آیت:
تفسیر سورۂ یٰسٓ
تفسیر سورۂ یٰسٓ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 12 #
{يس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (4) تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (5) لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (6) لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (7) إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ (8) وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (9) وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (10) إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (11) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (12)}.
یٰسٓ(1) قسم ہے قرآن حکمت والے کی(2)بلاشبہ آپ البتہ رسولوں میں سے ہیں(3)اوپر راہ راست کے(4) (یہ) اتارا ہوا ہے نہایت غالب خوب رحم کرنے والے کا (5) تاکہ ڈرائیں آپ اس قوم کو کہ نہیں ڈرائے گئے باپ دادا ان کے، پس وہ غافل ہیں(6) البتہ تحقیق ثابت ہو گئی بات(اللہ کی) ان کی اکثریت پر، سو وہ نہیں ایمان لائیں گے(7) بے شک ڈال دیے ہم نے ان کی گردنوں میں طوق، سو وہ (پہنچ رہے ہیں ان کی)ٹھوڑیوں تک، پس وہ سر اوپر کو اٹھائے ہوئے ہیں(8) اور بنا دی ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار اور ان کے پیچھے ایک دیوار، پھر ڈھانک دیا ہم نے ان(کی آنکھوں)کو، پس وہ نہیں دیکھتے(9) اور برابر ہے اوپر ان کے، کیا آپ ڈرائیں ان کو یا نہ ڈرائیں، وہ نہیں ایمان لائیں گے (10)بے شک آپ تو ڈراتے ہیں(صرف)اس شخص کو جو پیروی کرے نصیحت کی اور ڈرے رحمٰن سے بن دیکھے، پس خوشخبری دے دیجیے اس کو مغفرت کی اور عزت والے اجر کی (11) بلاشبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں مُردوں کو اور لکھتے ہیں ہم جو (عمل) وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے آثار بھی، اور ہرچیز، ہم نے محفوظ کر رکھا ہے اس کو کتاب واضح میں(12)
#
{2} هذا قسمٌ من الله تعالى بالقرآن الحكيم الذي وَصْفُهُ الحكمةُ، وهي وضعُ كلِّ شيءٍ موضعَه: وضعُ الأمر والنهي في المحلِّ اللائق بهما، ووضع الجزاء بالخير والشرِّ في محلِّهما اللائق بهما؛ فأحكامُهُ الشرعيَّةُ والجزائيةُ كلُّها مشتملةٌ على غاية الحكمة. ومن حكمة هذا القرآن أنه يجمع بين ذِكْر الحُكْم وحِكْمته، فينبِّه العقول على المناسبات والأوصاف المقتضية لترتيب الحكم عليها.
[2] یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم کی قسم ہے، جس کا وصف حکمت ہے اور حکمت سے مراد ہے ہر چیز کو اس کے اپنے مقام پر رکھنا اور امرونہی کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے اور خیر و شر کی جزا کو اس مقام پر رکھنا جو ان کے لائق ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے تمام احکام شرعی اور جزائی بے انتہا حکمت پر مبنی ہیں۔ اس قرآن کی حکمت یہ ہے کہ اس نے ’’حکم‘‘ اور ’’حکمت‘‘ کے تذکرے کو یکجا کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ عقول انسانی کو ان مناسبات اور اوصاف سے متنبہ کرتا ہے جو ترتیب حکم کا تقاضا کرتی ہیں۔
#
{3} {إنَّك لَمِنَ المرسلينَ}: هذا المقسَم عليه، وهو رسالةُ محمد - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّك يا محمد من جملة المرسلين، فلست ببدع من الرسل. وأيضاً؛ فجئت بما جاء به الرسل من الأصول الدينيَّة. وأيضاً؛ فمن تأمل أحوال المرسلين وأوصافهم وعرف الفرق بينهم وبين غيرهم؛ عرف أنَّك من خيار المرسلين بما فيك من الصفات الكاملة والأخلاق الفاضلة. ولا يخفى ما بين المقسَم به وهو القرآنُ الحكيم وبين المقسَم عليه وهو رسالةُ الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - من الاتصال، وأنَّه لو لم يكن لرسالتِهِ دليلٌ ولا شاهدٌ إلاَّ هذا القرآن الحكيم؛ لكفى به دليلاً وشاهداً على رسالة محمد [- صلى الله عليه وسلم -]، بل القرآنُ العظيم أقوى الأدلةِ المتصلةِ المستمرةِ على رسالة الرسول، فأدلةُ القرآن كلُّها أدلةٌ لرسالة محمد - صلى الله عليه وسلم -.
[3] ﴿اِنَّكَ لَ٘مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ ’’بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں۔‘‘ یہ ہے وہ حقیقت جس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی اور وہ ہے محمد مصطفیe کی رسالت۔ اے محمد! (e)آپ جملہ انبیاء و مرسلین میں شامل ہیں آپ کوئی انوکھے رسول تو نہیں ہیں، نیز آپ وہی دینی اصول لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو دیگر انبیاء نے پیش کیے تھے۔ جو کوئی انبیاء و مرسلین کے احوال و اوصاف پر غور کرتا ہے تو اسے انبیاء و مرسلین اور عام لوگوں کے درمیان فرق معلوم ہو جاتا ہے اور اسے اس حقیقت کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے کہ آپ تمام رسولوں میں اعلیٰ و افضل مقام رکھتے ہیں، کیونکہ آپ صفات کاملہ اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں۔ جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے، یعنی قرآن حکیم اور جس کے بارے میں قسم کھائی گئی ہے یعنی حضرت محمدe کی رسالت ، ان کے مابین جو اتصال ہے وہ مخفی نہیں۔ اگر حضرت محمدe کی رسالت پر اس قرآن حکیم کے سوا کوئی دوسری دلیل اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی قرآن حکیم آپ کی رسالت محمدی پر دلیل اور شہادت کے لیے کافی ہے، بلکہ قرآن عظیم آپ کی رسالت پر ہمیشہ رہنے والی قوی ترین دلیل ہے۔ قرآن حکیم کی حقانیت کے تمام دلائل دراصل رسول اللہe کی رسالت کے دلائل ہیں۔
#
{4} ثم أخبر بأعظم أوصاف الرسول - صلى الله عليه وسلم -، الدالَّة على رسالته، وهو أنَّه {على صراطٍ مستقيم}: معتدل، موصل إلى الله وإلى دار كرامته، وذلك الصراط المستقيم مشتملٌ على أعمال، وهي الأعمال الصالحة المصلحة للقلب والبدن والدنيا والآخرة، والأخلاق الفاضلة المزكِّية للنفس المطهِّرة للقلب المنمِّية للأجر، فهذا الصراط المستقيم الذي هو وصفُ الرسول - صلى الله عليه وسلم - ووصفُ دينه الذي جاء به. فتأمَّلْ جلالةَ هذا القرآن الكريم؛ كيف جَمَعَ بين القَسَم بأشرف الأقسام على أجلِّ مُقْسَم عليه، وخبرُ الله وحدَه كافٍ، ولكنَّه تعالى أقام من الأدلَّة الواضحة والبراهين الساطعةِ في هذا الموضع على صحَّة ما أقسم عليه من رسالة رسولِهِ ما نبَّهنا عليه وأشرنا إشارةً لطيفة لسلوك طريقه.
[4] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مصطفیٰ e کا سب سے بڑا وصف بیان فرمایا جو آپ کی رسالت پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ﴿عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ ’’سیدھے راستے پر گامزن ہیں‘‘ جو معتدل ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ یہ راہ راست ایسے اعمال صالحہ پر مشتمل ہے جو قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں، جو اخلاق فاضلہ، تزکیۂ نفس، تطہیر قلب اور ازدیاد اجر کے حامل ہیں۔ یہی سیدھا راستہ ہے جو رسول اللہ e اور آپ کے لائے ہوئے دین کا وصف ہے۔ قرآن حکیم کی جلالت شان پر غور کیجیے کہ اس نے افضل ترین قسم اور جلیل ترین مقسم علیہ کو کیسے یکجا کر دیا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر ہی کافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے رسول e کی رسالت کی حقانیت پر واضح دلائل اور روشن براہین قائم کیے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ہم کچھ لطیف نکات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔
#
{5} وهذا الصراط المستقيم {تنزيلَ العزيزِ الرَّحيم}؛ فهو الذي أنزلَ به كتابَه وأنزلَه طريقاً لعبادِهِ موصلاً لهم إليه، فحماه بعزَّته عن التغيير والتبديل، ورَحِمَ به عبادَه رحمةً اتَّصلتْ بهم حتى أوصلتْهم إلى دار رحمته، ولهذا ختم الآية بهذين الاسمين الكريمين العزيز الرحيم.
[5] یہ صراط مستقیم ﴿تَنْزِیْلَ الْ٘عَزِیْزِ الرَّحِیْمِ﴾ وہ راستہ ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اسے اپنے بندوں کے لیے لائحہ عمل کے طور پر نازل فرمایا جو انھیں اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی قدرت کاملہ سے تغیروتبدل سے محفوظ فرمایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو اپنی بے پایاں رحمت کے سائے میں لے لیا جو انھیں اس کے دار رحمت میں پہنچاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو اپنے دو کریم ناموں ﴿ الْ٘عَزِیْزِ ﴾ اور ﴿ الرَّحِیْمِ﴾ پر ختم فرمایا۔
#
{6} فلما أقسم تعالى على رسالته، وأقام الأدلَّةَ عليها؛ ذَكَرَ شدَّةَ الحاجة إليها واقتضاءَ الضَّرورة لها، فقال: {لِتُنذِرَ قوماً ما أُنذِرَ آباؤهم فهم غافلونَ}: وهم العربُ الأميُّون، الذين لم يزالوا خالين من الكتب، عادمين الرسل، قد عَمَّتْهُمُ الجهالة وغمرتْهُمُ الضلالة، وأضْحَكوا عليهم وعلى سَفَهِهِم عقولَ العالمينَ، فأرسل الله إليهم رسولاً من أنفسهم يزكِّيهم، ويعلِّمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لَفي ضلال مُبين، فينذرُ العربَ الأميِّين ومَنْ لَحِقَ بهم من كلِّ أميٍّ، ويذكِّرُ أهل الكتب بما عندهم من الكتبِ؛ فنعمةُ الله به على العرب خصوصاً وعلى غيرِهم عموماً.
[6] اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی رسالت پر قرآن حکیم کی قسم کھانے کے بعد، اس پر دلائل قائم کیے اور ذکر فرمایا کہ ان کی طرف رسول مبعوث کیے جانے کی سخت ضرورت تھی، ارشاد فرمایا: ﴿لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ ﴾ اس سے مراد وہ ’’اُمّی‘‘ عرب ہیں جن میں کتابیں نازل ہوئی تھیں نہ رسول مبعوث ہوئے تھے گمراہی ان پر چھاگئی تھی، جہالت نے ان کو اندھاکر دیا تھا۔ اور وہ اپنے اوپر اور اپنی بے وقوفی پر جگ ہنسائی کاباعث بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان کی طرف ایک رسول مبعوث فرمایا، تاکہ ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے، وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ اور تاکہ وہ ’’اُمّی‘‘ عربوں اور ان کے بعد آنے والے ہر اُمّی کو گمراہی کے انجام سے ڈرائے۔ نیز اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو ان کتابوں کی یاد دہانی کراتا ہے جو ان کے پاس ہیں۔ یہ کتاب حکیم تمام لوگوں کے لیے عام طور پر اور عربوں کے لیے خاص طور پر نعمت ہے مگر یہ لوگ جن کو برے انجام سے ڈرانے کے لیے آ پ کو مبعوث کیا گیا ہے، آپ کی دعوت اور انذار کے بعد وہ دوگروہوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔
#
{7} ولكن هؤلاء الذين بُعِثْتَ [فيهم] لإنذارِهم بعدما أنذَرْتَهم انقسموا قسمين: قسمٌ ردَّ لما جئتَ به ولم يَقْبَلِ النِّذارة، وهم الذين قال الله فيهم: {لقد حَقَّ القولُ على أكْثَرِهم فهم لا يؤمنونَ}؛ أي: نفذ فيهم القضاءُ والمشيئةُ أنَّهم لا يزالون في كفرهم وشِرْكِهم، وإنَّما حقَّ عليهم القولُ بعد أن عُرِضَ عليهم الحقُّ فرفَضوه؛ فحينئذٍ عوقبوا بالطبع على قلوبهم.
[7] پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور آپ کے انذار کو قبول نہ کیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ یعنی ان میں اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کی مشیت نافذ ہو گئی کہ وہ اپنے کفروشرک پر جمے رہیں گے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان حق ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے حق پیش کیا، مگر انھوں نے حق کو ٹھکرا دیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔
#
{8} وذَكَرَ الموانعَ من وصول الإيمان لقلوبهم، فقال: {إنَّا جَعَلْنا في أعناقِهِم أغلالاً}: وهي جمع غِلٍّ، والغلُّ ما يُغَلُّ به العُنُق؛ فهو للعنق بمنزلةِ القيد للرِّجْل. وهذه الأغلالُ التي في [الأذقان] عظيمةٌ قد وصَلَتْ {إلى}: أذقانهم، ورفعت رؤوسهم إلى فوق. {فهم مُقْمَحُونَ}؛ أي: رافعوا رؤوسهم من شدَّةِ الغلِّ الذي في أعناقهم؛ فلا يستطيعون أن يَخْفِضوها.
[8] اللہ تعالیٰ نے ان موانع کا ذکر فرمایا جن کی وجہ سے ایمان ان کے دلوں تک نہ پہنچ سکا، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰ٘لًا ﴾ ’’بے شک ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں۔‘‘ (اَغْلاَلٌ،غُلٌّ) کی جمع ہے یعنی وہ طوق جو گردن میں ڈالا جاتا ہے اور یہ گردن کے لیے ایسے ہی ہے جیسے پاؤ ں کے لیے بیڑی اور ان کی گردن میں پڑے ہوئے یہ طوق بہت بڑے ہوں گے۔ یہ طوق ان کی ٹھوڑیوں تک ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے سر اوپر کو اٹھے ہوئے ہوں گے۔ ﴿فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ ﴾ پس وہ ان طوقوں کی سختی کی وجہ سے اپنے سر اوپر کو اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ان کو جھکا نہیں سکیں گے۔
#
{9} {وجَعَلْنا مِن بينِ أيْديهم سَدًّا ومن خَلْفِهِم سَدًّا}؛ أي: حاجزاً يحجُزُهم عن الإيمان؛ {فهم لا يُبْصِرونَ}: قد غمرهم الجهلُ والشقاءُ من جميع جوانبهم، فلم تُفِدْ فيهم النِّذارةُ.
[9] ﴿وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا ﴾ ’’اور ہم نے ان کے آگے اور پیچھے ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ہے‘‘ جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہے۔ ﴿فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ ﴾ ’’پس وہ نہ دیکھ سکتے۔‘‘ جہالت اور شقاوت نے انھیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے اس لیے انذار انھیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔
#
{10} {وسواءٌ عليهم أأنذَرْتَهم أم لم تُنذِرْهُم لا يؤمنونَ}: وكيف يؤمِنُ من طبع على قلبه ورأى الحقَّ باطلاً والباطل حَقًّا؟!
[10] ﴿وَسَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور آپ انھیں نصیحت کریں یا نہ کریں، ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ وہ شخص کیسے ایمان لا سکتا ہے جس کے دل پر مہر لگا دی گئی ہو جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہو۔
#
{11} والقسم الثاني الذين قَبِلوا النِّذارَةَ وقد ذَكَرَهُم بقوله: {إنَّما تُنذِرُ}؛ أي: إنَّما تنفعُ نِذارَتُك ويَتَّعِظُ بنُصْحِكَ {مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ}؛ أي: من قصْدُهُ اتِّباع الحقِّ وما ذُكِّر به، {وخَشِيَ الرحمنَ بالغيبِ}؛ أي: مَنِ اتَّصف بهذين الأمرين: القصد الحسن في طلب الحقِّ، وخشية الله تعالى؛ فهم الذين ينتفعونَ برسالتِكَ ويَزْكُون بتعليمِكَ، وهذا الذي وُفِّقَ لهذين الأمرين، بشِّره {بمغفرةٍ}: لذُنوبه {وأجرٍ كريم}: لأعماله الصالحة ونيَّتِهِ الحسنةِ.
