آیت:
تفسیر سورۂ سبا
تفسیر سورۂ سبا
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 2 #
{الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (1) يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ (2)}
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہ جس کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اسی کے لیے ہیں سب تعریفیں آخرت میں (بھی) اور وہ نہایت حکمت والا خوب خبردار ہے(1) وہ جانتا ہے جو داخل ہوتا ہے زمین میں اورجونکلتا ہے اس میں سے اور جو اترتا ہے آسمان سے اور جو چڑھتا ہے اس میں، اور وہ نہایت رحم کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے(2)
#
{1} {الحمدُ}: الثناء بالصفات الحميدةِ والأفعال الحسنة؛ فلله تعالى الحمدُ؛ لأنَّ جميع صفاته يُحمد عليها لكونها صفاتِ كمال، وأفعالُه يُحمد عليها لأنَّها دائرةٌ بين الفضل الذي يُحمد عليه ويُشكر، والعدل الذي يُحمد عليه ويُعترف بحكمتِهِ فيه. وحَمَدَ نفسَه هنا على أنَّ {له ما في السموات وما في الأرض}: مُلكاً وعبيداً يتصرَّف فيهم بحمده. {وله الحمدُ في الآخرة}: لأنَّ في الآخرة يظهرُ من حمدِهِ والثناء عليه ما لا يكون في الدنيا؛ فإذا قضى الله تعالى بين الخلائق كلِّهم، ورأى الناس والخلق كلُّهم ما حكم به وكمال عدلِهِ وقسطِهِ وحكمته فيه؛ حمدوه كلُّهم على ذلك، حتى أهل العقاب؛ ما دخلوا النار إلاَّ وقلوبُهم ممتلئةٌ من حمده، وأنَّ هذا من جرّاء أعمالهم، وأنَّه عادلٌ في حكمه بعقابهم. وأمَّا ظهورُ حمدِهِ في دار النعيم والثواب؛ فذلك شيء قد تواردتْ به الأخبارُ وتوافقَ عليه الدليلُ السمعيُّ والعقليُّ؛ فإنَّهم في الجنة يرون من توالي نعم الله وإدرارِ خيره وكثرةِ بركاته وسَعَةِ عطاياه التي لم يبقَ في قلوب أهل الجنة أمنيةٌ ولا إرادةٌ إلاَّ وقد أعطي فوق ما تمنَّى وأراد، بل يُعْطَوْنَ من الخير ما لم تتعلَّقْ به أمانيهم ولم يخطُرْ بقلوبِهم؛ فما ظنُّك بحمدِهم لربِّهم في هذه الحال مع أنَّ في الجنة تضمحلُّ العوارض والقواطع التي تقطع عن معرفة الله ومحبَّتِهِ والثناء عليه، ويكون ذلك أحبَّ إلى أهلها من كلِّ نعيم وألذَّ عليهم من كل لَذَّةٍ؟! ولهذا؛ إذا رأوا الله تعالى وسمعوا كلامه عند خطابِهِ لهم؛ أذْهَلَهم ذلك عن كلِّ نعيم، ويكون الذكر لهم في الجنة كالنَفَس متواصلاً في جميع الأوقات، هذا إذا أضفتَ ذلك إلى أنَّه يظهر لأهل الجنة في الجنةِ كلَّ وقتٍ من عظمة ربِّهم وجلالِهِ وجمالِهِ وسعة كمالِهِ ما يوجب لهم كمالَ الحمد والثناء عليه. {وهو الحكيمُ}: في ملكه وتدبيره، الحكيم في أمره ونهيه. {الخبيرُ}: المطَّلعُ على سرائر الأمورِ وخفاياها.
[1] حمد سے مراد، صفات حمیدہ اور افعال حسنہ کے ذریعے سے، ثنا بیان کرنا ہے پس ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کیونکہ وہ اپنے اوصاف کی بنا پر مستحق حمد ہے، اس کے تمام اوصاف، اوصاف کمال ہیں۔ وہ اپنے افعال پرمستحق حمد ہے کیونکہ اس کے افعال، اس کے فضل پرمبنی ہیں جس پر اس کی حمد اور اس کا شکر کیا جاتا ہے اور اس کے عدل پرمبنی ہیں جس کی بنا پر اس کی تعریف کی جاتی ہے اور اس میں اس کی حکمت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حمد اس بنا پر بیان کی ہے کہ ﴿لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’زمین اور آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے‘‘ یعنی ہرچیز کی ملکیت اور اسی کی غلام ہے وہ اپنی حمد وثنا کی بنا پر ان میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿وَلَهُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے۔‘‘ اس لیے کہ آخرت میں اس کی وہ حمد وثنا ظاہر ہو گی جو دنیا میں ظاہر نہیں ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ تمام خلائق کے درمیان فیصلہ کرے گا اور تمام انسان اور تمام مخلوق اس کے فیصلے، اس کے کامل عدل و انصاف اور اس میں اس کی حکمت کو دیکھیں گے تو وہ سب اس پر اس کی حمد وثنا بیان کریں گے حتیٰ کہ ان جہنمیوں کے دل بھی، جن کو عذاب دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں گے، نیز ان کو اعتراف ہو گا کہ یہ عذاب ان کے اعمال کی جزا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے کے فیصلے میں عادل ہے۔ رہا جنت میں اللہ تعالیٰ کی حمد کا ظہور، تو اس بارے میں نہایت تواتر سے اخبار وارد ہوئی ہیں، دلائل سمعی اور دلائل عقلی ان کی موافقت کرتے ہیں۔ کیونکہ جنتی لوگ جنت میں، اللہ تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں، بے شمار خیروبرکت اور اس کی بے پایاں نوازشات کا مشاہدہ کریں گے۔ اہل جنت کے دل میں کوئی آرزو اور کوئی ارادہ باقی نہیں رہے گا جسے اللہ تعالیٰ نے پورا نہ کر دیا ہو اور ان کی خواہش اور آرزو سے بڑھ کر عطا نہ کیا ہو، بلکہ انھیں اتنی زیادہ بھلائی عطا ہو گی کہ ان کی خواہش اور آرزوئیں وہاں پہنچ ہی نہیں سکتیں اور ان کے دل میں ان کا تصور تک نہیں آ سکتا۔ اس حال میں ان کی حمد وثنا کیسی ہو گی، درآں حالیکہ جنت میں وہ تمام عوارض و قواطع مضمحل ہو جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اس کی حمد وثنا کو منقطع کرتے ہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ حال ہر نعمت سے بڑھ کر محبوب اور ہر لذت سے بڑھ کر لذیذ ہوگا۔ اس لیے جب وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور اس کے خطاب کے وقت اس کے کلام سے محظوظ ہوں گے تو وہ ہر نعمت کو بھلا دیں گے وہ جنت میں ذکر الٰہی میں مشغول رہیں گے اور جنت میں ان کے لیے ذکر کی وہ حیثیت ہو گی جیسے ہر وقت سانس کی۔ جب آپ اس کے ساتھ اس چیز کو شامل کر دیکھیں کہ اہل جنت، ہر وقت جنت کے اندر اپنے رب کی عظمت، اس کے جلال و جمال اور اس کے لامحدود کمال کا نظارہ کریں گے، تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کی کامل حمد وثنا کی موجب ہے۔ ﴿وَهُوَ الْحَكِیْمُ ﴾ وہ اپنے اقتدار و تدبیر اور اپنے امرونہی میں حکمت والا ہے۔ ﴿الْخَبِیْرُ ﴾ وہ تمام امور کے اسرار نہاں کی خبر رکھتا ہے۔
#
{2} ولهذا فصَّلَ علمَه بقولِهِ: {يعلم ما يَلِجُ في الأرضِ}؛ أي: من مطر وبذرٍ وحيوان، {وما يخرُجُ منها}: من أنواع النباتاتِ وأصناف الحيواناتِ، {وما ينزِلُ من السماءِ}: من الأملاك والأرزاق والأقدار، {وما يعرُجُ فيها}: من الملائكة والأرواح وغير ذلك. ولمَّا ذَكَرَ مخلوقاتِهِ وحكمتَه فيها وعلمَه بأحوالها؛ ذكر مغفرتَه ورحمتَه لها، فقال: {وهو الرحيمُ الغفورُ}؛ أي: الذي الرحمة والمغفرة وصفُه، ولم تزلْ آثارُهُما تنزِلُ على العباد كلَّ وقتٍ بحسب ما قاموا به من مقتضياتهما.
[2] لہٰذا اپنے علم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے‘‘ یعنی بارش، نباتات کے بیج اور حیوانات وغیرہ ﴿وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا ﴾ ’’اور جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے۔‘‘ یعنی مختلف اقسام کی نباتات اور مختلف انواع کے حیوانات وغیرہ۔ ﴿وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے‘‘ یعنی آسمان سے جو فرشتے نازل ہوتے ہیں، رزق نازل ہوتا ہے اور تقدیر اترتی ہے۔ ﴿وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا﴾ یعنی آسمان کی طرف جو فرشتے اور ارواح وغیرہ بلند ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو بخوبی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے اندر اپنی حکمت اور ان کے احوال کے بارے میں اپنے علم کا ذکر کرنے کے بعد اپنی بخشش اور مخلوقات کے لیے اپنی بے پایاں رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَهُوَ الرَّحِیْمُ الْغَفُوْرُ ﴾ ’’وہ رحم کرنے والا، معاف کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی رحمت اور مغفرت جس کا وصف ہے اس کے بندے رحمت اور مغفرت کے تقاضوں کو جس قدر پورا کرتے ہیں، اس کے مطابق ہر وقت اس کی رحمت اور مغفرت کے آثار نازل ہوتے رہتے ہیں۔
آیت: 3 - 5 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (3) لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (4) وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ (5)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، نہیں آئے گی ہم پر قیامت ، کہہ دیجیے!کیوں نہیں، قسم ہے میرے رب کی! وہ ضرور آئے گی تم پر، جو جاننے والا ہے غیب کا نہیں پوشیدہ رہتی اس سے (کوئی چیز) برابر ایک ذرے کے، آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہیں (کوئی چیز) چھوٹی اس سے اور نہ بڑی، مگر وہ (درج ہے) کتاب واضح (لوح محفوظ) میں(3)تاکہ بدلہ دے اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک، یہ لوگ، ان کے لیے ہےمغفرت اور روزی اچھی(4)اور وہ لوگ جنھوں نے کوشش کی ہماری آیتوں میں (ہمیں) عاجز کرنے کی، یہی لوگ، ان کے لیے ہے عذاب، سزا کے طور پر، درد ناک(5)
#
{3} لمَّا بيَّن تعالى عظمته بما وصف به نفسه، وكان هذا موجباً لتعظيمه وتقديسه والإيمان به؛ ذكر أنَّ من أصناف الناس طائفةً لم تُقَدِّرْ ربَّها حقَّ قدرِهِ، ولم تعظِّمْه حق عظمته، بل كفروا به وأنكروا قدرتَه على إعادةِ الأموات وقيام الساعة، وعارضوا بذلك رسلَه، فقال: {وقال الذين كفروا}؛ أي: بالله وبرسله وبما جاؤوا به، فقالوا بسبب كفرهم: {لا تَأتينا الساعةُ}؛ أي: ما هي إلاَّ هذه الحياة الدُّنيا نموت ونحيا! فأمر الله رسولَه أنْ يردَّ قولَهم ويُبْطِلَه ويقسِمَ على البعث وأنَّه سيأتيهم، واستدلَّ على ذلك بدليل مَن أقرَّ به؛ لزمه أن يصدِّق بالبعث ضرورةً، وهو علمُه تعالى الواسعُ العامُّ، فقال: {عالم الغيب}؛ أي: الأمور الغائبة عن أبصارنا وعن علمنا؛ فكيف بالشهادة؟! ثم أكَّد علمه فقال: {لا يعزُبُ}؛ أي: لا يغيب عن علمه {مثقالُ ذرَّةٍ في السمواتِ ولا في الأرض}؛ أي: جميع الأشياء بذواتها وأجزائها، حتى أصغر ما يكون من الأجزاء، وهو المثاقيل منها، {ولا أصغر من ذلك ولا أكبر إلاَّ في كتابٍ مبينٍ}؛ أي: قد أحاط به علمُه وجرى به قلمُه وتضمَّنه الكتابُ المبينُ الذي هو اللوحُ المحفوظ. فالذي لا يخفى عن علمِهِ مثقال الذرة فما دونَه في جميع الأوقات، ويعلم ما تَنْقُصُ الأرضُ من الأموات وما يبقى من أجسادهم؛ قادرٌ على بعثهم من باب أولى، وليس بعثُهم بأعجبَ من هذا العلم المحيط.
[3] جب اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت بیان کی جس کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور یہ چیز اس کی تعظیم و تقدیس اور اس پر ایمان کی موجب ہے تو ذکر فرمایا کہ لوگوں میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے اپنے رب کی قدر کی نہ اس کی تعظیم کی جیسا کہ اس کا حق ہے، بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اور قیامت کی گھڑی کا انکار کیا اور اس کے بارے میں اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کی مخالفت کی، لہٰذا فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی دعوت کا انکار کیا، انھوں نے اپنے کفر کی بنا پر کہا: ﴿لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَةُ ﴾ ’’ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔‘‘ یہاں اس دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہاں ہم زندہ رہتے ہیں اور ، پھر مر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ ان کے اس نظریے کی تردید اور اس کا ابطال کریں اور تاکیداً ان کو قسم کھا کر بتائیں کہ قیامت برحق ہے اور وہ ضرور آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دلیل کے ذریعے سے استدلال کیا ہے کہ جو کوئی اس دلیل کا اقرار کرتا ہے وہ ضرور موت کے بعد زندگی ہونے کا اقرار کرے گا۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا لامحدود علم، چنانچہ فرمایا: ﴿عٰؔلِمِ الْغَیْبِ ﴾ یعنی وہ ان تمام امور کا علم رکھتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل اور ہمارے احاطۂ علم میں نہیں ہیں، تب وہ ان امور کا علم کیونکر نہیں رکھتا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے بارے میں تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا: ﴿لَا یَعْزُبُ عَنْهُ ﴾ یعنی اس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ﴿مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام اشیاء اپنی ذات و اجزاء سمیت، حتی کہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی اللہ تعالیٰ کے علم سے اوجھل نہیں۔ ﴿وَلَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَاۤ اَكْبَرُ اِلَّا فِیْؔ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’اور نہیں کوئی چیز اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی مگر وہ کتاب واضح میں درج ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کا قلم اس پر چل چکا ہے اور وہ کتاب مبین یعنی لوح محفوظ میں درج ہو چکا ہے۔ اس لیے وہ ہستی جس سے ذرہ بھر یا اس سے بھی چھوٹی چیز کسی بھی وقت چھپی ہوئی نہیں ہے اور وہ ہستی جانتی ہے کہ زمین میں موت کے ذریعے سے کتنے افراد کی کمی واقع ہو رہی ہے اور کتنے زندہ باقی ہیں اور وہ ان کی موت کے بعد انھیں دوبارہ زندہ کرنے پر بالاولی قادر ہے۔ اس کا مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا، اس کے علم محیط سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے۔
#
{4} ثم ذكر المقصودَ من البعث، فقال: {ليجزِيَ الذين آمنوا}: بقلوبهم صدَّقوا الله، وصدَّقوا رسله تصديقاً جازماً، {وعملوا الصالحاتِ}: تصديقاً لإيمانهم. {أولئك لهم مغفرةٌ}: لذنوبهم، بسبب إيمانهم وعملهم يندفعُ بها كلُّ شرٍّ وعقابٍ، {ورزقٌ كريمٌ}: بإحسانهم، يحصلُ لهم به كلُّ مطلوبٍ ومرغوبٍ وأمنيَّة.
[4] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی بعد موت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿لِّیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے‘‘ اپنے دلوں سے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی پوری طرح تصدیق کی۔ ﴿وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور انھوں نے نیک عمل کیے‘‘ اپنے ایمان کی تصدیق کے لیے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ان کے لیے ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب سے بخشش ہے ان کے ایمان اور اعمال کے باعث ان سے ہر برائی اور تمام عذاب دور ہو جائیں گے۔ ﴿وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور عزت کی روزی‘‘ ان کے احسان کے سبب سے انھیں ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہو گا اور ان کی ہر آرزو پوری ہو گی۔
#
{5} {والذين سَعَوْا في آياتنا مُعَاجِزينَ}؛ أي: سعوا فيها كفراً بها وتعجيزاً لمن جاء بها وتعجيزاً لمن أنزلها كما عجَّزوه في الإعادة بعد الموت. {أولئك لهم عذابٌ من رجزٍ أليم}؛ أي: مؤلم لأبدانهم وقلوبهم.
[5] ﴿وَالَّذِیْنَ سَعَوْ فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ ﴾ یعنی وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کا انکار کرنے اور ان کو لانے والے انبیاء و مرسلین اور ان کو نازل کرنے والے کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا جیسے انھوں نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو نیچا دکھانے کے لیے پوری کوشش کی ﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِیْمٌ﴾ ان کے لیے ان کے دل و جان کو سخت تکلیف دینے والا عذاب ہو گا۔
آیت: 6 #
{وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (6)}.
اور دیکھتے (یقین کرتے) ہیں وہ لوگ جو دیے گئے علم، کہ وہ جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے ، وہ برحق ہے اور وہ ہدایت کرتا ہے (اس) راستے کی طرف (جو) نہایت غالب، لائق حمدو ثنا کا ہے(6)
#
{6} لما ذكر تعالى إنكارَ من أنكر البعثَ، وأنَّهم يرونَ ما أنزل على رسوله ليس بحقٍّ؛ ذكر حالة الموفَّقين من العباد، وهم أهل العلم، وأنَّهم يرون ما أنزل الله على رسوله؛ من الكتاب وما اشتملَ عليه من الأخبارِ {هو الحقَّ}؛ أي: الحقُّ منحصرٌ فيه، وما خالفه وناقضه فإنه باطل؛ لأنَّهم وصلوا من العلم إلى درجة اليقين، ويرون أيضاً أنَّه في أوامره ونواهيه؛ {يهدي إلى صراطِ العزيز الحميد}: وذلك لأنَّهم جزموا بصدق ما أخبر بها من وجوهٍ كثيرةٍ: من جهة علمِهم بصدقِ مَنْ أخبر بها، ومن جهةِ موافقتها للأمور الواقعة والكتبِ السابقة، ومن جهةِ ما يشاهِدون من أخبارها التي تقع عياناً، ومن جهة ما يشاهدونَ من الآيات العظيمة الدالَّة عليها في الآفاق وفي أنفسهم، ومن جهةِ موافقتها لما دلَّت عليه أسماؤه تعالى وأوصافُه، ويرون في الأوامر والنواهي أنها تهدي إلى الصراط المستقيم المتضمن للأمور بكل صفةٍ تزكي النفس وتنمي الأجر وتفيد العامل وغيره؛ كالصدق والإخلاص وبر الوالدين وصلة الأرحام والإحسان إلى عموم الخلق ونحو ذلك، وتنهى عن كلِّ صفة قبيحةٍ، تدنِّس النفس، وتحبِطُ الأجر، وتوجِبُ الإثم والوزر من الشرك والزنا والربا والظُّلم في الدماء والأموال والأعراض. وهذه منقبةٌ لأهل العلم وفضيلةٌ وعلامةٌ لهم، وأنَّه كلَّما كان العبد أعظم علماً وتصديقاً بأخبار ما جاء به الرسول وأعظم معرفةً بحكم أوامره ونواهيه؛ كان من أهل العلم الذين جعلهم الله حجةً على ما جاء به الرسول، احتجَّ الله بهم على المكذِّبين المعاندين كما في هذه الآية وغيرها.
