آیت:
تفسیر سورۂ قصص
تفسیر سورۂ قصص
آیت: 1 - 51 #
{طسم (1) تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) نَتْلُو عَلَيْكَ مِنْ نَبَإِ مُوسَى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (3) إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (4) وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ (6) وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (7) فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ (8) وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (9) وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا إِنْ كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (10) وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (11) وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ (12) فَرَدَدْنَاهُ إِلَى أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (13) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (14) وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَذَا مِنْ شِيعَتِهِ وَهَذَا مِنْ عَدُوِّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ (15) قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (16) قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِينَ (17) فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنْصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ قَالَ لَهُ مُوسَى إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ (18) فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَنْ يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَهُمَا قَالَ يَامُوسَى أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ إِنْ تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ (19) وَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَى قَالَ يَامُوسَى إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ (20) فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (21) وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَى رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ (22) وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ (23) فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (24) فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (25) قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ (26) قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ (27) قَالَ ذَلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ وَاللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ (28) فَلَمَّا قَضَى مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ (29) فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ يَامُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (30) وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَامُوسَى أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ (31) اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (32) قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ (33) وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ (34) قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ (35) فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسَى بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ (36) وَقَالَ مُوسَى رَبِّي أَعْلَمُ بِمَنْ جَاءَ بِالْهُدَى مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (37) وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَاهَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ (38) وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ (39) فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (40) وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ (41) وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُمْ مِنَ الْمَقْبُوحِينَ (42) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (43) وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ (44) وَلَكِنَّا أَنْشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (45) وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (46) وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (47) فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ (48) قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (49) فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (50) وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (51)}.
طٰسٓمّٓ (1) یہ آیتیں ہیں کتاب واضح کی (2)پڑھتے ہیں ہم آپ پر کچھ خبریں موسیٰ اور فرعون کی ساتھ حق کے، ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (3) بے شک فرعون نے سرکشی کی زمین (مصر) میں اور بنا دیا اس نے اس کے رہنے والوں کو کئی گروہ، ضعیف سمجھتا تھا وہ ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو ان میں سے وہ ذبح کرتا تھا ان کے بیٹے اور زندہ رکھتا تھا ان کی عورتیں (بیٹیاں )، بلاشبہ وہ تھا فساد کرنے والوں میں سے (4) اور ہم چاہتے تھے یہ کہ احسان کریں ہم ان لوگوں پر جو ضعیف سمجھے جاتے تھے زمین (مصر) میں اور یہ کہ بنائیں ہم ان کو امام (پیشوا)اور بنائیں ہم انھیں وارث (ملک کا) (5)اور قدرت دیں ہم ان کو زمین میں اور دکھلائیں ہم فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکروں کو ان (کمزوروں کے ہاتھ) سے وہ چیز جس سے تھے وہ ڈرتے (6)اور الہام کیا ہم نے موسیٰ کی ماں کو یہ کہ دودھ پلا تو اس (موسیٰ) کو، پس جب ڈرے تو اس پر تو ڈال دینا اسے دریا میں اور نہ ڈرنا اور نہ غم کھانا بلاشبہ ہم لوٹانے والے ہیں اسے تیری طرف اور بنانے والے ہیں اس کو رسولوں میں سے (7) (اس نے ڈالا) پس اٹھا لیا اسے فرعون کے گھر والوں نے تاکہ ہو ان کے لیے دشمن اور (باعث) غم، بلاشبہ فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکر تھے وہ خطا کار (8) اور کہا بیوی نے فرعون کی (یہ تو) ٹھنڈک ہے آنکھوں کی میرے لیے اور تیرے لیے، نہ قتل کرو تم اسے، امید ہے کہ یہ نفع دے ہمیں یا بنا لیں ہم اسے بیٹااور وہ نہیں شعور رکھتے تھے (انجام کا) (9)اور ہو گیا دل موسیٰ کی ماں کا (صبر وقرار سے) خالی بلاشبہ قریب تھا کہ البتہ وہ ظاہر کر دیتی اس کو اگر نہ ہوتی یہ بات کہ مضبوط کر دیا تھا ہم نے اس کے دل کوتاکہ ہو وہ یقین کرنے والوں میں سے (10) اور کہا موسیٰ کی ماں نے اس کی بہن سے پیچھے پیچھے جا تو اس کے، پس وہ (گئی اور) دیکھتی رہی اسے دور سے جبکہ وہ (فرعونی) نہیں شعور رکھتے تھے (اس کا) (11)اور حرام کر دیا تھا ہم نے موسیٰ پردائیوں (کے دودھ) کو پہلے اس سے، پس کہا (موسیٰ کی بہن نے) کیا رہنمائی کروں میں تمھاری اوپر ایک گھر والوں کے جو پرورش کریں اس (بچے) کی تمھارے لیےاور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہیں؟ (12) پس لوٹا دیا ہم نے اس کو اس کی ماں کی طرف تاکہ ٹھنڈی ہوں اس کی آنکھیں اور (تاکہ) نہ غم کھائے وہ اور تاکہ وہ جان لے کہ بے شک وعدہ اللہ کا سچا ہے لیکن اکثر ان کے نہیں جانتے (13) اور جب پہنچا وہ (موسیٰ) اپنی جوانی کو اور کامل ہو گیا (عقل و شعور میں ) تو دیا ہم نے اس کو حکم اور علم اور اسی طرح جزا دیتے ہیں ہم نیکی کرنے والوں کو (14) اور داخل ہوا وہ (موسیٰ) شہر میں ایسے وقت کہ غفلت میں تھے اس کے باشندے پس پایا اس نے اس شہر میں دو آدمیوں کو جو باہم لڑ رہے تھے، یہ (ایک تو) اس کے گروہ میں سے تھااور یہ (دوسرا) اس کے دشمن (گروہ میں ) سے پس مدد مانگی موسیٰ سے اس شخص نے جو اس کے گروہ میں سے تھا خلاف اس کے جو اس کے دشمن (گروہ میں ) سے تھا، پس گھونسا مارا اس (فرعونی) کو موسیٰ نے تو کام ہی تمام کر دیا اس کا، کہا موسیٰ نے، یہ (قتل) عمل ہے شیطان کا بلاشبہ وہ دشمن ہے، گمراہ کرنے والا صریح (15) موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! بے شک میں نے ظلم کیا ہے اپنے نفس پر پس بخش دے مجھے سو بخش دیا اللہ نے اسے، بلاشبہ وہ ہے بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا(16) موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! بہ سبب اس کے کہ انعام کیا تو نے مجھ پر پس ہرگز نہیں ہوں گا میں مدد گار مجرموں کا (17) پس صبح کی موسیٰ نے شہر میں ڈرتے ڈرتے، انتظار کرتے ہوئے تو ناگہاں وہ شخص کہ جس نے مدد مانگی تھی اس سے کل، وہی (مدد کے لیے) پکار رہا تھا اسے (آج بھی) کہا اس سے موسیٰ نے، بلاشبہ تو البتہ گمراہ ہے ظاہر (18) پس جب ارادہ کیا موسیٰ نے یہ کہ پکڑے اس شخص کو کہ جو دشمن تھا ان دونوں کا تو اس (اسرائیلی) نے کہا اے موسیٰ! کیا چاہتا ہے تو یہ کہ قتل کرے تو مجھے جس طرح قتل کیا تھا تو نے ایک شخص کو کل؟ نہیں چاہتا تو مگر یہ کہ ہو تو ظالم زمین میں اور نہیں چاہتا تو یہ کہ ہو تو اصلاح کرنے والوں میں سے (19) اور آیا ایک آدمی آخری کنارے سے شہر کے دوڑتا ہوا اس نے کہا، اے موسیٰ! بلاشبہ (فرعونی) سردار مشورہ کر رہے ہیں تیرے متعلق تاکہ وہ قتل کر دیں تجھے، پس نکل جا تو، بے شک میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں (20) پس نکلا موسیٰ اس شہر سے ڈرتا سہمتا، انتظار کرتا ہوا (اور) کہا، اے میرے رب! تو نجات دے مجھے ظالم قوم سے (21) اور جب متوجہ ہوا وہ طرف مدین کی تو کہا، امید ہے میرا رب یہ کہ ہدایت دے گا وہ مجھے سیدھے راستے کی (22) اور جب وہ پہنچا پانی (کنویں ) پر مدین کے تو پایا اس نے اس پر ایک گروہ لوگوں کا، وہ پانی پلا رہے تھے (مویشیوں کو) اور پایا اس نے ان کے ورے دوعورتوں کو کہ و ہ روکتی تھیں (اپنے جانور)، موسیٰ نے کہا، کیاحال ہے تمھارا؟ انھوں نے کہا، نہیں پانی پلاتیں ہم حتیٰ کہ واپس لے جائیں چرواہے (اپنے مویشی) اور ہمارا باپ بوڑھا ہے بڑی عمر کا (23) پس موسیٰ نے پانی پلایا ان کے لیے ، پھر پلٹا وہ طرف سائے کی اور کہا، اے میرے رب! بے شک میں اس چیز کا جو نازل کرے تو میری طرف بھلائی سے ، محتاج ہوں (24) پس آئی اس کے پاس ایک (لڑکی) ان دونوں سے چلتی تھی وہ حیا سے، اس نے کہا، بے شک میرے والد بلاتے ہیں تجھے تاکہ وہ دیں تجھے مزدوری اس کی کہ پانی پلایا ہے تو نے ہماری خاطر پس جب آیا وہ (موسیٰ) اس کے پاس اور بیان کیا اس نے اس پر (سارا) قصہ تو اس نے کہا، مت ڈر تو، نجات پالی ہے تو نے (اس) ظالم قوم سے (25) کہا ایک (لڑکی) نے ان دونوں میں سے، ابا جان! اجرت پر رکھ لیجیے اسے، بلاشبہ بہترین وہ شخص جسے آپ اجرت پر رکھیں طاقتور اور امانتدار آدمی ہی ہے (26) ا س نے کہا، بلاشبہ میں چاہتا ہوں یہ کہ نکا ح کر دوں میں تجھ سے ایک کا اپنی ان دو بیٹیوں میں سے اوپر اس (شرط) کے کہ نوکری کرے تو میری آٹھ سال پس اگر پورے کرے تو دس سال تو(وہ) تیری طرف سے ہےاور نہیں چاہتا میں یہ کہ سختی کروں تجھ پر یقینا تو پائے گا مجھے، اگر اللہ نے چاہا نیک لوگوں میں سے (27) موسیٰ نے کہا، یہ (معاہدہ) ہے میرے درمیان اور آپ کے درمیان، جونسی دو مدتوں میں سے پوری کر لوں میں تو نہیں ہو گی زیادتی مجھ پر اور (اللہ)اوپر اس (بات) کے جو ہم کہہ رہے ہیں ، نگران ہے (28) پس جب پور ی کر لی موسیٰ نے (وہ) مدت اور چلا گیا لے کر اپنی بیوی کو تو دیکھی اس نے طور کی ایک جانب سے آگ، اس نے کہا اپنی بیوی سے، ٹھہرو تم، بے شک میں نے دیکھی ہے آگ سی، شاید کہ میں لے آؤں تمھارے پاس اس جگہ سے کوئی خبر یا کوئی انگار ا آگ کا تاکہ تم تاپو (29) پس جب وہ آیا اس کے پاس تو ندا دیا گیاوہ وادی کے دائیں کنارے سے، بابرکت جگہ میں ، درخت (کی طرف) سے کہ اے موسیٰ! بلاشبہ میں اللہ ہوں ، رب سب جہانوں کا (30) اور یہ کہ ڈال دے تو لاٹھی اپنی، پس جب دیکھا موسیٰ نے لاٹھی کو کہ وہ حرکت کر رہی ہے گویا کہ وہ سانپ ہے تو پیچھے ہٹا وہ پیٹھ پھیر کر اور نہ پیچھے مڑکر دیکھا اس نے (کہا گیا) اے موسیٰ آگے آاور نہ ڈر، بلاشبہ تو امن والوں میں سے ہے (31) داخل کر تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں (پھر نکال اسے تو) نکلے گا وہ (سفید) چمکتا ہوا بغیر کسی عیب کے اور ملالے اپنی طرف اپنا بازو خوف سے (بچنے کے لیے) پس یہ دونوں دلیلیں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف، بے شک وہ ہیں لوگ نافرمان (32) موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! بے شک میں نے قتل کیا تھا ان میں سے ایک شخص کو سو ڈرتا ہوں میں کہ وہ قتل کر دیں مجھے (33) اور میرا بھائی ہارون، وہ زیادہ فصیح ہے مجھ سے باعتبار زبان کے، پس بھیج اسے میرے ساتھ مدد گار بنا کر کہ وہ تصدیق کرے میری، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ جھٹلائیں گے مجھے (34)اللہ نے کہا، عنقریب ہم مضبوط کر دیں گے تیرا بازو ساتھ تیرے بھائی کے اور کر دیں گے ہم تم دونوں کے لیے غلبہ، سو نہیں پہنچ سکیں گے وہ تمھاری طرف (جاؤ تم) ہماری نشانیوں کے ساتھ، تم دونوں اور جس نے تمھاری پیروی کی غالب ہوں گے (35) پس جب آیا ان کے پاس موسیٰ ہماری واضح نشانیوں کے ساتھ تو انھوں نے کہا، نہیں ہے یہ مگر جادو ہی گھڑا ہوں اور نہیں سنیں ہم نے یہ (باتیں ) اپنے پہلے باپ دادا میں (36) اور کہا موسیٰ نے، میرا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو جو آیا ساتھ ہدایت کے اس کی طرف سےاور اس شخص کو کہ ہو گا اس کے لیے (بہتر) انجام آخرت کا بلاشبہ نہیں فلاح پاتے ظالم (37) اور کہا فرعون نے، اے سردارو! نہیں جانتا میں تمھارے لیے کوئی (اور) معبود سوائے اپنے، پس آگ جلا میرے لیے اے ہامان اوپر مٹی کے (یعنی اینٹیں بنا) پھر بنا تو میرے لیے ایک محل تاکہ (اس پہ چڑھ کر) جھانکوں میں موسیٰ کے معبود کی طرف اور بلاشبہ میں البتہ گمان کرتا ہوں موسیٰ کو جھوٹوں میں سے (38) اور تکبر کیا اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین (مصر) میں ناحق اور گمان کیا انھوں نے کہ بے شک وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے (39) پس پکڑ لیا ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو، پھر پھینک دیا ہم نے ان کو دریا میں ، پس آپ دیکھیں کیسا ہوا انجام ظالموں کا؟ (40) اور بنایا تھا ہم نے ان کو پیشوا یانِ(کفر)، وہ بلاتے تھے آگ کی طرف اور دن قیامت کے نہیں مدد کیے جائیں گے وہ(41) اور پیچھے لگا دی ہم نے ان کے اس دنیا میں لعنت اور دن قیامت کے وہ بدحالوں میں سے ہو ں گے (42) اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب، بعد اس کے کہ ہلاک کیا ہم نے پہلی امتوں کو، بصیرتیں (عطا کرنے والی) لوگوں کو اور ہدایت اورحمت (کا ذریعہ) تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (43) اور نہیں تھے آپ مغربی جانب (طور کی) جب وحی کی ہم نے موسیٰ کی طرف (خاص) معاملے کی اور نہیں تھے آپ (اس واقعے کے) دیکھنے والوں میں سے (44) لیکن ہم نے پیدا کیں کئی امتیں پس لمبی ہو گئیں ان پر عمریں اور نہیں تھے آپ مقیم اہلِ مدین میں کہ تلاوت کرتے آپ ان پر ہماری آیتیں لیکن ہم ہی تھے (آپ کو رسول بنا کر) بھیجنے والے (45) اور نہیں تھے آپ جانب طور کی جب آواز دی تھی ہم نے (موسیٰ کو) لیکن (یہ تو) رحمت ہے آپ کے رب کی طرف سےتاکہ آپ ڈرائیں اس قوم کو کہ نہیں آیا ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آپ سے پہلے شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں (46) اور اگر نہ ہوتی یہ بات کہ پہنچتی ان کو کوئی مصیبت بوجہ اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے تو وہ کہتے اے ہمارے رب! کیوں نے نہیں بھیجا تو نے ہماری طرف کوئی رسول کہ پیروی کرتے ہم تیری آیتوں کی اور ہوتے ہم مومنوں میں سے، (تو آپ کو نہ بھیجتے) (47) پس جب آیا ان کے پاس حق ہمارے پاس سے تو انھوں نے کہا، کیوں نہیں دیا گیا یہ پیغمبر مثل ان (معجزوں ) کے جو دیے گئے تھے موسیٰ؟ کیا نہیں انکار کیا انھوں نے ان کا جو دیے گئے تھے موسیٰ پہلے اس سے؟ انھوں نے کہا تھا، (یہ) دو جادو گر ہیں ایک دوسرے کے مدد گاراور کہا انھوں نے ، بلاشبہ ہم ہر ایک کے منکر ہیں (48) کہہ دیجیے! پس لے آؤ تم کوئی ایسی کتاب اللہ کے پاس سے کہ وہ زیادہ ہدایت والی ہو ان دونوں سے، میں پیروی کروں گا اس کی، اگر ہو تم سچے (49) پس اگر نہ قبول کی انھوں نے آپ کی بات تو جان لیجیے یقینا وہ پیروی کر رہے ہیں اپنی خواہشوں کی اور کون زیادہ گمراہ ہے اس سے جو پیروی کرے اپنی خواہش کی بغیر ہدایت کے اللہ کی طرف سے؟سے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم لوگوں کو (50) اور البتہ تحقیق لگا تار بھیجا ہم نے ان کے لیے اپنا کلام تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (51)
#
{2} {تلك} الآيات المستحقَّة للتعظيم والتفخيم، {آياتُ الكتابِ المبين}: لكلِّ أمرٍ يحتاج إليه العباد؛ من معرفة ربِّهم، ومعرفة حقوقه، ومعرفة أوليائِهِ وأعدائِهِ، ومعرفة وقائعه وأيامه، ومعرفة ثواب الأعمال وجزاء العمَّال؛ فهذا القرآن قد بيَّنَها غايةَ التَّبيين، وجَلاَّها للعباد، ووضَّحها.
[2] ﴿تِلْكَ﴾ یہ آیات جو تعظیم و توقیر کی مستحق ہیں ۔ ﴿ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ ﴾ کتاب مبین کی آیات ہیں ہر اس معاملے کو کھول کھول کر بیان کرتی ہیں جن کے بندے حاجت مند ہیں ، مثلاً:رب تعالیٰ کی معرفت، اس کے حقوق کی معرفت، اس کے اولیاء و اعداء کی معرفت، اس کے ایام و وقائع کی معرفت اور اعمال کے ثواب اور عمل کرنے والوں کی جزا کی معرفت۔ قرآن مجید نے ان تمام امور کو کھول کھول کر بیان کر کے بندوں کے سامنے پوری طرح واضح کر دیا۔
#
{3} من جملة ما أبانَ، قصَّةُ موسى وفرعونَ؛ فإنَّه أبداها وأعادها في عدَّة مواضع، وبسطها في هذا الموضع، فقال: {نتلو عليك من نبأ موسى وفرعونَ بالحقِّ}: فإنَّ نبأهما غريبٌ وخبرهما عجيبٌ، {لقوم يؤمنونَ}: فإليهم يُساق الخطابُ ويوجَّه الكلام؛ حيث إنَّ معهم من الإيمان ما يُقْبِلونَ به على تدبُّر ذلك وتلقِّيه بالقَبول والاهتداء بمواقع العِبَرِ، ويزدادون به إيماناً ويقيناً وخيراً إلى خيرهم، وأما مَن عداهم؛ فلا يستفيدونَ منه إلاَّ إقامة الحجَّة عليهم، وصانه الله عنهم، وجعل بينهم وبينه حجاباً أن يفقهوه.
[3] اس کے جملہ مضامین میں سے حضرت موسیٰu اور فرعون کا قصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کا اعادہ کیا ہے اور اس مقام پر بھی اس قصہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰؔى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’ہم تمھیں موسیٰ(u) اور فرعون کے کچھ حالات صحیح صحیح سناتے ہیں ۔‘‘ کیونکہ ان کے واقعات بہت ہی انوکھے اورا ن کا قصہ نہایت تعجب انگیز ہے۔ ﴿ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’مومن لوگوں کے لیے‘‘ پس انھی کو خطاب کیا گیا ہے اور کلام کا رخ بھی انھی کی طرف ہے۔ کیونکہ انھی کے پاس، ایمان ہے جس کی بنا پر وہ اس میں تدبر کرتے ہیں ، اسے قبول کرتے ہیں اور عبرت کے مواقع پر اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی نیکیاں نشوونما پاتی ہیں ۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو وہ ان سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ سوائے اس کے کہ ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دور رکھا ہے، اپنے اور ان کے درمیان پر دہ حائل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کو سمجھنے سے عاری ہیں ۔
#
{4} فأول هذه القصَّة: {إنَّ فرعون علا في الأرض}: في ملكه وسلطانِهِ وجنودِهِ وجبروتِهِ، فصار من أهل العلوِّ فيها، لا من الأعْلَيْن فيها، {وجعل أهلها شِيَعاً}؛ أي: طوائف متفرِّقة يتصرَّف فيهم بشهوته وينفِّذ فيهم ما أراد من قهره وسطوته، {يستضعِفُ طائفةً منهم}: وتلك الطائفةُ هم بنو إسرائيل، الذين فضَّلهم الله على العالمين، الذي ينبغي له أن يكرِمَهم ويجلَّهم، ولكنه استضعفهم بحيثُ إنه رأى أنَّهم لا مَنَعَةَ لهم تمنعُهم مما أراده فيهم، فصار لا يُبالي بهم ولا يهتمُّ بشأنهم، وبلغت به الحال إلى أنَّه {يُذَبِّح أبناءهم ويَسْتَحيي نساءهم}: خوفاً من أن يكثرُوا فيغمروه في بلاده، ويصير لهم الملك. {إنَّه كان من المفسدين}: الذين لا قصدَ لهم في صلاح الدين ولا صلاح الدُّنيا. وهذا من إفساده في الأرض.
[4] موسیٰu اور فرعون کے قصہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ﴿ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’کہ بلاشبہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا۔‘‘ یعنی اس نے اپنے اقتدار، سلطنت، لشکروں اور اپنے جبروت کی بنا پر تکبر اور سرکش لوگوں کا وتیرہ اختیار کیا۔ مگر وہ کامیاب لوگوں میں سے نہ تھا۔ ﴿ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا﴾ ’’اور اس نے وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا۔‘‘ یعنی ان کو متفرق گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق ان میں تصرف کرتا تھا اور اپنے قہر اور تسلط کے بل بوتے پر جو حکم چاہتا نافذ کرتا تھا۔ ﴿ یَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کردیا تھا۔‘‘ اس گروہ سے مراد بنی اسرائیل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اس کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتا مگر اس نے ان کو زیردست بنا کر ذلیل کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کو روکنے والا اور اس کے ارادوں میں حائل ہونے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا تھا اور نہ وہ ان کے معاملے کو کوئی اہمیت ہی دیتا تھا اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ﴿ یُذَبِّ٘ـحُ اَبْنَآءَهُمْ وَیَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ﴾ ’’وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔‘‘ اس خوف سے کہ کہیں ان کی تعداد زیادہ نہ ہو جائے اور اس کے ملک میں وہ غالب آ کر کہیں اقتدار کے مالک نہ بن جائیں ۔ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ یعنی وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا مقصد اصلاح دین ہوتا ہے نہ اصلاح دنیا اور اس کا مقصد زمین میں اس کی طرف سے بگاڑ پیدا کرنا تھا۔
#
{5} {ونريدِ أن نَمُنَّ على الذين استُضْعِفوا في الأرضِ}: بأن نُزيلَ عنهم موادَّ الاستضعاف ونُهْلِكَ من قاوَمَهم ونخذل من ناوأهم، {ونَجْعَلَهم أئمَّةً} في الدين، وذلك لا يحصُلُ مع الاستضعاف، بل لابدَّ من تمكينٍ في الأرض، وقدرةٍ تامَّةٍ، {ونجعلهم الوارثين}: للأرض، الذين لهم العاقبة في الدنيا قبل الآخرة.
[5] اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّ٘مُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردیے گئے ہیں ان پر احسان کریں ۔‘‘ کہ ان پر سے ذلت کے تمام نشانات مٹا دیں اور ان لوگوں کو ہلاک کر دیں جو ان کے ساتھ دشمنی کرتے تھے اور انھیں تنہا چھوڑ دیں جو ان کی مخالفت کرتے تھے۔ ﴿ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً ﴾ ’’اور (دین میں ) ہم ان کو امام بنا دیں ‘‘ اور یہ چیز زیردست رہتے ہوئے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو زمین میں اقتدار اور پورا اختیار عطا کیا جائے۔ ﴿ وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ﴾ ’’اور ہم ان کو زمین کا وارث بنا دیں ‘‘ جن کا آخرت سے پہلے ہی دنیا میں اچھا انجام ہو۔
#
{6} {ونمكِّن لهم في الأرض}: فهذه الأمور كلُّها قد تعلَّقت بها إرادة الله وجرتْ بها مشيئتُه. {و}: كذلك نريد أن {نُرِيَ فرعون وهامان}: وزيره {وجنودَهما}: التي بها صالوا، وجالوا وعَلَوا وبَغَوا، {منهم}؛ أي: من هذه الطائفة المستضعفة {ما كانوا يَحْذَرونَ}: من إخراجِهم من ديارهم، ولذلك كانوا يسعَوْن في قمعهم وكسر شوكتهم وتقتيل أبنائهم الذين هم محلُّ ذلك؛ فكل هذا قد أراده الله، وإذا أراد أمراً؛ سهَّل أسبابه ونَهَّجَ طرقه، وهذا الأمر كذلك؛ فإنَّه قدَّر وأجرى من الأسباب ـ التي لم يشعرْ بها لا أولياؤه ولا أعداؤه ـ ما هو سببٌ موصلٌ إلى هذا المقصود.
[6] ﴿ وَنُمَؔكِّ٘نَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔‘‘ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرما لیا ان پر اس کی مشیت جاری ہو گئی۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ ہم اسی طرح چاہتے تھے کہ ﴿ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا ﴾ ’’فرعون، (اس کے وزیر) ہامان اور ان کے لشکروں کو (جن کی مدد سے وہ ظلم اور بغاوت اور سرکشی کرتے تھے) ﴿ مِنْهُمْ ﴾ یعنی اس کمزور گروہ کی طرف سے۔ ﴿ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ ﴾ ’’وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے۔‘‘ یعنی ان کو ان کے گھروں سے نکال دینا۔ اس لیے وہ ان کا قلع قمع کرنے، ان کی شوکت کو توڑنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے میں کوشاں تھے کیونکہ ان کے بیٹے ان کی طاقت اور شوکت کا سبب تھے۔ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے اسباب کو آسان اور اس کی راہ کو ہموار کر دیتا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب جاری فرمائے جس کو اس کے اولیاء جانتے تھے نہ اعداء… جو اس مطلوب و مقصود تک رسائی کا ذریعہ بن گئے۔
#
{7} فأول ذلك لما أوجدَ الله رسولَه موسى الذي جَعَلَ استنقاذَ هذا الشعب الإسرائيليِّ على يديه وبسببه، وكان في وقت تلك المخافة العظيمة التي يذبِّحون بها الأبناء، أوحى إلى أمِّه أن ترضِعَه ويمكثَ عندها، {فإذا خِفْتِ عليه}: بأن أحسستِ أحداً تخافين عليه منه أن يوصِلَه إليهم، {فألقيه في اليمِّ}؛ أي: نيل مصر، في وسط تابوتٍ مغلق، {ولا تخافي ولا تحزني إنَّا رادُّوه إليك وجاعلوه من المرسلينَ}: فبشَّرها بأنَّه سيردُّه عليها وأنه سيكبر ويَسْلَم من كيدِهم ويجعلُه الله رسولاً، وهذا من أعظم البشائر الجليلة. وتقديم هذه البشارة لأمِّ موسى ليطمئنَّ قلبُها، ويسكنَ رَوْعُها.
[7] اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول موسیٰu کو پیدا فرمایا جن کے ذریعے سے بنی اسرائیل کے گروہ کو نجات دلانا تھی، ان کی پیدائش انتہائی خوف کے حالات میں ہوئی کہ جب وہ اسرائیلی بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتے تھے … تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی والدہ کی طرف وحی کی کہ وہ اپنے بیٹے (موسیٰu) کو دودھ پلاتی رہیں اور انھیں اپنے پاس رکھیں ﴿فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ ﴾ ’’اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو‘‘ یعنی جب کسی ایسے شخص کی آمد کاخطرہ محسوس کریں جو اسے فرعون کے پاس لے جائے۔ ﴿ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ ﴾ ’’تو اسے دریا میں بہا دینا‘‘ یعنی ایک صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ ﴿ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور نہ خوف اور غم کھانا بے شک ہم اس بچے کو تیری طرف ہی لوٹا دیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی والدہ کو خوشخبری سنا دی کہ وہ اس بچے کو ان کے پاس واپس لوٹا دے گا، یہ بچہ بڑا ہو گا اور ان کی سازشوں سے محفوظ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو رسول بنائے گا۔ یہ بہت بڑی اور جلیل القدر بشارت ہے جو موسیٰu کی والدہ کو دی گئی تاکہ ان کا دل مطمئن اور ان کا خوف زائل ہو جائے۔
#
{8} فكأنَّها خافتْ عليه، وفعلتْ ما أمِرَت به، ألقته في اليمِّ، وساقه الله تعالى، حتى التقطه {آلُ فرعون}: فصار من لَقْطِهم، وهم الذين باشروا وُجْدانَه؛ {ليكون لهم عدوًّا وحَزَناً}؛ أي: لتكون العاقبةُ والمآلُ من هذا الالتقاط أن يكون عدوًّا لهم وحَزَناً يَحْزُنُهم؛ بسبب أنَّ الحذر لا ينفع من القدر، وأنَّ الذي خافوا منه من بني إسرائيل قيَّض الله أن يكونَ زعيمُهم يتربَّى تحت أيديهم وعلى نظرِهم وبكفالَتهم. وعند التدبُّر والتأمُّل تجدُ في طيِّ ذلك من المصالح لبني إسرائيل ودفع كثيرٍ من الأمور الفادحة بهم ومنع كثيرٍ من التعدِّيات قبلَ رسالته؛ بحيث إنَّه صار من كبار المملكة، وبالطبع لا بدَّ أن يحصُلَ منه مدافعةٌ عن حقوق شعبِهِ، هذا وهو هو ذو الهمة العالية والغيرة المتوقِّدة، ولهذا وصلتِ الحالُ بذلك الشعب المستضعف ـ الذي بلغ بهم الذُّلُّ والإهانةُ إلى ما قصَّ الله علينا بعضَه ـ أنْ صار بعضُ أفراده ينازِعُ ذلك الشعبَ القاهرَ العالي في الأرض كما سيأتي بيانُهُ، وهذا مقدِّمهٌ للظُّهور؛ فإن الله تعالى من سنَّته الجارية أن جعل الأمور تمشي على التدريج شيئاً فشيئاً، ولا تأتي دفعةً واحدة. وقوله: {إن فرعونَ وهامانَ وجنودَهما كانوا خاطِئينَ}؛ أي: فأرَدْنا أن نعاقِبهما على خطئهما، ونكيدهم جزاءً على مكرهم وكيدهم.
