(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (1) وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (2) وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (3)}
اے نبی! ڈریں اللہ سے اور نہ اطاعت کریں کافروں اور منافقوں کی، بلاشبہ اللہ ہے خوب جاننے والا، حکمت والا
(1) اور پیروی کیجیے اس چیز کی جووحی کی جاتی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے بے شک اللہ ہے ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو، خوب خبردار
(2) اور توکل کیجیے اوپر اللہ کے اور کافی ہے اللہ کار ساز
(3)
#
{1 ـ 2} أي: يا أيُّها الذي منَّ اللهُ عليه بالنبوَّة واختصَّه بوحيه وفضَّله على سائر الخلق! اشكُرْ نعمة ربِّك عليك باستعمال تَقْواه التي أنت أولى بها من غيرك، والذي يجب عليك منها أعظم من سواك؛ فامتثلْ أوامره ونواهِيَه، وبلِّغْ رسالاته، وأدِّ إلى عبادِهِ وَحْيَهُ، وابذُلِ النصيحةَ للخَلْق، ولا يَصُدَّنَّكَ عن هذا المقصود صادٌّ ولا يردُّك عنه رادٌّ، فلا تُطِع كلَّ كافرٍ قد أظهر العداوة لله ولرسوله ، ولا منافق قد استبطنَ التكذيبَ والكفرَ وأظهر ضدَّه؛ فهؤلاء هم الأعداء على الحقيقة؛ فلا تُطِعْهُم في بعض الأمور التي تنقُضُ التقوى وتناقِضُها، ولا تتَّبِعْ أهواءهم؛ يضلُّوك عن الصواب. {و} لكن {اتَّبِعْ ما يُوحى إليكَ من ربِّكَ}: فإنَّه هو الهدى والرحمة، وارجُ بذلك ثواب ربِّك؛ فإنه {بما تعملون خبيراً}: يجازيكم بحسب ما يَعْلَمُهُ منكم من الخير والشرِّ.
[1، 2] یعنی اے وہ ہستی! جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور اپنی وحی کے لیے چن لیا اور تمام مخلوق پر فضیلت بخشی، اپنے اوپر اپنے رب کی اس نعمت پر تقویٰ کے ذریعے سے اس کا شکر ادا کیجیے جس کے دوسروں کی نسبت آپ زیادہ مستحق ہیں اور اسے اختیار کرنا دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ فرض ہے۔ پس اس کے اوامر و نواہی پر عمل کیجیے، اس کے پیغامات کی تبلیغ کیجیے، اس کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچائیے اور تمام مخلوق کی خیرخواہی کیجیے کوئی آپ کو آپ کے مقصد سے ہٹا سکے نہ آپ کی راہ کو کھوٹی کر سکے اور کسی کافر کی اطاعت نہ کیجیے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کے لیے عداوت ظاہر کی ہو اور نہ کسی منافق کی اطاعت کیجیے، کیونکہ اس نے تکذیب اور کفر کو اپنے باطن میں چھپا رکھا ہے اور ان کے برعکس تصدیق و ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ بس یہی لوگ ہیں جو حقیقی دشمن ہیں ، لہٰذا بعض معاملات میں جو تقویٰ کے متناقض ہیں ان کی بات نہ مانئے اور ان کی خواہشات نفس کی پیروی نہ کیجیے ورنہ وہ آپ کو راہ صواب سے ہٹا دیں گے۔
﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ لیکن
﴿اتَّ٘بِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ﴾ ’’جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کی جاتی ہے اسی کی اتباع کیجیے۔‘‘ کیونکہ یہی ہدایت اور رحمت ہے اس کی پیروی کر کے اپنے رب کے ثواب کی امید رکھیے کیونکہ وہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے، وہ تمھیں تمھارے اچھے اور برے اعمال کی اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔
#
{3} فإنْ وقع في قلبِك أنَّك إن لم تُطِعْهم في أهوائهم المضلَّة؛ حصل عليك منهم ضررٌ، أو حصل نقصٌ في هداية الخلق؛ فادفَعْ ذلك عن نفسك، واستعملْ ما يقاوِمُه ويقاوِمُ غيره، وهو التوكُّل على الله؛ بأن تعتمدَ على ربِّك اعتماد مَنْ لا يملِكُ لنفسه ضرًّا ولا نفعاً ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً في سلامتك من شرِّهم وفي إقامة الدين الذي أمرتَ به، وثِقْ بالله في حُصول ذلك الأمر على أيِّ حال كان.
{وكفى بالله وكيلاً}: تُوكلُ إليه الأمور، فيقوم بها وبما هو أصلحُ للعبد، وذلك لعلمِهِ بمصالح عبدِهِ من حيث لا يعلمُ العبدُ، وقدرتِهِ على إيصالها إليه من حيث لا يقدر عليها العبدُ، وأنَّه أرحم بعبده من نفسه ومن والديه وأرأفُ به من كلِّ أحدٍ، خصوصاً خواصَّ عبيده، الذين لم يزل يربِّيهم ببرِّه ويدرُّ عليهم بركاتِهِ الظاهرةَ والباطنةَ، خصوصاً وقد أمَرَهُ بإلقاء أموره إليه، ووعَدَه أن يقوم بها؛ فهناك لا تسأل عن كلِّ أمرٍ يتيسَّر، وصعب يتسهَّل ، وخطوبٍ تهون، وكروبٍ تزول، وأحوال وحوائج تُقضى، وبركاتٍ تنزل، ونِقَم تُدْفَع، وشرورٍ تُرفع. وهناك ترى العبد، الضعيفَ الذي فوَّضَ أمره لسيِّده قد قام بأمورٍ لا تقوم بها أمَّة من الناس، وقد سهَّل الله عليه ما كان يصعُبُ على فحول الرجال. وبالله المستعان.
[3] اگر آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ آپ نے ان کی گمراہ کن خواہشات نفس کی پیروی نہ کی تو آپ کو ان سے کوئی نقصان پہنچ جائے گا یا مخلوق کی ہدایت میں نقص واقع ہو جائے گا تو اس خیال کو اپنے دل سے نکال پھینکیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ ان کے شر سے سلامتی اور اقامت دین میں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، اپنے رب پر اس شخص کی مانند اعتماد کیجیے جو اپنی ذات کے لیے کسی نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا، جو موت پر اختیار رکھتا ہے نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد زندہ کر سکتا ہے، لہٰذا اس امر کے حصول کے بارے میں ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔
﴿وَكَ٘فٰى بِاللّٰهِ وَؔكِیْلًا﴾ ’’اور اللہ کافی کارساز ہے۔‘‘ اس لیے تمام معاملات کو اسی کے سپرد کر دیجیے وہ ان کا اس طریقہ سے انتظام کرے گا جو بندے کے لیے سب سے زیادہ درست ہو گا، پھر وہ ان مصالح کو اپنے بندے تک پہنچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے جبکہ بندہ ان پر قادر نہیں، وہ اپنے بندے پر اس سے بھی کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ خود اپنے آپ پر رحم کر سکتا ہے یا اس پر اس کے والدین رحم کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے بندے پر ہر ایک سے زیادہ رحمت والا ہے خصوصاً اپنے خاص بندوں پر، جن پر ہمیشہ سے اس کی ربوبیت اور احسان کا فیضان جاری ہے اور جن کو اپنی ظاہری اور باطنی برکتوں سے سرفراز کیا ہے، خاص طور پر اس نے حکم دیا ہے کہ تمام امور اس کے سپرد کر دیے جائیں، اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کی تدبیر کرے گا۔
تب آپ نہ پوچھیں کہ ہر معاملہ کیسے آسان ہوگا، مشکلات کیسے دور ہوں گی، مصائب کیسے ختم ہوں گے، تکلیفیں کیسے زائل ہوں گی، ضرورتیں اور حاجتیں کیسے پوری ہوں گی، برکتیں کیسے نازل ہوں گی، سزائیں کیسے ختم ہو ں گی اور شر کیسے اٹھا لیا جائے گا... یہاں آپ کمزور بندے کو دیکھیں گے جس نے اپنا تمام معاملہ اپنے آقا کے سپرد کر دیا، اس کے آقا نے اس کے معاملات کا اس طرح انتظام کیا کہ لوگوں کی ایک جماعت بھی اس کا انتظام نہ کر سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے معاملات اس کے لیے نہایت آسان کر دیے جو بڑے بڑے طاقتور لوگوں کے لیے بھی نہایت مشکل تھے۔ وباللہ المستعان۔
{مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (5)}
نہیں بنائے اللہ نے واسطے کسی آدمی کے دو دل اس کے سینے میں اور نہیں بنایا اس نے تمھاری بیویوں کو، وہ جو ظہار کرتے ہو تم ان سے، تمھاری مائیں، اور نہیں بنایا اس نے تمھارے لے پالکوں کو تمھارے بیٹے، یہ تمھارا کہنا ہے اپنے مونہوں سے، اور اللہ کہتا ہے حق اور وہی ہدایت دیتا ہے سیدھے راستے کی
(4) پکارو تم ان کو ان کے باپوں کی طرف
(نسبت کر کے) یہ زیادہ انصاف کی بات ہے نزدیک اللہ کے، پس اگر نہ جانوان کے باپوں کو تو
(وہ) بھائی ہیں تمھارے دین میں اور دوست تمھارے، اور نہیں ہے تم پر کوئی گناہ اس میں جو چوک جاؤ تم اس
(کے بولنے) میں لیکن
(وہ گناہ ہے) جوارادہ کیا تمھارے دلوں نے اور ہے اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان
(5)
#
{4} يعاتِبُ تعالى عبادَه عن التكلُّم بما لا حقيقةَ له من الأقوال، ولم يجعلْه الله تعالى كما قالوا؛ فإنَّ ذلك القول منكم كذبٌ وزورٌ يترتَّب عليه منكراتٌ من الشرع، وهذه قاعدةٌ عامةٌ في التكلُّم في كلِّ شيء والإخبار بوقوع ووجود ما لَمْ يَجْعَلْه الله تعالى، ولكن خصَّ هذه الأشياء المذكورة لوقوعها وشدة الحاجة إلى بيانها، فقال: {ما جَعَلَ الله لرجل مِن قَلْبَيْنِ في جَوْفِهِ}: هذا لا يوجد؛ فإيَّاكم أن تقولوا عن أحدٍ: إنَّ له قلبينِ في جوفه، فتكونوا كاذبين على الخلقة الإلهية، {وما جعل أزواجَكم اللاَّئي تظاهِرون منهنَّ}: بأن يقولَ أحدكم لزوجتِهِ أنتِ عليَّ كظهر أمي أو كأمي؛ فما جعلهنَّ الله {أمَّهاتِكم}: أمُّك مَنْ وَلَدَتْكَ وصارتْ أعظم النساءِ عليك حرمةً وتحريماً، وزوجتُك أحلُّ النساء لك؛ فكيف تشبِّه أحد المتناقضين بالآخر؟! هذا أمرٌ لا يجوز؛ كما قال تعالى: {الذين يُظاهِرون منكم مِن نسائِهِم ما هنَّ أمَّهاتِهم إنْ أمهاتُهم إلا اللاَّئي وَلَدْنَهُمْ وإنَّهم ليقولون مُنكراً من القول وزوراً}.
{وما جَعَلَ أدْعِياءَكم أبناءَكم}: والأدعياء: الولد الذي كان الرجل يدَّعيه وهو ليس له، أو يُدعى إليه بسبب تبنِّيه إيَّاه؛ كما كان الأمر في الجاهلية وأول الإسلام، فأراد الله تعالى أن يُبْطِلَه ويزيلَه، فقدَّم بين يدي ذلك بيانَ قُبحه، وأنَّه باطلٌ وكذبٌ، وكل باطلٍ وكذبٍ لا يوجد في شرع الله ولا يتَّصف به عبادُ الله، يقول تعالى: فالله لم يجعل الأدعياءَ الذين تَدَّعونَهم أو يُدعونَ إليكم أبناءكم؛ فإنَّ أبناءكم في الحقيقة مَنْ وَلَدْتُموهم وكانوا منكم، وأمَّا هؤلاء الأدعياء من غيركم؛ فلا جعل الله هذا كهذا، {ذلكم}: القول الذي تقولون في الدَّعِيِّ: إنَّه ابنُ فلان الذي ادَّعاه، أو والده فلان، {قولُكم بأفواهِكم}؛ أي: قولٌ لا حقيقةَ له ولا معنى له، {واللهُ يقولُ الحقَّ}؛ أي: اليقين والصدق؛ فلذلك أمركم باتِّباعه على قوله وشرعِهِ؛ فقولُه حقٌّ، وشرعُهُ حقٌّ، والأقوال والأفعال الباطلة لا تُنسب إليه بوجه من الوجوه، وليست من هدايته؛ لأنه لا يَهْدي إلاَّ إلى السبيل المستقيمة والطرق الصادقة، وإنْ كان ذلك واقعاً بمشيئتِهِ؛ فمشيئته عامَّةٌ لكلِّ ما وجد من خيرٍ وشرٍّ.
[4] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسے امور میں گفتگو نہ کریں جن کی کوئی حقیقت نہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی بات ہے جو جھوٹ اور باطل ہے، جس پر شرعی برائیاں مرتب ہوتی ہیں۔ یہ ہر معاملے میں گفتگو کرنے اور کسی چیز کے وقوع و وجود کے بارے میں، جسے اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو، خبر دینے میں ایک عام قاعدہ ہے، مگر مذکورہ چیزوں کو ان کے کثرت و قوع اور ان کو بیان کرنے کی حاجت کی بنا پر مخصوص کیا ہے ،
چنانچہ فرمایا: ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ﴾ ’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے‘‘ یہ صورت کبھی نہیں پائی جاتی۔ پس کسی کے بارے میں یہ کہنے سے بچو کہ اس کے پہلو میں دو دل ہیں ورنہ تم تخلیق الٰہی کے بارے میں جھوٹ کے مرتکب بنو گے۔
﴿وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔيْ تُ٘ظٰهِرُوْنَ ﴾ ’’اور
(اللہ نے) نہیں بنایا تمھاری عورتوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو‘‘ یعنی تم میں سے کسی شخص کا اپنی بیوی سے یہ کہنا: ’’تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ یا، جیسے میری ماں‘‘ تو نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے انھیں
﴿اُمَّهٰؔتِكُمْ ﴾ ’’تمھاری مائیں‘‘ تیری ماں تو وہ ہے جس نے تجھے جنم دیا، جو تیرے لیے تمام عورتوں سے بڑھ کر حرمت و تحریم کی حامل ہے اور تیری بیوی تیرے لیے سب سے زیادہ حلال عورت ہے،
تب تو دو متناقض امور کو کیسے ایک دوسرے کے مشابہ قرار دے رہا ہے جبکہ یہ ہرگز جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ١ؕ اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ١ؕ وَاِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْؔكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ؔ﴾ (المجادلۃ:58؍2) ’’تم میں سے جو لوگ اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتے ہیں، وہ اس طرح ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنم دیا، بلاشبہ وہ ایک جھوٹی اور بری بات کہتے ہیں۔‘‘
﴿وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ۠ اَبْنَآءَكُمْ﴾ ’’اور تمھاری لے پالکوں کو تمھارے بیٹے نہیں بنایا۔‘‘
(اَدْعِیَاء) اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی شخص اپنا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے مگر وہ اس کا بیٹا نہ ہو یا اسے متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بیٹا کہا جائے۔ جیسا کہ ایام جاہلیت اور اسلام کی ابتدا میں یہ رواج موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کو ختم کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس رواج کی برائی بیان کی اور واضح کیا کہ یہ باطل اور جھوٹ ہے۔ باطل اور جھوٹ کا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس سے متصف ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو، جن کو تم بیٹا کہتے ہو یا وہ تمھارا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،تمھارا بیٹا نہیں بنایا۔ حقیقت میں تمھارے بیٹے وہ ہیں جو تم میں سے ہیں اور جن کو تم نے جنم دیا ہے اور رہے دوسرے لوگ جن کے بارے میں تم اپنے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہو وہ تمھارے حقیقی بیٹوں کی مانند نہیں ہیں۔
﴿ذٰلِكُمْ ﴾ یہ بات جو تم منہ بولے بیٹوں کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، اس شخص کے لیے جو اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس کا باپ فلاں ہے
﴿قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ﴾ ’’تمھارے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ یعنی یہ ایسی بات ہے کہ جس کی کوئی حقیقت ہے نہ معنی۔
﴿وَاللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ﴾ ’’اور اللہ حق بات کہتا ہے۔‘‘ یعنی جو صداقت اور یقین پر مبنی ہے اس لیے اس نے تمھیں اس کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کا قول حق اور اس کی شریعت حق ہے، تمام باطل اقوال و افعال کسی بھی لحاظ سے اس کی طرف منسوب نہیں کیے جاسکتے اور نہ اس کی ہدایت سے ان کا کوئی تعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو صرف صراط مستقیم اور صدق کے طریقوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوا ہے تو اس کی مشیت اس کائنات میں جو بھی خیروشر موجود ہے، سب کے لیے عام ہے۔
#
{5} ثم صرح لهم بترك الحالة الأولى المتضمِّنة للقول الباطل، فقال: {ادْعوهُم}؛ أي: الأدعياء {لآبائِهِم}: الذين ولدوهم {هو أقسطُ عند الله}؛ أي: أعدلُ وأقوم وأهدى، {فإن لم تَعلَموا آباءَهم}: الحقيقيين {فإخوانكم في الدين وَمَواليكُم}؛ أي: إخوتكم في دين الله ومواليكم في ذلك؛ فادْعوهم بالأخوة الإيمانيَّة الصادقة والموالاة على ذلك؛ فترك الدعوة إلى من تبنَّاهم حَتْمٌ لا يجوز فعلها، وأما دعاؤهم لآبائهم؛ فإنْ علموا؛ دعوا إليهم، وإن لم يعلموا؛ اقتُصِر على ما يُعْلَمُ منهم، وهو أخوة الدين والموالاة؛ فلا تظنُّوا أنَّ حالة عدم علمكم بآبائهم عذرٌ في دعوتهم إلى مَن تبنَّاهم؛ لأن المحذور لا يزول بذلك.
{وليس عليكم جُناحٌ فيما أخطأتُم به}: بأنْ سَبَقَ على لسان أحدِكم دعوتُهُ إلى مَنْ تبنَّاه؛ فهذا غير مؤاخذٍ به، أو علم أبوه ظاهراً فدعوتُموه إليه، وهو في الباطن غير أبيه ؛ فليس عليكم في ذلك حَرَجٌ إذا كان خطأ. {ولكنْ} يؤاخِذُكُم بما تعمَّدَتْ قلوبُكُم من الكلام بما لا يجوزُ. {وكان الله غفوراً رحيماً}: غفر لكم ورحمكم؛ حيث لم يعاقِبْكم بما سَلَفَ، وسمح لكم بما أخطأتُم به، ورحِمَكُم؛ حيث بين لكم أحكامَه التي تُصْلِحُ دينَكم ودُنياكم؛ فله الحمد تعالى.
[5] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ حکم دیا کہ پہلی صورت کو ترک کیا جائے جو قول باطل کو متضمن ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿اُدْعُوْهُمْ ﴾ ’’ان کو پکارو‘‘ یعنی اپنے منہ بولے بیٹوں کو
﴿لِاٰبَآىِٕهِمْ ﴾ ان کے حقیقی باپوں سے منسوب کرتے ہوئے جنھوں نے ان کو جنم دیا ہے۔
﴿هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ یہ زیادہ قرین عدل، زیادہ درست اور ہدایت کے زیادہ قریب ہے۔
﴿فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ ﴾ ’’پس اگر تم ان کے
(حقیقی) باپوں کو نہیں جانتے‘‘
﴿فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْكُمْ ﴾ تو وہ اللہ کے دین میں تمھارے بھائی اور تمھارے موالی ہیں۔ تم انھیں اخوت ایمانی اور موالات اسلام کی نسبت سے پکارو۔ جس شخص نے ان کو متبنیٰ بنایا ہے اس کے لیے اس دعویٰ کو ترک کرنا حتمی ہے۔ یہ دعویٰ جائز نہیں۔
رہا ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارنا، تو اگر ان کا نام معلوم ہو تو ان کی طرف منسوب کر کے پکارو اور اگر ان کا نام معلوم نہ ہو تو صرف اسی پر اکتفا کرو جو معلوم ہے اور وہ ہے اخوت دینی اور موالات اسلامی۔ یہ نہ سمجھو کہ ان کے باپوں کے ناموں کے بارے میں عدم علم اس بات کے لیے عذر ہے کہ تم ان کو متبنیٰ بنانے والوں کی طرف منسوب کر کے پکارو، کیونکہ اس عذر سے حرمت زائل نہیں ہو سکتی۔
﴿وَلَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ﴾ ’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یعنی اگر تم میں سے کوئی غلطی سے اس کو کسی شخص کی طرف منسوب کر کے پکارے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں یا ظاہری طور پر اس کے باپ کا نام معلوم ہے اور تم اس کو اسی کی طرف پکارتے ہو حالانکہ وہ باطن میں اس کا باپ نہیں ہے، تب اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ غلطی سے ہو۔
﴿وَلٰكِنْ ﴾ ’’مگر‘‘ وہ صرف اس چیز میں تمھارا مواخذہ کرتا ہے
﴿مَّا تَعَمَّدَتْ قُ٘لُوْبُكُمْ ﴾ ’’جس کا تمھارے دلوں نے عمدًا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ جو تم نے جان بوجھ کرنا جائز بات کہی ہو۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ اس نے تمھیں بخش دیا اور تمھیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا کیونکہ اس نے تمھیں تمھارے سابقہ گناہوں پر سزا نہیں دی، تم نے جو غلطی کی اس پر درگزر کیا اور شرعی احکام بیان کرکے تم پر رحم کیا جن میں تمھارے دین اور دنیا کی اصلاح ہے۔
{النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُمْ مَعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (6)}.
پیغمبر زیادہ حق دار ہے
(ہر قسم کا تصرف کرنے میں) مومنوں پر ان کے نفسوں سے بھی اور بیویاں اس کی مائیں ہیں ان کی اور رشتے دار، بعض ان کے زیادہ حق دار ہیں ساتھ بعض کے، اللہ کی کتاب میں،
(دیگر) مومنوں اور مہاجروں سے، مگر یہ کہ کرو تم ساتھ اپنے دوستوں کے کوئی بھلائی،
(تو یہ جائز ہے) ہے یہی
(حکم)کتاب میں لکھا ہوا
(6)
#
{6} يخبر تعالى المؤمنين خبراً يعرِفون به حالة الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومرتَبَتَه، فيعامِلونه يمقتضى تلك الحالة، فقال: {النبيُّ أولى بالمؤمنين من أنفُسِهم}: أقرب ما للإنسان وأولى ما له نفسُه؛ فالرسولُ أولى به من نفسِهِ؛ لأنَّه عليه الصلاة والسلام بَذَلَ لهم من النُّصح والشفقة والرأفة ما كان به أرحم الخلق وأرأفهم؛ فرسولُ الله أعظمُ الخلق مِنَّةً عليهم من كلِّ أحدٍ؛ فإنَّه لم يصل إليهم مثقالُ ذرَّةٍ من الخير ولا اندفَعَ عنهم مثقالُ ذرَّةٍ من الشرِّ إلاَّ على يديه وبسببه؛ فلذلك وجب عليهم إذا تعارض مرادُ النفس أو مرادُ أحدٍ من الناس مع مرادِ الرسول أنْ يقدم مراد الرسول، وأنْ لا يعارِضَ قول الرسول بقول أحدٍ كائناً ما كان، وأنْ يَفْدوه بأنفسهم وأموالهم وأولادهم، ويقدِّموا محبَّته على محبة الخلقِ كلِّهم، وألاَّ يقولوا حتى يقولَ، ولا يتقدَّموا بين يديه، وهو - صلى الله عليه وسلم - أبٌ للمؤمنين؛ كما في قراءة بعضِ الصحابة يربِّيهم كما يربِّي الوالدُ أولاده، فترتَّب على هذه الأبوَّة أنْ كان نساؤه أمهاتِهِم؛ أي: في الحرمة والاحترام والإكرام، لا في الخلوة والمحرميَّة، وكأنَّ هذا مقدِّمة لما سيأتي في قصة زيد بن حارثة، الذي كان يُدْعى قبلُ زيد بن محمد، حتى أنزل الله: {ما كانَ محمدٌ أبا أحدٍ من رجالِكم}، فقطع نَسَبَه وانتسابَه منه.
فأخبر في هذه الآية أنَّ المؤمنين كلَّهم أولادٌ للرسول؛ فلا مزيَّة لأحدٍ عن أحدٍ، وإن انقطعَ عن أحدِهم انتسابُ الدعوة؛ فإنَّ النسبَ الإيمانيَّ لم ينقطعْ عنه؛ فلا يحزنْ ولا يأسفْ، وترتَّب على أنَّ زوجات الرسول أمهاتُ المؤمنين: أنَّهنَّ لا يحللنَ لأحدٍ من بعده؛ كما سيصرّح بذلك، ولا يحلُّ لكم أن تَنْكِحوا أزواجَه من بعدِهِ أبدا.
{وأولو الأرحام}؛ أي: الأقارب قَرُبوا أو بعدوا {بعضُهم أولى ببعضٍ في كتاب الله}؛ أي: في حكمه، فيرثُ بعضُهم بعضاً ويبرُّ بعضُهم بعضاً؛ فهم أولى من الحلف والنصرة، والأدعياءُ الذين كانوا من قبلُ يرثون بهذه الأسباب دون ذوي الأرحام، فقطع تعالى التوارُثَ بذلك، وجعله للأقارب لطفاً منه وحكمةً؛ فإنَّ الأمر لو استمرَّ على العادة السابقة؛ لحصل من الفساد والشرِّ والتحيُّل لحرمان الأقارب من الميراث شيءٌ كثيرٌ، {من المؤمنينَ والمهاجرينَ}؛ أي: سواء كان الأقاربُ مؤمنين مهاجرين أو غيرَ مهاجرين؛ فإنَّ ذوي الأرحام مقدَّمون في ذلك. وهذه الآية حجَّة على ولاية ذوي الأرحام في جميع الولايات؛ كولاية النكاح والمال وغير ذلك، {إلاَّ أن تَفْعَلوا إلى أوليائِكُم معروفاً}؛ أي: ليس لهم حقٌّ مفروضٌ، وإنَّما هو بإرادتِكم، إنْ شئتُم أن تتبرَّعوا لهم تبرُّعاً وتُعطوهم معروفاً منكم، {كان}: ذلك الحكم المذكور {في الكتابِ مسطوراً}؛ أي: قد سُطِرَ وكُتبَ وقدَّره الله؛ فلا بدَّ من نفوذه.
[6] اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایک ایسی خبر بیان کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ رسول مصطفیe کے احوال اور آپ کے مرتبے کو پہچان سکتے ہیں تاکہ وہ اس حال اور مرتبہ کے مطابق آپ کے ساتھ معاملہ کریں، چنانچہ فرمایا
﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی انسان کے لیے سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ پس رسول اللہ e مومن کے لیے خود اس کی ذات پر بھی مقدم ہیں کیونکہ آپ e ان کی خیرخواہی کرتے ہیں، ان کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں۔ مخلوق میں سب سے بڑھ کر رحیم اور سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ ان پر مخلوق میں سب سے زیادہ رسول اللہ e کا احسان ہے کیونکہ انھیں اگر ذرہ بھر بھلائی حاصل ہوئی ہے یا ان سے کوئی ذرہ بھر برائی دور ہوئی ہے تو آپ کے ہاتھ سے اور آپ کے سبب سے ہوئی ہے۔
اس لیے جب کبھی اس کے نفس کی مراد یا کسی اور شخص کی مراد، رسول اللہ e کی مراد سے متعارض ہو تو اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ رسول اللہ e کی مراد کو مقدم رکھیں۔ رسول اللہ e کے قول سے، کسی شخص کے قول کا، خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، مقابلہ نہ کریں، آپ e پر اپنی جان، مال اور اولاد کو فدا کر دیں، آپ کی محبت کو تمام مخلوق کی محبت پر مقدم رکھیں، جب تک کہ آپ بول نہ لیں، ہرگز نہ بولیں، اور آپ سے آگے نہ بڑھیں۔
رسول مصطفیe، مومنوں کے باپ ہیں، جیسا کہ بعض صحابہ کرام yکی قراء ت میں پڑھا گیا ہے، آپ اہل ایمان کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔
اب اس باپ ہونے پر یہ اصول مترتب ہوتا ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہیں۔ یعنی حرمت، احترام اور اکرام کے اعتبار سے نہ کہ خلوت و محرمیت کے اعتبار سے۔ گویا یہ زید بن حارثہw کے قصے کا مقدمہ ہے جو کہ عنقریب آئے گا،
زید بن حارثہw اس سے پہلے ’’زید بن محمد‘‘ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَ٘اۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ ﴾ (الاحزاب:33؍40) ’’محمد
(e) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نسب اور آپ کی طرف انتساب دونوں منقطع کر دیے۔ اس آیت کریمہ میں آگاہ فرما دیا کہ تمام اہل ایمان، رسول
(e)کی اولاد ہیں۔ کسی کو کسی دوسرے پر کوئی اختصاص حاصل نہیں۔ اگرچہ کسی کا منہ بولا بیٹا ہونے کا انتساب منقطع ہو گیا مگر نسب ایمانی منقطع نہیں ہوا اس لیے اسے غمزدہ اور متاسف نہیں ہونا چاہیے۔
اس آیت کریمہ سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ e کی ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہیں ،
لہٰذا آپ کے بعد وہ کسی کے لیے حلال نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں صراحت فرما دی ہے: ﴿وَلَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ﴾ (الاحزاب:33؍53) ’’اور نہ تمھارے لیے یہ جائز ہے کہ تم کبھی بھی آپ
(e) کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرو۔‘‘
﴿وَاُولُوا الْاَرْحَامِ ﴾ یعنی رشتہ دار، خواہ وہ قریب کے رشتہ دار ہوں یا دور کے رشتہ دار۔
﴿بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ ’’آپس میں کتاب اللہ کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے۔ پس وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کریں گے۔ قرابت کا تعلق دوستی اور حلف وغیرہ کے تعلق سے بڑھ کر ہے۔ اس آیت کریمہ سے پہلے، ان اسباب کی بنا پر رشتہ داروں کی بجائے منہ بولے بیٹے وارث بنتے تھے، اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس توارث کو منقطع کر دیا۔ اپنے لطف و کرم اور حکمت کی بنا پر حقیقی اقارب کو وارث بنا دیا کیونکہ اگر معاملہ سابقہ عادت اور رواج کے مطابق چلتا رہتا تو شر اور فساد پھیل جاتا اور قریب کے رشتہ داروں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے حیلہ سازی بکثرت رواج پا جاتی۔
﴿مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْ٘مُهٰؔجِرِیْنَ ﴾ خواہ یہ قریبی رشتہ مومن اور مہاجر ہوں یا غیر مہاجر ہوں، بہر حال رشتہ دار مقدم ہیں۔ یہ آیت کریمہ تمام معاملات میں قریبی رشتہ داروں کی ولایت پر دلیل ہے،
مثلاً: نکاح اور مال وغیرہ کی ولایت
﴿اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓؔىِٕكُمْ۠ مَّعْرُوْفًا ﴾ ’’مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔‘‘ یعنی ان کا کوئی مقرر شدہ حق نہیں ہے یہ صرف تمھارے ارادے پر منحصر ہے۔ اگر تم ان کو نیکی کے طور پر کوئی عطیہ دینا چاہو تو دے دو۔
﴿كَانَ ذٰلِكَ ﴾ یہ حکم مذکور
﴿ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ﴾ کتاب میں لکھ دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدم کر دیا ہے، لہٰذا اس کا نفاذ لازمی ہے۔
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَنْ صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا (8)}
اور جب لیا ہم نے نبیوں سے عہد ان کا اورآپ سے اور نوح سے، اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے اور لیا ہم نے ان سے عہد بڑا پختہ
(7) تاکہ وہ
(اللہ) پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کی بابت اور تیارکیا ہے اس نے واسطے کافروں کے عذاب درد ناک
(8)
#
{7 ـ 8} يخبر تعالى أنَّه أخذ من النبيِّين عموماً ومن أولي العزم ـ وهم هؤلاء الخمسة المذكورون خصوصاً ـ ميثاقَهم الغليظَ وعهدَهم الثقيل المؤكَّد على القيام بدين الله والجهادِ في سبيله، وأنَّ هذا سبيلٌ قد مشى عليه الأنبياءُ المتقدِّمون، حتى خُتموا بسيِّدهم وأفضلهم محمد - صلى الله عليه وسلم -، وأمر الناس بالاقتداء بهم، وسيسأل الله الأنبياء وأتباعهم عن هذا العهد الغليظ؛ هل وَفوا فيه وصدَقوا فيثيبهم جناتِ النعيم، أم كفروا فيعذِّبهم العذاب الأليم؟ قال تعالى: {من المؤمنينَ رجالٌ صَدَقوا ما عاهَدوا الله عليه}.