[6] جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے منکرین قیامت کے انکار کا اور ان کی اس رائے کا تذکرہ فرمایا کہ جو کچھ رسول پر نازل ہوا ہے حق نہیں ہے، تو اس کے اپنے مومن بندوں کا حال بیان کیا ہے جو اہل علم ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e پر، جو کتاب نازل کی ہے اور جن اخبار پر یہ کتاب مشتمل ہے، وہ برحق ہیں یعنی حق صرف اسی کے اندر ہے اور جو چیز اس کتاب کی مخالف اور اس سے متناقض ہے وہ باطل ہے، کیونکہ وہ علم کے درجۂ یقین پر پہنچ چکے ہیں ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اوامر و نواہی کے ذریعے سے ﴿یَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ﴾ ’’اس ہستی کی راہ دکھاتا ہے جو غالب اور لائق حمد و ثنا ہے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں بہت سے پہلوؤ ں سے اس کی دی ہوئی خبروں کی صداقت کا یقین جازم ہے۔ m اپنے علم کی جہت سے، خبر دینے والے کی صداقت کا یقین ہے۔ m انھیں اس جہت سے بھی اس کی صداقت کا یقین ہے کہ یہ کتاب امور واقع اور کتب سابقہ کی موافقت کرتی ہے۔ m اس پہلو سے بھی ان کے ہاں یہ کتاب حق ہے کہ وہ اس کی دی ہوئی خبروں کے وقوع کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ m اس جہت سے بھی انھیں اس کتاب کی صداقت کا یقین ہے کہ وہ آفاق میں اور خود اپنے نفوس میں ایسی نشانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جو اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ m اس جہت سے بھی انھیں اس کتاب کے حق پر مبنی ہونے کا یقین ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں ان امور کی موافقت کرتی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے راستے پر گامزن کرتے ہیں، جو بالکل سیدھا ہے اور وہ کام کی ہر اس صفت کو متضمن ہے جو تزکیہ نفس اور اجر میں اضافے کا باعث ہے، جو عامل اور اس کے علاوہ دیگر لوگوں کو صدق و اخلاص، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی اور مخلوقات پر احسان کرنے کافائدہ پہنچتاتی ہے اور ہر بری صفت سے روکتی ہے جو نفس کو گندہ کرتی ہے، اجر کو اکارت کرتی ہے، گناہ اور بوجھ کی موجب ہے ، مثلاً: شرک، زنا، سود اور جان، مال اور عزت و ناموس پر ظلم وغیرہ۔ یہ اہل علم کی منقبت، ان کی فضیلت اور ان کی امتیازی علامت ہے نیز اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب بھی بندے کا علم زیادہ ہو گا، رسول (e)کی لائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرتا ہو گا، اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کی حکمتوں کی جتنی زیادہ معرفت رکھنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ ان اہل علم کے زمرے میں شمار ہو گا جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہe کی لائی ہوئی باتوں پر حجت قرار دیا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے مکذبین و معاندینِ حق کے خلاف حجت کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ اور بعض دیگر آیات میں اس کی طرف اشارہ ہے۔
آیت: 6 - 9 #
{وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (6) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَى رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ (7) أَفْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَمْ بِهِ جِنَّةٌ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ (8) أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنْ نَشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ (9)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، کیارہنمائی کریں ہم تمھاری اوپر ایسے آدمی کے جو خبر دیتا ہے تمھیں کہ جب پارہ پارہ کر دیے جاؤ گے تم ہر طرح پارہ پارہ کیے جانا تو بے شک ہو گے تم البتہ ایک نئی پیدائش میں(7) کیا باندھا ہے اس نے اللہ پر جھوٹ یا اسے جنون(لاحق) ہے ؟ (نہیں) بلکہ وہ لوگ جو نہیں ایمان رکھتے آخرت پر، (وہ) عذاب میں اور دور کی گمراہی میں (پڑے) ہیں(8)کیا پس نہیں دیکھا انھوں نے طرف اس کی جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے آسمان اور زمین سے، اگر ہم چاہیں تودھنسا دیں ان کو زمین میں یا گرا دیں ہم ان پر ٹکڑے آسمان سے بے شک اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہے واسطے ہر رجوع کرنے والے بندے کے(9)
#
{7} أي: {وقال الذين كفروا}: على وجه التكذيب والاستهزاء والاستبعاد، وذِكْر وجه الاستبعاد؛ أي: قال بعضُهم لبعض: {هل ندلُّكم على رَجُل يُنَبِّئُكُم إذا مُزِّقْتُم كلَّ مُمَزَّقٍ إنَّكم لَفي خَلْقٍ جديدٍ}؛ يعنون بذلك الرجل رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّه رجلٌ أتى بما يُستغرب منه، حتى صار بزعمهم فرجةً يتفرَّجون عليه وأعجوبةً يسخرون منه، وأنَّه كيف يقولُ: إنكم مبعوثون بعد ما مَزَّقَكُمُ البِلى وتفرَّقت أوصالُكم، واضمحلَّتْ أعضاؤكم!
[7] ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ یعنی کفار تکذیب اور استہزا کے طور پر اور معاد کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے ہیں: ﴿هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ یُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُ٘لَّ مُمَزَّقٍ١ۙ اِنَّـكُمْ لَ٘فِیْ خَلْ٘قٍ جَدِیْدٍ﴾ ’’کیا ہم تمھاری راہنمائی ایسے شخص کی طرف کریں جو تمھیں یہ خبر پہنچارہاہے کہ جب تم بالکل ہی ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو تم پھر سے ایک نئی پیدائش میں آؤ گے۔‘‘ ان کی مراد رسول اللہ e ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص ہیں جو ایک انوکھی چیز پیش کر رہے ہیں ان کی نظر میں آپ ان کے لیے تفریح کا ایک ذریعہ ہیں اور ایک عجوبہ ہیں جن کا وہ مذاق اڑاتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ آپ کیسے یہ بات کہتے ہیں: ’’جب تم بوسیدہ ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تمھارا جوڑ جوڑ الگ ہو جائے گا اور تمھارے اعضاء بکھر کر نیست و نابود ہو جائیں گے ، پھر تمھیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟‘‘
#
{8} فهذا الرجلُ الذي يأتي بذلك: هل افْتَرَى {على الله كَذِباً}: فتجرَّأ عليه وقال ما قال، {أم به جِنَّةٌ}: فلا يُستغرب منه؛ فإنَّ الجنون فنونٌ، وكلُّ هذا منهم على وجه العناد والظُّلم، ولقد علموا أنه أصدقُ خلقِ الله وأعقلُهم، ومِنْ علمِهِم أنَّهم أبدووا وأعادوا في معاداتهم، وبذلوا أنفُسَهم وأموالَهم في صدِّ الناس عنه؛ فلو كان كاذباً مجنوناً؛ لم ينبغ لكم يا أهل العقول غير الزاكيةِ أن تُصْغوا لما قال ولا تحتَفِلوا بدعوتِهِ؛ فإنَّ المجنون لا ينبغي للعاقل أن يُلْفِتَ إليه نَظَرَه أو يبلغَ قولُهُ منه كلَّ مبلغ، ولولا عنادُكم وظلمُكم؛ لَبادَرْتُم لإجابته ولَبَّيْتُم دعوتَه، ولكن ما تُغني الآياتُ والنُّذر عن قوم لا يؤمنون، ولهذا قال تعالى: {بل الذين لا يؤمنونَ بالآخرةِ}، ومنهم الذين قالوا تلك المقالَة {في العذابِ والضَّلال البعيدِ}؛ أي: في الشقاء العظيم والضلال البعيدِ الذي ليس بقريبٍ من الصواب، وأيُّ شقاءٍ وضلال أبلغُ من إنكارِهم لقدرةِ الله على البعثِ، وتكذيِبِهم لرسولهم الذي جاء به، واستهزائِهِم به، وجزمِهِم بأنَّ ما جاؤوا به هو الحقُّ فرأوا الحقَّ باطلاً والباطل والضلال حقًّا وهدى؟!
[8] یہ شخص جو بات کہتا ہے کیا ﴿اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا ﴾ اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی جرأت کی ہے ﴿اَمْ بِهٖ جِنَّةٌ ﴾ ’’یا اسے جنون ہے؟‘‘ اور یہ اس سے کوئی بعید بھی نہیں کیونکہ جنون کی کئی قسمیں ہیں۔ وہ یہ سب کچھ ظلم اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ مخلوق میں سب سے سچے اور سب سے عقل مند انسان ہیں۔ ان کا علم بس یہی ہے کہ انھوں نے آپ سے عداوت شروع کی اور بار بار عداوت کا اظہار کیا اور انھوں نے لوگوں کو آپ سے دور رکھنے کے لیے اپنی جان اور مال خرچ کر دیا۔ گندے ذہن کے لوگو! اگر آپe جھوٹے یا پاگل ہوتے، تو یہ مناسب ہی نہ تھا کہ تم ان کی بات پر دھیان دیتے یا تم ان کی دعوت کو درخوراعتنا سمجھتے کیونکہ ایک عقل مند شخص کے لائق نہیں کہ وہ ایک پاگل شخص کی طرف التفات کرے یا اس کی بات کو کوئی اہمیت دے۔ اگر تمھارے دل میں عناد نہ ہوتا اور تمھارا رویہ ظلم پر مبنی نہ ہوتا تو تم آگے بڑھ کر آپ کی دعوت کو قبول کرتے اور آپ کی آواز پر لبیک کہتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے، نشانیاں اور ڈراوے ان کے کسی کام نہیں آتے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’بلکہ بات یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے مذکورہ بالا بات کہی تھی ﴿فِی الْعَذَابِ وَالضَّلٰ٘لِ الْبَعِیْدِ ﴾ وہ بہت بڑی بدبختی اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور منزل صواب کے ذرا بھی قریب نہیں۔ کون سی بدبختی اور گمراہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس چیز پر قادر ہونے کے انکار سے بڑھ کر ہو کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور کون سی بدبختی اور گمراہی ان کی رسولوں کی تکذیب، ان کے ساتھ استہزا اور ان کے اس دعوے سے بڑھ کر ہو کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ پس وہ حق کو باطل اور باطل و ضلالت کو حق اور ہدایت سمجھتے ہیں۔
#
{9} ثم نبَّههم على الدليل العقلي الدالِّ على عدم استبعاد البعث الذي استبعدوه، وأنَّهم لو نظروا إلى ما بين أيديهم وما خلفهم من السماء والأرض، فرأوا من قدرة الله فيهما ما يُبْهِرُ العقول، ومن عظمتِهِ ما يُذْهِلُ العلماء الفحول، وأنَّ خلقَهما وعظمتَهما وما فيهما من المخلوقات أعظمُ من إعادة الناس بعد موتِهِم من قبورِهم؛ فما الحاملُ لهم على ذلك التكذيب مع التصديق بما هو أكبر منه؟! نعم؛ ذاك خبرٌ غيبيٌّ إلى الآن ما شاهدوه؛ فلذلك كذَّبوا به. قال الله: {إن نَشَأ نَخْسِفْ بِهِمُ الأرضَ أو نُسْقِطْ عليهم كِسَفاً من السماء}؛ أي: من العذاب؛ لأنَّ الأرض والسماء تحت تدبيرنا؛ فإنْ أمرناهما؛ لم يستعصيا؛ فاحذَروا إصرارَكم على تكذيبِكُم فنعاقِبَكُم أشدَّ العقوبة. {إنَّ في ذلك}؛ أي: خلق السماواتِ والأرضِ وما فيهما من المخلوقات {لآيةً لكلِّ عبدٍ منيبٍ}: فكلَّما كان العبدُ أعظم إنابةً إلى الله؛ كان انتفاعُه بالآياتِ أعظم؛ لأنَّ المنيبَ مقبلٌ إلى ربِّه، قد توجَّهت إرادتُه وهمَّاتُه لربِّه، ورجع إليه في كلِّ أمر من أموره، فصار قريباً من ربِّه، ليس له همٌّ إلاَّ الاشتغال بمرضاته، فيكون نظرُهُ للمخلوقات نظرَ فكرةٍ وعبرةٍ لا نظر غفلةٍ غير نافعةٍ.
[9] پھر اللہ تعالیٰ نے ایک عقلی دلیل کی طرف ان کی توجہ مبذول کی ہے جو زندگی بعد موت کے بعید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اگر وہ اپنے آگے پیچھے زمین اور آسمان کی طرف دیکھیں تو انھیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے مناظر نظر آئیں گے جو عقل کو حیران کر دیتے ہیں، وہ اس کی عظمت کے ایسے مظاہر دیکھیں گے جو بڑے بڑے علماء کو حواس باختہ کر دیتے ہیں اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ زمین و آسمان کی تخلیق، ان کی عظمت اور زمین و آسمان کے اندر موجود مخلوقات کی تخلیق قبروں میں مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم ہے۔ پس کس چیز نے ان کو اس پر آمادہ کیا ہے کہ وہ زندگی بعد موت کی تکذیب کرتے رہیں حالانکہ وہ اس سے مشکل تر چیز کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں! زندگی بعد موت، اب تک خبر غیبی ہے جس کا انھوں نے مشاہدہ نہیں کیا اس لیے انھوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَیْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔‘‘ یعنی عذاب کا کوئی ٹکڑا کیونکہ زمین اور آسمان ہمارے دست تدبیر کے تحت ہیں اگر ہم ان کو حکم دیں تو وہ حکم عدولی نہیں کر سکتے، لہٰذا تم اپنی تکذیب پر مصر رہنے سے باز آ جاؤ ورنہ ہم تمھیں سخت سزا دیں گے۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ یعنی زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام مخلوقات کی تخلیق میں ﴿لَاٰیَةً لِّ٘كُ٘لِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ﴾ ’’ البتہ نشانی ہے ہر اس بندے کے لیے، جو اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے‘‘ اس کی اطاعت کرتا ہے اور پورا یقین ہے کہ وہ، انسانوں کی موت کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ بندۂ مومن جس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا، اسی قدر زیادہ وہ آیات الٰہی سے مستفید ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کا ارادہ اور ہمت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بندہ ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے اور اپنے رب کی رضا میں مشغولیت کے سوا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ مخلوقات پر اس کی نظر بے فائدہ اور غفلت کی نظر نہیں ہوتی بلکہ فکروعبرت کی نظر ہوتی ہے۔
آیت: 10 - 11 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا يَاجِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ (10) أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (11)}.
اور تحقیق دی ہم نے داؤ د کو اپنی طرف سے فضیلت ، (ہم نے حکم دیا) اے پہاڑو! تسبیح دہراؤ اس کےساتھ اور پرندوں کو (بھی کہا) اور نرم کر دیا ہم نے اس کے لیے لوہا(10) یہ کہ بنا (زرہیں)کامل کشادہ اور (مناسب) اندازہ رکھ کڑیاں جوڑنے میں اور تم (سب) عمل کرو نیک، بے شک میں، ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہوں(11)
#
{10 ـ 11} أي: ولقد مَننا على عبدنا ورسولنا داود عليه الصلاة والسلام، وآتيناه فضلاً من العلم النافع والعمل الصالح والنعم الدينيَّة والدنيويَّة: ومن نعمِهِ عليه: ما خصَّه به من أمرِهِ تعالى الجمادات كالجبال والحيوانات من الطيور أن تؤوِّبَ معه وتُرَجِّعَ التسبيحَ بحمدِ ربِّها مجاوبةً له، وفي هذا من النعمة عليه أنْ كان ذلك من خصائصه التي لم تكنْ لأحدٍ قبلَه ولا بعدَه، وأنَّ ذلك يكون منهضاً له ولغيره على التسبيح إذا رأوا هذه الجماداتِ والحيواناتِ تتجاوبُ بتسبيح ربِّها وتمجيدِهِ وتكبيرِهِ وتحميدِهِ؛ كان ذلك مما يُهيج على ذكر الله تعالى. ومنها: أنَّ ذلك كما قال كثيرٌ من العلماء أنَّه طرباً بصوت داودَ؛ فإنَّ الله تعالى قد أعطاه من حُسن الصوت ما فاق به غيرَه، وكان إذا رجَّعَ التسبيحَ والتهليلَ والتمجيدَ بذلك الصوت الرخيم الشَّجِيِّ المطرِب؛ طربَ كلُّ مَنْ سَمِعَهُ من الإنس والجنِّ، حتى الطيور والجبال، وسبَّحت بحمدِ ربِّها. ومنها: أنَّه لعله ليحصل له أجر تسبيحها، لأنه سبب ذلك، وتسبح تبعاً له. ومن فضله عليه أن ألانَ له الحديدَ؛ ليعملَ الدروع السابغاتِ، وعلَّمه تعالى كيفيَّة صنعتِهِ؛ بأن يقدِّرَه في {السردِ}؛ أي: يقدِّره حَلَقاً ويصنعُه كذلك ثم يُدْخِلُ بعضها ببعض، قال تعالى: {وعلَّمْناه صنعةَ لَبوس لكم لِتُحْصِنَكُم من بأسِكُم فهل أنتم شاكرونَ}، ولمَّا ذَكَرَ ما امتنَّ به عليه وعلى آله؛ أمره بشكرِهِ وأن يَعْمَلوا صالحاً، ويراقِبوا الله تعالى فيه بإصلاحه وحفظِهِ من المفسداتِ؛ فإنَّه بصيرٌ بأعمالهم، مطَّلع عليها، لا يخفى عليه منها شيءٌ.
[10، 11] یعنی ہم نے اپنے بندے اور رسول داؤ دu پر احسان کیا اور ہم نے انھیں علم نافع اور عمل صالح میں فضیلت بخشی اور انھیں دینی اور دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے کہ اس نے پہاڑوں، حیوانات اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ داؤ دu کی حمدوتسبیح کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔ یہ ایسی نعمت ہے جو آپ کے خصائص میں شمار ہوتی ہے اور یہ خصوصیت آپ سے پہلے کسی کو عطا کی گئی نہ آپ کے بعد۔ یہ آواز آپ کو اور دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح پر آمادہ کرتی تھی۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ جمادات، پہاڑ اور حیوانات حضرت داؤ دu کی آواز کا جواب دیتے ہوئے اپنے رب کی تسبیح و تکبیر اور تمجیدوتحمید کرتے ہیں تو یہ چیز ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر پر آمادہ کرتی۔ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ یہ نعمت داؤ دu کی آواز کی طرب خیزی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہایت خوبصورت آواز سے سرفراز فرمایا تھا اور انھیں اس میدان میں سب پر فوقیت حاصل تھی۔ جب آپ تسبیح و تہلیل اور تمجید وتحمید میں اپنی طرب انگیز آواز بلند کرتے تو جن وانس، پرندے اور پہاڑ آپ کی آواز پر جھوم اٹھتے اور اپنے رب کی تحمید وتسبیح بیان کرنے لگتے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ آپ کی آواز پر طرب میں آکر تسبیح و تحمید بیان کرنے والے جمادات و حیوانات کی تسبیح کا اجر بھی آپ کو حاصل ہوتا تھا کیونکہ آپ ان کی تسبیح و تحمید کا سبب تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی آپ پر فضل و کرم تھا کہ اس نے لوہے کو آپ کے لیے نرم کر دیا تاکہ وہ زر ہیں تیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زرہ کی صنعت کی تعلیم دی اور ان کو زرہ کے حلقوں کو اندازے پر رکھنا سکھایا یعنی وہ اندازے کے ساتھ زرہ کا حلقہ بناتے تھے ، پھر وہ ان کو ایک دوسرے میں داخل کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّـكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَ٘اْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ ﴾ (الانبیاء:21؍80) ’’اور ہم نے تمھارے لیے ان کو زرہ بنانا سکھا دیا تاکہ یہ زرہیں تمھیں ایک دوسرے کی ضرب سے محفوظ رکھیں، تو پھر کیا تم شکر گزار ہو گے؟‘‘ حضرت داؤ دu اور آل داؤ د پر اپنے احسان کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو شکر کرنے کا حکم دیا، نیز انھیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ نیک عمل کریں، وہ اپنے عمل کی اصلاح اور مفسدات سے اس کو محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے ڈریں کیونکہ وہ ان اعمال کو دیکھتا ہے، ان کی اطلاع رکھتا ہے اور کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں۔
آیت: 12 - 14 #
{وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَنْ يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ (12) يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ (13) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (14)}.
