آیت:
تفسیر سورۂ فاطر
تفسیر سورۂ فاطر
آیت: 1 - 2 #
{الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1) مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (2)}.
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا، بنانے والا فرشتوں کو قاصد پروں والے، دو دو تین تین اورچار چار، وہ (اللہ) زیادہ کرتا ہے پیدائش میں جو چاہتا ہے ، بلاشبہ اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(1)جو کھول دے اللہ واسطے لوگوں کے (اپنی) رحمت سے تو نہیں کوئی بند کرنے والا اسے، اور جو وہ بند کر دے تو نہیں ہے کوئی بھیجنے والا اسے، اس کے بعد، اور وہ غالب، خوب حکمت والا ہے(2)
#
{1} يمدح [اللَّه] تعالى نفسه الكريمة المقدَّسةَ على خلقهِ السماواتِ والأرضَ وما اشتَمَلَتا عليه من المخلوقات؛ لأنَّ ذلك دليلٌ على كمال قدرتِهِ وسَعة ملكِهِ وعموم رحمتِهِ وبديع حكمته وإحاطةِ علمه. ولمَّا ذَكَرَ الخلقَ؛ ذَكَرَ بعده ما يتضمَّنُ الأمر، وهو أنه جعل {الملائكةَ رسلاً}: في تدبيرِ أوامرِهِ القدريَّة ووسائطَ بينَه وبين خلقِهِ في تبليغ أوامره الدينيَّة. وفي ذِكْرِهِ أنَّه جعل الملائكة رسلاً ولم يستثنِ منهم أحداً دليلٌ على كمال طاعتهم لربِّهم وانقيادِهِم لأمرِهِ؛ كما قال تعالى: {لا يعصونَ الله ما أمَرَهم ويفعلون ما يُؤمرون}. ولما كانت الملائكةُ مدبِّراتٍ بإذن الله ما جَعَلَهم الله موكَّلين فيه؛ ذَكَرَ قُوَّتَهم على ذلك وسرعة سيرِهِم؛ بأن جَعَلَهم {أولي أجنحةٍ}: تطير بها فتسرعُ بتنفيذ ما أمرت به، {مثنى وثلاث ورباع}؛ أي: منهم من له جناحان وثلاثة وأربعة بحسب ما اقتضتْه حكمتُه. {يزيدُ في الخَلْقِ ما يشاءُ}؛ أي: يزيد بعضَ مخلوقاتِهِ على بعض في صفة خلقِها وفي القوَّة وفي الحسن وفي زيادة الأعضاء المعهودةِ وفي حسن الأصوات ولذَّةِ النغماتِ. {إنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فقدرتُه تعالى تأتي على ما يشاؤه، ولا يستعصي عليها شيءٌ، ومن ذلك زيادة مخلوقاتِهِ بعضها على بعض.
[1] اللہ تبارک وتعالیٰ خود اپنی ذات مقدس کی مدح و ثنا کرتا ہے کہ اس نے زمین و آسمان اور ان کے اندر موجود تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ یہ اس کے کمال قدرت، وسعت اقتدار، بے پایاں رحمت، انوکھی حکمت اور احاطۂ علم کی دلیل ہے۔ تخلیق کائنات کا ذکر کرنے کے بعد اس چیز کاتذکرہ کیا کہ بے شک وہی ﴿جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا﴾ ’’فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے‘‘ اس نے اپنے حکم قدری کی تدبیر اور اپنے حکم دینی کی تبلیغ کے لیے اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان واسطے کے لیے، فرشتوں کو پیغام رساں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیغام رساں بنانے کا ذکر فرمایا اور ان میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا، یہ ان کی اپنے رب کے لیے کامل اطاعت اور اس کے حکم کے سامنے ان کے سرتسلیم خم کرنے کی دلیل ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ﴾ (التحریم : 66؍6) ’’وہ اللہ کی حکم عدولی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ چونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے، کائنات کی تدبیر کرتے ہیں اور تدبیر کائنات کا معاملہ ان کے سپرد کر رکھا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی قوت اور ان کی سرعت رفتار کا ذکر کیا، نیز آگاہ فرمایا کہ اس نے ان فرشتوں کو ﴿اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ ﴾ ’’پروں والے‘‘ بنایا ہے، جن کے ذریعے سے یہ فرشتے پرواز کرتے ہیں تاکہ نہایت سرعت سے اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کر سکیں۔ ﴿مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰ٘عَ ﴾ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ان فرشتوں کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں ﴿یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تخلیق کی بعض صفات ، مثلاً: قوت میں، حسن میں، اعضاء میں، حسن آواز اور لذت ترنّم میں ایک دوسرے پر فضیلت اور اضافہ بخشا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی قدرت کو نافذ کرتا ہے، اس کی قدرت کے سامنے کسی چیز کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ مخلوقات میں ایک دوسرے پر تخلیق میں اضافہ بھی اس کی قدرت کے تحت ہے۔
#
{2} ثم ذَكَرَ انفرادَه تعالى بالتدبيرِ والعطاء والمنع، فقال: {ما يَفْتَحِ اللهُ للناس من رحمةٍ فلا مُمْسِكَ لها وما يُمْسِكْ}: من رحمتِهِ عنهم {فلا مرسلَ له من بعدِهِ}: فهذا يوجب التعلُّقَ بالله تعالى والافتقارَ إليه من جميع الوجوه، وأنْ لا يُدعى إلاَّ هو ولا يُخاف ويُرجى إلاَّ هو. {وهو العزيز}: الذي قَهَرَ الأشياءَ كلَّها. {الحكيمُ}: الذي يضع الأشياءَ مواضِعَها، ويُنْزِلُها منازلها.
[2] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ تدبیر کائنات، عطا کرنے اور محروم کرنے میں وہی اکیلا اختیار کا مالک ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿مَا یَفْ٘تَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ اپنی رحمت لوگوں کے لیے کھول دے تو کوئی اسے بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے۔‘‘ یعنی اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے محروم کر دے ﴿فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ﴾ ’’تو اس کے بعد کوئی اسے کھولنے والا نہیں۔‘‘ اس لیے یہ چیز اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنے کی موجب ہے، نیز یہ اس چیز کی بھی موجب ہے کہ صرف اسی کو پکارا جائے، صرف اسی سے ڈرا جائے اور صرف اسی سے امید رکھی جائے۔ ﴿وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ اور وہ تمام چیزوں پر غالب ہے ﴿الْحَكِیْمُ ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی وہ ہر چیزکو اس کے مناسب حال منزل و مقام پر نازل کرتا ہے۔
آیت: 3 - 4 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (3) وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (4)}.
اے لوگو! یاد کرو نعمت اللہ کی اوپر اپنے، کیا کوئی اور خالق ہے سوائے اللہ کے، جو رزق دے تمھیں آسمان اور زمین سے؟ نہیں ہے کوئی معبود (برحق) مگر وہی، پس کہاں تم پھیرے(بہکائے)جاتے ہو؟(3)اوراگر وہ جھٹلاتے ہیں آپ کو تو تحقیق جھٹلائے گئے کئی رسول آپ سے پہلے اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سب معاملات(4)
#
{3} يأمرُ تعالى جميع الناس أن يَذْكُروا نعمتَه عليهم، وهذا شاملٌ لِذِكْرِها بالقلب اعترافاً وباللسان ثناءً وبالجوارح انقياداً، فإنَّ ذِكْرَ نعمِهِ تعالى داع لشكرِهِ. ثم نَبَّههم على أصول النِّعم، وهي الخلق والرزق، فقال: {هل من خالق غيرُ الله يرزُقُكم من السماءِ والأرض}: ولما كان من المعلوم أنَّه ليس أحدٌ يَخْلُقُ ويرزقُ إلاَّ الله؛ نتج من ذلك أنْ كان ذلك دليلاً على ألوهيَّته وعبوديَّته، ولهذا قال: {لا إله إلاَّ هو فأنَّى تؤفَكونَ}؛ أي: تُصْرَفون من عبادةِ الخالق الرازق لعبادةِ المخلوق المرزوق.
[3] اللہ تبارک وتعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی نعمت کو یاد کریں جس سے ان کو نوازا گیا ہے۔ یہ یاد کرنا دل میں اللہ کی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو یاد رکھنے، زبان سے اس کی حمد وثنا کرنے اور جوارح سے اس کی اطاعت کرنے کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرنا، اس کے شکر کی دعوت دیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی نعمتوں کی طرف اشارہ فرمایا اور وہ پیدا کرنا اور رزق عطا کرنا ہیں۔ فرمایا: ﴿هَلْ مِنْ خَالِـقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق دے؟‘‘ چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پیدا کرتا ہے نہ رزق عطا کرتا ہے اس لیے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ چیز اس کی الوہیت اور عبودیت پر دلیل ہے، بنا بریں فرمایا: ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۖٞ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘ یعنی خالق و رازق کی عبادت کو چھوڑ کر، مخلوق کی عبادت کرتے ہو، جو خود رزق کی محتاج ہے۔
#
{4} {وإن يُكَذِّبوكَ}: يا أيُّها الرسولُ؛ فلك أسوةٌ بمن قبلَكَ من المرسلين؛ {فقد كُذِّبَتْ رسلٌ من قبلِكَ}: فأُهْلِكَ المكذِّبون، ونَجَّى الله الرسل وأتباعهم. {وإلى اللهِ تُرجع الأمورُ}.
[4] ﴿وَاِنْ یُّكَذِّبُوْكَ ﴾ ’’(اے رسول!) اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں‘‘ تو آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء و مرسلین میں آپ کے لیے نمونہ ہے ﴿فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’پس یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے۔‘‘ تو جھٹلانے والوں کو ہلاک کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو بچا لیا۔ ﴿وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ﴾ ’’تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘
آیت: 5 - 7 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (5) إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ (6) الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (7)}.
اے لوگو! بے شک وعدہ اللہ کا سچا ہے، پس نہ دھوکے میں ڈالے تم کو زندگی دنیا کی اور نہ دھوکے میں ڈالے تمھیں اللہ کی بابت بڑا دھوکے باز (شیطان) (5) بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے، پس بناؤ تم اس کو دشمن ہی (اطاعت الٰہی کر کے) بلاشبہ وہ بلاتا ہے اپنے گروہ کو، تاکہ ہوں وہ اہل جہنم سے(6) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے ہے عذاب سخت، اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، ان کے لیے ہے مغفرت اور اجر بہت بڑا(7)
#
{5 ـ 6} يقول تعالى: {يا أيُّها الناس إنَّ وعدَ الله}: بالبعث والجزاء على الأعمال {حقٌّ}؛ أي: لا شكَّ فيه ولا مريةَ ولا تردُّد، قد دلَّت على ذلك الأدلة السمعية والبراهين العقلية، فإذا كان وعدُهُ حقًّا؛ فتهيَّؤوا له وبادِروا أوقاتَكم الشريفةَ بالأعمال الصالحة ولا يَقْطَعْكُم عن ذلك قاطعٌ. {فلا تَغُرَّنَّكُمُ الحياةُ الدُّنيا}: بلذَّاتِها وشهواتِها ومطالبِها النفسيَّة، فتُلهيكم عما خُلقتم له، {ولا يَغُرَّنَّكُم بالله الغَرورُ}: الذي هو الشيطانُ، الذي هو عدوُّكم في الحقيقة. {فاتَّخِذوه عَدُوًّا}؛ أي: لتكن منكم عداوته على بالٍ، ولا تُهملوا محاربته كلَّ وقتٍ؛ فإنَّه يراكم وأنتم لا تَرَوْنَه، وهو دائماً لكم بالمرصاد. {إنَّما يَدْعو حِزْبَه ليكونوا من أصحابِ السعيرِ}: هذا غايتُه ومقصودُه مِمَّنْ تَبِعَهُ أن يُهانَ غاية الإهانة بالعذاب الشديد.
[5، 6] ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ‘‘ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے اور اعمال کی جزا و سزا کا وعدہ ﴿حَقٌّ ﴾ ’’حق ہے۔‘‘ یعنی اس میں شک و شبہ اور کوئی تردد نہیں، اس پر تمام دلائلِ نقلیہ اور براہین عقلیہ دلالت کرتے ہیں۔ جب اس کا وعدہ سچا ہے تو اس کے لیے تیاری کرو اپنے اچھے اوقات میں نیک اعمال کی طرف سبقت کرو کوئی راہزن تمھاری راہ کو کھوٹی نہ کرنے پائے۔ ﴿فَلَا تَغُرَّنَّـكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ﴾ ’’لہٰذا دنیاوی زندگی تمھیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے‘‘ اپنی لذات و شہوات اور اپنے نفسانی مطالبات کے ذریعے سے تمھیں ان مقاصد سے غافل نہ کر دے جن کے لیے تمھیں تخلیق کیا گیا ہے۔ ﴿وَلَا یَغُرَّنَّـكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ ﴾ ’’اور نہ فریب دینے والا تمھیں فریب دے۔‘‘ جو کہ ﴿الشَّ٘یْطٰنَ ﴾ ’’شیطان ہے۔‘‘ وہ حقیقت میں تمھارا دشمن ہے ﴿فَاتَّؔخِذُوْهُ عَدُوًّا ﴾ ’’لہٰذا تم بھی اُسے دشمن جانو‘‘ یعنی تمھاری طرف سے اس کے لیے دشمنی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ جنگ میں کسی بھی وقت ڈھیلے نہ پڑو۔ وہ تمھیں دیکھتا ہے، تم اسے نہیں دیکھ سکتے، وہ ہمیشہ تمھاری گھات میں رہتا ہے۔ ﴿اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ ’’بلاشبہ وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں ہوں۔‘‘ یہی اس کی غرض و غایت اور مطلوب و مقصود ہے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کی سخت عذاب کے ذریعے سے رسوائی ہو۔
#
{7} ثم ذكر أنَّ الناس انقسموا بحسب طاعة الشيطان وعدمِها إلى قسمين، وذَكَرَ جزاءَ كلٍّ منهما، فقال: {الذين كفروا}؛ أي: جحدوا ما جاءتْ به الرسلُ ودلَّت عليه الكتبُ {لهم عذابٌ شديدٌ}: في نار جهنَّم، شديدٌ في ذاتِهِ ووصفِهِ، وأنَّهم خالدون فيها أبداً، {والذين آمنوا}: بقلوبِهِم بما دعا الله إلى الإيمان به، {وعملوا} ـ بمقتضى ذلك الإيمان بجوارِحِهم ـ الأعمالَ الصالحةَ {لهم مغفرةٌ}: لذُنوبهم، يزولُ بها عنهم الشرُّ والمكروه، {وأجرٌ كبيرٌ}: يحصُلُ به المطلوبُ.
[7] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لوگ شیطان کی اطاعت اور عدم اطاعت کے اعتبار سے دو گروہوں میں منقسم ہیں، پھر ہر گروہ کی سزا وجزا کا تذکرہ کیا، فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ یعنی وہ لوگ جنھوں نے رسولوں کی دعوت اور ان چیزوں کا انکار کیا جن پر کتب الٰہیہ دلالت کرتی تھیں ﴿لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ﴾ ان کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب ہے۔ یہ عذاب اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے نہایت سخت عذاب ہو گا جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ اور جو اپنے دل سے ان امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ ﴿وَعَمِلُوا ﴾ پھر انھوں نے اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کیے ﴿الصّٰؔلِحٰؔتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ’’نیک تو ان کے لیے (ان کے گناہوں کی) مغفرت ہے‘‘ اس مغفرت کی بنا پر ان سے ہر قسم کا شر اور برائی دور ہو جائے گی۔ ﴿وَّاَجْرٌؔ كَبِیْرٌ ﴾ ’’اور بڑا اجر ہے۔‘‘ جس کے ذریعے سے انھیں اپنا مطلوب ومقصود حاصل ہو گا۔
آیت: 8 #
{أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (8)}.