[7، 8] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے تمام انبیائے کرام سے عام طور پر اور آیت کریمہ میں مذکور پانچ اولوالعزم رسولوں سے خاص طور پر نہایت پختہ اور موکد عہد لیا کہ وہ اللہ کے دین پر اور اس کے راستے میں جہاد پر قائم رہیں گے۔ اقامت دین اور جہاد ایسا راستہ ہے جس پر گزشتہ انبیاء و مرسلین گامزن رہے اور یہ سلسلہ افضل الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد e پر آ کر ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ انبیاء کے نقش قدم پر چلیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انبیائے کرام اور ان کے متبعین سے اس میثاق کے بارے میں پوچھے گا کہ کیا انھوں نے اس عہد کو پورا کیا اور اپنے عہد پر پورے اترے تاکہ انھیں نعمتوں بھری جنت عطا کی جائے؟ یا انھوں نے کفر کیا تاکہ انھیں دردناک عذاب دیا جائے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ﴾ (الأحزاب:33؍23) ’’اہل ایمان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا۔‘‘
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (9) إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا (11)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کرو تم احسان اللہ کا اوپر اپنے، جب
(چڑھ) آئے تھے تم پر کئی لشکر، پس بھیجی ہم نے ان پر
(سخت) ہوا اور ایسے لشکر کہ نہیں دیکھا تم نے ان کو، اور تھا اللہ ساتھ اس کے جو تم کر رہے تھے، خوب دیکھنے والا
(9)جب وہ
(چڑھ) آئے تھے تم پر تمھارے اوپر سے اور نیچے سے تمھارے، اور جب ، پھر گئی تھیں آنکھیں اور پہنچ گئے تھے دل گلوں تک اور گمان کرتے تھے تم اللہ کے بارے میں
(طرح طرح کے) گمان
(10)اس جگہ
(ا س موقعے) پر آزمائے گئے مومن اور ہلائے گئے وہ ہلایا جانا نہایت سخت
(11)
#
{9 ـ 11} يذكِّر تعالى عبادَه المؤمنين نعمته عليهم، ويحثُّهم على شكرها حين جاءتهم جنودُ أهل مكَّة والحجاز من فوقهم وأهل نجد من أسفلَ منهم، وتعاقَدوا وتعاهدوا على استئصال الرسول والصحابة، وذلك في وقعة الخندق، ومالأتهم طوائفُ اليهود الذين حوالي المدينة، فجاؤوا بجنودٍ عظيمةٍ وأمم كثيرة، وخندقَ رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - على المدينة، فحصروا المدينة، واشتدَّ الأمر، وبلغتِ القلوب الحناجرَ، حتى بلغ الظنُّ من كثير من الناس كلَّ مبلغ لما رأوا من الأسباب المستحكمة والشدائد الشديدة، فلم يزل الحصارُ على المدينة مدةً طويلة، والأمر كما وصف الله: {وإذْ زاغتِ الأبصارُ وبلغتِ القلوبُ الحناجرَ وتظنُّونَ بالله الظُّنونا}؛ أي: الظنون السيئة أنَّ الله لا ينصر دينَه ولا يتمُّ كلمته، {هنالك ابْتُلي المؤمنون}: بهذه الفتنة العظيمة، {وزُلْزِلوا زلزالاً شديداً}: بالخوف والقلق والجوع؛ ليتبيَّن إيمانهم ويزيد إيقانهم، فظهر ولله الحمد من إيمانهم وشدة يقينهم ما فاقوا فيه الأولين والآخرين. وعندما اشتدَّ الكربُ وتفاقمتِ الشدائدُ؛ صار إيمانُهم عين اليقين، {فلمَّا رأى المؤمنونَ الأحزابَ قالوا هذا ما وَعَدَنا اللهُ ورسولُه وصدق الله ورسوله وما زادَهُم إلاَّ إيماناً وتسليماً}.
[11-9] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمت یاد دلا کر انھیں اس پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب ان کے اوپر سے مشرکین مکہ اور مشرکین حجاز کے لشکر اور نیچے سے کفار نجد کے لشکر ان پر حملہ آور ہوئے۔ حملہ آوروں نے آپس میں عہد کر رکھا تھا کہ وہ رسول
(e)اور صحابہ کرام کا قلع قمع کر کے دم لیں گے۔ یہ غزوہ احزاب کا واقعہ ہے۔ ان یہودی گروہوں نے بھی ان کی مدد کی جو مدینہ منورہ کے اردگرد رہتے تھے، وہ بھی بڑے بڑے لشکر لے آئے۔
رسول اللہ e نے مدینہ منورہ کے اردگرد دفاع کے لیے خندق کھود لی۔ کفار نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا۔ معاملہ بہت سخت ہو گیا،
کلیجے منہ کو آگئے اور لوگوں نے جب بہت سخت حالات اور اسباب دیکھے تو بہت سے لوگ طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ ایک طویل مدت تک مدینہ منورہ کا محاصرہ جاری رہا۔ معاملہ ایسے ہی تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا: ﴿وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ﴾ ’’اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل گلوں تک پہنچ گئے اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے برے گمان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرے گا نہ اپنے کلمہ کی تکمیل کرے گا۔
﴿هُنَالِكَ ابْتُ٘لِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ ﴾ اس وقت اہل ایمان اس عظیم فتنے کے ذریعے سے آزمائے گئے
﴿وَزُلْ٘زِلُوْا زِلْ٘زَالًا شَدِیْدًا ﴾ اور ان کو خوف، قلق اور بھوک کے ذریعے سے ہلا ڈالا گیا تاکہ ان کا ایمان واضح اور ان کے ایقان میں اضافہ ہو… ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے… ان کے ایمان اور ان کے یقین کی پختگی اس طرح ظاہر ہوئی کہ وہ اولین و آخرین پر فوقیت لے گئے۔ جب غم کی شدت بڑھ گئی اور سختیوں نے گھیر لیا تو ان کا ایمان عین الیقین کے درجے پر پہنچ گیا۔
﴿وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰؔذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ١ٞ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا﴾ (الاحزاب:33؍22) ’’اور جب اہل ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ تو وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان و تسلیم میں اور اضافہ کر دیا۔‘‘
یہاں منافقین کا نفاق بھی ظاہر ہو گیا اور وہ چیز سامنے آگئی جسے وہ چھپایا کرتے تھے۔
{وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (12)}
اور جب کہہ رہے تھے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے، نہیں وعدہ کیا ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے، مگر فریب کا
(12)
#
{12} وهذه عادة المنافق عند الشدَّة والمحنة؛ لا يثبتُ إيمانه، وينظُر بعقله القاصر إلى الحالة الحاضرة ، ويصدِّق ظنَّه.
[12] یہ منافق کی عادت ہے کہ مصیبت اور امتحان کے وقت اس کا ایمان قائم نہیں رہتا۔ وہ موجودہ حالت میں اپنی کوتاہ عقل سے غور کرتا ہے اور اپنے ناقص گمان کی تصدیق کرتا ہے۔
{وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَاأَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا (13) وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا (14) وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّونَ الْأَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْئُولًا (15) قُلْ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُمْ مِنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ وَإِذًا لَا تُمَتَّعُونَ إِلَّا قَلِيلًا (16) قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (17) قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا وَلَا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا (18) أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (19) يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا وَإِنْ يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُمْ بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنْبَائِكُمْ وَلَوْ كَانُوا فِيكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا (20) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (21) وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (22) مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (23) لِيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (24) وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا (25) وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا (26) وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا (27)}].
اور جب کہا ایک گروہ نے ان میں سے: اے مدینے والو! نہیں ہے ٹھہرنے کی جگہ تمھارے لیے، پس لوٹ جاؤ تم اور اجازت مانگتا تھا ایک فریق ان میں سے نبی سے،
وہ کہتے تھے :بے شک ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں، حالانکہ نہیں تھے وہ غیر محفوظ، نہیں چاہتے وہ مگر صرف بھاگنا
(13) اوراگر داخل کر دیے جاتے ان پراطراف مدینہ سے
(کافروں کے لشکر) پھر مطالبہ کیے جاتے وہ فتنے
(شرک یا خانہ جنگی) کا، تو وہ ضرور اپنا لیتے اسے اور نہ توقف کرتے اس میں مگر تھوڑا ہی
(14) اور البتہ تھے وہ کہ عہد کیا تھا انھوں نے اللہ سے اس سے پہلے کہ نہیں پھیریں گے وہ پیٹھیں۔ اور ہے عہد اللہ کا کہ باز پرس کی جائے گی
(اس کی بابت) (15) کہہ دیجیے!ہرگز نہیں نفع دے گا تم کو بھاگنا، اگر بھاگو تم موت سے یا قتل سے اور اس وقت نہیں فائدہ پہنچائے جاؤ گے تم مگر تھوڑا
(16) کہہ دیجیے! کون ہے وہ جو بچائے تم کو اللہ سے اگر ارادہ کرے وہ تمھارے ساتھ برائی کا یا ارادہ کرے تمھارے ساتھ مہربانی کرنے کا؟ اور نہیں پائیں گے وہ اپنے لیے، اللہ کے سوا، کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار
(17) تحقیق جانتا ہے اللہ روکنے والوں کو تم میں سے، اور کہنے والوں کو اپنے بھائیوں سے کہ آؤ ہماری طرف اور نہیں حاضر ہوتے وہ لڑائی میں مگر تھوڑی دیر ہی
(18) اس حال میں کہ بخیل ہیں وہ تم پر ، پس جب آتا ہے
(ان پر) خوف، تو دیکھتے ہیں آپ ان کو کہ دیکھتے وہ آپ کی طرف، گھومتی ہیں ان کی آنکھیں مانند اس شخص کے کہ غشی طاری ہو اس پر موت کی، پھر جب دور ہو جاتا ہے خوف تو چڑھ چڑھ کر بولتے ہیں تم پر تیز تیز زبانوں سے، درآں حالیکہ حریص ہیں وہ مال
(غنیمت) پر، یہی لوگ ہیں کہ نہیں ایمان لائے، پس ضائع کر دیے اللہ نے عمل ان کے، اور ہے یہ اوپر اللہ کے بہت آسان
(19) وہ گمان کرتے ہیں لشکروں کو کہ
(ابھی تک) نہیں گئے اور اگر آ جائیں لشکر، تو وہ خواہش کریں گے، کاش بے شک وہ ہوتے صحرا نشین دیہاتیوں
(کے ساتھ رہنے والوں) میں، پوچھتے
(رہتے) تمھاری بابت خبریں، اور اگر ہوتے وہ تمھارے اندر تو نہ لڑتے وہ مگر تھوڑا
(20) البتہ تحقیق ہے تمھارے لیے اللہ کے رسول میں نمونہ اچھا، اس کے لیے جو ہے امید رکھتا اللہ
(سے ملاقات) کی اور یوم آخرت کی اور یاد کرتا ہے اللہ کو بہت
(21) اور جب دیکھا مومنوں نے لشکروں کو تو کہا انھوں نے، یہ وہی ہے جس کا وعدہ کیا ہم سے اللہ نے اور اس کے رسول نے اور سچ کہا اللہ نے اور اس کے رسول نے اور نہیں زیادہ کیا ان کو مگر ایمان اور فرماں برداری میں
(22) کچھ مومنوں میں سے وہ لوگ ہیں کہ سچے ہو گئے وہ
( اس عہد میں) کہ عہد کیا تھا انھوں نے اللہ سے اس پر، پس کچھ ان میں سے وہ ہیں جنھوں نے پوری کر دی نذر اپنی اور کچھ ان میں سے وہ ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور نہیں تبدیلی کی انھوں نے
(ذرا بھی) تبدیلی کرنا
(23) تاکہ بدلہ دے اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا اور عذاب دے منافقوں کو اگروہ چاہے یا توجہ کرے
(رحمت کے ساتھ) ان پر، بلاشبہ اللہ ہے بہت بخشنے والا نہایت مہربان
(24) اور لوٹا دیا اللہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ساتھ ان کے غصے کے نہیں حاصل کی انھوں نے کوئی بھلائی اور کافی ہو گیا اللہ مومنوں کو لڑائی سے اورہے اللہ بڑا طاقتور نہایت غالب
(25) اور اتار دیا اس
(اللہ) نے ان لوگوں کو، جنھوں نے مدد کی تھی ان
(مشرکوں) کی اہل کتاب میں سے، ان کے قلعوں سے اور ڈال دیا ان کے دلوں میں رعب، ایک گروہ کوتم قتل کرتے تھے اور قید کرتے تھے تم ایک گروہ کو
(26) اور وارث بنا دیا اس نے تمھیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مالوں کا اور اس زمین کا کہ نہیں قدم رکھے تم نے
(ابھی) اس میں اور ہے اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر
(27)
#
{13} {وإذ قالت طائفةٌ}: من المنافقين بعد ما جزعوا وقلَّ صبرُهم صاروا أيضاً من المخذِّلين؛ فلا صبروا بأنفسهم، ولا تركوا الناس من شرِّهم، فقالت هذه الطائفة: {يا أهلَ يَثْرِبَ}: يريدون: يا أهل المدينة! فنادَوهْم باسم الوطن المنبئ عن التسمية فيه؛ إشارةً إلى أنَّ الدين والأخوة الإيمانيَّة ليس له في قلوبهم قدرٌ؛ وأنَّ الذي حملهم على ذلك مجردُ الخور الطبيعي. {يا أهلَ يثربَ لا مُقام لكم}؛ أي: في موضعكم الذي خرجتُم إليه خارج المدينة، وكانوا عسكروا دون الخندق وخارج المدينة، {فارجِعوا}: إلى المدينةِ. فهذه الطائفةُ تُخَذِّلُ عن الجهاد وتبيِّن أنَّهم لا قوة لهم بقتال عدوِّهم ويأمرونهم بترك القتال؛ فهذه الطائفةُ أشرُّ الطوائف وأضرُّها، وطائفةٌ أخرى دونهم، أصابهم الجبنُ والجزع، وأحبُّوا أن ينخزلوا عن الصفوف، فجعلوا يعتذرون بالأعذار الباطلة، وهم الذين قال الله فيهم: {ويستأذنُ فريقٌ منهم النبيَّ يقولونَ إنَّ بيوتَنا عورةٌ}؛ أي: عليها الخطر ونخافُ عليها أن يَهْجُمَ عليها الأعداءُ ونحن غيبٌ عنها؛ فأذن لنا؛ نرجع إليها فنحرسها، وهم كذبةٌ في ذلك، {وما هي بعورةٍ إن يريدون}؛ أي: ما قصدُهم {إلاَّ فراراً}: ولكن جعلوا هذا الكلام وسيلةً وعذراً لهم؛ فهؤلاء قلَّ إيمانُهم، وليس له ثبوتٌ عند اشتدادِ المحنِ.
[13] ﴿وَاِذْ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی‘‘ یعنی منافقین کی جماعت، وہ جزع فزع اور قلت صبر کے بعد ایسے لوگوں میں شامل ہو گئے جن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا، انھوں نے خود صبر کیا نہ اپنے شر کی بنا پر لوگوں کو چھوڑا،
لہٰذا اس گروہ نے کہا: ﴿یٰۤاَهْلَ یَثْ٘رِبَ ﴾ ’’اے اہل یثرب!‘‘ اس سے ان کی مراد اہل مدینہ تھے۔ انھوں نے مدینہ کے نام کو چھوڑ کر وطن کے نام سے ان کو پکارا۔ یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں دین اور اخوت ایمانی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ جس چیز نے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کیا وہ ان کی طبعی بزدلی تھی۔
﴿یٰۤاَهْلَ یَثْ٘رِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ ﴾ ’’اے اہل یثرب!
(یہاں) تمھارے لیے ٹھہرنے کا مقام نہیں۔‘‘ یعنی اس جگہ جہاں تم مدینہ سے باہر نکلے ہو۔ ان کا محاذ مدینہ منورہ سے باہر اور خندق سے ادھر تھا۔
﴿فَارْجِعُوْا ﴾ مدینے کی طرف لوٹ جاؤ ،
پس یہ گروہ جہاد سے علیحدہ ہو رہا تھا۔ ان پر واضح ہو گیا کہ ان میں دشمن کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں اور وہ انھیں لڑائی ترک کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہ گروہ بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ گروہ تھا۔ ان کے علاوہ دوسرا گروہ وہ تھا جس کو بزدلی اور بھوک نے ستا رکھا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وہ صفوں سے کھسک کر چلے جائیں۔
انھوں نے مختلف قسم کے جھوٹے عذر پیش کرنا شروع کر دیے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّؔنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ ﴾ ’’اور ان کی جماعت یہ کہہ کر نبی
(e) سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی ہمارے گھر خطرے کی زد میں ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری عدم موجودگی میں دشمن ہمارے گھروں پر حملہ نہ کر دے، اس لیے ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم واپس جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں، حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔
﴿وَمَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا ﴾ ’’حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف
(جنگ سے) بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کا قصد فرار کے سوا کچھ نہیں، مگر انھوں نے اس بات کو فرار کے لیے وسیلہ اور عذر بنا لیا۔ ان لوگوں میں ایمان بہت کم ہے اور امتحان کی سختیوں کے وقت ان کے اندر ثابت قدمی اور استقامت نہیں رہتی۔
#
{14} {ولو دُخلت عليهم}: المدينةُ {من أقطارِها}؛ أي: لو دخل الكفار إليها من نواحيها واستولوا عليها؛ لا كان ذلك، ثم سُئِلَ هؤلاء {الفتنة}؛ أي: الانقلاب عن دينهم والرجوع إلى دين المستولين المتغلبين، {لأتَوْها}؛ أي: لأعطوها مبادرين، {وما تَلَبَّثوا بها إلاَّ يسيراً}؛ أي: ليس لهم منعة ولا تصلُّب على الدين، بل بمجرَّد ما تكون الدولة للأعداء؛ يعطونهم ما طلبوا، ويوافقونهم على كفرهم.
[14] ﴿وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور اگر ان پر داخل كیے جائیں
(لشکر)‘‘ مدینہ میں
﴿مِّنْ اَقْطَارِهَا ﴾ یعنی شہر کے ہر طرف سے کافر گھس آتے اور اس پر قابض ہو جاتے۔
﴿ثُمَّ سُىِٕلُوا الْفِتْنَةَ ﴾ پھر ان کو فتنے کی طرف بلایا جاتا، یعنی دین سے پھر جانے اور فاتحین اور غالب لشکر کے دین کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جاتی
﴿لَاٰتَوْهَا ﴾ تو یہ جلدی سے اس فتنے میں پڑ جاتے
﴿وَمَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا ﴾ ’’اور اس کے لیے بہت کم ٹھہرتے۔‘‘ یعنی دین کے بارے میں ان کے اندر قوت اور سخت جانی نہیں ہے، بلکہ اگر صرف دشمن کا پلڑا بھاری ہو جائے تو دشمن ان سے جو مطالبہ کرے یہ مان جائیں گے اور ان کے کفر کی موافقت کرنے لگ جائیں گے۔
#
{15} هذه حالهم، والحال أنهم قد {عاهدوا الله من قبلُ لا يولُّونَ الأدبارَ وكانَ عهدُ الله مسؤولاً}: سيسألُهم عن ذلك العهد، فيجِدُهم قد نَقَضوه؛ فما ظنُّهم إذاً بربِّهم؟!
[15] یہ ان کا حال ہے۔اور حال یہ ہے کہ
﴿عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَ٘ارَ١ؕ وَكَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔوْلًا ﴾ ’’ انھوں نے اس سے قبل اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس تو ہوکر ہی رہے گی۔‘‘ عنقریب اللہ ان سے اس عہد کے بارے میں ضرور پوچھے گا، وہ ان کو اس حالت میں پائے گا کہ وہ اللہ کے عہد کو توڑ چکے ہوں گے۔ تب ان کا کیا خیال ہے کہ ان کا رب ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
#
{16} {قل}: لهم لائماً على فرارهم ومخبراً أنَّهم لا يفيدُهم ذلك شيئاً: {لن يَنْفَعَكُم الفرارُ إن فَرَرْتُم من الموتِ أو القتل}: فلو كنتُم في بيوتكم؛ لبرزَ الذين كُتِبَ عليهم القتلُ إلى مضاجعهم، والأسبابُ تنفع إذا لم يعارِضْها القضاء والقدر؛ فإذا جاء القضاء والقدر؛ تلاشى كلُّ سبب، وبطلت كل وسيلة ظنها الإنسان تنجيه، {وإذاً}: حين فررتُم؛ لتسلموا من الموت والقتل، لتنعموا في الدنيا؛ فإنَّكم {لا تُمَتَّعون إلاَّ قليلاً}: متاعاً لا يسوى فراركم وترككم أمر الله وتفويتُكم على أنفسِكم التمتُّع الأبديَّ في النعيم السرمديِّ.
[16] ﴿قُ٘لْ ﴾ ان کے فرار پر ان کو ملامت کرتے اور ان کو خبردار کرتے ہوئے کہ یہ چیز انھیں کچھ فائدہ نہ دے گی کہہ دیجیے:
﴿لَّ٘نْ یَّنْفَعَكُمُ الْ٘فِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ ﴾ ’’اگر تم موت اور قتل ہونے سے بھاگتے ہو تو تمھارا بھاگنا تمھیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔‘‘ پس اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے، تو وہ لوگ جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھ دیا گیا ہے اپنی قتل گاہوں پر پہنچ جاتے۔ اسباب اس وقت فائدہ دیتے ہیں جب قضاوقدر ان کی معارض نہ ہو۔ جب تقدیر آ جاتی ہے تو تمام اسباب ختم ہو جاتے ہیں اور ہر وسیلہ باطل ہو کر رہ جاتا ہے جن کے بارے میں انسان سمجھتا ہے کہ یہ نجات دیں گے۔
﴿وَاِذًا ﴾ یعنی جب تم موت یا قتل سے بچنے کے لیے فرار ہو جاؤ تاکہ تم دنیا میں نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ تو
﴿لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ تم بہت کم فائدہ اٹھا سکو گے جو تمھارے فرار ہونے، اللہ کے حکم کو ترک کرنے اور اپنے آپ کو ابدی فائدے اور سرمدی نعمتوں سے محروم کرنے کے برابر نہیں ہے۔
#
{17} ثم بيَّن أنَّ الأسباب كلَّها لا تغني عن العبد شيئاً إذا أراده الله بسوءٍ، فقال: {قل من ذا الذي يعصِمُكم}؛ أي: يمنَعُكم من {اللهِ إنْ أراد بكم سوءاً}؛ أي: شرًّا، {أو أراد بكم رحمةً}: فإنَّه هو المعطي المانع، الضار النافع، الذي لا يأتي بالخير إلاَّ هو، ولا يدفعُ السوء إلاَّ هو، {ولا يجدونَ لهم من دون الله وليًّا}: يتولاَّهم فيجلب لهم المنافع {ولا نصيراً}: ينصرهم فيدفعُ عنهم المضارَّ؛ فلْيمتثلوا طاعة المنفرد بالأمور كلِّها، الذي نفذت مشيئتُه ومضى قدرُه ولم ينفعْ مع ترك ولايتِهِ ونصرتِهِ وليٌّ ولا ناصرٌ.
[17] پھر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ جب وہ بندے کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کر لے تو اسباب اس کے کسی کام نہیں آتے۔
﴿قُ٘لْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُكُمْ﴾ ’’کہہ دیجیے: تمھیں کون بچا سکتا ہے؟‘‘
﴿مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا ﴾ ’’اللہ سے اگر وہ تمھارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے۔‘‘
﴿اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً ﴾ ’’یا اگر تم پر مہربانی کرنا چاہے۔‘‘ کیونکہ وہی عطا کرنے والا اور محروم کرنے والا، نقصان دینے والا اور نفع دینے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی بھلائی عطا کر سکتا ہے نہ کوئی برائی دور کر سکتا ہے۔
﴿وَلَا یَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا ﴾ ’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ پائیں گے۔‘‘ جو ان کی سرپرستی کرے اور ان کو منفعت عطا کرے
﴿وَّلَا نَصِیْرًا ﴾ ’’اور نہ مددگار‘‘ جو ان کی مدد کر کے ان سے ضرر رساں چیزوں کو دور کر دے۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ اس ہستی کے سامنے سرتسلیم خم کریں جو ان تمام امور میں متفرد ہے جس کی مشیت پوری اور اس کی قضاوقدر نافذ ہو چکی ہے، اس کی ولایت اور اس کی نصرت کو چھوڑ کر کوئی والی اور کوئی مددگار کام نہیں آسکتا۔
#
{18} ثم توعد تعالى المخذِّلين المعوِّقين وتهدَّدهم فقال: {قد يعلمُ الله المعوِّقينَ منكم}: عن الخروج لمن لم يخرجوا، {والقائلين لإخوانهم}: الذين خرجوا: {هَلُمَّ إلينا}؛ أي: ارجِعوا كما تقدَّم من قولهم: {يا أهل يثربَ لا مُقامَ لكم فارْجِعوا}، وهم مع تعويقِهم وتخذيلِهم {لا يأتون البأسَ}: القتال والجهاد بأنفسهم، {إلاَّ قليلاً}: فهم أشدُّ الناس حرصاً على التخلُّف لعدم الداعي لذلك من الإيمان والصبر، [ووجود] المقتضي للجبن من النفاق وعدم الإيمان.
[18] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو اپنے ساتھیوں کو جنگ سے پسپائی پر اکساتے ہیں اور جنگ کے کاموں میں رخنہ ڈالتے ہیں،
فرمایا: ﴿قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الْ٘مُعَوِّقِیْنَ۠ مِنْكُمْ ﴾ ’’یقینا اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو منع کرتے ہیں‘‘ یعنی ان لوگوں کو جہاد پر نکلنے سے روکتے ہیں جو ابھی جہاد کے لیے نہیں نکلے
﴿وَالْقَآىِٕلِیْ٘نَ۠ لِاِخْوَانِهِمْ ﴾ اور اپنے ان بھائیوں کو جو جہاد کے لیے نکلے ہوئے ہیں،
کہتے ہیں: ﴿هَلُمَّ اِلَیْنَا ﴾ واپس لوٹ آؤ جیسا کہ ان کا قول گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے:
﴿یٰۤاَهْلَ یَثْ٘رِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا ﴾ (الاحزاب:33؍13) ’’اے یثرب کے لوگو! تمھارے لیے ٹھہرنے کا کوئی مقام نہیں اس لیے واپس لوٹ چلو۔‘‘ ان کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جہاد سے باز رکھنے اور ان کو پسپائی پر اکسانے کے ساتھ ساتھ
﴿وَلَا یَ٘اْتُوْنَ الْبَاْسَ﴾ خود قتال اور جہاد کے لیے نہیں نکلتے
﴿اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’مگر بہت تھوڑے۔‘‘ وہ ایمان اور صبر کے داعیے کے معدوم ہونے کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہ جانے کے سب سے زیادہ حریص ہیں، نیز اس لیے بھی کہ ان کے اندر نفاق ہے اور ایمان معدوم ہے اور نفاق اور عدم ایمان بزدلی کا تقاضا کرتے ہیں۔
#
{19} {أشِحَّة عليكم}: بأبدانهم عند القتال، وأموالهم عند النفقة فيه؛ فلا يجاهدون بأموالهم وأنفسهم، {فإذا جاء الخوفُ رأيتَهم ينظُرون إليك}: نظر المَغْشِيِّ {عليه من الموت}: من شدَّة الجبن الذي خلع قلوبَهم والقلقِ الذي أذهلهم وخوفاً من إجبارِهم على ما يكرهون من القتال، {فإذا ذهب الخوفُ}: وصاروا في حال الأمن والطمأنينة؛ {سَلَقوكم بألسنةٍ حدادٍ}؛ أي: خاطبوكم وتكلَّموا معكم بكلام حديدٍ ودعاوٍ غير صحيحة، وحين تسمعُهم تظنُّهم أهلَ الشجاعة والإقدام. {أشحَّة على الخيرِ}: الذي يُراد منهم، وهذا شرُّ ما في الإنسان: أن يكون شحيحاً بما أُمِر به، شحيحاً بماله أن ينفِقَه في وجهه، شحيحاً في بدنِهِ أن يجاهِدَ أعداء الله أو يدعو إلى سبيل الله، شحيحاً بجاهه، شحيحاً بعلمه ونصيحته ورأيه. {أولئك}: الذين بتلك الحالة {لم يُؤْمِنوا}: بسبب عدم إيمانهم؛ أحبط الله أعمالهم. {وكان ذلك على الله يسيراً}: وأما المؤمنون؛ فقد وقاهُم اللهُ شحَّ أنفسهم، ووفَّقهم لبذل ما أُمِروا به من بذل أبدانهم في القتال في سبيله وإعلاء كلمتِهِ، وأموالهم للنفقة في طرق الخير، وجاههم وعلمهم.
[19] ﴿اَشِحَّةً عَلَیْكُمْ ﴾ ’’تمھارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔‘‘ یعنی لڑائی کے وقت اپنے بدن کو استعمال کرنے اور جہاد میں اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔ پس وہ اپنی جان اور مال کے ذریعے سے اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے۔
﴿فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَهُمْ یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَیْكَ ﴾ ’’پس جب خوف
(کا وقت) آیا تو آپ انھیں دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ اس آدمی کی طرح جس پر غشی طاری ہو
﴿مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ’’موت سے۔‘‘ یعنی سخت بزدلی کی وجہ سے، جس نے ان کے دلوں کو نکال پھینکا ہے، اس قلق کی بنا پر جس نے ان کو بے سدھ کر دیا ہے اور اس قتال سے خوف کے مارے جس پر انھیں مجبور کیا جا رہا ہے اور جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔
﴿فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ ﴾ ’’پس جب خوف جاتا رہتا ہے‘‘ اور امن و اطمینان کی حالت میں ہوتے ہیں
﴿سَلَقُوْؔكُمْ بِاَلْسِنَةٍ ﴾ ’’تو تمھارے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔‘‘ یعنی جب آپ لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپ سے سخت زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتے۔ جب آپ ان کی باتیں سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بہت بہادر اور شجاعت مند ہیں۔
﴿اَشِحَّةً عَلَى الْخَیْرِ ﴾ ’’اور مال میں بخل کرتے ہیں‘‘ جو کہ ان سے مطلوب ہے۔ یہ انسان کا بدترین وصف ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل میں بخل سے کام لے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرے، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے اور اللہ کے راستے میں دعوت دینے میں اپنے بدن میں بخل کرے، اپنے جاہ میں بخیل ہو اور اپنے علم، خیرخواہی کرنے اور اپنی رائے میں بخیل ہیں۔
﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہ لوگ‘‘ جو اس حالت میں بھی
﴿لَمْ یُؤْمِنُوْا ﴾ ’’ایمان نہ لائے‘‘ تو ان کے عدم ایمان کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال اکارت کر دیے۔
﴿وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا ﴾ ’’اور یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ رہے اہل ایمان، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نفس کے بخل سے محفوظ رکھا ہے۔ انھیں اپنی توفیق سے سرفراز فرمایا ہے، اس لیے انھیں جس چیز کے خرچ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے وہ اسے خرچ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کی خاطر اپنا بدن خرچ کرتے ہیں، بھلائی کے راستوں میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، اپنی جاہ اور اپنا علم خرچ کرتے ہیں۔
#
{20} {يحسبون الأحزابَ لم يذهبوا}؛ أي: يظنُّون أنَّ هؤلاء الأحزاب الذين تحزَّبوا على حرب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأصحابِهِ لم يَذْهَبوا حتى يستأصِلوهم، فخاب ظنُّهم، وبطل حسبانهم. {وإن يأتِ الأحزابُ}: مرةً أخرى، {يودُّوا لو أنَّهم بادون في الأعراب يسألونَ عن أنبائِكُم}؛ أي: لو أتى الأحزابُ مرة ثانية مثل هذه المرة؛ ودَّ هؤلاء المنافقون أنهم ليسوا في المدينة، ولا في القربِ منها، وأنهم مع الأعرابِ في البادية، يستخبرون عن أخباركم، ويسألون عن أنبائكم ماذا حَصَلَ عليكم؛ فتبًّا لهم وبعداً؛ فليسوا ممن يُغالى بحضورهم، فلو {كانوا فيكم ما قاتلوا إلاَّ قليلا}: فلا تبالوهم، ولا تأسَوْا عليهم.