[8] چنانچہ انھوں نے وہی کچھ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور موسیٰu کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس صندوق کو حفاظت کے ساتھ چلاتا رہا۔ حتی کہ فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا گویا وہ ان کے لیے راستے میں پڑا ہوا بچہ بن گیا جنھوں نے اسے نکالا تھا اور وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے ﴿ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا﴾ تاکہ ان کی عاقبت اور انجام یہ ہو کہ اٹھایا ہوا بچہ ان کا دشمن اور ان کے لیے حزن وغم اور صدمے کا باعث بنے، اس کا سبب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی کے مقابلے میں احتیاط کام نہیں آتی۔ وہ چیز جس کے بارے میں وہ بنی اسرائیل سے خائف تھے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ ان کا قائد ان کے ہاتھوں میں ، ان کی نظروں کے سامنے اور ان کی کفالت میں تربیت پائے۔ جب آپ حضرت موسیٰ کے واقعے میں غور وفکر کریں گے تو اس ضمن میں آپ پائیں گے کہ بنی اسرائیل کے لیے بہت سے مصالح حاصل ہوئے اور بہت سے پریشان کن امور سے انھیں چھٹکارا حاصل ہوا، اسی طرح آپ کو رسالت ملنے سے پہلے بنی اسرائیل پر سے بہت سے مظالم ختم ہوگئے، کیونکہ آپ مملکت فرعون کے ایک بڑے عہدے دار کی حیثیت سے رہتے تھے....چونکہ آپ ایک بلند ہمت اور انتہائی غیرت مند انسان تھے اسی لیے طبعی طور پر آپ کی قوم کے بہت سے حقوق کا دفاع ہونا ضروری تھا۔ آپ کی ضعیف اور کمزور قوم.... جن کی کمزوری و ناتوانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے.... کے بعض افراد اس ظالم و غاصب قوم کے خلاف جھگڑنے لگے تھے جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہ حضرت موسیٰu کے ظہور کے مقدمات تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ تمام امور آہستہ آہستہ اور بتدریج وقوع پذیر ہوتے ہیں ، کوئی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِــِٕیْنَ ﴾ یعنی یہ سب مجرم تھے اس لیے ہم نے ان کو ان کے جرم کی سزا دینے کا ارادہ کیا اور ہم نے ان کے مکر اور سازش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف چال چلی۔
#
{9} فلما التَقَطَهُ آلُ فرعون؛ حنَّن اللهُ عليه امرأة فرعون الفاضلة الجليلة المؤمنة آسية بنت مزاحم، {وقالت}: هذا الولدُ {قُرَّةُ عينٍ لي ولكَ لا تَقْتُلوهُ}؛ أي: أبقِهِ لنا لِتَقَرَّ به أعينُنا، ونُسَرَّ به في حياتنا، {عسى أن يَنفَعَنا أو نَتَّخِذَه ولداً}؛ أي: لا يخلو: إمَّا أن يكونَ بمنزلة الخدم الذين يَسْعَونَ في نفعنا وخدمتنا، أو نرقِّيه درجةً أعلى من ذلك؛ نجعلُهُ ولداً لنا ونكرِمُه ونُجِلُّه. فقدَّر الله تعالى أنَّه نَفَعَ امرأةَ فرعونَ التي قالت تلك المقالة؛ فإنَّه لما صار قُرَّةَ عينٍ لها وأحبَّتْه حبًّا شديداً، فلم يزلْ لها بمنزلة الولد الشفيق، حتى كَبُرَ، ونبَّأه الله، وأرسلَه، فبادرتْ إلى الإسلام والإيمان به، رضي الله عنها، وأرضاها. قال الله تعالى [عن] هذه المراجعاتِ والمقاولاتِ في شأن موسى: {وهم لا يشعرونَ}: ما جرى به القلمُ، ومضى به القدرُ من وصولِهِ إلى ما وَصَلَ إليه. وهذا من لطفِهِ تعالى؛ فإنَّهم لو شَعَروا؛ لكان لهم وله شأنٌ آخر.
[9] پس جب فرعون کے گھر والوں نے موسیٰu کو دریا سے نکال لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی جلیل القدر اور مومنہ بیوی آسیہ بنت مزاحم کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ﴿ وَقَالَتِ ﴾ ’’وہ بولی‘‘ یہ لڑکا ﴿ قُ٘رَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ﴾ ’’میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘ یعنی اسے زندہ رکھ لو تاکہ اس کے ذریعے سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعے سے مسرت حاصل کریں ۔ ﴿ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّؔخِذَهٗ وَلَدًا ﴾ ’’شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں ۔‘‘ یعنی یہ بچہ ان خدام میں شامل ہو گا جو ہمارے مختلف کام کرنے اور خدمات سرانجام دینے میں کوشاں رہتے ہیں یا اس سے بلندتر مرتبہ عطا کر کے اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے اور اس کی عزت و تکریم کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر فرما دیا کہ وہ بچہ فرعون کی بیوی کو فائدہ دے جس نے یہ بات کہی تھی۔ جب وہ بچہ فرعون کی بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا اور اسے اس بچے سے شدید محبت ہو گئی اور وہ بچہ اس کے لیے حقیقی بیٹے کی حیثیت اختیار کر گیا یہاں تک کہ وہ بڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نبوت اور رسالت سے سرفراز فرمایا… تو اس نے جلدی سے ایمان لا کر اسلام قبول کر لیا۔ r موسیٰu کے بارے میں ان کے مابین ہونے والی مذکورہ گفتگو کی بابت اللہ نے فرمایا: ﴿ وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ یعنی انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ لوح محفوظ میں کیا درج ہے تقدیر نے انھیں کس عظیم الشان مقام پر فائز کر دیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔ اگر انھیں اس حقیقت کا علم ہوتا تو ان کا اور موسیٰu کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔
#
{10} ولما فقدتْ موسى أمُّه حزنت حزناً شديداً، وأصبحَ فؤادُها فارغاً من القلق الذي أزعجها على مقتضى الحالة البشريَّة، مع أنَّ الله تعالى نهاها عن الحزن والخوف، ووعدها بردِّه. {إن كادَتْ لَتُبْدي به}؛ أي: بما في قلبها {لولا أن رَبَطْنا على قَلْبها}: فثبَّتْناها، فصبرتْ ولم تُبْدِ به؛ {لتكونَ}: بذلك الصبر والثبات {من المؤمنينَ}: فإنَّ العبد إذا أصابتْه مصيبةٌ فصبر وثبتَ؛ ازداد بذلك إيمانُه، ودلَّ ذلك على أنَّ استمرار الجزع مع العبد دليلٌ على ضعف إيمانه.
[10] جب موسیٰu اپنی والدہ سے جدا ہو گئے تو وہ بہت زیادہ غمگین ہوئیں ۔ بشری تقاضے کے مطابق صدمے اور قلق سے ان کا دل سخت بے قرار اور غم سے اڑا جا رہا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غم کرنے اور خوف زدہ ہونے سے روک دیا تھا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ موسیٰu کو واپس ان کے پاس لوٹا دے گا۔ ﴿اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ﴾ ’’تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیں ۔‘‘ یعنی دلی صدمے کی وجہ سے ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا ﴾ پس ہم نے ان کو ثابت قدمی عطا کی اور انھوں نے صبر کیا اور اس راز کو ظاہر نہ کیا۔ ﴿ لِتَكُوْنَ ﴾ ’’تاکہ ہوجائے وہ‘‘ صبر و ثبات کو یاد رکھتے ہوئے ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’مومنوں میں سے‘‘ جب بندۂ مومن پر کوئی مصیبت نازل ہو جائے اور وہ اس پر صبر اور ثابت قدمی سے کام لے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بندے کا مصیبت کے وقت بے صبری کا مظاہرہ کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔
#
{11} {وقالت} أمُّ موسى {لأختِهِ قُصِّيهِ}؛ أي: اذهبي فقُصِّي الأثرَ عن أخيك، وابحثي عنه؛ من غيرِ أن يُحِسَّ بك أحدٌ أو يشعروا بمقصودِك، فذهبتْ تقصُّه، {فبَصُرَتْ به عن جُنُبٍ وهم لا يَشْعُرونَ}؛ أي: أبصرتْه على وجهٍ كأنَّها مارةٌ لا قصدَ لها فيه، وهذا من تمام الحزم والحذرِ؛ فإنَّها لو أبصرتْه وجاءتْ إليهم قاصدةً؛ لظنُّوا بها أنها هي التي ألقتْه، فربَّما عزموا على ذبحِهِ عقوبةً لأهله.
[11] ﴿ وَقَالَتْ ﴾ موسیٰu کی والدہ نے کہا لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ﴾ ’’آپ کی بہن سے کہ اس بچے کے پیچھے پیچھے چلتی جاؤ۔‘‘ یعنی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے جا اور اس پر اس طرح نظر رکھ کہ کسی کو تمھارے بارے میں پتہ نہ چلے اور نہ تمھارے مقصد کا ان کو علم ہو۔ پس وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی ﴿ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ﴾ یعنی وہ ایک طرف ہو کر اس طرح موسیٰu کو دیکھتی رہی گویا کہ وہ کوئی راہ گیر عورت ہے اور اس کا کوئی قصد و ارادہ نہیں ہے۔ یہ انتہا درجے کی حزم و احتیاط تھی اگر وہ بچے کو دیکھتی رہتی اور ایک قصد و ارادہ کے ساتھ آتی تو لوگ سمجھ جاتے کہ اسی عورت نے صندوق کو دریا میں ڈالا ہے اور وہ حضرت موسیٰu کو، ان کے گھر والوں کو سزا دینے کی خاطر ذبح کر دیتے۔
#
{12} ومن لُطْفِ الله بموسى وأمه أنْ مَنَعَه من قَبول ثدي امرأةٍ، فأخرجوه إلى السوقِ رحمةً به، ولعل أحداً يطلبُهُ، فجاءت أختُه وهو بتلك الحال، {فقالتْ هل أدُلُّكُم على أهل بيتٍ يَكْفُلونَه لكم وهُم له ناصحونَ}: وهذا جُلُّ غرضِهم؛ فإنَّهم أحبُّوه حبًّا شديداً، وقد منعَهُ اللهُ من المراضع، فخافوا أن يموتَ.
[12] یہ موسیٰu اور ان کی والدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف وکرم تھا کہ اس نے موسیٰu کو کسی عورت کا دودھ پینے سے روک دیا، چنانچہ وہ موسیٰu پر ترس کھاتے ہوئے ان کو بازار میں لے آئے تاکہ شاید کوئی اسے تلاش کرتا ہوا آجائے۔ موسیٰu اسی حال میں تھے کہ ان کی بہن آئی اور کہنے لگی: ﴿ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ ﴾ ’’کیا میں تمھیں ایسے گھر والے بتاؤں کہ تمھارے لیے اس (بچے) کی کفالت کریں اور اس کے خیر خواہ بھی ہوں ۔‘‘ یہ ان کی سب سے بڑی غرض و غایت تھی کیونکہ وہ اس سے بہت شدید محبت کرتے تھے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دودھ پلانے والیوں کو موسیٰu کے لیے ممنوع کر دیا تھا اس لیے انھیں ڈر تھا کہ کہیں بچہ مر نہ جائے۔
#
{13} فلما قالت لهم أختُه تلكَ المقالَة المشتملةَ على الترغيب في أهل هذا البيت بتمام حفظِهِ وكفالتِهِ والنُّصح له؛ بادروا إلى إجابتها، فأعْلَمَتْهم ودلَّتْهم على أهل هذا البيت. {فَرَدَدْناه إلى أمِّه}: كما وَعَدْناها بذلك؛ {كي تَقَرَّ عينُها ولا تَحْزَنَ}: بحيث إنَّه تربَّى عندَها على وجهٍ تكون فيه آمنةً مطمئنةً تفرحُ به وتأخذُ الأجرة الكثيرة على ذلك، {ولِتَعْلَمَ أنَّ وعدَ الله حقٌّ}: فأريْناها بعضَ ما وَعَدْناها به عياناً ليطمئنَّ بذلك قلبُها ويزدادَ إيمانُها، ولِتَعْلَمَ أنَّه سيحصُلُ وعدُ الله في حفظِهِ ورسالتِهِ. {ولكنَّ أكثرهم لا يعلمونَ}: فإذا رأوا السبب متشوِّشاً؛ شوَّشَ ذلك إيمانَهم؛ لعدم علمهم الكامل أنَّ الله تعالى يجعلُ المحنَ والعقباتِ الشاقَّةَ بين يدي الأمور العاليةِ والمطالبِ الفاضلة. فاستمرَّ موسى عليه الصلاة والسلام عند آلِ فرعونَ يتربَّى في سلطانِهِم ويركبُ مراكِبَهم ويَلْبَسُ ملابِسَهم، وأمُّه بذلك مطمئنةٌ، قد استقرَّ أنَّها أمُّه من الرضاع، ولم يُستنكرْ ملازمتُه إيَّاها و [حنوُّها عليه]. وتأمل هذا اللطف وصيانة نبيِّه موسى من الكذب في منطقِهِ وتيسيرِ الأمر الذي صار به التعلُّق بينه وبينها، الذي بانَ للناس هو الرضاعُ الذي بسببه يسمِّيها أمًّا، فكان الكلامُ الكثيرُ منه ومن غيرِهِ في ذلك كلِّه صدقاً وحقًّا.
[13] جب موسیٰu کی بہن نے وہ بات کہی اور ترغیب دی کہ وہ اس گھرانے کو دودھ پلانے کے لیے منتخب کریں جو بچے کی پوری حفاظت اور مکمل کفالت کے ذمہ دار اور اس کے خیر خواہ ہیں تو انھوں نے فوراً موسیٰu کی بہن کی بات مان لی اور اس نے اس گھر کا پتہ بتا دیا جو بچے کو دودھ پلا سکتے تھے۔ ﴿ فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّؔهٖ ﴾ ’’پس ہم نے ان (موسیٰu) کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا۔‘‘ جیسا کہ ہم نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ ﴿ كَیْؔ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ﴾ ’’تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں ۔‘‘ کیونکہ اس کے پاس اس طرح پرورش پائے گا کہ وہ اس سے مطمئن اور خوش ہو گی اور اس کے ساتھ دودھ پلانے کی بہت بڑی اجرت بھی حاصل کرے گی۔ ﴿ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ﴾ ’’اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔‘‘ ہم نے اس کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ وعدہ پورا ہوتے اسے عیاں طور پر دکھا دیا تاکہ اس سے اس کا دل مطمئن اور اس کے ایمان میں اضافہ ہو اور تاکہ وہ یہ بھی جان لے کہ ہم نے اس کی حفاظت کرنے اور اس کو رسول بنانے کا جو وعدہ کیا ہے وہ بھی ضرور پورا ہو گا۔ ﴿ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ پس جب وہ کسی سبب کو بے ترتیب دیکھتے ہیں تو اس حقیقت سے کم علمی کی وجہ سے، کہ جلیل القدر معاملات اور بلند مقاصد و مطالب کے حصول سے پہلے انسان کو آزمائشوں اور مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان کا ایمان ڈول جاتا ہے۔ پس موسیٰu آل فرعون کے پاس شاہی ماحول میں تربیت پاتے رہے وہ شاہی سواریاں استعمال کرتے اور شاہی لباس پہنتے تھے۔ ان کی والدہ اس پر مطمئن تھیں۔ یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ وہ موسیٰu کی رضاعی ماں ہیں ، لہٰذا موسیٰu کا (والدہ) کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ مہربانی کرنے کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ ذرا اللہ تبارک وتعالیٰ کے لطف و کرم پر غور کیجیے کہ اس نے کیسے اپنے نبی موسیٰu کو ان کی بات چیت میں جھوٹ سے محفوظ رکھا اور معاملے کو ان کے لیے کتنا آسان کر دیا جس کی بنا پر ماں بیٹے کے درمیان ایک تعلق قائم ہو گیا جو لوگوں کی نظر میں رضاعت کا تعلق تھا جس کی بنا پر موسیٰu ان کو ماں کہتے تھے۔ اس لیے اس تعلق کے حوالے سے موسیٰu اور دیگر لوگوں کا اکثر کلام صداقت اور حق پر مبنی تھا۔
#
{14} {ولمَّا بَلَغَ أشُدَّهُ}: من القوَّة والعقل واللب، وذلك نحو أربعين سنة في الغالب، {واسْتَوى}: كملت فيه تلك الأمورُ {آتَيْناه حكماً وعلماً}؛ أي: حكماً يعرف به الأحكام الشرعيَّة، ويحكُم به بين الناس، وعلماً كثيراً. {وكذلك نَجْزي المحسنينَ}: في عبادة الله، المحسنين لخلق الله؛ يعطيهم علماً وحكماً بحسب إحسانِهِم. ودلَّ هذا على كمال إحسان موسى عليه السلام.
[14] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَمَّا بَلَ٘غَ اَشُدَّهٗ ﴾ جب موسیٰu اپنی پوری قوت اور عقل و فہم کو پہنچ گئے اور یہ صفت انسان کو غالب طور پر چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے ﴿ وَاسْتَوٰۤى ﴾ اور ان مذکورہ صفات میں درجۂ کمال کو پہنچ گئے ﴿ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ ’’تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔‘‘ یعنی ان کو ایسی دانائی عطا کی جس کی بنا پر انھیں احکام شرعیہ کی معرفت حاصل ہوگئی اور وہ نہایت دانائی کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کرتے تھے اور ان کو بہت سے علم سے نوازا ﴿ وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’اور اسی طرح ہم جزا دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔‘‘ یعنی اچھے طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان سے پیش آنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے احسان کے مطابق علم اور حکمت سے سرفراز فرماتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ موسیٰu کے کمال احسان پر دلالت کرتی ہے۔
#
{15 ـ 17} {ودخل المدينة على حين غفلة من أهلها}: إما وقت القائلة أو غير ذلك من الأوقات التي بها يغفلون عن الانتشار، {فوجَدَ فيها رجلينِ يقتتلانِ}: [أي] يتخاصمانِ ويتضاربانِ. {هذا من شيعتِهِ}؛ أي: من بني إسرائيل، {وهذا من عدوِّه}: القبط، {فاستغاثه الذي من شيعتِهِ على الذي من عدوِّهِ}: لأنَّه قد اشتهر وعَلِمَ الناسُ أنَّه من بني إسرائيل، واستغاثتُهُ لموسى دليلٌ على أنه بَلَغَ موسى عليه السلام مبلغاً يُخافُ منه ويُرجى من بيت المملكة والسلطان. {فوَكَزَهُ موسى}؛ أي: وكز الذي من عدوِّه استجابةً لاستغاثة الإسرائيليِّ، {فقضى عليه}؛ أي: أماته من تلك الوكزةِ لشدَّتِها وقوَّة موسى. فندم موسى عليه السلام على ما جرى منه، و {قال هذا من عمل الشَّيطانِ}؛ أي: من تزيينه ووسوسته. {إنَّه عَدُوٌّ مضلٌّ مبينٌ}: فلذلك أجريتُ ما أجريتُ بسبب عداوتِهِ البيِّنة وحرصه على الإضلال. ثم استغفر ربَّه، فَـ {قَال ربِّ إنِّي ظلمتُ نفسي فاغْفِرْ لي فَغَفَرَ له إنَّه هو الغفورُ الرحيم}: خصوصاً للمُخْبِتينَ إليه، المبادِرين للإنابةِ والتوبةِ؛ كما جرى من موسى عليه السلام، فَـ {قَالَ} موسى: {ربِّ بما أنْعَمْتَ عليَّ}: بالتوبة والمغفرةِ والنعم الكثيرة، {فلنْ أكونَ ظهيراً}؛ أي: مُعيناً ومساعداً {للمجرِمين}؛ أي: لا أعين أحداً على معصيةٍ. وهذا وعدٌ من موسى عليه السلام بسبب مِنَّةِ الله عليه أنْ لا يُعينَ مجرماً كما فعل في قَتْل القبطيِّ، وهذا يفيدُ أنَّ النعم تقتضي من العبدِ فعل الخير وترك الشَّرِّ.
[17-15] ﴿ وَدَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا ﴾ ’’اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے سو رہے تھے۔‘‘ یہ وقت یا تو قیلولہ کا وقت تھا یا کوئی ایسا وقت تھا کہ جب لوگ آرام کرتے ہیں ۔ ﴿ فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْ٘نِ یَقْتَتِلٰنِ﴾ پس انھوں نے دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہوئے پایا‘‘ وہ دونوں ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ ﴿ هٰؔذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ ﴾ ’’ایک تو ان کی قوم سے تھا۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل میں سے ﴿ وَهٰؔذَا مِنْ عَدُوِّهٖ﴾ ’’دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا۔‘‘ مثلاً: قبطی وغیرہ۔ ﴿ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ﴾ ’’پس جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو ان کے دشمنوں میں سے تھا موسیٰu سے مدد طلب کی۔‘‘ کیونکہ موسیٰu کا نسب اب مشہور ہو چکا تھا اور لوگوں کو علم تھا کہ موسیٰu بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ موسیٰu سے اس شخص کا مدد کا خواستگار ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ آپ دارالسلطنت میں ایک نہایت اہم منصب پر فائز تھے جس سے لوگ خوف کھاتے تھے اور اس سے اپنی امیدیں بھی وابستہ رکھتے تھے۔ ﴿ فَوَؔكَزَهٗ مُوْسٰؔى ﴾ موسیٰu نے اسرائیلی کی مدد کرنے کے لیے اس دشمن شخص کو گھونسا رسید کیا ﴿ فَ٘قَ٘ضٰى عَلَیْهِ﴾ پس حضرت موسیٰu کی قوت اور گھونسے کی شدت نے اس قبطی کا کام تمام کر دیا۔ اس پر آپ کو سخت ندامت ہوئی۔ آپ نے تاسف سے کہا: ﴿ هٰؔذَا مِنْ عَمَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ﴾ ’’یہ شیطان کا عمل ہے۔‘‘ یعنی شیطان نے وسوسہ ڈالا اور اس برائی کو مزین کر دیا۔ ﴿ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’بے شک وہ دشمن اور صریح بہکانے والا ہے۔‘‘ اسی لیے اس کی کھلی عداوت اور بندوں کو گمراہ کرنے کی حرص کے سبب سے یہ حادثہ پیش آیا۔ پھر موسیٰu نے رب سے بخشش طلب کرتے ہوئے عرض کیا ﴿ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْ٘فِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’اے میرے رب! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، پس اللہ نے اسے بخش دیا، بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ خاص طور پر جو اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرتے ہیں اور توبہ و انابت کے ساتھ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰu سے قتل ہوا اور آپ نے فوراً استغفار کر لیا۔ ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے عرض کیا: ﴿ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ ﴾ ’’اے رب! بہ سبب اس کے جو تونے مجھ پر انعام کیا۔‘‘ تو نے مجھے قبول توبہ، مغفرت اور بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ﴿ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا﴾ تو میں ہرگز مددگار نہیں ہوں گا ﴿ لِّلْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’گناہ گاروں کا‘‘ یعنی معاصی میں کسی کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان کے سبب سے موسیٰu کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ کسی مجرم کی مدد نہیں کریں گے جیسا کہ وہ قبطی کے قتل کے سلسلے میں کر چکے ہیں ۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بندے سے نیکی کرنے اور برائی ترک کرنے کا تقاضا کرتی ہیں ۔
#
{18 ـ 19} فلمَّا جرى منه قَتْلُ الذي هو من عدوِّه؛ أصبح {في المدينةِ خائفاً يترقَّبُ}: هل يشعرُ به آلُ فرعون أم لا؟ وإنما خاف لأنَّه قد عَلِمَ أنَّه لا يتجرأ أحدٌ على مثل هذه الحال سوى موسى من بني إسرائيل. فبينما هو على تلك الحال؛ {فإذا الذي استنصره بالأمس}: على عدوِّه. {يَسْتَصْرِخُه}: على قبطيٍّ آخر، {قال له موسى}: موبخاً على حاله: {إنَّك لَغَوِيٌ مبينٌ}؛ أي: بَيِّنُ الغواية ظاهر الجراءة، {فلما أن أراد أن يبطش}: موسى {بالذي هو عدو لهما}: أي له وللمخاصِم المستصرِخ لموسى؛ أي: لم يزل اللجاجُ بين القبطيِّ والإسرائيليِّ، وهو يستغيثُ بموسى، فأخذته الحميَّة، حتى همَّ أن يبطشَ بالقبطي، فَـ {قَالَ} له القبطيُّ زاجراً له عن قتله: {أتريدُ أن تَقْتُلَني كما قَتَلْت نفساً بالأمس إن تريدُ إلاَّ أن تكونَ جبَّاراً في الأرض}: لأنَّ من أعظم آثارِ الجبَّارِ في الأرض قتلَ النفس بغير حق. {وما تريدُ أن تكونَ من المصلِحين}: وإلاَّ؛ فلو أردت الإصلاح؛ لَحُلْتَ بيني وبينَه من غير قتل أحدٍ. فانكفَّ موسى عن قتلِهِ، وارْعوى لوعظِهِ وزجرِهِ.
[19,18] جب موسیٰu کے ہاتھ سے وہ شخص قتل ہو گیا جو آپ کے دشمن گروہ سے تعلق رکھتا تھا ﴿ فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآىِٕفًا یَّتَرَقَّبُ ﴾ ’’تو وہ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے۔‘‘ کہ آیا آل فرعون کو اس قتل کے بارے میں علم ہوا ہے یا نہیں ؟ … اور آپ کو خوف صرف اس لیے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسرائیلیوں میں سے ہیں اور ان حالات میں ، ان کے سوا کوئی اور شخص یہ اقدام کرنے کی جرأ ت نہیں کر سکتا تھا۔ ابھی وہ اس حال ہی میں تھے کہ ﴿فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗ﴾ ’’یکایک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جس نے کل آپ کو (اپنے دشمن کے خلاف) مدد کے لیے پکارا آج پھر (ایک اور قبطی کے خلاف) مدد کے لیے پکار رہا ہے۔‘‘ ﴿ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى ﴾ تو موسیٰu نے اس کے حال پر اس کو زجروتوبیخ کرتے ہوئے کہا۔ ﴿ اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ یعنی تم کھلے گمراہ اور واضح طور پر برائی کے ارتکاب کی جرأ ت کرنے والے ہو۔ ﴿ فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ ﴾ ’’پھر جب اس نے پکڑنے کا ارادہ کیا‘‘ یعنی موسیٰu نے ﴿ بِالَّذِیْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا﴾ ’’اس آدمی کو جو ان دونوں کا دشمن تھا‘‘ یعنی موسیٰu اور جھگڑا کرنے والے اس اسرائیلی کے دشمن کو جس نے موسیٰu کو مدد کے لیے پکارا تھا، یعنی قبطی اور اسرائیلی کے درمیان جھگڑا جاری رہا اور اسرائیلی موسیٰu کو مدد کے لیے پکارتا رہا اس پر حضرت موسیٰu کو حمیت نے آ لیا حتیٰ کہ انھوں نے اس قبطی کو پکڑنا چاہا ﴿ قَالَ ﴾ ’’کہا‘‘ قبطی نے اپنے قتل پر موسیٰu کو زجروتوبیخ کرتے ہوئے: ﴿ یٰمُوْسٰۤى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْؔ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ١ۖ ۗ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًؔا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ ملک میں ظلم و ستم کرتے پھرو۔‘‘ کیونکہ زمین میں جابروں اور متکبروں کی سب سے بڑی علامت، ناحق قتل کرنا ہے۔ ﴿ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ ﴾ ’’اور یہ نہیں چاہتے کہ تم نیکو کاروں میں سے ہوجاؤ۔‘‘ ورنہ اگر تم اصلاح چاہتے تو کسی ایک کو قتل کرنے کا ارادہ كيے بغیر میرے اور اس کے درمیان حائل ہو جاتے۔ اس پر موسیٰu اس کو قتل کرنے کے ارادے سے باز آ گئے اور اس کے وعظ اور زجروتوبیخ کی بنا پر رک گئے۔
#
{20} وشاع الخبرُ بما جرى من موسى في هاتين القضيَّتين حتى تراوَدَ ملأُ فرعونَ وفرعونُ على قتلِهِ، وتشاوروا على ذلك، فقيَّض الله ذلك الرجلَ الناصحَ، وبادرهم إلى الإخبار لموسى بما اجتمع عليه رأي ملئهم، فقال: {وجاء رجلٌ من أقصى المدينة يسعى}؛ أي: ركضاً على قدميه من نُصْحِهِ لموسى وخوفِهِ أن يوقِعوا به قبلَ أن يشعر، فقال: {يا موسى إنَّ الملأ يأتَمِرونَ}؛ أي: يتشاورون فيك؛ {لِيَقْتُلوك فاخْرُجْ}: عن المدينة {إنِّي لك من الناصحين}: فامتثل نُصحه.