کیا پس(ہدایت یافتہ شخص کی مانندہے) وہ شخص کہ مزین کر دیا گیا اس کے لیے اس کا برا عمل، سو وہ دیکھتا ہے اس کواچھا ؟پس بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسکو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، پس نہ جاتی رہے آپ کی جان، ان پر افسوس کرتے ہوئے، بلاشبہ اللہ جانتا ہے اس کو جو وہ کرتے ہیں(8)
#
{8} يقولُ تعالى: {أفَمَن زُيِّنَ له}: عملُه السيئ القبيح، زيَّنه له الشيطانُ وحسَّنه في عينِهِ ، {فرآه حسناً}؛ أي: كمن هداه الله إلى الصراطِ المستقيم والدين القويم؛ فهل يستوي هذا وهذا؟! فالأول عمل السيئ، ورأى الحقَّ باطلاً والباطل حقًّا، والثاني عمل الحسنَ ورأى الحقَّ حقًّا والباطل باطلاً، ولكن الهداية والإضلال بيدِ الله تعالى. {فإنَّ الله يُضِلُّ مَن يشاءُ ويَهْدي مَن يشاءُ فلا تَذْهَبْ نفسُك عليهم}؛ أي: على الضالِّين الذين زُيِّنَ لهم سوءُ أعمالِهِم، وصدَّهُم الشيطانُ عن الحقِّ {حسراتٍ}: فليس عليك إلاَّ البلاغُ، وليس عليك مِن هداهم شيءٌ، والله هو الذي يُجازيهم بأعمالهم. {إنَّ الله عليمٌ بما يصنعونَ}.
[8] ﴿اَفَ٘مَنْ زُیِّنَ لَهٗ﴾ ’’کیا پس جس شخص کو مزین کر کے دکھائے جائیں‘‘ اس کے برے اعمال۔ شیطان نے اس کے برے عمل کو آراستہ کر کے اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا دیا ہے ﴿فَرَاٰهُ حَسَنًا ﴾ ’’اور وہ ان کو اچھا سمجھنے لگا ہو۔‘‘ یعنی اس شخص کی مانند ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے راہ راست اور دین قویم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے؟ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ پہلا شخص وہ ہے جو بدعمل ہے، جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جو نیک کام کرتا ہے، جو حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہے... مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖٞ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’بلاشبہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، لہٰذا آپ اپنے آپ کو ان کے بارے میں ہلکان نہ کریں‘‘ یعنی ان گمراہ لوگوں کے بارے میں جن کے بر ے اعمال ان کے لیے آراستہ ہوگئے اور شیطان نے ان کو حق سے روک دیا۔ ﴿حَسَرٰتٍ ﴾ یعنی گمراہ لوگوں پر حسرت و غم سے آپ اپنے آپ کو ہلاک نہ کریں۔ ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کا فرض تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ﴾ ’’یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں بے شک اللہ اس سے واقف ہے۔‘‘
آیت: 9 #
{وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَى بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ (9)}.
اور اللہ وہ ہے جس نے بھیجی ہوائیں، پس وہ اٹھاتی ہیں بادل کو، تو ہانک لے جاتے ہیں ہم اس کو شہر مردہ کی طرف، پس زندہ کرتے ہیں ہم اس کے ذریعے سے زمین کو بعد اس کے مردہ ہو جانے کے، اسی طرح ہو گا دوبارہ اٹھایا جانا(9)
#
{9} يخبر تعالى عن كمال اقتدارِهِ وسَعَة جودِهِ وأنَّه {أرسلَ الرياحَ فتُثير سحاباً فسُقْناه إلى بلدٍ مَيِّتٍ}: فأنزله الله عليها، {فأحْيَيْنا به الأرض بعدَ موتها}: فحييتِ البلادُ والعبادُ، وارتزقت الحيواناتُ، ورَتَعَتْ في تلك الخيرات، {كذلك}: الذي أحيا الأرض بعد موتها ينشر الأمواتَ من قبورهم بعدما مزَّقَهم البلاء، فيسوقُ إليهم مطراً كما ساقه إلى الأرض الميتة، فينزِلُه عليهم، فتحيا الأجساد والأرواح من القبور، فيأتون للقيام بين يدي الله، ليحكم بينهم ويَفْصِلَ بحكمِهِ العدل.
[9] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کمال اقتدار اور وسعت سخاوت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ﴿اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابً٘ا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّؔیِّتٍ ﴾ ’’جو ہواؤ ں کو بھیجتا ہے وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر ہم اسے مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ اس مردہ زمین پر بارش برساتا ہے ﴿فَاَحْیَیْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ ’’، پھر ہم اس زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں۔‘‘ پس مردہ زمین اور بندے زندگی حاصل کرتے ہیں، حیوانات کو رزق ملتا ہے، اس سرسبز زمین پر وہ چرتے پھرتے ہیں۔ ﴿كَذٰلِكَ ﴾ ’’اسی طرح‘‘ جس نے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے زندگی بخشی وہ مردوں کے بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد انھیں ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر ان پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے گا، جیسے وہ مردہ زمین پر اپنی رحمت کی بارش برساتا ہے۔ پس وہ بارش ان کے بوسیدہ اجسام پر برسے گی، تمام اجسام اور ارواح اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ عدل پر مبنی فیصلہ کرے گا۔
آیت: 10 #
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ (10)}.
جو شخص ہے چاہتا عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے عزت سب، اسی کی طرف چڑھتی ہیں باتیں پاکیزہ، اورعمل صالح، وہی اوپر اٹھاتا ہے اسے (بھی) اور وہ لوگ جو چالیں چلتے ہیں بری، ان کے لیے ہے عذاب سخت اورچال انھی لوگوں کی، وہی نابود ہوگی(10)
#
{10} أي: يا مَن يُريد العزَّةَ! اطْلُبْها ممَّنْ هي بيدِهِ؛ فإنَّ العزَّة بيد اللَّه، ولا تُنال إلاَّ بطاعتِهِ، وقد ذَكَرَها بقولِهِ: {إليه يصعدُ الكلمُ الطيِّبُ}: من قراءة وتسبيح وتحميدٍ وتهليل وكل كلام حسنٍ طيِّبٍ، فيرُفع إلى الله، ويُعرضُ عليه، ويُثني الله على صاحبه بين الملأ الأعلى، {والعملُ الصالح}: من أعمال القلوب وأعمال الجوارح {يرفَعُهُ}: الله تعالى إليه أيضاً كالكلم الطيب. وقيل: والعمل الصالحُ يرفَعُ الكلمَ الطَّيِّبَ؛ فيكون رفع الكلم الطيب بحسب أعمال العبد الصالحة فهي التي ترفع كلمه الطيب، فإذا لم يكنْ له عملٌ صالحٌ؛ لم يُرْفَعْ له قولٌ إلى الله تعالى. فهذه الأعمال التي تُرفع إلى الله تعالى ويَرْفَعُ الله صاحِبَها ويعزُّه، وأمَّا السيئاتُ؛ فإنَّها بالعكس، يريدُ صاحبُها الرفعةَ بها، ويمكرُ ويكيدُ ويعودُ ذلك عليه، ولا يزدادُ إلاَّ هواناً ونزولاً، ولهذا قال: {والعملُ الصالحُ يرفعُهُ والذين يمكرونَ السيئاتِ لهم عذابٌ شديدٌ}: يُهانون فيه غايةَ الإهانة. {ومَكْرُ أولئك هو يبورُ}؛ أي: يهلك ويضمحلُّ ولا يفيدُهم شيئاً؛ لأنَّه مكرٌ بالباطل لأجل الباطل.
[10] یعنی اے وہ شخص جو عزت کا طلب گار ہے، عزت اس ہستی سے مانگ جس کے ہاتھ میں عزت ہے، بے شک عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جو اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، نیز فرمایا: ﴿اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ ﴾ ’’اس کی طرف پاک کلمات بلند ہوتے ہیں‘‘ مثلاً: قراء ت قرآن، تسبیح اور تہلیل و تحمید وغیرہ۔ ہر کلام جو اچھا اور پاک ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتا ہے، اس کے حضور پیش کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ صاحب کلام کی ملأاعلیٰ میں مدح و ثنا کرتا ہے۔ ﴿وَالْ٘عَمَلُ الصَّالِحُ ﴾ ’’اور نیک عمل‘‘ یعنی اعمال قلوب اور اعمال جوارح۔ ﴿یَرْفَعُهٗ﴾ ’’اس کو بلند کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کلماتِ طیبہ کی مانند عمل صالح کو بھی اپنی طرف بلند کرتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے ’’کلمات طیبہ کو عمل صالح بلند کرتا ہے‘‘ تب پاک کلمات، بندے کے نیک اعمال کے مطابق بلند ہوتے ہیں، نیک اعمال ہی بندے کے پاک کلمات کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلند کرتے ہیں۔ اگر بندے کے پاس کوئی عمل صالح نہ ہو تو اس کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کی طرف بلند نہیں ہوتی۔ یہ بندے کے اعمال ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاحب اعمال کو بلند درجات اور عزت عطا کرتا ہے۔ باقی رہی برائیاں، تو اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے، برے اعمال کا ارتکاب کرنے والا اپنے اعمال کے ذریعے سے، بلند ہونا چاہتا ہے، وہ سازشیں کرتا اور چالیں چلتا ہے، مگر اس کے تمام مکروفریب اسی پر الٹ جاتے ہیں اسے رسوائی اور پستی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَالْ٘عَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ١ؕ وَالَّذِیْنَ یَمْؔكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ﴾ ’’اور نیک عمل اسے بلند کرتے ہیں اور جو لوگ بری بری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہے۔‘‘ اور اس عذاب میں اسے بے انتہا رسوا کیا جائے گا۔ ﴿وَمَكْرُ اُولٰٓىِٕكَ هُوَ یَبُوْرُ ﴾ یعنی ان کی فریب کاریوں کا تاروپود بوسیدہ ہو کر بکھر جائے گا اور ان کی فریب کاریاں اور سازشیں انھیں کوئی فائدہ نہ دیں گی کیونکہ یہ باطل کے لیے باطل پر مبنی چالیں ہیں۔
آیت: 11 #
{وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (11)}.
اور اللہ ہی نے پیدا کیا تم کو مٹی سے، پھر نطفے (قطرۂ منی) سے، پھر بنایا تم کو جوڑے جوڑے اور نہیں بوجھ اٹھاتی(پیٹ میں) کوئی مادہ اور نہ وہ جنتی ہے، مگر ساتھ اس کے علم کے اور نہیں عمر دیا جاتا کوئی عمر دیا جانے والا اور نہ کم کی جاتی ہے اس کی عمر سے، مگر (وہ درج) ہے ایک کتاب (لوح محفوظ) میں، بلاشبہ یہ بات اللہ پر نہایت آسان ہے(11)
#
{11} يذكر تعالى خلقَه الآدميَّ وتنقُّله في هذه الأطوار من ترابٍ إلى نطفةٍ وما بعدها، {ثم جَعَلَكم أزواجاً}؛ أي: لم يزل ينقُلُكم طوراً بعد طورٍ حتى أوصلكم إلى أنْ كنتُم أزواجاً؛ ذكر يتزوجُ أنثى، ويُرادُ بالزواج الذُّرِّية والأولاد؛ فهو وإنْ كان النكاحُ من الأسبابِ فيه؛ فإنَّه مقترنٌ بقضاء الله وقدره وعلمه. {وما تَحْمِلُ مِن أنثى ولا تضعُ إلاَّ بعلمِهِ}: وكذلك أطوارُ الآدميِّ كلُّها بعلمه وقضائه {وما يُعَمَّرُ من مُعَمَّرٍ ولا يُنقَصُ من عُمُرِهِ}؛ أي: عمر الذي كان معمَّراً عمراً طويلاً، {إلاَّ}: بعلمه تعالى، أو: وما ينقص من عمر الإنسان الذي هو بصدد أن يَصِلَ إليه لولا ما سلكه من أسباب قِصَرِ العمر؛ كالزِّنا وعقوق الوالدين وقطيعة الأرحام ونحو ذلك مما ذُكِرَ أنَّها من أسباب قصر العمر، والمعنى أنَّ طولَ العمر وقِصَرَه بسببٍ وبغير سببٍ كله بعلمه تعالى، وقد أثبت ذلك {في كتابٍ}: حوى ما يجري على العبد في جميع أوقاته وأيام حياته. {إنَّ ذلك على الله يسيرٌ}؛ أي: إحاطة علمه بتلك المعلومات الكثيرة، وإحاطةُ كتابه بها. فهذه ثلاثةُ أدلَّة من أدلَّة البعث والنشور، كلُّها عقليَّة، نبَّه الله عليها في هذه الآيات: إحياء الأرض بعد موتها، وأنَّ الذي أحياها سيُحيي الموتى. وتَنَقُّل الآدمي في تلك الأطوار، فالذي أوجَدَه ونَقَّلَه طبقاً بعد طبق وحالاً بعد حال حتى بلغ ما قُدِّرَ له؛ فهو على إعادتِهِ وإنشائِهِ النشأةَ الأخرى أقدرُ، وهو أهونُ عليه. وإحاطة علمه بجميع أجزاء العالم العلويِّ والسفليِّ دقيقها وجليلها، الذي في القلوب، والأجنَّة التي في البطون، وزيادة الأعمار ونقصها، وإثباتُ ذلك كلِّه في كتاب؛ فالذي كان هذا يسيراً عليه؛ فإعادتُه للأموات أيسرُ وأيسرُ. فتبارك من كَثُرَ خيرُه، ونبَّه عبادَه على ما فيه صلاحُهم في معاشهم ومعادهم.
[11] اللہ تبارک وتعالیٰ آدمی کی تخلیق یعنی مٹی سے لے کر نطفے اور بعد کے مراحل میں اس کے منتقل ہونے کا تذکرہ فرماتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل کرتا رہا حتیٰ کہ تم مرد اور عورت نکاح کے مرحلے میں داخل ہو گئے یہاں نکاح اور ازدواج سے مراد اولاد اور ذریت ہے۔ نکاح اگرچہ حصول اولاد کا سبب ہے، تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر اور اس کے علم سے مقرون ہے۔ ﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَلَا تَ٘ضَ٘عُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ﴾ ’’جو بھی مادہ حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کاعلم ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح آدمی کی تخلیق کے مختلف ادوار اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قضا وقدر سے مقرون ہیں۔ ﴿وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا یُنْقَ٘صُ مِنْ عُمُرِهٖۤ﴾ ’’اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے۔‘‘ یعنی جس شخص کو طویل عمر عطا کی گئی ہو تو اس کی عمر میں کمی نہیں کی جاتی ﴿اِلَّا ﴾ ’’مگر‘‘ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے یا کسی ایسے یا انسان کی عمر میں جو کمی کی گئی ہو جو اس کی طوالت کے درپے رہتا اگر وہ کوتاہ عمری کے اسباب کو اختیار نہ کرتا، مثلاً: زنا، والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی وغیرہ، جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عمر کے کم ہونے کے اسباب ہیں اور معنی یہ ہے کہ عمر کا طویل یا کم ہونا، کسی سبب کی بنا پر ہو یا کسی سبب کے بغیر سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ﴿فِیْؔ كِتٰبٍ ﴾ ’’ایک کتاب میں‘‘ درج کر رکھا ہے۔ بندے کے تمام ایام حیات اور اس کے تمام اوقات میں اس کے ساتھ جو کچھ گزرتا ہے، سب اس کتاب میں درج ہے۔ ﴿اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ﴾ ’’بلاشبہ یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔‘‘ یعنی ان بے شمار معلومات اور اس بارے میں کتاب کا احاطہ بہت آسان ہے۔ یہ تین دلائل جو زندگی بعد موت پر دلالت کرتے ہیں، سب عقلی دلائل ہیں، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اشارہ کیا ہے۔ (۱) زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اس کو زندہ کرنا۔ (۲) وہ ہستی جس نے زمین کو حیات نو بخشی، وہ مردوں کو بھی زندہ کرے گی۔ (۳) انسان کا ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونا۔ وہ اللہ جو اسے وجود میں لایا، جس نے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں اور ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کیا یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ گیا جو اس کے لیے مقدر تھا، اس اللہ کے لیے اس کی زندگی کا اعادہ کرنا اور دوسری تخلیق عطا کرنا آسان تر ہے۔ اس کے علم نے تمام عالم علوی اور عالم سفلی کا، ہر چھوٹی یا بڑی چیز کا جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے، ان بچوں کا جو ماؤ ں کے پیٹ میں ہیں اور عمروں کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کا احاطہ کر رکھا ہے اور یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ پس وہ اللہ جس کے لیے یہ سب کچھ اتنا آسان ہے اس کے لیے مردوں کو دوبارہ زندگی بخشنا آسان سے آسان تر ہے۔ پس نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس کی بھلائیاں ان گنت ہیں۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے ان تمام امور کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ان کی معاش و معاد کی بھلائی ہے۔
آیت: 12 - 14 #
{وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرَانِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَائِغٌ شَرَابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَمِنْ كُلٍّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (12) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ (14)}.