اور (تابع کیا) سلیمان کے ہوا کو، اس کا صبح کا چلنا، ایک ماہ (کی مسافت) تھا اور اس کا شام کا چلنا ایک ماہ تھا اور بہا دیا ہم نے اس کے لیے چشمہ تانبے کا، اور کچھ جن تھے جو کام کرتے تھے اس کے سامنے اس کے رب کے حکم سے، اور جو پھر جاتاان میں سے ہمارے حکم سے تو چکھاتے ہم اس کو خوب عذاب بھڑکتی آگ کا (12) وہ بناتے تھے اس کے لیے جو وہ چاہتا ، عالیشان عمارتیں اور مجسمے اور (بڑے بڑے) لگن جیسے حوض اور دیگیں جمی ہوئیں، عمل کرو تم اے آل داؤد! (ہمارا) شکر کرنے کے لیے، اور بہت ہی تھوڑے ہیں میرے بندوں میں سے شکر گزار(13) پس جب ہم نے فیصلہ (نافذ) کر دیا اس (سلیمان) پر موت کا ، تو نہیں بتلایا ان (جنوں) کو اس (سلیمان) کی موت کا، مگر گھن کے کیڑے نے جو کھا رہا تھا اس کی لاٹھی کو، پس جب گر گیا سلیمان، تو جان لیا جنوں نے کہ اگر ہوتے وہ جانتے غیب کو تو نہ ٹھہرے رہتے وہ اس عذاب میں جو ذلیل کرنے والا ہے(14)
#
{12} لمَّا ذَكَرَ فضلَه على داود عليه السلام؛ ذكر فضلَه على ابنه سليمان عليه الصلاة والسلام، وأنَّ الله سخَّر له الريح تجري بأمرِهِ وتحمِلُه وتحمِلُ جميعَ ما معه وتقطعُ المسافة البعيدةَ جدًّا في مدةٍ يسيرةٍ، فتسير في اليوم مسيرة شهرين: {غدوُّها شهرٌ}؛ أي: أول النهار إلى الزوال، {ورواحُها شهرٌ}: من الزَّوال إلى آخر النهار، {وأسَلْنا له عَيْنَ القِطْرِ}؛ أي: سخَّرْنا له عينَ النُّحاس وسهَّلْنا له الأسباب في استخراج ما يُستخرج منها من الأواني وغيرها، وسخَّرَ اللهُ له أيضاً الشياطين والجنَّ لا يقدِرون أن يستعصوا عن أمرِهِ، {ومن يَزِغْ منهم عن أمرِنا نُذِقْه من عذاب السعير}.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت داؤ دu پر اپنا فضل و کرم بیان کرنے کے بعد ان کے فرزند حضرت سلیمانu پر اپنے فضل و کرم کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو آپ کے لیے مسخر کر دیا جو آپ کے حکم پر چلتی تھی جو آپ کو اور آپ کی افواج کو اٹھائے پھرتی تھی اور بہت دور کی مسافتیں بہت کم مدت میں طے کرتی تھی۔ دو ماہ کی مسافت ایک دن میں طے کر لیتی تھی۔ فرمایا: ﴿غُدُوُّهَا شَ٘هْرٌ ﴾ ’’اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی ہوتی تھی۔‘‘ دن کی ابتدا سے لے کر زوال تک ﴿وَّرَوَاحُهَا شَ٘هْرٌ ﴾ ’’اور اس کی شام کی منزل ایک مہینے کی ہوتی تھی ۔‘‘ یعنی زوال آفتاب سے لے کر دن کے آخر تک۔ ﴿وَاَسَلْنَا لَهٗ عَیْنَ الْ٘قِطْرِ﴾ اورہم نے حضرت سلیمانu کے لیے تانبے کا چشمہ مسخر کر دیا اور اس تانبے سے مختلف اقسام کی اشیاء اور برتن بنانے کے اسباب کو ان کے لیے آسان کر دیا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانu کے لیے شیاطین اور جنوں کو مسخر کر دیا وہ آپ کی حکم عدولی کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ﴾ ’’اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پھرے گا، ہم اس کو جہنم کی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘
#
{13} وأعمالُهم ؛ كلُّ ما شاء سليمان عَمِلوه؛ {من محاريبَ}: وهو كلُّ بناءٍ يُعقد وتحكم به الأبنية؛ فهذا فيه ذكرُ الأبنية الفخمة. {وتماثيلَ}؛ أي: صور الحيوانات والجمادات من إتقانِ صنعتهم، وقدرتِهِم على ذلك، وعملهم لسليمان. {وجفانٍ كالجوابِ}؛ أي: كالبرك الكبار يعملونها لسليمان للطعام؛ لأنَّه يحتاجُ إلى ما لا يحتاج إليه غيره. {و} يعملونَ له قدوراً {راسياتٍ}: لا تُزالُ عن أماكِنِها من عِظَمِها، فلما ذكر مِنَّتَه عليهم؛ أمَرَهم بشكرها، فقال: {اعْمَلوا آل داودَ}: وهم داودُ وأولادهُ وأهلُه؛ لأنَّ المنَّةَ على الجميع، وكثير من هذه المصالح عائدٌ لكلِّهم {شُكراً}: لله على ما أعطاهم، ومقابلةً لما أولاهم. {وقليلٌ من عبادي الشَّكورُ}: فأكثرُهم لم يشكُروا الله تعالى على ما أوْلاهم من نعمِهِ ودَفَعَ عنهم من النقم. والشكرُ: اعترافُ القلب بمنَّةِ الله تعالى، وتلقِّيها افتقاراً إليها، وصرفُها في طاعة الله تعالى، وصونُها عن صرفها في المعصية.
[13] یہ شیاطین اور جن وہ تمام کام کرتے تھے جس کا حضرت سلیمانu ان کو حکم دیتے تھے ﴿مِنْ مَّحَارِیْبَ ﴾ ’’قلعے‘‘ اس سے مراد ہر ایسی تعمیر ہے جس کے ذریعے سے عمارتوں کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ گویا اس میں بڑی بڑی عمارتوں کا ذکر ہے ﴿وَتَمَاثِیْلَ ﴾ ’’اور مجسمے‘‘ یعنی حیوانات و جمادات کی تماثیل بنانا ان کی اس صنعت میں مہارت ، قدرت اور ان کا سلیمان u کے لیے کام کرنے پر دلالت کرنا ہے۔ ﴿وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ ﴾ ’’اور لگن جیسے تالاب‘‘ وہ حضرت سلیمانu کے لیے بڑے بڑے حوض بناتے تھے، جن میں کھانا ڈالا جاتا تھا کیونکہ حضرت سلیمانu ایسی چیزوں کے محتاج تھے جن کے دوسرے لوگ محتاج نہ تھے اور وہ ان کے لیے بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے نہ ہٹتی تھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنی نوازشات کا ذکر کرنے کے بعد انھیں ان نوازشات پر شکر کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ فرمایا: ﴿اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ ﴾ ’’اے آل داود! نیک عمل کرو۔‘‘ اس سے مراد داؤ دu، ان کی اولاد اور اہل و عیال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ان سب پر تھا اور ان بہت سے فوائد سے سب ہی مستفید ہوتے تھے۔ ﴿شُكْرًا ﴾ یعنی اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا کیا ہے۔ ﴿وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ ﴾ اکثر لوگ، اللہ تعالیٰ نے ان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں اور ان سے جو تکالیف دور کی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ ’’شکر‘‘ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا دل سے اعتراف کرنا، اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھتے ہوئے اس نعمت کو قبول کرنا، اس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرنا اور اس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے گریز کرنا۔
#
{14} فلم يزل الشياطينُ يعملون لسليمانَ عليه الصلاة والسلامُ كلَّ بناءٍ، وكانوا قد موَّهوا على الإنس، وأخبروهم أنهم يعلمون الغيبَ، ويطَّلعون على المكنوناتِ، فأرادَ اللَّه تعالى أن يُرِيَ العبادَ كَذِبَهم في هذه الدعوى، فمكثوا يعملون على عملِهِم، وقضى الله الموتَ على سليمان عليه السلام، واتَّكأ على عصاه، وهي المنسأة، فصاروا إذا مروا به وهو متَّكئٌ عليها؛ ظنُّوه حيًّا وهابوه، فغدوا على عَمَلِهِم كذلك سنةً كاملةً على ما قيل، حتى سُلِّطَتْ دابةُ الأرض على عصاه، فلم تزل ترعاه حتى باد وسقط، فسقط سليمان، وتفرقتِ الشياطينُ وتبينتِ الإنسُ أنَّ الجنَّ {لو كانوا يعلمونَ الغيبَ ما لَبِثوا في العذابِ المُهين}: وهو العملُ الشاقُّ عليهم؛ فلو علموا الغيبَ؛ لعلموا موتَ سليمان الذي هم أحرص شيءٍ عليه ليسلموا ممَّا هم فيه.
[14] شیاطین اور جن حضرت سلیمانu کے لیے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔ انھوں نے انسانوں کو بہکایا اور ان پر ظاہر کیا کہ وہ غیب کا علم جانتے ہیں اور چھپی ہوئی چیزوں کی اطلاع رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بندوں پر ان کا جھوٹ واضح کرے، لہٰذا وہ اپنا کام کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانu کی وفات کا فیصلہ کر دیا، حضرت سلیمانu اپنے عصا کا سہارا لیے کھڑے تھے (اور اسی حالت میں وفات پاگئے) تو جن جب وہاں سے گزرتے تو دیکھتے کہ وہ سہارا لیے کھڑے ہیں۔ وہ انھیں زندہ سمجھتے ہوئے ان سے ڈرتے رہے۔ ایک قول کے مطابق جن سال بھر اسی طرح کام کرتے رہے حتیٰ کہ دیمک نے ان کا عصا کھانا شروع کر دیا یہاں تک کہ عصا بالکل ختم ہو کر گر گیا اور اس کے ساتھ حضرت سلیمانu کا جسد بھی زمین پر آرہا۔ یہ دیکھ کر شیاطین آزاد ہو کر بھاگ گئے اس طرح انسانوں پر واضح ہو گیا ﴿اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ﴾ ’’کہ اگر جنوں کے پاس علم غیب ہوتا تو وہ اس رسوا کن عذاب میں مبتلا نہ رہتے‘‘ یعنی اس انتہائی سخت کام میں مصروف نہ رہتے۔ اگر ان کے پاس غیب کا علم ہوتا تو انھیں حضرت سلیمانu کے وفات پاجانے کا علم ہوتا، جو ان کی سب سے بڑی خواہش تھی تاکہ اس مشقت سے نجات پائیں۔
آیت: 15 - 21 #
{لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ (15) فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ (16) ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ (17) وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ (18) فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (19) وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (20) وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ وَرَبُّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ (21)}.
البتہ تحقیق تھی سبا (قوم) کے لیے ان کی بستی میں ایک (عظیم ) نشانی، دو باغ، دائیں اور بائیں طرف ، کھاؤ تم رزق میں سے اپنے رب کے اور شکر کرو تم اس کا (یہ) شہر ہے پاکیزہ اور رب ہے بڑا بخشنے والا(15)پس انھوں نے اعراض کیا تو بھیج دیا ہم نے ان پر سیلاب بند کا، اور بدل دیے ہم نے ان کو ان کے دو باغوں کے عوض، دو باغ کسیلے میوے والے اور (جس میں تھے) کچھ جھاؤ اور کچھ درخت بیری کے تھوڑے سے(16) یہ سزا دی ہم نے ان کو اس کی جو انھوں نے کفر کیا، اور نہیں ہم سزا دیتے مگر ناشکروں ہی کو(17) اور (قائم) کر دی تھیں ہم نے درمیان ان کے اور درمیان ان بستیوں کے، جن میں برکت رکھی تھی ہم نے ، کچھ بستیاں جومتصل تھیں اور مقررکیں ہم نے اس میں (منزلیں) ، (اور کہا) چلو تم ان میں راتوں اور دنوں کوبے خوفی سے(18) پس انھوں نے کہا، اے ہمارے رب! دوری کر دے درمیان ہمارے سفروں کے، اور ظلم کیا انھوں نے اپنی جانوں پر، پس بنا دیا ہم نے ان کو افسانے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہم نے ان کو مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بلاشبہ اس میں نشانیاں ہیں واسطے ہر صابر و شاکر کے(19) اور تحقیق سچ کر دکھایا ان پر ابلیس نے اپنا خیال، پس پیروی کی انھوں نے اس کی، سوائے ایک فریق کے مومنوں میں سے(20) اور نہیں تھا اس کا اوپر ان کے کوئی زور، مگر تاکہ ہم جان لیں کون ایمان رکھتا ہے آخرت پر، (الگ) اس سے جو اس کے بارے میں شک میں ہے، اور آپ کا رب اوپر ہر چیز کے نگران ہے(21)
#
{15 ـ 19} سبأ قبيلةٌ معروفةٌ في أداني اليمن، ومسكنُهم بلدةٌ يُقالُ لها: مأرِب، ومن نعم الله ولطفِهِ بالناس عموماً وبالعرب خصوصاً أنه قصَّ في القرآن أخبار المهلكين والمعاقَبين ممَّنْ كان يجاوِرُ العرب، ويشاهدُ آثاره، ويتناقلُ الناس أخبارَه؛ ليكونَ ذلك أدعى إلى التصديق وأقربَ للموعظة، فقال: {لقد كان لسبأٍ في مسكنِهِم}؛ أي: محلِّهم الذي يسكنون فيه {آيةٌ}: والآيةُ هنا ما أدرَّ الله عليهم من النعم، وصرف عنهم من النقم، الذي يقتضي ذلك منهم أن يَعْبُدوا الله ويشكُروه. ثم فسَّرَ الآية بقوله: {جنَّتانِ عن يمينٍ وشمال}: وكان لهم وادٍ عظيمٌ تأتيه سيولٌ كثيرةٌ، وكانوا بنوا سدًّا محكماً يكون مجمعاً للماء، فكانت السيول تأتيه، فيجتمع هناك ماءٌ عظيمٌ، فيفرِّقونَه على بساتينهم التي عن يمين ذلك الوادي وشماله، وتُغِلُّ لهم تلك الجنتان العظيمتان من الثمار ما يكفيهم ويَحْصُلُ لهم به الغبطةُ والسرورُ، فأمرهم الله بشكرِ نِعَمِهِ التي أدرَّها عليهم من وجوه كثيرة: منها: هاتان الجنَّتان اللتان غالب أقواتهم منهما. ومنها: أنَّ الله جعل بَلَدَهُم بلدةً طيبةً لحسن هوائها وقلَّة وَخَمِها وحصول الرزق الرغد فيها. ومنها: أنَّ الله تعالى وَعَدَهم إن شكروه أن يغفرَ لهم ويرحَمَهم، ولهذا قال: {بلدةٌ طيبةٌ وربٌّ غفورٌ}. ومنها: أنَّ الله لما علم احتياجَهم في تجاراتِهِم ومكاسِبِهم إلى الأرض المباركة ـ الظاهرُ أنَّها قُرى صنعاء كما قاله غيرُ واحدٍ من السلف، وقيل: إنَّها الشامُ ـ؛ هيَّأ لهم من الأسباب ما به يتيسَّر وصولُهم إليها بغايةِ السُّهولة من الأمن وعدم الخوف وتواصُل القرى بينهم وبينها؛ بحيثُ لا يكون عليهم مشقَّةٌ بحمل الزاد والمزاد، ولهذا قال: {وجعلنا بينهم وبين القرى التي بارَكْنا فيها قرىً ظاهرةً وقدَّرْنا فيها السيرَ}؛ أي: سيراً مقدراً يعرفونه ويحكمونَ عليه بحيث لا يتيهونَ عنه ليالي وأياماً. {آمنينَ}؛ أي: مطمئنين في السير في تلك الليالي والأيام غير خائفينَ، وهذا من تمام نعمةِ الله عليهم أنْ أمَّنَهم من الخوف. فأعْرَضوا عن المنعِم وعن عبادتِهِ، وبَطِروا النعمةَ وملُّوها، حتى إنَّهم طلبوا وتمنَّوا أن تتباعد أسفارُهم بين تلك القرى التي كان السير فيها متيسراً. {وظلموا أنْفُسَهم}: بكفرِهِم بالله وبنعمتِهِ، فعاقَبَهُمُ الله تعالى بهذه النعمة التي أطْغَتْهم، فأبادها عليهم، فأرسل عليها {سيلَ العَرِم}؛ أي: السيل المتوعِّر الذي خَرَّبَ سدَّهم، وأتلف جناتهم، وخرَّبَ بساتينَهم، فتبدَّلت تلك الجناتُ ذات الحدائق المعجِبَة والأشجار المثمرة، وصار بَدَلَها أشجارٌ لا نفعَ فيها. ولهذا قال: {وبدَّلْناهم بجنَّتَيْهم جنتينِ ذواتي أكُل}؛ أي: شيءٍ قليل من الأكل الذي لا يقع منهم موقعاً، {خَمْطٍ وأثْلٍ وشيءٍ من سدرٍ قليل}: وهذا كله شجرٌ معروفٌ، وهذا من جنس عملهم؛ فكما بدَّلوا الشكر الحسن بالكفر القبيح؛ بُدِّلُوا تلك النعمة بما ذكر. ولهذا قال: {ذلك جَزَيْناهم بما كفروا وهل نُجازي إلاَّ الكفورَ}؛ أي: وهل نُجازي جزاء العقوبة ـ بدليل السياق ـ إلاَّ مَنْ كَفَرَ بالله وبَطِرَ النعمة؟! فلمَّا أصابَهم ما أصابَهم؛ تفرَّقوا وتمزَّقوا بعدما كانوا مجتمعينَ، وجَعَلَهُمُ الله أحاديثَ يُتَحَدَّث بهم وأسماراً للناس، وكان يُضْرَبُ بهم المثلُ، فيقالُ: «تفرَّقوا أيدي سبأ»؛ فكلُّ أحدٍ يتحدَّث بما جرى لهم، ولكنْ لا ينتفعُ بالعبرة فيهم إلاَّ مَنْ قال الله: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لكلِّ صبارٍ شكورٍ}: صبَّارٍ على المكاره والشدائدِ، يتحمَّلُها لوجه الله، ولا يتسخَّطُها، بل يصبرُ عليها، شكورٍ لنعمة الله تعالى، يُقِرُّ بها، ويعترفُ، ويثني على من أولاها، ويصرِفُها في طاعته. فهذا إذا سمع بقصَّتِهم وما جرى منهم وعليهم؛ عَرَفَ بذلك أنَّ تلك العقوبة جزاءٌ لكفرِهم نعمةَ الله، وأنَّ مَنْ فَعَلَ مثلهم؛ فُعِلَ به كما فُعِلَ بهم، وأنَّ شُكْرَ الله تعالى حافظٌ للنعمة دافعٌ للنقمة، وأنَّ رُسُلَ الله صادقون فيما أخبروا به، وأنَّ الجزاء حقٌّ كما رأى أنموذَجَه في دار الدنيا.
[19-15] ’’سبا‘‘ ایک معروف قبیلہ تھا جو یمن کے قریب ترین علاقوں میں آباد تھا وہ ایک شہر میں آباد تھے جسے ’’مَأرِب‘‘ کہا جاتا تھا۔ تمام بندوں پر عموما اور عربوں پر خصوصاً اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی بے پایاں نعمتیں ہیں کہ اس نے قرآن مجید میں ان ہلاک شدہ قوموں کے بارے میں خبر دی ہے جن پر عذاب نازل کیا گیا، جو ان کے پڑوس میں آباد تھیں، جہاں ان کے آثار کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور لوگ ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں تاکہ اس طرح ان کے واقعات کے ذریعے سے قرآن کی تصدیق ہو اور یہ چیز نصیحت کے قریب تر ہو۔ ﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ ﴾ ’’سبا کے لیے ان کے مسکنوں میں‘‘ یعنی ان کے مساکن جہاں وہ آباد تھے ﴿اٰیَةٌ ﴾ ’’ایک نشانی ‘‘ اور وہ نشانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور بہت سی تکالیف کو ان سے دور کیا اور یہ چیز اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿جَنَّتٰ٘نِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ ﴾ ’’ان کے دائیں بائیں دو باغات تھے۔‘‘ ان کے پاس ایک وادی تھی جہاں بہت کثرت سے سیلاب آتے تھے انھوں نے اس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بہت مضبوط بند تعمیر کیا۔ چنانچہ سیلاب کا پانی آکر اس وادی میں جمع ہو جاتا ، پھر وہ اس وادی کے دائیں بائیں لگائے ہوئے اپنے باغات کو اس پانی سے سیراب کرتے ۔یہ دو عظیم باغ ان کے لیے اتنا پھل پیدا کرتے جو ان کی معیشت کے لیے کافی ہوتا۔ اس سے انھیں بہت مسرت حاصل ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی پہلوؤ ں سے اپنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا: (۱) یہ دونوں باغ ان کو ان کی خوراک کا بہت بڑا حصہ فراہم کرتے تھے۔ (۲) اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے علاقے کو، اس کی نہایت خوشگوار آب و ہوا، اس کے مضر صحت نہ ہونے اور رزق کے ذرائع کی فراوانی کی بنا پر، بہت خوبصورت بنایا۔ (۳) اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اس لیے فرمایا: ﴿بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ ﴾ ’’پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب ہے۔‘‘ (۴) اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اپنی تجارت اور اپنے مکاسب میں ارض مبارک کے محتاج ہیں... سلف میں سے ایک سے زائد اہل علم کے مطابق ارض مبارک سے ’’صنعاء‘‘ کی بستیاں مراد ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ارض شام ہے... تو ان کو ایسے ذرائع اور اسباب مہیا کر دیے جن کے ذریعے سے ان بستیوں تک پہنچنا ان کے لیے انتہائی آسان ہو گیا، انھیں دوران سفر امن اور عدم خوف حاصل ہوا، ان کے درمیان اور ارض مبارک کے درمیان بستیاں اور آبادیاں تھیں، بنا بریں انھیں زادراہ کا بوجھ اٹھانے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الْ٘قُ٘رَى الَّتِیْ بٰرَؔكْنَا فِیْهَا قُ٘رًى ظَاهِرَةً وَّقَدَّرْنَا فِیْهَا السَّیْرَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی، دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد و رفت کا اندازہ مقرر کر دیا تھا۔‘‘ یعنی ایک مقرر راستہ جسے وہ پہچانتے تھے اسی پر چلتے تھے اور یہ راستہ چھوڑ کر ادھر ادھر نہ ہوتے تھے۔ ﴿لَیَالِیَ وَاَیَّ٘امًا اٰمِنِیْنَ ﴾ یعنی وہ ان میں راتوں اور دنوں کو نہایت اطمینان کے ساتھ، کسی خوف کے بغیر سفر کرتے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی کامل نعمت تھی کہ اس نے ان کو خوف سے مامون رکھا۔ پس انھوں نے نعمتیں عطا کرنے والے منعم حقیقی اور اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت پر اترانے لگے اور اس سے اکتا گئے۔ یہاں تک کہ وہ تمنا کرنے لگے کہ ان کی بستیوں کے درمیان ان کا سفر، جو نہایت آسان تھا، کاش! وہ دور ہو جائے۔ ﴿وَظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کر کے انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نعمت کے ذریعے سے، جس نے انھیں سرکش بنا دیا تھا، ان کو سزا دی کہ ان کے اس بند کو توڑ دینے والا منہ زور سیلاب بھیجا جس نے ان کے اس بند کو توڑ کر ان کے باغات کو تباہ کر دیا۔ ان کے پھل دار درختوں والے یہ باغات جھاڑ جھنکار میں بدل گئے، لہٰذا فرمایا: ﴿وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَیْهِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُكُ٘لٍ ﴾ ’’اور ان کو ان کے دو باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیے جن کے میوے‘‘ یعنی بہت تھوڑا پھل جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ﴿خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَیْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ ﴾ ’’بدمزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔‘‘ یہ سب معروف درخت ہیں، یہ سزا ان کے عمل کی جنس سے تھی یعنی جس طرح انھوں نے شکر حسن کو کفر قبیح میں بدل ڈالا اسی طرح ان کی یہ نعمتیں بدل دی گئیں، گزشتہ سطور میں جس کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْا١ؕ وَهَلْ نُجٰؔزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ﴾ ’’یہ ہم نے انھیں ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکرے ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم جزا کے طور پر عذاب... جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے... اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیتے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ہو اور اس کی عطا کردہ نعمت پر اتراتا رہا ہو۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے اس سے پہلے وہ اکٹھے تھے، ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا لوگ ان کے بارے میں دن رات گفتگو کرتے ہیں، وہ پراگندگی میں ضرب المثل بن گئے اور ان کی مثال دی جانے لگی۔ ، چنانچہ کہا جاتا ہے: ( تَفَرَّقُوا أَیْدِي سَبَأ) ’’وہ ایسے بکھر گئے جیسے قوم سبا بکھر گئی تھی۔‘‘ ہر شخص ان کے قصے بیان کرتا تھا، مگر عبرت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ﴾ ’’بلاشبہ اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار بندے کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ناپسندیدہ امور اور سختیوں پر صبر کرنے والا، جو ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرتا ہے، ان پر ناراضی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ان پر صبر کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار اور اعتراف کر کے اس پر اس کا شکر اداکرتا ہے، منعم کی حمد وثنا بیان کرتا ہے اور اس نعمت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتا ہے۔ جب ان کا قصہ سنا جاتا ہے کہ ان کے کرتوت کیا تھے اور ان کے ساتھ کیا کیاگیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کو یہ سزا اس بنا پر دی گئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناسپاسی کی تھی۔ نیز یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ جو کوئی اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ (۱) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ ’’شکر‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حفاظت اور اس کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ (۲) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی خبر میں سچے ہیں۔ (۳) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جزا حق ہے جیسا کہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
#
{20} ثم ذكر أنَّ قوم سبأ من الذين صَدَّقَ عليهم إبليسُ ظنَّه؛ حيث قال لربِّه: {فبعزَّتِكَ لأُغْوِيَنَّهُمْ أجمعينَ. إلاَّ عبادَكَ منهم المُخْلَصينَ}: وهذا ظنٌّ من إبليس لا يقينٌ؛ لأنَّه لا يعلم الغيبَ ولم يأتِهِ خبرٌ من الله أنَّه سيُغْويهم أجمعين؛ إلاَّ من استثنى؛ فهؤلاء وأمثالهم ممَّنْ صدَّقَ عليه إبليسُ ظنَّه ودعاهم وأغواهم، {فاتَّبَعوه إلاَّ فريقاً من المؤمنين}: ممَّنْ لم يكفرْ بنعمة الله؛ فإنَّه لم يدخُلْ تحتَ ظنِّ إبليس، ويُحتمل أنَّ قصة سبأ انتهت عند قولِهِ: {إنَّ في ذلك لآياتٍ لكلِّ صبارٍ شكورٍ}. ثم ابتدأ فقال: {ولقد صَدَّقَ عليهم}؛ أي: على جنس الناس، فتكون الآيةُ عامةً في كلِّ مَنِ اتَّبَعَهُ.
