آیت:
تفسیر سورۂ عنکبوت
تفسیر سورۂ عنکبوت
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (3)}.
الٓمّٓ(1)کیا گمان کیا ہے لوگوں نے یہ کہ چھوڑدیے جائیں گے (صرف) یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائےاور وہ نہیں آزمائے جائیں گے (2) اور البتہ تحقیق آزمایا تھا ہم نے ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے پس البتہ ضرور جان لے گا اللہ ان لوگوں کوجنھوں نے سچ بولااور البتہ وہ ضرور جان لے گا ان کو جو جھوٹے ہیں (3)
#
{1 ـ 3} يخبر تعالى عن تمام حكمتِهِ، وأنَّ حكمته لا تقتضي أنَّ كلَّ مَنْ قال إنَّه مؤمنٌ وادَّعى لنفسه الإيمان؛ أن يَبْقَوا في حالة يَسْلَمون فيها من الفتن والمحن، ولا يَعْرِضُ لهم ما يشوِّش عليهم إيمانَهم وفروعه؛ فإنَّهم لو كان الأمر كذلك؛ لم يتميَّزِ الصادقُ من الكاذب والمحقُّ من المبطل، ولكن سنَّته وعادته في الأولين وفي هذه الأمة أنْ يَبْتَلِيَهُم بالسرَّاء والضرَّاء والعسر واليسر والمنشط والمكره والغنى والفقر وإدالةِ الأعداء عليهم في بعض الأحيان ومجاهدةِ الأعداء بالقول والعمل ونحو ذلك من الفتن، التي ترجِعُ كلُّها إلى فتنة الشبهات المعارِضَة للعقيدة والشهواتِ المعارضة للإرادة؛ فمن كان عند ورودِ الشُّبُهات يَثْبُتُ إيمانُه ولا يتزلزل ويدفَعُها بما معه من الحقِّ، وعند ورود الشهواتِ الموجبة والداعية إلى المعاصي والذُّنوب أو الصارفة عن ما أمر اللهُ به ورسولُه، يعملُ بمقتضى الإيمان ويجاهدُ شهوتَه؛ دلَّ ذلك على صدق إيمانِهِ وصحَّته، ومن كان عند ورود الشُّبُهات تؤثِّر في قلبه شكًّا وريباً، وعند اعتراض الشهواتِ تَصْرِفُه إلى المعاصي أو تَصْدِفُه عن الواجبات؛ دلَّ ذلك على عدم صحَّة إيمانه وصدقه. والناس في هذا المقام درجاتٌ لا يحصيها إلاَّ الله؛ فمستقلٌّ ومستكثرٌ. فنسألُ الله تعالى أن يُثَبِّتَنا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة، وأن يثبِّتَ قلوبَنا على دينه؛ فالابتلاءُ والامتحانُ للنفوس بمنزلة الكيرِ يُخْرِجُ خَبَثَها وطيبَها.
[3-1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں کہ جس کسی نے کہہ دیا کہ ’’وہ مومن ہے‘‘ اور وہ ایمان کا دعویٰ کرے … اسے ایسی حالت میں باقی رکھا جائے کہ جس میں وہ آزمائش و ابتلا سے سلامت رہے گا اور اسے کوئی ایسا امر پیش نہیں آئے گا جو اس کے ایمان اور اس کی فروع کو مضطرب کرے اور اگر معاملہ اسی طرح ہو تو سچے اور جھوٹے، حق اور باطل میں امتیاز نہیں ہو سکتا لیکن اس کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی، راحت اور مشقت، بشاشت اور ناگواری، فراخی اور محتاجی، بعض اوقات دشمنوں کی فتح و غلبہ اور دشمنوں کے خلاف قول و فعل کے ساتھ جہاد وغیرہ جیسی آزمائشوں کے ذریعے سے آزماتا ہے جو تمام تر شبہات کے فتنے کی طرف لوٹتی ہیں جو عقیدہ کی معارض ہیں اور شہوات کی طرف لوٹتی ہیں ، جو ارادے کی معارض ہیں ۔ شبہات کے وارد ہونے کے وقت جس کسی کا ایمان مضبوط رہتا ہے اور متزلزل نہیں ہوتا اور اس حق کے ذریعے سے شبہات کو دور کرتا ہے جو اس کے پاس ہے اور ان شہوات کے وارد ہونے کے وقت… جو گناہ اور معاصی کے موجب اور داعی ہیں یا وہ اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم سے روگرداں کرتے ہیں … ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے، اپنی شہوات کے خلاف جدوجہد کرتا ہے یہ چیز اس کے ایمان کی صداقت اور صحت پر دلالت کرتی ہے۔ شبہات کے وارد ہونے کے وقت جس کسی کے دل میں شک وریب جڑ پکڑ لیتا ہے اور شہوات کے پیش آنے پر شہوات اسے گناہوں کی طرف موڑ دیتی یا واجبات کی ادائیگی سے روک دیتی ہیں تو یہ چیز اس کے ایمان کی عدم صحت اور عدم صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ اس مقام پر لوگ بہت سے درجات میں منقسم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا کچھ لوگوں کے پاس بہت قلیل ایمان اور کچھ لوگ اس سے بہت زیادہ سے بہرہ ور ہیں ۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت کی زندگی میں قول ثابت کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا کرے اور ہمیں اپنے دین پر ثبات سے سرفراز کرے۔ ابتلا اور امتحان نفوس انسانی کے لیے ایک بھٹی کی مانند ہے جو اچھی چیز میں سے گندگی اور میل کچیل کو نکال باہر کرتی ہے۔
آیت: 4 #
{أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَنْ يَسْبِقُونَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (4)}.
کیا گمان کیا ہے ان لوگوں نے جو عمل کرتے ہیں برے، یہ کہ وہ بچ نکل جائیں گے ہم سے؟ بہت برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں (4)
#
{4} أي: أحسبَ الذين همُّهم فعلُ السيئات وارتكابُ الجنايات أنَّ أعمالهم ستُهْمَلُ وأنَّ الله سيغفل عنهم أو يفوتونه؛ فلذلك أقدموا عليها وسَهُلَ عليهم عملها؟! {ساء ما يحكمونَ}؛ أي: ساء حكمهم؛ فإنَّه حكمٌ جائرٌ لتضمُّنه إنكار قدرة الله وحكمتِهِ، وأنَّ لديهم قدرةً يمتنعون بها من عقاب الله، وهم أضعفُ شيء وأعجزه.
[4] یعنی کیا ان لوگوں نے، جن کے ارادوں پر جرائم کا ارتکاب اور برے افعال غالب ہیں ، یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اعمال کو یونہی چھوڑ دیا جائے گا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں عنقریب غافل ہو جائے گا یا وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نکل بھاگیں گے۔ اسی لیے وہ گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ان کے لیے ان گناہوں پر عمل کرنا بہت آسان اور سہل ہے؟ ﴿سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ ﴾ یعنی ان کا فیصلہ بہت برا ہے، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کے انکار کو متضمن ہے نیز ان کے اس دعوے کو متضمن ہے کہ ان میں اتنی طاقت اور قدرت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکیں حالانکہ وہ سب سے کمزور اور سب سے عاجز مخلوق ہیں ۔
آیت: 5 - 6 #
{مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (5) وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (6)}.
جو شخص امید رکھتا ہے ملاقات کی اللہ سے،پس بلاشبہ وعدہ اللہ کا ضرور آنے والا ہے اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (5) اور جو شخص جہاد کرے تو یقینا وہ جہاد کرتا ہے اپنی ذات ہی کے فائدے کے لیے، بے شک اللہ البتہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے (6)
#
{5} يعني: يا أيُّها المحبُّ لربِّه، المشتاق لقربه ولقائه، المسارع في مرضاته! أبشِرْ بقرب لقاء الحبيب؛ فإنَّه آتٍ، وكل ما هو آتٍ قريب ، فتزوَّد للقائِهِ، وسِرْ نحوَه مستصحباً الرجاء مؤمِّلاً الوصول إليه.
[5] اے اپنے رب کے ساتھ محبت کرنے والے! اس کے قرب اور اس کی ملاقات کا اشتیاق رکھنے والے! اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے والے! اپنے محبوب کی ملاقات کے وقت کے قریب آنے پر خوش ہو جا کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے اور ہر آنے والا وقت قریب ہوتا ہے۔ اپنے محبوب کی ملاقات کے لیے زادراہ لے کر، امید کو اپنا ساتھی بنا کر اور محبوب کے وصل کی آرزو کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہو جا۔
#
{6} ولكن ما كل من يدَّعي يُعطى بدعواه، ولا كل من تمنَّى يُعطى ما تمنَّاه؛ فإنَّ الله سميعٌ للأصوات عليم بالنيَّات؛ فمن كان صادقاً في ذلك؛ أناله ما يرجو، ومن كان كاذباً؛ لم تنفعْه دعواه، وهو العليم بمن يَصْلُحُ لحبِّه ومن لا يصلح، {ومَنْ جاهَدَ}: نفسه وشيطانَه وعدوَّه الكافر؛ {فإنَّما يجاهدُ لنفسِهِ}: لأنَّ نفعَه راجعٌ إليه، وثمرته عائدةٌ إليه، والله غنيٌّ عن العالمين، لم يأمرهم بما أمرهم به لينتفعَ به، ولا نهاهم عمَّا نهاهم عنه بخلاً منه عليهم، وقد علم أنَّ الأوامر والنواهي يحتاج المكلَّف فيها إلى جهادٍ؛ لأنَّ نفسه تتثاقل بطبعها عن الخير، وشيطانَه ينهاه عنه، وعدوَّه الكافر يمنعه من إقامة دينه كما ينبغي، وكل هذه معارضاتٌ تحتاج إلى مجاهداتٍ وسعي شديد.
[6] مگر ہر شخص کو، اس کے دعویٰ کرنے پر عطا نہیں کر دیا جاتا اور نہ اس کی ہر تمنا پوری کر دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آوازوں کو سننے والا اور نیتوں کو جاننے والا ہے اس لیے جو کوئی اپنے دعوے اور تمناؤں میں سچا ہے اللہ تعالیٰ اس کی امیدوں کو پورا کر دیتا ہے اور جو کوئی اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اس کا دعویٰ اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی محبت کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں ۔ ﴿ وَمَنْ جَاهَدَ ﴾ جس نے اپنے نفس، شیطان اور کافر دشمن کے خلاف جہاد کیا ﴿ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ ﴾ ’’تووہ اپنے ہی فائدے کے لیے جہاد کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اس جہاد کا فائدہ اور اس کا ثمرہ اسی کی طرف لوٹتا ہے اور اللہ تو تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہو گا اور نہ اللہ تعالیٰ نے بخل کی بنا پر بعض چیزوں سے روک رکھا ہے۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اوامرونواہی میں ، مکلف جدوجہد کا محتاج ہے کیونکہ اس کا نفس طبعاً نیکی کرنے میں سستی کرتا ہے، اس کا شیطان اسے نیکی کی راہ سے روکتا ہے اور اس کا کافر دشمن اسے اقامت دین سے منع کرتا ہے ان تمام معارضات کو دور کرنے کے لیے مجاہدے اور سخت کوشش کی ضرورت ہے۔
آیت: 7 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (7)}.
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، البتہ ضرور مٹا دیں گے ہم ان سے برائیاں ان کی اور البتہ ضرور جزا دیں گے ہم انھیں بہترین ان کی جو تھے وہ عمل کرتے (7)
#
{7} يعني: أنَّ الذين منَّ الله عليهم بالإيمان والعمل الصالح سيكفِّرُ الله عنهم سيئاتهم؛ لأنَّ الحسنات يُذْهِبْن السيئات، {ولَنَجْزِيَنَّهم أحسنَ الذي كانوا يعملون}؛ وهي أعمال الخير من واجبات ومستحبات، فهي أحسن ما يعمل العبد؛ لأنَّه يعمل المباحات أيضاً وغيرها.
[7] یعنی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح سے نوازا، وہ ان کے گناہوں کو ختم کر دے گا کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ﴿ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور ہم ان کو ان کے اعمال کابہت اچھا صلہ دیں گے۔‘‘ اس سے مراد اعمال خیر ہیں ، مثلاً:واجبات و مستحباب وغیرہ اور یہ بندے کے بہترین اعمال ہیں کیونکہ بندہ مباح کام بھی کرتا ہے۔
آیت: 8 #
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (8)}.
اور وصیت کی ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کر نے کی اور اگر وہ کوشش کریں تیرے ساتھ کہ شریک ٹھہرائے تو میرے ساتھ اس چیز کو کہ نہیں تجھے اس کا کوئی علم تو نہ اطاعت کر تو ان دونوں کی، میری طرف واپسی ہے تمھاری، پس میں خبر دوں گا تمھیں اس کی جو کچھ کہ تھے تم عمل کرتے (8)
#
{8} أي: وأمرنا الإنسان ووصَّيْناه بوالديه حُسناً؛ أي: ببرِّهما والإحسان إليهما بالقول والعمل، وأن يحافظَ على ذلك ولا يعقهما ويسيء إليهما في قوله وعمله، {وإن جاهداك} على أن تشرك {بي ما ليسَ لك به علمٌ}: وليس لأحدٍ علمٌ بصحَّة الشرك بالله، وهذا تعظيمٌ لأمر الشرك. {فلا تُطِعْهُما إليَّ مرجِعُكم فأنبِّئُكُم بما كنتُم تعملونَ}: فأجازيكم بأعمالكم؛ فبرُّوا والديكم، وقدِّموا طاعتهما إلاَّ على طاعة الله ورسوله؛ فإنَّها مقدَّمة على كل شيء.
[8] یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا اور اس کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے یعنی وہ اپنے قول و فعل کے ذریعے سے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے اس رویے کی حفاظت کرے، نیز وہ اپنے قول و فعل میں والدین کی نافرمانی کرے نہ ان کے ساتھ برا سلوک کرے۔ ﴿وَاِنْ جَاهَدٰؔكَ لِتُشْ٘رِكَ بِیْ مَا لَ٘یْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ﴾ ’’اور اگر وہ (والدین) دونوں تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے جبکہ حقیقت سے تجھے واقفیت نہیں ۔‘‘ اور کسی کے پاس شرک کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس آیت کریمہ میں شرک کے معاملے کی اہمیت کی بنا پر یہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ ﴿ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تو ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میری ہی طرف ہی لوٹ کر آنا ہے، پھر جو کچھ تم کرتے تھے میں تم کو بتاؤں گا۔‘‘ پس میں تمھارے اعمال کی جزا دوں گا۔ اس لیے تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ان کی اطاعت کو ہر شخص کی اطاعت پر مقدم رکھو، سوائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت ہر چیز پر مقدم ہے۔
آیت: 9 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ (9)}.
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک ، البتہ ہم ضرور داخل کریں گے انھیں نیک صالح لوگوں میں (9)
#
{9} أي: مَنْ آمن بالله وعمل صالحاً؛ فإنَّ الله وعده أن يُدْخِلَه الجنة في جملة عباد الله الصالحين من النبيِّين والصديقين والشهداء والصالحين، كلٌّ على حسب درجته ومرتبته عند الله؛ فالإيمان الصحيح والعمل الصالح عنوانٌ على سعادة صاحبه، وأنَّه من أهل الرحمن والصالحين من عباد الله.
[9] جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اس نے نیک عمل كيے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اسے اپنے نیک بندوں کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر ایک کا اپنا اپنا درجہ اور اپنا اپنا مرتبہ ہے۔ ایمان صحیح اور عمل صالح، بندے کی سعادت کا عنوان ہے اور بے شک وہ اہل رحمان میں سے اور اللہ کے نیک بندوں میں سے ہے۔
آیت: 10 - 11 #
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ (10) وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ (11)}.
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں ایمان لائے ہم اللہ پر، پھر جب ایذا دیا جاتا ہے وہ اللہ (کی راہ) میں تو بناتا ہے وہ ایذا رسانی کو لوگوں کی، مانند عذاب کی اللہ کے اور البتہ اگر آجائے مدد آپ کے رب کی طرف سے تو وہ ضرور کہیں گے، بلاشبہ ہم تو تھے تمھارے ساتھ ہی، کیا نہیں ہے اللہ خوب جاننے والا اس کو جو کچھ ہے سینوں میں جہاں والوں کے؟ (10)اور ضرور جان لے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائےاور ضرور جان لے گا منافقوں کو بھی (11)
#
{10 ـ 11} لما ذكر تعالى أنَّه لا بدَّ أن يَمْتَحِنَ من ادَّعى الإيمان؛ ليظهر الصادقُ من الكاذب؛ بيَّن تعالى أنَّ من الناس فريقاً لا صبر لهم على المحن ولا ثبات لهم على بعض الزلازل، فقال: {ومن الناس مَن يقولُ آمنَّا بالله فإذا أوذي في الله}: بضربٍ أو أخذِ مال أو تعييرٍ؛ ليرتدَّ عن دينه، وليراجع الباطل؛ {جَعَلَ فتنةَ الناس كعذابِ الله}؛ أي: يجعلها صادةً له عن الإيمان والثبات عليه؛ كما أنَّ العذاب صادٌّ عما هو سببه. {ولَئِن جاء نصرٌ من ربِّك ليقولنَّ إنَّا كنَّا معكم}: لأنَّه موافقٌ للهوى. فهذا الصنف من الناس من الذين قال الله فيهم: {ومن الناس من يعبدُ الله على حرفٍ فإنْ أصابَه خيرٌ اطمأنَّ به وإنْ أصابَتْه فتنةٌ انقلبَ على وجهِهِ خسر الدنيا والآخرة ذلك هو الخسران المبين}. {أو ليسَ الله بأعلَمَ بِمَا في صُدُورِ العَالَمِينَ}: حيث أخبركم بهذا الفريق الذي حالُه كما وَصَفَ لكم، فتعرِفون بذلك كمالَ علمهِ وسعةِ حكمتِهِ. {ولَيَعلَمَنَّ الله الذِينَ آمَنُوا ولَيَعلَمَنَّ المُنَافِقِينَ}؛ أي: فلذلك قَدَّرَ مِحَناً وابتلاءً؛ ليظهر علمه فيهم، فيجازيهم بما ظهر منهم، لا بما يعلمه بمجرَّده؛ لأنَّهم قد يحتجُّون على الله أنهم لو ابْتُلوا لَثَبَتوا.
