(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{طس تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ (1) هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (3) إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ (4) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَهُمْ سُوءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْأَخْسَرُونَ (5) وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ (6)}
طٰسٓ، یہ آیتیں ہیں قرآن کی اور کتاب واضح کی
(1) ہدایت اور خوش خبری ہے مومنوں کے لیے
(2) (یعنی ) وہ لوگ جو قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکاۃاور ساتھ آخرت کے، وہ یقین رکھتے ہیں
(3) بلاشبہ وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے ساتھ آخرت کے، مزین کر دیے ہیں ہم نے ان کے لیے ان کے اعمال، پس وہ سرگرداں پھرتے ہیں
(4) یہ لوگ وہ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور وہ آخرت میں ، وہی خسارہ پانے والے ہیں
(5) اور بلاشبہ آپ سکھلائے جاتے ہیں
(یہ) قرآن جو طرف سے ہے نہایت حکمت والے، خوب جاننے والے کی
(6)
#
{1} ينبِّه تعالى عباده على عظمة القرآن، ويشيرُ إليه إشارة دالَّة على التعظيم، فقال: {تلك آياتُ القرآنِ وكتابٍ مبين}؛ أي: هي أعلى الآيات وأقوى البيِّنات وأوضح الدِّلالات وأبينها على أجلِّ المطالب وأفضل المقاصد وخير الأعمال وأزكى الأخلاق؛ آياتٌ تدلُّ على الأخبار الصَّادقة والأوامرِ الحسنةِ والنَّهي عن كلِّ عمل وخيم وخُلُقٍ ذَميم، آياتٌ بلغتْ في وضوحِها وبيانها للبصائر النيِّرة مبلغ الشمس للأبصار، آياتٌ دلَّت على الإيمان ودعت للوصول إلى الإيقان وأخبرت عن الغيوب الماضية والمستقبلة [على] طبق ما كان ويكون، آياتٌ دعت إلى معرفة الربِّ العظيم بأسمائِهِ الحسنى وصفاتِهِ العليا وأفعاله الكاملة، آياتٌ عرَّفتنا برسله وأوليائِهِ ووصفتهم حتى كأنَّنا ننظرُ إليهم بأبصارنا.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن کی عظمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور ایک ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو اس کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿تِلْكَ اٰیٰتُ الْ٘قُ٘رْاٰنِ وَؔكِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’یہ قرآن اور کتاب واضح کی آیات ہیں ۔‘‘ یعنی یہ سب سے بڑی نشانی، سب سے قوی ثبوت اور سب سے واضح دلائل ہے۔ نیز جلیل ترین مطالب، کو بیان کرنے والی، سب سے افضل مقاصد، بہترین اعمال اور پاکیزہ ترین اخلاق پر سب سے واضح دلیل ہے۔ یہ آیات ہیں جو سچی خبروں ، بہترین احکام، تمام گندے اعمال اور مذموم اخلاق کی نہی پر دلالت کرتی ہیں ۔ یہ آیات اپنے واضح اور ظاہر ہونے کے اعتبار سے روشن بصیرت کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے چشم بینا کے لیے سورج۔ یہ ایسی آیات ہیں جو ایمان پر دلالت کرتی ہیں اور ایمان تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں ۔ ماضی اور مستقبل کے واقعات کی خبر دیتی ہیں ۔ یہ ایسی آیات ہیں جو رب عظیم کے اسمائے حسنیٰ، صفات عالیہ اور افعال کاملہ کے ذریعے سے اس کی معرفت کی دعوت دیتی ہیں ۔ یہ ایسی آیات ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے اولیاء کی پہچان کروائی اور ان کے اوصاف بیان كيے گویا کہ ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
#
{2} ولكن مع هذا؛ لم ينتفعْ بها كثيرٌ من العالمين، ولم يهتدِ بها جميع المعاندين؛ صوناً لها عن من لا خير فيه ولا صلاح ولا زكاء في قلبه، وإنما اهتدى بها من خصَّهم الله بالإيمان واستنارتْ بذلك قلوبهم وصَفَتْ سرائرُهم، فلهذا قال: {هدىً وبُشرى للمؤمنينَ}؛ أي: تهديهم إلى سلوك الصراط المستقيم، وتبيِّن لهم ما ينبغي أن يَسْلُكوه أو يَتْرُكوه، وتبشِّرهم بثواب الله. المرتَّب على الهداية لهذا الطريق.
[2] مگر اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے ان آیات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، تمام معاندین حق نے ان کی راہنمائی کو قبول نہ کیا تاکہ یہ آیات الٰہی ان لوگوں سے محفوظ رہیں جن میں کوئی بھلائی اور کوئی صلاح نہیں ہے جن کے دل طہارت سے بے بہرہ ہیں ۔ ان آیات سے صرف وہی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ مختص کیا ہے،
جن کا باطن پاک صاف اور جن کے قلوب نور ایمان سے منور ہیں ۔
اس لیے فرمایا: ﴿ هُدًى وَّبُشْرٰى لِلْ٘مُؤْمِنِیْنَ۠ ﴾ ’’مومنوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔‘‘ یعنی یہ آیات اہل ایمان کی صراط مستقیم کی طرف چلنے میں راہنمائی کرتی ہیں ۔ ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتی ہیں کہ انھیں کس راستے پر چلنا چاہیے اور کس راستے کو ترک کرنا چاہیے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کی خوشخبری دیتی ہیں جو اس راستے پر گامزن ہونے پر مترتب ہوتا ہے۔
#
{3} ربَّما قيل: لعلَّه يكثُر مدعو الإيمان؛ فهل يُقبل من كلِّ أحدٍ ادَّعى أنه مؤمنٌ ذلك؟ أم لا بدَّ لذلك من دليل وهو الحقُّ؟ فلذلك بيَّن تعالى صفة المؤمنين، فقال: {الذين يقيمون الصلاة}: فرضَها ونفلَها؛ فيأتون بأفعالها الظاهرة من أركانها وشروطها وواجباتها [بل] ومستحبَّاتها وأفعالها الباطنة وهو الخشوع الذي هو روحها ولبُّها؛ باستحضار قرب الله وتدبُّر ما يقوله المصلي ويفعلُه، {ويؤتون الزَّكاة}: المفروضة لمستحقِّها. {وهم بالآخرة هم يوقِنونَ}؛ أي: قد بلغ معهم الإيمانُ إلى أن وَصَلَ إلى درجة اليقين، وهو العلم التامُّ الواصل إلى القلب الدَّاعي إلى العمل، ويقينهم بالآخرة يقتضي كمال سعيِهِم لها وحَذَرِهم من أسباب العذاب وموجبات العقاب، وهذا أصلُ كلِّ خير.
[3] بسااوقات کہا جاتا ہے کہ ایمان کے دعوے دار تو بہت زیادہ ہوتے ہیں تب کیا ہر اس شخص کی بات کو قبول کر لیا جائے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے یا اس پر دلیل ضروری ہے؟
اور یہی بات صحیح ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ﴾ ’’جو نماز قائم کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو فرض اور نفل نماز ادا کرتے ہیں ، اس کے تمام ظاہری ارکان، شرائط، واجبات اور مستحبات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں نیز اس کے افعال باطنہ کا بھی خیال رکھتے ہیں اور افعال باطنہ، سے مراد خشوع ہے جو کہ نماز کی روح اور اس کا لب لباب ہے جو اللہ کی قربت کے استحضار اور نمازی کا نماز کے اندر قراء ت و تسبیحات اور رکوع و سجود اور دیگر افعال میں تدبر و تفکر سے حاصل ہوتا ہے۔
﴿وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ ﴾ ’’اور
(مستحق لوگوں کو) زکاۃ ادا کرتے ہیں ۔‘‘
﴿ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے ایمان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ درجۂ یقین تک پہنچا ہوا ہے۔ یقین سے مراد علم کامل ہے جو قلب کی گہرائیوں میں اتر کر عمل کی دعوت دیتا ہے۔ آخرت پر ان کا یقین تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے پوری کوشش کریں ، عذاب کے اسباب اور عقاب کے موجبات سے بچیں اور یہ ہر بھلائی کی بنیاد ہے۔
#
{4} {إنَّ الذين لا يؤمنونَ بالآخرةِ}: ويكذِّبون بها ويكذِّبون مَن جاء بإثباتها؛ {زيَّنَّا لهم أعمالهم فهم يَعْمَهونَ}: حائرين، متردِّدين، مؤثِرين سَخَطَ الله على رضاه، قد انقلبتْ عليهم الحقائقُ، فرأوا الباطل حقًّا والحقَّ باطلاً.