[11] دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے انذار کو قبول کر لیا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّمَا تُنْذِرُ ﴾ یعنی آپ کا انذار اور آپ کی نصیحت صرف اسی شخص کو فائدہ دے گی ﴿مَنِ اتَّ٘بَعَ الذِّكْرَ ﴾ ’’جس نے نصیحت کی پیروی کی۔‘‘ جو اتباع حق کا قصد رکھتا ہے ﴿وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ﴾ ’’اور رحمٰن سے بن دیکھے ڈرے‘‘ جو ان دو اوصاف سے متصف ہے یعنی طلب حق میں قصد حسن اور خشیت الٰہی تو یہی وہ لوگ ہیں جو آپ کی رسالت سے فیض یاب اور آپ کی تعلیم سے تزکیۂ نفس کر سکتے ہیں، جسے ان دو امور کی توفیق بخش دی گئی ﴿فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ ﴾ اسے اس کے گناہوں کی بخشش کی خوشخبری دے دیجیے ﴿وَّاَجْرٍ كَرِیْمٍ ﴾ اور اس کے نیک اعمال اور اچھی نیت کے باوقار اجر کی خوشخبری دے دیجیے۔
#
{12} {إنَّا نحنُ نُحْيي الموتى}؛ أي: نبعثُهم بعد موتِهِم لِنُجازِيَهم على الأعمال، {ونَكْتُبُ ما قَدَّموا}: من الخير والشرِّ، وهو أعمالُهم التي عملوها وباشَروها في حال حياتِهِم، {وآثارَهُم}: وهي آثار الخير وآثارُ الشرِّ التي كانوا هم السببَ في إيجادها في حال حياتِهِم وبعدَ وفاتِهِم، وتلك الأعمال التي نشأت من أقوالِهِم وأفعالِهِم وأحوالِهِم؛ فكلُّ خيرٍ عمل به أحدٌ من الناس بسبب علم العبد وتعليمِهِ أو نُصحه أو أمرِهِ بالمعروف أو نهيِهِ عن المنكر أو علم أوْدَعَه عند المتعلِّمين أو في كتبٍ يُنْتَفَع بها في حياتِهِ وبعدَ موتِهِ أو عمل خيراً من صلاةٍ أو زكاةٍ أو صدقةٍ أو إحسانٍ فاقتدى به غيرُه، أو عمل مسجداً أو محلاًّ من المحالِّ التي يرتَفِقُ بها الناسُ وما أشبهَ ذلك؛ فإنَّها من آثارِهِ التي تُكْتَبُ له، وكذلك عمل الشرِّ، ولهذا: «من سنَّ سنَّةً حسنةً؛ فله أجْرُها وأجْرُ من عَمِلَ بها إلى يوم القيامةِ، ومن سنَّ سنَّة سيئة، فعليه وزرها ووزر من عمل بها إلى يوم القيامة». وهذا الموضع يبيِّنُ لك علوَّ مرتبة الدَّعوة إلى الله والهداية إلى سبيله بكلِّ وسيلةٍ وطريق موصل إلى ذلك، ونزول درجة الداعي إلى الشرِّ الإمام فيه، وأنَّه أسفل الخليقة وأشدُّهم جرماً وأعظمُهم إثماً، {وكلَّ شيءٍ}: من الأعمال والنيَّاتِ وغيرها {أحْصَيْناه في إمام مُبينٍ}؛ أي: كتاب هو أمُّ الكتب، وإليه مرجِعُ الكُتُب التي تكون بأيدي الملائكة، وهو اللوحُ المحفوظُ.
[12] ﴿اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى ﴾ یعنی ہم انہیں، ان کے مر جانے کے بعد، دوبارہ زندہ کریں گے تاکہ ہم انھیں ان کے اعمال کا بدلہ دیں۔ ﴿وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا﴾ ’’اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال جن کو وہ آگے بھیجتے ہیں‘‘ اچھے اور برے اعمال میں سے۔ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ اپنی زندگی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ ﴿وَاٰثَارَهُمْ ﴾ اس سے مراد وہ آثار خیر اور آثار شر ہیں جنھیں وہ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد وجود میں لانے کا سبب بنے۔ ان اعمال نے ان کے اقوال، افعال اور احوال سے جنم لیا۔ بھلائی کا ہر وہ کام آثار خیر میں شمار ہوتا ہے جو بندے کے علم، اس کی تعلیم، خیر خواہی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے سبب سے وجود میں آتا ہے یا وہ علم جسے وہ اپنے متعلمین میں ودیعت کرتا ہے یا اس کی تحریر کے سبب سے وجود میں آتا ہے جس سے اس کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا کوئی نیک عمل جسے بندہ سرانجام دیتا ہے ، مثلاً: نماز، صدقہ، یا کوئی بھلی بات جس کی دوسرے لوگ پیروی کریں، یا کسی مسجد کی تعمیر، یا کسی ایسی جگہ کی تعمیر جس سے لوگ استفادہ کرتے ہوں یا اس قسم کے دیگر کام، سب آثار خیر میں شمار ہوتے ہیں جن کو اس کے لیے لکھ لیا جاتا ہے اور اسی طرح آثار شر ہیں، جن کو لکھ لیا جاتا ہے۔ بنا بریں رسول اللہ e نے فرمایا: ’ مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً، فَلَہُ أَجْرُھَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَيْئٌ، وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً ، کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَيْئٌ۔، ’’جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کا اجر اسے عطا ہو گا اور اس کے بعد جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا اس کا اجر بھی ان کے اجروںمیں کمی کرنے کے بغیر اسے ملے گا جس کسی نے دین اسلام میں کسی برائی کو رواج دیا اس کا گناہ اس کو ملے گا اور ان لوگوں کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہو گا جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے جبکہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ہر طریقے اور ذریعے سے اس کی طرف جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے کی عظمت واضح ہو جاتی ہے برائی کی طرف دعوت دینے اور اس کو رائج کرنے والا سب سے گھٹیا مخلوق، سب سے بڑا مجرم اور سب سے زیادہ گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے۔ ﴿وَكُ٘لَّ شَیْءٍ﴾ ’’اور ہر چیز کو‘‘ یعنی اعمال اور نیتوں وغیرہ کو ﴿اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’ہم نے ایک واضح کتاب میں درج کر رکھا ہے‘‘ اس سے مراد (اُمُّ الْکُتُبْ) ہے اور وہ تمام کتابیں، جو فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں، اسی کی طرف لوٹتی ہیں۔ اور وہ لوح محفوظ ہے۔
آیت: 13 - 32 #
{وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ (13) إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ (14) قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ (15) قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ (16) وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (17) قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (18) قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (19) وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ (20) اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ (21) وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (22) أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ (23) إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (24) إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ (25) قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَالَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (26) بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ (27) وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ (28) إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ (29) يَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (30) أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ (31) وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (32)}.
اور بیان کیجیے واسطے ان کے ایک مثال بستی والوں کی، جب آئے ان کے پاس (اللہ کے) بھیجے ہوئے (13) جب بھیجے ہم نے ان کی طرف (پیغمبر) دو تو جھٹلایا ا نہوں نے ان کو، پس تقویت دی ہم نے ان کوتیسرے کے ساتھ، پس ا نہوں نے کہا، بے شک ہم تمھاری طرف بھیجے گئے ہیں(14) ا نہوں نے کہا، نہیں ہو تم مگر بشر ہی ہم جیسے اور نہیں نازل کی رحمٰن نے کوئی چیز، نہیں ہو تم مگر جھوٹ بولتے(15) انھوں نے کہا، ہمارا رب جانتا ہے کہ بے شک ہم تمھاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں(16) اور نہیں ہے ہم پر مگر پہنچا دینا کھول کر(17)انھوں نے کہا، ہم نے تو نامبارک خیال کیا ہے تمھیں البتہ اگر نہ باز آئے تم تو ضرور ہم سنگسار کر دیں گے تمھیں اور ضرور پہنچے گی تمھیں ہماری طرف سے سزا درد ناک(18) انھوں نے کہا، تمھاری نحوست تو تمھارے ساتھ ہے کیا اگر نصیحت کیے جاؤ تم( تو یہ نحوست ہوگی ؟ )بلکہ تمھی لوگ ہی ہو حد سے بڑھنے والے(19) اور آیا دوردراز مقام سے شہر کے، ایک آدمی دوڑتا ہوا، اس نے کہا: اے میری قوم! پیروی کرو تم رسولوں کی(20) پیروی کرو تم ان کی جو نہیں مانگتے تم سے کوئی صلہ اور وہ ہدایت یافتہ ہیں(21) اور کیا ہے مجھے کہ نہ عبادت کروں میں اس کی جس نے پیدا کیا مجھے؟ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے(22)کیا بنا لوں میں اس کےسوا معبود (اور)اگر ارادہ کرے رحمٰن (مجھے) تکلیف پہنچانے کا تو نہیں کام آئے گی میرے ان کی شفاعت کچھ بھی اور نہ وہ چھڑا سکیں گے مجھے (23) بے شک میں اس وقت البتہ کھلی گمراہی میں ہوں گا (24) بے شک میں ایمان لایاساتھ تمھارے رب کے، پس سنو تم میری بات (25)کہا گیاتو داخل ہو جا جنت میں، اس نے کہااے کاش! میری قوم جان لے (26) (یہ بات) کہ بخش دیا ہے مجھے میرے رب نے، اور کر دیا اس نے مجھے معزز لوگوں میں سے (27) اور نہیں نازل کی ہم نے اوپر اس کی قوم کے اس کے بعد کوئی فوج آسمان سے اور نہ تھے ہم نازل کرنے والے ہی(28)نہیں تھی وہ(کچھ بھی) مگر ایک (زور کی) آواز ہی، پس(اسی سے) ناگہاں وہ بجھ کر رہ گئے(29) وائے افسوس! (ایسے) بندوں پر نہیں آتا ان کے پاس کوئی رسول، مگر ہوتے وہ اس کے ساتھ استہزا ہی کرتے (30) کیا نہیں دیکھا انھوں نے، کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے ان سے پہلے امتیں؟ بے شک وہ ان کی طرف نہیں لوٹیں گی (31) اور نہیں ہے کوئی بھی، مگر سب کے سب ہمارے پاس حاضر کیے جائیں گے (32)
#
{13} أي: واضرِبْ لهؤلاء المكذِّبين برسالتك الرادِّين لدعوتِكَ مثلاً يعتبرونَ به ويكون لهم موعظةً إن وُفِّقوا للخيرِ، وذلك المثلُ أصحابُ القريةِ وما جرى منهم من التَّكذيب لرسل الله وما جرى عليهم من عقوبتِهِ ونَكاله، وتعيينُ تلك القريةِ لو كان فيه فائدةٌ؛ لعيَّنَها الله، فالتعرُّض لذلك وما أشبهه من باب التكلُّف والتكلُّم بلا علم، ولهذا إذا تكلَّم أحدٌ في مثل هذه الأمور؛ تجدُ عنده من الخَبْطِ والخَلْطِ والاختلاف الذي لا يستقرُّ له قرارٌ ما تعرِفُ به أنَّ طريقَ العلم الصحيح الوقوفُ مع الحقائق وتَرْكُ التعرُّض لما لا فائدة فيه، وبذلك تزكو النفسُ ويزيدُ العلمُ من حيث يظنُّ الجاهل أنَّ زيادتَه بذكر الأقوال التي لا دليلَ عليها ولا حُجَّةَ عليها ولا يَحْصُلُ منها من الفائدة إلاَّ تشويشُ الذهن واعتيادُ الأمور المشكوكِ فيها. والشاهدُ أنَّ هذه القريةَ جَعَلَها الله مثلاً للمخاطَبين. {إذ جاءها المُرْسَلونَ}: من الله تعالى؛ يأمُرونَهم بعبادةِ الله وحدَه وإخلاصِ الدين له، ويَنْهَوْنَهم عن الشرك والمعاصي.
[13] آپ کی رسالت کی تکذیب کرنے اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دینے والوں کے سامنے آپ یہ مثال بیان کر دیجیے، جس سے یہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ غور کریں تو یہ مثال ان کے لیے نصیحت ہو گی۔ یہ ان بستی والوں کی مثال ہے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا۔ اگر بستی کے تعین میں کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کا تعین فرما دیتا، لہٰذا بستی کے نام کے تعین کے درپے ہونا تکلف اور بلاعلم کلام کے زمرے میں آتا ہے۔ جو کوئی اس قسم کے معاملے میں بلاعلم گفتگو کرتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی گفتگو بے تکی ہوتی ہے اور وہ اختلاف میں مبتلا ہے جس کو دوام نہیں۔ اس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ علم صحیح کا طریق حقائق کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور ان امور میں تعرض کو ترک کرنا ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طریق سے نفس پاک ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ جاہل سمجھتا ہے کہ علم میں اضافہ ان اقوال کے بیان کرنے سے ہے جن کی کوئی دلیل نہیں اور ان اقوال کو بیان کرنے سے ذہن کو تشویش میں مبتلا کرنے اور اسے مشکوک امور کا عادی بنانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو مخاطبین کے لیے مثال قرار دیا۔ ﴿اِذْ جَآءَهَا الْ٘مُرْسَلُوْنَ﴾ ’’جب ان کے پاس رسول آئے۔‘‘ اس بستی میں اللہ تعالیٰ کے رسول مبعوث ہوئے جو انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرنے کا حکم دیتے تھے اور انھیں شرک اور معاصی سے منع کرتے تھے۔
#
{14} {إذ أرْسَلْنا إليهم اثْنَيْنِ فكذَّبوهما فَعَزَّزْنا بثالثٍ}؛ أي: قوَّيْناهما بثالثٍ، فصاروا ثلاثةَ رسل؛ اعتناءً من الله بهم، وإقامةً للحجَّة بتوالي الرسل إليهم، {فقالوا} لهم: {إنَّا إليكُم مُرْسَلونَ}.
[14] ﴿اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا۠ فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ﴾ ’’جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا تو ان لوگوں نے دونوں کو جھٹلایا ، پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی‘‘ یعنی ہم نے تیسرے کے ذریعے سے ان دونوں کو قوت عطا کی ، چنانچہ ان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص اور حجت کے طور پر پے در پے رسول بھیجنے سے ان کی تعداد تین ہو گئی ﴿فَقَالُوْۤا ﴾ تو رسولوں نے ان سے کہا: ﴿اِنَّـاۤ٘ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ ﴾ ’’بلاشبہ ہم تمھاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں۔‘‘
#
{15} فأجابوهم بالجوابِ الذي ما زال مشهوراً عند من ردَّ دعوةَ الرُّسل، فقالوا: {ما أنتُم إلاَّ بشرٌ مثلُنا}؛ أي: فما الذي فضَّلَكم علينا وخصَّكم من دوننا؟! قالت الرسل لأممهم: إن نحنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكم، ولكن [اللَّهَ] يمنُّ على من يشاءُ من عبادِهِ، {وما أنزل الرحمنُ من شيءٍ}؛ أي: أنكروا عمومَ الرسالةِ، ثم أنكروا أيضاً المخاطبين لهم، فقالوا: {إنْ أنتُم إلاَّ تكذِبونَ}.
[15] اور انھوں نے رسولوں کو ایسا جواب دیا جو انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرانے والوں کے ہاں مشہور ہے۔﴿قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا ﴾ ’’(انھوں نے کہا:) تم تو محض ہماری طرح کے آدمی ہو۔‘‘ یعنی کس بنا پر تمھیں ہم پر فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے۔ دیگر رسولوں نے بھی اپنی امتوں سے کہا تھا: ﴿اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ﴾ (ابرٰہیم:14؍11) ’’ہم تمھاری ہی طرح بشر ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔‘‘ ﴿وَمَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍ ﴾ ’’اور رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔‘‘ یعنی انھوں نے رسالت کی عمومیت کا انکار کیا، پھر انھوں نے اپنے رسولوں سے مخاطب ہو کر ان کا انکار کرتے ہوئے کہا: ﴿اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ ﴾ ’’تم تو جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
#
{16} فقالت هؤلاء الرسل الثلاثة: {ربُّنا يعلم إنَّا إليكُم لَمُرْسَلونَ}: فلو كنَّا كاذبينَ؛ لأظهر اللَّهُ خِزْيَنا ولبادَرَنا بالعقوبة.
[16] ان تینوں رسولوں نے جواب دیا : ﴿رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّـاۤ٘ اِلَیْكُمْ لَ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ ’’ہمارا رب جانتا ہے کہ یقینا ہم تمھاری طرف بھیجے گئے ہیں۔‘‘ اور اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں سرعام رسوا کر دیتا اور ہمیں فوراً سزا دے دیتا۔
#
{17} {وما علينا إلاَّ البلاغُ المُبينُ}؛ أي: البلاغ المبينُ الذي يحصُلُ به توضيحُ الأمور المطلوب بيانها، وما عدا هذا من آيات الاقتراح أو من سرعةِ العذاب؛ فليس إلينا، وإنَّما وظيفتُنا التي هي البلاغُ المبينُ قُمْنا بها وبيَّنَّاها لكم؛ فإنِ اهْتَدَيْتُم؛ فهو حظُّكم وتوفيقُكم، وإن ضَلَلْتُم؛ فليس لنا من الأمر شيءٌ.
[17] ﴿وَمَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ ﴾ ’’اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔‘‘ یعنی ایسا پہنچا دینا جس سے ان تمام امور کی توضیح ہو جائے جن کا بیان کرنا مطلوب ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ یا تو معجزات کا یا جلدی عذاب کا مطالبہ ہے، جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہماری ذمہ داری تو واضح طور پر پہنچا دینا ہے جو ہم نے پوری کر دی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو کھول کھول کر تمھارے سامنے بیان کر دیا ہے اگر تم نے راہ راست اختیار کر لی تو یہ تمھارا ہی نصیب ہے اور اگر تم گمراہ رہے تو ہمارے اختیار میں کچھ نہیں۔
#
{18} فقال أصحاب القرية لرُسُلِهِم: {إنَّا تَطَيَّرْنا بكُم}؛ أي: لم نر على قدومكم علينا واتِّصالكم بنا إلاَّ الشرَّ، وهذا من أعجب العجائب؛ أن يُجْعَلَ من قَدِمَ عليهم بأجَلِّ نعمةٍ يُنْعِمُ اللهُ بها على العبادِ وأجلِّ كرامةٍ يكرِمُهم بها، وضرورتهم إليها فوق كلِّ ضرورةٍ، قد قدم بحالة شَرٍّ زادت على الشرِّ الذي هم عليه واستشأموا بها، ولكنَّ الخِذْلانَ وعدمَ التوفيق يَصْنَعُ بصاحبِهِ أعظمَ مما يَصْنَعُ به عدوُّه، ثم توعَّدوهم فقالوا: {لَئِن لم تَنتَهوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ}؛ أي: لَنَقْتُلَنَّكم رجماً بالحجارةِ أشنع القتلات، {ولَيَمَسَّنَّكُم مِنَّا عذابٌ أليمٌ}.