[20] ان دونوں واقعات میں موسیٰu کی خبر پھیل گئی۔ یہاں تک کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے باہم مشورہ کر کے موسیٰu کے قتل کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرد صالح کو مقرر کیا جس نے جلدی سے موسیٰu کو اطلاع دی کہ اہل دربار نے ان کے بارے میں متفقہ طور پر کیا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى ﴾ ’’اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا۔‘‘ یعنی موسیٰu سے خیرخواہی کی بنا پر اور اس خوف سے کہ کہیں موسیٰu کو خبر ہونے سے پہلے ہی نہ پکڑ لیں ﴿ قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَ٘اْتَمِرُوْنَ بِكَ ﴾ ’’اس نے کہا، اے موسیٰ! بے شک فرعون کے درباری آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں ‘‘ ﴿ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ ﴾ ’’تاکہ آپ کو مار ڈالیں ، پس آپ نکل جائیں ۔‘‘ یعنی شہر سے فرار ہو جائیں ﴿ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ ﴾ ’’میں آپ کا انتہائی خیر خواہ انسان ہوں ۔‘‘موسیٰu نے اس خیرخواہ انسان کی خیرخواہی پر عمل کیا۔
#
{21} {فخرج منها خائفاً يترقَّب}: أن يُوْقَعَ به القتلُ، ودعا الله و {قال ربِّ نَجِّني من القوم الظالمينَ}: فإنَّه قد تاب من ذنبِهِ، وفعله غضباً من غير قصدٍ منه للقتل؛ فتوعُّدُهم له ظلمٌ منهم وجراءةٌ.
[21] ﴿ فَخَرَجَ مِنْهَا خَآىِٕفًا یَّتَرَقَّبُ ﴾ ’’پس اس بات سے ڈرتے ہوئے (کہ کہیں ان کو قتل نہ کر دیا جائے) اس شہر سے نکل پڑے‘‘ اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی: ﴿ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’میرے رب! مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔‘‘ کیونکہ اب وہ اپنے اس فعل سے توبہ کر چکے ہیں جس کا انھوں نے بغیر کسی قصدوارادہ کے غصے کی حالت میں ارتکاب کیا تھا اب ان کا آپ کو دھمکی دینا ظلم اور زیادتی ہے۔
#
{22} {ولمَّا توجَّهَ تِلْقاءَ مَدْيَنَ}؛ أي: قاصداً بوجهه مدينَ، وهو جنوبي فلسطين؛ حيث لا ملك لفرعون، {قال عسى ربِّي أن يَهْدِيَني سواءَ السبيل}؛ أي: وسط الطريق المختصر الموصل إليها بسهولةٍ ورفقٍ. فهداه الله سواء السبيل، فوصل إلى مَدْيَنَ.
[22] ﴿وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ ﴾ یعنی جب آپ نے مدین جانے کا ارادہ کیا۔ مدین جنوبی فلسطین میں واقع تھا جہاں فرعون کی عملداری نہ تھی۔ ﴿قَالَ عَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَؔ السَّبِیْلِ ﴾ ’’کہنے لگے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے۔‘‘ یعنی معتدل اور مختصر راستہ جو نہایت آسانی اور سہولت سے مدین پہنچاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو سیدھا اور مختصر راستہ دکھایا اور وہ مدین پہنچ گئے۔
#
{23} {ولمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ وجدَ عليه أمَّةً من الناس يسقونَ}: مواشِيَهم، وكانوا أهل ماشيةٍ كثيرةٍ، {ووجد من دونهم}؛ أي: دون تلك الأمة {امرأتينِ تذودانِ}: غَنَمَهما عن حياض الناس؛ لعجْزِهما عن مزاحمة الرجال، وبخلِهِم وعدم مروءتهم عن السقي لهما، {قال}: لهما موسى: {ما خَطْبُكُما}؛ أي: ما شأنُكما بهذه الحالة؟ {قالتا لا نسقي حتى يُصْدِرَ الرِّعاءُ}؛ أي: قد جرتِ العادةُ أنَّه لا يحصُلُ لنا سقي حتى يُصْدِرَ الرعاءُ مواشِيَهم؛ فإذا خلا لنا الجوُّ؛ سقينا، {وأبونا شيخٌ كبيرٌ}؛ أي: لا قوَّة له على السقي، فليس فينا قوَّةٌ نقتدِرُ بها، ولا لنا رجالٌ يزاحِمون الرعاء.
[23] ﴿ وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ﴾ ’’جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہیں اور پانی پلا رہے ہیں ۔‘‘ یعنی اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے۔ اہل مدین بہت زیادہ مویشیوں کے مالک تھے ﴿ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ﴾’’اور انھوں نے پائیں ان لوگوں سے ورے۔‘‘ یعنی لوگوں سے الگ تھلگ ﴿ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ﴾ ’’دو عورتیں (اپنی بکریوں کو لوگوں کے حوضوں سے) دور ہٹاتے ہوئے‘‘ کیونکہ وہ مردوں کے بخل اور عدم مروت کی بنا پر، ان سے مزاحم ہونے سے عاجز تھیں ﴿قَالَ ﴾ موسیٰu نے ان سے پوچھا ﴿ مَا خَطْبُكُمَا ﴾ اس صورت حال میں تمھیں کیا پریشانی ہے۔ ﴿ قَالَتَا لَا نَ٘سْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم اس وقت تک پانی پلاتیں جب تک چرواہے نہ لوٹ جائیں ۔‘‘ یعنی عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ بکریوں کو پانی پلانے کے لیے ہماری باری نہیں آتی جب تک کہ تمام چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلا کر وہاں سے ہٹ نہ جائیں ۔ جب جگہ خالی ہو تی ہے تو ہم اپنے مویشوں کو پانی پلاتی ہیں ۔ ﴿ وَاَبُوْنَا شَ٘یْخٌ كَبِیْرٌ ﴾ ’’اور ہمارا والد ایک بوڑھا آدمی ہے۔‘‘ جس میں مویشیوں کو پانی پلانے کی طاقت ہے نہ ہم میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلا سکیں اور نہ ہمارے گھرانے میں مرد ہی ہیں جو ان چرواہوں سے مزاحم ہو سکیں ۔
#
{24} فرقَّ لهما موسى عليه السلام ورحِمَهما، {فسقى لهما}: غير طالبٍ منهما الأجرَ، ولا له قصدٌ غيرَ وجه الله تعالى، فلما سقى لهما، وكان ذلك وقت شدة حرِّ وسط النهار؛ بدليل قوله: {ثمَّ تولَّى إلى الظِّلِّ}؛ مستريحاً لتلك الظلال بعد التعب، {فقال} في تلك الحالة مسترزقاً ربَّه: {ربِّ إنِّي لما أنزلتَ إليَّ من خيرٍ فقيرٌ}؛ أي: إنِّي مفتقرٌ للخير الذي تسوقُهُ إليَّ وتيسِّرُه لي، وهذا سؤالٌ منه بحالِهِ، والسؤال بالحال أبلغُ من السؤال بلسان المقال.
[24] حضرت موسیٰu کو ان دونوں عورتوں پر بہت رحم آیا ﴿ فَ٘سَقٰى لَهُمَا ﴾ پس موسیٰu نے ان سے کوئی اجرت لیے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقصد سے ان کے مویشیوں کو پانی پلا دیا۔ جب آپ نے ان کے مویشیوں کو پانی پلایا تو دوپہر اور سخت دھوپ کا وقت تھا اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ ﴾ ’’پھر ایک سایہ دار جگہ کی طرف ہٹ آئے۔‘‘ یعنی تھکاوٹ کے بعد آرام لینے کے لیے سائے میں آئے۔ ﴿ فَقَالَ ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے رزق کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ﴾ یعنی تو جو بھلائی میری طرف بھیجے اور میرے لیے مہیا کرے میں اس کا محتاج ہوں ۔ یہ موسیٰu کی اپنی زبان حال کے ذریعے سے دعا تھی اور زبان حال کے ذریعے سے دعا کرنا زبان قال کے ذریعے سے دعا کرنے سے زیادہ بلیغ ہے۔
#
{25} فلم يزل في هذه الحالة داعياً ربه متملِّقاً، وأما المرأتان؛ فذهبتا إلى أبيهما وأخبرتاه بما جرى، فأرسل أبوهما إحداهما إلى موسى، فجاءته {تمشي على استحياءٍ}، وهذا يدلُّ على كرم عنصرِها وخُلُقها الحسن؛ فإنَّ الحياء من الأخلاق الفاضلة، وخصوصاً في النساء، ويدلُّ على أنَّ موسى عليه السلام لم يكنْ فيما فعله من السقي لهما بمنزلة الأجير والخادم الذي لا يستحى منه عادة، وإنَّما هو عزيزُ النفس، رأتْ من حسنِ خُلُقِهِ ومكارم أخلاقه ما أوجبَ لها الحياء منه، {قالتْ}: له: {إنَّ أبي يدعوكَ لِيَجْزِيَكَ أجرَ ما سَقَيْتَ لنا}؛ أي: لا لمنٍّ عليك، بل أنت الذي ابتدأتنا بالإحسان، وإنَّما قصدُه أن يكافِئَك على إحسانِك، فأجابها موسى، {فلمَّا جاءه وقصَّ عليه القَصَصَ}: من ابتداء السبب الموجب لهربِهِ إلى أن وَصَلَ إليه، {قال}: له مسكِّناً رَوْعَهُ جابراً قَلْبَهُ: {لا تَخَفْ نجوتَ من القوم الظالمينَ}؛ أي: ليذهبْ خوفُك ورَوْعُك؛ فإنَّ الله نجَّاك منهم حيث وصلتَ إلى هذا المحلِّ الذي ليس لهم عليه سلطانٌ.
[25] وہ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے۔وہ دونوں عورتیں اپنے والد کے پاس گئیں اور ان کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ان کے والد نے ان میں سے ایک عورت کو موسیٰu کے پاس بھیجا وہ آپ کے پاس آئی ﴿ تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ﴾ ’’شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی۔‘‘ یہ حیا اس عورت کی اچھی فطرت اور خلق حسن پر دلالت کرتی ہے۔ حیا اخلاق فاضلہ میں شمار ہوتی ہے … خاص طور پر عورتوں میں ۔ یہ چیز اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ موسیٰu نے ان خواتین کے مویشیوں کو جو پانی پلایا تھا کسی نوکر یا غلام کی حیثیت سے نہیں پلایا تھا کہ جن سے عموماً شرمایا نہیں جاتا بلکہ موسیٰu تو عزت نفس رکھنے والے شخص تھے اس لیے اس عورت نے آپ کے جس حسن اخلاق کا مشاہدہ کیا وہ اس کی حیا کا موجب تھا۔ ﴿ قَالَتْ ﴾ پس اس عورت نے آکر موسیٰu سے کہا: ﴿ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا﴾ ’’بے شک آپ کو میرے والد بلاتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے لیے پانی پلایا تھا اس کی آپ کو اجرت دیں ۔‘‘ یعنی آپ پر کسی قسم کا احسان کرتے ہوئے نہیں بلکہ آپ نے ہم پر احسان کی ابتدا کی ہے ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کے احسان کا بدلہ دیں ۔ موسیٰu نے اس کی بات مان لی۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَقَصَّ عَلَیْهِ الْ٘قَ٘صَصَ﴾ ’’پس جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کیا۔‘‘ یعنی موسیٰu نے ابتدائی اسباب سے لے کر جو وہاں سے آپ کے فرار کے موجب بنے، یہاں پہنچنے تک، تمام واقعات سنا دیے ﴿ قَالَ ﴾ ’’انھوں نے کہا‘‘ موسیٰu کا خوف دور کرتے اور ان کی دل جوئی کرتے ہوئے: ﴿ لَا تَخَفْ١۫ٙ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ یعنی آپ کو ڈرنا اور خوف نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ظالموں سے نجات دے دی ہے اور آپ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا کوئی اختیار نہیں ۔
#
{26} {قالتْ إحداهُما}؛ أي: إحدى ابنتيهِ: {يا أبتِ اسْتَأجِرْه}؛ أي: اجْعَلْه أجيراً عندك يرعى الغنم ويسقيها، {إنَّ خير مَنِ استأجرتَ القويُّ الأمينُ}؛ أي: إنَّ موسى أولى مَنِ استُؤْجِرَ؛ فإنَّه جمع القوَّة والأمانة، وخير أجيرٍ استُؤْجِرَ مَن جَمَعَهما؛ [أي]: القوَّة والقدرة على ما استُؤْجِرَ عليه، والأمانة فيه بعدم الخيانة، وهذان الوصفان ينبغي اعتبارُهما في كلِّ مَنْ يَتَوَلَّى للإنسان عملاً بإجارة أو غيرها؛ فإنَّ الخلل لا يكون إلا بفقدِهِما أو فقد إحداهما، وأمَّا اجتماعُهما؛ فإنَّ العمل يتمُّ ويكمُلُ. وإنَّما قالت ذلك لأنَّها شاهدت من قوَّةِ موسى عند السَّقْي لهما ونشاطِهِ ما عَرَفَتْ به قوَّته، وشاهدتْ من أمانتِهِ وديانتِهِ وأنَّه رحمهما في حالةٍ لا يُرجى نفعهما، وإنَّما قصدُه بذلك وجه الله تعالى.
[26] ﴿ قَالَتْ اِحْدٰؔىهُمَا ﴾ یعنی ان کی ایک بیٹی نے کہا: ﴿ یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ﴾ یعنی انھیں اپنے پاس اجرت پر رکھ لیں یہ آپ کی بکریوں کو چرائیں گے اور انھیں پانی پلائیں گے ﴿ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ ﴾ یعنی موسیٰu تمام ملازموں سے بہتر ہیں کیونکہ یہ طاقتور بھی ہیں اور امین بھی اور بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جس میں وہ کام کرنے کی قوت اور قدرت ہو جس کے لیے اسے ملازم رکھا گیا ہے اور اس میں خیانت نہ ہو اور وہ امین ہو۔ یہ دونوں صفات ہر اس شخص میں اہمیت دیے جانے کے لائق ہیں جس کو کوئی منصب سونپا جائے یا اسے اجرت وغیرہ پر رکھا جائے۔ معاملات میں خلل اس وقت واقع ہوتا ہے جب یہ دونوں اوصاف یا ان میں سے ایک وصف مفقود ہو۔ ان دونوں اوصاف کے اجتماع سے اس کام کی بدرجہ احسن تکمیل ہوتی ہے۔ اس عورت نے اپنے باپ کو مشورہ اس لیے دیا تھا کہ اس نے بکریوں کو پانی پلاتے وقت موسیٰu کی قوت اور نشاط کا مشاہدہ کر لیا تھا جس سے اس نے آپ کی قوت کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اسی طرح اس نے موسیٰu کی امانت اور دیانت کو بھی پرکھ لیا تھا۔ موسیٰu نے ان عورتوں پر اس وقت اور اس حالت میں رحم کھایا تھا جب ان سے کسی فائدے کی امید نہ تھی آپ کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھا۔
#
{27} فَـ {قَالَ} صاحبُ مَدْيَنَ لموسى: {إنِّي أريدُ أن أُنكِحَكَ إحدى ابنتيَّ هاتينِ على أن تَأجُرَني}؛ أي: تصير أجيراً عندي {ثماني حِجَجٍ}؛ أي: ثماني سنين، {فإنْ أتممتَ عشراً فمن عندِكَ}: تبرُّع منك لا شيء واجبٌ عليك. {وما أريدُ أن أشُقَّ عليك}: فأحتِّم عشرَ السنين، أو ما أريد أن أستأجِرَك لأكلِّفَكَ أعمالاً شاقَّة، وإنَّما استأجرتُك لعمل سهل يسيرٍ لا مشقَّةَ فيه. {ستَجِدُني إن شاء الله من الصالحينَ}: فرغَّبه في سهولة العمل وفي حسن المعاملة، وهذا يدلُّ على أن الرجل الصالح ينبغي له أن يُحَسِّنَ خُلُقَهُ مهما أمكنه، وأنَّ الذي يُطْلَبُ منه أبلغُ من غيره.
[27] ﴿ قَالَ ﴾ یعنی صاحب مدین نے موسیٰu سے کہا: ﴿ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰؔتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ﴾ ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم میری خدمت کرو۔‘‘ یعنی میرے ہاں نوکر ٹھہر جاؤ۔ ﴿ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ﴾ آٹھ سال تک ﴿ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَ٘مِنْ عِنْدِكَ﴾ ’’پس اگر آپ دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے ہوگا۔‘‘ یعنی آپ کی طرف سے عطیہ ہو گا زائد مدت آپ پر واجب نہیں ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُ٘قَّ عَلَیْكَ ﴾ ’’میں نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کروں ‘‘ میں حتمیٰ طور پر دس سال کی مدت مقرر کر دوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو پرمشقت کاموں کے لیے ملازم رکھوں ۔ میں نے تو آپ کو نہایت آسان کام کے لیے ملازم رکھا ہے جس میں کوئی مشقت نہیں ۔ ﴿ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔‘‘ صاحب مدین نے آپ کو کام کی سہولت اور حسن معاملہ کے ذریعے سے ترغیب دی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرد صالح کے لیے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حسن اخلاق سے کام لے۔
#
{28} فَـ {قَالَ} موسى عليه السلام مجيباً له فيما طلب منه: {ذلك بيني وبينَكَ}؛ أي: هذا الشرط الذي أنت ذكرتَ رضيتُ به، وقد تمَّ فيما بيني وبينك، {أيَّما الأجلينِ قضيتُ فلا عُدوانَ عليَّ}: سواء قضيتُ الثمان الواجبة أم تبرَّعْتُ بالزائد عليها، {والله على ما نَقولُ وكيلٌ}: حافظٌ يراقِبُنا ويعلم ما تعاقدنا عليه. وهذا الرجلُ أبو المرأتينِ صاحبُ مدينَ ليس بشعيب النبيِّ المعروف كما اشْتُهِرَ عند كثيرٍ من الناس؛ فإنَّ هذا قولٌ لم يدلَّ عليه دليلٌ ، وغايةُ ما يكون أن شعيباً عليه السلام قد كانت بلدُهُ مدينَ، وهذه القضيةُ جرتْ في مدينَ؛ فأين الملازمة بين الأمرين؟! وأيضاً؛ فإنَّه غير معلوم أن موسى أدركَ زمانَ شعيبٍ؛ فكيف بشخصِهِ؟! ولو كان ذلك الرجلُ شعيباً؛ لذكره الله تعالى، ولسمَّتْه المرأتان. وأيضاً؛ فإنَّ شعيباً عليه الصلاة والسلام قد أهلك الله قومَه بتكذيِبِهم إيَّاه، ولم يبقَ إلاَّ مَنْ آمن به، وقد أعاذ الله المؤمنينَ به أن يرضَوْا لبنتي نبيِّهم بمنعهما عن الماء وصدِّ ماشيتهما حتى يأتِيَهُما رجلٌ غريبٌ فيحسِنُ إليهما ويسقي ماشيتهما، وما كان شعيبٌ ليرضى أن يرعى موسى عنده ويكون خادماً له وهو أفضلُ منه وأعلى درجةً؛ إلاَّ أنْ يُقال: هذا قبل نبوَّة موسى؛ فلا منافاة. وعلى كلِّ حال؛ لا يُعْتَمَدُ على أنَّه شعيبٌ النبيُّ بغير نقل صحيح عن النبي - صلى الله عليه وسلم -. والله أعلم.
[28] ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے صاحب مدین کی شرائط اور اس کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ﴾ یعنی وہ شرط جس کا آپ نے ذکر کیا ہے مجھے منظور ہے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ پکا ہے۔ ﴿ اَیَّمَا الْاَجَلَیْ٘نِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ﴾ ’’میں دونوں مدتوں میں سے جوبھی مدت پوری کروں تو مجھ پر زیادتی نہ ہو۔‘‘ خواہ میں آٹھ (سال) پورے کروں جن کو پورا کرنا واجب ہے یا عطیہ کے طور پر آٹھ سال سے زائد کام کروں ۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَؔكِیْلٌ﴾ ’’اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے۔‘‘ یعنی حفاظت کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ مذکورہ شخص، ان دو عورتوں کا والد اور صاحب مدین، وہ شعیب نہیں جو معروف نبی ہیں جیسا کہ بہت سے لوگوں کے ہاں مشہور ہے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شعیبu کا شہر بھی مدین ہی تھا اور یہ واقعہ بھی مدین ہی میں پیش آیا … دونوں امور میں تلازم کیونکر واقع ہو گیا؟ نیز یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آیا موسیٰu نے شعیبu کا زمانہ پایا ہے یا نہیں ان کا شعیبu سے ملاقات کرنا کیونکر معلوم ہو سکتا ہے؟ اگر وہ شخص، شعیبu ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور فرماتا اور وہ خواتین بھی اس بات کا ذکر کرتیں ۔ نیز شعیبu کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا تھا، ان میں سے صرف وہی لوگ باقی بچے تھے جو ایمان لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات اپنی پناہ میں رکھا ہے کہ وہ اپنے نبی کی دو بیٹیوں کو پانی سے محروم کرنے اور ان کے مویشیوں کو پانی سے روکنے پر راضی ہوں یہاں تک کہ ایک اجنبی شخص آئے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کے مویشیوں کو پانی پلا دے۔ خود حضرت شعیب بھی اس پر راضی نہیں ہو سکتے تھے کہ موسیٰu ان کی بکریاں چرائیں اور ان کے پاس خادم بن کر رہیں حالانکہ موسیٰu شعیبu سے افضل اور بلندتر درجے پر فائز تھے … البتہ اگر یہ واقعہ موسیٰu کی نبوت سے پہلے کا ہے تب اس میں کوئی منافات نہیں ۔ بہرحال رسول اللہ e سے روایت صحیحہ کے بغیر اس قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شخص مذکور شعیب نبی تھے۔ واللہ اعلم۔
#
{29} {فلما قضى موسى الأجلَ}: يُحتمل أنَّه قضى الأجل الواجب أو الزائد عليه كما هو الظنُّ بموسى ووفائِهِ؛ اشتاق إلى الوصول إلى أهله ووالدتِهِ وعشيرتِهِ ووطنِهِ، وظنَّ من طول المدَّة أنَّهم قد تناسَوْا ما صدر منه. {سار بأهلِهِ}: قاصداً مصر، {آنس}؛ أي: أبصر، {من جانب الطُّورِ ناراً}، فَـ {قَالَ لأهلِهِ امْكُثوا إنِّي آنستُ ناراً لعلِّي آتيكُم منها بخبرٍ} أو آتيكم بشهاب قبس، {لعلَّكم تَصْطَلونَ}: وكان قد أصابهم البردُ، وتاهوا الطريق.
[29] ﴿ فَلَمَّا قَ٘ضٰى مُوْسَى الْاَجَل ﴾ ’’پس جب موسیٰ(u) نے مدت پوری کردی۔‘‘ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آپ نے وہ مدت پوری کی ہو جس کا پورا کرنا آپ پر واجب تھا یا اس کے ساتھ وہ زائد مدت بھی پوری کی ہو جیسا کہ موسیٰu کے بارے میں آپ کے ایفائے عہد کے وصف کی بنا پر یہی گمان کیا جا سکتا ہے۔ موسیٰu کے دل میں اپنے گھر والوں ، اپنی والدہ اور اپنے خاندان والوں کے پاس اپنے وطن پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا … جناب موسیٰu کا خیال تھا کہ اس طویل مدت میں لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کو بھول گئے ہوں گے۔ ﴿ وَسَارَ بِاَهْلِهٖ٘ۤ ﴾ ’’اپنے گھر والوں کو لے کر چلے۔‘‘ مصر کا قصد کر کے ﴿اٰنَ٘سَ ﴾ یعنی آپ نے دیکھا ﴿ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّ٘عَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّؔنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ﴾ ’’طور کی طرف آگ کو تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے، ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپو۔‘‘ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے بھی تھے اور موسم بھی سرد تھا۔
#
{30} فلمَّا أتاها نودي: {يا موسى إنِّي أنا الله ربُّ العالمينَ}: فأخبره بألوهيَّته وربوبيَّته، ويلزم من ذلك أنْ يأمُرَه بعبادتِهِ وتألُّهه كما صرَّح به في الآية الأخرى، {فاعْبُدْني وأقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْري}.
[30] جب موسیٰu وہاں پہنچے تو آواز دیے گئے کہ ﴿ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ اے موسیٰ! یقینا میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور ربوبیت کی خبر دی ہے اور اس سے یہ چیز لازم آتی ہے کہ وہ اپنی عبادت کا حکم دے جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں آتا ہے ﴿ فَاعْبُدْنِیْ١ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰ٘وةَ لِـذِكْرِیْ ﴾ (طٰہٰ:20؍14) ’’میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔‘‘
#
{31} {وأنْ ألقِ عصاكَ}: فألقاها، {فلمَّا رآها تَهْتَزُّ}: تسعى سعياً شديداً، ولها صورةٌ مُهيلة {كأنها جانٌّ}: ذكرُ الحيات العظيم، {ولَّى مُدْبِراً ولم يُعَقِّبْ}؛ أي: يرجِع لاستيلاء الروع على قلبه، فقال الله له: {يا موسى أقْبِلْ ولا تَخَفْ إنَّك من الآمنين}: وهذا أبلغُ ما يكون في التأمين وعدم الخوف؛ فإنَّ قولَه: {أقبل}: يقتضي الأمر بإقباله ويجب عليه الامتثال، ولكن قد يكونُ إقبالُهُ وهو لم يزل الأمرُ المخوفُ، فقال: {ولا تَخَفْ}: أمر له بشيئين: إقباله، وأنْ لا يكون في قلبِهِ خوفٌ. ولكن يبقى احتمالٌ، وهو أنَّه قد يُقْبِلُ وهو غير خائفٍ، ولكن لا تحصُلُ له الوقاية والأمن من المكروه فقال: {إنك من الآمنين}: فحينئذٍ اندفع المحذور من جميع الوجوه. فأقبل موسى عليه السلام غير خائف ولا مرعوبٍ، بل مطمئنًّا واثقاً بخبر ربِّه، قد ازداد إيمانُه وتمَّ يقينُه. فهذه آيةٌ أراه الله إيَّاها قبل ذَهابه إلى فرعون؛ ليكونَ على يقين تامٍّ، ليكون أجرأ له وأقوى وأصلب.
[31] ﴿ وَاَنْ اَلْ٘قِ عَصَاكَ ﴾ ’’اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دیں ‘‘ تو آپ نے اپنا عصا پھینک دیا۔ ﴿ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ ﴾ ’’پس جب موسیٰ نے لاٹھی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘ یعنی آپ نے اس کو دوڑتا ہوا دیکھا اس کی شکل بہت ہولناک تھی ﴿ كَاَنَّهَا جَآنٌّ ﴾ گویا کہ وہ بہت بڑا نر سانپ ہے۔ ﴿ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ﴾ تو موسیٰu واپس بھاگے اور دل پر خوف کے غلبہ کی وجہ سے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu سے فرمایا: ﴿ یٰمُوْسٰۤى اَ٘قْبِلْ وَلَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ ﴾ ’’اے موسیٰ! آگے آؤ اور ڈرومت، تم امن پانے والوں میں ہو۔‘‘ یہ فقرہ عدم خوف اور امن عطا کرنے میں بلیغ ترین فقرہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿٘اَقْبِلْ﴾ سامنے آنے کے حکم اور اس کی تعمیل کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان سامنے آتا ہے مگر وہ ابھی تک خوف کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا تَخَفْ ﴾ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو دو امور کا حکم دیا۔ سامنے آنا اور دل میں کسی قسم کے خوف کو نہ رکھنا۔ مگر ان کے باوجود یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ وہ شخص مامور خوف سے آزاد ہو کر آئے مگر اسے امر مکروہ سے حفاظت اور امن کی ضمانت حاصل نہ ہو۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ ﴾ ’’بے شک آپ امن پانے والوں میں سے ہیں ‘‘ تب خوف ہر لحاظ سے زائل ہو جاتا ہے۔ پس موسیٰu ہر خوف اور رعب سے آزاد اور مطمئن ہو کر اور اپنے رب کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے سامنے آئے، ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کا یقین مکمل ہو چکا تھا۔ یہ معجزہ تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرعون کے پاس جانے سے قبل آپ کو مشاہدہ کروایا تاکہ جب آپ فرعون کے پاس جائیں تو یقین کامل کے مقام پر فائز ہوں تو اس صورت میں آپ زیادہ جرأ ت، زیادہ قوت اور صلابت کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں گے
#
{32} ثم أراه الآية الأخرى، فقال: {اسْلُكْ يَدَكَ}؛ أي: أدْخِلْها {في جيبِك تَخْرُجْ بيضاءَ من غير سوءٍ}: فسَلَكَها وأخرجها كما ذكر الله تعالى، {واضْمُمْ إليك جناحك من الرَّهْبِ}؛ أي: ضمَّ جناحك ـ وهو عضُدُك ـ إلى جنبك؛ ليزولَ عنك الرهبُ والخوفُ. {فذنِكَ}؛ أي: انقلاب العصا حيةً وخروجُ اليد بيضاء من غير سوء {برهانانِ من ربِّك}؛ أي: حجتان قاطعتان من الله {إلى فرعون وملئه إنَّهم كانوا قوماً فاسقين}: فلا يكفيهم مجردُ الإنذار وأمر الرسول إيَّاهم، بل لا بدَّ من الآيات الباهرة إن نفعت.
[32] پھر اللہ نے ایک اور معجزے کا مشاہدہ کروایا چنانچہ فرمایا: ﴿ اُسْلُكْ یَدَكَ ﴾ یعنی اپنا ہاتھ داخل کر ﴿ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ ﴾ ’’اپنے گریبان میں تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا۔‘‘ موسیٰu نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ وَّاضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ﴾ اور اپنے بازؤوں کو بھینچ لیں تاکہ آپ کا ڈر اور خوف زائل ہو جائے ﴿ فَذٰنِكَ ﴾ ’’پس یہ‘‘ یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور گریبان سے ہاتھ کا چمکتا ہوا نکلنا ﴿ بُرْهَانٰ٘نِ مِنْ رَّبِّكَ ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قطعی براہین ہیں ۔ ﴿ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف جاؤ کہ وہ نافرمان لوگ ہیں ۔‘‘ ان کے لیے مجرد انذار اور رسول کا ان کو حکم دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ظاہری معجزات بھی ضروری ہیں اگر وہ کوئی فائدہ دیں ۔
#
{33 ـ 34} فَـ {قَالَ} موسى عليه السلام معتذراً من ربِّه وسائلاً له المعونَةَ على ما حَمَلَه وذاكراً له الموانع التي فيه ليزيلَ ربُّه ما يَحْذَرُهُ منها: {ربِّ إنِّي قتلتُ منهم نفساً}؛ أي: {فأخافُ أن يقتلونِ. وأخي هارونُ هو أفصحُ مني لساناً فأرسِلْهُ معي ردءاً}؛ أي: معاوناً ومساعداً، يصدِّقون فإنَّه مع تضافرِ الأخبار يقوى الحقُّ.