[20] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ سبا ایسی قوم ہے جس کی وجہ سے شیطان نے اپنا یہ دعویٰ سچ کر دکھایا جیسا کہ اس نے کہا تھا:﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ۰۰ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ۰۰ قَالَ فَالْحَقُّ١ٞ وَالْحَقَّ اَ٘قُوْلُ﴾ (صٓ:38؍82، 83) ’’تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بدراہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔‘‘ یہ شیطان کا گمان تھا جو یقین پر مبنی نہ تھا کیونکہ شیطان غیب کا علم جانتا ہے نہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر ہی آئی ہے کہ وہ ان سب کو بدراہ کرے گا سوائے ان مستثنیٰ لوگوں کے۔ پس یہ لوگ اور ان جیسے دیگر لوگ، جن کے بارے میں شیطان کا گمان سچا ثابت ہوا، اس نے ان کو اپنے راستے پر چلنے کی دعوت دی اور ان کو بہکایا، ﴿فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’تو مومنوں کی ایک جماعت کے سوا وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہیں کی تو یہ لوگ ابلیس کے گمان میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ قوم سبا کا قصہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ختم ہو گیا ہو: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّ٘كُ٘لِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ﴾ اور پھر اس آیت کریمہ سے کلام کی ابتدا کی ہو ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور تحقیق شیطان نے ان کے بارے میں (اپنا گمان) سچ کر دکھایا‘‘ یعنی تمام انسانوں کی جنس کے بارے میں۔ تب یہ آیت کریمہ، ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جنھوں نے شیطان کی پیروی کی۔
#
{21} ثم قال تعالى: {وما كان له}؛ أي: لإبليس {عليهم من سلطانٍ}؛ أي: تسلُّطٍ وقهرٍ وقسرٍ على ما يريده منهم، ولكنَّ حكمةَ الله تعالى اقتضت تسليطَه وتسويلَه لبني آدم؛ {لنعلم من يؤمنُ بالآخرة ممَّنْ هو منها في شكٍّ}؛ أي: ليقوم سوقُ الامتحان، ويُعْلَمَ به الصادقُ من الكاذب، ويُعْرَفَ مَنْ كان إيمانُه صحيحاً يثبتُ عند الامتحان والاختبار وإلقاءِ الشُّبَه الشيطانيَّةِ ممَّنْ إيمانُه غيرُ ثابتٍ يتزلزلُ بأدنى شبهةٍ ويزولُ بأقلِّ داع يدعوه إلى ضدِّه؛ فالله تعالى جعله امتحاناً يمتحن به عبادَه ويُظْهِرُ الخبيثَ من الطيب. {وربُّك على كلِّ شيءٍ حفيظٌ}: يحفظُ العباد ويحفظُ عليهم أعمالهم، ويحفظُ تعالى جزاءَها؛ فيوفِّيهم إيَّاها كاملة موفرةً.
[21] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ لَهٗ﴾ ’’اورنہیں ہے اس کو۔‘‘ یعنی ابلیس کو ﴿عَلَیْهِمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ ﴾ ’’ان پر کوئی غلبہ۔‘‘ یعنی شیطان کو کوئی تسلط اور غلبہ حاصل ہے نہ وہ کسی کو اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو شیطان کے تسلط اور بنی آدم کو گمراہ کرنے میں اس کی فریب کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ ﴿لِنَعْلَمَ مَنْ یُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِیْ شَكٍّ ﴾ ’’تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ تاکہ امتحان کا بازار گرم رہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز واقع ہو جائے، وہ شخص پہچانا جائے جس کا ایمان صحیح ہے جو امتحان، آزمائش اور شیطانی شبہات کے وقت ثابت قدم رہا اور وہ شخص بھی پہچان لیا جائے جس کا ایمان صحیح نہیں جو ادنیٰ سے شبہے پر متزلزل ہو جاتا ہے اور اس سے متضاد تھوڑی سی دعوت پر اپنے موقف سے ہٹ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے امتحان کا ذریعہ بنایا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور پاک لوگوں میں سے ناپاک کو ظاہر کر دیتا ہے ﴿وَرَبُّكَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ ﴾ ’’اور آپ کا رب ہر چیز پر محافظ ہے۔‘‘ وہ بندوں کی حفاظت کرتا ہے، ان کے اعمال اور اعمال کی جزا کو محفوظ رکھتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی پوری جزا دے گا۔
آیت: 22 - 23 #
{قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (22) وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (23)}.
کہہ دیجیے! پکارو ان کو جنھیں گمان کیا تھا تم نے اللہ کے سوا ( معبود)، نہیں اختیار رکھتے وہ برابر ایک ذرے کے آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہیں ہے ان کی ان دونوں میں کوئی شرکت اور نہیں ہے اس کے لیے ان میں سے کوئی مددگار(22) اور نہیں نفع دے گی سفارش اس کےپاس، سوائے اس شخص کے کہ اجازت دے گا اللہ اسے، یہاں تک کہ جب دور کر دی جاتی گھبراہٹ ان کے دلوں سے توکہتے ہیں، کیا کہا تمھارے رب نے؟ وہ کہتے ہیں: حق (کہا)، اور وہ بہت بلند اور بڑا ہے(23)
#
{22 ـ 23} أي: {قل}: يا أيها الرسولُ للمشركين بالله غيرَهُ من المخلوقاتِ التي لا تنفعُ ولا تضرُّ ملزماً لهم بعجزِها ومبيِّناً بطلان عبادتها: {ادعوا الذينَ زعمتُم من دون الله}؛ أي: زعمتموهم شركاء لله إنْ كان دعاؤكم ينفعُ؛ فإنَّهم قد توفرتْ فيهم أسبابُ العجز وعدم إجابة الدعاء من كلِّ وجه؛ فإنَّهم ليس لهم أدنى ملك، فلا يملكونَ مثقال ذرَّةٍ في السماوات والأرض: على وجه الاستقلال، ولا على وجه الاشتراك، ولهذا قال: {وما لهم}؛ أي: لتلك الآلهة الذين زعمتم {فيهما}؛ أي: في السماواتِ والأرض {من شِرْكٍ}؛ أي: لا شركٌ قليل ولا كثيرٌ؛ فليس لهم ملكٌ ولا شركة ملك. بقي أنْ يُقالَ: ومع ذلك؛ فقد يكونون أعواناً للمالك ووزراء له؛ فدعاؤهم يكون نافعاً؛ لأنَّهم بسبب حاجة الملك إليهم يقضون حوائج مَنْ تعلَّق بهم، فنفى تعالى هذه المرتبةَ، فقال: {وما له}؛ أي: للَّه تعالى الواحد القهار {منهم}؛ أي: من هؤلاء المعبودين {من ظهيرٍ}؛ أي: معاونٍ ووزيرٍ يساعده على الملك والتدبير. فلم يبقَ إلاَّ الشفاعةُ، فنفاها بقوله: {ولا تنفَعُ الشفاعةُ عنده إلا لِمَنْ أذِنَ له}: فهذه أنواع التعلُّقات التي يتعلَّقُ بها المشركون بأندادهم وأوثانهم من البشر والشجر والحجر وغيرهم، قَطَعَها الله وبيَّن بطلانَها تبييناً حاسماً لموادِّ الشرك قاطعاً لأصوله؛ لأنَّ المشرك إنَّما يدعو ويعبدُ غير الله؛ لما يرجو منه من النفع؛ فهذا الرجاء هو الذي أوجبَ له الشركَ؛ فإذا كان من يدعوه غير الله لا مالكاً للنفع والضرِّ ولا شريكاً للمالك ولا عوناً وظهيراً للمالك ولا يقدِرُ أن يَشْفَعَ بدون إذنِ المالك؛ كان هذا الدعاء وهذه العبادة ضلالاً في العقل باطلةً في الشرع، بل ينعكسُ على المشركِ مطلوبُه ومقصودُه؛ فإنَّه يريدُ منها النفع، فبيَّن الله بطلانه وعدمه، وبيَّن في آيات أُخَرَ ضررَها على عابديها ، وأنَّه يوم القيامةِ يكفرُ بعضُهم ببعض ويلعنُ بعضُهم بعضاً ومأواهم النارُ، وإذا حُشِرَ الناس كانوا لهم أعداءً وكانوا بعبادتهم كافرين. والعجب أن المشرك استكبر عن الانقياد للرسل بزعمهم أنهم بشرٌ، ورضي أن يَعْبُدَ ويدعو الشجر والحجر، استكبر عن الإخلاص للملك الرحمن الديان، ورضي بعبادةِ مَنْ ضَرُّهُ أقربُ من نفعِهِ طاعةً لأعدى عدوٍّ له وهو الشيطان! وقوله: {حتى إذا فُزِّعَ عن قلوبِهِم قالوا ماذا قال ربُّكُم قالوا الحقَّ وهو العليُّ الكبيرُ}: يُحتمل أنَّ الضمير في هذا الموضع يعودُ إلى المشركين؛ لأنهم مذكورون في اللفظ، والقاعدة في الضمائرِ أن تعودَ إلى أقرب مذكورٍ، ويكونُ المعنى: إذا كان يوم القيامةِ وفُزِّع عن قلوب المشركين؛ أي: زال الفزع وسُئِلوا حين رجعت إليهم عقولُهم عن حالهم في الدُّنيا وتكذيبهم للحقِّ الذي جاءت به الرسل؛ أنَّهم يقرُّون أنَّ ما هم عليه من الكفر والشرك باطلٌ، وأنَّ ما قال الله وأخبرت به عنه رسلُه هو الحقُّ، فبدا لهم ما كانوا يُخفون من قبلُ، وعلموا أن الحقَّ لله، واعترفوا بذُنوبهم. {وهو العليُّ}: بذاته فوقَ جميع المخلوقاتِ، وقهرُهُ لهم وعلوُّ قدره بما له من الصفات العظيمةِ جليلة المقدار. {الكبيرُ}: في ذاته وصفاته، ومن علوِّه أنَّ حكمه تعالى يعلو، وتُذْعِنُ له النفوسُ، حتى نفوس المتكبرينَ والمشركينَ، وهذا المعنى أظهرُ، وهو الذي يدلُّ عليه السياق. ويُحتمل أنَّ الضمير يعود إلى الملائكة، وذلك أنَّ الله تعالى إذا تكلَّم بالوحي؛ سمعتْه الملائكةُ فصُعِقوا وخرُّوا لله سجداً، فيكون أول من يرفعُ رأسهَ جبريلُ، فيكلِّمه الله من وحيه بما أراد؛ فإذا زال الصعقُ عن قلوب الملائكة وزال الفزعُ، فيسأل بعضُهم بعضاً عن ذلك الكلام الذي صعقوا منه: ماذا قال ربُّكم؟ فيقولُ بعضُهم لبعض: قال الحقَّ: إمَّا إجمالاً لعلمهم أنه لا يقول إلاَّ حقًّا، وإمَّا أن يقولوا: قال كذا وكذا ، للكلام الذي سمعوه منه، وذلك من الحقِّ. فيكون المعنى على هذا أنَّ المشركين الذين عبدوا مع الله تلك الآلهة التي وَصَفْنا لكم عجزها ونقصها وعدم نفعها بوجهٍ من الوجوه كيف صَدَفوا وصَرَفوا عن إخلاص العبادة للربِّ العظيم العليِّ الكبير الذي من عظمته وجلاله أنَّ الملائكة الكرام والمقرَّبين من الخلق يبلغ بهم الخضوعُ والصعقُ عند سماع كلامه هذا المبلغ، ويقرُّون كلُّهم لله أنَّه لا يقول إلاَّ الحقَّ؛ فما بال هؤلاءِ المشركين استكبروا عن عبادةِ مَنْ هذا شأنُه وعظمةُ ملكِهِ وسلطانِهِ؟! فتعالى العليُّ الكبيرُ عن شركِ المشركين وإفكِهِم وكذِبِهم.
[22، 23] ﴿قُ٘لِ ﴾ اے رسول! جو لوگ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی کو کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتی انھیں خود ساختہ معبودوں کا عجز اور ان کی عبادت کا بطلان واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے! ﴿ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ یعنی جنھیں تم اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہو، اگر تمھارا پکارنا کوئی فائدہ دے سکتا ہے، تو انھیں پکار دیکھو ان کی بے بسی اور تمھاری پکار کا جواب دینے پر عدم قدرت کے اسباب ہر لحاظ سے بہت زیادہ اور واضح ہیں۔ بلاشبہ وہ کسی ادنیٰ سی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ ﴿لَا یَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’وہ زمین وآسمان میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں‘‘ یعنی وہ مستقل طور پر کسی چیز کے مالک ہیں نہ کسی چیز کی ملکیت میں اشتراک رکھتے ہیں۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَمَا لَهُمْ ﴾ ’’اور ان کے لیے نہیں ہے‘‘ یعنی جن کو تم نے معبود سمجھ رکھا ہے ﴿فِیْهِمَا ﴾ آسمانوں اور زمین میں ﴿مِنْ شِرْكٍ ﴾ ’’کوئی شراکت‘‘ یعنی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر، ان کا اس میں کوئی بھی حصہ نہیں ہے۔ پس وہ کسی چیز کے مالک ہیں نہ ملکیت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ، ان کے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ملکیت میں شریک نہ ہونے کے باوجود ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ مالک کے اعوان و انصار اور اس کے وزراء ہیں ، لہٰذا ان کو پکارنا نفع مند ہے، کیونکہ بادشاہ ان کا محتاج ہوتا ہے اور وہ اپنے متعلقین کی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مرتبہ ومقام کی بھی نفی فرما دی، چنانچہ فرمایا: ﴿وَّمَا لَهٗ﴾ ’’اور نہیں ہے اس کے لیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ واحد قہار کے ﴿مِنْهُمْ ﴾ ان خود ساختہ معبودوں میں سے ﴿مِّنْ ظَهِیْرٍ ﴾ کوئی معاون اور وزیر، جو کاروبار، اقتدار اور تدبیر مملکت میں اس کی مدد کرے۔ باقی رہی شفاعت تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی نفی فرما دی، فرمایا: ﴿وَلَا تَ٘نْ٘فَ٘عُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ﴾ ’’اور اس کے ہاں سفارش فائدہ نہیں دے گی مگر اس کے لیے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔‘‘ یہ وہ تعلقات اور امیدیں ہیں جو مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں، بتوں، انسانوں اور شجر وحجر سے وابستہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امیدوں کو منقطع کر دیا اور ان کے بطلان کو اچھی طرح واضح کر کے شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ چونکہ مشرک غیراللہ کی عبادت صرف اس لیے کرتا ہے کہ اسے غیر اللہ سے کسی نفع کی امید ہوتی ہے اور یہی امید شرک کی موجب ہوتی ہے تو جب یہ معلوم ہو جائے کہ وہ ہستی، جسے یہ اللہ کے سوا پکارتا ہے، کسی نفع و نقصان کی مالک ہے نہ مالک کی ملکیت میں شریک ہے، نہ اس کی معاون اور مددگار ہے اور نہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکتی ہے تو اس کا یہ پکارنا اور اس کی یہ عبادت عقل کے مطابق گمراہی اور شرع کے مطابق باطل ہے۔ اس کے برعکس مشرک کو اس سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ اس کے مقصود ومطلوب کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ مشرک ان خود ساختہ معبودوں کے ذریعے سے نفع چاہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس نفع کا بطلان اور اس کا معدوم ہونا واضح کر دیا ہے اور بعض دیگر آیات میں ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرنے والے کے لیے ان کے ضرر کو بیان کر دیا ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قیامت کے روز یہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ فرمایا: ﴿وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءًؔ وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ﴾ (الاحقاف:46/6) ’’اور جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ اپنی عبادت کرنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔‘‘ بڑی عجیب بات ہے کہ مشرک آدمی تکبرواستکبار کی وجہ سے رسولوں کی اطاعت اس گمان سے نہیں کرتا کہ وہ بشر ہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ شجروحجر کو پکارتاہے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے، محض تکبر کی بنا پر رحمان کے لیے اخلاص نہیں رکھتا مگر اپنے بدترین دشمن شیطان کی اطاعت کرتے ہوئے ان ہستیوں کی عبادت پر راضی ہو جاتا ہے جن کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُ٘لُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا١ۙ قَالَ رَبُّكُمْ١ؕ قَالُوا الْحَقَّ١ۚ وَهُوَ الْ٘عَلِیُّ الْكَبِیْرُ ﴾ ’’حتی کہ جب ان کے دلوں سے گبھراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں تمھارے پرودگار نے کیا فرمایا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وہ بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس مقام پر ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ آیت کریمہ میں لفظاً وہی مذکور ہیں اور ضمائر کے بارے میں قاعدہ بھی یہی ہے کہ یہ اپنے قریب ترین مذکور کی طرف لوٹتی ہیں تب اس صورت میں معنیٰ یہ ہو گا کہ قیامت کے روز جب مشرکین کی گھبراہٹ دور ہو گی، اور انھیں ہوش آئے گا، ان سے دنیا میں ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حق لانے والے رسولوں کی تکذیب کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا تو وہ اقرار کریں گے کہ کفر اور شرک پر مبنی ان کا موقف باطل تھا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور انبیاء و مرسلین نے اس کے بارے میں خبر دی تھی وہی حق تھا۔ تو اس سے پہلے جو کچھ وہ چھپایا کرتے تھے سب ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گا اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ حق تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ﴿وَهُوَ الْ٘عَلِیُّ ﴾ وہ بذاتہ تمام مخلوقات کے اوپر ہے، وہ ان پر غالب ہے اور وہ اپنی عظیم اور جلیل القدر صفات کی بنا پر عالی قدر ہے۔ ﴿الْكَبِیْرُ ﴾ وہ اپنی ذات و صفات میں بہت بڑا ہے۔ یہ اس کی بلندی ہے کہ اس کا حکم سب پر غالب ہے نفوس اس کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ مشرکین و متکبرین کے نفوس بھی سرافگندہ ہیں۔ یہ معنیٰ زیادہ واضح ہے اور یہی وہ معنیٰ ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر ملائکہ کی طرف لوٹتی ہو، یعنی جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے کلام فرماتے ہیں اور فرشتے اسے سنتے ہیں تو وہ غش کھا کر سجدے میں گر جاتے ہیں، پھر سب سے پہلے جبریلu سر اٹھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو ارادہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں ان سے وحی کے ذریعے سے کلام کرتے ہیں۔ جب فرشتوں کی مدہوشی دور اور ان کی گھبراہٹ زائل ہو جاتی ہے تو وہ کلام الٰہی کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں جس کی بنا پر ان پر غشی طاری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حق ارشاد فرمایا: یہ بات وہ یا تو اجمالی طور پر کہتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے یا وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں بات ارشاد فرمائی، یہ اس کلام کی وجہ سے کہتے ہیں جو انھوں نے اس سے سنا ہے اور یہ سب حق ہے۔ تب اس احتمال کے مطابق معنیٰ یہ ہو گا کہ مشرکین جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی جن کے عجز اور نقص کے بارے میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتے تو ان کفار نے رب عظیم کی عبادت میں اخلاص سے کیسے انحراف کیا، جو بلند اور بہت بڑا ہے جس کی عظمت و جلال کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے مکرم اور مقرب فرشتے، اس کا کلام سن کر خشوع و خضوع کی بنا پر غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ان مشرکین کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکبر سے اس ہستی کی عبادت سے انکار کرتے ہیں جس کی عظمت، اقتدار، تسلط اور شان کا یہ حال ہے۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ مشرکین کے شرک اور ان کے کذب و بہتان طرازی سے بلندوبالا ہے۔
آیت: 24 - 27 #
{قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (24) قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ (25) قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (26) قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُمْ بِهِ شُرَكَاءَ كَلَّا بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (27)}.
