آیت:
تفسیر سورۂ صافات
تفسیر سورۂ صافات
آیت: 1 - 11 #
صاف {وَالصَّافَّاتِ صَفًّا (1) فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا (2) فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا (3) إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ (4) رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ (5) إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ (6) وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ (7) لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ (8) دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ (9) إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ (10) فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ (11)}.
قسم ہے صف بنانےوالے (فرشتوں) کی قطار باندھ کر(1) پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر(2) پھر قرآ ن پڑ ھنے والوں کی (3)بلاشبہ تمھارا معبود البتہ ایک ہے (4) (وہی ہے) رب آسمانوں ا ور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے اور رب (تمام) مشرقوں کا (5) بے شک ہم نے زینت دی آسمانِ دنیا کو ایک آرائش ( یعنی ) ستاروں سے(6) اور حفاظت کے لیے ہر شیطان سرکش سے(7) (تاکہ) نہ سن پائیں وہ (باتیں ) عالم بالا کی اور پھینکے جاتے ہیں (شہاب ان پر) ہر جانب سے (8) (ان کو) بھگانے کے لیے، اور ان کے لیے عذاب ہے ہمیشہ رہنے والا (9) مگر جو اچک لے (شیطان) جھٹ تو پیچھے لگتا ہے اس کے ستارہ چمکتا ہوا (10) پس پوچھیے ان سے، کیا وہ زیادہ سخت ہیں پیدائش میں یا وہ جن کو پیدا کیا ہم نے؟ بے شک پیدا کیا ہم نے ان (انسانوں) کو چپکتی مٹی سے (11)
#
{1 ـ 4} هذا قسمٌ منه تعالى بالملائكة الكرام في حال عباداتها وتدبيرها ما تُدَبِّرُهُ بإذن ربِّها على ألوهيَّتِهِ تعالى وربوبيَّته، فقال: {والصّافاتِ صَفًّا}؛ أي: صفوفاً في خدمة ربِّهم، وهم الملائكة، {فالزاجراتِ زَجْراً}: وهم الملائكة يَزْجُرونَ السحابَ وغيرَه بأمر الله، {فالتَّالِياتِ ذِكْراً}: وهم الملائكة الذين يَتْلون كلامَ الله تعالى، فلمَّا كانوا متألِّهين لربِّهم ومتعبِّدين في خدمتِهِ ولا يعصونَه طرفةَ عين؛ أقسم بهم على ألوهيَّتِهِ، فقال: {إنَّ إلهكم لَواحدٌ}: ليس له شريكٌ في الإلهيَّة؛ فأخلِصوا له الحبَّ والخوفَ والرجاءَ وسائرَ أنواع العبادة.
[4-1] یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنی الوہیت و ربوبیت پر مکرم فرشتوں کی قسم ہے، اس حال میں کہ وہ اس کی عبادات میں مشغول اور اس کے حکم سے کائنات کی تدبیر میں مصروف ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿وَالصّٰؔٓ٘فّٰتِ صَفًّا﴾ ’’قسم ہے صف باندھنے والوں کی‘‘ یعنی اپنے رب کی خدمت میں اور اس سے مراد فرشتے ہیں۔ ﴿فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا﴾ ’’ پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر۔‘‘ یہ وہ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے بادلوں وغیرہ کو ڈانٹتے ہیں۔ ﴿فَالتّٰلِیٰؔتِ ذِكْرًا﴾ ’’ پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔‘‘ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں۔ چونکہ یہ فرشتے اپنے رب کی الوہیت کا اظہار کرتے ہیں، اس کی عبودیت میں مشغول رہتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت پر ان کی قسم کھائی ہے۔ ﴿اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ﴾ ’’یقینا تم سب کا معبودایک ہی ہے۔‘‘ الوہیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ،اس لیے خالص اسی سے محبت کرو، صرف اسی سے ڈرو، صرف اسی کو اپنی امیدوں کا محور بناؤ اور عبادات کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کرو۔
#
{5} {ربُّ السمواتِ والأرضِ وما بينَهما وربُّ المشارقِ}؛ أي: هو الخالق لهذه المخلوقات، الرازقُ لها، الْمدبِّرُ لها؛ فكما أنَّه لا شريك له في ربوبيَّتِهِ إيَّاها؛ فكذلك لا شريك له في ألوهيَّتِهِ. وكثيراً ما يقرِّرُ تعالى توحيد الإلهيَّةِ بتوحيد الربوبيَّةِ؛ لأنَّه دالٌّ عليه. وقد أقرَّ به أيضاً المشركون في العبادة، فيلزمُهم بما أقرُّوا به على ما أنكروه. وخصَّ الله المشارقَ بالذِّكْر؛ لدلالتها على المغارب، أو لأنَّها مشارقُ النجوم التي سيذكرها. فلهذا قال:
[5] ﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ﴾ ’’جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک ہے اور سورج کے طلوع ہونے کے مقامات کا بھی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان مخلوقات کا خالق، رازق اور ان کی تدبیر کرنے والا ہے۔ پس جس طرح کوئی ہستی اس کی ربوبیت میں شریک نہیں، اسی طرح اس کی الوہیت میں بھی شریک نہیں۔ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ نے توحید الوہیت کو توحید ربوبیت کے ساتھ مقرون بیان فرمایا ہے کیونکہ توحید ربوبیت توحید الوہیت پر دلالت کرتی ہے۔ مشرکین بھی توحید ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں ،اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ اسی چیز ہی کو دلیل بناتا ہے جس کا وہ خود اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرق کا خاص طور پر ذکر فرمایا کیونکہ یہ مغرب پر دلالت کرتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ستارے مشرق سے طلوع ہوتے ہیں جیسا کہ اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔اس لیے فرمایا:
#
{6 ـ 9} {إنَّا زَيَّنَّا السماءَ الدُّنيا بزينةٍ الكواكبِ. وحفظاً من كلِّ شيطانٍ ماردٍ. لا يَسَّمَّعونَ إلى الملأ الأعلى}: ذكر الله في الكواكب هاتين الفائدتين العظيمتين: إحداهما: كونُها زينةً للسماء؛ إذ لولاها؛ لكانتِ السماء جرماً مظلماً لا ضوء فيه ، ولكن زيَّنها فيها؛ لتستنيرَ أرجاؤها وتَحْسُنَ صورتُها، ويُهْتَدى بها في ظُلُمات البرِّ والبحر، ويحصُلَ فيها من المصالح ما يحصُلُ. والثانية: حراسةُ السماء عن كلِّ شيطانٍ ماردٍ يصل بتمرُّدِهِ إلى استماع الملأ الأعلى، وهم الملائكة؛ إذا استمعت قذفتها بالشهب الثواقب {من كلِّ جانبٍ}: طَرْداً لهم وإبعاداً عن استماع ما يقولُ الملأُ الأعلى. {ولهم عذابٌ واصِبٌ}؛ أي: دائمٌ معدٌّ لهم لتمرُّدهم عن طاعةِ ربِّهم.
[9-6] ﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِنِ الْكَوَاكِبِۙ۰۰ وَحِفْظًا مِّنْ كُ٘لِّ شَ٘یْطٰ٘نٍ مَّارِدٍۚ ۰۰ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى ﴾ ’’ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا ۔وہ عالم بالا کے فرشتوں کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دو عظیم فائدوں کے لیے ستاروں کا ذکر فرمایا ہے۔ (۱) آسمان کی زینت کے لیے۔ اگر ستارے نہ ہوتے تو آسمان میں کوئی روشنی نہ ہوتی اور آسمان میں تاریکی چھائی رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا تاکہ وہ اپنے کناروں تک منور رہے اور وہ خوبصورت دکھائی دے اور بحروبر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعے سے راستہ تلاش کیا جائے، نیز اس سے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (۲) تمام سرکش شیاطین سے حفاظت کے لیے۔ جو اپنی سرکشی کی بنا پر مَلَأِاَعْلٰی کی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (مَلَأِاَعْلٰی) سے مراد اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔ جب وہ مقرب فرشتوں سے سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں۔ ﴿مِنْ كُ٘لِّ جَانِبٍ﴾ یعنی ہر جانب سے انھیں دھتکارا جاتا ہے اور مقرب فرشتوں کی باتیں سننے سے ان کو دور رکھا جاتا ہے۔ ﴿وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ﴾ اور اپنے رب کی اطاعت سے سرکشی کی بنا پر ان کے لیے دائمی عذاب تیار کیا گیا ہے۔
#
{10} ولولا أنه تعالى استثنى؛ لكان ذلك دليلاً على أنَّهم لا يستمعون شيئاً أصلاً، ولكن قال: {إلاَّ مَنْ خَطِفَ الخَطْفَةَ}؛ أي: إلاَّ مَنْ تَلَقَّفَ من الشياطين المَرَدَةِ الكلمةَ الواحدةَ على وجه الخفيةِ والسرقةِ، {فأتْبَعَهُ شهابٌ ثاقبٌ}: تارة يدرِكُه قبل أن يوصِلَها إلى أوليائِهِ فينقطع خبرُ السماء، وتارةً يُخْبِرُ بها قبل أن يدرِكَه الشهابُ، فيكذِبون معها مائةَ كذبةٍ، يروِّجونها بسبب الكلمةِ التي سُمِعَتْ من السماء.
[10] اگر اللہ تعالیٰ نے استثنا نہ کیا ہوتا تو یہ آیت اس بات کی دلیل تھی کہ وہ کچھ بھی سن گن لینے پر قادر نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ﴾ یعنی سوائے ان سرکش شیاطین کے، جو کوئی ایک آدھ بات سن لینے اور چوری کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ﴿فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ﴾ تو اپنے اولیاء تک پہنچنے سے پہلے پہلے شہاب ثاقب انھیں جا لیتا ہے اور آسمان کی خبر منقطع ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی شہاب ثاقب کے پہنچنے سے قبل اپنے اولیاء کو خبر جا پہنچاتا ہے وہ اس میں سو جھوٹ اپنی طرف سے شامل کرتے ہیں اور اس ایک بات کے سبب جو انھوں نے آسمان سے سنی تھی، اس جھوٹ کو رائج کرتے ہیں۔
#
{11} ولَمَّا بيَّن هذه المخلوقاتِ العظيمةَ؛ قال: {فاسْتَفْتِهم}؛ أي: اسأل منكري خَلْقِهِم بعد موتِهِم: {أهم أشدُّ خَلْقاً}؛ أي: إيجادُهم بعد موتهم أشدُّ خَلْقاً وأشقُّ. {أم مَنْ خَلَقْنا}: من هذه المخلوقات؛ فلا بدَّ أن يُقِرُّوا أنَّ خَلْقَ السماواتِ والأرض أكبرُ من خَلْق الناس، فيلزمهم إذاً الإقرار بالبعثِ، بل لو رَجَعوا إلى أنفسهم وفكَّروا فيها؛ لعلموا أنَّ ابتداء خَلْقِهِم من طينٍ لازبٍ أصعب عند الفكر من إنشائهم بعد موتهم، ولهذا قال: {إنَّا خَلَقنَاهُم من طِينٍ لازِب}؛ أي: قويٍّ شديدٍ؛ كقوله تعالى: {ولقد خَلَقْنا الإنسانَ من صَلْصال من حَمَأٍ مسنونٍ}.
[11] اللہ تعالیٰ نے ان عظیم مخلوقات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ ﴾ اپنے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرنے والوں سے پوچھیے۔ ﴿اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا ﴾ ’’کیا ان کا پیدا کرنا مشکل ہے۔‘‘ یعنی ان کی موت کے بعد دوبارہ انھیں زندہ کرنا مشکل اور مشقت والا ہے ﴿اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ﴾ یا ان مخلوقات کو وجود میں لانا مشکل ہے جن کو ہم نے تخلیق کیا۔انھیں اقرار کرنا پڑے گا کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق، لوگوں کی تخلیق سے زیادہ مشکل ہے۔ تب ان پر حیات بعدالموت کا اقرار لازم آئے گا بلکہ اگر وہ اپنے آپ پر غور کریں تو انھیں معلوم ہو جائے گا کہ چکنی مٹی سے ان کی تخلیق کی ابتدا، موت کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ﴾ ’’ہم نے انھیں چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا۔‘‘ یعنی طاقتور اور سخت مٹی سے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ (الحجر: 15؍26) ’’ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گاڑے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘
آیت: 12 - 21 #
{بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ (12) وَإِذَا ذُكِّرُوا لَا يَذْكُرُونَ (13) وَإِذَا رَأَوْا آيَةً يَسْتَسْخِرُونَ (14) وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (15) أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (16) أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ (17) قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ (18) فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنْظُرُونَ (19) وَقَالُوا يَاوَيْلَنَا هَذَا يَوْمُ الدِّينِ (20) هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (21)}.
بلکہ آپ نے تعجب کیاجبکہ وہ ٹھٹھا کرتے ہیں (12) اور جب وہ نصیحت کیے جاتے ہیں تو نہیں نصیحت قبول کرتے (13) اور جب دیکھتے ہیں وہ کوئی نشانی تو مذاق اڑاتے ہیں (14) اور وہ کہتے ہیں: نہیں ہے یہ مگر جادو صریح (15) کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں گے مٹی اور ہڈیاں تو کیا ہم بے شک البتہ اٹھائے جائیں گے (16)کیا ہمارے پہلے باپ دادے بھی؟ (17) کہہ دیجیے: ہاں ! اور ہو گے تم ذلیل و خوار (18) پس وہ ہو گی ایک زور کی آواز ہی، پھر یکایک وہ (زندہ ہو کر) دیکھتے ہوں گے(19) اور وہ کہیں گے: ہائے افسوس ہمارے لیے ! یہ ہے دن جزا کا (20) یہی ہے دن فیصلے کا، وہ جو تھے تم اسے جھٹلاتے (21)
#
{12} {بل عجبتَ}: أيُّها الرسولُ أو أيُّها الإنسانُ من تكذيب مَنْ كَذَّبَ بالبعث بعد أن أرَيْتَهم من الآيات العظيمةِ والأدلَّة المستقيمةِ، وهو حقيقةً محلُّ عجبٍ واستغرابٍ؛ لأنَّه مما لا يَقْبَلُ الإنكارَ. {و} أعجبُ من إنكارِهِم وأبلغُ منه أنَّهم {يسخَرون}: ممَّنْ جاء بالخبر عن البعثِ، فلم يَكْفِهِم مجردُ الإنكار، حتى زادوا السخريةَ بالقول الحقِّ.
[12] ﴿بَلْ عَجِبْتَ ﴾ اے رسول! یا اے انسان! آپ کو ان لوگوں کی تکذیب پر تعجب ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ آپ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھا چکے ہیں اور ان کے سامنے واضح دلائل پیش کر چکے ہیں۔ حیات بعدالموت ایک حقیقت اور تعجب کا مقام ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ ان کے انکار سے زیادہ تعجب والی اور بلیغ بات یہ ہے کہ وہ ﴿یَسْخَرُوْنَ﴾ ’’تمسخر اڑاتے ہیں‘‘ اس شخص کا جو حیات بعدالموت کی خبر لایا ہے۔ انھوں نے صرف حق کے انکار ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے حق کے ساتھ تمسخر کا اضافہ کیا۔
#
{13} {و} من العجب أيضاً أنَّهم {إذا ذُكِّروا}: ما يعرفون في فِطَرِهِم وعُقولهم وفَطِنوا له ولَفَتَ نَظَرَهم إليه {لا يَذْكرونَ}: ذلك؛ فإنْ كان جهلاً؛ فهو من أدلِّ الدلائل على شِدَّةِ بلادَتِهِم العظيمة؛ حيث ذُكِّروا ما هو مستقرٌّ في الفطر معلومٌ بالعقل لا يقبلُ الإشكالَ، وإن كان تَجاهُلاً وعناداً؛ فهو أعجبُ وأغربُ.
[13] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ یہ بھی انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ ﴿اِذَا ذُكِّ٘رُوْا ﴾ ’’جب انھیں (اس چیز) کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے‘‘ جسے وہ اپنی عقل و فطرت میں پہچانتے ہیں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے ﴿لَا یَذْكُرُوْنَ﴾ ’’تو وہ توجہ نہیں کرتے۔‘‘ اگر یہ جہالت ہے تو یہ ان کی کندذہنی کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ ان کو ایک ایسی چیز کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جو ان کی فطرت میں راسخ ہے اور عقل اسے جانتی ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں اور اگر یہ تجاہل اور عناد کی بنا پر ہے تو یہ عجیب تر ہے۔
#
{14} ومن العَجَبِ أيضاً أنَّهم إذا أُقيمتْ عليهم الأدلَّةُ، وذُكِّروا الآياتِ التي يخضعُ لها فحولُ الرجال وألبابُ الألِبَّاء، يَسْخَرون منها ويَعْجَبونَ.
[14] نیز یہ بھی تعجب خیز ہے کہ جب ان کے سامنے ایسے دلائل بیان کیے جاتے ہیں اور ایسی نشانیوں کے ذریعے سے یاد دہانی کروائی جاتی ہے جن کے سامنے بڑے بڑے عقل مند لوگوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں تو یہ لوگ ان دلائل اور نشانیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور ان پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔
#
{15} ومن العجب أيضاً قولُهُم للحقِّ لما جاءهم: {إنْ هذا إلاَّ سحرٌ مبينٌ}: فجعلوا أعلى الأشياء وأجلَّها ـ وهو الحقُّ ـ في رتبة أخسِّ الأشياء وأحقرِها.
[15] جب ان کے پاس حق آ گیا تو حق کے بارے میں ان کا یہ قول بھی تعجب خیز ہے ﴿اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’یہ تو محض جادو ہے‘‘ پس انھوں نے اعلیٰ ترین اور جلیل ترین چیز کو خسیس اور حقیر ترین چیز کے مرتبے پر گردانا۔
#
{16 ـ 17} ومن العجب أيضاً قياسُهم قدرةَ ربِّ الأرض والسماواتِ على قدرةِ الآدميِّ الناقص من جميع الوجوه، فقالوا استبعاداً وإنكاراً: {أإذا مِتْنا وكُنَّا تُراباً وعِظاماً أإنَّا لَمَبْعوثونَ. أوَ آباؤنا الأوَّلونَ}.
[16، 17] نیز ان کی یہ بات بھی نہایت تعجب خیز ہے کہ انھوں نے زمین اور آسمانوں کے رب کی قدرت کو ہر لحاظ سے ناقص آدمی کی قدرت پر قیاس کر لیا، چنانچہ حیات بعدالموت کو بعید سمجھ کر اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُ٘وْنَۙ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ﴾ ’’کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیوں کا پنجر بن چکے ہوں گے اس وقت ہمیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ کیا ہمارے پہلے آباء واجداد کو بھی دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟‘‘
#
{18} ولمَّا كانَ هذا منتهى ما عندَهم وغايةَ ما لَدَيْهم؛ أمر الله رسولَه أن يُجيبَهم بجواب مشتمل على ترهيِبِهم ، فقال: {قل نعم}: ستُبْعَثون أنتم وآباؤكم الأولون، {وأنتُم داخِرون}: ذَليلون صاغِرون لا تمتَنعون، ولا تَسْتَعْصون على قدرةِ الله.
[18] جب ان کی غرض و غایت کی یہ انتہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کو حکم دیا کہ وہ ان کو ایسا جواب دیں جو ان کی ترہیب پر مشتمل ہو ، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ نَعَمْ ﴾ ’’کہہ دیجیے ہاں!‘‘ تمھیں اور تمھارے آباء و اجداد کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ﴿وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ﴾ اور تم اس وقت نہایت ذلیل اور بے بس ہو گے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے لیے دشوار ہو گے نہ اس کی نافرمانی کر سکو گے۔
#
{19} {فإنَّما هي زجرةٌ واحدةٌ}: يَنْفُخُ إسرافيلُ فيها في الصُّورِ، {فإذا هم} مبعوثونَ من قبورهم {يَنظُرونَ}: كما ابْتُدِئ خَلْقُهم، بُعثِوا بجميع أجزائِهِم حفاةً عراةً غُرلاً.