[34,33] ﴿ قَالَ﴾موسیٰu نے اپنے رب کے حضور معذرت کرتے، رب تعالیٰ نے جو آپ پر ذمہ داری ڈالی تھی اس پر اس سے مدد کی درخواست کرتے اور اس راستے میں پیش آنے والے موانع کا ذکر کرتے ہوئے تاکہ ان کا رب ان تمام مشکلات کو آسان کر دے … عرض کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا ﴾ ’’اے میرے رب! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے۔‘‘ یعنی ﴿ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ۰۰ وَاَخِیْ هٰؔرُوْنُ هُوَ اَفْ٘صَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً ﴾ ’’پس مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں مجھ کو مار نہ ڈالیں اور ہارون جومیرا بھائی ہے اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج۔‘‘ یعنی اس کو میرے ساتھ میرا معاون اور مددگار بنا کر بھیج ﴿ یُّصَدِّقُنِیْۤ﴾ ’’جو میری تصدیق کرے‘‘ کیونکہ ایک دوسرے کی موافقت کرتی ہوئی خبروں کے ساتھ تصدیق، حق کو طاقتور بنا دیتی ہے۔ ﴿ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ ﴾ ’’مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔‘‘
#
{35} فأجابه الله إلى سؤاله، فقال: {سنشدُّ عَضُدَكَ بأخيكَ}؛ أي: نعاوِنُك به ونقوِّيك. ثم أزال عنه محذورَ القتل، فقال: {ونجعلُ لكُما سلطاناً}؛ أي: تسلُّطاً وتمكُّناً من الدعوة بالحجَّة والهيبة الإلهيَّة من عدوِّهما لهما؛ {فلا يَصِلون إليكُما}: وذلك بسبب آياتِنا وما دلَّت عليه من الحقِّ وما أزعجتْ به من باشرها ونظر إليها؛ فهي التي بها حَصَلَ لكما السلطان، واندفَعَ بها عنكم كيدُ عدوِّكم ، وصارت لكم أبلغَ من الجنود أولي العدد والعُدد. {أنتُما ومَنِ اتَّبَعَكما الغالبونَ}: وهذا وعدٌ لموسى في ذلك الوقت، وهو وحده فريدٌ، وقد رجع إلى بلدِهِ بعدما كان شريداً، فلم تزلِ الأحوال تتطوَّر والأمور تتنقل حتى أنجزَ له موعوده، ومكَّنه من العباد والبلاد، وصار له ولأتباعِهِ الغلبةُ والظهورُ.
[35] اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ﴾ یعنی ہم آپ کے بھائی کے ذریعے سے آپ کی مدد کریں گے اور آپ کو طاقت اور قوت عطا کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ نے قتل کے الزام کے خوف کو بھی زائل کر دیا۔ فرمایا: ﴿ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُؔلْطٰنًا ﴾ ہم آپ کو دلیل اور برہان کے ذریعے سے آپ کی دعوت میں قوت اور آپ کے دشمن کے مقابلے میں ہیبت الٰہیہ عطا کریں گے۔ ﴿ فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا﴾ ’’پس وہ آپ دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے‘‘ اور اس کا سبب ہماری نشانیاں اور وہ حق ہے جس پر یہ نشانیاں دلالت کرتی ہیں ۔ نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ جو کوئی ان نشانیوں کو دیکھتا خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ انھی نشانیوں کے سبب سے آپ کو قوت حاصل ہو گی اور دشمن کے فریب کا تاروپود بکھر جائے گا اور یہ نشانیاں آپ کو، سازوسامان سے لیس بڑے بڑے لشکروں سے بڑھ کر کام دیں گی۔ ﴿ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ ﴾ ’’تم اور تمھارے متبعین غالب رہو گے۔‘‘ یہ وعدہ موسیٰu سے اس وقت کیا گیا تھا جب آپ بالکل تنہا تھے اور فرار رہنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹے تھے۔ حالات و واقعات بدلتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور آپ کو ملک اور بندوں پر اختیار عطا کر دیا آپ اور آپ کے پیروکار ملک میں غالب آ گئے۔
#
{36} فذهب موسى برسالة ربِّه، {فلمَّا جاءهم موسى بآياتِنا بيِّناتٍ}: واضحاتِ الدِّلالة على ما قال لهم ، ليس فيها قصورٌ ولا خفاءٌ، {قالوا}: على وجه الظُّلم والعلوِّ والعناد: {ما هذا إلاَّ سحرٌ مفترى}؛ كما قال فرعونُ في تلك الحال التي ظهر فيها الحقُّ، واستعلى على الباطل، واضمحلَّ الباطلُ، وخضع له الرؤساءُ العارِفون حقائقَ الأمور: {إنَّه لكبيرُكُمُ الذي علَّمَكُمُ السحرَ}! هذا؛ وهو الذكيُّ غير الزكيِّ، الذي بلغ من المكر والخداع والكيد ما قصَّه الله علينا، وقد علم ما أنزل هؤلاء إلاَّ رب السماوات والأرض، ولكنَّ الشقاء غالبٌ، {وما سمعنا بهذا في آبائنا الأولين}: وقد كَذَبوا في ذلك؛ فإنَّ الله أرسل يوسفَ قبل موسى؛ كما قال تعالى: {ولقد جاءكم يوسُفُ من قبلُ بالبيِّناتِ فما زِلْتُم في شكٍّ مما جاءكم به حتى إذا هَلَكَ قلتُم لن يَبْعَثَ الله من بعدِهِ رسولاً كذلك يُضِلُّ الله من هو مسرفٌ مرتاب}.
[36] حضرت موسیٰu اپنے رب کے پیغام کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰؔى بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ﴾ ’’پس جب موسیٰ(u) ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ یعنی موسیٰu اپنی دعوت کی تائید میں واضح دلائل لائے جن میں کوئی کوتاہی تھی نہ کوئی پوشیدہ چیز ﴿ قَالُوْا ﴾ تو فرعون کی قوم نے ظلم، تکبر اور عناد کی بنا پر کہا: ﴿ مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى ﴾ ’’یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کر کھڑا کیا ہے۔‘‘ جیسا کہ فرعون نے اس وقت کہا تھا جب حق ظاہر ہو کر باطل پر غالب آ گیا اور باطل مضمحل ہو گیا، تمام بڑے بڑے سردار جو معاملات کے حقائق کو جانتے تھے آپ کے سامنے سرنگوں ہو گئے تو فرعون نے کہا تھا: ﴿ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُؔكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ﴾ (طٰہٰ:20؍71) ’’یہ تمھارا سردار ہے جس نے تمھیں جادو سکھایا ہے۔‘‘ یہ ذہین مگر ناپاک شخص جو مکروفریب اور چالبازی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اسے زمین و آسمان کے رب نے نازل کیا ہے۔ مگر اس پر بدبختی غالب تھی۔ ﴿ وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰؔذَا فِیْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور یہ ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی یہ بات) نہیں سنی۔‘‘ یہ بھی انھوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو واضح دلائل و براہین کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّؔمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَ٘نْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ﴾ (غافر:40؍34) ’’اس سے پہلے تمھارے پاس یوسف واضح دلائل لے کر آئے مگر وہ جو کچھ لے کر آئے تھے اس کے بارے میں تم شک میں مبتلا رہے پھر جب وہ وفات پا گئے تو تم نے کہا اب اللہ ان کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں کرے گا۔ اسی طرح اللہ ہر ایسے شخص کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا اور شکی ہوتا ہے۔‘‘
#
{37} {وقال موسى}: حين زعموا أنَّ الذي جاءَهم به سحرٌ وضلالٌ، وأنَّ ما هم عليه هو الهدى: {ربِّي أعلمُ بمن جاء بالهُدى مِنْ عندِهِ ومَن تكونُ له عاقبةُ الدار}؛ أي: إذا لم تُفِدِ المقابلةُ معكم وتبيينُ الآيات البيِّناتِ وأبيتُم إلاَّ التَّمادي في غيِّكم واللَّجاج على كفرِكُم؛ فالله تعالى العالم بالمهتدي وغيره ومن تكونُ له عاقبةُ الدار؛ نحن أم أنتُم. {إنَّه لا يُفْلِحُ الظالمون}: فصار عاقبةُ الدار لموسى وأتباعِهِ والفلاحُ والفوزُ، وصار لأولئك الخسار وسوء العاقبة والهلاك.
[37] ﴿ وَقَالَ مُوْسٰؔى﴾ جب انھوں نے دعویٰ کیا کہ جو چیز موسیٰu لے کر آئے ہیں وہ جادو اور گمراہی ہے اور ان کا موقف سراسر ہدایت پر مبنی ہے۔ تو موسیٰu نے فرمایا: ﴿ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰؔى مِنْ عِنْدِهٖ وَمَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ﴾ ’’میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور جس کے لیے آخرت کا اچھا انجام ہوگا۔‘‘ جب تمھارے ساتھ بحث کرنے اور تمھارے سامنے واضح دلائل بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، تم نے گمراہی ہی میں سرگرداں رہنے اور اپنے کفر کی تائید میں جھگڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے اور ہدایت سے محرومی کس کے حصے میں آئی ہے، نیز کس کا انجام اچھا ہے ہمارا یا تمھارا؟ ﴿ اِنَّهٗ لَا یُفْ٘لِحُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’بے شک ظالم نجات نہیں پائیں گے۔‘‘ اچھی عاقبت اور فوزوفلاح سے موسیٰu اور ان کے متبعین سرفراز ہوئے اور ان منکرین حق کے نصیب میں برا انجام، خسارہ اور ہلاکت لکھ دیے گئے۔
#
{38} {وقال فرعونُ}: متجرِّئاً على ربِّه ومموِّها على قومِهِ السفهاء أخفاء العقول: {يا أيُّها الملأ ما علمتُ لكم من إلهٍ غيري}؛ أي: أنا وحدي إلهُكم ومعبودُكم، ولو كان ثمَّ إلهٌ غيري؛ لعلمتُه! فانظرُ إلى هذا الورع التامِّ من فرعون؛ حيثُ لم يَقُلْ: ما لكم من إلهٍ غيري! بل تورَّعَ وقال: ما علمتُ لكم من إلهٍ غيري! وهذا لأنَّه عندَهم العالم الفاضل، الذي مهما قال؛ فهو الحقُّ، ومهما أمر؛ أطاعوه. فلما قال هذه المقالةَ التي قد تحتملُ أنَّ ثمَّ إلهاً غيره؛ أراد أن يحقِّق النفي الذي جعل فيه ذلك الاحتمال، فقال لهامان: {فأوقِدْ لي يا هامانُ على الطينِ}: ليجعلَ له لَبِناً من فخَّار، {فاجْعَلْ لي صرحاً}؛ أي: بناءً عالياً ؛ {لعلِّي أطَّلِعُ إلى إلهِ موسى وإنِّي لأظنُّه} كاذباً ولكنْ سنحقِّقُ هذا الظنَّ ونريكم كَذِبَ موسى. فانْظُرْ هذه الجراءة العظيمة على الله، التي ما بَلَغَها آدميٌّ! كذَّبَ موسى، وادَّعى أنه الله، ونفى أن يكونَ له علمٌ بالإله الحق، وفعل الأسباب ليتوصل إلى إله موسى، وكل هذا ترويجٌ. ولكن العجب من هؤلاء الملأ الذين يزعمون أنَّهم كبارُ المملكة المدبِّرون لشؤونها؛ كيف لعب هذا الرجل بعقولهم، واستخفَّ أحلامَهم؟! وهذا لفِسْقِهِم الذي صار صفةً راسخةً فيهم؛ فسد دينهم، ثم تبع ذلك فساد عقولهم؛ فنسألك اللهمَّ الثبات على الإيمان، وأن لا تُزيغَ قلوبَنا بعد إذْ هَدَيْتَنا، وتَهَبَ لنا من لَدُنْكَ رحمةً إنَّك أنت الوهاب.
[38] ﴿ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے اپنے رب کے بارے میں جسارت اور اپنی قوم کے احمق اور کمزور عقل والوں کے سامنے خوشنما باتیں کرتے ہوئے کہا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ﴾ ’’اے اہل دربار! میں تمھارا اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا‘‘ یعنی میں اکیلا تمھارا الٰہ اور معبود ہوں اگر میرے سوا کوئی اور الٰہ ہوتا تو میرے علم میں ضرور ہوتا۔ ذرا فرعون کی یہ کامل احتیاط ملاحظہ کیجیے، اس نے یہ نہیں کہا: ﴿ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ﴾ ’’میرے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ بلکہ یہ کہا ’’میں تمھارا اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا۔‘‘ کیونکہ وہ ان کے نزدیک ایک عالم فاضل شخص تھا وہ جو بھی کوئی بات کرتا تھا وہ ان کے نزدیک حق ہوتی تھی اور وہ جو بھی کوئی حکم دیتا تھا اس کی اطاعت کرتے تھے۔ پس جب اس نے یہ بات کہی جس میں یہ احتمال تھا کہ فرعون کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے تو اس نفی کو متحقق کرنے کے ارادے سے ہامان سے کہا: ﴿ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ﴾ ’’اے ہامان! تو میرے لیے مٹی پر آگ جلا۔‘‘ تاکہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ ﴿ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا﴾ ’’پھر میرے لیے ایک محل بنوا دو۔‘‘ یعنی ایک بلند عمارت ﴿لَّ٘عَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰؔى١ۙ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ﴾ ’’تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانک لوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں ۔‘‘ مگر اس میں اس گمان کو سچ کر دکھاؤں گا اور تمھارے سامنے موسیٰu کا جھوٹ عیاں کروں گا۔ ملاحظہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ کسی آدمی نے اتنی بڑی جسارت نہیں کی۔ اس نے موسیٰu کی تکذیب کی، خود اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، اس نے اس بات کی بھی نفی کی کہ اسے معبود حق کے بارے میں علم ہے اور اس نے موسیٰu کے معبود تک پہنچنے کے لیے اسباب مہیا کرنے کا حکم دیا۔ یہ سب ابہام پیدا کرنے کی کوشش ہے مگر حیرت ہے ان درباریوں پر جو اپنے آپ کو مملکت کے ستون اور سلطنت کے معاملات میں بڑا مدبر سمجھتے تھے۔ فرعون کیسے ان کی عقلوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور کیسے ان کو بیوقوف بناتا رہا۔ اس کا سبب ان کا فسق تھا جو ان کا وصف راسخ بن گیا تھا۔ ان کا دین فاسد ہو گیا پھر اس کے نتیجے میں ان کی عقل بھی خرابی کا شکار ہو گئی۔ اے اللہ! ہم تجھ سے ایمان پر ثابت قدمی اور استقامت کا سوال کرتے ہیں ہمیں ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔ تو ہمیں اپنی بے پایاں رحمت سے نواز بلاشبہ تو بہت زیادہ نوازش کرنے والا ہے۔
#
{39} قال تعالى: {واستكبر هو وجنودُهُ في الأرضِ بغيرِ الحقِّ}: استكبروا على عبادِ الله، وساموهم سوء العذاب، واستكبروا على رسل الله وما جاؤوهم به من الآيات، فكذَّبوها، وزعموا أنَّ ما هم عليه أعلى منها وأفضل، {وظنُّوا أنَّهم إلينا لا يُرْجَعون}: فلذلك تجرَّؤوا، وإلاَّ؛ فلو علموا أو ظنُّوا أنَّهم يُرْجَعون إلى الله؛ لما كان منهم ما كان.
[39] اللہ وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاسْتَؔكْبَرَ هُوَ وَجُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ ’’اور فرعون نے اور اس کے لشکر نے ناحق طورپر ملک میں تکبر کیا۔‘‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ متکبرانہ رویہ رکھا اور ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی دعوت کو تکبر کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ انھوں نے آیات الٰہی کی تکذیب کی اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ ان کا مسلک اعلیٰ و افضل ہے۔ ﴿ وَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ﴾ ’’اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘ اس لیے انھیں ایسا کرنے کی جرأت ہوئی ورنہ اگر انھیں علم ہوتا اور انھیں اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو وہ کبھی بھی ایسا کام نہ کرتے جو انھوں نے کیا۔
#
{40} {فأخَذْناه وجنودَه}: عندما استمرَّ عنادُهُم وبَغْيُهم، {فَنبَذْناهم في اليمِّ فانظُرْ كيفَ كان عاقبةُ الظالمينَ}: كانت أشرَّ العواقبِ وأخسرَها عاقبةً، أعقبتْها العقوبةُ الدنيويَّة المستمرَّة المتَّصلة بالعقوبة الأخرويَّة.
[40] ﴿ فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ﴾ جب وہ اپنے عناد اور سرکشی پر جمے رہے تو ہم نے فرعون اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا ﴿ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ١ۚ فَانْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پھر ہم نے انھیں دریا میں ڈال دیا، پس دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔‘‘ ان کا انجام گھاٹے والا اور بدترین انجام تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیاوی سزا کے ساتھ ساتھ اخروی عذاب میں بھی مبتلا کیا۔
#
{41} {وجعلناهم أئمةً يدعون إلى النار}؛ أي: جعلنا فرعونَ وملأه من الأئمة الذين يُقتدى بهم، ويُمشَى خلفَهم إلى دار الخزي والشقاء. {ويوم القيامةِ لا يُنْصَرونَ}: من عذاب الله؛ فهم أضعف شيء عن دفعه عن أنفسهم، وليس لهم من دون الله من وليٍّ ولا نصيرٍ.
[41] ﴿ وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ﴾ ’’نیز ہم نے انھیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے سرغنے بنا دیا‘‘ یعنی ہم نے فرعون اور اس کے سرداروں کو ایسے راہنما بنایا جن کی پیروی کا انجام جہنم کی رسوائی اور بدبختی ہے۔ ﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ ﴾ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لیے ان کی مدد نہیں کی جا سکے گی، وہ کمزور ترین لوگ ہوں گے، اپنے آپ سے عذاب کو دور نہ کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی والی اور مددگار نہ ہو گا۔
#
{42} {وأتْبَعْناهم في هذه الدُّنيا لعنةً}؛ أي: وأتْبَعْناهم زيادةً في عقوبتهم وخِزْيِهِم في الدنيا لعنةً يلعنون، ولهم عند الخلق الثناء القبيح والمقتُ والذمُّ، وهذا أمرٌ مشاهدٌ؛ فهم أئمةُ الملعونين في الدُّنيا ومقدمتهم. {ويوم القيامةِ هم من المقبوحينَ}: المبعَدين، المستقذرة أفعالهم، الذين اجتمع عليهم مقتُ الله ومقتُ خلقِهِ ومقتُ أنفسهم.
[42] ﴿ وَاَتْبَعْنٰهُمْ فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً﴾ ’’اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی‘‘ یعنی اس سزا اور رسوائی کے علاوہ، دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے۔ وہ مخلوق کے ہاں نہایت قبیح اوصاف کے ساتھ معروف، مغضوب اور مذموم ہیں اور یہ ایسا معاملہ ہے جس کا روز مرہ مشاہدہ ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس دنیا میں ائمہ ملعونین اور ان کے پیشواؤں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْ٘مَقْبُوْحِیْنَ ﴾ ’’اور وہ قیامت کے دن بدحالوں میں سے ہوں گے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے، ان کے افعال نہایت گندے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض، اس کی مخلوق کے ہاں اور خود اپنی نظر میں ناپسندیدہ ہیں ۔
#
{43} {ولقد آتَيْنا موسى الكتابَ}: وهو التوراةُ {من بعدِ ما أهْلَكْنا القرونَ الأولى}: الذين كان خاتِمَتُهُم في الإهلاك العامِّ فرعونَ وجنودَه، وهذا دليلٌ على أنَّه بعد نزول التوراة انقطعَ الهلاك العامُّ، وشُرِعَ جهادُ الكفار بالسيف؛ {بصائرَ للناس}؛ أي: كتاب الله الذي أنزله على موسى فيه بصائرُ للناس؛ أي: أمور يبصرون بها ما ينفعهم وما يضرُّهم، فتقوم الحجَّةُ على العاصي، وينتفع بها المؤمن، فتكون رحمةً في حقِّه وهداية له إلى الصراط المستقيم، ولهذا قال: {وهدىً ورحمةً لعلَّهم يتذكَّرونَ}.
[43] ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ(u) کو کتاب عطا کی۔‘‘ اس سے مراد تورات ہے ﴿ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْ٘قُ٘رُوْنَ الْاُوْلٰى﴾ ’’پہلے زمانے کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد۔‘‘ وہ لوگ جن کا خاتمہ تمام لوگوں کو یعنی فرعون اور اس کی افواج کو ہلاک کر کے کیا گیا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نزول تورات کے بعد قوموں کی ہلاکت عامہ کی سزا منقطع ہو گئی اور کفار کے خلاف جہاد بالسیف مشروع ہوا۔ ﴿ بَصَآىِٕرَ لِلنَّاسِ﴾ ’’لوگوں کے لیے بصیرت افروز دلائل‘‘ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰu پر نازل فرمائی جس میں لوگوں کے لیے بصیرت ہے، یعنی اس میں ایسے اصول بیان كيے گئے ہیں جن کے ذریعے سے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا چیز ان کو فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز ان کو نقصان دیتی ہے۔ پس اس سے نافرمان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جاتی ہے اور مومن اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تب یہ کتاب مومن کے حق میں رحمت اور اس کے لیے راہ راست کی طرف راہنمائی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’اور ہدایت اور رحمت بنا کر تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
#
{44} ولمَّا قصَّ الله على رسولِهِ ما قصَّ من هذه الأخبار الغيبيَّة؛ نبَّه العبادَ على أنَّ هذا خبرٌ إلهيٌّ محضٌ، ليس للرسول طريقٌ إلى علمِهِ؛ إلاَّ من جهة الوحي؛ ولهذا قال: {وما كنتَ بجانِبِ الغربيِّ}؛ أي: بجانب الطُّورِ الغربيِّ وقت قضائنا لموسى الأمر، {وما كنتَ من الشاهدينَ}: على ذلك حتى يُقالَ: إنَّه وصل إليك من هذا الطريق.
[44] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول (e)کو ان اخبار غیب سے آگاہ فرمایا تو پھر بندوں کو متنبہ کیا کہ یہ خبریں محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور رسول (e)کے پاس وحی الٰہی کے سوا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ یہ خبریں حاصل کر سکیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْ٘غَرْبِیِّ﴾ ’’اور آپ (اس وقت) مغرب کی طرف نہیں تھے۔‘‘ یعنی کوہ طور کے مغربی گوشے میں جب ہم نے موسیٰ کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی ﴿وَمَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ﴾ ’’اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔‘‘ یعنی آپ ان تمام واقعات کا مشاہدہ نہیں کر رہے تھے کہ یہ کہا جائے کہ اس طریقے سے آپ کو اس قصے کی خبر ہوئی ہے۔
#
{45} {ولكنَّا أنشأنا قروناً فتطاولَ عليهم العُمُر}: فاندرس العلمُ ونُسِيَتْ آياتُهُ، فبعثناك في وقتٍ اشتدَّت الحاجةُ إليك وإلى ما علَّمناك وأوحينا إليك، {وما كنتَ ثاوياً}؛ أي: مقيماً، {في أهل مَدْيَنَ تتلو عليهم آياتِنا}؛ أي: تعلِّمُهم وتتعلَّم منهم، حتى أخبرتَ بما أخبرت من شأن موسى في مدين. {ولكنَّا كنَّا مرسِلينَ}؛ أي: ولكنَّ ذلك الخبرَ الذي جئتَ به عن موسى أثرٌ من آثار إرسالِنا إيَّاكَ ووحيٌ لا بسبيل لك إلى علمه بدون إرسالِنا.
[45] ﴿وَلٰكِنَّاۤ اَنْشَاْنَا قُ٘رُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْهِمُ الْ٘عُمُرُ﴾ ’’لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گزر گئی۔‘‘ اس لیے علم ناپید ہو گیا اور آیات الٰہی کو فراموش کر دیا گیا۔ ہم نے آپ کو ایسے وقت میں مبعوث کیا جب آپ کی سخت ضرورت اور اس علم کی شدید حاجت تھی جو ہم نے آپ کو عطا کیا اور آپ کی طرف وحی کیا ﴿وَمَا كُنْتَ ثَاوِیً٘ا ﴾ یعنی آپ مقیم نہ تھے ﴿فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا﴾ ’’اہل مدین میں کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے۔‘‘ یعنی آپ ان کو تعلیم دیتے تھے نہ ان سے تعلیم لیتے تھے، حتیٰ کہ (گمان گزرتا کہ) آپ نے موسیٰu اور اہل مدین کے بارے میں جو خبر دی ہے اسی بنا پر دی ہے۔ ﴿وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْ٘نَ ﴾ ’’لیکن ہم ہی رسول بھیجنے والے رہے ہیں ۔‘‘ یعنی موسیٰu کے بارے میں یہ خبر جو آپ e لے کر آئے ہیں وہ آپ کی رسالت کے آثار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور ہماری طرف سے وحی بھیجے جانے کے بغیر اس کو جاننے کا آپ کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں ۔
#
{46} {وما كنتَ بجانِبِ الطُّورِ إذْ نادَيْنا}: موسى وأمَرْناه أنْ يأتي القومَ الظالمين ويبلِّغَهم رسالتنا ويُرِيَهم من آياتنا وعجائبنا ما قَصَصْنا عليك. والمقصودُ أن الماجريات التي جرت لموسى عليه الصلاة والسلام في هذه الأماكن، فقصصتَها كما هي من غيرِ زيادةٍ ولا نقصٍ، لا يخلو من أحد أمرين: إمَّا أن تكونَ حَضَرْتَها وشاهَدْتَها، أو ذهبتَ إلى محالِّها فتعلَّمتها من أهلها؛ فحينئذٍ قد لا يدلُّ ذلك على أنَّك رسول الله؛ إذ الأمور التي يُخْبَرُ بها عن شهادةٍ ودراسةٍ من الأمور المشتركة غير المختصَّة بالأنبياء، ولكن هذا قد عُلِمَ وتُيُقِّنَ أنه ما كان وما صار؛ فأولياؤك وأعداؤك يعلَمون عدم ذلك. فتعيَّن الأمر الثاني، وهو أن هذا جاءك من قِبَلِ الله ووحيه وإرسالِهِ، فثبت بالدليل القطعيِّ صحةُ رسالتك ورحمةُ الله بك للعبادِ، ولهذا قال: {ولكن رحمةً من ربِّك لِتُنذِرَ قوماً ما أتاهم من نذيرٍ من قَبْلِكَ}؛ أي: العرب وقريش؛ فإنَّ الرسالة عندهم لا تُعرف وقت إرسال الرسول وقبله بأزمانٍ متطاولة، {لعلَّهم يتذكَّرون}: تفصيل الخير فيفعلونه، والشر فيتركونه. فإذا كنتَ بهذه المنزلة؛ كان الواجبُ عليهم المبادرةَ إلى الإيمان بك وشكرِ هذه النعمة التي لا يُقادَرُ قَدْرُها ولا يُدْرَك شُكرها. وإنذارُه للعرب لا ينفي أنْ يكون مرسَلاً لغيرِهم؛ فإنَّه عربيٌّ، والقرآن الذي نزل عليه عربيٌّ، وأول من باشر بدعوته العرب، فكانت رسالتُه لهم أصلاً ولغيرِهم تبعاً؛ كما قال تعالى: {أكان للناس عَجَباً أنْ أوْحَيْنا إلى رجل منهم أنْ أنذِرِ الناس}، {قلْ يا أيُّها الناسُ إنِّي رسولُ الله إليكُم جميعاً}.
[46] ﴿ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا ﴾ ’’اور آپ طور کی جانب بھی نہیں تھے جبکہ ہم نے آواز دی۔‘‘ موسیٰu کو اور انھیں حکم دیا کہ وہ اس ظالم قوم کے پاس جائیں ، انھیں ہمارا پیغام پہنچائیں ، انھیں ہماری نشانیاں اور معجزات دکھائیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کر چکے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ تمام واقعات جو ان مقامات پر موسیٰu کو پیش آئے آپ e نے ان کو بغیر کسی کمی بیشی کے اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح وہ حقیقت میں واقع ہوئے تھے اور یہ چیز دو امور میں سے کسی ایک امر سے خالی نہیں : یا تو آپ وہاں موجود تھے اور آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا یا آپ نے ان مقامات پر جا کر ان واقعات کو وہاں کے رہنے والوں سے معلوم کیا تب یہ چیز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ e اللہ کے رسول ہیں کیونکہ جن امور کے بارے میں ان کے مشاہدے کے ذریعے سے اور ان کا علم حاصل کر کے خبر دی جائے وہ تمام لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں ، وہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے … مگر یہ چیز پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور اس حقیقت کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں ۔ پس امر ثانی متعین ہو گیا کہ یہ تمام خبریں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آپ e تک پہنچی ہیں ، لہٰذا قطعی دلیل سے آپ e کی رسالت ثابت ہو گئی اور یہ بات بھی پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ e پر اور اس کے بندوں پر سایہ فگن ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’لیکن یہ آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا‘‘ یعنی قریش اور عربوں کے پاس کیونکہ رسول اللہe سے پہلے زمانہ طویل سے رسالت ان کے ہاں معروف نہ تھی۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ یعنی شاید کہ وہ خیر اور شر کے فرق میں غور کریں ، خیر کو لائحہ عمل بنائیں اور شر کو ترک کر دیں ۔ جب آپ e اس بلند مقام پر فائز ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے اور اس نعمت کا شکر ادا کرنے میں جلدی کریں جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے نہ اس کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے۔ اہل عرب کے لیے آپ کا انذار وتنذیر اس امر کی نفی نہیں کرتا کہ آپ کو دوسری قوموں کے لیے بھی مبعوث کیا گیا ہے۔ عربوں کے لیے انذاروتنذیر کی وجہ یہ ہے کہ آپ عرب تھے، آپ پر نازل کیا گیا قرآن عربی میں تھا اور آپ کی دعوت کے اولین مخاطب عرب تھے۔ اس لیے اصولی طور پر آپ کی دعوت عربوں کے لیے تھی اور تبعاً دیگر قوموں کے لیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّؔنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ﴾ (یونس:10؍2) ’’کیا لوگوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ہم نے خود انھی میں سے ایک آدمی کی طرف وحی کی کہ لوگوں کو ان کی بداعمالیوں کے انجام سے ڈراؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ قُ٘لْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعًا﴾ (الاعراف:7؍158) ’’کہہ دیجیے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ۔‘‘
#
{47} {ولولا أن تُصيبَهم مصيبةٌ بما قدَّمَتْ أيديهم}: من الكفر والمعاصي، لقالوا: {ربَّنا لولا أرْسَلْتَ إلينا رسولاً فنتَّبِعَ آياتِكَ ونكونَ من المؤمنينَ}؛ أي: فأرسلناك يا محمدُ، لدفع حُجَّتِهِم، وقطع مقالتهم.