[18] بستی والوں نے اپنے رسولوں سے کہا: ﴿اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْ ﴾ ’’بے شک ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ تمھارے آنے اور ہمارے پاس پہنچنے سے ہمیں شر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا یہ عجیب ترین بات ہے کہ اس شخص کو جو ان کے پاس جلیل ترین نعمت لے کر آئے... جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے، ان کو وہ بلند ترین اکرام عطا کرے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ اسی چیز کے ضرورت مند ہوں... یہ کہا جائے کہ وہ شر لے کر آیا ہے جس نے ان کے شر میں اضافہ کر دیا اوروہ اس کو نحوست خیال کریں۔ یہ لوگ صرف اور صرف خذلان اور عدم توفیق کی وجہ سے اپنے ساتھی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر انھوں نے اپنے رسولوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ﴿لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَـنَرْجُمَنَّـكُمْ ﴾ ’’اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمھیں رجم کر دیں گے۔‘‘ یعنی ہم تمھیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے جو ہلاکت کی بدترین شکل ہے ﴿وَلَیَمَسَّنَّـكُمْ۠ مِّؔنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور تمھیں ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔‘‘
#
{19} فقالت لهم رسلهم: {طائِرُكُم معكم}: وهو ما معهم من الشركِ والشرِّ المقتضي لوقوع المكروِه والنقمةِ وارتفاع المحبوبِ والنعمةِ. {أإن ذُكِّرْتُم}؛ أي: بسبب أنَّا ذكَّرْناكم ما فيه صلاحُكُم وحظُّكُم قلتُم لنا ما قلتُم، {بل أنتُم قومٌ مسرِفونَ}: متجاوِزونَ للحدِّ مُتَجَرْهِمونَ في قولِكُم. فلم يزِدْهم دعاؤُهم إلاَّ نفوراً واستكباراً.
[19] ان کے رسولوں نے ان سے کہا: ﴿قَالُوْا طَآىِٕرُؔكُمْ مَّعُکُمْ﴾ ’’تمھاری فال بد تو تمھارے ساتھ ہے‘‘ اور اس سے مراد ان کا شرک اور برائی ہے جو عذاب کے واقع ہونے اور نعمت کے اٹھا لیے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ﴿اَىِٕنْ ذُكِّ٘رْتُمْ ﴾ ’’کیا اس لیے کہ تمھیں نصیحت کی گئی؟‘‘ یعنی ہم نے تمھیں اس چیز کی یاد دہانی کرائی جس میں تمھاری بھلائی اور تمھارا فائدہ تھا اور اس کے مقابلے میں تم نے یہ کچھ کہا: ﴿بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ﴾ مگر تم اپنی بات میں حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔‘‘ان کو دعوت دینے سے ان کے تکبر اور نفرت میں اضافے کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوا۔
#
{20} {وجاء من أقصى المدينةِ رجلٌ يسعى}: حرصاً على نُصْح قومِهِ حين سمعَ ما دَعَتْ إليه الرسل وآمنَ به وعلم ما ردَّ به قومُه عليهم، فقال لهم: {يا قوم اتَّبِعوا المرسلينَ}: فأمَرَهُم باتِّباعهم، ونَصَحَهم على ذلك، وشهد لهم بالرسالة.
[20] ﴿وَجَآءَ مِنْ اَ٘قْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّ٘سْعٰى﴾ ’’اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا۔‘‘ یعنی جب اس نے رسولوں کی دعوت سنی تو وہ اپنی قوم کی خیرخواہی کے لیے دوڑتا ہوا آیا اور خود اس دعوت پر ایمان لے آیا۔ اسے معلوم ہوا کہ اس کی قوم نے رسولوں کو کیا جواب دیا پس اس نے اپنی قوم سے کہا: ﴿یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ اس نے اپنی قوم کو رسولوں کی اتباع کا حکم دیا، ان کی خیرخواہی کی اور رسولوں کی رسالت کی شہادت دی۔
#
{21} ثم ذكر تأييداً لما شهد به ودعا إليه، فقال: {اتَّبِعوا مَن لا يَسْألُكُم أجراً}؛ أي: اتَّبِعوا مَنْ نَصَحَكُم نُصْحاً يعودُ إليكم بالخير، وليس يريدُ منكم أموالَكُم ولا أجراً على نصحِهِ لكم وإرشادِهِ؛ فهذا موجبٌ لاتِّباع مَنْ هذا وصفُهُ. بقي أن يُقالَ: فلعلَّه يَدْعو ولا يأخُذُ أجرةً ولكنَّه ليس على الحقِّ، فدَفَعَ هذا الاحتراز بقوله: {وهم مهتدونَ}: لأنهم لا يَدْعون إلاَّ لما يَشْهَدُ العقلُ الصحيح بحُسْنِهِ، ولا يَنْهَوْنَ إلاَّ بما يشهدُ العقلُ الصحيح بقُبْحِهِ.
[21] پھر اس نے اپنی شہادت اور دعوت کی تائید کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ﴿اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْـَٔلُكُمْ اَجْرًا﴾ یعنی اس شخص کی اتباع کرو جو تمھاری خیرخواہی کرتا ہے، جو تمھارے لیے بھلائی لاتا ہے۔ وہ تم سے اس خیر خواہی اور راہنمائی پر تمھارے مال کا مطالبہ کرتا ہے نہ کوئی اجر چاہتا ہے اور جس کا یہ وصف ہو وہ قابل اتباع ہوتا ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ جو کسی اجرت کے بغیر دعوت دیتا ہے، ہو سکتا ہے وہ حق پر نہ ہو، اس لیے اس اعتراض کو رد کرنے کے لیے فرمایا: ﴿وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ ’’اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ کیونکہ وہ صرف اسی چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کے اچھا ہونے پر عقل صحیح گواہی دیتی ہے اور صرف اسی چیز سے روکتے ہیں جس کے ’’قبیح‘‘ ہونے پر عقل صحیح گواہی دیتی ہے۔ شاید اس شخص کی قوم نے اس کی نصیحت قبول نہ کی بلکہ الٹا وہ اسے رسولوں کی اتباع اور اخلاص پر ملامت کرنے لگے۔
#
{22 ـ 25} فكأنَّ قومَه لم يَقْبَلوا نُصْحَهُ، بل عادوا لائمين له على اتِّباع الرسل وإخلاص الدين لله وحده، فقال: {وما لي لا أعبُدُ الذي فَطَرَني وإليه تُرْجَعونَ}؛ أي: وما المانعُ لي من عبادةِ مَنْ هو المستحقُّ للعبادة؛ لأنَّه الذي فَطَرني وخَلَقَني ورَزَقَني وإليه مآل جميع الخلق فيجازيهم بأعمالهم؛ فالذي بيدِهِ الخَلْقُ والرزقُ والحكمُ بين العباد في الدُّنيا والآخرة هو الذي يَسْتَحِقُّ أن يُعْبَدَ ويُثْنى عليه ويُمَجَّدَ دون مَنْ لا يملِكُ نفعاً ولا ضرًّا ولا عطاءً ولا منعاً ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، ولهذا قال: {أأتَّخِذُ من دونِهِ آلهةً إن يُرِدْنِ الرحمنُ بِضُرٍّ لا تُغْنِ عنِّي شفاعَتُهُم شيئاً}: لأنَّه لا أحدَ يشفع عند الله إلاَّ بإذنِهِ؛ فلا تُغْني شفاعتُهم عني شيئاً {ولا هم يُنقِذونِ}: من الضُّرِّ الذي أرادَه اللهُ بي. {إنِّي إذاً}؛ أي: إن عبدتُ آلهةً هذا وصفُها {لَفي ضلال مُبينٍ}: فجمع في هذا الكلام بين نُصحهم، والشهادةِ للرسُل بالرسالةِ والاهتداءِ، والإخبار بتعيُّن عبادة الله وحدَه، وذكر الأدلَّة عليها، وأنَّ عبادة غيرِهِ باطلةٌ، وذَكَرَ البراهينَ عليها والأخبارَ بضلال مَنْ عَبَدَها، والإعلان بإيمانِهِ جَهْراً مع خوفِهِ الشديد من قتلهم، فقال: {إنِّي آمنتُ بربِّكُم فاسمعونِ}.
[25-22] اس شخص نے کہا: ﴿وَمَا لِیَ لَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ یعنی میرے لیے اس ہستی کی عبادت کرنے سے جو عبادت کی مستحق ہے، کون سی چیز مانع ہے کیونکہ اس نے مجھے وجود بخشا، اس نے مجھے پیدا کیا، اس نے مجھے رزق بخشا اور تمام مخلوق کو آخر کار اسی کی طرف لوٹنا ہے ، پھر وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے گا، جس کے ہاتھ میں تخلیق اور رزق ہے، جو دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان فیصلوں کا اختیار رکھتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور ان ہستیوں کو چھوڑ کر صرف اسی کی ثنا و تمجید کی جائے جن کے اختیار میں کوئی نفع ہے نہ نقصان، وہ کسی کو عطا کر سکتی ہیں نہ محروم کر سکتی ہیں، جن کی قدرت میں زندگی ہے نہ موت اور نہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر سکتی ہیں۔ اس لیے اس نے کہا: ﴿ءَاَتَّؔخِذُ مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُ٘غْ٘نِ عَنِّیْ شَفَاعَتُهُمْ ﴾ ’’اور کیا میں اس کو چھوڑ کر اوروں کو معبود بناؤ ں، اگر اللہ میرے حق میں نقصان کا ارادہ فرمائیں تو ان کی سفارش مجھے فائدہ نہ دے سکے گی۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہ کر سکے گا ، لہٰذا ان کی سفارش میرے کسی کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھے اس ضرر سے بچا سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ مجھے پہنچانا چاہے۔ ﴿اِنِّیْۤ اِذًا ﴾ ’’بے شک میں اس وقت۔‘‘ یعنی اگر میں نے ان معبودوں کی عبادت کی جن کے یہ اوصاف ہیں تو ﴿لَّ٘فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’صریح گمراہی میں ہوں۔‘‘ ان کے اس تمام کلام میں ان کی خیرخواہی، رسولوں کی رسالت کی گواہی اور رسولوں کی خبر پر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے تعین کے ذریعے سے ہدایت کو اختیار کرنا جمع ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے دلائل، غیر اللہ کی عبادت کا بطلان، اس کے دلائل و براہین، غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کی گمراہی کی خبر اور قتل کے خوف کے باوجود اس مرد صالح کے ایمان کے اعلان کا ذکر ہے۔ اس شخص نے کہا: ﴿اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ﴾ ’’میں تمھارے رب پر ایمان لے آیا، لہٰذا میری بات سنو۔‘‘
#
{26 ـ 27} فقتله قومُه لمَّا سَمِعوا منه وراجَعَهم بما راجَعَهم به. {قيل}: له في الحال: {ادْخُلِ الجَنَّةَ}. فقال مخبراً بما وصل إليه من الكرامة على توحيدِهِ وإخلاصِهِ وناصحاً لقومه بعدَ وفاتِهِ كما نَصَحَ لهم في حياته: {يا لَيتَ قَومِي يَعلمُونَ. بمَا غَفَر لي ربِّي}؛ أي: بأي شيءٍ غفر لي فأزال عني أنواع العقوبات، {وجَعَلَني من المُكْرَمينَ}: بأنواع المَثوبات والمسرَّات؛ أي: لو وَصَلَ علمُ ذلك إلى قلوبهم؛ لم يقيموا على شركهم.
[26، 27] جب اس کی قوم نے یہ اعلان اور اس کی گفتگو سنی تو اسے قتل کر دیا۔﴿قِیْلَ ﴾ اس شخص سے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا: ﴿ادْخُلِ الْجَنَّةَ ﴾ ’’جنت میں داخل ہوجا‘‘ اس نے اپنی توحید پرستی اور اخلاص فی الدین کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاصل ہونے والے اکرام و تکریم کی خبر دیتے ہوئے اور اپنے مرنے کے بعد بھی اسی طرح اپنی قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے، جس طرح وہ اپنی زندگی میں کیا کرتا تھا، کہا: ﴿یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ بِمَا غَ٘فَرَ لِیْ رَبِّیْ ﴾ کاش! میری قوم کو معلوم ہو کہ کن امور کی بنا پر میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مختلف انواع کی عقوبات کو مجھ سے دور کر دیا ﴿وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُؔكْرَمِیْنَ ﴾ اور مختلف انواع کی مسرتوں اور ثواب کے ذریعے سے مجھے اکرام بخشا۔ اگر ان تمام امور کا علم میری قوم کے دلوں تک پہنچ جائے تو وہ کبھی بھی اپنے شرک پر قائم نہ رہیں۔
#
{28} قال الله في عقوبة قومه: {وما أنزَلْنا على قومِهِ من بعدِهِ من جندٍ من السماءِ}؛ أي: ما احْتَجْنا أن نتكَلَّفَ في عقوبتهم فننزلَ جنداً من السماء لإتلافِهِم. {وما كُنَّا منزِلينَ}: لعدم الحاجةِ إلى ذلك، وعظمة اقتدارِ الله تعالى، وشدَّةِ ضعفِ بني آدم، وأنَّهم أدنى شيء يصيبهم من عذاب الله يكفيهم.
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی قوم کے عذاب کے بارے میں فرمایا: ﴿وَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا۔‘‘ یعنی ہم ان کو عذاب دینے کے لیے کسی تکلف کے محتاج نہیں کہ ہمیں ان کو ہلاک اور تلف کرنے کے لیے آسمان سے فوج اتارنی پڑے ﴿وَمَا كُنَّا مُنْزِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور نہ ہم اتارنے والے ہی تھے۔‘‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اقتدار کی عظمت اور بنی آدم کی شدت ضعف کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو آسمان سے فوج اتارنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ادنیٰ سا عذاب بھی ان کے لیے کافی ہے۔
#
{29} {إن كانتْ}؛ أي: ما كانت عقوبتُهم {إلاَّ صيحةً واحدةً}؛ أي: صوتاً واحداً تكلَّم به بعضُ ملائكة الله؛ {فإذا هم خامدونَ}: قد تقطَّعتْ قلوبُهم في أجوافهم وانْزَعَجوا لتلك الصيحةِ فأصبحوا خامدينَ لا صوتَ ولا حركةَ ولا حياةَ بعد ذلك العتوِّ والاستكبار ومقابلة أشرفِ الخَلْقِ بذلك الكلام القبيح وتجبُّرهم عليهم.
[29] ﴿اِنْ كَانَتْ ﴾ یعنی نہیں تھی ان کی سزا اور عذاب ﴿اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’مگر ایک چیخ ہی‘‘ یعنی وہ ایک آواز تھی جس کے ذریعے سے بعض فرشتوں نے کلام کیا تھا ﴿فَاِذَا هُمْ خٰؔمِدُوْنَ ﴾ ’’تو وہ اچانک بجھ کر رہ گئے۔‘‘ ان کے دل ان کے سینوں میں پارہ پارہ ہو گئے وہ اس چنگھاڑ کی آواز سے گھبرا اٹھے اور بے جان ہو گئے۔ اس تکبر کے بعد ان کی کوئی آواز تھی نہ ان کے اندر کوئی حرکت تھی۔ اشرف المخلوق کے مقابلے میں ظلم، تکبر، جبر اور ان کے ساتھ بدکلامی کے بعد اب ان میں زندگی کے آثار تک نہ تھے۔
#
{30} قال الله مترحِماً للعبادِ: {يا حسرةً على العبادِ ما يأتيهم من رسول إلاَّ كانوا به يستهزِئونَ}؛ أي: ما أعظم شقاءَهم وأطولَ عناءَهم وأشدَّ جهلَهم حيث كانوا بهذه الصفةِ القبيحةِ التي هي سببٌ لكلِّ شقاءٍ وعذابٍ ونَكال.
[30] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا یَ٘اْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’بندوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جو بھی رسول آتا یہ اس کے ساتھ مذا ق کرتے تھے۔‘‘ یعنی ان کی بدبختی کتنی بڑی، ان کا عناد کتنا طویل اور ان کی جہالت کتنی شدید ہے کہ وہ ایسی قبیح صفت سے متصف ہیں جو ہر بدبختی، ہر عذاب اور ہر سزا کا سبب ہے۔
#
{31 ـ 32} {ألم يروا كم أهلكنا قبلهم من القرون أنهم إليهم لا يرجعون. وإن كلُّ لمَّا جميعٌ لدينا محضرون}؛ يقول تعالى: ألم يَرَ هؤلاء ويَعْتَبِروا بِمَنْ قبلَهم من القرون المكذِّبة التي أهْلَكَها الله تعالى وأوقَعَ بها عقابَها، وأنَّ جميعَهم قد بادَ وهَلَكَ فلم يرجِعْ إلى الدُّنيا ولنْ يَرْجِعَ إليها، وسيعيدُ الله الجميع خلقاً جديداً، ويبعثُهُم بعد موتِهِم، ويحضُرونَ بين يديهِ تعالى؛ ليحكمَ بينهم بحكمِهِ العدل الذي لا يظلِمُ مثقالَ ذَرَّةٍ وإنْ تَكُ حسنةً يضاعِفْها، ويُؤْتِ من لَدُنْه أجراً عظيماً.