[19] ﴿فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ ﴾ ’’وہ تو صرف ایک زور کی آواز ہوگی۔‘‘ یعنی اسرافیل صور پھونکے گا ﴿فَاِذَا هُمْ ﴾ ’’تو یکایک وہ‘‘ اپنی قبروں سے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ﴿یَنْظُ٘رُوْنَ ﴾ ’’اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے‘‘ جس طرح ابتدا میں تخلیق کیا گیا تھا، اسی طرح ان کو ان کے تمام اجزاء سمیت، ننگے پاؤ ں، عریاں اور غیر مختون کھڑا کیا جائے گا۔
#
{20} وفي تلك الحال يُظْهِرون الندمَ والخزيَ والخسارَ، ويَدْعونَ بالويل والثُّبور، {وقالوا يا وَيْلَنا هذا يومُ الدينِ}؛ فقد أقرُّوا بما كانوا في الدنيا به يهزؤون!
[20] اس حالت میں وہ سخت ندامت کا اظہار کریں گے، انھیں سخت رسوائی اور خسارے کا سامنا ہو گا۔اس وقت وہ اپنی ہلاکت اور موت کو پکاریں گے۔ ﴿وَقَالُوْا یٰوَیْلَنَا هٰؔذَا یَوْمُ الدِّیْنِ ﴾ ’’اور کہیں گے، ہائے افسوس یہی جزا کا دن ہے۔‘‘ یعنی یہ اعمال کی جزا کے لیے یوم حساب ہے۔ وہ ان تمام چیزوں کا اقرار کریں گے جن کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے۔
#
{21} فيُقالُ لهم: {هذا يومُ الفصلِ}: بين العبادِ فيما بينَهم وبين ربِّهم من الحقوق وفيما بينهم وبين غيرِهِم من الخلق.
[21] ان سے کہا جائے گا: ﴿هٰؔذَا یَوْمُ الْ٘فَصْلِ ﴾ یعنی یہ رب اور بندے کے درمیان ان کے حقوق کے بارے میں اور بندوں کے درمیان ان کے آپس کے حقوق کے بارے میں فیصلے کا دن ہے۔
آیت: 22 - 26 #
{احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ (22) مِنْ دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ (23) وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (24) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ (25) بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (26)}.
(اے فرشتو!) اکٹھا کر دو ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا اور ان کے جوڑوں کو اور (ان کو) جن کی تھے وہ عبادت کرتے (22) سوائے اللہ کے پس ہانک لے جاؤ ان کو جہنم کے راستے کی طرف (23) اور (ابھی) ٹھہراؤ ان کو ، بلاشبہ یہ باز پرس کیے جائیں گے (24) کیا ہوا تمھیں، نہیں تم ایک دوسرے کی مدد کرتے؟ (25)بلکہ وہ آج (سب) فرماں بردار ہیں (26)
#
{22 ـ 23} أي: إذا حضروا يوم القيامةِ وعاينوا ما به يكذبون ورأوا ما به يستسخرون؛ يُؤْمَرُ بهم إلى النارِ التي بها يكذبون، فيقال: {احشُروا الذين ظلموا}: أنفسَهم بالكفرِ والشركِ والمعاصي {وأزواجَهم}: الذين من جنس عملهم، كلٌّ يُضَمُّ إلى مَنْ يُجانِسُه في العمل، {وما كانوا يَعْبُدون من دونِ الله}: من الأصنام والأندادِ التي زعموها، اجمعوهم جميعاً، واهدوهم {إلى صراطِ الجَحيم}؛ أي: سوقوهم سوقاً عنيفاً إلى جهنم.
[22، 23] جب قیامت کے روز وہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر کیے جائیں گے اور اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کی وہ تکذیب کیا کرتے اور اس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، تو ان کو جہنم میں داخل کرنے کا حکم دیا جائے گا، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جائے گا: ﴿اُحْشُ٘رُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ ’’جو لوگ ظلم کرتے تھے انھیں جمع کرو۔‘‘ یعنی جنھوں نے کفر، شرک اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ﴿وَاَزْوَاجَهُمْ ﴾ ’’اور ان کے ہم جنسوں کو۔‘‘ یعنی جن کا عمل ان کے عمل کی جنس سے ہے، ہر شخص کو اس شخص کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا جو عمل میں اس کا ہم جنس تھا۔ ﴿وَمَا كَانُوْا یَعْبُدُوْنَۙ۰۰ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں اور خود ساختہ ہمسروں کی عبادت کیا کرتے تھے اور جن کو انھوں نے معبود بنا رکھا تھا، جمع کیا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ ان سب کو اکٹھا کرو ﴿فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْؔجَحِیْمِ ﴾ اور سختی کے ساتھ ان کو ہانک کر جہنم میں لے جاؤ ۔
#
{24} {و} بعدما يتعيَّن أمرُهم إلى النار ويَعْرِفون أنَّهم من أهلِ دار البوار؛ يُقالُ: {قِفوهُم}: قبل أن توصِلوهم إلى جهنَّم، {إنَّهم مسؤولونَ}: عمَّا كانوا يفترونَه في الدُّنيا؛ ليظهرَ على رؤوس الأشهادِ كَذِبُهم وفضيحتُهم.
[24] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ جب ان کو جہنم میں ڈال دیے جانے کا معاملہ متعین ہو جائے گا اور انھیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ وہ جہنم میں جانے والوں میں شامل ہیں تو کہا جائے گا: ﴿قِفُوْهُمْ ﴾ ’’ان کو ٹھہراؤ!۔‘‘ یعنی جہنم میں ڈالنے سے پہلے ﴿اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ۠﴾ وہ دنیا میں جو افترا پردازی کیا کرتے تھے، اس کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا تاکہ ان کا جھوٹ اور رسوائی سرعام ظاہر ہو جائے۔
#
{25} فيقال لهم: {ما لكم لا تناصرون}: أي: ما الذي جرى عليكم اليوم، وما الذي طرقكم، لا ينصر بعضكم بعضاً، ولا يغيث بعضُكم بعضاً، بعدما كنتُم تزعُمون في الدُّنيا أنَّ آلهتكم ستدفعُ عنكم العذابَ وتُغيثكم أو تشفعُ لكم عند الله؟!
[25] ان سے کہا جائے گا: ﴿مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ﴾ یعنی آج تمھارے ساتھ کیا ہوا؟ تم پر یہ کیا مصیبت آن پڑی کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکتے حالانکہ تم تو دنیا میں اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ تمھارے معبود تم سے عذاب کو دور کر دیں گے، تمھاری مدد کریں گے یا اللہ کے ہاں تمھاری سفارش کریں گے؟
#
{26} فكأنهم لا يجيبون هذا السؤال؛ لأنَّهم قد علاهم الذُّلُّ والصَّغارُ، واستسلموا لعذابِ النارِ وخَشَعوا وخَضَعوا وأُبْلِسوا، فلم يَنْطِقوا، ولهذا قال: {بل هُمُ اليومَ مُسْتَسْلِمونَ}.
[26] تو گویا وہ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ ان پر ذلت اور بے چارگی چھائی ہوئی ہو گی اور وہ اپنے آپ کو جہنم کے عذاب کے حوالے کر رہے ہوں گے، وہ ڈرے ہوئے اور مایوس ہوں گے اور بول نہیں سکیں گے ، اس لیے فرمایا: ﴿بَلْ هُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ۠ ﴾ ’’بلکہ وہ (سب کے سب) آج فرمانبردار بن گئے۔‘‘
آیت: 27 - 39 #
{وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (27) قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ (28) قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (29) وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ (30) فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا إِنَّا لَذَائِقُونَ (31) فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ (32) فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ (33) إِنَّا كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ (34) إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ (35) وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونٍ (36) بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ (37) إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ (38) وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (39)}.
اور متوجہ ہو گا بعض ان کا اوپر بعض کے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے (27)کہیں گے: بے شک تم تو تھے آتے ہمارے پاس دائیں طرف سے (28) وہ کہیں گے: بلکہ نہیں تھے تم خود ہی ایمان لانے والے(29) اور نہیں تھا ہمارا تم پرکوئی زور، بلکہ تھے تم ہی لوگ سرکش(30) پس ثابت ہو گئی ہم پر بات ہمارے رب کی، بے شک ہم البتہ چکھنے والے ہیں(عذاب) (31) پس ہم نے گمراہ کیا تمھیں بلا شبہ تھے ہم گمراہ (32) پس بے شک وہ اس دن عذاب میں مشترک ہوں گے (33) بے شک ہم اسی طرح کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ (34) بلاشبہ تھے و ہ، جب کہا جاتا ان سے کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے تو وہ تکبر کرتے (35) اور کیا بے شک ہم چھوڑ دیں گے اپنے معبودوں کو بوجہ (کہنے) ایک شاعر دیوانے کے (36)بلکہ وہ تو آیا ہے ساتھ حق کے اور اس نے تصدیق کی(سب) رسولوں کی (37) بے شک تم(اب) البتہ چکھو گے عذاب بہت درد ناک (38) اور نہیں بدلہ دیے جاؤ گے تم مگر(اسی کا) جو تھے تم عمل کرتے(39)
#
{27 ـ 28} لما جُمِعوا هم وأزواجهم وآلهتُهم وهُدوا إلى صراط الجحيم ووُقِفوا فسُئِلوا فلم يُجيبوا؛ أقبلوا فيما بينَهم يلومُ بعضُهم بعضاً على إضلالِهِم وضلالِهِم، فقال الأتباعُ للمتبوعينَ الرؤساء: {إنَّكُم كنتُم تأتونَنا عن اليمينِ}؛ أي: بالقوَّة والغلبة فتُضِلُّونا، ولولا أنتُم؛ لكُنَّا مؤمنينَ.
[27، 28] جب مشرکین، ان کی مشرک بیویوں اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کر کے جہنم کے راستوں پر ہانک دیا جائے گا، پھر ان کو روک کر ان سے سوال کیا جائے گا، مگر وہ جواب نہ دے سکیں گے تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے خود اپنی گمراہی اور دوسروں کو گمراہ کرنے پر ایک دوسرے کو ملامت کریں گے۔ متبعین اپنے رؤ ساء سے کہیں گے: ﴿اِنَّـكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ ﴾ ’’تمھی ہمارے پاس دائیں طرف سے آتے تھے۔‘‘ یعنی تم نے قوت اور جبر کے ساتھ ہمیں گمراہ کیا، اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آتے۔
#
{29 ـ 32} {قالوا} لهم: {بل لمْ تكونوا مؤمنينَ}؛ أي: ما زلتُم مشرِكين كما نحنُ مشركونَ؛ فأيُّ شيءٍ فضَّلَكم علينا؟! وأيُّ شيء يوجِبُ لومَنا؟! {و} الحالُ أنَّه {ما كان لنا عليكُم من سلطانٍ}؛ أي: قهرٍ لكم على اختيار الكفر، {بل كنتُم قوماً طاغينَ}: متجاوِزين للحدِّ ، {فحقَّ علينا}: نحنُ وإيَّاكُم {قولُ ربِّنا إنَّا لَذائقونَ}: العذاب؛ أي: حقَّ علينا قَدَرُ ربِّنا وقضاؤه أنَّا وإيِّاكم سنذوقُ العذابَ ونشترِكُ في العقاب. {فـ} لذلك {أغْوَيْناكم إنَّا كُنَّا غاوينَ}؛ أي: دَعَوْناكم إلى طريقتِنا التي نحنُ عليها، وهي الغوايةُ، فاستَجَبْتُم لنا؛ فلا تلومونا ولوموا أنفسكم.
[32-29] ﴿قَالُوْا ﴾ سردار اُن کو جواب دیں گے: ﴿بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾ جس طرح ہم مشرک تھے اسی طرح تم بھی شرک کرتے رہے۔ تمھیں ہم پر کون سی فضیلت حاصل ہے جو ہمیں ملامت کرنے کی موجب ہو ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ حالت یہ ہے کہ ﴿مَا كَانَ لَنَا عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ ﴾ ہمیں تم سے کفر کا ارتکاب کرانے کی کوئی قوت اور اختیار حاصل نہ تھا ﴿بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِیْنَ ﴾ ’’بلکہ تم سرکش لوگ تھے‘‘ اور حدود سے تجاوز کرنے والے لوگ تھے۔ ﴿فَحَقَّ عَلَیْنَا ﴾ ’’پس ہم پر واجب ہو گیا‘‘ یعنی تم پر اور ہم پر ﴿اِنَّا لَذَآىِٕقُوْنَ ﴾ ’’ یقینا ہم چکھیں گے‘‘ عذاب کا یعنی ہم پر ہمارے رب کی قضاوقدر حق ثابت ہوئی ہم اور تم سب عذاب کا مزا چکھیں گے اور سب مل کر سزا بھگتیں گے۔بنا بریں ﴿فَاَغْ٘وَیْنٰكُمْ۠ اِنَّا كُنَّا غٰوِیْنَ ﴾ ’’پس ہم نے تم کو گمراہ کیا اور ہم خود بھی گمراہ تھے۔‘‘ یعنی ہم نے تمھیں اس راستے کی طرف بلایا جس پر ہم گامزن تھے، یعنی گمراہی کے راستے کی طرف، تم نے ہماری آواز پر لبیک کہی اس لیے تم ہمیں ملامت کا نشانہ بنانے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔
#
{33 ـ 34} قال تعالى: {فإنَّهم يومئذٍ}؛ أي: يوم القيامةِ {في العذاب مشترِكونَ}: وإن تفاوتتْ مقاديرُ عذابِهِم بحسب جُرمهم؛ كما اشتركوا في الدُّنيا على الكفر اشتركوا في الآخرة بجزائِهِ، ولهذا قال: {إنَّا كذلك نفعلُ بالمجرِمين}.
[33، 34] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنَّهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’پس وہ اس روز‘‘یعنی قیامت کے روز ﴿فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ ﴾ ’’عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔‘‘ اگرچہ جرم کے مطابق، عذاب کی مقدار میں فرق ہوگا۔ وہ جہنم کا عذاب بھگتنے میں اسی طرح شریک ہوں گے جس طرح وہ دنیا میں کفر کرنے میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔ ﴿اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’بے شک ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘
#
{35 ـ 36} ثم ذكر أنَّ إجرامَهم قد بَلَغَ الغايةَ وجاوز النهايةَ، فقال: {إنَّهم كانوا إذا قيل لهم لا إله إلاَّ اللهُ}: فدعوا إليها وأمروا بترك إلهيَّة ما سواه {يَسْتَكْبِرونَ}: عنها وعلى مَنْ جاء بها، {ويقولون} معارضةً لها: {أإنَّا لَتارِكو آلهتِنا}: التي لم نزل نعبدُها نحنُ وآباؤنا، لقول {شاعرٍ مجنونٍ}؛ يعنون: محمداً - صلى الله عليه وسلم -، فلم يكفهم قبَّحَهُمُ اللهُ الإعراضُ عنه ولا مجردُ تكذيبِهِ، حتى حكموا عليه بأظلم الأحكام، وجعلوه شاعراً مجنوناً، وهم يعلمون أنَّه لا يعرفُ الشعر والشعراء، ولا وصفُهُ وصفُهم، وأنَّه أعقلُ خَلْقِ اللَّه وأعظمُهم رأياً.
[35، 36] پھر اس بات کاتذکرہ کیا کہ ان کے جرائم تمام حدیں پھلانگ گئے تھے، اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ﴾ ’’بے شک یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں‘‘ انھیں اس کلمہ کی طرف بلایا جاتا اور انھیں اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو چھوڑنے کا کہاجاتا تو ﴿یَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ وہ اس دعوت اور اس کو پیش کرنے والے کے ساتھ تکبر سے پیش آتے تھے۔ ﴿وَیَقُوْلُوْنَ ﴾ اور اس کلمۂ حق کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے تھے: ﴿اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا ﴾ ’’کیا ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں‘‘ جن کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد عبادت کرتے رہے ہیں ﴿لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ﴾ ’’ایک مجنون شاعر کی وجہ سے‘‘ اس سے وہ رسول اللہ e مراد لیتے تھے... اللہ ان کا برا کرے... انھوں نے صرف آپe سے روگردانی اور مجرد آپ کی تکذیب ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ انھوں نے آپ پر بدترین حکم لگایا جو سب سے بڑے ظلم پر مبنی ہے۔ انھوں نے آپ کو مجنون شاعر قرار دیا حالانکہ انھیں خوب علم تھا کہ آپ شاعری جانتے ہیں نہ شعراء سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں اور نہ ان کی طرح شاعری کے کبھی اوصاف بیان کیے ہیں اور انھیں یہ بھی علم ہے کہ آپ e اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اور سب سے زیادہ عظیم رائے کے حامل ہیں۔
#
{37} ولهذا قال تعالى ناقضاً لقولهم: {بل جاء}: محمدٌ {بالحقِّ}؛ أي: مجيئه حقًّا، وما جاء به من الشرع والكتاب حقٌّ، {وصدَّقَ المرسلينَ}؛ أي: ومجيئُهُ صَدَّقَ المرسلين؛ فلولا مجيئُهُ وإرسالُهُ؛ لم يكن الرسل صادقين؛ فهو آيةٌ ومعجزةٌ لكلِّ رسول قبله؛ لأنَّهم أخبروا به وبشَّروا، وأخذ الله عليهم العهدَ والميثاق لئن جاءهم ليؤمنُنَّ به ولَيَنْصُرُنَّه، وأخذوا ذلك على أممهم، فلما جاء؛ ظهر صِدْقُ الرسل الذين قبله، وتبيَّن كَذِبُ مَنْ خالفهم، فلو قدر عدم مجيئه، وهم قد أَخْبَروا به؛ لكان ذلك قادحاً في صدقهم. وصَدَّقَ أيضاً المرسلين؛ بأنْ جاء بما جاؤوا به، ودعا إلى ما دَعَوْا إليه، وآمن بهم، وأخبر بصحة رسالتهم ونبوَّتهم وشرعهم.
[37] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿بَلْ جَآءَ ﴾ ’’بلکہ وہ آئے‘‘ یعنی حضرت محمدe ﴿بِالْحَقِّ ﴾ ’’حق کے ساتھ۔‘‘ یعنی آپ کی تشریف آوری حق ہے اور جو شریعت اور کتاب آپ لے کر آئے وہ بھی حق ہے۔ ﴿وَصَدَّقَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ اور آپe کی تشریف آوری سے رسولوں کی تصدیق ہوتی ہے اگر آپ تشریف نہ لاتے تو رسولوں کی تصدیق نہ ہوتی۔ پس آپ گزشتہ تمام انبیاء و مرسلین کا معجزہ ہیں کیونکہ تمام انبیاء و مرسلین نے آپ کے آنے کی بشارت دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا کہ اگر آپ ان کے زمانے میں مبعوث ہوئے تو وہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد کریں گے اور تمام انبیاء و مرسلین نے اپنی اپنی امتوں سے بھی یہی عہد لیا۔ آپ کے ظہور کے ساتھ گزشتہ انبیاء کی صداقت ظاہر ہو گئی اور ان لوگوں کا کذب واضح ہو گیا جنھوں نے انبیاء کی مخالفت کی تھی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ تشریف نہیں لائے… درآں حا لیکہ کہ انبیاء و مرسلین آپ کی آمد کی خبر دے چکے ہیں… تو یہ چیز انبیاء کی صداقت میں قادح ہوتی۔ آپ نے اس اعتبار سے بھی انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی ہے کہ آپ وہی کچھ لے کر مبعوث ہوئے جس کے ساتھ دیگر انبیاء مبعوث ہوئے، آپ نے بھی اسی چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف دیگر انبیاء دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ آپ ان کی رسالت پر ایمان لائے، ان کی رسالت و نبوت اور ان کی شریعت کی صداقت کی خبر دی۔
#
{38 ـ 39} ولما كان قولُهُم السابقُ: {إنَّا لَذائقونَ} قولاً صادراً منهم يحتملُ أنْ يكونَ صدقاً أو غيره؛ أخبر تعالى بالقول الفصل الذي لا يَحْتَمِلُ غيرَ الصدق واليقين، وهو الخبر الصادر منه تعالى، فقال: {إنَّكم لَذائقو العذابِ الأليم}؛ أي: المؤلم الموجع، {وما تُجْزَوْنَ}: في إذاقة العذاب الأليم {إلاَّ ما كُنتُم تعملونَ}: فلم نَظْلِمْكم، وإنَّما عَدَلْنا فيكم.