[47] ﴿ وَلَوْلَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’اور اگر ایسا نہ ہو کہ ان کے (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت نازل ہو۔‘‘ یعنی ان کے ارتکاب کفرومعاصی کی پاداش میں ﴿ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَ٘نَ٘تَّ٘بِـعَ اٰیٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’تو یہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرنے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔‘‘ یعنی اے محمد! (e)ہم نے ان کی حجت کو ختم کرنے اور ان کی بات کو رد کرنے کے لیے آپ کو مبعوث کیا ہے۔
#
{48} {فلمَّا جاءهم الحقُّ}: الذي لا شكَّ فيه {من عندِنا}: وهو القرآنُ الذي أوحيناه إليك، {قالوا}: مكذِّبين له ومعترِضين بما ليس يُعْتَرَضُ به: {لولا أوتي مِثْلَ ما أوتي موسى}؛ أي: أُنْزِلَ عليه كتابٌ من السماء جملةً واحدةً؛ أي: فأما ما دام ينزل متفرقاً؛ فإنَّه ليس من عند الله، وأيُّ دليل في هذا؟! وأيُّ شبهة أنَّه ليس من عند الله حين نزل مفرَّقاً؟! بل من كمال هذا القرآن واعتناءِ الله بمن أنْزِلَ عليه أن نزل متفرِّقاً؛ ليثبِّتَ الله به فؤادَ رسولِهِ، ويحصُلَ زيادةُ الإيمان للمؤمنين، {ولا يأتونَكَ بِمَثَلٍ إلاَّ جئناكَ بالحقِّ وأحسنَ تفسيراً}. وأيضاً؛ فإنَّ قياسهم على كتاب موسى قياسٌ قد نقضوه؛ فكيف يقيسونَه على كتابٍ كفروا به ولم يؤمنوا [به]؟! ولهذا قال: {أوَلَمْ يكفُروا بما أوتي موسى من قبلُ قالوا سِحْرانِ تَظاهَرا}؛ أي: القرآن والتوراة تعاونا في سحرِهِما وإضلال الناس {وقالوا إنَّا بكلٍّ كافرون}: فثبت بهذا أن القوم يريدون إبطال الحقِّ بما ليس ببرهانٍ، وينقُضونه بما لا يُنْقَضُ، ويقولون الأقوال المتناقضة المختلفة، وهذا شأن كلِّ كافرٍ، ولهذا صرَّح أنهم كفروا بالكتابين والرسولين.
[48] ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ ﴾ ’’پس جب ان کے پاس حق آگیا۔‘‘ جس میں کوئی شک نہیں ﴿ مِنْ عِنْدِنَا ﴾ ’’ہماری طرف سے‘‘ اس سے مراد قرآن ہے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا۔ ﴿ قَالُوْا ﴾ تو اس قرآن کی تکذیب کرتے اور اس پر لایعنی اعتراضات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ﴿ لَوْلَاۤ اُوْتِیَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰؔى﴾ ’’انھیں وہ کیوں نہیں دیا گیا جو موسیٰ(u) کودیا گیا۔‘‘ یعنی موسیٰu پر تمام کتاب اکٹھی نازل کی گئی اور رہی وہ کتاب جو ٹکڑوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ کی کی طرف سے نہیں ہے۔ ان کے اس قول میں کون سی دلیل ہے؟ اور یہ کونسا شبہ ہے کہ اگر کتاب ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو اس قرآن کا کمال ہے اور جس ہستی پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اعتنائے خاص ہے کہ اس نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اپنے رسول کو ثابت قدمی اور استقامت عطا کرے اور مومنین کے ایمان میں اضافہ ہو۔ فرمایا: ﴿ وَلَا یَ٘اْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ (الفرقان:25؍33) ’’اور وہ جب کبھی کوئی مثال لے کر آپ کے پاس آئے اس کا درست اور بروقت جواب ہم نے آپ کو دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھل کر بیان کر دیا۔‘‘ نیز قرآن کو موسیٰu کی کتاب پر قیاس کرنا ایک ایسا قیاس ہے جسے یہ خود ہی توڑ رہے ہیں ۔ یہ قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب پر کیونکر قیاس کرتے ہیں جس کا یہ انکار کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لاتے؟ بنابریں فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ یَكْ٘فُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰؔى مِنْ قَبْلُ١ۚ قَالُوْا سِحْرٰؔنِ تَ٘ظٰهَرَا﴾ ’’کیا جو پہلے موسیٰ(u) کو دیا گیا تھا انھوں نے اس کا کفر نہیں کیا، کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔‘‘ یعنی قرآن مجید اور تورات مقدس، جو ان دونوں کی جادوگری اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں ۔ ﴿ وَقَالُوْۤا اِنَّا بِكُ٘لٍّ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم تو ہر ایک سے انکار کرنے والے ہیں۔‘‘ اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ بلا دلیل حق کا ابطال اور ایسی چیز کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں جو حق کی مخالفت نہیں کر سکتی۔ ان کے اقوال میں تناقض اور اختلاف ہے اور ہر کافر کا یہی رویہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تصریح فرما دی کہ انھوں نے دونوں کتابوں اور دونوں رسولوں کا انکار کیا ہے۔
#
{49} ولكنْ هل كفرُهُم بهما طلباً للحقِّ واتِّباعاً لأمرٍ عندهم خيرٌ منهما، أم مجرَّدُ هوىً؟! قال تعالى ملزِماً لهم بذلك: {قُلْ فأتوا بكتابٍ من عندِ الله هو أهدى منهما}؛ أي: من التوراة والقرآن؛ {أتِّبِعْهُ إن كنتُم صادقينَ}: ولا سبيل لهم ولا لغيرِهِم أن يأتوا بمثلِهِما؛ فإنَّه ما طرق العالم منذ خَلَقَهُ الله مثل هذين الكتابين علماً وهدىً وبياناً ورحمةً للخلق، وهذا من كمال الإنصاف من الداعي أنْ قال: أنا مقصودي الحقُّ والهدى والرشدُ، وقد جئتُكم بهذا الكتاب المشتمل على ذلك الموافق لكتاب موسى؛ فيجبُ علينا جميعاً الإذعان لهما واتِّباعُهما من حيث كونُهُما هدىً وحقًّا؛ فإنْ جئتُموني بكتاب من عند الله هو أهدى منهما؛ اتَّبَعْتُه، وإلاَّ؛ فلا أترك هدىً وحقًّا قد علمتُه لغير هدىً وحقٍّ.
[49] مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کا ان دونوں کتابوں کا انکار کرنا طلب حق اور کسی اپنے حکم کی اتباع کی بنا پر تھا جو ان دونوں کتابوں سے بہتر تھا یا محض خواہش نفس پر مبنی تھا؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰؔى مِنْهُمَاۤ ﴾ ’’کہہ دیجیے، اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔‘‘ یعنی تورات اور قرآن سے بڑھ کر ہدایت کی حامل ﴿ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’میں اس کی اتباع کروں گا اگر تم سچے ہو‘‘ اور وہ ایسی کتاب لانے پر قادر نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ قرآن اور تورات جیسی کتاب تصنیف کر لائے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، تب سے علم و ہدایت، بیان و تبیین اور مخلوق کے لیے رحمت کے اعتبار سے ان دو کتابوں جیسی کوئی اور کتاب وجود میں نہیں آئی۔ یہ داعی کا کمال انصاف ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہے کہ اس کا مقصد حق اور رشدوہدایت ہے اور وہ ایسی کتاب لے کر آیا ہے جو حق پر مشتمل ہے اور موسیٰu کی کتاب کے موافق ہے، اس لیے ان دونوں کے سامنے سرنگوں ہونا ہم پر واجب ہے کیونکہ دونوں کتابیں حق اور ہدایت پر مشتمل ہیں اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ حق اور ہدایت پر مشتمل ہو تو میں اس کی پیروی کروں گا۔ ورنہ میں ہدایت اور حق کو چھوڑ کر کسی ایسی کتاب کی اتباع نہیں کر سکتا جو ہدایت اور حق پر مشتمل نہ ہو۔
#
{50} {فإن لم يَسْتَجيبوا لك}: فلم يأتوا بكتابٍ أهدى منهما، {فاعْلَمْ أنَّما يتَّبِعون أهواءهم}؛ أي: فاعلم أنَّ تركَهم اتِّباعك ليسوا ذاهبين إلى حقٍّ يعرِفونه ولا إلى هدىً، وإنَّما ذلك مجرَّد اتِّباع لأهوائِهِم. {ومن أضلُّ ممَّنِ اتَّبع هواه بغيرِ هدىً من الله}: فهذا من أضلِّ الناس؛ حيث عرض عليه الهدى والصراط المستقيم الموصل إلى الله وإلى دار كرامتِهِ؛ فلم يلتفتْ إليه، ولم يُقْبِلْ عليه، ودعاه هواه إلى سلوك الطرق الموصلة إلى الهلاك والشقاء، فاتَّبعه وترك الهدى؛ فهل أحدٌ أضلُّ ممَّن هذا وصفه؟! ولكنَّ ظلمه وعدوانَه وعدمَ محبته للحقِّ هو الذي أوجب له أن يبقى على ضلالِهِ ولا يهديه الله؛ فلهذا قال: {إنَّ الله لا يهدي القوم الظالمين}؛ أي: الذين صار الظلمُ لهم وصفاً والعنادُ لهم نعتاً، جاءهم الهدى فرفضوه، وعَرَضَ لهم الهوى فتبِعوه، سدُّوا على أنفسهم أبواب الهداية وطُرُقَها، وفتحوا عليهم أبواب الغِواية وسُبُلَها؛ فهم في غيِّهم وظلمهم يعمهون، وفي شقائِهِم وهلاكِهِم يتردَّدون، وفي قوله: {فإن لم يَسْتَجيبوا لك فاعْلَمْ أنَّما يتَّبِعون أهواءهم}: دليلٌ على أنَّ كلَّ مَنْ لم يستجبْ للرسول، وذهبَ إلى قولٍ مخالفٍ لقول الرسول؛ فإنَّه لم يذهبْ إلى هدىً، وإنَّما ذهب إلى هوى.
[50] ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ ﴾ ’’پھر اگر یہ تمھاری بات قبول نہ کریں ۔‘‘ یعنی اگر وہ ایسی کتاب نہ لا سکیں جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پر مشتمل پر ہو۔ ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ﴾ یعنی پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا آپ کی اتباع کو ترک کرنا اس وجہ سے نہیں کہ انھوں نے حق اور ہدایت کو پہچان کر اس کی طرف رجوع کیا ہے بلکہ یہ تو مجرد خواہشات نفس کی پیروی ہے ﴿ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّ٘بَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو؟‘‘ پس یہ شخص لوگوں میں گمراہ ترین شخص ہے کیونکہ اس کے سامنے ہدایت پیش کی گئی اور اسے صراط مستقیم دکھایا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے مگر اس نے اس راستے کی طرف التفات کیا نہ اس ہدایت کو قبول کیا۔ اس کے برعکس اس کی خواہش نفس نے اس کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دی جو ہلاکت اور بدبختی کی گھاٹیوں کی طرف جاتا ہے اور وہ راہ ہدایت کو چھوڑ کر اس راستے پر گامزن ہو گیا۔ جس کا یہ وصف ہو، کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گمراہ ہو سکتا ہے؟ اس کا ظلم و تعدی اور حق کے ساتھ اس کی عدم محبت اس بات کے موجب ہیں کہ وہ اپنی گمراہی پر جما رہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم کر دے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ یعنی وہ لوگ کہ ظلم و عناد جن کا وصف بن گیا، ان کے پاس ہدایت آئی مگر انھوں نے اسے رد کر دیا اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہدایت کے دروازے کو بند اور ہدایت کی راہ کو مسدود کر کے گمراہی کے دروازوں اور اس کی راہوں کو اپنے لیے کھول لیا۔ پس وہ اپنی گمراہی اور ظلم میں سرگرداں ، اپنی ہلاکت اور بدبختی میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ شخص جو رسولeکی دعوت کو قبول نہیں کرتا اور اس قول کو اختیار کرتا ہے جو قول رسول کے خلاف ہو، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں بلکہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔
#
{51} {ولقد وَصَّلْنا لهم القولَ}؛ أي: تابَعْناه وواصَلْناه وأنزَلْناه شيئاً فشيئاً رحمة بهم ولطفاً؛ {لعلَّهم يتذكَّرونَ}: حين تتكرَّرُ عليهم آياتُهُ، وتنزِلُ عليهم بيناتُهُ وقت الحاجة إليها، فصار نزولُهُ متفرِّقاً رحمةً بهم، فلِمَ اعترضوا بما هو من مصالحهم؟!
[51] ﴿ وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ ﴾ یعنی ہم نے اپنی بات کو لگاتار طریقے سے ان تک پہنچایا اور ان پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ﴿ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘ جب ان پر آیات الٰہی بتکرار نازل ہوں گی اور بوقت ضرورت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلائل نازل ہوں گے۔ پس کتاب اللہ کا ٹکڑوں میں نازل ہونا، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے۔ تب وہ ایسی بات پر کیوں اعتراض کرتے ہیں جس میں ان کی بھلائی ہے؟
قصۂ موسیٰu سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط m آیات الٰہی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اورگزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں ۔ بندۂ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انھی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں ، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔ m اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لیے اسباب مہیا کر دیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حقوق کے حصول اور بلند مقاصد کے لیے جدوجہد کو چھوڑ دیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انھیں زمین میں اقتدار بخشا اور انھیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔ m ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہور و محکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔ m حضرت موسیٰu کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کر دیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔ m یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لیے بعض سختیاں مقدر کر دیتا ہے تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شر دور ہو، جیسا کہ موسیٰu کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لیے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰu اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔ m اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (القصص:28؍10) ’’اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے‘‘ یعنی تاکہ حضرت موسیٰu کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔ m اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندۂ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہو سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہو جاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ m اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ انھیں ان کا بیٹا لوٹا دے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لیے کوشش کرتی رہیں انھوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰu کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ m اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰu کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔ m اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لیے دلیل ہے۔ m ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰu کو ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ m اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰu نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ m اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۔ m نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصی کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا: ﴿ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًؔا فِی الْاَرْضِ وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ﴾ (القصص:28؍19) ’’تو زمین میں صاحب جبرو استبداد بن کر رہنا چاہتا ہے تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لیے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لیے نقل فرمایا ہے۔ m کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس (درباری) شخص نے خیرخواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰu کو بچانے کے لیے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰu کو آگاہ کیا تھا۔ m جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰu مصر سے فرار ہوئے۔ m جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہو اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار كيے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰu کا معاملہ دو امور کے مابین تھا: 1 مصر میں رہتے مگر اس صورت میں یقینا قتل کر دیے جاتے۔ 2 یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انھیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا مگر اس صورت حال میں ، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔ m علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود و مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰu نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے: ﴿ عَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ (القصص:28؍22) ’’امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی کرے گا۔‘‘ m ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیاسے مویشیوں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ m اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کے تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰu نے عرض کیا: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص:28؍24) ’’اے میرے رب! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں ۔‘‘ m شرم و حیا، خاص طور پر باعزت لوگوں میں ، ایک قابل مدح صفت ہے۔ m حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔ m بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے اور بغیر کسی قصدوارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہو جاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰu نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انھوں نے کسی عوض کے لیے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔ m اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے، جسے کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ اس کا دارومدار عرف عام پر ہے۔ m کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ یہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ m کسی ایسے شخص سے اس کی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا، جس نے اسے رشتہ طلب کرنے کا اختیار دے رکھا ہو، جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ۔ m بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ m اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس سے پُرمشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُ٘قَّ عَلَیْكَ١ؕ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ (القصص:28؍27) ’’میں تمھیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔‘‘ m آیت کریمہ: ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَؔكِیْلٌ﴾ (القصص:28؍28) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ m اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری كيے، مثلاً:عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہو جانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونi کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔ m انسان کے لیے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الٰہی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لیے ہادی اور مہدی بنا دے۔ m ان آیات کریمہ میں رسول اللہ e کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفی e نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ نے ان مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بے پایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء و رسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔ اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرد خبر ہی آگاہ کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اوامر و نواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کیونکر نہ ہوں جبکہ اولین و آخرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ وہ شریعت جو رسول اللہ e، اللہ رب العالمین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں ، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لیے مناسب ہیں جو اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر و سنان کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے ذریعے سے فتح کر لیا۔ تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے سازشیں کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل و براہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وقت دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں ، جو تمام جہانوں کے لیے عبرت، اہل علم کے لیے ہدایت اور فراست مندوں کے لیے روشنی اور بصیرت ہیں ۔ والحمد للہ وحدہ.
آیت: 52 - 55 #
{الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ (52) وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ [مُسْلِمِينَ] (53) أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (54) وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ (55)}.
وہ لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب اس (قرآن) سے پہلے ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں (52) اور جب تلاوت کیا جاتا ہے ان پر (قرآن) تو وہ کہتے ہیں ، ایمان لائے ہیں ہم اس پر، بے شک وہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے، بلاشبہ ہم تو تھے اس سے پہلے ہی مسلمان(53) یہ لوگ دیے جائیں گے اپنا اجر دوبار بوجہ اس کے کہ انھوں نے صبر کیا اور وہ دور کرتے ہیں بھلائی کے ساتھ برائی کو اور اس میں سے جورزق دیا ہم نے ان کو وہ خرچ کرتے ہیں (54) اور جب وہ سنتے ہیں لغو بات تو اعراض کرتے ہیں وہ اس سے اور کہتے ہیں ، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال ہیں ، سلام ہو تم پر نہیں چاہتے ہم جاہلوں کو (55)
#
{52} يذكر تعالى عظمةَ القرآن وصدقَه وحقَّه، وأنَّ أهل العلم بالحقيقة يعرِفونه، ويؤمنونَ به، ويقرُّون بأنه الحقُّ، فقال: {الذين آتَيْناهم الكتابَ من قبلِهِ}: وهم أهلُ التوراة والإنجيل، الذين لم يغيِّروا ولم يبدِّلوا، {هم به}؛ أي: بهذا القرآن ومن جاء به {يؤمنون}.
[52] اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت، صداقت اور حقانیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ حقیقت کا علم رکھنے والے اہل علم ہی اس کو پہچانتے، اس پر ایمان لاتے اور اس کی حقانیت کا اقرارکرتے ہیں ، چنانچہ فرمایا ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ ﴾ ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی۔‘‘ اس سے مراد وہ اہل تورات اور اہل انجیل ہیں جنھوں نے اپنی کتابوں میں تغیر و تبدل نہیں کیا۔ ﴿ هُمْ بِهٖ ﴾ وہی اس قرآن اور قرآن کے لانے والے پر ﴿یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘
#
{53} {وإذا يُتْلى عليهم}: استمعوا له وأذْعنوا، و {قالوا آمنَّا به إنَّه الحقُّ من ربِّنا}: لموافقتِهِ ما جاءت به الرسل، ومطابقتِهِ لما ذُكِرَ في الكتب، واشتمالِهِ على الأخبار الصادقة والأوامر والنواهي الموافقة لغاية الحكمة، وهؤلاء الذين تفيدُ شهادتُهم وينفعُ قولُهم؛ لأنَّهم لا يقولون ما يقولون إلاَّ عن علم وبصيرةٍ؛ لأنَّهم أهلُ الخبرة وأهلُ الكتب، وغيرهم لا يدلُّ ردُّهم ومعارضتُهم للحقِّ على شبهةٍ فضلاً عن الحجَّة؛ لأنَّهم ما بين جاهل فيه أو متجاهل معاندٍ للحقِّ؛ قال تعالى: {قلْ آمِنوا به أو لا تُؤْمِنوا إنَّ الذين أوتوا العلم من قبلِهِ إذا يُتْلى عليهم يَخِرُّون للأذقان سُجَّداً ... } الآيات، وقوله: {إنَّا كُنَّا من قبلِهِ [مسلمين] }: فلذلك ثبتنا على ما منَّ الله به علينا من الإيمان، فصدقنا بهذا القرآن، آمنَّا بالكتاب الأوَّل والكتاب الآخر، وغيرُنا ينقضُ تكذيبُه بهذا الكتاب إيمانَه بالكتاب الأول.
[53] ﴿ وَاِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور جب ان کے سامنے اس قرآن کو پڑھا جاتا ہے‘‘ تو اسے غور سے سنتے ہیں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں ۔ ﴿ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ ﴾ ’’تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے بے شک وہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے۔‘‘ کیونکہ یہ ان کتابوں کے موافق ہے جنھیں انبیاء ورسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور ان کتابوں میں جو کچھ مذکور ہے اس کے عین مطابق ہے، سچی خبروں اور حکمت پر مبنی اوامر و نواہی پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی شہادت مفید اور ان کا قول نفع مند ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں ، علم و بصیرت کی بنیاد پر کہتے ہیں کیونکہ وہ اہل خبر اور اہل کتاب ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا قرآن کو رد کرنا اور اس کی مخالفت کرنا ان کے لیے حجت ہونا تو کجا، وہ کسی شبہ پر بھی دلالت نہیں کرتا کیونکہ وہ لوگ جاہل یا حق کے بارے میں معاند متجاہل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قُ٘لْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ۤ اِذَا یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍107) ’’کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدوں میں گر جاتے ہیں ۔‘‘ اور ان کا قول ہے: ﴿ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ٘ مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’ہم تو اس کے پہلے سے مطیع ہیں ۔‘‘ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان اور اسلام سے سرفراز فرمایا تو ہم اس پر ثابت قدم رہے، ہم نے اس قرآن کی تصدیق کی اور ہم پہلی اور آخری کتاب پر ایمان لائے، ہمارے علاوہ دیگر لوگ جب اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کی یہ تکذیب پہلی کتاب پر ایمان کے متناقض ہے۔
#
{54} {أولئك}: الذين آمنوا بالكتابين {يؤتَوْن أجْرَهُم مرتينِ}: أجراً على الإيمان الأوَّل، وأجراً على الإيمان الثاني؛ {بما صَبَروا}: على الإيمان، وثبتوا على العمل، فلم تُزَعْزِعْهم عن ذلك شبهةٌ، ولا ثناهم عن الإيمان رياسةٌ ولا شهوة. {و} من خصالهم الفاضلة التي هي من آثار إيمانِهِم الصحيح أنَّهم {يدرؤونَ بالحسنةِ السيئةَ}؛ أي: دأبهم وطريقتُهم الإحسان لكلِّ أحدٍ، حتى للمسيء إليهم بالقول والفعل؛ يقابِلونَه بالقول الحميد والفعل الجميل؛ لعلمِهِم بفضيلة هذا الخلق العظيم، وأنَّه لا يوفَّق له إلاَّ ذو حظ عظيم.
[54] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہی لوگ۔‘‘ یعنی جو دونوں کتابوں پر ایمان لائے۔ ﴿ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ ﴾ ’’ان کو دوبار اجر عطا کیا جائے گا‘‘ ایک اجر پہلی کتاب پر ایمان لانے پر اور ایک اجر دوسری کتاب پر ایمان لانے پر ﴿ بِمَا صَبَرُوْا ﴾ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان پر صبر کیا اور عمل پر ثابت قدم رہے کوئی شبہ ان کے ایمان کو متزلزل کر سکا نہ کوئی ریاست و شہوت ان کو اپنے ایمان سے ہٹا سکی۔ وہ اپنے بہترین خصائل جو ان کے ایمان صحیح کے آثار ہیں ، کے ذریعے سے بے شک وہ ﴿ وَیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ ﴾ ’’برائی کو بھلائی کے ساتھ دفع کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ان کی عادت اور طریقہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے تو یہ اچھی بات اور اچھے فعل کے ذریعے سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ انھیں اس خلق عظیم کی فضیلت کا اچھی طرح علم ہے اور انھیں یہ بھی علم ہے کہ اس خلق عظیم کی توفیق کسی خوش قسمت ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
#
{55} {وإذا سمعوا اللغو}: من جاهل خاطبهم به، {قالوا}: مقالة عباد الرحمن أولي الألباب: {لنا أعمالُنا ولكم أعمالُكم}؛ أي: كلٌّ سيجازى بعمله الذي عَمِلَه وحده، ليس عليه من وزرِ غيره شيءٌ، ولزم من ذلك أنهم يتبرؤون مما عليه الجاهلون من اللغو والباطل والكلام الذي لا فائدة فيه. {سلامٌ عليكم}؛ أي: لا تسمعون منَّا إلاَّ الخير، ولا نخاطبكم بمقتضى جهلكم؛ فإنَّكم وإن رضيتُم لأنفسِكم هذا المرتعَ اللئيم؛ فإنَّا ننزِّهُ أنفسَنا عنه ونصونُها عن الخوض فيه، {لا نبتغي الجاهلين}: من كلِّ وجهٍ.
[55] ﴿ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا ﴾ ’’اور جب وہ کوئی فضول بات سنتے ہیں ‘‘ کسی جاہل شخص سے جو ان سے لغو گفتگو کرتا ہے ﴿وَقَالُوْا ﴾ تو وہ رحمان کے عقلمند بندوں کی مانند ان سے کہتے ہیں : ﴿ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ﴾ ’’ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔‘‘ یعنی ہر شخص کو اسی اکیلے کے عمل کی جزا دی جائے گی اس پر کسی دوسرے کے عمل کا بوجھ نہیں ہو گا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ وہ جہلاء کے لغو اور باطل کاموں اور بے فائدہ کلام سے بچے ہوئے ہیں ۔ ﴿ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ﴾ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ یعنی تم لوگ ہم سے بھلائی کے سوا کچھ نہیں سنو گے اور نہ ہم تم سے تمھاری جہالت کے تقاضے کے مطابق مخاطب ہوں گے۔ کیونکہ تم اگرچہ اپنے لیے اس کمینگی پر راضی ہو مگر ہم اپنے آپ کو اس کمینے رویے سے پاک رکھتے ہیں اور اس میں ملوث ہونے سے بچتے ہیں ۔ ﴿ لَا نَ٘بْتَ٘غِی الْجٰهِلِیْ٘نَ ﴾ ’’ہم (کسی معاملے) میں جاہلوں سے نہیں الجھتے۔‘‘
آیت: 56 #
{إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (56)}.
بلاشبہ آپ نہیں ہدایت دے سکتے جس کو آپ چاہیں لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہےاور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو (56)
#
{56} يخبر تعالى أنَّك يا محمدُ ـ وغيرُك من باب أولى ـ لا تقدِرُ على هداية أحدٍ، ولو كان من أحبِّ الناس إليك؛ فإنَّ هذا أمرٌ غيرُ مقدور للخلق؛ هداية التوفيق وخلق الإيمان في القلب، وإنَّما ذلك بيد الله تعالى؛ يهدي مَنْ يشاء وهو أعلم بِمَنْ يَصْلُحُ للهداية فيهديه ممَّن لا يَصْلُحُ لها فيبقيه على ضلاله. وأمَّا إثباتُ الهداية للرسول في قوله تعالى: {وإنَّك لَتَهدي إلى صراطٍ مستقيم}: فتلك هدايةُ البيان والإرشاد؛ فالرسولُ يبيِّن الصراط المستقيم، ويرغِّب فيه، ويبذلُ جهدَه في سلوك الخلقِ له، وأما كونُهُ يخلُقُ في قلوبهم الإيمان، ويوفِّقُهم بالفعل؛ فحاشا وكلاَّ، ولهذا لو كان قادراً عليها؛ لهدى من وصل إليه إحسانُه ونصرُه ومَنْعُهُ من قومه؛ عمَّه أبا طالب، ولكنَّه أوصل إليه من الإحسان بالدعوة له للدين والنصح التامِّ ما هو أعظم مما فعله معه عمُّه، ولكنَّ الهداية بيد الله.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ رسول مصطفیe کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ… اور آپ کے علاوہ لوگ بدرجہ اولیٰ … کسی کو ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے خواہ وہ آپ کو کتنا ہی زیادہ محبوب کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں ۔ ہدایت کی توفیق اور قلب میں ایمان جاگزیں کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کا اہل ہے پس اسے ہدایت عطا کر دیتا ہے اور کون ہدایت عطا كيے جانے کا اہل نہیں پس اسے اس کی گمراہی میں سرگرداں چھوڑ دیتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ وَاِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (الشوریٰ:42؍52) ’’اور بلاشبہ آپ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کررہے ہیں ‘‘ میں رسول اللہ e کے لیے ہدایت کا اثبات تو یہ ہدایت بیان و ارشاد ہے۔ رسول اللہ e صراط مستقیم کو واضح کرتے ہیں لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور لوگوں کو اس پر گامزن کرنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ آیا آپ دلوں میں ایمان پیدا کرنے پر قادر ہیں اور فعل کی توفیق عطا کر سکتے ہیں … تو حاشا و کلا ایسا ہرگز نہیں … ایسا ہرگز نہیں ۔ لہذا اگر آپ اس پر قادر ہوتے تو آپ اس شخص کو ضرور ہدایت سے سرفراز فرماتے جس نے آپ پر احسان فرمایا تھا، جس نے آپ کو اپنی قوم سے بچایا اور آپ کی مدد فرمائی … یعنی آپ کے چچا ابو طالب … مگر آپ نے ابو طالب کو دین کی دعوت دے کر اور کامل خیر خواہی کے ساتھ ان پر احسان کیا اور یہ اس احسان سے بہت زیادہ ہے جو آپ کے چچا نے آپ کے ساتھ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
آیت: 57 - 59 #
{وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (57) وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ (58) وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ (59)}.