اور نہیں برابر دو دریا، یہ ایک میٹھا خوب میٹھا آسان ہے اس کا پینا اور یہ ایک (دوسرا) کھارا سخت کڑوا، اور ہر ایک میں سے کھاتے ہو تم گوشت تازہ اورنکالتے ہو تم زیور کہ پہنتے ہو تم انھیں اور دیکھیں گے آپ کشتیوں کو اس (دریا) میں پھاڑتی ہوئی (چلتی ہیں) پانی کو، تاکہ تلاش کرو تم اس کے فضل سے اور تاکہ تم شکر کرو(12) داخل کرتا ہے وہ (اللہ) رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور کام میں لگا دیا ہے اس نے سورج اور چاند کو، ہر ایک چل رہا ہے ایک وقت مقرر تک، یہ ہے اللہ، تمھارا رب ، اسی کی ہے بادشاہی، اور وہ جن کو تم پکارتے ہو اس (اللہ) کے سوا، نہیں اختیار رکھتے وہ کھجور کی گٹھلی کے اوپر والے چھلکے کا بھی(13) اگر پکارو تم ان کو تو نہیں سنیں گے وہ تمھاری پکار کو، اوراگر وہ سن بھی لیں تو نہیں جواب دیں گے وہ تمھیں، اور دن قیامت کے وہ انکار کر دیں گے تمھارے (اس) شرک کا، اور نہیں خبر دے گا آپ کو (کوئی) مانند (اللہ) خوب خبر دار کے(14)
#
{12} هذا إخبارٌ عن قدرتِهِ وحكمتِهِ ورحمتِهِ، أنَّه جعل البحرينِ لمصالح العالم الأرضيِّ كلِّهم، وأنَّه لم يسوِّ بينهما؛ لأنَّ المصلحة تقتضي أن تكون الأنهارُ عذبةً فراتاً سائغاً شرابها؛ لينتفعَ بها الشاربون والغارسون والزارعون، وأن يكونَ البحرُ ملحاً أجاجاً؛ لئلاَّ يَفْسُدَ الهواءُ المحيطُ بالأرض بروائح ما يموتُ في البحر من الحيوانات، ولأنَّه ساكنٌ لا يجري؛ فملوحتُه تمنعُه من التغيُّر، ولتكون حيواناتُه أحسنَ وألذَّ، ولهذا قال: {ومن كلٍّ}: من البحر الملح والعذب {تأكلونَ لحماً طريًّا}: وهو السمك المتيسِّرُ صيدُه في البحر، {وتستخرِجون حِلْيَةً تَلْبَسونَها}: من لؤلؤ ومرجانٍ وغيره مما يوجدُ في البحر، فهذه مصالحُ عظيمةٌ للعباد. ومن المصالح أيضاً والمنافع في البحر أن سَخَّرَه الله تعالى يحملُ الفلكَ من السفن والمراكب، فتراها تمخُرُ البحر وتشقُّه، فتسلكُ من إقليم إلى إقليم آخر ومن محلٍّ إلى محلٍّ، فتحمل السائرين وأثقالَهم وتجاراتِهِم، فيحصُلُ بذلك من فضل الله وإحسانه شيءٌ كثير، ولهذا قال: {ولِتَبْتَغوا من فضلِهِ ولعلَّكم تشكُرون}.
[12] یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی بے پایاں رحمت کا بیان ہے کہ اس نے عالم ارضی کے لیے پانی کے مختلف ذخیرے تخلیق فرمائے، ان کو ایک سا نہیں بنایا، کیونکہ مصلحت تقاضا کرتی ہے کہ دریاؤ ں کا پانی میٹھا، پیاس بجھانے والا اور پینے میں خوشگوار ہو، تاکہ اسے پینے والے، باغوں اور کھیتیوں کو سیراب کرنے والے اپنے کام میں لائیں اور سمندروں کا پانی نمکین اور سخت کھاری ہو، تاکہ ان سمندروں کے اندر مرنے والے حیوانات کی بدبو سے ہوا خراب نہ ہو کیونکہ سمندر کا پانی چلتا نہیں بلکہ ساکن ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاری پن اسے تغیر سے بچائے رکھے اور اس کے حیوانات خوبصورت اور زیادہ لذیذ ہوں، بنا بریں فرمایا: ﴿وَمِنْ كُ٘لٍّ ﴾ یعنی کھاری پانی اور میٹھے پانی کے ذخیرے میں سے ﴿تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا ﴾ ’’تم تازہ گوشت کھاتے ہو‘‘ اس سے مراد مچھلی ہے، جس کا شکار سمندر میں بہت آسان ہے۔ ﴿وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ۠ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا ﴾ ’’اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو۔‘‘ یعنی موتی اور مونگے وغیرہ، جو سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بندوں کے لیے عظیم مصالح ہیں۔ سمندر کے فوائد اور مصالح میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کشتیوں کے لیے مسخر کیا۔ تم انھیں دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چلتی ہیں، مسافر ان کشتیوں اور جہازوں پر بھاری بوجھ اور اپنا سامان تجارت لادتے ہیں۔ پس اس طرح انھیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اور تاکہ تم اس کا فضل (معاش) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
#
{13} ومن ذلك أيضاً إيلاجُهُ تعالى الليلَ بالنهارِ والنهارَ بالليلِ؛ يُدْخِلُ هذا على هذا وهذا على هذا، كلما أتى أحدُهما؛ ذهب الآخر، ويزيدُ أحدُهما وينقصُ الآخرُ ويتساويان، فيقوم بذلك ما يقومُ من مصالح العبادِ في أبدانهم وحيواناتهم وأشجارِهم وزُروعهم، وكذلك ما جعل الله في تسخير الشمس والقمر من مصالح الضياء والنورِ والحركة والسكون وانتشار العباد في طلب فضله وما فيهما من تنضيج الثمار وتجفيف ما يجفَّف وغير ذلك مما هو من الضَّرورياتِ التي لو فُقِدَتْ؛ لَلَحِقَ الناسَ الضررُ. وقوله {كلٌّ يجري لأجل مُسَمًّى}؛ أي: كلٌّ من الشمس والقمر يسيران في فلكهما ما شاء الله أن يسيرا؛ فإذا جاء الأجلُ وقَرُبَ انقضاءُ الدُّنيا؛ انقطع سيرُهما، وتعطَّل سلطانُهما، وخسفَ القمرُ، وكُوِّرَتِ الشمسُ، وانتثرتِ النُّجومُ. فلما بيَّن تعالى ما بيَّن من هذه المخلوقات العظيمة وما فيها من العبرِ الدالَّة على كماله وإحسانِهِ قال: {ذلكُمُ الله ربُّكم له الملكُ}؛ أي: الذي انفرد بخَلْق هذه المذكورات وتسخيرِها هو الربُّ المألوه المعبودُ الذي له الملكُ كلُّه. {والذين تدعونَ من دونِهِ}: من الأوثان والأصنام، لا يملِكونَ {من قِطْميرٍ}؛ أي: لا يملكون شيئاً لا قليلاً ولا كثيراً، حتى ولا القطمير الذي هو أحقر الأشياء، وهذا من تنصيص النفي وعمومه؛ فكيف يُدْعَوْنَ وهم غير مالكينَ لشيء من ملك السماواتِ والأرض؟!
[13] ان جملہ نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے جب ان میں سے کوئی ایک آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے کبھی ایک میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو دوسرے میں اضافہ اور کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں اور اس سے بندوں کے اجسام، ان کے حیوانات، ان کے باغات اور ان کی کھیتیوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں۔اسی طرح سورج اور چاند کی تسخیر میں روشنی اور نور، حرکت اور سکون کے مصالح حاصل ہوتے ہیں، سورج کی روشنی میں بندے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے کے لیے پھیل جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں پھل پکتے ہیں اور دیگر ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کے فقدان سے لوگوں کو ضرر پہنچتا ہے۔ ﴿كُ٘لٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّ٘سَمًّى ﴾ ’’اور ہر ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔‘‘ یعنی چاند اور سورج دونوں اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو گی۔ جب وقت مقررہ آ جائے گا اور دنیا کی مدت پوری ہونے کا وقت قریب آ پہنچے گا تو ان کی طاقت سلب کر لی جائے گی، چاند بے نور ہو جائے گا، سورج کو روشنی سے محروم کر دیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے۔ ان عظیم مخلوقات میں جو عبرتیں اللہ تعالیٰ کے کمال اور احسان پر دلالت کرتی ہیں، ان کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ﴾ ’’یہ ہے اللہ، تمھارا رب، اسی کے لیے بادشاہی ہے۔‘‘ یعنی وہ ہستی جو ان بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق اور تسخیر میں متفرد ہے وہی رب، الٰہ اور مستحق عبادت ہے، جو تمام اقدار کا مالک ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾ ’’اور اس کے سوا جنھیں تم پکارتے ہو۔‘‘ یعنی تم جن بتوں اور خود ساختہ معبودوں کو پوجتے ہو ﴿مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ﴾ وہ قلیل یا کثیر کسی چیز کے مالک نہیں حتی کہ وہ اس معمولی چھلکے کے بھی مالک نہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے جو حقیر ترین چیز ہے۔ یہ (ان کی الوہیت کی) نفی اور اس کے عموم کی تصریح ہے۔ ان خود ساختہ معبودوں کو کیسے پکارا جاسکتا ہے حالانکہ وہ زمین و آسمان کی بادشاہی میں کسی چیز کے بھی مالک نہیں؟
#
{14} ومع هذا: {إن تَدْعوهم}: لا يسمعوكم؛ لأنهم ما بين جمادٍ وأمواتٍ وملائكةٍ مشغولين بطاعة ربهم، {ولو سمعوا}: على وجه الفرض والتقدير {ما اسْتَجابوا لكم}: لأنَّهم لا يملِكون شيئاً ولا يرضى أكثرُهم بعبادةِ مَنْ عَبَدَه، ولهذا قال: {ويوم القيامةِ يكفُرونَ بشِرْكِكُم}؛ أي: يتبرؤون منكم، ويقولونَ: سبحانك أنتَ ولِيُّنا من دونهم، {ولا ينبِّئُك مثلُ خبيرٍ}؛ أي: لا أحدَ ينبِّئُكَ أصدقُ من الله العليم الخبيرِ؛ فاجْزِمْ بأنَّ هذا الأمر الذي نبأ به كأنه رأيُ عينٍ، فلا تشكَّ فيه ولا تمترِ. فتضمَّنَتْ هذه الآياتُ الأدلَّة والبراهين الساطعةَ الدالَّة على أنَّه تعالى المألوهُ المعبودُ الذي لا يستحقُّ شيئاً من العبادة سواه، وأنَّ عبادةَ ما سواه باطلةٌ متعلقةٌ بباطل لا تفيدُ عابده شيئاً.
[14] اس کے ساتھ ساتھ ﴿اِنْ تَدْعُوْهُمْ ﴾ ’’اگر تم ان کو پکارو‘‘ تو وہ تمھاری پکار نہیں سنتے کیونکہ وہ پتھر ہیں یا مرے ہوئے انسان یا فرشتے جو ہر وقت اپنے رب کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ سَمِعُوْا ﴾ بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں ﴿مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ﴾ ’’تو تمھاری بات قبول نہیں کریں گے۔‘‘ کیونکہ وہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ان میں سے اکثر ان لوگوں کی عبادت پر راضی ہی ہیں جو ان کی عبادت کرتے ہیں بنابریں فرمایا: ﴿وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْ٘فُرُوْنَ بِشِرْؔكِكُمْ ﴾ ’’اور قیامت کے دن وہ تمھارے شرک کا انکار کریں گے‘‘ یعنی ان کے خود ساختہ معبود ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿سُبْحٰؔنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ﴾ (سبا:34؍41) ’’تو پاک ہے، تو ہی ہمارا دوست ہے نہ کہ یہ۔‘‘ ﴿وَلَا یُنَبِّئُكَ مِثْ٘لُ خَبِیْرٍ ﴾ یعنی آپ کو آگاہ کرنے والی کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو اللہ، علیم و خبیر سے زیادہ سچی ہو۔ پس آپ کو قطعی طور پر یقین ہونا چاہیے کہ یہ معاملہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے ایک عینی مشاہدہ ہے، اس لیے آپ کو اس بارے میں قطعی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ آیات کریمہ روشن اور واضح دلائل پر مشتمل ہیں، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی ہستی ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں۔ اس کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل اور باطل سے متعلق ہے اور وہ اپنی عبادت کرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
آیت: 15 - 18 #
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (15) إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ (16) وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ (17) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (18)}.
اے لوگو! تم (سب) محتاج ہو اللہ کے ۔ اور اللہ ہی ہے بے نیاز لائق حمد و ثنا(15)اگر وہ چاہے تو لے جائے(ہلاک کر دے) تمھیں اور لے آئے ایک مخلوق نئی(16)اور نہیں ہے یہ بات اللہ پرکچھ مشکل (17) اور نہیں بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا بوجھ دوسرے کا، اور اگربلائے گا کوئی بوجھ لدا شخص اپنے بوجھ (اٹھانے) کو تو نہ اٹھایا جائے گا اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی، اگرچہ ہو وہ رشتے دار ہی، بلاشبہ آپ تو ڈراتے ہیں صرف انھی لوگوں کو جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے اور قائم کرتے ہیں نماز اور جو پاک ہو گیا تو بلاشبہ وہ پاک ہوتا ہے اپنے ہی لیے، اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(18)
#
{15} يخاطبُ تعالى جميع الناس، ويخبِرُهم بحالِهم ووصفِهم، وأنهم فقراءُ إلى الله من جميع الوجوه: فقراءُ في إيجادِهم؛ فلولا إيجادُه إيَّاهم لم يوجدوا، فقراء في إعدادِهم بالقُوى والأعضاء والجوارح، التي لولا إعدادُه إيَّاهم بها؛ لما استعدُّوا لأيِّ عمل كان، فقراء في إمدادِهم بالأقواتِ والأرزاقِ والنعم الظاهرةِ والباطنة؛ فلولا فضلُه وإحسانُه وتيسيرُه الأمور، لما حصل لهم من الرزقِ والنعم شيءٌ، فقراءُ في صرف النقم عنهم ودفع المكارِهِ وإزالة الكروب والشدائدِ؛ فلولا دفعُه عنهم وتفريجُه لكُرُباتهم وإزالتُهُ لعسرِهِم؛ لاستمرَّتْ عليهم المكارهُ والشدائدُ، فقراءُ إليه في تربيتهم بأنواع التربية وأجناس التدبير، فقراء إليه في تألُّههم له وحُبِّهم له وتعبُّدهم وإخلاص العبادة له تعالى؛ فلو لم يوفِّقْهم لذلك؛ لهلكوا وفسدتْ أرواحُهم وقلوبُهم وأحوالُهم، فقراءُ إليه في تعليمهم ما لا يعلمون وعملهم بما يُصْلِحُهم؛ فلولا تعليمُه؛ لم يتعلَّموا، ولولا توفيقُه؛ لم يَصْلُحوا؛ فهم فقراء بالذات إليه بكلِّ معنى وبكل اعتبارٍ، سواء شعروا ببعض أنواع الفقرِ أم لم يشعُروا، ولكنَّ الموفَّق منهم الذي لا يزال يشاهدُ فَقْرَه في كل حال من أمورِ دينه ودنياه، ويتضرَّعُ له ويسألُه أنْ لا يَكِلَه إلى نفسِهِ طرفةَ عين وأنْ يعينَه على جميع أمورِهِ، ويستصحبُ هذا المعنى في كلِّ وقتٍ؛ فهذا حريٌّ بالإعانة التامَّة من ربِّه وإلهه الذي هو أرحمُ به من الوالدةِ بولدها. {والله هو الغنيُّ الحميدُ}؛ أي: الذي له الغنى التامُّ من جميع الوجوه؛ فلا يحتاجُ إلى ما يحتاجُ إليه خلقُه، ولا يفتقرُ إلى شيءٍ مما يفتقرُ إليه الخلقُ، وذلك لكمال صفاتِهِ، وكونِها كلها صفاتِ كمال ونعوتَ جلال، ومن غناه تعالى أنَّه أغنى الخلقَ في الدُّنيا والآخرة، الحميدُ في ذاته، وأسمائِهِ؛ لأنَّها حسنى، وأوصافه؛ لكونها عليا، وأفعاله؛ لأنَّها فضلٌ وإحسانٌ وعدلٌ وحكمةٌ ورحمةٌ، وفي أوامره ونواهيه؛ فهو الحميدُ على ما فيه، وعلى ما منّه ، وهو الحميدُ في غناه، الغنيُّ في حمده.