[38، 39] چونکہ گزشتہ آیات میں ان کا قول: ﴿ اِنَّا لَذَآىِٕقُوْنَ ﴾ ’’بے شک ہم چکھیں گے۔‘‘ گزر چکا ہے اور اس قول میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال موجود ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے فیصلہ کن قول سے آگاہ فرمایا جس میں صدق اور یقین کے سوا کوئی احتمال نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچی خبر ہے۔ فرمایا: ﴿اِنَّـكُمْ لَذَآىِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ﴾ ’’بے شک تم دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔‘‘ یعنی سخت دردناک عذاب۔ ﴿وَمَا تُجْزَوْنَ ﴾ ’’اور تمھیں جزا نہیں دی گئی۔‘‘ یعنی درد ناک عذاب کا مزا چکھانے میں ﴿اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’مگر اسی کی جو تم کرتے تھے۔‘‘ ہم نے تم پر ظلم نہیں کیا بلکہ تمھارے ساتھ انصاف کیا ہے۔
چونکہ اس خطاب کے الفاظ عام ہیں اور مراد مشرکین ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 40 - 49 #
{إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (40) أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (41) فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (42) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (43) عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (44) يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ (45) بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ (46) لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ (47) وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ (48) كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ (49)}.
سوائے اللہ کے بندوں کے جو چنے ہوئے ہیں(40) یہی لوگ ہیں ان کے لیے ہے رزق معلوم (41) میوے (جنت کے) اور وہ معزز ہوں گے (42) باغوں میں نعمت کے (43) اوپر تختوں کے ایک دوسرے کے سامنے (44) پھرایا جائے گا ان پر (شراب کا) بھرا جام جاری چشمے سے (45) سفید لذت(والی) پینے والوں کے لیے (46) نہ ہوگا اس میں(اس سے) سر کا چکرانا اور نہ وہ اس سے مدہوش ہوں گے (47) اور ان کے پاس ہوں گی نیچی نگاہ رکھنے والیاں بڑی آنکھوں والیاں (48) گویا کہ وہ (شتر مرغ کے) انڈے ہیں پردے میں چھپا کر رکھے ہوئے(49)
#
{40} يقول تعالى: {إلاَّ عبادَ الله المُخْلَصينَ}: فإنَّهم غير ذائقي العذاب الأليم؛ لأنهم أخلصوا لله الأعمال، فأخلصهم واختصَّهم برحمتِهِ وجادَ عليهم بلطفِهِ.
[40] ﴿اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ ’’مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے‘‘ بے شک وہ دردناک عذاب کا مزا نہیں چکھیں گے کیونکہ انھوں نے اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اپنے لیے خالص کر لیا، ان کو اپنی رحمت کے لیے مختص کیا اور انھیں اپنے لطف و کرم سے نوازا۔
#
{41 ـ 42} {أولئك لهم رزقٌ معلومٌ}؛ أي: غير مجهول، وإنَّما هو رزقٌ عظيمٌ جليلٌ لا يُجهلُ أمرُهُ ولا يُبْلَغُ كُنْهُهُ، فسَّره بقوله: {فواكِهُ}: من جميع أنواع الفواكه التي تَتَفَكَّه بها النفس للذَّتِها في لونها وطعمها. {وهم مُكْرَمونَ}: لا مهانون محتَقَرون، بل معظَّمون مبجَّلون موقَّرون، قد أكرم بعضُهم بعضاً، وأكرمَتْهُمُ الملائكةُ الكرامُ، وصاروا يدخُلون عليهم من كلِّ باب، ويهنِّئونهم ببلوغ أهنأ الثواب، وأكرمَهَم أكرمُ الأكرمين وجادَ عليهم بأنواع الكرامات من نعيم القلوب والأرواح والأبدان.
[41، 42] ﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جن کے لیے رزقِ معلوم ہے۔‘‘ یعنی یہ غیر مجہول رزق ہو گا یہ رزق بہت عظیم اور جلیل القدر ہو گا، جس کے معاملے سے جاہل رہا جا سکتا ہے نہ اس کی کنہ کو پہنچا جا سکتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَوَاكِهُ ﴾ یعنی تمام اقسام کے پھل ہوں گے، جن سے نفس لذت حاصل کریں گے، جو اپنے رنگ اور ذائقے میں نہایت مزے دار ہوں گے۔ ﴿وَهُمْ مُّكْرَمُوْنَ﴾ یعنی ان کی اہانت کی جائے گی نہ ان سے حقارت سے پیش آیا جائے گا بلکہ ان کی عزت، تعظیم اور توقیر کی جائے گی۔ وہ ایک دوسرے کی تکریم کریں گے، مکرم فرشتے ان کی تکریم کریں گے، وہ جنت کے ہر دروازے سے داخل ہوں گے اور بہترین ثواب کے ذریعے سے ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ سب سے معزز اور باوقار ہستی انھیں اکرام بخشے گی اور انھیں انواع و اقسام کی تکریم سے نوازے گی جس میں قلب و روح اور بدن کے لیے نعمت ہوگی۔
#
{43} {في جنات النعيم}؛ أي: الجنات التي النعيم وَصْفُها والسرورُ نعمتُها، وذلك لما جَمَعَتْهُ ممَّا لا عينٌ رأتْ، ولا أذنٌ سمعتْ، ولا خَطَرَ على قلب بشر، وسلمتْ من كلِّ مخلٍّ بنعيمها من جميع المكدِّرات والمنغِّصات.
[43] ﴿فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ﴾ ’’نعمت کے باغوں میں‘‘ یعنی وہ جنتیں جو نعمت اور سرور سے متصف ہیں کیونکہ ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں جمع ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے حاشیۂ خیال میں ان کا گزر ہوا ہے۔ وہ خلل انداز ہونے والے ہر قسم کے تکدر سے سلامت ہوں گے۔
#
{44} ومن كرامتهم عند ربِّهم وإكرام بعضهم بعضاً أنَّهم على {سُرُرٍ}: وهي المجالس المرتفعةُ المزينة بأنواع الأكسيةِ الفاخرةِ المزخرفة المجملة؛ فهم مُتَّكئونَ عليها على وجهِ الراحةِ والطُّمأنينة والفرح، {متقابلينَ}: فيما بينَهم، قد صَفَتْ قلوبُهم ومحبتُهم فيما بينَهم، ونَعِموا باجتماع بعضهم مع بعض؛ فإنَّ مقابلة وجوههم تدلُّ على تقابل قلوبهم وتأدُّب بعضهم مع بعض، فلم يستدبِرْه أو يجعَلْه إلى جانبه، بل من كمال السرور والأدب ما دلَّ عليه ذلك التقابل.
[44] ان کے رب کے ہاں ان کی سب سے بڑی تکریم یہ ہو گی کہ وہ ایک دوسرے کا اکرام کریں گے۔ بے شک وہ ﴿سُرُرٍ ﴾ ’’تختوں‘‘ پر ہونگے۔ یہ بلند بیٹھنے کی جگہیں ہوں گی جو خوبصورت اور منقش کپڑوں سے آراستہ کی گئی ہوں گی، اہل ایمان راحت، اطمینان اور فرحت کے ساتھ وہاں تکیے لگا کر بیٹھیں گے ﴿مُّتَقٰبِلِیْ٘نَ ﴾ ’’ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔‘‘ ان کے دل ہر قسم کی کدورت سے پاک ہوں گے، ان کی آپس کی محبت پاک ہو گی اور وہ اس اجتماع پر آپس میں خوش ہوں گے کیونکہ چہروں کا ایک دوسرے کے سامنے ہونا، دلوں کے ایک دوسرے کے سامنے ہونے اور ایک دوسرے کا ادب کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیریں گے نہ پہلوتہی کریں گے بلکہ وہاں کامل ادب اور سرور ہو گا جس پر چہروں کا ایک دوسرے کے سامنے ہونا دلالت کرتا ہے۔
#
{45 ـ 47} {يُطافُ عليهم بكأسٍ من مَعين}؛ أي: يتردَّدُ الولدان المستعدِّون لخدمتهم عليهم بالأشربةِ اللذَّيذةِ بالكاسات الجميلةِ المنظر المُتْرَعَةِ من الرحيق المختوم بالمسك، وهي كاساتُ الخمر، وتلك الخمرُ تخالِفُ خَمْرَ الدُّنيا من كل وجه؛ فإنَّها في لونها {بيضاء} من أحسن الألوان، وفي طعمها {لَذَّةٍ للشارِبينَ}: يلتذُّ شاربُها بها وقتَ شُربها وبعدَه، وأنَّها سالمةٌ من غول العقل وذهابِهِ ونزفِهِ ونزفِ مال صاحبها، وليس فيها صداعٌ ولا كدرٌ.
[47-45] ﴿یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ﴾ چاق چوبند اور مستعد لڑکے ان کی خدمت میں خوبصورت جاموں میں مشک کے ساتھ مہرشدہ لذیذ مشروبات لیے آ جا رہے ہوں گے، یہ جام، شراب کے جام ہوں گے۔ یہ شراب ہر لحاظ سے دنیا کی شراب سے مختلف ہوگی۔ اس کا رنگ ﴿بَیْضَآءَ ﴾ ’’سفید‘‘ اور بہترین رنگ ہوگا اس کے ذائقے میں ﴿لَذَّةٍ لِّ٘لشّٰرِبِیْنَ﴾ ’’پینے والوں کے لیے لذت ہو گی۔‘‘ اہل جنت پیتے وقت اور پینے کے بعد لذت محسوس کریں گے۔ یہ شراب ہر قسم کے برے اثرات سے پاک ہوگی۔ اس سے ان کی عقل خراب ہو گی نہ مال خراب ہو گا اور اس سے سر چکرائے گا نہ طبیعت مکدر ہو گی۔
#
{48 ـ 49} فلمَّا ذَكَرَ طعامهم وشرابَهم ومجالِسَهم. وعمومُ النعيم وتفاصيلُه داخلٌ في قوله: {جنات النعيم}، لكن فصَّلَ هذه الأشياءَ لِتُعْلَمَ فتشتاقَ النفوس إليها؛ ذَكَرَ أزواجَهم، فقال: {وعندهم قاصراتُ الطَّرْفِ عِينٌ}؛ أي: وعند أهل دار النعيم في محلاَّتهم القريبة حورٌ حسانٌ كاملاتُ الأوصافِ قاصراتُ الطرفِ: إمَّا أنَّها قَصَرَتْ طَرْفَها على زوجِها لعفَّتِها، وعدم مجاوزتِهِ لغيرِهِ، ولجمال زوجِها وكماله؛ بحيث لا تطلبُ في الجنة سواه، ولا ترغبُ إلاَّ به. وإمَّا لأنَّها قَصَرَتْ طَرْفَ زوجها عليها، وذلك يدلُّ على كمالها وجمالها الفائق، الذي أوجب لزوجِها أن يَقْصُرَ طرفَه عليها. وقَصْرُ الطرفِ أيضاً يدلُّ على قَصْرِ النفس والمحبَّة عليها، وكلا المعنيينِ محتملٌ، وكلاهما صحيحٌ. وكلُّ هذا يدلُّ على جمال الرجال والنساء في الجنَّة ومحبَّة بعضهم بعضاً محبةً لا يَطْمَحُ إلى غيره وشدة عفَّتهم كلِّهم وأنَّه لا حَسَدَ فيها ولا تباغُضَ ولا تشاحُنَ، وذلك لانتفاء أسبابه. {عِيْنٌ}؛ أي: حسانُ الأعين جميلاتُها ملاحُ الحدق. {كأنهنَّ}؛ أي: الحور {بَيْضٌ مكنونٌ}؛ أي: مستورٌ، وذلك من حسنهنَّ وصفائهنَّ، وكون ألوانهنَّ أحسن الألوان وأبهاها، ليس فيه كدرٌ ولا شينٌ.
[49,48] اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل جنت کے مطعومات و مشروبات، ان کی مجالس، دیگر عام نعمتوں اور ان کی تفاصیل کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿جَنّٰتِ النَّعِیْمِ﴾ کے عموم کے تحت آتی ہیں۔ ان کی تفصیل اس لیے بیان فرمائی تاکہ نفوس کو ان کا علم حاصل ہو اور ان کے اندر ان نعمتوں کا اشتیاق پیدا ہو۔ اس کے بعد ان کی بیویوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ﴾ ’’اور ان کے پاس عورتیں ہوں گی جو نیچی نگاہوں والی اور موٹی آنکھوں والی ہوں گی۔‘‘ یعنی اہل جنت کے پاس ان کے قریبی محلات میں خوبصورت حوریں ہوں گی، جو کامل اوصاف کی حامل اور نظریں جھکائے ہوئے ہوں گی۔ بیویاں یا تو اپنی عفت اور اپنے شوہر کے حسن و جمال اور اس کے کمال کی وجہ سے کسی اور طرف نہ دیکھیں گی... اس لیے کہ جنت میں ان کے شوہر کے سوا ان کا کوئی اور مطلوب نہ ہو گا اور نہ کسی اور میں رغبت رکھیں گی... یا ان کے شوہروں کی نگاہیں صرف انھی پر مرتکز ہوں گی یہ چیز ان کے کامل اور بے انتہا حسن وجمال پر دلالت کرتی ہے جو اس بات کی موجب ہیں کہ ان کے شوہروں کی نگاہیں انھی پر مرتکز رہیں، نیز نگاہوں کا ان پر مرکوز ہونا، نفس کے صرف انھی پر اقتصار کرنے اور ان کے ساتھ محبت پر دلالت کرتا ہے۔ آیت کریمہ میں ان دو معنوں کا احتمال ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔ دونوں معنی جنت میں مردوں اور عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی ایسی باہمی محبت پر دلالت کرتے ہیں جس میں غیر کی محبت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہ اہل جنت کی عفت کی دلیل ہے، نیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اہل جنت میں باہمی بغض اور حسد نہیں ہو گا کیونکہ اس کے تمام اسباب ختم کر دیے جائیں گے۔ ﴿عِیْنٌ ﴾ یعنی وہ خوبصورت آنکھوں اور خوبصورت نگاہوں والی ہوں گی۔ ﴿كَاَنَّ٘هُنَّ ﴾ ’’گویا کہ وہ‘‘یعنی حوریں ﴿بَیْضٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ ’’چھپایا ہوا انڈہ ہیں‘‘ یہ تشبیہ ان کے حسن، ان کے رنگ کی بے انتہا خوبصورتی اور اس کی تازگی کی بنا پر دی گئی ہے، اس میں کسی قسم کی کدورت اور میلاپن نہ ہو گا۔
آیت: 50 - 61 #
{فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (50) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ (51) يَقُولُ أَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِينَ (52) أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَدِينُونَ (53) قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ (54) فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ (55) قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (56) وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (57) أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ (58) إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (59) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (60) لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (61)}.
پس متوجہ ہوگا بعض ان کا اوپر بعض کے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے (50) کہے گا ایک کہنے والا ان میں سے، بے شک تھا میرا ایک ہم نشین (51) وہ کہتا تھا: کیا بے شک ہے تو البتہ تصدیق کرنے والوں میں سے (اس بات کی کہ) (52)کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں گے ہم مٹی اور ہڈیاں، کیا بے شک ہم البتہ بدلہ دیے جائیں گے؟ (53) وہ کہے گا، کیا تم (جہنم میں) جھانک کر دیکھو گے؟ (54) پس وہ جھانکے گا اور دیکھے گا اسے درمیان میں جہنم کے (55) وہ کہے گا: اللہ کی قسم! بلاشبہ قریب تھا توکہ ہلاک کر ڈالتا مجھے (56) اوراگر نہ ہوتا فضل میرے رب کا تو البتہ ہوتا میں حاضر کیے ہوئے (مجرموں) میں (57) کیا پس نہیں ہم (اب) مرنے والے؟ (58) سوائے مرنے کے ہمارے پہلی بار اور نہ ہم عذاب دیے جائیں گے؟(59)بلاشبہ یہی ہے کامیابی بہت بڑی(60)ایسی ہی (کامیابی) کے لیے ، پس چاہیے کہ عمل کریں عمل کرنے والے (61)
#
{50 ـ 59} لمَّا ذَكَرَ تعالى نعيمَهم وتمام سُرورهم بالمآكل والمشارب والأزواج الحسانِ والمجالس الحسنةِ؛ ذَكَرَ تذاكُرَهم فيما بينَهم ومطَارَحَتَهم للأحاديث عن الأمور الماضيةِ وأنَّهم ما زالوا في المحادثة والتساؤل حتى أفضى ذلك بهم إلى أن قال قائلٌ منهم: {إنِّي كان لي قرينٌ}: في الدنيا ينكِرُ البعث ويلومُني على تصديقي به، ويقولُ لي: {أإنَّك لَمِنَ المصدِّقينَ. أإذا مِتْنا وكُنَّا تراباً وعِظاماً أإنَّا لَمَدينونَ}؛ أي: مجازَوْن بأعمالنا؟! أي: كيف تصدِّقُ بهذا الأمر البعيد، الذي في غاية الاستغراب، وهو أنَّنا إذا تَمَزَّقْنا فَصِرْنا تراباً وعظاماً أنَّنا نُبعث ونعادُ ثم نحاسبُ ونُجازى بأعمالنا؛ أي: يقول صاحب الجنة لإخوانه: هذه قصَّتي وهذا خبري أنا وقريني، ما زلتُ أنا مؤمناً مصدِّقاً، وهو ما زال مكذِّباً منكراً للبعث، حتى متنا، ثم بُعِثْنا، فوصلتُ أنا إلى ما تَرَوْن من النعيم الذي أخْبَرَتْنا به الرسل، وهو لا شكَّ أنَّه قد وَصَلَ إلى العذاب. فهل {أنتُم مُطَّلِعونَ}: لننظرَ إليه فنزدادَ غِبْطَةً وسروراً بما نحن فيه، ويكونَ ذلك رأي عين؟! والظاهرُ من حال أهل الجنة وسرورِ بعضِهِم ببعضٍ وموافقة بعضِهِم بعضاً أنَّهم أجابوه لما قال، وذهبوا تبعاً له للاطِّلاع على قرينه. {فاطَّلَع} فرأى قرينَه {في سواء الجحيم}؛ أي: في وسط العذاب وغمراتِهِ. والعذابُ قد أحاطَ به، فقال له لائماً على حالِهِ وشاكراً لله على نعمتِهِ أنْ نجَّاه من كيدِهِ: {تاللهِ إنْ كِدْتَ لَتُرْدينِ}؛ أي: تهلكني بسبب ما أدخلتَ عليَّ من الشُّبه بزعمك، {ولولا نعمةُ ربِّي}: على أن ثبتني على الإسلام {لكنتُ من المُحْضَرينَ}: في العذاب معك. {أفَما نحنُ بِمَيِّتينَ. إلاَّ مَوْتَتَنا الأولى وما نحنُ بِمُعَذَّبينَ}؟ أي: يقوله المؤمن مبتهجاً بنعمة الله على أهل الجنة بالخلودِ الدائم والسلامة من العذاب. استفهامٌ بمعنى الإثبات والتقرير. وقوله: {فأقبل بعضُهُم على بعضٍ يتساءلون}، وحَذَفَ المعمولَ، والمقامُ مقامُ لذَّةٍ وسرور، فدلَّ ذلك على أنهم يتساءلون بكلِّ ما يتلذَّذون بالتحدُّث به والمسائل التي وقع فيها النزاعُ والإشكالُ، ومن المعلوم أنَّ لَذَّةَ أهل العلم بالتساؤل عن العلم والبحث عنه فوق اللَّذَّاتِ الجاريةِ في أحاديث الدُّنيا؛ فلهم من هذا النوع النصيبُ الوافر، ويحصُلُ لهم من انكشافِ الحقائق العلميَّةِ في الجنة ما لا يمكنُ التعبيرُ عنه.