[11,10] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس شخص کی آزمائش ہونا لازمی ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق ظاہر ہو جائے تو یہ بھی واضح کر دیا کہ لوگوں میں سے ایک گروہ محن و ابتلا پر صبر نہیں کر سکتا بعض تکلیفوں اور مصیبتوں پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ ﴾ ’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور جب ان کو اللہ (کے راستے) میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ مار کر مال چھین کر اور عار دلا کر اسے اذیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر باطل کی طرف لوٹ آئے ﴿ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ﴾ ’’تو لوگوں کی تکلیف (یوں ) سمجھتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب۔‘‘ لوگوں کی ایذا رسانی انھیں متزلزل کر کے ایمان سے روک دیتی ہے جیسے عذاب انھیں اس چیز سے روک دیتا ہے جو اس عذاب کی باعث بنتی ہے۔ ﴿ وَلَىِٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُ٘نَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ﴾ ’’اور اگر تمھارے رب کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں ہم تو تمھارے ساتھ تھے۔‘‘ کیونکہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے۔ یہ لوگوں کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُنِ انْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ (الحج:22؍11) ’’اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر بھلائی پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور کوئی مصیبت آ جائے تو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں ہے اور یہ واضح خسارہ ہے۔‘‘ ﴿ اَوَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’کیا جو جہاں والوں کے سینوں میں ہے اللہ اس سے واقف نہیں ؟‘‘ اس نے تمھیں اس فریق کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا حال وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وصف بیان فرمایا ہے پس تم اس بات سے اس کے کامل علم اور بے پایاں حکمت کو جان سکتے ہو۔ ﴿ وَلَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَ٘یَ٘عْلَ٘مَنَّ الْ٘مُنٰفِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ان کو ضرور معلوم کرلے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرلے گا۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آزمائش و ابتلا مقرر کی ہے تاکہ ان کے بارے میں اپنا علم ظاہر کرے اور ان سے جو اعمال ظاہر ہوتے ہیں ان کے مطابق ان کو جزا دے اور مجرد اپنے علم ہی پر ان کو جزاوسزا نہ دے کیونکہ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حجت پیش کریں گے کہ اگر ان کو آزمایا گیا ہوتا تو وہ بھی ثابت قدم رہتے۔
آیت: 12 - 13 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (12) وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ (13)}
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے جو ایمان لائے، پیروی کرو تم ہمارے راستے کی اور چاہیے کہ اٹھالیں ہم تمھارے گناہ حالانکہ نہیں وہ اٹھانے والے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی، بلاشبہ وہ جھوٹے ہیں (12) اور البتہ ضرور اٹھائیں گے وہ اپنے بوجھ اور کئی بوجھ (دوسروں کے بھی) ساتھ اپنے بوجھوں کےاور البتہ ضرور پوچھے جائیں گے وہ دن قیامت کے ان باتوں کی بابت جو تھے وہ افتراباندھتے (13)
#
{12} يخبر تعالى عن افتراء الكفار ودعوتِهِم للمؤمنين إلى دينِهِم، وفي ضمن ذلك تحذيرُ المؤمنين من الاغترار بهم والوقوع في مَكْرِهم، فقال: {وقال الذين كَفَروا للذينَ آمنوا اتَّبِعوا سبيلَنا}: فاترُكوا دينَكم أو بعضَه، واتَّبِعونا في دينِنا؛ فإنَّنا نضمنُ لكم الأمر، ونَحْمِلُ {خطاياكم}: وهذا الأمر ليس بأيديهم؛ فلهذا قال: {وما هم بحاملينَ من خطاياهم من شيءٍ}: لا قليل ولا كثيرٍ؛ فهذا التحمُّل ولو رضي به صاحبه؛ فإنَّه لا يفيدُ شيئاً؛ فإنَّ الحقَّ لله، والله تعالى لم يمكِّن العبد من التصرُّف في حقِّه إلاَّ بأمره وحكمِه، وحكمُهُ أن لا تَزِرَ وازرةٌ وِزْرَ أخرى.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی بہتان طرازی اور اہل ایمان کو اپنے دین کی طرف ان کی دعوت کا ذکر کرتا ہے۔ اس ضمن میں اہل ایمان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کفار سے دھوکہ کھائیں نہ اس کی چالوں میں آئیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا ﴾ ’’اور جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے طریق کی پیروی کرو۔‘‘ یعنی اپنے دین یا دین کے کچھ حصے کو ترک کر دو اور ہمارے دین میں ہماری پیروی کرو ہم تمام معاملے کی ذمہ داری لیتے ہیں ۔ ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰؔكُمْ ﴾ ’’اور ہم تمھاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے۔‘‘ حالانکہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَمَا هُمْ بِحٰؔمِلِیْ٘نَ مِنْ خَطٰیٰؔهُمْ مِّنْ شَیْءٍ﴾ ’’حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ اٹھانے والے نہیں ۔‘‘ یعنی وہ کم یا زیادہ، کچھ بھی خطائیں اپنے اوپر نہیں لے سکتے۔ خطاؤں کو اپنے ذمے لینے والا خواہ راضی ہی کیوں نہ ہوں ، وہ کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے حکم کے بغیر اپنے حق میں تصرف کی اجازت نہیں دیتا اور اس کا حکم: ﴿ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾ (النجم:53؍38) ’’کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ کے اصول پر مبنی ہے۔
#
{13} ولمَّا كان قوله: {وما هُم بحاملينَ مِنْ خطاياهم من شيءٍ}: قد يُتَوَهَّم منه أيضاً أنَّ الكفَّار الدَّاعين إلى كفرهم ـ ونحوهم ممَّن دعا إلى باطله ـ ليس عليهم إلاَّ ذنبُهم الذي ارتكبوه دون الذَّنب الذي فعله غيرُهم، ولو كانوا متسبِّبين فيه؛ قال محترِزاً عن هذا الوهم: {وَلَيَحْمِلُنَّ أثْقالَهم}؛ أي: أثقال ذُنوبهم التي عملوها، {وأثقالاً مع أثقالِهِم}: وهي الذُّنوب التي بسببهم ومن جَرَّائهم؛ فالذنبُ الذي فعله التابعُ لكل من التابع والمتبوع حصةٌ منه: هذا لأنَّه فَعَلَه وباشَرَه، والمتبوعُ لأنَّه تسبَّب في فعلِهِ ودعا إليه؛ كما أنَّ الحسنة إذا فعلها التابعُ له أجرُها بالمباشرة وللداعي أجره بالتسبب، {وَلَيُسْألُنَّ يومَ القيامةِ عمَّا كانوا يفترونَ}: من الشرِّ وتزيينه وقولِهِم: {وَلْنَحمِلْ خطاياكم}.
[13] چونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ وَمَا هُمْ بِحٰؔمِلِیْ٘نَ مِنْ خَطٰیٰؔهُمْ مِّنْ شَیْءٍ ﴾ سے یہ وہم بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان کو کفر وغیرہ کی طرف دعوت دینے کا کفار کو صرف وہی گناہ ہوگا جس کا انھوں نے ارتکاب کیا دوسروں کے گناہوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں خواہ وہ دوسروں کے گناہوں کا سبب ہی کیوں نہ بنے ہوں … اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَیَحْمِلُ٘نَّ اَثْقَالَهُمْ ﴾ ’’اور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔‘‘ یعنی اپنے ان گناہوں کا بوجھ جن کا انھوں نے ارتکاب کیا ﴿ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ﴾ ’’اور اپنے بوجھ کے ساتھ اور بوجھ بھی (اٹھائیں گے)۔‘‘ اس سے مراد وہ گناہ ہیں جو ان کے سبب سے اور ان کی جسارت کی بنا پر ان کے اعمال نامے میں لکھے گئے۔ وہ گناہ جس کا ارتکاب کوئی تابع شخص کرتا ہے اس میں تابع اور متبوع دونوں کا حصہ ہوتا ہے تابع کا حصہ اس لیے ہے کہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور متبوع کا حصہ اس لیے کہ وہ اس گناہ کا سبب بنا اور اس نے اس گناہ کی طرف دعوت دی۔ بالکل اسی طرح جب کوئی تابع شخص نیکی کرتا ہے تو نیکی کرنے والے کو اس کا ثواب ملتا ہے اور وہ شخص بھی اس ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے جس نے اسے نیکی کی دعوت دی اور نیکی کا سبب بنا۔ ﴿ وَلَ٘یُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن ان کی ان سے ضرور پرسش ہوگی۔‘‘ یعنی انھوں نے جو بری بات گھڑی ہے پھر اس کو آراستہ کیا ہے، نیز ان سے ان کے اس قول: ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰؔكُمْ﴾ ’’ہم تمھاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے۔‘‘ کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔
آیت: 14 - 15 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ (14) فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (15)}
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف، پس ٹھہرا رہا وہ ان میں ہزار سال مگر پچاس سال (کم) پھر پکڑ لیا ان کو طوفان نے اس حال میں کہ وہ ظالم تھے (14) پس نجات دی ہم نے اس کو اور کشتی والوں کواور بنا دیا ہم نے اس (کشتی) کو (عظیم) نشانی جہانوں کے لیے (15)
#
{14} يخبر تعالى عن حكمِهِ وحكمتِهِ في عقوبات الأمم المكذِّبة، وأنَّ الله أرسل عبده ورسوله نوحاً عليه [الصلاة و] السلام إلى قومه يدعوهم إلى التوحيد وإفراد الله بالعبادةِ والنهي عن الأنداد والأصنام، {فَلَبِثَ فيهم}: نبيًّا داعياً {ألفَ سنة إلاَّ خمسينَ عاماً}: وهو لا يني بدعوتِهِم ولا يفتُرُ في نصحهم؛ يدعوهم ليلاً ونهاراً وسرًّا وجهاراً، فلم يرشُدوا ولا اهتدوا بل استمرُّوا على كفرهم وطغيانهم، حتى دعا عليهم نبيُّهم نوحٌ عليه الصلاة والسلام مع شدَّة صبرِهِ وحلمه واحتماله، فقال: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرض من الكافرين دياراً}، {فأخَذَهُمُ الطوفانُ}؛ أي: الماء الذي نزل من السماء بكثرةٍ ونَبَعَ من الأرض بشدَّةٍ، {وهم ظالمونَ}؛ مستحقُّون للعذاب.
[14] اللہ تعالیٰ گزشتہ امتوں کے عذاب کی بابت اپنے حکم اور اپنی حکمت بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت نوحu کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا، جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے، بتوں اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی عبادت سے روکتے تھے۔ ﴿فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ﴾ ’’پس وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہے‘‘ وہ نبی کی حیثیت سے ان کو دعوت دینے سے اکتائے نہ ان کی خیرخواہی سے باز آئے وہ رات دن اور کھلے چھپے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے مگر وہ رشدوہدایت کی راہ پر نہ آئے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے نبی حضرت نوحu نے اپنے بے انتہا صبر، حلم اور تحمل کے باوجود ان کے لیے ان الفاظ میں بددعا کی: ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا ﴾ (نوح:71؍26) ’’اے میرے رب! روئے زمین پر کسی کافر کو بستا نہ چھوڑ۔‘‘ ﴿ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ ﴾ ’’پس ان کو طوفان نے آپکڑا۔‘‘ یعنی ان کو اس پانی نے (طوفان کی صورت میں ) آ لیا جو بہت کثرت سے آسمان سے برسا تھا اور نہایت شدت سے زمین سے پھوٹا تھا۔ ﴿ وَهُمْ ظٰ٘لِمُوْنَ ﴾ ’’ اور وہ ظالم تھے‘‘ اور اس عذاب کے مستحق تھے۔
#
{15} {فأنجَيْناه وأصحابَ السفينةِ}: الذين ركبوا معه؛ أهلَه ومن آمن به، {وَجَعَلْناها}؛ أي: السفينة أو قصة نوح {آيةً للعالمينَ}: يعتبِرون بها على أنَّ مَنْ كذَّب الرسل آخرُ أمرِهِ الهلاكُ، وأنَّ المؤمنين سيجعل الله لهم من كلِّ همٍّ فرجاً ومن كل ضيقٍ مخرجاً، وجعل الله أيضاً السفينة؛ أي: جنسها آية للعالمين؛ يعتبرون بها رحمة ربِّهم الذي قيَّض لهم أسبابها، ويسَّر لهم أمرها، وجعلها تحملهم، وتحمِلُ متاعَهم من محلٍّ إلى محلٍّ، ومن قطر إلى قطر.
[15] ﴿ فَاَنْؔجَیْنٰهُ وَاَصْحٰؔبَ السَّفِیْنَةِ﴾ ’’پس ہم نے ان کو اور کشتی والوں کو نجات دی۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے، یعنی ان کے گھر والے اور ان پر ایمان لانے والے دیگر لوگ ﴿وَجَعَلْنٰهَاۤ ﴾ ’’اور ہم نے اس کو بنایا۔‘‘ یعنی کشتی کو یا قصۂ نوح کو ﴿ اٰیَةً لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’تمام جہانوں کے لیے نشانی‘‘ جس سے لوگ عبرت پکڑتے ہیں کہ جو کوئی اپنے رسولوں کی تکذیب کرتا ہے اس کا انجام ہلاکت ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہر غم سے نجات دیتا اور ہر تنگی سے نکلنے کی راہ دکھاتا ہے، نیز اللہ تبارک و تعالیٰ نے کشتی کو … یعنی کشتی کی جنس کو، تمام جہانوں کے لیے نشانی بنا دیا جسے وہ اپنے رب کی رحمت سے تعبیر کرتے ہیں ، جس نے ان کے لیے اس کے اسباب مہیا كيے اور اس کے معاملے کو ان کے لیے آسان بنایا اور وہ انھیں ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک اٹھائے پھرتی ہے۔
آیت: 16 - 22 #
{وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (16) إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (17) وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (18) أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (19) قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (20) يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ (21) وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (22)}.
اور (یاد کیجیے) ابراہیم کو، جب کہا اس نے اپنی قوم سے، عبادت کرو تم اللہ کی اور ڈرو تم اس سے، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگر ہو تم جانتے (16)یقینا تم تو عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے بتوں کی اور گھڑتے ہو تم جھوٹ، بلاشبہ وہ جن کی تم عبادت کرتے ہو سوائے اللہ کے، نہیں اختیار رکھتے وہ تمھارے لیے رزق کا، پس تلاش کرو تم اللہ کے ہاں رزق اور عبادت کرو تم اس کی اور شکر کرو تم اس کا، اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تم (17)اور اگر جھٹلاؤ تم (مجھے) تو تحقیق جھٹلایا تھا کئی امتوں نے تم سے پہلے بھی اور نہیں ہے اوپر رسول کے مگر صرف پہنچا دینا واضح طور پر (18) کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ کیسے پہلی بار پیدا کرتا ہے اللہ مخلوق کو؟ پھر وہ لوٹائے گا اس کو، بلاشبہ یہ ہے اللہ پر بہت آسان (19) کہہ دیجیے! سیر کروتم زمین میں ، پھر دیکھو تم کس طرح پہلی بار پیدا کی اس نے مخلوق، پھر اللہ ہی پیدا کرے گا (اس کو) پیدا کرنا دوسری بار، بلاشبہ اللہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے (20) وہ عذاب دے گا جس کو چاہے گااور وہ رحم کرے گا جس پر چاہے گااور اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے تم (21) اور نہیں تم عاجز کرنے والے (اللہ کو) زمین میں اور نہ آسمان میں اورنہیں ہے تمھارے لیے سوائے اللہ کے کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار (22)
#
{16} يذكر تعالى أنَّه أرسل خليله إبراهيم عليه السلام إلى قومه يَدْعوهم إلى الله، فقال لهم: {اعبُدوا اللهَ}؛ أي: وحِّدوه وأخلِصوا له العبادةَ وامتَثِلوا ما أمركم به، {واتَّقوه}: أن يغضبَ عليكم فيعذِّبَكم، وذلك بترك ما يُغضبه من المعاصي. {ذلكم}؛ أي: عبادة الله وتقواه {خيرٌ لكم}: من ترك ذلك، وهذا من باب إطلاق أفعل التفضيل بما ليس في الطرف الآخر منه شيء؛ فإنَّ تَرْكَ عبادةِ الله وتَرْكَ تقواه لا خير فيه بوجهٍ، وإنَّما كانت عبادة الله وتقواه خيراً للناس لأنَّه لا سبيل إلى نيل كرامته في الدُّنيا والآخرة إلاَّ بذلك، وكلُّ خيرٍ يوجدُ في الدُّنيا والآخرة؛ فإنَّه من آثار عبادة الله وتقواه. {إن كنتُم تعلَمونَ}: ذلك؛ فاعلموا الإمور، وانظُروا ما هو أولى بالإيثار.
[16] اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیم u کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا: ﴿ اعْبُدُوا اللّٰهَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو، صرف اسی کی عبادت کرو اور جو کچھ وہ تمھیں حکم دیتا ہے اس کی اطاعت کرو ﴿وَاتَّقُوْهُ﴾ ’’اور اس سے ڈرو‘‘ کہ وہ تم پر ناراض ہو، تمھیں عذاب دے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ تم ان امورکو چھوڑ دو جو اس کی ناراضی کا باعث ہیں ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ ’’یہ ۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ ﴿ خَیْرٌ لَّكُمْ ﴾ ’’تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ یعنی عبادت اور تقویٰ کو اختیار کرنا ان کو ترک کرنے سے بہتر ہے۔ یہ اسم تفضیل کے ایسے باب میں سے ہے جس کے دوسری طرف کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا تقویٰ ترک کرنے میں کسی طرح بھی کوئی بھلائی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ صرف اس لیے لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی کرامت کا حصول، عبادت اور تقویٰ کے سوا ممکن نہیں ۔ دنیا و آخرت میں جو بھی بھلائی پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اگر تم اس کا علم رکھتے ہو۔‘‘ پس تمام امور میں خوب غور کرو اور دیکھو کہ ان میں سے کون سا امر ترجیح کے لائق ہے۔
#
{17 ـ 18} فلمَّا أمرهم بعبادة الله وتقواه؛ نهاهم عن عبادة الأصنام، وبيَّن لهم نقصها وعدم استحقاقها للعبودية، فقال: {إنَّما تعبُدون من دونِ الله أوثاناً وتخلُقون إفكاً}: تنحِتونها، وتخلُقونها بأيديكم، وتخلُقونَ لها أسماءَ الآلهة، وتختَلِقون الكذبَ بالأمر بعبادتها والتمسُّك بذلك. {إنَّ الذين} تدعون {من دونِ الله}: في نقصِهِ وأنَّه ليس فيه ما يدعو إلى عبادته، {لا يملِكون لكم رزقاً}: فكأنَّه قيلَ: قد بان لنا أنَّ هذه الأوثان مخلوقةٌ ناقصةٌ لا تملك نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً، وأنَّ مَنْ هذا وصفُه لا يستحقُّ أدنى أدنى أدنى مثقال مثقال مثقال ذرةٍ من العبادة والتألُّه، والقلوبُ لا بدَّ أن تطلب معبوداً تألهُهُ وتسأله حوائجها. فقال حاثًّا لهم على من يستحقُّ العبادة: {فابْتَغوا عند الله الرِّزْقَ}: فإنَّه هو الميسِّر له المقدِّر المجيب لدعوةِ مَنْ دعاه لمصالح دينِهِ ودُنياه، {واعبُدوه}: وحده لا شريكَ له؛ لكونِهِ الكامل النافع الضارَّ المتفرِّد بالتدبير، {واشكُروا له}: وحده؛ لكون جميع ما وصل ويصل إلى الخلق من النعم فمنه، وجميع ما اندفع ويندفع من النقم عنهم؛ فهو الدافع لها. {إليه تُرْجَعون}: فيجازيكم على ما عملتم، وينبِّئُكم بما أسررتم وأعلنتُم؛ فاحذروا القدوم عليه وأنتم على شِرْكِكم، وارْغَبوا فيما يقرِّبُكم إليه ويثيبكم عند القدوم عليه.
[18,17] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لیے ان کو بتوں کی عبادت سے روکا ہے اور ان کے نقص اور عبودیت کے لیے ان کے عدم استحقاق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا﴾ ’’تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑتے ہو۔‘‘ تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر ان بتوں کو تخلیق کرتے ہو، پھر تم ان کے معبودوں والے نام رکھتے ہو اور پھر تم ان کی عبادت اور تمسک کے لیے جھوٹے احکام گھڑتے ہو ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔‘‘ وہ ناقص ہیں ان میں کوئی بھی ایسی صفت نہیں ہے جو ان کی عبادت کی مقتضی ہو۔ ﴿ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا ﴾ ’’وہ تمھیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔‘‘ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہم پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ بت گھڑے ہوئے اور ناقص ہیں جو کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ دوبارہ اٹھانے ہی کا۔ پس جس ذات کے یہ اوصاف ہوں وہ ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں ۔ قلوب ایسے معبود کے طالب ہوتے ہیں جن کی وہ عبادت کریں اور ان سے اپنی حوائج کا سوال کریں … پس ان کے جواب میں ، اس ہستی کی عبادت کی ترغیب دی گئی ہے جو عبادت کی مستحق ہے۔ ﴿ فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ ﴾ ’’پس اللہ ہی کے ہاں رزق طلب کرو۔‘‘ کیونکہ وہی رزق میسر اور مقدر کرتا ہے اور وہی اس شخص کی دعا قبول کرتا ہے جو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لیے اس سے دعا کرتا ہے۔ ﴿ وَاعْبُدُوْهُ ﴾ ’’اور اسی (اکیلے) کی عبادت کرو‘‘ جس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ کامل، نفع و نقصان دینے والا اور تدبیر کائنات میں متفرد ہے۔ ﴿وَاشْكُرُوْا لَهٗ ﴾ اور اسی (اکیلے) کا شکر کرو‘‘ کیونکہ جتنی بھی تمھیں نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا تمام مخلوق کو حاصل ہو رہی ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو بھی مصیبت ان سے دور ہوتی ہے ان کو دور کرنے والا وہی ہے۔ ﴿ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ تب وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا اور جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے رہے ہو اس کے بارے میں تمھیں آگاہ کرے گا پس تم شرک کی حالت میں اس کی خدمت میں حاضر ہونے سے بچو اور ان امور میں رغبت رکھو جو تمھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور جب تم اس کے پاس حاضر ہوگے تو وہ تمھیں ان پر ثواب عطا کرے گا۔
#
{19} {أوَلَمْ يَرَوْا كيف يُبدئ الله الخلقَ ثم يعيدُه}: يوم القيامةِ. {إنَّ ذلك على الله يسيرٌ}؛ كما قال تعالى: {وهو الذي يبدأ الخلقَ ثم يعيدُه وهو أهونُ عليه}.