[20] ﴿یَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْهَبُوْا ﴾ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ آور جتھے جو رسول اللہ e اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر آئے ہیں کہ وہ ان کا استیصال کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے، مگر ان کی تمنائیں ناکام اور ان کے اندازے غلط ہو گئے۔
﴿وَاِنْ یَّاْتِ الْاَحْزَابُ ﴾ اگر دوبارہ حملہ آور دشمن کے جتھے چڑھ دوڑیں
﴿یَوَدُّوْا لَوْ اَنَّهُمْ بَ٘ادُوْنَ فِی الْاَعْرَابِ یَسْاَلُوْنَ عَنْ اَنْۢبـَآىِٕكُمْ۠﴾ یعنی اگر دوسری مرتبہ فوجیں حملہ آور ہوں جیسے اس مرتبہ حملہ آور ہوئی تھیں تو یہ منافقین چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت مدینہ کے اندر یا اس کے قرب وجوار میں نہ ہوں بلکہ وہ صحرا میں بدویوں کے ساتھ رہ رہے ہوں اور تمھاری خبرمعلوم کر رہے ہوں اور تمھارے بارے میں پوچھ رہے ہوں کہ تم پر کیا گزری؟ پس ہلاکت ہے ان کے لیے اور دوری ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے، وہ ان لوگوں میں سے نہیں جن کی موجودگی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
﴿وَلَوْ كَانُوْا فِیْكُمْ مَّا قٰتَلُوْۤا اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’اور اگر وہ تمھارے درمیان ہوں تو بہت کم لڑائی کریں۔‘‘ اس لیے ان کی پروا کرو نہ ان پر افسوس کرو۔
#
{21} {لقد كان لكم في رسول الله أسوةٌ حسنةٌ}: حيث حَضَرَ الهيجاءَ بنفسه الكريمة، وباشرَ موقفَ الحرب وهو الشريفُ الكاملُ والبطل الباسلُ، فكيف تشحُّون بأنفسكم عن أمرٍ جادَ رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - بنفسه فيه، فتأسَّوْا به في هذا الأمر وغيره.
واستدَّل الأصوليُّون في هذه الآية على الاحتجاج بأفعال الرسول - صلى الله عليه وسلم -، وأنَّ الأصل أنَّ أمَّتَه أسوتُه في الأحكام؛ إلاَّ ما دلَّ الدليل الشرعيُّ على الاختصاص به؛ فالأسوةُ نوعان: أسوةٌ حسنةٌ وأسوةٌ سيئةٌ، فالأسوةُ الحسنةُ في الرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ المتأسِّي به سالكٌ الطريق الموصل إلى كرامة الله، وهو الصراط المستقيم، وأمَّا الأسوة بغيره إذا خالَفَه؛ فهو الأسوة السيئة؛ كقول المشركين حين دعتهم الرسل للتأسِّي بهم: {إنَّا وَجَدْنا آباءنا على أمَّةٍ وإنَّا على آثارِهِم مهتدونَ}: وهذه الأسوةُ الحسنةُ إنَّما يسلُكُها ويوفَّقُ لها مَنْ كان يرجو الله واليوم الآخر؛ فإنَّ ذلك ما معه من الإيمانِ وخوفِ الله ورجاء ثوابِهِ وخوفِ عقابِهِ يحثُّه على التأسِّي بالرسول - صلى الله عليه وسلم -.
[21] ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ ’’یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ
(e) میں عمدہ نمونہ
(موجود) ہے۔‘‘ آپe بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوئے، جنگی معرکوں میں حصہ لیا، آپ صاحب شرف و کمال، بطل جلیل اور صاحب شجاعت و بسالت تھے تب تم ایسے معاملے میں شریک ہونے میں بخل سے کام لیتے ہو جس میں رسول مصطفیe بنفس نفیس شریک ہیں۔ پس اس معاملے میں اور دیگر معاملات میں آپ کی پیروی کرو۔ اس آیت کریمہ سے اہل اصول نے رسول اللہ e کے افعال کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ احکام میں آپ e کا اسوہ حجت ہے،
جب تک کسی حکم پر دلیل شرعی قائم نہ ہو جائے کہ یہ صرف آپ کے لیے مخصوص ہے۔
’’اسوہ‘‘ کی دو اقسام ہیں: اسوۂ حسنہ اور اسوۂ سیئہ ۔ پس رسول اللہ e میں اسوۂ حسنہ ہے۔ آپ کے اسوہ کی اقتدا کرنے والا اس راستے پر گامزن ہے جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور وہ ہے صراط مستقیم۔ رہا آپ e کے سوا کسی دیگر ہستی کا اسوہ، تو اس صورت میں اگر وہ آپ کے اسوہ کے خلاف ہے تو یہ ’’أسوۃ سیئۃ‘‘ ہے ،
مثلاً: جب انبیاء ورسل مشرکین کو اپنے اسوہ کی پیروی کی دعوت دیتے تو وہ جواب میں کہتے:
﴿ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ ﴾ (الزخرف:43؍23) ’’بلاشبہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقہ پر پایا ہے، ہم انھی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘ اسوۂ حسنہ کی صرف وہی لوگ پیروی کرتے ہیں جن کو اس کی توفیق بخشی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں کیونکہ ان کا سرمایۂ ایمان، اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کے ثواب کی امید اور اس کے عذاب کا ڈر انھیں رسول اللہ e کے اسوہ کی پیروی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
#
{22} لما ذكر حالة المنافقين عند الخوفِ؛ ذكر حالَ المؤمنين فقال: {ولمَّا رأى المؤمنون الأحزابَ}: الذين تحزَّبوا ونزلوا منازِلَهم وانتهى الخوفُ، {قالوا هذا ما وَعَدَنا اللهُ ورسولُه}: في قوله: {أم حسبتُم أن تدخُلوا الجنَّةَ ولما يأتِكُم مَثَلُ الذين خَلَوْا من قبلِكم مسَّتْهم البأساءُ والضَّراءُ وزلزلوا حتى يقولَ الرسول والذين آمنوا معه متى نصرُ الله ألا إنَّ نصر الله قريبٌ}، {وصَدَقَ اللهُ ورسولُه}: فإنا رأينا ما أَخَبَرَنا به، {وما زادَهُم}: ذلك الأمر {إلاَّ إيماناً}: في قلوبهم، {وتسليماً}: في جوارحهم، وانقياداً لأمر الله.
[22] یہ بیان کرنے کے بعد کہ خوف کے وقت منافقین کی کیا حالت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا حال بیان کیا،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ﴾ ’’اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا‘‘ جو جنگ کے لیے جمع ہوئے اور وہ اپنے اپنے محاذ پر نازل ہوئے تھے تو
(مومنوں کا) خوف جاتا رہا۔
﴿قَالُوْا هٰؔذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ﴾ ’’وہ کہنے لگے :یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں جو وعدہ فرمایا ہے:
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّؔا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْ٘زِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَ٘رِیْبٌ﴾ (البقرۃ:2؍214) ’’کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر وہ آزمائشیں تو آئی ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انھیں ہلا ڈالا گیا حتی کہ رسول اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ تھے،
پکار اٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ دیکھو اللہ کی مدد بہت قریب ہے۔‘‘
﴿وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ﴾ ’’اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا‘‘ کیونکہ ہم وہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی
﴿وَمَا زَادَهُمْ ﴾ ’’اور نہیں زیادہ کیاان کو‘‘ یعنی اس معاملے نے
﴿اِلَّاۤ اِیْمَانًا ﴾ ’’مگر ایمان میں‘‘ یعنی ان کے دلوں میں ایمان زیادہ ہوگیا۔
﴿وَّتَسْلِیْمًا﴾ ’’اور ماننے میں‘‘ یعنی ان کے جوارح میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کا اضافہ کیا۔
#
{23} ولما ذكر أنَّ المنافقين عاهدوا الله لا يولُّون الأدبار ونقضوا ذلك العهد؛ ذكر وفاء المؤمنين به، فقال: {من المؤمنينَ رجالٌ صَدَقوا ما عاهَدوا الله عليه}؛ أي: وَفَّوْا به وأتموُّه وأكملوه، فبذلوا مُهَجَهُم في مرضاتِهِ، وسبَّلوا نفوسهم في طاعته. {فمنهم من قضى نحبَهُ}؛ أي: إرادته ومطلوبَه وما عليه من الحقِّ، فقُتل في سبيل الله أو مات مؤدياً لحقِّه لم ينقصْه شيئاً، {ومنهم مَن ينتظِرُ}: تكميل ما عليه؛ فهو شارعٌ في قضاء ما عليه ووفاء نحبِهِ ولما يُكْمِلْه، وهو في رجاء تكميله ساعٍ في ذلك مجدٌّ، {وما بَدَّلوا تبديلاً}: كما بدَّل غيرُهم، بل لم يزالوا على العهد، لا يلوون ولا يتغيرون؛ فهؤلاء الرجال على الحقيقة، ومن عداهم فصُورُهم صورُ رجال وأما الصفاتُ؛ فقد قَصُرَتْ عن صفاتِ الرجال.
[23] اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کا ذکر فرمایا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگیں گے، مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا ذکر فرمایا کہ انھوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد پورا کیا، فرمایا
﴿مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ ﴾ ’’مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انھوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچا کردکھایا‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی اور اپنے نفس کو اطاعت الٰہی کی راہ پر چلایا
﴿فَمِنْهُمْ مَّنْ قَ٘ضٰى نَحْبَهٗ﴾ ’’تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی باری پوری کرچکے۔‘‘ یعنی اس نے اپنا ارادہ پورا کر دیا اور اس پر جو حق تھا وہ ادا کر دیا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہوا اور اس کے حق کو ادا کرتے ہوئے اپنی جان اس کے سپرد کر دی اور اس حق میں کچھ بھی کمی نہ کی۔
﴿وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ﴾ اور کوئی اپنا عہد پورا کرنے کے لیے منتظر ہے، اس کے ذمہ جو عہد تھا وہ اس کو پورا کرنا شروع کر چکا ہے، وہ اس عہد کی تکمیل کی امید رکھتا ہے اور اس کی تکمیل میں کوشاں ہے۔
﴿وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا﴾ ’’اور انھوں اپنے رویے میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں کی‘‘ جیسے دوسرے لوگ بدل گئے، بلکہ وہ اپنے عہد پر قائم ہیں وہ ادھر ادھر توجہ کرتے ہیں نہ بدلتے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ مرد ہیں ان کے سوا دیگر لوگوں کی صورتیں اگرچہ مردوں کی سی ہیں، مگر ان کی صفات مردوں کی صفات سے قاصر ہیں۔
#
{24} {لِيَجْزِي اللهُ الصادقينَ بصِدْقِهم}؛ أي: بسبب صدقهم في أقوالهم وأحوالهم ومعاملتهم مع الله واستواء ظاهِرِهم وباطِنِهم، قال الله تعالى: {هذا يومُ يَنفَعُ الصادقينَ صدقُهم لهم جناتٌ تجري من تحتها الأنهارُ خالدين فيها أبداً ... } الآية؛ أي: قدَّرنا ما قدَّرنا من هذه الفتن والمحن والزلازل ليتبيَّن الصادق من الكاذب، فيَجِزْيَ الصادقين بصدقهم، {ويعذِّبَ المنافقين}: الذين تغيَّرتْ قلوبُهم وأعمالُهم عند حلول الفتن، ولم يَفوا بما عاهدوا الله عليه، {إن شاءَ}: تعذيبَهم؛ بأنْ لم يشأ هدايتهم، بل علم أنَّهم لا خير فيهم، فلم يوفِّقْهم، {أو يتوبَ عليهم}: بأنْ يوفِّقَهم للتوبة والإنابة، وهذا هو الغالب على كرم الكريم، ولهذا ختم الآية باسمين دالَّيْنِ على المغفرة والفضل والإحسان، فقال: {إنَّ الله كان غفوراً رحيماً}؛ غفوراً لذنوب المسرفين على أنفسهم، ولو أكثروا من العصيان، إذا أتَوْا بالمتاب. {رحيماً}: بهم؛ حيث وفَّقَهم للتوبة، ثم قَبِلها منهم، وستر عليهم ما اجْتَرحوه.
[24] ﴿لِّیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰؔدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ ﴾ ’’تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے‘‘ یعنی ان کے اقوال، احوال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے معاملہ میں ان کے صدق اور ان کے ظاہر و باطن کے یکساں ہونے کے سبب سے،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ هٰؔذَا یَوْمُ یَنْ٘فَ٘عُ الصّٰؔدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ١ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ﴾ (المائدۃ:5؍119) ’’آج وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ابد الآباد تک رہیں گے۔‘‘ یعنی ہم نے یہ آزمائشیں، مصائب اور زلزلے اپنے اندازے کے مطابق مقدر کیے تاکہ سچا جھوٹے سے واضح ہوجائے اور اللہ تبارک وتعالیٰ راست بازوں کو ان کی راستی کی جزا دے
﴿وَیُعَذِّبَ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’اور منافقوں کو عذاب دے‘‘ جن کے دل اور اعمال آزمائشوں کے نازل ہونے پر بدل گئے اور وہ اس عہد کو پورا نہ کر سکے جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔
﴿اِنْ شَآءَ ﴾ یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینا چاہے گا، یعنی وہ ان کو ہدایت دینا نہ چاہے گا، بلکہ اسے علم ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں اس لیے وہ ان کو توفیق سے نہیں نوازے گا۔
﴿اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ ﴾ یعنی وہ ان کو توبہ اور انابت کی توفیق سے نواز دے گا۔
اس کریم کی کرم نوازی پر یہی چیز غالب ہے، اس لیے اس نے آیت کریمہ کو اپنے ان دو اسمائے حسنیٰ پر ختم کیا ہے جو اس کی مغفرت، اس کے فضل و کرم اور احسان پر دلالت کرتے ہیں۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے جب توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے، خواہ ان کے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں
﴿رَّحِیْمًا﴾ وہ ان پر نہایت مہربان ہے، کیونکہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق بخشی ، پھر ان کی توبہ قبول کی ، پھر ان کے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی جن کا انھوں نے ارتکاب کیا تھا۔
#
{25} {وردَّ الله الذين كفروا بغيظِهِم لم ينالوا خيراً}؛ أي: ردَّهم خائبين، لم يحصُل لهم الأمر الذي كانوا حريصين عليه، مغتاظين، قادرين عليه، جازِمين بأنَّ لهم الدائرة، قد غرَّتهم جموعهم وأُعْجبوا بتحزُّبهم وفرِحوا بعددِهم وعددِهم، فأرسل الله عليهم ريحاً عظيمةً، وهي ريح الصَّبا، فزعزعت مراكزَهم، وقوَّضت خيامهم، وكفأت قدورَهم، وأزعجتهم، وضربهم الله بالرعب، فانصرفوا بغيظهم، وهذا من نصر الله لعباده المؤمنين. {وكفى اللهُ المؤمنينَ القتال}: بما صَنَعَ لهم من الأسباب العاديَّة والقدريَّة. {وكان الله قويًّا عزيزاً}: لا يغالِبُه أحدٌ إلاَّ غُلِب، ولا يستنصره أحدٌ إلا غَلَب، ولا يعجِزُه أمرٌ أراده، ولا ينفع أهل القوَّة والعزَّة قوتُهم وعزَّتُهم إن لم يُعِنْهُم بقوَّته وعزَّته.
[25] ﴿وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے میں بھرے ہوئے
(نامراد) لوٹا دیا۔ انھوں نے کوئی فائدہ نہ پایا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو خائب و خاسر لوٹا دیا اور انھیں وہ چیز حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ سخت حریص تھے، وہ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور یقینی طور پر اپنے آپ کو فتح پر قادر سمجھتے تھے، اس لیے کہ ان کے پاس وسائل تھے، ان کی بڑی بڑی فوجوں نے ان کو دھوکے میں ڈال دیا، ان کی جتھے بندیوں نے ان کو خودپسندی میں مبتلا کر دیا تھا، انھیں اپنی عددی برتری اور حربی سازوسامان پر بڑا ناز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سخت طوفانی ہوا بھیجی جس نے ان کے عسکری مراکز کو تلپٹ کر دیا، ان کے خیموں کو اکھاڑ دیا، ان کی ہانڈیوں کو الٹ دیا، ان کے حوصلوں کو توڑ دیا، ان پر رعب طاری کر دیا اور وہ انتہائی غیظ و غضب کے ساتھ پسپا ہو گئے۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی نصرت تھی۔
﴿وَكَ٘فَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ ﴾ ’’اور اللہ مومنوں کو لڑائی کے معاملے میں کافی ہوا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو عادی اور تقدیری
(خرق عبادت) اسباب مہیا فرمائے۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا﴾ ’’اور اللہ بڑی قوت والا
(اور) زبردست ہے۔‘‘ جو کوئی اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے، جو کوئی اس سے مدد مانگتا ہے اسے غلبہ نصیب ہوتا ہے، وہ جس امر کا ارادہ کرتا ہے کوئی اسے عاجز نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی قوت و عزت سے اہل قوت و عزت کی مدد نہ کرے تو ان کی قوت و عزت انھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
#
{26} {وأنزلَ الذين ظاهَروهم}؛ أي: عاونوهم {من أهل الكتاب}؛ أي: من اليهود {من صياصِيهم}؛ أي: أنزلهم من حصونهم نزولاً مظفوراً بهم مجعولين تحت حكم الإسلام، {وَقَذَفَ في قلوبِهِمُ الرعبَ}: فلم يقووا على القتال، بل استسلموا وخضعوا وذلُّوا. {فريقاً تقتلون}: وهم الرجال المقاتلون، {وتأسرونَ فريقاً}: من عداهم من النساء والصبيان.
[26] ﴿وَاَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاهَرُوْهُمْ ﴾ ’’اور جنھوں نے ان کی مدد کی تھی ان کو اتارا۔‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے حملہ آوروں کی مدد کی
﴿مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ ﴾ ’’اہل کتاب میں سے۔‘‘ یعنی یہودیوں میں سے
﴿مِنْ صَیَاصِیْهِمْ ﴾ ’’ان کے قلعوں سے‘‘ یعنی انھیں اسلام کے حکم کے تحت مغلوب کر کے ان کے قلعوں سے نیچے اتارا
﴿وَقَذَفَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمُ الرُّعْبَ ﴾ ’’ اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔‘‘ پس ان میں لڑنے کی قوت باقی نہ رہی اور وہ اطاعت تسلیم کرتے ہوئے سرنگوں ہو گئے۔
﴿فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ﴾ تم لڑائی کے قابل مردوں کو قتل کر رہے تھے
﴿وَتَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًا﴾ اور ان مردوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا رہے تھے۔
#
{27} {وأورَثَكم}؛ أي: غنمكم {أرضَهم وديارَهم وأموالَهم وأرضاً لم تطؤوها}؛ أي: أرضاً كانت من قبلُ من شرفِها وعزَّتِها عند أهلها لا تتمكَّنون من وطئها، فمكَّنكم الله، وخَذَلَهم، وغَنِمْتُم أموالهم، وقتلتموهم، وأسرْتُموهم، {وكان اللهُ على كلِّ شيءٍ قديراً}: لا يعجِزُه شيء، ومن قدرتِهِ قدَّر لكم ما قدَّر.
وكانت هذه الطائفة من أهل الكتاب هم بنو قريظةَ من اليهود في قريةٍ خارج المدينة غير بعيد، وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - حين هاجر إلى المدينة وادَعَهم وهادَنَهم فلم يقاتلهم ولم يقاتِلوه، وهم باقون على دينهم، لم يغيِّر عليهم شيئاً، فلما رأوا يوم الخندق الأحزاب الذين تحزَّبوا على رسول الله وكَثْرتَهم وقلَّةَ المسلمين، وظنُّوا أنهم سيستأصلون الرسول والمؤمنين، وساعد على ذلك تدجيلُ بعض رؤسائهم عليهم، فنقضوا العهدَ الذي بينهم وبين رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ومالؤوا المشركين على قتاله، فلما خَذَلَ الله المشركين؛ تفرَّغ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لقتالهم، فحاصرهم في حصنهم، فنزلوا على حكم سعد بن معاذ رضي الله عنه، فحكم فيهم أن تُقْتَلَ مقاتِلَتُهُم، وتُسبى ذراريهم وتُغنم أموالهم، فأتمَّ الله لرسوله والمؤمنين المنَّة، وأسبغ عليهم النعمة، وأقر أعينهم بخذلانِ من انخذلَ من أعدائهم، وقتل مَن قَتَلوا، وأسر من أسروا، ولم يزل لطفُ الله بعبادِهِ المؤمنين مستمرًّا.
[27] ﴿وَاَوْرَثَؔكُمْ ﴾ ’’اور تمھیں وارث بنایا۔‘‘ یعنی تمھیں غنیمت میں عطا کیا
﴿اَرْضَهُمْ وَدِیَ٘ارَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ وَاَرْضًا لَّمْ تَطَـُٔوْهَا ﴾ ’’ان کی زمین، ان کے گھروں اور ان کے اموال اور اس زمین کا جس کو تمھارے قدموں نے نہیں روندا۔‘‘ یعنی ایسی سرزمین جس پر تم اس کے مالکان کے نزدیک اس کی عزت و شرف کی بنا پر چل نہیں سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس زمین پر اور اس کے مالکوں پر اختیار عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مالکوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا، تم نے ان کے اموال کو مال غنیمت بنایا، ان کو قتل کیا اور ان میں کچھ کو قیدی بنایا۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ اسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی اور اپنی قدرت سے اس نے تمھارے لیے یہ سب کچھ مقدر کیا۔
اہل کتاب کا یہ گروہ، یہودیوں میں سے بنوقریظہ کا قبیلہ تھا، جو مدینے سے باہر تھوڑے سے فاصلے پر آباد تھا۔ جب رسول اللہ e ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے ان کے ساتھ امن اور دفاع کا معاہدہ کیا۔ آپ نے ان کے خلاف جنگ کی نہ انھوں نے آپ سے کوئی لڑائی لڑی اور وہ اپنے دین پر باقی رہے۔ رسول اللہ e نے ان کے بارے میں حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہ کی۔
جنگ خندق میں، جب ان یہودیوں نے کفار کے لشکروں کو جمع ہو کر رسول اللہ e پر حملہ آور ہوتے دیکھا اور انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ حملہ آوروں کی تعداد بہت زیادہ اور مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے تو انھوں نے سمجھ لیا کہ کفار رسول اللہ e اور اہل ایمان کا استیصال کر دیں گے اور بعض یہودی سرداروں نے دجل و فریب کے ذریعے سے حملہ آوروں کی مدد کی، اس لیے اس معاہدے کو توڑنے کے مرتکب ہوئے جو ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان ہوا تھا اور انھوں نے مشرکین کو رسول اللہ e پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کو ناکام و نامراد لوٹا دیا تو رسول اللہ e ان بدعہد یہودیوں کے خلاف جنگ کے لیے فارغ ہو گئے ، لہٰذا آپ نے ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ انھوں نے حضرت سعد بن معاذt کو ثالث تسلیم کر لیا۔ حضرت سعد بن معاذt نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام اور ان کے مال کو مال غنیمت بنا لیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان پر اپنی نوازش اور عنایت کی تکمیل کی، ان پر اپنی نعمت پوری کی اور ان کے دشمنوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر، ان کو قتل کر کے اور ان میں سے بعض کو قیدی بنا کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ اپنے مومن بندوں کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا رہا ہے۔
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (29)}
اے پیغمبر! کہہ دیجیے! اپنی بیویوں سے، اگر ہو تم چاہتی زندگی دنیا کی اور زیب و زینت اس کی تو آؤ ! میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اور تمھیں رخصت کر دوں رخصت کرنا اچھے طریقے سے
(28) اور اگر ہو تم چاہتی اللہ کو اور اس کےرسول کو اور آخرت کے گھر کو تو بلاشبہ اللہ نے تیار کیا ہے نیکی کرنے و الیوں کے لیے تم میں سے، اجر بہت بڑا
(29)
#
{28} لما اجتمع نساءُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عليه في الغيرة، وطلبن منه النفقة والكسوة؛ طلبنَ منه أمراً لا يقدر عليه في كلِّ وقت، ولم يَزَلْنَ في طلبهنَّ متَّفقات وفي مرادهنَّ متعنِّتات، فشقَّ ذلك على الرسول، حتى وصلت به الحالُ إلى أنه آلى منهنَّ شهراً، فأراد الله أن يسهِّلَ الأمرَ على رسولِهِ، وأن يرفع درجةَ زوجاتِهِ، ويُذْهِبَ عنهنَّ كلَّ أمر ينقص أجرهنَّ فأمر رسولَه أن يخيِّرهنَّ ، فقال: {يا أيُّها النبيُّ قلْ لأزواجِك إن كنتنَّ تردنَ الحياةَ الدُّنيا}؛ أي: ليس لَكُنَّ في غيرها مطلبٌ، وصرتنَّ ترضينَ لوجودها وتغضبنَ لِفَقْدِها؛ فليس لي فيكنَّ أربٌ وحاجةٌ وأنتنَّ بهذه الحال، {فتعالَيْن أمتِّعْكُنَّ}: شيئاً مما عندي من الدنيا، {وأسرِّحْكُنَّ}؛ أي: أفارقكن {سراحاً جميلاً}: من دون مغاضبةٍ ولا مشاتمةٍ، بل بسعة صدرٍ وانشراح بال، قبل أن تبلغَ الحالُ إلى ما لا ينبغي.
[28] رسول اللہ کی ازواج مطہراتg نے جمع ہو کر آپ e سے کچھ ایسے مطالبات کیے جن کو ہر وقت پورا نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر وہ متفق ہو کر اپنا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ یہ چیز رسول اللہ e پر بہت شاق گزری۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ آپ کو ان کے ساتھ ایک ماہ کے لیے ایلاء
(زو جہ کے قریب نہ جانے کا عہد) کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول
(e)کے معاملے کو آسان اور آپ کی ازواج مطہرات کے درجات کو بلند کرنا چاہتا تھا اور آپ کی ازواج مطہرات سے ہر اس بات کو دور کرنا چاہتا تھا جو ان کے اجر کو کم کرے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج کو
(اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دے دیں۔ فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُ٘لْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَهَا ﴾ ’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو۔‘‘ یعنی اگر دنیا کے سوا تمھارا کوئی مطلب نہیں اور تم دنیا کی زندگی پر راضی اور اس کے فقدان پر ناراض ہو۔ اگر تمھارا یہی حال ہے تو مجھے تمھاری کوئی ضرورت نہیں۔
﴿فَتَعَالَیْ٘نَ اُمَتِّعْكُ٘نَّ ﴾ ’’تو آؤ میں تمھیں کچھ مال دوں۔‘‘ یعنی میرے پاس جو بھی سروسامان ہے، وہ تمھیں عطا کر دوں۔
﴿وَاُسَرِّحْؔكُ٘نَّ ﴾ اور تمھیں الگ کر دوں
﴿سَرَاحًا جَمِیْلًا﴾ یعنی کسی ناراضی اور سب و شتم کے بغیر، بلکہ خوش دلی اور انشراح صدر کے ساتھ، اس سے قبل کہ حالات نامناسب سطح تک پہنچ جائیں تمھیں آزاد کر دوں۔
#
{29} {وإن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الله ورسولَه والدارَ الآخرة}؛ أي: هذه الأشياء مرادُكُنَّ وغايةُ مقصودِكُنَّ، وإذا حصل لَكُنَّ الله ورسوله والجنة؛ لم تبالينَ بسعة الدنيا وضيقها ويُسرها وعُسرها، وقنعتنَّ من رسول الله بما تيسَّر، ولم تطلبنَ منه ما يشقُّ عليه، {فإنَّ الله أعدَّ للمحسناتِ منكنَّ أجراً عظيماً}: رتَّب الأجر على وصفهنَّ بالإحسان؛ لأنَّه السبب الموجب لذلك، لا لكونهنَّ زوجاتٍ للرسول؛ فإنَّ مجرَد ذلك لا يكفي، بل لا يفيدُ شيئاً مع عدم الإحسان، فخيَّرَهُنَّ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في ذلك، فاخترنَ الله ورسوله والدار الآخرة كلُّهن ، لم يتخلفْ منهنَّ واحدةٌ رضي الله عنهن.
وفي هذا التخيير فوائدُ عديدة:
منها: الاعتناءُ برسوله والغيرةُ عليه أن يكون بحالة يشقُّ عليه كثرةُ مطالب زوجاته الدنيويَّة.
ومنها: سلامتُه - صلى الله عليه وسلم - بهذا التخيير من تَبِعَةِ حقوق الزوجات، وأنَّه يبقى في حرِّية نفسه إن شاء أعطى وإن شاء منع، ما كان على النبيِّ من حرج فيما فرضَ الله له.
ومنها: تنزيهُهُ عمَّا لو كان فيهنَّ مَنْ تؤثِرُ الدُّنيا على الله ورسوله والدار الآخرة عنها، وعن مقارنتها.
ومنها: سلامةُ زوجاتِهِ رضي الله عنهنَّ عن الإثم والتعرُّض لسخط اللَّه ورسوله، فحسم الله بهذا التخيير عنهنَّ التسخُّط على الرسول الموجب لسَخَطِهِ المُسْخِطِ لربِّه الموجب لعقابه.
ومنها: إظهار رفعتهنَّ وعلوِّ درجتهنَّ وبيان علوِّ هممهنَّ أن كان اللهُ ورسولُه والدار الآخرة مرادَهُنَّ ومقصودَهن دون الدُّنيا وحطامها.
ومنها: استعدادُهُنَّ بهذا الاختيار للأمر الخيار للوصول إلى خيار درجات الجنة وأنْ يكنَّ زوجاتِهِ في الدُّنيا والآخرة.
ومنها: ظهورُ المناسبة بينه وبينهنَّ؛ فإنَّه أكمل الخلق، وأراد الله أن تكون نساؤه كاملاتٍ مكمَّلاتٍ طيباتٍ مطيَّباتٍ، {الطيِّباتُ للطيبين والطيِّبونَ للطيبات}.
ومنها: أنَّ هذا التخيير داعٍ وموجب للقناعة التي يطمئنُّ لها القلبُ وينشرحُ لها الصدرُ، ويزول عنهنَّ جشعُ الحرص وعدم الرِّضا الموجب لقلق القلب واضطرابِهِ وهمِّه وغمِّه.
