے
(فرشتے) ان کے پاس لکھتے ہیں
(80)
#
{79} يقول تعالى: {أم أبرموا}؛ أي: أبرمَ المكذِّبون بالحقِّ المعاندون له {أمراً}؛ أي: كادوا كيداً ومكروا للحقِّ ولمن جاء بالحقِّ ليدحضوه بما موَّهوا من الباطل المزخرف المزوَّق، {فإنَّا مبرِمون}؛ أي: محكمون أمراً ومدبِّرون تدبيراً يعلو تدبيرَهم وينقضُهُ ويبطِلُه. وهو ما قيَّضه الله من الأسباب والأدلَّة لإحقاق الحقِّ وإبطال الباطل؛ كما قال تعالى: {بل نَقْذِفُ بالحقِّ على الباطل فيدمغُهُ}.
[79] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: کیا حق کی تکذیب کرنے والوں اور اس سے عناد رکھنے والوں نے کوئی تدبیر کی ہے؟
﴿اَمْرًا ﴾ یعنی انھوں نے حق کے خلاف سازش کی اور حق لانے والے کے خلاف چال چلی ہے تاکہ وہ ملمع سازی سے باطل کو مزین کر کے اور دلچسپ بنا کر حق کو سرنگوں کریں۔
﴿فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ﴾ یعنی ہم بھی ایک بات کو محکم بنا رہے ہیں اور ایسی تدبیر کر رہے ہیں جو ان کی تدبیر پر غالب ہے اور اس کو توڑ کر باطل کر کے رکھ دے گی اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ حق کو ثابت کرنے اور باطل کے ابطال کے لیے اسباب اور دلائل مقرر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ﴾ (الانبیاء: 21؍18) ’’بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو حق باطل کا سر توڑ ڈالتا ہے۔‘‘
#
{80} {أم يحسبونَ}: بجهلهم وظلمِهِم {أنَّا لا نسمعُ سرَّهم}: الذي لم يتكلَّموا به، بل هو سرٌّ في قلوبهم، {ونجواهم}؛ أي: كلامهم الخفيَّ الذي يتناجَوْن به؛ أي: فلذلك أقدموا على المعاصي، وظنُّوا أنَّها لا تبعةَ لها ولا مجازاة على ما خفي منها، فردَّ الله عليهم بقوله: {بلى}؛ أي: إنا نعلم سرَّهم ونجواهم، {ورسُلُنا}: الملائكة الكرام {لديهم يكتُبونَ}: كلَّ ما عملوه، وسيحفظُ ذلك عليهم حتى يَرِدوا القيامةَ فيجدوا ما عملوا حاضراً، ولا يظلم ربُّك أحداً.
[80] ﴿اَمْ یَحْسَبُوْنَ ﴾ کیا وہ اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ
﴿اَنَّا لَا نَ٘سْمَعُ سِرَّهُمْ ﴾ وہ بھید جس کو وہ اپنی زبان پر نہیں لائے بلکہ ابھی وہ ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے، ہم سنتے نہیں۔
﴿وَنَجْوٰىهُمْ ﴾ اور ان کی خفیہ بات چیت کو جو وہ سرگوشیوں میں کرتے ہیں؟
بنابریں وہ معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان معاصی پر کوئی متابعت نہیں اور نہ ان باتوں کی سزا ہی ملے گی جو چھپی ہوئی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿بَلٰى ﴾ ’’ہاں، ہاں‘‘ ہم ان کے بھید اور ان کی سرگوشیوں کو جانتے ہیں
﴿وَرُسُلُنَا ﴾ ’’اور ہمارے قاصد۔‘‘ یعنی با تکریم فرشتے
﴿لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ ﴾ وہ ان کے تمام اعمال کو لکھتے ہیں اور ان اعمال کو محفوظ رکھیں گے اور جب یہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو وہ ان تمام اعمال کو موجود پائیں گے جو انھوں نے کیے تھے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
{قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ (81) سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (82) فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (83)}.