اور وہ کہتے ہیں ، اگر ہم نے پیروی کی ہدایت کی تیرے ساتھ تو ہم اچک لیے جائیں گے اپنی زمین سے (اللہ نے فرمایا) کیا نہیں جگہ دی ہم نے انھیں حرم میں جو امن والا ہے؟ لائے جاتے ہیں (ہر جانب سے) اس کی طرف پھل ہرچیز (قسم) کے بطور رزق کے ہماری طرف سے لیکن اکثر ان کے نہیں جانتے (57) اورکتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے بستیاں جو اتراتی تھیں اپنی (عمدہ) گزران پر، پس یہ (اجڑپڑے) ہیں ان کے گھر، نہیں آباد کیے گئے ان کے بعد مگر تھوڑے ہی اور تھے ہم ہی وارث (58)اور نہیں ہے آپ کارب ہلاک کرنے والا بستیوں کو یہاں تک کہ وہ بھیجتا ہے ان میں سے بڑی بستی میں کوئی رسول، وہ تلاوت کرتا ہے ان پر ہماری آیتیں اور نہیں ہم ہلاک کرنے والے بستیوں کو مگر جبکہ ہوں ان کے باشندے ظالم (59)
#
{57} يخبر تعالى أنَّ المكذِّبين من قريش وأهل مكة يقولون للرسول - صلى الله عليه وسلم -: {إن نَتَّبِعِ الهُدى معكَ نُتَخَطَّفْ من أرضِنا}: بالقتل والأسر ونهب الأموال؛ فإنَّ الناس قد عادَوْك وخالَفوك؛ فلو تابعناك؛ لتعرَّضْنا لمعاداة الناس كلِّهم، ولم يكن لنا بهم طاقةٌ. وهذا الكلام منهم يدلُّ على سوءِ الظنِّ بالله تعالى، وأنَّه لا ينصرُ دينَه ولا يُعلي كلمتَه، بل يمكِّنُ الناسَ من أهل دينه، فيسومونهم سوء العذاب، وظنُّوا أنَّ الباطلَ سيعلو على الحقِّ. قال الله مبيناً لهم حالةً هم بها دون الناس وأنَّ الله اختصَّهم بها، فقال: {أولم نمكِّن لهم حرماً آمناً يُجْبى إليه ثمراتُ كلِّ شيءٍ رزقاً من لَدُنَّا}؛ أي: أولم نجعلْهم متمكِّنين مُمَكَّنين في حرم يكثره المنتابون ويقصدُه الزائرون، قد احترمه القريبُ والبعيد؛ فلا يُهاج أهلُه، ولا يُنْتَقَصون بقليل ولا كثير، والحالُ أنَّ كلَّ ما حولهم من الأماكن قد حَفَّ بها الخوف من كلِّ جانب، وأهلُها غيرُ آمنين ولا مطمئنِّين؛ فَلْيَحْمَدوا ربَّهم على هذا الأمن التامِّ الذي ليس فيه غيرُهم، وعلى الرزق الكثير الذي يُجْبى إليهم من كلِّ مكان من الثمرات والأطعمة والبضائع ما به يرتزقون ويتوسَّعون، ولْيَتَّبِعوا هذا الرسولَ الكريم؛ لِيَتِمَّ لهم الأمنُ والرغدُ، وإياهم وتكذيبَه والبطرَ بنعمة الله؛ فيبدَّلوا من بعدِ أمْنِهم خوفاً، وبعد عزِّهم ذُلاًّ، وبعد غناهم فقراً.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قریش میں سے اہل تکذیب اور دیگر اہل مکہ رسول اللہ e سے کہا کرتے تھے: ﴿ اِنْ نَّ٘تَّ٘بِـعِ الْهُدٰؔى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا﴾ ’’اگر ہم تمھارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اچک لیے جائیں ۔‘‘ یعنی ہمیں قتل کر کے، قیدی بنا کر اور ہمارا مال و متاع لوٹ کر زمین سے اچک لیاجائے گا کیونکہ لوگ آپ سے عداوت رکھتے ہیں اور آپ کی مخالفت کرتے ہیں لہذا اگر ہم نے آپ کی اتباع کی تو ہمیں تمام لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم لوگوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ ان کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوء ظن پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا بلکہ اس کے برعکس وہ لوگوں کو اپنے دین کے حاملین پر غالب کرے گا جو انھیں بدترین عذاب میں مبتلا کریں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ باطل حق پر غالب آ جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت بیان کرتے اور لوگوں کی بجائے ان کے اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ نُمَؔكِّ٘نْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰۤى اِلَیْهِ ثَمَرٰتُ كُ٘لِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا﴾ ’’کیا ہم نے پر امن حرم کو ان کا جائے قیام نہیں بنایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طورپر ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ؟‘‘ یعنی کیا ہم نے انھیں حرم میں اصحاب اختیار نہیں بنایا جہاں نہایت کثرت سے لوگ پے در پے آتے ہیں اور زائرین اس کی زیارت کا قصد کرتے ہیں ۔ قریب والے اور بعید والے سب لوگ اس کا احترام کرتے ہیں ۔ حرم کے رہنے والوں کو خوف زدہ نہیں کیا جاتا اور لوگ انھیں کم یا زیادہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ حالانکہ ان کے اردگرد ہر جگہ خوف میں گھری ہوئی ہے اور وہاں کے رہنے والے محفوظ ہیں نہ مامون۔ اس لیے انھیں اپنے رب کی حمدوثنا بیان کرنی چاہیے کہ اس نے انھیں کامل امن سے نوازا جو دوسروں کو میسر نہیں ، انھیں اس رزق کثیر پر اپنے رب کا شکر ادا کرناچاہیے جو ہر طرف سے پھلوں ، کھانوں اور دیگر سازوسامان کی صورت میں ان کے پاس پہنچاتا ہے جس سے یہ متمتع ہوتے ہیں اور انھیں فراخی اور کشادگی حاصل ہوتی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اس رسول کریمeکی اتباع کریں تاکہ انھیں امن تام اور فراخی سے نوازا جائے۔ وہ رسول اللہ e کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اترانے سے بچیں ورنہ ان کا امن خوف سے، ان کی عزت ذلت سے اور ان کی دولت مندی فقر سے بدل جائے گی۔
#
{58} ولهذا توعَّدهم بما فعل بالأمم قبلَهم، فقال: {وكم أهْلَكْنا من قريةٍ بَطِرَتْ معيشَتَها}؛ أي: فخرتْ بها وألهتها واشتغلتْ بها عن الإيمان بالرسل، فأهلكهم الله، وأزال عنهم النعمةَ، وأحلَّ بهم النقمة، {فتلك مساكِنُهم لم تُسْكَن من بعدِهِم إلاَّ قليلاً}؛ لتوالي الهلاك والتَّلف عليهم وإيحاشها من بعدهم، {وكُنَّا نحن الوارثينَ}: للعباد؛ نميتُهم ثم يرجِعُ إلينا جميعُ ما متَّعْناهم به من النعم، ثم نعيدُهم إلينا، فنجازيهم بأعمالهم.
[58] اس لیے اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کو ان کی بداعمالیوں کی جو سزا دی ہے ان کو بھی اس سزا سے ڈرایا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَ٘رْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا﴾ ’’اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے تباہ و برباد کردیا جو اپنی معیشت پر اترایا کرتی تھیں ‘‘ یعنی یہ بستیاں اپنی معیشت پر فخر کرتی تھیں اور غفلت میں مبتلا تھیں اور ان کے رہائشی اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے اپنی خوشحالی میں مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کر ڈالا، ان سے نعمت چھین لی اور ان پر عذاب نازل کیا ﴿فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُ٘سْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ یعنی ان پر لگاتار ہلاکت نازل ہونے، ان کے جان و مال کے تلف ہونے اور ان کے بعد ان کی بستیوں کے اجڑ جانے کے بعد وہ کبھی آباد نہ ہوئیں ۔ ﴿وَؔكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ ﴾ ’’اور ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔‘‘ یعنی ہم بندوں کے وارث ہیں ، ہم انھیں موت دیں گے اور وہ تمام نعمتیں ہماری طرف لوٹ آئیں گی جو ہم نے ان کو عطا کی تھیں پھر ہم ان کو واپس اپنی طرف لوٹائیں گے اور ان کو ان کے اعمال کی جزاوسزا دیں گے۔
#
{59} ومن حكمتِهِ ورحمتِهِ أنْ لا يعذِّب الأممَ بمجرَّدِ كفرِهم قبل إقامةِ الحجَّة عليهم بإرسال الرسل إليهم، ولهذا قال: {وما كان ربُّك مُهْلِكَ القرى}؛ أي: بكفرِهم وظلمِهم؛ {حتى يَبْعَثَ في أمِّها}؛ أي: في القرية والمدينة التي إليها يَرْجِعون، ونحوها يتردَّدون، وكلُّ ما حولها ينتَجِعها، ولا تَخْفى عليه أخبارها، {رسولاً يتلو عليهم آياتِنا}: الدالَّة على صحَّة ما جاء به وصِدْقِ ما دعاهم إليه، فيبلغُ قولُه قاصِيَهم ودانِيَهم؛ بخلاف بعث الرسل في القرى البعيدة والأطراف النائية؛ فإنَّ ذلك مظنَّة الخفاء والجفاء، والمدن الأمَّهات مظنَّة الظُّهور والانتشار، وفي الغالب أنَّهم أقلُّ جفاء من غيرهم، {وَما كُنَّا مُهْلِكي القُرى إلاَّ وأهلُها ظالمونَ}: بالكفر والمعاصي، مستحقُّون للعقوبة. والحاصلُ أنَّ الله لا يعذِّب أحداً إلا بظُلْمه وإقامةِ الحجَّةِ عليه.
[59] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ قوموں پر ان کے مجرد کفر کی بنا پر، ان پر حجت قائم کرنے اور ان کی طرف رسول مبعوث کرنے سے قبل، عذاب نازل نہیں کرتا۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْ٘قُ٘رٰى ﴾ ’’اور تمھارا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا۔‘‘ یعنی ان کے کفر اور ظلم کی بنا پر ﴿ حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا ﴾ ’’جب تک ان کے بڑے شہر میں نہ بھیج لے۔‘‘ یعنی اس بستی اور شہر میں ، جہاں سے وہ گزرتے ہیں ، جہاں وہ آتے جاتے رہتے ہیں ، ان بستیوں کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں اور ان سے ان کی خبریں اور واقعات مخفی نہیں رہتے ہیں ۔ ﴿ رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا﴾ ’’رسول جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتا۔‘‘ جو اس وحی کی صحت پر دلالت کرتیں جسے رسول لے کر آیا اور اس کی دعوت کی تصدیق کرتی تھیں اور اللہ کا رسول ان کے قریب اور دور سب کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا تھا۔ اس کے برعکس دور دراز بستیوں اور زمین کے دور دراز گوشوں میں ، رسولوں کا مبعوث ہونا ان پر مخفی رہ سکتا ہے۔ مگر بڑے بڑے شہروں میں ان اخبار و واقعات کا شائع ہونا زیادہ یقینی ہے اور غالب حالات میں شہروں کے باشندوں میں دوسروں کی نسبت جفا کم ہوتی ہے۔ ﴿ وَمَا كُنَّا مُهْلِـكِی الْ٘قُ٘رٰۤى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰ٘لِمُوْنَ ﴾ ’’اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اسی وقت جبکہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں ۔‘‘ یعنی انھوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کیا اور سزا کے مستحق ٹھہرے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے ظلم کی بنا پر اور اس پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی عذاب دیتا ہے۔
آیت: 60 - 61 #
{وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى أَفَلَا تَعْقِلُونَ (60) أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (61)}.
اور جو کچھ بھی دیے گئے ہو تم کوئی چیز تو وہ سامان ہے زندگانیٔ دنیا کا اور اس کی زینت اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت بہتر اور دیرپا ہے، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟ (60) کیا پس وہ شخص کہ وعدہ کیا ہم نے اس سے وعدہ اچھا، پھر وہ ملنے والا ہے اس کو، اس شخص جیسا ہے کہ فائدہ دیا ہم نے اسے (کچھ)فائدہ زندگانیٔ دنیا کا ، پھر وہ دن قیامت کے ، حاضر کردہ لوگوں میں سے ہو گا (61)
#
{60} هذا حضٌّ منه تعالى لعبادِهِ على الزُّهد في الدُّنيا وعدم الاغترار بها، وعلى الرغبة في الأخرى وجعلها مقصودَ العبدِ ومطلوبَه، ويخبِرُهم أنَّ جميع ما أوتيه الخلقُ من الذهب والفضة والحيوانات والأمتعة والنساء والبنين والمآكل والمشارب واللذَّات كلِّها متاعُ الحياةِ الدنيا وزينتُها؛ أي: يُتَمَتَّع به وقتاً قصيراً متاعاً قاصراً محشوًّا بالمنغِّصات ممزوجاً بالغُصص، ويتزيَّن به زماناً يسيراً للفخر والرياء، ثم يزولُ ذلك سريعاً، وينقضي جميعاً، ولم يستفدْ صاحبُه منه إلاَّ الحسرةَ والندمَ والخيبةَ والحرمانَ، {وما عندَ اللهِ}: من النعيم المقيم والعيش السليم {خيرٌ وأبقى}؛ أي: أفضلُ في وصفِهِ وكميِّته، وهو دائمٌ أبداً ومستمرٌ سرمداً، {أفلا تعقلونَ}؛ أي: أفلا تكون لكم عقولٌ بها تَزِنون؛ أيُّ الأمرين أولى بالإيثار؟! وأيُّ الدارين أحقُّ للعمل لها؟! فدل ذلك أنه بحسب عقل العبد يُؤْثِرُ الأخرى على الدُّنيا، وأنَّه ما آثَرَ أحدٌ الدُّنيا إلاَّ لنقص في عقله.
[60] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا میں زہد کی ترغیب دی ہے نیز انھیں خبردار کیا ہے کہ وہ دنیا کے دھوکے میں نہ آئیں اور یہ کہ وہ آخرت میں رغبت رکھیں ، نیز اس نے آخرت کو بندے کا مطلوب و مقصود قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سب کچھ، جو مخلوق کو عطا کیا گیا ہے، مثلاً:سونا چاندی، حیوانات، مال و متاع، عورتیں ، بیٹے، ماکولات، مشروبات اور لذات صرف دنیا کی متاع اور اس کی زینت ہیں ۔ بندہ جن سے بہت تھوڑے وقت کے لیے متمتع ہوتا ہے وہ بہت ہی تھوڑی سی متاع ہے جو تکدر سے گھری ہوئی اور غم و اندوہ سے لبریز ہے۔ بندہ نہایت قلیل مدت کے لیے فخروریا کے طور پر اس دنیا سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے پھر جلد ہی یہ دنیا زائل اور تمام کی تمام ختم ہو جاتی ہے اور اس دنیا سے محبت کرنے والا حسرت، ندامت، ناکامی اور حرماں نصیبی کے سوا اس دنیا سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔ ﴿ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہمیشہ رہنے والی نعمتیں اور ہر قسم کے تکدر سے محفوظ زندگی ﴿ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى ﴾ اپنے اوصاف اور کمیت کے اعتبار سے بہتر ہے وہ زندگی دائمی، سرمدی اور ابدی ہے۔ ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ کیا تم لوگوں میں عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم دونوں امور کے مابین موازنہ کر سکو کہ کون سی زندگی ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے اور کون سی زندگی اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق، آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اگر کوئی آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے تو اس کا باعث اس کی کم عقلی ہے۔
#
{61} ولهذا نبَّه العقول على الموازنة بين عاقبة مؤثِرِ الدُّنيا ومؤثِرِ الآخرة، فقال: {أفَمَن وَعَدْناه وعداً حسناً فهو لاقيهِ}؛ أي: هل يستوي مؤمنٌ، ساعٍ للآخرة سَعْيَها، قد عَمِلَ على وعدِ ربِّه له بالثواب الحسن الذي هو الجنَّة وما فيها من النعيم العظيم؛ فهو لاقيه من غير شكٍّ ولا ارتياب؛ لأنَّه وعدٌ من كريم صادقِ الوعدِ لا يُخْلِفُ الميعاد لعبدٍ قام بمرضاتِهِ وجانَبَ سَخَطَه؛ {كمن متَّعْناه متاعَ الحياة الدُّنيا} فهو يأخُذُ فيها ويعطي، ويأكل ويشرب، ويتمتَّع كما تتمتَّع البهائم، قد اشتغل بدُنياه عن آخرته، ولم يرفعْ بهدى الله رأساً، ولم ينقدْ للمرسلين؛ فهو لا يزال كذلك؛ لا يتزوَّد من دُنياه إلاَّ الخسار والهلاك. {ثم هو يوم القيامةِ من المُحْضَرين}: للحساب، وقد عُلِمَ أنَّه لم يقدِّمْ خيراً لنفسه، وإنَّما قدَّم جميع ما يضرُّه، وانتقل إلى دار [الجزاء بالأعمال]؛ فما ظنُّكم إلام يصير إليه؟! وما تحسبَون ما يصنعُ به؟! فليخترِ العاقلُ لنفسه ما هو أولى بالاختيار وأحقُّ الأمرين بالإيثار.
[61] بنابریں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقلوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ دنیا کو ترجیح دینے والوں کے انجام اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کے انجام کے مابین موازنہ کریں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَفَ٘مَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِیْهِ ﴾ ’’بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو‘‘ کیا وہ مومن جو آخرت کے لیے کوشاں ہے، اپنے رب کے وعدۂ ثواب یعنی جنت کے لیے عمل پیرا ہے جس میں بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوں گی اور بلاشبہ یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا کیونکہ یہ ایک کریم ہستی کی طرف سے کیا گیا وعدہ ہے جس کا وعدہ سچا ہوتا ہے، وہ اپنے اس بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی جو اس کی رضا پر چلتا ہے اور اس کو ناراض کرنے والے امور سے اجتناب کرتا ہے۔ ﴿ كَ٘مَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیاوی زندگی کے سروسامان سے نوازا ہو‘‘ جو اس دنیا کو حاصل کرتا ہے وہ کھاتا پیتا اور اس سے یوں متمتع ہوتا ہے جیسے جانور متمتع ہوتے ہیں ؟ یہ شخص اپنی آخرت سے غافل ہو کر اپنی دنیا میں مشغول ہے اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروا کی نہ انبیاء و مرسلین کی اطاعت کی۔ یہ اپنے اسی رویے پر جما ہوا ہے۔ اس دنیا سے اس نے جو کچھ زاد راہ سمیٹا ہے وہ ہلاکت اور خسارے کے سوا کچھ نہیں ۔ ﴿ ثُمَّ هُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ مِنَ الْ٘مُحْضَرِیْنَ ﴾ ’’پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں ہو جو حاضر کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی پھر حساب کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے دامن میں کوئی بھلائی نہیں ، اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے لیے نقصان دہ ہے… کیا تم جانتے ہو اس کا کیا انجام ہو گا؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا … عقل مند شخص کو وہی چیز اختیار کرنی چاہیے جو اختیار كيے جانے کی مستحق ہے اور اسی چیز کو ترجیح دینا چاہیے جو ترجیح دیے جانے کے قابل ہے۔
آیت: 62 - 66 #
{وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (62) قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ (63) وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ (64) وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ (65) فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنْبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ (66)}.
اور جس دن ندا دے گا انھیں (اللہ)، پھر وہ کہے گا (ان سے)، کہاں ہیں میرے شریک وہ جن کو تھے تم (شریک) گمان کرتے؟ (62)کہیں گے وہ لوگ کہ ثابت ہو چکا ان پر قول (عذاب) کا ، اے ہمارے رب! یہی ہیں وہ لوگ جنھیں گمراہ کیا تھا ہم نے، ہم نے گمراہ کیا تھا انھیں جس طرح ہم گمراہ ہوئے تھے ہم بیزاری ظاہر کرتے ہیں تیرے سامنے (ان سے) نہیں تھے وہ خاص ہماری ہی عبادت کرتے (63) اور کہا جائے گا، بلاؤ تم اپنے شریکوں کو پس وہ پکاریں گے ان کوتو وہ نہیں جواب دیں گے انھیں اور وہ (سب) دیکھ لیں گے عذاب کاش کہ! بے شک ہوتے وہ ہدایت پر چلتے (64) اور (یاد کرو!) جس دن پکارے گا ان کا (اللہ)، پھر وہ کہے گا، کیا جواب دیا تھا تم نے رسولوں کو؟ (65) پس اندھی ہو جائیں گی ان پر خبریں اس دن! پس وہ نہیں کریں گے ایک دوسرے سے سوال بھی (66)
#
{62 ـ 63} هذا إخبارٌ من الله تعالى عما يسأل عنه الخلائق يوم القيامة، وأنَّه يسألهم عن أصول الأشياء؛ عن عبادة الله، وإجابة رسله، فقال: {ويوم يناديهم}؛ أي: ينادي مَنْ أشركوا به شركاء يعبُدونَهم ويرجون نفعَهم ودفعَ الضرر عنهم، فيناديهم ليبيِّنَ لهم عجزها وضلالهم، {فيقولُ أين شركائِيَ}: وليس لله شريكٌ، ولكن ذلك بحسب زعمِهِم وافترائِهِم، ولهذا قال: {الذين كنتم تزعُمونَ}: فأين هم بذواتِهِم؟! وأين نفعُهم؟! وأين دفعُهم؟! ومن المعلوم أنَّهم يتبيَّن لهم في تلك الحال أنَّ الذي عبدوه ورجَوْه باطلٌ مضمحلٌّ في ذاته وما رجوا منه، فيقرُّون على أنفسهم بالضَّلالة والغواية، ولهذا {قال الذين حقَّ عليهم القولُ}: من الرؤساء والقادة في الكفر والشرِّ؛ مقرِّين بغوايتهم وإغوائهم: {ربَّنا هؤلاء}: التابعون {الذين أغْوَيْنا أغْوَيْناهم كما غَوَيْنا}؛ أي: كلنا قد اشترك في الغِواية وحقَّ عليه كلمةُ العذاب، {تبرَّأنا إليكَ}: من عبادتهم؛ أي: نحن برآءُ منهم ومن عملهم. {ما كانوا إيَّانا يَعْبُدونَ}: وإنَّما كانوا يعبُدون الشياطين.
[63,62] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ قیامت کے روز خلائق سے چند سوال کرے گا: 1 اصولی چیزوں کے بارے میں سوال کرے گا۔ 2 اللہ تعالیٰ ان سے اپنی عبادت کے بارے میں سوال کرے گا۔ 3 اور انھوں نے اس کے رسولوں کو کیا جواب دیا اس بارے میں سوال کرے گا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو پکار کر کہے گا جنھوں نے اس کے شریک بنائے، وہ ان کی عبادت کرتے رہے، جلب منفعت اور دفع ضرر میں ان پر امیدیں رکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے سامنے انھیں اس لیے پکار کر کہے گا تاکہ ان کے سامنے ان کے معبودوں کی بے بسی اور خود ان کی گمراہی ظاہر ہو جائے۔ ﴿ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُ٘رَؔكَآءِیَ ﴾ ’’پس وہ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں ؟‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ ندا ان کے زعم اور ان کی بہتان طرازی پر طنز کے طور پر ہو گی، اس لیے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ﴾ ’’جن کا تمھیں دعویٰ تھا۔‘‘ تمھارے مزعومہ معبود اپنی ذات کے ساتھ کہاں ہیں اور کہاں ہے ان کی نفع دینے اور نقصان دینے کی طاقت؟ اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت ان کے سامنے یہ بات اچھی طرح عیاں ہو جائے گی کہ جن خودساختہ معبودوں کی وہ عبادت کرتے رہے ہیں جن پر ان کو بہت امیدیں اور توقعات تھیں ، سب باطل اور کمزور تھے اور وہ امیدیں بھی بے ثمر تھیں جو انھوں نے ان معبودوں سے وابستہ کر رکھی تھیں وہ اپنے بارے میں ضلالت اور بے راہ روی کا اعتراف کریں گے۔ بنابریں ﴿ قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ ﴾ ’’وہ لوگ جن پر عذاب کی بات واجب ہوجائے گی کہیں گے‘‘ کفروشر میں ان کی قیادت کرنے والے سردار اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ ﴾ ’’اے ہمارے رب یہی‘‘ وہ پیروکار ہیں ﴿الَّذِیْنَ اَغْ٘وَیْنَا١ۚ اَغْ٘وَیْنٰهُمْ كَمَا غَوَیْنَا﴾ ’’جن کو ہم نے بدراہ کیا، ہم نے ان کو اسی طرح بدراہ کیا جس طرح ہم خود بدراہ ہوئے۔‘‘ یعنی گمراہی اور بدراہی میں ہم میں سے ہر ایک شریک ہے اور اس پر عذاب واجب ہو گیا۔ وہ کہیں گے: ﴿ تَبَرَّاْنَاۤ اِلَیْكَ ﴾ یعنی ہم ان کی عبادت سے بری الذمہ ہیں ہم ان سے اور ان کے عمل سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ﴿ مَا كَانُوْۤا اِیَّ٘انَا یَعْبُدُوْنَ ﴾ ’’یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے۔‘‘ یہ لوگ تو شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے۔
#
{64} {وقيل} لهم: {ادْعُوا شركاءَكم}: على ما أمَّلتْم فيهم من النفع، فأُمِروا بدعائهم في ذلك الوقت الحرج الذي يضطرُّ فيه العابدُ إلى مَنْ عَبَدَه، {فدَعَوْهم}: لينفعوهم أو يدفعوا عنهم من عذاب الله من شيء، {فلم يستجيبوا لهم}: فعلم الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين مستحقِّين للعقوبة، {ورَأوا العذابَ}: الذي سيحلُّ بهم عياناً بأبصارهم بعدما كانوا مكذِّبين به منكِرين له؛ {لو أنَّهم كانوا يهتدونَ}؛ أي: لمَا حصلَ عليهم ما حصل، ولهُدوا إلى صراط الجنَّة كما اهْتَدَوا في الدنيا، ولكنْ لم يَهْتَدُوا، فلم يُهْتَدَوا.
[64] ﴿ وَقِیْلَ ﴾ ’’کہا جائے گا‘‘ ان سے ﴿ ادْعُوْا شُ٘رَؔكَآءَكُمْ ﴾ ’’اپنے ان معبودوں کو بلالو‘‘ جن سے تمھیں کوئی نفع پہنچنے کی امید تھی چنانچہ مصیبت کی ایسی گھڑی میں ان کو اپنے مزعومہ معبودوں کو بلانے کا حکم دیا جائے گا جس میں عابد اپنے معبود کا پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ﴿ فَدَعَوْهُمْ ﴾ ’’پس وہ ان کو پکاریں گے‘‘ تاکہ وہ ان کو کوئی فائدہ پہنچائیں یا ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں ﴿ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ ﴾ ’’مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے‘‘ تب کفار کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جھوٹے اور سزا کے مستحق ہیں ۔ ﴿ وَرَاَوُا الْعَذَابَ﴾ ’’اور وہ اس عذاب کو دیکھیں گے‘‘ جو ان کے آنکھوں دیکھتے نازل ہو گا جس کو وہ جھٹلایا اور اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ ﴿ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا یَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’کاش وہ ہدایت یاب ہوتے۔‘‘ تو ان کو اس عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور انھیں جنت کے راستے کی طرف راہنمائی حاصل ہوتی، جیسے انھیں دنیا میں راہنمائی حاصل ہوئی تھی مگر اس کے برعکس وہ دنیا میں راہ راست پر گامزن نہ ہوئے، اس لیے آخرت میں انھیں جنت کا راستہ نہیں ملا۔
#
{65 ـ 66} {ويوم يناديهم فيقولُ ماذا أجبتُم المرسلينَ}: هل صدَّقْتموهم واتَّبعتموهم؟ أم كذَّبْتموهم وخالفتموهم؟ {فعَمِيَتْ عليهم الأنباءُ يومئذٍ فهم لا يتساءلون}؛ أي: لم يحيروا عن هذا السؤال جواباً، ولم يهتدوا إلى الصواب، ومن المعلوم أنَّه لا يُنَجِّي في هذا الموضع إلاَّ التصريحُ بالجواب الصحيح المطابق لأحوالهم من أنَّنا أجَبْناهم بالإيمان والانقياد، ولكن لما علموا تكذيبَهم لهم وعنادَهم لأمرِهم؛ لم ينطِقوا بشيء، ولا يمكنُ أنْ يتساءلوا، ويتراجَعوا بينَهم في ماذا يجيبون به، ولو كان كذباً.
[66,65] ﴿ وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَاۤ اَجَبْتُمُ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور جس روز اللہ ان کو پکارے گا اور کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟‘‘ یعنی آیا تم نے ان کی تصدیق کر کے ان کی اتباع کی یا تم نے ان کی تکذیب کر کے ان کی مخالفت کا راستہ اختیار کیا؟ ﴿ فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَىِٕذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ۠ ﴾ یعنی انھیں اس سوال کا جواب بن نہیں پڑے گا اور نہ انھیں صواب کا راستہ ہی ملے گا اور یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس مقام پر صریح اور صحیح جواب دیے بغیر ان کی جان نہیں چھوٹے گی، یعنی اپنے احوال کے مطابق انھیں بتانا پڑے گا کہ انھوں نے ایمان اور اطاعت کے ساتھ رسولوں کی آواز پر لبیک کہی تھی مگر جب انھیں اپنے رسولوں کو جھٹلانے کے رویے، ان کے ساتھ اپنے عناد اور ان کے احکام کی مخالفت کے بارے میں معلوم ہو گا تو وہ کچھ نہیں بولیں گے اور نہ ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے کہ کیا جواب دیں خواہ جواب جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔
آیت: 67 #
{فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ (67)}.