[4] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ بلکہ وہ آخرت کو اور ان لوگوں کو جھٹلاتے ہیں جو آخرت کا اثبات کرتے ہیں ۔
﴿زَیَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ یَعْمَهُوْنَ﴾ ’’ہم نے ان کے عملوں کو ان کے لیے مزین کردیا، پس وہ حیران و سرگرداں پھرتے ہیں ۔‘‘ وہ حیران ومتردد ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو اس کی رضا پر ترجیح دیتے ہیں ، ان کی نظر میں حقائق بدل گئے ہیں وہ باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے لگے ہیں ۔
#
{5} {أولئك الذين لهم سوء العذاب}؛ أي: أشدُّه وأسوؤه وأعظمه. {وهم} بالآخرةِ {هم الأخسرونَ}: حَصَرَ الخَسارَ فيهم لكونِهِم خَسِروا أنفسهم وأهليهم يوم القيامة، وخسروا الإيمان الذي دعتهم إليه الرسل.
[5] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ ﴾ یعنی ان کے لیے نہایت سخت، بدترین اور سب سے بڑا عذاب ہے۔
﴿ وَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْ٘سَرُوْنَ﴾ ’’اور آخرت میں بھی وہ بہت نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔‘‘ خسارہ انھی کے ساتھ مختص ہے کیونکہ وہ خود اور ان کے گھر والے قیامت کے روز خسارے میں ہوں گے اور وہ ایمان کے بارے میں بھی خسارے میں ہیں جس کی طرف انبیاء نے ان کو دعوت دی ہے۔
#
{6} {وإنَّكَ لَتُلَقَّى القرآنَ مِن لَدُنْ حكيم [عليم] }؛ أي: وإنَّ هذا القرآن الذي ينزِلُ عليك، وتتلقَّنُهُ ينزل من عند حكيم، يَضَعُ الأشياءَ مواضعَها، وينزِلُها منازلها، [خبير] بأسرار الأحوال وبواطنها كظواهرها. وإذا كان من عند حكيم [خبير]؛ علم أنه كلَّه حكمةٌ ومصالحُ للعباد من الذي أعلم بمصالحهم منهم.
[6] ﴿ وَاِنَّكَ لَ٘تُ٘لَ٘قَّى الْ٘قُ٘رْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ ﴾ ’’اور بلاشبہ آپ کو قرآن، حکیم و علیم کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی یہ قرآن جو آپ پر نازل ہوتا ہے اور آپ اسے اخذ کرتے ہیں ،
﴿ حَكِیْمٍ ﴾ دانا ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام اشیاء کو ان کے مقام پر رکھتی اور ان کی جگہ پر نازل کرتی ہے
﴿ عَلِیْمٍ ﴾ باخبر ہستی کی طرف سے نازل ہوتا ہے جو تمام احوال کے اسرار اور ان کے باطن کا اسی طرح علم رکھتی ہے جس طرح وہ ان کے ظاہر کا علم رکھتی ہے۔ چونکہ یہ قرآن دانا وباخبر ہستی کی طرف سے ہے اس لیے معلوم ہوا کہ یہ تمام تر حکمت و دانائی اور بندوں کے مصالح پر مشتمل ہے اور کون ہے جو ان کے مصالح کو اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر جانتا ہو؟
{إِذْ قَالَ مُوسَى لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ (7) فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (8) يَامُوسَى إِنَّهُ أَنَا اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (9) وَأَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَامُوسَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (10) إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (11) وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ فِي تِسْعِ آيَاتٍ إِلَى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهِ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (12) فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (13) وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (14)}.
جب کہا موسیٰ نے اپنے اہل
(بیوی) سے، کہ میں نے دیکھی ہے آگ، عنقریب لاؤں گا میں تمھارے پاس اس سے کوئی خبر یا لاؤں گا میں تمھارے پاس شعلہ
(لکڑی میں ) سلگتا ہوا تاکہ تم تاپو
(7) پس جب آئے موسیٰ اس کے پاس تو آواز دیے گئے کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ
(نور) میں ہے اور جو اس کے اردگرد ہے اورپاک ہے اللہ رب العالمین
(8) اے موسیٰ! بلاشبہ میں ہی ہوں اللہ، نہایت غالب، خوب حکمت والا
(9)اور ڈال تو اپنا عَصَا، پس جب دیکھا موسیٰ نے اسے کہ وہ حرکت کر رہا ہے گویا کہ وہ سانپ ہے تو لوٹا وہ پیٹھ پھیر کر اور نہ مڑ کر دیکھا اس نے ،
(اللہ نے فرمایا) اے موسیٰ! مت ڈر بلاشبہ، نہیں ڈرتے میرے حضور میں رسول
(10) مگر جس نے ظلم کیا ، پھر بدل کر اس نے نیکی کی، بعد برائی کے تو بلاشبہ میں بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہوں
(11) اور داخل کر تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ، وہ نکلے گا سفید
(چمکتا ہوا) بغیر کسی عیب کے
(یہ ان) نو نشانیوں میں سے ہیں
(جن کے ساتھ بھیجا گیا ہے تمھیں ) فرعون اوراس کی قوم کی طرف بے شک وہ ہیں لوگ نافرمان
(12) پس جب آئے ان کے پاس ہمارے معجزات واضح روشن تو انھوں نے کہا، یہ جادو ہے صریح
(13)اور انکار کیا انھوں نے ان کا، جبکہ یقین کر لیا تھا ان کا ان کے دلوں نے، ظلم اور تکبر سے پس دیکھیے کیسا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا؟
(14)
#
{7} يعني: اذكر هذه الحالة الفاضلة الشريفة من أحوال موسى بن عمران ابتداء الوحي إليه واصطفائه برسالته وتكليم الله إياه، وذلك أنَّه لمَّا مَكَثَ في مدين عدة سنين، وسار بأهله من مدين متوجهاً إلى مصر، فلما كان في أثناء الطريق؛ ضلَّ، وكان في ليلةٍ مظلمةٍ باردةٍ، فقال لهم: {إني آنستُ ناراً}؛ أي: أبصرتُ ناراً من بعيد، {سآتيكُم منها بخبرٍ}: عن الطريق، {أو آتيكم بشهابٍ قَبَسٍ لعلَّكُم تصطلونَ}؛ أي: تستدفِئون، وهذا دليلٌ على أنَّه تائهٌ ومشتدٌّ بردُه هو وأهله.
[7] یعنی موسیٰ بن عمرانu نے احوال میں سے آپ پر وحی کی ابتدا، اللہ تعالیٰ کے آپ کو چن لینے اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی حالت شریفہ و فاضلہ کو یاد کیجیے … یہ واقعہ یوں ہے کہ جب موسیٰu مدین میں چند سال ٹھہرے اور پھر مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو سفر کے دوران وہ راستہ بھول گئے،
رات سخت تاریک اور ٹھنڈی تھی۔ انھوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: ﴿اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا ﴾ یعنی میں نے
(دور) آگ دیکھی ہے:
﴿سَاٰتِیْكُمْ مِّؔنْهَا بِخَبَرٍ ﴾ میں وہاں سے تمھارے لیے راستے کے بارے میں کوئی خبر لاتا ہوں
﴿ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَ٘بَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ ﴾ ’’یا سلگتا ہوا انگارا تمھارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم آگ تاپ سکو۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اور ان کے گھر والے بیاباں میں بھٹک گئے تھے اور سخت سرد رات تھی۔
#
{8} {فلما جاءها نودي أن بورِكَ مَنْ في النار ومن حولها}؛ أي: ناداه الله تعالى وأخبره أنَّ هذا محلٌّ مقدسٌ مباركٌ، ومن بركتِهِ أن جَعَلَهُ الله موضعاً لتكليم الله لموسى وندائه وإرساله. {وسبحان الله ربِّ العالمين}: عن أن يُظَنَّ به نقصٌ أو سوءٌ، بل هو الكامل في وصفه وفعله.
[8] ﴿ فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا﴾ ’’پس جب وہ اس کے پاس آئے تو ندا آئی کہ بابرکت ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس
(آگ) کے اردگرد ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو پکارا اور آگاہ فرمایا کہ یہ نہایت مقدس اور مبارک جگہ ہے۔ یہ اس مقام کی برکت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو حضرت موسیٰu کو شرف کلام بخشنے،
آپ کو آواز دینے اور آپ کو رسالت سے سرفراز کرنے کے لیے منتخب فرمایا: ﴿ وَسُبْحٰؔنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ یعنی اللہ، رب کائنات اس چیز سے پاک اور منزہ ہے کہ اس کے بارے میں کسی نقص اور برائی کا گمان کیا جائے۔
#
{9} {يا موسى إنَّه أنا اللهُ العزيز الحكيم}؛ أي: أخبره الله أنَّه اللهُ المستحقُّ للعبادة وحدَه لا شريك له؛ كما في الآية الأخرى: {إنِّي أنا الله لا إله إلاَّ أنا فاعْبُدْني وَأقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْري}. {العزيز}: الذي قَهَرَ جميع الأشياء وأذعنتْ له كلُّ المخلوقات. {الحكيمُ}: في أمره وخَلْقِهِ، ومن حكمتِهِ أنْ أرسلَ عبده موسى بن عمران، الذي عَلِمَ اللهُ منه أنَّه أهلٌ لرسالته ووحيه وتكليمه، ومن عزَّتِهِ أن تعتمد عليه ولا تستوحش من انفرادك وكثرة أعدائِكَ وجبروتِهم؛ فإنَّ نواصيهم بيد الله وحركاتهم وسكونهم بتدبيره.