[15] اللہ تبارک وتعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہے، انھیں ان کے احوال و اوصاف سے آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں: (۱) وہ وجود میں آنے کے لیے اس کے محتاج ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو وجود میں نہ لائے تو وہ وجود میں نہیں آ سکتے۔ (۲) وہ اپنے مختلف قویٰ، اعضاء اور جوارح کے حصول میں اس کے محتاج ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو یہ قویٰ عطا نہ کرے تو کسی کام کے لیے ان میں کوئی استعداد نہیں۔ (۳) وہ خوراک، رزق اور دیگر ظاہری وباطنی نعمتوں کے حصول میں اسی کے محتاج ہیں اگر اس کا فضل و کرم نہ ہو اور اگر وہ ان امور کے حصول میں آسانی پیدا نہ کرے تو وہ رزق اور دیگر نعمتیں حاصل نہیں کر سکتے۔ (۴) وہ اپنے مصائب وتکالیف ، کرب و غم اور شدائد کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی مصیبتوں اور کرب و غم کو دور اور ان کی عسرت کا ازالہ نہ کرے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ مصائب و شدائد میں گھرے رہیں۔ (۵) وہ اپنی مختلف انواع کی تربیت و تدبیر میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ (۶) وہ اسے الٰہ بنانے، اس سے محبت کرنے، اس کو معبود بنانے اور خالص اسی کی عبادت کرنے میں اس کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان امور کی توفیق عطا نہ کرے تو یہ ہلاک ہو جائیں، ان کی ارواح، قلوب اور احوال فاسد ہو جائیں۔ (۷) وہ ان چیزوں کے علم کے حصول میں جنھیں وہ نہیں جانتے اور ان کی اصلاح کرنے والے عمل کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو علم عطا نہ کرے تو وہ کبھی بھی علم سے بہرہ ور نہ ہو سکیں اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو عمل کی توفیق سے نہ نوازے تو وہ کبھی نیکی نہ کر سکیں... وہ ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے بالذات اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں خواہ انھیں اپنی کسی حاجت کا شعور ہو یا نہ ہو۔ مگر لوگوں میں سے توفیق سے بہرہ ور وہی ہے جو دینی اور دنیاوی امور سے متعلق اپنے تمام احوال میں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنے فقرواحتیاج کا مشاہدہ کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور فروتنی کا اظہار کرتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہے کہ وہ اسے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے نفس کے حوالے نہ کرے، اس کے تمام امور میں اس کی مدد فرمائے اور وہ اس معنیٰ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھتا ہے۔ ایسا شخص اپنے اس رب اور معبود کی کامل اعانت کا مستحق ہے جو ماں کے اپنے بچوں پر مہربان ہونے سے کہیں بڑھ کر اس پر مہربان اور رحیم ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ هُوَ الْ٘غَنِیُّ الْحَمِیْدُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو ہر لحاظ سے غنائے کامل کی مالک ہے۔ وہ ان چیزوں میں سے کسی چیز کی محتاج نہیں جن کی مخلوق محتاج اور ضرورت مند ہوتی ہے کیونکہ اس کی صفات تمام ترصفات کمال اور جلال ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غنائے تام ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو دنیا وآخرت میں غنا سے نوازا ہے۔ ﴿الْحَمِیْدُ ﴾ وہ اپنی ذات اور اپنے ناموں میں قابل حمدوستائش ہے کیونکہ اس کے تمام نام اچھے، اس کے تمام اوصاف عالی شان اور اس کے تمام افعال سراسر فضل و احسان، عدل و حکمت اور رحمت پر مبنی ہیں۔ وہ اپنے اوامرونواہی میں قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنی صفات، فضل و اکرام اور جزاوسزا میں عدل و انصاف کے لیے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنے غنا میں قابل تعریف ہے اور وہ اپنی حمد وثنا سے مستغنی اور بے نیاز ہے۔
#
{16} {إن يَشَأْ يُذْهِبْكم ويأتِ بخلقٍ جديدٍ}: يُحتمل أنَّ المرادَ: إنْ يشأ يُذْهِبْكم أيُّها الناس ويأتِ بغيركم من الناس أطوع لله منكم، ويكون في هذا تهديدٌ لهم بالهلاك والإبادة، وأنَّ مشيئتَه غيرُ قاصرة عن ذلك. ويُحتمل أنَّ المرادَ بذلك إثباتُ البعث والنُّشور، وأنَّ مشيئةَ الله تعالى نافذةٌ في كلِّ شيءٍ، وفي إعادتكم بعد موتكم خلقاً جديداً، ولكن لذلك الوقت أجلٌ قدَّره الله لا يتقدَّم عنه ولا يتأخَّر.
[16] ﴿اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَ٘اْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ﴾ اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اے لوگو! اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمھیں لے جائے اور تمھاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے جو تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ یہ ان کے لیے ہلاکت کی وعید اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں۔ اس میں زندگی بعد موت کے اثبات کا احتمال بھی ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہر چیز پر نافذ ہے۔ اس کی مشیّت اس چیز پر بھی قادر ہے کہ تمھارے مرنے کے بعد تمھیں دوبارہ نئے سرے سے زندہ کرے، مگر اس زندگی کے لیے ایک وقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے، اس وقت مقرر سے تقدیم ہو گی نہ تاخیر۔
#
{17} {وما ذلك على الله بعزيزٍ}؛ أي: بممتنع ولا معجزٍ له.
[17] ﴿وَمَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ ﴾ ’’اور یہ اللہ کو کچھ مشکل نہیں۔‘‘ یعنی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت سے باہر نہیں اور کوئی ہستی اسے عاجز نہیں کر سکتی۔
#
{18} ويدلُّ على المعنى الأخير ما ذكره بعده في قوله: {ولا تزرُ وازرةٌ وِزْرَ أخرى}؛ أي: في يوم القيامةِ كلُّ أحدٍ يُجازى بعمله، ولا يحملُ أحدٌ ذنبَ أحدٍ. {وإن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ}؛ أي: نفسٌ مثقلةٌ بالخطايا والذنوب تستغيثُ بمن يحمل عنها بعضَ أوزارها، {لا يُحْمَلْ منه شيءٌ ولو كان ذا قُربى}: فإنَّه لا يَحْمِلُ عن قريبٍ، فليست حالُ الآخرة بمنزلةِ حال الدُّنيا يساعدُ الحميم حميمَه والصديقُ صديقَه، بل يوم القيامةِ يتمنَّى العبدُ أن يكونَ له حقٌّ على أحدٍ، ولو على والديه وأقاربه. {إنَّما تنذرُ الذين يَخْشَوْنَ ربَّهم بالغيب وأقاموا الصلاة}؛ أي: هؤلاء الذين يقبلون النذارةَ وينتفعون بها، أهلُ الخشية لله بالغيبِ. الذين يخشونَه في حال السرِّ والعلانية والمشهدِ والمغيبِ وأهل إقامةِ الصلاة بحدودِها وشروطِها وأركانها وواجباتها وخُشوعها؛ لأنَّ الخشيةَ لله تستدعي من العبدِ العملَ بما يخشى من تضييعِهِ العقاب والهربَ مما يخشى من ارتكابِهِ العذاب، والصلاة تدعو إلى الخير وتنهى عن الفحشاء والمنكر. {ومن تزكَّى فإنَّما يتزكَّى لنفسِهِ}؛ أي: ومن زكَّى نفسَه بالتنقِّي من العيوب كالرياء والكبر والكذبِ والغشِّ والمكرِ والخداع والنفاقِ ونحو ذلك من الأخلاق الرذيلة، وتحلَّى بالأخلاق الجميلة من الصدقِ والإخلاصِ والتواضُع ولين الجانب والنُّصح للعباد وسلامةِ الصدرِ من الحقدِ والحسدِ وغيرِهما من مساوئ الأخلاق؛ فإنَّ تزكِيَتَه يعود نفعُها إليه ويصلُ مقصودُها إليه، ليس يضيعُ من عملِهِ شيءٌ. {وإلى الله المصيرُ}: فيجازي الخلائقَ على ما أسْلَفوه، ويحاسِبُهم على ما قدَّموه وعَمِلوه، ولا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها.
[18] اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ آخری معنیٰ پر دلالت کرتی ہے، یعنی ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ﴿وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ ﴾ اگر کوئی نفس جس نے اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہو گا اور وہ کسی سے بوجھ اٹھانے کے لیے التماس کرے گا۔ ﴿لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُ٘رْبٰى ﴾ ’’تو کوئی شخص بھی خواہ اس کارشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ کیونکہ آخرت کے احوال دنیا کے احوال کی مانند نہیں ہیں جہاں دوست، دوست کی مدد کرتا ہے، بلکہ قیامت کے روز تو بندہ تمنا کرے گا کہ اس کا کسی کے ذمے حق ہو، خواہ اس کے والدین اور اقارب کے ذمے ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ﴾ ’’آپ تو صرف انھی لوگوں کو نصیحت کر سکتے ہیں جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو انذار کو قبول کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو کھلے چھپے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کی تمام حدود و شرائط، ارکان و واجبات اور پورے خشوع کے ساتھ قائم کرتے ہیں کیونکہ خشیت الٰہی بندے سے اس عمل کا تقاضا کرتی ہے جس کے ضیاع پر سزا کا خوف ہو اور ایسے عمل سے دور رہنے کا تقاضا کرتی ہے جس کے ارتکاب پر عذاب کا خوف ہو۔ نماز بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ﴿وَمَنْ تَزَؔكّٰى فَاِنَّـمَا یَتَزَؔكّٰى لِنَفْسِهٖ﴾ یعنی جس کسی نے اپنے نفس کو عیوب ، مثلاً: ریاء، تکبر، جھوٹ، دھوکہ، مکر وفریب، نفاق اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک کیا اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا ، مثلاً: صدق، اخلاص، تواضع و انکسار، بندوں کی خیر خواہی اور دل کو بغض حسد، کینے اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک رکھا، تو اس کے تزکیۂ نفس کا فائدہ اسی کو حاصل ہو گا۔ اس کے عمل میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہو گی۔ ﴿وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ پس وہ تمام خلائق کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان کے اعمال کا حساب لے گا اور کوئی چھوٹا یا بڑا عمل شمار کرنے سے نہیں چھوڑے گا۔
آیت: 19 - 24 #
{وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (19) وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ (20) وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ (21) وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ (22) إِنْ أَنْتَ إِلَّا نَذِيرٌ (23) إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (24)}.
اور نہیں برابر (ہو سکتا) اندھا اور دیکھنے والا(19) اور نہ اندھیر ے اور نہ روشنی(20) اور نہ سایہ اور نہ دھوپ(21) اورنہیں برابر (ہو سکتے) زندے اور نہ مردے، بے شک اللہ سنوا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور نہیں آپ سنا سکتے ان کو جو قبروں میں ہیں(22) نہیں ہیں آپ مگر صرف ڈرانے والے(23) بلاشبہ بھیجا ہم نے آپ کو حق کے ساتھ، خوشخبری دینے اور ڈرانے والا، اور نہیں ہوئی کوئی امت، مگر ضرور گزرا ہے اس میں ایک ڈرانے والا(24)
#
{19 ـ 23} يخبر تعالى أنَّه لا يتساوى الأضدادُ في حكمة الله وفيما أوْدَعَه في فِطَرِ عباده، فلا {يستوي الأعمى}: فاقد البصر {والبصيرُ. ولا الظلماتُ ولا النورُ. ولا الظِّلُّ ولا الحَرورُ. وما يستوي الأحياءُ ولا الأمواتُ}؛ فكما أنه من المتقرِّر عندكم الذي لا يَقْبَلُ الشكَّ أنَّ هذه المذكورات لا تتساوى؛ فكذلك فَلْتَعْلَموا أنَّ عدمَ تساوي المتضادَّاتِ المعنويَّةِ أولى وأولى؛ فلا يستوي المؤمنُ والكافرُ، ولا المهتدي والضالُّ، ولا العالم والجاهل، ولا أصحابُ الجنة وأصحابُ النار، ولا أحياءُ القلوبِ وأمواتُها؛ فبين هذه الأشياء من التفاوتِ والفَرْقِ ما لا يعلمُه إلاَّ الله تعالى. فإذا علمتَ المراتبَ وميَّزْتَ الأشياء وبان الذي ينبغي أن يُتَنافَسَ في تحصيله من ضدِّه؛ فليخترِ الحازمُ لنفسه ما هو أولى به وأحقُّ بالإيثار. {إنَّ الله يُسْمِعُ مَن يشاءُ}: سماع فَهْم وقَبول؛ لأنَّه تعالى هو الهادي الموفِّق. {وما أنتَ بمسمعٍ مَن في القبورِ}؛ أي: أمواتُ القلوب، أو: كما أنَّ دعاءَك لا يفيدُ سكانَ القبورِ شيئاً، كذلك لا يفيدُ المعرِضَ المعاندَ شيئاً، ولكنَّ وظيفتَكَ النذارةُ وإبلاغُ ما أرسلتَ به؛ قُبِلَ منك أم لا، ولهذا قال: {إنْ أنتَ إلا نذيرٌ}.
[23-19] اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ حکمت الٰہی اور اس نے اپنے بندوں کو جو فطرت عطا کی ہے، ان کے لحاظ سے اضداد برابر نہیں ہوتیں، فرمایا: ﴿وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى ﴾ ’’اور نہیں ہے برابر اندھا‘‘ جس کی بینائی نہیں ﴿وَالْبَصِیْرُۙ۰۰ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُۙ۰۰ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُۚ۰۰ وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ﴾ ’’اور دیکھنے والا، نہ اندھیرے اور روشنی، نہ سایہ اور دھوپ (برابر ہیں) اور نہ زندے اور مردے یکساں ہوتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ تمھارے نزدیک بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت اور کسی شک و شبہے سے پاک ہے کہ مذکورہ بالا تمام چیزیں برابر نہیں ہیں، تب تمھیں یہ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہیے کہ معنوی طور پر متضاد اشیاء میں عدم مساوات زیادہ اولیٰ ہے۔ پس مومن اور کافر برابر نہیں ہیں، نہ ہدایت یافتہ اور گمراہ برابر ہیں، نہ عالم اور جاہل برابر ہیں، نہ اہل جنت اور اہل جہنم برابر ہیں، نہ زندہ دل اور مردہ دل برابر ہیں۔ ان مذکورہ اشیاء کے درمیان اتنا فرق اور اس قدر تفاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب تمام اشیاء کے مراتب معلوم ہو گئے اور ان کے درمیان امتیاز واقع ہو گیا اور وہ اشیاء اپنی اضداد میں سے واضح ہو گئیں جن کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے، تو ایک دوراندیش اور عقل مند شخص کو اپنے لیے وہی چیز منتخب کرنی چاہیے جو بہتر اور ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اللہ جس کو چاہتا ہے سنوادیتا ہے۔‘‘ یعنی جسے چاہتا ہے فہم و قبول کی سماعت عطا کرتا ہے کیونکہ وہی راہ دکھانے والا اور توفیق عطا کرنے والا ہے۔ ﴿وَمَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ ’’اور آپ ان کو جو قبروں میں پڑے ہیں نہیں سنا سکتے۔‘‘ یعنی جن کے دل مردہ ہو چکے ہیں آپ ان کو نہیں سنا سکتے، جس طرح آپ کا قبر کے مردوں کو بلانا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، اسی طرح اعراض کرنے والے معاند کو بھی آپ کا بلانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ آپ کا کام صرف ڈرانااور ان تک اس حکم کو پہنچا دینا ہے جس کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے، خواہ وہ اس کو قبول کریں یا نہ کریں۔ ﴿اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ﴾’’آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔ ‘‘
#
{24} {إنا أرسلناك بالحقِّ}؛ أي: مجرَّدُ إرسالنا إيَّاك بالحقِّ؛ لأنَّ الله تعالى بَعَثَكَ على حين فترةٍ من الرسل وطموسٍ من السُّبل واندراسٍ من العلم وضرورةٍ عظيمةٍ إلى بعثك، فبعثَكَ اللَّه رحمةً للعالمين، وكذلك ما بَعَثْناك به من الدين القويم والصراطِ المستقيم حقٌّ لا باطل، وكذلك ما أرسلناك به من هذا القرآن العظيم وما اشتملَ عليه من الذِّكْرِ الحكيم حقٌّ وصدقٌ، {بشيراً}: لمن أطاعَكَ بثواب الله العاجل والآجل {ونذيراً}: لمن عصاك بعقاب الله العاجل والآجل، ولست ببدعٍ من الرسل. فما {منْ أمَّةٍ}: من الأمم الماضية والقرون الخالية {إلاَّ خلا فيها نذيرٌ}: يقيمُ عليهم حجَّةَ الله؛ {لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عن بَيِّنَةٍ ويَحْيا مَنْ حَيَّ عن بَيِّنَةٍ}.