[59-50] اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں، کامل مسرتوں، ماکولات ومشروبات، خوبصورت بیویوں اور خوشنما مجالس کا ذکر کرنے کے بعد ان میں آپس کی بات چیت اور ایک دوسرے کو ماضی کے واقعات و احوال سنانے کا ذکر کیا، نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہیں گے حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص کہے گا: ﴿اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَ٘رِیْنٌ﴾ ’’دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا‘‘ جو قیامت کا منکر تھا اور مجھے اس بات پر ملامت کیا کرتا تھا کہ میں قیامت پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور ﴿یَّقُوْلُ ﴾ ’’وہ کہا کرتا تھا‘‘ مجھ سے ﴿ ءَاِنَّكَ لَ٘مِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ۠۰۰ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ ﴾ یعنی کیا ہمیں ہمارے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی؟ یعنی تم اس امر محال کی کیسے تصدیق کرتے ہو جو انتہائی تعجب خیز معاملہ ہے؟ جب ہم مرنے کے بعد بکھر جائیں گے، مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے، کیا اس وقت بھی ہمارا حساب کتاب ہو گا اور ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا؟ صاحب جنت اپنے برادران جنت سے کہے گا ’’یہ ہے میرا قصہ اور یہ ہے میرا اور میرے ساتھی کا معاملہ، میں ایمان پر قائم رہا اور روز قیامت کی تصدیق کرتا رہا اور وہ کفر وانکار پر جما رہا اور قیامت کو جھٹلاتا رہا، یہاں تک کہ موت نے ہمیں آ لیا، پھر اس کے بعد ہمیں زندہ کیا گیا، پھر ان نعمتوں تک پہنچا جو تم دیکھ رہے ہو جن کے بارے میں رسولوں نے خبر دی تھی اور مجھے اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ میرا ساتھی عذاب میں مبتلا ہے۔ ﴿هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ ﴾ ’’کیا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو‘‘ تاکہ ہم اسے دیکھ لیں اور ہم جس نعمت و سرور میں ہیں اس میں اضافہ ہو اور یہ آنکھوں دیکھی حقیقت بن جائے۔ اہل جنت کے احوال، ان کے ایک دوسرے سے خوش ہونے اور ایک دوسرے کی موافقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کر لیں گے اور وہ اس کے ساتھ اس کے کافر ہم نشین کا حال دیکھنے جا ئیں گے۔ ﴿فَاطَّ٘لَ٘عَ ﴾ یعنی وہ اپنے ساتھی اور ہم نشین کو دیکھے گا ﴿فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ ﴾ جہنم کے عین وسط میں اور عذاب نے اس کو گھیر رکھا ہو گا۔ ﴿قَالَ ﴾ یعنی یہ صاحب جنت اس کافر ہم نشین کو ملامت اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہ اس نے اسے اس کافر کے فریب سے بچایا… کہے گا: ﴿تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَـتُرْدِیْنِ﴾ اللہ کی قسم! تو نے تو مجھے اپنے مزعومہ شبہات کا شکار کر کے ہلاک ہی کر ڈالا تھا۔ ﴿وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّیْ ﴾ ’’اور اگر میرے رب نے اسلام پر ثابت قدمی کی نعمت سے نہ نوازا ہوتا ﴿لَكُنْتُ مِنَ الْ٘مُحْضَرِیْنَ ﴾ ’’تو میں بھی (تمھارے ساتھ عذاب میں) حاضر کیے گئے لوگوں میں سے ہوتا۔‘‘ ﴿اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَۙ۰۰ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ﴾ ’’کیا ہم (آئندہ بھی) نہیں مریں گے؟ ہاں (جو) پہلی بار مرنا تھا (سو ہم مرچکے) اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا۔‘‘ یعنی مومن اس کافر سے نعمت کے بارے میں جو خلود جنت اور جہنم کے عذاب سے نجات کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، پوچھے گا۔ یہ استفہام اثبات اور تقریر کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ ﴾ میں معمول کا حذف ہونا اور مقام کا مقام لذت و سرور ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے جس کے ذکر سے انھیں لذت حاصل ہوتی ہے اور ان مسائل کے بارے میں سوال کریں گے جس میں نزاع اور اشکال واقع ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اہل علم کو علمی مسائل میں ایک دوسرے سے سوال کر کے تحقیق و بحث کے ذریعے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ اس لذت پر فوقیت رکھتی ہے جو دنیاوی باتوں سے حاصل ہوتی ہے، اس لیے ان کو بحث و تحقیق کے ان مسائل سے بہرۂ و افر نصیب ہو گا اور جنت میں ان پر ایسے ایسے حقائق کا انکشاف ہو گا جن کی تعبیر ممکن نہیں۔
#
{60} فلما ذكر تعالى نعيمَ الجنَّة ووَصَفَه بهذه الأوصاف الجميلة؛ مَدَحَه وشوَّقَ العاملين وحثَّهم على العمل له، فقال: {إنَّ هذا لهو الفوزُ العظيمُ}: الذي حصلَ لهم به كلُّ خيرٍ وكلُّ ما تهوى النفوس وتشتهي، واندفَعَ عنهم به كلُّ محذورٍ ومكروهٍ؛ فهل فوزٌ يُطْلَبُ فوقَه، أم هو غايةُ الغاياتِ ونهايةُ النهايات؛ حيث حلَّ عليهم رضا ربِّ الأرض والسماواتِ، وفرحوا بقربه، وتنعَّموا بمعرفتِهِ، واسترّوا برؤيتِهِ، وطربوا لكلامه؟!
[60] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے اور ان کو متذکرہ بالا اوصاف سے موصوف کرنے کے بعد، ان کی مدح فرمائی ہے اور اہل عمل میں اس جنت کا شوق ابھارا اور اس کے حصول کے لیے ان کو عمل پر آمادہ کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ هٰؔذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾ ’’بے شک یہ البتہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ جس کے ذریعے سے ہر وہ بھلائی حاصل ہوتی ہے جسے نفوس چاہتے ہیں اور ہر وہ چیز دور ہوتی ہے جس کو نفوس ناپسند کرتے ہیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور کامیابی مطلوب ہو سکتی ہے؟ یا یہ سب سے بڑا مطلوب و مقصود ہے جہاں رب ارض و سما کی رضا نازل ہوتی ہے، جہاں اہل ایمان اس کے قرب سے فرحت، اس کی معرفت سے لذت، اس کے دیدار سے مسرت اور اس سے ہم کلام ہو کر طرب و راحت حاصل کریں گے
#
{61} {لمثل هذا فليعمل العاملون}: فهو أحقُّ ما أُنْفِقَتْ فيه نفائسُ الأنفاس، وأولى ما شَمَّرَ إليه العارفون الأكياس، والحسرةُ كلُّ الحسرة أن يمضي على الحازم وقتٌ من أوقاته وهو غير مشتغل بالعمل الذي يقرِّبُ لهذه الدار؛ فكيف إذا كان يسير بخطاياه إلى دار البوار؟!
[61] ﴿لِـمِثْلِ هٰؔذَا فَلْ٘یَعْمَلِ الْ٘عٰمِلُوْنَ ﴾ ’’ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔‘‘ یہی مطلوب و مقصود سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے زندگی کے بہترین سانس صرف کیے جائیں اور سب سے زیادہ اس لائق ہے کہ عقل مند اصحاب معرفت اس کے لیے جدوجہد کریں۔ نہایت افسوس اور حسرت کا مقام ہے کہ دور اندیش آدمی کے اوقات میں سے کوئی ایسا وقت گزرے جس میں وہ ایسے عمل میں مشغول نہ ہو جو اسے اس منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، تب اس کا کیا حال ہے جو اپنے گناہوں کے ذریعے سے ہلاکت کے گڑھے میں گرتا ہے۔
آیت: 62 - 74 #
{أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (62) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (63) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (64) طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (65) فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (66) ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ (67) ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (68) إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ (69) فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ (70) وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ (71) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ (72) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ (73) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (74)}.
کیا یہ بہتر ہے مہمانی یا درخت تھوہر کا؟ (62) بلاشبہ بنایا ہم نے اسے فتنہ واسطے ظالموں کے (63) بے شک وہ ایک درخت ہے، جو نکلتا (اگتا) ہے گہرائی میں دوزخ کی (64) اس کا پھل گویا کہ وہ سر ہیں شیطانوں کے (65) پس بلاشبہ وہ البتہ کھائیں گے اس میں سے، پھر بھر لیں گے اس سے (اپنے) پیٹ (66) پھر بے شک ان کے لیے اوپر اس کے البتہ ملونی ہوگی گرم (کھولتے ہوئے) پانی کی (67) پھربے شک لوٹنا ان کا ہوگا البتہ طرف جہنم کی (68) بلاشبہ انھوں نے پایا اپنے باپ دادوں کو گمراہ(69) پس وہ ان کے قدموں کے نشانات پردوڑتے جاتے ہیں (70) اور البتہ تحقیق گمراہ ہوئے ان سے پہلے بہت سے اگلے لوگ (71) اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے ان میں ڈرانے والے (72) پس دیکھو! کیسا ہوا انجام ان کا جن کو ڈرایا گیا (73) سوائے (ان کے جو) بندے ہیں اللہ کے خالص کیے (چنے) ہوئے (74)
#
{62} {أذلك خير}؛ أي: ذلك النعيم الذي وصفناهُ لأهل الجنَّة خيرٌ أم العذابُ الذي يكون في الجحيم من جميع أصنافِ العذاب؛ فأيُّ الطعامين أولى؟ الطعامُ الذي وُصِفَ في الجنة، {أم} طعامُ أهل النار، وهو {شجرةُ الزَّقُّوم}؟
[62] ﴿اَذٰلِكَ خَیْرٌ ﴾ اہل جنت کو عطا کی جانے والی نعمتیں جن کا ہم نے وصف بیان کیا ہے، یا جہنم میں دیے جانے والے عذاب کی وہ تمام اصناف؟ کون سا کھانا اچھا ہے؟ جنت میں جس کھانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بہتر ہے ﴿اَمْ ﴾ ’’یا‘‘ جہنمیوں کا کھانا؟ اور وہ ﴿شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ ۰۰
#
{63 ـ 66} {إنا جعلناها فتنةً}؛ أي: عذاباً ونكالاً {للظَّالمينَ}: أنفسهم بالكفر والمعاصي. {إنها شجرةٌ تخرجُ في أصل الجحيم}؛ أي: وسطه؛ فهذا مخرجُها ومعدِنُها؛ شرُّ المعادن وأسوؤها، وشرُّ المغرس يدل على شرِّ الغراس وخسَّته، ولهذا نبَّهنا الله على شرِّها بما ذكر أين تنبُت به وبما ذكر من صفة ثمرتها، وأنها كرؤوس الشياطينِ؛ فلا تسألْ بعد هذا عن طعمها وما تفعلُ في أجوافهم وبطونهم. وليس لهم عنها مندوحةٌ ولا مَعْدِلٌ ، ولهذا قال: {فإنَّهم لآكلونَ منها فمالِئونَ منها البطونَ}: فهذا طعامُ أهل النارِ؛ فبئس الطعامُ طعامُهم.
[66-63] اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’زقوم کا درخت ہم نے اس کو ’’فتنہ‘‘ بنارکھا ہے۔‘‘ یعنی عذاب اور سزا ﴿لِّلظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’واسطے ظالموں کے۔‘‘ یعنی جنھوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ﴿اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِ﴾ ’’بے شک وہ ایک درخت ہے کہ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے۔‘‘ جہنم کا عین وسط اس کا مخرج ہے اور اس کے نکلنے کی جگہ بدترین جگہ ہے، پودا اگنے کی بدترین جگہ پودے کی خساست اور اس کے بدترین اوصاف پر دلالت کرتی ہے، بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس جگہ کا ذکر کر کے جہاں یہ پودا اگتا ہے اور اس کے پھل کا وصف بیان کر کے ہمیں اس کی برائی سے آگاہ فرمایا ہے۔ بے شک اس کا پھل ﴿رُءُ٘وْسُ الشَّیٰطِیْنِ ﴾ ’’شیطانوں کے سر‘‘ کی مانند ہے۔ پس اس کے ذائقے کے بارے میں مت پوچھ کہ یہ جہنمیوں کے پیٹ میں جا کر کیا ک[ے گا۔ وہ اس سے بچ سکیں گے نہ جان چھڑا سکیں گے، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِــُٔـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ﴾ ’’پس وہ اسی میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔‘‘ یہ اہل جہنم کا کھانا ہے اور کتنا بدترین کھانا ہے۔
#
{67} ثم ذكر شرابهم، فقال: {ثم إنَّ لهم عليها}؛ أي: على أثر هذا الطعام {لَشَوْباً من حَميم}؛ أي: ماءً حارًّا قد تناهى حرُّه؛ كما قال تعالى: {وإن يَسْتَغيثوا يُغاثوا بماءٍ كالمُهْلِ يَشْوي الوجوهَ بئس الشرابُ وساءتْ مُرْتَفَقاً}، وكما قال تعالى: {وسُقوا ماءً حَميماً فقَطَّعَ أمعاءهم}.
[67] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مشروب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَیْهَا ﴾ ’’ پھر بلاشبہ ان کے لیے ہوگا اس کے بعد‘‘ یعنی اس بدترین کھانے کے بعد ﴿لَشَوْبً٘ا مِّنْ حَمِیْمٍ﴾ گرم پانی، جس کی حرارت انتہا کو پہنچی ہوئی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا۠ یُغَاثُ٘وْا بِمَآءٍ كَالْ٘مُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ١ؕ بِئْسَ الشَّرَابُ١ؕ وَسَآءَتْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف: 18؍29) ’’اگر وہ پانی طلب کریں گے تو ان کو ایسا پانی پلایا جائے گا جو تلچھٹ جیسا ہو گا جو ان کے منہ کو بھون کر رکھ دے گا یہ بدترین مشروب اور نہایت بری آرام گاہ ہے۔‘‘ اور جیسا کہ فرمایا: ﴿وَسُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَ٘قَ٘طَّ٘عَ اَمْعَآءَهُمْ﴾ (محمد: 47؍15) ’’اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔‘‘
#
{68} {ثم إنَّ مَرْجِعَهم}؛ أي: مآلهم ومقرّهم ومأواهم {لإلى الجحيم}: ليذوقوا من عذابه الشديد وحرِّه العظيم ما ليس عليه مزيدٌ من الشقاء.
[68] ﴿ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ ﴾ ’’، پھر ان کا لوٹنا‘‘ یعنی ان کی منزل اور ٹھکانا ﴿لَاۡاِلَى الْجَحِیْمِ ﴾ ’’جہنم کی طرف ہوگا‘‘ تاکہ وہ اس کے شدید عذاب اور سخت ترین حرارت کا مزا چکھیں جس سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں۔
#
{69 ـ 73} كأنه قيل: ما الذي أوْصَلَهم إلى هذه الدار؟ فقال: {إنّهم ألْفَوْا}؛ أي: وجدوا {آباءهم ضالِّينَ. فهم على آثارِهِم يُهْرَعونَ}؛ أي: يسرعون في الضلال، فلم يلتفتوا إلى ما دعتهم إليه الرسلُ ولا إلى ما حَذَّرَتْهم عنه الكتبُ ولا إلى أقوال الناصحين، بل عارضوهم بأنْ قالوا: إنَّا وَجَدْنا آباءنا على أمَّةٍ وإنا على آثارهم مقتدونَ. {ولقد ضلَّ قبلَهم}؛ أي: قبل هؤلاء المخاطبينَ {أكثرُ الأولينَ}: وقليلٌ منهم آمن واهتدى، {ولقد أرْسَلْنا فيهم مُنذِرينَ}: ينذِرونَهم عن غيِّهم وضلالهم، {فانظُرْ كيف كان عاقبةُ المنذَرين}: كانت عاقبتهم الهلاك والخزي والفضيحة؛ فليحذرْ هؤلاء أن يستمرُّوا على ضلالهم فيصيبهم مثلُ ما أصابهم.
[73-69] گویا یہ کہا گیا کہ کس چیز نے ان لوگوں کو جہنم میں پہنچایا؟ تو فرمایا: ﴿اِنَّهُمْ اَلْفَوْا ﴾ یعنی انھوں نے پایا ﴿اٰبَآءَهُمْ ضَآلِّیْ٘نَ۰۰ فَهُمْ عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ یُهْرَعُوْنَ﴾ ’’اپنے باپ دادا کو بہکا ہوا، پس وہ ان ہی کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں۔‘‘ یعنی گمراہی میں تیزی سے دوڑے چلے جا رہے تھے۔ انھوں نے اس طرف التفات نہ کیا جس کی طرف انبیاء و مرسلین نے ان کو بلایا، نہ انھوں نے اس چیز کی طرف توجہ کی جس سے کتب الٰہیہ نے ان کو ڈرایا اور نہ انھوں نے خیر خواہی کرنے والوں کی خیرخواہی کو درخوراعتنا سمجھا بلکہ اس کے برعکس انھوں نے یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت کی: ﴿اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ ﴾ (الزخرف: 43؍23) ’’بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا اور ہم انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔‘‘ ﴿وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ ﴾ ’’اوران سے پیشتر بھی گمراہ ہوگئے۔‘‘ یعنی ان مخاطبین سے پہلے ﴿اَكْثَرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’بہت سے پہلے‘‘ یعنی ان میں سے بہت کم لوگ تھے جو ایمان لائے اور انھوں نے راہ راست اختیار کی۔ ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْهِمْ مُّنْذِرِیْنَ ﴾ ’’اور ہم نے ان میں متنبہ کرنے والے بھیجے۔‘‘ جو ان کو ان کی بے راہ روی اور گمراہی پر ڈراتے تھے۔ ﴿فَانْ٘ظُ٘رْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ﴾ ’’پس دیکھ لو کہ جن کو متنبہ کیا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا؟‘‘ ان کا انجام ہلاکت، رسوائی اور فضیحت کے سوا کچھ نہ تھا۔اس لیے ان مشرکین کو اپنی گمراہی پر جمے رہنے سے بچنا چاہیے ورنہ انھیں بھی اس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا ان لوگوں کو کرنا پڑا۔
#
{74} ولما كان المُنْذَرون ليسوا كلهم ضالِّين، بل منهم مَنْ آمن وأخلصَ الدين لله؛ استثناهُمُ الله من الهلاك، فقال: {إلاَّ عبادَ الله المخلَصين}؛ أي: الذين أخْلَصَهم الله وخَصَّهم برحمتِهِ لإخلاصهم؛ فإنَّ عواقِبَهم صارت حميدةً.
[74] چونکہ جن لوگوں کو ڈرایا گیا تھا، وہ سب کے سب گمراہ نہ تھے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو اہل ایمان تھے، جن کا دین اللہ تعالیٰ کے لیے خالص تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب اور ہلاکت سے مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا ﴿اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ ’’سوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے‘‘ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کا حامل بنایا اور ان کو ان کے اخلاص کے سبب سے، اپنی رحمت کے لیے مختص کیا۔ تب ان کا انجام قابل ستائش ہوا،
پھر اللہ تعالیٰ نے، جھٹلانے والی قوموں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 75 - 82 #
{وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ (75) وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (76) وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ (77) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (78) سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ (79) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (80) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (81) ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (82)}.
اور البتہ تحقیق پکارا ہمیں نوح نے، پس البتہ خوب قبول کرنے والے ہیں(ہم فریاد کو) (75) اور نجات دی ہم نے اس کو اور اس کےاہل کو بہت بڑی پریشانی سے (76) اورکر دیا ہم نے اس کی اولاد کو، انھی کو باقی رہنے والا (77) اور چھوڑا ہم نے اس پر پیچھے آنے والوں میں (78) کہ سلام ہو نوح پر، جہانوں میں(79) بلاشبہ ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو (80) بے شک وہ تھا ہمارے مومن بندوں میں سے (81) پھر غرق کر دیا ہم نے دوسروں کو (82)
#
{75 ـ 82} يخبر تعالى عن عبدِهِ ورسولِهِ نوح عليه السلام أول الرسل أنَّه لما دعا قومه إلى الله تلك المدةَ الطويلة، فلم يزدهم دعاؤُهُ إلاَّ فراراً؛ أنه نادى ربَّه، فقال: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرضِ من الكافرين ديّاراً ... } الآية، وقال: {ربِّ انصُرْني على القوم المُفْسِدينَ}. فاستجاب اللهُ له، ومدح تعالى نفسه، فقال: {فَلَنِعْمَ المجيبونَ}: لدعاء الداعينَ وسماع تَبَتُّلِهِم وتضرُّعهم، أجابه إجابةً طابقتْ ما سأل، نَجَّاه وأهلَه من الكرب العظيم، وأغرقَ جميع الكافرين، وأبقى نسلَه وذُرِّيَّته متسلسلين؛ فجميع الناس من ذُرِّيَّة نوح عليه السلام، وجعل له ثناءً حسناً مستمرًّا إلى وقت الآخرين، وذلك لأنَّه محسنٌ في عبادة الخالق، محسنٌ إلى الخلق، وهذه سنَّته تعالى في المحسنين؛ أنْ يَنْشُرَ لهم من الثناء على حسب إحسانهم، ودلَّ قولُه: {إنَّه من عبادِنا المؤمنينَ}: أنَّ الإيمانَ أرفعُ منازل العباد، وأنَّه مشتملٌ على جميع شرائع الدِّين وأصولِهِ وفروعِهِ؛ لأنَّ الله مَدَحَ به خواصَّ خلقِهِ.