[31، 32] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا انھوں نے انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والی گزشتہ قوموں کو دیکھ کر عبرت نہیں پکڑی، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالا ، ان پر عذاب کا کوڑا برسایا اور وہ سب ہلاک اور برباد ہو گئیں ان میں سے کوئی دنیا میں لوٹ کر آیا ہے نہ لوٹ کر آئے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام لوگوں کو نئے سرے سے تخلیق بخشے گا، ان کے مرنے کے بعد انھیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیا جائے گا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے جس میں وہ ذرہ بھر ظلم نہ کرے گا۔ ﴿وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (النساء:4؍40) ’’اگر نیکی ہو گی تو اللہ اس کو کئی گنا کر دے گا اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔‘‘
آیت: 33 - 36 #
{وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (33) وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ (34) لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (35) سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ (36)}.
اور ایک نشانی ہے ان کے لیے زمین مردہ، زندہ کیا ہم نے اسے (بارش سے) اور نکالا ہم نے اس سے (اناج کا) دانہ، پس اسی (دانۂ اناج) سے وہ کھاتے ہیں (33) اور بنائے ہم نے (زمین) میں باغات کھجوروں اور انگوروں کے، اور جاری کیے ہم نے ان (باغوں ) میں چشمے (34) تاکہ کھائیں وہ اس کےپھلوں سے، اور نہیں بنایا اس کو ان کے ہاتھوں نے، کیا پس نہیں وہ شکر کرتے؟ (35) پاک ہے وہ ذات جس نے پیدا کیے جوڑے، سب کے ان چیزوں کے (بھی) جن کو اگاتی ہے زمین اور خود ان (انسانوں) کے اپنے بھی اور ان کے (بھی) جنھیں وہ نہیں جانتے (36)
#
{33} أي: {وآيةٌ لهم}: على البعثِ والنُّشور والقيام بين يدي الله تعالى للجزاء على الأعمال هذه {الأرضُ المَيْتَةُ}: أنزل الله عليها المطرَ فأحْياها بعد موتها، {وأخْرَجْنا منها حَبًّا فمنه يأكُلونَ}: من جميع أصناف الزُّروع ومن جميع أصناف النباتِ التي تأكُلُه أنعامُهم.
[33] ﴿وَاٰیَةٌ لَّهُمُ ﴾ ’’ان کے لیے ایک نشانی ہے۔‘‘ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے، حشر ونشر، حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے اور ان اعمال کی جزاوسزا پر دلیل ہے ﴿الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ ﴾ ’’مردہ زمین‘‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے پانی برسایا اور اس کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے دوبارہ زندگی عطا کی۔ ﴿وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَ٘اْكُلُوْنَ ﴾ یعنی ہم نے اس زمین میں سے ان تمام زرعی اصناف کو اگایا جن کو لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان اصناف کو بھی جن کو ان کے مویشی کھاتے ہیں۔
#
{34} {وجَعَلْنا فيها}؛ أي: في تلك الأرض الميتة {جَنَّاتٍ}؛ أي: بساتين فيها أشجارٌ كثيرةٌ، وخصوصاً النخيل والأعناب، اللذان هما أشرف الأشجار، {وفجَّرْنا فيها}؛ أي: في الأرض {من العيون}: جعلنا في الارض تلكَ الأشجارَ والنخيل والأعناب.
[34] ﴿وَجَعَلْنَا فِیْهَا ﴾ یعنی ہم نے اس مردہ زمین میں اگائے ﴿جَنّٰتٍ ﴾ باغات جن میں بے شمار درخت ہیں، خاص طور پر کھجور اور انگور، جن کے درخت بہترین درخت ہیں۔ ﴿وَّفَجَّرْنَا فِیْهَا ﴾ اور ہم نے اس میں جاری کیے یعنی زمین میں ﴿مِنَ الْعُیُوْنِ﴾ ’’چشمے‘‘ ہم نے زمین کے اندر یہ درخت، یعنی کھجور اور انگور اگائے۔
#
{35} {لِيأكُلوا من ثمرِهِ}: قوتاً وفاكهةً وأدماً ولذَّةً. {و} الحال أنَّ تلك الثمار {ما} عملتها {أيديهم}: وليس لهم فيها صنعٌ ولا عملٌ، إنْ هو إلاَّ صنعةُ أحكم الحاكمين وخيرِ الرازقين، وأيضاً؛ فلم تَعْمَلْهُ أيديهم بطبخ ولا غيرِهِ، بل أوجد اللهُ هذه الثمارَ غير محتاجةٍ لطَبْخ ولا شيءٍ تؤخَذُ من أشجارِها فتُؤكَلُ في الحال. {أفلا يَشْكُرونَ}: مَنْ ساقَ لهم هذه النعم، وأسبغَ عليهم من جُودِهِ وإحسانِهِ ما به تَصْلُحُ أمورُ دينهم ودُنْياهم، أليس الذي أحْيا الأرض بعد موتِها فأنْبَتَ فيها الزُّروعَ والأشجارَ وأوْدَعَ فيها لذيذَ الثمار وأظهر ذلك الجنى من تلك الغصونِ وفَجَّرَ الأرضَ اليابسة الميتة بالعُيونِ بقادرٍ على أن يُحْيِيَ الموتى؟ بلى إنَّه على كل شيء قدير.
[35] ﴿لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ﴾ تاکہ یہ انھیں بطور خوراک، پھل، سالن اور لذت استعمال کریں۔ ﴿وَ﴾ حالانکہ ان پھلوں کو ﴿مَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’ان کے ہاتھوں نے تخلیق نہیں کیا‘‘ ان میں ان کی کوئی صنعت کاری ہے نہ ان کی کسی کاری گری کا عمل دخل یہ تو اللہ، احکم الحاکمین اور خیرالرازقین کی تخلیق کا کمال ہے، نیز ان پھلوں کو ان لوگوں یا کسی اور نے آگ پر نہیں پکایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پھلوں کو اس طرح وجود بخشا ہے کہ ان کو آگ پر پکائے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ان پھلوں کو درختوں سے توڑ کر اسی وقت اور اسی حال میں کھایا جا سکتا ہے۔ ﴿اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ جس ہستی نے ان تک یہ نعمتیں پہنچائی، جس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر ان کو ایسے امور سے نوازا جن میں ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ تو یہ اس ہستی کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ ہستی جس نے زمین کے مرنے کے بعد اسے زندہ کیا، اس میں کھیتیاں اور درخت اگائے، ان میں نہایت لذیذ اقسام کے پھل ودیعت کیے، ان پھلوں کو ان درختوں کی شاخوں پر نمایاں کیا اور خشک زمین پر پانی کے چشمے جاری کیے… مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
#
{36} {سبحانَ الذي خَلَقَ الأزواجَ كُلَّها}؛ أي: الأصناف كلَّها {مما تُنْبِتُ الأرضُ}: فَنَوَّعَ فيها من الأصناف ما يعسُرُ تعدادُهُ، {ومن أنفسِهِم}: فنوَّعَهم إلى ذكرٍ وأنثى، وفاوتَ بين خَلْقِهِم وخُلُقِهِم وأوصافهم الظاهرة والباطنة {وممَّا لا يعلمونَ}: من المخلوقات التي قد خُلِقَتْ وغابتْ عن عِلْمِنا، والتي لم تُخْلَقْ بعد؛ فسُبحانه وتعالى أن يكونَ له شريكٌ أو ظهيرٌ أو عوينٌ أو وزيرٌ أو صاحبةٌ أو ولدٌ أو سميٌّ أو شبيهٌ أو مثيلٌ في صفاتِ كماله ونعوتِ جلالِهِ، أو يُعْجِزَه شيءٌ يريدُه.
[36] ﴿سُبْحٰؔنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا ﴾ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس (زمین) کی ہر چیز کے جوڑے بنائے۔‘‘ یعنی تمام اصناف کو تخلیق فرمایا ﴿مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ ﴾ ’’زمین کی نباتات سے‘‘ اس نے زمین میں ایسی ایسی اصناف تخلیق فرمائیں جن کو شمار کرنا بہت مشکل ہے۔ ﴿وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ یعنی خود ان کو مرد اور عورت کی اصناف میں پیدا کیا، ان کی تخلیق، فطرت اور ان کے اوصاف ظاہرہ و باطنہ میں تفاوت پیدا کیا۔ ﴿وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ اور ان مخلوقات کی اصناف کو پیدا کیا جو ہمارے علم کی گرفت سے باہر ہیں اور وہ مخلوقات جو اس کے بعد پیدا ہی نہ کی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی شریک، مددگار، معاون، وزیر، بیوی یا کوئی بیٹا ہو، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی صفات کمال اور نعوت جلال میں اس کا ہم سر، مثیل یا کوئی مشابہت کرنے والا ہو یا اسے کوئی اپنے ارادے سے باز رکھ سکے۔
آیت: 37 - 40 #
{وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (37) وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (38) وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ (39) لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (40)}.
اور ایک نشانی ان کے لیے رات ہے، کھینچ لیتے ہیں ہم اس (رات) سے دن کو، پس یکایک وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں (37) اور سورج رواں دواں رہتا ہے اپنے ٹھکانے کے لیے ، یہ اندازہ ہے نہایت غالب خوب جاننے والے کا (38) اور چاند، مقرر کر دی ہیں ہم نے اس کی منزلیں، یہاں تک کہ ہو جاتا ہے وہ(ایسے) جیسے کھجور کے خوشے کی پرانی ٹیڑھی ڈنڈی (39) نہ سورج کو لائق ہے یہ کہ پکڑ لے وہ چاند کو اور نہ رات ہی پہل کرنے والی ہے دن سے، اور ہر ایک (ان میں سے اپنے اپنے) مدار میں تیرتے پھرتے ہیں (40)
#
{37} أي: {وآيةٌ لهم}: على نفوذِ مشيئتِهِ وكمال قدرتِهِ وإحيائِهِ الموتى بعد موتهم {الليلُ نسلخُ منه النهارَ}؛ أي: نزيل الضياءَ العظيمَ الذي طَبَّقَ الأرضَ فنبدِلُه بالظُّلمة ونُحِلُّها محلَّه؛ {فإذا هم مظلِمون}.
[37] ﴿وَاٰیَةٌ لَّهُمُ ﴾ ’’اور ان کے لیے ایک نشانی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نفاذ، اس کی قدرت کے کمال، مردوں کو اس کے دوبارہ زندہ کرنے پر ایک دلیل ﴿الَّیْلُ١ۖ ۚ نَ٘سْلَ٘خُ مِنْهُ النَّهَارَ ﴾ ’’رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم نے اس کی عظیم روشنی کو زائل کر کے، جس نے روئے زمین کو منور کر رکھا تھا، تاریکی سے بدل ڈالا جسے ہم اس کے وقت پر نازل کرتے ہیں۔ ﴿فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَ﴾ ’’پس وہ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔‘‘
#
{38} وكذلك نزيلُ هذه الظلمةَ التي عَمَّتْهم وشَمِلَتْهم، فنُطْلِعُ الشمسَ، فتضيء الأقطار، وينتشر الخلقُ لمعايشهم ومصالحهم، ولهذا قال: {والشمسُ تجري لِمُسْتَقَرٍّ لها}؛ أي: دائماً تجري لمستقرٍّ لها، قدَّرها الله، لا تتعداه ولا تقصر عنه وليس لها تصرف في نفسها ولا استعصاء على قدرة الله تعالى. {ذلك تقدير العزيزِ}: الذي بعزَّتِهِ دَبَّرَ هذه المخلوقاتِ العظيمةَ بأكمل تدبيرٍ وأحسن نظام. {العليم}: الذي بعِلْمِهِ جَعَلَها مصالح لعبادِهِ ومنافعَ في دينِهِم ودُنياهم.
[38] اسی طرح ہم تاریکی کو زائل کرتے ہیں، جس نے ان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ پس ہم سورج کو طلوع کرتے ہیں، جس سے تمام زمین اپنے کناروں تک روشن ہو جاتی ہے اور مخلوق اپنے رزق کی تلاش اور اپنے مصالح کے حصول کے لیے روئے زمین پر پھیل جاتی ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَالشَّ٘مْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّؔ لَّهَا﴾ سورج دائمی طور پر اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ اس سے تجاوز کرتا ہے نہ کوتاہی اور نہ وہ اپنے آپ پر تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے دم مار سکتا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْ٘عَزِیْزِ ﴾ ’’یہ غالب ہستی کا اندازہ ہے۔‘‘ جس نے اپنے غلبہ و عزت کی بنا پر اتنی بڑی بڑی مخلوقات کی کامل ترین طریقے سے تدبیر اور بہترین طریقے سے انتظام کیا ﴿الْعَلِیْمِ﴾ جس نے اپنے علم کی بنا پر اپنے بندوں کے لیے ان کے دین و دنیا میں مصالح مقرر فرمائے۔
#
{39} {والقَمَرَ قدَّرْناه منازلَ}: ينزِلُها ، كلَّ ليلةٍ ينزِلُ منها واحدةً، {حتى}: يصغُرَ جدًّا فيعود {كالعُرْجونِ القديم}؛ أي: عُرجون النخلةِ الذي من قدمه نَشَّ وصَغُر حجمُهُ وانحنى، ثم بعد ذلك ما زال يزيدُ شيئاً فشيئاً حتى يتمَّ نورُه، وَيَتَّسِقَ ضياؤُه.
[39] ﴿وَالْ٘قَ٘مَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ ﴾ ’’اور ہم نے چاند کی بھی منزلیں مقرر کردیں۔‘‘ وہ ہر رات ایک منزل میں نازل ہوتا اور کم ہوتا رہتا ہے ﴿حَتّٰى ﴾ یہاں تک کہ وہ بہت چھوٹا ہو جاتا ہے اور لوٹ کر ہوجاتا ہے ﴿كَالْ٘عُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ﴾ ’’پرانی ٹہنی کی طرح‘‘ یعنی کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند جو قدامت کی وجہ سے چٹختی ہے، اس کا حجم چھوٹا ہو جاتا ہے اور وہ ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد چاند تھوڑا تھوڑا بڑھتا رہتا ہے حتی کہ اس کی روشنی مکمل ہو جاتی ہے۔
#
{40} وكلٌّ من الشمس والقمر والليل والنهار قدَّره الله تقديراً لا يتعدَّاه، وكلٌّ له سلطانٌ ووقتٌ، إذا وُجِدَ؛ عُدِمَ الآخرَ، ولهذا قال: {لا الشمسُ ينبغي لها أن تُدْرِكَ القمرَ}؛ أي: في سلطانِهِ الذي هو الليل؛ فلا يمكنُ أن توجدَ الشمسُ في الليل، {ولا الليلُ سابِقُ النهارِ}: فيدخُلُ عليه قبل انقضاءِ سلطانِهِ. {وكلٌّ}: من الشمس والقمر والنجوم {في فَلَكٍ يَسْبِحونَ}؛ أي: يترَّددون على الدوام؛ فكلُّ هذا دليلٌ ظاهرٌ وبرهانٌ باهرٌ على عظمة الخالقِ وعظمةِ أوصافِهِ، خصوصاً وصفَ القدرةِ والحكمةِ والعلم في هذا الموضع.
[40] ﴿وَ كُلٌّ ﴾ ’’ اور ہر ایک‘‘ یعنی سورج، چاند، رات اور دن کے لیے اللہ تعالیٰ نے اندازہ مقرر فرما دیا ہے کوئی اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ ہر ایک کے لیے وقت مقرر ہے جب ایک وجود میں آتا ہے تو دوسرا معدوم ہو جاتا ہے، بنا بریں فرمایا: ﴿لَا الشَّ٘مْسُ یَنْۢ٘بـَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْ٘قَ٘مَرَ ﴾ ’’سورج کی یہ مجال نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے‘‘ یعنی اس کی بادشاہی میں جو کہ رات ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ سورج رات کے وقت موجود ہو۔ ﴿وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ﴾ ’’اور رات دن سے آگے نہیں بڑھ سکتی‘‘ کہ وہ دن کی بادشاہت ختم ہونے سے پہلے اس میں داخل ہوجائے۔ ﴿وَكُ٘لٌّ ﴾’’اور ہر ایک‘‘ یعنی سورج، چاند اور ستارے ﴿فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ ﴾ ’’سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘ یعنی وہ دائمی طور پر اپنے راستے پر آ جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ خالق کائنات اور اس کے اوصاف کی عظمت کی ناقابل تردید دلیل اور برہان ہے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت، حکمت اور اس موضوع کے متعلق علم کے اثبات کی دلیل ہے۔
آیت: 41 - 50 #
{وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (41) وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ (42) وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ (43) إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ (44) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (45) وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (46) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (47) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (48) مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ (49) فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (50)}.