کہہ دیجیے! اگر ہو
(اللہ) رحمان کی کوئی اولاد تو میں سب سے پہلے
(اس کی) عبادت کرنے والا ہوں
(81) پاک ہے رب آسمانوں اور زمین کا اور رب عرش کا، اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں
(82) پس چھوڑ دیجیے ان کو وہ الجھے رہیں
(اپنے جہل میں) اور کھیلیں کودیں یہاں تک کہ ملیں وہ اپنے اس دن کو جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں وہ
(83)
#
{81} أي: قل يا أيُّها الرسول الكريم للذين جعلوا لله ولداً، وهو الواحد الأحد، الفرد الصَّمد، الذي لم يتَّخذ صاحبة ولا ولداً، ولم يكن له كفواً أحدٌ: {قل إن كان للرحمن ولدٌ فأنا أوَّلُ العابدينَ}: لذلك الولد؛ لأنه جزءٌ من والده، وأنا أولى الخلق انقياداً للأوامر المحبوبة لله، ولكنِّي أولُ المنكرين لذلك، وأشدُّهم له نفياً، فعلم بذلك بطلانه؛ فهذا احتجاجٌ عظيم عند من عرفَ أحوال الرسل، وأنَّه إذا علم أنَّهم أكملُ الخلق، وأنَّ كلَّ خير فهم أول الناس سبقاً إليه وتكميلاً له. وكلُّ شرٍّ فهم أولُ الناس تركاً له وإنكاراً له وبعداً منه؛ فلو كان للرحمن ولدٌ، وهو الحقُّ؛ لكان محمدُ بنُ عبد الله أفضلَ الرسل أول مَنْ عَبَدَه، ولم يسبقْه إليه المشركون.
ويُحتمل أنَّ معنى الآية: لو كان للرحمن ولدٌ؛ فأنا أولُ العابدين لله، ومن عبادتي لله إثباتُ ما أثبته ونفيُ ما نفاه؛ فهذا من العبادة القوليَّة الاعتقاديَّة، ويلزم من هذا لو كان حقًّا؛ لكنتُ أول مثبتٍ له، فعلم بذلك بطلانُ دعوى المشركين وفسادها عقلاً ونقلاً.
[81] اے رسول ! ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رکھا ہے، حالانکہ وہ اکیلا اور بے نیاز ہے، جس نے کوئی بیوی بنائی نہ بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم سر ہی ہے
﴿قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ١ۖ ۗ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے: اگر رحمٰن کے اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوتا۔‘‘ اس بیٹے کی کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا جز ہوتا ہے۔ میں تمام مخلوق میں ان تمام اوامر پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوں، جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں، مگر
(تم دیکھ رہے ہو) کہ میں اس کا انکار کرنے والا پہلا شخص ہوں اور اس کی نفی کرنے میں سب سے زیادہ سخت ہوں، پس اس سے اس مشرکانہ قول کا بطلان ثابت ہو گیا۔
جو لوگ انبیائے کرام کے احوال کو جانتے ہیں اور انھیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء کامل ترین مخلوق ہیں، ہر بھلائی پر عمل کرنے اور اس کی تکمیل کے لیے وہ پیش پیش رہتے ہیں اور ہر برائی کو ترک کرنے، اس کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے میں سب سے آگے ہیں تو ایسے لوگوں کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس اگر رحمان کا کوئی بیٹا ہوتا، تو محمد بن عبداللہ
(e) جو سب سے افضل رسول ہیں، اولین شخص ہوتے جو اس کی عبادت کرتے اور اس کی عبادت کرنے میں مشرکین آپ پر کبھی سبقت نہ لے جاسکتے۔
آیت کریمہ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اگر رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا اولین شخص ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے لیے میری عبادت یہ ہے کہ اس نے جس چیز کا اثبات کیا ہے میں اس کا اثبات کرتا ہوں اور جس چیز کی اس نے نفی کی ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں، پس یہ قولی و اعتقادی عبادت ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ اگر یہ بات حق ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اس کا اثبات کرتا، لہٰذا اس سے اور عقل و نقل کے اعتبار سے مشرکین کے دعوے کا بطلان اور فساد معلوم ہوگیا۔
#
{82} {سبحانَ ربِّ السمواتِ والأرض ربِّ العرش عمَّا يصفونَ}: من الشريك والظَّهير والعوين والولد وغير ذلك مما نسبه إليه المشركون.