[19] ﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْ٘قَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ﴾ ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔‘‘ یعنی قیامت کے روز اس کا اعادہ کرے گا۔ ﴿ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ﴾ ’’بے شک مخلوق کا اعادہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان ہے‘‘ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِ﴾ (الروم:30؍27) ’’وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور ایسا کرنا اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘
#
{20} {قل}: لهم إن حَصَلَ معهم ريبٌ وشكٌّ في الابتداء: {سيروا في الأرضِ}: بأبدانِكم وقلوبِكم، {فانظُروا كيف بَدَأ الخَلْقَ}: فإنَّكم سَتَجِدون أمماً من الآدميين والحيواناتِ لا تزال توجد شيئاً فشيئاً، وتجدون النباتَ والأشجار كيف تحدُثُ وقتاً بعد وقت، وتجدون السحاب والرياح ونحوها مستمرَّةً في تجدُّدها، بل الخلق دائماً في بدءٍ وإعادةٍ؛ فانْظُرْ إليهم وقت موتتهم الصغرى ـ النوم ـ؛ وقد هَجَمَ عليهم الليلُ بظلامِهِ، فسكنت منهم الحركاتُ، وانقطعتْ منهم الأصواتُ، وصاروا في فرشهم ومأواهم كالميتين، ثم إنَّهم لم يزالوا على ذلك طول ليلهم حتى انفلق الأصباح، فانتبهوا من رقدتهم، وبُعِثوا من موتتهم؛ قائلين: الحمد لله الذي أحيانا بعدما أماتنا وإليه النُّشور. ولهذا قال: {ثم اللهُ}: بعد الإعادة {يُنْشِئُ النشأة الآخرة}: وهي النشأةُ التي لا تَقْبَلُ موتاً ولا نوماً، وإنَّما هو الخلودُ والدوامُ في إحدى الدارين. {إنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ}: فقدرته تعالى لا يُعْجِزُها شيء، وكما قَدِرَ بها على ابتداءِ الخلق؛ فقدرتُه على الإعادة من باب أولى وأحرى.
[20] ﴿ قُ٘لْ ﴾ ’’آپ (ان سے) کہہ دیجیے!‘‘ کہ اگر انھیں ابتدائے تخلیق میں کوئی شک و شبہ ہے تو ﴿ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’تم زمین میں چلو پھرو‘‘ اپنے قلب و بدن کے ساتھ ﴿ فَانْ٘ظُ٘رُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ﴾ ’’پھر غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ابتدا کی‘‘ تم دیکھو گے کہ انسانوں کے گروہ تھوڑا تھوڑا کر کے وجود میں آ رہے ہیں ، تم دیکھو گے کہ درخت اور نباتات وقتاً فوقتاً جنم لے رہے ہیں ، تم بادلوں اور ہواؤں کو پاؤ گے کہ وہ لگاتار اپنی تجدید کے مراحل میں رہتے ہیں بلکہ تمام مخلوق دائمی طور پر ابتدائے تخلیق اور اعادۂ تخلیق کے دائرے میں گردش کر رہی ہے۔ ان کی موت صغریٰ … یعنی نیند … کے وقت، ان پر غور کرو کہ رات اپنی تاریکیوں کے ساتھ ان کو ڈھانپ لیتی ہے تب تمام حرکات ساکن اور تمام آوازیں منقطع ہو جاتی ہیں ۔ اپنے بستروں اور ٹھکانوں میں تمام مخلوق کی حالت یوں ہوتی ہے جیسے وہ مردہ ہوں ۔ رات بھر وہ اس حالت میں رہتے ہیں حتیٰ کہ جب صبح نمودار ہوتی ہے تو وہ اپنی نیند سے بیدار اور اپنی اس عارضی موت کے بعد دوبارہ زندہ كيے جاتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہوئے اٹھتے ہیں : (اَلْحَمْدُ لِلٰہِ الَّذِي اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورِ) ’’تعریف ہے اللہ کی جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف قبر سے اٹھ کر جانا ہے۔‘‘ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ اللّٰهُ ﴾ ’’پھر اللہ ہی‘‘ یعنی اس اعادۂ تخلیق کے بعد ﴿ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’دوسری نئی پیدائش کرے گا۔‘‘ یہ ایسی زندگی ہے جس میں موت ہے نہ نیند اس زندگی کو، جنت یا جہنم میں … خلود اور دوام حاصل ہو گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کسی چیزمیں عاجز نہیں جس طرح وہ تخلیق کی ابتدا پر قادر ہے اسی طرح تخلیق کے اعادہ پر اس کا قادر ہونا زیادہ اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔
#
{21} {يعذِّبُ من يشاء ويرحمُ من يشاء}؛ أي: هو المنفرد بالحكم الجزائي، وهو إثابةُ الطائعين ورحمتهم، وتعذيبُ العاصين والتنكيل بهم، {وإليه تُقْلَبونَ}؛ أي: ترجِعونَ إلى الدار التي بها تجري عليكم أحكام عذابِهِ ورحمتِهِ، فاكتسبوا في هذه الدار ما هو من أسباب رحمتِهِ من الطاعات، وابتعدوا من أسباب عذابِهِ وهو المعاصي.
[21] ﴿ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے۔‘‘ یعنی حکم جزائی میں وہ متفرد ہے، یعنی وہ اکیلا ہے جو اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرتا ہے انھیں اپنی وسیع رحمت کے سائے میں لیتا ہے اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔ ﴿ وَاِلَیْهِ تُقْلَبُوْنَ﴾ ’’اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ یعنی تم اس گھر کی طرف لوٹو گے جہاں تم پر اس کے عذاب یا رحمت کے احکام جاری ہوں گے، اس لیے اس دنیا میں نیکیوں کا اکتساب کر لو جو اس کی رحمت کا سبب ہیں اور اس کی نافرمانیوں سے دور رہو جو اس کے عذاب کا باعث ہیں ۔
#
{22} {وما أنتم بِمُعْجِزينَ في الأرض ولا في السماء}؛ أي: يا هؤلاء المكذِّبون المتجرِّؤون على المعاصي! لا تحسبوا أنه مغفولٌ عنكم أو أنكم معجزون لله في الأرض ولا في السماء؛ فلا تَغُرَّنَّكم قدرتُكم وما زينتْ لكم أنفسكم وخدعتْكم من النجاة من عذاب الله، فلستُم بمعجزينَ الله في جميع أقطار العالم، {وما لكُم من دونِ الله من وليٍّ}: يتولاَّكم فيحصِّلَ لكم مصالح دينكم ودنياكم. {ولا نصيرٍ}: ينصُرُكم فيدفع عنكم المكارِهَ.
[22] ﴿ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ﴾ ’’ اور تم اس کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں ۔‘‘ یعنی اے جھٹلانے والے لوگو جو گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو! یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تم سے غافل ہے یا تم زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکو گے۔ تمھاری قدرت واختیار تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ تمھارے نفس نے جن امور کو مزین کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات کے بارے میں تمھیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے، وہ تمھیں دھوکے میں نہ رکھیں ۔ کائنات کے تمام گوشوں میں تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہ کر سکو گے ﴿ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ ﴾ ’’اور نہ اللہ کے سوا تمھارا کوئی دوست ہے۔‘‘ جو تمھاری سرپرستی کرے اور تمھیں تمھارے دینی اور دنیاوی مصالح حاصل ہوں ۔ ﴿ وَّلَا نَصِیْرٍ ﴾ ’’اور نہ کوئی مددگار‘‘ جو تمھاری مدد کرے اور تمھاری تکالیف کو دور کرے۔
آیت: 23 #
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (23)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا، یہی لوگ ناامید ہیں میری رحمت سے اور یہ لوگ، انھی کے لیے ہے عذاب نہایت دردناک (23)
#
{23} يخبر تعالى من هم الذين زال عنهم الخيرُ وحَصَلَ لهم الشرُّ، وأنَّهم الذين كفروا به وبرسله وبما جاؤوهم به، وكذَّبوا بلقاء الله، فليس عندهم إلاَّ الدُّنيا؛ فلذلك أقدموا على ما أقدموا عليه من الشرك والمعاصي؛ لأنه ليس في قلوبهم ما يخوِّفهم من عاقبة ذلك، ولهذا قال: {أولئك يَئِسوا من رحمتي}؛ أي: فلذلك لم يعملوا سبباً واحداً يُحَصِّلونَ به الرحمةَ، وإلاَّ؛ فلو طمعوا في رحمته؛ لعملوا لذلك أعمالاً. والإياس من رحمة الله من أعظم المحاذير، وهو نوعان: إياسُ الكفَّار منها وتركُهم جميع سبب يقرِّبُهم منها. وإياسُ العصاة بسبب كثرةِ جناياتهم أوْحَشَتْهم فمَلَكَتْ قلوبَهم، فأحدث لها الإياس. {وأولئك لهم عذابٌ أليمٌ}؛ أي: مؤلم موجع. وكأن هذه الآياتِ معترضاتٌ بين كلام إبراهيم لقومه وردِّهم عليه، والله أعلمُ بذلك.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن سے بھلائی زائل ہو گئی اور ان کو شر حاصل ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو جھٹلایا، ان کے پاس دنیا کے سوا کچھ نہیں اسی لیے انھوں نے شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انھیں ان گناہوں کے انجام سے ڈرائے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَلِقَآىِٕهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ یَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ ﴾ ’’ یہ لوگ میری رحمت سے ناامید ہوگئے۔‘‘ یعنی ان کے پاس کوئی ایسا سبب نہ ہو گا جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ ور ہوں ورنہ اگر انھیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید ہوتی تو اس رحمت کے حصول کے لیے عمل کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بڑے بڑے ممنوعات میں سے ہے اور اس کی دو اقسام ہیں : 1 کفار کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر ان تمام اسباب کو ترک کر دینا جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔ 2 گناہ گاروں کا اپنے گناہوں اور جرائم کی کثرت کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا جو انھیں وحشت میں مبتلا کر کے ان کے قلوب پر حاوی ہو جاتے ہیں اور یوں ان کے قلوب میں مایوسی جنم لیتی ہے۔ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ یعنی تکلیف دہ اور دل دوز گویا کہ یہ آیات حضرت ابراہیمu کے اپنی قوم کے ساتھ کلام اور ان کی قوم کا آپ کی بات رد کرنے کے درمیان بطور جملۂ معترضہ آئی ہے۔ واللہ اعلم۔
آیت: 24 - 25 #
{فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (24) وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (25)}
پس نہ تھا جواب اس کی قوم کا مگر یہ کہ کہا انھوں نے، تم قتل کر دو اسے یا جلا دو اسے پس نجات دی اس کو اللہ نے (اس) آگ سے بلاشبہ اس (نجات) میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (24) اور کہا ابراہیم نے، یقینا ٹھہرایا ہے تم نے سوائے اللہ کے بتوں کو (معبود) آپس میں دوستی کی وجہ سے، زندگانیٔ دنیا میں ، پھر دن قیامت کے کفر (انکار) کرے گا بعض تمھارا بعض کااور لعنت کرے گا بعض تمھارا بعض کو اور ٹھکانا تمھارا آگ ہےاور نہیں ہو گا تمھارے لیے کوئی مدد گار (25)
#
{24} أي: فما كان مجاوبةُ قوم إبراهيمَ لإبراهيمَ حين دعاهم إلى ربِّه قبولَ دعوتِهِ والاهتداءَ بنُصحه ورؤيةَ نعمة الله عليهم بإرساله إليهم، وإنَّما كان مجاوبتُهم له شرَّ مجاوبة، {قالوا اقْتُلوهُ أو حَرِّقوهُ}: أشنع القتلات، وهم أناسٌ مقتدرون، لهم السلطانُ، فألقَوْه في النار، {فأنجاه اللهُ}: منها. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يؤمنونَ}: فيعلمونَ صِحَّةَ ما جاءت به الرسلُ وبِرَّهم ونُصْحَهم وبطلانَ قول من خالفهم وناقَضَهم، وأنَّ المعارضين للرُّسل كأنَّهم تواصَوْا وحثَّ بعضُهم بعضاً على التكذيب.
[24] یعنی جب ابراہیمu نے اپنی قوم کو اپنے رب کی طرف بلایا تو آپ کی قوم نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی نہ آپ کی خیرخواہی کی اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی بعثت کی نعمت کی رؤیت کو اپنا راہنما ہی بنایا۔ ان کا جواب تو بدترین جواب تھا۔ ﴿ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اسے مار ڈالو یا جلادو۔‘‘ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو۔ وہ قدرت رکھنے والے اصحاب اقتدار لوگ تھے، چنانچہ انھوں نے ابراہیمu کو آگ میں ڈال دیا ﴿ فَاَنْؔجٰؔىهُ اللّٰهُ ﴾ ’’پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا آگ سے‘‘ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ ’’بے شک اس میں ایمان دار لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘ پس وہ اہل ایمان اور انبیاء و رسل کی تعلیمات کی صحت، ان کی نیکی اور ان کی خیرخواہی اور انبیاء و رسل کے مخالفین و معارضین کے موقف کے بطلان کو خوب جانتے تھے۔ گویا رسولوں کے مخالفین ان کی تکذیب کی ایک دوسرے کو وصیت کیا کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیا کرتے تھے۔
#
{25} {وقال}: لهم إبراهيمُ في جملةِ ما قاله من نُصحه: {إنَّما اتَّخذتُم من دون الله أوثاناً مودَّةَ بَيْنِكُم في الحياة الدُّنيا}؛ أي: غايةُ ذلك مودَّةٌ في الدنيا ستنقطعُ وتضمحلُّ، {ثم يومَ القيامةِ يَكْفُرُ بعضُكم ببعض ويلعنُ بعضُكم بعضاً}؛ أي: يتبرَّأ كلٌّ من العابدين والمعبودين من الآخر، وإذا حُشِرَ الناسُ؛ كانوا لهم أعداء وكانوا بعبادتهم كافرين؛ فكيف تتعلَّقون بِمَنْ يعلمُ أنه سيتبرأ من عابديه، ويلعنُهم. وأنَّ مأوى الجميع العابدين والمعبودين {النار}: وليس أحدٌ ينصُرُهم من عذاب الله، ولا يدفعُ عنهم عقابه.
[25] ﴿وَقَالَ ﴾ ابرہیمu نے، ان کے ساتھ خیرخواہی کی وجہ سے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا اتَّؔخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا١ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تم جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لے بیٹھے ہو، صرف دنیا میں باہم دوستی کے لیے۔‘‘ اس کی غایت و انتہا بس دنیا میں دوستی اور محبت ہے جو عنقریب ختم ہو جائے گی۔ ﴿ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْ٘فُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْ٘عَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ ’’پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کی دوستی کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔‘‘ تمام عابد اور معبود ایک دوسرے سے براء ت کا اظہار کریں گے۔ ﴿وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءًؔ وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ﴾ (الاحقاف:46؍6) ’’اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کرجائیں گے۔‘‘ تب تم ایسی ہستیوں سے کیونکر تعلق رکھتے ہو جو عنقریب اپنے عبادت گزاروں سے بیزاری کا اظہار کریں گی۔ ﴿ وَّ ﴾ ’’اور‘‘ بے شک یعنی عابدوں اور معبودوں ، سب کا ٹھکانا ﴿النَّارُ ﴾ ’’جہنم ہو گا‘‘ اور کوئی انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے گا نہ ان سے اس کے عقاب کو دور کر سکے گا۔
آیت: 26 - 27 #
{فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (26) وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (27)}
پس ایمان لایا ابراہیم پر لوط اور کہا ابراہیم نے، بے شک میں ہجرت کرنے والا ہوں اپنے رب کی طرف، بلاشبہ وہ ہے نہایت غالب، خوب حکمت والا (26) اور عطا کیے ہم نے اس کو اسحاق او ر یعقوب اور رکھ دی ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اورکتاب اور دیا ہم نے اس کو اس کا اجر (صلہ) دنیا میں اور بلاشبہ وہ آخرت میں البتہ نیک لوگوں میں سے ہوگا (27)
#
{26} أي: لم يزلْ إبراهيمُ عليه الصلاة والسلام يَدْعو قومَه، وهم مستمرُّون على عنادهم؛ إلاَّ أنَّه آمن له بدعوته لوطٌ الذي نبَّأه الله وأرسله إلى قومِهِ كما سيأتي ذِكْره، {وقال}: إبراهيمُ حين رأى أنَّ دعوةَ قومِهِ لا تفيدُهم شيئاً: {إنِّي مهاجرٌ إلى ربِّي}؛ أي: هاجِرٌ أرضَ السوء، ومهاجِرٌ إلى الأرض المباركة، وهي الشام. {إنَّه هو العزيزُ}؛ أي: الذي له القوَّة، وهو يقدِرُ على هدايتكم، ولكنَّه حكيمٌ، ما اقتضت حكمتُه ذلك. ولمَّا اعتزلهم وفارَقَهم وهم بحالِهِم؛ لم يذكرِ الله عنهم أنَّه أهلكهم بعذابٍ، بل ذَكَرَ اعتزالَه إيَّاهم وهجرتَه من بين أظهُرِهم، فأمَّا ما يُذْكَرُ في الإسرائيلياتِ أنَّ الله تعالى فتح على قومِهِ باب البعوض، فشرب دِماءَهم، وأكل لحومَهم، وأتْلَفَهم عن آخرهم؛ فهذا يتوقَّفُ الجزم به على الدليل الشرعيِّ، ولم يوجدْ؛ فلو كان اللَّه استأصَلَهم بالعذاب؛ لَذَكَرَه كما ذَكَرَ إهلاكَ الأمم المكذِّبة، ولكن هل من أسرار ذلك أن الخليل عليه السلام من أرحم الخلق وأفضلهم وأحلمهم وأجلِّهم؛ فلم يَدْعُ على قومِهِ كما دعا غيرُه، ولم يكن اللهُ لِيَجْزِيَ بسببه عذاباً عامًّا؟ ومما يدلُّ على ذلك أنَّه راجع الملائكة في إهلاك قوم لوط، وجادَلَهم، ودافَعَ عنهم، وهم ليسوا قومَه. والله أعلم بالحال.
[26] ابراہیمu اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ان کی قوم اپنے عناد پر جمی رہی۔ سوائے لوطu کے جو ابراہیمu کی دعوت پر ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے لوطu کو نبوت سے سرفراز فرما کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ جس کا ذکر عنقریب آئے گا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ جب ابراہیمu نے دیکھا کہ ان کی دعوت کچھ فائدہ نہیں دے رہی تو کہنے لگے ﴿ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ ﴾ ’’میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ برے خطۂ ارض کو چھوڑ کر بابرکت سرزمین کی طرف نکل گئے … اس سے مراد ملک شام ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’بے شک وہ بڑا ہی غالب ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو قوت کا مالک ہے تمھیں ہدایت دینے پر قادر ہے لیکن وہ حکمت والا ہے‘‘ اور اس کی حکمت ایسا کرنے کی مقتضی نہیں ۔ جب ابراہیمu اپنی قوم کو اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے ان کو ہلاک کر دیا تھا بلکہ صرف یہ ذکر فرمایا کہ آپ وہاں سے ہجرت کر گئے ور اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ رہا وہ قصہ جو اسرائیلیات میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمu کی قوم پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ وہ ان کا خون پی گئے، گوشت کھا گئے اور ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر ڈالا اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے دلیل پر توقف کرنا چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو تہس نہس کیا ہوتا تو ضرور اس کا ذکر فرماتا جیسے دیگر جھٹلانے والی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر کیا اس قصہ کا یہ راز تو نہیں کہ حضرت خلیلu مخلوق میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق، سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ جلیل القدر لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی قوم کے لیے بددعا نہیں کی جیسے دیگر بعض انبیائے کرام نے بددعا کی اور نہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کی قوم پر عذاب نازل فرمایا… اس موقف پر یہ واقعہ بھی دلالت کرتا ہے کہ جب فرشتے قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے تو آپ نے قوم لوط کی مدافعت کے لیے ان فرشتوں سے جھگڑا کیا حالانکہ وہ آپ کی قوم نہ تھی۔ اصل صورت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
#
{27} {ووهَبْنا له إسحاقَ ويعقوبَ}؛ أي: بعدما هاجر إلى الشام، {وجَعَلْنا في ذرَّيَّتِهِ النبوَّة والكتاب}: فلم يأتِ بعدَه نبيٌّ إلاَّ من ذُرِّيَّتِهِ، ولا نزل كتابٌ إلاَّ على ذرِّيَّته، حتى خُتموا بابنه محمد - صلى الله عليه وسلم - وعليهم أجمعين. وهذا من أعظم المناقب والمفاخر، أنْ تكونَ موادُّ الهدايةِ والرحمةِ والسعادةِ والفلاح والفوزِ في ذُرِّيَّتِهِ، وعلى أيديهم اهتدى المهتدون، وآمن المؤمنون، وصلح الصالحون، {وآتَيْناه أجْرَه في الدُّنيا}: من الزوجة الجميلة فائقة الجمال، والرزق الواسع، والأولاد الذين بهم قَرَّتْ عينُه، ومعرفة الله ومحبَّته والإنابة إليه. {وإنَّه في الآخرة لَمِنَ الصالحين}: بل هو ومحمدٌ صلى الله عليهما وسَلّم أفضل الصالحين على الإطلاق وأعلاهم منزلةً. فجمع الله له بين سعادةِ الدُّنيا والآخرة.