[9] ﴿ یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْ٘عَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ ’’اے موسیٰ! میں ہی اللہ،
غالب و دانا ہوں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو آگاہ فرمایا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا: ﴿ اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ١ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰ٘وةَ لِـذِكْرِیْ ﴾ (طٰہٰ:20؍14) ’’میں اللہ ہوں ، جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ پس میری عبادت کر اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کر۔‘‘
﴿ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ جو تمام اشیاء پر غالب ہے اور جس کے سامنے تمام مخلوقات مطیع اور سرافگندہ ہیں ۔
﴿ الْحَكِیْمُ ﴾ وہ اپنے امروخلق میں حکمت والا ہے۔ یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اس نے اپنے بندے موسیٰ بن عمران
(u) کو رسول بنا کر بھیجا جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو علم ہے کہ وہ رسالت، وحی اور شرف کلام بخشے جانے کے اہل ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہی ہے کہ آپ اس پر بھروسہ کرتے ہیں آپ اپنے تنہا ہونے، دشمنوں کی کثرت اوران کے ظلم و جبر کے باوجود وحشت نہیں کھاتے۔ کیونکہ ان کی پیشانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اور ان کی حرکات و سکون اس کے دست تدبیر کے تحت ہیں ۔
#
{10} {وألقِ عصاك}: فألقاها، {فلمَّا رآها تهتزُّ كأنَّها جانٌّ}: وهو ذكر الحيات سريعُ الحركة؛ {وَلَّى مُدْبِراً ولم يُعَقِّبْ}: ذُعراً من الحية التي رأى على مقتضى الطبائع البشرية، فقال الله له: {يا موسى لا تخفْ}، وقال في الآية الأخرى: {أقْبِلْ ولا تَخَفْ إنَّكَ من الآمِنينَ}. {إنِّي لا يخافُ لديَّ المرسلونَ}: لأنَّ جميع المخاوف مندرجةٌ في قضائِهِ وقدرِهِ وتصريفِهِ وأمرِهِ، فالذين اختصَّهم الله برسالتِهِ واصطفاهم لوحيِهِ لا ينبغي لهم أن يخافوا غيرَ الله؛ خصوصاً عند زيادة القُرْبِ منهم والحظوة بتكليمه.
[10] ﴿ وَاَلْقِ عَصَاكَ﴾ ’’اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔‘‘ پس انھوں نے اپنی لاٹھی ڈال دی
﴿ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ ﴾ ’’پس جب اسے حرکت کرتا ہوا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے۔‘‘ وہ ایک سریع الحرکت نرسانپ تھا۔
﴿ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ﴾ ’’تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔‘‘ آپ طبیعت بشری کے تقاضے کے مطابق اس سانپ سے خوف کھا کر بھاگے جو آپ نے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰu سے فرمایا:
﴿یٰمُوْسٰؔى لَا تَخَفْ ﴾ ’’اے موسیٰ! ڈرئیے مت۔‘‘ ایک مقام پر فرمایا:
﴿ اَ٘قْبِلْ وَلَا تَخَفْ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ ﴾ (القصص:28؍31) ’’اے موسیٰ! ’’آگے آ، ڈر مت، یقینا تو ہر طرح امن والا ہے۔‘‘
﴿ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْ٘مُرْسَلُوْنَ﴾ ’’پیغمبر میرے پاس ڈرا نہیں کرتے۔‘‘ پیغمبروں کو کوئی امر خوف زدہ نہیں کرتا اس لیے کہ تمام مقامات خوف اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر، اس کے تصرف اور امر کے مطابق درج ہیں ۔ وہ نفوس قدسیہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے مختص اور اپنی وحی کے لیے چن لیا ہے ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غیر اللہ سے ڈریں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی قرب اور اس سے ہم کلامی کے موقع پر۔
#
{11} {إلاَّ مَن ظلمَ ثمَّ بَدَّلَ حسناً بعد سوء}؛ أي: فهذا الذي هو محلُّ الخوف والوحشة؛ بسبب ما أسدى من الظُّلم وما تقدَّم له من الجرم، وأما المرسلون؛ فما لهم وللوحشةِ والخوفِ؟! ومع هذا؛ من ظَلَمَ نفسَه بمعاصي الله و تاب وأناب فبدَّلَ سيئاتِهِ حسناتٍ ومعاصيه طاعاتٍ؛ فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ؛ فلا ييأسْ أحدٌ من رحمته ومغفرتِهِ؛ فإنَّه يغفر الذنوبَ جميعاً، وهو أرحمُ بعباده من الوالدة بولدها.
[11] ﴿ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ ﴾ ’’ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا۔‘‘ یعنی، یہ ہے وہ مقام جہاں اپنے ظلم اور جرم کے سبب سے وحشت اور خوف آنا چاہیے۔ رہے انبیاء و مرسلینo تو وحشت اور خوف کا ان کے ساتھ کیا تعلق؟ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے ظلم کا ارتکاب کیا پھراس نے توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اپنی برائیوں کو نیکیوں کے ساتھ اور اپنی نافرمانیوں کو اطاعت کے ساتھ بدل ڈالا تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے کسی کو اس کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے۔
#
{12} {وأدخلْ يَدَكَ في جيبِك تَخْرُجْ بيضاءَ من غير سوءٍ}: لا برصَ ولا نقصَ، بل بياضٌ يبهر الناظرين شعاعه {في تسع آياتٍ إلى فرعونَ وقومِهِ}؛ أي: هاتان الآيتان ـ انقلابُ العصا حيَّة تسعى وإخراجُ اليدِ من الجيب فتخرجُ بيضاءَ ـ في جملة تسع آياتٍ تذهبُ بها وتدعو فرعون وقومه. {إنَّهم كانوا قوماً فاسقين}: فَسَقوا بشركِهِم وعتوِّهم وعلوِّهم على عباد الله واستكبارِهِم في الأرض بغير الحقِّ.
[12] ﴿وَاَدْخِلْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ ﴾ ’’اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو، وہ کسی بیماری کے بغیر سفید نکلے گا۔‘‘ یعنی برص اور نقص نہیں تھا بلکہ سفید،
اس کی شعاعیں دیکھنے والوں کو مبہوت كيے دے رہی تھیں : ﴿فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ﴾ ’’نو معجزے لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔‘‘ یعنی یہ دو معجزات، عصا کا دوڑتا ہوا سانپ بن جانا، ہاتھ کا گریبان سے نکالنا، اس کا سفید نکلنا، جملہ نو معجزات میں شامل ہیں ۔ آپ ان معجزات کے ساتھ جائیں فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں ۔
﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’بے شک وہ فاسق لوگ ہیں ۔‘‘ انھوں نے اپنے شرک، سرکشی، اللہ کے بندوں پر تغلب اور زمین میں ناحق تکبر کے ذریعے سے فسق کا ارتکاب کیا۔
#
{13} فذهب موسى عليه السلام إلى فرعون وملئه، ودعاهم إلى الله تعالى، وأراهم الآيات، {فلمَّا جاءتهم آياتُنا مبصرةً}: مضيئةً تدلُّ على الحقِّ ويُبْصَرُ بها كما تُبْصِرُ الأبصارُ بالشمس، {قالوا هذا سحرٌ مبين}: لم يكفِهِم مجرَّدُ القول بأنه سحرٌ، بل قالوا: مبينٌ ظاهرٌ لكلِّ أحدٍ! وهذا من أعجب العجائب؛ الآيات المبصرات والأنوار الساطعات تُجْعَلُ من أبينِ الخُزَعْبِلات وأظهر السحرِ، هل هذا إلاَّ من أعظم المكابرة وأوقح السفسطة؟!
[13] پس حضرت موسیٰu فرعون اور اس کے اشراف کے پاس گئے، انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور ان کو معجزات دکھائے۔
﴿ فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً ﴾ ’’پس جب ان کے پاس روشن نشانیاں آئیں ‘‘ جو حق پر دلالت کرتی تھیں اور ان کے ذریعے سے
(حق) ایسے دیکھا جا سکتا ہے جیسے آنکھیں سورج کے ذریعے سے دیکھتی ہیں ۔
﴿ قَالُوْا هٰؔذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’تو انھوں نے کہا یہ صریح جادو ہے۔‘‘ انھوں نے اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا کہ ’’یہ جادو ہے‘‘ بلکہ انھوں نے ساتھ یہ بھی کہا:
﴿ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ کھلا جادو ہے‘‘ جو ہر ایک پر ظاہر ہے، حالانکہ یہ سب سے زیادہ تعجب خیز معجزات، واضح دلائل اور ہر طرف پھیل جانے والی روشنیاں تھیں جو فرضی قصے کہانیوں سے بہت زیادہ واضح اور جادوں کے کرتبوں سے بہت زیادہ ظاہر کرکے دکھائی گئی تھیں ۔ یہ سب سے بڑا انکار حق اور انتہائی مغالطہ آمیز طرز استدلال ہے۔
#
{14} {وجحدوا بها}؛ أي: كفروا بآيات الله جاحدين لها، {واسْتَيْقَنَتْها أنفسُهم}؛ أي: ليس جحدهم مستنداً إلى الشك والريبِ، وإنَّما جحدُهم مع علمهم وتيقُّنهم بصحَّتها {ظلماً}: منهم لحقِّ ربهم ولأنفسهم، {وعلوًّا}: على الحقِّ وعلى العباد وعلى الانقياد للرسل. {فانْظُرْ كيفَ كان عاقبةُ المفسدين}: أسوأ عاقبة؛ دمَّرهم الله، وغرَّقَهم في البحر، وأخزاهم، وأورث مساكِنَهم المستضعفين من عباده.