[82] ﴿سُبْحٰؔنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبِّ الْ٘عَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ ’’یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں، آسمانوں اور زمین کا رب
(اور) عرش عظیم کا رب اس سے پاک ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ شریک، معاون مددگار اور اولاد وغیرہ ان تمام چیزوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
#
{83} {فَذَرْهم يخوضوا ويلعبوا}؛ أي: يخوضوا بالباطل ويلعبوا بالمحال؛ فعلومُهم ضارةٌ غير نافعةٍ، وهي الخوض والبحث بالعلوم التي يعارِضون بها الحقَّ وما جاءت به الرسل، وأعمالهم لعبٌ وسفاهةٌ لا تزكِّي النفوس ولا تثمِرُ المعارفَ، ولهذا توعَّدهم بما أمامهم يوم القيامةِ، فقال: {حتى يلاقوا يومَهم الذي يوعَدونَ}: فسيعلمون فيه ماذا حَصَّلوا، وما حَصَلوا عليه من الشقاءِ الدائم والعذاب المستمرِّ.
[83] ﴿فَذَرْهُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا ﴾ ’’پس آپ انھیں چھوڑ دیں کہ وہ بے ہودہ کھیل کود میں لگے رہیں۔‘‘ یعنی یہ باطل میں مبتلا ہو کر محال امور سے کھیلتے ہیں، ان کے علوم ضرر رساں ہیں ان میں کوئی نفع نہیں، وہ ایسے علوم میں بحث کرتے اور ان میں مشغول ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے یہ لوگ حق اور دعوت کی مخالفت کرتے ہیں جو انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں۔ ان کے اعمال محض لہوولعب ہیں جو نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں نہ ان سے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے انھیں اس انجام کی وعید سنائی ہے جس کا قیامت کے روز انھیں سامنا کرنا ہے ،
چنانچہ فرمایا: ﴿حَتّٰى یُلٰ٘قُوْا یَوْمَهُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’حتی کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتاہے وہ اس کو دیکھ لیں۔‘‘ تب انھیں معلوم ہو گا کہ انھیں اس میں کیا حاصل ہوا کہ وہ دائمی بدبختی اور ہمیشہ رہنے والے عذاب میں پھنس گئے ہیں۔
{وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (84) وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (85) وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (86) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ (87) وَقِيلِهِ يَارَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا يُؤْمِنُونَ (88) فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (89)}.
اور وہ، وہ ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود اور وہ نہایت حکمت والا، خوب جاننے والا ہے
(84) اور بہت بابرکت ہے وہ ذات، جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی اور جو درمیان ہے ان دونوں کے، اور اسی کے پاس ہے علم قیامت کا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے
(85) اور نہیں اختیار رکھتے وہ، جن کو وہ پکارتے ہیں اس کے سوا، سفارش کا، مگر وہ جس نے گواہی دی ساتھ حق کے اور وہ جانتے ہیں
(86) اور اگر آپ سوال کریں ان سے کہ کس نے پیدا کیا ان کو تو یقیناً ضرور وہ کہیں گے: اللہ نے، پس وہ کہاں پھیرے جاتے ہیں؟
(87) قسم ہے اس
(رسول) کے
(یہ) کہنے کی کہ اے رب! بلاشبہ یہ لوگ ہیں کہ نہیں ایمان لائیں گے
(88) پس منہ پھیر لیجیے ان سے اور کہہ دیجیے: سلام ہے، پس عنقریب وہ جان لیں گے
(89)
#
{84} يخبر تعالى أنَّه وحده المألوهُ المعبودُ في السماواتِ والأرض، فأهل السماوات كلُّهم، والمؤمنون من أهل الأرض يعبدُونَه ويعظِّمونه ويخضعون لجلاله ويفتِقرون لكماله، {تسبِّحُ له السمواتُ السبع والأرضُ ومن فيهن}، {وإن من شيءٍ إلاَّ يسبِّحُ بحمدِه}، {ولله يسجُدُ من في السمواتِ والأرض طوعاً وكرهاً}. فهو تعالى المألوه المعبودُ الذي يألهه الخلائق كلُّهم طائعين مختارين وكارهين، وهذه كقولِهِ تعالى: {وهو الله في السماواتِ وفي الأرض}؛ أي: ألوهيَّته ومحبته فيهما وأما هو فإنه فوق عرشه بائن من خلقه متوحدٌ بجلاله متمجدٌ بكماله. {وهو الحكيمُ}: الذي أحكم ما خلقه، وأتقن ما شرعه؛ فما خلق شيئاً إلاَّ لحكمةٍ، ولا شرع شيئاً إلاَّ لحكمةٍ، وحكمهُ القدريُّ والشرعيُّ والجزائيُّ مشتملٌ على الحكمة، {العليم}: بكلِّ شيء، يعلم السِّر وأخفى، ولا يعزُبُ عنه مثقالُ ذرَّة في العالم العلويِّ والسفليِّ ولا أصغر منها ولا أكبر.