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے اٹھایا ان کی نسل کو اس کشتی میں (جو) بھری ہوئی (تھی) (41) اور پیدا کیں ہم نے ان کے لیے اس جیسی(اور سواریاں) جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (42) اور اگر ہم چاہیں تو غرق کر دیں ان کو، پس نہیں ہوگا کوئی فریاد رس واسطے ان کے اور نہ وہ چھڑائے جائیں (43) مگر رحمت سے ہماری، اور فائدہ پہنچانے کو ایک مدت تک (44) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، بچو اس (عذاب) سے جو تمھارے سامنے اور جو تمھارے پیچھے ہے، تاکہ تم رحم کیے جاؤ (45) اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی، ان کے رب کی نشانیوں میں سے، مگر ہوتے ہیں وہ اس سے اعراض کرنے والے ہی (46) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، تم خرچ کرو اس میں سے جو رزق دیا تمھیں اللہ نے، تو کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان سے جو ایمان لائے، کیا کھلائیں ہم اس کو کہ اگر چاہتا اللہ(کھلانا) تو کھلا دیتا اس کو، نہیں ہو تم مگر گمراہی صریح میں (47) اور وہ کہتے ہیں: کب (پورا) ہو گا یہ وعدہ اگر ہو تم سچے؟ (48) نہیں انتظار کر رہے وہ مگر ایک زور کی آواز کا جو آ پکڑے گی ان کو اور وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے(49) پس نہ طاقت رکھیں گے وہ وصیت کرنے کی اور نہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف ہی لوٹ سکیں گے (50)
#
{41} أي: ودليلٌ لهم وبرهانٌ على أنَّ اللهَ وحدَه المعبودُ؛ لأنَّه المنعِمُ بالنِّعم الصارف للنِّقم الذي من جملةِ نعمه {أنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهم}: قال كثيرٌ من المفسِّرين: المرادُ بذلك آباؤهم.
[41] نیز یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود بر حق ہے کیونکہ وہی اکیلا نعمتیں عطا کرتا ہے اور مصائب و شدائد کو دور کرتا ہے اور اس کی جملہ نعمتوں میں ایک نعمت یہ ہے کہ ﴿اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ ﴾ ’’ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا۔‘‘ بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد ان کے آباء و اجداد ہیں۔
#
{42} {وخَلَقْنا لهم}؛ أي: للموجودين من بعدِهم {من مثلِهِ}؛ أي: من مثل ذلك الفلك؛ أي: جنسه {ما يَرْكَبونَ}: به. فذكر نعمتَه على الآباء بِحَمْلِهِم في السفن؛ لأنَّ النعمة عليهم نعمةٌ على الذُّرِّيَّة. وهذا الموضعُ من أشكل المواضع عليَّ في التفسير؛ فإنَّ ما ذَكَرَه كثيرٌ من المفسِّرين من أنَّ المرادَ بالذُّرِّيَّةِ الآباء مما لا يُعْهَدُ في القرآن إطلاقُ الذُّرِّيَّةِ على الآباء، بل فيه من الإبهام وإخراج الكلام عن موضوعِهِ ما يأباه كلامُ ربِّ العالمين وإرادتُه البيانَ والتوضيحَ لعبادِهِ. وثَمَّ احتمالٌ أحسنُ من هذا، وهو أنَّ المرادَ بالذُّرِّيَّةِ الجنسُ، وأنَّهم هم بأنفسهم؛ لأنَّهم هم من ذُرِّيَّةِ بني آدم، ولكن يَنْقُضُ هذا المعنى قوله: {وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يَرْكَبون}: إنْ أريدَ: وخَلَقْنا من مثل ذلك الفُلْك؛ أي: لهؤلاء المخاطبين ما يركبونَ من أنواع الفُلْك، فيكونُ ذلك تكريراً للمعنى تأباه فصاحةُ القرآن. فإنْ أريدَ بقوله: {وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يركبونَ}: الإبل التي هي سُفُن البرِّ؛ استقامَ المعنى واتَّضح؛ إلاَّ أنَّه يبقى أيضاً أن يكون الكلامُ فيه تشويشٌ؛ فإنَّه لو أُريد هذا المعنى؛ لقال: وآيةٌ لهم أنَّا حَمَلْناهم في الفُلْكِ المَشْحونِ وخَلَقْنا لهم من مثلِهِ ما يركبونَ، فأمَّا أنْ يُقالَ في الأول: حملنا ذريتهم، وفي الثاني: حملناهم؛ فإنَّه لا يظهرُ المعنى إلاَّ أنْ يقالَ: الضميرُ عائدٌ إلى الذُّرِّيَّةِ. والله أعلم بحقيقةِ الحال. فلمَّا وصلتُ في الكتابة إلى هذا الموضع؛ ظهر لي معنى ليس ببعيدٍ من مرادِ الله تعالى، وذلك أنَّ مَنْ عَرَفَ جلالة كتابِ الله وبيانَه التامَّ من كلِّ وجهٍ للأمور الحاضرة والماضية والمستقبلةِ، وأنَّه يَذْكُرُ من كلِّ معنى أعلاه وأكمل ما يكون من أحوالِهِ، وكانت الفُلْكُ من آياته تعالى ونعمِهِ على عباده من حين أنعم عليهم بتعلُّمها إلى يوم القيامةِ، ولم تزلْ موجودةً في كلِّ زمان إلى زمانِ المواجَهين بالقرآن، فلمَّا خاطبهم الله تعالى بالقرآن، وذَكَرَ حالةَ الفُلك، وعَلِمَ تَعالى أنَّه سيكونُ أعظمُ آياتِ الفلكِ في غير وقتهم وفي غير زمانهم حين يُعَلِّمُهُم صنعةَ الفُلك البحريَّة الشراعيَّة منها والنّارية والجويَّة السابحة في الجوِّ كالطيور ونحوها والمراكبِ البريَّة ممَّا كانت الآيةُ العظمى فيه لم توجَدُ إلاَّ في الذُّرِّيَّةِ؛ نبَّه في الكتاب على أعلى نوع من أنواع آياتها، فقال: {وآيةٌ لهم أنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ في الفُلْكِ المشحونِ}؛ أي: المملوء ركباناً وأمتعةً، فحملهم الله تعالى، ونجَّاهم بالأسباب التي علَّمهم اللهُ بها من الغرق.
[42] ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ ﴾ ’’اور ہم نے ان کے لیے پیدا کیں۔‘‘ یعنی موجود اور آنے والے لوگوں کے لیے ﴿مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘﴾ ’’ویسی ہی‘‘ یعنی اس کشتی جیسی یعنی اس کی جنس میں سے ﴿مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ ’’جس پر یہ سواری کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمت کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو کشتی میں سوار کرایا۔ ان پر نعمت کا فیضان گویا اولاد پر نعمت کا فیضان ہے۔ تفسیر کے اعتبار سے یہ مقام میرے لیے مشکل ترین مقام ہے کیونکہ بہت سے مفسرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ’’ذریت‘‘ سے مراد آباء و اجداد ہیں، مگر قرآن کریم میں ذریت کا آباء و اجداد پر اطلاق کہیں نہیں آتا… بلکہ اگر اس کو ان معنوں میں لیا جائے تو اس میں ابہام اور کلام کو اصل موضوع کے دائرے سے خارج کرنا ہے جس سے رب العالمین کا کلام انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اپنے بندوں کے سامنے ایضاح و بیان ہے۔ یہاں ایک اور احتمال بھی ہے جو اس سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ’’ذریت‘‘ سے مراد جنس ہے یعنی اس سے مراد وہ خود ہیں کیونکہ وہی آدم کی ذریت ہیں، مگر یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متناقض ہے۔ ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘ مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے لیے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوجاتے ہیں۔‘‘ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ ہم نے اس کشتی جیسی کشتی تخلیق کی۔ یعنی ان مخاطبین کے لیے جو مختلف انواع کی کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں… تو یہ معنی کا تکرار ہے، قرآن کریم کی فصاحت اس سے انکار کرتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّؔثْلِهٖ٘ مَا یَرْؔكَبُوْنَ ﴾ سے اونٹ مراد لیے جائیں جو صحرا کے جہاز ہیں تو معنی نہایت درست اور واضح ہے… البتہ اس معنی کے مطابق بھی کلام میں تشویش باقی رہ جاتی ہے کیونکہ اگر یہ معنی مراد ہوتا تو اللہ یوں ارشاد فرماتا: (وَاٰیَۃٌ لَّھَم اَنَّا حَمَلْنَا ھُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُونَ وَخَلَقْنَا لَھُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُونَ ) ’’اور ان کے لیے نشانی ہے کہ ہم نے انھیں بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لیے اسی جیسی دوسری چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔‘‘ رہا پہلی آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا اور دوسری آیت کریمہ میں یہ فرمانا کہ ہم نے انھیں سوار کیا، تو اس سے معنی واضح نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے یہ کہا جائے کہ ضمیر (ذریۃ) کی طرف لوٹتی ہو اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ جب میں یہاں تک لکھ چکا تو مجھ پر ایک معنی ظاہر ہوا جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے بعید نہیں، جو کوئی کتاب اللہ کے جلال اور ہر لحاظ سے حال، ماضی اور مستقبل کے امور کے لیے اس کے بیان کامل کی معرفت رکھتا ہے، نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ وہ معنی ذکر کرتا ہے جو اپنے احوال میں کامل ترین معنی ہوں۔ کشتی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور اس کے بندوں کے لیے اس کی نعمت ہے… جب سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کشتی کی نعمت اور اس کی تعلیم سے نوازا ہے اس وقت سے لے کر روز قیامت اور قرآن کے مخاطبین کے زمانے تک، ہر زمانے میں کشتی موجود رہی ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو قرآن کے ذریعے سے مخاطب کیا اور کشتی کا حال بیان کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان مخاطبین کے زمانے کے بعد ایسی ایسی کشتیاں ایجاد ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ان کو بحری، بادبانی اور بھاپ سے چلنے والی، فضا میں پرندوں کی مانند تیرنے والی کشتیوں اور خشکی پر چلنے والی سواریوں کی صنعت کی تعلیم دے گا اور یہ عظیم نشانی صرف ان کی ذریت کے زمانے ہی میں پائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب کریم میں اپنی نشانیوں کی تمام انواع میں سے، اعلیٰ ترین نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ﴾ ’’اور ان کے لیے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔‘‘ یعنی سواریوں اور سامان سے بھری ہوئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سواریوں پر سوار کرایا اور ان اسباب کے ذریعے سے ان کو ڈوبنے سے بچایا جو اس نے انھیں سکھائے تھے۔
#
{43} ولهذا نبَّههم على نعمتِهِ عليهم حيث أنْجاهم من الغرقِ مع قدرتِهِ على ذلك، فقال: {وإن نشأ نُغْرِقْهم فلا صريخَ لهم}؛ أي: لا أحد يصرُخُ لهم فيعاوِنُهم على الشدَّة ولا يزيلُ عنهم المشقَّة، {ولا هم يُنقَذونَ}: مما هم فيه.
[43] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کی طرف توجہ دلائی کہ اس نے ان کو غرق کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ڈوبنے سے بچایا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ ﴾ ’’اور اگر ہم چاہیں تو انھیں غرق کردیں ، پھر ان کا کوئی فریاد رس نہ ہو۔‘‘ یعنی کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس مصیبت میں چیخ و پکار سن کر ان کی مدد کر سکے اور ان کی مصیبت کو دور کر سکے۔ ﴿وَلَا هُمْ یُنْقَذُوْنَ﴾ ’’اور نہ وہ کسی طرح بچائے جا سکیں گے‘‘ اس مصیبت سے جس میں وہ مبتلا ہیں۔
#
{44} {إلاَّ رحمةً مِنَّا ومتاعاً إلى حينٍ}: حيث لم نُغْرِقْهم لطفاً بهم وتمتيعاً لهم إلى حينٍ، لعلَّهم يرجِعونَ، أو يستدرِكون ما فَرَطَ منهم.
[44] ﴿اِلَّا رَحْمَةً مِّؔنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ ﴾ ’’مگر یہ ہماری رحمت اور ایک مدت تک کے فائدے ہیں۔‘‘ یعنی ہم نے ان سے لطف و کرم کرنے اور ایک مدت تک ان کو متمتع کرنے کی بنا پر ان کو ڈبویا نہیں، شاید! وہ ہماری طرف رجوع کریں یا اپنی کوتاہیوں کی تلافی کریں۔
#
{45} {وإذا قيل لهمُ اتَّقوا ما بَيْنَ أيديكم وما خَلْفَكُم}؛ أي: من أحوال البرزخ والقيامةِ وما في الدُّنيا من العقوبات؛ {لعلَّكُم تُرْحَمونَ}: أعرضوا عن ذلك، فلم يرفعوا به رأساً، ولو جاءَتْهم كلُّ آيةٍ.
[45] ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ ﴾ ’’اور جب ان سے کہا گیا کہ جو تمھارے آگے ہے کہ جو تمھارے پیچھے ہے اس سے ڈرو‘‘ یعنی برزخ اور قیامت کے احوال اور دنیاوی سزاؤں سے اپنا بچاؤ کرو۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ ’’شاید! تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے روگردانی کی اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آئی، مگر انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔
#
{46} ولهذا قال: {وما تأتيهم مِن آيةٍ مِن آياتِ ربِّهم إلاَّ كانوا عنها معرضينَ}: وفي إضافة الآياتِ إلى ربِّهم دليلٌ على كمالها ووضوحِها؛ لأنَّه ما أبين من آياتِ اللَّه ولا أعظم بياناً، وإنَّ من جملة تربيةِ الله لعبادِهِ أنْ أوصلَ إليهم الآياتِ التي يستدلُّون بها على ما ينفعُهم في دينهم ودنياهم.
[46] اس لیے فرمایا: ﴿وَمَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ ﴾ ’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نشانی آتی یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔‘‘ آیات کی، ان کے رب کی طرف اضافت ان آیات کے کامل اور واضح ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے زیادہ کوئی چیز واضح نہیں۔ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی جملہ تربیت میں سے ایک چیز کہ اس نے اپنی آیات اپنے بندوں تک پہنچائیں جن کے ذریعے سے وہ ان امور میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ان کے لیے دین و دنیا میں فائدہ مند ہیں۔
#
{47} {وإذا قيلَ لهم أنفِقوا ممَّا رَزَقَكُمُ اللهُ}؛ أي: من الرزق الذي مَنَّ به اللهُ عليكم، ولو شاء لَسَلَبَكُم إيَّاه، {قالَ الذين كَفَروا للذين آمنوا}: معارضينَ للحقِّ محتجِّين بالمشيئةِ: {أنُطْعِمُ مَن لو يشاءُ الله أطْعَمَهُ إنْ أنتُم}: أيها المؤمنون، لفي {ضلالٍ مبينٍ}: حيث تأمروننا بذلك، وهذا مما يدلُّ على جهلهم العظيم أو تجاهُلِهِم الوخيم؛ فإنَّ المشيئة ليست حجَّةً لعاصٍ أبداً؛ فإنَّه وإنْ كان ما شاءَ اللهُ كان، وما لم يشأ لم يكنْ؛ فإنَّه تعالى مَكَّنَ العبادَ وأعطاهم من القوَّةِ ما يقدرون على فعل الأمرِ واجتنابِ النَّهْي؛ فإذا تَرَكوا ما أمِروا به؛ كان ذلك اختياراً منهم لا جبراً لهم وقهراً.
[47] ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے میں سے کچھ دو‘‘ یعنی اس رزق سے خرچ کرو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے، اگر وہ چاہتا تو وہ اسے تم سے سلب کر لیتا۔ ﴿قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ﴾ ’’کافروں نے مومنوں سے کہا‘‘ یعنی کفار نے حق کی مخالفت اور مشیت کو حجت بناتے ہوئے کہا: ﴿اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ١ۖ ۗ اِنْ اَنْتُمْ ﴾ ’’(اے مومنو!) کیا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں، جن کو اگر اللہ کھلانا چاہتا تو کھلا دیتا نہیں ہو تم‘‘ ﴿اِلَّا فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’مگر کھلی گمراہی میں‘‘ کیونکہ تم ہمیں اس بات کا حکم دے رہے ہو۔ ان کا یہ قول ان کی جہالت یا تجاہل پر دلالت کرتا ہے کیونکہ مشیت الٰہی کسی نافرمان کی نافرنی کے لیے ہرگز دلیل نہیں۔ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہو سکتا تاہم اس نے اپنے بندوں کو اختیار عطا کیا ہے اور انھیں قوت سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کسی ایسی چیز کو ترک کرتے ہیں جس کی تعمیل کا انھیں حکم دیا گیا ہے تو وہ اپنے اختیار سے ترک کرتے ہیں اور ان پر کوئی جبر نہیں ہوتا۔
#
{48 ـ 49} {ويقولون}: على وجه التكذيب والاستعجال: {متى هذا الوعدُ إن كُنتُم صادقينَ}. قال الله تعالى: لا يستبعدوا ذلك؛ فإنَّه عن قريبٍ، {ما ينظُرونَ إلاَّ صَيْحَةً واحدةً}: وهي نفخةُ الصور. {تأخُذُهم}؛ أي: تصيبُهم {وهم يَخِصِّمونَ}؛ أي: وهم لاهون عنها، لم تخطُرْ على قلوبِهِم في حال خصومَتِهم وتشاجُرِهم بينَهم، الذي لا يوجد في الغالب إلاَّ وقتَ الغفلة.
[48، 49] ﴿وَیَقُوْلُوْنَ ﴾ وہ تکذیب کرتے اور عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں ﴿مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کو دور نہ سمجھیں وہ بہت قریب ہے۔ ﴿مَا یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’وہ صرف ایک سخت چیخ کا انتظار کررہے ہیں‘‘ اور وہ صور پھونکنے کی آواز ہو گی۔ ﴿تَاْخُذُهُمْ ﴾ یعنی صور کی چنگھاڑ انھیں آ لے گی ﴿وَهُمْ یَخِصِّمُوْنَ ﴾ ’’جبکہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے‘‘ اور وہ اس آواز کے بارے میں غافل ہوں گے۔ ان کے آپس میں جھگڑے کی حالت میں، جو کہ اکثر غفلت کے وقت ہوتا ہے اور ان کے دل میں اس کے بارے میں خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔
#
{50} وإذا أخذتُهم وقتَ غفلَتِهِم؛ فإنَّهم لا يُنظرونَ ولا يُمهلون؛ {فلا يستطيعون توصيةً}؛ أي: لا قليلة ولا كثيرة، {ولا إلى أهْلِهِم يَرْجِعونَ}.