[24] ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ ﴾’’بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔‘‘ یعنی ہم نے آپ کو مجرد حق کے ساتھ بھیجا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت مبعوث فرمایا جب رسولوں کی بعثت منقطع تھی، راہ حق کے نشان گم ہو چکے تھے، علم مٹ چکا تھا اور خلائق آپ کی بعثت کی سخت ضرورت مند تھی۔ تب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور یوں آپ کو دین قیم اور صراط مستقیم کے ساتھ مبعوث فرمایا جو باطل نہیں، سراسر حق ہے، اسی طرح ہم نے آپ کو یہ قرآن عظیم دے کر بھیجا جو دانائی سے لبریز، یاد دہانی پر مشتمل، سراسر حق اور صداقت ہے۔ ﴿بَشِیْرًا ﴾ آپ کو ان لوگوں کے لیے دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی اطاعت کریں۔ ﴿وَّنَذِیْرًا ﴾ اور ان لوگوں کے لیے دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی نافرمانی کریں اور آپ کوئی نئے رسول تو نہیں ہیں۔ نہیں ہے۔ ﴿مِّنْ اُمَّةٍ﴾ ’’کوئی بھی امت‘‘ سابقہ امتوں اور گذشتہ ادوار میں سے ﴿اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ ﴾ ’’مگر اس میں ڈرانے والا آیا ہے‘‘ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو۔ ﴿لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے۔‘‘
آیت: 25 - 26 #
{وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ (25) ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (26)}.
اوراگر وہ جھٹلاتے ہیں آپ کو تو(نئی بات نہیں) تحقیق جھٹلایا تھا ان لوگوں نے بھی جو ان سے پہلے ہوئے، آئے تھے ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ، اور صحیفوں کے ساتھ اور کتا ب روشن کے ساتھ(25) پھر پکڑ لیا میں نے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، پس (دیکھو) کیسے (نازل) ہوا ان پر میرا عذاب (26)
#
{25} أي: وإنْ يكذِّبْك أيُّها الرسول هؤلاء المشركون؛ فلست أول رسول كُذِّبَ، {فقد كَذَّبَ الذين من قبلهم جاءتْهم رسُلُهم بالبيناتِ}: الدالاَّتِ على الحقِّ وعلى صدقهم فيما أخبروهم به. {والزُّبُرِ}؛ أي: الكتب المكتوبة المجموع فيها كثير من الأحكام. {والكتابِ المنيرِ}؛ أي: المضيء في أخباره الصادقة وأحكامه العادلة، فلم يكن تكذيبُهم إياهم ناشئاً عن اشتباه أو قصورٍ بما جاءتْهم به الرسلُ، بل بسبب ظلمِهِم وعنادِهِم.
[25] اے رسول! اگر یہ مشرکین آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جس کو جھٹلایا گیا ہو ﴿فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ ’’پس جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی تکذیب کر چکے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے جو حق اور ان رسولوں کی خبر کی صداقت پر دلالت کرتے تھے ﴿وَبِالزُّبُرِ ﴾ یعنی لکھی ہوئی کتابوں کے ساتھ آئے جن میں بہت سے احکام جمع تھے ﴿وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ ﴾ یعنی جو اپنی سچی خبروں اور عدل پر مبنی احکام میں پوری طرح روشن ہے۔ ان کا اپنے رسولوں کو جھٹلانا، کسی اشتباہ اور رسولوں کی دعوت میں کسی کمی پر مبنی نہ تھا بلکہ اسکا سبب محض ان کا ظلم اور عناد تھا۔
#
{26} {ثم أخذتُ الذين كفروا}: بأنواع العقوباتِ {فكيف كان نكيرِ}: عليهم؟ كان أشدَّ النكير وأعظمَ التنكيل؛ فإيَّاكم وتكذيبَ هذا الرسول الكريم، فيصيبكم كما أصاب أولئك من العذاب الأليم والخزي الوخيم.
[26] ﴿ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’، پھر میں نے (مختلف انواع کے عذاب کے ذریعے سے) ان کو پکڑا جنھوں نے کفر کیا تھا۔‘‘ ﴿فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ ﴾ ’’پس میرا عذاب کیسا سخت تھا۔‘‘ ان پر؟ ان کے لیے نہایت سخت سزا تھی۔ اس لیے تم رسول کریم (e)کی تکذیب سے بچو ورنہ تم پر بھی وہی دردناک اور رسوا کن عذاب نازل ہو جائے گا جو گزشتہ قوموں پر نازل ہوا تھا۔
آیت: 27 - 28 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ (27) وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ (28)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے، بلاشبہ اللہ نے نازل کیا آسمان سے پانی، پھر نکالے ہم نے اس کے ذریعے سے ایسے پھل کہ مختلف ہیں ان کے رنگ، اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ، مختلف ہیں ان کے رنگ اور بہت گہرے کالے سیاہ(27) اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں سے بھی، مختلف ہیں ان کے رنگ اسی طرح بلاشبہ ڈرتے ہیں اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف علماء ہی، بلاشبہ اللہ خوب غالب ہے بہت بخشنے والا(28)
اللہ تبارک وتعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے کائنات میں متضاد اشیاء کو تخلیق کیا جن کی اصل اور مادہ ایک ہے، مگر اس کے باوجود ان میں فرق اور تفاوت ہے جو معروف اور سب پر عیاں ہے تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت تامہ پر استدلال کریں۔
#
{27} فمن ذلك أنَّ الله تعالى أنزلَ من السماء ماءً، فأخرج به من الثمراتِ المختلفاتِ والنباتات المتنوعاتِ ما هو مشاهدٌ للناظرين، والماء واحدٌ والأرضُ واحدةٌ. ومن ذلك الجبالُ التي جعلها الله أوتاداً للأرض؛ تجدِها جبالاً مشتبكةً، بل جبلاً واحداً، وفيها ألوان متعددةٌ، فيها {جُدَدٌ بيضٌ}؛ أي: طرائق بيضٌ، وفيها طرائقُ صفرٌ وحمرٌ، وفيها {غرابيبُ سودٌ}؛ أي: شديدة السواد جدًّا.
[27] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے مختلف اقسام کے پھل پیدا کیے اور مختلف انواع کی نباتات اگائیں، دیکھنے والے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں حالانکہ ان کو سیراب کرنے والا پانی ایک اور ان کو اگانے والی زمین ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کے لیے میخیں بنایا، آپ دیکھیں کہ پہاڑ گویا ایک دوسرے سے ملے ہوئے بلکہ وہ ایک ہی پہاڑ نظر آئیں گے، ان پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں، ان کے اندر سفید، زرد، سرخ اور گہرے سیاہ رنگ کی دھاریاں ہیں۔
#
{28} ومن ذلك الناسُ والدوابُّ والأنعام؛ فيها من اختلاف الألوان والأوصافِ والأصواتِ والهيئاتِ ما هو مرئيٌّ بالأبصار مشهودٌ للنُّظَّارِ، والكلُّ من أصل واحدٍ ومادةٍ واحدةٍ، فتفاوتُها دليلٌ عقليٌّ على مشيئةِ الله تعالى التي خَصَّصَتْ ما خَصَّصَتْ منها بلونِهِ ووصفِهِ، وقدرة الله تعالى حيث أوجدها كذلك، وحكمتِهِ ورحمتِهِ حيث كان ذلك الاختلاف وذلك التفاوتُ فيه من المصالح والمنافع ومعرفة الطرق ومعرفة الناس بعضهم بعضاً ما هو معلوم، وذلك أيضاً دليلٌ على سعة علم الله تعالى، وأنه يَبْعَثُ مَنْ في القبور. ولكن الغافل ينظر في هذه الأشياء وغيرها نَظَرَ غفلةٍ لا تحدثُ له تذكُّراً، وإنَّما ينتفع بها من يخشى الله تعالى ويعلم بفكرِهِ الصائب وجهَ الحكمة فيها، ولهذا قال: {إنَّما يخشى اللهَ من عبادِهِ العلماءُ}: فكلُّ من كان بالله أعلم؛ كان أكثرَ له خشيةً، وأوجبتْ له خشيةُ الله الانكفافَ عن المعاصي والاستعدادَ للقاء مَنْ يخشاه، وهذا دليلٌ على فضيلة العلم؛ فإنَّه داع إلى خشية الله، وأهلُ خشيتِهِ هم أهلُ كرامتِهِ؛ كما قال تعالى: {رضي الله عنهم ورَضُوا عنه ذلك لِمَنْ خَشِيَ ربَّه}. {إنَّ الله عزيزٌ}: كامل العزَّة، ومن عزَّته خَلْقُ هذه المخلوقات المتضادَّات. {غفورٌ}: لذنوب التائبين.
[28] اللہ تعالیٰ نے انسانوں، چوپایوں اور مویشیوں کو پیدا کیا ان کو مختلف رنگ، اوصاف، آوازیں اور مختلف صورتیں عطا کیں جو آنکھوں کے سامنے عیاں ہیں اور دیکھنے والے ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ان تمام چیزوں کی اصل اور ان کا مادہ ایک ہے۔ ان کے درمیان تفاوت اللہ کی مشیّت پر عقلی دلیل ہے، جس نے ہر ایک کو مخصوص رنگ اور وصف سے مختص کیا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل ہے کہ اس نے ان کو وجود بخشا، یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ ان کو اس اختلاف اور تفاوت سے نوازا۔ اس تفاوت میں بے شمار فوائد اور منافع پنہاں ہیں اس تفاوت کے سبب سے راستوں کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کے وسعت علم کی دلیل ہے، نیز اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، مگر غافل شخص ان تمام اشیاء کو غفلت کی نظر سے دیکھتا ہے ان چیزوں کو دیکھ کر اسے نصیحت حاصل نہیں ہوتی ان چیزوں سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اپنے فکر راست کی بنا پر ان میں پنہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کو جانتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا: ﴿اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْ٘عُلَمٰٓؤُا ﴾ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے تو اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔‘‘ جو شخص سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ خشیت الٰہی اسے گناہوں سے باز رہنے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کرنے کی موجب بنتی ہے۔ یہ آیت کریمہ علم کی فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ علم انسان کو خشیت الٰہی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ خشیت الٰہی کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اکرام و تکریم کے اہل ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ﴾ (البینۃ:98؍8) ’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے یہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈر گیا۔‘‘ ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ (کامل) غلبے کا مالک ہے‘‘ یہ اس کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے متضاد انواع واقسام کی مخلوقات کو پیدا کیا۔ ﴿غَفُوْرٌ ﴾ ’’بخشنے والا ہے‘‘ توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو۔
آیت: 29 - 30 #
{إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (29) لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ (30)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں کتاب اللہ کی اور قائم کرتے ہیں نماز اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو دیا ہم نے ان کو، پوشیدہ اور علانیہ، امید کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی، جو ہرگز نہیں نقصان والی(29)تاکہ پورے دے وہ (اللہ) ان کو اجر ان کے اور زیادہ دے ان کو اپنے فضل سے، بے شک وہ بہت بخشنے والا، ازحد قدردان ہے(30)
#
{29} {إنَّ الذين يتلونَ كتاب الله}؛ أي: يتَّبعونَه في أوامره فيمتَثِلونها وفي نواهيه فيترُكونها وفي أخبارِهِ فيصدِّقونها ويعتَقِدونها ولا يقدِّمون عليه ما خالَفَه من الأقوال، ويتلون أيضاً ألفاظَه بدراستِهِ، ومعانِيه بتتبُّعِها واستخراجِها، ثم خصَّ من التلاوة بعدما عمَّ الصلاةَ ـ التي هي عمادُ الدِّين ونورُ المسلمين وميزانُ الإيمان وعلامةُ صدق الإسلام ـ النفقةَ على الأقارب والمساكين واليتامى وغيرهم من الزكاة والكفارات والنذور والصدقات، {سرًّا وعلانيةً}: في جميع الأوقات؛ {يرجونَ}: بذلك {تجارةً لن تبورَ}؛ أي: لن تكسدَ وتفسدَ، بل تجارة هي أجلُّ التجاراتِ وأعلاها وأفضلُها ألا وهي رضا ربِّهم والفوزُ بجزيل ثوابِهِ والنجاةُ من سخطِهِ وعقابِهِ، وهذا فيه الإخلاصُ بأعمالهم، وأنَّهم لا يرجون بها من المقاصدِ السيئةِ والنيَّاتِ الفاسدةِ شيئاً.
[29] ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔‘‘ یعنی اس کے اوامر میں اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے نواہی کو ترک کرتے ہیں، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کر کے انھیں اپنا عقیدہ بناتے ہیں اور ان اقوال کو پسند نہیں کرتے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس کے معانی میں غوروخوض اور ان کے فہم کے حصول کی خاطر اس کے الفاظ کی تلاوت کرتے ہیں، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتاب اللہ کی تلاوت کے عموم کو بیان کرنے کے بعد نماز کو مخصوص فرمایا، جو دین کا ستون، مسلمانوں کے لیے روشنی، ایمان کی میزان اور دعوی ٔ اسلام کی صداقت کی علامت ہے نیز اقارب، مساکین اور یتیموں پر زکاۃ، کفارات، نذر اور صدقات کے مال کو خرچ کرنے کو مخصوص فرمایا۔ ﴿سِرًّا وَّعَلَانِیَةً ﴾ ’’کھلے چھپے‘‘ تمام اوقات میں۔ ﴿یَّرْجُوْنَ ﴾ اس کے ذریعے سے وہ امید کرتے ہیں ﴿تِجَارَةً لَّ٘نْ تَبُوْرَ﴾ ایسی تجارت کی، جو کبھی کساد کا شکار ہو گی نہ فساد کا، بلکہ وہ سب سے بڑی، عالی شان اور افضل ترین تجارت ہے، آگاہ رہو کہ وہ تجارت ان کے رب کی رضا، اس کے بے پایاں ثواب کا حصول، اس کی ناراضی اور عذاب سے نجات ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان اہل ایمان کے اعمال میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے، نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان اعمال میں ان کے مقاصد برے اور نیت فاسد نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جس چیز کی امید کرتے تھے وہ ان کو حاصل ہو گئی۔
#
{30} ذكر أنَّهم حصل لهم ما رَجَوْه، فقال: {لِيُوَفِّيهم أجورَهم}؛ أي: أجور أعمالهم على حسب قِلَّتِها وكثرتها وحُسنها وعدمِهِ، {ويزيدَهُم من فضلِهِ}: زيادة عن أجورهم. {إنَّه غفورٌ شكورٌ}: غفر لهم السيئاتِ، وقَبِلَ منهم القليل من الحسنات.
[30] ﴿لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ ﴾ ’’تاکہ وہ دے ان کو ان کا پورا پورا اجر‘‘ یعنی ان کے اعمال کی قلت و کثرت ان کے حسن و قبح کے اعتبار سے ان کا اجر۔ ﴿وَیَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ٘﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اجر سے بڑھ کر نوازے گا۔ ﴿اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ﴾ ’’بے شک وہ بخشنے والا قدر دان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا اور ان کی تھوڑی سی نیکی کو بھی قبولیت کا شرف بخشے گا۔
آیت: 31 - 35 #
{وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ (31) ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (32) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ (33) وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ (34) الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ (35)}.