پس لیکن جس شخص نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے عمل کیا نیک تو امید ہے یہ کہ ہو گا وہ فلاح پانے والوں میں سے (67)
#
{67} لما ذَكَرَ تعالى سؤال الخلق عن معبودِهِم وعن رسلِهِم؛ ذكر الطريقَ الذي ينجو به العبدُ من عقاب الله تعالى، وأنَّه لا نجاة إلاَّ لمن اتَّصف بالتوبة من الشرك والمعاصي، وآمنَ بالله فعبَدَه، وآمنَ برسلِهِ فصدَّقهم، وعمل صالحاً متَّبعاً فيه للرسل. {فعسى أن يكونَ}: من جَمَعَ هذه الخصال {من المفلحين}: الناجحين بالمطلوب، الناجين من المرهوب؛ فلا سبيل إلى الفلاح بدون هذه الأمور.
[67] اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق سے ان کے معبود اور ان کے رسولوں کے بارے میں اپنے سوال کا ذکر کرنے کے بعد اس طریق کا ذکر کرتا ہے جس کے ذریعے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ بے شک صرف وہی شخص نجات حاصل کر سکتا ہے جو شرک اور معاصی سے توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے، اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہے، ان کی تصدیق کرتا ہے، نیک عمل کرتا ہے اور پنے اعمال میں رسولوں کی اتباع کرتا ہے۔ ﴿ فَعَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ ﴾ ’’پس امید ہے کہ وہ ہوں ‘‘ یعنی وہ لوگ جن میں یہ تمام خصائل جمع ہیں ۔ ﴿ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ ﴾ ’’کامیاب ہونے والوں میں سے۔‘‘ اپنا مطلوب و مقصود حاصل کرنے اور خوف سے نجات پانے میں کامیاب ہونے والے۔ پس متذکرہ بالا امور کے بغیر فلاح کا کوئی راستہ نہیں ۔
آیت: 68 - 70 #
{وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (68) وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (69) وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (70)}.
اور آپ کا رب پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور (جو) وہ پسند کرتا ہے، نہیں ہے ان (لوگوں ) کے لیے کوئی اختیار، پاک ہے اللہ اور وہ برتر ہے ان سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں (68)اور آپ کا رب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں سینے ان کے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں (69) اور وہی ہے اللہ، نہیں کوئی اور الٰہ مگر وہی، اسی کے ہے تمام حمد دنیا اور آخرت میں اور اسی کا ہے حکم،اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تم (سب)(70)
#
{68 ـ 70} هذه الآياتُ فيها عمومُ خلقِهِ لسائر المخلوقات، ونفوذُ مشيئَتِهِ بجميع البريَّات، وانفرادُهُ باختيار من يختارُهُ ويختصُّه من الأشخاص والأوامر والأزمان والأماكن، وأنَّ أحداً ليس له من الأمر والاختيار شيءٌ، وأنَّه تعالى منزَّه عن كلِّ ما يشركون به من الشريك والظهير والعَوين والولد والصاحبة ونحو ذلك مما أشرك به المشركون، وأنَّه العالمُ بما أكنَّتْهُ الصدور وما أعلنوه، وأنَّه وحدَه المعبودُ المحمودُ في الدنيا والآخرة على ما له من صفاتِ الجلال والجمال، وعلى ما أسداه إلى خلقِهِ من الإحسان والإفضال، وأنَّه هو الحاكم في الدارين؛ في الدُّنيا بالحكم القدريِّ الذي أثَرُهُ جميعُ ما خَلَقَ وذَرَأ، والحكم الدينيِّ الذي أثَرُهُ جميعُ الشرائع والأوامر والنواهي. وفي الآخرة يحكم بحكمِهِ القدريِّ والجزائيِّ، ولهذا قال: {وإليه تُرْجَعونَ}: فيجازي كلًّا منكم بعملِهِ من خيرٍ وشرٍّ.
[70-68] اللہ تبارک وتعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا پھر ان میں اپنی مشیت نافذ کی اور وہ اپنے اختیار میں متفرد ہے۔ وہ اشخاص، اوامر، ازمان اور اماکن میں سے جو چاہتا ہے چن کر مختص کر لیتا ہے کسی کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شریکوں ، مددگاروں ، اولاد اور بیوی وغیرہ سے منزہ اور مبرا ہے جنھیں یہ مشرکین اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام امور کو خوب جانتا ہے جنھیں یہ اپنے سینوں میں چھپاتے ہیں اور جنھیں یہ ظاہر کرتے ہیں ۔ وہ اکیلا ہی دنیا و آخرت میں اپنی صفات جمال و کمال اور اپنی مخلوق پر احسان و اکرام کی بنا پر مستحق عبادت اور لائق ستائش ہے۔ وہی دنیا و آخرت میں فیصلے کرنے والا ہے، دنیا میں اپنے حکم کونی و قدری کے مطابق فیصلے کرتا ہے جو تمام مخلوق میں جاری و ساری ہیں اور وہ اپنے حکم دینی کے مطابق فیصلے کرتا ہے جس سے تمام شرائع اوامر و نواہی وجود میں آتے ہیں ۔ وہ آخرت میں بھی اپنے حکم قدری و جزائی کے مطابق فیصلے کرے گا اس لیے فرمایا: ﴿ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ تب وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے عمل کی جزا دے گا۔
آیت: 71 - 73 #
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاءٍ أَفَلَا تَسْمَعُونَ (71) قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (72) وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (73)}.
کہہ دیجیے، بتلاؤ تو سہی! اگر کر دے اللہ تم پر رات ہمیشہ کے لیے قیامت کے دن تک تو کون الٰہ ہے سوائے اللہ کے جو لے آئے تمھارے پاس روشنی؟ کیا پس نہیں سنتے تم؟ (71) کہہ دیجیے، بتلاؤ تو سہی! اگر کر دے اللہ تم پر دن ہمیشہ کے لیے قیامت کے دن تک تو کون الٰہ ہے سوائے اللہ کے جو لے آئے تمھارے پاس رات کو تم آرام کر لو اس میں ؟ کیا پس نہیں دیکھتے تم؟ (72) اور اپنی رحمت ہی سے اس (اللہ) نے بنایا تمھارے لیے رات اوردن کو تاکہ تم آرام کرو اس (رات) میں اور تاکہ تلاش کرو تم (دن میں ) فضل اس کا اور تاکہ تم شکر کرو (73)
#
{71 ـ 73} هذا امتنانٌ من الله على عبادِهِ؛ يدعوهم به إلى شكرِهِ والقيام بعبوديتِهِ وحقِّه أنْ جَعَلَ لهم من رحمته النهارَ ليبتغوا من فضل الله وينتشروا لطلبِ أرزاقهم ومعايِشِهم في ضيائه، والليلَ ليهدؤوا فيه ويسكُنوا وتستريحَ أبدانُهم وأنفسُهم من تعب التصرُّف في النهار؛ فهذا من فضلِهِ ورحمتِهِ بعبادِهِ؛ فهل أحدٌ يقدرُ على شيءٍ من ذلك فلو جَعَلَ {عليكُمُ الليلَ سرمداً إلى يوم القيامةِ من إلهٌ غيرُ الله يأتيكم بضياءٍ أفلا تسمعونَ}: مواعظَ الله وآياتِهِ سماعَ فهم وقَبول وانقيادٍ، ولو {جعل عليكم النَّهار سرمداً إلى يوم القيامة من إلهٌ غيرُ الله يأتيكم بليل تسكُنون فيه أفلا تُبْصِرونَ}: مواقع العِبَرِ ومواضع الآياتِ فتستنير بصائرُكُم وتسلكون الطريق المستقيم، وقال في الليل: {أفلا تسمعونَ}، وفي النهار: {أفلا تبصرون}؛ لأن سلطانَ السمع في الليل أبلغُ من سلطانِ البصرِ، وعكسُه النهار. وفي هذه الآيات تنبيهٌ إلى أنَّ العبد ينبغي له أن يتدبَّر نعم الله عليه، ويستبصرَ فيها، ويقيسَها بحال عدمِها؛ فإنَّه إذا وازنَ بين حالة وجودِها وبين حالةِ عدمِها؛ تنبَّه عقلُه لموضع المنَّةِ؛ بخلاف مَنْ جرى مع العوائدِ، ورأى أنَّ هذا أمرٌ لم يزلْ مستمرًّا ولا يزالُ، وعمي قلبُه عن الثناء على الله بنعمِهِ ورؤيةِ افتقارِهِ إليها في كلِّ وقت؛ فإنَّ هذا لا يحدثُ له فكرة شكرٍ ولا ذكرٍ.
[73-71] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر احسان ہے۔ وہ ان کو اس احسان پر شکر ادا کرنے، اس کی عبودیت اور حق کو قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ بے شک اس نے اپنی بے پایاں رحمت کی وجہ سے ان کے لیے دن بنایا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کریں اوردن کی روشنی میں اپنے رزق اور معیشت کی طلب میں زمین میں پھیل جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رات پیدا کی تاکہ وہ اس میں سکون پائیں ان کے بدن، دن بھر کی تگ و دو کے بعد آرام کر کے تھکاوٹ کو دور کریں ۔ یہ بندوں پر اس کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے… کیا مخلوق میں سے کوئی ایسی ہستی ہے جو ایسا کرنے پر قادر ہو؟ ﴿ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَ٘اْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍ١ؕ اَفَلَا تَ٘سْمَعُوْنَ ﴾ ’’ اگر اللہ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ رات ہی طاری کردےتو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو تمھیں روشنی لادیتا کیا تم سنتے نہیں ؟‘‘ اللہ کی نصیحتوں اور آیتوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کی غرض سے؟ اور ﴿عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَ٘اْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِ١ؕ اَفَلَا تُ٘بْصِرُوْنَ ﴾ ’’ اگر اللہ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ دن ہی طاری کر دے تو اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو تمھارے لیے رات لے آتا جس میں تم آرام کرسکتے کیا تم دیکھتے نہیں ‘‘ عبرت کے مواقع اور آیات الٰہی کے جگہیں تاکہ تمھاری بصیرت روشن رہے اور تم صراط مستقیم پر گامزن رہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رات کی آیت مبارکہ میں فرمایا: ﴿ اَفَلَا تَ٘سْمَعُوْنَ﴾ ’’کیا تم سنتے نہیں ؟‘‘ اور دن کی آیت مبارکہ میں فرمایا: ﴿ اَفَلَا تُ٘بْصِرُوْنَ﴾ ’’کیا تم دیکھتے نہیں ؟‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کے وقت سماعت کا حاسہ، بصارت کے حاسہ کی نسبت زیادہ قوی ہوتا ہے اور دن کے وقت بصارت کا حاسہ زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غوروفکر کرے، ان میں بصیرت حاصل کرے اور ان کے وجود اور عدم وجود کے مابین موازنہ کرے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وجود اور ان کے عدم وجود کے مابین موازنہ کرے گا تو اس کی عقل کو اللہ تعالیٰ کے احسان و عنایت پر تنبہ حاصل ہو گا۔ اس کے برعکس جو کوئی عادت کی پیروی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ایسا معاملہ ہے جو ہمیشہ سے اسی طرح چلا آ رہا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی حمدوثنا سے خالی اور اس حقیقت کی رؤیت سے بے بہرہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے… تو وہ ایسا شخص ہے جس کے دل میں کبھی شکر اور ذکر کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔
آیت: 74 - 75 #
{وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (74) وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (75)}.
اورجس دن ندا دے گا انھیں اللہ، پھر وہ کہے گا، کہاں ہیں میرے شریک وہ جن کو تھے تم (شریک) گمان کرتے؟ (74) اور ہم نکالیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ ، پھر کہیں گے ہم، لاؤ تم اپنی دلیل، پس جان لیں گے وہ کہ بلاشبہ سچی بات اللہ ہی کی ہے اور گم ہو جائے گا ان سے جو کچھ تھے وہ افتراباندھتے (75)
#
{74 ـ 75} أي: ويوم ينادي اللهُ المشركين به العادلينَ به غيرَه، الذين يزعمونَ أنَّ له شركاءَ يستحقُّون أن يُعبدوا وينفعون ويضرُّون؛ فإذا كان يوم القيامةِ؛ أراد الله أن يُظْهِرَ جراءتهم وكذبهم في زعمهم وتكذيبهم لأنفسهم؛ يناديهم {أينَ شركائِيَ الذين كنتُم تزعُمون}؛ أي: بزعمهم لا بنفس الأمر؛ كما قال: {وما يَتَّبِعُ الذين يَدْعونَ من دون اللهِ شركاءَ إن يَتَّبِعون إلاَّ الظَّنَّ [وإنْ هم إلاَّ يخرصون]}، فإذا حضروا هم وإيَّاهم؛ نزع {من كلِّ أمَّةٍ}: من الأمم المكذِّبة {شهيداً}: يشهدُ على ما جرى في الدُّنيا من شركهم واعتقادِهم، وهؤلاء بمنزلةِ المنتَخَبين؛ أي: انتخبنا من رؤساء المكذِّبين مَنْ يتصدَّى للخصومة عنهم والمجادلة عن إخوانهم، وهم على طريقٍ واحدٍ؛ فإذا برزوا للمحاكمة، {فقُلْنا هاتوا برهانَكم}: حجَّتَكم ودليلَكم على صحَّةِ شرككم؛ هل أمَرْناكم بذلك؟ هل أمرتْكم رُسُلي؟ هل وجدتُم ذلك في شيء من كُتُبي؟ هل فيهم أحدٌ يستحقُّ شيئاً من الإلهيَّة؟ هل ينفعونكم أو يدفعونَ عنكم من عذاب الله أو يُغنون عنكم؟ فليفعلوا إذاً إن كان فيهم أهليَّةٌ ولْيُروكم إنْ كان لهم قدرةٌ، {فعلموا}: حينئذٍ بطلانَ قولِهِم وفساده، و {أنَّ الحقَّ لله}: تعالى، قد توجَّهت عليهم الخصومةُ وانقطعتْ حجَّتهم وأفلجت حجةُ الله، {وضلَّ عنهم ما كانوا يفترون}: من الكذبِ والإفك؛ اضمحلَّ وتلاشى وعدم، وعلموا أنَّ الله قد عدل فيهم؛ حيث لم يضعِ العقوبةَ إلاَّ بمن استحقَّها واستأهلها.
[75,74] جس روز اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور ان لوگوں کو… جو غیر اللہ کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ الوہیت میں غیر اللہ کا حصہ ہے اور ان کے یہ خود ساختہ معبود عبادت کے مستحق ہیں اور نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتے ہیں … پکارے گا۔ پس جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ مشرکین کی جسارت، ان کے زعم کا ذب اور ان کی خود اپنے آپ کی تکذیب کو ظاہر کرنا چاہے گا۔ ﴿یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُ٘رَؔكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ﴾ ’’تو ان کو پکار کر پوچھے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم، شریک سمجھتے تھے۔‘‘ یہ نفس امر میں شریک نہیں بلکہ ان کے زعم باطل کے مطابق شریک ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا یَتَّ٘بِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ (یونس:10؍66) ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ تو محض اپنے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ صرف قیاس آرائیاں کررہے ہیں ۔‘‘ جب یہ مشرکین اور ان کے معبودان باطل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ﴿ مِنْ كُ٘لِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ﴾ ’’ہر امت میں سے ایک گواہ‘‘ یعنی جھٹلانے والی ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کرے گا جو دنیا میں ان کے کرتوتوں ، ان کے شرک اور ان کے اعتقادات پر گواہی دے گا اور یہ منتخب لوگ ہوں گے یعنی ہم جھٹلانے والوں کے سرداروں میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کر لیں گے جو اپنی طرف سے اور اپنے بھائیوں کی طرف سے جھگڑیں گے کیونکہ وہ ایک ہی راستے پر چلتے رہے ہیں اور جب وہ محاکمہ کے لیے سامنے آئیں گے ﴿ فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ﴾ ’’تو ہم (ان سے) کہیں گے اپنی دلیل لاؤ‘‘ یعنی اپنے شرک کی صحت پر حجت و برہان کہ آیا ہم نے تمھیں اس شرک کا حکم دیا؟ کیا میرے رسولوں نے تمھیں اس کا حکم دیا؟ یا اس شرک کے جواز کے بارے میں تم نے میری کتابوں میں کچھ لکھا ہوا پایا؟ کیا ان خود ساختہ شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو الوہیت کا مستحق ہو؟ کیا یہ معبود تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹانے میں تمھارے کوئی کام آ سکتے ہیں ؟ اگر ان میں کوئی اہلیت ہے تو وہ یہ کام کر دیکھیں وہ تم سے عذاب الٰہی کو دور کریں اگر وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ ﴿ فَعَلِمُوْۤا ﴾ ’’تب وہ جان لیں گے‘‘ اپنے قول کے بطلان و فساد کو اور انھیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا ﴿ اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ ﴾ ’’کہ حق اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ خصومت ان کی طرف رخ کر لے گی۔ ان کی حجت ناکام اور اللہ تعالیٰ کی حجت غالب آ جائے گی۔ ﴿ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’جو جھوٹ اور بہتان انھوں نے گھڑا تھا سب مضمحل، ناپید اور معدوم ہو جائے گا۔‘‘ انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی شخص کو سزا دی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہے۔
آیت: 76 - 82 #
{إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ (76) وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (77) قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا وَلَا يُسْأَلُ عَنْ ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ (78) فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَالَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (79) وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ (80) فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِينَ (81) وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَوْلَا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (82)}.
بلاشبہ قارون تھا قومِ موسیٰ میں سے، پس اس نے ظلم کیا ان پر اور دیا تھا ہم نے اسے خزانوں سے اس قدر کہ بلاشبہ اس کی چابیاں (ان کا اٹھانا) بھاری ہوتا تھا ایک جماعت قوت والی پر جب کہا اس سے اس کی قوم (کے لوگوں ) نے، نہ اترا تو بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا اترانے والوں کو (76) اور تلاش کر تو اس میں جو کچھ دیا ہے تجھے اللہ نے، گھر آخرت کا اور مت بھول تو حصہ اپنا دنیا سےاور احسان کر تو (لوگوں پر) جس طرح کہ احسان کیا اللہ نے تجھ پر اور نہ تلاش کر تو فساد زمین میں بے شک اللہ نہیں پسند کرتا فساد کرنے والوں کو (77) قارون نے کہا، یقینا دیا گیا ہوں میں وہ (مال) اس علم کی بنا پر جو میرے پاس ہے، کیا نہیں جانا اس نے کہ بلاشبہ اللہ نے تحقیق ہلاک کیے ہیں پہلی امتوں میں سے وہ لوگ کہ وہ زیادہ تھے اس سے قوت میں اور بہت زیادہ تھے جمع پونجی (یا جماعت) میں اور نہیں پوچھے جاتے اپنے گناہوں کی بابت مجرم لوگ (78) پس وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں تو کہا ان لوگوں نے جو چاہتے تھے زندگانی دنیا کی، اے کاش! ہوتا ہمارے لیے (بھی) مثل اس کے جو دیا گیا قارون کو، بلاشبہ وہ البتہ بہت بڑے نصیبے والا ہے (79) اور کہا ان لوگوں نے جو دیے گئے تھے علم، افسوس تم پر! ثواب اللہ کا بہت بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لایا اور اس نے عمل کیے نیک اورنہیں سکھلائی جاتی یہ بات مگر صبر کرنے والوں ہی کو (80)پس دھنسا دیاہم نے اسے اوراس کے گھر کو زمین میں پس نہ ہوئی اس کے لیے کوئی جماعت جو مدد کرتی اس کی سوائے اللہ کےاور نہ ہوا وہ خود ہی بدلہ لینے والوں میں سے (81)اور ہو گئے وہ لوگ جنھوں نے تمنا کی تھی اس کے مرتبے کی کل، کہتے تھے کیا نہیں دیکھا تو نے کہ اللہ کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور وہی تنگ کرتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے)، اگر نہ ہوتا یہ کہ احسان کیا اللہ نے ہم پر تو البتہ وہ دھنسا دیتا ہمیں بھی، کیا نہیں دیکھا تو نے کہ نہیں فلاح پاتے کافر (82)
#
{76} يخبر تعالى عن حالة قارون وما فَعَلَ وفُعِلَ به ونُصِحَ ووُعِظَ، فقال: {إنَّ قارون كان من قوم موسى}؛ أي: من بني إسرائيل، الذين فَضَلوا العالمين وفاقوهم في زمانهم، وامتَنَّ الله عليهم بما امتنَّ به، فكانت حالُهم مناسبةً للاستقامة، ولكنَّ قارون هذا بغى على قومه، وطغى بما أوتِيَه من الأموال العظيمة المُطْغِيَة، {وآتَيْناه من الكنوزِ}؛ أي: كنوز الأموال شيئاً كثيراً، {ما إنَّ مفاتِحَهُ لَتنوءُ بالعصبةِ أولي القوَّةِ}: والعُصبة من العشرة إلى التسعة إلى السبعة ونحو ذلك؛ أي: حتى إنَّ مفاتح خزائنِ أموالِهِ تُثْقِلُ الجماعةَ القويةَ عن حملها؛ هذه المفاتيح؛ فما ظنُّك بالخزائن؟! {إذ قال له قومُهُ}: ناصحين له محذِّرين له عن الطُّغيان: {لا تَفْرَحْ إن الله لا يحبُّ الفرِحينَ}؛ أي: لا تفرحْ بهذه الدُّنيا العظيمة، وتفتخرْ بها، وتلهيك عن الآخرة؛ فإنَّ الله لا يحبُّ الفرحين بها المكبِّين على محبَّتها.
[76] اللہ تبارک و تعالیٰ قارون کے احوال اور اس کے کرتوتوں اور ان کرتوتوں کی پاداش میں اس کے ساتھ جو کیا گیا،اس کے ساتھ خیرخواہی اور جو اسے نصیحت کی گئی تھی ان سب کے بارے میں خبر دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰؔى ﴾ یعنی قارون، بنی اسرائیل میں سے تھا جن کو تمام جہانوں پر فضیلت اور اپنے دور میں ان کو سب پر فوقیت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احسانات سے نوازا پس ا ن کا حال استقامت سے مناسبت رکھتا تھا مگر قارون اپنی قوم کے راستے سے منحرف ہو گیا، اس نے ان پر ظلم کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی کیونکہ بڑے بڑے امور اس کے سپرد كيے گئے تھے۔ ﴿ وَاٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ﴾ ’’ہم نے اسے (مال و دولت کے بہت سے) خزانے عطا كيے تھے‘‘ ﴿ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ﴾ ’’ان (خزانوں ) کی کنجیاں ایک طاقتور ’’عصبہ‘‘ کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔‘‘ (عُصْبَۃ) کا اطلاق سات سے دس تک کی تعداد پر ہوتا ہے، یعنی حتیٰ کہ خزانوں کی کنجیاں اٹھانا ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بہت بھاری تھا۔ یہ تو تھیں ان خزانوں کی کنجیاں ، تب ان خزانوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ﴿اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ﴾ ’’جب اس کی قوم نے کہا‘‘ اس کی خیرخواہی کرتے اور اسے سرکشی سے ڈراتے ہوئے: ﴿لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْ٘فَرِحِیْنَ ﴾ یعنی اس دنیاوی شان و شوکت پر خوش ہو نہ اس پر فخر کر کہ یہ تجھے آخرت سے غافل کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں ، فخر کرنے والوں اور دنیا کی محبت میں مشغول ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
#
{77} {وابْتَغ فيما آتاكَ الله الدارَ الآخرةَ}؛ أي: قد حصل عندك من وسائل الآخرة ما ليس عند غيرِك من الأموال، فابتغِ بها ما عندَ الله، وتصدَّقْ، ولا تقتصرْ على مجرَّدِ نيل الشهوات وتحصيل اللذَّات، {ولا تنسَ نصيبَكَ من الدُّنيا}؛ أي: لا نأمُرُك أن تتصدَّق بجميع مالِكَ وتبقى ضائعاً، بلْ أنفِقْ لآخِرَتِكَ واستمتِعْ بدُنياك استمتاعاً لا يَثْلُمُ دينَك ولا يضرُّ بآخرتك، {وأحسِنْ}: إلى عباد الله {كما أحسنَ اللهُ}: عليك بهذه الأموال، {ولا تَبْغِ الفسادَ في الأرض}: بالتكبُّر والعمل بمعاصي الله والاشتغال بالنِّعَم عن المنعم. {إنَّ الله لا يحبُّ المفسدينَ}: بل يعاقِبُهم على ذلك أشدَّ العقوبة.
[77] ﴿وَابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ ﴾ یعنی تجھے آخرت کے لیے ایسے مال و سائل حاصل ہیں جو دوسروں کو حاصل نہیں لہذا ان وسائل کے ذریعے سے وہ کچھ طلب کر جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ کر محض لذات و شہوات کے حصول پر اقتصار نہ کر ﴿وَلَا تَ٘نْ٘سَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا ﴾ ’’اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلا۔‘‘ ہم تجھے یہ نہیں کہتے کہ تو اپنا سارا مال صدقہ کر دے اور خود ضائع ہو جا بلکہ اپنی آخرت کے لیے خرچ کر اور اپنی دنیا سے اس طرح فائدہ اٹھا جس سے تیرے دین کو نقصان پہنچے نہ تیری آخرت خراب ہو۔ ﴿وَاَحْسِنْ ﴾ ’’اور بھلائی کر‘‘ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ﴿ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ﴾ ’’جیسے اللہ تعالیٰ نے (تجھے یہ مال و دولت عطا کر کے) تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔‘‘ ﴿ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ﴾ اور تکبر کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور منعم کو فراموش کر کے نعمتوں میں مشغول ہو کر زمین میں فساد برپا نہ کر ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ بلکہ فساد برپا کرنے پر انھیں سخت سزا دیتا ہے۔
#
{78} فَـ {قَالَ} قارونُ رادًّا لنصيحتِهِم كافراً لنعمةِ ربِّه: {إنَّما أوتيتُهُ على علم عندي}؛ أي: إنَّما أدركتُ هذه الأموالَ بكسبي ومعرفتي بوجوه المكاسب وحِذْقي. أو: على علم من اللهِ بحالي؛ يعلمُ أنِّي أهلٌ لذلك؛ فلم تنصحوني على ما أعطاني الله؟! قال تعالى مبيِّناً أنَّ عطاءَه ليس دليلاً على حسنِ حالةِ المُعْطَى: {أوَلَمْ يعلمْ أنَّ الله قد أهْلَكَ من قبلِهِ من القرونِ مَنْ هو أشدُّ منه قوَّةً وأكثرُ جمعاً}: فما المانعُ من إهلاك قارون مع مضيِّ عادتِنا وسنَّتِنا بإهلاك مَن هُو مثلُه وأعظمُ منه إذا فَعَلَ ما يوجِب الهلاك؟! {ولا يُسْألُ عن ذنوبِهِمُ المجرمونَ}: بل يعاقِبُهم الله ويعذِّبهم على ما يعلمُه منهم؛ فهم وإن أثْبتوا لأنفسِهِم حالةً حسنةً وشهِدوا لها بالنَّجاة؛ فليس قولُهم مقبولاً، وليس ذلك رادًّا عنهم من العذاب شيئاً؛ لأنَّ ذنوبَهم غيرُ خفيةٍ؛ فإنكارُهم لها لا محلَّ له.
[78] ﴿ قَالَ ﴾ قارون نے اپنی قوم کی خیر خواہی کو ٹھکراتے اور اپنے رب کی ناشکری کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ﴾ ’’یہ (مال) مجھے میرے علم کی وجہ سے ملا ہے۔‘‘ یعنی یہ مال و دولت میں نے اپنے کسب، مختلف مکاسب کے بارے میں اپنی معرفت اور مہارت کے ذریعے سے حاصل کیا ہے۔ یا اس بنا پر یہ مال مجھے حاصل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے حال کا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں اس مال و دولت کا اہل ہوں تب تم اس چیز کے بارے میں مجھے کیوں نصیحت کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر رکھی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش اس بات کی دلیل نہیں کہ جس کو عطا کیا جا رہا ہے اس کے احوال اچھے ہیں … فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ٘ مِنَ الْ٘قُ٘رُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا﴾ ’’کیا اس کو معلوم نہیں کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں ، جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ، ہلاک کرڈالی ہیں ؟‘‘ پس دوسرے زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کرنے سے کون سی چیز مانع ہے حالانکہ ان جیسے اور ان سے بھی بڑے لوگوں کو ہلاک کرنے کے متعلق ہماری سنت اور اصول… جب وہ ایسے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان کی ہلاکت کے موجب ہوتے ہیں … گزر چکے ہیں ؟ ﴿ وَلَا یُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’اور گناہ گاروں سے ان کے گناہوں کے متعلق پوچھا نہیں جائے گا۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو سزا دیتا ہے اور ان کی بداعمالیوں پر ان کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ پس اگر وہ اپنے بارے میں حسن احوال کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان احوال کو ذریعۂ نجات سمجھتے ہیں تو ان کا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں اور یہ دعویٰ ان سے عذاب کو دور نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ ان کے کرتوت چھپے ہوئے نہیں ہیں اس لیے ان کا انکار بے محل ہے۔
#
{79} فلم يزل قارونُ مستمرًّا على عنادِهِ وبغيِهِ وعدم قَبول نصيحةِ قومِهِ، فرحاً بطراً، قد أعجبتْه نفسُه وغرَّه ما أوتيه من الأموال، {فخرج} ذات يوم {في زينتِهِ}؛ أي: بحالةٍ أرفع ما يكونُ من أحوال دُنياه، قد كان له من الأموال ما كان، وقد استعدَّ وتجمَّل بأعظم ما يمكنه، وتلك الزينةُ في العادة من مثله تكونُ هائلةً، جمعت زينة الدُّنيا وزهرتها وبهجتها وغضارتها وفخرها، فرمقتْه في تلك الحالة العيونُ، وملأت بَزَّتُه القلوب، واختلبت زينته النفوس، فانقسم فيه الناظرون قسمين، كلٌّ تكلَّم بحسب ما عنده من الهمَّة والرغبة، فَـ {قَالَ الذين يريدونَ الحياة الدنيا}؛ أي: الذين تعلَّقَتْ إرادتُهم فيها، وصارت منتهى رغبتِهِم، ليس لهم إرادةٌ في سواها: {يا ليتَ لنا مثلَ ما أوتي قارونُ}: من الدُّنيا ومتاعها وزهرتها، {إنَّه لذو حظٍّ عظيم}: وصدقوا إنَّه لذو حظٍّ عظيم لو كان الأمر منتهياً إلى رغباتهم وإنَّه ليس وراء الدُّنيا دار أخرى؛ فإنَّه قد أُعْطِيَ منها ما به غايةُ التنعم بنعيم الدنيا، واقتدر بذلك على جميع مطالبه، فصار هذا الحظُّ العظيم بحسب هِمَّتِهم، وإنَّ هِمَّةً جعلت هذا غاية مرادها ومنتهى مطلبها؛ لمن أدنى الهمم وأسفلها وأدناها، وليس لها أدنى صعود إلى المرادات العالية والمطالب الغالية.