[50] جب وہ چنگھاڑ ان کی غفلت کے وقت ان کو آ لے گی تو اس وقت ان کو کوئی مہلت نہ دی جائے گی۔ ﴿فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ تَوْصِیَةً ﴾ وہ تھوڑی یا زیادہ کسی قسم کی وصیت نہ کر سکیں گے۔ ﴿وَّلَاۤ اِلٰۤى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ ہی سکیں گے۔‘‘
آیت: 51 - 54 #
{وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (51) قَالُوا يَاوَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ (52) إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (53) فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (54)}.
اور پھونکا جائے گا صور، تو یکایک وہ اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے رب کی طرف تیزی سے دوڑیں گے (51) کہیں گے، ہائے افسوس! کس نے اٹھایا ہمیں ہماری خواب گاہ سے؟ یہی ہے وہ جو وعدہ کیا تھا رحمٰن نے اور سچ کہا تھا رسولوں نے (52) نہیں ہو گی وہ مگر زور کی ایک آواز، پس یکایک وہ سب ہمارے پاس حاضر کیے جائیں گے (53) پس آج نہیں ظلم کیا جائے گا کسی جان پر کچھ بھی اور نہ بدلہ دیے جاؤ گے تم مگر وہی جو تھے تم عمل کرتے (54)
#
{51} النفخة الأولى هي نفخةُ الفزع والموت. وهذه نفخةُ البعثِ والنشور؛ فإذا نُفِخَ في الصور؛ خرجوا {من الأجداث} والقبور {يَنْسِلون} إلى ربِّهم؛ أي: يسرعون للحضور بين يديه، لا يتمكَّنونَ من التأنِّي والتأخُّر.
[51] صور کی پہلی آواز گھبراہٹ اور موت کی آواز ہو گی اور یہ دوسری آواز مردوں کے زندہ ہونے اور اٹھنے کے لیے ہوگی۔ جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو وہ اپنی قبروں سے نکل کر جلدی سے اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے وہ کسی قسم کی تاخیر اور دیر نہ کر سکیں گے۔
#
{52} وفي تلك الحال يحزنُ المكذِّبون ويُظْهِرونَ الحسرةَ والندم ويقولون: {يا وَيْلَنا مَن بَعَثَنا مِن مَرْقَدِنا}؛ أي: من رقدتنا في القبور؛ لأنه ورد في بعض الأحاديث أنَّ لأهل القبور رقدةٌ قبيل النفخ في الصور. فيُجابون ويُقال لهم: {هذا ما وَعَدَ الرحمنُ وَصَدَقَ المرسلونَ}؛ أي: هذا الذي وعدكم اللَّه به ووعدتْكم به الرسلُ، فظهر صدقُهم رأي عينٍ. ولا تَحْسَبْ أنَّ ذكر الرحمن في هذا الموضع لمجرَّدِ الخبر عن وعدِهِ، وإنَّما ذلك للإخبار بأنَّه في ذلك اليوم العظيم سَيَرَوْنَ من رحمتِهِ ما لا يخطُرُ على الظُّنون ولا حَسَبَ به الحاسبون؛ كقوله: {المُلْكُ يومئذٍ الحقُّ للرحمن}، {وخَشَعَتِ الأصواتُ للرحمنِ}، ونحو ذلك مما يَذْكُرُ اسمَه الرحمن في هذا.
[52] اس حال میں، رسولوں کی تکذیب کرنے والے بہت غم زدہ ہوں گے۔ وہ حسرت اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ﴾ ’’ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا؟‘‘ یعنی ہمیں ہماری قبروں میں نیند سے کس نے اٹھایا۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اہل قبور صور پھونکے جانے سے تھوڑی دیر پہلے تک سو رہے ہوں گے۔ ان کو جواب دیا جائے گا: ﴿هٰؔذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ یعنی یہی وہ قیامت ہے جس کا تمھارے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے وعدہ کیا تھا۔ تمھاری آنکھوں کے سامنے ان کی صداقت ظاہر ہو گئی۔ اس مقام پر آپ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’رحمٰن‘‘ کا ذکر محض اس کے وعدے کی خبر کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر تو صرف اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ وہ اس روز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو کبھی ان کے خیال میں بھی نہ گزرے ہوں گے اور حساب لگانے والوں نے بھی حساب نہ لگایا ہو گا، مثلاً: فرمایا: ﴿اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِنِ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ (الفرقان: 25؍26) ’’اس دن حقیقی اقتدار صرف رحمان کا ہو گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ (طٰہٰ: 20؍108) ’’اور رحمٰن کے آگے آوازیں دب جائیں گی۔‘‘ اور اس طرح کے دیگر مقامات جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے صفاتی نام ’’رحمٰن‘‘ کا ذکر فرمایا ہے۔
#
{53} {إن كانت}: البعثة من القبور {إلاَّ صيحةً واحدةً}: يَنْفُخُ فيها إسرافيلُ في الصور، فتحيا الأجساد؛ {فإذا هم جميعٌ لَدَيْنا مُحْضَرونَ}: الأولون والآخرون، والإنس والجن؛ ليحاسبوا على أعمالهم.
[53] ﴿اِنْ كَانَتْ ﴾ ’’نہیں ہوگا‘‘ اہل قبور کا اپنی قبروں سے اٹھنا ﴿اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً ﴾ ’’مگر ایک ہی زور کی چنگھاڑ۔‘‘ اسرافیلu صور پھونکیں گے اور تمام مردے جی اٹھیں گے ﴿فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّـدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ﴾ اولین و آخرین اور جن و انس سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے۔
#
{54} {فاليومَ لا تُظْلَمُ نفسٌ شيئاً}: لا يُنْقَصُ من حسناتها ولا يُزاد في سيئاتها. {ولا تُجْزَوْنَ إلاَّ ما كنتُم تعملونَ}: من خيرٍ أو شرٍّ؛ فمن وَجَدَ خيراً؛ فليحمد الله، ومن وَجَدَ غير ذلك؛ فلا يلومنَّ إلاَّ نفسه.
[54] ﴿فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’پس اس روز کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یعنی ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے گی نہ ان کی برائیوں میں اضافہ۔ ﴿وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ یعنی جس خیروشر کا تم ارتکاب کرو گے صرف اسی کی تمھیں جزا و سزا ملے گی۔ پس جس نے بھلائی پائی وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرے جسے اس کے علاوہ کچھ اور ملا تو اسے صرف اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے۔
آیت: 55 - 58 #
{إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (55) هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ (56) لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ (57) سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ (58)}.
بے شک جنتی آج (اپنے) شغل میں خوش ہوں گے (55) وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے (56) ان کے لیے اس میں میوہ ہو گا(ہر قسم کا) اور ان کے لیے وہ ہو گا جو وہ مانگیں گے (57) سلام کہا جائے گا (انھیں) نہایت مہربان رب کی طرف سے (58)
#
{55 ـ 56} لما ذكر تعالى أنَّ كلَّ أحدٍ لا يُجْزى إلاَّ ما عَمِلَه؛ ذَكَرَ جزاء الفريقينِ، فبدأ بجزاء أهل الجنة، وأخبر أنَّهم في ذلك اليوم {في شُغُلٍ فاكهونَ}؛ أي: في شُغُل مُفَكِّهٍ للنفس مُلِذٍّ لها من كلِّ ما تهواه النفوس وتَلَذُّه العيون ويتمنَّاه المتمنُّون، ومن ذلك افتضاض العذارى الجميلات؛ كما قال: {هم وأزواجُهُم}: من الحور العين اللاَّتي قد جَمَعْنَ حسنَ الوجوهِ والأبدان وحسنَ الأخلاق {في ظلال على الأرائِكِ}؛ أي: السرر المزيَّنة باللباس المزخْرَفِ الحسن {متَّكِئونَ}: عليها اتِّكاءً دالاً على كمال الراحة والطمأنينة واللذة.
[55، 56] جب اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ ہر شخص کو صرف اس کے اعمال کی جزا ملے گی تو دونوں فریقوں کی جزا و سزا کا ذکر بھی کیا۔ پہلے اہل جنت کی جزا کا ذکر کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ اہل جنت اس روز ﴿فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَ﴾ ’’لطف اٹھانے میں مشغول ہوں گے۔‘‘ یعنی ایسے مشاغل میں مشغول ہوں گے جن سے نفس کو لطف اور لذت محسوس ہو گی، ہر وہ چیز جو نفس چاہیں گے، آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تمنا کرنے والے تمنا کریں گے۔ ان نعمتوں میں خوبصورت دوشیزاؤ ں سے ملاقات شامل ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿هُمْ وَاَزْوَاجُهُمْ ﴾ ’’وہ اور ان کی بیویاں‘‘ خوبصورت آنکھوں والی جو خوبصورت چہروں اور خوبصورت بدنوں والی ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی ہوں گی۔ ﴿فِیْ ظِلٰ٘لٍ عَلَى الْاَرَآىِٕكِ ﴾ ’’سایوںمیں مسہریوں میں ہوں گے‘‘ یعنی وہ ایسی مسندوں پر بیٹھیں گے جو خوبصورت لباس سے مزین ہوں گی۔ ﴿مُتَّـكِــُٔوْنَ ﴾ مسند پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے ان کا تکیہ لگانا، کمال راحت، طمانیت اور لذت پر دلالت کرتا ہے۔
#
{57} {لهم فيها فاكهةٌ}: كثيرة من جميع أنواع الثمارِ اللذيذة؛ من عنب، وتين، ورمان، وغيرها، {ولهم ما يَدَّعونَ}؛ أي: يطلبون؛ فمهما طلبوه وتمنَّوْه؛ أدْرَكوه.
[57] ﴿لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ ﴾ اس میں ان کے لیے تمام قسم کے لذیذ پھل اور میوے بکثرت ہوں گے ، مثلاً: انگور، انجیر اور انار وغیرہ۔ ﴿وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ﴾ یعنی جو کچھ بھی وہ طلب کریں گے اور تمنا کریں گے، پا لیں گے۔
#
{58} ولهم أيضاً {سلامٌ} حاصلٌ لهم {من ربٍّ رحيم}: ففي هذا كلام الربِّ تعالى لأهل الجنةِ وسلامُهُ عليهم، وأكَّده بقولِهِ: {قولاً}: وإذا سَلَّم عليهم الربُّ الرحيمُ؛ حَصَلَتْ لهم السلامةُ التامةُ من جميع الوجوه، وحَصَلَتْ لهم التحيةُ التي لا تَحِيَّةَ أعلى منها ولا نعيم مثلها؛ فما ظنُّك بتحيَّة ملك الملوك، الربِّ العظيم، الرءوف الرحيم، لأهل دار كرامته، الذين أحلَّ عليهم رضوانَه؛ فلا يسخط عليهم أبداً؛ فلولا أنَّ الله تعالى قَدَّرَ أنْ لا يموتوا أو تزولَ قلوبُهم عن أماكنها من الفرح والبهجة والسرور؛ لحصل ذلك، فنرجو ربَّنا أن لا يَحْرمَنا ذلك النعيم، وأن يُمَتِّعَنا بالنظر إلى وجهه الكريم.
[58] نیز ان کو ﴿سَلٰ٘مٌ ﴾ ’’سلام‘‘ حاصل ہوگا ﴿مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ﴾ ’’مہربان رب کی طرف سے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کے ساتھ کلام فرمائے گا اور ان پر اس کا سلام ہو گا اور اسے اپنے ارشاد ﴿قَوْلًا ﴾ کے ذریعے سے مؤکد کیا اور جب رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام بھیجا جائے گا تو انھیں ہر لحاظ سے مکمل سلامتی حاصل ہو گی۔ انھیں سلام کہا جائے گا جس سے بڑھ کر کوئی سلام نہیں اور اس جیسی کوئی نعمت نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے بادشاہوں کے بادشاہ، رب عظیم اور رؤ ف و رحیم کی طرف سے اکرام و تکریم کے گھر میں رہنے والے ان لوگوں کو بھیجا گیا سلام کیسا ہو گا، جن پر اس کی رضا سایہ کناں اور ناراضی ہمیشہ کے لیے دور ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے موت مقدر کی ہوتی یا فرحت و سرور کی وجہ سے حرکت قلب کا بند ہو جانا مقرر کیا ہوتا تو وہ خوشی سے ضرور مر جاتے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں ان نعمتوں سے محروم نہیں کرے گا اور ہمیں اپنے چہرۂ اقدس کا دیدار کرائے گا۔
آیت: 59 - 67 #
{وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (59) أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60) وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (61) وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (62) هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (63) اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (64) الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (65) وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ (66) وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ (67)}.
الگ ہو جاؤ آج، اے مجرمو! (59)کیا نہیں وصیت (تاکید)کی تھی میں نے تمھیں، اے بنی آدم! اس بات کی کہ نہ عبادت کرنا تم شیطان کی، بلاشبہ وہ تمھارا دشمن ہے کھلم کھلا (60) اور یہ کہ عبادت کرو تم میری، یہی ہے راستہ سیدھا (61) اور البتہ تحقیق گمراہ کی اس نے تم میں سے مخلوق بہت سی، کیا پس نہیں تھے تم عقل رکھتے؟ (62) یہ ہے جہنم وہ جس کا تھے تم وعدہ دیے جاتے (63) داخل ہو جاؤ اس میں آج بہ سبب اس کے جوتھے تم کفر کرتے (64) آج ہم مہر لگا دیں گے اوپر ان کے مونہوں کے، اور کلام کریں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان کے پیر، ساتھ اس کےجوتھے وہ کماتے(کرتے) (65) اور اگر ہم چاہیں تو البتہ مٹا دیں ان کی آنکھیں، پھر وہ دوڑیں راستہ(تلاش کرنے) کو، پس کیوں کروہ دیکھ سکیں (66) اور اگر ہم چاہیں، تو البتہ مسخ کر دیں ہم ان کی صورتیں ان کی جگہوں پر ہی، پھر وہ نہ طاقت رکھیں (آگے) چلنے کی اور نہ ہی لوٹ سکیں وہ (67)
#
{59} لمَّا ذَكَرَ تعالى جزاء المتَّقين؛ ذَكَرَ جزاء المجرمين، {و} أنَّهم يُقال لهم يوم القيامةِ: {امْتازوا اليومَ أيُّها المجرمونَ}؛ أي: تميَّزوا عن المؤمنين، وكونوا على حِدَةٍ؛ ليوبِّخَهم ويُقَرِّعَهم على رؤوس الأشهادِ قبلَ أن يُدْخِلَهُمُ النار، فيقول لهم:
[59] اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل تقویٰ کی جزا کا ذکر کرنے کے بعد مجرموں کی سزا بیان کی ہے۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ ان کو قیامت کے روز کہا جائے گا: ﴿امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ یعنی اے مجرمو! تم اہل ایمان سے الگ ہو جاؤ۔ یہ حکم اس لیے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں جہنم میں داخل کرنے سے قبل برسرعام زجروتوبیخ کرے اور ان سے کہے:
#
{60} {ألمْ أعْهَدْ إليكُم}؛ أي: آمرُكُم وأوصيكم على ألسنةِ رُسُلي وأقول لكم: {يا بَني آدمَ أن لا تَعْبُدوا الشيطانَ}؛ أي: لا تطيعوه! وهذا التوبيخ يدخل فيه التوبيخُ عن جميع أنواع الكفرِ والمعاصي؛ لأنَّها كلها طاعةٌ للشيطان وعبادةٌ له، {إنَّه لكم عدوٌّ مُبينٌ}: فحذَّرتكم منه غايةَ التَّحذير، وأنذرتُكم عن طاعتِهِ، وأخبرتُكم بما يدعوكم إليه.
[60] ﴿اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ ﴾ یعنی کیا میں نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے تمھیں حکم نہیں دیا تھا اور تمھیں وصیت نہیں کی تھی اور تم سے یہ نہیں کہا تھا ﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّ٘یْطٰ٘نَ ﴾ ’’اے آدم کی اولاد! شیطان کی عبادت نہ کرنا۔‘‘ یعنی اس کی اطاعت نہ کرو؟ یہ زجروتوبیخ ہے اور اس میں ہر قسم کے کفرومعصیت پر زجروتوبیخ داخل ہے، کیونکہ کفرومعاصی کی تمام اقسام شیطان کی اطاعت اور اس کی عبادت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ﴿اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ ’’بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ پس میں نے تمھیں اس سے انتہائی حد تک بچنے کی ہدایت کی، تمھیں اس کی اطاعت سے ڈرایا اور وہ تمھیں جس چیز کی دعوت دیتا ہے میں نے تمھیں اس سے خبردار کیا تھا۔
#
{61} {و} أمرتُكم: أنْ تعبدوني بامتثال أوامري وترك زَواجِري. {هذا}؛ أي: عبادتي وطاعتي ومعصية الشيطان {صراطٌ مستقيمٌ}: فعُلوم الصراط المستقيم وأعمالُهُ ترجعُ إلى هذين الأمرين؛ أي: فلم تَحْفَظوا عهدي ولم تَعْمَلوا بوصِيَّتي، فواليتُم عدوَّكم.