اور وہ جو وحی کی ہم نے آپ کی طرف کتاب سے، وہ حق ہے ، تصدیق کرنے والی ہے اس (کتاب) کی جو اس سے پہلے ہے، بے شک اللہ ساتھ اپنے بندوں کے البتہ خوب خبردار، دیکھنے والا ہے(31) پھر وارث کیا ہم نے کتاب کا ان لوگوں کو جن کو ہم نے چن لیا اپنے بندوں میں سے، پس بعض تو ان میں سے ظلم کرنے والے ہیں اپنے نفس پر اور بعض ان میں میانہ رو ہیں اور بعض ان میں سے سبقت کرنے والے ہیں نیکیوں میں، اللہ کے حکم سے یہی ہے وہ فضل بہت بڑا(32) باغ ہیں ہمیشہ رہنے کے، داخل ہوں گے وہ ان میں پہنائے جائیں گے وہ ان میں کنگن سونے اور موتی کے اور ان کا لباس ہو گا اس میں ریشم کا(33)اور وہ کہیں گے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ جس نے دور کر دیا ہم سے غم، بے شک ہمارا رب بہت بخشنے والا قدر دان ہے (34)وہ جس نے اتارا ہمیں ہمیشہ رہنے کے گھر میں اپنے فضل سے اور نہیں پہنچتی ہمیں اس میں کوئی تکلیف، اور نہیں پہنچتی ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ(35)
#
{31} يذكر تعالى أنَّ الكتابَ الذي أوحاه إلى رسوله {هو الحقُّ}: من كثرةِ ما اشتمل عليه من الحقِّ، كأنَّ الحقَّ منحصرٌ فيه؛ فلا يكنْ في قلوبكم حرجٌ منه ولا تتبرَّموا منه ولا تستهينوا به؛ فإذا كان هو الحقَّ؛ لزم أنَّ كلَّ ما دلَّ عليه من المسائل الإلهيَّة والغيبيَّة وغيرها مطابقٌ لما في الواقع؛ فلا يجوز أن يُرادَ به ما يخالفُ ظاهرَه وما دلَّ عليه. {مصدِّقاً لما بينَ يديهِ}: من الكتب والرسل؛ لأنَّها أخبرتْ به، فلما وُجِدَ وظهرَ؛ ظهرَ به صدقُها؛ فهي بشرتْ به وأخبرتْ، وهو صدَّقها، ولهذا لا يمكن أحداً أن يؤمنَ بالكتب السابقة وهو كافرٌ بالقرآن أبداً؛ لأنَّ كفره به ينقضُ إيمانه بها؛ لأنَّ من جملة أخبارِها الخبرَ عن القرآن، ولأنَّ أخبارها مطابقةٌ لأخبار القرآن. {إنَّ الله بعبادِهِ لخبيرٌ بصيرٌ}: فيعطي كلَّ أمةٍ وكلَّ شخص ما هو اللائقُ بحالِهِ، ومن ذلك أنَّ الشرائع السابقة لا تَليق إلاَّ بوقتها وزمانها، ولهذا ما زال الله يرسلُ الرسلَ رسولاً بعد رسول حتى خَتَمَهم بمحمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، فجاء بهذا الشرع الذي يَصْلُحُ لمصالح الخلق إلى يوم القيامةِ، ويتكفَّل بما هو الخير في كل وقت، ولهذا لمَّا كانت هذه الأمةُ أكملَ الأمم عقولاً وأحسنهم أفكاراً وأرقَّهم قلوباً وأزكاهم أنفساً؛ اصطفاهم تعالى واصطفى لهم دينَ الإسلام وأورثهم الكتابَ المهيمنَ على سائر الكتب.
[31] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کتاب جو اس نے اپنے رسول e کی طرف وحی کی ﴿هُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’وہ حق ہے۔‘‘ کیونکہ وہ جن امور پر مشتمل ہے وہ حق ہیں اور اس نے حق کے تمام اصولوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ گویا تمام حق صرف اسی کتاب کے اندر ہے، اس لیے تمھارے دلوں میں حق کے بارے میں کوئی تنگی نہ آئے اور تم حق سے تنگ آؤ نہ اسے ہیچ سمجھو۔ جب یہ کتاب حق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ تمام مسائل الٰہیہ اور امور غیبیہ جن پر یہ کتاب دلالت کرتی ہے واقع کے مطابق ہوں، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ اس سے کوئی ایسی مراد لی جائے جو اس کے ظاہر اور اس چیز کے خلاف ہو جس پر اس کا ظاہر دلالت کرتا ہے۔ ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ ﴾ یعنی گزشتہ کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ ان کتابوں اور رسولوں نے اس کتاب کے بارے میں پیش گوئی کی تھی اس لیے جب یہ کتاب آ گئی تو اس سے ان کی صداقت ظاہر ہو گئی اور چونکہ گزشتہ کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے خوشخبری دی اور یہ اس پیشین گوئی کی تصدیق کرتی ہے، اس لیے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کتب سابقہ پر ایمان لائے اور قرآن کا انکار کرے کیونکہ اس کا قرآن کو نہ ماننا، ان کتابوں پر اس کے ایمان کی نفی کرتا ہے کیونکہ ان کی جملہ خبروں میں سے ایک خبر قرآن کے بارے میں بھی ہے، نیز ان کی خبریں قرآن کی دی ہوئی خبروں کے مطابق ہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ اپنے بندوں سے خبردار اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس لیے وہ ہر قوم اور ہر فرد کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جو اس کے احوال کے لائق ہے۔ سابقہ شریعتیں اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے زمانے کے لائق تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ رسول کے بعد رسول بھیجتا رہا یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفیٰe پر سلسلۂ رسالت کو ختم کر دیا… پس حضرت محمد رسول اللہ e یہ شریعت لے کر تشریف لائے جو قیامت تک کے لیے مخلوق کے تمام مصالح کے مطابق ہے اور ہر وقت ہر بھلائی کی ضامن ہے۔ چونکہ یہ امت کامل ترین عقل، بہترین افکار، نرم ترین قلوب اور پاک ترین نفوس کی حامل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے دین اسلام اور دین اسلام کو اس کے لیے چن لیا۔
#
{32} ولهذا قال: {ثم أوْرَثْنا الكتاب الذين اصْطَفَيْنا من عبادِنا}: وهم هذه الأمة. {فمنهم ظالمٌ لنفسِهِ}: بالمعاصي التي هي دون الكفرِ، {ومنهم مقتصدٌ}: مقتصرٌ على ما يجب عليه، تاركٌ للمحرَّم، {ومنهم سابقٌ بالخيرات}؛ أي: سَارَعَ فيها، واجْتَهَدَ فسبق غيره، وهو المؤدي للفرائض، المكثر من النوافل، التارك للمحرم والمكروه؛ فكلهم اصطفاه الله تعالى لوراثة هذا الكتاب، وإن تفاوتتْ مراتِبُهم وتميَّزت أحوالُهم؛ فلكل منهم قسطٌ من وراثتِهِ، حتى الظالم لنفسه؛ فإنَّ ما معه من أصل الإيمان وعلوم الإيمان وأعمال الإيمان من وراثة الكتاب؛ لأنَّ المراد بوراثة الكتاب وراثةُ علمِهِ وعمله ودراسةُ ألفاظِهِ واستخراج معانيه، وقوله: {بإذن الله}: راجعٌ إلى السابق إلى الخيرات ؛ لئلاَّ يغترَّ بعمله، بل ما سَبَقَ إلى الخيرات إلاَّ بتوفيق الله تعالى ومعونته؛ فينبغي له أن يشتغلَ بشكر الله تعالى على ما أنعم به عليه. {ذلك هو الفضلُ الكبيرُ}؛ أي: وراثة الكتاب الجليل لمن اصطفى تعالى من عباده هو الفضلُ الكبيرُ الذي جميع النعم بالنسبة إليه كالعدم، فأجلُّ النعم على الإطلاق وأكبرُ الفضل وراثةُ هذا الكتاب.
[32] اس لیے فرمایا: ﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ﴾ ’’ پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے چن لیا۔‘‘ اور ان لوگوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ﴾ ’’پس کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، ، ایسے گناہوں کے ارتکاب سے جو کفر سے کم تر ہیں۔ ﴿وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ﴾ ’’اور کچھ میانہ رو ہیں۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو محرمات کو ترک کرتے ہوئے صرف واجبات پر اکتفا کرتے ہیں۔ ﴿وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ ﴾ یعنی کچھ نیکیوں میں سبقت اور جدوجہد کرنے والے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو فرائض ادا کرتے ہیں، نہایت کثرت سے نوافل کا اہتمام کرتے ہیں اور محرمات و مکروہات کو ترک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کی وراثت کے لیے ان تمام لوگوں کو چن لیا ہے، اگرچہ ان کے مراتب میں تفاوت اور ان کے احوال میں فرق ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے اس وراثت میں حصہ ہے حتیٰ کہ اس کے لیے بھی اس وراثت میں حصہ ہے جس نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا کیونکہ اس کے پاس اصل ایمان، علوم ایمان اور اعمال میں سے جو کچھ ہے وہ کتاب کی وراثت ہے۔ کتاب کی وراثت سے مراد، اس کا علم، اس پر عمل، اس کے الفاظ کا پڑھنا اور اس کے معانی کا استنباط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿بِـاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے کی طرف راجع ہے تاکہ وہ اپنے عمل کے بارے میں کسی دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائے کیونکہ اس نے نیکیوں کی طرف سبقت صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے کی ہے، لہٰذا اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس نعمت سے نوازا ہے وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْ٘فَضْلُ الْكَبِیْرُ﴾ یعنی ان لوگوں کے لیے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے، اس جلیل القدر کتاب کی وراثت بہت بڑا فضل ہے جس کے سامنے تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ مطلق طور پر سب سے زیادہ جلیل القدر نعمت اور سب سے بڑا فضل اس عظیم کتاب کی وراثت ہے۔
#
{33} ثم ذكر جزاء الذين أوْرَثَهم كتابَه، {جناتُ عدنٍ يَدْخُلونها}؛ أي: جناتٌ مشتملاتٌ على الأشجار والظلِّ والظليل والحدائق الحسنة والأنهار المتدفِّقة والقصور العالية والمنازلِ المزخرفةِ في أبدٍ لا يزول وعيش لا يَنْفَدُ. والعَدْنُ: الإقامة؛ فجنات عدنٍ؛ أي: جنات إقامة، أضافها للإقامة لأنَّ الإقامةَ والخلودَ وصفُها ووصفُ أهلها، {يُحَلَّوْنَ فيها من أساورَ من ذهبٍ}: وهو الحُلِيُّ الذي يُجعل في اليدين على ما يحبُّون ويرونَ أنَّه أحسنُ من غيره، الرجال والنساء في الحلية في الجنة سواء. {و} يحلَّوْن فيها {لؤلؤاً}: يُنْظَمُ في ثيابهم وأجسادهم، {ولباسُهُم فيها حريرٌ}: من سندس ومن إستبرقٍ أخضر.
[33] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کے اجر کا ذکر فرمایا جن کو اس نے یہ وراثت عطا کی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا۠﴾ ’’وہ ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ ایسے باغات ہوں گے جو درختوں، گہرے سایوں، خوبصورت پھلواریوں، اچھلتی ہوئی ندیوں، عالی شان محلات اور آراستہ کیے ہوئے گھروں پر مشتمل ہوں گے، جو ہمیشہ رہیں گے اور کبھی زائل نہیں ہوں گے۔ وہاں ایک ایسی خوبصورت زندگی ہو گی جو کبھی ختم نہ ہو گی۔ (عَدْنٌ) سے مراد ’’اقامت‘‘ (قیام کرنا) ہے تو (جنَّاتُ عَدْنٍ) کا معنی باغاتِ اقامت ہے۔ باغات کی اقامت کی طرف اضافت کی وجہ یہ ہے کہ دائمی اقامت اور ہمیشگی ان باغات اور ان کے رہنے والوں کا وصف ہے۔ ﴿یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ﴾ ’’وہاں انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔‘‘ یہ وہ زیور ہے جو ہاتھوں میں پہنا جاتا ہے۔ وہ جس طرح چاہیں گے انھیں پہنیں گے اور یہ زیور انھیں دیگر تمام زیوروں سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے گا۔ جنت میں زیور پہننے میں مرد اور عورتیں برابر ہوں گے۔ ﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ وہ جنت میں پہنائے جائیں گے ﴿لُؤْلُؤًا ﴾ ’’موتی‘‘ جو ان کے لباس اور جسم پر آراستہ ہوں گے۔ ﴿وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ ﴾ ’’اور وہاں ان کا لباس ریشم ہوگا‘‘ یعنی باریک اور موٹا سبز ریشم۔
#
{34} {و} لمَّا تمَّ نعيمُهم وكَمُلَتْ لَذَّتُهم؛ {قالوا الحمدُ لله الذي أذْهَبَ عنَّا الحَزَنَ}: وهذا يشملُ كلَّ حزنٍ؛ فلا حزنَ يعرض لهم بسبب نقص في جمالهم ولا في طعامهم وشرابهم ولا في لذَّاتهم ولا في أجسادهم ولا في دوام لَبْثِهم؛ فهم في نعيمٍ ما يرونَ عليه مزيداً، وهو في تزايدٍ أبدَ الآباد. {إنَّ ربَّنا لَغفورٌ}: حيث غَفَرَ لنا الزلاتِ. {شكورٌ}: حيث قَبِلَ منَّا الحسناتِ وضاعَفَها، وأعطانا من فضلِهِ ما لم تَبْلُغْهُ أعمالُنا ولا أمانينا. فبمغفرتِهِ؛ نَجَوْا من كلِّ مكروه ومرهوبٍ، وبشكرِهِ وفضلِهِ؛ حصل لهم كلُّ مرغوبٍ محبوبٍ.
[34] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ جب ان پر نعمتوں کا اتمام اور لذتوں کی تکمیل ہو جائے گی تو ﴿قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ﴾ ’’وہ کہیں گے ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے دور کر دیا۔‘‘ یہ ہر قسم کے حزن و غم کو شامل ہے، لہٰذا انھیں حسن و جمال اور جسم میں کسی نقص کی بنا پر کوئی حزن و غم پیش آئے گا نہ ماکولات و مشروبات اور لذات میں کمی کی وجہ سے اور نہ جنت میں عدم دوام ہی کی وجہ سے کوئی غم لاحق ہوگا۔ اہل جنت ایسی نعمتوں میں رہیں گے جن سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہ ہو گی اور ابد الآباد تک ان نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ﴿اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ ﴾ ’’بے شک ہمارا رب بخشنے والا ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے ہماری تمام لغزشوں کو بخش دیا ہے ﴿شَكُوْرٌ﴾ ’’قدر دان ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے ہماری نیکیوں کو قبول فرما کر ہماری نیکیوں کی قدر کی، ان نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کیا اور ہمیں اپنے فضل سے ہمارے اعمال اور ہماری امیدوں سے بڑھ کر بہرہ ور کیا۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے ذریعے سے ہر مکروہ امر سے نجات پائی۔ اس کے فضل و کرم اور اس کی قدر دانی کی بنا پر جنت میں ہر مرغوب و محبوب چیز حاصل کی۔
#
{35} {الذي أحَلَّنا}؛ أي: أنزلنا نزول حلول واستقرارٍ، لا نزول معبرٍ واعتبار {دار المُقامةِ}؛ أي: الدار التي تدوم فيها الإقامةُ، والدار التي يُرغب في المقام فيها؛ لكثرة خيراتها وتوالي مسرَّاتها وزوال كدوراتها، وذلك الإحلال بفضلِهِ علينا وكرمِهِ، لا بأعمالنا؛ فلولا فضلُهُ؛ لما وَصَلْنا إلى ما وَصَلْنا إليه، {لا يَمَسُّنا فيها نَصبٌ ولا يَمَسُّنا فيها لُغوبٌ}؛ أي: لا تعبٌ في الأبدان ولا في القلبِ والقُوى ولا في كثرة التمتُّع. وهذا يدلُّ على أن الله تعالى يَجْعَلُ أبدانَهم في نشأةٍ كاملةٍ ويُهَيِّئُ لهم من أسباب الراحة على الدَّوام ما يكونون بهذه الصفة؛ بحيث لا يمسُّهم نصبٌ ولا لغوبٌ ولا همٌّ ولا حزنٌ. ويدلُّ على أنهم لا ينامون في الجنة؛ لأنَّ النوم فائدتُه زوالُ التعب وحصولُ الراحة به، وأهل الجنةِ بخلافِ ذلك، ولأنَّه موتٌ أصغر، وأهل الجنة لا يموتون. جعلنا الله منهم بمنِّه وكرمه.