[82-75] اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اولین رسول، حضرت نوحu کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے، مگر ان کی دعوت نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا کہ وہ اس دعوت سے دور بھاگتے رہے تب حضرت نوحu نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے دعا کی: ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا ﴾ (نوح: 71؍26) ’’اے میرے رب! زمین پر کوئی کافر بستا نہ چھوڑ‘‘ اور فرمایا: ﴿ رَبِّ انْ٘صُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ﴾ (المؤمنون: 23/26) ’’اے میرے رب! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد فرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحu کی دعا قبول فرمائی اور اپنی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ ﴾ ہم پکارنے والے کی پکار اور اس کی آہ و زاری کو سنتے ہیں اور خوب جواب دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوحu کی دعا قبول فرمائی۔ یہ قبولیت نوحu کی درخواست سے مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نوحu اور آپ کے گھر والوں کو اس کرب عظیم سے نجات دی اور تمام کفار کو سیلاب میں غرق کر دیا۔ آپ کی نسل اور اولاد کو تسلسل سے باقی رکھا، چنانچہ تمام انسان حضرت نوحu کی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے آپ کو دائمی ثنائے حسن سے سرفراز فرمایا کیونکہ آپ نے نہایت احسن طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور مخلوق کے ساتھ احسان کیا اور محسنین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے احسان کے مطابق دنیا میں ان کی ثنائے حسن کو پھیلاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘ دلالت کرتا ہے کہ ایمان بندوں کے لیے بلند ترین منزل ہے، جو تمام شرائع اور اس کے اصول و فروع پر مشتمل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی، ان کے ایمان کی بنا پر مدح و ثنا کی ہے۔
آیت: 83 - 113 #
{وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ (83) إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (84) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ (85) أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ (86) فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (87) فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ (88) فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ (89) فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ (90) فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ (91) مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ (92) فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ (93) فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ (94) قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (95) وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (96) قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ (97) فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ (98) وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (99) رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (100) فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (101) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَابُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَاإِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (108) سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (109) كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (110) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (111) وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (112) وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ (113)}.
اور بے شک اسی (نوح) کے گروہ سے البتہ ابراہیم تھا (83) جبکہ آیا وہ اپنے رب کے پاس پاک صاف دل کے ساتھ (84) جب کہا اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے، کس چیز کی تم عبادت کرتے ہو؟ (85) کیا جھوٹے گھڑے ہوئے معبودوں کو، سوائے اللہ کے، تم چاہتے ہو؟ (86) پس کیا خیال ہے تمھارا جہانوں کے رب کی نسبت؟ (87) پس اس نے دیکھا ایک نظر دیکھنا ستاروں کی طرف (88) پھر کہا: بے شک میں تو بیمار ہوں (89) پس وہ واپس پھرے اس سے پیٹھ پھیرتے ہوئے (90) پس وہ متوجہ ہوا طرف ان کے معبودوں کی اور کہا: کیا نہیں تم کھاتے؟ (91) کیا ہے تمھیں، نہیں تم بولتے؟ (92) پس متوجہ ہوا ان پر مارتا ہوا دائیں ہاتھ سے (93) پس وہ آئے اس کی طرف دوڑتے ہوئے (94) اس نے کہا: کیا تم عبادت کرتے ہو(ان کی) جن کو تم خود تراشتے ہو (95) اور اللہ نے پیدا کیا تم کو اور جو تم کرتے ہو (96) انھوں نے کہا: بناؤ اس کے لیے ایک مکان (آگ جلاؤ ) اور ڈالو اس کو آگ میں (97) پس ارادہ کیا انھوں نے اس کے ساتھ ایک چال کا، سو کر دیا ہم نے ان کو نیچا (98) اورکہا اس نے: بے شک میں جانے والا ہوں طرف اپنے رب کی، یقیناً وہ میری رہنمائی کرے گا(99) اے میرے رب! عطا فرما مجھے(لڑکا)صالحین میں سے(100) پس خوشخبری دی ہم نے اس کو ایک لڑکے بردبار کی(101) پس جب پہنچ گیا وہ، اس کےساتھ دوڑنے (کی عمر) کو اس نے کہا، اے میرے پیارے بیٹے! بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ میں ذبح کر رہا ہوں تجھے، پس دیکھ تو، کیا دیکھتا ہے؟ بیٹے نے کہا، ابا جان! کر گزریے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے، یقیناً آپ پائیں گے مجھے، اگر چاہا اللہ نے، صبر کرنے والوں میں سے(102) پس جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے لٹا دیا اس کو کروٹ کے بل (103) اور پکارا ہم نے اسے اے ابراہیم! (104) تحقیق سچ کر دکھایا تو نے (اپنا) خواب، بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو (105) بلاشبہ یہ البتہ وہی ہے آزمائش صریح (106) اور بدلے میں دیا ہم نے اس (اسماعیل) کے ذبح کرنے کو عظیم القدر(جانور) (107) اور چھوڑا ہم نے اوپر اس کے پچھلے لوگوں میں(108) کہ سلام ہو اوپر ابراہیم کے(109) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم نیکی کرنے والوں کو(110)بے شک وہ (تھا) ہمارے مومن بندوں میں سے (111)اور خوشخبری دی ہم نے اس کو اسحق(بیٹے) کی، اس حال میں کہ وہ نبی ہو گا (اور)صالحین میں سے(112) اور برکت (نازل) کی ہم نے اوپر اس کے اور اوپر اسحاق کے، اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی ظلم کرنے والا ہے اپنے نفس پر کھلم کھلا(113)
#
{83 ـ 84}؛ أي: وإنَّ من شيعة نوح عليه السلام ومَنْ هو على طريقتِهِ في النبوَّة والرسالة ودعوة الخلقِ إلى اللَّه وإجابةِ الدُّعاء إبراهيم الخليل عليه السلام. {إذْ جاء ربَّه بقلبٍ سليم}: من الشركِ والشُّبَهِ والشَّهَوات المانعة من تصوُّر الحقِّ والعمل به. وإذا كان قلبُ العبدِ سليماً؛ سَلِمَ من كلِّ شرٍّ، وحصل له كلُّ خيرٍ.
[83، 84] یعنی نوحu اور ان لوگوں کے گروہ میں، جو نبوت و رسالت، دعوت الی اللہ اور قبولیت دعا میں آپ کے طریقے پر ہیں، ابراہیم خلیل اللہu بھی شامل ہیں۔ ﴿اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ﴾ ’’جبکہ وہ اپنے رب کے ہاں صاف دل لے کر آئے‘‘ شرک، شبہات وشہوات سے جو تصور حق اور اس پر عمل کرنے سے مانع ہیں۔ جب بندۂ مومن کا قلب ہر برائی سے پاک اور سلامت ہو گا، تو اسے ہر قسم کی بھلائی حاصل ہو گی۔ بندۂ مومن کا سلیم القلب ہونا یہ ہے کہ اس کا دل مخلوق کو دھوکہ دینے، ان سے حسد کرنے اور اس قسم کے دیگر برے اخلاق سے سلامت اور محفوظ رہے۔
#
{85 ـ 87} ومن سلامته أنه سليمٌ من غشِّ الخلق وحَسَدِهم وغير ذلك من مساوئ الأخلاق، ولهذا نصح الخلق في الله، وبدأ بأبيه وقومِهِ، فقال: {إذْ قال لأبيه وقومِهِ ماذا تَعْبُدونَ}؟ هذا استفهامٌ على وجه الإنكار وإلزامٌ لهم بالحجة. {أإفكاً آلهةً دون الله تريدونَ}؟ أي: أتعبدون من دون آلهة كذباً ليست بآلهة، ولا تصلُحُ للعبادة؟! {فما ظنُّكم بربِّ العالمين}: أن يفعل بكم وقد عبدتُم معه غيره؟! وهذا ترهيبٌ لهم بالجزاء بالعقابِ على الإقامة على شركهم، وما الذي ظننتُم بربِّ العالمين من النقص حتى جعلتُم له أنداداً وشركاء؟!
[87-85] اس لیے حضرت ابراہیمu نے محض اللہ کے لیے مخلوق کی خیرخواہی کی اور اپنے باپ اور اپنی قوم سے اس کی ابتدا کی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ﴾ ’’جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کن چیزوں کو پوجتے ہو؟‘‘ یہ استفہام انکاری ہے اور مقصد ان پر حجت قائم کرنا ہے۔ ﴿اَىِٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَ﴾ یعنی کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا جھوٹے معبودوں کی عبادت کرتے ہو، جو معبود ہیں نہ عبادت کے مستحق ہیں۔ رب کائنات کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے کہ جب تم اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہو، تو وہ تمھارے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ یہ تمھارے اپنے شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے سزا کی وعید ہے۔ بھلا رب العالمین کے بارے میں تمھیں کسی نقص کا گمان ہے کہ تم نے اس کے ہم سر اور شریک بنا ڈالے۔
#
{88 ـ 93} فأراد عليه السلام أن يكسِرَ أصنامهم ويتمكَّن من ذلك، فانتهز الفرصةَ في حين غفلةٍ منهم لما ذهبوا إلى عيدٍ من أعيادهم، فخرج معهم، {فَنَظَرَ نظرةً في النجوم. فقال: إني سقيمٌ}: في الحديث الصحيح: «لم يكذبْ إبراهيمُ عليه السلام إلاَّ ثلاثَ كذباتٍ: قولُهُ: إني سقيمٌ، وقوله: بل فعله كبيرُهُم هذا، وقوله عن زوجته: إنها أختي». والقصدُ أنَّه تخلَّف عنهم ليتمَّ له الكيدُ بآلهتهم. ولهذا {تولَّوا عنه مدبِرينَ}، فلما وجد الفرصة؛ {فراغ إلى آلهتهم}؛ أي: أسرع إليها على وجه الخفية والمراوغة، {فقال} متهكِّماً بها: {ألا تأكُلونَ. ما لكم لا تنطقونَ}؛ أي: فكيف يليقُ أن تُعْبَدَ وهي أنقص من الحيوانات التي تأكُلُ و تُكلِّم، وهذه جمادٌ لا تأكل ولا تُكلِّم؟! {فراغَ عليهم ضرباً باليمين}؛ أي: جعل يضربها بقوَّتِهِ ونشاطِهِ حتى جعلها جذاذاً؛ إلاَّ كبيراً لهم لعلَّهم إليه يرجِعون.
[93-88] حضرت ابراہیمu نے ان کے بتوں کو توڑنے کا ارادہ فرمایا ، چنانچہ جب وہ اپنی کسی عید کے لیے باہر نکلے تو ان مشرکین کی غفلت کی بنا پر ابراہیمu کو اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ہاتھ آ گیا آپ بھی ان کے ساتھ باہر نکلے۔ ﴿فَنَظَرَ نَظْ٘رَةً فِی النُّجُوْمِۙ ۰۰ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ﴾ ’’تب انھوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی اور کہا میں تو بیمار ہوں۔‘‘ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیمu نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے تین موقعوں کے ، ایک موقع پر فرمایا: ﴿اِنِّیْ سَقِیْمٌ ﴾ ’’میں بیمار ہوں‘‘ دوسرے موقع پر فرمایا: ﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖ ۗ كَبِیْرُهُمْ هٰؔذَا ﴾ (الانبیاء:21؍63) ’’بلکہ بتوں کے ساتھ یہ سلوک ان کے بڑے نے کیا ہے۔‘‘ اور تیسرے موقع پر اپنی بیوی کے بارے میں فرمایا: ’’یہ میری بہن ہے۔‘‘  ابراہیمu کا مقصد یہ تھا کہ وہ پیچھے رہ کر ان کے خود ساختہ معبودوں کو توڑنے کے منصوبے کی تکمیل کریں گے ﴿فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ ﴾ ’’تو وہ ان سے پیٹھ پھیر کر لوٹ گئے۔‘‘ پس ابراہیمu کو موقع مل گیا۔ ﴿فَرَاغَ اِلٰۤى اٰلِهَتِهِمْ ﴾ یعنی ابراہیمu جلدی سے اور چپکے سے ان کے معبودوں یعنی بتوں کے پاس گئے ﴿فَقَالَ﴾ اور تمسخر کے ساتھ ان سے کہا: ﴿اَلَا تَاْكُلُوْنَۚ۰۰ مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ ﴾ ’’تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمھیں کیا ہوا تم بولتے کیوں نہیں؟‘‘ وہ ہستی عبادت کے لائق کیسے ہو سکتی ہے جو حیوانات سے بھی کم تر ہو، حیوانات تو کھا پی اور بول بھی لیتے ہیں، یہ تو پتھر ہیں، کھا پی سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ ﴿فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًـۢا بِالْیَمِیْنِ ﴾ ’’، پھر ان کو اپنے ہاتھ سے مارنا شروع کیا۔‘‘ یعنی حضرت ابراہیمu نے نہایت قوت و نشاط کے ساتھ ان بتوں کو توڑنا شروع کیا، حتیٰ کہ تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، سوائے ان میں سے ایک بڑے بت کے، شاید کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
#
{94 ـ 96} {فأقبلوا إليه يزِفُّونَ}؛ أي: يسرعون ويُهْرَعون؛ يريدون أن يوقعوا به بعد ما بحثوا و {قالوا: مَنْ فَعَلَ هذا بآلهتنا إنَّه لمن الظالمين}؟ {وقيل لهم: سمِعْنا فتى يذكُرُهم يُقالُ له: إبراهيمُ}، يقول {تالله لأكيدنَّ أصنامَكُم بعدَ أن تُوَلُّوا مدبِرين}. فوبَّخوه ولاموه، فقال: {بل فَعَلَه كبيرُهم هذا فاسألوهم إن كانوا ينطِقون. فرجَعَوا إلى أنفسِهِم فقالوا إنَّكم أنتم الظالمونَ. ثم نُكِسوا على رؤوسِهِم لقد علمتَ ما هؤلاء ينطِقون. قال أفتعبدُونَ من دون اللهِ ما لا ينفعكم شيئاً ولا يضرُّكم ... } الآية، و {قال} هنا: {أتعبدُونَ ما تَنْحِتونَ}؛ أي: تنحِتونه بأيديكم وتصنعونه؛ فكيف تعبُدونهم وأنتم الذين صنعتُموهم، وتتركون الإخلاصَ لله الذي {خَلَقَكُم وما تعمَلون}؟!
[96-94] ﴿فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ یَزِفُّوْنَ ﴾ یعنی وہ لوگ بھاگے بھاگے آپ کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس حرکت کا مزا چکھائیں۔ تحقیق کے بعد کہنے لگے ﴿ مَنْ فَعَلَ هٰؔذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَ٘مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ (الانبیاء: 21؍59) ’’ہمارے ان معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے؟ وہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے۔‘‘ ان سے کہا گیا: ﴿سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُ﴾ (الانبیاء: 21/60) ’’ایک نوجوان کو، جس کا نام ابراہیم ہے، ان کاتذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔‘‘ وہ کہتا تھا: ﴿تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ (الانبیاء: 21؍57) ’’اللہ کی قسم! میں تمھاری عدم موجودگی میں، تمھارے بتوں کی خوب خبر لوں گا۔‘‘ چنانچہ انھوں نے ابراہیمu کو زجروتوبیخ اور ملامت کی۔ آپ نے فرمایا: ﴿ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖ ۗ كَبِیْرُهُمْ هٰؔذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۰۰ فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّـكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۰۰ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ۰۰قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْـًٔؔا وَّلَا یَضُرُّكُمْ﴾ (الانبیاء: 21؍63-66) ’’بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ بول سکتے ہیں تو انھی سے پوچھ لو، انھوں نے اپنے دل میں غور کیا اور بولے :بے شک تم ظالم ہو، پھر وہ پلٹ گئے اور کہنے لگے: تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ ابراہیم نے کہا: تب کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟‘‘ ﴿قَالَ ﴾ اس مقام پر ابراہیمu نے فرمایا: ﴿اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ﴾ یعنی جن کو تم خود اپنے ہاتھوں سے بناتے اور تراشتے ہو۔ تم ان چیزوں کو کیسے پوجتے ہو جن کو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کو چھوڑ دیتے ہو؟ جس نے ﴿خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰ ﴾’’تم کو اور جو تم کرتے ہو اس کو پیدا کیا۔‘‘
#
{97 ـ 98} {قالوا ابنوا له بنياناً}؛ أي: عالياً مرتفعاً وأوقِدوا فيه النارَ، {فألقوه في الجحيم}: جزاءً على ما فعل من تكسير آلهتهم، وأرادوا {به كيداً}: ليقتُلوه أشنعَ قِتْلَةٍ؛ {فجعلناهُمُ الأسفلينَ}: ردَّ الله كيدَهم في نُحورهم، وجَعَلَ النار على إبراهيم برداً وسلاماً.
[97، 98] ﴿قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا﴾ ’’تم کو اور جو تم کرتے ہو اس کو پیدا کیا انھوں نے کہا اس کے لیے ایک عمارت بناؤ ۔‘‘ یعنی اس کے لیے ایک بلند جگہ بناؤ اور وہاں آگ بھڑکاؤ ﴿فَاَلْقُوْهُ فِی الْؔجَحِیْمِ ﴾ ’’اور اسے اس الاؤ میں پھینک دو‘‘ یہ ہمارے معبودوں کو توڑنے کی سزا ہے۔ ﴿فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا ﴾ انھوں نے حضرت ابراہیمu کو بدترین طریقے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ﴿فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْ٘نَ ﴾ ’’تو ہم نے انھی کو نیچا دکھا دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو ناکام بنادیا اور آگ کو حضرت ابراہیمu کے لیے سلامتی کے ساتھ ٹھنڈا کر دیا۔
#
{99} {و} لما فعلوا فيه هذا الفعل، وأقام عليهم الحجة، وأعذر منهم؛ {قال إنِّي ذاهبٌ إلى ربِّي}؛ أي: مهاجر إليه، قاصدٌ إلى الأرض المباركة أرض الشام {سيهدينِ}: يدلُّني على ما فيه الخير لي من أمر ديني ودنياي. وقال في الآية الأخرى: {وأعْتَزِلُكم وما تَدْعونَ من دونِ الله وأدْعو ربِّي عسى ألاَّ أكونَ بِدُعاءِ ربي شَقِيًّا}.
[99] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ جب انھوں نے ابراہیمu کے ساتھ یہ سلوک کیا اور ابراہیمu نے ان پر حجت قائم کر کے ان کا عذر دور کر دیا تو: ﴿قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ ﴾ ’’فرمایا کہ میں تو اپنے رب کے پاس جانے والا ہوں۔‘‘ یعنی میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر کے بابرکت زمین، یعنی سرزمین شام کی طرف جانے والا ہوں۔ ﴿سَیَهْدِیْنِ ﴾ وہ میری اس چیز کی طرف راہنمائی فرمائے گا، جس میں میرے لیے دین و دنیا کی بھلائی ہو۔ ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖٞ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا ﴾ (مریم: 19؍48) ’’میں تم لوگوں سے علیحدہ ہوتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی، جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور اپنے رب کو پکاروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کرنا مراد نہ ہوں۔‘‘
#
{100} {ربِّ هَبْ لي}: ولداً يكون {من الصالحين}، وذلك عندما أيس من قومه، ولم يَرَ فيهم خيراً؛ دعا الله أن يَهَبَ له غلاماً صالحاً ينفع الله به في حياتِهِ وبعد مماتِهِ.