کہہ دیجیے!کون رزق دیتا ہے تم کو آسمانوں اور زمین سے؟ کہہ دیجیے: اللہ ہی، اور بلاشبہ ہم یا تم البتہ ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں(24) کہہ دیجیے! نہیں پوچھے جاؤ گے تم اس کی بابت جو ہم نے جرم کیا اور نہ ہم پوچھے جائیں گے اس کی بابت جو تم عمل کرتے ہو(25) کہہ دیجیے: جمع کرے گا ہم سب کو ہمارا رب، پھر وہ فیصلہ کرے گا ہمارے درمیان ساتھ حق کے اور وہی ہے فیصلہ کرنے والا، جاننے والا(26) کہہ دیجیے: دکھاؤ تم مجھے، وہ (معبود) جن کو ملا دیا تھا تم نے اس (اللہ) کے ساتھ شریک (ٹھہرا کر)، ہرگز ایسا نہیں بلکہ وہی ہے اللہ غالب حکمت والا (27)
#
{24} يأمر تعالى نبيَّه محمداً - صلى الله عليه وسلم - أن يقولَ لمن أشركَ بالله ويسألَه عن صحةِ شركِهِ: {من يَرْزُقُكم من السمواتِ والأرضِ}: فإنَّهم لا بدَّ أن يُقرُّوا أنَّه الله، ولئنْ لم يقرُّوا؛ فَـ {قُلِ اللهُ}: فإنَّك لا تجد من يدفعُ هذا القول. فإذا تبيَّن أنَّ الله وحده الذي يرزقُكم من السماواتِ والأرضِ ويُنْزِلُ لكم المطر ويُنْبِتُ لكم النباتَ ويفجِّرُ لكم الأنهارَ ويُطْلِعُ لكم من ثمار الأشجار وجعل لكم الحيواناتِ جميعَها لنفعِكُم ورزقِكُم؛ فلِمَ تعبدون معه من لا يرزُقُكم شيئاً ولا يفيدكم نفعاً؟! وقوله: {وإنا أو إيَّاكم لعلى هدىً أو في ضلال مبينٍ}؛ أي: إحدى الطائفتين منَّا ومنكم على الهدى مستعليةٌ عليه، أو في ضلال بيِّنٍ منغمرةٌ فيه. وهذا الكلام يقولُه من تبيَّن له الحقُّ واتَّضح له الصوابُ وجَزَمَ بالحقِّ الذي هو عليه وبطلانِ ما عليه خصمُه؛ أي: قد شرحنا من الأدلَّة الواضحة عندنا وعندكم ما به يُعْلَم علماً يقينيًّا لا شكَّ فيه مَن المحقُّ منا ومَن المبطلُ ومَن المهتدي ومن الضالُّ، حتى إنَّه يصير التعيينُ بعد ذلك لا فائدة فيه؛ فإنَّك إذا وازنتَ بين من يدعو إلى عبادة الخالقِ لسائر المخلوقات، المتصرِّفِ فيها بجميع أنواع التصرُّفات، المسدي جميع النعم، الذي رزقهم وأوصل إليهم كلَّ نعمة ودفع عنهم كلَّ نقمة، الذي له الحمدُ كلُّه والملكُ كلُّه وكلُّ أحدٍ من الملائكة فَمَنْ دونهم خاضعون لهيبته متذلِّلون لعظمته، وكلُّ الشفعاء تخافه، لا يشفعُ أحدٌ منهم عنده إلاَّ بإذنِهِ، العليُّ الكبيرُ في ذاتِهِ وأوصافِهِ وأفعالِهِ، الذي له كلُّ كمال وكلُّ جلال وكلُّ جمال وكلُّ حمد وثناء ومجدٍ، يدعو إلى التقرُّب لمن هذا شأنه، وإخلاص العمل له، وينهى عن عبادةِ مَنْ سواه، وبين من يتقرَّب إلى أوثان وأصنام وقبور لا تَخْلُقُ ولا ترزقُ ولا تملكُ لأنفسها ولا لِمَنْ عَبَدَها نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، بل هي جماداتٌ لا تعقل ولا تسمع دعاء عابديها، ولو سمعتْه؛ ما استجابت لهم، ويوم القيامةِ يكفُرون بشِرْكِهم ويتبرؤون منهم ويتلاعنون بينهم، ليس لهم قِسْطٌ من الملك، ولا شركة فيه ولا إعانة فيه، ولا لهم شفاعةٌ يستقلُّون بها دون الله؛ فهو يدعو من هذا وصفُهُ، ويتقرَّبُ إليه مهما أمكَنَه، ويعادي مَنْ أخلصَ الدين لله ويحاربُهُ، ويكذِّبُ رسل الله الذين جاؤوا بالإخلاص لله وحده؛ تبيَّنَ لك أيُّ الفريقين: المهتدي من الضالِّ والشقيِّ من السعيد، ولم يحتج إلى أن يعينَ لك ذلك؛ لأنَّ وصف الحال أوضح من لسان المقال.
[24] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰ e سے فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان سے ان کے شرک کی صحت کی دلیل طلب کرتے ہوئے کہہ دیجیے! ﴿مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین سے تمھیں رزق کون فراہم کرتا ہے؟‘‘ تو وہ لازمی طور پر اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ انھیں رزق مہیا کرتا ہے اگر وہ اس حقیقت کا اقرار نہ کریں تو ﴿قُ٘لِ اللّٰهُ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرتا ہے۔‘‘ آپ ایک بھی ایسا شخص نہ پائیں گے جو اس بات کو رد کر سکے۔ جب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زمین و آسمان سے تمھیں رزق عطا کرتا ہے، وہ تمھارے لیے آسمان سے بارش برساتا ہے، وہ تمھارے لیے نباتات اگاتا ہے، وہ تمھارے لیے دریاؤ ں کو جاری کرتا ہے، وہ درختوں پر تمھارے لیے پھل اگاتا ہے، اس نے تمام حیوانات کو تمھارے رزق اور تمھاری دیگر منفعتوں کے لیے تخلیق فرمایا۔ پھر تم اس کے ساتھ ان ہستیوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تمھیں رزق عطا کر سکتی ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاِنَّـاۤ٘ اَوْ اِیَّاكُمْ لَ٘عَ٘لٰى هُدًى اَوْ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ یعنی ہم دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ ہدایت پر ہے یا واضح گمراہی میں غرق ہے۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس پر حق ظاہر اور صواب واضح ہو، جسے اپنے موقف کے حق ہونے اور اپنے مخالف کے موقف کے بطلان کا یقین ہو۔ ہم نے وہ تمام دلائل واضح کر دیے ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں اور جو تم پیش کرتے ہو۔ جن سے کسی شک کے بغیر یقینی علم حاصل ہو جاتا ہے کہ ہم میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ؟ حتی کہ اس کے بعد تعیین ہو جاتی ہےجس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ اس شخص کے درمیان... جو اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، جو ان میں ہر قسم کا تصرف کرتا ہے، جو ہر قسم کی نعمت عطا کرتا ہے، جس نے ان کو رزق مہیا کیا، ان تک ہر قسم کی نعمت پہنچائی، ان سے ہر برائی کو دور کیا۔ تمام حمد وثنا اسی کے لیے ہے، تمام فرشتے اور ان سے کم تر مخلوق اس کی ہیبت کے سامنے سرنگوں اور اس کی عظمت کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے ہیں، تمام سفارشی اس سے خائف ہیں، ان میں سے کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا جو اپنی ذات میں، اپنے اوصاف و افعال میں، بہت بلند اور بہت بڑا ہے، جو ہر قسم کے کمال، جلال اور جمال کا مالک ہے، جو ہر قسم کی مجد اور حمد وثنا کا مستحق ہے ، وہ اس ہستی کے تقرب کے حصول کی دعوت دیتا ہے جس کی یہ شان ہے، اس کے لیے اخلاص عمل کا حکم دیتا ہے، اس کے سوا دیگر ہستیوں کی عبادت سے روکتا ہے... اور اس شخص کے درمیان موازنہ کریں جو خودساختہ معبودوں، بتوں اور قبروں کے تقرب کے حصول کی کوشش کرتا ہے، جو کوئی چیز پیدا کر سکتے ہیں نہ رزق دے سکتے ہیں، وہ خود اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کے لیے، بلکہ یہ تو جمادات اور پتھر ہیں جو عقل رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کی پکار کو سنتے ہیں، اگر سن بھی لیں تو ان کو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے روز یہ ان کے شرک کا انکار اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہے نہ شراکت اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی سفارش کر سکتے ہیں۔ یہ شخص اس ہستی کو پکارتا ہے، جس کا یہ وصف ہے، امکان بھر اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ عداوت رکھتا اور اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے جو دین میں اخلاص کا حامل ہے اور وہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں... تو آپ پر واضح ہو جائے گاکہ فریقین میں سے کون ہدایت یافتہ اور کون گمراہ ہے، کون نیک بخت اور کون بدبخت ہے۔ اس بات کی حاجت نہیں کہ اس کو بیان کرنے کے لیے آپ کی کوئی مدد کرے کیونکہ زبانِ حال زبانِ مقال سے زیادہ واضح اور زیادہ فصیح ہے۔
#
{25} {قل} لهم: {لا تُسْألونَ عمَّا أجْرَمْنا ولا نسألُ عما تَعْمَلونَ}؛ أي: كلٌّ منَّا ومنكم له عمله، أنتم لا تُسألون عن إجرامِنا وذنوبِنا لو أذْنَبْنا، ونحنُ لا نُسألُ عن أعمالكم؛ فليكن المقصودُ منَّا ومنكم طَلَبَ الحقائق وسلوكَ طريق الإنصاف، ودَعوا ما كُنَّا نعملُ، ولا يكنْ مانعاً لكم من اتِّباع الحقِّ؛ فإنَّ أحكام الدُّنيا تجري على الظواهر، ويُتَّبَعُ فيها الحقُّ ويُجْتَنَبُ الباطلُ، وأما الأعمال؛ فلها دارٌ أخرى يَحْكُمُ فيها أحكمُ الحاكمين، ويفصِلُ بين المختصمين أعدلُ العادلين.
[25] ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے:‘‘ انھیں ﴿لَّا تُ٘سْـَٔلُوْنَ عَمَّاۤ اَجْرَمْنَا وَلَا نُ٘سْـَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ یعنی ہم میں سے اور تم میں سے ہر شخص کا اپنا اپنا عمل ہے۔ ہمارے جرائم اور گناہوں کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا جائے گا اور نہ تمھارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا۔ ہمارا اور تمھارا مقصد صرف طلبِ حق اور انصاف کے راستے پر چلنا ہونا چاہیے اور چھوڑو اس بات کو کہ ہم کیا کرتے ہیں، نیز یہ بات تمھارے لیے اتباع حق سے مانع نہیں ہونی چاہیے کیونکہ دنیا کے احکام ظواہر پر جاری ہوتے ہیں، ان میں حق کی پیروی کی جاتی ہے اور باطل سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ رہے اعمال، تو ان کے فیصلے کے لیے آخرت کا گھر ہے، ان کے بارے میں احکم الحاکمین اور سب سے زیادہ عادل ہستی فیصلہ کرے گی۔
#
{26} ولهذا قال: {قل يَجْمَعُ بينَنا ربُّنا ثم يفتحُ بينَنا}؛ أي: يحكم بينَنا حكماً يتبيَّن به الصادقُ من الكاذب، والمستحقُّ للثواب من المستحقِّ للعقاب وهو خير الفاتحين.
[26] بنا بریں فرمایا: ﴿قُ٘لْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْ٘تَحُ بَیْنَنَا ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا ، پھر ہمارے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس سے سچے اور جھوٹے، ثواب کے مستحق اور عذاب کے مستحق کے درمیان امتیاز واضح ہو جائے گا اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔
#
{27} {قل}: لهم يا أيها الرسولُ، ومَنْ ناب منابك: {أروني الذين ألحقتم به شركاءَ}؛ أي: أين هم؟ وأين السبيل إلى معرفتهم؟ وهل هم في الأرض أم في السماء؟ فإنَّ عالم الغيب والشهادة قد أخبرنا أنَّه ليس في الوجودِ له شريكٌ: {ويعبُدونَ من دون الله ما لا يضرُّهم ولا يَنْفَعُهم ويقولون هؤلاءِ شفعاؤُنا عند اللهِ قل أتنبِّئونَ الله بما لا يعلمُ ... } [الآية]، {وما يتَّبِعُ الذين يدعونَ من دون الله شركاءَ؟ إنْ يتَّبِعونَ إلاَّ الظَّنَّ وإنْ هم إلاَّ يَخْرُصونَ}، وكذلك خواصُّ خلقِهِ من الأنبياء والمرسلين لا يعلَمون له شريكاً؛ فيا أيُّها المشركون! أروني الذين ألحقتم بزعمكم الباطل بالله شركاء! وهذا السؤال لا يمكنهم الإجابةُ عنه، ولهذا قال: {كلا}؛ أي: ليس للَّه شريكٌ ولا ندٌّ ولا ضدٌّ، {بل هو اللهُ}: الذي لا يستحقُّ التألُّه والتعبُّد إلاَّ هو {العزيزُ}: الذي قهر كلَّ شيء؛ فكلُّ ما سواه فهو مقهورٌ مسخَّر مدبَّر. {الحكيمُ}: الذي أتقن ما خَلَقَه، وأحسنَ ما شَرَعَه، ولو لم يكنْ في حكمتِهِ في شرعِهِ إلاَّ أنَّه أمر بتوحيده وإخلاص الدين له، وأحبَّ ذلك وجعله طريقاً للنجاة، ونهى عن الشرك به واتِّخاذ الأندادِ من دونِهِ، وجَعَلَ ذلك طريقاً للشقاء والهلاك؛ لكفى بذلك برهاناً على كمال حكمتِهِ؛ فكيف وجميعُ ما أمر به ونهى عنه مشتملٌ على الحكمة؟!
[27] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! آپ اور وہ، جو آپ کا قائم مقام ہو، ان سے کہہ دیں: ﴿اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِهٖ شُ٘رَؔكَآءَ ﴾ ’’مجھے وہ لوگ تو دکھاؤ جن کو تم نے اس کا شریک بنا کر اس کے ساتھ ملا رکھا ہے۔‘‘ یعنی مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں؟ ان کی معرفت کا کیا طریقہ ہے؟ وہ زمین میں ہیں یا آسمان میں؟ کیونکہ غیب اور شہادت کو جاننے والی ہستی نے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ اس وجود کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَلَا یَنْفَعُهُمْ وَیَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ قُ٘لْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ١ؕ سُبْحٰؔنَهٗ وَتَ٘عٰ٘لٰى عَمَّؔا یُشْرِكُوْنَؔ ﴾ (یونس:10؍18) ’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اورکہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیجیے: تم اللہ کو اس بات سے آگاہ کرتے ہو جسے وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں وہ ایسی باتوں سے پاک اور بالاتر ہے جو یہ شرک کرتے ہیں۔‘‘ ﴿وَمَا یَتَّ٘بِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ ﴾ (یونس:10؍66) ’’اور جو یہ لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں، یہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض اندازے لگاتے ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خاص مخلوق، یعنی انبیاء و مرسلین کے علم میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے، تو اے مشرکو! مجھے دکھاؤ جن کو تم نے اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ﴿شُ٘رَؔكَآءَ ﴾ ’’شریک ‘‘ ٹھہرا دیا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ان سے ممکن نہیں، اس لیے فرمایا: ﴿كَلَّا﴾ ’’ہر گز نہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، کوئی ہمسر اور کوئی مد مقابل نہیں۔ ﴿بَلْ هُوَ اللّٰهُ ﴾ ’’بلکہ وہ اللہ ہے‘‘ جس کے سوا کوئی الوہیت اور عبادت کا مستحق نہیں۔ ﴿الْ٘عَزِیْزُ ﴾ جو ہر چیز پر غالب ہے، اس کے سوا ہر چیز مقہور اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے۔ ﴿الْحَكِیْمُ ﴾ ’’حکمت والا ہے‘‘ اس نے جو چیز بھی تخلیق کی نہایت مہارت سے تخلیق کی۔ اس نے جو شریعت بنائی، بہترین شریعت بنائی۔ اگر اس کی شریعت میں صرف یہی حکمت پنہاں ہوتی ہے کہ اس نے اپنی توحید اور اخلاص فی الدین کا حکم دیا، اسی کو پسند فرمایا اوراسی کو نجات کی راہ قرار دیا ہے، اس نے شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر بنانے سے روکا اور اس کو ہلاکت اور بدبختی کا راستہ قرار دیا ہے... تو اس کے کمال حکمت کے اثبات کے لیے یہی دلیل کافی ہے... تب اس شریعت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جس کے تمام اوامرونواہی حکمت پر مشتمل ہیں؟
آیت: 28 - 30 #
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (28) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (29) قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ (30)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے، خوشخبری دینے اور ڈرانے والا (بنا کر) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(28) اور وہ کہتے ہیں، کب (پورا) ہوگا یہ وعدہ اگر ہو تم سچے؟(29) کہہ دیجیے! تمھارے لیے وعدہ ہے ایک ایسے دن کا کہ نہ تم پیچھے رہ سکو گے اس سے ایک گھڑی اور نہ تم آگے بڑھ سکو گے(30)
#
{28} يخبر تعالى أنَّه ما أرسل رسولَه - صلى الله عليه وسلم - إلا ليبشِّر جميع الناس بثواب الله، ويخبِرَهم بالأعمال الموجبة لذلك، وينذِرَهم عقاب الله، ويخبِرَهم بالأعمال الموجبة له؛ فليس لك من الأمر شيءٌ، وكلُّ ما اقْتَرَحَ عليك أهلُ التكذيب والعنادِ؛ فليس من وظيفتِكَ، إنَّما ذلك بيد الله تعالى. {ولكنَّ أكثرَ الناس لا يعلمونَ}؛ أي: ليس لهم علمٌ صحيحٌ، بل إمَّا جهالٌ أو معاندونَ لم يعملوا بعلمهم، فكأنَّهم لا علم لهم، ومن عدم علمِهِم جَعْلُهُم عدمَ الإجابة لما اقترحوه على الرسول موجباً لردِّ دعوته.
[28] اللہ تبارک وتعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ e کو صرف اس لیے مبعوث فرمایا کہ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ثواب کی خوشخبری دے اور انھیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس ثواب کے موجب ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے اور انھیں ان اعمال سے آگاہ کرے جو اس عذاب کے موجب ہیں اور آپ کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اہل تکذیب اور اہل عناد آپ سے جن معجزوں کا مطالبہ کرتے ہیں وہ آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہیں بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ﴿وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ یعنی ان کے پاس صحیح علم نہیں ہے، بلکہ یہ لوگ یا تو جاہل ہیں یا عناد رکھتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتے، تب ان کا حال یہ ہے کہ گویا ان کے پاس علم ہی نہیں۔ جن کے پاس علم نہ ہو، ان کا رسول سے معجزے کا مطالبہ پورا نہ ہونا، رسول کی دعوت کو ٹھکرانے کا موجب ہوتا ہے۔
#
{29} فممَّا اقترحوه استعجالُهم العذابَ الذي أنْذَرَهم به، فقال: {ويقولونَ متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}: وهذا ظلمٌ منهم؛ فأيُّ ملازمة بين صدقِهِ وبين الإخبار بوقت وقوعِهِ؟! وهل هذا إلاَّ ردٌّ للحقِّ وسفهٌ في العقل؟! أليس النذير في أمرٍ من أحوال الدُّنيا لو جاء قوماً يعلمون صدقَه ونُصحه ولهم عدوٌّ ينتهزُ الفرصة منهم ويعدُّ لهم، فقال لهم: تركتُ عدوَّكم قد سار يريد اجتِياحَكُم واستئصالَكم؛ فلو قال بعضُهم: إن كنتَ صادقاً؛ فأخبِرْنا بأيَّةِ ساعةٍ يصل إلينا؟ وأين مكانَه الآن؟ فهل يعدُّ هذا القائل عاقلاً أم يُحكم بسفهِهِ وجنونِهِ؟! هذا والمخبر يمكن صدقُهُ وكذبُهُ، والعدوُّ قد يبدو له غيرهم وقد تنحلُّ عزيمته، وهم قد يكون بهم مَنَعَةٌ يدافعون بها عن أنفسهم؛ فكيفَ بمن كذَّبَ أصدقَ الخلقِ المعصوم في خبره، الذي لا ينطِقُ عن الهوى بالعذاب اليقين، الذي لا مَدْفَعَ له ولا ناصر منه، أليس ردُّ خبرِهِ بحجَّة عدم بيان وقت وقوعِهِ من أسفه السفه؟!