ومنها: أن يكون اختيارهنَّ هذا سبباً لزيادة أجرهنَّ ومضاعفتِهِ، وأن يكنَّ بمرتبةٍ ليس فيها أحدٌ من النساء، ولهذا قال:
[29] ﴿وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طلبگار ہو۔‘‘ یعنی اگر آخرت کا گھر تمھارا مطلوب و مقصود ہے اور جب تمھیں اللہ، اس کا رسول اور آخرت حاصل ہو جائیں تو تمھیں دنیا کی کشادگی اور تنگی، اس کی آسانی اور سختی کی پروا نہ ہو اور تم اسی پر قناعت کرو جو تمھیں رسول اللہ e کی طرف سے میسر ہے اور آپ سے ایسا مطالبہ نہ کرو جو آپ پر شاق گزرے
﴿فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْؔكُ٘نَّ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’تو
(جان لو) اللہ نے تم میں سے نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے وصف احسان پر اجر مرتب کیا ہے کیونکہ اس اجر کا سبب اور موجب یہ نہیں کہ وہ رسول
(e)کی بیویاں ہیں بلکہ اس کا موجب یہی وصف ہے۔ احسان کا وصف معدوم ہوتے ہوئے مجرد رسولe کی بیویاں ہونا کافی نہیں۔
رسول اللہ e نے تمام ازواج مطہراتg کو اختیار دے دیا۔ تمام ازواج مطہراتg نے اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو اختیار کر لیا،
ان میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہی ۔ اس تخییر سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول
(e)کے لیے اہتمام کرنا اور اس پر غیرت کا اظہار کرنا، آپ کا ایسے حال میں ہونا کہ آپ کی ازواج مطہرات کے بہت سے دنیاوی مطالبات کا آپ پر شاق گزرنا۔
(۲) اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ e کا اپنی ازواج مطہرات کے حقوق کے بوجھ سے سلامت ہونا، اپنے آپ میں آزاد ہونا،
اگر آپ e چاہیں تو عطا کریں اور اگر چاہیں تو محروم رکھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ ﴾ (الاحزاب:33؍38) ’’نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی حرج نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کر دیا۔‘‘
(۳) اللہ تعالیٰ کے رسول کا ان امور سے منزہ ہونا جو اگر ازواج مطہرات میں ہوتے ،
مثلاً: اللہ اور اس کے رسول پر دنیا کو ترجیح دینا... تو آپ ان کے قریب نہ جاتے۔
(۴) آپ e کی ازواج مطہرات کا گناہ اور کسی ایسے امر سے تعرض سے سلامت ہونا جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ e پر ان کی ناراضی کو ختم کر دیا، جو آپ کی ناراضی کا موجب تھی، آپ کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی عذاب کی موجب ہے۔
(۵) ان آیات کریمہ سے، ازواج مطہرات کی رفعت، ان کے درجات کی بلندی اور ان کی عالی ہمتی کا اظہار ہوتا ہے کہ انھوں نے دنیا کے چند ٹکڑوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اپنا مطلوب و مقصود اور اپنی مراد بنایا۔
(۶) ازواج مطہرات کا اس اختیار کے ذریعے سے ایک ایسے معاملے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہونا جو جنت کے درجات تک پہنچاتا ہے۔ نیز اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ تمام ازواج مطہرات دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔
(۷) اس آیت کریمہ سے نبی e کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کامل مناسبت کا اظہار ہوتا ہے۔ رسول اللہ e کامل ترین ہستی ہیں اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کی ازواج مطہرات بھی کامل اور پاک عورتیں ہوں۔
﴿وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ﴾ (النور:24؍26) ’’پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘
(۸) یہ تخییر قناعت کی داعی اور اس کی موجب ہے۔ جس سے اطمینان قلب اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے، لالچ اور عدم رضا زائل ہو جاتے ہیں جو قلب کے لیے قلق، اضطراب اور ہم و غم کا باعث ہوتے ہیں۔
(۹) ازواج مطہرات کا آپ کو اختیار کرنا، ان کے اجر میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے نیز یہ کہ وہ ایک ایسے مرتبے پر فائز ہیں جس میں دنیا کی کوئی عورت شریک نہیں۔
{يَانِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (30) وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (31)}
اے نبی کی بیویو! جو کرے گی تم میں سے بے حیائی کھلی، تو دگنا دیا جائے گااسے عذاب دوہرا، اور ہے یہ اوپر اللہ کے آسان
(30) اور جو فرماں برداری کرے تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور عمل کرے نیک تو دیں گے ہم اسے اس کا اجر دوبار، اور تیار کیا ہے ہم نے اس کے لیے رزق عزت کا
(31)
#
{30} لما اخترنَ الله ورسولَه والدارَ الآخرة؛ ذَكَرَ مضاعفَة أجرهنَّ ومضاعفةَ وِزْرِهِنَّ وإثمهنَّ لو جرى منهنَّ؛ ليزداد حذرهنَّ وشكرهنَّ الله تعالى، فجعل من أتى منهنَّ بفاحشةٍ ظاهرةٍ لها العذابُ ضعفين.
[30] جب ازواج مطہراتg نے اللہ، اس کے رسول e اور آخرت کو چن لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کئی گنا اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر دیا کہ ان کے گناہوں کی سزا بھی کئی گنا ہو گی تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور اجر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اگر ان میں سے کوئی فحش کام کا ارتکاب کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دوگنا عذاب مقرر فرمایا ہے۔
#
{31} {ومَن يَقْنُتْ منكنَّ}؛ أي: تطيع اللهَ ورسولَه وتعملْ صالحاً قليلاً أو كثيراً، {نؤتِها أجْرَها مرَّتينِ}؛ أي: مثل ما نعطي غيرها مرَّتين، {وأعْتَدْنا لها رزقاً كريماً}: وهي الجنة، فَقَنَتْنَ للهِ ورسوله وعَمِلْنَ صالحاً، فعلم بذلك أجرهنَّ.
[31] ﴿وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْؔكُ٘نَّ ﴾ یعنی تم میں جو کوئی اطاعت شعار ہو گی
﴿لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَتَعْمَلْ صَالِحًا ﴾ ’’اللہ کی اور اس کے رسول کی اور وہ نیک عمل کرے گی۔‘‘ خواہ وہ عمل تھوڑا ہو یا بہت
﴿نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ ﴾ ’’ہم اسے دگنا اجر دیں گے‘‘ یعنی وہ اجر جو ہم دوسروں کو عطا کرتے ہیں، ان کو اُن سے دوگنا اجر عطا کریں گے
﴿وَاَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا ﴾ ’’اور ہم نے اس کے لیے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔‘‘ اس سے مراد جنت ہے، چنانچہ ازواج مطہرات نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی، نیک عمل کیے تو اس سے ان کا اجر و ثواب بھی معلوم ہوگیا۔
{يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (34)}
اے نبی کی بیویو! نہیں ہو تم مانند کسی ایک کے عورتوں میں سے اگر تم تقویٰ اختیار کرو، پس نہ نزاکت اختیار کرو تم بات چیت میں کہ طمع کرنے لگے وہ شخص جس کے دل میں روگ
(ہوس) ہو اور کہو تم بات معقول
(32) اور ٹک کر رہو تم اپنے گھروں میں اور نہ زیب و زینت ظاہر کرو
(مانند) زینت ظاہر کرنے کے جاہلیت اُولیٰ میں اور قائم کرو نماز اور ادا کرو زکاۃ اوراطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی، بے شک چاہتا ہے اللہ کہ دور کر دے وہ تم سے ناپاکی اے
(نبی کے) گھر والو! اور پاک کر دے تمھیں پوری طرح پاک کرنا
(33) اور یاد کرو تم، جو پڑھی جاتی ہیں تمھارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت سے، بلاشبہ اللہ ہے نہایت باریک بین ،بڑا باخبر
(34)
#
{32} يقول تعالى: {يا نساءَ النبيِّ}: خطابٌ لهنَّ كلهنَّ {لستنَّ كأحدٍ من النساء إنِ اتَّقَيْتُنَّ}: الله؛ فإنَّكُنَّ بذلك تفقن النساء ولا يلحقكُنَّ أحدٌ من النساء؛ فكمِّلْنَ التقوى بجميع وسائلها ومقاصدها، فلهذا أرشدهنَّ إلى قطع وسائل المحرم، فقال: {فلا تَخْضَعْنَ بالقول}؛ أي: في مخاطبة الرجال، أو بحيث يسمعون، فَتَلِنَّ في ذلك، وتتكلَّمْنَ بكلام رقيق، يدعو ويطمع {الذي في قلبِهِ مرضٌ}؛ أي: مرض شهوة الزنا فإنه مستعدٌّ ينتظرُ أدنى محركٍ يحرِّكُه لأنَّ قلبه غيرُ صحيح؛ فإنَّ القلب الصحيح ليس فيه شهوةٌ لما حرَّم الله؛ فإنَّ ذلك لا تكاد تُميله ولا تُحركه الأسباب لصحةِ قلبه وسلامتِهِ من المرض؛ بخلاف مريض القلبِ الذي لا يتحمَّلُ ما يتحمَّلُ الصحيح، ولا يصبِرُ على ما يصبِرُ عليه؛ فأدنى سبب يوجَدُ ويدعوه إلى الحرام يُجيب دعوته ولا يتعاصى عليه؛ فهذا دليلٌ على أنَّ الوسائل لها أحكام المقاصد؛ فإنَّ الخضوع بالقول واللين فيه في الأصل مباح، ولكن لمَّا كان وسيلةً إلى المحرَّم؛ منع منه، ولهذا ينبغي للمرأة في مخاطبة الرجال أن لا تُلينَ لهم القول.
ولمَّا نهاهنَّ عن الخضوع في القول؛ فربما تُوُهِّم أنهنَّ مأموراتٌ بإغلاظ القول؛ دَفَعَ هذا بقوله: {وقلنَ قولاً معروفاً}؛ أي: غير غليظ ولا جاف؛ كما أنه ليس بليِّنٍ خاضع. وتأمَّلْ كيف قال: {فلا تَخْضَعْنَ بالقول}، ولم يقل: فلا تَلِنَّ بالقول، وذلك لأنَّ المنهيَّ عنه القول الليِّن الذي فيه خضوع المرأة للرجل وانكسارُها عنده، والخاضِعُ هو الذي يُطمع فيه، بخلافِ من تكلَّمَ كلاماً ليِّناً ليس فيه خضوعٌ، بل ربَّما صار فيه ترفُّع وقهرٌ للخصم؛ فإنَّ هذا لا يطمع فيه خصمُه، ولهذا مدح الله رسولَه باللين، فقال: {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم}، وقال لموسى وهارون: {اذْهَبا إلى فرعونَ إنَّه طغى. فقولا له قَوْلاً ليِّناً لعله يَتَذَكَّر أو يخشى}.
ودل قوله: {فيطمعَ الذي في قلبِهِ مرضٌ}؛ مع أمره بحفظ الفرج وثنائِهِ على الحافظين لفروجهم والحافظات، ونهيه عن قربان الزنا: أنَّه ينبغي للعبد إذا رأى من نفسه هذه الحالة، وأنه يهشُّ لفعل المحرم عندما يرى أو يسمع كلام من يهواه ويجد دواعي طمعِهِ قد انصرفتْ إلى الحرام، فليعرفْ أنَّ ذلك مرض، فليجتهدْ في إضعاف هذا المرض وحسم الخواطر الرديَّة ومجاهدة نفسه على سلامتها من هذا المرض الخطر وسؤال الله العصمة والتوفيق، وأنَّ ذلك من حفظ الفرج المأمور به.
[32] ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ ﴾ ’’ اے نبی کی بیویو!‘‘ تمام ازواج مطہرات سے خطاب ہے۔
﴿لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ ﴾ ’’تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘‘ کیونکہ اس طرح تمھیں تمام عورتوں پر فوقیت حاصل ہو گی اور کوئی عورت تمھارے درجے کو نہیں پہنچ سکے گی۔ پس ازواج رسول نے تقویٰ کی اس کے تمام وسائل اور مقاصد کے ساتھ تکمیل کی،
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام حرام و سائل کو منقطع کرنے میں ان کی راہنمائی فرمائی اور فرمایا: ﴿فَلَا تَخْ٘ضَ٘عْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ’’پس تم نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ یعنی مردوں کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے یا اس وقت کہ لوگ تمھاری گفتگو سن رہے ہوں اور تم دھیمے لہجے اور رغبت دلانے والی نرم کلامی سے گفتگو کرو تو ہوسکتا ہے کہ تمھاری طرف مائل ہوجائے۔
﴿الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ ’’وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے۔‘‘ یعنی شہوت زنا کا مرض۔ بے شک ایسا شخص تیار رہتا ہے اور کسی ادنیٰ سے محرک کا منتظر رہتا ہے جو اس کو متحرک کر دے کیونکہ اس کا قلب صحت مند نہیں اور صحت مند قلب میں کسی ایسی چیز کی شہوت نہیں ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہو۔ اس کے قلب کے صحت مند اور مرض سے سلامت ہونے کی وجہ سے اسباب اسے شہوت حرام کے لیے متحرک کر سکتے ہیں نہ اسے اس کی طرف مائل کر سکتے ہیں، بخلاف اس قلب کے جو مریض ہے وہ اس چیز کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کا متحمل ایک صحت مند قلب ہو سکتا ہے، وہ اس چیز پر صبر نہیں کر سکتا جس پر ایک صحت مند صبر کر سکتا ہے۔ پس اگر ایک ادنیٰ سا سبب بھی اسے حرام کی طرف دعوت دے تو وہ اس کی دعوت پر لبیک کہے گا اور اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔
آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل کے احکام بھی وہی ہیں جو مقاصد کے احکام ہیں کیونکہ دھیمے لہجے میں بات کرنا اور نرم کلامی، اصل میں مباح ہیں چونکہ اس قسم کی نرم کلامی حرام کردہ امر کے لیے وسیلہ بن سکتی ہے اس لیے اس سے روک دیا گیا، اس لیے عورت کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ مردوں سے مخاطب ہوتے وقت نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ چونکہ انھیں نرم لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا ہے اس لیے بسااوقات یہ وہم لاحق ہو سکتا ہے کہ انھیں درشت کلامی کا حکم ہے ،
چنانچہ اس وہم کو اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا گیا ہے: ﴿وَّقُ٘لْ٘نَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ ’’اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘ یعنی جس طرح دھیما پن اور نرم کلامی نہیں ہونی چاہیے اسی طرح درشت لہجے اور بداخلاقی پر مشتمل کلام بھی نہیں ہونا چاہیے۔
غور کیجیے کیسے ارشاد فرمایا:
﴿فَلَا تَخْ٘ضَ٘عْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ’’نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ اور یہ نہیں کہا : فَلاَ تَلِنَّ بِالْقَوْلِ ’’بات کرنے میں نرمی نہ کرو۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی نرم کلامی ممنوع ہے جس میں مرد کے لیے عورت کی اطاعت اور اس کے انکسار کی جھلک ہو۔ اطاعت مند اور جھکنے والے کے بارے میں کسی قسم کا طمع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی ایسے نرم لہجے میں بات کرتا ہے، جس میں اطاعت اور جھکاؤ کی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس میں ترفع اور مدمقابل کے لیے سختی ہوتی ہے، اس شخص کے بارے میں مدمقابل کوئی طمع نہیں کر سکتا،
(ورنہ نرمی تو مطلوب ہے) اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کی نرم مزاجی کی مدح کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’پس اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔‘‘ حضرت موسیٰ اور ہارون iسے فرمایا:
﴿اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۚۖ۰۰ فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّـرُ اَوْ یَخْشٰى﴾ (طہ:20/43۔44) ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد:
﴿فَ٘یَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ ﴾ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دینا، شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کی مدح و ثنا اور اس کا زنا کے قریب جانے سے منع کرنا یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ بندے کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ اپنے نفس کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ کسی حرام فعل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے یا کسی محبوب ہستی کا کلام سن کر خوش ہوتا ہے اور اپنے اندر طمع کے داعیے کو حرام کی طرف رخ کرتے ہوئے پاتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مرض ہے۔ وہ اس مرض کو کمزور کرنے، ردی خیالات کا قلع قمع کرنے، اس خطرناک مرض سے نفس کو محفوظ کرنے کی پوری جدوجہد کرے اور اللہ تعالیٰ سے حفاظت اور توفیق کا سوال کرتا رہے۔ یہ بھی شرم گاہ کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔
#
{33} {وقَرْنَ في بُيوتِكُنَّ}؛ أي: اقْرُرْنَ فيها؛ لأنه أسلمُ وأحفظُ لَكُنَّ، {ولا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجاهليةِ الأولى}؛ أي: لا تُكْثِرْنَ الخروج متجمِّلات أو متطيِّبات كعادة أهل الجاهلية الأولى، الذين لا علم عندهم ولا دين؛ فكلُّ هذا دفع للشرِّ وأسبابه.
ولما أمرهنَّ بالتقوى عموماً وبجزيئات من التقوى نصَّ عليها لحاجة النساء إليها، كذلك أمرهن بالطاعة، خصوصاً الصلاة والزكاة اللتان يحتاجُهما ويضطرُّ إليهما كلُّ أحدٍ، وهما أكبر العبادات وأجلُّ الطاعات، وفي الصلاة الإخلاص للمعبود، وفي الزكاة الإحسان إلى العبيد.
ثم أمرهنَّ بالطاعة عموماً، فقال: {وأطِعْنَ الله ورسولَه}: يدخُلُ في طاعة الله ورسوله كلُّ أمرٍ أمرا به أمرَ إيجابٍ أو استحبابٍ، {إنَّما يريدُ الله}: بأمرِكُنَّ بما أمَرَكُنَّ به ونَهْيِكُنَّ عمَّا نهاكنَّ عنه؛ {ليُذْهِبَ عنكم الرجسَ}؛ أي: الأذى والشر والخبث {أهلَ البيتِ ويُطَهِّرَكُم تطهيراً}: حتى تكونوا طاهرينَ مطهَّرين؛ أي: فاحمدوا، ربَّكم واشكُروه على هذه الأوامر والنواهي التي أخبركم بمصلحتها، وأنها محضُ مصلحتِكُم، لم يردِ الله أن يجعلَ عليكم بذلك حرجاً ولا مشقةً، بل لتتزكَّى نفوسُكم، وتتطهَّر أخلاقُكم، وتَحْسُنَ أعمالُكم، ويعظُم بذلك أجركم.
[33] ﴿وَقَ٘رْنَ فِیْ بُیُوْتِكُ٘نَّ ﴾ اپنے گھروں میں قرار پکڑو یہ تمھارے لیے زیادہ حفاظت اور سلامتی کا مقام ہے۔
﴿وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى﴾ اور بناؤ سنگار کر کے اور خوشبو لگا کر بہت زیادہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلا کرو، جیسا کہ اہل جاہلیت کی عادت تھی جن کے پاس علم تھا نہ دین۔ یہ حکم شر اور اس کے اسباب کو روکنے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر انھیں تقویٰ اور تقویٰ کی جزئیات کا حکم دینے کے بعد، اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کیونکہ عورتیں اس کی سب سے زیادہ محتاج ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس نے انھیں اطاعت کا حکم دیا، خاص طور پر نماز اور زکاۃ کا حکم دیا جن کی ضرورت ہر شخص کو ہوتی ہے۔ نماز اور زکاۃ سب سے بڑی عبادتیں اورجلیل القدر نیکیاں ہیں۔ نماز کے اندر معبود کے لیے اخلاص اور زکاۃ میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احسان ہے۔ پھر ان کو عمومی اطاعت کا حکم دیا،
فرمایا : ﴿وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہر قسم کا معاملہ داخل ہے، خواہ اس کا حکم وجوب کے طور پر دیا گیا ہو یا استحباب کے طور پر۔
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن چیزوں کا حکم دیا اور جن امور سے منع کیا، اس کا مقصد صرف یہ ہے
﴿لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ ﴾ کہ وہ تم سے گندگی، شر اور ناپاکی کو دور کر دے
﴿اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَؔكُمْ تَطْهِیْرًا﴾ ’’اے نبی کی گھر والیو! اور تمھیں خوب پاک کردے۔‘‘ یہاں تک کہ تم سب طاہر اور مطہر بن جاؤ ۔ پس تم ان اوامرونواہی پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو، جن کی مصلحتوں کے بارے میں تمھیں آگاہ فرمایا کہ وہ محض تمھارے فائدے کے لیے ہیں، ان اوامرونواہی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں کسی مشقت اور تنگی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمھارے نفوس کا تزکیہ، تمھارے اخلاق کی تطہیر اور تمھارے اعمال کی اصلاح کرنا چاہتا ہے اور اس طرح تمھارے اجر کو بڑا کرنا مقصود ہے۔
#
{34} ولمَّا أمرهنَّ بالعمل الذي هو فعلٌ وتركٌ؛ أمرهنَّ بالعلم، وبيَّن لهنَّ طريقه، فقال: {واذْكُرْنَ ما يُتلى في بُيوتِكُنَّ من آياتِ الله والحكمةِ}، والمرادُ بآيات الله القرآن، والحكمةُ أسرارُه أو سنةُ رسوله، وأمْرُهُنَّ بذكره يشمل ذِكْرَ لفظِهِ بتلاوتِهِ وذكر معناه بتدبُّره والتفكُّر فيه واستخراج أحكامه وحِكَمِهِ، وذِكْرَ العمل به وتأويله.
{إنَّ الله كان لطيفاً خبيراً}: يدرك سرائر الأمور وخفايا الصدور وخبايا السماواتِ والأرض والأعمال التي تَبين وتُسَرُّ؛ فلطفُه وخبرتُه يقتضي حثُّهنَّ على الإخلاص وإسرار الأعمال ومجازاةِ الله على تلك الأعمال. ومن معاني اللطيف: الذي يسوقُ عبدَه إلى الخير، ويعصِمُه من الشرِّ بطرقٍ خفيةٍ لا يشعر بها، ويسوقُ إليه من الرزق ما لا يدريه، ويريه من الأسباب التي تكرهُها النفوس، ما يكون ذلك طريقاً له إلى أعلى الدرجات وأرفع المنازل.
[34] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو عمل کا حکم دیا جو فعل و ترک پر مشتمل ہے تو پھر انھیں علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور اس کا طریقہ بیان فرمایا،
لہٰذا فرمایا: ﴿وَاذْكُرْنَ مَا یُ٘تْ٘لٰى فِیْ بُیُوْتِكُ٘نَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ ’’اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔، ، یہاں آیات الٰہی سے مراد قرآن، حکمت سے مراد قرآن کے اسرار اور رسول اللہ e کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا جو تلاوت قرآن کے ذریعے سے لفظی ذکر، اس کے معانی میں غوروفکر، اس کے احکام اور اس کی حکمتوں کے استخراج، اس پر عمل اور اس کی تاویل کے ذکر کو شامل ہے۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ باریک بین، خبردار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ تمام معاملات کے اسرار نہاں، سینوں کے بھید، آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی تمام چیزوں اور تمام کھلے چھپے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اس کا لطف و کرم اور خبرگیری اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ انھیں اخلاص للہ اور اعمال کو چھپانے کی ترغیب دے، نیز تقاضا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی جزا دے۔
(اَللَّطِیفُ) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو اپنے بندے کو ایسے مخفی طریقے سے بھلائی عطا کرتی ہے اور شر سے بچاتی ہے، جس کا اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے اس طرح رزق عطا کرتی ہے کہ اسے اس کا ادراک تک نہیں ہوتا اور وہ اسے ایسے اسباب دکھاتی ہے جسے نفس ناپسند کرتے ہیں، مگر یہ اسباب اس کے لیے بلند درجات اور اعلیٰ مراتب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
{إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (35)}
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرداور فرماں بردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں اور حفاظت کرنے والے مرد اپنی شرم گاہوں کی اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور ذکر کرنے والے مرد اللہ کا کثرت سے اور ذکر کرنے والی عورتیں، تیار کر رکھی ہے اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم
(35)
#
{35} لما ذَكَرَ تعالى ثوابَ زوجاتِ الرسول - صلى الله عليه وسلم - وعقابهنَّ لو قُدِّرَ عدم الامتثال وأنَّه ليس مثلهنَّ أحدٌ من النساء؛ ذكر بقيَّة النساء غيرهنَّ، ولما كان حكمهنَّ والرجال واحداً؛ جعل الحكمَ مشتركاً، فقال: {إنَّ المسلمينَ والمسلماتِ}: وهذا في الشرائع الظاهرة إذا كانوا قائمين بها، {والمؤمنينَ والمؤمناتِ}: وهذا في الأمور الباطنة من عقائد القلب وأعماله، {والقانتينَ}؛ أي: المطيعين لله ولرسوله، {والقانتاتِ والصادقينَ}: في مقالهم وفعالهم، {والصادقاتِ والصابرينَ}: على الشدائد والمصائب، {والصابراتِ والخاشعين}: في جميع أحوالهم خصوصاً في عباداتهم ولا سيما في صلواتهم، {والخاشعاتِ والمتصدِّقين}: فرضاً ونفلاً، {والمتصدقاتِ والصائمينَ والصائماتِ}: شمل ذلك الفرض والنفل، {والحافظينَ فروجَهم}: عن الزنا ومقدِّماته، {والحافظات والذاكرينَ الله كثيراً}؛ أي: في أكثر الأوقات، خصوصاً في أوقات الأوراد المقيَّدة؛ كالصباح والمساء، وأدبار الصلوات المكتوبات، {والذاكرات أعدَّ الله لهم}؛ أي: لهؤلاء الموصوفين بتلك الصفاتِ الجميلةِ والمناقبِ الجليلةِ، التي هي ما بين اعتقاداتٍ وأعمال قلوبٍ وأعمال جوارح وأقوال لسانٍ ونفع متعدٍّ وقاصرٍ وما بين أفعال الخير وترك الشرِّ الذي مَنْ قام بهنَّ فقد قام بالدِّين كلِّه ظاهرِهِ وباطنِهِ بالإسلام والإيمان والإحسان، فجازاهم على عملهم بالمغفرة لذنوبهم؛ لأنَّ الحسنات يُذْهِبْنَ السيئات. {وأجراً عظيماً}: لا يقدرُ قَدْرَهُ إلاَّ الذي أعطاه؛ مما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ، ولا خطر على قلب بشر. نسألُ الله أن يجعلَنا منهم.
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول e کی ازواج مطہرات کے لیے ثواب اور
(بفرض محال عدم اطاعت کی صورت میں) عذاب کا ذکر کیا اور یہ بھی واضح کیا کہ ان جیسی کوئی عورت نہیں تو اس کے بعد، ان کے علاوہ دیگر عورتوں کا ذکر کیا۔ چونکہ عورتوں اور مردوں کا ایک ہی حکم ہے اس لیے دونوں کے لیے مشترک بیان کیا،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الْ٘مُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ ﴾ ’’بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘‘ یہ شریعت کے ظاہری احکام کے بارے میں ہے جبکہ وہ اسے قائم کریں۔
﴿وَالْ٘مُؤْمِنِیْنَ وَالْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ ’’اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔‘‘ یہ باطنی امور کے بارے میں ہے ،
مثلاً: عقائد اور اعمال قلوب وغیرہ۔
﴿وَالْقٰنِتِیْنَ ﴾ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے مرد
﴿وَالْقٰنِتٰؔتِ﴾’’اور اطاعت کرنے والی عورتیں
﴿وَالصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اور سچ بولنے والے مرد۔‘‘ اپنے قول و فعل میں
﴿وَالصّٰؔدِقٰتِ ﴾ ’’اور سچ بولنے والی عورتیں۔‘‘
﴿وَالصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’اور صبر کرنے والے مرد ‘‘ مصائب وآلام پر
﴿وَالصّٰؔبِرٰتِ﴾ ’’اور صبر کرنے والی عورتیں‘‘
﴿وَالْخٰؔشِعِیْنَ ﴾ ’’اور وہ مرد جو عاجزی کرتے ہیں۔‘‘ اپنے تمام احوال میں، خاص طور پر عبادات میں اور عبادات میں سے خاص طور پر نمازوں میں،
﴿وَالْخٰؔشِعٰتِ ﴾ ’’اور عاجزی کرنے والی عورتیں۔‘‘
﴿وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ ﴾ ’’اور وہ مرد جو صدقہ دیتے ہیں۔‘‘ خواہ یہ صدقہ فرض ہو یا نفل۔
﴿وَالْمُتَصَدِّقٰتِ۠﴾’’اور صدقہ دینے والی عورتیں ‘‘
﴿وَالصَّآىِٕمِیْنَ۠﴾’’اور روزہ رکھنے والے مرد‘‘
﴿وَالصّٰٓىِٕمٰتِ﴾ ’’اور روزہ رکھنے والی عورتیں۔‘‘ یہ فرض اور نفل تمام روزوں کو شامل ہے
﴿وَالْحٰؔفِظِیْنَ فُ٘رُوْجَهُمْ ﴾ زنا اور مقدمات زنا سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد
﴿وَالْحٰؔفِظٰتِ ﴾ ’’اور حفاظت کرنے والی عورتیں۔‘‘
﴿وَالذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَؔ كَثِیْرًا ﴾ اور اپنے اکثر اوقات میں، خصوصاً مقررہ اوراد کے اوقات میں ،
مثلاً: صبح و شام یا فرض نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد
﴿وَّالذّٰكِرٰتِ ﴾ ’’اور ذکر کرنے والی عورتیں۔‘‘
﴿اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ ﴾ ’’اللہ نے ان کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘ یعنی ان لوگوں کے لیے جو ان صفات جمیلہ اور مناقب جلیلہ سے موصوف ہیں۔ یہ امور اعتقادات، اعمال قلوب، اعمال جوارح، اقوال لسان، دوسروں کو نفع پہنچانے، بھلائی کے کام کرنے اور شر کو ترک کرنے پر مشتمل ہیں۔ جو کوئی متذکرہ صدر امور پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ ظاہری اور باطنی طور پر تمام دین کو قائم کرتا ہے یعنی وہ اسلام، ایمان اور احسان پر عمل کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے عمل کی یہ جزا دی کہ ان کے گناہوں کو بخش دیا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
﴿وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور ان کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘ جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اندازہ صرف وہی کر سکے گا جس کو اللہ تعالیٰ عطا کرے گا۔ وہ ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کے خیال کا گزر ہوا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔
{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (36)}.
اور نہیں ہے لائق واسطے کسی مومن اور نہ کسی مومنہ کے، جب فیصلہ کر دے اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا، یہ کہ ہو
(اس کےبعد) ان کے لیے اختیاران کے معاملے میں اور جو نافرمانی کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو تحقیق گمراہ ہو گیا وہ گمراہ ظاہر
(36)
#
{36} أي: لا ينبغي ولا يَليقُ بمن اتَّصف بالإيمان إلاَّ الإسراعُ في مرضاة الله ورسولِهِ والهربُ من سَخَطِ الله ورسوله وامتثالُ أمرِهما واجتنابُ نهيِهما؛ فلا يليقُ بمؤمنٍ ولا مؤمنةٍ، {إذا قضى اللهُ ورسولُه أمراً}: من الأمور وحَتَّما به وألزما به {أن يكون لَهُمُ الخِيَرَةُ من أمرِهم}؛ أي: الخيار هل يفعلونَه أم لا؟ بل يعلم المؤمن والمؤمنةُ أنَّ الرسول أولى به من نفسِهِ؛ فلا يجعل بعض أهواء نفسِهِ حجاباً بينَه وبينَ أمر الله ورسوله، {ومَن يعصِ الله ورسولَه فقد ضلَّ ضلالاً مبيناً}؛ أي: بيِّنًا؛ لأنه ترك الصراط المستقيم الموصلة إلى كرامة الله إلى غيرها من الطرق الموصلة للعذاب الأليم، فذكر أولاً السبب الموجب لعدم معارضةِ أمر الله ورسولِهِ، وهو الإيمان، ثم ذَكَرَ المانعَ من ذلك، وهو التخويف بالضَّلال الدالِّ على العقوبة والنكال.