[14] ﴿ وَجَحَدُوْا بِهَا ﴾ ’’اور انھوں نے اس کا انکار کیا۔‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہوئے ان سے کفر کیا۔
﴿ وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ﴾ ’’حالانکہ ان کے دل اس کو مان چکے تھے۔‘‘ یعنی ان کا انکار کسی شک و ریب پر مبنی نہیں تھا۔ انھوں نے آیات الٰہی کی صحت کے علم اور یقین کے باوجود ان کا انکار کیا۔
﴿ ظُلْمًا ﴾ یعنی انھوں نے اپنے رب کے حق اور خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہوئے
﴿ وَّعُلُوًّا ﴾ حق اور بندوں پر غلبہ اور انبیاء و مرسلین کی اطاعت کے مقابلے میں تکبر کا اظہار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا۔
﴿ فَانْظُرْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’پس دیکھیے مفسدوں کا کیسا
(بدترین) انجام ہوا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر دیا، ان کو سمندر میں غرق کیا، انھیں رسوا کیا اور ان کی رہائش گاہوں اور مساکن کا اپنے کمزور بندوں کو وارث بنایا۔
{وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَى كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ (15) وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ (16) وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (17) حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (18) فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (19) وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (20) لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (21) فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (22) إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ (23) وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ (24) أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ (25) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (26) قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (27) اذْهَبْ بِكِتَابِي هَذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ (28) قَالَتْ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ (29) إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (30) أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (31) قَالَتْ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنْتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ (32) قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانْظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ (33) قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (34) وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ (35) فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِمَّا آتَاكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ (36) ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ (37) قَالَ يَاأَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (38) قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (39) قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (40) قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ (41) فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَكَذَا عَرْشُكِ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ (42) وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَافِرِينَ (43) قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (44)}.
اور البتہ تحقیق دیا تھا ہم نے داؤد اور سلیمان کو
(ایک خاص) علم اور
(ان) دونوں نے کہا، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے فضیلت دی ہمیں اوپر بہتوں کے اپنے مؤمن بندوں میں سے
(15) اور وارث بنا سلیمان داؤد کا اور اس نے کہا، اے لوگوک! سکھلائے گئے ہیں ہم بولی پرندوں کی اوردیے گئے ہیں ہم ہر چیز، بلاشبہ یہ البتہ
(اللہ کا) فضل ہے ظاہر
(16) اور اکٹھے کیے گئے سلیمان کے لیے اس کے لشکر جنوں اورانسانوں اور پرندوں سے پس وہ
(صف بندی کے لیے) الگ الگ تقسیم کیے جاتے تھے
(17) حتی کہ جب وہ آئے وادی پرچیونٹیوں کی تو کہا ایک چیونٹی نے، اے چیونٹیو! داخل ہو جاؤ تم اپنے بلوں میں ، نہ کچل ڈالیں تمھیں سلیمان اور اس کے لشکر درآنحالیکہ وہ نہ شعور رکھتے ہوں
(18) پس وہ مسکرایا ہنستے ہوئے اس
(چیونٹی) کی بات سے، کہا اے میرے رب! تو فیق دے تو مجھ کو یہ کہ شکر کروں میں تیری نعمت کا وہ جو تونے انعام کیا مجھ پر اور میرے والدین پراور یہ کہ میں عمل کروں نیک کہ تو پسند کرے اس کواور داخل کر تو مجھے ساتھ اپنی رحمت کے اپنے نیک بندوں میں
(19) اور تفتیش کی اس نے پرندوں کی تو کہا، کیا ہے مجھے کہ نہیں دیکھتا میں ہدہدکو؟ یا ہے وہ غائب ہونے والوں میں سے؟
(20) البتہ ضرور سزا دوں گا میں اسے سزا سخت یا ضرور ذبح کر دوں گا میں اسے یا وہ لائے میرے پاس واضح دلیل
(21) پس ٹھہرا وہ تھوڑی ہی دیر،
(کہ وہ آگیا) اور اس نے کہا، میں نے معلوم کیا ہے وہ بات کہ نہیں معلوم کیا آپ نے اسے اور لایا ہوں آپ کے پاس سَبَا سے ایک خبر یقینی
(22) بلاشبہ میں نے پایا ایک عورت کو جو حکومت کرتی ہے ان پر اور دی گئی ہے وہ
(ضرورت کی) ہر چیزاور اس کا تخت ہے عظیم الشان
(23) پایا میں نے اسے اور اس کی قوم کو کہ وہ سجدہ کرتے ہیں سورج کو سوائے اللہ کےاور مزین کر دیے ہیں ان کے لیے شیطان نے ان کے عمل، پس روک دیا ہے اس نے ان کو راہ
(حق) سے پس وہ نہیں ہدایت پاتے
(24) یہ کہ سجدہ کریں وہ اللہ کو وہ جو نکالتا ہے
(ان) چھپی چیزوں کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اورجو تم ظاہر کرتے ہو
(25) اللہ نہیں کوئی معبود مگر وہی جو رب ہے عرش عظیم کا
(26) سلیمان نے کہا، یقینا ہم دیکھیں گے آیا سچ کہا تو نے یا ہے تو جھوٹوں میں سے؟
(27) لے جا تو میرا خط یہ، پس ڈال تو اس کو ان کی طرف، پھر تو ہٹ جانا ان سے، پس دیکھ تو کیا جواب دیتے ہیں وہ؟
(28) بلقیس نے کہا اے درباریو! بلاشبہ، ڈالا گیا ہے میری طرف خط عزت والا
(29) یقینا ہے وہ سلیمان کی طرف سے اور وہ ہے اللہ کے نام سے
(شروع) جو نہایت مہربان، رحم کرنے والا ہے
(30) یہ کہ نہ سرکشی کرو تم میرے خلاف اور آجاؤ میرے پاس فرماں بردار بن کر
(31) بلقیس نے کہا، اے درباریو! تم مشورہ دو مجھے میرے
(اس) معاملے میں نہیں ہوں میں فیصلہ کرتی کسی کام کا حتی کہ تم میرے پاس حاضر ہو
(32) انھوں نے کہا، ہم قوت والے ہیں اور جنگجو ہیں سخت اور
(لیکن) تمام اختیار تیرے پاس ہے،پس دیکھ لے تو کیا حکم دیتی ہے
(ہمیں ) (33) اس نے کہا ، بلاشبہ بادشاہ، جب داخل ہوتے ہیں وہ کسی بستی میں تو خراب کر دیتے ہیں اس کو اور کر دیتے ہیں وہ اس کے معزز لوگوں کو ذلیل اور اسی طرح یہ
(بھی)کریں گے
(34) اور بے شک میں بھیجتی ہوں ان کی طرف کچھ ہدیہ، پھر دیکھتی ہوں ، کس چیز
(جواب) کے ساتھ لوٹتے ہیں قاصد؟