[29] انھوں نے جن چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ان میں سے ایک عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ تھا جس سے انھیں ڈرایا گیا تھا۔ فرمایا: ﴿وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اور کہتے ہیں، اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب وقوع پذیر ہو گا؟‘‘ یہ مطالبہ ان کی طرف سے محض ظلم تھا کیونکہ رسول کی صداقت اور اس وعدے کے پورا ہونے کے وقت سے آگاہ کرنے میں کون سا تلازم ہے؟ کیا یہ حق کو ٹھکرانے اور حماقت و سفاہت کے سوا کچھ اور ہے؟ کیا دنیا کے کسی معاملے میں ڈرانے والا کوئی شخص اگر ایسے لوگوں کے پاس آئے جو اس کی صداقت اور خیرخواہی کو جانتے ہیں اور ان کا ایک دشمن بھی ہے جو ان پر حملہ کرنے کے لیے تیار اور اس کے لیے موقع کا متلاشی ہے، تو یہ شخص ان لوگوں کے پاس آ کر کہتا ہے: ’’میں تمھارے دشمن کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ روانہ ہو چکا ہے وہ تمھیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اگر ان میں سے بعض لوگ کہیں: ’’اگر تو سچا ہے تو ہمیں بتا کہ کس وقت وہ ہمارے پاس پہنچے گا اور اس وقت وہ کہاں ہے؟‘‘ کیا یہ سوال کرنے والا شخص عقل مند شمار کیا جائے گا یا اس پر سفاہت اور پاگل پن کا حکم لگایا جائے گا؟ خبر دینے والا سچا یا جھوٹا ہوسکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دشمن کا ارادہ کسی اور طرف کا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دشمن اپنا ارادہ ترک کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی مضبوط قلعے میں ہوں جہاں وہ اس دشمن سے اپنی مدافعت کر سکتے ہوں۔ تب وہ اس شخص کو کیوں کر جھٹلا سکتے ہیں جو مخلوق میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، جو اپنی خبر میں ہر غلطی سے پاک ہے، جو اس آنے والے یقینی عذاب کے بارے میں اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا، اس عذاب سے بچنے کے لیے کوئی پناہ گاہ ہے نہ اس سے بچانے والا کوئی مددگار ہے۔ کیا اس شخص کی خبر کو محض اس لیے رد کرنا کہ اس عذاب کے وقوع کا وقت نہیں بتایا گیا، سب سے بڑی حماقت نہیں!
#
{30} {قل} لهم مخبراً بوقت وقوعِهِ الذي لا شكَّ فيه: {لكم ميعادُ يوم لا تستأخِرونَ عنه ساعةً ولا تَسْتَقْدِمونَ}: فاحْذَروا ذلك اليوم وأعدُّوا له عدَّتَه.
[30] ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے:‘‘ ان کو اس عذاب کے وقوع کی خبر دیتے ہوئے جس میں کوئی شک نہیں ﴿لَّكُمْ مِّؔیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ۠ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ۠ ﴾ ’’تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے ایک گھڑی پیچھے رہو گے نہ آگے بڑھو گے۔‘‘ پس اس دن سے ڈرو اور اس کے لیے تیاری کرو۔
آیت: 31 - 33 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهَذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ (31) قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَى بَعْدَ إِذْ جَاءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُجْرِمِينَ (32) وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَنْ نَكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَنْدَادًا وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (33)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ہرگز نہیں ایمان لائیں گے ہم ا س قرآن پر او ر نہ ان (کتابوں) پرجو اس سے پہلے تھیں اور آپ اگر دیکھیں جب ظالم لوگ کھڑے کیے جائیں گے سامنے اپنے رب کے، جبکہ رد کر رہا ہوگا بعض ان کا بعض کی بات کا، (تو آپ کو تعجب ہو گا)کہیں گے وہ لوگ جو کمزور سمجھے جاتے تھے، ان لوگوں سے جو تکبر کرتے (بڑے بنتے) تھے اگر نہ ہوتے تم تو یقیناً ہوتے ہم مومن(31)کہیں گے وہ لوگ جو تکبر کرتے (بڑے بنتے) تھے، ان سے جو کمزور سمجھے جاتے تھے، کیا ہم نے روک دیا تھا تمھیں ہدایت(اختیار کرنے) سے بعد اس کے جب وہ آ گئی تھی تمھارے پاس؟بلکہ تھے تم (خود ہی) مجرم(32)اور کہیں گے وہ لوگ جو کمزور سمجھے جاتے تھے، ان سے جو بڑے بنتے تھے، (نہیں)بلکہ (تمھاری) رات اور دن کی چالوں ہی نے (ہمیں روکا تھا) جب حکم دیتے تھے تم ہمیں یہ کہ کفر کریں ہم ساتھ اللہ کے اور ٹھہرائیں اس کے لیے شریک، اور چھپائیں گے وہ ندامت کو جب دیکھیں گے عذاب، اور ہم کر (ڈال) دیں گے طوق گردنوں میں ان لوگوں کی جنھوں نے کفر کیا، نہیں بدلہ دیے جائیں گے وہ، مگر(اسی کا) جو تھے وہ عمل کرتے(33)
#
{31} لما ذكر تعالى أنَّ ميعادَ المستعجلين بالعذابِ لابدَّ من وقوعه عند حلول أجله؛ ذكر هنا حالَهم في ذلك اليوم، وأنَّك لو رأيتَ حالَهم إذ وُقِفوا عند ربِّهم واجتمع الرؤساءُ والأتباعُ في الكفر والضَّلال؛ لرأيتَ أمراً عظيماً وهولاً جسيماً، ورأيت كيف يتراجع و {يرجِعُ بعضُهم إلى بعضٍ القولَ}، فيقول {الذين استُضْعِفوا}: وهم الأتباعُ، {للذين استَكْبَروا}: وهم القادةُ: {لولا أنتُم لَكُنَّا مؤمنينَ}: ولكنَّكُم حُلْتُم بيننا وبين الإيمان، وزيَّنْتُم لنا الكفرانَ ، فتبعناكم على ذلك، ومقصودُهم بذلك أن يكون العذابُ على الرؤساءِ دونهم.
[31] اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کے لیے عذاب کا جو وعدہ کیا گیا ہے اپنے وقت پر اس کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہاں فرمایا کہ اگر آپ اس روز ان کا حال دیکھیں، جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے، سردار اور کفروضلالت میں ان کی پیروی کرنے والے اکٹھے کھڑے ہوں گے، تو آپ کو بہت بڑا اور انتہائی ہولناک معاملہ نظر آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بات کو رد کرتے ہیں۔ ﴿یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا ﴾ ’’وہ لوگ جو کمزور کیے گئے تھے وہ کہیں گے‘‘ یعنی متبعین ﴿لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا ﴾ ’’ان سے جنھوں نے تکبر کیا۔‘‘ اس سے مراد قائدین کفر ہیں ﴿لَوْلَاۤ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے۔‘‘ مگر تم ہمارے اور ایمان کے درمیان حائل ہو گئے، تم نے کفر کو ہمارے سامنے مزین کیا اور تمھاری پیروی میں ہم نے کفر کو اختیار کیا۔ ایسا کہنے میں ان کا مقصود یہ ہو گا کہ ان کی بجائے عذاب ان سرداروں کو دیا جائے۔
#
{32} {قال الذين استَكْبَروا للذين استضعفوا}: مستفهمينَ لهم ومخبرينَ أنَّ الجميع مشتركون في الجُرم: {أنحن صَدَدْناكم عن الهُدى بعد إذْ جاءَكُم}؛ أي: بقوَّتنا وقهرِنا لكم، {بل كنتُم مجرمينَ}؛ أي: مختارين للإجرام، لستُم مقهورين عليه، وإن كُنَّا قد زَيَّنَّا لكُم؛ فما كان لنا عليكم من سلطان.
[32] ﴿قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْۤا ﴾ ’’جنھوں نے تکبر کیا وہ کمزور بنائے ہوئے لوگوں سے کہیں گے۔‘‘ یہ سردار استفہامی انداز میں ان کو خبر دیں گے کہ سب اس عذاب کو بھگتیں گے۔ ﴿اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰؔى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ ﴾ ’’کیا ہم نے تمھیں ہدایت آجانے کے بعد اس سے روکا تھا؟، ، یعنی کیا ہم نے تمھیں اپنی قوت اور غلبے کی وجہ سے ایمان لانے سے روکا تھا؟ ﴿بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ ﴾ ’’بلکہ تم مجرم تھے۔‘‘ یعنی تم مقہور ومغلوب نہ تھے، تم سے جبراً کفر کا ارتکاب نہیں کرایا گیا تھا بلکہ تم نے اپنے اختیار سے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اگرچہ ہم نے تمھارے سامنے کفر کو مزین کیا تھا، تاہم تم پر ہمیں کوئی تسلط اور اختیار تو حاصل نہ تھا۔
#
{33} فقال {الذين استُضْعِفوا للذينَ استَكْبَروا بلْ مَكْرُ الليل والنهارِ إذْ تأمرونَنا أن نكفُرَ بالله ونجعلَ له أنداداً}؛ أي: بل الذي دهانا منكم ووصل إلينا من إضلالكم ما دبَّرْتُموه من المكر في الليل والنهار؛ إذْ تُحَسِّنون لنا الكفرَ وتدعوننا إليه، وتقولون: إنَّه الحقُّ، وتقدحون في الحقِّ، وتهجِّنونَه وتزعمونَ أنَّه الباطلُ؛ فما زال مكرُكُم بنا وكيدُكُم إيَّانا حتى أغْوَيْتُمونا وفَتَنْتُمونا. فلم تُفِدْ تلك المراجعةُ بينَهم شيئاً إلاَّ تبرِّي بعضِهم من بعضٍ والندامةَ العظيمةَ، ولهذا قال: {وأسرُّوا الندامةَ لما رأوا العذابَ}؛ أي: زال عنهم ذلك الاحتجاج الذي احتجَّ به بعضُهم لينجو من العذاب، وعلم أنَّه ظالمٌ مستحقٌّ له، فندم كلٌّ منهم غاية الندم، وتمنَّى أنْ لو كان على الحقِّ، وأنَّه ترك الباطل الذي أوصله إلى هذا العذاب، سرًّا في أنفسهم؛ لخوفهم من الفضيحة في إقرارهم على أنفسهم! وفي بعض مواقف القيامةِ وعند دخولِهِمُ النارَ يُظْهِرون ذلك الندمَ جهراً: {ويومَ يَعَضُّ الظالمُ على يَدَيْهِ يقولُ يا لَيْتَني اتَّخَذْتُ مع الرسول سَبيلاً. يا وَيْلَتى لَيْتَني لم أتَّخِذْ فُلاناً خليلاً ... } الآيات، {وقالوا لو كُنَّا نَسْمَعُ أو نَعْقِلُ ما كنَّا في أصحابِ السعير. فاعترفوا بذَنْبِهِم فَسُحْقاً لأصحاب السَّعيرِ}. {وجعلنا الأغلال في أعناق الذين كفروا}: يُغَلُّونَ كما يُغَلُّ المسجونُ الذي سيُهانُ في سجنه؛ كما قال تعالى: {إذِ الأغلالُ في أعناقِهِم والسلاسلُ يُسْحَبونَ في الحميم ثم في النارِ يُسْجَرونَ ... } الآيات. {هل يُجْزَوْنَ}: في هذا العذاب والنَّكال وتلك الأغلال الثقال {إلاَّ ما كانوا يَعْمَلونَ}: من الكفر والفسوق والعصيان.
[33] ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَاۤ۠ اَنْ نَّ٘ـكْ٘فُ٘رَ بِاللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗۤ اَنْدَادًا ﴾ ’’اور کمزور لوگ تکبر کرنے والے لوگوں سے کہیں گے، بلکہ تم رات دن مکر وفریب کرتے رہتے تھے جس وقت تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا انکار کریں اور اس کے لیے شریک ٹھرائیں۔‘‘ یعنی تم نے جو دن رات سازشیں کیں اور تم نے ہمارے ساتھ مکروفریب کیا اور اس مکروفریب سے ہم پر گمراہی کو مسلط کیا، تم ہمارے سامنے کفر کو مزین کیا کرتے تھے ، پھر اس کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔ تم اس کے بارے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ یہ حق ہے اور حق میں جرح و قدح کر کے اس کی قدر گھٹایا کرتے تھے اور بزعم خود حق کو باطل قرار دیا کرتے تھے۔ تم ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے یہاں تک کہ تم نے ہمیں گمراہ کر کے فتنے میں مبتلا کر دیا۔ آپس میں ان کی یہ گفتگو اس کے سوا انھیں کوئی فائدہ نہ دے گی کہ وہ ایک دوسرے سے بیزاری اور سخت ندامت کا اظہار کریں گے، اس لیے فرمایا: ﴿وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ﴾ ’’اور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو دل میں پشیمان ہوں گے۔‘‘ یعنی اس حجت کا تاروپود بکھر جائے گا جس کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے پر حجت قائم کرتے تھے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے اور وہ جان لیں گے کہ وہ ظالم ہیں اور عذاب کے مستحق ہیں۔ ان میں سے ہر مجرم بے حد پشیمان ہو گا اور وہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ حق پر ہوتا اور اس نے باطل کو چھوڑ دیا ہوتا جس نے اسے اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اپنے جرائم کا اقرار کر لینے کی فضیحت کا خوف ان پر چھا جائے گا۔ قیامت کے بعض مواقف پر اور جہنم میں داخل ہوتے وقت، وہ بآواز بلند اپنی ندامت کا اظہار کریں گے: ﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ﴾ (الفرقان:25/27-28) ’’اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا کاش! میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ ﴿وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَ٘سْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ۰۰ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ١ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ ﴾ (الملک : 67 ؍10۔11) ’’وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو ہم اصحاب جہنم میں شامل نہ ہوتے، وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے۔ پس جہنمی اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔‘‘ ﴿وَجَعَلْنَا الْاَغْ٘لٰ٘لَ فِیْۤ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔‘‘ یعنی ان کو بیڑیاں پہنائی جائیں گی جیسے اس قیدی کو پہنا دی جاتی ہیں جس کی قید میں اہانت مقصود ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِذِ الْاَغْ٘لٰ٘لُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ١ؕ یُسْحَبُوْنَۙ۰۰ فِی الْحَمِیْمِ١ۙ۬ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ﴾ (المؤمن:40؍71۔72) ’’جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں پہنا دی جائیں گی، پھر انھیں کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا، پھر ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔‘‘ ﴿هَلْ یُجْزَوْنَ ﴾ یہ عذاب اور یہ سزا جو انھیں دی گئی ہے اور یہ بوجھل طوق جو انھیں پہنائے گئے ہیں ﴿اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ صرف ان اعمال کی پاداش میں ہے جن کا وہ کفر، فسق اور نافرمانی کرکے ارتکاب کیا کرتے تھے۔
آیت: 34 - 39 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (34) وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (35) قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (36) وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ (37) وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ (38) قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (39)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا، مگر کہا اس کے خوش حال لوگوں نے، بلاشبہ ہم اس چیز کا، کہ بھیجے گئے ہو تم ساتھ اس کے، انکار کرنے والے ہیں(34) اور انھوں نے کہا، ہم زیادہ ہیں(تم سے) مال اوراولاد میں اور نہیں ہم عذاب دیے جائیں گے (35)کہہ دیجیے! بلاشبہ میرا رب ہی کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اور کم کرتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(36)اور نہیں ہیں تمھارے مال اور نہ تمھاری اولاد، (ایسی چیز) کہ جو قریب کر دے تمھیں ہمارے پاس درجے میں، مگر جو ایمان لایا اور عمل کیے اس نے نیک، پس یہی لوگ ہیں، ان کے لیے بدلہ ہے دگنا بہ سبب ان (عملوں) کے جو انھوں نے کیے، اور وہ بالاخانوں میں پر امن ہوں گے (37)اور جن لوگوں نے کوشش کی ہماری آیتوں میں (ہمیں) عاجز کرنے کی، وہی لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے(38) کہہ دیجیے! بے شک میرا رب ہی کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کرتا ہے اس کے لیے اور جو خرچ کرتے ہو تم کوئی چیز، تو وہ بدلہ دیتا ہے اس کا، اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے(39)
#
{34} يخبر تعالى عن حالة الأمم الماضية المكذِّبة للرسل أنَّها كحال هؤلاء الحاضرين المكذِّبين لرسولهم محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّ الله إذا أرسل رسولاً في قريةٍ من القرى؛ كفر به مُتْرَفوها، وأبطرتْهم نعمتُهم، وفخروا بها.
[34] اللہ تبارک وتعالیٰ گزشتہ قوموں کا حال بیان کرتا ہے جنھوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا۔ ان کا حال بھی انھی لوگوں جیسا تھا جنھوں نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ e کی تکذیب کی، نیز آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی رسول مبعوث فرمایا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے اس کا انکار کیا، انھوں نے نعمتوں پر تکبر اور فخر کیا۔
#
{35} {وقالوا نحنُ أكثرُ أموالاً وأولاداً}؛ أي: ممَّن اتَّبع الحقَّ، {وما نحن بمعذَّبينَ}؛ أي: أولاً لسنا بمبعوثينَ؛ فإنْ بُعِثْنا؛ فالذي أعطانا الأموال والأولاد في الدنيا؛ سَيُعْطينا أكثر من ذلك في الآخرة، ولا يعذِّبُنا.
[35] ﴿وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ﴾ ’’اور انھوں نے کہا کہ ہم زیادہ مال اور اولاد والے ہیں‘‘ یعنی ان لوگوں سے جنھوں نے حق کی اتباع کی۔ ﴿وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ﴾ ’’اور ہم عذاب دیے جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔‘‘ یعنی اول تو ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا، اگر ہمیں دوبارہ زندہ کیا بھی گیا تو وہ ہستی جس نے ہمیں اس دنیا میں مال اور اولاد سے نوازا ہے، وہ ہمیں آخرت میں اس سے بھی زیادہ مال اور اولاد سے نوازے گی اور ہمیں عذاب نہ دے گی۔
#
{36} فأجابهم اللهُ تعالى بأنَّ بَسْطَ الرزقِ وتضييقَه ليس دليلاً على ما زعمتُم؛ فإنَّ الرزق تحت مشيئةِ الله؛ إنْ شاءَ؛ بسطه لعبده، وإن شاء؛ ضيَّقَه.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی تمھارے دعوے کی دلیل نہیں کیونکہ رزق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت عطا ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنے بندے کے لیے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے اور اگر چاہے تو تنگ کر دیتا ہے۔
#
{37} وليست الأموال والأولاد {بالتي} تقرب إلى الله {زُلْفى}: وتُدني إليه، وإنَّما الذي يقرِّبُ منه زلفى الإيمان بما جاء به المرسلونَ والعملُ الصالح الذي هو من لوازم الإيمان؛ فإنَّ أولئك لهم الجزاء عند الله تعالى مضاعفاً الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائةِ ضعفٍ إلى أضعافٍ كثيرة لا يعلمُها إلاَّ الله. {وهم في الغُرُفاتِ آمنونَ}؛ أي: في المنازل العاليات المرتفعات جدًّا، ساكنين فيها مطمئنِّين، آمنون من المكدِّرات والمنغِّصات لما هم فيه من اللذَّات وأنواع المشتَهَياتِ، وآمنون من الخروج منها والحزن فيها.
[37] مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے قریب نہیں کرتے اور جو چیز اللہ کے قریب کرتی ہے وہ ہے انبیاء ومرسلین کی دعوت پر ایمان اور عمل صالح جو ایمان کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں کئی گنا اجر ہے جنھیں ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ﴿وَهُمْ فِی الْ٘غُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ ﴾ یعنی وہ بہت ہی بلند مرتبہ منازل میں، ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ اطمینان سے رہیں گے، انھیں وہاں مختلف قسم کی لذات اور دل پسند چیزیں عطا ہوں گی اور انھیں وہاں سے نکلنے کا خوف ہو گا نہ کوئی حزن و غم۔
#
{38} وأما الذين سعوا في آياتنا على وجه التعجيز لنا ولرسلنا والتكذيب؛ {أولئك في العذاب مُحْضَرونَ}.