[100] ﴿رَبِّ هَبْ لِیْ ﴾ ’’اے میرے رب مجھے عطا کر‘‘ بیٹا جو ﴿مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’نیک لوگوں میں سے ہو‘‘ آپ نے یہ دعا اس وقت فرمائی جب آپ کو اپنی قوم سے بھلائی کی کوئی امید نہ رہی اور آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہ ایک نیک لڑکا عطا کرے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد کوئی فائدہ دے۔
#
{101} فاستجابَ اللَّه له وقال: {فبشَّرناه بغلام حَليم}: وهذا إسماعيلُ عليه السلام بلا شكٍّ؛ فإنَّه ذكر بعدَه البشارة بإسحاقَ، ولأنَّ الله تعالى قال في بُشراه بإسحاقَ: {فبشَّرنْاها بإسحاقَ ومِن وراء إسحاقَ يعقوبَ}: فدلَّ على أنَّ إسحاقَ غير الذبيح، ووَصَفَ الله إسماعيلَ عليه السلام بالحلم، وهو يتضمَّنُ الصبرَ وحسنَ الخُلُق وسَعَةَ الصدر والعفو عَمَّنْ جنى.
[101] اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ﴾ ’’تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔‘‘ بلاشک اس سے مراد اسماعیلu ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کے بعد ساتھ ہی اسحاقu کی بشارت بھی دی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر اسحاقu کے بارے میں اس طرح خوشخبری سنائی ہے: ﴿فَبَشَّرْنٰهَا بِـاِسْحٰؔقَ١ۙ وَمِنْ وَّرَؔآءِ اِسْحٰؔقَ یَعْقُوْبَ ﴾ (ہود: 11؍71) ’’ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسحاقu ذبیح نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیلu کو حلم سے موصوف کیا ہے، جو صبر، حسن خلق، وسیع القلبی اور قصور واروں سے عفو ودرگزر کو متضمن ہے۔
#
{102} {فلمَّا بَلَغَ الغلامُ معه السعيَ}؛ أي: أدرك أن يسعى معه، وبلغ سنًّا يكون في الغالب أحبَّ ما يكون لوالديه؛ قد ذهبتْ مشقَّتُه وأقبلتْ منفعتُهُ، فقال له إبراهيمُ عليه السلام: {إنِّي أرى في المنام أنِّي أذْبَحُكَ}؛ أي: قد رأيت في النوم والرؤيا أنَّ الله يأمُرُني بِذَبْحِكَ، ورؤيا الأنبياءِ وحيٌ. {فانْظُرْ ماذا ترى}؛ فإنَّ أمر الله تعالى لا بدَّ من تنفيذِهِ، فقال إسماعيلُ صابراً محتسباً مرضياً لربِّه وبارًّا بوالده: {يا أبتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرْ}؛ أي: امضِ لما أمَرَكَ الله، {سَتَجِدُني إن شاء الله من الصابرينَ}: أخبر أباه أنَّه موطِّنٌ نفسَه على الصبر، وقَرَنَ ذلك بمشيئة الله تعالى؛ لأنَّه لا يكون شيءٌ بدون مشيئةِ الله.
[102] ﴿فَلَمَّا بَلَ٘غَ ﴾ ’’پس جب پہنچا‘‘ لڑکا ﴿مَعَهُ السَّعْیَ ﴾ یعنی حضرت ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا اور اس کی اتنی عمر ہو گئی، جب وہ غالب طور پر اپنے والدین کو بہت محبوب ہوتا ہے، اس کی دیکھ بھال کی مشقت کم اور اس کی منفعت شروع ہو چکی ہوتی ہے تو آپ نے اس سے کہا: ﴿اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ ﴾ یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے رہا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں اور انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ﴿فَانْ٘ظُ٘رْ مَاذَا تَرٰى ﴾ ’’پس تم سوچو کہ تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ لازمی امر ہے۔ ﴿قَالَ ﴾ اسماعیلu نے اپنے باپ کی اطاعت، ثواب کی امید کرتے ہوئے نہایت صبر کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی ہو کر کہا: ﴿یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ﴾ اباجان اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے اسے کر گزریے ﴿سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ حضرت اسماعیلu نے اپنے والد محترم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے نفس کو صبر پر مجبور کریں گے اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے مقرون کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔
#
{103} {فلمَّا أسْلَما}؛ أي: إبراهيم وابنه إسماعيل: إبراهيم جازماً بقتل ابنه وثمرةِ فؤادِهِ امتثالاً لأمر ربِّه وخوفاً من عقابه، والابن قد وطَّن نفسه على الصبر، وهانتْ عليه في طاعة ربِّه ورضا والده، {وَتَلَّه للجبينِ}؛ أي: تلَّ إبراهيمُ إسماعيلَ على جبينِهِ لِيُضْجِعَه فيذبَحَه، وقد انكبَّ لوجهِهِ؛ لئلاَّ ينظرَ وقت الذبح إلى وجهِهِ.
[103] ﴿فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا ﴾ جب حضرت ابراہیمu اور حضرت اسماعیلu نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، حضرت ابراہیمu نے اپنے رب کی اطاعت میں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اپنے جگر گوشے کو ذبح کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور بیٹے نے اپنے آپ کو صبر پر مجبور کیا تو اس پر اپنے رب کی اطاعت اور اپنے والد کی رضا جوئی آسان ہو گئی۔ ﴿وَتَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ﴾ یعنی ابراہیمu نے اسماعیلu کو پیشانی کے بل گرا دیا تاکہ ذبح کرنے کے لیے ان کو لٹائیں۔ اسماعیلu اوندھے منہ لیٹ گئے تاکہ ذبح کے وقت ابراہیمu ان کے چہرے کو نہ دیکھ سکیں۔
#
{104 ـ 105} {وناديناه}: في تلك الحال المزعجة والأمر المدهش: {أن يا إبراهيمُ. قد صَدَّقْتَ الرؤيا}؛ أي: قد فعلتَ ما أُمِرْتَ به؛ فإنَّك وطَّنْتَ نفسك على ذلك، وفعلتَ كلَّ سبب، ولم يبقَ إلاَّ إمرار السكين على حلقه. {إنَّا كذلك نَجْزي المحسنين}: في عبادتنا، المقدِّمين رضانا على شهواتِ أنفسهم.
[104، 105] ﴿وَنَادَیْنٰهُ ﴾ یعنی اس انتہائی اضطرابی کیفیت اور دہشت ناک حالت میں، ہم نے ابراہیم کو آواز دی: ﴿اَنْ یّٰۤا ِبْرٰهِیْمُ۠ۙ۰۰ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَ٘ا﴾ ’’اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچا کردکھایا۔‘‘ یعنی آپ نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا، آپ نے اس حکم کی تعمیل پر اپنے نفس کو آمادہ کیا آپ نے اس حکم کی تعمیل کے لیے تمام اسباب اختیار کر لیے تھے، صرف حضرت اسماعیلu کے گلے پر چھری چلانا باقی رہ گیا تھا۔ ﴿اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں‘‘ جو ہماری عبادت میں احسان کے مرتبہ پر فائز ہیں اور اپنی خواہشات پر ہماری رضا کو مقدم رکھتے ہیں۔
#
{106} {إنَّ هذا}: الذي امتحنَّا به إبراهيمَ عليه السلام {لهو البَلاءُ المُبينُ}؛ أي: الواضح الذي تَبَيَّنَ به صفاءُ إبراهيم وكمالُ محبَّتِهِ لربِّه وخلَّتِهِ؛ فإن إسماعيلَ عليه الصلاة (والسلام) لما وَهَبَهُ الله لإبراهيم؛ أحبَّه حبًّا شديداً، وهو خليل الرحمن، والخلَّة أعلى أنواع المحبة، وهو منصبٌ لا يقبل المشاركة، ويقتضي أن تكونَ جميعُ أجزاء القلب متعلقةً بالمحبوب، فلما تعلقتْ شعبةٌ من شُعَبِ قلبِهِ بابنه إسماعيلَ؛ أراد الله تعالى أن يُصَفِّي وُدَّه ويختبرَ خُلَّتَهَ، فأمره أن يذبح مَنْ زاحَمَ حبُّه حبَّ ربِّه، فلما قَدَّمَ حبَّ الله وآثره على هواه وعزم على ذبحِهِ وزال ما في القلب من المزاحم، بقي الذبحُ لا فائدة فيه؛ فلهذا قال: {إنَّ هذا لهو البلاءُ المبينُ}.
[106] ﴿اِنَّ هٰؔذَا ﴾ ’’بے شک یہ بات‘‘ جس کے ذریعے سے ہم نے ابراہیم کا امتحان لیا ﴿لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ ﴾ ’’ البتہ وہ ایک واضح آزمائش تھی‘‘ اس کے ذریعے سے ابراہیمu کا اخلاص، اپنے رب کے لیے آپ کی کامل محبت اور آپ کی دوستی عیاں ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمu کو اسماعیلu عطا فرمائے، حضرت ابراہیمu حضرت اسماعیلu سے بے پناہ محبت کرتے تھے، وہ خود رحمٰن کے خلیل تھے اور خلت محبت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ ایک ایسا منصب ہے جو مشارکت کو قبول نہیں کرتا اور تقاضا کرتا ہے کہ قلب کے تمام اجزاء محبوب سے وابستہ رہیں۔ چونکہ حضرت ابراہیمu کے قلب کے کسی گوشہ میں، آپ کے بیٹے اسماعیلu کی محبت جاگزیں تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی محبت کو پاک صاف کرنے اور خلت کی آزمائش کا ارادہ فرمایا، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس ہستی کو قربان کر دینے کا حکم دیا جو آپ کے رب کی محبت سے مزاحم تھی۔و اللہ أعلم۔ جب ابراہیمu نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو خواہشات نفس پر مقدم رکھتے ہوئے، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم کر لیا تو قلب سے وہ داعیہ زائل ہو گیا جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے مزاحم تھا۔ اب بیٹے کو ذبح کرنے میں کوئی فائدہ باقی نہ رہا۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ هٰؔذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۰۰ ﴾ ’’بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی۔‘‘
#
{107} {وفديناه بِذبْحٍ عظيم}؛ أي: صار بَدَلَه ذبحٌ من الغنم عظيمٌ ذبحه إبراهيم، فكان عظيماً: من جهة أنَّه كان فداء لإسماعيلَ، ومن جهة أنَّه من جملة العبادات الجليلة، ومن جهة أنه كان قرباناً وسنةً إلى يوم القيامةِ.
[107] ﴿وَفَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’ اور ہم نے ایک بڑی قربانی کا ان کو فدیہ دیا۔‘‘ یعنی اسماعیلu کے بدلے میں ایک عظیم قربانی عطا ہوئی جس کو ابراہیمu نے ذبح فرمایا۔ یہ قربانی اس لحاظ سے عظیم تھی کہ اس کو اسماعیلu کے فدیہ میں قربان کیا گیا اور اس لحاظ سے بھی عظیم ہے کہ یہ جلیل القدر عبادات میں شمار ہوتی ہے ،نیز یہ اس لحاظ سے بھی عظمت کی حامل ہے کہ اس کو قیامت تک کے لیے سنت قرار دے دیا گیا ہے۔
#
{108 ـ 109} {وتركنا عليه في الآخرين. سلام على إبراهيم}؛ أي: وأبقينا عليه ثناءً صادقاً في الآخرين؛ كما كان في الأولين؛ فكل وقت بعد إبراهيم عليه السلام؛ فإنَّه فيه محبوبٌ معظَّم مثنى عليه. {سلامٌ على إبراهيم}؛ أي: تحية عليه؛ كقوله: {قُل الحمدُ لله وسلامٌ على عبادِهِ الذين اصطفى}.
[108، 109] ﴿وَتَرَؔكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ۰۰ سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ﴾ یعنی ہم نے قربانی کو، حضرت ابراہیمu کی سچی مدح و ثنا کے لیے، آنے والے لوگوں میں اسی طرح باقی رکھا جس طرح گزرے ہوئے لوگوں میں جاری تھی۔ ابراہیمu کو جب بھی یاد کیا جاتا ہے تو انھیں محبت، تعظیم اور ثنائے حسن کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ﴿سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ ﴾ یعنی اللہ کی طرف سے ابراہیمu پر سلام ہے، جیسے اس آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿قُ٘لِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰ٘مٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى ﴾ (النحل: 27؍59) ’’اے نبی! کہہ دیجیے، ہر قسم کی ستائش اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔‘‘
#
{110} {إنَّا كذلك نجزي المحسنين}: في عبادة الله ومعاملة خلقِهِ أن نُفَرِّجَ عنهم الشدائدَ، ونَجْعَلَ لهم العاقبة والثناء الحسن.
[110] ﴿كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مرتبہ احسان پر فائز اور اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں، ہم ان سے سختیاں دور کر دیتے ہیں اور انھیں اچھی عاقبت اور ثنائے حسن سے سرفراز کرتے ہیں۔
#
{111} {إنَّه من عبادِنا المؤمنينَ}: بما أمر الله بالإيمان به، الذين بَلَغَ بهم الإيمانُ إلى درجة اليقين؛ كما قال تعالى: {وكذلك نُري إبراهيمَ مَلَكوتَ السمواتِ والأرضِ وليكون من الموقنين}.
[111] ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘ حضرت ابراہیمu ان چیزوں پر ایمان رکھتے تھے جن پر ایمان رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ ان کے ایمان نے انھیں درجہ یقین پر پہنچا دیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَؔكَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ﴾ (الانعام:6؍75) ’’اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام دکھاتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘
#
{112} {وبَشَّرْناهُ بإسحاقَ نَبِيًّا من الصالحين}: هذه البشارة الثانية بإسحاقَ؛ الذي من ورائِهِ يعقوبَ، فَبُشِّرَ بوجوده وبقائه ووجود ذُرِّيَّتِهِ وكونه نبيًّا من الصالحين؛ فهي بشاراتٌ متعدِّدة.
[112] ﴿وَبَشَّرْنٰهُ بِـاِسْحٰؔقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت بھی دی کہ وہ نبی اور نیکوکاروں میں سے ہوں گے۔‘‘ یہ دوسری خوشخبری ہے جو حضرت اسحاقu کے بارے میں دی گئی جن کے بعد حضرت یقوبu کی خوشخبری دی گئی۔ پس آپ کو اسحاقu کے وجود، ان کی بقا، ان کی ذریت کے وجود، ان کے نبی اور صالح ہونے کی بشارت دی گئی ہے اور یہ متعدد بشارتیں ہیں۔
#
{113} {وبارَكْنا عليه وعلى إسحاقَ}؛ أي: أنْزَلْنا عليهما البركةَ التي هي النمو والزيادة في علمهما وعملهما وذريتهما، فنشر الله من ذُرِّيَّتِهِما ثلاث أمم عظيمة: أمة العرب من ذُرِّيَّةِ إسماعيلَ، وأمة بني إسرائيل، وأمة الروم من ذُرِّيَّةِ إسحاقَ. {ومن ذُرِّيَّتِهِما محسنٌ وظالمٌ لنفسِهِ مبينٌ}؛ أي: منهم الصالح والطالح، والعادل والظالم، الذي تبيَّن ظلمُهُ بكفرِهِ وشركِهِ، ولعل هذا من باب دفع الإيهام؛ فإنَّه لمَّا قال: {وبارَكْنا عليه وعلى إسحاقَ}؛ اقتضى ذلك البركة في ذُرِّيَّتِهِما، وأنَّ من تمام البركة أن تكون الذُّرِّيَّة كلُّهم محسنين، فأخبر الله تعالى أنَّ منهم محسناً وظالماً. والله أعلم.
[113] ﴿وَبٰرَؔكْنَا عَلَیْهِ وَعَلٰۤى اِسْحٰقَ ﴾ یعنی ہم نے ان دونوں پر برکت نازل فرمائی۔ یہاں برکت سے مراد نمو، ان کے علم و عمل اور ان کی اولاد میں اضافہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ دونوں کی نسل سے تین عظیم امتوں کو پیدا کیا، قوم عرب کو اسماعیلu کی نسل سے، قوم اسرائیل اور اہل روم کو اسحاقu کی نسل سے پیدا کیا۔ ﴿وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِیْنٌ ﴾ یعنی ان دونوں کی نسل میں نیک لوگ بھی تھے اور بدبھی، عدل و انصاف پر چلنے والے لوگ بھی تھے اور ظالم بھی، جن کا ظلم، ان کے کفروشرک کے ذریعے سے عیاں ہوا۔ آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا شاید دفع ایہام کے زمرے میں آتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَبٰرَؔكْنَا عَلَیْهِ وَعَلٰۤى اِسْحٰقَ ﴾ تقاضا کرتا ہے کہ برکت دونوں کی اولاد میں ہو اور کامل ترین برکت یہ ہے کہ ان کی تمام ذریت محسنین و صالحین پر مشتمل ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ان کی اولاد میں محسن بھی ہوں گے اور ظالم بھی۔ واللہ أعلم.
آیت: 114 - 122 #
{وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (114) وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (115) وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ (116) وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ (117) وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (118) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ (119) سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (120) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (121) إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (122)}.
اور البتہ تحقیق احسان کیا ہم نے اوپر موسی اور ہارون کے(114) اور نجات دی ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم کو بہت بڑی (بھاری) مصیبت سے(115) اور مدد کی ہم نے ان کی، پس ہوئے وہی غلبہ حاصل کرنے والے (116) اور دی ہم نے ان دونوں کو کتاب واضح (117) اور ہدایت دی ہم نے ان دونوں کو راہ راست کی (118) اور چھوڑا ہم نے ان دونوں پر پچھلے لوگوں میں(119)کہ سلام ہو اوپر موسی اور ہارون کے(120) بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو(121) بے شک وہ دونوں (تھے) ہمارے مومن بندوں میں سے(122)
#
{114 ـ 122} يذكُرُ تعالى منَّته على عبديه ورسوليه موسى وهارون ابني عمران بالنبوَّة والرسالة والدعوة إلى الله تعالى، ونجاتهما وقومهما من عدوِّهما فرعون، ونصرهما عليه، حتى أغرقه الله وهم ينظرون، وإنزال الله عليهما الكتاب المستَبين، وهو التوراة التي فيها الأحكام والمواعظُ وتفصيلُ كلِّ شيء، وأنَّ الله هداهما الصراطَ المستقيم؛ بأنْ شَرَعَ لهما ديناً ذا أحكام وشرائع مستقيمةٍ موصلةٍ إلى الله، ومَنَّ عليهما بسلوكِهِ. {وتَرَكْنا عليهما في الآخرين. سلامٌ على موسى وهارونَ}؛ أي: أبقى عليهما ثناء حسناً وتحيَّةً في الآخرين، ومن باب أولى وأحرى في الأوَّلين. {إنَّا كذلك نَجْزي المحسنين. إنَّهما من عبادِنا المؤمنينَ}.
[122-114] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے دو بندوں اور رسولوں یعنی عمران کے بیٹوں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونi کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان دونوں کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا، ان کو اور ان کی قوم کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دی، ان کے دشمن کو ان کی نظروں کے سامنے سمندر میں غرق کر کے ان کی مدد فرمائی اور ان پر حق و باطل کو واضح کرنے والی کتاب یعنی تورات نازل کی جو شرعی احکامات، مواعظ اور ہر چیز کی تفصیل پر مشتمل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی، انھیں دین عطا کیا جو ایسے احکامات و قوانین پر مشتمل تھا، جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اس راستے پر گامزن کر کے ان پر احسان فرمایا۔ ﴿وَتَرَؔكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ۰۰ سَلٰ٘مٌ عَلٰى مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ ﴾ یعنی ان کے بعد آنے والوں میں ان کی مدح، ثنائے حسن اور سلام کو باقی رکھا۔ ان کے اپنے زمانے کے لوگوں میں، ان کی مدح و ثنا کا موجود ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ﴿اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۰۰اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بے شک ہم نیکو کار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘
آیت: 123 - 132 #
{وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (123) إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ (124) أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (125) اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (126) فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (127) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (128) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (129) سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ (130) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (131) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (132)}.