[36] جو شخص ایمان سے متصف ہے اس کے لیے اس کے سوا اور کچھ مناسب نہیں کہ وہ فوراً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کی رضا کی طرف سبقت کرے، ان کی ناراضی سے بچے، ان کے حکم کی تعمیل کرے اور جس کام سے وہ روک دیں، اس سے اجتناب کرے۔ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لائق نہیں کہ
﴿اِذَا قَ٘ضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا ﴾ ’’جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کر دیں۔‘‘ اور اس کی تعمیل کو لازم قرار دے دیں تو
﴿اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ﴾ ’’ان کے لیے اس فیصلے پر عمل کا اختیار باقی رہے۔‘‘ کہ آیا وہ اس کام کو کریں یا نہ کریں؟ بلکہ مومن مرد اور مومن عورتیں جانتے ہیں کہ رسول e ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں، اس لیے وہ اپنے اللہ اور اس کے رسول e کے درمیان، اپنی کسی خواہشِ نفس کو حجاب نہ بنائیں۔
﴿وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا﴾ ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہ ہو گیا۔‘‘ یعنی وہ واضح طور پر گمراہ ہو گیا کیونکہ اس نے صراط مستقیم کو ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک جاتا ہے، دوسرا راستہ اختیار کر لیا جو دردناک عذاب تک پہنچتا ہے۔
سب سے پہلے اس سبب کا ذکر کیا جو اللہ اور اس کے رسول
(e)کے حکم سے عدم معارضہ کا موجب ہے اور وہ ہے ایمان، پھر اس سے مانع کا ذکر فرمایا اور وہ ہے گمراہی سے ڈرانا، جو عذاب اور سزا پر دلالت کرتا ہے۔
{وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (37)}
اور
(یاد کریں) جب آپ کہتے تھے اس شخص سے کہ انعام کیا اللہ نے اس پر اور انعا م کیا تھا آپ نے بھی اس پر، کہ روکے رکھ تو اپنے پاس اپنی بیوی، اور ڈر اللہ سے، اور چھپاتے تھے آپ اپنے دل میں وہ بات کہ اللہ ظاہر کرنے والا تھا اسے اور ڈرتے تھے آپ لوگوں سے، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے یہ کہ ڈریں آپ اس سے، پس جب پوری کر لی زید نے اس سے
(اپنی) حاجت تو نکاح کر دیا ہم نے آپ کا اس سے، تاکہ نہ ہو مومنوں پر کوئی حرج اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں
(سے نکاح کر لینے) میں، جب پوری کر لیں وہ ان سے
(اپنی) حاجت، اور ہے حکم اللہ کا
(پورا) کیا ہوا
(37)
#
{37} وكان سببُ نزول هذه الآياتِ أنَّ الله تعالى أراد أن يَشْرَعَ شرعاً عامًّا للمؤمنين أنَّ الأدعياء ليسوا في حكم الأبناء حقيقةً من جميع الوجوه، وأنَّ أزواجَهم لا جُناح على مَنْ تَبَنَّاهُم نكاحهنَّ، وكان هذا من الأمور المعتادة التي لا تكاد تزولُ إلا بحادثٍ كبيرٍ، فأرادَ أن يكون هذا الشرع قولاً من رسوله وفعلاً، وإذا أراد الله أمراً؛ جعل له سبباً، فكان زيد بن حارثة يُدعى زيد بن محمد، قد تبنَّاه النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -، فصار يُدعى إليه، حتى نزل {ادْعوهم لآبائِهِم}؛ فقيل له: زيد بن حارثة، وكانت تحته زينب بنت جحش ابنة عمة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وكان قد وقع في قلبِ الرسول لو طلَّقها زيدٌ لتزوَّجها، فقدَّر الله أن يكون بينها وبين زيدٍ ما اقتضى أنْ جاء زيد بن حارثة يستأذنُ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - في فراقها؛ قال الله: {وإذْ تقولُ للذي أنعمَ اللهُ عليه}؛ أي: بالإسلام، {وأنعمتَ عليه}: بالعتق والإرشاد والتعليم حين جاءك مشاوراً في فراقها، فقلتَ له ناصحاً له ومخبراً بمصلحتِهِ مقدِّماً لها على رغبتِك مع وقوعها في قلبك: {أمسِكْ عليك زَوْجَكَ}؛ أي: لا تفارِقْها واصبِرْ على ما جاءك منها.
{واتَّقِ الله}: تعالى في أمورك عامَّةً وفي أمر زوجك خاصَّةً؛ فإنَّ التقوى تحثُّ على الصبر وتأمر به، {وتُخفي في نفسِكَ ما الله مُبديه}: والذي أخفاه أنَّه لو طلَّقها زيدٌ؛ لتزوَّجها - صلى الله عليه وسلم -، {وتخشى الناس}: في عدم إبداء ما في نفسك، {والله أحقُّ أن تخشاه}: فإنَّ خشيته جالبةٌ لكلِّ خيرٍ مانعةٌ من كلِّ شرٍّ، {فلما قضى زيدٌ منها وطراً}؛ أي: طابت نفسُه ورغِبَ عنها وفارقها، {زوَّجْناكها}: وإنَّما فَعَلْنا ذلك لفائدةٍ عظيمةٍ، وهي: {لكيلا يكونَ على المؤمنين حرجٌ في أزواج أدعيائِهِم}: حيث رأوك تزوَّجت زوج زيد بن حارثة الذي كان من قَبْلُ يَنْتَسِبُ إليك، ولما كان قولُه: {لِكَيْلا يكونَ على المؤمنين حرجٌ في أزواج أدعيائِهِم}: عامًّا في جميع الأحوال، وكان من الأحوال ما لا يجوز ذلك، وهي قبل انقضاء وطرِهِ منها؛ قيَّد ذلك بقوله: {إذا قَضَوْا منهنَّ وطراً وكان أمرُ الله مفعولاً}؛ أي: لا بدَّ من فعلِهِ ولا عائق له ولا مانع.
وفي هذه الآيات المشتملات على هذه القصة فوائد:
منها: الثناءُ على زيد بن حارثة، وذلك من وجهين: أحدِهما: أنَّ الله سمَّاه في القرآن ولم يسمِّ من الصحابة باسمه غيره. والثاني: أنَّ الله أخبر أنَّه أنعم عليه؛ أيْ: بنعمة الإسلام والإيمان، وهذه شهادةٌ من الله له أنه مسلم مؤمنٌ ظاهراً وباطناً، وإلاَّ؛ فلا وجه لتخصيصه بالنعمة؛ إلاَّ أنَّ المراد بها النعمة الخاصة.
ومنها: أن المُعْتَقَ في نعمة المعتِقِ.
ومنها: جواز تزوج زوجة الدَّعي كما صرح به.
ومنها: أنَّ التعليم الفعليَّ أبلغُ من القولي، خصوصاً إذا اقترن بالقول؛ فإنَّ ذلك نورٌ على نور.
ومنها: أن المحبة التي في قلب العبد لغير زوجته ومملوكته ومحارمه إذا لم يَقْتَرِنْ بها محذورٌ لا يأثم عليها العبد، ولو اقترن بذلك أمنيته أنْ لو طلَّقها زوجُها لتزوَّجها من غير أن يسعى في فرقةٍ بينَهما أو يتسبَّب بأيِّ سبب كان؛ لأنَّ الله أخبر أنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - أخفى ذلك في نفسه.
ومنها: أنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - قد بلَّغَ البلاغَ المبين، فلم يدعْ شيئاً مما أوحي إليه إلاَّ وبلَّغه، حتى هذا الأمر الذي فيه عتابه، وهذا يدلُّ على أنَّه رسولُ الله، ولا يقول إلاَّ ما أوحي إليه، ولا يريد تعظيمَ نفسِهِ.
ومنها: أنَّ المستشارَ مؤتمنٌ، يجبُ عليه ـ إذا استُشير في أمر من الأمور ـ أن يُشير بما يعلمُه أصلَح للمستشيرِ ، ولو كان له حظُّ نفس بتقدُّم مصلحة المستشير على هوى نفسه وغرضه.
ومنها: أنَّ من الرأي الحسن لمن استشار في فراق زوجة أن يُؤْمَرَ بإمساكها مهما أمكن صلاحُ الحال؛ فهو أحسن من الفرقة.
ومنها: أنَّه يتعيَّن أن يقدِّم العبد خشية الله على خشية الناس، وأنَّها أحقُّ منها وأولى.
ومنها: فضيلةُ زينب رضي الله عنها أم المؤمنين؛ حيث تولَّى الله تزويجها من رسوله - صلى الله عليه وسلم - من دون خطبة ولا شهودٍ، ولهذا كانت تفتخرُ بذلك على أزواج رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وتقول: زوَّجَكُنَّ أهاليكنَّ وزوَّجَني الله من فوق سبع سماواتٍ.
ومنها: أنَّ المرأة إذا كانت ذات زوج لا يجوزُ نِكاحها ولا السعيُ فيه وفي أسبابه حتى يقضِيَ زوجُها وَطَرَهُ منها، ولا يقضي وَطَرَهُ حتى تنقضيَ عِدَّتُها؛ لأنَّها قبل انقضاء عدتها وهي في عصمتِهِ أو في حقِّه الذي له وطرٌ إليها ولو من بعض الوجوه.
[37] ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ایک عام قانون مشروع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ منہ بولے بیٹے، تمام وجوہ سے، حقیقی بیٹوں کے حکم میں داخل نہیں ہیں اور ان کی بیویوں کے ساتھ، متبنیٰ بنانے والوں کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ معاملہ ان امور عادیہ میں شمار ہوتا تھا جو کسی بہت بڑے حادثے کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ یہ قانون رسول
(e)کے قول و فعل کے ذریعے سے وجود میں آئے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے کوئی سبب مقرر کر دیتا ہے۔
زید بن حارثہw کو ’’زید بن محمد‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا جنھیں نبی مصطفیٰ e نے اپنا متبنیٰ بنایا تھا۔ ان کو ’’زید بن محمد‘‘ کہا جاتا رہا حتیٰ کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی
﴿اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ﴾ (الاحزاب:33/5) ’’ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔‘‘ تب ان کو زید بن حارثہw کہا جانے لگا۔ ان کی بیوی ز ینب بنت جحشr رسول اللہ e کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ کو بذریعہ وحی مطلع کردیا گیا تھا کہ زید نے طلاق دے دینی ہے اور اس کے بعد اس کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا۔ اس وحی ٔالٰہی کی وجہ سے آپe یہ یقین رکھتے تھے کہ زید کے طلاق دینے کے بعد آپ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر کر دیا کہ حضرت زینبr اور حضرت زید بن حارثہw کے درمیان کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی بنا پر زیدt نے رسول اللہ e کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت ز ینبr کو طلاق دینے کی اجازت طلب کی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ ﴾ ’’جب آپ اس شخص سے، جس پر اللہ نے احسان کیا، کہہ رہے تھے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام سے سرفراز فرمایا
﴿وَاَنْعَمْتَ عَلَیْهِ ﴾ ’’اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا۔‘‘ یعنی آپ نے اس کو آزادی عطا کر کے اور ارشاد و تعلیم کے ذریعے سے اس پر احسان فرمایا۔ جب زیدt نبیe کے پاس اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ طلب کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے آپ نے اس کی خیرخواہی کرتے اور اس کو اس کی مصلحت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ ﴾ ’’اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو۔‘‘ یعنی اسے طلاق نہ دے اس کی طرف سے تمھیں جو کوئی تکلیف پہنچی ہے اس پر صبر کر۔
﴿وَاتَّ٘قِ اللّٰهَ ﴾ اپنے عام معاملات میں اور خاص طور پر اپنی بیوی کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر، کیونکہ تقویٰ صبر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے۔
﴿وَتُ٘خْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ ﴾ ’’اورآپ اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ رکھتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔‘‘ جو چیز آپ نے اپنے دل میں چھپائی ہوئی تھی وہ یہی تھی جس کی اطلاع آپ کو بذریعہ وحی دی گئی تھی کہ اگر زیدt زینبr کو طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کر لیں گے۔
﴿وَتَخْشَى النَّاسَ ﴾ ’’اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے‘‘ اس چیز کے عدم ظہور کے معاملے میں جو آپ کے دل میں ہے۔
﴿وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ ﴾ ’’حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔‘‘ کیونکہ اس کا خوف ہر بھلائی کے عطا ہونے کا سبب اور ہر برائی کے روکنے کا ذریعہ ہے۔
﴿فَلَمَّا قَ٘ضٰى زَیْدٌ مِّؔنْهَا وَطَرًا ﴾ ’’پس جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کر لی۔‘‘ یعنی جب زیدt نے خوش دلی سے اور حضرت ز ینبr میں بے رغبتی کے باعث طلاق دے دی
﴿زَوَّجْنٰـكَهَا﴾ ’’تو ہم نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا‘‘ اور ہم نے یہ سب کچھ ایک عظیم فائدے کے لیے کیا۔
﴿لِكَیْؔ لَا یَكُ٘وْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآىِٕهِمْ ﴾ ’’تاکہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔‘‘ یہ دیکھ کر کہ نبیe نے زید بن حارثہw کی مطلقہ سے نکاح کر لیا ہے جو اس سے قبل آپ کا منہ بولا بیٹا تھا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد:
﴿لِكَیْؔ لَا یَكُ٘وْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآىِٕهِمْ ﴾ تمام احوال میں عام ہے جبکہ بعض احوال میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوتااور وہ حالت حاجت پوری ہونے سے پہلے کی حالت ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ساتھ اسے مقید کر دیا کہ
﴿اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا ﴾ ’’جب وہ ان سے اپنی ضرورت پوری کر چکیں، اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہنے والا تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہوکر رہتا ہے اور اس کے لیے کوئی رکاوٹ اور کوئی مانع نہیں بن سکتا۔
ان آیات کریمہ سے، جو اس واقعے پر مشتمل ہیں،
متعدد نکات مستنبط ہوتے ہیں:
(۱) ان آیات کریمہ میں دو لحاظ سے حضرت زید بن حارثہw کی مدح کی گئی ہے:
(ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کا نام ذکر کیا ہے جبکہ آپ کے علاوہ صحابہ میں سے کسی صحابی کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں۔
(ب) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے زید
(t) کو نعمت سے نوازا یعنی اسلام اور ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گواہی ہے کہ زید ظاہری اور باطنی طور پر مسلمان اور مومن تھے ورنہ اس نعمت کو ان کے ساتھ مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں، سوائے اس کے کہ اس سے مراد نعمت خاص ہے۔
(۲) جس شخص کو آزاد کیا گیا ہو وہ آزاد کرنے والے کا ممنونِ نعمت ہے۔
(۳) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے جیسا کہ اس کی تصریح کی گئی ہے۔
(۴) ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عملی تعلیم، قولی تعلیم سے زیادہ بلیغ اور مؤثر ہے خاص طور پر جب عملی تعلیم قولی تعلیم سے مقرون ہو تو پھر ’’سونے پہ سہاگہ‘‘ ہے۔
(۵) بندے کے دل میں اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی اور عورت کی رغبت کا پیدا ہوجانا قابل گرفت نہیں ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ رغبت یا محبت فعل حرام سے مقرون نہ ہو۔ بندہ اس محبت پر گناہ گار نہیں خواہ اس کی یہ آرزو ہی کیوں نہ ہو کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ اس سے نکاح کرے گا، مگر وہ کسی بھی سبب سے ان کے درمیان جدائی ڈالنے کے لیے کوشش نہ کرے۔
(۶) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ e نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کو واضح طریقے سے پہنچا دیا۔ آپ کی طرف جو کچھ بھی وحی کیا گیا وہ سب پہنچا دیا اور کچھ بھی باقی نہیں رکھا حتی کہ وہ حکم بھی پہنچایا جس میں آپ پر عتاب کیا گیا تھا اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور وہی بات کہتے ہیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور آپ اپنی بڑائی نہیں چاہتے۔
(۷) آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے، جب بھی کسی معاملے میں اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ اپنے علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے مفاد کو اپنی خواہش نفس اور اپنی غرض پر مقدم رکھے، خواہ اس میں اس کا اپنا حظ نفس ہی کیوں نہ ہو۔
(۸) جو کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے مشورہ طلب کرتا ہے، اس کے لیے بہترین رائے یہ ہے کہ جہاں تک اصلاح احوال ممکن ہو، اس کو اپنی بیوی کو طلاق نہ دینے کا مشورہ دیا جائے کیونکہ بیوی کو اپنے پاس رکھنا، طلاق دینے سے بہتر ہے۔
(۹) یہ بات متعین ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے خوف کو لوگوں کے خوف پر مقدم رکھے اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہی زیادہ لائق اور اولیٰ ہے۔
(۱۰) ان آیات کریمہ سے ام المومنین حضرت ز ینب بنت جحش r کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ ان کے نکاح کی اللہ تعالیٰ نے سرپرستی فرمائی جس میں کوئی خطبہ تھا نہ گواہ۔ بنا بریں ز ینب r رسول اللہe کی دیگر ازواج مطہراتg پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں،
فرمایا کرتی تھیں: ’’تمھارا نکاح تمھارے گھر والوں نے کیا ہے میرا نکاح سات آسمانوں پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔‘‘
(۱۱) ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت شادی شدہ ہو اور اس کا شوہر موجود ہو تو اس کے ساتھ نکاح جائز ہے نہ اس کے اسباب میں کوشش کرناجائز ہے جب تک اس کا شوہر اس سے اپنی حاجت پوری نہ کرے اور اس کی حاجت اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق کی عدت پوری نہ ہو جائے کیونکہ عورت عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی حفاظت میں ہوتی ہے خواہ کسی بھی پہلو سے ہو۔
{مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا (38) الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (39)}
اور نہیں ہے اوپر نبی کے کوئی حرج اس بات میں جو فرض
(مقدر) کر دی اللہ نے اس کے لیے،
(یہ) طریقۂ الٰہی
(رہا) ہے ان لوگوں
(انبیاء) میں جو گزر گئے اس سے قبل اور ہے حکم اللہ کا اندازہ مقرر کیا ہوا
(38)وہ لوگ
(انبیاء) جو پہنچاتے ہیں پیغام اللہ کے اور وہ ڈرتے ہیں اس سے اور نہیں وہ ڈرتے کسی سے بھی سوائے اللہ کے ، اور کافی ہے اللہ حساب لینے والا
(39)
#
{38} هذا دفعٌ لطعن من طعن في الرسول - صلى الله عليه وسلم - في كثرة أزواجه، وأنَّه طعنٌ بما لا مطعنَ فيه، فقال: {ما كان على النبيِّ من حرجٍ}؛ أي: إثم وذنب {فيما فَرَضَ الله له}؛ أي: قدَّر له من الزوجات؛ فإنَّ هذا قد أباحه الله له كما أباحه للأنبياء قبلَه، ولهذا قال: {سنةَ الله في الذين خَلَوا من قبلُ وكان أمرُ الله قَدَراً مَقْدوراً}؛ أي: لا بدَّ من وقوعِهِ.
[38] یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو کثرت ازواج کے ضمن میں آپe پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جبکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں طعن کی کوئی گنجائش نہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ ﴾ ’’نبی پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ یعنی گناہ
﴿فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ﴾ ’’ان چیزوں میں جنھیں اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے جو بیویاں مقرر کی ہیں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے کثرت ازواج کو اسی طرح مباح کیا ہے جس طرح آپ سے پہلے دیگر انبیاء کے لیے مباح کیا۔ ،
اس لیے فرمایا: ﴿سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا﴾ ’’جو لوگ پہلے گزر گئے ان میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کا حکم ٹھہر چکا ہے۔‘‘ یعنی اس کا وقوع پذیر ہونا ضروری ہے۔
#
{39} ثم ذَكَرَ مَنْ هم الذين من قبلُ قد خلو وهذه سنتهم وعادتهم، وأنهم {الذين يبلِّغونَ رسالاتِ الله}: فيتلون على العباد آياتِ الله وحججه وبراهينه ويدعونَهم إلى الله، {ويَخْشَوْنَه}: وحدَه لا شريك له، {ولا يَخْشَوْنَ أحداً}: إلاَّ الله؛ فإذا كان هذا سنة في الأنبياء المعصومين الذين وظيفتهم قد أدَّوْها وقاموا بها أتم القيام، وهو دعوةُ الخلق إلى الله والخشية منه وحده، التي تقتضي فعل كل مأمور وترك كل محظور، [دلّ ذلك على أنه لا نقص فيه بوجه]. {وكفى بالله حسيباً}: محاسباً عبادَه مراقباً أعمالهم. وعُلِمَ من هذا أنَّ النكاحَ من سنن المرسلين.
[39] پھر ذکر فرمایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں جن کی یہ عادت اور سنت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں
﴿الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰؔلٰتِ اللّٰهِ ﴾ ’’جو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں۔‘‘ جو بندوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کے دلائل و براہین کی تلاوت کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
﴿وَیَخْشَوْنَهٗ ﴾ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک سے ڈرتے ہیں۔
﴿وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا ﴾ ’’اور وہ
(اللہ کے سوا) کسی سے نہیں ڈرتے۔‘‘
یہ انبیائے معصومین کی سنت میں شامل ہے جنھوں نے اپنا وظیفہ ادا کر دیا اور اسے مکمل طور پر قائم کیا اور وہ وظیفہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا اور صرف اسی کی خشیت کی ترغیب دینا ہے جو ہر فعل مامور کو بجا لانے اور فعل محظور سے اجتناب کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس میں کسی طرح بھی کوئی نقص نہیں۔
﴿وَكَ٘فٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا محاسبہ کرنے اور ان کے اعمال کی نگرانی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح تمام انبیاء و مرسلین کی سنت ہے۔
{مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (40)}
نہیں ہیں محمد
(e)باپ کسی کے تمھارے مردوں میں سے لیکن رسول ہیں اللہ کے اور خاتم ہیں نبیوں کے اور ہے اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا
(40)
#
{40} أي: لم يكن الرسول {محمدٌ}: - صلى الله عليه وسلم - {أبا أحدٍ من رجالِكم}: أيُّها الأمة، فقطع انتساب زيد بن حارثة منه من هذا الباب. ولما كان هذا النفيُ عامًّا في جميع الأحوال إنْ حُمِلَ ظاهر اللفظ على ظاهره؛ أي: لا أبوَّة نسب ولا أبوَّة ادعاء، وكان قد تقرَّر فيما تقدَّم أنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - أبٌ للمؤمنين كلِّهم، وأزواجَه أمهاتُهم، فاحترز أن يدخُل هذا النوع بعموم النهي المذكور؛ فقال: {ولكن رسولَ الله وخاتَمَ النبيينَ}؛ أي: هذه مرتبته؛ مرتبةُ المطاع المتبوع المهتدَى به الْمُؤْمَنِ له الذي يجبُ تقديم محبته على محبة كلِّ أحدٍ، الناصح، الذي لهم ـ أي: للمؤمنين ـ من بره ونُصحه كأنه أبٌ لهم، {وكان الله بكل شيءٍ عليماً}؛ أي: قد أحاط علمُه بجميع الأشياء، ويعلم حيث يجعل رسالاتِهِ، ومن يَصْلُحُ لفضله ومَنْ لا يَصْلُح.
[40] نہیں ہیں رسول اللہ
﴿مُحَمَّدٌ﴾ حضرت محمدe
﴿اَبَ٘اۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ ﴾ ’’تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ۔‘‘ اس سے آپe کی طرف حضرت زید بن حارثہw کا انتساب منقطع ہوگیا۔
جب یہ نفی تمام احوال میں عام ہے تو اگر لفظ کو اپنے ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے، یعنی آپe نسب کے اعتبار سے کسی کے باپ ہیں نہ کسی منہ بولے بیٹے کے باپ ہیں جبکہ گزشتہ سطور میں یہ بات متحقق ہو چکی ہے کہ رسول اللہ e تمام مومنوں کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں، اس لیے احتراز فرمایا، تاکہ یہ نوع متذکرہ صدر عموم نہی میں داخل نہ ہو ،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ﴾ ’’بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘ یہ آپ کا مرتبہ مطاع ومتبوع کا مرتبہ ہے آپ پر ایمان لانے والا آپ کی پیروی کرتا ہے، آپ کی محبت کو ہر کسی کی محبت پر مقدم کرتا ہے۔ آپ اہل ایمان کے خیر خواہ ہیں، اپنی خیر خواہی اور حسن سلوک کی بنا پر گویا آپ ان کے باپ ہیں۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس کے علم نے تمام اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کی ذمہ داری کسے عطا کرے؟ کون اس کے فضل و کرم کا اہل اور کون اہل نہیں ہے؟
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا (41) وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (42) هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (43) تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا (44)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کرو اللہ کویاد کرنا بہت زیادہ
(41) اور تسبیح بیان کرو تم اس کی صبح و شام
(42) وہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے تم پر اور اس کےفرشتے
(رحمت کی دعا کرتے ہیں)تاکہ وہ نکالے تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور ہے وہ مومنوں پربہت رحم کرنے والا
(43) ان کی دعا ہو گی جس دن ملیں گے وہ اس
(اللہ) کو، سلام اور تیار کیا ہے اللہ نے ان کے لیے اجر عزت والا
(44)
#
{41} يأمر تعالى المؤمنين بذكره ذكراً كثيراً؛ من تهليل وتحميد وتسبيح وتكبير وغير ذلك من كل قولٍ فيه قُربة إلى الله، وأقلُّ ذلك أن يلازِمَ الإنسان أوراد الصباح والمساء وأدبار الصلوات الخمس وعند العوارضِ والأسباب، وينبغي مداومة ذلك في جميع الأوقات على جميع الأحوال؛ فإنَّ ذلك عبادةٌ يسبِقُ بها العامل وهو مستريحٌ وداعٍ إلى محبة الله ومعرفتِهِ وعونٌ على الخير وكفٌّ للسان عن الكلام القبيح.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ تہلیل و تحمید اور تسبیح و تکبیر وغیرہ کے ذریعے سے کہ جن میں سے ہر کلمہ تقرب الٰہی کا وسیلہ ہے نہایت کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کریں۔ قلیل ترین ذکر یہ ہے کہ انسان صبح شام اور نمازوں کے بعد کے اذکار کا التزام کرے نیز مختلف عوارض اور اسباب کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ تمام اوقات اور تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر پر دوام کرے، کیونکہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے سے عمل کرنے والا آرام کرتے ہوئے بھی سبقت لے جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی معرفت کی طرف دعوت دیتا ہے، بھلائی پر مددگار ہے اور زبان کو گندی باتوں سے باز رکھتا ہے۔
#
{42} {وسبِّحوه بكرةً وأصيلاً}؛ أي: أول النهار وآخره؛ لفضلهما وشرفهما وسهولة العمل فيهما.
[42] ﴿وَّسَبِّحُوْهُ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ اورصبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو کیونکہ صبح اور شام دونوں فضیلت کے حامل اوقات ہیں اور ان میں عمل کرنا بھی نہایت سہل ہوتا ہے۔
#
{43} {هو الذي يصلِّي عليكُم وملائكتُه ليخرِجَكم من الظلماتِ إلى النور وكان بالمؤمنين رحيماً}؛ أي: من رحمته بالمؤمنين ولطفه بهم أنْ جَعَلَ من صلاتِهِ عليهم وثنائِهِ وصلاةِ ملائكته ودعائهم ما يخرِجُهم من ظلمات الذُّنوب والجهل إلى نورِ الإيمان والتوفيق والعلم والعمل؛ فهذه أعظمُ نعمةٍ أنعم بها على العباد الطائعين، تستدعي منهم شكرها والإكثار من ذكر الله الذي لطف بهم ورحمهم وجعل حملةَ عرشهِ أفضل الملائكة ومن حوله يسبِّحون بحمدِ ربِّهم، ويستغفرونَ للذين آمنوا، فيقولون: {ربَّنا وسعتَ كلَّ شيءٍ رحمةً وعلماً فاغفر للذين تابوا واتَّبَعوا سبيلَكَ وقِهِمْ عذابَ الجحيم. ربَّنا وأدْخِلْهم جناتِ عدنٍ التي وَعَدْتَهم ومَن صَلَحَ من آبائهم وأزواجهم وذُرِّيَّاتِهِم إنَّك أنت العزيزُ الحكيم. وقِهِمُ السيئاتِ ومَن تَقِ السيئاتِ يومئذٍ فقد رَحِمْتَه وذلك الفوزُ العظيم}: فهذه رحمتُه ونعمتُه عليهم في الدُّنيا.
[43] ﴿هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَمَلٰٓىِٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا ﴾ ’’وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تمھارے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور اللہ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے۔‘‘ یعنی اہل ایمان پر یہ اس کی بے پایاں رحمت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے ان کو اپنی برکت، اپنی مدح و ثنا اور فرشتوں کی دعاؤ ں سے نوازا جو انھیں گناہوں اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان، توفیق،
علم اور عمل کی روشنی میں لاتی ہیں۔ یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے اطاعت کیش بندوں کو سرفراز فرمایا۔ یہ نعمت ان سے اللہ تعالیٰ کے شکر اور کثرت کے ساتھ اس کے ذکر کا مطالبہ کرتی ہے جس نے ان پر رحم اور لطف و کرم کیا۔ اس کے عرش عظیم کو اٹھانے والے اور اس کے اردگرد موجود افضل ترین فرشتے اپنے رب کی تحمید کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ﴿رَبَّنَا وَسِعْتَ كُ٘لَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْ٘فِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۰۰ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِنِ الَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَ٘حَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ۰۰ وَقِهِمُ السَّیِّاٰتِ١ؕ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗ١ؕ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (المؤمن:40؍7-9) ’’اے ہمارے رب! تو نے اپنی رحمت اور علم کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، پس تو ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی اور انھیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے رب! تو داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں، جن کا تو نے ان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے اور ان کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے ان لوگوں کو بھی
(ان جنتوں میں داخل کر) جو نیک ہیں۔ بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے اور تو ان کو برائیوں سے بچا اور جس کو تو نے اس روز برائیوں سے بچا دیا، تو تُو نے اس پر رحم کیا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ان پر اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور نعمت دنیا میں ہے۔
#
{44} وأما رحمتُه بهم في الآخرة؛ فأجلُّ رحمة وأفضلُ ثواب، وهو الفوز برضا ربِّهم وتحيَّته، واستماع كلامه الجليل، ورؤية وجهِهِ الجميل، وحصول الأجر الكبير الذي لا يدريه ولا يعرِفُ كُنْهَهُ إلاَّ من أعطاهم إياه، ولهذا قال: {تحيَّتُهم يوم يَلْقَوْنَه سلامٌ وأعدَّ لهم أجراً كريماً}.
[44] ان پر آخرت میں جو رحمت ہو گی وہ جلیل ترین رحمت اور افضل ترین ثواب ہے اور یہ ہے اپنے رب کی رضا کے حصول میں فوزیاب ہونا، ان کے رب کی طرف سے سلام، اس کے کلام جلیل کا سماع، اس کے چہرۂ مبارک کا دیدار اور بہت بڑے اجر کا حصول جس کو کوئی جان سکتا ہے نہ اس کی حقیقی معرفت حاصل کر سکتا ہے،
سوائے ان لوگوں کے جن کو وہ خود عطا کر دے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْ٘قَوْنَهٗ سَلٰ٘مٌ١ۚ ۖ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا ﴾ ’’جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا تحفہ سلام ہو گا اور اس نے ان کے لیے اجرِ کریم تیار کر رکھا ہے۔‘‘
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (45) وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (46) وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا (47) وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا (48)}
اے نبی! بلاشبہ ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہی دینے والا اور خوش خبری سنانے والااور ڈرانے والا
(45) اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور چراغ روشن
(بنا کر) (46) اورخوشخبری دے دیجیے مومنوں کو، اس بات کی کہ بے شک ان کے لیے ہے اللہ کی طرف سے فضل بہت بڑا
(47) اور نہ اطاعت کیجیے کافروں اور منافقوں کی اور نظر انداز کر دیجیے ان کی ایذا رسانی کو اور توکل کیجیے اللہ پر، اور کافی ہے اللہ کارساز
(48)
#
{45} هذه الأشياء التي وصف الله بها رسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم - هي المقصود من رسالتِهِ وزبدتها وأصولها التي اختصَّ بها، وهي خمسةُ أشياء: أحدها: كونُه {شاهداً}؛ أي: شاهداً على أمته بما عملوه من خيرٍ وشرٍّ؛ كما قال تعالى: {لِتكونوا شهداءَ على الناس ويكون الرسولُ عليكم شهيداً}، {فكيف إذا جئنا من كلِّ أمةٍ بشهيدٍ [وجئنا بك على هؤلاء شهيداً]}: فهو - صلى الله عليه وسلم - شاهدُ عدل مقبول.
الثاني والثالث: كونه {مبشِّراً ونذيراً}: وهذا يستلزم ذكر المبشَّر والمنذَر وما يبشَّر به ويُنْذَرُ والأعمال الموجبة لذلك: فالمبشَّر هم المؤمنون المتقون، الذين جمعوا بين الإيمان والعمل الصالح وترك المعاصي، لهم البُشرى في الحياة الدنيا بكل ثواب دنيويٍّ ودينيٍّ رُتِّبَ على الإيمان والتقوى، وفي الأخرى بالنعيم المقيم، وذلك كلُّه يستلزم ذكر تفصيل المذكور من تفاصيل الأعمال وخصال التقوى وأنواع الثواب. والمنذَر هم المجرمون الظالمون، أهلُ الظلم والجهل، لهم النذارةُ في الدنيا من العقوبات الدنيويَّة والدينيَّة المرتَّبة على الجهل والظلم، وفي الأخرى بالعقاب الوبيل والعذاب الطويل. وهذه الجملة تفصيلُها ما جاء به - صلى الله عليه وسلم - من الكتاب والسنَّة المشتمل على ذلك.