[27] ﴿ وَوَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب (i) دیے۔‘‘ یعنی آپ کے ملک شام کی طرف ہجرت کر جانے کے بعد ﴿وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ ﴾ ’’اور کردی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب۔‘‘ آپ کے بعد جو بھی نبی مبعوث ہوا وہ آپ کی اولاد سے تھا اور جو بھی کتاب نازل ہوئی وہ آپ کی اولاد پر نازل ہوئی حتیٰ کہ انبیاء کا سلسلہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیe کے ذریعے سے ختم کر دیا گیا۔ یہ اعلیٰ ترین مناقب و مفاخر ہیں کہ ہدایت و رحمت، سعادت و فلاح اور کامیابی کا مواد آپ کی ذریت میں ہو، نیز اہل ایمان اور صالحین آپ کی اولاد کے ہاتھوں پر ایمان لائے اور انھوں نے آپ کی ذریت کے ذریعے سے ہدایت پائی۔ ﴿ وَاٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَا ﴾ ’’اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا۔‘‘ یعنی ہم نے آپ کو نہایت خوبصورت بیوی عطا کی جو حسن و جمال میں تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھی، ہم نے آپ کو وسیع رزق اور اولاد سے سرفراز کیا جن سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی معرفت، محبت اور انابت سے نوازا۔ ﴿ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَ٘مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور بے شک وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے۔‘‘ بلکہ آپ اور حضرت محمد مصطفیٰ e علی الاطلاق تمام مخلوق میں سب زیادہ صالح اور سب سے زیادہ بلند منزلت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے دنیا و آخرت کی سعادت کو جمع کر دیا تھا۔
آیت: 28 - 35 #
{وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ (28) أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (29) قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (30) [وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ (31) قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (32) وَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (33) إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (34) وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (35)}].
اور (یاد کیجیے) لوط کو، جب کہا تھا اس نے اپنی قوم سے، بلاشبہ تم ارتکاب کرتے ہو ایسی بے حیائی کا کہ نہیں پہلے کی تم سے یہ (برائی) کسی نے بھی جہان والوں میں سے (28)کیا بے شک تم البتہ آتے ہو مردوں کے پاس (جنسی تسکین کے لیے) اور قطع کرتے (کاٹتے) ہو تم راستے اور کرتے ہو تم اپنی مجلس میں برے کام، پس نہ تھا جواب اس کی قوم کا مگر یہ کہ کہا انھوں نے لے آ تو ہم پر عذاب اللہ کا اگر ہے تو سچوں میں سے (29) لوط نے کہا اے میرے رب! تو مدد فرما میری قوم فسادی پر (30) اور جب آئے ہمارے قاصد ابراہیم کے پاس ساتھ خوشخبری کے تو انھوں نے کہا، بلاشبہ ہم ہلاک کرنے والے ہیں اس بستی (سدوم) کے باشندوں کو بلاشبہ اس کے باشندے ہیں ظالم (31) ابرہیم نے کہا، بے شک اس میں تو لوط (بھی) ہے، انھوں نے کہا ، ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو کوئی اس میں ہے البتہ ہم ضرور نجات دیں گے لوط اور اس کے گھر والوں کو سوائے اس کی بیوی کے وہ ہو گی پیچھے رہنے والوں میں سے (32) اور جب آئے ہمارے قاصد لوط کے پاس تو وہ مغموم ہوا بوجہ ان (کے آنے) کےاور تنگ ہوا ان کی وجہ سے (اس کا) سینہ اور فرشتوں نے کہا، نہ ڈر تو اور نہ غم کھا، بلاشبہ ہم نجات دینے والے ہیں تجھے اور تیرے گھر والوں کو سوائے تیری بیوی کے وہ ہو گی پیچھے رہنے والوں میں سے(33) بے شک ہم نازل کرنے والے ہیں اوپر باشندوں کے اس بستی کے عذاب آسمان سے بہ سبب اس کے جو تھے وہ فرمانی کرتے (34) اور البتہ تحقیق چھوڑی ہم نے اس (بستی) میں سے ایک نشانی واضح ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں (35)
گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوطu حضرت ابراہیمu پر ایمان لا کر ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہوئے۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت لوطu حضرت ابراہیمu کی ذریت میں سے نہیں بلکہ وہ حضرت ابراہیمu کے بھتیجے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ ﴾ اگرچہ عام ہے مگر حضرت لوطu کا نبی ہونا حالانکہ وہ آپ کی اولاد میں سے نہ تھے اس آیت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ حضرت خلیلu کی مدح و ثنا کے سیاق میں آئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ لوطu ابراہیم u کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے اور جس شخص نے آپ کے ہاتھ پر ہدایت پائی وہ ہادی کی فضیلت کی طرف نسبت کی بنا پر آپ کی اولاد میں سے ہدایت پانے والے سے زیادہ کامل ہے۔ واللہ اعلم۔
#
{28 ـ 29} فأرسل الله لوطاً إلى قومه، وكانوا مع شركهم قد جمعوا بين فعل الفاحشة في الذُّكور وتقطيع السبيل وفُشُوِّ المُنْكرات في مجالسهم، فنصحهم لوطٌ عن هذه الأمور، وبيَّن لهم قبائحها في نفسها وما تؤول إليه من العقوبة البليغة، فلم يَرْعَووا ولم يَذَّكَّروا. {فما كان جوابَ قومِهِ إلاَّ أن قالوا ائْتِنا بعذابِ الله إن كنتَ من الصادقين}.
[29,28] اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوطu کو ان کی قوم میں مبعوث فرمایا ان میں شرک کی بیماری کے ساتھ ساتھ، مردوں کے ساتھ بدکاری، راہ زنی اور مجالس میں فواحش و منکرات کے ارتکاب جیسے برے کام بھی جمع تھے ۔ لوطu نے ان کو ان فواحش سے روکا اور ان پر ان فواحش کی قباحتیں واضح کیں اور ان کی پاداش میں نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں آگاہ فرمایا مگر انھوں نے اس بات کی طرف کوئی توجہ دی نہ نصیحت پکڑی۔ ﴿ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’پس ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ لے آ اللہ کا عذاب اگر تو سچوں میں سے ہے۔‘‘
#
{30 ـ 35} فأيس منهم نبيُّهم، وعلم استحقاقهم العذاب، وجزع من شدة تكذيبهم له، فدعا عليهم، و {قال ربِّ انصُرْني على القوم المفسِدين}: فاستجاب الله دعاءَه، فأرسل الملائكةَ لإهلاكِهِم، فمرُّوا بإبراهيم قبل ذلك، وبشَّروه بإسحاقَ ومن وراءِ إسحاقَ يعقوب، ثم سألهم إبراهيمُ: أين يريدون؟ فأخبروه أنَّهم يريدون إهلاكَ قوم لوط، فجعل يراجِعُهم ويقول: {إنَّ فيها لوطاً}، فقالوا له: {لَنُنَجِّيَنَّهُ وأهلَه إلاَّ امرأتَه كانت من الغابرين}: ثم مَضَوْا حتى أتوا لوطاً، فساءه مجيئُهم، وضاق بهم ذَرْعاً؛ بحيث إنه لم يعرِفْهم، وظنَّ أنَّهم من جملة أبناء السبيل الضيوف، فخاف عليهم من قومه، فقالوا له: {لا تَخَفْ ولا تَحْزَنْ}: وأخبروه أنَّهم رسل الله، {إنَّا منجُّوك وأهْلَكَ إلاَّ امرأتَكَ كانت من الغابرين. إنَّا منزلون على أهل هذه القرية رجزاً}؛ أي: عذاباً {من السماء بما كانوا يَفْسُقون}: فأمروه أن يَسْرِيَ بأهله ليلاً، فلما أصبحوا؛ قَلَبَ الله عليهم ديارهم، فجعل عاليها سافلها، وأمطر عليهم حجارةً من سِجِّيل متتابعة حتى أبادتهم وأهلكتهم فصاروا سمراً من الأسمار وعبرةً من العبر. {ولقد تَرَكْنا منها آيةً بَيِّنَةً لقوم يعقلونَ}؛ أي: تركنا من ديار قوم لوط آثاراً بيِّنة لقوم يعقلون العِبَرَ بقلوبهم فينتفعونَ بها؛ كما قال تعالى: {وإنَّكُم لَتَمُرُّونَ عليهم مصبحينَ. وبالليلِ أفلا تعقِلونَ}.
[35-30] ان کا نبی ان سے مایوس ہو گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اس کی قوم عذاب کی مستحق ہے، ان کے بہت زیادہ جھٹلانے کی وجہ سے حضرت لوط بے قرار ہو گئے آپ نے ان کے لیے بددعا کی ﴿ قَالَ رَبِّ انْ٘صُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’انھوں (لوطu) نے کہا، اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کر لی اور ان کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے فرشتے بھیجے۔ حضرت لوط کے پاس جانے سے قبل یہ فرشتے ابراہیمu کے پاس سے گزرے انھوں نے آپ کو اسحاق کی اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ حضرت ابراہیمu نے ان سے پوچھا کہ ان کا کہاں کا ارادہ ہے انھوں نے کہا کہ وہ قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں ۔ ابراہیمu نے ان کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا ﴾ ’’اس میں تو لوط بھی ہیں ۔‘‘ فرشتوں نے جواب دیا: ﴿ لَنُنَجِّیَنَّهٗ۠ وَاَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ٞۗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ﴾ ’’ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچالیں گے بجز ان کی بیوی کے وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی۔‘‘ پھر وہ وہاں سے چلے گئے اور لوطu کے پاس آئے۔ ان کا آنا لوطu کو بہت ناگوار گزرا اور بہت تنگدل ہوئے کیونکہ آپ ان کو پہچان نہ پائے تھے وہ سمجھتے تھے کہ وہ مہمان اور مسافر ہیں اس لیے وہ ان کے بارے میں اپنی قوم کے رویے سے خائف تھے تو فرشتوں نے آپ سے کہا۔ ﴿ لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ﴾ ’’خوف کیجیے نہ رنج کیجیے۔‘‘ اور انھوں نے لوطu کو بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ﴿ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰؔذِهِ الْ٘قَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ﴾ ’’ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچالیں گے بجز آپ کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی۔ بے شک ہم اس بستی کے رہنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کیونکہ یہ بدکاری کررہے تھے۔‘‘ فرشتوں نے لوطu سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات نکل جائیں ۔ پس جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گھروں کو ان پر الٹ دیا اور اوپر والا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر پے درپے کھنگر کے پتھر برسائے جنھوں نے ان کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا، لہٰذا وہ کہانیاں اور عبرت کا نشان بن کر رہ گئے۔ ﴿ وَلَقَدْ تَّرَؔكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ﴾ یعنی ہم نے دیار قوم لوط کو عقل مند لوگوں کے لیے واضح آثار اور ان کے دلوں کے لیے عبرت بنا دیا پس وہ ان آثار سے منتفع ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِنَّـكُمْ لَ٘تَمُرُّوْنَ عَلَیْهِمْ مُّصْبِحِیْنَ۰۰ وَبِالَّیْلِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ (الصافات: 37؍137-138) ’’اور تم دن رات ان کے اجڑے ہوئے گھروں پر گزرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘
آیت: 36 - 37 #
{وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (36) فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (37)}.
اور (بھیجا ہم نے) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو تو اس نے کہا، اے میری قوم! عبادت کرو تم اللہ کی اور امید رکھو تم یوم آخرت کی اورنہ پھرو تم زمین میں فساد کرتے ہوئے (36) پس انھوں نے جھٹلایا اسے تو پکڑ لیا انھیں زلزلے نے، پس ہو گئے وہ اپنے گھروں میں (مردہ) گھٹنوں کے بل گرے ہوئے (37)
#
{36 ـ 37} أي: {و} أرسلنا {إلى مَدْيَنَ}: القبيلة المعروفة المشهورة {شُعَيْباً}: فأمرهم بعبادة الله وحده لا شريك له، والإيمان بالبعث ورجائه والعمل له، ونهاهم عن الإفسادِ في الأرض ببخس المكاييل والموازين والسعي بقَطْع الطُّرُق. {فكذبوه}: فأخذهم عذابُ الله، {فأصبحوا في دارِهم جاثمينَ}.
[37-36] ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ یعنی ہم نے مبعوث کیا: ﴿ اِلٰى مَدْیَنَ ﴾ ’’اہل مدین کی طرف‘‘ جو ایک مشہور و معروف قبیلہ تھا ﴿ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ﴾ ’’ان کے نسبی بھائی شعیب کو‘‘ جنھوں نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، آخرت پر ایمان رکھنے، اللہ تعالیٰ پر امیدیں رکھنے اور صرف اسی کے لیے عمل کرنے کا حکم دیا اور ان کو زمین میں فساد پھیلانے، ناپ تول میں کمی کرنے اور ڈاکہ زنی سے روکا مگر انھوں نے ان کو جھوٹا سمجھا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو آ لیا ﴿ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰؔثِمِیْنَ﴾ ’’پس وہ اپنے گھر میں پڑے کے پڑے رہ گئے۔‘‘
آیت: 38 - 40 #
{وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ (38) وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ (39) فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (40)}
اور (ہلاک کیا ہم نے) عاد اور ثمود کو اور تحقیق واضح ہو چکا ہے تم پر (ان کا ہلاک ہونا) ان کے گھروں سے اور مزین کر دیے تھے ان کے لیے شیطان نے ان کے عمل، پس اس نے روک دیا انھیں (سیدھی) راہ سے، حالانکہ تھے وہ سمجھنے والے (38) اور (ہلاک کیا) قارون اورفرعون اور ہامان کو (بھی)اور البتہ تحقیق آئے تھے ان کے پاس موسیٰ ساتھ واضح دلیلوں کے، پس تکبر کیا انھوں نے زمین میں اور نہ ہوئے وہ بچ کر نکل جانے والے (عذاب سے) (39) پس ہر ایک کو پکڑا ہم نے بوجہ اس کے گناہوں کے، پس کوئی تو ان میں سے وہ ہے کہ بھیجی ہم نے اس پر پتھراؤ کرنے والی آندھی اور کوئی ان میں سے وہ ہے کہ پکڑا اسے چیخ نے اور کوئی ان میں سے وہ ہے کہ دھنسا دیا ہم نے اسے زمین میں اور کوئی ان میں سے وہ ہے کہ غرق کر دیا ہم نے (اسے) اور نہیں تھا اللہ کہ ظلم کرتا وہ ان پر لیکن تھے وہ (خود ہی) اپنے نفسوں پر ظلم کرتے (40)
#
{38} أي: وكذلك ما فَعَلْنا بعادٍ وثمودَ، وقد علمتَ قَصَصهم، وتبيَّن لكم بشيء تشاهدونه بأبصارِكم من مساكِنِهم وآثارِهِم التي بانوا عنها، وقد جاءتهم رسلُهم بالآيات البينات المفيدة للبصيرة، فكذَّبوهم وجادلوهم، وزين لهم الشيطان عملهم، حتى ظنوا أنه أفضل مما جاءتهم به الرسل.
[38] اور ہم نے عاد و ثمود کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا آپ کو ان کا قصہ معلوم ہے۔ اگر تم ان کے گھروں اور ان کے آثار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو جن کو وہ چھوڑ گئے ہیں تو تم پر کچھ حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے جو بصیرت کے لیے مفید تھے مگر انھوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ جھگڑا کیا۔﴿ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ اَعْمَالَهُمْ ﴾ ’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا‘‘ حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے کہ یہ اعمال ان اعمال سے افضل ہیں جنھیں انبیاء لے کر آئے ہیں ۔
#
{39} وكذلك قارونُ وفرعونُ وهامانُ، حين بعث الله إليهم موسى بن عمران بالآيات البينات والبراهين الساطعات، فلم ينقادوا، واستكبروا في الأرض على عباد الله فأذلُّوهم، وعلى الحقِّ فردوه فلم يقدروا على النجاء حين نزلت بهم العقوبة. {وما كانوا سابقينَ}: اللهَ ولا فائتينَ، بل سلَّموا واسْتَسْلموا.
[39] قارون، فرعون اور ہامان کا یہی رویہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمرانu کو واضح دلائل اور روشن براہین کے ساتھ مبعوث کیا تو انھوں نے ان دلائل کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا بلکہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور انھیں ذلیل کیا اور حق کو تکبر کے ساتھ ٹھکرا دیا مگر جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس سے بچنے پر قادر نہ تھے۔﴿وَمَا كَانُوْا سٰؔبِقِیْنَ﴾ وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں جا نہ سکے اور انھیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا پڑا۔
#
{40} {فكلاًّ}: من هؤلاء الأمم المكذِّبة {أخذنا بِذَنبِهِ}: على قدره وبعقوبةٍ مناسبة له، {فمنهم مَنْ أرْسَلْنا عليه حاصباً}؛ أي: عذاباً يَحْصِبُهم كقوم عادٍ حين أرسل الله {عليهم الريح العقيم} و {سخَّرها عليهم سبعَ ليال وثمانيةَ أيام حسوماً فترى القوم فيها صَرْعى كأنَّهم أعجازُ نخل خاوية}، {ومنهم من أخَذَتْه الصيحةُ}: كقوم صالح، {ومنهم مَنْ خَسَفْنا به الأرض}: كقارون، {ومنهم من أغْرَقْنا}: كفرعون وهامان وجنودهما. {وما كان اللهُ}؛ أي: ما ينبغي ولا يليقُ به تعالى أن يظلمهم لكمال عدله وغناه التام عن جميع الخلق، {ولكِن كَانُوا أنفُسَهُم يَظلِمُونَ}: منعوها حقَّها التي هي بصددِهِ؛ فإنَّها مخلوقةٌ لعبادة الله وحده؛ فهؤلاء وَضَعوها في غير موضِعِها، وشَغَلوها بالشهواتِ والمعاصي، فضرُّوها غاية الضرر من حيث ظنُّوا أنهم ينفعونها.
[40] ﴿ فَكُلًّا ﴾ ’’پس سب کو۔‘‘ یعنی انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان تمام قوموں کو ﴿ اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ﴾ ہم نے ان کے گناہ کی مقدار اور اس گناہ سے مناسبت والی سزاکے ذریعے سے پکڑ لیا۔ ﴿ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا﴾ ’’پس ان میں کچھ تو ایسے تھے جن پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔‘‘ یعنی ہم نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا جس میں ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا جیسے قوم عاد، اللہ تعالیٰ نے اس پر تباہ کن آندھی بھیجی اور ﴿سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ﴾ (الحاقۃ:69؍7) اس ہوا کو سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار چلائے رکھا تو تو ان نافرمان لوگوں کو اس میں اس طرح مرے پڑے ہوئے دیکھتا ہے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں ۔‘‘ ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ﴾ ’’اور کچھ ایسے تھے جن کو چنگھاڑ نے آپکڑا‘‘ جیسے صالحu کی قوم ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ﴾ ’’اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا۔‘‘ جیسے قارون ﴿ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْ٘رَقْنَا﴾ ’’اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم غرق کردیا۔‘‘ جیسے فرعون، ہامان اور ان کے لشکر ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب اور اس کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کمال عدل اور مخلوق سے کامل بے نیازی کی بنا پر بندوں پر ظلم کرتا ﴿وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’لیکن وہ اپنے ہی نفوس پر ظلم کرتے تھے۔‘‘ انھوں نے اپنے نفوس کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا۔ کیونکہ نفوس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پیدا كيے گئے ہیں ۔ ان مشرکین نے ان کو ایسے کاموں میں استعمال کیا جن کے لیے وہ پیدا نہیں كيے گئے۔ انھوں نے ان کو شہوات میں مشغول کر کے سخت نقصان پہنچایا جبکہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا رہے کہ وہ ان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔
آیت: 41 - 43 #
{مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (41) إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (42) وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ (43)}.