[61] ﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ میں نے تمھیں حکم دیا تھا: ﴿اَنِ اعْبُدُوْنِیْ ﴾ کہ میرے اوامر کی تعمیل کرتے اور میری نافرمانی سے بچتے ہوئے میری عبادت کرو۔ ﴿هٰؔذَا﴾ یعنی میری عبادت، میری اطاعت اور شیطان کی نافرمانی کرنا ﴿صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ﴾ ’’سیدھا راستہ ہے۔‘‘ پس صراط مستقیم کے علوم و اعمال انھی مذکورہ دو امور کی طرف راجع ہیں۔تم نے میرے عہد کی حفاظت کی نہ میری وصیت پر عمل کیا بلکہ تم نے اپنے دشمن یعنی شیطان سے دوستی رکھی۔
#
{62} فأضلَّ {منكم جِبِلاًّ كثيراً}؛ أي: خلقاً كثيراً. {أفلم تكونوا تعقلونَ}؛ أي: أفلا كان لكم عقلٌ يأمُرُكم بموالاة ربِّكم ووليِّكم الحقِّ، ويزجركم عن اتِّخاذ أعدى الأعداءِ لكم وليًّا؟ فلو كان لكم عقلٌ صحيحٌ؛ لما فعلتُم ذلك.
[62] ﴿اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیْرًا ﴾ اور اس نے تم میں سے بہت زیادہ مخلوق کو گمراہ کیا۔ ﴿اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ﴾ یعنی کیا تم میں عقل نہیں جو تمھیں تمھارے رب اور حقیقی سرپرست کے ساتھ موالات رکھنے کا حکم دے اور تمھیں تمھارے بدترین دشمن کو اپنا دوست اور سرپرست بنانے سے روکے۔ اگر تمھاری عقل صحیح ہوتی تو تم ہرگز ایسا نہ کرتے۔
#
{63} فإذْ أطعتُم الشيطان، وعاديتُم الرحمن، وكذَّبتم بلقائِهِ، ووردتُم القيامةَ دار الجزاء، وحقَّ عليكم القولُ بالعذاب، فَـ {هذه جهنَّمُ التي كنتُم توعَدونَ}: وتكذِّبون بها؛ فانظروا إليها عياناً! فهناك تنزعِجُ منهم القلوبُ، وتزوغُ الأبصارُ، ويحصُلُ الفزعُ الأكبرُ.
[63] اب جبکہ تم نے شیطان کی اطاعت کی، رحمان کے ساتھ عداوت کی، اس کے ساتھ ملاقات کو جھٹلایا، قیامت یعنی دار جزا میں آ وارد ہوئے اور تم عذاب کے مستحق ٹھہرے تو ﴿هٰؔذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْؔ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ﴾ ’’یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے‘‘ اور تم جھٹلایا کرتے تھے اب اس کو تم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھو، یہاں دل دہل جائیں گے، آنکھیں پھر جائیں گی اور بہت بڑی گھبراہٹ کا وقت ہو گا۔
#
{64} ثم يُكْمِلُ ذلك بأنْ يُؤْمَرَ بهم إلى النار، ويقالَ لهم: {اصْلَوْها اليوم بما كنتُم تكفُرونَ}؛ أي: ادخُلوها على وجه تَصْلاكُم، ويحيطُ بكم حرُّها، ويبلغُ منكم كلَّ مبلغ بسبب كفرِكُم بآيات الله وتكذيبِكُم لرسل الله.
[64] پھر اس کی تکمیل ہو گی اور ان کو جہنم میں ڈال دیے جانے کا حکم ہو گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿اِصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْ٘فُ٘رُوْنَ ﴾ یعنی جہنم میں داخل ہو جاؤ جہاں آگ تمھیں جلائے گی، آگ کی حرارت تمھیں گھیر لے گی، آیات الٰہی کے انکار اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب کے سبب سے آگ تمھارے جسم کے ہر حصے کو جلائے گی۔
#
{65} قال تعالى في بيان وَصْفِهم الفظيع في دار الشقاء: {اليوم نَخْتِمُ على أفواهِهِم}: بأن نَجْعَلَهم خُرْساً فلا يتكلمون، فلا يقدِرونَ على إنكارِ ما عَمِلوه من الكُفْرِ والتَّكْذيب. {وتُكَلِّمُنا أيْديهم وتَشْهَدُ أرجُلُهم بما كانوا يَكْسِبونَ}؛ أي: تشهد عليهم أعضاؤُهم بما عملوه، ويُنْطِقُها الذي أنطقَ كلَّ شيءٍ.
[65] اللہ تبارک وتعالیٰ نے بدبختی کے اس گھر میں ان کے بدترین احوال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ ﴾ ’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔‘‘ یعنی ہم ان کو گونگا بنا دیں گے پس وہ بول نہ سکیں گے کفر اور تکذیب پر مبنی اپنے اعمال کا انکار کرنے پر قادر نہیں ہوں گے ﴿وَتُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ ﴾ ’’اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤ ں گواہی دیں گے۔‘‘ یعنی ان کے اعضاء ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے اور وہ ہستی انھیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو قوت گویائی عطا کی ہے۔
#
{66} {ولو نشاءُ لَطَمَسْنا على أعيُنِهم}: بأن نُذْهِبَ أبصارَهم كما طَمَسْنا على نُطْقِهِم؛ {فاسْتَبَقوا الصراطَ}؛ أي: فبادروا إليه؛ لأنَّه الطريق إلى الوصول إلى الجنة. {فأنَّى يُبْصِرونَ}: وقد طُمِسَتْ أبصارُهم؟!
[66] ﴿وَلَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ ﴾ یعنی ہم اگر چاہیں تو ان کی بینائی سلب کر لیں جس طرح ہم نے ان کی گویائی سلب کر لی۔ ﴿فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ ﴾ یعنی سیدھے راستے کی طرف سبقت کرو کیونکہ جنت تک پہنچنے کا صرف یہی راستہ ہے: ﴿فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ ﴾ ’’تو وہ کہاں سے دیکھ سکیں گے‘‘ کیونکہ ان کی آنکھوں کی بینائی سلب کر لی گئی ہے۔
#
{67} {ولو نشاءُ لَمَسَخْناهم على مَكانَتِهِم}؛ أي: لأذْهَبْنا حَرَكَتَهم، {فما استطاعوا مُضِيًّا}: إلى الأمام، {ولا يرجِعونَ}: إلى ورائِهِم، ليبعدُوا عن النار. والمعنى: أنَّ هؤلاء الكفار حقَّتْ عليهم كلمةُ العذاب، ولم يكن بدٌّ من عقابهم، وفي ذلك الموطن ما ثَمَّ إلاَّ النار قد بُرِّزَتْ، وليس لأحدٍ نجاةٌ إلا بالعبور على الصراط، وهذا لا يستطيعه إلاَّ أهلُ الإيمان الذين يمشونَ في نورِهِم، وأمَّا هؤلاء؛ فليس لهم عند الله عهدٌ في النجاة من النار؛ فإنْ شاء؛ طمس أعْيُنَهم، وأبقى حَرَكَتَهم فلم يَهْتَدوا إلى الصراطِ لو اسْتَبَقوا إليه وبادروه، وإن شاء؛ أذهبَ حِراكهم فلم يَسْتَطيعوا التقدُّم ولا التأخُّر، المقصودُ أنَّهم لا يَعْبُرونه، فلا تحصُلُ لهم النجاةُ.
[67] ﴿وَلَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰى مَكَانَتِهِمْ ﴾ ’’اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں۔‘‘ یعنی ہم ان کی حرکت سلب کر لیں ﴿فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا ﴾ ’’تو وہ چل پھر نہ سکتے‘‘ یعنی آگے کی جانب ﴿وَّلَا یَرْجِعُوْنَ ﴾ اور نہ آگ سے دور رہنے کے لیے پیچھے لوٹ سکیں۔ معنی یہ ہے کہ ان کفار کے لیے عذاب ثابت ہو گیا ، لہٰذا ان کو ضرور عذاب دیا جائے گا اور اس مقام پر جہنم کے سوا کچھ نہیں جو سامنے ہے اور اس پر بچھے ہوئے پل کو عبور کیے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں اور اہل ایمان کے سوا اس پل کو کوئی عبور نہیں کر سکے گا۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی روشنی میں پل کو عبور کریں گے۔ رہے یہ کفار تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے نجات کا کوئی وعدہ نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بینائی کو سلب کرلے اور ان کی حرکت کو باقی رکھے تب اگر یہ راستے کی طرف بڑھیں تو اس تک پہنچ نہیں پائیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی حرکت کو بھی سلب کرلے تب یہ آگے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے لوٹ سکیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کفار پل صراط کو عبور کر سکیں گے نہ انھیں جہنم سے نجات حاصل ہو گی۔
آیت: 68 #
{وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ (68)}.
اور جو شخص کہ عمر دیں ہم اس کو (زیادہ) تو الٹا دیتے ہیں ہم اس کو پیدائش میں، کیا پس نہیں وہ عقل رکھتے؟ (68)
#
{68} يقولُ تعالى: {ومَن نُعَمِّرْهُ}: من بني آدم {نُنَكِّسْه في الخَلْقِ}؛ أي: يعود إلى الحالة التي ابتدأ منها؛ حالة الضعف؛ ضعف العقل وضعف القوة. {أفلا يعقلونَ}: أنَّ الآدميَّ ناقصٌ من كلِّ وجه، فيتداركوا قوتهم وعقولَهم، فيستَعْمِلونها في طاعة ربِّهم؟
[68] ﴿وَمَنْ نُّ٘عَمِّرْهُ ﴾ ’’اور ہم جس کو بڑی عمر دیتے ہیں۔‘‘ یعنی بنی آدم میں سے ﴿نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ ﴾ یعنی وہ اسی حالت کی طرف لوٹ آتا ہے جس سے ابتدا کی تھی، یعنی ضعف عقل اور ضعف قوت کی طرف۔ ﴿اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’کیا وہ سمجھتے نہیں۔‘‘ آدمی ہر لحاظ سے ناقص ہے۔ پس انھیں چاہیے کہ وہ اپنی قوت اور عقل کا تدارک کریں اور انھیں اپنے رب کی اطاعت میں استعمال کریں۔
آیت: 69 - 70 #
{وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ (69) لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ (70)}.
اور نہیں سکھایا ہم نے اس (رسول) کو شعر کہنا اور نہ(یہ) لائق ہی تھا اس کے، نہیں ہے وہ (کلام الٰہی) مگر ایک نصیحت اور قرآن واضح(69) تاکہ ڈرائے وہ اس کو جو ہے زندہ اور ثابت ہو جائے بات (اللہ کی) اوپر کافروں کے (70)
#
{69} ينزِّه تعالى نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم - عمَّا رماه به المشركون من أنَّه شاعرٌ، وأنَّ الذي جاء به شعرٌ، فقال: {وما علَّمناه الشعرَ وما يَنبَغي له}: أن يكون شاعراً؛ أي: هذا من جنس المحال أن يكون شاعراً؛ لأنَّه رشيدٌ مهتدٍ، والشعراء غاوون، يتَّبِعُهُم الغاوون، ولأنَّ الله تعالى حَسَمَ جميع الشُّبه التي يتعلَّق بها الضالُّون عن رسوله، فحسم أن يكون يكتبُ أو يقرأ، وأخبر أنَّه ما علَّمه الشعر وما ينبغي له. {إنْ هو إلاَّ ذِكْرٌ وقرآنٌ مبينٌ}؛ أي: ما هذا الذي جاء به إلاَّ ذكرٌ يتذكَّر به أولو الألباب جميع المطالب الدينيَّة؛ فهو مشتملٌ عليها أتمَّ اشتمال، وهو يذكِّرُ العقولَ ما رَكَزَ اللَّهُ في فِطَرِها من الأمر بكلِّ حسنٍ والنهي عن كلِّ قبيح. {وقرآنٌ مُبينٌ}؛ أي: مبينٌ لما يُطْلَبُ بيانُه، ولهذا حذف المعمولَ؛ ليدلَّ على أنَّه مبينٌ لجميع الحقِّ بأدلَّته التفصيليَّة والإجماليَّة والباطل وأدلَّة بطلانِهِ. أنزله الله كذلك على رسولِهِ.
[69] مشرکین نبی مصطفی e پر شاعر ہونے کا بہتان لگایا کرتے تھے نیز یہ کہ جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں وہ شاعری ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد e کو شاعری سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّ٘عْرَ وَمَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ﴾ یعنی آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ آپ شاعری کریں۔ یعنی آپ کا شاعر ہونا جنس محال میں سے ہے۔ آپ تو ہدایت یافتہ ہیں جبکہ شعراء گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ لوگ ہی ان شعراء کی پیروی کرتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e سے تمام شبہات کو دور کر دیا جن کا یہ گمراہ لوگ سہارا لیا کرتے ہیں ، چنانچہ اس شبہ کو بھی ختم کر دیا کہ آپ لکھ سکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اور آگاہ فرمایا کہ اس نے آپ کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری آپ کے شایان شان ہے: ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُ٘رْاٰنٌ مُّبِیْنٌ﴾ یعنی یہ چیز جو محمد رسول e لے کر آئے ہیں ’’ذکر‘‘ ہے جس سے عقل مند لوگ تمام دینی مطالب میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں، وہ تمام دینی مطالب پر کامل ترین طریقے سے مشتمل ہے اور وہ عقلوں کو اس چیز کی یاددہانی کرواتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اچھے کام کرنے کے حکم اور برے کاموں سے ممانعت کے طور پر انسانی فطرت میں ودیعت کر دیا ہے۔ ﴿وَّقُ٘رْاٰنٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’اور واضح قرآن ہے‘‘ یعنی جن امور کی تبیین مطلوب ہے ان سب کو بیان کرتا ہے۔ اس لیے معمول کو حذف کر دیا تاکہ وہ اس حقیقت پر دلالت کرے کہ وہ پورے حق کو اور باطل کے بطلان کو اجمالی اور تفصیلی دلائل کے ذریعے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول e پر اسی طرح نازل فرمایا۔
#
{70} {لِيُنذِرَ مَن كان حَيًّا}؛ أي: حيَّ القلب واعِيَه؛ فهو الذي يزكو على هذا القرآن، وهو الذي يزداد من العلم منه والعمل، ويكون القرآنُ لقلبِهِ بمنزلة المطرِ للأرض الطيِّبة الزاكية، {ويَحِقَّ القولُ على الكافرينَ}: لأنَّهم قامت عليهم به حُجَّةُ الله وانقطع احتجاجُهم، فلم يبقَ لهم أدنى عذرٍ وشبهةٍ يُدلون بها.
[70] ﴿لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا ﴾ ’’تاکہ اس شخص کو، جو زندہ ہو، متنبہ کرے۔‘‘ یعنی جو شخص دل زندہ رکھتا ہے وہی اس قرآن کے لائق ہے، اسی شخص کے علم و عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن اس کے دل کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو نہایت عمدہ اور زرخیز زمین کے لیے بارش کی حیثیت ہوتی ہے۔ ﴿وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور کافروں پر بات پوری ہوجائے۔‘‘ کیونکہ ان پر حجت الٰہی قائم ہو گئی اور ان کی حجت منقطع ہو گئی اور ان کے پاس ایک ادنیٰ سا عذر اور شبہ باقی نہیں رہا جس کا وہ سہارا لے سکیں۔
آیت: 71 - 73 #
{أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ (71) وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ (72) وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ (73)}.
کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک ہم نے پیدا کیے ان کے لیے، ان میں سے جن کو بنایا ہمارے ہاتھوں نے، چار پائے۔ پس وہ ان کے مالک ہیں (71) اور تابع کر دیا ہم نے ان کو ان کے لیے، پس کچھ ان میں سے سواریاں ہیں ان کی اور کچھ کو ان میں سے وہ کھاتے ہیں (72) اور ان کے لیے ان میں فائدے ہیں اور پینے کی چیزیں ہیں، کیا پس نہیں وہ شکر کرتے؟ (73)
#
{71 ـ 73} يأمُرُ تعالى العباد بالنظر إلى ما سَخَّر لهم من الأنعام وذلَّلها وجَعَلَهم مالكينَ لها مطاوعةً لهم في كلِّ أمرٍ يريدونَه منها، وأنَّه جعل لهم فيها منافعَ كثيرةً من حَمْلِهم وحَمْل أثقالِهِم ومحامِلِهم وأمْتِعَتِهم من محلٍّ إلى محلٍّ، ومن أكْلِهِم منها، وفيها دفءٌ، ومن أوبارِها وأصوافها وأشعارِها أثاثاً ومتاعاً إلى حينٍ، وفيها زينةٌ وجمالٌ وغيرُ ذلك من المنافع المشاهدة منها. {أفلا يشكرونَ} اللهَ تعالى الذي أنعم بهذه النعم، ويخلِصونَ له العبادةَ، ولا يتمتَّعون بها تمتُّعاً خالياً من العبرة والفكرة؟!