[45] یہ صفات گرامی جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفیٰ e کو موصوف کیا ہے، آپ کی رسالت کا مقصود و مطلوب اور اس کی بنیاد ہیں،
جن سے آپ کو مختص کیا گیا اوروہ پانچ چیزیں ہیں:
(۱) ﴿شَاهِدًا ﴾ یعنی آپ کا اپنی امت کے اچھے اور برے اعمال پر گواہ ہونا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لِّتَكُ٘وْ٘نُوْا شُهَدَآءَؔ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُ٘وْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ﴾ (البقرہ:2؍143) ’’تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔‘‘ اور فرمایا:
﴿فَكَـیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُ٘لِّ اُمَّؔةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا﴾ (النساء:4؍41) ’’پس کیاحال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کو بلائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ کے طور پر طلب کریں گے۔‘‘
(۳،۲) ﴿مُبَشِّ٘رًا وَّنَذِیْرًا﴾ یہ مُبَشَّر اور مُنْذَر کے ذکر کو ، نیز جس چیزکی خوشخبری دی جائے اور جس سے ڈرایا جائے اور انذار وتبشیر والے اعمال کے ذکر کو مستلزم ہے۔ پس
(اَلْمُبَشَّرُ) ’’جس کو خوشخبری دی گئی ہو‘‘ سے مراد اہل ایمان اور اہل تقویٰ لوگ ہیں جنھوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع اور معاصی کو ترک کیا ہے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ہر قسم کے دینی اور دنیاوی ثواب کی بشارت ہے جو ایمان اور تقویٰ پر مترتب ہوتا ہے اور آخرت میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ یہ سب کچھ اعمال کی تفاصیل تقویٰ کے خصائل اور ثواب کی اقسام کے ذکر کو مستلزم ہے۔
(اَلْمُنْذَرُ) سے مراد مجرم، ظالم اور جاہل لوگ ہیں، جن کے لیے اس دنیا میں دینی اور دنیاوی عقوبات کے ذریعے سے ڈرانا ہے جو ظلم اور جہالت پر مترتب ہوتی ہیں اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والا دردناک عذاب ہو گا۔
رسول اللہe جو کتاب وسنت لائے ہیں یہ جملہ تفاصیل اسی پر مشتمل ہیں۔
#
{46} الرابع: كونُه {داعياً إلى الله}؛ أي: أرسله الله يدعو الخلق إلى ربِّهم ويشوِّقُهم لكرامته ويأمُرُهم بعبادتِهِ التي خُلقوا لها، وذلك يستلزم استقامتَه على ما يدعو إليه وذِكْرَ تفاصيل ما يدعو إليه؛ بتعريفهم لربِّهم بصفاتِهِ المقدَّسة، وتنزيهه عما لا يَليق بجلالِهِ، وذكر أنواع العبوديَّة، والدعوة إلى الله بأقرب طريق موصل إليه، وإعطاء كلِّ ذي حقٍّ حقَّه، وإخلاص الدَّعوة إلى الله لا إلى نفسه وتعظيمها؛ كما قد يعرضُ ذلك لكثير من النفوس في هذا المقام، وذلك كلُّه بإذن ربه له في الدعوة وأمره وإرادتِهِ وقدره.
الخامس: كونه {سراجاً منيراً} وذلك يقتضي أنَّ الخلق في ظلمة عظيمة، لا نور يُهتدى به في ظلماتها، ولا علم يُستدلُّ به في جهاتها، حتى جاء الله بهذا النبيِّ الكريم، فأضاء الله به تلك الظلمات، وعلَّم به من الجهالات، وهدى به ضلالاً إلى الصراط المستقيم، فأصبح أهل الاستقامة قد وَضَحَ لهم الطريق، فَمَشَوْا خلف هذا الإمام، وعرفوا به الخير والشرَّ وأهلَ السعادة من أهل الشقاوة، واستناروا به لمعرفةِ معبودِهم، وعرفوه بأوصافِهِ الحميدةِ وأفعالِهِ السَّديدة وأحكامه الرشيدة.
[46] (۴) ﴿دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ آپ مخلوق کو ان کے رب کی طرف دعوت دیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کا شوق پیدا کریں اور ان کو اس کی عبادت کا حکم دیں جس کے لیے ان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ چیز ان امور پر استقامت کا تقاضا کرتی ہے جس کی دعوت دی گئی ہے اور یہ چیز ان کے اپنے رب کی، اس کی صفات مقدسہ کے ذریعے سے معرفت اور جو صفات اس کے جلال کے لائق نہیں ان صفات سے اس کی ذات مقدس کی تنزیہ جیسے امور کی تفاصیل کا تذ کرہ ہے جن کی طرف انھیں دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عبودیت کی مختلف انواع کا ذکر کیا، قریب ترین راستے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا، ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرنا، دعوت الیٰ اللہ اپنے نفس کی تعظیم کے لیے نہ ہو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جیسا کہ اس مقام پر بہت سے نفوس کو کبھی کبھی یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔
(۵) ﴿سِرَاجًا مُّنِیْرًا ﴾ ’’روشن چراغ‘‘ یہ لفظ دلالت کرتا ہے کہ تمام مخلوق بہت بڑی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں روشنی کی کوئی کرن نہ تھی جس سے راہ نمائی حاصل کی جا سکتی، نہ کوئی علم تھا کہ اس جہالت میں کوئی دلیل مل سکتی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کریمe کو مبعوث فرمایا، آپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تاریکیوں کا پردہ چاک کر دیا، آپ کے ذریعے سے جہالتوں کے اندھیروں میں علم کی روشنی پھیلائی اور آپ کے ذریعے سے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھایا۔
پس اہل استقامت کے لیے راستہ واضح ہو گیا اور وہ اس راہنما
(e)کے پیچھے چل پڑے۔ انھوں نے اس کے ذریعے سے خیروشر، اہل سعادت اور اہل شقاوت کو پہچان لیا۔ انھوں اپنے رب کی معرفت کے لیے اس سے روشنی حاصل کی اور انھوں نے اپنے رب کو اس کے اوصاف حمیدہ، افعال سدیدہ اور احکام رشیدہ کے ذریعے سے پہچان لیا۔
#
{47} وقوله: {وبشِّرِ المؤمنين بأنَّ لهم من الله فضلاً كبيراً}: ذكر في هذه الجملة المبشَّر، وهم المؤمنون، وعند ذِكْرِ الإيمان بمفردِهِ تدخُلُ فيه الأعمال الصالحة، وذَكَرَ المبشَّر به، وهو الفضلُ الكبيرُ؛ أي: العظيم الجليل الذي لا يقادَر قَدْرُهُ من النصر في الدنيا وهداية القلوب وغفران الذنوب وكشف الكروب وكثرة الأرزاق الدارَّة وحصول النعم السارَّة والفوز برضا ربِّهم وثوابه والنجاة من سخطه وعقابِهِ، وهذا مما ينشِّطُ العاملين أن يذكُرَ لهم من ثواب الله على أعمالهم ما به يستعينونَ على سلوك الصراط المستقيم، وهذا من جملةِ حِكَم الشرع: كما أنَّ من حِكَمه أن يَذْكُرَ في مقام الترهيب العقوباتِ المرتَّبةَ على ما يُرَهَّبُ منه؛ ليكون عوناً على الكفِّ عما حرم الله.
[47] ﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا ﴾ ’’آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجیے! ان کے لیے اللہ کے طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔‘‘ اس جملے میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو خوشخبری دی گئی ہے اور وہ اہل ایمان ہیں۔ جب کہیں ایمان کو مفرد طور پر ذکر کیا جائے تو اس میں عمل صالح داخل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا جن کی خوشخبری دی گئی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اور جلیل القدر فضل، جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ،
مثلاً: اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت، ہدایتِ قلوب، گناہوں کی بخشش، تکلیفوں کا دور ہونا، رزق کی کثرت اور ارزانی، خوش کن نعمتوں کا حصول، اپنے رب کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول میں کامیابی اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات... یہ وہ امور ہیں جن کے ذکر سے عمل کرنے والوں کو نشاط حاصل ہوتا ہے، جن سے وہ صراط مستقیم پر گامزن ہونے میں مدد لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جیسا کہ یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ وہ ترہیب کے مقام پر عقوبتوں کا ذکر کرتا ہے جو ان افعال پر مترتب ہوتی ہیں جن سے ڈرایا گیا ہے کہ یہ ترہیب ان امور سے باز رہنے میں مدد دے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔
#
{48} ولمَّا كان ثَمَّ طائفةٌ من الناس مستعدةٌ للقيام بصدِّ الداعين إلى الله من الرسل وأتباعهم، وهم المنافقون الذين أظهروا الموافقةَ في الإيمان وهم كفرةٌ فجرةٌ في الباطن، والكفار ظاهراً وباطناً؛ نهى الله رسوله عن طاعتهم وحذره ذلك، فقال: {ولا تطع الكافرينَ والمنافقينَ}؛ أي: في كلِّ أمر يصدُّ عن سبيل الله، ولكن لا يقتضي هذا أذاهم، بل لا تُطِعْهُم، {ودَعْ أذاهم}: فإنَّ ذلك جالبٌ لهم وداعٍ إلى قبول الإسلام وإلى كفِّ كثير من أذيَّتِهِم له ولأهله، {وتوكَّلْ على الله}: في إتمام أمرِكَ وخذلانِ عدوِّك، {وكفى بالله وكيلاً}: تُوكَلُ إليه الأمور المهمَّة، فيقوم بها ويسهِّلُها على عبده.
[48] لوگوں میں سے ایک گروہ، دعوت الیٰ اللہ کا کام کرنے والے انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کی راہ روکنے کے لیے ہر وقت مستعد رہتا ہے۔ یہ وہ منافق ہیں جو ایمان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ باطن میں درحقیقت کافر اور فاجر ہوتے ہیں اور وہ کفار ہیں جو ظاہر اور باطن میں کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کو ان کی اطاعت کرنے سے روکا ہے اور ان کے برے منصوبوں سے ہوشیار کیا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَا تُ٘طِعِ الْ٘كٰفِرِیْنَ وَالْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔‘‘ یعنی کسی بھی ایسے معاملے میں ان کی بات نہ مانیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے۔ یہ بات ان کو اذیت دینے کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ حکم یہ ہے کہ آپ ان کی اطاعت نہ کیجیے۔
﴿وَدَعْ اَذٰىهُمْ ﴾ ’’اور انھیں اذیت پہنچانے کو ترک کردیں۔‘‘ کیونکہ یہ چیز ان کو قبول اسلام کی طرف بلاتی ہے، آپ کو اور آپ کے گھر والوں کوبہت سی اذیتوں سے بچاتی ہے۔
﴿وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ ﴾ اپنے کام کی تکمیل اور اپنے دشمن کے خذلان میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔
﴿وَكَ٘فٰى بِاللّٰهِ وَؔكِیْلًا﴾ ’’اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘ بڑے بڑے امور اس کے سپرد کیے جاتے ہیں وہ ان کا انتظام کرتا ہے اور انھیں اپنے بندے کے لیے آسان کر دیتا ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (49)}
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! جب نکاح کرو تم مومن عورتوں سے، پھر طلاق دے دو تم ان کو، پہلے اس سے کہ چھوؤ تم ان کو، تو نہیں ہے تمھارے لیے ان پر کوئی عدت، کہ شمار کرو تم اس
(عدت) کو، پس کچھ فائدہ دو تم ان کو اور رخصت کرو تم ان کو رخصت کرنا اچھا
(49)
#
{49} يخبر تعالى المؤمنين أنَّهم إذا نكحوا المؤمنات ثم طلَّقوهنَّ من قبل أن يَمَسُّوهنَّ؛ فليس عليهنَّ في ذلك عدَّةٌ يعتدُّها أزواجهنَّ عليهن، وأمرهم بتمتيعهنَّ بهذه الحالة بشيء من متاع الدُّنيا الذي يكون فيه جبرٌ لخواطرهنَّ لأجل فراقهنَّ، وأن يفارِقوهنَّ فراقاً جميلاً من غير مخاصمةٍ ولا مشاتمةٍ ولا مطالبةٍ ولا غير ذلك.
ويستدلُّ بهذه الآية على أنَّ الطلاق لا يكونُ إلاَّ بعد النكاح، فلو طلَّقها قبل أن ينكحَها أو علَّق طلاقَها على نكاحها؛ لم يقع؛ لقوله: {إذا نَكَحْتُمُ المؤمناتِ ثم طلَّقْتُموهنَّ}، فجعل الطلاق بعد النكاح، فدل على أنَّه قبل ذلك لا محلَّ له. وإذا
كان الطلاق الذي هو فرقةٌ تامةٌ وتحريمٌ تامٌّ لا يقع قبل النكاح؛ فالتحريمُ الناقص لظهارٍ أو إيلاءٍ ونحوه من باب أولى وأحرى أن لا يقعَ قبل النكاح؛ كما هو أصحُّ قولي العلماء.
و [يدل] على جواز الطلاق لأنَّ الله أخبر به عن المؤمنين على وجهٍ لم يلُمهم عليه، ولم يؤنِّبهم مع تصدير الآية بخطاب المؤمنين.
وعلى جوازه قبل المسيس؛ كما قال في الآية الأخرى: {لا جُناحَ عليكم إن طَلَّقْتُمُ النساءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهنَّ}.
وعلى أنَّ المطلقة قبل الدخول لا عدَّةَ لها، بل بمجرَّدِ طلاقِها يجوزُ لها التزوجُ حيث لا مانعَ.
وعلى أنَّ عليها العدَّة بعد الدُّخول. وهل المراد بالدخول والمسيس الوطءُ كما هو مجمعٌ عليه أو وكذلك الخلوة ولو لم يحصُلْ معها وطءٌ كما أفتى بذلك الخلفاءُ الراشدون، وهو الصحيح؛ فمتى دَخَلَ عليها وطئها أم لا، إذا خلا بها، وجب عليها العِدَّة.
وعلى أنَّ المطلقة قبل المسيس تُمتَّع على الموسع قدره وعلى المُقْتِرِ قدرُهُ، ولكن هذا إذا لم يفرض لها مهرٌ؛ فإنْ كان لها مهرٌ مفروضٌ؛ فإنَّه إذا طَلَّقَ قبل الدُّخول؛ تَنَصَّفَ المهر، وكفى عن المتعة.
وعلى أنه ينبغي لمن فارق زوجته قبل الدُّخول أو بعده أن يكون الفراقُ جميلاً يَحمدُ فيه كلٌّ منهما الآخر، ولا يكون غيرَ جميل؛ فإنَّ في ذلك من الشرِّ المترتِّب عليه من قدح كلٍّ منهما بالآخر شيء كثير.
وعلى أن العدَّة حقٌّ للزوج؛ لقوله: {فما لكم عليهن من عدَّةٍ}: دلَّ مفهومُه أنّه لو طلَّقها بعد المسيس؛ كان له عليها عدة.
وعلى أنَّ المفارقة بالوفاة تعتدُّ مطلقاً؛ لقوله: {ثم طلَّقْتُموهنَّ ... } الآية.
وعلى أنَّ مَن عدا غير المدخول بها من المفارَقات من الزوجات بموتٍ أو حياةٍ عليهنَّ العدة.
[49] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ جب وہ مومن عورتوں کے ساتھ نکاح کریں، پھر ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دیں تو اس صورت میں مطلقہ عورتوں پر کوئی عدت نہیں، مگر اللہ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی ان کو کچھ متاع دیں جو ان کی اس دل شکنی کا ازالہ کرے گی جو انھیں طلاق کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے، نیز انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی مخاصمت، گالی گلوچ اور کسی مطالبہ وغیرہ کے بغیر اچھے طریقے سے ان کو علیحدہ کریں۔
اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہوتی ہے اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دے دے یا طلاق کو نکاح پر معلق کر دے، تو یہ طلاق واقع نہیں ہو گی،
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿اِذَا نَؔكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْ٘تُمُوْهُنَّ﴾ (الاحزاب:33؍49) ’’جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو ، پھر ان کو طلاق دے دو۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد مقرر فرمایا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نکاح سے قبل طلاق کا کوئی مقام نہیں، چونکہ طلاق ایک مکمل جدائی اور مکمل تحریم ہے اس لیے نکاح سے قبل واقع نہیں ہو سکتی، جب یہ بات ہے تو ظہار یا ایلا وغیرہ کا، جو کہ تحریم ناقص ہے، نکاح سے قبل واقع نہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم کی صحیح ترین رائے ہے۔
یہ آیت کریمہ طلاق کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کی طلاق کے بارے میں خبر دی، اس پر ان کو کوئی ملامت کی نہ ان پر کوئی گرفت کی،
حالانکہ آیت کریمہ اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ صادر ہوئی ہے۔
یہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جا سکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿لَاجُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ ﴾ (البقرۃ:2؍236) ’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔‘‘
یہ آیت کریمہ اس پر دلیل ہے کہ اگر عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر مجرد طلاق کی بنا پر عدت واجب نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ کوئی مانع موجود نہیں ہے۔
اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ دخول اور چھونے کے بعد طلاق دینے سے عدت واجب ہو جاتی ہے۔
کیا ’’دخول‘‘ اور ’’چھونے‘‘ سے مراد مجامعت ہے جیسا کہ اس پر تو اجماع ہے؟ یا خلوت کا بھی یہی حکم ہے خواہ اس میں مجامعت نہ ہوئی ہو جیسا کہ خلفائے راشدین کا فتویٰ ہے اور یہی صحیح ہے۔ جب بیوی کے ساتھ خلوت حاصل ہو گئی خواہ اس خلوت میں مجامعت ہوئی یا نہ ہوئی مجرد اس خلوت کی بنا پر عدت واجب ہو گی۔
(خلوت کومعتبر قرار دینے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور راحج بھی یہی ہے جیسا کہ مؤلفa نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ خلوت ہوئی اور پھر مشاجرت ہوئی لیکن کسی یقینی ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجامعت نہیں ہوئی تو عدت نہیں ہوگی)
اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر چھونے سے قبل عورت کو طلاق دے دی جائے، تو خوش حال خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اس مطلقہ بیوی کو ’’متاع‘‘ دینا واجب ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے جب مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اگر مہر مقرر کر دیا گیا ہو اور چھونے سے قبل بیوی کو طلاق دے دی گئی ہو تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے،
تب یہ مہر ’’متاع‘‘ کے بدل میں بھی کفایت کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی بیوی کو دخول سے قبل یا بعد میں طلاق دیتا ہے تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ نہایت اچھے اور بھلے طریقے سے طلاق دے کہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کریں۔ اگر دونوں ایک دوسرے میں جرح وقدح کریں اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالیں تو یہ جدائی ’’بھلے طریقے‘‘ سے جدائی نہیں ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ عدت خاوند کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَمَا لَكُمْ عَلَ٘یْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ ﴾ ’’تو ان پر تمھارا کوئی حق عدت نہیں ہے۔‘‘ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر خلوت کے بعد طلاق دی ہوتی تو خاوند کے حق میں عورت پر عدت واجب تھی۔
آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مفارقت خاوند کی وفات کے باعث ہو تو وہ مطلق طور پر عدت گزارے گی۔ جیسا کہ آیت کریمہ
﴿ثُمَّ طَلَّقْ٘تُمُوْهُنَّ ﴾ ’’ پھر تم ان کو طلاق دو۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس بیوی کے علاوہ جس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو، دیگر بیویوں پر عدت واجب ہے، خواہ وہ خاوند کی موت کی صورت میں مفارقت ہوئی ہو یا اس کی زندگی میں کسی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو۔
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (50)}.
اے نبی! بے شک حلال کر دیں ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں، وہ جو ادا کر دیے آپ نے ان کے مہر، اور وہ
(کنیزیں) جن کا مالک ہوا آپ کا دایاں ہاتھ، ان میں سے جو بطور غنیمت دیں اللہ نے آپ کو، اور بیٹیاں آپ کے چچوں کی اور بیٹیاں آپ کی پھوپھیوں کی اور بیٹیاں آپ کے ماموؤ ں کی اور بیٹیاں آپ کی خالاؤ ں کی، وہ جنھوں نے ہجرت کی آپ کے ساتھ اور مومن عورت بھی، اگر وہ ہبہ کر دے اپنا نفس نبی کے لیے، اگر ارادہ کرے نبی یہ کہ
(اپنے) نکا ح میں لے آئے اسے ، اس حال میں کہ
(یہ) خاص ہے آپ کے لیے، سوائے دوسرے مسلمانوں کے، تحقیق جان لیا ہم نے جو فرض کیا ہم نے ان پر ان کی بیویوں کے بارے میں اور ان
(لونڈیوں) کے بارے میں جن کے مالک ہوئے دائیں ہاتھ ان کے، تاکہ نہ ہو آپ پر کوئی تنگی، اور ہے اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا
(50)
#
{50} يقول تعالى ممتنًّا على رسولِهِ بإحلاله له ما أحلَّ مما يشترك هو والمؤمنون وما ينفردُ به ويختصُّ: {يا أيُّها النبيُّ إنَّا أحْلَلْنا لك أزواجَكَ اللاَّتي آتيتَ أجورَهُنَّ}؛ أي: أعطيتهنَّ مهورهنَّ من الزوجات، وهذا من الأمور المشتركة بينَه وبين المؤمنين؛ فإنَّ المؤمنين كذلك يباح لهم مَنْ آتَوْهُنَّ أجورَهُنَّ من الأزواج. {و} كذلك أحللنا لك {ما مَلَكَتْ يمينُك}؛ أي: الإماء التي ملكتَ، {ممَّا أفاء الله عليكَ}: من غنيمة الكفار من عبيدِهِم، والأحرار مَنْ لهنَّ زوجٌ منهم ومَنْ لا زوجَ لهن، وهذا أيضاً مشتركٌ، وكذلك من المشترك قوله: {وبناتِ عمِّك وبناتِ عماتِك وبناتِ خالِك وبناتِ خالاتِكَ}: شمل العمَّ والعمة والخال والخالة القريبين والبعيدين، وهذا حصرُ المحللات، يؤخذ من مفهومه أنَّ ما عداهنَّ من الأقارب غير محلَّل؛ كما تقدَّم في سورة النساء؛ فإنَّه لا يُباح من الأقارب من النساء غير هؤلاء الأربع، وما عداهنَّ من الفروع مطلقاً، والأصول مطلقاً، وفروع الأب والأم، وإن نزلوا، وفروع مَنْ فوقَهم لصلبِهِ؛ فإنَّه لا يُباح.
وقوله: {اللاَّتي هاجَرْنَ [معك]}: قَيْدٌ لحلِّ هؤلاء للرسول؛ كما هو الصواب من القولين في تفسير هذه الآية، وأما غيره عليه الصلاة والسلام؛ فقد عُلم أنَّ هذا قيد لغير الصحَّةِ. {و} أحللنا لك {امرأةً مؤمنةً إن وهبتْ نفسَها للنبيِّ}: بمجرَّدِ هبتها نفسها، {إنْ أرادَ النبيُّ أن يَسْتَنكِحَها}؛ أي: هذا تحت الإرادة والرغبة، {خالصةً لك من دونِ المؤمنينَ}؛ يعني: إباحة الموهوبة ، وأما المؤمنون؛ فلا يحلُّ لهم أن يتزوَّجوا امرأةً بمجرَّد هبتها نفسها لهم. {قد عَلِمْنا ما فَرَضْنا عليهم في أزواجهم وما ملكتْ أيمانُهم}؛ أي: قد علمنا ما على المؤمنين وما يحلُّ لهم وما لا يحل من الزوجات وملك اليمين، وقد أعْلَمْناهم بذلك، وبيَّنَّا فرائِضَه فما في هذه الآية مما يخالفُ ذلك؛ فإنَّه خاصٌّ لك؛ لكون الله جَعَلَه خطاباً للرسول وحده بقوله: {يا أيُّها النبيُّ إنا أحْلَلْنا لك ... } إلى آخر الآية. وقوله: {خالصةً لك من دونِ المؤمنينَ}: وأبَحْنا لك يا أيُّها النبيُّ ما لم نُبِح لهم، ووسَّعْنا عليك ما لم نوسِّعْ على غيرك؛ {لكيلا يكونَ عليك حرجٌ}: وهذا من زيادة اعتناء الله تعالى برسوله - صلى الله عليه وسلم -، {وكان الله غفوراً رحيماً}؛ أي: لم يزل متصفاً بالمغفرة والرحمة، وينزل على عباده من مغفرته ورحمته وجودِهِ وإحسانِهِ ما اقتضتْه حكمتُه، ووجدت منهم أسبابُه.
[50] اللہ تعالیٰ اپنے رسول
(e)پر اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے آپ پر کچھ ایسی چیزیں حلال ٹھہرائیں جو مومنوں کے لیے بھی حلال ہیں اور کچھ چیزیں ایسی بھی حلال ٹھہرائیں جو صرف آپ کے لیے مختص ہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـاۤ٘ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ ﴾ ’’اے نبی! ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنھیں ان کا اجر دے چکاہے۔‘‘ یعنی آپ نے جن بیویوں کو مہر عطا کر دیا ہے۔ یہ ان امور میں شمار ہوتا ہے جو نبیe اور دیگر اہل ایمان کے درمیان مشترک ہیں، کیونکہ اہل ایمان کے لیے بھی ان کی وہی بیویاں مباح ہیں جن کو انھوں نے حق مہر ادا کر دیا ہے۔
﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ اسی طرح ہم نے آپ کے لیے مباح کر دیں
﴿مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ ﴾ وہ لونڈیاں جو آپ کی ملکیت ہیں۔
﴿مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ ﴾ ’’ان لونڈیوں میں سے جو اللہ نے تمھیں مال غنیمت سے عطا کی ہیں۔‘‘ یعنی کفار کے مال غنیمت میں جو غلام یا آزاد عورتیں ہاتھ لگیں اور ان عورتوں کے خواہ خاوند ہوں یا نہ ہوں وہ مباح ہیں۔ یہ بھی نبیe اور اہل ایمان کے درمیان مشترک ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مشترک ہے:
﴿وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰؔتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰؔلٰ٘تِكَ ﴾ ’’اور تمھارے چچوں کی بیٹیاں اور تمھاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمھارے ماموؤ ں کی بیٹیاں اور تمھاری خالاؤ ں کی بیٹیاں۔‘‘ اس میں قریب اور دور کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ، سب شامل ہیں۔ یہ مباح عورتوں کا حصر ہے۔ اس سے مفہوم مخالف یہ اخذ کیا گیا کہ ان اقارب کے علاوہ دیگر اقارب مباح نہیں ہیں جیسا کہ سورۃالنساء میں گزر چکا ہے۔
پس مذکورہ بالا ان چار رشتہ دار عورتوں کے سوا کوئی رشتہ دار عورت مباح نہیں خواہ وہ فروع میں سے ہوں یا اصول میں سے، باپ اور ماں کی فروع میں سے خواہ کتنا ہی نیچے چلے جائیں اور ان سے اوپر کی فروع اپنے صلب کی بنا پر۔ اس لیے کہ وہ مباح نہیں۔
﴿الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ ﴾ ’’جو آپ کے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔‘‘ رسول اللہ e کے لیے مذکورہ بالا عورتوں کی حلت اس قید سے مقید ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں منقول دو اقوال میں سے یہی قول قرین صواب ہے۔ آپ کے سوا دیگر اہل ایمان کے لیے یہ قید صحیح نہیں۔
﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ ہم نے آپ کے لیے حلال کردیا
﴿امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ ﴾ ’’مومن عورت کو بھی جو اپنانفس نبی کو ہبہ کردے۔‘‘ اس کے اپنا نفس ہبہ کر دینے ہی سے
﴿اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا۠﴾ ’’اگر نبی
(e) بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں۔‘‘ یہ آپ کے ارادہ اور رغبت پر منحصر ہے۔
﴿خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’یہ خاص آپ ہی کے لیے ہے مومنوں کے لیے نہیں۔‘‘ یعنی یہ ہبہ کی اباحت دیگر مومنوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں جو اپنے آپ کو ان کے لیے ہبہ کردیتی ہے۔
﴿قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ﴾ یعنی ہم خوب جانتے ہیں کہ اہل ایمان پر کیا واجب ہے، ان کے لیے بیویوں اور لونڈیوں میں سے کیا حلال ہے اور کیا حلال نہیں ہے اور اس حلت و حرمت کے بارے میں ہم نے ان کو آگاہ بھی کر دیا ہے اور اس کے فرائض بھی واضح کر دیے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں جو احکامات دوسرے لوگوں کے مخالف ہیں،
وہ آپ کے لیے خاص ہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے صرف نبی اکرم e کو مخاطب کیا ہے۔ فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـاۤ٘ اَحْلَلْنَا لَكَ ﴾ ’’اے نبی! ہم نے آپ کے لیے حلال کی ہیں…‘‘ نیز فرمایا:
﴿خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ یعنی اے نبی! ہم نے آپ کے لیے ایسی چیزیں مباح کی ہیں جو دوسروں کے لیے مباح نہیں کیں اور آپ کو جو وسعت عطا کی ہے وہ دوسروں کو عطا نہیں کی
﴿لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ ﴾ ’’تاکہ آپ پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عنایت خاص ہے۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت اور رحمت کی صفات سے متصف ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اپنی حکمت اور ان کی طرف سے عمل کے اسباب کے مطابق، اپنی مغفرت و رحمت اور اپنا جود و احسان نازل کرتا ہے۔
{تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا (51)}.
موقوف کر دیں آپ
(باری) جس کی چاہیں، ان میں سے اور جگہ دیں اپنے پاس جس کو چاہیں، اور جسے آپ چاہیں ان میں سے جنھیں آپ نے علیحدہ کر دیا تھا تو کوئی گناہ نہیں آپ پر، یہ
(حکمِ تخییر) زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ ٹھنڈی ہوں آنکھیں ان کی اور نہ وہ غمگین ہوں اورراضی ہوں وہ اس پر جودیں ان کوآپ سب کی سب، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اور ہے اللہ خوب جاننے والا، نہایت بردبار
(51)
#
{51} وهذا أيضاً من توسعة الله على رسوله ورحمته به أن أباحَ له تَرْكَ القَسْم بين زوجاتِهِ على وجه الوجوب، وأنَّه إنْ فَعَلَ ذلك؛ فهو تبرعٌ منه، ومع ذلك؛ فقد كان - صلى الله عليه وسلم - يجتهدُ في القَسْم بينهنَّ في كلِّ شيءٍ، ويقول: «اللهم! هذا قَسْمي فيما أملك؛ فلا تَلُمْني فيما لا أملِك» ، فقال هنا: {تُرْجي مَن تشاء منهنَّ}؛ أي: تؤخر من أردتَ من زوجاتك، فلا تؤويها إليك، ولا تبيتُ عندها، {وتُؤوي إليك مَن تشاءُ}؛ أي: تضمُّها وتبيت عندها، {و} مع ذلك؛ لا يتعيَّنُ هذا الأمر. فمن {ابتغيتَ}؛ أي: أن تؤويها، {فلا جُناح عليكَ}: والمعنى أنَّ الخيرة بيدك في ذلك كلِّه. وقال كثيرٌ من المفسِّرين: إنَّ هذا خاصٌّ بالواهبات له أن يُرجي من يشاء ويؤوي من يشاءُ؛ أي: إن شاء؛ قَبِلَ مَنْ وَهَبَتْ نفسها له، وإن شاء؛ لم يقبلها. والله أعلم.