مثال ان لوگوں کی جنھوں نے بنائے سوائے اللہ کے (اور) کارساز (وہ) مانند مثال مکڑی کی ہیں کہ بنایا اس نے ایک گھراور بلاشبہ زیادہ کمزور سب گھروں سے البتہ گھر (جالا) ہے مکڑی کا، کاش! کہ ہوتے وہ جانتے (41) بلاشبہ اللہ جانتا ہے جس کو وہ (مشرک) پکارتے ہیں سوائے اللہ کے جو بھی ہواور وہ نہایت غالب، خوب حکمت والا ہے (42) اور یہ مثالیں ہیں ، بیان کرتے ہیں ہم ان کو لوگوں کے لیے اور نہیں سمجھتے انھیں مگر علم والے ہی (43)
#
{41} هذا مثلٌ ضربه الله لمن عَبَدَ معه غيرَه يقصدُ به التعزُّز والتقوِّي والنفع، وأنَّ الأمر بخلاف مقصوده؛ فإنَّ مَثَلَه كمثل العنكبوت اتَّخذت بيتاً يقيها من الحرِّ والبرد والآفات، {وإنَّ أوهنَ البيوتِ}: أضعفها وأوهاها {لبيتُ العنكبوتِ}: فالعنكبوت من الحيوانات الضعيفة، وبيتُها من أضعف البيوت؛ فما ازدادتْ باتِّخاذه إلاَّ ضعفاً. كذلك هؤلاء الذين يتَّخذون من دونه أولياء فقراء عاجزون من جميع الوجوه، وحين اتَّخذوا الأولياء من دونه يتعزَّزون بهم ويستَنْصِرونهم؛ ازدادوا ضَعْفاً إلى ضعفهم ووهناً إلى وهنهم؛ فإنَّهم اتَّكلوا عليهم في كثير من مصالحهم، وألْقَوْها عليهم، وتخلَّوْا هم عنها؛ على أنَّ أولئك سيقومون بها، فخذلوهم، فلم يحصُلوا منهم على طائل، ولا أنالوهم من معونتهم أقلَّ نائل؛ فلو كانوا يعلمون حقيقة العلم حالهم وحال مَن اتَّخذوهم؛ لم يَتَّخِذوهم، ولتبرؤوا منهم، ولتولَّوا الربَّ القادر الرحيم، الذي إذا تولاَّه عبدُه وتوكَّل عليه؛ كفاه مؤونة دينه ودنياه، وازداد قوَّة إلى قوَّته في قلبه وبدنه وحاله وأعماله.
[41] یہ مثال، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس شخص کے لیے بیان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کی عبادت بھی کرتا ہے اور اس کا مقصد ان سے عزت، قوت اور منفعت کا حصول ہے، حالانکہ حقیقت اس کے مقصود کے بالکل برعکس ہے۔اس شخص کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جس نے جالے کا گھر بنایا ہو تاکہ گرمی، سردی اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔ ﴿وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ ﴾ ’’مگر سب سے کمزور گھر‘‘ ﴿ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ﴾ ’’مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔‘‘ مکڑی سب سے کمزور حیوان اور اس کا گھر سب سے کمزور گھر ہے اور وہ گھر بنا کر اس میں کمزوری کے سوا کچھ اضافہ نہیں کرتی۔ اسی طرح یہ مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے سرپرست بنا رہے ہیں ۔ ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہیں ۔ یہ لوگ غیر اللہ کی اس لیے عبادت کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے عزت اور فتح و نصرت حاصل کریں مگر وہ اپنی کمزوری اور بے بسی میں اضافہ ہی کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے بہت سے مصالح کو ان پر بھروسہ کرتے ہوئے، ان پر چھوڑ دیا اوران سے الگ ہوگئے کہ عنقریب ان کے معبود ذمہ داری اٹھالیں گے تو ان کے معبودوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ پس انھیں ان سے کوئی فائدہ اور کوئی ادنیٰ سی مدد بھی حاصل نہیں ہو سکی۔ اگر انھیں اپنے حال کے بارے میں حقیقی علم ہوتا اور انھیں ان ہستیوں کی بے بسی کا حال بھی معلوم ہوتا تو وہ انھیں کبھی معبود نہ بناتے، ان سے بیزاری کااظہار کرتے اور رب قادر و رحیم کو اپنا والی و مددگار بناتے۔ بندہ جب اس قادر و رحیم کو اپنا سرپرست بنا کر اس پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے دین و دنیا کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اس کے قلب و بدن اور حال و اعمال میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
#
{42} ولمَّا بيَّن نهايةَ ضَعْف آلهة المشركين؛ ارتقى من هذا إلى ما هو أبلغ منه، وأنَّها ليس بشيء، بل هي مجرَّدُ أسماء سمَّوْها وظنونٍ اعتقدوها، وعند التحقيق يتبيَّن للعاقل بطلانها وعدمها، ولهذا قال: {إنَّ الله يعلمُ ما يَدعونَ من دونِهِ من شيءٍ}؛ أي: إنَّه تعالى يعلم ـ وهو عالم الغيب والشهادة ـ أنَّهم ما يدعون من دون الله شيئاً موجوداً ولا إلهاً له حقيقةً؛ كقوله تعالى: {إنْ هي إلاَّ أسماءٌ سَمَّيْتُوها أنتُم وآباؤكم ما أنْزَلَ الله بها من سلطانٍ}، وقوله: {وما يَتَّبِعُ الذين يَدْعون مِن دون الله شركاءَ إنْ يَتَّبِعون إلا الظنَّ}. {وهو العزيزُ}: الذي له القوَّة جميعاً، التي قهر بها جميع الخلق. {الحكيم}: الذي يضع الأشياء مواضِعَها، الذي أحسن كلَّ شيء خَلَقَه وأتقنَ ما أمره.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے معبودان باطل کی کمزوری بیان کرنے کے بعد اس سے زیادہ بلیغ اسلوب کی طرف ارتقا کیا، فرمایا کہ ان معبودان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ یہ تو مجرد نام ہیں جو انھوں نے گھڑ لیے ہیں اور محض وہم و گمان ہے جس کو انھوں نے عقیدہ بنا لیا ہے۔ تحقیق کے وقت ایک عقل مند شخص پر اس کا بطلان واضح ہو جائے گا بنابریں فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے … اور وہ غائب و موجود کا علم رکھنے والا ہے … کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کو پکارتے ہیں ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ، ان کا کوئی وجود ہے نہ وہ حقیقت میں الٰہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰ٘نٍ﴾ (النجم:53؍23) ’’یہ صرف نام ہیں جن کو تم نے اور تمھارے آباء و اجداد نے گھڑ لیا ہے جس پر اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَا یَتَّ٘بِـعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُ٘رَؔكَآءَ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ (یونس:10؍66) ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا کچھ خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ صرف وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ محض قیاس آرائیاں کررہے ہیں ۔‘‘ ﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ جو تمام قوت کا مالک اور جو تمام مخلوق پر غالب ہے ﴿ الْحَكِیْمُ ﴾ جو تمام چیزوں کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے، جس نے ہر چیز کو بہترین تخلیق سے نوازا اور اس نے جو حکم دیا بہترین حکم دیا۔
#
{43} {وتلك الأمثالُ نَضْرِبُها للناس}؛ أي: لأجلهم ولانتفاعهم وتعليمهم؛ لكونِها من الطرق الموضحة للعلوم؛ لأنَّها تُقَرِّبُ الأمور المعقولة بالأمور المحسوسة، فيتَّضح المعنى المطلوب بسببها؛ فهي مصلحة لعموم الناس. {و} لكن {مَا يَعقِلُهَا}: لفهمها وتدبرها وتطبيقها على ما ضُرِبَتْ له وَعَقَلَها في القلب {إلاَّ العالمونَ}؛ أي: إلاَّ أهلُ العلم الحقيقي، الذين وصل العلمُ إلى قلوبهم. وهذا مدحٌ للأمثال التي يضرِبُها، وحثٌّ على تدبُّرها وتعقُّلها، ومدحٌ لمن يَعْقِلها، وأنَّه عنوانٌ على أنَّه من أهل العلم، فعُلِمَ أنَّ مَنْ لم يَعْقِلْها ليس من العالمين. والسببُ في ذلك أنَّ الأمثال التي يضرِبها الله في القرآن إنَّما هي للأمور الكبار والمطالب العالية والمسائل الجليلة، فأهلُ العلم يعرِفون أنَّها أهمُّ من غيرها؛ لاعتناء الله بها، وحثِّه عبادَه على تعقُّلها وتدبُّرها، فيبذلون جهدَهم في معرفتها، وأمّا من لم يَعْقِلْها مع أهميِّتها؛ فإنَّ ذلك دليلٌ على أنَّه ليس من أهل العلم؛ لأنَّه إذا لم يعرف المسائل المهمَّة، فعدم معرفتِهِ غيرَها من باب أولى وأحرى، ولهذا أكثرُ ما يضرِبُ اللهُ الأمثالَ في أصول الدين ونحوها.
[43] ﴿ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ﴾ ’’اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں ۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ مثالیں لوگوں کے فائدے اور ان کی تعلیم کی خاطر بیان کی ہیں کیونکہ ضرب الامثال علوم کو توضیح کے ساتھ بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ ضرب الامثال کے ذریعے سے امور عقلیہ کو امور حسیہ کے قریب لایا جاتا ہے اور مثالوں کے ذریعے سے معانئ مطلوبہ واضح ہو جاتے ہیں ۔ ﴿ وَمَا یَعْقِلُهَاۤ ﴾ مگر اس میں غوروفکر کے بعد اس میں وہی لوگ فہم حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے قلب میں عقل کے ساتھ وہی لوگ اس کی تطبیق کرتے ہیں ۔ ﴿ اِلَّا الْ٘عٰلِمُوْنَ ﴾ جو حقیقی اہل علم ہیں اور علم ان کے قلب کی گہرائیوں میں جاگزیں ہے۔ یہ ضرب الامثال کی مدح و توصیف ہے نیزان میں تدبر کرنے اور ان کو سمجھنے کی ترغیب اورجو کوئی ان میں سمجھ پیدا کرتا ہے اس کی مدح و ثنا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرب الامثال استعمال کرنے والا شخص اہل علم میں سے ہے اور نیز جو ان کو نہیں سمجھتا وہ اہل علم میں شمار نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو امثال بیان کی ہیں وہ بڑے بڑے امور، مطالب عالیہ اور مسائل جلیلہ میں بیان کی ہیں ، اہل علم جانتے ہیں کہ ضرب الامثال دیگر اسالیبِ بیان سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو درخوراعتنا قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ ان میں غوروفکر کریں اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں ۔ رہا وہ شخص جو ضرب الامثال کی اہمیت کے باوجود، ان کو نہیں سمجھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اہل علم میں سے نہیں ہے کیونکہ جب وہ نہایت اہم مسائل کی معرفت نہیں رکھتا تو غیر اہم مسائل میں اس کی عدم معرفت زیادہ اولیٰ ہے، بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زیادہ تر اصول دین وغیرہ میں ضرب الامثال استعمال کی ہیں ۔
آیت: 44 #
{خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ (44)}.
پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے، بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہے مومنوں کے لیے (44)
#
{44} أي: هو تعالى المنفردُ بخلق السماواتِ على علوِّها وارتفاعها وسَعَتِها وحسنها وما فيها من الشمس والقمر والكواكب والملائكة، والأرض وما فيها من الجبال والبحار والبراري والقفار والأشجار ونحوها، وكلُّ ذلك خَلَقَه بالحقِّ؛ أي: لم يَخْلُقْها عبثاً ولا سدىً ولا لغير فائدة، وإنَّما خلقها ليقوم أمره وشرعُه، ولتتمَّ نعمتُه على عباده، ولِيَرَوْا من حكمتِهِ وقهرِهِ وتدبيرِهِ ما يدلُّهم على أنَّه وحدَه معبودُهم ومحبوبُهم وإلههم. {إنَّ في ذلك لآيةً للمؤمنين}: على كثير من المطالب الإيمانيَّة، إذا تدبَّرها المؤمن؛ رأى ذلك فيها عياناً.
[44] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے کہ جس نے آسمانوں کو ان کی بلندیوں ، ان کی کشادگی، ان کی خوبصورتی اور ان کے اندر سورج، چاند، دیگر سیارگان اور فرشتوں کی موجودگی کے باوجود، اکیلے تخلیق کیا ہے اور وہی ہے جو زمین اور اس کے پہاڑوں ، سمندروں ، صحراؤں ، بیابانوں اور درختوں کی تخلیق میں متفرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو عبث، بے کار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو صرف اس لیے تخلیق فرمایا ہے کہ اس کا حکم اور شریعت نافذ ہو اور اس کے بندوں پر اس کی نعمت کا اتمام ہو تاکہ بندے اس کی حکمت، اس کے غلبہ اور اس کی تدبیر کائنات کا مشاہدہ کریں جو اس حقیقت کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے کہ وہ اکیلا ان کا معبود، محبوب اور الٰہ ہے۔ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ بے شک اس میں اہل ایمان کے لیے بہت سے مطالب ایمانیہ کی طرف راہنمائی کے لیے نشانیاں ہیں جب بندۂ مومن ان میں تدبر کرتا ہے تو ان نشانیوں کو عیاں دیکھتا ہے۔
آیت: 45 #
{اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (45)}.
آپ تلاوت کیجیے جو کچھ وحی کیا گیا آپ کی طرف کتا ب سے، اور قائم کیجیے نماز، بلاشبہ نماز روکتی ہے بے حیائی اور برے کاموں سے، اور البتہ یاد کرنا اللہ کا(اپنے بندوں کو) بہت بڑی چیزہے، اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو(45)
#
{45} يأمر تعالى بتلاوة وحيه وتنزيله، وهو هذا الكتاب العظيم، ومعنى تلاوتِهِ: اتِّباعُهُ بامتثال ما يأمرُ به واجتناب ما ينهى [عنه]، والاهتداءِ بهداه، وتصديق أخباره، وتدبُّر معانيه، وتلاوة ألفاظه. فصار تلاوةُ لفظِهِ جزءَ المعنى وبعضَه، وإذا كان هذا معنى تلاوة الكتاب؛ عُلِمَ أنَّ إقامةَ الدين كُلِّه داخلةٌ في تلاوة الكتاب، فيكون قوله: {وأقم الصلاة}: من باب عطف الخاصِّ على العامِّ؛ لفضل الصلاة وشرفها وآثارها الجميلة، وهي: {إنَّ الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر}: فالفحشاءُ كلُّ ما استُعْظِمَ واستُفْحِشَ من المعاصي التي تشتهيها النفوس، والمنكَر كلُّ معصية تُنْكِرُها العقول والفطر. ووجْهُ كونِ الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر: أنَّ العبد المقيم لها المتمِّم لأركانها وشروطها وخشوعها يستنيرُ قلبُه ويتطهَّر فؤاده ويزدادُ إيمانُه وتقوى رغبتُه في الخير وتقلُّ أو تعدم رغبتُه في الشرِّ؛ فبالضرورة مداومتها، والمحافظةُ عليها على هذا الوجه تنهى عن الفحشاء والمنكر؛ فهذا من أعظم مقاصدِ الصلاةِ وثمراتها. وثَمَّ في الصلاة مقصودٌ أعظمُ من هذا وأكبرُ، وهو ما اشتملتْ عليه من ذِكْرِ الله بالقلب واللسان والبدن؛ فإنَّ الله تعالى إنَّما خلق العباد لعبادتِهِ، وأفضلُ عبادةٍ تقع منهم الصلاة، وفيها من عبوديَّات الجوارح كلِّها ما ليس في غيرها، ولهذا قال: {ولَذِكْرُ الله أكبرُ}: ويُحْتَمَلُ أنَّه لمَّا أمَرَ بالصلاة ومدحها؛ أخبر أنَّ ذِكْرَه تعالى خارج الصلاةِ أكبرُ من الصلاة؛ كما هو قولُ جمهور المفسِّرين، لكنَّ الأول أولى؛ لأنَّ الصلاة أفضلُ من الذِّكر خارجها، ولأنَّها ـ كما تقدَّم ـ بنفسِها من أكبر الذكر. {والله يعلم ما تصنَعونَ}: من خيرٍ وشرٍّ، فيجازيكم على ذلك أكمل الجزاء وأوفاه.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وحی و تنزیل یعنی اس کتاب عظیم کی تلاوت کا حکم دیتا ہے۔ یہاں اس کتاب عظیم کی تلاوت کا معنی یہ ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کیا جائے، اس کی ہدایت کو راہ نما بنایا جائے، اس کی خبر کی تصدیق، اس کے معانی میں تدبر اور اس کے الفاظ کی تلاوت کی جائے۔ تب اس کے الفاظ کی تلاوت، معنی ہی کا جزو شمار ہو گی۔ جب تلاوت کا معنی مذکورہ بالا امور کو شامل ہے تو معلوم ہوا کہ مکمل اقامت دین تلاوت کتاب میں داخل ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰ٘وةَ﴾’’اورنماز قائم کرو۔‘‘عام پر عطفِ خاص کے باب میں سے ہے اور اس کی وجہ نماز کی فضیلت، اس کا شرف اور اس کے اچھے اثرات ہیں۔ ﴿اِنَّ الصَّلٰ٘وةَ تَ٘نْ٘هٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْؔكَرِ﴾ ’’بے شک نماز بے حیائی اور منکر سے روکتی ہے۔‘‘ ﴿الْفَحْشَآءِ ﴾سے مراد ہر وہ بڑا گناہ ہے جس کی قباحت مسلّم اور نفس میں اس کی چاہت ہو۔ ﴿الْمُنْؔكَرِ﴾سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس کو عقل وفطرت برا سمجھے۔ نماز کا فواحش و منکرات سے روکنے کا پہلو یہ ہے کہ بندۂ مومن جو نماز کو قائم کرتا ہے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے ارکان و شرائط کو پورا کرتا ہے، اس کا دل روشن اور پاک ہو جاتا ہے، اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، نیکیوں میں رغبت بڑھ جاتی ہے اور برائیوں کی طرف رغبت کم یا بالکل معدوم ہو جاتی ہے۔ اس طریقے سے نماز پر دوام اور اس کی محافظت ضرور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ پس فواحش و منکرات سے روکنا نماز کا سب سے بڑا مقصد اور اس کا سب سے بڑا ثمرہ ہے۔ نماز کو قائم کرنے میں ایک اور مقصد بھی ہے جو پہلے مقصد سے عظیم تر ہے اور وہ ہے نماز کا اللہ تعالیٰ کے قلبی، لسانی اور بدنی ذکر پر مشتمل ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور بہترین عبادت جو ان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ نماز ہے۔ نیز نماز کے اندر تمام جوارح کی عبودیت شامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی۔ بنابریں فرمایا: ﴿وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ ’’اور اللہ کا ذکر بڑا ہے۔‘‘ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور اس کی مدح کی ، اس لیے آگاہ فرمایا کہ نماز کے باہر اللہ تعالیٰ کا ذکر نماز سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین کا قول ہے، مگر پہلا معنی اولیٰ ہے کیونکہ نماز اس ذکر سے بہتر ہے جو نماز سے باہر ہو کیونکہ نماز بذات خود سب سے بڑا ذکر ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ﴾ اور تم جو نیکی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے، وہ تمھیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
آیت: 46 #
{وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (46)}.