(35) پس جب آیا قاصد سلیمان کے پاس تو سلیمان نے کہا، کیا بڑھاتے ہو تم مجھے ساتھ مال کے پس جو کچھ دیا ہے مجھے اللہ نے، بہت بہتر ہے اس سے جو اس نے تمھیں دیا ہےبلکہ تم خودہی اپنے ہدیے سے خوش ہوتے ہو گے
(36) لوٹ جا تو ان کی طرف پس ہم ضرور لائیں گے ان کے پاس ایسے لشکر کہ نہیں طاقت ہوگی ان کو ان سے
(لڑنے کی) اور ضرور نکال دیں گے ہم انھیں اس جگہ سے ذلیل کر کے اس حال میں کہ وہ خوار ہوں گے
(37) سلیمان نے کہا، اے اہل دربار! کون تم میں سے لائے گا میرے پاس تخت اس
(بلقیس) کا پہلے اس سے کہ وہ آئیں میرے پاس مسلمان ہو کر؟
(38) کہا ایک دیو نے جنوں میں سے، میں لے آؤں گا وہ آپ کے پاس پہلے اس سے کہ آپ اٹھیں اپنی
(اس)جگہ سے اوربلاشبہ میں البتہ نہایت طاقت ور، امین ہوں
(39) کہا اس شخص نے جس کے پاس تھا علم کتاب کا، میں لے آتا ہوں آپ کے پاس وہ
(تخت) پہلے اس سے کہ جھپکے آپ کی آنکھ پس جب سلیمان نے دیکھا اسے رکھا ہوا اپنے سامنے تو کہا، یہ ہے فضل سے میرے رب کے تاکہ وہ آزمائے مجھے آیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں ؟ اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو یقینا شکر کرتا ہے وہ اپنی ذات ہی کے لیے، جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو بلاشبہ میرارب بڑا بے پروا ہے، نہایت کرم والا
(40)سلیمان نے کہا، بدل دو تم اس کے لیے اس کا تخت ہم دیکھیں گے آیا راہ پاتی ہے وہ یا ہے وہ ان لوگوں میں سے جو نہیں راہ پاتے
(41) پس جب آئی وہ
(ملکہ) تو کہا
(پوچھا) گا
(اس سے) کیا اسی طرح ہے تیر اتخت؟اس نے کہا، گویا کہ یہ وہی ہے اوردیے گئے تھے ہم علم اس سے پہلے ہی اور تھے ہم مسلمان
(42) اور روکا ہوا تھا اسے
(اللہ کی عبادت سے) اس چیز نے جس کی تھی وہ عبادت کرتی سوائے اللہ کے، اس لیے کہ تھی وہ کافروں کی قوم میں سے
(43) کہا گیا اسے، داخل ہو تو
(اس) محل میں ، پس جب دیکھا اس نے اسے تو گمان کیا اسے گہرا پانی اور کھول دیں اس نے اپنی دنوں پنڈلیاں ، سلیمان نے کہا، بلاشبہ یہ تو محل ہے جڑا ہوا شیشوں سے، اس نے کہا، اے میرے رب! بے شک
(اب تک) میں نے ظلم کیا اپنی جان پراور
(اب) میں مطیع ہو گئی ساتھ سلیمان کے واسطے اللہ رب العالمین کے
(44)
#
{15} يذكر في هذا القرآن وينوِّه بمنَّته على داود وسليمان ابنه بالعلم الواسع الكثير؛ بدليل التَّنْكير؛ كما قال تعالى: {وداودَ وسليمانَ إذْ يَحْكُمانِ في الحَرْثِ إذْ نَفَشَتْ فيه غنمُ القومِ وكُنَّا لحكمِهِم شاهدينَ. ففَهَّمْناها سليمانَ وكلًّا آتَيْنا حكماً وعلماَ ... } الآية. وقالا شاكرين لربهما منَّتَه الكُبرى بتعليمهما: {الحمدُ لله الذي فَضَّلَنا على كثيرٍ من عبادِهِ المؤمنين}: فحمدا الله على جَعْلِهِما من المؤمنين أهل السعادة، وأنَّهم كانوا من خواصِّهم. ولا شكَّ أن المؤمنين أربع درجات: الصالحون، ثم فوقَهم الشهداءُ، ثم فوقهم الصديقونَ، ثم فوقهم الأنبياء. وداود وسليمان من خواصِّ الرسل، وإن كانوا دون درجة أولي العزم الخمسة، لكنَّهم من جملة الرسل الفضلاء الكرام، الذين نوَّه الله بذكرهم ومدحهم في كتابه مدحاً عظيماً، فحمدوا الله على بلوغ هذه المنزلة، وهذا عنوان سعادةِ العبد: أنْ يكون شاكراً لله على نعمه الدينيَّة والدنيويَّة، وأن يرى جميع النعم من ربِّه؛ فلا يفخرُ بها ولا يُعْجَبُ بها، بل يرى أنها تستحقُّ عليه شكراً كثيراً.
[15] اللہ تبارک وتعالیٰ ان آیات کریمہ میں حضرت داؤد اور ان کے فرزند سلیمانi پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے انھیں وسیع علم عطا کیا اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ ’’علم‘‘ کو نکرہ کے صیغے میں بیان کیا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ وَدَاوٗدَ وَسُلَ٘یْمٰنَ اِذْ یَحْكُ٘مٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَؔكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ۰۰فَفَهَّمْنٰهَا سُلَ٘یْمٰنَ١ۚ وَؔكُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ﴾ (الانبیاء:21؍78، 79) ’’اور یاد کیجیے داؤد اور سلیمان کو جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر گئی تھیں ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے۔ پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم سے ہم نے دونوں ہی کو سرفراز کیا تھا۔‘‘
﴿ وَقَالَا ﴾ ان دونوں نے اس احسان پر کہ اللہ نے ان کو تعلیم دی،
اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے کہا: ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔‘‘ پس ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی کہ اس نے انھیں ایمان سے بہرہ مند کیا اور انھیں سعادت مند لوگوں میں شامل کیا اور وہ ان کے خواص میں شمار ہوتے ہیں … اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل ایمان کے چار درجے ہیں ۔ صالحین، ان سے اوپر شہداء، ان سے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء۔ داؤد اور سلیمانi اللہ تعالیٰ کے خاص رسولوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ اگرچہ ان کا درجہ پانچ اولوالعزم رسولوں کے درجے سے کم تر ہے۔ تاہم وہ جملہ اصحاب فضیلت انبیاء ورسل میں شمار ہوتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی بہت زیادہ مدح و توصیف بیان کی ہے۔ پس انھوں نے اس منزلت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ یہ بندے کی سعادت کا عنوان ہے کہ وہ تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ ایمان رکھے کہ تمام نعمتیں صرف اس کے رب کی طرف سے عطا ہوتی ہیں ۔ وہ ان نعمتوں پر فخر کرے نہ ان پر تکبر کرے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ نعمتیں اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے۔
#
{16} فلما مدحهما مشتركين؛ خصَّ سليمان بما خصَّه به لكون الله أعطاه ملكاً عظيماً وصار له من الماجريات ما لم يكن لأبيه صلى الله عليهما وسلم، فقال: {وورث سليمانُ داودَ}؛ أي: ورث علمه ونبوَّته، وانضمَّ علم أبيه إلى علمه، فلعلَّه تعلَّم من أبيه ما عنده من العلم مع ما كان عليه من العلم وقتَ أبيه؛ كما تقدَّم من قوله: {ففهَّمْناها سليمانَ}. {وقال}: شكراً لله وتبجُّحاً بإحسانه وتحدُّثاً بنعمتِهِ: {يا أيُّها الناس عُلِّمْنا منطقَ الطيرِ}: فكان عليه الصلاة والسلام يفقهُ ما تقولُ وتتكلمُ به؛ كما راجعَ الهدهدَ وراجَعَه، وكما فهم قول النملةِ للنمل كما يأتي، وهذا لم يكن لأحدٍ غير سليمان عليه السلام، {وأوتينا من كلِّ شيءٍ}؛ أي: أعطانا الله من النعم ومن أسباب الملك ومن السلطنة والقهر ما لم يؤتِ أحداً من الآدميين، ولهذا دعا ربَّه، فقال: {ربِّ هَبْ لي ملكاً لا ينبغي لأحدٍ من بعدي}: فسخَّر الله له الشياطينَ يَعْمَلونَ له كلَّ ما شاء من الأعمال التي يَعْجَزُ عنها غيرُهم، وسخَّر له الريح غُدُوُّها شهرٌ ورَواحها شهرٌ. {إنَّ هذا}: الذي أعطانا الله، وفضَّلنا، واختصَّنا به {لهو الفضلُ المبين}: الواضح الجليُّ، فاعترف أكمل اعترافٍ بنعمة الله تعالى.