[84] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں وہ اکیلا ہی معبود ہے پس آسمان کی تمام مخلوق اور زمین پر بسنے والے اہل ایمان اس کی عبادت و تعظیم کرتے ہیں، اس کے جلال کے سامنے سرنگوں اور اس کے کمال کے محتاج ہیں۔
﴿تُ٘سَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ﴾ (بنی اسرائیل:17؍44) ’’ساتوں آسمان، زمین اور ان کے اندر جو بھی ہے،
سب اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔‘‘ اورفرمایا: ﴿وَلِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا﴾ (الرعد:13؍15) ’’آسمانوں اور زمین کے تمام باسی چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے،
تمام مخلوق جس کی خوشی اور ناخوشی سے عبادت کرتی ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول کی مانند ہے: ﴿وَهُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ ﴾ (الانعام:6؍3) یعنی اس کی الوہیت اور محبت آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ خود تمام مخلوق سے جدا اپنے عرش پر ہے، وہ اپنے جلال میں یکتا اور اپنے کمال کے ساتھ بزرگی کا مالک ہے
﴿وَهُوَ الْحَكِیْمُ ﴾ ’’اور وہ حکمت والا ہے۔‘‘ جس نے اپنی مخلوق کو نہایت محکم طور پر تخلیق کیا اور اپنی شریعت کو نہایت مہارت سے وضع کیا۔ اس نے جو چیز بھی پیدا کی کسی حکمت ہی کی بنا پر پیدا کی، اس کا حکم کونی و قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی تمام تر حکمت پر مشتمل ہے۔
﴿الْعَلِیْمُ ﴾ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہ ہر بھید اور مخفی معاملے کو جانتا ہے۔ عالم علوی اور عالم سفلی میں چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں۔
#
{85} {وتبارك الذي له ملك السمواتِ والأرض وما بينهما}: {تبارك}؛ بمعنى: تعالى وتعاظم وكثُر خيرُه واتَّسعت صفاتُه وعظُم ملكُه، ولهذا ذكر سَعَةَ ملكِه للسمواتِ والأرض وما بينهما، وسَعَةَ علمِهِ، وأنَّه بكلِّ شيءٍ عليمٌ، حتى إنه تعالى انفردَ بعلم الغيوب ، التي لم يطَّلع عليها أحدٌ من الخلق؛ لا نبيٌّ مرسلٌ ولا ملكٌ مقربٌ، ولهذا قال: {وعنده علمُ الساعةِ}: قدَّم الظرفَ ليفيد الحصر؛ أي: لا يعلم متى تجيء الساعةُ إلاَّ هو. ومن تمام ملكِهِ وسعته أنَّه مالك الدُّنيا والآخرة، ولهذا قال: {وإليه ترجعون}؛ أي: في الآخرة فيحكم بينكم بحكمِهِ العدل.