اور نہ جھگڑو تم اہل کتاب سے مگر اس طریقے سے کہ وہ بہت بہتر ہے، مگر ان لوگوں سے جنھوں نے ظلم کیا ان میں سے، اور کہو تم: ہم ایمان لائے اس (کتاب) پر جو نازل کی گئی ہماری طرف، اور (جو) نازل کی گئی تمھاری طرف اور ہمارا معبود اور تمھارا معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں(46)
#
{46} ينهى تعالى عن مجادلة أهل الكتاب إذا كانتْ عن غير بصيرةٍ من المجادِلِ أو بغير قاعدة مَرْضِيَّة، وأنْ لا يجادِلوا إلاَّ بالتي هي أحسن؛ بحسن خُلُق ولطفٍ ولينِ كلام ودعوةٍ إلى الحقِّ وتحسينه، وردِّ عن الباطل وتهجينه بأقرب طريقٍ موصل لذلك، وأنْ لا يكون القصدُ منها مجرَّدَ المجادلةِ والمغالبةِ وحبِّ العلو، بل يكونُ القصدُ بيانَ الحقِّ وهداية الخلق، {إلاَّ}: مَنْ ظَلَمَ من أهل الكتاب؛ بأن ظَهَرَ من قصده وحاله أنه لا إرادةَ له في الحقِّ، وإنَّما يجادِلُ على وجه المشاغبة والمغالبة؛ فهذا لا فائدة في جداله؛ لأنَّ المقصود منها ضائع، {وقولوا آمنَّا بالذي أُنزِلَ إلَيْنا وأُنزِلَ إليكُم وإلهُنا وإلهُكم واحِدٌ}؛ أي: ولتكن مجادلتُكم لأهل الكتاب مبنيَّةً على الإيمان بما أنزل إليكم وأنزل إليهم، وعلى الإيمان برسولكم ورسولهم، وعلى أنَّ الإله واحدٌ، ولا تكنْ مناظرتُكم إيَّاهم على وجهٍ يحصُلُ به القدحُ في شيءٍ من الكتب الإلهيَّة أو بأحد من الرسل كما يفعلُه الجهلةُ عند مناظرة الخصوم يقدحُ بجميع ما معهم من حقٍّ وباطلٍ؛ فهذا ظلمٌ وخروجٌ عن الواجب وآداب النظر؛ فإنَّ الواجب أن يُرَدَّ ما مع الخصم من الباطل، ويُقْبَلَ ما معه من الحقِّ، ولا يُرَدُّ الحقُّ لأجل قولِهِ، ولو كان كافراً. وأيضاً؛ فإنَّ بناء مناظرة أهل الكتاب على هذا الطريق فيه إلزامٌ لهم بالإقرار بالقرآن وبالرسول الذي جاء به؛ فإنَّه إذا تكلَّم في الأصول الدينيَّة والتي اتَّفقت عليها الأنبياءُ والكُتُب وتقرَّرت عند المتناظرين وثبتت حقائقها عندهما وكانت الكتبُ السابقةُ والمرسَلون مع القرآن ومحمدٍ - صلى الله عليه وسلم - قد بيَّنتها، ودلَّت عليها وأخبرت بها؛ فإنَّه يلزمُ التصديقُ بالكتب كلِّها والرسل كلِّهم، وهذا من خصائص الإسلام، فأمَّا أنْ يُقالَ: نؤمن بما دلَّ عليه الكتابُ الفلانيُّ دون الكتاب الفلانيِّ، وهو الحقُّ الذي صَدَّقَ ما قبله؛ فهذا ظلمٌ وهوى ، وهو يرجِع إلى قوله بالتكذيب؛ لأنَّه إذا كذَّب القرآن الدالَّ عليها المصدق لما بين يديه من التوراة؛ فإنَّه مكذِّب لما زعم أنه به مؤمن. وأيضاً؛ فإنَّ كلَّ طريق تثبت بها نبوَّة أي نبيٍّ كان؛ فإنَّ مثلها وأعظم منها دالَّة على نبوَّة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وكلُّ شبهة يُقدح بها في نبوَّة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ مثلَها أو أعظم منها يمكن توجيهها إلى نبوَّة غيرِهِ؛ فإذا ثبت بطلانُها في غيرِهِ؛ فثبُوت بطلانِها في حقِّه - صلى الله عليه وسلم - أظهرُ وأظهرُ. وقوله: {ونحنُ له مسلمونَ}؛ أي: منقادون مستسلمون لأمرِهِ، ومَنْ آمنَ به واتَّخذه إلهاً وآمنَ بجميع كتبِهِ ورسلِهِ وانقاد لله واتَّبع رسلَه؛ فهو السعيدُ، ومَنِ انحرفَ عن هذا الطريق؛ فهو الشقي.
[46] اللہ تبارک وتعالیٰ اہل کتاب سے ایسی بحث کرنے سے روکتا ہے جو بصیرت کی بنیاد پر اور کسی مسلمہ قاعدے کے مطابق نہ ہو، نیز اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب بھی اہل کتاب سے بحث کریں تو احسن انداز، حسن اخلاق اور نرم کلامی سے ان کے ساتھ بحث کریں اور دعوت اسلام بہترین طریقے سے پیش کریں اور باطل کو قریب ترین ذریعے سے رد کریں۔ اس بحث کا مقصد محض جھگڑنا اور مدمقابل پر غلبہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد تبیین حق اور مخلوق کی ہدایت ہو۔ اہل کتاب میں سے ایسے آدمی کے سوا جس نے اپنے اس ارادے اور حالت کا اظہار کرکے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اس کے بحث کرنے کا مقصد وضاحت حق نہیں بلکہ وہ تو صرف غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے بحث کرنے کا مقصد ضائع ہو جائے گا۔ ﴿وَقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَاُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَاِلٰهُنَا وَاِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ ﴾ ’’اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اتری اور جو (کتابیں) تم پر اتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہی ہے۔‘‘ یعنی اہل کتاب کے ساتھ تمھاری بحث اور مناظرے کی بنیاد اس کتاب پر ہونی چاہیے جو تم پر نازل ہوئی ہے اور جو ان پر نازل ہوئی ہے نیز تمھارے رسول اور ان کے رسول پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے پر ایمان اس بحث و مناظرے کی اساس ہو۔ ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث کریں جس سے کتب الٰہیہ اور انبیاء و مرسلین میں جرح و قدح لازم نہ آتی ہو جیسا کہ مناظرہ و بحث کے وقت جہلاء کا وتیرہ ہے۔ جہلاء اپنے مدمقابل کی حق اور باطل، ہر بات میں جرح و قدح کرتے ہیں۔ یہ طریقۂ بحث ظلم، واجب کو نظرانداز کرنا اور آداب مناظرہ کی حدود سے تجاوز ہے کیونکہ واجب یہ ہے کہ مخالف کے باطل نظریات کو رد کیا جائے اور اس کی حق باتوں کو قبول کیا جائے۔ اپنے موقف کو حق ثابت کرنے کے لیے مخالف کی حق بات کو کبھی رد نہ کیا جائے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، نیز اہل کتاب کے ساتھ اس نہج پر مناظرہ کرنے سے ان پر قرآن اور قرآن کے لانے والے رسول (e)کا اقرار لازم آتا ہے۔ کیونکہ جب وہ ان اصول دینیہ پر بحث کرے گا جن پر تمام انبیاء ورسل اور کتب الٰہیہ متفق ہیں، مناظرہ کرنے والے دونوں گروہوں کے نزدیک وہ مسلمہ اور اس کے حقائق ثابت شدہ ہیں نیز تمام کتب سابقہ اور انبیاء و مرسلین قرآن اور نبی مصطفی محمد e کی تائید کرتے ہیں… یہ کتب الٰہیہ ان حقائق کو واضح کرتی ہیں، ان پر دلالت کرتی ہیں اور ان ہی کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں… تو اس پر تمام کتابوں اور تمام رسولوں کی تصدیق لازم آئے گی اور یہ اسلام کے خصائص میں سے ہے۔ یہ کہنا کہ ہم فلاں کتاب کی بجائے فلاں کتاب کی دلیل کو تسلیم کرتے ہیں، یہی حق ہے جس پر کتب سابقہ دلالت کرتی ہیں تو یہ ظلم اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ان کا یہ قول کتب الٰہیہ کی تکذیب ہے کیونکہ اگر وہ قرآن کی دلیل کی تکذیب کرتا ہے، جو کہ گزشتہ کتب سماویہ کی تصدیق کرتا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان تمام کتب سماویہ کی تکذیب کرتا ہے جن پر ایمان لانے کا وہ دعویدار ہے، نیز ہر وہ طریقہ جس سے کسی بھی نبی کی نبوت ثابت ہوتی ہے تو اسی طریقے سے محمد مصطفیe کی نبوت بہتر طور پر ثابت ہوتی ہے۔ ہر وہ شبہ جو رسول اللہe کی نبوت میں جرح وقدح کا باعث ہے اس جیسا یا اس سے بھی بڑا شبہ دیگر انبیاء کی نبوت میں جرح و قدح کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی نبوت میں اس شبہ کا بطلان ثابت کیا جا سکتا ہے تو نبی اکرم e کی نبوت میں اس قسم کے شبہات کا بطلان بدرجہ اولیٰ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ﴿وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ﴾ ’’اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے، اسے معبود بناتا ہے، اس کی تمام کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کرتا ہے تو وہ سعادت مند ہے اور جو کوئی اس راستے سے انحراف کرتا ہے وہ بدبخت ہے۔
آیت: 47 - 48 #
{وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ (47) وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (48)}.
اسی طرح نازل کی ہم نے آپ کی طرف(یہ)کتاب (قرآن)، پس وہ لوگ کہ دی ہم نے انھیں کتاب (تورات)، وہ ایمان لاتے ہیں اس پر ، اور بعض ان (اہل مکہ) میں سے بھی وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس پراور نہیں انکار کرتے ہماری آیتوں کا مگر کافر لوگ ہی(47) اور نہیں تھے آپ پڑھتے پہلے اس (قرآن) سے کوئی کتاب اور نہ لکھتے تھے آپ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے (اگر ایسا ہوتا) تب البتہ شک کرتے باطل پرست(48)
#
{47} أي: {وكذلك أنزَلْنا إليك}: يا محمدُ، هذا {الكتاب} الكريم، المبيِّنَ كلَّ نبأ عظيم، الداعي إلى كلِّ خُلُق فاضل وأمرٍ كامل، المصدِّق للكتب السابقة، المخبر به الأنبياء الأقدمون، {فالذين آتَيْناهم الكتابَ}: فعرفوه حقَّ معرفتِهِ ولم يداخِلْهم حسدٌ وهوى، {يؤمنونَ به}: لأنَّهم تيقَّنوا صِدْقَه بما لديهم من الموافقات، وبما عندَهم من البِشارات، وبما تميَّزوا به من معرفة الحسن والقبيح والصدق والكذب. {ومِن هؤلاء}: الموجودين {مَن يؤمنُ به}: إيماناً عن بصيرةٍ لا عن رغبةٍ ولا رهبةٍ، {وما يجحدُ بآياتنا إلاَّ الكافرونَ}: الذين دأبهم الجحودُ للحقِّ والعنادُ له، وهذا حصرٌ لمن كفر به؛ أنَّه لا يكون من أحدٍ قصدُهُ متابعةُ الحقِّ، وإلاَّ؛ فكلُّ مَنْ له قصدٌ صحيحٌ؛ فإنَّه لا بدَّ أن يؤمنَ به؛ لما اشتمل عليه من البيناتِ لكلِّ مَنْ له عقلٌ أو ألقى السمع وهو شهيدٌ. ومما يدلُّ على صحتِهِ أنَّه جاء به هذا النبيُّ الأمين، الذي عَرَفَ قومُه صدقَه وأمانتَه ومدخلَه ومخرجَه وسائرَ أحواله، وهو لا يكتبُ بيده خطًّا، بل ولا يقرأ خطًّا مكتوباً، فإتيانُه به في هذه الحال من أظهر البينات القاطعة التي لا تقبلُ الارتياب أنَّه من عند الله العزيز الحميد.
[47] ﴿وَؔكَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰب ﴾ ’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اتاری کتاب‘‘ یعنی اے محمد(e) ہم نے آپ پر یہ کتاب کریم نازل کی جو ہر بڑی خبر کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے جو ہر خلق حسن اور ہر امر کامل کی طرف دعوت دیتی ہے، جو تمام کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے جن کے بارے میں گزشتہ انبیاء نے خبر دی ہے۔ ﴿فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ ﴾ ’’پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے‘‘ انھوں نے اسے اس طرح پہچان لیا ہے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے اور ان کے ہاں کسی حسد نے مداخلت کی ہے نہ خواہشات نفس نے۔ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ﴾ ’’وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔‘‘ کیونکہ انھیں اس کے برحق اور سچ ہونے کا یقین ہوگیا ہے، اس لیے کہ انھی کی کتابوں میں ایسی باتیں ہیں جو قرآن کے موافق ہیں اور بشارتیں ہیں اور ایسے امور ہیں جن کے ذریعے سے وہ حسن و قبح اور صدق و کذب میں امتیاز کرتے ہیں۔ ﴿وَمِنْ هٰۤؤُلَآءِ ﴾ ’’اور ان لوگوں میں سے۔‘‘ جو موجود ہیں ﴿مَنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ﴾ ’’ایسے بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘ یعنی جو اس پر رغبت اور خوف کی بنا پر نہیں بلکہ بصیرت کی بنا پر ایمان لاتے ہیں ﴿وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور صرف کفار ہی ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں‘‘ جن کی فطرت میں انکار حق اور عناد رچا بسا ہوا ہے۔ اس حصر کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے اس کا انکار کیا یعنی ان میں سے کسی شخص کا مقصد متابعت حق نہیں۔ ورنہ جس شخص کا مقصد صحیح ہے تو وہ لازمی طور پر ایمان لاتا ہے کیونکہ یہ واضح دلائل پر مشتمل ہے اور ان دلائل کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جو عقل سے بہرہ ور ہے، جو اسے توجہ سے سنتا ہے اور اس کی صداقت پر گواہ بھی ہے۔ اس عظیم کتاب کی صداقت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے وہ نبی امین لے کر آیا ہے جس کی صداقت اور امانت کا اس کی پوری قوم اعتراف کرتی ہے، جس کے پورے معمولات اور تمام احوال کو اس کی قوم اچھی طرح جانتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے لکھ نہیں سکتا بلکہ وہ تو لکھا ہوا پڑھ نہیں سکتا۔ اس صورت حال میں ایک کتاب پیش کرنا سب سے بڑی اور قطعی دلیل ہے، جس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو غالب اور قابل ستائش ہے۔
#
{48} ولهذا قال: {وما كنتَ تتلو}؛ أي: تقرأ {من قبلِهِ من كتاب ولا تَخُطُّه بيمينك إذاً}: لو كنت بهذه الحال {لارتابَ المبطِلونَ}: فقالوا تَعَلَّمَهُ من الكتبِ السابقة أو استنسخه منها، فأمَّا وقد نزل على قلبك كتاباً جليلاً تحدَّيْتَ به الفصحاءَ والبلغاءَ الأعداءَ الألدَّاءَ أنْ يأتوا بمثلِهِ أو بسورةٍ من مثله، فعَجَزوا غايةَ العجزِ، بل ولا حدَّثتهم أنفسهم بالمعارضة؛ لعلمهم ببلاغتِهِ وفصاحتِهِ، وأنَّ كلام أحدٍ من البشر لا يبلغ أن يكون مجارياً له أو على منواله، ولهذا قال:
[48] بنا بریں فرمایا: ﴿وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا ﴾ یعنی آپ پڑھ نہیں سکتے تھے ﴿مِنْ قَبْلِهٖ٘ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا ﴾ ’’اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے، اگر ایسا ہوتا۔‘‘ یعنی اگر آپ کا یہ حال ہوتا کہ آپ لکھ پڑھ سکتے ہوتے ﴿لَّارْتَابَ الْ٘مُبْطِلُوْنَ ﴾ ’’تو اہل باطل ضرور شک کرتے‘‘ اور کہتے کہ محمد (e)نے تمام چیزیں پچھلی کتابوں سے پڑھی ہیں یا وہاں سے نقل کی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے قلب پر ایک جلیل القدر کتاب نازل فرمائی۔ اس جیسی کتاب لانے یا اس جیسی ایک سورت ہی بنا لانے کے لیے بڑے بڑے فصیح و بلیغ اور جھگڑالو دشمنوں کو مقابلے کی دعوت دی گئی مگر وہ بالکل عاجز آ گئے بلکہ اس کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر انھوں نے اس کا مقابلہ کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیا کہ کسی بشر کا کلام اس کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ اس کی برابری۔ اس لیے فرمایا:
آیت: 49 #
{بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (49)}.
بلکہ وہ (قرآن) تو آیتیں ہیں واضح، سینوں میں ان لوگوں کے جو دیے گئے علم، اور نہیں انکار کرتے ہماری آیتوں کا مگر ظالم لوگ ہی(49)
#
{49} أي: بل هذا القرآن {آياتٌ بيناتٌ}: لا خفيَّاتٌ {في صدور الذين أوتوا العلم}: وهم سادةُ الخلق وعقلاؤُهم، وأولو الألباب منهم والكُمَّل منهم، فإذا كان آياتٍ بيناتٍ في صدور أمثال هؤلاء؛ كانوا حجَّة على غيرهم، وإنكارُ غيرهم لا يضرُّ، ولا يكون ذلك إلاَّ ظلماً، ولهذا قال: {وما يجحدُ بآياتنا إلا الظَّالمونَ}: لأنَّه لا يجحَدُها إلاَّ جاهلٌ، تكلَّم بغير علم، ولم يقتدِ بأهل العلم، وهو متمكِّن من معرفته على حقيقته، وإمَّا متجاهلٌ عرف أنه حقٌّ فعانَدَه، وعرفَ صدقَه فخالَفه.
[49] ﴿بَلْ ﴾ ’’بلکہ‘‘ یہ قرآن کریم ﴿اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ ﴾ ’’واضح آیات ہیں‘‘ نہ کہ مخفی ﴿فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ﴾ ’’ان لوگوں کے سینوں میں جو علم دیے گئے ہیں۔‘‘ یہ لوگ تمام مخلوق کے سردار، ان کے زیادہ عقل و خرد رکھنے والے اور کامل لوگ ہیں۔ جب ان آیات بینات نے اس قسم کے اصحاب خرد کے سینوں کو منور کر رکھا ہے تو دوسروں پر تو بدرجہ اولیٰ حجت ہیں اور دوسرے لوگ انکار کر کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ انکار ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ بنا بریں فرمایا: ﴿وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ ﴾ یعنی ان آیات کا انکار ایک جاہل شخص ہی کر سکتا ہے جو علم کے بغیر بحث کرتا ہے اور اہل علم اور ان لوگوں کی اقتدا نہیں کرتا جو اس کی حقیقت کی معرفت رکھتے ہیں یا ان آیات کا انکار وہ لوگ کرتے ہیں جو حق کو جان کر اس سے عناد رکھتے ہیں اور اس کی صداقت کو پہچان کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
آیت: 50 - 52 #
{وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (50) أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (51) قُلْ كَفَى بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (52)}
اور کہا انھوں نے، کیوں نہیں اتارے گئے آپ پر معجزے آپ کے رب کی طرف سے ؟ آپ کہہ دیجیے:یقیناً معجزے تو اللہ کے پاس ہیں، اور بلاشبہ میں تو ڈرانے والا ہوں ظاہر(50) کیا نہیں کافی انھیں (یہ کہ) بے شک ہم نے نازل کی آپ پر(یہ) کتاب ، وہ پڑھی جاتی ہے ان پر؟ بلاشبہ اس میں البتہ رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں(51)کہہ دیجیے: کافی ہے اللہ میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ لوگ جو ایمان لائے باطل (جھوٹ) پر اور کفر کیا انھوں نے ساتھ اللہ کے، یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے(52)
#
{50} أي: واعترض هؤلاء الظالمون المكذِّبون للرسول ولما جاء به، واقترحوا عليه نزول آياتٍ عيَّنوها؛ كقولهم: {وقالوا لن نؤمنَ لك حتى تَفْجُرَ لنا من الأرضِ يَنبوعاً ... } الآيات، فتعيين الآياتِ ليس عندَهم ولا عندَ الرسول - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ في ذلك تدبيراً مع اللَّه، وأنَّه لو كان كذا، وينبغي أن يكون كذا، وليس لأحدٍ من الأمر شيءٌ، ولهذا قال: {قلْ إنَّما الآياتُ عند الله}: إنْ شاء أنْزَلَها أو منعها، {وإنَّما أنا نذيرٌ مبينٌ}: وليس لي مرتبة فوق هذه المرتبة. وإذا كان القصدُ بيانَ الحقِّ من الباطل؛ فإذا حصل المقصود بأيِّ طريق كان؛ كان اقتراحُ الآيات المعيَّنات على ذلك ظلماً وجوراً وتكبُّراً على الله وعلى الحق، بل لو قُدِّرَ أن تنزِلَ تلك الآياتُ ويكونَ في قلوبهم أنَّهم لا يؤمنون بالحقِّ إلاَّ بها؛ كان ذلك ليس بإيمان، وإنما ذلك شيء وافقَ أهواءهم، فآمنوا لا لأنَّه حقٌّ، بل لتلك الآيات؛ فأيُّ فائدة حصلت في إنزالها على التقدير الفرضيِّ؟
[50] جب رسول اللہ e یہ کتاب عظیم لے کر آئے تو ان ظالموں نے اعتراض کیا اور معینہ معجزات کے نزول کا مطالبہ کیا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًا﴾ (بنی اسراء یل:17؍90) ’’اور انھوں نے کہا: ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے پانی کا ایک چشمہ جاری نہ کر دے۔‘‘ معجزات و آیات کا تعین ان کے بس کی بات ہے نہ رسول (e)کے اختیار میں ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہیں اور کسی کے اختیار میں کچھ نہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’کہہ دیجیے! معجزات تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔‘‘ پس اگر وہ چاہے تو یہ آیات نازل کر دے اور نہ چاہے تو روک دے۔ ﴿وَاِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور میں تو صرف کھلا خبردار کرنے والا ہوں‘‘ اور اس سے زیادہ میرا کوئی مرتبہ نہیں۔ مقصد تو باطل سے حق کو واضح کرنا ہے۔ جب کسی بھی طریقے سے مقصد حاصل ہو گیا تو معین معجزات کا مطالبہ کرنا ظلم و جور، اللہ تعالیٰ اور حق کے ساتھ تکبر اور عناد ہے، بلکہ اگر رسول اللہ e ان آیات و معجزات کو نازل کرنے پر قادر ہوتے اور ان کے دلوں میں یہ بات ہوتی کہ وہ ان معجزات کے بغیر حق کو نہیں مانیں گے، تو یہ حقیقی ایمان نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہے اس لیے وہ ایمان لے آئے۔ وہ اس لیے ایمان نہیں لائے کہ وہ حق ہے بلکہ اس لیے ایمان لائے ہیں کہ ان کا معجزے کا مطالبہ پورا ہو گیا۔ فرض کیا اگر ایسا ہی ہو تو معجزات نازل کرنے کا کون سا فائدہ ہے۔
#
{51} ولما كان المقصودُ بيانَ الحقِّ؛ ذكر تعالى طريقَه، فقال: {أوَلَم يكفِهِم}: في علمهم بصدقك وصدق ما جئتَ به، {أنَّا أنْزَلْنا عليك الكتابَ يُتلى عليهم}: وهذا كلامٌ مختصرٌ جامعٌ فيه من الآيات البينات والدلالات الباهرات شيءٌ كثير؛ فإنَّه كما تقدَّم إتيانُ الرسول به بمجرَّده وهو أميٌّ من أكبر الآيات على صدقه، ثم عجزهم عن معارضته وتحدِّيهم إيَّاه آية أخرى، ثم ظهوره وبروزه جهراً علانيةً يُتلى عليهم، ويقالُ هو من عند الله، قد أظهره الرسول وهو في وقتٍ قلَّ فيه أنصارُه وكَثُرَ مخالفوه وأعداؤه؛ فلم يُخْفِهِ، ولم يَثْنِ ذلك عزمه، بل صرَّح به على رؤوسِ الأشهاد، ونادى به بين الحاضر والباد؛ بأنَّ هذا كلامُ ربي؛ فهل أحدٌ يقدر على معارضته أو ينطِقُ بمباراته أو يستطيع مجاراته؟! ثم إخباره عن قصص الأولين وأنباء السالفين والغيوب المتقدِّمة والمتأخِّرة، مع مطابقته للواقع. ثم هيمنتُهُ على الكتب المتقدِّمة وتصحيحُهُ للصحيح، ونفيُ ما أُدْخِلَ فيها من التحريف والتبديل، ثم هدايته لسواء السبيل في أمره ونهيه؛ فما أمر بشيء فقال العقلُ: ليتَه لم يأمُرْ به، ولا نهى عن شيءٍ فقال العقلُ: ليته لم ينهَ عنه، بل هو مطابقٌ للعدل والميزان والحكمة المعقولة لذوي البصائر والعقول، ثم مسايرةُ إرشاداته وهدايته وأحكامه لكلِّ حال وكلِّ زمان بحيث لا تصلُح الأمورُ إلاَّ به؛ فجميع ذلك يكفي مَنْ أراد تصديقَ الحقِّ، وعَمِلَ على طلب الحقِّ؛ فلا كفى اللهُ من لم يَكْفِهِ القرآن، ولا شَفى الله من لم يَشْفِهِ الفرقان، ومن اهتدى به واكتفى؛ فإنَّه رحمةٌ له وخيرٌ ؛ فلذلك قال: {إنَّ في ذلك لرحمةً وذِكْرى لقوم يؤمنونَ}: وذلك لما يُحَصِّلون فيه من العلم الكثير، والخير الغزير، وتزكية القلوب والأرواح، وتطهير العقائد، وتكميل الأخلاق، والفتوحات الإلهية والأسرار الربانية.