[35] ﴿الَّذِیْۤ اَحَلَّنَا ﴾ ’’جس نے ہمیں اتارا۔‘‘ یعنی اس نے ہمیں جنت میں عبوری اور عارضی طور پر نازل نہیں فرمایا بلکہ مستقل طور پر نازل فرمایا ﴿دَارَ الْمُقَامَةِ ﴾ ایسے گھر میں جہاں دائمی قیام ہے، جہاں بے شمار بھلائیوں، کبھی نہ ختم ہونے والی مسرتوں اور کسی قسم کے تکدر کے عدم وجود کی وجہ سے قیام کی خواہش کی جاتی ہے اور اس کا ہمیں جنتوں میں نازل کرنا ﴿مِنْ فَضْلِهٖ٘﴾ ہمارے اعمال کے سبب سے نہیں بلکہ اس کے فضل و کرم سے ہمیں جنت عطا ہوئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہم کبھی اس مقام پر نہ پہنچ سکتے۔ ﴿لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوْبٌ ﴾ ’’یہاں ہم کو کوئی رنج پہنچے گا نہ تھکان۔‘‘ یعنی بدن، قلب اور دیگر قویٰ میں کثرت تمتع کی وجہ سے کوئی تھکاوٹ نہ ہو گی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اہل جنت کے بدن کو کامل زندگی عطا کرے گا اور انھیں دائمی طور پر راحت کے اسباب مہیا کرے گا۔ ان کے یہ اوصاف ہوں گے کہ ان کو کوئی کمزوری لاحق ہو گی نہ تھکن اور نہ کسی قسم کا حزن و غم... اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں نیند نہیں آئے گی کیونکہ نیند تو صرف تھکن دور کرنے اور راحت حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے... اور اہل جنت کو تو تھکن لاحق نہیں ہو گی... اور نیند گویا ایک چھوٹی موت ہے اور اہل جنت کو کبھی موت نہیں آئے گی... اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اہل جنت میں شامل کرے (آمین)
آیت: 36 - 37 #
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (36) وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ (37)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے آتش جہنم ہے، نہیں فیصلہ کیا جائے گا ان پر (موت کا) کہ وہ مر جائیں اور نہ ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اس (جہنم) کا ، اسی طرح بدلہ (سزا) دیتے ہیں ہم ہر ناشکرے کو(36)اور وہ چلّائیں گے اس میں (اور کہیں گے) اے ہمارے رب! تو نکال ہم کو، (اب) ہم عمل کریں گے نیک، نہ کہ وہ جو تھے ہم عمل کرتے (پہلے)۔ (اللہ فرمائے گا) کیا نہیں عمر دی تھی ہم نے تمھیں اتنی کہ نصیحت پکڑ لیتا اس میں وہ شخص جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا اور آیا تمھارے پاس ڈرانے والا(بھی) پس(اب)چکھو تم (عذاب) کہ نہیں ہے ظالموں کے لیے کوئی مددگار(37)
#
{36} لما ذكر تعالى حال أهل الجنة ونعيمَهم؛ ذكر حالَ أهل النار وعذابَهم، فقال: {والذين كَفَروا}؛ أي: جحدوا ما جاءتْهم به رسُلُهم من الآيات وأنكروا لقاءَ ربِّهم، {لهم نارُ جهنَّم}: يعذَّبون فيها أشدَّ العذاب وأبلغ العقاب، {لا يُقْضى عليهم}: بالموت {فيمَوتوا}: فيستريحوا، {ولا يُخَفَّفُ عنهم من عذابِها}: فشدَّة العذاب وعِظَمُهُ مستمرٌّ عليهم في جميع الآنات واللحظات. {كذلك نجزي كلَّ كفورٍ}.
[36] اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل جنت اور ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کا حال بیان کرنے کے بعد اہل جہنم اور ان کو دیے جانے والے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ جنھوں نے آیات الٰہی کا جو رسول لے کر آئے تھے اور اپنے رب سے ملاقات کا انکار کیا۔ ﴿لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ﴾ ’’ان کے لیے جہنم کی آگ ہے‘‘ جہاں انھیں نہایت سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ﴿لَا یُ٘قْ٘ضٰى عَلَیْهِمْ ﴾ ’’نہ تو ان کا قصہ پاک کیا جائے گا‘‘ موت کے ساتھ ﴿فَیَمُوْتُوْا﴾ ’’کہ وہ مر جائیں‘‘ اور آرام پا لیں ﴿وَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ﴾ ’’اور نہ ان کا عذاب ہی ان سے کم کیا جائے گا۔‘‘ پس ہر وقت اور ہر آن ان کے عذاب میں دائمی شدت رہے گی۔ ﴿كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُ٘لَّ كَفُوْرٍ﴾’’ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‘‘
#
{37} {وهم يَصْطَرِخون فيها}؛ أي: يصرخون ويتصايحون ويستغيثون ويقولون: {ربَّنا أخْرِجْنا نَعْمَلْ صالحاً غير الذي كنَّا نعملُ}: فاعترفوا بذنبهم، وعرفوا أنَّ الله عَدَلَ فيهم، ولكنْ سألوا الرجعةَ في غير وقتها، فيُقال لهم ألم: {نُعَمِّرْكُم ما}؛ أي: دهراً وعمراً {يتذكَّرُ فيه مَن تَذَكَّرَ}؛ أي: يتمكَّن فيه من أراد التَذكُّر من العمل، مَتَّعْناكم في الدنيا، وأدررنا عليكم الأرزاق، وقيضْنا لكم أسباب الراحة، ومددْنا لكم في العمر، وتابعْنا عليكم الآياتِ، وواصَلْنا إليكم النُّذُر، وابْتَلَيْناكم بالسراءِ والضراءِ؛ لِتُنيبوا إلينا وترجِعوا إلينا، فلم ينجَعْ فيكم إنذارٌ، ولم تُفِدْ فيكم موعظةٌ، وأخَّرْنا عنكم العقوبةَ، حتى إذا انقضتْ آجالُكم وتمَّتْ أعمارُكم ورحلتُم عن دار الإمكان بأشرِّ الحالات ووصلتُم إلى هذه الدار دار الجزاء على الأعمال؛ سألتُمُ الرجعةَ! هيهات هيهات! فات وقتُ الإمكان، وغضب عليكم الرحيم الرحمن، واشتدَّ عليكم عذاب النار، ونسيَكُم أهلُ الجنة، فامكثوا فيها خالدين مخلَّدين وفي العذاب مُهانين، ولهذا قال: {فذوقوا فما للظالمين من نصيرٍ}: ينصُرُهم فيُخْرِجُهم منها، أو يخفِّفُ عنهم من عذابها.
[37] ﴿وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا ﴾ ’’ اور وہ لوگ اس میں چلائیں گے‘‘ یعنی وہ جہنم میں چیخ و پکار کریں گے مدد کو پکاریں گے اور کہیں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ ﴾ ’’ہمارے رب ہم کو نکال لے (اب) ہم نیک عمل کیا کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم کیا کرتے تھے۔‘‘ پس وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے۔ وہ واپس لوٹنے کی خواہش کریں گے مگر اب وقت گزر گیا۔ ان سے کہا جائے گا: ﴿اَوَلَمْ نُ٘عَمِّرْؔكُمْ مَّا ﴾ یعنی کیا ہم نے تمھیں ایک طویل عمر عطا نہیں کی تھی؟ ﴿ یَتَذَكَّـرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّـرَ ﴾ جو کوئی اس طویل عرصہ میں نصیحت پکڑنا چاہتا وہ نصیحت پکڑ سکتا تھا۔ ہم نے تمھیں دنیا میں اسباب دنیا سے بہرہ ور کیا، تمھیں رزق عطا کیا، تمھارے لیے اسباب راحت مہیا کیے، تمھیں لمبی عمر عطا کی، تمھارے سامنے پے در پے اپنی نشانیاں ظاہر کیں، اور تمھارے پاس ڈرانے والے بھیجے اور تمھیں سختی اور نرمی کے ذریعے سے آزمایا گیا تاکہ تم ہماری طرف رجوع کرو اور ہماری طرف لوٹو۔ مگر تمھیں کسی نصیحت اور انذار نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ ہم نے تم سے عذاب کو مؤخر کر دیا حتی کہ تمھیں دی گئی مہلت پوری ہو گئی تمھاری عمریں اپنے اتمام کو پہنچیں، تم بدترین احوال کے ساتھ، دارالعمل سے نکل کر دارلجزا میں منتقل ہوئے، اب تم دنیا میں واپس لوٹنے کی درخواست کر رہے ہو۔ یہ بہت بعید ہے! اب عمل کا وقت گزر چکا، اب تو رحیم و رحمان کی ناراضی کا سامنا کرنا ہو گا، تم پر جہنم کی آگ بھڑکے گی اور اہل جنت نے تمھیں بھلا دیا۔ اب ہمیشہ کے لیے تم جہنم میں رہو اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ عذاب بھگتو، اس لیے فرمایا: ﴿فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ﴾ ’’پس اب چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘ جو ان کی مدد کر سکے اور ان کو اس عذاب سے نکال سکے یا اس عذاب میں تخفیف کر سکے۔
آیت: 38 #
{إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (38)}.
بلاشبہ اللہ جانتا ہے پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی، بے شک وہ خوب جانتا ہے بھید (راز) سینوں کے(38)
#
{38} لمَّا ذكر جزاء أهل الدارين، وذكر أعمال الفريقين؛ أخبر تعالى عن سعةِ علمِهِ تعالى واطِّلاعه على غيب السمواتِ والأرض التي غابت عن أبصارِ الخَلْق وعن علمهم، وأنَّه عالمٌ بالسرائر وما تنطوي عليه الصُّدور من الخير والشرِّ والزكاء وغيره، فيعطي كلاًّ ما يستحقُّه، وينزِلُ كلَّ أحدٍ منزلته.
[38] اللہ تعالیٰ نے اہل جنت اور اہل جہنم کی جزاوسزا اور ان کے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد اپنی وسعت علم سے آگاہ فرمایا، نیز یہ کہ وہ آسمانوں اور زمین کے غیب سے مطلع ہے۔ ان امور غیبیہ کا علم رکھتا ہے جو مخلوق کے علم اور اس کی نظروں سے اوجھل ہیں وہ تمام بھیدوں کو جانتا ہے۔ سینوں میں جو اچھی یا بری باتیں چھپی ہوئی ہیں سب اس کے علم میں ہیں۔ وہ ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق جزا دے گا اور ہر ایک کے ساتھ اس کی قدر ومنزلت کے مطابق سلوک کرے گا۔
آیت: 39 #
{هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِلَّا مَقْتًا وَلَا يَزِيدُ الْكَافِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا خَسَارًا (39)}.
وہی ہے جس نے بنایا تمھیں جانشین زمین میں، پس جس نے کفر کیا تو اسی پر (وبال) ہو گا اس کےکفر کا، اور نہیں زیادہ کرتا کافروں کو ان کا کفر نزدیک ان کے رب کے مگر ناراضی ہی میں اور نہیں زیادہ کرتا کافروں کو ان کا کفر مگر نقصان ہی میں(39)
#
{39} يخبر تعالى عن كمال حكمتِهِ ورحمتِهِ بعبادِهِ أنَّه قَدَّرَ بقضائِهِ السابق أنْ يجعلَ بعضَهم يَخْلُفُ بعضاً في الأرض، ويرسلَ لكلِّ أمَّةٍ من الأمم النُّذُرَ، فينظرَ كيف يعملونَ؛ {فمن كَفَرَ}: بالله وبما جاءتْ به رسلُه؛ فإنَّ كفرَه عليه، وعليه إثمُه وعقوبتُه، ولا يَحْمِلُ عنه أحدٌ، ولا يزداد الكافر بكفرِهِ إلاَّ مقتَ ربِّه له وبغضَه إيَّاه، وأيُّ عقوبة أعظمُ من مقت الربِّ الكريم؟! {ولا يزيد الكافرين كُفْرُهُم إلاَّ خساراً}؛ أي: يخسرون أنفسَهم وأهليهم وأعمالَهم ومنازلَهم في الجنة؛ فالكافر لا يزالُ في زيادةٍ من الشقاء والخسران والخزي عند الله وعند خلقِهِ والحرمان.
[39] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی حکمت کاملہ اور بندوں پر اپنی رحمت سے آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قضا و قدر سے ان کو زمین کے اندر ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور ہر قوم میں ڈرانے والے مبعوث کیے تاکہ وہ دیکھے کہ ان کے اعمال کیسے ہیں۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی دعوت کا انکار کیا تو اس کے کفر اور گناہ کی سزا اسی کو ملے گی کوئی دوسرا اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ کافر اپنے کفر سے اپنے رب کی ناراضی اور غضب میں اضافہ کرتا ہے۔ رب کریم کی ناراضی سے بڑھ کر اور کون سی سزا ہو سکتی ہے؟ ﴿وَلَا یَزِیْدُ الْ٘كٰفِرِیْنَ كُفْرُهُمْ اِلَّا خَسَارًا ﴾ ’’اور کافروں کو ان کا کفر نقصان ہی میں زیادہ کرتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنی ذات، اپنے گھر والوں، اپنے اعمال اور جنت میں اپنی منازل کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔ کفار ہمیشہ بدترین بدبختی، گھاٹے، اللہ تعالیٰ کے ہاں رسوائی اور اس کی مخلوق کے ہاں محرومیوں میں مبتلا رہیں گے۔
آیت: 40 #
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَى بَيِّنَتٍ مِنْهُ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا (40)}.
کہہ دیجیے! خبر دو تم مجھے اپنے ان شریکوں(معبودوں) کی، وہ جنھیں تم پکارتے ہو، سوائے اللہ کے، دکھاؤ مجھے! کیا کچھ پیدا کیا انھوں نے زمین سے ، یا ان کا کوئی حصہ ہے آسمانوں (کی پیدائش) میں؟ یا دی ہے ہم نے ان کو کوئی کتاب، پس وہ اوپر کسی واضح دلیل کے ہیں اس میں سے؟بلکہ نہیں وعدہ دیتے ظالم، ( یعنی ) ان کے بعض بعض کو مگر دھوکے ہی کا (40)
#
{40} يقول تعالى معجِّزاً لآلهةِ المشركين ومبيِّناً نقصَها وبطلانَ شِركهم من جميع الوجوه: {قُلْ} يا أيُّها الرسول لهم: {أرأيتُم}؛ أي: أخْبِروني عن شركائكُم {الذين تدعونَ من دونِ الله}: هل هم مستحقُّون للدعاء والعبادةِ؟! فأروني {ماذا خَلَقوا من الأرضِ}: هل خَلَقوا بحراً أم خلقوا جبالاً أو خلقوا حيواناً أو خلقوا جماداً؟! سيقرُّون أنَّ الخالقَ لجميع الأشياء هو الله تعالى. أم لشركائِكُم {شركٌ في السمواتِ}: في خلقها وتدبيرها؟! سيقولون: ليس لهم شركةٌ! فإذا لم يخلقْ شيئاً ولم يَشْركوا الخالقَ في خلقه؛ فلم عبدتُموهم ودعوتُموهم مع إقراركم بعجزهم؟! فانتفى الدليل العقليُّ على صحَّةِ عبادتهم، ودلَّ على بطلانها. ثم ذكر الدليل السمعيَّ، وأنَّه أيضاً منتفٍ، فلهذا قال: {أم آتَيْناهم كتاباً}: يتكلَّم بما كانوا به يشرِكون؛ يأمُرُهم بالشركِ وعبادةِ الأوثان. {فهم}: في شركهم {على بينةٍ}: من ذلك الكتاب الذي نَزَلَ عليهم في صحة الشرك، ليس الأمر كذلك؛ فإنَّهم ما نزل عليهم كتابٌ قبلَ القرآن، ولا جاءهم نذيرٌ قبل رسول الله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، ولو قُدِّرَ نزولُ كتاب إليهم وإرسالُ رسول إليهم وزعموا أنَّه أمَرَهم بشِرْكِهِم؛ فإنَّا نجزِمُ بكذِبِهم؛ لأنَّ الله قال: {وما أرْسَلْنا من قبلِكَ من رسول إلاَّ نوحي إليه أنَّه لا إله إلاَّ أنا فاعبدونِ}: فالرسلُ والكتبُ كلُّها متفقةٌ على الأمر بإخلاص الدين لله تعالى: {وما أُمِروا إلاَّ لِيَعْبُدوا اللهَ مخلِصينَ له الدينَ حنفاءَ}. فإنْ قيلَ: إذا كان الدليل العقليُّ والنقليُّ قد دلاَّ على بطلان الشرك؛ فما الذي حمل المشركين على الشركِ وفيهم ذوو العقول والذكاء والفطنة؟! أجاب تعالى بقوله: {بل إن يَعِدُ الظالمون بعضُهم بعضاً إلاَّ غروراً}؛ أي: ذلك الذي مَشَوْا عليه ليس لهم فيه حُجَّةٌ، وإنَّما ذلك توصيةُ بعضهم لبعضٍ به، وتزيينُ بعضِهِم لبعضٍ، واقتداءُ المتأخِّر بالمتقدِّم الضالِّ، وأماني منَّاها الشياطين، وزيَّنَ لهم سوءَ أعمالهم ، فنشأت في قلوبهم، وصارتْ صفةً من صفاتها، فعَسُرَ زوالُها وتعسَّرَ انْفِصالها، فحصل ما حَصَلَ من الإقامة على الكفر والشرك الباطل المضمحلِّ.