ثم بيَّنَ الحكمةَ في ذلك، فقال: {ذلك}؛ أي: التوسعةُ عليك وكونُ الأمر راجعاً إليك وبيدك وكونُ ما جاء منك إليهنَّ تبرعاً منك؛ {أدنى أن تَقَرَّ أعيُنُهُنَّ ولا يحزنَّ ويرضينَ بما آتيتهنَّ كلهنَّ}: لعلمهنَّ أنَّك لم تتركْ واجباً ولم تفرِّطْ في حقٍّ لازم، {والله يعلم ما في قلوبكم}؛ أي: ما يعرض لها عند أداء الحقوق الواجبة والمستحبَّة وعند المزاحمة في الحقوق؛ فلذلك شرع لك التوسعة يا رسول الله؛ لتطمئنَّ قلوبُ زوجاتك، {وكان الله عليماً حليماً}؛ أي: واسع العلم، كثير الحلم، ومِنْ علمِهِ أنْ شَرَعَ لكم ما هو أصلحُ لأموركم وأكثرُ لأجورِكم، ومن حلمِهِ أنْ لم يعاقِبْكُم بما صَدَرَ منكم، وما أصرتْ عليه قلوبُكم من الشرِّ.
[51] نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول e پر رحمت اور آپ کے لیے وسعت ہے کہ آپ کو اپنی ازواج مطہرات کی باریوں کی تقسیم کے ترک کرنے کو مباح فرمایا۔ اگر آپ ان کی باریاں مقرر کرتے ہیں تو یہ آپ کی نوازش ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ e نے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان ہر چیز تقسیم کر رکھی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے اور جو میرے بس میں نہیں
(اے اللہ!) اس پر مجھے ملامت نہ کرنا۔‘‘
(سنن أبي داود، النکاح، باب في القسم بین النساء، ح: 2134 امام البانیa نے اس حدیث کے مرسل ہونے کو راحج قرار دیتےہوئے اسے ضعیف کہا ہے لیکن اس کا پہلا جملہ (یقسم بیننا فیعدل) دوسری حسن حدیث سے ثابت ہے۔ اور دوسرا اپنی معنی و مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ جبکہ حماد بن سمہ نے اس حدیث کو موصولا بیان کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: الإرواء،
7؍81 حدیث نمبر 2018) یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ ﴾ اپنی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں الگ رکھیں، اس کو اپنے پاس بلائیں نہ اس کے پاس رات بسر کریں۔
﴿وَتُ٘ــــْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ ﴾ اور جس کو چاہیں اپنے پاس بلا ئیں اور اس کے ہاں رات بسر کریں۔
﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ اس کے باوجود یہ امر متعین نہیں
﴿مَنِ ابْتَغَیْتَ ﴾ جس کو چاہو اپنے پاس بلا لو۔
﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ ﴾ ’’تو آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ معنی یہ ہے کہ آپ کو مکمل اختیار ہے۔
بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ یہ حکم ان عورتوں کے بارے میں خاص ہے جو اپنے آپ کو ہبہ کریں کہ آپ کو اختیار ہے جسے چاہیں الگ رکھیں اور جسے چاہیں بلا کر اپنے پاس رکھیں،
یعنی اگر آپ چاہیں تو اس عورت کو قبول کر لیں جس نے خود کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا اور اگر آپ چاہیں تو قبول نہ کریں۔ واللّٰہ أعلم۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی یہ وسعت، تمام معاملے کا آپ کے اختیار میں ہونا اور اس معاملے میں آپ کا ان عورتوں پر کوئی عنایت اور نوازش کرنا
﴿اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَ٘یْتَهُنَّ كُ٘لُّ٘هُنَّ ﴾ ’’اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غم ناک نہ ہوں اور آپ جو کچھ ان کو دیں اسے لے کر وہ سب خوش رہیں۔‘‘ کیونکہ انھیں علم ہو گا کہ آپ نے کسی واجب کو ترک کیا ہے نہ کسی واجب حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے
﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُ٘لُوْبِكُمْ ﴾ ’’اور جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اسے اللہ جانتا ہے۔‘‘ حقوق واجبہ و مستحبہ کی ادائیگی اور حقوق میں مزاحمت کے وقت دلوں میں جو خیال گزرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ اس لیے اے اللہ کے رسول! آپ کے لیے یہ وسعت مشروع کی گئی ہے تاکہ آپ کی ازواج کا دل مطمئن رہے۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا ﴾ اوراللہ تعالیٰ وسیع علم اور کثیر حلم والا ہے۔ یہ اس کا علم ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے وہ چیز مشروع کی ہے جو تمھارے معاملات کے لیے درست اور تمھارے اجر میں اضافہ کرنے کی باعث ہے اور یہ اس کا حلم ہے کہ تم سے جو کوتاہیاں صادر ہوئیں اور تمھارے دلوں نے جس برائی پر اصرار کیا، اس نے اس پر تمھاری گرفت نہیں فرمائی۔
{لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا (52)}.
نہیں ہیں حلال آپ کے لیے عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ بدل لیں آپ ان
(موجودہ بیویوں) کے مقابلے میں، کوئی اور بیویاں ، اگرچہ اچھا لگے آپ کو ان کا حسن، مگروہ
(لونڈیاں) جن کا مالک ہوا آپ کا دایاں ہاتھ، اور ہے اللہ اوپر ہر چیز کے خوب نگران
(52)
#
{52} وهذا شكرٌ من الله الذي لم يزل شكوراً لزوجاتِ رسولِهِ رضي الله عنهنَّ، حيث اخترنَ الله ورسولَه والدارَ الآخرة؛ أنْ رَحِمَهُنَّ وقَصَرَ رسولَه عليهنَّ، فقال: {لا يحلُّ لك النساءُ من بعدُ}: زوجاتك الموجودات، {ولا أن تَبَدَّلَ بهنَّ من أزواج}؛ أي: ولا أن تطلِّقَ بعضهنَّ فتأخُذَ بَدَلَها، فحصل بهذا أمنهنَّ من الضرائر ومن الطلاق؛ لأنَّ الله قضى أنهنَّ زوجاتُه في الدنيا والآخرة، لا يكون بينه وبينهنَّ فرقة، {ولو أعجبك حسنهنَّ}؛ أي: حسن غيرهنَّ؛ فلا يَحْلُلْنَ لك، {إلاَّ ما ملكتْ يمينُك}؛ أي: السراري؛ فذلك جائزٌ لك؛ لأنَّ المملوكات في كراهة الزوجات لَسْنَ بمنزلة الزوجات في الإضرار للزوجات. {وكان الله على كل شيءٍ رَقيباً}؛ أي: مراقباً للأمور وعالماً بما إليه تؤول وقائماً بتدبيرها على أكمل نظام وأحسن إحكام.
[52] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول e کی ازواج مطہراتg کی قدر دانی ہے... اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کے اعمال کا قدردان ہے... کہ اس نے ان کو اپنے سایۂ رحمت میں لے لیا اور رسول اللہ e کو انھی پر اقتصار وانحصار کرنے کا حکم دیا کیونکہ انھوں نے اللہ کے رسول اور آخرت کو چنا تھا،
چنانچہ فرمایا: ﴿لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ ﴾ ’’ان کے سوا اور عورتیں آپ کے لیے جائز نہیں۔‘‘ یعنی ان موجودہ ازواج مطہرات کے بعد
﴿وَلَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ ﴾ ’’اور نہ یہ کہ آپ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرلیں۔‘‘ یعنی ان میں سے کسی کو طلاق دے کر، اس کی جگہ کسی اور کو نکاح میں نہ لائیں۔ اس آیت کریمہ کی بنا پر وہ طلاق اور سوکنوں سے محفوظ و مامون ہو گئیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فیصلہ فرما دیا کہ وہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔ آپ اور ان کے درمیان کبھی جدائی نہ ہو گی۔
﴿وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ ﴾ ’’خواہ ان
(کے علاوہ کسی اور) کا حسن آپ کو کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے‘‘ وہ آپ کے لیے حلال نہیں
﴿اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَـمِیْنُكَ﴾ یعنی سوائے قیدیوں میں سے جو آپ کی ملکیت میں آجائیں، وہ آپ کے لیے حلال ہیں کیونکہ لونڈیاں، بیویوں کی ناپسندیدگی میں، بیویوں کو نقصان پہنچانے میں، بیویوں کے مقام پر نہیں۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام امور کا نگہبان ہے اور ان تمام امور کو جانتا ہے جو اس کی طرف لوٹتے ہیں۔ وہ کامل ترین نظام اور بہترین احکام کے ساتھ ان کی تدبیر کرتا ہے۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا (53) إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (54)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ داخل ہو تم نبی کے گھروں میں، مگر یہ کہ اجازت دے دی جائے تمھیں، کھانے کے لیے، نہ انتظار کرنے والے ہو اس کے پکنے کا، لیکن جب بلائے جاؤ تم، تو داخل ہو تم، پس جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ
( یعنی اُٹھ کر چلے جاؤ )، اور نہ
(ٹھہرے رہو) رغبت رکھتے ہوئے باتوں میں، بلاشبہ تمھاری یہ بات ہے ایذا دیتی ہے نبی
(e)کو، پس وہ شرم کرتا ہے تم سے ، اور اللہ نہیں شرماتا حق بات
(بیان کرنے) سے اور جب سوال کرو تم ان
(ازواج مطہرات) سے کسی سامان کا، تو سوال کرو تم ان سے پیچھے سے پردے کے، یہ بات زیادہ پاکیزہ ہے واسطے تمھارے دلوں کے اور ان کے دلوں کے، اور نہیں ہے جائز تمھارے لیے یہ کہ ایذا دو تم اللہ کے رسول کواور نہ یہ
(ہی جائز ہے) کہ تم نکاح کرو اس کی بیویوں سے اس کے بعد کبھی بھی، بے شک تمھارا یہ
(فعل) ہو گا نزدیک اللہ کے بہت بڑا
(53) اگرظاہر کرو تم کوئی چیز یا چھپاؤ تم اسے تو بلاشبہ اللہ ہے ہر چیز کو خوب جاننے والا
(54)
#
{53} يأمر تعالى عبادَه المؤمنين بالتأدُّب مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في دخول بيوتِهِ، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تدخُلوا بيوت النبيِّ إلاَّ أن يُؤْذَنَ لكم إلى طعام}؛ أي: لا تدخُلوها بغير إذنٍ للدخول فيها لأجل الطعام، وأيضاً لا تكونوا {ناظرينَ إناه}؛ أي: منتظرين ومتأنين لانتظار نضجه أو سعة صدرٍ بعد الفراغ منه. والمعنى: أنكم لا تدخُلوا بيوتَ النبيِّ إلاَّ بشرطين: الإذن لكم بالدخول، وأنْ يكون جلوسُكم بمقدارِ الحاجة، ولهذا قال: {ولكنْ إذا دُعيتُم فادْخُلوا فإذا طَعِمْتُم فانتَشِروا ولا مُسْتَأنِسينَ لحديثٍ}؛ أي: قبل الطعام وبعده.
ثم بيَّن حكمةَ النهي وفائدتَه، فقال: {إنَّ ذلكم}؛ أي: انتظاركم الزائد على الحاجة {كان يؤذي النبيَّ}؛ أي: يتكلَّف منه ويشقُّ عليه حبسُكم إيَّاه عن شؤون بيتِهِ وأشغاله فيه، {فيَسْتَحيي منكم}: أن يقولَ لكم: اخرُجوا! كما هو جاري العادة أن الناس ـ خصوصاً أهل الكرم منهم ـ يَسْتَحْيونَ أن يُخْرِجوا الناس من مساكنهم، {و} لكن {الله لا يَسْتَحْيي من الحقِّ}: فالأمر الشرعيُّ، ولو كان يُتَوَهَّم أنَّ في تركِهِ أدباً وحياءً؛ فإنَّ الحزم كلَّ الحزم اتِّباعُ الأمر الشرعيِّ، وأنْ يجزمَ أنَّ ما خالفه ليس من الأدب في شيءٍ، والله تعالى لا يستحيي أنْ يأمُرَكم بما فيه الخيرُ لكم والرفقُ لرسوله كائناً ما كان.
فهذا أدبُهم في الدخول في بيوته، وأما أدبُهم معه في خطاب زوجاتِهِ؛ فإنَّه: إمَّا أن يحتاجَ إلى ذلك، أو لا يحتاجُ إليه؛ فإن لم يحتج إليه؛ فلا حاجة إليه، والأدب تركُه، وإن احتيج إليه، كأنْ يسألهنَّ متاعاً أو غيره من أواني البيت أو نحوها؛ فإنَّهنَّ يُسْألْنَ {من وراءِ حجابٍ}؛ أي: يكون بينكم وبينهنَّ سترٌ يستر عن النظر؛ لعدم الحاجة إليه، فصار النظر إليهنَّ ممنوعاً بكلِّ حال، وكلامهنَّ فيه التفصيلُ الذي ذكره الله. ثم ذكر حكمةَ ذلك بقوله: {ذلكُم أطهرُ لقلوبكم وقلوبهنَّ}؛ لأنَّه أبعدُ عن الريبة، وكلَّما بَعُدُ الإنسان عن الأسباب الداعيةِ إلى الشرِّ؛ فإنَّه أسلمُ له وأطهرُ لقلبِهِ؛ فلهذا من الأمور الشرعيَّة التي بيَّن الله كثيراً من تفاصيلها أنَّ جميعَ وسائل الشرِّ وأسبابه ومقدِّماته ممنوعةٌ، وأنه مشروعٌ البعد عنها بكلِّ طريق.
ثم قال كلمةً جامعةً وقاعدةً عامةً: {وما كان لكم}: يا معشر المؤمنين؛ أي: غير لائقٍ ولا مستحسنٍ منكم، بل هو أقبحُ شيء، {أن تُؤذوا رسولَ الله}؛ أي: أذيَّة قوليَّة أو فعليَّة بجميع ما يتعلَّق به، {ولا أن تَنكِحوا أزواجَه من بعده أبداً}: هذا من جملة ما يؤذيه؛ فإنَّه - صلى الله عليه وسلم - له مقامُ التعظيم والرفعةِ والإكرام، وتزوُّجُ زوجاتِهِ بعدَه مخلٌّ بهذا المقام، وأيضاً؛ فإنهنَّ زوجاتُه في الدُّنيا والآخرة، والزوجيَّةُ باقيةٌ بعد موته؛ فلذلك لا يحلُّ نكاحُ زوجاتِهِ بعده لأحدٍ من أمته. {إنَّ ذلكم كان عند الله عظيماً}: وقد امتثلتْ هذه الأمة هذا الأمر، واجتنبتْ ما نهى الله عنه منه، ولله الحمد والشكر.
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ e کے گھروں میں داخل ہوتے وقت آپ کے آداب کا خیال رکھا کریں،
لہٰذا فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ ﴾ یعنی کھانے کے لیے داخلے کی اجازت کے بغیر نبی کر یمe کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو اور نہ تم
﴿نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ ﴾ کھانا تیار ہونے اور اس کے پکنے کا انتظار کیا کرو اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لوٹنے میں تاخیر نہ کیا کرو۔
اس کا معنی یہ ہے کہ تم دو شرائط کے ساتھ نبی اکرم e کے گھروں میں داخل ہوا کرو:
(۱) داخل ہونے کی اجازت ملنے کے بعد۔
(۲) تمھارا آپ کے گھر میں بیٹھنا ضرورت کے مطابق ہو۔
اسی لیے فرمایا:
﴿وَلٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ۠ لِحَدِیْثٍ ﴾ ’’لیکن جب تمھیں دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔‘‘ یعنی کھانے سے پہلے یا بعد میں باتیں کرنے نہ لگ جاؤ ۔ پھر اس ممانعت کی حکمت اور فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِنَّ ذٰلِكُمْ ﴾ یعنی ضرورت سے زیادہ تمھارا وہاں انتظار کرنا
﴿كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ ﴾ ’’نبی
(e) کو تکلیف دیتا ہے‘‘ یعنی وہاں تمھارا بیٹھ کر آپ کو اپنے کام کاج اور دیگر معاملات سے روکے رکھنا، آپ پر شاق گزرتا ہے اس سے آپ e کو تکلیف ہوتی ہے۔
﴿فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ ﴾ یعنی وہ شرم کی وجہ سے تمھیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سے چلے جاؤ ۔ جیسا کہ عادت جاریہ ہے کہ لوگ... خاص طور پر شرفاء اور باوقار لوگ... لوگوں کو اپنے گھروں سے نکالتے ہوئے شرماتے ہیں
﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ لیکن
﴿اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ﴾ ’’اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔‘‘ شرعی معاملے میں اگر یہ تو ہم لاحق ہو کہ اس کے ترک کرنے میں ادب اور حیا ہے، تو کامل حزم و احتیاط یہ ہے کہ شریعت کی پیروی کی جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو چیز شریعت کے خلاف ہے اس میں کوئی ادب نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسا حکم دینے سے نہیں شرماتا جس میں تمھارے لیے بھلائی اور رسول
(e)کے لیے نرمی ہو خواہ یہ حکم کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ تو تھے نبی اکرم e کے گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور رہے آپ کی ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب، تو اس میں دو امور ہیں کہ آیا ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کی کوئی حقیقی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟اگر بات چیت کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تو اس کو ترک کرنا ہی ادب ہے۔ اگر کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہے، جیسے ان سے کوئی چیز،
مثلاً: گھر کے برتن وغیرہ طلب کرنا، تو یہ چیزیں ان سے طلب کی جائیں
﴿مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ﴾ ’’پردہ کے پیچھے سے۔‘‘ یعنی تمھارے درمیان اور ازواج مطہرات کے درمیان ایک پردہ حائل ہو، جو نظر پڑنے سے بچائے کیونکہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تو معلوم ہوا ازواج مطہرات کو دیکھنا ہر حال میں ممنوع ہے اور ان سے ہم کلام ہونے میں تفصیل ہے،
جسے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دیا ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ﴾ ’’یہ تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔‘‘ کیونکہ یہ طریقہ کسی قسم کے شبہے سے بعید تر ہے اور انسان شر کی طرف دعوت دینے والے اسباب سے جتنا دور رہے گا تو یہ چیز اس کے قلب کے لیے اتنی ہی زیادہ سلامتی اور پاکیزگی کا باعث ہو گی۔
بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام شرعی امور کی کثرت سے تفاصیل بیان کی ہیں، نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ برائی کے تمام وسائل، اسباب اور مقدمات ممنوع ہیں اور ہر طریقے سے ان سے دور رہنا مشروع ہے،
پھر ایک جامع بات اور ایک عام قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مَا كَانَ لَكُمْ ﴾ اے مومنو! تمھارے لائق ہے نہ یہ مستحسن ہے، بلکہ یہ قبیح ترین بات ہے
﴿اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ ﴾ ’’ کہ تم رسول اللہ کو تکلیف پہنچاؤ ۔‘‘ یعنی قول و فعل اور ان سے متعلق تمام امور کے ذریعے سے اذیت پہنچاؤ۔
﴿وَلَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ﴾ ’’اور نہ
(تمھارے لیے یہ حلال ہے کہ )آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔‘‘ یہ چیز ان جملہ امور میں داخل ہے جن سے آپ کو اذیت پہنچتی ہے۔ بے شک آپe تعظیم اور رفعت و اکرام کے مقام کے حامل ہیں آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے نکاح کرنا، اس مقام کے منافی ہے، نیز ازواج مطہرات، دنیا وآخرت میں آپ کی بیویاں ہیں، زوجیت کا یہ رشتہ آپ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے اس لیے وہ آپ کی امت میں سے کسی کے لیے جائز نہیں۔
﴿اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا ﴾ ’’یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا
(گناہ کا کام) ہے۔‘‘ امت مسلمہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان امور سے اجتناب کیا جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے روکا۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُوَالشُّکْرُ۔
#
{54} ثم قال تعالى: {إن تُبْدوا شيئاً}؛ أي: تظهروه، {أوْ تُخفوه فإنَّ الله كان بكلِّ شيءٍ عليماً}: يعلم ما في قلوبكم، وما أظهرتموه؛ فيجازيكم عليه.
[54] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنْ تُبْدُوْا شَیْـًٔؔا ﴾ یعنی اگر تم کسی چیز کو ظاہر کرو
﴿اَوْ تُخْفُوْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ﴾ ’’ یا اس کو تم چھپاؤ، تو اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اور وہ تمھیں اس کی جزا دے گا۔
{لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (55)}.
نہیں گناہ ان عورتوں پراپنے باپوں
(کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے اور نہ اپنی بہنوں کے بیٹوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان کے جن کے مالک ہوئے دائیں ہاتھ ان کے اور ڈرو تم
(سب) اللہ سے، بے شک اللہ ہے اوپر ہر چیز کے گواہ
(55)
#
{55} لمَّا ذكر أنهنَّ لا يُسألن متاعاً إلاَّ من وراء حجاب، وكان اللفظُ عامًّا لكلِّ أحدٍ؛ احتيجَ أن يُستثنى منه هؤلاء المذكورون من المحارم، وأنَّه {لا جُناحَ عليهنَّ} في عدم الاحتجاب عنهم، ولم يذكر فيها الأعمام والأخوال؛ لأنَّهنَّ إذا لم يَحْتَجِبْنَ عمَّن هنَّ عماته وخالاته من أبناء الإخوة والأخوات مع رفعتهنَّ عليهم؛ فعدم احتجابهنَّ عن عمِّهنَّ وخالهنَّ من باب أولى، ولأنَّ منطوق الآية الأخرى المصرِّحة بذكر العمِّ والخال مقدَّمة على ما يُفهم من هذه الآية، وقوله: {ولا نسائهنَّ}؛ أي: لا جناح عليهن أن لا يحتجبن عن نسائهنَّ؛ أي: اللاتي من جنسهنَّ في الدين، فيكون ذلك مخرجاً لنساء الكفار، ويُحتمل أنَّ المراد جنس النساء؛ فإنَّ المرأة لا تحتجب عن المرأة، {ولا ما مَلَكَتْ أيمانُهُنَّ}: ما دام العبدُ في ملكها جميعه، ولما رفع الجناح عن هؤلاء؛ شَرَطَ فيه وفي غيره لزومَ تقوى الله، وأنْ لا يكون في ذلك محذورٌ شرعيٌّ، فقال: {واتَّقينَ الله}؛ أي: استعملْنَ تقواه في جميع الأحوال. {إن الله كان على كلِّ شيءٍ شهيداً}: يشهد أعمال العباد ظاهرها وباطنها، ويسمعُ أقوالهم، ويرى حركاتِهِم؛ ثم يجازيهم على ذلك أتمَّ الجزاء وأوفاه.
[55] جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ازواج مطہرات سے اگر کوئی چیز طلب کی جائے تو پردے کے پیچھے سے طلب کی جائے تو لفظ عام استعمال کیا جس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس حکم میں سے ان محرم اقارب کو مستثنیٰ قرار دیا جائے جو یہاں مذکور ہیں کہ جن سے پردہ نہ کرنے میں
﴿لَا جُنَاحَ عَلَ٘یْهِنَّ ﴾ ’’ان پر کوئی حرج نہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے چچاؤ ں اور ماموؤ ں کا ذکر نہیں کیا کیونکہ جب خالاؤں اور پھوپھیوں پر بھتیجوں اور بھانجوں سے پردہ کرنا واجب نہیں تو چچا اور ماموں سے پردہ کرنا بدرجہ اولیٰ واجب نہیں۔ نیز ایک دوسری آیت کا منطوق، جس میں نہایت صراحت کے ساتھ چچا اور ماموں کا ذکر ہے، اس آیت کریمہ کے مفہوم پر مقدم ہے۔
﴿وَلَا نِسَآىِٕهِنَّ ﴾ یعنی عورتوں پر دوسری عورتوں سے پردہ نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ یعنی وہ عورتیں جو دین میں ان کی ہم جنس ہیں، تو آیت کریمہ کے اس جملہ کی رو سے کافر عورتیں نکل جاتیں ہیں۔ اس میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد جنس عورت ہے، تب معنیٰ یہ ہو گا کہ عورت عورت سے پردہ نہ کرے۔
﴿وَلَا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُ٘هُنَّ ﴾ ’’اور نہ ان میں کوئی گناہ ہے جن کی وہ مالک ہیں۔‘‘ یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک غلام پورے کا پورا ان کی غلامی میں ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے حرج اور مضائقہ کو دور کر دیا ہے، اس لیے اس بارے میں اور دیگر امور میں التزام تقویٰ کی شرط عائد کی ہے، نیز یہ کہ اس میں کسی حرمت شرعی کا ارتکاب نہ ہو،
چنانچہ فرمایا: ﴿وَاتَّقِیْنَ اللّٰهَ ﴾ یعنی اپنے تمام احوال میں تقویٰ کو کام میں لاؤ ۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام ظاہری وباطنی اعمال کو دیکھ رہا ہے، ان کے تمام اقوال کو سن رہا ہے اور ان کی تمام حرکات کا مشاہدہ کر رہا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے تمام اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (56)}
بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں نبی پر، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی درود بھیجو اس پر اور سلام بھیجو
(بہت) سلام
(56)
#
{56} وهذا فيه تنبيهٌ على كمال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ورفعةِ درجتِهِ وعلوِّ منزلته عند الله وعند خلقه ورفع ذِكْرِهِ، و {إنَّ الله} تعالى {وملائكتَه يصلُّون} عليه؛ أي: يثني الله عليه بين الملائكةِ وفي الملأ الأعلى لمحبَّته تعالى له، ويُثني عليه الملائكة المقرَّبون، ويدعون له ويتضرَّعون. {يا أيُّها الذين آمنوا صلُّوا عليه وسلِّموا تسليماً}: اقتداءً بالله وملائكته، وجزاءً له على بعض حقوقِهِ عليكم، وتكميلاً لإيمانكم، وتعظيماً له - صلى الله عليه وسلم - ومحبةً وإكراماً، وزيادةً في حسناتكم. وتكفيراً من سيئاتكم، وأفضلُ هيئات الصلاة عليه ـ عليه الصلاة والسلام ـ ما علَّم به أصحابه: «اللهمَّ صلِّ على محمد وعلى آل محمدٍ كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، وبارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ كما باركت على آل إبراهيم إنَّك حميدٌ مجيدٌ». وهذا الأمر بالصلاة والسلام عليه مشروعٌ في جميع الأوقات، وأوجبَه كثيرٌ من العلماء في الصلاة.
[56] ان آیات کریمہ میں رسول اللہ e کے کمال، اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں آپ کے بلند درجات، آپ کی بلند قدرومنزلت اور آپ کے ذکرِ رفیع کی طرف اشارہ ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں اور ملأاعلیٰ کے سامنے اپنے نبی محمد e کی مدح و ثنا بیان کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت محبت کرتا ہے۔ تمام فرشتے آپ کی مدح و ثنا کرتے ہیں اور نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی اقتدا میں، آپ کے بعض حقوق کی جزا کے طور پر، اپنے ایمان کی تکمیل کے لیے، آپ کی تعظیم کی خاطر، آپ سے محبت اور آپ کے اکرام و تکریم کے اظہار کے لیے، اپنی نیکیوں میں اضافہ کرنے اور اپنی برائیوں کے کفارہ کے لیے اے مومنو! تم بھی رسول اللہ e پر درود وسلام بھیجا کرو۔ رسول اللہ e پر درود کی بہتر شکل وہ ہے جو آپ نے اپنے صحابہ کرا م کو سکھائی ہے ،
لہٰذا آپ نے فرمایا: ’أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ۔ اَللَّہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدِ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ اِبْراہِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ
(صحیح البخاري، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب: 10، حدیث: 3370)
درود وسلام کا یہ حکم، تمام اوقات میں مشروع ہے اور بہت سے اہل علم نے اسے نماز کے اندر واجب قرار دیا ہے۔
{إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (57) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (58)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ اور اس کےرسول کو، لعنت کی ان پر اللہ نے دنیااور آخرت میں اور اس نے تیار کیا ہے ان کے لیے عذاب رسوا کرنے والا
(57) اور وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر اس کےجو انھوں نے
(کوئی گناہ)کمایا ہو تو یقیناً اٹھایا انھوں نے بہتان کا اور گناہ صریح
(کابوجھ) (58)
#
{57 ـ 58} لما أمر تعالى بتعظيم رسوله - صلى الله عليه وسلم - والصلاة والسلام عليه؛ نهى عن أذيَّته، وتوعَّد عليها، فقال: {إنَّ الذين يؤذونَ الله ورسولَه}: وهذا يشملُ كلَّ أذيَّة قوليَّة أو فعليَّة من سبٍّ وشتم أو تنقُّص له أو لدينه أو ما يعود إليه بالأذى، {لَعَنَهُمُ الله في الدُّنيا}؛ أي: أبعدهم وطردهم، ومِنْ لَعْنِهِم في الدُّنيا أنه يتحتَّم قتلُ من شتم الرسول وآذاه، {والآخرةِ وأعدَّ لهم عذاباً [مهيناً]}: جزاءً له على أذاه أن يُؤذى بالعذابِ [الأليم]، فأذيَّة الرسول ليست كأذيَّة غيرِهِ؛ لأنَّه صلى الله عليه وسلم لا يؤمِن العبدُ بالله حتى يؤمنَ برسوله، وله من التعظيم الذي هو من لوازم الإيمانِ ما يقتضي ذلك أنْ لا يكونَ مثلَ غيرِهِ، وإنْ كان أذيَّةُ المؤمنين عظيمةً وإثمهُا عظيماً، ولهذا قال فيها: {والذين يؤذونَ المؤمنين والمؤمناتِ بغير ما اكْتَسَبوا}؛ أي: بغير جناية منهم موجبةٍ للأذى، {فقدِ احْتَمَلوا}: على ظهورِهم {بُهتاناً}: حيث آذَوْهم بغير سببٍ، {وإثماً مبيناً}: حيث تعدَّوْا عليهم وانتهكوا حرمةً أَمرَ اللهُ باحترامِها، ولهذا كان سبُّ آحاد المؤمنين موجباً للتعزير بحسب حالته وعلوِّ مرتبتِهِ؛ فتعزيرُ مَنْ سبَّ الصحابة أبلغُ، وتعزيرُ من سبَّ العلماء وأهل الدين أعظم من غيرهم.
[57، 58] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول e کی تعظیم اور آپ پر صلاۃ و سلام کا حکم دینے کے بعد، آپ کو اذیت پہنچانے سے منع کیا اور جو آپ کو اذیت پہنچائے اس کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ ’’ وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ کو اور اس کے رسول کو۔‘‘ یہ آیت کریمہ ہر قسم کی قولی و فعلی اذیت سب وشتم، آپ کی تنقیص، آپ کے دین کی تنقیص اور ہر ایسا کام جس سے آپ کو اذیت پہنچے، سب کو شامل ہے۔
﴿لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا ﴾ ’’ان پر دنیا میں اللہ کی پھٹکار ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں رحمت سے دور کر کے دھتکار دیا ہے۔ دنیا کے اندر ان پر لعنت یہ ہے کہ شاتم رسول کی حتمی سزا قتل ہے۔
﴿وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا ﴾ ’’اور آخرت میں بھی اور ان کے لیے اللہ نے انتہائی رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔‘‘ اس اذیت رسانی کی جزا کے طور پر ایذا دینے والے کو درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ رسول
(e)کو تکلیف پہنچانا کسی عام آدمی کو تکلیف پہنچانے کی مانند نہیں ہے کیونکہ بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لا سکتا جب تک کہ وہ اس کے رسول e پر ایمان نہ لائے۔ آپ کی تعظیم کرنا لوازم ایمان میں شامل ہے اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کسی اور کی مانند نہیں۔
اہل ایمان کو بھی اذیت پہنچانا بہت بڑی برائی ہے اور اس کا گناہ بھی بڑا ہے اس لیے اس ایذا رسانی کے بارے میں فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا ﴾ ’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی وجہ سے ایذا دیں جو انھوں نے نہ کیا۔‘‘ یعنی ان کے کسی ایسے جرم کے بغیر، جو ان کو اذیت دینے کا موجب ہو
﴿فَقَدِ احْتَمَلُوْا ﴾ تو ایذا دینے والوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھایا
﴿بُهْتَانًا ﴾ ’’بہت بڑا بہتان‘‘ کیونکہ انھوں نے کسی سبب کے بغیر اہل ایمان کو اذیت پہنچائی
﴿وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا ﴾ ’’اور واضح گناہ
(کا بوجھ اٹھایا)‘‘ کیونکہ انھوں نے اہل ایمان پر زیادتی کی اور انھوں نے اس حرمت کی ہتک کی جس کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اس لیے عام اہل ایمان کو سب وشتم کرنا، ان کے احوال اور مرتبے کے مطابق، موجب تعزیر ہے۔ صحابہ کرامy کو سب و شتم کرنے والے کے لیے اس سے بڑھ کر تعزیر ہے۔ اہل علم اور متدین حضرات کو سب و شتم کرنے والا عام لوگوں کو سب و شتم کرنے والے سے بڑھ کر تعزیر اور سزا کا مستحق ہے۔
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (59) لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا (60) مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (61) سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (62)}.