[85] ﴿وَتَبٰرَكَ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ﴾ ’’اور بابرکت ہے وہ ذات جس کی آسمانوں، زمین اور جو ان کے درمیان موجود ہے، سب پر حکومت ہے۔‘‘
(تبارک) کا معنی ہے کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے، اس کی بھلائیاں بے شمار، اس کی صفات لامحدود اور اس کی سلطنت بہت عظیم ہے۔ بنابریں فرمایا کہ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز پر حاوی ہے، اس کا علم بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے حتی کہ تمام امور غیب کا وہ اکیلا ہی علم رکھتا ہے، جن کا علم کوئی نبئ مرسل، کوئی مقرب فرشتہ اور مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں رکھتی۔ اس لیے فرمایا
﴿وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ یہاں افادۂ حصر کے لیے ظرف کو مقدم رکھا ہے یعنی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ اس کا کامل اقتدار اور اس کی وسعت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت کا مالک ہے۔ اس لیے فرمایا
﴿وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور تم
(آخرت میں) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اور وہ تمھارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔
#
{86} ومن تمام ملكِهِ أنَّه لا يملكُ أحدٌ من خلقِهِ من الأمر شيئاً، ولا يقدِم على الشفاعة عنده أحدٌ إلاَّ بإذنه. {ولا يملكُ الذين يدعونَ من دونِهِ الشفاعةَ}؛ أي: كلُّ مَنْ دُعِيَ من دون الله من الأنبياء والملائكة وغيرهم لا يملكونَ الشفاعةَ ولا يشفعونَ إلاَّ بإذن الله ولا يشفعونَ إلاَّ لِمن ارتضى، ولهذا قال: {إلاَّ مَنْ شَهِدَ بالحقِّ}؛ أي: نطق بلسانه مقرًّا بقلبه عالماً بما شهد به، ويشترطُ أن تكونَ شهادته بالحقِّ، وهو الشهادةُ لله تعالى بالوحدانيَّةِ، ولرسله بالنبوَّة والرسالة، وصحَّة ما جاؤوا به من أصول الدين وفروعه وحقائقه وشرائعه؛ فهؤلاء الذين تنفع فيهم شفاعةُ الشافعين، وهؤلاء الناجون من عقاب الله، الحائزون لثوابه.
[86] یہ اس کا کامل اقتدار ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کسی چیز کا،
کوئی ہستی کوئی اختیار نہیں رکھتی اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں کوئی کسی قسم کی سفارش نہیں کر سکے گا۔ پس فرمایا: ﴿وَلَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ ﴾ یعنی انبیاء اور فرشتے اور دیگر لوگوں میں سے ایسی تمام ہستیاں جنھیں اللہ کے سواپکارا جاتا ہےوہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتیں،
وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکیں گی اور صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔
بنابریں فرمایا: ﴿اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ ﴾ یعنی جس نے دل سے حق کا اقرار کرتے ہوئے اور جس امر کی شہادت دی جا رہی ہے اس کا علم رکھتے ہوئے زبان سے حق کی شہادت دی اور اس شرط کے ساتھ کہ یہ شہادت حق کے ساتھ شہادت ہو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی وحدانیت کی شہادت، اس کے رسولوں کے لیے ان کی نبوت و رسالت کی شہادت اور دین کے اصول و فروع، اس کے حقائق اور شرائع کی شہادت جنھیں لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں۔ پس یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں سفارش کرنے والوں کی سفارش فائدہ دے گی اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پائیں گے اور اس کا ثواب حاصل کریں گے۔
#
{87} ثم قال تعالى: {ولئن سألتَهم مَن خَلَقَهُم لَيقولنَّ اللهُ}؛ أي: ولئن سألت المشركين عن توحيد الربوبيَّة ومَن هو الخالق؛ لأقرُّوا أنَّه الله وحدَه لا شريك له، {فأنَّى يُؤْفَكونَ}؛ أي: فكيف يُصْرَفون عن عبادة الله والإخلاص له وحدَه؟! فإقرارهُم بتوحيد الرُّبوبيَّة يلزمهم به الإقرار بتوحيد الألوهية، وهو من أكبر الأدلَّة على بطلان الشرك.
[87] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُ٘نَّ اللّٰهُ ﴾ یعنی اگر آپ مشرکین سے توحید ربوبیت کے بارے میں پوچھیں کہ اس کائنات کا خالق کون ہے، تو وہ اقرار کریں گے کہ اللہ واحد جس کا کوئی شریک نہیں، اس کائنات کا خالق ہے۔
﴿فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ﴾ یعنی تب اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس اکیلے کے لیے اخلاص سے کہاں منہ موڑے جا رہے ہیں۔ پس ان کا توحید ربوبیت کا اقرار، ان پر توحید الوہیت کے اقرار کو لازم ٹھہراتا ہے اور یہ شرک کے بطلان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
#
{88} {وقيله ياربِّ إنَّ هؤلاء قومٌ لا يؤمنون}: هذا معطوف على قولِهِ: {وعندهُ علمُ الساعةِ}؛ أي: وعنده علم قيلِهِ؛ أي: الرسول - صلى الله عليه وسلم - شاكياً لربِّهِ تكذيب قومِهِ، متحزِّناً على ذلك، متحسِّراً على عدم إيمانهم؛ فالله تعالى عالمٌ بهذه الحال، قادرٌ على معاجلتهم بالعقوبة، ولكنه تعالى حليمٌ، يمهلُ العباد، ويستأني بهم لعلَّهم يتوبون ويرجِعون.