اور بے شک الیاس (بھی) البتہ رسولوں میں سے تھا (123) جب کہا اس نے اپنی قوم سے، کیا نہیں تم ڈرتے؟ (124) کیا تم پکارتے ہو بعل (بت) کو اورچھوڑ دیتے ہو تم سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو (125) اللہ کو، (جو) رب ہے تمھارا اور رب ہے تمھارے پہلے باپ دادوں کا (126) پس جھٹلایا انھوں نے اس کو، بے شک وہ (سب) البتہ حاضر کیے جائیں گے (127) سوائے بندگانِ الٰہی کے(جو) خالص کیے (چنے) ہوئے ہیں (128) اورچھوڑا ہم نے اوپر اس کےپچھلے لوگوں میں(129) کہ سلام ہو ا لیا سین پر(130) بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو (131) بے شک وہ (تھا) ہمارے مومن بندوں میں سے(132)
#
{123 ـ 132} يمدحُ تعالى عبدَه ورسولَه إلياس عليه الصلاةُ والسلام بالنبوَّةِ والرسالة والدَّعوة إلى الله، وأنَّه أمر قومَه بالتَّقوى وعبادة الله وحدَه، ونهاهم عن عبادَتِهِم صنماً لهم يُقالُ له: بعلٌ، وتركِهِم عبادَة الله الذي خَلَقَ الخلقَ، وأحسنَ خَلْقَهم وربَّاهم فأحسنَ تربِيتهم، وأدرَّ عليهم النِّعَمَ الظاهرة والباطنة، وأنَّكم كيف تركتُم عبادةَ مَنْ هذا شأنُه إلى عبادة صنم لا يضرُّ ولا ينفع ولا يخلُق ولا يرزُقُ، بل لا يأكل ولا يتكلَّم، وهل هذا إلاَّ من أعظم الضلال والسَّفه والغيِّ. {فكذَّبوه}: فيما دعاهم إليه، فلم ينقادوا له، قال الله متوعِّداً لهم: {فإنَّهم لَمُحْضَرونَ}؛ أي: يوم القيامةِ في العذاب، ولم يذكرْ لهم عقوبةً دنيويَّةً {إلاَّ عباد الله المُخْلَصينَ}؛ أي: الذين أخلصهم الله ومَنَّ عليهم باتِّباع نبيِّهم؛ فإنَّهم غير محضرين في العذاب، وإنَّما لهم من الله جزيل الثواب. {وتركنا عليه}؛ أي: على إلياس {في الآخِرين}: ثناءً حسناً. {سلامٌ على إل ياسينَ}؛ أي: تحية من الله ومن عبادِهِ عليه. {إنَّا كذلك نَجْزي المُحْسِنينَ. إنَّه من عبادِنا المؤمنينَ}: فأثنى اللهُ عليه كما أثنى على إخوانِهِ صلواتُ الله وسلامُه عليهم أجمعينَ.
[132-123] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت الیاسu کی مدح کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس نے انھیں نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ حضرت الیاسu نے اپنی قوم کو تقویٰ اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا، انھیں ’’بعل‘‘ کے بت کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑنے سے روکا، جس نے انھیں بہترین طریقے سے تخلیق فرمایا، بہترین طریقے سے ان کی تربیت کی اور انھیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا۔ جس کی یہ شان ہو، تم اس اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر، اس بت کی عبادت کیسے کرتے ہو جو کسی نقصان کی قدرت رکھتا ہے نہ نفع کی، جو کچھ پیدا کر سکتا ہے نہ کسی کو رزق عطا کر سکتا ہے بلکہ اس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ کھا سکتا ہے نہ بول سکتا ہے، کیا اس کی عبادت کرنا سب سے بڑی گمراہی اور سب سے بڑی حماقت نہیں۔ ﴿فَكَذَّبُوْهُ ﴾ انھوں نے حضرت الیاسu کی دعوت کو جھٹلایا اور ان کی اطاعت نہ کی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ﴾ یعنی قیامت کے روز انھیں عذاب میں ڈالا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے لیے دنیاوی عذاب کا ذکر نہیں فرمایا۔ ﴿اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ جن کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص اور اپنے نبی کی اطاعت سے بہرہ ور کیا، ان کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑے ثواب سے نوازا جائے گا۔ ﴿وَتَرَؔكْنَا عَلَیْهِ ﴾ یعنی الیاسu کے لیے چھوڑ دیا ﴿فِی الْاٰخِرِیْنَ﴾ یعنی آنے والے لوگوں میں ان کے لیے ثنائے حسن کو باقی رکھا ﴿سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِلْ یَ٘اسِیْنَ ﴾ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی طرف سے الیاس پر سلام ہے ﴿اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۰۰اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے الیاسu کی اسی طرح مدح و ثنا بیان کی جس طرح دیگر انبیاء و مرسلینi کو مدح و ثنا سے نوازا۔
آیت: 133 - 138 #
{وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (133) إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (134) إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (135) ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ (136) وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ (137) وَبِاللَّيْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (138)}.
اور بلاشبہ لوط البتہ رسولوں میں سے تھا (133) جب نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے اہل کو سب کو (134) سوائے ایک بڑھیا کے(جو تھی) پیچھے رہ جانے والوں میں (135) پھر ہلاک کر دیا ہم نے دوسروں کو (136) اور بے شک تم البتہ گزرتے ہو، ان (کے گھروں) پر صبح کے وقت (137) اور رات میں، کیا پس نہیں تم عقل رکھتے؟ (138)
#
{133 ـ 138} وهذا ثناءٌ منه تعالى على عبدِهِ ورسولِهِ لوطٍ بالنبوَّة والرسالة ودعوتِهِ إلى الله قومَه ونهِيِهم عن الشرك وفعل الفاحشةِ، فلمَّا لم ينتهوا؛ نجَّاه الله وأهلَه أجمعين، فَسَرَوْا ليلاً، فنجَوْا؛ {إلاَّ عجوزاً في الغابرين}؛ أي: الباقين المعذَّبين، وهي زوجة لوطٍ، لم تكن على دينِهِ. {ثم دمَّرْنا الآخرين}: بأن قَلَبْنا عليهم ديارَهم فجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها، وأمْطَرْنا عليها حجارةً من سِجِّيل منضودٍ حتى هَمَدوا وخَمَدوا، {وإنَّكُم لتمرُّون عليهم}؛ أي: على ديار قوم لوطٍ {مصبحينَ. وبالليل}؛ أي: في هذه الأوقات يكثُرُ تَرَدُّدُكم إليها ومروركم بها، فلم تقبل الشك والمِرْيَةَ. {أفلا تعقلونَ}: الآياتِ والعِبَرَ وتنزجِرون عمَّا يوجِبُ الهلاكَ؟!
[138-133] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے اور رسول حضرت لوطu کی مدح و ثنا ہے کہ اس نے آپ کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا، نیز یہ کہ آپ نے اپنی قوم کو شرک اور فواحش سے روکا جب وہ شرک اور فواحش سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوطu اور ان کے گھر والوں کو ان بداعمال لوگوں سے بچا لیا اور وہ راتوں رات نکل گئے۔ ﴿اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰؔبِرِیْنَ ﴾ سوائے ایک بڑھیا کے، جو عذاب کی لپیٹ میں آنے والوں کے ساتھ شامل تھی۔ یہ لوطu کی بیوی تھی اور آپ کے دین پر نہ تھی۔ ﴿ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ ﴾ ’’ پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا۔‘‘ یعنی ہم نے ان پر ان کی بستیوں کو الٹ دیا: ﴿جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍ﴾ (ہود: 11؍82) ’’ہم نے ان کی بستی کو تلپٹ کر دیا اور ان پر کھنگر کے پتھر برسائے۔‘‘ حتی کہ ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ ﴿وَاِنَّـكُمْ لَ٘تَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ ﴾ یعنی قوم لوط کی بستیوں پر سے تمھارا گزر ہوتا ہے ﴿مُّصْبِحِیْنَ۰۰ وَبِالَّیْلِ ﴾ ’’دن کو بھی اور رات کو بھی۔‘‘ یعنی ان اوقات میں، نہایت کثرت سے تم وہاں سے گزرتے ہو، ان بستیوں کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ ﴿اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ کیا تم آیات کو سمجھتے نہیں؟ اور کیا تم ان اعمال سے رکتے نہیں جو ہلاکت کے موجب ہیں۔
آیت: 139 - 148 #
{وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (139) إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (140) فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ (141) فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ (142) فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (144) فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ (145) وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ (146) وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (147) فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (148)}.
اور بے شک یونس البتہ رسولوں میں سے تھا(139) جب وہ بھاگ کر گیا طرف کشتی بھری ہوئی کے (140) پس قرعہ اندازی کی(اہل کشتی نے) تو ہو گیا وہ شکست خوردگان میں سے (141) پس نگل لیا اس کو مچھلی نے جبکہ وہ (خودکو) ملامت کرنے والا تھا (142) پس اگر نہ ہو تی یہ بات کہ بے شک تھا وہ تسبیح کرنے والوں میں سے (143) تو رہتا وہ اس کےپیٹ میں اس دن تک کہ اٹھائے جائیں گے لوگ زندہ کر کے (اس میں) (144) پس ڈال دیا ہم نے اسے چٹیل میدان میں، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا (145) اور اگا دیا ہم نے اس پر ایک درخت بیل دار(جیسے کدو وغیرہ کی بیل) (146) اور بھیجا ہم نے اس کو طرف ایک لاکھ کی یا (اس سے کچھ) زیادہ ہوں گے (147) پس وہ ایمان لے آئے تو ہم نے فائدہ (اٹھانے کا موقع) دیا ان کو ایک وقت (مقرر) تک (148)
#
{139} وهذا ثناءٌ منه تعالى على عبدِهِ ورسولِهِ يونسَ بن متَّى؛ كما أثنى على إخوانِهِ المرسَلين بالنبوَّة والرسالة والدَّعوة إلى الله.
[139] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اپنے بندے اور رسول یونس بن متیu کی مدح و ثنا ہے، جیسا کہ اس نے آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے ذریعے سے مدح و ثنا سے نوازا۔
#
{140} وذكر تعالى عنه أنَّه عاقَبَه عقوبةً دنيويَّةً أنجاه منها بسبب إيمانِهِ وأعمالِهِ الصالحة، فقال: {إذْ أبَقَ}؛ أي: من ربِّه مغاضِباً له ظانًّا أنه لا يقدِرُ عليه ويحبِسُه في بطن الحوت، ولم يذكُرِ الله ما غاضبَ عليه ولا ذَنْبَهُ الذي ارتكبه؛ لعدم فائِدَتِنا بذكرِهِ، وإنَّما فائدتُنا بما ذكرنا عنه أنه أذنبَ، وعاقبه الله مع كونِهِ من الرُّسل الكرام، وأنَّه نجَّاه بعد ذلك، وأزال عنه الملامَ، وقيَّضَ له ما هو سببُ صلاحِهِ. فلمَّا أبَقَ؛ لجأ {إلى الفلك المشحونِ}: بالركاب والأمتعة.
[140] اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے حضرت یونسu کو دنیاوی عقوبت میں مبتلا کیا، پھر آپ کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب سے آپ کو اس عذاب سے نجات دی۔ ﴿اِذْ اَبَقَ ﴾ ’’جب بھاگے‘‘یعنی اپنے رب سے ناراض ہو کر یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کشتی میں فرار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے ناراضی کا سبب نہیں بتایا اور نہ اس گناہ ہی کا ذکر فرمایا جس کا آپ نے ارتکاب کیا کیونکہ اس کے تذکرے میں ہمارے لیے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں صرف اسی چیز میں فائدہ ہے جس کا ذکر کیا گیا کہ حضرت یونسu سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو، آپ کے رسول ہونے کے باوجود سزا دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کرب سے نجات دی، آپ سے ملامت کو دور کر دیا اور آپ کے لیے وہ امور مقدر کیے جو آپ کی اصلاح کا سبب تھے۔ جب آپ بھاگ کر ﴿اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ﴾ مسافروں اور سامان سے بھری ہوئی کشتی میں جاسوار ہوئے۔
#
{141} فلما رَكِبَ مع غيره والفلك شاحن؛ ثقلتِ السفينةُ، فاحتاجوا إلى إلقاءِ بعضِ الركبانِ، وكأنَّهم لم يجِدوا لأحدٍ مزيَّةً في ذلك، فاقترعوا على أنَّ مَنْ قُرِعَ وغُلِبَ؛ ألقي في البحر؛ عدلاً من أهل السفينة، وإذا أراد الله أمراً؛ هيَّأ أسبابه، فلما اقترعوا؛ أصابتِ القرعةُ يونسَ. {فكان من المُدْحَضينَ}؛ أي: المغلوبين، فألقي في البحر.
[141] کشتی پہلے ہی سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جب آپ سوار ہوئے تو کشتی بوجھل ہو گئی۔ انھیں حاجت محسوس ہوئی کہ وہ سواریوں میں سے کسی سواری کو سمندر میں پھینک دیں مگر یوں لگتا ہے کہ کسی کو سمندر میں پھینکنے کے لیے اس کی کوئی امتیازی علامت نہ تھی اس لیے انھوں نے قرعہ اندازی کی کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا اسے سمندر میں پھینک دیا جائے گا یہ کشتی والوں کا انصاف پر مبنی فیصلہ تھا۔اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے اسباب فراہم کر دیتا ہے۔ جب کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی تو حضرت یونسu کے نام قرعہ نکل آیا ﴿فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ﴾ یعنی حضرت یونسu قرعہ اندازی میں مغلوب ہو گئے اور ان کو سمندر میں ڈال دیا گیا۔
#
{142} {فالْتَقَمَهُ الحوتُ وهو}: وقت التقامِهِ {مُليمٌ}؛ أي: فاعلٌ ما يُلام عليه، وهو مغاضبتُهُ لربِّه.
[142] ﴿فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ﴾ ’’پس مچھلی نے انھیں نگل لیا اور وہ‘‘ ﴿مُلِیْمٌ ﴾ ’’ملامت کرنے والے تھے‘‘ یعنی انھوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا تھا جس پر ملامت کی جاتی ہے اور وہ ہے آپ کا اپنے رب سے ناراض ہونا۔
#
{143 ـ 144} {فلولا أنَّه كان من المسبِّحينَ}؛ أي: في وقتِه السابقِ بكثرةِ عبادته لربِّه وتسبيحِهِ وتحميدِهِ وفي بطن الحوت حيث قال: {لا إله إلا أنت سبحانَكَ إنِّي كُنْتُ من الظالمين}؛ {لَلَبِثَ في بطنِهِ إلى يوم يُبْعَثونَ}؛ أي: لكانتْ مقبرتَهَ، ولكن بسبب تسبيحِهِ وعبادتِهِ لله؛ نجَّاه الله تعالى، وكذلك ينجي الله المؤمنين عند وقوعهم في الشدائد.
[144,143] ﴿فَلَوْلَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۠﴾ یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے اگر حضرت یونسu نے اپنے رب کی نہایت کثرت سے عبادت اور تسبیح و تحمید نہ کی ہوتی اور مچھلی کا لقمہ بن جانے کے بعد، نہایت کثرت سے یہ نہ کہا ہوتا ﴿ لَّاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰؔنَكَ١ۖ ۗ اِنِّیْؔ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانبیاء: 21؍87) ’’تیرے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔‘‘ ﴿لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ﴾ ’’تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ ہی میں رہتے‘‘ یعنی مچھلی کا پیٹ یونسu کی قبر ہوتا، مگر آپ کی عبادت الٰہی اور تسبیح کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور اہل ایمان جب کبھی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسی طرح انھیں نجات دیتا ہے۔
#
{145} {فَنبَذْناه بالعراءِ}: بأنْ قَذَفَهُ الحوت من بطنِهِ بالعراء، وهي الأرض الخالية العاريةُ من كلِّ أحدٍ، بل ربَّما كانت عارية من الأشجارِ والظِّلال. {وهو سقيمٌ}؛ أي: قد سَقِمَ ومَرِضَ بسبب حبسِهِ في بطن الحوت حتى صار مثل الفرخ الممعوط من البيضة.
[145] ﴿فَنَبَذْنٰهُ بِالْ٘عَرَآءِ ﴾ یعنی مچھلی نے حضرت یونسu کو ایک چٹیل زمین پر نکال پھینکا: (اَلْعَرَاء) سے مراد وہ زمین ہے جو ہر لحاظ سے خالی ہو، بسااوقات وہاں درخت بھی نہیں ہوتے۔ ﴿وَهُوَ سَقِیْمٌ﴾ مچھلی کے پیٹ میں محبوس رہنے کی بنا پر آپ بیمار ہو گئے تھے حتیٰ کہ آپ کی یہ حالت ہو گئی تھی جیسے انڈے سے نکلا ہوا بے بال چوزہ ہو۔
#
{146} {وأنبَتْنا عليه شجرةً من يَقْطينٍ}: تُظِلُّه بظلِّها الظليل؛ لأنَّها باردةُ الظِّلال، ولا يسقُطُ عليها ذبابٌ، وهذا من لطفِهِ به وبرِّه.
[146] ﴿وَاَنْۢـبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ﴾ ’’اور ان پر کدو کی بیل اگائی۔‘‘ جس نے آپ کو اپنے گھنے سائے تلے لے لیا کیونکہ اس کا سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور اس پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم تھا۔
#
{147 ـ 148} ثم لَطَفَ به لطفاً آخرَ، وامتنَّ عليه مِنَّةً عظمى، وهو أنَّه أرسله {إلى مائةِ ألفٍ}: من الناس {أو يَزيدونَ}: عنها، والمعنى أنَّهم إنْ لم يزيدوا عنها؛ لم ينقُصوا، فدعاهم إلى الله تعالى، {فآمنوا}: فصاروا في موازينِهِ؛ لأنَّه الدَّاعي لهم، {فمتَّعْناهم إلى حينٍ}: بأن صَرَفَ الله عنهم العذابَ بعد ما انعقدتْ أسبابُهُ؛ قال تعالى: {فلولا كانتْ قريةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَها إيمانُها إلاَّ قومَ يونُسَ لما آمنوا كَشَفْنا عنهم عذابَ الخِزْي في الحياة الدُّنيا ومَتَّعْناهم إلى حينٍ}.
[147، 148] ایک اور پہلو سے بھی آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا لطف و کرم اور ایک عظیم احسان تھا ﴿وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ ﴾ ’’ہم نے مبعوث کیا ان کو ایک لاکھ کی طرف لوگوں میں سے ﴿اَوْ یَزِیْدُوْنَ ﴾ ’’یا ان سے زیادہ کی طرف۔‘‘ معنی یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھے۔ حضرت یونسu نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی: ﴿فَاٰمَنُوْا ﴾ ’’پس وہ ایمان لائے۔‘‘ چنانچہ ان کا ایمان لانا بھی حضرت یونسu کے اعمال نامہ میں لکھا گیا کیونکہ وہی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والے تھے ﴿فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ﴾ ’’پس ہم نے انھیں ایک مدت تک فائدہ پہنچایا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا حالانکہ اس کے تمام اسباب ظاہر ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَ٘رْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُ٘سَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ﴾ (یونس: 10؍98) ’’کیا کوئی ایسی بستی ہے، جو (عذاب دیکھ کر) ایمان لائی اور ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ دیا ہو، یونس کی قوم کے سوا۔ وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوا کن عذاب ٹال دیا اور ایک وقت تک ہم نے ان کو دنیا سے بہرہ مند ہونے دیا۔‘‘
آیت: 149 - 157 #
{فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ (149) أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ (150) أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ (151) وَلَدَ اللَّهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (152) أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ (153) مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (154) أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (155) أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (156) فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (157)}.
پوچھیے ان سے، کیا آپ کے رب کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟(149) یا پیدا کیا ہم نے فرشتوں کو مؤنث اور وہ دیکھ رہے تھے؟(150) خبردار! بلاشبہ وہ اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر البتہ کہتے ہیں(151) اولاد ہے اللہ کی، اور بے شک وہ البتہ جھوٹے ہیں(152) کیا اس نے پسند کیا بیٹیوں کو اوپر بیٹوں کے؟ (153) کیا ہے تمھیں، کیسا تم فیصلہ کرتے ہو؟ (154) کیا پس نہیں تم غور کرتے؟ (155) یا تمھارے لیے ہے کوئی دلیل واضح ؟ (156) پس لے آؤ تم اپنی کتاب اگر ہو تم سچے (157)
#
{149} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم - {فاسْتَفْتِهِمْ}؛ أي: اسأل المشركين باللهِ غيرَه، الذين عبدوا الملائكةَ وزَعَموا أنَّها بناتُ الله، فجمعوا بين الشركِ بالله ووصفِهِ بما لا يَليقُ بجلالِهِ. {ألربِّكَ البناتُ ولهم البنونَ}؛ أي: هذه قسمةٌ ضيزى، وقولٌ جائرٌ من جهة جعلهم الولدَ لله تعالى، ومن جهة جعلِهِم أردأ القسمينِ وأخسَّهما له، وهو البناتُ، التي لا يَرْضَوْنَهُنَّ لأنفسِهِم؛ كما قال في الآية الأخرى: {ويَجْعَلونَ لله البناتِ سبحانَه ولهم ما يَشْتَهونَ}، ومن جهةِ جعلِهِم الملائكةَ بناتٍ لله، وحكمِهِم بذلك.