[16] پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمانi کی مشترک مدح کی پھر سلیمانu کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عظیم سلطنت عطا کی اور انھوں نے وہ کارنامے سر انجام دیے جو ان کے باپ داؤدu سرانجام نہ دے سکے۔
﴿ وَوَرِثَ سُلَ٘یْمٰنُ دَاوٗدَ ﴾ ’’اور سلیمان،
داود کے وارث بنے۔‘‘ یعنی وہ حضرت داؤدu کے علم اور ان کی نبوت کے وارث بنے انھوں نے اپنے علم کے ساتھ اپنے والد کے علم کو اکٹھا کر لیا شاید انھوں نے اپنے باپ کے علم کو اپنے باپ سے سیکھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے باپ کی موجودگی میں بھی ان کے پاس علم تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَ٘یْمٰنَ﴾ (الانبیاء:21؍79) ’’پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور تحدیث نعمت کے طور پر سلیمانu نے کہا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ ﴾ ’’لوگو! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘ سلیمانu پرندوں کی بولی اور ان کی بات کو سمجھتے تھے جیسا کہ آنجناب نے ہدہد سے بات چیت کی اور ہدہد نے ان کی باتوں کا جواب دیا اور جیسا کہ آنجناب نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا تھا جو اس نے چیونٹیوں سے کی تھی … اس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ یہ فضیلت سلیمانu کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔
﴿ وَاُوْتِیْنَا مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ﴾ ’’اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمتیں ، اقتدار کے اسباب،
سلطنت اور غلبہ عطا کیا جو انسانوں میں سے کسی کو عطا نہیں ہوئے اس لیے انھوں نے اپنے رب سے دعا کی: ﴿ وَهَبْ لِیْ مُلْ٘كًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ ﴾ (صٓ:38؍35) ’’اور مجھے وہ اقتدار عطا کر جو میرے بعد کسی کے سزا وار نہ ہو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے جنوں کو ان کے سامنے مسخر کر دیا جو ان کے لیے ہر وہ کام کرتے تھے جووہ چاہتے تھے، جو دوسرے لوگ نہیں کر سکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔
﴿اِنَّ هٰؔذَا﴾ ’’بے شک یہ۔‘‘ یعنی یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا، ہمیں فضیلت عطا کی اور جس کے ساتھ ہمیں مختص کیا۔
﴿ لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ﴾ ’’البتہ وہ صریح فضل ہے۔‘‘ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا واضح فضل ہے۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا پوری طرح اعتراف کیا۔
#
{17} {وحُشِرَ لسليمانَ جنودُهُ من الجنِّ والإنس والطير فهم يوزَعونَ}: أي جُمِعَ له جنودُه الكثيرةُ الهائلة المتنوِّعة من بني آدم ومن الجنِّ والشياطين ومن الطيور. {فهُم يوزَعون}: يُدَبَّرون ويردُّ أولُهم على آخرهم وينظَّمون غاية التنظيم في سيرهم ونزولهم وحَلِّهم وتَرْحالهم، قد استعدَّ لذلك وأعدَّ له عدَّته، وكلُّ هذه الجنود مؤتمرةٌ بأمرِهِ لا تقدرُ على عصيانِهِ ولا تتمرَّد عليه؛ كما قال تعالى: {هذا عطاؤنا فامْنُنْ أو أمْسِكْ}؛ أي: أعط بغير حساب.
[17] ﴿ وَحُشِرَ لِسُلَ٘یْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْ٘سِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ ﴾ ’’اور سلیمان
(u) کے لیے جنوں ، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور وہ قسم وار کیے جاتے تھے۔‘‘ یعنی ان کے سامنے ان کے بے شمار مختلف انواع کے خوف ناک لشکر جمع ہوئے یہ لشکر انسانوں ، جنوں ، شیاطین اور پرندوں میں سے تھے۔ ان کو نظم و ضبط میں رکھا جاتا اور ان کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے اول کو آخر کی طرف لوٹایا جاتا تھا وہ اپنے کوچ کرنے اور پڑاؤ ڈالنے میں نہایت نظم و ضبط سے کام لیتے تھے اور ہر ایک اس کے لیے پوری طرح مستعد اور تیار ہوتا تھا۔ یہ تمام لشکر سلیمانu کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی،
حکم عدولی کرنے اور سرکشی دکھانے کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ هٰؔذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُ٘نْ اَوْ اَمْسِكْ ﴾ (صٓ:38؍39) ’’یہ ہماری نوازش ہے، آپ جسے چاہیں نوازیں اور جس سے چاہیں روک لیں ۔‘‘ یعنی جس کو چاہیں بغیر حساب عطا کریں ۔
#
{18} فسار بهذه الجنودِ الضخمةِ في بعض أسفاره، {حتى إذا أتَوْا على وادي النمل قالت نملةٌ}: منبهةٌ لرفقتها وبني جنسها: {يا أيُّها النملُ ادخُلوا مساكِنَكم لا يَحْطِمَنَّكُم سليمانُ وجنودُه وهم لا يشعرونَ}: فنصحت هذه النملة وأسمعتِ النمل: إما بنفسِها، ويكون الله قد أعطى النملَ أسماعاً خارقةً للعادة؛ لأنَّ التنبيه للنمل الذي قد ملأ الوادي بصوت نملةٍ واحدة من أعجب العجائب. وإما بأنَّها أخْبَرَتْ مَنْ حولَها من النمل ثم سرى الخبرُ من بعضهنَّ لبعضٍ حتى بَلَغَ الجميع وأمَرَتْهُنَّ بالحذر والطريق في ذلك، وهو دخول مساكنهنَّ، وعرفت حالة سليمان وجنوده وعظمةَ سلطانِهِ، واعتذرتْ عنهم أنَّهم إنْ حَطَموكم؛ فليس عن قصدٍ منهم ولا شعورٍ.
[18] پس سلیمانu یہ عظیم لشکر لے کر اپنی کسی مہم پر روانہ ہوئے
﴿ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ ﴾ ’’حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔‘‘ یعنی چیونٹی نے اپنے گروہ اور اپنے ابنائے جنس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا:
﴿ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَ٘یْمٰنُ وَجُنُوْدُهٗ وَهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ، ایسا نہ ہو کہ سلیمان
(u) اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘ اس چیونٹی نے خیرخواہی کی اور یہ بات چیونٹیوں کو سنائی۔ یہ بات یا تو اس نے خود سنائی اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طورپر چیونٹیوں کو سماعت عطا کر دی ہو کیونکہ چیونٹیوں کو ایک چیونٹی کی آواز کے ذریعے سے آگاہ کرنا، جبکہ چیونٹیوں نے وادی کو بھر رکھا تھا، بہت ہی تعجب انگیز بات ہے … یا اس چیونٹی نے ساتھ والی چیونٹی سے کہا ہو گا اور یہ خبر ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک حتیٰ کہ تمام چیونٹیوں میں سرایت کر گئی ہو گی اور اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو بچنے کے لیے کہا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ تمام چیونٹیاں اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ۔ یہ چیونٹی سلیمانu، ان کے احوال اور ان کی سلطنت کی عظمت کو اچھی طرح جانتی تھی اس لیے اس نے ان کی طرف سے معذرت کرتے ہوئے کہا، اگر انھوں نے چیونٹیوں کو کچل ڈالا تو یہ فعل قصداً اور شعوری طور پر نہیں ہو گا۔
#
{19} فسمع سليمانُ عليه الصلاة والسلامُ قولَها وفَهِمَهُ، {فتبسَّمَ ضاحكاً من قولِها}: إعجاباً منه بفصاحتها ونُصحها وحسن تعبيرها، وهذا حال الأنبياء عليهم الصلاة والسلام؛ الأدبُ الكاملُ، والتعجُّب في موضعه، وأنْ لا يبلغَ بهم الضَّحِك إلاَّ إلى التبسُّم؛ كما كان الرسول - صلى الله عليه وسلم - جُلُّ ضَحِكِهِ التبسُّمُ؛ فإنَّ القهقهةَ تدلُّ على خفة العقل وسوء الأدب، وعدم التبسُّم والعجب مما يُتَعَجَّب منه يدلُّ على شراسةِ الخلق والجبروت، والرسل منزَّهون عن ذلك. وقال شاكراً لله الذي أوصله إلى هذه الحال: {ربِّ أوْزِعْني}؛ أي: ألهمني ووفقني {أنْ أشكُرَ نعمتَكَ التي أنعمتَ عليَّ وعلى والديَّ}: فإنَّ النعمةَ على الوالدين نعمةٌ على الولد، فسأل ربَّه التوفيق للقيام بشكر نعمتِهِ الدينيَّة والدنيويَّة عليه وعلى والديه، {وأنْ أعملَ صالحاً ترضاه}؛ أي: ووفِّقْني أن أعمل صالحاً ترضاه؛ لكونه موافقاً لأمرك مخلصاً فيه سالماً من المفسدات والمنقصات، {وأدخلني برحمتِكَ}: التي منها الجنة، {في}: جملةِ {عبادِكَ الصالحين}: فإنَّ الرحمةَ مجعولةٌ للصالحين على اختلاف درجاتهم ومنازلهم. فهذا نموذجٌ ذَكَره الله من حالة سليمان عند سماع خطابِ النملة وندائها.