[51] چونکہ مقصد تو حق بیان کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَوَلَمْ یَكْفِهِمْ ﴾ ’’کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں؟‘‘ یعنی کیا انھیں آپ کی صداقت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کی صداقت کا یقین کافی نہیں؟ ﴿اَنَّـاۤ٘ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْ٘لٰى عَلَیْهِمْ ﴾ ’’کہ بلاشبہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘ یہ مختصر اور جامع کلام ہے جو واضح آیات اور بہت سے روشن دلائل پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ رسول (e)کا ان پڑھ ہونے کے باوجود مجرد قرآن ہی کا پیش کرنا، آپ کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے اس پر مستزاد اس کا انھیں مقابلہ کرنے کا چیلنج دینا اور ان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہونا دوسری بڑی دلیل ہے۔ پھر علانیہ ان کے سامنے اس کا پڑھا جانا، اس کا غالب و ظاہر ہونا اور یہ دعویٰ کیا جانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور رسول (e)کا ایسے حالات میں اس کو دلائل کے ذریعے سے غالب کرنا، جبکہ آپ کے انصار و اعوان بہت کم اور مخالفین اور دشمن بہت زیادہ تھے، پس ان حالات میں بھی آپ کا اس کو نہ چھپانا اور آپ کا اپنے عزم و ارادہ سے باز نہ آنا بلکہ برسرعام شہروں اور دیہات میں پکار پکار کر کہنا کہ یہ میرے رب کا کلام ہے... آپ کی صداقت کا بین ثبوت ہے۔ کیا کوئی اس کے ساتھ معارضہ کر سکتا ہے، یا اس سے مقابلہ کرنے کی بات کر سکتا ہے؟ پھر گزشتہ کتابوں پر اس کی نگہبانی کرنا، صحیح باتوں کی تصدیق کرنا، تحریف اور تغیر و تبدل کی نفی کرنا اور پھر اس کا اپنے اوامر و نواہی میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرنا، اس کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ اس نے کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے یہ حکم نہ دیا ہوتا اور کسی ایسی چیز سے نہیں روکا جس کے بارے میں عقل یہ کہتی ہو کہ کاش اس نے اس چیز سے نہ روکا ہوتا بلکہ یہ کتاب اصحاب بصیرت اور خرد مندوں کے نزدیک عدل اور میزان کے عین مطابق ہے۔ پھر اس کے ارشادات، اس کی ہدایت و راہنمائی اور اس کے احکام تمام حالات و زماں کے لیے جاری و ساری ہیں، نیز تمام امور کی اصلاح اسی سے ممکن ہے۔… یہ تمام چیزیں اس شخص کے لیے کافی ہیں جو حق کی تصدیق چاہتا ہے اور حق کا متلاشی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کفایت عطا نہیں کرتا، جس کے لیے قرآن کافی نہ ہو اور ایسے شخص کو شفا سے نہیں نوازتا جس کے لیے قرآن شافی نہ ہو۔ جو کوئی قرآن سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے لیے کافی سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے رحمت اور بھلائی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’بے شک مومنوں کے لیے اس میں نصیحت اور رحمت ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عظیم کتاب علم کثیر، لامحدود بھلائی، تزکیۂ قلب و روح، تطہیر عقائد، تکمیل اخلاق، فتوحات الٰہیہ اور اسرار ربانیہ پر مشتمل ہے۔
#
{52} {قل كفى بالله بيني وبينَكم شهيداً}: فأنا قد استَشْهَدْتُه؛ فإنْ كنتُ كاذباً؛ أحلَّ بي ما به تعتبرون، وإنْ كان إنما يؤيِّدني، وينصرني، وييسِّر لي الأمور؛ فلتكفكمْ هذه الشهادةُ الجليلةُ من الله؛ فإنْ وقع في قلوبكم أنَّ شهادته ـ وأنتم لم تسمَعوه ولم تَرَوْه ـ لا تكفي دليلاً؛ فإنَّه {يعلم ما في السمواتِ والأرضِ}: ومن جملةِ معلوماته حالي وحالُكم ومقالي لكم ؛ فلو كنت متقوِّلاً عليه مع علمِهِ بذلك وقدرتِهِ على عقوبتي؛ لكان قدحاً في علمه وقدرته وحكمته؛ كما قال تعالى: {ولو تَقَوَّلَ عَلَينا بعضَ الأقاويل لأخَذْنا منه باليمينِ ثم لَقَطَعْنا منه الوتينَ}. {والذين آمنوا بالباطل وكفروا بالله أولئكَ هم الخاسرونَ}: حيث خَسِروا الإيمان بالله وملائكتِهِ وكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر، وحيث فاتهم النعيمُ المقيمُ، وحيث حَصَلَ لهم في مقابلة الحقِّ الصحيح كلُّ باطل قبيح، وفي مقابلة النعيم كلُّ عذاب أليم، فخسروا أنفسَهم وأهليهم يوم القيامةِ.
[ً52] ﴿قُ٘لْ كَ٘فٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ شَهِیْدًا ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ میرے اور تمھارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔‘‘ اس لیے میں نے اسے گواہ بنایا ہے اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کا عبرتناک عذاب نازل ہو اگر اللہ تعالیٰ میری تائید اور مدد کرتا اور میرے لیے میرے تمام معاملات آسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جلیل القدر شہادت تمھارے لیے کافی ہونی چاہیے اور اگر تمھارے دلوں میں یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت... جسے تم نے سنا ہے نہ دیکھا ہے… دلیل کے لیے کافی نہیں تو اللہ تعالیٰ ﴿یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ میرا حال، تمھارا حال اور میری باتیں اس کے جملہ علم میں شامل ہیں۔ اگر میں نے اس پر جھوٹ گھڑا ہے، حالانکہ وہ اس کا علم رکھتا ہے اور مجھے سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے، تو یہ اس کے علم، قدرت اور حکمت میں قادح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ۰۰لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِۙ۰۰ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ﴾ (الحاقۃ: 69؍44-46) ’’اور اگر اس نے ہم پر کوئی جھوٹ باندھا ہوتا تو ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور ، پھر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔‘‘ ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ ﴾ ’’اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور اللہ کا انکار کیا، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز قیامت پر ایمان نہ لا کر خسارے میں رہے اور چونکہ ان سے دائمی نعمتیں چھوٹ گئیں اور حق کے مقابلے میں باطل حاصل ہوا اور نعمتوں کے مقابلے میں الم ناک عذاب، اسی لیے وہ قیامت کے روز اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں گھاٹے میں رہیں گے۔
آیت: 53 - 55 #
{وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (53) يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (54) يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (55)}.
اور وہ لوگ جلدی مانگتے ہیں آپ سے عذاب، اور اگر نہ ہوتا (عذاب کا) وقت مقرر تو البتہ آ جاتا ان کے پاس عذاب، اور البتہ وہ ضرور آئے گا ان کے پاس اچانک ہی، اور وہ نہیں شعور رکھتے ہوں گے(53) وہ جلدی مانگتے ہیں آپ سے عذاب، اور بلاشبہ جہنم البتہ گھیرنے والی ہے کافروں کو(54) اس دن ڈھانپ لے گا ان کو عذاب، ان کے اوپر سے اور نیچے سے ان کے پاؤ ں کے، اور فرمائے گا وہ (اللہ:) چکھو تم (مزہ اس کا) جو کچھ تھے تم عمل کرتے(55)
#
{53} يخبر تعالى عن جهل المكذِّبين للرسول وما جاء به، وأنَّهم يقولون استعجالاً للعذاب وزيادةَ تكذيبٍ: {متى هذا الوعدُ إنْ كُنْتُم صادقينَ}؟ يقول تعالى: {ولولا أجلٌ مسمًّى}: مضروبٌ لنزولِهِ ولم يأتِ بعدُ، {لجاءهم العذابُ}: بسبب تعجيزِهِم لنا وتكذيِبِهم الحقَّ؛ فلو آخذناهم بجهلهم؛ لكان كلامُهم أسرعَ لبلائِهِم وعقوبتِهِم، ولكن مع ذلك؛ فلا يستبطِئون نزوله فإنه سيأتيهم {بغتةً وهم لا يشعرونَ} فوقع كما أخبر الله تعالى، لما قدموا لبدرٍ بَطِرينَ مفاخِرين ظانِّين أنَّهم قادرون على مقصودِهم، فأحانهم الله، وقتل كبارهم، واستوعبَ جملةَ أشرارِهم، ولم يَبْقَ منهم بيتٌ إلاَّ أصابتْه تلك المصيبة، فأتاهم العذابُ من حيث لم يحتَسِبوا، ونزل بهم وهم لا يشعرونَ.
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ، رسول (e)اور قرآن کی تکذیب کرنے والے جہلاء کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ وہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے اور تکذیب میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ (الملک:67؍25) ’’یہ وعدہ کب ہے اگر تم سچے ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَوْلَاۤ اَجَلٌ مُّ٘سَمًّى ﴾ یعنی اگر اس عذاب کے لیے ایک مدت مقرر نہ کر دی گئی ہوتی ﴿لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’توان پر عذاب آچکا ہوتا۔‘‘ یعنی ان پر ہمیں عاجز اور بے بس سمجھنے اور حق کی تکذیب کرنے کی بنا پر عذاب نازل ہو جاتا۔ اگر ہم ان کو ان کی جہالت کی بنا پر پکڑتے تو ان کی باتیں انھیں فوراً عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتیں، بایں ہمہ اس کے وقت نزول کو دور نہ سمجھیں کیونکہ یہ عذاب عنقریب ان کو پہنچے گا ﴿بَغْتَةً وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ﴾ ’’اچانک اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔‘‘ لہٰذا ایسے ہی ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی جب وہ اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے میدان ’’بدر‘‘ میں اترے تو وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا، ان کے بڑے بڑے سردار قتل ہو گئے اور تمام شریر لوگوں کا استیصال ہو گیا اور (مکہ میں) کوئی گھر نہ ایسا نہ بچا جسے یہ مصیبت نہ پہنچی ہو۔ ان پر اس طرح عذاب آیا کہ ان کو وہم و گمان اور شعور تک نہ تھا...
#
{54} هذا؛ وإنْ لم ينزلْ عليهم العذابُ الدنيويُّ؛ فإنَّ أمامهم العذابَ الأخرويَّ الذي لا يَخْلُصُ منهم أحدٌ منه، سواءٌ عوجِلَ بعذاب الدنيا أو أُمْهِل، فَـ {إنَّ جهنَّم لمحيطةٌ بالكافرين}: ليس لهم عنه معدلٌ ولا متصرفٌ؛ قد أحاطتْ بهم من كلِّ جانب كما أحاطتْ بهم ذنوبُهم وسيئاتُهم وكفرُهم، وذلك العذابُ هو العذابُ الشديد.
[54] تاہم اگر ان پر دنیاوی عذاب نازل نہیں ہوا تو اخروی عذاب ان کے سامنے ہے جس سے کوئی شخص نہیں بچ سکے گا خواہ دنیا میں اس پر عذاب نازل ہوا ہو یا اسے مہلت دے دی گئی ہو۔ ﴿وَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’اور بے شک جہنم کافروں کو گھیرنے والا والی ہے۔‘‘ جہنم کا عذاب ان سے دور ہو گا نہ اسے ان سے ہٹایا جا سکے گا۔ جہنم کا عذاب انھیں ہر طرف سے گھیرلے گا جیسے ان کے گناہوں، ان کی برائیوں اور ان کے کفر نے انھیں گھیر رکھا ہے۔ یہ عذاب بہت سخت عذاب ہو گا۔
#
{55} {يومَ يغشاهُمُ العذابُ من فوقِهم ومن تحتِ أرجلهم ويقولُ ذوقوا ما كنتُم تعملون}: فإنَّ أعمالَكم انقلبتْ عليكم عذاباً، وشَمَلَكم العذابُ كما شَمَلَكم الكفرُ والذنوبُ.
[55] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یَوْمَ یَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَیَقُوْلُ ذُوْقُ٘وْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’جس دن ان کو عذاب ڈھانپ لے گا، ان کے اوپر اور ان کے قدموں کے نیچے سے اور اللہ کہے گا، چکھو مزا اس کا جو تم کرتے تھے۔‘‘ کیونکہ تمھارے اعمال تمھارے لیے عذاب بن گئے جس طرح تمھارا کفر اور تمھارے گناہ بے شمار تھے اسی طرح تمھارے لیے عذاب بھی لامحدود ہو گا۔
آیت: 56 - 59 #
{يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (56) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (57) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (58) الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (59)}.
اے میرے (وہ) بندو جو ایمان لائے ہو! بلاشبہ میری زمین(بہت) وسیع ہے، پس صرف میری ہی عبادت کرو تم(56) ہر نفس چکھنے والا ہے موت کو، پھر ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے تم (57) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک ، البتہ ضرور جگہ دیں گے ہم انھیں جنت کے بالاخانوں میں، بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں ، بہت اچھا اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا(58) وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے (ہیں) (59)
#
{56 ـ 59} يقول تعالى: {يا عبادي الذين آمنوا}: بي وصدَّقوا رسولي، {إنَّ أرضي واسعةٌ فإيَّايَ فاعْبُدونِ}: فإذا تعذَّرَتْ عليكم عبادةُ ربِّكم في أرضٍ؛ فارْتَحِلوا منها إلى أرضٍ أخرى؛ حيث كانت العبادةُ لله وحده؛ فأماكنُ العبادة ومواضِعُها واسعةٌ، والمعبودُ واحدٌ، والموتُ لا بدَّ أن ينزل بكم، ثم تُرْجَعون إلى ربكم، فيجازي مَنْ أحسنَ عبادته وَجَمَعَ بين الإيمان والعمل الصالح بإنزاله الغرفَ العاليةَ والمنازلَ الأنيقةَ الجامعةَ، لما تشتهيه الأنفسُ، وتلذُّ الأعين، وأنتم فيها خالدون. فَنِعَمُ تلك المنازلِ في جنات النعيم أجرُ العاملين لله. {الذين صبروا}: على عبادة الله {وعلى ربِّهم يتوكَّلون}: في ذلك، فصبرُهم على عبادة الله يقتضي بَذْلَ الجهد والطاقةِ في ذلك، والمحاربة العظيمة للشيطان، الذي يدعوهم إلى الإخلال بشيء من ذلك. وتوكُّلهم يقتضي شدَّةَ اعتمادهم على الله، وحسنَ ظنِّهم به أن يحقِّقَ ما عزموا عليه من الأعمال ويكمِّلَها. ونصَّ على التوكُّل وإنْ كان داخلاً في الصبر؛ لأنَّه يُحتاج إليه في كل فعلٍ وتركِ مأمورٍ به، ولا يتمُّ إلاَّ به.
[59-56] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ﴾ ’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو!‘‘ اور جنھوں نے میرے رسول کی تصدیق کی ہے ﴿اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّ٘ایَ فَاعْبُدُوْنِ ﴾ ’’میری زمین فراخ ہے، پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ یعنی جب کسی سرزمین میں تمھارے لیے اپنے رب کی عبادت کرنا ممکن نہ رہے تو اس کو چھوڑ کر کسی اور سرزمین میں چلے جاؤ جہاں تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جگہیں بہت کشادہ ہیں۔ تمھارا معبود ایک ہے اور موت تمھیں آ کر رہے گی ، پھر تمھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پس وہ اس شخص کو بہترین جزا سے نوازے گا جس نے ایمان اور عمل صالح کو اکٹھا کیا، وہ انھیں رفیع الشان بالاخانوں اور خوبصورت منازل میں نازل کرے گا وہاں وہ تمام چیزیں جمع ہوں گی جسے نفس چاہتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں اور ان منازل میں تم ہمیشہ رہو گے۔ ﴿نِعْمَ ﴾ نعمتوں بھری جنت کے اندر یہ منازل بہترین ﴿اَجْرُ الْعٰمِلِیْ٘نَ﴾ ’’اجر ہے عمل کرنے والوں کا‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ ﴿الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ﴾ ’’جنھوں نے صبر کیا‘‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ﴿وَعَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَؔكَّلُوْنَ ﴾ اور وہ اس معاملے میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عبودیت الٰہی پر ان کا صبر اس بارے میں سخت جدوجہد اور شیطان کے خلاف بہت بڑی جنگ کا تقاضا کرتا ہے، جو اس عبادت میں خلل ڈالنے کے لیے ان کو دعوت دیتا رہتا ہے۔ ان کا توکل، اللہ تعالیٰ پر ان کے بہت زیادہ اعتماد کا مقتضی ہے نیز اللہ تعالیٰ پر ان کا حسن ظن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان کے اعمال کو متحقق کر کے پایۂ تکمیل کو پہنچائے گا جن کا انھوں نے عزم کیا ہے۔ ہر چند کہ توکل، صبر کے اندر داخل ہے تاہم یہاں اس کو الگ بیان کیا ہے کیونکہ بندہ ہر فعل کے کرنے اور ترک کرنے میں، جن کا انھیں حکم دیا گیا ہے، توکل کا محتاج ہے اور کسی کام کو ترک کرنا یا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا، توکل علی اللہ کے بغیر اتمام پذیر نہیں ہوتا۔
آیت: 60 #
{وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (60)}.