[38] رہے وہ لوگ جو ہمیں اور ہمارے رسولوں کو عاجز اور بے بس بنانے اور ان کو جھٹلانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں تو ﴿اُولٰٓىِٕكَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ﴾ ’’وہ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔‘‘ جہنم کے فرشتے انھیں جہنم میں دھکیل دیں گے اور انھیں جن ہستیوں پر بھروسہ تھا وہ انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی۔
#
{39} ثم أعادَ تعالى أنه {يَبْسُطُ الرزقَ لِمَن يشاءُ مِنْ عبادِه ويَقْدِرُ له}: ويَقْدِرُ له ليرتِّبَ عليه قوله: {وما أنفَقْتُم من شيء}: نفقةً واجبةً أو مستحبَّةً على قريب أو جارٍ أو مسكينٍ أو يتيم أو غير ذلك، {فهو} تعالى {يُخْلِفُهُ}: فلا تتوهَّموا أنَّ الإنفاق مما يُنْقِصُ الرزق، بل وعد بالخلف للمنفق الذي يبسط الرزق لمن يشاءُ ويَقْدِرُ. {وهو خيرُ الرازقينَ}: فاطلُبوا الرزقَ منه، واسعَوْا في الأسبابِ التي أمَرَكم بها.
[39] اللہ تبارک وتعالیٰ نے پھر اعادہ فرمایا: ﴿یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَیَقْدِرُ لَهٗ﴾ ’’وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔‘‘ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مترتب ہو: ﴿وَمَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ ﴾ ’’اور تم جو چیز خرچ کرو گے۔‘‘ خواہ وہ نفقہ واجبہ ہو یا نفقہ مستحبہ، اسے کسی قریبی رشتہ دار، پڑوسی، مسکین، اور یتیم پر خرچ کیا گیا ہو یا کسی اور پر ﴿فَهُوَ یُخْلِفُهٗ﴾ ’’تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ تمھیں اور رزق عطا کر دیتا ہے۔‘‘ اس لیے اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ خرچ کرنے سے رزق میں کمی واقع ہو جائے گی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی جگہ اور رزق عطا کرے گا، وہ جسے چاہتا ہے رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔ ﴿وَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ﴾ ’’اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘ اس لیے اسی سے رزق طلب کرو اور ان اسباب رزق کو بڑھاؤ جن کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے۔
آیت: 40 - 42 #
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ (40) قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُؤْمِنُونَ (41) فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (42)}.
اور جس دن وہ اکٹھا کرے گا ان سب (مشرکوں) کو ، پھر کہے گا وہ فرشتوں سے، کیا یہی لوگ ہیں(وہ جو) تمھاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟(40) وہ کہیں گے، پاک ہے تو، تو ہی ہے ہمارا کارساز، ان کے ماسوا، بلکہ وہ تو تھے عبادت کرتے جنوں کی، اکثر ان میں سے انھی پر ایمان رکھتے تھے(41) پس آج نہیں اختیار رکھتا کوئی تمھارا واسطے کسی کے، کسی نفع کا اور نہ نقصان کا، اور ہم کہیں گے ان لوگوں سے جنھوں نے ظلم کیا: چکھو عذاب آگ کا، وہ جو تھے تم اسے جھٹلاتے (42)
#
{40 ـ 41} {ويوم يحشُرُهم جميعاً}؛ أي: العابدين لغير الله والمعبودين من دونه من الملائكةِ، {ثم يقولُ}: الله {للملائكةِ}: على وجه التوبيخ لِمَنْ عَبَدَهم: {أهؤلاء إيَّاكُم كانوا يعبدونَ}؟ فتبرؤوا من عبادتهم و {قالوا سبحانَكَ}؛ أي: تنزيهاً لك وتقديساً أنْ يكونَ لك شريكٌ أو ندٌّ، {أنت وَلِيُّنا من دونِهِم}: فنحن مفتقِرونَ إلى ولايتك، مضطرُّون إليها؛ فكيف ندعو غيرنا إلى عبادتنا؟ أم كيف نَصْلُحُ لأن نُتَّخَذَ من دونك أولياءَ وشركاءَ، ولكنْ هؤلاء المشركون {كانوا يَعْبُدون الجنَّ}؛ أي: الشياطين، يأمرونَهم بعبادتِنا أو عبادة غيرنا، فيطيعونَهم بذلك، وطاعتُهم هي عبادتُهم؛ لأنَّ العبادة الطاعة؛ كما قال تعالى مخاطباً لكلِّ من اتَّخذ معه آلهة: {ألم أعْهَدْ إليكُم يا بني آدم أنْ لا تَعْبُدوا الشيطانَ إنَّه لكم عدوٌّ مبينٌ. وأنِ أعْبُدوني هذا صراطٌ مستقيمٌ}. {أكْثَرُهم بهم مؤمنونَ}؛ أي: مصدِّقون للجنِّ منقادون لهم؛ لأنَّ الإيمانَ هو التصديقُ الموجِبُ للانقياد.
[40، 41] ﴿وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا ﴾ ’’اور وہ جس دن ان سب کو جمع کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر اللہ یعنی فرشتوں وغیرہ کی عبادت کرنے والے مشرکین اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا۔ ﴿ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠﴾ ’’پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا‘‘ مشرکین کو زجروبیخ کرتے ہوئے ﴿اَهٰۤؤُلَآءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’کیا یہ لوگ تمھاری عبادت کیاکرتے تھے۔‘‘ اور وہ جواب میں ان مشرکین کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ ﴿قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ ﴾ ’’وہ کہیں گے تو پاک ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس چیز سے تنزیہ و تقدیس کرتے ہوئے کہ اس کا کوئی شریک یا ہمسر ہو، کہیں گے: ﴿اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ﴾ ’’ہمارا سرپرست اور والی تو ہی ہے نہ کہ یہ مشرک۔‘‘ ہم تو خود تیری سرپرستی کے محتاج اور ضرورت مند ہیں ہم دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں؟ یا یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ ہم تیرے سوا دوسروں کو اپنا سرپرست اور شریک بنائیں؟ بلکہ یہ مشرکین ﴿بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْ٘جِنَّ ﴾ ’’ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔‘‘ شیاطین انھیں حکم دیتے تھے کہ وہ ہماری اور دیگر خودساختہ معبودوں کی عبادت کریں اور یہ ان کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کی اطاعت ہی درحقیقت ان کی عبادت تھی کیونکہ اطاعت، عبادت ہی کا دوسرا نام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو بھی معبود بنا رکھا تھا: ﴿اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّ٘یْطٰ٘نَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ۰۰ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ١ؔؕ هٰؔذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾ (یٰسٓ:36؍60-61) ’’اے بنی آدم! کیا میں نے تمھیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ ﴿اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’ان میں سے اکثر لوگ ان پر ایمان لاتے تھے‘‘ جنوں کو سچا جانتے اور ان کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ ایمان ایسی تصدیق کا نام ہے جو اطاعت کی موجب ہو۔
#
{42} فلما تبرؤوا منهم؛ قال تعالى مخاطباً لهم: {فاليوم لا يملِكُ بعضُكُم لبعضٍ نفعاً ولا ضَرًّا}: تقطَّعت بينكم الأسبابُ، وانقطع بعضُكم من بعض، {ونقولُ للذين ظلموا}: بالكفر والمعاصي بعدما ندخِلُهُمُ النارَ: {ذوقوا عذابَ النارِ التي كنتُم بها تكذِّبون}: فاليوم عايَنْتُموها ودخَلْتُموها جزاءً لتكذيبكم وعقوبةً لما أحدثه ذلك التكذيبُ من عدم الهربِ من أسبابها.
[42] جب فرشتے ان کے شرک اور عبادت سے بیزاری کا اعلان کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہو کر فرمائے گا: ﴿فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا ﴾ ’’پس آج تم میں سے کوئی کسی کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ تمھارے درمیان تمام تعلقات منقطع ہو گئے ہیں اور تم ایک دوسرے سے کٹ گئے ہو۔ ﴿وَنَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾ یعنی جنھوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کیا، ہم انھیں جہنم میں داخل کرنے کے بعد ان سے کہیں گے: ﴿ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ﴾ ’’دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے۔‘‘ آج تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور تم اپنی تکذیب کی پاداش میں اس جہنم میں داخل ہو چکے، نیز اس کی وجہ یہ تھی کہ تم نے ان اسباب سے اجتناب نہ کیا جو جہنم میں داخلے کے موجب تھے۔
آیت: 43 - 45 #
{وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرًى وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (43) وَمَا آتَيْنَاهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَا وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَذِيرٍ (44) وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا رُسُلِي فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (45)}.
اور جب تلاوت کی جاتی ہیں ان پرہماری آیتیں واضح تو وہ کہتے ہیں، نہیں ہے یہ مگر ایک ایسا آدمی جو چاہتا ہے کہ روک دے تمھیں ان (معبودوں) سے کہ تھے (جن کی) عبادت کرتے تمھارے باپ دادااور وہ کہتے ہیں، نہیں ہے یہ (قرآن) مگر ایک جھوٹ گھڑا ہوا، اور کہا انھوں نے جنھوں نے کفر کیا: حق کی بابت، جب وہ آیا ان کے پاس، نہیں ہے یہ مگرجادو بالکل واضح(43) اور نہیں دیں ہم نے ان (عربوں) کو کچھ کتابیں کہ وہ پڑھتے ہوں انھیں اور نہیں بھیجا ہم نے ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا(44) اور جھٹلایا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے ہوئے، جبکہ نہیں پہنچتے یہ دسویں حصے کو اس کےجو دیا تھا ہم نے ان (پہلوں) کو، پس جھٹلایا انھوں نے میرے رسولوں کو توکیسا ہوا (ان پر) میرا عذاب؟(45)
#
{43} يخبر تعالى عن حالةِ المشركين عندما تُتلى عليهم آياتُ اللَّه البيناتُ وحججُه الظاهراتُ وبراهينُه القاطعاتُ، الدالةُ على كل خير، الناهيةُ عن كلِّ شرٍّ، التي هي أعظمُ نعمةٍ جاءتهم ومنَّةٍ وصلتْ إليهم، الموجبة لمقابلتها بالإيمان والتصديق والانقياد والتسليم، أنَّهم يقابِلونَها بضدِّ ما ينبغي ويكذِّبونَ مَنْ جاءهم بها ويقولونَ: {ما هذا إلاَّ رجلٌ يريدُ أن يَصُدَّكُم عما كان يعبدُ آباؤُكم}؛ أي: هذا قصدُه حين يأمُرُكم بالإخلاص لله لتتركوا عوائدَ آبائِكُم الذين تعظِّمون وتمشون خلفَهم، فردُّوا الحقَّ بقول الضالِّين، ولم يوردوا برهاناً ولا شبهةً؛ فأيُّ شبهة إذا أمرتِ الرسلُ بعضَ الضالِّين باتِّباع الحقِّ فادَّعَوْا أنَّ إخوانهم الذين على طريقتهم لم يزالوا عليه؟! وهذه السفاهة وردُّ الحقِّ بأقوال الضالين إذا تأملتَ كلَّ حقٍّ رُدَّ؛ فإذا هذا مآلُه، لا يُرَدُّ إلاَّ بأقوال الضالِّين من المشركين والدَّهريين والفلاسفة والصابئين والملحدين في دين الله المارقين؛ فهم أسوةُ كلِّ من رَدَّ الحقَّ إلى يوم القيامةِ. ولمَّا احتجُّوا بفعل آبائِهِم وجعلوها دافعةً لما جاءت به الرسل؛ طعنوا بعد هذا بالحقِّ، {وقالوا ما هذا إلا إفكٌ مفترىً}؛ أي: كذبٌ افتراه هذا الرجلُ الذي جاء به، {وقال الذينَ كفروا للحقِّ لمَّا جاءهم إنْ هذا إلاَّ سحرٌ مبينٌ}؛ أي: سحرٌ ظاهرٌ بيِّنٌ لكلِّ أحدٍ؛ تكذيباً بالحقِّ وترويجاً على السفهاء.
[43] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس وقت مشرکین کی کیا حالت ہوتی تھی جب ان کے سامنے واضح آیات تلاوت کی جاتی تھیں اور ایسے قطعی براہین و دلائل پیش کیے جاتے تھے جو ہر بھلائی پر دلالت کرتے اور ہر برائی سے روکتے تھے، یہ آیات اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی عنایت تھی جو ان کے دروازے تک پہنچی اور اس بات کی موجب تھی کہ ایمان و تصدیق اور اطاعت و تسلیم کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اس مناسب رویے سے متضاد رویے کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ وہ ان انبیاء کی تکذیب کیاکرتے تھے جو ان کے پاس آئے تھے اور کہا کرتے تھے: ﴿مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’یہ ایک ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ جن چیزوں کی تمھارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ان سے تم کو رو ک دے۔‘‘ یعنی جب وہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا حکم دیا کرتا تھا تو اس وقت اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ تم اپنے باپ دادا کی عادات کو ترک کر دو، جن کی تم تعظیم اور ان کی پیروی کرتے ہو۔ پس انھوں نے گمراہوں کے کہنے پر حق کو ٹھکرا دیا اور اس کو ٹھکراتے وقت انھوں نے کوئی دلیل اور برہان پیش کی نہ کوئی شبہ وارد کیا اور یہ کون سا شبہ ہے کہ جب رسول بعض گمراہ لوگوں کو اتباع حق کی دعوت دیں تو یہ لوگ دعویٰ کریں کہ گزشتہ زمانے میں ان کے بھائی بند بھی، جن کے یہ پیروکار ہیں، اسی طریقہ پر کاربند تھے۔ اگر آپ ان کی اس سفاہت، حماقت اور گمراہ لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ان کے حق کو ٹھکرانے پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی حماقت کے ڈانڈے مشرکوں، دہریوں، فلسفیوں، صابیوں، ملحدوں اور اللہ تعالیٰ کے دین سے نکل بھاگنے والوں کے گمراہ نظریات سے جا ملتے ہیں۔ قیامت تک ہر شخص کے لیے یہی اسوہ رہے گا جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ انھوں نے اپنے آباء و اجداد کے افعال کو دلیل بنا کر انبیاء و مرسلین کی دعوت کو ٹھکرایا اور اس کے بعد حق کو مطعون کیا ﴿وَقَالُوْا مَا هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكٌ مُّفْتَرًى ﴾ ’’اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن صرف اور صرف گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔‘‘ یعنی یہ اس شخص کا گھڑا ہوا جھوٹ ہے جو اسے لے کر آیا ہے ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ١ۙ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور ان کافروں کے پاس جب حق آگیا تو انھوں نے کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے۔‘‘ یعنی یہ کھلا جادو ہے جو ہر ایک پر ظاہر ہے۔ وہ یہ بات حق کی تکذیب اور بے عقل لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے کے لیے کہتے تھے۔
#
{44} ولمَّا بيَّن ما ردُّوا به الحقَّ، وأنَّها أقوالٌ دون مرتبة الشُّبهة، فضلاً أن تكون حجَّةً؛ ذكر أنَّهم وإنْ أراد أحدٌ أن يحتجَّ لهم؛ فإنَّهم لا مستند لهم ولا لهم شيءٌ يعتمدونَ عليه أصلاً، فقال: {وما آتَيْناهم من كتبٍ يدرسونَها}: حتى تكون عمدةً لهم، {وما أرسَلْنا إليهم قبلَكَ من نذيرٍ}: حتى يكونَ عندَهم من أقوالِهِ وأحوالِهِ ما يدفعون به ما جئتَهم به؛ فليس عندهم علمٌ ولا أثارَةٌ من علم.
[44] جب وہ تمام اعتراضات واضح ہو گئے جن کی بنیاد پر وہ حق کو ٹھکراتے تھے کہ ان کا دلیل ہونا تو کجا ان کی بنیاد پر تو شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا، تو ذکر فرمایا کہ کوئی شخص ان کی تائید میں دلیل لانے کی کوشش کرے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ ﴿وَمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ كُتُبٍ یَّدْرُسُوْنَهَا۠﴾ ’’اور ہم نے نہ تو انھیں کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں۔‘‘ کہ وہ کتاب ان کے لیے کوئی دلیل ہوتی ﴿وَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَّذِیْرٍ﴾ ’’اور نہ آپ سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی ڈرانے والا بھیجا ہے۔‘‘ کہ ان کے پاس اس کے اقوال و احوال ہوں جن کی بنیاد پر یہ آپ کی دعوت کو ٹھکرا رہے ہوں۔ ان کے پاس علم ہے نہ علم کا کوئی نشان۔
#
{45} ثم خوَّفَهم ما فَعَلَ بالأمم المكذبين قبلَهم، فقال: {وكَذَّبَ الذين من قبلِهِم وما بَلَغوا}؛ أي: ما بلغ هؤلاء المخاطَبون {معشارَ ما آتَيْناهم فكذَّبوا}؛ أي: الأمم الذين من قبلهم {رسلي فكيف كان نكيرِ}؛ أي: إنكاري عليهم وعقوبتي إيَّاهم، قد أَعْلَمَنَا ما فَعَلَ بهم من النَّكال، وأنَّ منهم من أغرقه، ومنهم من أهلكه بالريح العقيم وبالصيحة وبالرجفة وبالخسف بالأرض وبإرسال الحاصِبِ من السماء؛ فاحذَروا يا هؤلاءِ المكذِّبون أن تدوموا على التكذيبِ، فيأخُذَكُم كما أخَذَ مَنْ قبلَكم ويصيبُكم ما أصابَهم.
[45] پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں، ان سے پہلے انبیاء کی تکذیب کرنے والی قوموں کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا: ﴿وَؔكَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۙ وَمَا بَلَغُوْا ﴾ ’’اور جو لوگ ان سے پہلے گزرے تھے انھوں نے (حق کو) جھٹلایا تھا اور یہ لوگ نہیں پہنچے‘‘ یعنی یہ مخاطبین نہیں پہنچتے ﴿مِعْشَارَ مَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا ﴾ ’’اس سازو سامان کے عشر عشیر کو بھی جو ہم نے ان (پہلے لوگوں) کو عطا کیا تھا تو انھوں نے جھٹلایا‘‘ یعنی ان سے پہلے امتوں نے ﴿رُسُلِیْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ نَؔكِیْرِ ﴾ ’’میرے رسولوں کو تو پھر میرا عذاب کیسا ہوا۔‘‘ یعنی میری ان پر گرفت اور میرا ان پر عذاب کیسا تھا؟ ہم اس سے قبل بتا چکے ہیں کہ گزشتہ قوموں کو کیا کیا سزائیں دی گئیں ان میں سے کچھ قوموں کو سمندر میں غرق کر دیا، کچھ لوگوں کو سخت طوفانی ہوا کے ذریعے سے ہلاک کر ڈالا، کچھ قوموں کو ایک سخت چنگھاڑ کے ذریعے سے، کچھ کو زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کیا اور کچھ قوموں کو زمین میں دھنسا دیا اور بعض قوموں پر ہم نے ہوا کے ذریعے سے آسمان سے پتھر برسائے۔ انبیاء و رسل کی تکذیب کرنے والے لوگو! تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، ورنہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے تھے اور تم پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے گا جیسے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل ہوا تھا۔
آیت: 46 - 50 #
{قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (46) قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (47) قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (48) قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (49) قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ (50)}.
کہہ دیجیے! بے شک میں نصیحت کرتا ہوں تمھیں ایک بات کی، یہ کہ تم کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لیے دو دو اور ایک ایک، پھر غوروفکرکرو تم، نہیں ہے تمھارے ساتھی (پیغمبر) میں کوئی دیوانگی، نہیں ہے وہ مگر صرف ایک ڈرانے والا تمھیں، پہلے ایک سخت عذاب کے (آنے سے) (46) کہہ دیجیے! جو مانگا ہو میں نے تم سے کوئی صلہ تو وہ تمھارے لیے ہی ہے، نہیں ہے میرا صلہ مگر ذمے اللہ ہی کے، اور وہ ہے اوپر ہرچیز کے شاہد(47)کہہ دیجیے! بلاشبہ میرا رب ہی القا کرتا ہے (پیغمبر پر) حق بات(وہ)خوب جانتا ہے پوشیدہ باتوں کو(48)کہہ دیجیے! آ گیا حق، اور نہیں ابتدا کرتا باطل اور نہ اعادہ کرتا ہے(49) کہہ دیجیے! اگرمیں بہکا ہوا ہوں تو بلاشبہ میرے بہکنے کا (وبال) مجھی پر ہو گا اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو بہ سبب اس کے ہے جو وحی کرتا ہے میری طرف میرا رب، بے شک وہ خوب سننے والانہایت قریب ہے(50)
#
{46} أي: {قل}: يا أيُّها الرسولُ لهؤلاء المكذِّبين المعاندين المتصدِّين لردِّ الحقِّ وتكذيبِهِ والقدح بِمَنْ جاء به: {إنَّما أعِظُكم بواحدةٍ}؛ أي: بخصلةٍ واحدةٍ أشيرُ عليكم بها وأنصحُ لكم في سلوكها، وهي طريقٌ نَصَفٌ، لست أدعوكم بها إلى اتِّباع قولي ولا إلى ترك قولِكُم من دون موجبٍ لذلك، وهي: {أن تقوموا للهِ مثنى وفرادى}؛ أي: تنهضوا بهمَّةٍ ونشاطٍ وقصدٍ لاتِّباع الصواب وإخلاصٍ لله مجتمعين ومتباحِثين في ذلك ومتناظرين وفرادى، كلُّ واحدٍ يخاطِبُ نفسَه بذلك؛ فإذا قُمتم لله مثنى وفرادى؛ استعملتُم فِكْرَكُم وأجَلْتُموه وتدبَّرْتُم أحوال رسولِكُم: هل هو مجنونٌ فيه صفاتُ المجانين من كلامِهِ وهيئتِهِ وصفتِهِ؟ أم هو نبيٌّ صادقٌ منذرٌ لكم ما يضرُّكم مما أمامكم من العذاب الشديد؟ فلو قبلوا هذه الموعظةَ واستعملوها؛ لتبيَّن لهم أكثر من غيرهم أنَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ليس بمجنونٍ؛ لأنَّ هيئاته ليست كهيئات المجانين في خنقهم واختلاجهم ونظرهم، بل هيئتُهُ أحسنُ الهيئات، وحركاتُهُ أجلُّ الحركات، وهو أكمل الخلق أدباً وسكينةً وتواضعاً ووقاراً، لا يكون إلاَّ لأرزن الرجال عقلاً. ثم إذا تأمَّلوا كلامَه الفصيحَ ولفظَه المليحَ وكلماتِهِ التي تملأ القلوب أمناً وإيماناً وتزكِّي النفوس وتطهِّرُ القلوب وتبعثُ على مكارم الأخلاق وتحثُّ على محاسن الشِّيَم وترهِّبُ عن مساوئ الأخلاق ورذائِلِها، إذا تكلَّم؛ رَمَقَتْهُ العيونُ هيبةً وإجلالاً وتعظيماً؛ فهل هذا يشبِهُ هَذَيان المجانين وعربَدَتَهم وكلامَهم الذي يشبِهُ أحوالَهم؟! فكلُّ من تدبَّر أحوالَه وقصده استعلام: هل هو رسولُ الله أم لا؟ سواء تفكَّر وحدَه أم معه غيرُهُ؛ جزم بأنه رسولُ الله حقًّا ونبيُّه صدقاً، خصوصاً المخاطبين، الذي هو صاحبُهم، يعرفون أول أمرِهِ وآخرَه.