[19] حضرت سلیمانu نے چیونٹی کی بات سن لی اور آپ اس کو سمجھ بھی گئے۔
﴿ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا ﴾ ’’پس وہ
( سلیمانu) چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے۔‘‘ چیونٹی کی اپنی ہم جنسوں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں خیرخواہی اور حسن تعبیر پر خوش ہو کر مسکرا پڑے یہ انبیائے کرام کا حال ہے جو ادب کامل اور اپنے مقام پر اظہار تعجب کو شامل ہے نیز یہ کہ ان کا ہنسنا تبسم کی حد تک ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ e کا زیادہ تر ہنسنا مسکراہٹ کی حد تک ہوتا تھا۔ کیونکہ قہقہہ لگا کر ہنسنا خفت عقل اور سوء ادب پر دلالت کرتا ہے۔ خوش ہونے والی بات پر خوش نہ ہونا اور عدم تبسم بدخلقی اور طبیعت کی سختی پر دلالت کرتا ہے اور انبیاء ورسل اس سے پاک ہوتے ہیں ۔ سلیمانu نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا، جس نے اسے یہ مقام عطا کیا،
شکر ادا کرتے ہوئے کہا: ﴿ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ﴾ یعنی اے رب! مجھے الہام کر اور مجھے توفیق دے
﴿ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ ﴾ ’’کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں ، ان کا شکر کروں ۔‘‘ کیونکہ والدین کو نعمت عطا ہونا اولاد کو نعمت عطا ہونا ہے۔ پس حضرت سلیمانu نے اپنے رب سے اس دینی اور دنیاوی نعمت پر، جو اس نے انھیں اور ان کے والدین کو عطا کی،
شکر ادا کرنے کی توفیق کا سوال کیا: ﴿ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ ﴾ ’’اور یہ کہ ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہو جائے۔‘‘ یعنی مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تیرے حکم کے موافق، خالص تیرے لیے، مفسدات اور نقائص سے پاک ہوں تاکہ تو ان سے راضی ہو۔
﴿وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ ﴾ ’’اور مجھے اپنی رحمت سے داخل فرما۔‘‘ یعنی جس رحمت کا جنت بھی حصہ ہے۔
﴿ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اپنے جملہ نیک بندوں میں ‘‘ کیونکہ رحمت، صالحین کے لیے، ان کے درجات اور منازل کے مطابق رکھی گئی ہے۔ یہ حضرت سلیمانu کی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی اس حالت کے نمونے کا ذکر ہے جو چیونٹی کی بات سن کر ہوئی تھی۔
#
{20} ثم ذَكَرَ نموذجاً آخر من مخاطبته للطير، فقال: {وتفقَّدَ الطيرَ}: دلَّ هذا على كمال عزمِهِ وحزمِهِ وحسن تنظيمِهِ لجنودِهِ وتدبيرِهِ بنفسه للأمور الصغار والكبار، حتى إنَّه لم يُهْمِلْ هذا الأمر، وهو تفقُّد الطيور، والنظرُ هل هي موجودةٌ كلُّها أم مفقودٌ منها شيء؟ وهذا هو المعنى للآية.
ولم يصنع شيئاً مَنْ قال: إنَّه تفقَّد الطير لينظرَ أين الهدهد منه ليدلَّه على بعدِ الماء وقربِهِ؛ كما زعموا عن الهدهد أنَّه يبصِرُ الماء تحت الأرض الكثيفة؛ فإنَّ هذا القول لا يدلُّ عليه دليلٌ، بل الدليلُ العقليُّ واللفظيُّ دالٌّ على بطلانِهِ: أما العقليُّ؛ فإنَّه قد عُرِفَ بالعادة والتجارب والمشاهدات أنَّ هذه الحيوانات كلَّها ليس منها شيءٌ يبصر هذا البصرَ الخارقَ للعادة وينظر الماءَ تحت الأرض الكثيفة، ولو كان كذلك؛ لَذَكَرَهُ الله؛ لأنَّه من أكبر الآيات. وأما الدليلُ اللفظيُّ؛ فلو أريد هذا المعنى؛ لقال: وطلب الهدهدَ لينظر له الماء، فلمَّا فقده؛ قال ما قال، أو: فَفَتَّش عن الهدهد، أو: بحث عنه. ونحو ذلك من العبارات. وإنَّما تفقَّد الطيرَ لينظرَ الحاضر منها والغائبَ ولزومَها للمراكز والمواضع التي عيَّنها لها. وأيضاً؛ فإنَّ سليمان عليه السلام لا يحتاج ولا يضطرُّ إلى الماء بحيث يحتاج لهندسةِ الهدهدِ؛ فإنَّ عنده من الشياطين والعفاريت ما يحفرون له الماء، ولو بلغ في العمق ما بلغ، وسخَّر الله له الريح غُدُوُّها شهرٌ ورَواحها شهرٌ؛ فكيف مع ذلك يحتاجُ إلى الهدهد؟!
وهذه التفاسير التي توجد وتشتهر بها أقوالٌ لا يُعْرَفُ غيرُها تَنْقِلُ هذه الأقوال عن بني إسرائيل مجرَّدة، ويغفل الناقل عن مناقضتها للمعاني الصحيحة وتطبيقِها على الأقوال، ثم لا تزال تَتَناقل وينقُلُها المتأخِّر مسلِّماً للمتقدِّم، حتى يُظَنَّ أنَّها الحقُّ، فيقع من الأقوال الرديَّة في التفاسير ما يقعُ، واللبيبُ الفطنُ يعرِف أنَّ هذا القرآن الكريم العربيَّ المبينَ الذي خاطب الله به الخلقَ كلَّهم عالمهم وجاهلهم وأمَرَهم بالتفكُّر في معانيه وتطبيقها على ألفاظه العربيَّة المعروفة المعاني التي لا تجهلُها العربُ العرباءُ، وإذا وَجَدَ أقوالاً منقولة عن غير رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، رَدَّها إلى هذا الأصل؛ فإن وافقه؛ قبلها؛ لكون اللفظ دالًّا عليها، وإنْ خالفتْه لفظاً ومعنىً أو لفظاً أو معنىً؛ ردَّها وجزم ببطلانِها؛ لأنَّ عنده أصلاً معلوماً مناقضاً لها، وهو ما يعرفه من معنى الكلام ودلالته.
والشاهدُ أنَّ تفقُّدَ سليمان عليه السلام للطير وفَقْدَهُ الهدهدَ يدلُّ على كمال حزمِهِ وتدبيرِهِ للمُلك بنفسه وكمال فطنتِهِ، حتى فَقَدَ هذا الطائر الصغير، {فقال ما لي لا أرى الهُدْهُدَ أم كان من الغائبين}؛ أي: هل عدم رؤيتي إيَّاه لقلَّة فطنتي به لكونه خفيًّا بين هذه الأمم الكثيرة؟ أم على بابها بأن كان غائباً من غير إذني ولا أمري؟!
[20] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ساتھ سلیمانu کے مخاطب ہونے کا ایک اور نمونہ ذکر کیا،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ ﴾ ’’اور انھوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔‘‘ یہ چیز آپ کے کامل عزم و حزم، آپ کی افواج کی بہترین تنظیم اور چھوٹے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تمام پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمانu نے پرندوں کا معائنہ اس لیے کیا تھا تاکہ وہ ہدہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل تو اگر یہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ’’سلیمان نے ہدہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لیے پانی تلاش کرے جب انھوں نے ہدہد کو موجود نہ پایا تو انھوں نے کہا جو کہا…‘‘ یا عبارت اس طرح ہوتی ’’سلیمان نے ہدہد کے بارے میں تفتیش کی یا ’’ہدہد کے بارے میں تحقیق کی‘‘ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انھوں نے تو پرندوں کا صرف اس لیے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنے مقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمانu پانی کے محتاج نہ تھے کہ انھیں ہدہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی، اس لیے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہوتا زمین کھود کر نکال لاتے … اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہدہد کے کیسے محتاج ہو سکتے تھے۔
یہ تفاسیر جو شہرت پا چکی ہیں اور ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے۔ سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے ان کے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ پر ان کی تطبیق سے بے خبر ہیں ، پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں ردی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں ۔
ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتاہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جاہل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں ۔ جن سے اہل عرب ناواقف نہیں ۔ اگر کچھ تفسیری اقوال رسول اللہ e کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اس اصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کر لیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں ۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کر دے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمانu کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہدہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت وفطانت پر دلالت کرتا ہے،
یہاں تک کہ ہدہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا: ﴿ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآىِٕبِیْنَ۠﴾ ’’کیا وجہ ہے کہ ہدہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہو گیا؟‘‘ ہے۔ کیا ہدہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بے شمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے؟
#
{21} فحينئذٍ تغيَّظَ عليه وتوعَّده فقال: {لأعذِّبَنَّه عذاباً شديداً}: دون القتل {أو لأذْبَحَنَّه أو ليأتِيَنِّي بسلطانٍ مبينٍ}؛ أي: حجة واضحة على تخلُّفه. وهذا من كمال ورعِهِ وإنصافِهِ؛ أنَّه لم يقسم على مجرَّد عقوبته بالعذاب أو القتل؛ لأنَّ ذلك لا يكون إلاَّ من ذنبٍ، وغيبته قد تحتمل أنها لعذرٍ واضح؛ فلذلك استثناه لورعه وفطنته.
[21] تب سلیمانu ہدہد پر سخت ناراض ہوئے اور اسے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا:
﴿ لَاُعَذِّبَنَّهٗ۠ عَذَابً٘ا شَدِیْدًا ﴾ ’’میں اسے سخت سزا دوں گا۔‘‘ یعنی قتل کے سوا اسے ہر قسم کا سخت عذاب دوں گا۔
﴿ اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے سامنے دلیل صریح پیش کرے۔‘‘ یعنی وہ اپنے پیچھے رہ جانے کے جواز پر واضح دلیل پیش کرے۔ یہ آپ کے کمال عدل وانصاف اور تقویٰ کی دلیل ہے کہ آپ نے ہدہد کو یوں ہی سخت عذاب دینے یا قتل کرنے کی قسم نہیں کھائی کیوں کہ یہ سزا صرف بہت بڑے جرم کی پاداش ہی میں دی جا سکتی ہے اور ہدہد کی غیر حاضری میں کسی واضح عذر کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اس لیے آپ نے اپنے ورع اور فطانت کی بنا پر اس کو مستثنیٰ کیا۔
#
{22} {فمكث غير بعيدٍ}: ثم جاء، وهذا يدلُّ على هيبة جنوده منه وشدَّة ائتمارهم لأمره، حتى إن هذا الهدهد الذي خَلَّفَه العذرُ الواضح لم يقدِرْ على التخلُّف زمناً كثيراً، {فقال} لسليمانَ: {أحطتُ بما لم تُحِطْ به}؛ أي: عندي من العلم علمٌ ما أحطتَ به على علمك الواسع وعلوِّ درجتك فيه، {وجئتُك من سبأ}: القبيلة المعروفة في اليمن {بنبأ يقين}؛ أي: خبر متيقن.