اے نبی! کہہ دیجیے: اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ لٹکا لیا کریں وہ اپنے اوپر اپنی چادریں، یہ
(بات) زیادہ قریب ہے اس کےکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ وہ ایذا پہنچائی جائیں، اور ہے اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا
(59) البتہ اگر نہ باز آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے مدینے میں، تو ضرور ہم مسلط کر دیں گے آپ کو ان پر، پھر نہ وہ پاس رہ سکیں گے آپ کے اس
(مدینے) میں، مگر تھوڑی مدت
(60) دھتکارے ہوئے، جہاں بھی وہ پائے جائیں، پکڑ لیے جائیں اور قتل کر دیے جائیں
(بری طرح سے) قتل کیا جانا
(61) (یہ) طریقہ ہے اللہ کا ان لوگوں میں جو گزر گئے اس سے پہلے، اور ہرگز نہیں پائیں گے آپ اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی
(62)
#
{59} هذه الآية هي التي تسمَّى آية الحجاب، فأمر الله نبيَّه أن يأمُرَ النساء عموماً، ويبدأ بزوجاتِهِ وبناتِهِ ـ لأنَّهنَّ آكدُ من غيرهنَّ، ولأنَّ الآمر لغيره ينبغي أن يبدأ بأهله قبل غيرهم؛ كما قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا قُوا أنفسَكم وأهليكم ناراً}. {أن يُدْنينَ عليهنَّ من جلابيبِهنَّ}: وهنَّ اللاَّتي يَكُنَّ فوق الثياب من ملحفةٍ وخمارٍ ورداءٍ ونحوه؛ أي: يغطِّين بها وجوهَهن وصدورَهن، ثم ذكر حكمة ذلك، فقال: {ذلك أدنى أن يُعْرَفْنَ فلا يُؤْذَيْنَ}: دلَّ على وجود أذيَّةٍ إن لم يحتَجِبْن، وذلك لأنهنَّ إذا لم يحتجِبْن، ربَّما ظنَّ أنهنَّ غير عفيفاتٍ، فيتعرَّض لَهُنَّ مَنْ في قلبهِ مرضٌ، فيؤذيهنَّ، وربما استُهين بهنَّ، وظُنَّ أنهنَّ إماء، فتهاون بهنَّ من يريدُ الشرَّ؛ فالاحتجابُ حاسمٌ لمطامع الطامعين فيهنَّ. {وكان الله غفوراً رحيماً}: حيث غفر لكم ما سَلَفَ ورَحِمَكُم بأن بيَّن لكم الأحكام وأوضح الحلال والحرام؛ فهذا سدٌّ للباب من جهتهنَّ.
[59] اس آیت کریمہ کو ’’آیت حجاب‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی e کو حکم دیا کہ وہ تمام عورتوں کو عمومی طور پر پردے کا حکم دیں اور اس کی ابتدا اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں سے کریں کیونکہ دوسروں کی نسبت،
ان کے لیے یہ حکم زیادہ مؤکد ہے۔ نیز کسی معاملے میں دوسروں کو حکم دینے والے کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ابتدا کرے جیسا کہ فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِیْكُمْ نَارًا﴾ (التحریم:66/6) ’’اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ
﴿یُدْنِیْنَ عَلَ٘یْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ۠﴾ ’’وہ اپنی چادریں اوڑھ کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔‘‘
(جلباب) وہ کپڑا ہے جو عام لباس کے اوپر اوڑھ لیا جاتا ہے ،
مثلاً: دوپٹا، اوڑھنی اور چادر وغیرہ، یعنی چادر وغیرہ سے اپنے چہروں اور سینوں کو ڈھانپ لیا کریں،
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْ٘نَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ﴾ ’’یہ امر ان کے لیے موجب شناخت ہو گا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا۔‘‘ آیت کریمہ کا یہ جملہ عدم حجاب کی صورت میں وجود اذیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو بسااوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ یہ پاک باز عورتیں نہیں ہیں اور کوئی بدکردار شخص، جس کے دل میں مرض ہے، آگے بڑھ کر تعرض کر کے ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان کی اہانت بھی ہو سکتی ہے۔ شرارت پسند شخص ان کو لونڈیاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کر سکتا ہے، اس لیے حجاب بدطینت لوگوں کی لالچ بھری نظروں سے بچاتا ہے۔
﴿وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اس نے تمھارے گزشتہ گناہ بخش دیے اور تم پر رحم فرمایا کہ اس نے تمھارے لیے احکام بیان فرمائے، حلال اور حرام کو واضح کیا۔ یہ عورتوں کی جہت سے برائی کا سدباب ہے۔
#
{60 ـ 61} وأما من جهة أهل الشرِّ؛ فقد توعَّدهم بقوله: {لئن لم ينتهِ المنافقونَ والذين في قلوبهم مرضٌ}؛ أي: مرض شكٍّ أو شهوةٍ، {والمرجِفون في المدينة}؛ أي: المخوِّفون المرهِبون الأعداء، المتحدِّثون بكثرتِهِم وقوَّتِهِم وضعف المسلمين، ولم يذكرِ المعمولَ الذي ينتهون عنه؛ ليعمَّ ذلك كلَّ ما توحي به أنفسُهم إليهم، وتوسوِسُ به، وتدعو إليه من الشرِّ من التعريض بسبِّ الإسلام وأهله، والإرجاف بالمسلمين، وتوهين قُواهم، والتعرُّض للمؤمنات بالسوء والفاحشة. وغير ذلك من المعاصي الصادرة من أمثال هؤلاء.
{لَنُغْرِيَنَّكَ بهم}؛ أي: نأمرك بعقوبتهم وقتالهم ونسلِّطك عليهم، ثم إذا فعلنا ذلك؛ لا طاقةَ لهم بك، وليس لهم قوةٌ ولا امتناعٌ، ولهذا قال: {ثم لا يجاوِرونَكَ فيها إلاَّ قليلاً}؛ أي: لا يجاورونك في المدينة إلاَّ قليلاً؛ بأن تقتُلَهم أو تنفيهم، وهذا فيه دليلٌ لنفي أهل الشرِّ الذين يُتَضَرَّر بإقامتهم بين أظهر المسلمين؛ فإنَّ ذلك أحسم للشرِّ وأبعد منه، ويكونونَ {ملعونينَ أينما ثُقِفوا أُخِذوا وقُتِّلوا تَقْتيلاً}؛ أي: مبعَدين حيثُ وُجِدوا، لا يحصُلُ لهم أمنٌ، ولا يقرُّ لهم قرارٌ، يخشون أن يُقتلوا أو يُحبسوا أو يعاقَبوا.
[60، 61] رہا شریر لوگوں کے شر کا سدباب،
تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿لَىِٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْ٘مُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ’’اگر باز نہ آئیں وہ لوگ جو منافق ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے۔‘‘ یعنی شک اور شہوت کا مرض
﴿وَّالْ٘مُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ ﴾ ’’اور جو مدینے میں جھوٹی خبریں اڑایا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اپنے دشمنوں کو ڈراتے، اپنی کثرت و قوت اور مسلمانوں کی کمزوری کا ذکر کرتے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل کا ذکر نہیں فرمایا جس کے بارے میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اس سے باز آ جائیں تاکہ یہ اپنے عموم کے ساتھ ان تمام برائیوں سے رک جائیں جن پر انھیں ان کے نفس اکساتے، وسوسہ پیدا کرتے اور شر کی طرف انھیں دعوت دیتے رہتے ہیں،
مثلاً: اسلام اور اہل اسلام پر سب و شتم کرنا، مسلمانوں کے بارے میں بری افواہیں پھیلانا، ان کی قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، مومن خواتین کے ساتھ برائی اور فحش رویے سے پیش آنا اور دیگر گناہ جو ان جیسے بدکردار لوگوں سے صادر ہوتے ہیں۔
﴿لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ﴾ ہم آپ کو انھیں سزا دینے اور ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیں گے اور آپ کو ان پر تسلط اور غلبہ عطا کریں گے۔ اگر ہم نے یہ کام کیا تو ان میں آپ کا مقابلہ کرنے اور آپ سے بچنے کی قوت اور طاقت نہ ہو گی۔ اس لیے فرمایا:
﴿ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ یعنی وہ مدینہ منورہ میں بہت کم آپ کے ساتھ رہ سکیں گے، آپ ان کو قتل کردیں گے یا شہر بدر کردیں گے۔
آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ان شرپسندوں کو، جن کے مسلمانوں کے اندر قیام سے مسلمانوں کو ضرر کا اندیشہ ہو، شہر بدر کیا جا سکتا ہے، اس طریقے سے بہتر طور پر برائی کا سدباب ہو سکتا ہے اور برائی سے دور رہا جا سکتا ہے
﴿مَّلْعُوْنِیْنَ١ۛۚ اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا﴾ ’’ان پر پھٹکار برسائی گئی جہاں بھی وہ مل جائیں پکڑے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔‘‘ یعنی جہاں کہیں بھی پائے جائیں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے انھیں امن حاصل ہو گا نہ قرار، انھیں ہمیشہ قتل، قید اور عقوبتوں کا دھڑ کا لگا رہے گا۔
#
{62} {سُنَّةَ الله في الذين خَلَوْا من قبلُ}: أنَّ مَن تمادى في العصيانِ وتجرَّأ على الأذى ولم ينتهِ منه؛ فإنَّه يعاقَب عقوبةً بليغةً، {ولنْ تَجِدَ لسنَّةِ الله تبديلاً}؛ أي: تغييراً، بل سنته تعالى وعادتُه جاريةٌ مع الأسباب المقتضية لأسبابها.
[62] ﴿سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے۔‘‘ یعنی جو نافرمانی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، ایذا رسانی کی جسارت کرتا ہے اور اس سے باز نہیں آتا، اسے سخت سزا دی جاتی ہے
﴿وَلَ٘نْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ﴾ ’’اور البتہ آپ اللہ کی سنت میں کوئی تغیر و تبدل نہیں پائیں گے۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت اسباب اور اس کے مسببات کے ساتھ جاری و ساری پائیں گے۔
{يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا (63) إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا (64) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (65) يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَالَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا (66) وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (67) رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا (68)}.
پوچھتے ہیں آپ سے لوگ قیامت کی بابت،
کہہ دیجیے: بلاشبہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور کیا چیز بتلاتی ہے آپ کو شاید کہ قیامت ہو قریب ہی؟
(63) بلاشبہ اللہ نے لعنت کی کافروں پر اور اس نے تیار کی ہے ان کے لیے خوب بھڑکتی ہوئی آگ
(64) ہمیشہ رہیں گے اس میں ابد تک ، نہیں پائیں گے وہ کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار
(65) جس دن الٹ پلٹ کیے جائیں گے ان کے چہرے آگ میں تو وہ کہیں گے، اے کاش! اطاعت کی ہوتی ہم نے اللہ کی اور اطاعت کی ہوتی رسول کی
(66) اور وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی، پس انہو ں نے گمراہ کر دیا ہمیں
(سیدھے) راستے سے
(67) اے ہمارے رب! دے ان کو دگنا عذاب اور لعنت کر ان پر لعنت بڑی
(زیادہ) (68)
#
{63} أي: يستخبرك الناسُ عن الساعة استعجالاً لها، وبعضُهم تكذيباً لوقوعها وتعجيزاً للذي أخبر بها، {قُل} لهم: {إنَّما علمُها عند الله}؛ أي: لا يعلمُها إلاَّ الله؛ فليس لي ولا لغيري بها علمٌ، ومع هذا؛ فلا تستبطئوها، {وما يُدْريكَ لعلَّ الساعةَ تكونُ قريباً}.
[63] یعنی لوگ جلدی مچاتے ہوئے آپ سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ان میں سے بعض تکذیب کے طور پر اور خبر دینے والے کو اس بارے میں عاجز سمجھتے ہوئے پوچھتے ہیں تو
﴿قُ٘لْ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے۔‘‘ ان سے!
﴿اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لیے مجھے یا کسی اور کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ بایں ہمہ تم اسے زیادہ دور نہ سمجھو۔
﴿وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَ٘رِیْبًا ﴾ ’’اور آپ کو کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آ گئی ہو‘‘
#
{64 ـ 66} ومجردُ مجيء الساعة قرباً وبعداً ليس تحته نتيجةٌ ولا فائدةٌ، وإنَّما النتيجة والخسار والربح والشقاوة والسعادة: هل يستحقُّ العبدُ العذاب أو يستحقُّ الثواب؛ فهذه سأخبركم بها وأصفُ لكم مستحقَّها، فوصف مستحقَّ العذاب ووصف العذاب؛ لأنَّ الوصف المذكور منطبقٌ على هؤلاء المكذِّبين بالساعة، فقال: {إنَّ الله لَعَنَ الكافرين}؛ أي: الذين صار الكفر دأبهم وطريقتهم الكفر بالله وبرسُلِهِ وبما جاؤوا به من عند الله، فأبعدهم في الدنيا والآخرة من رحمته، وكفى بذلك عقاباً، {وأعدَّ لهم سعيراً}؛ أي: ناراً موقدةً تُسَعَّرُ في أجسامهم، ويبلغُ العذاب إلى أفئدتهم، ويخلدون في ذلك العذاب الشديد، فلا يخرجونَ منه، ولا يُفَتَّرُ عنهم ساعةً، {ولا يجدون} لهم {وليًّا}: فيعطيهم ما طلبوه {ولا نصيراً}: يدفعُ عنهم العذابَ، بل قد تخلَّى عنهم العلي النصير وأحاطَ بهم عذابُ السعير، وبلغ منهم مبلغاً عظيماً، ولهذا قال: {يوم تُقَلَّبُ وجوهُهم في النارِ}: فيذوقون حرَّها، ويشتدُّ عليهم أمرُها، ويتحسرون على ما أسلفوا. و {يقولونَ يا لَيْتَنا أطَعْنا الله وأطَعْنا الرسولا}: فسلِمْنا من هذا العذاب، واستَحْقَقنا كالمطيعين جزيلَ الثواب، ولكن أمنية فاتَ وقتُها، فلم تفدهم إلا حسرةً وندماً وهمًّا وغمًّا وألماً.
[66-64] قیامت کی گھڑی کے مجرد قریب یا بعید ہونے میں کوئی فائدہ یا نتیجہ نہیں، حقیقی نتیجہ تو خسارہ یا نفع اور بدبختی یا خوش بختی ہے، نیز آیا بندہ عذاب کا مستحق ہے یا ثواب کا؟ اور ان امور کے بارے میں تمھیں میں خبر دیتا ہوں اور میں بتاتا ہوں کہ ان کا مستحق کون ہے؟ لہٰذا آپ نے عذاب کے مستحق لوگوں کا وصف بیان کیا اور اس عذاب کا وصف بیان کیا جس میں ان کو مبتلا کیا جائے گا کیونکہ یہ وصفِ مذکور آخرت کی تکذیب کرنے والوں پر منطبق ہوتا ہے۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَ٘عَنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے۔‘‘ یعنی جن کی عادت اور فطرت اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اس کا کفر اور انکار کر نا ہے انھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور سزا کے لیے یہی کافی ہے
﴿وَاَعَدَّ لَهُمْ سَعِیْرًا﴾ ’’اور تیار کی ہے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ۔‘‘ یعنی ان کے لیے آگ بھڑکائی جائے گی جس میں ان کے جسم جلیں گے، آگ ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی وہ اس سخت عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس عذاب سے کبھی نکل سکیں گے نہ عذاب میں کبھی کمی آئے گی اور
﴿لَا یَجِدُوْنَ ﴾ ’’وہ نہیں پائیں گے ‘‘ اپنے لیے
﴿وَلِیًّا ﴾ ’’کوئی دوست‘‘ جو ان کو وہ کچھ دے سکے جو وہ طلب کریں۔
﴿وَّلَا نَصِیْرًا﴾ ’’نہ ان کا کوئی مددگار ہو گا‘‘ جو ان سے عذاب کو دور کر سکے بلکہ تمام مددگار ان کو چھوڑ جائیں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا سخت عذاب انھیں گھیر لے گا۔
اس لیے فرمایا:
﴿یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ ﴾ ’’جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائے جائیں گے۔‘‘ پس وہ آگ کی شدید حرارت کا مزا چکھیں گے، آگ کا عذاب ان پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ اپنے گزشتہ اعمال پر حسرت کا اظہار کریں گے۔
﴿یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا ﴾ ’’وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی‘‘ اور یوں ہم اس عذاب سے بچ جاتے اور اطاعت مندوں کی طرح ہم بھی ثواب جزیل کے مستحق ٹھہرتے۔ مگر یہ ان کی ایسی آرزو ہے جس کا وقت گزر چکا۔ جس کا اب، حسرت، ندامت، غم اور الم کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔
#
{67} {وقالوا ربَّنا إنَّا أطَعْنا سادتنا وكبراءنا}: وقلَّدْناهم على ضلالهم، {فأضَلُّونا السبيلا}؛ كقوله تعالى: {ويوم يَعَضُّ الظالمُ على يديهِ يقولُ يا ليتني اتَّخَذْتُ مع الرسولِ سبيلاً. يا وَيْلتى لَيْتَني لم أتَّخِذْ فلاناً خليلاً. لقد أضلَّني عن الذِّكْر [بعد إذ جاءني] ... } الآية.
[67] ﴿وَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّـاۤ٘ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَؔكُبَرَآءَؔنَا ﴾ ’’اور کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا‘‘ اور ہم نے گمراہی میں ان کی تقلید کی
﴿فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا﴾ ’’تو انھوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۰۰ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَؔكَانَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا﴾ (الفرقان:25/27-29) ’’اور ظالم اس روز اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے میری ہلاکت! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے مجھے نصیحت کے بارے میں گمراہ کر دیا جب وہ میرے پاس آئی۔‘‘
#
{68} ولما علموا أنَّهم هم وكبراءهم مستحقُّون للعقاب؛ أرادوا أن يشتفوا ممَّنْ أضلُّوهم، فقالوا: {ربَّنا آتهم ضِعْفَيْنِ من العذاب والْعَنْهم لَعناً كبيراً}: فيقول الله {لكلٍّ ضعف}: فكلُّكم اشتركتُم في الكفر والمعاصي، فتشتركون في العقاب، وإنْ تفاوت عذابُ بعضِكم على بعض بحسب تفواتِ الجرم.
[68] جب انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ اور ان کے سردار عذاب کے مستحق ہیں تو وہ ان کو عذاب میں دیکھنا چاہیں گے جنھوں نے ان کو گمراہ کیا،
چنانچہ وہ کہیں گے: ﴿رَبَّنَاۤ اٰتِهِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِیْرًا ﴾ ’’اے ہمارے رب! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہے تم سب کفر اور معاصی میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک تھے، لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو گے اگرچہ تمھارے جرم میں تفاوت کے مطابق تمھارے عذاب میں بھی تفاوت ہو گا۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا (69)}
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ ہو تم ان لوگوں کی طرح جنھوں نے ایذا دی موسیٰ کو، پس بری کر دیا اس کو اللہ نے اس
(الزام) سے جو انھوں نے
(اس کی بابت) کہا، اور تھا وہ نزدیک اللہ کے بڑے رتبے والا
(69)
#
{69} يحذِّر تعالى عبادَه المؤمنين عن أذيَّة رسولهم محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - النبيِّ الكريم الرءوف الرحيم، فيقابلوه بضدِّ ما يجب له من الإكرام والاحترام، وأن لا يتشبَّهوا بحال الذين آذَوْا موسى بن عمران كليم الرحمن، فبرَّأه اللَّه مما قالوا من الأذيَّة؛ أي: أظهر الله لهم براءته، والحالُ أنَّه عليه الصلاة والسلام ليس محلَّ التهمة والأذية؛ فإنَّه كان وجيهاً عند الله، مقرباً لديه، من خواصِّ المرسلين، ومن عباد الله المخلَصين، فلم يزجرهم ما له من الفضائل عن أذيَّته والتعرُّض له بما يكره. فاحذروا أيُّها المؤمنون أن تتشبَّهوا بهم في ذلك، والأذيَّة المشار إليها هي قولُ بني إسرائيل عن موسى لما رأوا شدَّة حيائِهِ وتستُّره عنهم: إنَّه ما يمنعُه من ذلك إلاَّ أنَّه آدرُ؛ أي: كبير الخصيتين، واشتهر ذلك عندهم، فأراد الله أن يبرِّئه منهم، فاغتسل يوماً، ووضع ثوبه على حجر، ففرَّ الحجر بثوبه، فأهوى موسى عليه السلام في طلبه، فمرَّ به على مجالس بني إسرائيل، فرأوه أحسن خلق الله، فزال عنه ما رموه به.
[69] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول محمدeکو جو معزز ، نہایت نرم دل اور رحیم ہیں، اذیت نہ پہنچائیں، ان پر جو آپ کے لیے اکرام و احترام واجب ہے وہ اس کے برعکس رویے سے پیش نہ آئیں اور ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرلیں جنھوں نے کلیم الرحمٰن حضرت موسیٰ بن عمرانu کو اذیت پہنچائی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کو ان کی تکلیف دہ باتوں سے براء ت دی اور ان کی براء ت کو ان کے سامنے ظاہر کر دیا، حالانکہ موسیٰu تہمت اور اذیت کے لائق نہ تھے وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت باآبرو، اس کے مقرب بندے، اس کے خاص رسول اور اس کے مخلص بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حضرت موسیٰu کو اللہ تعالیٰ نے جن فضائل سے سرفراز فرمایا وہ فضائل بھی ان کو اذیت رسانی سے نہ روک سکے اور ان کو ناپسندیدہ حرکات سے باز نہ رکھ سکے اس لیے اے مومنو! تم ان کی مشابہت اختیار کرنے سے بچو۔
یہ اذیت جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰu کے بارے میں بنی اسرائیل کی بدزبانی ہے۔ جب انھوں نے حضرت موسیٰ کو دیکھا کہ یہ نہایت باحیا ہیں اور اپنے ستر کا بہت خیال رکھتے ہیں تو انھوں نے مشہور کر دیا کہ وہ صرف اس لیے ستر چھپاتے ہیں کہ ان کے خصیے
(فوطے) متورم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے آپ کی براء ت کرنا چاہی، چنانچہ ایک روز حضرت موسیٰu نے غسل کیا اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے پتھر کپڑے لے کر فرار ہونے لگا حضرت موسیٰ
(اسی عریاں حالت میں) پتھر کے پیچھے بھاگے اور بنی اسرائیل کی مجالس کے پاس سے گزرے تو انھوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین تخلیق سے سرفراز فرمایا ہے۔ پس آپ سے ان کا بہتان زائل ہو گیا۔
(صحيح البخاري، الغسل، باب من اغتسل عرياناً وحده في خلوةٍ، ح: 278)
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ڈرو اللہ سے، اور کہو بات سیدھی
(سچی) (70)وہ درست کر دے گا تمھارے لیے تمھارے عمل اور بخش دے گا تمھارے لیے تمھارے گناہ اور جو اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی، تو تحقیق کامیابی حاصل کر لی اس نے کامیابی بہت بڑی
(71)
#
{70} يأمر تعالى المؤمنين بتقواه في جميع أحوالِهِم في السرِّ والعلانية، ويخصُّ منها ويندب للقول السديد، وهو القول الموافق للصواب أو المقارب له عند تعذُّر اليقين من قراءةٍ وذكرٍ وأمرٍ بمعروف ونهي عن منكر وتعلُّم علم وتعليمه والحرص على إصابة الصواب في المسائل العلميَّة وسلوك كلِّ طريق موصِل لذلك وكل وسيلةٍ تُعين عليه. ومن القول السديد لينُ الكلام ولطفُه في مخاطبة الأنام والقول المتضمِّن للنُّصح والإشارة بما هو الأصلح.
[70] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ کھلے چھپے، اپنے تمام احوال میں تقویٰ کا التزام کریں اور درست بات کہنے پر خاص طور پر زور دیا ہے
(اَلْقَوْلُ السَّدِیْد) اس قول کو کہتے ہیں جو صحیح اور حق کے موافق یا اس کے قریب تر ہو،
مثلاً: قراء تِ قرآن، ذکرِ الٰہی، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، علم کا سیکھنا ، پھر اس کی تعلیم دینا، علمی مسائل میں حق و صواب کے حصول کی حرص، ہر اس راستے پر گامزن ہونے کی کوشش کرنا جو حق تک پہنچتا ہو اور وہ وسیلہ اختیار کرنا جو حق کے حصول میں مددگار ہو۔ لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں نرم اور لطیف کلام بھی قولِ سدید کے زمرے میں آتا ہے، کوئی ایسی بات کہنا جو خیرخواہی کو متضمن ہو، یا کسی درست تر امر کا مشورہ دینا یہ سب قولِ سدید میں داخل ہیں۔
#
{71} ثم ذَكَرَ ما يترتَّب على تقواه وقول القول السديدِ، فقال: {يُصْلِحْ لكم أعمالَكم}؛ أي: يكون ذلك سبباً لصلاحها وطريقاً لقَبولها؛ لأنَّ استعمال التقوى تُتَقَبَّلُ به الأعمال؛ كما قال تعالى: {إنَّما يتقبَّلُ الله من المتَّقينَ}: ويوفَّق فيه الإنسان للعمل الصالح، ويُصْلِحُ الله الأعمال أيضاً بحفظها عما يُفْسِدُها وحفظِ ثوابها ومضاعفتِهِ؛ كما أنَّ الإخلال بالتقوى والقول السديد سببٌ لفسادِ الأعمال وعدم قَبولها وعدم ترتب آثارِها عليها، {ويَغْفِرْ لكم}: أيضاً {ذنوبكم}: التي هي السببُ في هلاكِكُم؛ فالتَّقْوى تستقيمُ بها الأمور، ويندفعُ بها كلُّ محذور، ولهذا قال: {ومَن يُطِع اللهَ ورسولَه فقد فاز فوزاً عظيماً}.
[71] پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اور قول سدید پر مترتب ہوتے ہیں،
چنانچہ فرمایا: ﴿یُّ٘صْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ ﴾ یعنی تقویٰ اعمال کی اصلاح کا سبب اور ان کی قبولیت کا ذریعہ ہے کیونکہ تقویٰ کے استعمال ہی سے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پاتے ہیں،
جیسا کہ فرمایا: ﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ (المائدۃ : 5؍ 27) ’’اللہ تعالیٰ صرف متقین ہی کا عمل قبول فرماتا ہے۔‘‘
تقویٰ کے وجود سے انسان کو عمل صالح کی توفیق عطا ہوتی ہے، تقویٰ ہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان کے ثواب کی مفاسد سے حفاظت کرتا ہے اور ثواب کو کئی گنا زیادہ کرتا ہے۔اسی طرح تقویٰ اور قول سدید میں خلل اور فساد اعمال، ان کی عدم قبولیت اور ان کے اثرات مترتب نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔
﴿وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تمھارے گناہوں کو بخش دے گا‘‘ جو تمھاری ہلاکت کا سبب ہیں۔ تقویٰ ہی سے تمام معاملات درست اور تمام برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بنا بریں فرمایا:
﴿وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بہت بڑی مراد پائے گا۔‘‘
{إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (72) لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (73)}
بلاشبہ ہم نے پیش کی
(اپنی) امانت اوپر آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے، تو انھوں نے انکار کر دیا اس کے اٹھانے سے اور ڈر گئے وہ اس سے اور اٹھا لیا اس
(امانت) کو انسان نے، یقیناً تھا وہ بڑا ظالم اور بہت جاہل
(72) تاکہ عذاب دے اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور توجہ
(رحم) فرمائے اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں پر اور ہے اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان
(73)
#
{72} يعظِّم تعالى شأنَ الأمانةَ التي ائتمنَ اللَّه عليها المكلَّفين، التي هي امتثال الأوامر واجتناب المحارم في حال السرِّ والخفية كحال العلانية، وأنَّه تعالى عَرَضَها على المخلوقات العظيمة السماواتِ والأرض والجبال عرضَ تخييرٍ لا تحتيم، وأنَّكِ إن قمتِ بها وأدَّيْتِيها على وجهها؛ فلكِ الثوابُ، وإنْ لم تَقومي بها ولم تؤدِّيها؛ فعليكِ العقاب، {فأبَيْنَ أن يَحْمِلْنَها وأشفَقْنَ منها}؛ أي: خوفاً أن لا يقمنَ بما حملن، لا عصياناً لربِّهن ولا زهداً في ثوابه، وعرضها الله على الإنسان على ذلك الشرط المذكور، فقَبِلَها وحملها مع ظلمِهِ وجهلِهِ، وحمل هذا الحمل الثقيل.
[72] اللہ تبارک وتعالیٰ اس امانت کی عظمت بیان کرتا ہے جو اس نے مکلفین کے سپرد کی۔ اس امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور کھلے چھپے تمام احوال میں محارم سے اجتناب کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو بڑی بڑی مخلوقات، آسمان، زمین اور پہاڑوں وغیرہ کے سامنے پیش کر کے اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا کہ اگر تم اسے قائم کروگے اور اس کا جو حق ہے وہ ادا کرو گے تو تمھارے لیے ثواب ہے اور اگر تم اس کو قائم کر سکے نہ اسے ادا کر سکے تو تمھیں عذاب ملے گا۔
﴿فَاَبَؔیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَاَشْ٘فَ٘قْ٘نَ مِنْهَا ﴾ یعنی انھوں نے اس خوف سے اس امانت کا بار اٹھانے سے انکار کر دیا کہ وہ اس امانت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، ان کا یہ انکار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے طور پر نہ تھا، اور نہ اس کے ثواب میں بے رغبتی کے سبب سے تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو، اسی شرط کے ساتھ، انسان کے سامنے پیش کیا، اس نے اسے قبول کر کے اس کا بار اٹھا لیا، اس نے اپنی جہالت اور ظلم کے باوصف اس بھاری ذمہ داری کو قبول کر لیا۔
#
{73} فانقسم الناس بحسب قيامهم بها وعدمِهِ إلى ثلاثة أقسام: منافقون [أظهروا أنهم] قاموا بها ظاهراً لا باطناً، ومشركون تركوها ظاهراً وباطناً، ومؤمنون قائمون بها ظاهراً وباطناً. فذكرَ الله تعالى أعمالَ هذه الأقسام الثلاثة وما لهم من الثوابِ والعقابِ، فقال: {ليعذِّبَ الله المنافقينَ والمنافقاتِ والمشركينَ والمشركاتِ ويتوبَ الله على المؤمنين والمؤمنات وكان الله غفوراً رحيماً}: فله تعالى الحمدُ حيث خَتَمَ هذه الآية بهذين الاسمين الكريمين الدالَّيْن على تمام مغفرةِ الله وسعة رحمتِهِ وعموم جوده، مع أنَّ المحكوم عليهم كثيرٌ، منهم لم يستحقَّ المغفرة والرحمة، لنفاقِهِ وشركِهِ.
[73] لوگ اس امانت کو قائم رکھنے اور قائم نہ رکھنے کے لحاظ سے تین اقسام میں منقسم ہیں:
(۱) منافقین: جو ظاہری طور پر اس امانت کو قائم رکھتے ہیں اور باطن میں اس کو ضائع کرتے ہیں۔
(۲) مشرکین: جنھوں نے ظاہری اور باطنی طور پر اس امانت کو ضائع کر دیا ہے۔
(۳) مومنین: جنھوں نے ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے اس امانت کو قائم کر رکھا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تینوں اقسام کے لوگوں کے اعمال اور ان کے ثواب و عقاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْ٘مُشْرِكِیْنَ وَالْ٘مُشْرِكٰتِ وَیَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ ’’تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اس آیت مبارکہ کو ان دو اسمائے حسنیٰ پر ختم کیا جو اللہ تعالیٰ کی کامل مغفرت، بے پایاں رحمت اور لامحدود جودوکرم پر دلالت کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے نفاق اور شرک کے باعث اس مغفرت اور رحمت کے مستحق نہیں۔