[46] ﴿قُ٘لْ ﴾ اے رسول! ان مکذبین و معاندین، تکذیب حق میں بھاگ دوڑ کرنے اور حق لانے والے کے بارے میں جرح وقدح کے درپے رہنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ﴾ ’’میں تمھیں صرف ایک بات کی وصیت کرتا ہوں‘‘ تمھیں اس کا مشورہ دیتا ہوں اور اس بارے میں تمھارے ساتھ خیرخواہی کرتا ہوں۔ یہی انصاف پر مبنی طریقہ ہے، میں تمھیں یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات مانو نہ یہ کہتا ہوں کہ تم بغیر کسی موجب کے اپنی بات چھوڑ دو، میں تم لوگوں سے صرف یہ کہتا ہوں: ﴿اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْ٘نٰى وَفُ٘رَادٰى ﴾ ’’ کہ تم اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہو جاؤ ۔‘‘ یعنی ہمت ، نشاط، اتباع صواب کے قصد اور اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے ساتھ، تحقیق و جستجو کی خاطر اکٹھے ہو کر اور اکیلے اکیلے، کھڑے ہو جاؤ اور تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو مخاطب کرے۔ تم اکیلے اکیلے اور دو دو کھڑے ہو کر اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، اپنے رسول کے احوال میں غوروفکر کرو، کہ کیا وہ مجنون ہے؟ کیا اس کے کلام اور ہیئت و اوصاف میں مجانین کی صفات پائی جاتی ہیں؟ یا وہ سچا نبی ہے اور آنے والے سخت عذاب کے ضرر سے تمھیں ڈراتا ہے؟ اگر وہ اس نصیحت کو قبول کر کے اس پر عمل کریں، تو دوسروں سے زیادہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ رسول اللہ e مجنون نہیں ہیں، اس لیے کہ آپ کی ہیئت مجانین کی ہیئت کی مانند نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ کی ہیئت بہترین، آپ کی حرکات و سکنات جلیل ترین، ادب، سکینت، تواضع اور وقار کے اعتبار سے آپ کی تخلیق کامل ترین تھی۔ یہ صفات جلیلہ کسی نہایت عقل مند اور باوقار شخص ہی میں ہو سکتی ہیں، پھر وہ آپ کے فصیح و بلیغ کلام، آپ کے خوبصورت الفاظ اور آپ کے ان کلمات پر غور کریں جو دلوں کو امن و ایمان سے لبریز کر دیتے ہیں، نفوس کا تزکیہ اور قلوب کی تطہیر کرتے ہیں، جو انسان کو مکارم اخلاق اور اچھی عادات کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے برعکس برے اخلاق اور رذیل عادات سے روکتے ہیں۔ آپ e جب گفتگو فرماتے ہیں تو ہیبت، اجلال اور تعظیم کی بنا پر آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ کیا یہ تمام چیزیں مجانین کی بکواس اور ان کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں اور ان کے اس کلام سے مشابہت رکھتی ہیں، جو ان کے احوال سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہر وہ شخص جو آپ کے احوال میں غوروفکر کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کا قصد رکھتا ہے کہ آیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں یا نہیں، خواہ وہ اکیلا غوروفکر کرے یا کسی اور کے ساتھ مل کر، وہ یقین جازم کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور نبی صادق ہیں، خاص طور پر یہ مخاطبین، کیونکہ آپ ان کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کو شروع سے لے کر آخر تک اچھی طرح جانتے ہیں۔
#
{47} وثَمَّ مانعٌ للنفوس آخرُ عن اتِّباع الداعي إلى الحقِّ، وهو أنه يأخذُ أموال مَن يستجيبُ له ويأخذُ أجرةً على دعوتِهِ، فبيَّن الله تعالى نزاهةَ رسوله عن هذا الأمر، فقال: {قل ما سألتُكُم من أجرٍ}؛ أي: على اتِّباعكم للحقِّ {فهو لكم}؛ أي: فأشهدكم أنَّ ذلك الأجر على التقدير أنَّه لكم. {إنْ أجرِيَ إلاَّ على الله وهو على كلِّ شيءٍ شهيدٌ}؛ أي: محيطٌ علمهُ بما أدعو إليه؛ فلو كنتُ كاذباً؛ لأخذني بعقوبته، وشهيدٌ أيضاً على أعمالِكم، سيحفظُها عليكم ثم يجازيكم بها.
[47] البتہ ایک اور مانع ہے جو نفوس کو داعی ٔ حق کی آواز پر لبیک کہنے سے روکتا ہے اور وہ مانع یہ ہے کہ داعی، اپنی آواز پر لبیک کہنے والوں سے، اپنی دعوت کی اجرت کے طور پر مال اینٹھ لیتا ہو، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اپنے رسول کی براء ت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قُ٘لْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔‘‘ یعنی تمھارے حق کی اتباع کرنے پر ﴿فَهُوَ لَكُمْ ﴾ یعنی میں تمھیں گواہ کر کے کہتا ہوں کہ بفرض محال، اگر دعوت حق کی کوئی اجرت ہے، تو وہ اجرت تمھارے لیے ہے۔ ﴿اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ١ۚ وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ ﴾ ’’میرا اجر اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘ یعنی اس کا علم اس چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کی طرف میں تمھیں دعوت دیتا ہوں۔ اگر میں جھوٹا ہوتا تو وہ عذاب کے ذریعے سے میری گرفت کرتا، نیز وہ تمھارے اعمال کو بھی دیکھتا ہے، وہ ان کو محفوظ رکھے گا اور تمھیں ان اعمال کی جزا دے گا۔
#
{48} ولمَّا بيَّنَ البراهينَ الدالةَ على صحة الحقِّ وبطلان الباطل؛ أخبر تعالى أنَّ هذه سنَّتُه وعادته أن يَقْذِف بالحقِّ على الباطل فيدمَغَهُ فإذا هو زاهقٌ؛ لأنَّه بيَّن من الحقِّ في هذا الموضع وردَّ به أقوالَ المكذِّبين ما كان عبرةً للمعتبرين وآيةً للمتأملين؛ فإنَّك كما ترى كيف اضمحلَّتْ أقوالُ المكذِّبين، وتبيَّن كذِبُهم وعنادُهم، وظهر الحقُّ وسطع، وبطل الباطلُ وانقمعْ، وذلك بسبب بيان {عَلاَّم الغُيوبِ}، الذي يعلم ما تنطوي عليه القلوبُ من الوساوس والشُّبه، ويعلم ما يقابِلُ ذلك ويدفعُه من الحُجج، فيعلِّم بها عبادَه، ويبيِّنُها لهم.
[48] اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دلائل و براہین کا ذکر کرنے کے بعد، جو حق کی صحت اور باطل کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں، آگاہ فرمایا کہ یہ اس کی سنت اور عادت ہے۔ ﴿یَقْذِفُ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ حق کے ذریعے سے چوٹ لگاتے ہیں‘‘ باطل پر جو اس کا سرتوڑ دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حق کو واضح اور اہل تکذیب کے اعتراضات کو رد کر دیا ہے، جو عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت اور غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہے تو آپ نے دیکھا کہ اہل تکذیب کے اقوال کیسے مضمحل ہو گئے، ان کا جھوٹ اور عناد کیسے عیاں ہو گیا، حق روشن ہو کر ظاہر ہو گیا اور باطل کا قلع قمع ہو گیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس کو ﴿عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ﴾ ’’سب سے زیادہ چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والے‘‘ نے بیان کیا ہے جو دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں اور شبہات کو جانتا ہے، جو ان دلائل کو بھی جانتا ہے جو ان شبہات کے مقابلے میں جنم لیتے ہیں اور ان کو رد کرتے ہیں۔پس وہ اپنے بندوں کو ان دلائل کا علم عطا کر کے ان کو ان کے سامنے خوب واضح کر دیتا ہے۔
#
{49} ولهذا قال: {قل جاء الحقُّ}؛ أي: ظهر وبان وصار بمنزلة الشمس وظَهَرَ سلطانُه، {وما يُبدِئُ الباطل وما يعيدُ}؛ أي: اضمحلَّ وبطل أمرُه وذهب سلطانُه؛ فلا يُبدئ ولا يُعيدُ.
[49] اس لیے فرمایا: ﴿قُ٘لْ جَآءَ الْحَقُّ ﴾ ’’کہہ دیجیے: حق آگیا ہے‘‘ یعنی وہ ظاہر، واضح اور سورج کی مانند روشن ہو گیا اور اس کی دلیل غالب آ گئی ہے۔ ﴿وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ ﴾ ’’اور باطل نہ تو پہلی بار پیدا کر سکتا ہے نہ دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ یعنی اس کے ہتھکنڈے مضمحل ہو کر باطل اور اس کے دلائل سرنگوں ہو گئے۔ باطل ( یعنی کوئی خود ساختہ معبود) کسی کو پیدا کر سکتا ہے نہ مرنے کے بعد زندگی کا اعادہ کر سکتا ہے۔
#
{50} ولما تبيَّن الحقُّ بما دعا إليه الرسولُ، وكان المكذِّبونَ له يرمونَه بالضَّلال؛ أخبرهم بالحقِّ، ووضَّحه لهم وبيَّن لهم عَجْزَهُم عن مقاومتِهِ، وأخبرَهَم أنَّ رميَهم له بالضلال ليس بضائرٍ الحقَّ شيئاً ولا دافع ما جاء به، وأنَّه إنْ ضلَّ ـ وحاشاه من ذلك، لكن على سبيل التنزُّلِ في المجادلة ـ؛ فإنَّما يَضِلُّ على نفسِهِ؛ أي: ضلالُه قاصرٌ على نفسه، غيرُ متعدٍّ إلى غيرِهِ، {وإنِ اهتديتُ}: فليس ذلك من نفسي وحولي وقوَّتي، وإنَّما هدايتي بما {يوحي إليَّ ربي}: فهو مادة هدايتي؛ كما هو مادةُ هداية غيري؛ إنَّ ربِّي سميعٌ للأقوال والأصواتِ كلِّها، قريبٌ ممَّن دعاه وسأله وعَبَدَهُ.
[50] جب حق واضح ہو گیا، جس کی طرف رسول مصطفیٰ e نے دعوت دی تھی اور آپ کو جھٹلانے والے آپ پر گمراہی کا بہتان لگاتے تھے، تو آپ نے ان کو حق سے آگاہ کر کے حق کو ان کے سامنے واضح کر دیا اور ان پر ثابت کر دیا کہ وہ حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔ آپ نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ ان کا آپ کو گمراہ کہنا حق کو کوئی نقصان دے سکتا ہے نہ دعوت حق کسی کے روکے رکی ہے۔ اگر آپ e (مَعَاذَ اللہِ) گمراہ ہیں ، حالانکہ آپ اس سے پاک اور منزہ ہیں، تاہم اگر بحث میں برسبیل تنزل تمھاری بات کو صحیح مان لیں تو آپ کی گمراہی آپ کے لیے ہے یعنی آپ کی گمراہی کا تعلق صرف آپ کے ساتھ ہے، دوسروں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ ﴿وَاِنِ اهْتَدَیْتُ ﴾ ’’اور اگر میں راہ راست پر ہوں‘‘ تو یہ میرے نفس اور میری قوت و اختیار کا کارنامہ نہیں۔ میری ہدایت کا سبب تو صرف یہ ہے کہ ﴿یُوْحِیْۤ اِلَیَّ رَبِّیْ ﴾ ’’میرا رب میری طرف وحی بھیجتا ہے‘‘ اور وہی میری ہدایت کا منبع ہے اور میرے سوا دیگر لوگوں کی ہدایت کا سرچشمہ بھی وہی ہے۔ بے شک میرا رب ﴿سَمِیْعٌ ﴾ ’’سنتا ہے‘‘ تمام باتوں اور تمام آوازوں کو اور ﴿قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’قریب ہے‘‘ ہر اس شخص کے جو اسے پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے۔
آیت: 51 - 54 #
{وَلَوْ تَرَى إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (51) وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (52) وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ (53) وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُرِيبٍ (54)}.
اور کاش کہ آپ دیکھیں! جب وہ پریشان ہوں گے، تو نہ بچ سکیں گے، اور پکڑ لیے جائیں گے وہ نزدیک جگہ ہی سے (51) اور وہ کہیں گے، ہم ایمان لے آئے ہیں اس پر، اور کہا ں ان کے لیے ہوگا حاصل کرنا (ایمان کا اتنی) دور جگہ سے(52) حالانکہ انکار کیا تھا انھوں نے ساتھ اس کےاس سے پہلے (دنیا میں) اور پھینکتے رہے بن دیکھے (نشانے پر) دور جگہ سے ہی(53) اور آڑ کر دی جائے گی ان کے درمیان اور درمیان ان چیزوں کے جو وہ چاہیں گے، جیسے کیا گیاان جیسے کام کرنے والوں کے ساتھ اس سے پہلے، بلاشبہ وہ تھے ایسے شک میں (جو) اضطراب میں ڈالنے والا تھا(54)
#
{51} يقول تعالى: {ولو ترى}: أيُّها الرسولُ ومَنْ قام مقامَكَ حالَ هؤلاء المكذِّبين {إذْ فَزِعوا}: حين رأوا العذابَ وما أخبرتْهم به الرسلُ وما كذَّبوا به؛ لرأيتَ أمراً هائلاً ومنظراً مفظِعاً وحالةً منكرةً وشدَّةً شديدةً، وذلك حين يحقُّ عليهم العذابُ، وليس لهم عنه مهربٌ ولا فوتٌ، {وأخِذوا من مكانٍ قريبٍ}؛ أي: ليس بعيداً عن محلِّ العذاب، بل يُؤخَذون ثم يُقْذَفون في النار.
[51] اللہ تبارک فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ تَرٰۤى ﴾ ’’اور اگر آپ دیکھیں‘‘ اے رسول! اور وہ جو آپ کے قائم مقام ہے، ان جھٹلانے والوں کا حال ﴿اِذْ فَزِعُوْا﴾ ’’جب وہ گبھرائے ہوئے ہوں گے‘‘ عذاب اور ان چیزوں کو دیکھ کر جن کے بارے میں انبیاء و رسل نے خبر دی تھی اور انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلایا تھا تو آپ ایک انتہائی ہولناک منظر، نہایت بری حالت اور بہت بڑی سختی ملاحظہ فرمائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب ان کے لیے عذاب کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ تو ان کے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ ہو گی نہ وہ بچ ہی سکیں گے ﴿وَاُخِذُوْا مِنْ مَّكَانٍ قَ٘رِیْبٍ﴾ ’’اور وہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔‘‘ یعنی وہ عذاب کی جگہ سے زیادہ دور نہ ہوں گے بلکہ ان کو پکڑ لیا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
#
{52} {وقالوا}: في تلك الحال: آمنَّا باللهِ، وصدَّقْنا ما به كذَّبْنا، {و} لكنْ {أنَّى لهم التَّناوُشُ}؛ أي: تناولُ الإيمان، {من مكانٍ بعيدٍ}: قد حيل بينَهم وبينَه، وصار من الأمورِ المُحالة في هذه الحالة.
[52] ﴿وَّقَالُوْۤا ﴾ ’’اور وہ پکار اٹھیں گے‘‘ اسی حالت میں، کہ ﴿اٰمَنَّا ﴾ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اللہ تعالیٰ پر اور ان امور کی تصدیق کی جن کو ہم جھٹلایا کرتے تھے۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ لیکن ﴿اَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ٘ ﴾ ’’اب انھیں (حصول ایمان) کہاں سے میسر ہوگا‘‘ ﴿مِنْ مَّكَانٍۭؔ بَعِیْدٍ﴾ ’’اتنے دور کے مقام سے‘‘ اب ان کے درمیان اور ان کے ایمان کے درمیان بڑے فاصلے حائل ہو گئے ہیں اور اس حال میں ایمان محال ہو گیا ہے۔
#
{53} فلو أنَّهم آمنوا وقتَ الإمكان؛ لكان إيمانُهم مقبولاً، ولكنَّهم {كفروا به من قبلُ ويَقْذِفُونَ}؛ أي: يرمون {بالغيبِ من مكانٍ بعيد}: بقذفهم الباطل لِيُدْحِضوا به الحقَّ، ولكن لا سبيل إلى ذلك؛ كما لا سبيل للرامي من مكانٍ بعيد إلى إصابةِ الغرضِ؛ فكذلك الباطلُ من المُحال أن يغلبَ الحقَّ أو يدفَعَه، وإنَّما يكون له صولةٌ وقتَ غفلةِ الحقِّ عنه، فإذا برزَ الحقُّ وقاوم الباطلَ؛ قمعه.
[53] اگر یہ لوگ بروقت ایمان لائے ہوتے تو ان کا ایمان مقبول تھا، لیکن ﴿كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ١ۚ وَیَقْذِفُوْنَ ﴾ ’’اس سے پہلے تو انھوں نے اس سے کفر کیا تھا اور وہ پھینکتے تھے (تیر تکے)‘‘ ﴿بِالْغَیْبِ مِنْ مَّكَانٍۭؔ بَعِیْدٍ ﴾ ’’دور دراز سے بن دیکھے ہی‘‘ اپنے باطل اندازوں کے ذریعے سے تاکہ اس طرح وہ حق کو سرنگوں کریں۔ مگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے جس طرح بہت دور سے تیر اندازی کرنے والے کا تیر صحیح نشانے پر نہیں پڑ سکتا اسی طرح یہ بہت محال ہے کہ باطل حق کو مغلوب کر سکے یا اس کو روک سکے۔ حق کی غفلت کے وقت باطل ایک مرتبہ حملہ آور ہوتا ہے مگر جب حق سامنے آکر باطل کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ اس کا قلع قمع کر دیتا ہے۔
#
{54} {وحِيل بينَهم وبينَ ما يَشْتهونَ}: من الشهواتِ واللَّذَّاتِ والأولاد والأموال والخدم والجنودِ، قد انفردوا بأعمالِهِم، وجاؤوا فرادى كما خُلِقوا وتَركَوا ما خُوِّلوا وراءَ ظهورهم، {كما فعل بأشياعِهِم}: من الأمم السابقين حين جاءهم الهلاك حيل بينَهم وبينَ ما يشتهون. {إنَّهم كانوا في شكٍّ مريبٍ}؛ أي: مُحْدِث الرِّيبة وقلق القلب؛ فلذلك لم يؤمِنوا، ولم يعتَبوا حين استُعْتِبوا.
[54] ﴿وَحِیْلَ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ ﴾ یعنی ان کے درمیان اور ان کی لذات و شہوات، مال و اولاد، ان کی فوجوں اور خدم و حشم کے درمیان رکاوٹیں حائل کر دی جائیں گی۔ وہ اکیلے اکیلے اپنے اعمال کے ساتھ اسی طرح حاضر ہوں گے جس طرح انھیں اکیلے پیدا کیا گیا تھا اور جن چیزوں کے وہ مالک تھے انھیں اپنے پیچھے چھوڑ آئیں گے۔ ﴿كَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِهِمْ ﴾ ’’جیسے ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا تھا‘‘ گزشتہ قوموں میں سے۔ جب ان پر ہلاکت خیز عذاب نازل ہوا تو ان کے اور ان کی دل پسند چیزوں کے درمیان رکاوٹیں حائل کر دی گئیں۔ ﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا فِیْ شَكٍّ مُّرِیْبٍ ﴾ ’’بے شک وہ بھی الجھن میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ جو انھیں بدگمانی اور دلی قلق میں مبتلا کرتا تھا ، اس لیے وہ ایمان نہ لائے اور جب ان سے توبہ کے لیے کہا گیا تو انھوں نے توبہ نہ کی۔