[149] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ ﴾ یعنی غیراللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے والوں سے پوچھیے، جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، انھوں نے شرک کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات سے موصوف کیا جو اس کی جلالت شان کے لائق نہیں ﴿اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ﴾ ’’کیا آپ کے رب کی تو بیٹیاں ہیں اور ان کے بیٹے ہیں؟‘‘ یہ نہایت ہی ظالمانہ تقسیم اور جور پر مبنی قول ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد بنا دی، اور دونوں اقسام میں کمتر قسم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دی، یعنی اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بنا دیں حالانکہ وہ خود اپنے لیے بیٹیوں پر راضی نہیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰؔنَهٗ١ۙ وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ﴾ (النحل: 16؍57) ’’اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں اور خود اپنے لیے وہ مقرر کرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔‘‘ نیز اس لحاظ سے انھوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے دیا۔
#
{150} قال تعالى في بيان كَذِبِهم: {أمْ خَلَقْنا الملائكةَ إناثاً وهم شاهِدونَ}: خَلْقَهم؛ أي: ليس الأمر كذلك؛ فإنَّهم ما شَهِدوا خلقَهم، فدلَّ على أنَّهم قالوا هذا القول بلا علم، بل افتراءٌ على الله.
[150] اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی دروغ گوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ ﴾ ’’کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ (اس وقت) موجود تھے؟‘‘ یعنی کیا وہ ان کی تخلیق کے گواہ ہیں؟ ایسا نہیں ہے، وہ فرشتوں کی تخلیق کو دیکھ نہیں رہے تھے لہذا یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا قول بلاعلم اور اللہ تعالیٰ پر بہتان ہے۔
#
{151 ـ 157} ولهذا قال: {ألا إنَّهم من إفْكِهِم}؛ أي: كذبهم الواضح؛ {ليَقولونَ وَلَدَ اللهُ وإنَّهم لَكاذبونَ. أصطفى}؛ أي: اختار {البناتِ على البنينَ. مالَكُم كيفَ تَحْكُمونَ}: هذا الحكمَ الجائرَ. {أفلا تَذَكَّرونَ}: وتميِّزونَ هذا القول الباطل الجائر؟ فإنَّكم لو تَذَكَّرْتُم؛ لم تقولوا هذا القول. {أم لكم سلطانٌ مبينٌ}؛ أي: حجَّة ظاهرةٌ على قولكم من كتابٍ أو رسول، وكلُّ هذا غير واقع، ولهذا قال: {فأتوا بكتابِكُم إن كُنتُم صادقينَ}: فإنَّ مَنْ يقولُ قولاً لا يُقيم عليه حجَّة شرعيَّة؛ فإنَّه كاذبٌ متعمِّدٌ أو قائلٌ على الله بلا علم.
[157-151] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَاۤ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْــكِهِمْ ﴾ ’’آگاہ رہو! یہ لوگ صرف افترا پردازی سے یعنی واضح جھوٹ کی بنا پر ﴿لَیَقُوْلُوْنَۙ۰۰ وَلَدَ اللّٰهُ١ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے، بلاشک یہ جھوٹے ہیں۔‘‘ ﴿اَصْطَفَى ﴾ ’’کیا اس نے ترجیح دی ہے‘‘ یعنی اس نے چنا ہے ﴿الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِیْنَؕ۰۰ مَا لَكُمْ١۫ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ ﴾ ’’بیٹوں کی بجائے بیٹیوں کو تم (ظلم و جور پر مبنی) کیسا فیصلہ کرتے ہو‘‘ ﴿اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ﴾ کیا تم نصیحت حاصل کر کے اس باطل اور ظلم کے حامل قول کو سمجھتے نہیں؟ اگر تم نے نصیحت پکڑی ہوتی تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے۔ ﴿اَمْ لَكُمْ سُلْطٰ٘نٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’کیا تمھارے پاس کوئی واضح دلیل ہے؟‘‘ یعنی کتاب یا رسول کی کوئی واضح حجت ہے؟ یہ سب کچھ خلاف واقعہ ہے، اس لیے فرمایا ﴿فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اگر تم سچے ہو تو اپنی کتاب پیش کرو۔‘‘ کیونکہ جو کوئی ایسی بات کہتا ہے جس پر کوئی شرعی دلیل قائم نہ کر سکے، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے یا بلادلیل اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے۔
آیت: 158 - 160 #
{وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (158) سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (159) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (160)}.
اور ٹھہرایا انھوں نے درمیان اس (اللہ) کے اور درمیان جنوں کے رشتہ، اور البتہ تحقیق جان لیا جنوں نے کہ بلاشبہ وہ حاضر کیے جائیں گے(158) پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو وہ (اس کی بابت) بیان کرتے ہیں(159) سوائے بندگان الٰہی کے (جو) خالص کیے (چنے) ہوئے ہیں(160)
#
{158} أي: جعل هؤلاء المشركون باللهِ بين اللهِ وبين الجِنَّةِ نَسَباً؛ حيث زَعَموا أنَّ الملائكةَ بناتُ الله، وأنَّ أمهاتِهِم سَرَواتُ الجنِّ! والحالُ أنَّ الجِنَّةَ قد علمتْ أنَّهم مُحْضَرونَ بين يدي الله لِيُجازِيَهم؛ فهم عبادٌ أذلاَّءٌ؛ فلو كان بينَهم وبينَه نسبٌ؛ لم يكونوا كذلك.
[158] یعنی ان مشرکین نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے درمیان بھی نسبی تعلق جوڑ دیا ہے۔ ان کا زعم باطل ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور بڑے بڑے سردار جن ان کی مائیں ہیں، حالانکہ جنات بھی جانتے ہیں کہ وہ جزا و سزا کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عاجز اور فروتر بندے ہیں۔ اگر ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی نسبی رشتہ ہوتا تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔
#
{159 ـ 160} {سبحانَ الله}: الملك العظيم، والكامل الحليم، عما يصِفه به المشركون من كل وصفٍ أوجَبَه كفرُهم وشركُهم. {إلاَّ عبادَ الله المخلَصين}: فإنَّه لم يُنَزِّهْ نفسَه عمَّا وَصَفوه به؛ لأنَّهم لم يَصِفوه إلاَّ بما يليق بجلالِهِ، وبذلك كانوا مخلَصين.
[159، 160] ﴿سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ ﴾ ان کا رب بادشاہ عظیم اور حلیمِ کامل ان تمام اوصاف سے منزہ اور پاک ہے جو مشرکین اس کے بارے میں بیان کررہے ہیں جو ان کے کفر و شرک نے اس کے متعلق واجب ٹھہرایا ہے ﴿اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں نے اسے جن اوصاف سے موصوف کیا اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف سے اپنے آپ کو منزہ نہیں کہا کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو صرف انھی اوصاف سے موصوف کیا ہے جو اس کے جلال کے لائق ہیں اور بایں وجہ وہ مخلص بندے ہیں۔
آیت: 161 - 163 #
{فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ (161) مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ (162) إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ (163)}.
بے شک تم اور(وہ) جن کی تم عبادت کرتے ہو(161) نہیں ہو تم اس (اللہ) کے خلاف بہکانے والے (162) مگر اسی کو جو ہے جانے والا جہنم میں (163)
#
{161 ـ 163} أي: إنَّكم أيُّها المشركون ومَنْ عَبَدْتُموه مع الله لا تقدِرون أن تَفْتِنوا وتُضِلُّوا أحداً إلاَّ مَنْ قضى الله أنَّه من أهل الجحيم، فَنَفَذَ فيه القضاءُ الإلهيُّ. والمقصودُ من هذا بيانُ عجزِهم وعجزِ آلهتهم عن إضلال أحدٍ، وبيانُ كمال قدرةِ الله تعالى؛ أي: فلا تَطْمَعوا بإضلال عبادِ الله المخلَصين وحزبِه المفلحين.
[163-161] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اے مشرکو! تم اور تمھارے خود ساختہ الٰہ کسی کو فتنہ میں مبتلا کرنے یا گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو گیا۔ یہاں کسی کو گمراہ کرنے کے بارے میں، ان کا اور ان کے معبودوں کا عجز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کرنا مقصود ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص اور فلاح یافتہ بندوں کو راہ راست سے ہٹانے کی امید نہ رکھو۔
آیت: 164 - 166 #
{وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ (164) وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ (165) وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ (166)}.
اور نہیں ہے ہم میں سے (کوئی) مگر اس کے لیے مرتبہ ہے معلوم(اللہ کے نزدیک) (164) اور بلاشبہ ہم البتہ صف باندھے، کھڑے رہنے والے ہیں (165) اور بے شک ہم البتہ تسبیح (پاکیزگی بیان) کرنے والے ہیں(166)
#
{164 ـ 166} هذا فيه بيانُ براءة الملائكة عليهم السلام عمَّا قاله فيهم المشركونَ، وأنَّهم عبادُ الله، لا يعصونَه طرفةَ عينٍ؛ فما منهم من أحدٍ إلاَّ وله مقامٌ وتدبيرٌ قد أمره الله به لا يتعدَّاه ولا يتجاوزه، وليس لهم من الأمر شيءٌ، {وإنَّا لنحنُ الصافُّون}: في طاعة الله وخدمتِهِ، {وإنَّا لنحنُ المسبِّحونَ}: لله عما لا يَليقُ به؛ فكيف مع هذا يَصْلُحون أن يكونوا شركاء لله، تعالى الله!
[166-164] یہ فرشتوں کے بارے میں کفار کی بہتان طرازی سے براء ت کا بیان ہے، نیز یہ کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور لمحہ بھر کے لیے اس کی نافرمانی نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو ایک مقام اور کسی تدبیر کی ذمہ داری سونپی ہے وہ اس سے تجاوز کر سکتے ہیں نہ انھیں کسی چیز کا کوئی اختیار ہے۔ ﴿وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ﴾ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور خدمت میں صف آرا ہوتے ہیں۔ ﴿وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ۠ ﴾ ’’اور بے شک ہم پاکی بیان کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ کی ہر ایسے وصف سے جو اس کی کبریائی کے لائق نہیں۔ بایں ہمہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے بہتان سے بلندوبالاتر ہے۔
آیت: 167 - 182 #
{وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَ (167) لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَ (168) لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (169) فَكَفَرُوا بِهِ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (170) وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ (171) إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ (172) وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (173) فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ (174) وَأَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ (175) أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ (176) فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ (177) وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ (178) وَأَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُونَ (179) سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (182)}.
اور یقیناً تھے وہ کہتے(167) اگر ہوتی ہمارے پاس نصیحت (کتاب) پہلے لوگوں کی(168) تو البتہ ضرور ہوتے ہم بندے اللہ کے برگزیدہ( چنے) ہوئے (169) سو انکار کیا انھوں نے اس کا ، پس عنقریب وہ جان لیں گے(170) اور یقیناً پہلے سے صادر ہو چکی ہماری بات، اپنے بندوں کے لیے جو فرستادگان (رسول) ہیں (171) کہ بے شک البتہ وہی مدد کیے جائیں گے(172) اور بلاشبہ ہمارا لشکر البتہ وہی غالب رہے گا(173) اور منہ موڑ لیجیے ان سے ایک مدت تک(174) اوردیکھیے انھیں! پس عنقریب وہ بھی دیکھیں گے(175)کیا پس ہمارا عذاب وہ جلدی مانگتے ہیں؟(176)پس جب ناز ل ہو گا وہ ان کے صحن میں، تو بری ہو گی صبح ڈرائے گئے لوگوں کی (177) اوراعراض کر لیجیے ان سے ایک مدت تک (178) اور دیکھیے! پس عنقریب وہ بھی دیکھیں گے(179) پاک ہے آپ کا رب، مالک عزت کا، ان باتوں سے جو وہ (مشرک)بیان کرتے ہیں (180) اور سلام ہے اوپر رسولوں کے(181) اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو رب ہے سب جہانوں کا (182)
#
{167 ـ 170} يخبرُ تعالى أنَّ هؤلاء المشركين يُظْهِرونَ التمنِّي ويقولون: لو جاءنا من الذِّكْرِ والكتبِ ما جاء الأولين؛ لأخْلَصْنا لله العبادة، بل لكنَّا المخلِصينَ على الحقيقةِ، وهم كَذَبَةٌ في ذلك؛ فقد جاءهم أفضلُ الكتب فكفروا به، فعُلِمَ أنَّهم متمرِّدونَ على الحقِّ. {فسوف يعلمونَ}: العذابَ حين يقعُ بهم.
[170-167] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ مشرکین اس تمنا کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس بھی کتابیں آتیں جیسے پہلے لوگوں پر کتابیں آئی تھیں تو ہم خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے، بلکہ ہم حقیقی مخلص ہوتے۔ وہ اس بارے میں جھوٹ بولتے ہیں ان کے پاس سب سے افضل کتاب آئی، مگر انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پس معلوم ہوا کہ وہ حق کے مقابلے میں تکبر کا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ ﴿فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ عنقریب جب ان پر عذاب واقع ہو گا تو انھیں معلوم ہو جائے گا۔
#
{171 ـ 179} ولا يحسبوا أيضاً أنَّهم في الدنيا غالبون، بل قد سَبَقَتْ كلمةُ الله التي لا مردَّ لها ولا مخالفَ لها لعبادِهِ المرسَلين وجندِهِ المفلِحين أنَّهم الغالبونَ لغيرِهِم المنصورون من ربِّهم نصراً عزيزاً يتمكَّنون فيه من إقامة دينهم. وهذه بشارةٌ عظيمةٌ لمن اتَّصف بأنَّه من جندِ الله؛ بأن كانت أحوالُهُ مستقيمةً، وقاتلَ مَنْ أمر بقتالهم أنه غالبٌ منصورٌ. ثم أمر رسولَه بالإعراض عَمَّنْ عاندوا ولم يَقْبَلوا الحقَّ، وأنَّه ما بقي إلاَّ انتظارُ ما يَحِلُّ بهم من العذاب، ولهذا قال: {وأبصرهم فسوفَ يُبْصِرونَ}: مَنْ يَحِلُّ به النَّكالُ؛ فإنَّه سيحلُّ بهم. {فإذا نَزَلَ بساحتِهِم}؛ أي: نزل عليهم وقريباً منهم، {فساء صَباحُ المُنْذَرينَ}؛ لأنَّه صباح الشرِّ والعقوبة والاستئصال. ثم كرَّر الأمر بالتولِّي عنهم وتهديدهم بوقوع العذاب.
[179-171] وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ دنیا میں غالب ہی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے جس کو کوئی رد کر سکتا ہے نہ اس کی مخالفت کر سکتا ہے… کہ اس کی بندگی کرنے والے رسول اور اس کی فلاح یافتہ فوج ہی غالب رہے گی، ان کو ان کے رب کی طرف سے فتح و نصرت حاصل ہو گی تب وہ نصرت الٰہی سے اس کے دین کو قائم کرنے کی قدرت رکھیں گے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک عظیم بشارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے لشکر میں شامل ہیں، جو اس لشکر کی صفات سے متصف ہیں، جن کے احوال درست ہیں، جو ان لوگوں سے جہاد کرتے ہیں جن سے جہاد کرنے کا ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غالب اور فتح یاب رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (e)کو حکم دیا کہ وہ اہل عناد سے جنھوں نے حق کو قبول نہیں کیا، گریز کریں، نیز فرمایا کہ اب تو ان پر نازل ہونے والے عذاب کا انتظار باقی ہے، بنا بریں فرمایا: ﴿وَّاَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ ﴾ ’’پس آپ انھیں دیکھتے رہیے اور وہ بھی عنقریب دیکھ لیں گے‘‘ کہ کس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ ان پر یہ عذاب بہت جلد نازل ہو گا۔ ﴿فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ ﴾ ’’مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا۔‘‘ یعنی جب ان پر عذاب نازل ہو گا اور ان کے قریب ہوگا ﴿فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ ﴾ ’’تو جن کو ڈر سنا دیا گیا تھا، ان کے لیے برا دن ہوگا۔‘‘ کیونکہ یہ صبح ان کے لیے شر، عقوبت اور استیصال لے کر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ e کو دوبارہ حکم دیا ہے کہ وہ ان مشرکین سے گریز کریں اور مشرکین کو وقوع عذاب کی وعید سنائی۔
#
{180 ـ 182} ولما ذكر في هذه السورة كثيراً من أقوالهم الشنيعة التي وَصَفوه بها؛ نزَّهَ نفسَه عنها، فقال: {سبحانَ ربِّك}؛ أي: تنزَّه وتعالى، {ربِّ العزَّةِ}؛ أي: الذي عزَّ فقهر كلَّ شيء، واعتزَّ عن كل سوءٍ يصفونه به، {وسلامٌ على المرسلين}: لسلامتهم من الذُّنوب والآفات، وسلامة ما وصفوا به فاطر الأرض والسماوات. {والحمدُ لله ربِّ العالمين}: الألف واللام للاستغراق؛ فجميعُ أنواع الحمدِ من الصفاتِ الكاملةِ العظيمةِ والأفعالِ التي ربَّى بها العالمينَ وأدَرَّ عليهم فيها النِّعم وصَرَفَ عنهم بها النِّقَمَ ودَبَّرَهم تعالى في حَرَكاتِهِم وسكونِهِم وفي جميع أحوالِهِم كلِّها لله تعالى؛ فهو المقدَّسُ عن النقص، المحمودُ بكلِّ كمال، المحبوبُ المعظَّم، ورسلُهُ سالمون مسلَّم عليهم، ومن اتَّبَعَهم في ذلك له السلامةُ في الدُّنيا والآخرة، وأعداؤُهُ لهم الهلاك والعطبُ في الدُّنيا والآخرة.
[182-180] چونکہ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بہت سے اقوال کا ذکر کیا ہے۔ جن کے ساتھ یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کو موصوف کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی تنزیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿سُبْحٰؔنَ رَبِّكَ ﴾ ’’آپ کا رب پاک ہے‘‘ یعنی منزہ اور بلندوبالا ہے ﴿رَبِّ الْ٘عِزَّةِ ﴾ وہ ہر چیز پر غالب ہے ہر برائی سے بالا و بلندتر ہے جس سے یہ مشرکین اسے موصوف کرتے ہیں۔ ﴿وَسَلٰ٘مٌ عَلَى الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ اور سلام ہے رسولوں پر کیونکہ وہ گناہوں اور تمام آفات سے سلامت ہیں اور جن اوصاف سے مشرکین نے زمین اور آسمانوں کے خالق کو موصوف کیا ہے ان سے سلامت ہیں۔ ﴿وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ الف اور لام استغراق کے لیے ہے۔ پس حمدوستائش کی تمام اقسام صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، یعنی تمام صفات کاملہ و عظیمہ ، وہ تمام افعال جن کے ذریعے سے اس نے اس کائنات کی تربیت کی، ان کو لامحدود نعمتوں سے نوازا، ان سے بہت سی مصیبتوں کو دور کیا اور اس نے ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے تمام احوال میں ان کی تدبیر کی وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ وہ ہر نقص سے پاک اور ہر کمال کی بنا پر قابل تعریف ہے۔ وہ اپنے بندوں کے نزدیک محبوب اور سزاوارِ تعظیم ہے۔ اس کے رسول ہر گناہ سے محفوظ ہیں اور جو کوئی ان انبیاء و رسلo کی اتباع کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں سلامتی کا مستحق ہے اور ان کے دشمنوں کے لیے دنیا و آخرت میں ہلاکت ہے۔