[73-71] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس بارے میں غور کریں کہ اس نے مویشیوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا اور ان کو ان مویشیوں کا مالک بنایا، ان مویشیوں کے اندر ان کے لیے بے شمار فوائد رکھے، چنانچہ وہ ان پر سواری کرتے ہیں، ان پر بوجھ لادتے ہیں، ان کے ذریعے سے اپنے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، ان کا گوشت کھاتے ہیں، ان سے گرمی حاصل کرتے ہیں، ان کی اون، ان کی پشم اور ان کے بالوں میں ایک مدت تک ان کے لیے اثاثہ اور فائدہ ہے، نیز ان مویشیوں میں ان کے لیے زینت و جمال اور دیگر فوائد ہیں جس کا روز مرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ ﴿اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘ اس اللہ تعالیٰ کا جس نے ان کو ان نعمتوں سے نوازا ہے؟ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو خالص کریں اور وہ ان نعمتوں سے اس طرح فائدہ نہ اٹھائیں کہ وہ عبرت اور غوروفکر سے خالی ہو۔
آیت: 74 - 75 #
{وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ (74) لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ (75)}.
اور بنالیے انھوں نے سوائے اللہ کے، کئی معبود، تاکہ وہ مدد کیے جائیں (74) نہیں طاقت رکھتے وہ (معبود) ان کی مدد کرنے کی اور وہ (مشرکین) تو خود ان (بتوں) کے (حمایتی) لشکر ہیں، حاضر کیے گئے (75)
#
{74 ـ 75} هذا بيانٌ لبطلان آلهة المشركين التي اتَّخذوها مع الله تعالى ورَجَوْا نَصْرَها وشَفْعَها؛ فإنها في غاية العجز. {لا يَسْتَطيعون نَصْرَهم}: ولا أنْفُسَهم يَنْصُرونَ: فإذا كانوا لا يستطيعون نَصْرَهم؛ فكيف يَنْصُرونَهم؟! والنصر له شرطانِ: الاستطاعةُ [والقدرةُ] ؛ فإذا استطاع: يبقى: هل يُريدُ نصرةً مِنْ عَبْدِه أم لا؟ فنفي الاستطاعةِ ينفي الأمرين كليهما. {وهم لهم جُندٌ محضَرون}؛ أي: محضَرون هم وهم في العذاب، ومتبرِّئٌ بعضُهم من بعض، أفلا تبرؤوا في الدنيا من عبادة هؤلاء وأخلصوا العبادةَ للذي بيدِهِ الملكُ والنفعُ والضرُّ والعطاءُ والمنعُ وهو الوليُّ النصيرُ؟!
[74، 75] یہ مشرکین کے خود ساختہ معبودوں کے بطلان کا بیان ہے جن کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے مدد اور سفارش کی امید رکھتے ہیں، حالانکہ وہ انتہائی عاجز ہیں ﴿لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ نَصْرَهُمْ ﴾ ’’نہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں‘‘ اور نہ خود اپنی مدد پر قادر ہیں۔ جب وہ اپنی مدد نہیں کر سکتے تو وہ ان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔ مدد کرنا دو امور سے مشروط ہے، استطاعت اور ارادہ۔ جب کوئی مدد کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو ایک چیز باقی رہ جاتی ہے کہ آیا وہ اپنے عبادت گزار بندے کی مدد کرنا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ استطاعت کی نفی سے دونوں امور کی نفی ہو جاتی ہے۔ ﴿وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ ان کی فوج ہوکر حاضر کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی وہ ان کے حاضر باش لشکر ہوں گے۔ وہ سب عذاب میں ڈالے جائیں گے اور ایک دوسرے سے براء ت کا اظہار کریں گے۔ انھوں نے دنیا میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے براء ت کا اظہار کر کے اپنی عبادت کو اسی ہستی کے لیے خالص کیوں نہیں کیا جس کے ہاتھ میں نفع و نقصان ہے، عطا کرنا اور محروم کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور وہی والی اور مددگار ہے۔
آیت: 76 #
{فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (76)}.
پس نہ غم میں ڈالیں آپ کو ان کی باتیں، بلاشبہ ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں (76)
#
{76} أي: فلا يَحْزُنْكَ يا أيُّها الرسولُ قول المكذِّبين، والمرادُ بالقول ما دلَّ عليه السياقُ، كلُّ قول يَقْدَحون فيه في الرسول أو فيما جاء به؛ أي: فلا تَشْغَلْ قَلْبَكَ بالحزن عليهم. {إنَّا نعلمُ ما يُسِرُّونَ وما يُعْلِنونَ}؛ فنجازِيهم على حسبِ عِلْمِنا بهم، وإلاَّ؛ فقولُهم لا يضرُّك شيئاً.
[76] اے رسول! جھٹلانے والوں کی باتیں آپ کو غم زدہ نہ کریں یہاں ’’باتوں‘‘ سے مراد وہ باتیں ہے جن پر سیاق آیت دلالت کرتا ہے، یعنی ہر وہ بات جو رسول اور اس کی لائی ہوئی کتاب میں عیب لگاتی ہو۔ یعنی آپ کا دل ان کے غم میں مشغول نہ ہو ﴿اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ﴾ ’’یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔‘‘ اس لیے ہم ان کو اپنے علم کے مطابق جزاوسزا دیں گے۔ ان کی باتیں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔
آیت: 77 - 83 #
{أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (77) وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (78) قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (79) الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ (80) أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (81) إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (82) فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (83)}.
کیا نہیں دیکھا انسان نے، بے شک پیدا کیا ہم نے اس کو قطرۂ منی سے پس ناگہاں (ہوگیا) وہ جھگڑنے والا ظاہر (77) اور بیان کی اس نے ہمارے لیے مثال اور وہ بھول گیا اپنی پیدائش کو، اس نے کہا: کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟ (78)کہہ دیجیے: زندہ کرے گا ان کو وہی (اللہ) جس نے پیدا کیا ان کو پہلی مرتبہ، اور وہ ہر طرح کے پیدا کرنے کو خوب جانتا ہے(79) وہ (اللہ) جس نے بنا دی تمھارے لیے سبز درخت سے آگ، پھر یکایک تم اس سے آگ سلگا لیتے ہو(80)کیا نہیں وہ (اللہ) جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو، قدرت رکھنے والا اس بات پر کہ پیدا کر ے وہ ان کی مثل؟ کیوں نہیں! وہی تو ہے پیدا کرنے والا، جاننے والا (81) یقیناً اس کا حکم، جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا یہ (ہوتا ہے) کہ وہ کہتا ہے اس کو، ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے (82) پس پاک ہے وہ (اللہ) کہ جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے (83)
ان آیات کریمہ میں، منکرین قیامت کے شبہات اور ان کے مکمل، بہترین اور واضح جواب کا ذکر کیا گیا ہے۔
#
{77} فقال تعالى: {أوَلَم يَرَ الإنسانُ}: المنكِرُ للبعث أو الشاكُّ فيه أمراً يفيدُه اليقينَ التامَّ بوقوعه، وهو ابتداءُ خلقِهِ {من نطفةٍ}، ثم تنقُّلُه في الأطوار شيئاً فشيئاً، حتى كبر وشبَّ وتمَّ عقلُه واستتبَّ؛ {فإذا هو خصيمٌ مبينٌ}: بعد أنْ كان ابتداءُ خلقِهِ من نطفةٍ؛ فلينظرِ التفاوتَ بين هاتين الحالتين، ولْيعلمْ أنَّ الذي أنشأه من العدم قادرٌ على أن يعيدَه بعدما تفرَّق وتمزَّق من باب أولى.
[77] چنانچہ فرمایا: ﴿اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ ﴾ کیا قیامت کا منکر اور اس میں شک کرنے والا انسان اس معاملے میں غور نہیں کرتا جو اسے قیامت کے وقوع کے بارے میں یقین کامل عطا کرے اور وہ معاملہ اس کی تخلیق کی ابتدا ہے ﴿مِنْ نُّطْفَةٍ ﴾ ’’نطفے سے‘‘ پھر آہستہ آہستہ مختلف مراحل میں منتقل ہوتا ہے حتیٰ کہ بڑا ہو کر جوان ہو جاتا ہے اور اس کی عقل کامل اور درست ہو جاتی ہے ﴿فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’تو یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھتا ہے‘‘ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے نطفے سے اس کی تخلیق کی ابتدا کی۔ اسے ان دو حالتوں کے تفاوت میں غور کرنا چاہیے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہستی جو اسے عدم سے وجود میں لائی ہے زیادہ قدرت رکھتی ہے کہ اس کے مرنے اور ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرے۔
#
{78} {وضرب لنا مثلاً}: لا ينبغي لأحدٍ أن يضرِبَه، وهو قياسُ قدرةِ الخالق بقدرةِ المخلوق، وأنَّ الأمر المُسْتَبْعَدَ على قدرة المخلوق مُسْتَبْعَدٌ على قدرة الخالق، فَسَّرَ هذا المثل بقوله: {قال}: ذلك الإنسان: {مَن يُحيي العظامَ وهي رميمٌ}؛ أي: هل أحدٌ يحييها؟ استفهام إنكارٍ؛ أي: لا أحَدَ يُحييها بعدما بَلِيَتْ وتلاشَتْ. هذا وجهُ الشبهة والمثل، وهو أنَّ هذا أمرٌ في غاية البعدِ على ما يُعْهَدُ من قدرةِ البشر، وهذا القولُ الذي صَدَرَ من هذا الإنسان غفلةٌ منه ونسيانٌ لابتداء خلقِهِ؛ فلو فَطِنَ لِخَلْقِهِ بعد أن لم يكن شيئاً مذكوراً، فوُجِد عياناً؛ لم يضرِبْ هذا المثل.
[78] ﴿وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا ﴾ ’’اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی۔‘‘ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس قسم کی مثال بیان کرے اور وہ ہے خالق کی قدرت کا مخلوق کی قدرت کے ساتھ قیاس کرنا، نیز یہ قیاس کرنا کہ جو چیز مخلوق کی قدرت سے بعید ہے وہ خالق کی قدرت سے بھی بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قَالَ ﴾ یعنی اس انسان نے کہا: ﴿مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ ﴾ یعنی کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان ہڈیوں کو زندہ کرے گی؟ یہ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان ہڈیوں کے بوسیدہ اور معدوم ہو جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کر سکے۔ شبہ اور مثال کا یہی پہلو ہے کہ یہ معاملہ بشر کی قدرت سے بہت بعید ہے۔ یہ قول جو انسان سے صادر ہوا ہے اس کی غفلت پر مبنی ہے، نیز وہ اپنی تخلیق کی ابتدا کو بھول گیا ہے۔ اگر وہ اپنی تخلیق پر غور کرتا کہ کیسے اس کو پیدا کیا گیا جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا تو وہ اعادۂ تخلیق کو عیاں پاتا اور یہ مثال بیان نہ کرتا۔
#
{79} فأجاب تعالى عن هذا الاستبعادِ بجوابٍ شافٍ كافٍ، فقال: {قُلْ يُحْييها الذي أنشَأها أوَّلَ مَرَّةٍ}: وهذا بمجرَّدِ تصوُّرِهِ يعلم به علماً يقيناً لا شبهةَ فيه أنَّ الذي أنشأها أوَّلَ مرةٍ قادرٌ على الإعادةِ ثاني مرةٍ، وهو أهونُ على القدرةِ إذا تصوَّره المتصوِّر. {وهو بكلِّ خلقٍ عليمٌ}: هذا أيضاً دليلٌ ثانٍ من صفاتِ الله تعالى، وهو أنَّ علمه تعالى محيطٌ بجميع مخلوقاتِهِ في جميع أحوالِها في جميع الأوقات، ويَعْلَمُ ما تَنْقُصُ الأرضُ من أجسادِ الأمواتِ وما يبقى، ويعلمُ الغيبَ والشهادة؛ فإذا أقرَّ العبدُ بهذا العلم العظيم؛ علم أنَّه أعظمُ وأجلُّ من إحياء اللَّه الموتى من قبورِهم.
[79] اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے اعادۂ تخلیق کے محال ہونے کے شبے کا کافی اور شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿قُ٘لْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘ یعنی وہ مجرد اپنے تصور ہی سے کسی شبے کے بغیر، یقینی طور پر معلوم کر سکتا ہے کہ وہ ہستی جس نے اسے پہلی مرتبہ وجود بخشا، وہ دوسری مرتبہ اس کے اعادہ پر قادر ہے۔ جب تصور کرنے والا تصور کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اعادۂ تخلیق بہت معمولی نظر آتا ہے۔ ﴿وَهُوَ بِكُ٘لِّ خَلْ٘قٍ عَلِیْمُ ﴾ ’’اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے دوسری دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی تمام مخلوقات کا، ان کے تمام احوال کا تمام اوقات میں احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مردوں کے اجساد خاکی میں سے کیا چیز کم ہو رہی ہے اور کیا چیز باقی ہے۔ وہ غائب اور شاہد ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم علم کا اقرار کر لیتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو مُردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل ہے۔
#
{80} ثم ذَكَرَ دليلاً ثالثاً، فقال: {الذي جَعَلَ لكم من الشَّجَرِ الأخضرِ ناراً فإذا أنتُم منه توقِدونَ}: فإذا أخرجَ النار اليابسة من الشجر الأخضرِ الذي هو في غاية الرُّطوبة مع تضادِّهما وشدَّة تخالُفِهما؛ فإخْراجُهُ الموتى من قبورِهِم مثلُ ذلك.
[80] پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّؔنْهُ تُوْقِدُوْنَ ﴾ جب وہ سرسبز درخت سے جو مکمل طور پر گیلا ہوتا ہے خشک آگ نکال سکتا ہے، حالانکہ ان دونوں میں سخت تضاد اور تخالف ہے، تو وہ اسی طرح مردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔
#
{81} ثم ذكر دليلاً رابعاً، فقال: {أوَ لَيْسَ الذي خلقَ السمواتِ والأرضَ}: على سعتهما وعظمهما {بقادرٍ على أن يَخْلُقَ مثلَهم}؛ أي: أن يعيدَهم بأعيانهم {بلى}: قادرٌ على ذلك؛ فإنَّ خَلْقَ السماواتِ والأرض أكبرُ من خَلْقِ الناس. {وهو الخلاَّقُ العليمُ}: وهذا دليلٌ خامسٌ؛ فإنَّه تعالى الخلاقُ الذي جميع المخلوقات؛ متقدِّمها ومتأخِّرها، صغيرها وكبيرها؛ كلُّها أثرٌ من آثار خلقِهِ وقدرتِهِ، وأنَّه لا يستعصي عليه مخلوقٌ أراد خَلْقَه؛ فإعادتُهُ للأموات فردٌ من أفراد آثارِ خلقِهِ.
[81] پھر اللہ تعالیٰ نے چوتھی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَوَلَ٘یْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ﴾ یعنی کیا جس ہستی نے آسمانوں اور زمین کی وسعت اور عظمت کے باوجود، ان کو تخلیق فرمایا۔ ﴿بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ﴾ کیا وہ ان کو بعینہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ ﴿بَلٰى ﴾ ’’کیوں نہیں‘‘ وہ ان کو دوبارہ وجود بخشے پر قادر ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسان کی تخلیق سے زیادہ مشکل اور زیادہ بڑی ہے۔ ﴿وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ﴾ یہ پانچویں دلیل خاص ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے تمام مخلوقات خواہ پہلے گزر چکی ہوں یاآنے والی ، چھوٹی ہوں یا بڑی سب کی سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور قدرت کے آثار ہیں۔ جب وہ کسی مخلوق کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی نافرمانی نہیں کر سکتی۔ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنا اس کی تخلیق کے آثار کا ایک حصہ ہے۔
#
{82} ولهذا قال: {إنَّما أمرُهُ إذا أراد شيئاً}: نكرةٌ في سياق الشرط فَتَعُمُّ كلَّ شيءٍ، {أن يقولَ له كُن فيكونُ}؛ أي: في الحال من غير تمانع.
[82] اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔؔا ﴾ ’’بلاشبہ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے۔‘‘ (شَیْئًا) شرط کے سیاق میں نکرہ ہے، اس لیے ہر چیز کو شامل ہے۔ ﴿اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ ﴾ ’’تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ یعنی وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اسی وقت ہو جاتی ہے۔
#
{83} {فسبحانَ الذي بيدِهِ مَلَكوتُ كُلِّ شيءٍ}: وهذا دليلٌ سادسٌ؛ فإنَّه تعالى هو الملِكُ المالكُ لكلِّ شيءٍ؛ الذي جميعُ ما سكن في العالم العلويِّ والسفليِّ مُلْكٌ له وعبيدٌ مسخَّرون مدبَّرون، يَتَصَرَّفُ فيهم بأقدارِهِ الحكميَّة وأحكامِهِ الشرعيَّة وأحكامِهِ الجزائيَّة؛ فإعادتُه إيَّاهم بعد موتِهِم لينفذَ فيهم حكم الجزاء من تمام ملكِهِ، ولهذا قال: {وإليه تُرْجَعونَ}: من غير امتراءٍ ولا شكٍّ؛ لتواتُرِ البراهين القاطعةِ والأدلَّةِ الساطعةِ على ذلك. فتبارك الذي جَعَلَ في كلامِهِ الهدى والشفاء والنور.
[83] ﴿فَسُبْحٰؔنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُ٘وْتُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ یہ چھٹی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے۔ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام چیزیں اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں، وہ اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں، وہ ان کے اندر اپنے احکام کونی و قدری، احکام شرعی اور احکام جزائی کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے۔ ان کی موت کے بعد انھیں دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ وہ اپنی ملکیت کامل سے ان پر اپنا حکم جزائی نافذ کرے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ کسی شک و شبے کے بغیر، تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے کیونکہ قطعی اور واضح دلائل و براہین نہایت تواتر کے ساتھ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفا اور نور بنایا۔