[40] اللہ تبارک وتعالیٰ مشرکین کے خود ساختہ معبودوں کی بے بسی، ان کے نقص اور ہر لحاظ سے ان کے شرک کے بطلان کو واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسول! ان سے کہہ دیجیے: ﴿اَرَءَیْتُمْ ﴾ مجھے اپنے شریکوں کے بارے میں آگاہ کرو ﴿شُ٘رَؔكَآءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ’’جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔‘‘ کیا وہ دعا اور عبادت کے مستحق ہیں؟ ﴿اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ ﴾ ’’مجھے دکھاؤ انھوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے؟‘‘ آیا انھوں نے سمندروں کو پیدا کیا ہے یا پہاڑوں کو؟ انھوں نے حیوانات کو پیدا کیا ہے یا جمادات کو؟ وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کیا تمھارے خود ساختہ شریکوں کے لیے ﴿فِی السَّمٰوٰتِ ﴾ آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں کوئی حصہ ہے؟ وہ یہی جواب دیں گے کہ تخلیق و تدبیر کائنات میں ان کا کوئی حصہ نہیں… جب ان خود ساختہ معبودوں نے کوئی چیز پیدا کی ہے نہ خالق کی تخلیق میں یہ شریک ہیں تو پھر تم ان کی بے بسی کا اقرار کرنے کے باوجود ان کو کیوں پکارتے اور ان کی کیوں عبادت کرتے ہو؟ پس ان کی عبادت کے جواز کی دلیل ختم ہو گئی اور ان کی عبادت کا بطلان ثابت ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت کے جواز کی سمعی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے اس کا بھی ابطال فرمایا: ﴿اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا ﴾ ’’کیا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے‘‘ جو ان کے شرک کو جائز قرار دیتی ہو یا انھیں شرک اور بتوں کی عبادت کا حکم دیتی ہو ﴿فَهُمْ ﴾ اور وہ اپنے شرک کے بارے میں ﴿عَلٰى بَیِّنَتٍ ﴾ کسی دلیل پر ہوں یعنی اس نازل شدہ کتاب میں کوئی ایسی چیز ہو جو شرک کے جواز اور اس کے صحیح ہونے کو ثابت کرتی ہو؟ معاملہ ایسے نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور نہ محمد مصطفیٰ e سے قبل ان کی طرف کوئی رسول ہی مبعوث کیا گیا ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہے اور ان کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے جس نے ان کے زعم کے مطابق، انھیں شرک کا حکم دیا ہے، تب بھی ہمیں قطعی یقین ہے کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ (الانبیاء:21؍25) ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہم نے اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس صرف میری عبادت کرو۔‘‘ لہذا تمام انبیاء و مرسلین اور تمام آسمانی کتابیں اس امر پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں اخلاص کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۙ۬ حُنَفَآءَ﴾ (البینۃ:98؍5) ’’اور انھیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر اور دین کو صرف اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ جب عقلی اور نقلی دلائل شرک کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں تب وہ کون سی چیز ہے جو مشرکین کو شرک پر آمادہ کرتی ہے حالانکہ ان کے اندر عقل مند اور ذہین و فطین لوگ بھی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: ﴿بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُ٘رُوْرًا ﴾ ’’بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکے کی باتوں کا وعدہ کرتے ہیں‘‘ یعنی یہ وہ مسلک ہے جس پر گامزن ہونے والے لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں، محض ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو آراستہ کرتے ہیں، متاخرین گمراہ متقدمین کی اقتدا کرتے ہیں، یہ جھوٹی آرزوئیں ہیں جو شیاطین انھیں دلاتے ہیں اور ان کے برے اعمال ان کے سامنے سجاتے ہیں۔ یہ برے اعمال ان کے قلوب میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور ان کی صفت بن جاتے ہیں تب ان کو زائل اور ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کفر اور شرک پر جمے رہنے سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں جو سامنے ہیں۔
آیت: 41 #
{إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (41)}.
بلاشبہ اللہ ہی تھامے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو اس بات سے کہ وہ ٹل جائیں (اپنی جگہ سے) اور البتہ اگر وہ دونوں ٹل جائیں تو نہیں روک سکے گا ان کو کوئی بھی اس کے بعد، بلاشبہ وہ ہے بڑا بردبار، بہت بخشنے والا(41)
#
{41} يخبر تعالى عن كمال قدرتِهِ وتمام رحمتِهِ وسعةِ حلمِهِ ومغفرتِهِ، وأنَّه تعالى {يمسِكُ السمواتِ والأرضَ}: عن الزوال؛ فإنَّهما لو زالتا؛ ما أمسكهما أحدٌ من الخلق، لعجزتْ قُدَرُهُم وقُواهم عنهما، ولكنَّه تعالى قضى أن يكونا كما وُجِدا؛ ليحصُلَ للخلقِ القرارُ والنفعُ والاعتبارُ، وليعلموا من عظيم سلطانِهِ وقوَّةِ قدرتِهِ ما به تمتلئُ قلوبُهم له إجلالاً وتعظيماً ومحبةً وتكريماً، وليعلموا كمال حِلمِهِ ومغفرتِهِ بإمهال المذنبين وعدم معاجلتِهِ للعاصين، مع أنَّه لو أمر السماء؛ لَحَصَبَتْهم، ولو أذِنَ للأرض؛ لابتلعتْهم، ولكن وَسِعَتْهم مغفرتُه وحلمُه وكرمُه. {إنَّه كان حليماً غفوراً}.
[41] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کمال قدرت، بے پایاں رحمت اور وسعت حلم و مغفرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روک رکھا ہے، اگر وہ ٹل جائیں تو اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی ایسی نہیں جو انھیں روک سکے۔ ان کی طاقت اور ان کے قویٰ ان کے بارے میں عاجز آ جائیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ زمین و آسمان ویسے ہی رہیں جیسے وجود میں لائے گئے تاکہ مخلوق کو استقرار، فائدہ اور عبرت حاصل ہو، نیز وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت سلطان، قوت اور قدرت کو جان لیں اور ان کے دل اللہ کے جلال و تعظیم اور محبت و تکریم سے لبریز ہوں اور تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ گاروں کو مہلت عطا ہونے اور نافرمانوں کو سزا دینے میں عدم عجلت کی بنا پر جان لیں کہ وہ کامل حلم و حکمت کا مالک ہے حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ آسمان کو حکم دے تو ان پر پتھروں کی بارش برسا دے اور اگر اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دے تو وہ ان کو نگل جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں مغفرت اور اس کا حلم و کرم ان پر سایہ کناں ہے ﴿اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ﴾ ’’بے شک وہ بہت بردبار معاف کرنے والا ہے۔‘‘
آیت: 42 - 43 #
{وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا (42) اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا (43)}.
اور قسمیں کھائیں انھوں نے اللہ کی پختہ قسمیں اپنی، البتہ اگر آیا ان کے پاس کوئی ڈرانے والا تو ضرور ہوں گے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہر ایک امت سے پس جب آیا ان کے پاس ڈرانے والا تو نہیں زیادہ کیا(اس نے) ان کو مگر نفرت ہی میں(42)تکبر کی وجہ سے زمین میں اور بری تدبیر (کی وجہ سے) اور نہیں گھیرتی بری تدبیر مگر ا س کے کرنے والے ہی کو، پس وہ نہیں انتظار کرتے مگر (اللہ کے) طریقے کا پہلے لوگوں کے (بارے میں)پس ہرگزنہ پائیں گے آپ اللہ کے طریقے کا بدلنا اور ہرگز نہ پائیں گے آپ طریقۂ الٰہی کا ٹلنا(43)
#
{42} أي: وأقسم هؤلاء الذين كذَّبوك يا رسول الله قسماً اجتهدوا فيه بالأيمانِ الغليظة: {لَئِن جاءهم نذيرٌ لَيكونُنَّ أهدى من إحدى الأمم}؛ أي: أهدى من اليهودِ والنصارى أهل الكتب، فلم يفوا بتلك الإقسامات والعهود، {فلما جاءهم نذيرٌ}: لم يَهْتَدوا، ولم يَصيروا أهدى من إحدى الأمم، بل لم يَدوموا على ضلالهم الذي كان، بل {ما زادَهم} ذلك {إلاَّ نفوراً}: زيادة ضلال وبغي وعناد.
[42] اے اللہ کے رسول! آپ کی تکذیب کرنے والے یہ لوگ پکی قسمیں کھاتے تھے کہ ﴿لَىِٕنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّـیَكُوْنُنَّ اَهْدٰؔى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ﴾ ’’اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہونگے۔‘‘ یعنی وہ یہودونصاریٰ (اہل کتاب) سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے مگر انھوں نے اپنی قسموں اور عہد کو پورا نہ کیا ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ ﴾ ’’ چنانچہ جب ڈرانے والا ان کے پاس آ گیا‘‘ تو ان امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے بلکہ وہ اپنی گمراہی پر جمے رہے بلکہ ﴿مَّا زَادَهُمْ ﴾ ’’نہیں زیادہ کیا ان کو‘‘ اس گمراہی نے ﴿اِلَّا نُفُوْرَاِۨ﴾ ’’مگر نفرت ہی میں‘‘ ان کے اس رویے نے ان کی گمراہی، بغاوت اور عناد کو اور بڑھا دیا۔
#
{43} وليس إقسامُهُم المذكورُ لقصدٍ حسنٍ وطلبٍ للحقِّ، وإلاَّ؛ لَوُفِّقوا له، ولكنه صادرٌ عن استكبارٍ في الأرض على الخلق وعلى الحقِّ، وبهرجةٍ في كلامهم هذا؛ يريدون به المكر والخداع، وأنَّهم أهل الحقِّ الحريصون على طلبه، فيغتر بهم المغترُّون، ويمشي خلفهم المقتدون، {ولا يَحيق المكرُ السيِّئُ}: الذي مقصودُهُ مقصودٌ سَيِّئٌ ومآله وما يرمي إليه سَيِّئٌ باطل {إلا بأهلِهِ}: فمكرُهُم إنَّما يعودُ عليهم. وقد أبان الله لعبادِهِ في هذه المقالات وتلك الإقسامات أنَّهم كَذَبَةٌ في ذلك مزوِّرون، فاستبان خِزْيُهُم، وظهرتْ فضيحتُهُم، وتبيَّن قصدُهم السيِّئُ، فعاد مكرُهُم في نحورهم، وردَّ الله كيدَهم في صدورهم، فلم يبقَ لهم إلاَّ انتظارُ ما يَحِلُّ بهم من العذابِ، الذي هو سنَّةُ الله في الأولين، التي لا تُبَدَّلُ ولا تُغَيَّرُ؛ أنَّ كلَّ مَن سار في الظلم والعناد والاستكبار على العباد أنْ تَحِلَّ به نقمتُه وتُسْلَبَ عنه نعمتُه، فليترقَّبْ هؤلاء ما فعل بأولئك.
[43] ان کا یہ قسمیں اٹھانا کسی اچھے مقصد اور طلب حق کے لیے نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو ان کو ضرور اس کی توفیق عطا کر دی جاتی لیکن ان کا قسمیں اٹھانا تومخلوق اور حق کے مقابلے میں زمین پر تکبر کرنے اور اپنی بات میں مکر وفریب کرنے سے صادر ہوا تھا۔ ان کا مقصد محض فریب کاری تھا اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ تو اہل حق اور حق کے متلاشی ہیں تو سادہ لوح لوگ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر ان کے پیچھے چل پڑے۔ ﴿وَلَا یَحِیْقُ الْمَؔكْرُ السَّیِّئُ ﴾ ’’اور نہیں پڑتا وبال بری چال کا‘‘ جس کا مقصد برا مقصد اور جس کا انجام برا اور باطل ہے ﴿اِلَّا بِاَهْلِهٖ٘﴾ ’’مگر بری چال چلنے والوں ہی پر‘‘ ان کا مکروفریب انھی کی طرف لوٹے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں اور ان قسموں کے بارے میں اپنے بندوں کے سامنے واضح کر دیا ہے کہ وہ جھوٹے اور فریب کار ہیں پس اس سے ان کی رسوائی واضح، ان کی فضیحت نمایاں اور ان کا برا مقصد ظاہر ہو گیا۔ ان کا مکروفریب ان ہی کی طرف لوٹ گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے مکروفریب کو ان کے سینوں کی طرف لوٹا دیا۔ ان کے لیے کوئی حیلہ باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ ان پر وہ عذاب نازل ہو جائے جو ان سے پہلے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے۔ جس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں۔ جو کوئی ظلم، عناد اور مخلوق کے ساتھ تکبر کے راستے پر گامزن ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے گا اور اس کی نعمتوں سے محروم ہو جائے گا، لہٰذا ان قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوا، ان کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔
آیت: 44 - 45 #
{أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا (44) وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا (45)}.
کیا نہیں چلے پھرے وہ زمین میں کہ دیکھتے وہ، کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے، اور تھے وہ زیادہ سخت ان سے قوت میں اور نہیں ہے اللہ کہ عاجز کر دے اس کو کوئی چیز آسمانوں میں اور نہ (کوئی چیز) زمین میں، بلاشبہ ہے وہ خوب جاننے والا، خوب قدرت والا(44) اور اگر مؤاخذہ کرے اللہ لوگوں کا بہ سبب اس کے جو انھوں نے کمایا تو نہ چھوڑے وہ اس (زمین) کی پشت پر کوئی چلنے والا جاندار، اور لیکن وہ ڈھیل دیتا ہے ان کو ایک وقت مقرر تک، پس جب آ جائے گا ان کا وقت مقرر تو بلاشبہ اللہ ہے اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا(45)
#
{44} يحضُّ تعالى على السير في الأرض في القلوب والأبدان للاعتبار لا لمجرَّدِ النظر والغفلة، وأن ينظُروا إلى عاقبة الذين من قبلهم ممَّن كذَّبوا الرسلَ وكانوا أكثر منهم أموالاً وأولاداً وأشدَّ قوةً وعمروا الأرض أكثر مما عمرها هؤلاء، فلما جاءهم العذابُ؛ لم تنفعْهم قوتُهم، ولم تغنِ عنهم أموالُهم ولا أولادُهم من الله شيئاً، ونفذتْ فيهم قدرةُ الله ومشيئتُه، {وما كانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ من شيءٍ في السمواتِ ولا في الأرضِ}: لكمال علمه وقدرته. {إنَّه كان عليماً قديراً}.
[44] اللہ تعالیٰ لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ محض غفلت کے ساتھ نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لیے اپنے قلب و بدن کے ساتھ زمین میں چلیں پھریں اور دیکھیں کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کا کیا انجام ہوا جنھوں نے رسولوں کی تکذیب کی، جو ان سے زیادہ مال اور اولاد رکھنے والے اور ان سے زیادہ طاقتور تھے، جنھوں نے ان سے زیادہ زمین کو آباد کیا، جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو ان کی قوت نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کا مال اور اولاد کسی کام نہ آئے، اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت ان میں نافذ ہو کر رہی۔ ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعْجِزَهٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور اللہ ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اسے عاجز کر سکے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل قدرت کا مالک ہے۔ ﴿اِنَّهٗ كَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا ﴾ ’’بے شک وہ جاننے والا قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
#
{45} ثم ذَكَرَ تعالى كمالَ حلمِهِ وشدَّةَ إمهاله وإنظارِهِ أربابَ الجرائم والذنوب، فقال: {ولو يؤاخِذُ اللهُ الناس بما كَسَبوا}: من الذنوب {ما ترك على ظَهْرِها من دابَّةٍ}؛ أي: لاستوعبت العقوبةُ حتى الحيواناتِ غيرَ المكلَّفةِ. {ولكن}: يُمهلهم تعالى ولا يُهملهم ، {يؤخِّرُهم إلى أجلٍ مسمًّى فإذا جاء أجلُهم فإنَّ الله كانَ بعبادِهِ بصيراً}: فيجازيهم بحسبِ ما عَلِمَهُ منهم من خيرٍ وشرٍّ.
[45] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کامل حلم اور گناہ گاروں اور ارباب جرائم کو دی ہوئی ڈھیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا﴾ ’’اور لوگوں نے جو گناہ کیے اگر اللہ تعالیٰ ان پر ان کا مواخذہ کرتا‘‘ ﴿مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ ﴾ ’’تو روئے زمین پر ایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو پوری سزا دیتا اور اس سزا کی سختی کا یہ حال ہوتا کہ غیر مکلف حیوانات بھی اس سے نہ بچتے۔ ﴿وَّلٰكِنْ ﴾ مگر اللہ تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿یُّؤَخِّ٘رُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّ٘سَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ان کو ایک وقت مقررہ تک مہلت دے رہا ہے ، پھر جب ان کا وقت آ جائے گا تو بے شک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ پس اللہ اپنے علم کے مطابق ان کے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