[79] قارون اپنے عناد اور سرکشی پر جما رہا اس نے تکبر اور غرور کی بنا پر اپنی قوم کی خیرخواہی کو قبول نہ کیا، وہ خودپسندی میں مبتلا تھا، جو مال و دولت اسے عطا کیا گیا تھا اس نے اسے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ﴿ فَخَرَجَ ﴾ ایک روز باہر آیا ﴿ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ﴾ ’’اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے بڑی ٹھاٹھ باٹھ یعنی وہ اپنے بہترین دنیاوی حال میں اپنی قوم کے سامنے آیا، اس کے پاس بہت زیادہ مال و دولت تھا وہ پوری طرح تیار ہو کر اور پوری سج دھج کے ساتھ، اپنی قوم کے سامنے آیا۔ اس قسم کے لوگوں کی یہ سج دھج، عام طور پر بہت ہی مرعوب کن ہوتی ہے جس میں دنیاوی زیب و زینت، اس کی خوبصورتی، اس کی شان و شوکت، اس کی آسودگی اور اس کا تفاخر سب شامل ہوتے ہیں ۔ قارون کو اس حالت میں آنکھوں نے دیکھا، اس کے لباس کی ہیئت نے دلوں کو لبریز کر دیا اور اس کی سج دھج نے نفوس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ دیکھنے والے دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ہر گروہ نے اپنے اپنے عزم و ہمت اور اپنی اپنی رغبت کے مطابق تبصرہ کیا۔ ﴿ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا ﴾ یعنی وہ لوگ جن کے ارادے صرف دنیاوی شان و شوکت ہی سے متعلق ہیں ، دنیا ہی ان کی منتہائے رغبت ہے اور دنیا کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں انھوں نے کہا: ﴿ یٰؔلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ﴾ ’’کاش ہمیں بھی وہ (دنیاوی سازوسامان اور اس کی خوبصورتی) عطا کر دی جاتی، جس سے قارون کو نوازا گیا ہے۔‘‘ ﴿ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ ’’بے شک وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے۔‘‘ اگر ان کی رغبتوں کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں تو وہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ وہ تو بڑے نصیبے والا ہے کیونکہ وہ دنیا کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہے جن کے ذریعے سے وہ اپنی زندگی کے مطالب و مقاصد کے حصول پر قادر تھا۔ یہ بہرہ وافر لوگوں کے ارادوں کے مطابق تھا۔ یہ ان لوگوں کے ارادے اور ان کے مقاصد و مطالب ہیں جو نہایت گھٹیا ہمتوں کے مالک ہیں ، جن کے ارادے اعلیٰ مقاصد و مطالب کی طرف ترقی کرنے سے قاصر ہیں ۔
#
{80} {وقال الذين أوتوا العلم}: الذين عرفوا حقائقَ الأشياء ونظروا إلى باطن الدنيا حين نظر أولئك إلى ظاهرها: {ويلَكُم}: متوجِّعين من ما تمنَّوا لأنفسهم، راثين لحالهم، منكرين لمقالهم، {ثوابُ الله}: العاجلُ من لذَّة العبادة ومحبَّته والإنابة إليه والإقبال عليه، والآجلُ من الجنَّة وما فيها ممَّا تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعينُ خير من هذا الذي تمنَّيْتُم ورغبتُم فيه؛ فهذه حقيقة الأمر، ولكنْ ما كلُّ مَنْ يعلم ذلك يؤثر الأعلى على الأدنى، فما يُلَقَّى ذلك ويوفَّقُ له {إلاَّ الصابِرونَ}: الذين حبسوا أنفسَهم على طاعة الله وعن معصيتِهِ وعلى أقدارِهِ المؤلمةِ وصبروا على جواذب الدُّنيا وشهواتِها أن تَشْغَلَهم عن ربِّهم وأن تحولَ بينهم وبينَ ما خُلِقوا له؛ فهؤلاء الذين يؤثرون ثوابَ الله على الدُّنيا الفانية.
[80] ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ﴾ ’’اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے۔‘‘ وہ لوگ جو اشیاء کے حقائق کی معرفت رکھتے تھے اور جب وہ دنیا کے ظاہری روپ کو دیکھتے تھے تو اس کے باطن پر بھی ان کی نظر جاتی تھی۔ ﴿ وَیْلَكُمْ ﴾ ’’تم پر افسوس‘‘ ان کے حال کو دیکھتے، ان کی تمناؤں پر دکھ محسوس کرتے اور ان کی بات پر نکیر کرتے ہوئے کہا: ﴿ ثَوَابُ اللّٰهِ ﴾ ثواب عاجل یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت کی لذت، اس کی طرف انابت، اس کی طرف اقبال اور ثواب آخرت یعنی جنت کی نعمتیں اور جو کچھ اس میں ہے کہ نفس جن کی خواہش کرتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں ﴿ خَیْرٌ ﴾ ’’بہتر ہے‘‘ اس چیز سے جس کی تم تمنا کر رہے ہو اور جس کی طرف تم رغبت رکھتے ہو۔ یہ تو ہے معاملے کی اصل حقیقت مگر اس حقیقت کا علم رکھنے والے سب لوگ تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ﴿ اِلَّا الصّٰؔبِرُوْنَ ﴾ اس کی توفیق صرف ان لوگوں کو عطا کی گئی ہے جو صبر سے بہرہ ور ہیں اور جن لوگوں نے نافرمانی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پابند کر رکھا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضاوقدر پر صبر کرتے ہیں ، جو اپنے رب کو فراموش کر کے دنیا کی پرکشش لذات و شہوات میں مشغول ہوتے ہیں نہ یہ لذات شہوات ان کے ان مقاصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں جن کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے… یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ثواب کو اس دنیائے فانی پر ترجیح دیتے ہیں ۔
#
{81} فلما انتهت بقارونَ حالةُ البغي والفخرِ، وازَّيَّنت الدُّنيا عنده، وكَثُر بها إعجابُه؛ بَغَتَهُ العذاب، {فَخَسَفْنا به وبدارِهِ الأرضَ}: جزاء من جنس عملِهِ؛ فكما رفع نفسه على عباد الله؛ أنزله الله أسفلَ سافلين هو وما اغترَّ به من داره وأثاثِهِ ومتاعِهِ. {فما كان له من فئةٍ}؛ أي: جماعةٍ وعصبةٍ وخدمٍ وجنودٍ، {ينصرونَه من دونِ الله وما كان من المنتصرين}؛ أي: جاءه العذاب فما نُصِرَ ولا انْتَصَرَ.
[81] جب قارون کی سرکشی اور فخر کی حالت انتہا کو پہنچ گئی اور اس کے سامنے دنیا پوری طرح آراستہ ہو گئی اور دنیا نے اس کو بے انتہا تکبر اور غرور میں ڈال دیا تو اس کو اچانک عذاب نے آ لیا۔ ﴿ فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ﴾ ’’پس ہم نے سزا کے طور پر اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا‘‘ سزا اس کے عمل کی جنس میں سے تھی۔ جس طرح وہ اپنے آپ کو اللہ کے بندوں سے بلند سمجھتا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے، اس کے گھر اور مال و دولت سمیت، جس نے اسے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا، انتہائی پستیوں میں اتار دیا ﴿ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ ﴾ ’’اس کی کوئی جماعت نہ تھی۔‘‘ یعنی کوئی جماعت، گروہ، خدام اور افواج نہ تھیں ﴿ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَمَا كَانَ مِنَ الْ٘مُنْ٘تَصِرِیْنَ ﴾ ’’اللہ کے سوا جو اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔‘‘ یعنی عذاب الٰہی آ پہنچا کسی نے اس کی مددکی نہ وہ کسی سے مدد حاصل کر سکا۔
#
{82} {وأصبح الذين تَمَنَّوا مكانه بالأمس}؛ أي: الذين يريدونَ الحياة الدنيا، الذين قالوا: يا ليت لنا مثل ما أوتي قارونُ {يقولون}: متوجِّعين ومعتَبِرين وخائفينَ من وقوع العذاب بهم: {ويكأنَّ اللهَ يَبْسُطُ الرزقَ لِمَن يشاءُ من عبادِهِ ويقدِرُ}؛ أي: يضيِّقُ الرزق على من يشاء. فعلمنا حينئذٍ أنَّ بسطَه لقارون ليس دليلاً على خير فيه، وأنَّنا غالطون في قولنا: إنَّه لذو حظٍّ عظيم، و {لولا أن مَنَّ الله علينا}: فلم يعاقِبْنا على ما قُلْنا؛ فلولا فضلُه ومنَّتُه؛ {لخسف بنا}: فصار هلاكُ قارون عقوبةً له وعبرةً وموعظةً لغيرِهِ، حتى إنَّ الذين غبطوه سمعتَ كيف ندِموا، وتغيَّر فِكْرُهم الأول، {ويكأنَّه لا يفلحُ الكافرون}؛ أي: لا في الدنيا، ولا في الآخرة.
[82] ﴿ وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ ﴾ ’’اور وہ لوگ جو کل اس کے مقام و مرتبے کی تمنا کرتے تھے۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے اور کہا کرتے تھے: ﴿ یٰؔلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ﴾ ’’کاش ہمیں بھی وہ کچھ مل جاتا جو قارون کو عطا کیا گیا ہے۔‘‘ ﴿ یَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’وہ کہنے لگے‘‘ دکھ محسوس کرتے، عبرت پکڑتے اور ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ بھی عذاب کی گرفت میں نہ آ جائیں : ﴿ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَیَقْدِرُ﴾ ’’ہماری حالت پر افسوس! اللہ اپنے بندوں سے جس کا چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے‘‘ تب ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون کے رزق میں فراخی، اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں کوئی بھلائی ہے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہ تھے ﴿ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ ’’قارون تو بڑے ہی نصیبے والا ہے۔‘‘ ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا﴾ ’’اگر ہم پر اللہ کی عنایت نہ ہوتی‘‘ تو وہ ہماری بات پر ہماری گرفت کرلیتا اور اگر اس کا فضل و کرم نہ ہوتا ﴿ لَخَسَفَ بِنَا﴾ ’’تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔‘‘ قارون کی ہلاکت اس کے لیے سزا اور دوسروں کے لیے عبرت اور نصیحت تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی، جو قارون پر رشک کیا کرتے تھے نادم ہوئے اور قارون کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بدل گیا ﴿ وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْ٘لِحُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور حقیقت یہی ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے‘‘ یعنی دنیا و آخرت میں ۔
آیت: 83 #
{تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (83)}.
یہ گھر آخرت کا کرتے ہیں ہم اس کو ان لوگوں کے لیے جو نہیں چاہتے بڑائی زمین میں اورنہ فساداور (بہترین) انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے (83)
#
{83} لما ذَكَرَ تعالى قارونَ وما أوتيه من الدُّنيا وما صارتْ إليه عاقبةُ أمره، وأنَّ أهل العلم قالوا: ثوابُ الله خيرٌ لمن آمنَ وعمل صالحاً؛ رغَّب تعالى في الدار الآخرة، وأخبر بالسبب الموصل إليها، فقال: {تلك الدارُ الآخرةُ}: التي أخبر الله بها في كتبِهِ وأخبرت بها رسلُه التي قد جمعت كلَّ نعيم واندفع عنها كلُّ مكدِّر ومنغِّص، {نجعلُها}: داراً وقراراً {للذين لا يريدونَ علوًّا في الأرض ولا فساداً}؛ أي: ليس لهم إرادةٌ؛ فكيف العملُ للعلوِّ في الأرض على عبادِ الله والتكبُّر عليهم وعلى الحقِّ؟! {ولا فساداً}: وهذا شاملٌ لجميع المعاصي؛ فإذا كان لا إرادة لهم في العلوِّ في الأرض ولا الفسادِ ؛ لزم من ذلك أن تكون إرادتُهم مصروفةً إلى الله، وقصدُهم الدارَ الآخرة، وحالُهُم التواضعَ لعبادِ الله والانقيادَ للحقِّ والعملَ الصالح، وهؤلاء هم المتَّقون، الذين لهم العاقبة، ولهذا قال: {والعاقبةُ}؛ أي: حالة الفلاح والنجاح التي تستقرُّ وتستمرُّ لمن اتَّقى الله تعالى. وغيرهم، وإنْ حَصَلَ لهم بعضُ الظهور والراحة؛ فإنَّه لا يطولُ وقتُه، ويزولُ عن قريب. وعلم من هذا الحصر في الآية الكريمة أنَّ الذين يريدونَ العلوَّ في الأرض أو الفساد ليس لهم في الدار الآخرة نصيبٌ، ولا لهم منها نصيبٌ.
[83] اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون اور جو کچھ اس کو عطا کیا گیا اور اس کے انجام کا ذکر کیا نیز اہل علم کے اس قول سے آگاہ فرمایا: ﴿ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّ٘مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ ’’اس شخص کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی ترغیب دی اور وہ سبب بیان فرمایا جو آخرت کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا: ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ﴾ ’’آخرت کا یہ گھر‘‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں خبر دی، اس کے رسولوں نے آگاہ کیا، جس میں ہر نعمت جمع کر دی گئی اور جہاں سے ہر تکدر کو دور کر دیا گیا ہے ﴿ نَجْعَلُهَا﴾ ہم اس کو گھر اور ٹھکانا بنا دیں گے ﴿لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا١ؕ وَالْعَاقِبَةُ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے جو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد کرتے ہیں ‘‘ یعنی ان کا زمین میں فساد کرنے کا ارادہ تک نہیں تو پھر زمین میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ تکبر سے پیش آنا اور حق کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ﴿ وَلَا فَسَادًا﴾ ’’اور نہ فساد‘‘ اور یہ تمام معاصی کو شامل ہے۔ جب ان کا زمین میں بڑائی حاصل کرنے اور فساد برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان کے ارادے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مصروف، آخرت کا گھر ان کا مطلوب و مقصود، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا ان کا حال ہے، وہ حق کی اطاعت اور عمل صالح میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہی وہ اہل تقویٰ ہیں ، جن کے لیے اچھا انجام ہے بنابریں فرمایا: ﴿ وَالْعَاقِبَةُ ﴾ یعنی فلاح اور کامیابی دائمی طور پر ان لوگوں کا حال ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اگرچہ ان کو کچھ غلبہ اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ لمبی مدت کے لیے نہیں ہوتی، جلد ہی زائل ہو جا تی ہے۔ آیت کریمہ میں اس حصر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ زمین میں بڑائی یا فساد کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لیے آخرت کے گھر میں کوئی حصہ نہیں ۔
آیت: 84 #
{مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (84)}.
جو کوئی لائے گا نیکی اس کے لیے بہت بہتر (بدلہ) ہو گا اس (نیکی) سے اور جو کوئی لائے گابرائی تو نہیں بدلہ دیے جائیں گے وہ لوگ جنھوں نے عمل کیے برے مگر جو کچھ کہ تھے وہ عمل کرتے (84)
#
{84} يخبر تعالى عن مضاعفة فضلِهِ وتمام عدلِهِ، فقال: {من جاء بالحسنة}: شَرَطَ فيها أنْ يأتي بها العاملُ؛ لأنه قد يَعْمَلُها ولكن يقترن بها ما لا تُقْبَلُ منه أو يُبْطِلُها؛ فهذا لم يجِئْ بالحسنة، والحسنةُ اسم جنس يشملُ جميعَ ما أمر الله به ورسولُه من الأقوال والأعمال الظاهرة والباطنة المتعلِّقة بحقِّه تعالى وحقوق العباد ، {فله خيرٌ منها}؛ أي: أعظم وأجلُّ، وفي الآية الأخرى: {فله عَشْرُ أمثالِها}: هذا التضعيف للحسنةِ لا بدَّ منه، وقد يقترنُ بذلك من الأسباب ما تزيدُ به المضاعفة؛ كما قال تعالى: {والله يضاعِفُ لِمَن يشاءُ واللهُ واسعٌ عليمٌ}: بحسب حالِ العاملِ وعملِهِ ونفعِهِ ومحلِّه ومكانِهِ، {ومن جاء بالسيِّئةِ}: وهي كلُّ ما نهى الشارعُ عنه نهي تحريم؛ {فلا يُجْزى الذين عَمِلوا السيئاتِ إلاَّ ما كانوا يعملونَ}؛ كقوله تعالى: {مَن جاء بالحسنةِ فله عشرُ أمثالِها ومن جاءَ بالسيِّئةِ فلا يُجْزى إلاَّ مثلَها وهم لا يُظلمون}.
[84] اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے کئی گنا زیادہ ہونے اور اپنے عدل کامل کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے: ﴿مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ ﴾ ’’جو شخص نیکی لے کر آئے گا۔‘‘ اس میں شرط عائد کی گئی ہے کہ عامل نیکی کے ساتھ آئے کیونکہ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کوئی نیکی کرتا ہے اور اس نیکی کے ساتھ کچھ ایسے اعمال بھی ہوتے ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتے یا وہ اس نیکی کو باطل کر دیتے ہیں … تو یہ شخص درحقیقت نیکی لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر نہیں ہوتا۔ ﴿الْحَسَنَةِ﴾’’نیکی‘‘ یہاں اسم جنس ہے جو ان تمام امور کو شامل ہے جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(e) نے حکم دیا ہے ، مثلاً: حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق تمام اقوال اور تمام ظاہری اور باطنی اعمال ﴿ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّؔنْهَا﴾ ’’تو اس کے لیے اس سے بہتر نیکی ملے گی‘‘ یعنی اس کی جزا زیادہ بڑی اور زیادہ جلیل القدر ہے ایک اور آیت کریمہ میں آتا ہے: ﴿ فَلَهٗ عَشْ٘رُ اَمْثَالِهَا ﴾ (الانعام:6؍160) ’’اس کے لیے ویسی ہی دس نیکیاں ہیں ۔‘‘ نیکی کا اس طرح کئی گنا ہونا لازمی امر ہے۔ بسااوقات اس کے ساتھ کچھ اسباب مقرون ہوتے ہیں جو اس کو اور زیادہ کر دیتے ہیں : ﴿ وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ:2؍261) ’’اللہ جس کی نیکیوں کو چاہتا ہے کئی گنا کر دیتا ہے، وہ بہت وسعت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ اور یہ اضافہ نیکی کرنے والے کے حال، اس کے اس نیک عمل، اس عمل کے فائدے اور اس کے محل و مقام کے مطابق ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ ﴾ ’’اور جو شخص برائی لے کر آئے‘‘ یہاں ﴿السَّیِّئَةِ ﴾ ’’برائی‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کو شارع نے حرام ٹھہرا کر اس سے روک دیا ہو ﴿ فَلَا یُجْزَى الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تو ایسے لوگوں کو برائیوں کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جس قدر انھوں نے کی ہوں گی‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْ٘رُ اَمْثَالِهَا١ۚ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ﴾ (الانعام:6؍160) ’’جو کوئی اللہ کے حضور ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے ویسی ہی دس نیکیاں ہیں اور جو کوئی ایک برائی لے کر حاضر ہو گا تو اس کو صرف اتنی ہی سزا ملے گی جتنی اس نے برائی کی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
آیت: 85 - 88 #
{إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بِالْهُدَى وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (85) وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِلْكَافِرِينَ (86) وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنْزِلَتْ إِلَيْكَ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (87) وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (88)}.
بلاشبہ وہ جس نے نازل کیا آپ پر قرآن البتہ وہ لوٹانے والا ہے آپ کو (آپ کے) لوٹنے کی جگہ کی طرف، کہہ دیجیے! میرا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو جو آیا ہے ساتھ ہدایت کےاوراس کو بھی جو ہے گمراہی ظاہر میں (85) اور نہیں تھے آپ امید رکھتے یہ کہ القا کی جائے گی آپ کی طرف (یہ) کتاب مگر (القا کی گئی ہے) رحمت سے آپ کے رب کی، پس نہ ہوں آپ ہرگز مدد گار کافروں کے لیے (86) اور نہ روک دیں وہ آپ کو اللہ کی آیتوں سے بعد اس کے جب وہ نازل کی گئیں آپ کی طرف اور آپ بلائیں اپنے رب کی طرف اور ہرگز نہ ہوں آپ مشرکوں میں سے (87) اورنہ پکاریں آپ ساتھ اللہ کے کسی اور معبود کو، نہیں کوئی معبود مگر وہی، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے اسی کے لیے ہے حکم اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تم (سب)(88)
#
{85} يقول تعالى: {إنَّ الذي فَرَضَ عليك القرآنَ}؛ أي: أنزله، وفرضَ فيه الأحكام، وبيَّن فيه الحلال والحرام، وأمرك بتبليغِهِ للعالمين والدعوةِ لأحكامِهِ جميع المكلَّفين؛ لا يليقُ بحكمته أنْ تكون الحياة هي الحياةَ الدُّنيا فقط من غير أن يُثاب العبادُ ويعاقَبوا، بل لا بدَّ أن يَرُدَّكَ إلى معادٍ يُجازَى فيه المحسنونَ بإحسانهم والمسيئون بمعصِيَتِهِم، وقد بيَّنت لهم الهدى وأوضحت لهم المنهجَ؛ فإنْ تَبِعوكَ؛ فذلك حظُّهم وسعادتُهم، وإنْ أبَوْا إلاَّ عِصْيانَكَ والقدحَ بما جئتَ به من الهُدى وتفضيلَ ما معهم من الباطل على الحقِّ؛ فلم يبقَ للمجادلةِ محلٌّ، ولم يبقَ إلاَّ المجازاةُ على الأعمال من العالِمِ بالغيب والشهادة والمحقِّ والمبطل، ولهذا قال: {قل ربِّي أعلمُ مَن جاء بالهدى ومَنْ هو في ضلالٍ مبين}: وقد علم أنَّ رسولَه هو المهتدي الهادي، وأنَّ أعداءَه هم الضالُّون المضلُّون.
[85] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ ﴾ ’’جس (اللہ) نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرض کیا ہے۔‘‘ یعنی جس ہستی نے آپ پر قرآن نازل کیا، اس میں احکام فرض كيے، اس میں حلال اور حرام کو واضح کیا، آپ کو اسے تمام لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا، نیز آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام مکلفین کو ان احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیں۔ اس اللہ تعالیٰ کی حکمت کے لائق نہیں کہ صرف اسی دنیا کی زندگی ہوتی اور بندوں کو جزا و سزا نہ دی جاتی بلکہ ضروری ہے کہ وہ آپ کو (معاد) ’’انجام کار‘‘ کی طرف لوٹائے جہاں نیکوکاروں کو ان کی نیکی کی جزا دی جائے اور بدکاروں کو ان کے گناہوں کی سزا۔ آپ نے ان کے سامنے ہدایت کو کھول کھول کر بیان کر دیا اور ہدایت کے راستے کو واضح کر دیا ہے اب اگر وہ آپ کی پیروی کریں تو یہ ان کی خوش نصیبی اور سعادت مندی ہے اور اگر وہ آپ کی مخالفت پر ڈٹ جائیں ، اس ہدایت میں جرح و قدح کریں جسے آپ لے کر آئے ہیں اور اپنے باطل موقف کو حق پر ترجیح دیں تو بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور غیب و موجود کا علم رکھنے والی اس ہستی کی طرف سے ان کے اعمال کی جزا کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا جو حق کا احقاق اور باطل کا ابطال کرتی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ قُ٘لْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰؔى وَمَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کا رسول (e)خود راہ راست پر گامزن اور راہ راست کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ اور آپ کے دشمن گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں ۔
#
{86} {وما كنتَ تَرْجو أن يُلْقى إليك الكتابُ}؛ أي: لم تكنْ متحرِّياً لنزول هذا الكتاب عليك، ولا مستعدًّا له، ولا متصدِّياً، {إلاَّ رحمةً من ربِّك}: بك وبالعباد، فأرسلك بهذا الكتاب الذي رَحِمَ به العالمينَ، وعلَّمهم ما لم يكونوا يعلَمون، وزكَّاهم وعلَّمهم الكتاب والحكمة، وإنْ كانوا من قبلُ لَفي {ضلال مبينٍ}: فإذا علمتَ أنَّه أنزله إليك رحمةً منه؛ علمتَ أنَّ جميع ما أمر به ونهى عنه؛ فإنَّه رحمةٌ وفضلٌ من الله؛ فلا يكنْ في صدرِك حرجٌ من شيءٍ منه، وتظنَّ أنَّ مخالِفَه أصلحُ وأنفع، {فلا تكوننَّ ظهيراً للكافرينَ}؛ أي: معيناً لهم على ما هو من شُعَبِ كفرِهم، ومن جملة مظاهَرَتِهم أن يُقال في شيءٍ منه: إنَّه خلافُ الحكمة والمصلحة والمنفعة.
[86] فرمایا: ﴿ وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّ٘لْ٘قٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ ﴾ یعنی آپ اس بات کے خواہش مند نہ تھے کہ یہ کتاب آپ پر نازل کی جاتی اور نہ اس کے لیے تیار تھے اور نہ اس کے درپے تھے ﴿ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ یہ تو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اور بندوں پر بے پایاں رحمت تھی کہ اس نے آپ کو اس کتاب کے ساتھ مبعوث کیا، اس نے تمام جہانوں پر رحم فرمایا اور انھیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے، انھیں پاک کیا اور انھیں کتاب و حکمت کا علم سکھایا اگرچہ اس سے پہلے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے رحمت کے طور پر آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ تمام امور جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل و کرم ہے، اس لیے آپ کے دل میں کسی قسم کی کچھ تنگی نہ ہو اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ جو کچھ اس کے خلاف ہے، زیادہ درست اور زیادہ نفع مند ہے۔ ﴿ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ یعنی کفار کے کفر پر ان کی اعانت نہ کیجیے۔ کفار کے کفر پر منجملہ اعانت یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا حکم کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حکمت، مصلحت اور منفعت کے خلاف ہے۔
#
{88} {ولا تَدْعُ مع الله إلهاً آخرَ}: بل أخلِصْ لله عبادتَك؛ فإنَّه {لا إله إلاَّ هو}: فلا أحدَ يستحقُّ أن يؤلَّه ويحبَّ ويعبدَ إلاَّ الله الكامل الباقي الذي {كلُّ شيءٍ هالكٌ إلاَّ وَجْهَه}: وإذا كان كلُّ شيءٍ هالكٌ مضمحلٌّ سواه؛ فعبادة الهالك الباطل باطلةٌ ببطلان غايتها وفساد نهايتها، {له الحكمُ}: في الدُّنيا والآخرة، {وإليه}: لا إلى غيره {تُرْجَعون}: فإذا كان ما سوى الله باطلاً هالكاً، والله هو الباقي الذي لا إله إلاَّ هو، وله الحكم في الدُّنيا والآخرة، وإليه مرجِعُ الخلائق كلِّهم؛ ليجازِيَهم بأعمالهم؛ تعيَّن على مَنْ له عقلٌ أنْ يعبدَ الله وحدَه لا شريك له، ويعملَ لما يقرِّبُه ويُدْنيه، ويحذَرَ من سخطِهِ وعقابِهِ، وأن يُقْدِمَ على ربِّه غير تائبٍ ولا مقلع عن خطئِهِ وذنوبِهِ.
[87] ﴿وَلَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْكَ ﴾ ’’اور وہ تمھیں اللہ کی آیتوں سے بعد اس کے کہ وہ آپ پر نازل ہوچکی ہیں روک نہ دیں ۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو آگے پہنچائیے، ان کے احکام کو نافذ کیجیے، ان کی چالوں کی پروا نہ کیجیے، کفار آپ کو ان آیات کے بارے میں فریب میں مبتلا نہ کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ ﴿ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ﴾ یعنی اپنے رب کی طرف دعوت کو اپنا منتہائے مقصود اور اپنے عمل کی غرض و غایت بنائیے اور جو چیز بھی اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دیجیے ، مثلاً: ریا، شہرت کی طلب اور اہل باطل کی اغراض کی موافقت وغیرہ۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں اہل باطل کی معیت اور ان کے امور میں ان کی اعانت کی داعی ہیں ﴿ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْ٘مُشْ٘رِكِیْنَ﴾ یعنی ان کے ساتھ ان کے شرک میں شامل ہوں نہ اس کی فرع میں ۔ شرک کی فروع سے مراد تمام گناہ ہیں ۔
[88] ﴿ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ﴾ ’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا۔‘‘ بلکہ اپنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص رکھیے! ﴿ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی کامل اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہستی کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جس کو الٰہ بنایا جائے، اس سے محبت کی جائے اور اس کی عبادت کی جائے ﴿ كُ٘لُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ﴾ ’’اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز مضمحل ہو کر ہلاک ہونے والی ہے تو ہلاکت کا شکار ہونے والی باطل ہستی کی عبادت بھی انتہائی باطل ہے۔ ﴿ لَهُ الْحُكْمُ ﴾ دنیا و آخرت میں اسی کا حکم نافذ ہے۔ ﴿ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ’’اور تمھیں صرف اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز باطل اور ہلاک ہونے والی ہے اور اللہ باقی رہنے والا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی تمام خلائق کا مرجع ہے تاکہ وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔ جس شخص میں ادنیٰ سی بھی عقل ہے اس کے سامنے یہ حقیقت متعین ہو گئی کہ صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے ایسے اعمال كيے جائیں جو اس کے تقرب کاذریعہ ہیں ، اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچا جائے اور اس چیز سے بھی بچا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عدم توبہ کی حالت میں اور گناہ اور خطاؤں کو ختم كيے بغیر حاضر ہوا جائے۔