اور کتنے ہی زمین پر چلنے والے (جانور) ہیں کہ نہیں اٹھائے پھرتے وہ رزق اپنا، اللہ ہی رزق دیتا ہے ان کو اور تمھیں بھی، اور وہی ہے خوب سننے والا، خوب جاننے والا(60)
#
{60} أي: الباري تبارك وتعالى قد تكفَّل بأرزاق الخلائق كلِّهم قويِّهم وعاجزهم؛ فكم {من دابَّةٍ} في الأرض ضعيفةِ القُوى ضعيفة العقل، {لا تَحْمِلُ رزقَها}: ولا تدَّخِرُه، بل لم تزلْ لا شيء معها من الرزق، ولا يزال الله يسخِّرُ لها الرزقَ في كل وقت بوقته. {اللَّهُ يرزُقُها وإيَّاكم}: فكلكم عيالُ الله القائم برزقكم كما قام بِخَلْقِكُم وتدبيرِكم. {وهو السميعُ العليم}: فلا تخفى عليه خافيةٌ، ولا تهلكُ دابَّةٌ من عدم الرزق بسبب أنها خافيةٌ عليه؛ كما قال تعالى: {وما من دابَّةٍ في الأرض إلاَّ على الله رزقُها ويعلم مستقرَّها ومستَوْدَعَها كلٌّ في كتاب مبين}.
[60] اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوقات، خواہ وہ عاجز ہوں یا طاقت ور، سب کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ ﴿مِّنْ دَآبَّةٍ ﴾ روئے زمین پر کتنے ہی کمزور اعضا اور کمزور عقل والے چوپائے ہیں ﴿لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ﴾ ’’جو اپنا رزق نہیں اٹھائے پھرتے‘‘ اور نہ وہ ذخیرہ کرتے ہیں بلکہ ان کے پاس رزق کے لیے کوئی چیز ہوتی ہی نہیں، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں وقت پر رزق مہیا کرتا ہے۔ ﴿اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَاِیَّاكُمْ ﴾ ’’اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔‘‘ تم سب اللہ تعالیٰ کی کفالت میں ہو جو تمھارے رزق کا اسی طرح انتظام کرتا ہے جس طرح اس نے تمھاری تخلیق اور تدبیر کی ہے۔ ﴿وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾ ’’اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ کوئی جانور عدم رزق کی بنا پر ہلاک نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے چھپا رہ گیا اور اسے رزق مہیا نہ ہو سکا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُ٘لٌّ فِیْؔ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ﴾ (ہود:11؍6) ’’اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں جس کے رزق کی کفالت اللہ کے ذمہ نہ ہو وہ جانتا ہے کہ کہاں اس کا ٹھکانا ہے اور کہاں اسے سونپا جانا ہے ہر چیز ایک واضح کتاب میں درج ہے۔‘‘
آیت: 61 - 63 #
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ (61) اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (62) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (63)}.
اور البتہ اگر پوچھیں آپ ان سے، کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ؟ اور (کس نے) خدمت پر لگایا سورج اور چاند کو؟تو ضرور کہیں گے وہ: اللہ نے ،پس کہاں پھیرے جاتے ہیں وہ ؟(61) اللہ کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے وہ چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے، اور وہی تنگ کرتا ہے جس کے لیے (چاہتا ہے)، بلاشبہ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے(62) اور البتہ اگر آپ پوچھیں ان سے، کس نے اتارا ہے آسمان سے پانی، پھر اس نے زندہ (آباد) کیازمین کو اس کےذریعے سے بعد اس کی موت (ویرانی) کے؟ تو البتہ ضرور کہیں گے وہ: اللہ نے، کہہ دیجیے: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں بلکہ اکثر ان کے نہیں عقل رکھتے(63)
#
{61 ـ 63} هذا استدلالٌ على المشركين المكذِّبين بتوحيد الإلهية والعبادة، وإلزامٌ لهم بما أثبتوه من توحيد الرُّبوبية؛ فأنتَ لو {سألتَهم مَنْ خلق السمواتِ والأرضَ}؟ ومَنْ نزَّل من السماء ماءً فأحيا به الأرض بعد موتها؟ ومن بيدِهِ تدبير جميع الأشياء؟ {ليقولنَّ: الله} وحدَه، ولاعترفوا بعجز الأوثان ومَنْ عَبَدوه مع الله على شيء من ذلك! فاعْجَبْ لإفكهم وكذِبِهم وعُدولهم إلى مَنْ أقرُّوا بعجزه وأنه لا يستحقُّ أن يدبِّرَ شيئاً! وستجِلُّ عليهم لعدم العقل، وأنَّهم السفهاء ضعفاء الأحلام! فهل تجد أضعف عقلاً وأقلَّ بصيرةً ممَّن أتى إلى حجر أو قبر ونحوه ـ وهو يدري أنَّه لا ينفعُ ولا يضرُّ ولا يخلقُ ولا يرزقُ ـ، ثم صرف له خالصَ الإخلاص وصافي العبوديَّة، وأشركه مع الربِّ الخالق الرازق النافع الضار؟! وقل: الحمدُ لله الذي بيَّن الهدى من الضلال، وأوضح بطلان ما عليه المشركون؛ ليحذره الموفَّقون. وقل: الحمدُ لله الذي خَلَقَ العالمَ العلويَّ والسفليَّ، وقام بتدبيرهم ورزقِهِم، وبسطَ الرزقَ على مَنْ يشاء، وضيَّقه على من يشاء حكمةً منه، ولعلمه بما يُصْلِحُ عباده، وما ينبغي لهم.
[63-61] ان آیات کریمہ میں مشرکین کے خلاف، جو توحید الوہیت اور توحید عبادت کی تکذیب کرتے ہیں… توحید ربوبیت کے ذریعے سے، جس کا وہ اقرار کرتے ہیں..... الزامی استدلال کیا گیا ہے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے؟ کون ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے ، پھر اس کے ذریعے سے زمین کے مرنے کے بعد اس کو زندگی عطا کرتا ہے اور کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کی تدبیر ہے؟ ﴿لَیَقُوْلُ٘نَّ اللّٰهُ ﴾ تو وہ جواب دیں گے کہ اکیلے اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ان تمام امور میں بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی، جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، بے بسی کا اعتراف کریں گے۔ ان کے جھوٹ اور بہتان طرازی پر تعجب کیجیے کہ وہ خود ساختہ معبودوں کی عاجزی اور بے بسی کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ کسی چیز کی تدبیر کرنے کے مستحق نہیں بایں ہمہ وہ ان کی عبادت کی طرف مائل ہیں۔ آپ ان کو لوگوں کی اس فہرست میں لکھ دیجیے جن میں عقل معدوم ہے، جو بے وقوف اور ضعیف العقل ہیں۔ کیا آپ کسی کو اس شخص سے زیادہ کم عقل اور بے بصیرت پائیں گے جو اپنی حاجت روائی کے لیے کسی پتھر کے بت یا قبر کے پاس آتا ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ جو تخلیق پر قادر ہیں نہ رزق رسانی پر؟ پھر ان کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہیں اور انھیں اپنے رب کا شریک بنا دیتے ہیں جو خالق و رزاق اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ ہر قسم کی حمد و ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہدایت اور گمراہی کو کھول کھول کر بیان کر دیا اور مشرکین کے موقف کا بطلان واضح کر دیا تاکہ اہل ایمان اس سے بچے رہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ہر قسم کی حمدوستائش کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو تخلیق فرمایا، جو ان کی تدبیر کرتا ہے، جو ان کو رزق بہم پہنچاتا ہے، جسے چاہتا ہے رزق میں کشادگی عطا کرتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رزق کو تنگ کر دیتا ہے یہ اس کی حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ اس کے بندوں کے لیے درست اور مناسب کیا ہے۔
آیت: 64 - 69 #
{وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (64) فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (65) لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (66) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ (67) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ (68) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (69)}.
اور نہیں ہے یہ زندگی دنیا کی مگر لہو ولعب (کھیل تماشہ)، اور بلاشبہ گھر آخرت کا البتہ وہی ہے (اصل) زندگی، کاش! ہوتے وہ جانتے(64) پس جب سوار ہوتے ہیں وہ (مشرکین) کشتی میں تو پکارتے ہیں وہ اللہ کو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین (پکار) کو پس جب وہ نجات دے دیتا ہے انھیں خشکی کی طرف تو ناگہاں وہ شرک کرنے لگتے ہیں(65) تاکہ کفر کریں وہ ساتھ اس (نعمت) کے جو دی ہم نے ان کو، اور تاکہ فائدہ اٹھائیں وہ ،پس عنقریب وہ جان لیں گے(66) کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک ہم نے بنایا ہے حرم کو امن والا جبکہ اچک لیے جاتے ہیں لوگ ان (اہل عرب) کے آس پاس سے؟ کیا پس باطل پر وہ ایمان لاتے ہیں اور ساتھ اللہ کی نعمت کے وہ کفر کرتے ہیں؟(67) اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے باندھا اللہ پر جھوٹ یا جھٹلایا اس نے حق کو جب آیا وہ اس کے پاس؟ کیا نہیں ہے جہنم میں ٹھکانا کافروں کے لیے؟(68) اور وہ لوگ جنھوں نے جہاد کیا ہمارے حق میں البتہ ضرور ہدایت دیں گے ہم انھیں اپنے راستے کی، اور بلاشبہ اللہ البتہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے(69)
#
{64} يخبر تعالى عن حالة الدُّنيا والآخرة، وفي ضمن ذلك التزهيد في الدنيا والتشويق للأخرى، فقال: {وما هذه الحياةُ الدُّنيا}: في الحقيقة {إلاَّ لهوٌ ولعبٌ}: تلهو بها القلوبُ، وتلعبُ بها الأبدانُ؛ بسبب ما جعلَ الله فيها من الزينة واللذَّات والشهواتِ الخالبة للقلوب المعرضة، الباهجة للعيون الغافلة، المفرِحة للنفوس المبطِلة الباطلة، ثم تزول سريعاً وتنقضي جميعاً ولم يحصل منها محبُّها إلاَّ على الندم والحسرة والخسران. وأما الدارُ الآخرةُ؛ فإنها دار {الحيوان}؛ أي: الحياة الكاملة، التي من لوازمها أن تكونَ أبدانُ أهلها في غاية القوَّة، وقواهم في غاية الشدَّة؛ لأنَّها أبدانٌ وقوى خُلِقَتْ للحياة، وأن يكون موجوداً فيها كلُّ ما تَكْمُلُ به الحياة، وتتمُّ به اللذَّة من مفرحات القلوب وشهوات الأبدان من المآكل والمشارب والمناكح وغير ذلك، ممَّا لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطر على قلب بشر. {لو كانوا يعلمون}: لما آثروا الدُّنيا على الآخرة، ولو كانوا يعقِلونَ؛ لما رغبوا عن دار الحيوان، ورغبوا في دار اللهو واللعب. فدلَّ ذلك: أنَّ الذين يعلمون لا بدَّ أن يؤثِروا الآخرة على الدُّنيا؛ لما يعلمونه من حالة الدارين.
[64] اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت کے احوال کی خبر دیتا ہے اور اس ضمن میں دنیا سے بے رغبتی رکھنے کی ترغیب اور آخرت کا شوق پیدا کرتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَمَا هٰؔذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ ﴾ ’’اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی‘‘ یعنی اس دنیاوی زندگی کی حقیقت ﴿اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ﴾ ’’مگر کھیل کود۔‘‘ جس کی بنا پر دل غافل اور بدن کھیل میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیب و زینت اور ان لذات و شہوات سے لبریز کر دیا ہے جو دلوں کو کھینچ لیتی ہیں، آنکھوں کو خوبصورت نظر آتی ہیں اور نفوس باطلہ کو فرحت عطا کرتی ہیں، پھر دنیا کی یہ زینت و زیبائش جلد ہی زائل ہو کر سب ختم ہو جائے گی اور اس دنیا سے محبت کرنے والے کو ندامت اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ رہا آخرت کا گھر تو وہی ﴿الْحَیَوَانُ ﴾ حقیقی زندگی ہے، یعنی آخرت کی زندگی درحقیقت کامل زندگی ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ آخرت کے لوگوں کے بدن نہایت طاقتور اور ان کے قویٰ نہایت سخت ہوں، کیونکہ وہ ایسے ابدان اور قویٰ ہوں گے جو آخرت کی زندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس زندگی میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اس زندگی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور جس سے لذت پوری ہوتی ہے ، مثلاً: دلوں کو تازگی اور فرحت بخشنے والی چیزیں اور جسموں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماکولات، مشروبات اور پاک بدن بیویاں وغیرہ ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے خیال میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ ﴿لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اگر وہ جانتے ہوتے۔‘‘ تو وہ کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے اور اگر انھیں عقل ہوتی تو آخرت کی کامل زندگی کو چھوڑ کر لہوولعب کی زندگی کی طرف مائل نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنھیں علم ہے انھیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے کیونکہ انھیں دونوں جہانوں کی حالت معلوم ہے۔
#
{65 ـ 66} ثم ألزم تعالى المشركين بإخلاصهم لله في حال الشدَّة عند ركوب البحر وتلاطُم أمواجه وخوفِهِم الهلاك؛ يتركون إذاً أندادَهم، ويخلِصون الدُّعاء لله وحدَه لا شريك له، فلمَّا زالتْ عنهم الشدةُ ـ ونجَّاهم من أخلصوا له الدُّعاء إلى البرِّ ـ أشركوا به مَنْ لا نجَّاهم من شدَّة، ولا أزال عنهم مشقَّة؛ فهلاَّ أخلصوا لله الدعاءَ في حال الرخاء والشدة واليُسر والعُسر؛ ليكونوا مؤمنين به حقًّا، مستحقِّين ثوابه، مندفعاً عنهم عقابه، ولكن شركهم هذا بعد نعمتنا عليهم بالنجاة من البحر ليكونَ عاقبتُهُ كفر ما آتيناهم، ومقابلة النعمة بالإساءة، وليكملوا تمتُّعهم في الدُّنيا، الذي هو كتمتُّع الأنعام، ليس لهم همٌّ إلا بطونُهم وفروجُهم. {فسوف يعلمونَ}: حين ينتقِلون من الدُّنيا إلى الآخرة شدَّة الأسف وأليم العقوبة.
[65، 66] پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے خلاف الزامی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ سمندر میں کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو موجوں کے تلاطم اور انتہائی شدت کے وقت ہلاکت کے خوف سے اپنے خود ساختہ معبودوں کو پکارنا چھوڑ دیتے ہیں اور خالص اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ جب یہ شدت اور مصیبت ختم ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ، جس کو انھوں نے اخلاص کے ساتھ پکارا تھا، ان کو بچا کر ساحل پر لے آتا ہے تو وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جنھوں نے ان کو طوفان کی مصیبت سے نجات دی نہ ان سے مشقت کو دور کیا۔ وہ سختی اور نرمی ، تنگی اور آسانی دونوں حالتوں میں خالص اللہ تعالیٰ کو کیوں نہیں پکارتے تاکہ وہ حقیقی مومنین کے زمرے میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بن سکیں اور اس کے عذاب سے بچ سکیں؟ مگر سمندر سے نجات کی نعمت کے بعد ان کا شرک کرنا ہماری عنایات کے مقابلے میں کفر اور ہماری نعمت کے مقابلے میں برائی کا ارتکاب ہے۔ تو وہ اس دنیا سے خوب فائدہ اٹھا لیں جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کا مطمح نظر بطن و فرج کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ﴿فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘ جب وہ اس دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہوں گے اس وقت انھیں معلوم ہو گا کہ شدت غم اور دردناک عذاب کیا ہے۔
#
{67} ثم امتنَّ عليهم بحرمه الآمن، وأنَّهم أهلُه في أمنٍ وسعةٍ ورزقٍ، والناس من حولهم يُتَخَطَّفونَ ويخافون، أفلا يعبدونَ الذي أطعمهم من جوعٍ وآمَنَهم من خوفٍ؟! {أفبالباطل يؤمنونَ}: وهو ما هم عليه من الشركِ والأقوالِ والأفعالِ الباطلةِ، {وبنعمةِ الله}: هم {يكفرونَ}؟ فأينَ ذهبتْ عقولهم، وانسلختْ أحلامُهم حيث آثروا الضلال على الهدى، والباطلَ على الحقِّ والشَّقاء على السعادة، وحيث كانوا أظلمَ الخلق؟!
[67] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے امن والے حرم کا احسان جتلایا ہے کہ اہل حرم امن اور کشادہ رزق سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ ان کے اردگرد لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے اور وہ خوف زدہ رہتے ہیں، تو یہ اس ہستی کی عبادت کیوں نہیں کرتے جس نے بھوک اور قحط میں کھانا کھلایا اور خوف اور بدامنی میں امن مہیا کیا؟ ﴿اَفَبِالْبَاطِلِ۠ یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد ان کا شرک اور دیگر باطل اقوال و افعال ہیں۔ ﴿وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں‘‘ اور ان کی عقل و دانش کہاں چلی گئی کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر، باطل کو حق پر اور بدبختی کو خوش بختی پر ترجیح دے رہے ہیں؟ وہ مخلوق میں سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔
#
{68} فمن {أظلم ممَّن افترى على الله كذباً}: فنسب ما هو عليه من الضَّلال والباطل إلى الله، {وكذَّب بالحقِّ لما جاءه}: على يد رسولِهِ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، ولكنَّ هذا الظالمَ العنيدَ أمامه جهنَّم، {أليس في جهنَّم مثوىً للكافرينَ}: يُؤخَذُ بها منهم الحقُّ، ويُخْزَوْن بها، وتكون منزلهم الدائم الذي لا يخرجون منه؟
[68] ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا ﴾ ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا؟‘‘ اور اپنی گمراہی اور باطل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا۔ ﴿اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗ﴾ ’’یا اس نے حق کو جھٹلا دیا جب وہ اس کے پاس آیا‘‘ رسول اللہ(e) کے ذریعے سے۔ مگر اس ظالم اور معاند حق کے سامنے جہنم ہے ﴿اَلَ٘یْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّ٘لْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ہے؟‘‘ اس جہنم کے ذریعے سے ان سے حق وصول کیا جائے گا، انھیں رسوا کیا جائے گا اور جہنم ان کا دائمی ٹھکانا ہو گا، جہاں سے وہ کبھی نہیں نکلیں گے۔
#
{69} {والذين جاهدوا فينا}: وهم الذين هاجروا في سبيل الله وجاهدوا أعداءَهم وبَذَلوا مجهودَهم في اتِّباع مرضاتِهِ؛ {لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا}؛ أي: الطرق الموصلة إلينا، وذلك لأنَّهم محسنونَ. والله مع المحسنينَ: بالعون والنصر والهداية. دلَّ هذا على أنَّ أحرى الناس بموافقة الصواب أهلُ الجهاد، وعلى أنَّ مَنْ أحسنَ فيما أُمِرَ به؛ أعانه الله ويَسَّرَ له أسبابَ الهداية، وعلى أنَّ مَنْ جدَّ واجتهد في طلب العلم الشرعيِّ؛ فإنَّه يحصُلُ له من الهداية والمعونة على تحصيل مطلوبِهِ أمورٌ إلهيَّةٌ خارجةٌ عن مدرك اجتهادِهِ، وتيسَّر له أمر العلم؛ فإنَّ طلب العلم الشرعيِّ من الجهاد في سبيل الله، بل هو أحدُ نوعي الجهاد، الذي لا يقومُ به إلا خواصُّ الخلق، وهو الجهادُ بالقول واللسان للكفار والمنافقين، والجهادُ على تعليم أمور الدين وعلى ردِّ نزاع المخالفين للحقِّ، ولو كانوا من المسلمين.
[69] ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا ﴾ ’’اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی۔‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی اتباع کرنے کی بھرپور کوشش کی ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ﴾ ’’ہم ان کو ضرور اپنے راستے دکھا دیں گے۔‘‘ یعنی ہم ان کو ان راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکوکار ہیں۔ ﴿وَاِنَّ اللّٰهَ لَ٘مَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور ہدایت کے ذریعے سے نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح بات کی موافقت کرنے کے حق دار اہل جہاد ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی احسن طریقے سے تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کے اسباب کو اس کے لیے آسان کر دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی شرعی علم کی طلب میں جدوجہد کرتا ہے اسے اپنے مطلوب و مقصود اور ان امور الٰہیہ کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی معاونت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے جو اس کے مدارک اجتہاد سے باہر ہیں اور امور علم اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ شرعی علم طلب کرنا جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ جہاد کی دو اقسام میں سے ایک ہے جسے صرف خاص لوگ ہی قائم کرتے ہیں... اور وہ ہے منافقین و کفار کے خلاف قولی اور لسانی جہاد۔ امور دین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا اور مخالفین حق، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، کے اعتراضات کا جواب دینا بھی جہاد ہے۔