[88] ﴿وَقِیْلِهٖ٘ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اور پیغمبر کا یہ کہنا کہ اے میرے رب! یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد
﴿وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ﴾ (الزخرف:43؍85)’’اور اس کے پاس قیامت کا علم ہے۔‘‘ پر معطوف ہے، یعنی رسول اللہ e کے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کی تکذیب کے وقت، اپنے رب کے پاس شکوہ کرتے ہوئے، نہایت حزن و غم اور اپنی قوم کے عدم ایمان پر نہایت حسرت کے ساتھ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس حال کا علم رکھتا ہے اور ان کو فوراً سزا دینے پر قادر ہے، مگر وہ نہایت بردبار ہے۔ وہ اپنے بندوں کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔
#
{89} ولهذا قال: {فاصفحْ عنهم وقُلْ سلامٌ}؛ أي: اصفح عنهم ما يأتيك من أذيَّتِهِمْ القوليَّة والفعليَّة، واعفُ عنهم، ولا يبدر منك لهم إلاَّ السلامُ الذي يقابِل به أولو الألباب والبصائر للجاهلين؛ كما قال تعالى عن عباده الصالحين: {وإذا خاطَبَهُمُ الجاهلونَ}؛ أي: خطاباً بمقتضى جهلهم، {قالوا سلاماً}. فامتثل - صلى الله عليه وسلم - لأمر ربِّه، وتلقَّى ما يصدُرُ إليه من قومِهِ وغيرهم من الأذى بالعفو والصفح، ولم يقابِلْهم عليه السلام إلاَّ بالإحسان إليهم والخطاب الجميل؛ فصلوات الله وسلامُه على مَن خصه الله بالخُلُق العظيم الذي فَضَلَ به أهلَ الأرض والسماء، وارتفعَ به أعلى من كواكبِ الجوزاءِ، وقوله: {فسوفَ يَعلمونَ}؛ أي: غِبَّ ذُنوبهم وعاقبةَ جُرمهم.
[89] اس لیے فرمایا:
﴿فَاصْفَ٘حْ عَنْهُمْ وَقُ٘لْ سَلٰ٘مٌ ﴾ ان کی طرف سے آپ کو جو قولی اور فعلی اذیت پہنچتی ہے اس پر ان سے درگزر کیجیے اور ان کو معاف کر دیجیے۔ آپ کی طرف سے ان کے لیے سلام ہی ہونا چاہیے،
جس کے ذریعے سے عقل مند اور اہل بصیرت جاہلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ ﴾ (الفرقان:25؍63) ’’جب ان سے جہلاء مخاطب ہوتے ہیں‘‘ یعنی ایسا خطاب جو ان کی جہالت کے تقاضے پر مبنی ہوتا ہے۔
﴿قَالُوْا سَلٰمًا ﴾ (الفرقان: 25؍63) ’’تو ان کو کہہ دیتے ہیں: تمھیں سلام ہو۔‘‘
پس رسول مصطفیe نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی قوم نے آپ کو جو اذیتیں دیں ان کا عفوودرگزر کے ساتھ سامنا کیا اور آپ ان کے ساتھ صرف حسن سلوک اور حسن کلام سے پیش آئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس مقدس ہستی پر جسے اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم سے مختص فرمایا اور اس کے ذریعے سے زمین و آسمان کے رہنے والوں کو فضیلت بخشی اور آپ اس خلق عظیم کے ذریعے سے ستاروں سے زیادہ بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ تو عنقریب انھیں اپنے گناہوں اور جرائم کا انجام معلوم ہو جائے گا۔