[22] ﴿فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ﴾ ’’ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی‘‘ کہ ہدہد پیش ہوا اور یہ چیز لشکر میں سلیمانu کی ہیبت اور اپنے معاملات پر ان کی گہری نظر پر دلالت کرتی ہے حتیٰ کی ہدہد بھی جسے ایک واضح عذر نے پیچھے چھوڑ دیا تھا، طویل عرصہ تک غیر حاضر نہ رہ سکا۔
﴿ فَقَالَ ﴾ ہدہد نے سلیمانu کی خدمت میں عرض کیا:
﴿اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ ﴾ ’’میں کچھ علم رکھتا ہوں ، جس کا آپ
(اپنے وسیع علم اور اس میں بلند درجے پر فائز ہونے کے باوجود) احاطہ نہیں کر سکے۔‘‘
﴿ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍ﴾ ’’اور میں آپ کے پاس سبا سے لایا ہوں ۔‘‘ یعنی یمن کے مشہور قبیلہ سے
﴿ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ ﴾ ’’ایک یقینی خبر۔‘‘ یعنی میں ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں ۔
#
{23} ثم فسَّر هذا النبأ فقال: {إني وجدتُ امرأةً تملِكُهم}؛ أي: تملك قبيلة سبأ، وهي امرأة، {وأوتِيَتْ من كلِّ شيءٍ}: يؤتاه الملوك من الأموال والسلاح والجنود والحصون وقلاع ونحو ذلك، {ولها عرشٌ عظيمٌ}؛ أي: كرسي ملكها الذي تجلس عليه عرشٌ هائلٌ، وعِظَمُ العروش تدُلُّ على عظمة المملكة وقوة السلطان وكثرة رجال الشورى.
[23] پھر اس نے اس خبر کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا:
﴿ اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُ٘هُمْ ﴾ ’’میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے۔‘‘ یعنی وہ عورت ہوتے ہوئے قبیلۂ سبا کی بادشاہ تھی۔
﴿ وَاُوْتِیَتْ مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور اسے ہر قسم کا سازوسامان عطا کیا گیا ہے‘‘ جو بادشاہوں کو عطا ہوتا ہے،
مثلاً:مال و دولت، اسلحہ، فوج، مضبوط دفاعی حصار اور قلعے، وغیرہ۔
﴿ وَّلَهَا عَرْشٌ٘ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اور اس کے پاس بہت بڑا تخت
(بادشاہی) ہے‘‘ جس پر وہ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ وہ بہت ہی حیران کن تخت ہے۔ تخت شاہی کا بڑا ہونا عظمت مملکت، قوت سلطنت اور شوریٰ کے افراد کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔
#
{24} {وجدتُها وقَوْمَها يسجُدون للشمس من دونِ الله}؛ أي: هم مشرِكون يعبُدون الشمس، {وزيَّن لهم الشيطانُ أعمالَهم}: فرأوا ما هم عليه هو الحقَّ، {فهم لا يهتدونَ}: لأنَّ الذي يرى أنَّ الذي عليه حقٌّ لا مطمعَ في هدايته حتى تتغيَّر عقيدتُه.
[24] ﴿ وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّ٘مْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لوگ مشرک ہیں اور سورج کی پوجا کرتے ہیں ۔
﴿ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّ٘یْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ ﴾ ’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے مزین کر دیا ہے‘‘ انھیں اپنے اعمال حق نظر آتے ہیں
﴿ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَهُمْ لَا یَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’اور ان کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔‘‘ کیونکہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف حق ہے اس کی ہدایت کی توقع نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اس کا یہ عقیدہ بدل نہ جائے۔
#
{25} ثم قال: {ألاَّ}؛ أي: هلاَّ {يسجدوا لله الذي يُخْرِجُ الخَبْءَ في السمواتِ والأرض}؛ أي: يعلم الخفي الخبيء في أقطار السماوات وأنحاء الأرض من صغارِ المخلوقات وبذور النباتات وخفايا الصدور، ويخرج خَبْءَ الأرض والسماء بإنزال المطر وإنبات النبات، ويخرِجُ خَبْءَ الأرض عند النفخ في الصور وإخراج الأموات من الأرض ليجازِيَهم بأعمالهم، {ويعلم ما تُخفون وما تُعْلِنون}.
[25] ﴿ اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’وہ اس اللہ کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ یعنی جو آسمان کے کناروں اور زمین کے دور دراز گوشوں میں چھپی ہوئی چھوٹی چھوٹی مخلوقات، نباتات کے بیج اور سینوں میں چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان میں چھپی ہوئی چیزوں کو بارش برسا کر اور نباتات اگا کر ظاہر کرتا ہے۔ وہ زمین میں پوشیدہ اشیاء کو اس وقت بھی ظاہر کرے گا جب وہ صور پھونکے گا اور مردوں کو زمین سے اٹھا کھڑا کرے گا تاکہ ان کو ان کے اعمال کی جزا یا سزا دے
﴿ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ﴾ ’’اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘
#
{26} {الله لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا تنبغي العبادة والإنابة والذلُّ والحبُّ إلاَّ له؛ لأنَّه المألوه؛ لما له من الصفات الكاملة والنعم الموجبة لذلك. {ربُّ العرش العظيم}: الذي هو سقفُ المخلوقات، ووسع الأرضَ والسماوات. فهذا الملك عظيم السلطان كبير الشأن هو الذي يُذَلُّ له ويُخْضعُ ويُسْجَدُ له ويُرْكَع.
[26] ﴿ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﴾ ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔‘‘ یعنی عبادت، انابت، تذلل اور محبت صرف اسی کے لائق ہے۔ وہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ صفات کاملہ کا مالک اور تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں جو اس کی عبادت کی موجب ہیں ۔
﴿ رَبُّ الْ٘عَرْشِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔‘‘ جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے اور زمین اور آسمانوں کا احاطہ كيے ہوئے ہے۔ پس یہ بادشاہ عظیم سلطنت اور بہت بڑی شان کا مالک ہے۔ وہی ہے جس کے سامنے تذلل اور خضوع کا اظہار کیا جائے اور وہی ہے جس کے سامنے رکوع و سجود کیا جائے۔
#
{27 ـ 28} فسلم الهدهدُ حين ألقى إليه هذا النبأ العظيم، وتعجَّب سليمان كيف خفي عليه، وقال مثبتاً لكمال عقله ورزانته: {سننظُرُ أصَدَقْتَ أم كنتَ من الكاذِبينَ. اذهبْ بكتابي هذا}: وسيأتي نصُّه، {فألْقِهِ إليهم ثم تولَّ عنهم}؛ أي: استأخِرْ غير بعيد، {فانظُرْ ماذا يرجِعونَ}: إليك وما يتراجَعون به.
[28,27] جب ہدہد نے سلیمانu کو یہ عظیم خبر سنائی تو وہ سزا سے بچ گیا اور حضرت سلیمانu حیران ہوئے کہ یہ بات ان سے کیسے چھپی رہ گئی۔ آپ نے ہدہد کی عقل اور دانائی کا اثبات کرتے ہوئے کہا:
﴿ قَالَ سَنَنْظُ٘رُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ۰۰ اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰؔذَا﴾ ’’اچھا ہم دیکھیں گے کہ تونے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے، یہ میرا خط لے جا۔‘‘ اس خط کے مندرجات کا عنقریب ذکر آئے گا۔
﴿ فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ ﴾ ’’اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ۔‘‘ یعنی ذرا دور ہٹ جا
﴿ فَانْ٘ظُ٘رْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ ﴾ ’’اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی تجھے کیا جواب دیتے ہیں اور آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں ۔
#
{29 ـ 31} فذهب به، فألقاه عليها، فقالت لقومها: {إني أُلْقِي إليَّ كتابٌ كريمٌ}؛ أي: جليل المقدار، من أكبر ملوك الأرض، ثم بيَّنت مضمونَه، فقالت: {إنَّه من سليمانَ وإنَّه بِسْم الله الرحمن الرحيم. أن لا تَعْلوا عليَّ وأْتُوني مسلمينَ}؛ أي: لا تكونوا فوقي، بل اخضعوا تحت سلطاني، وانقادوا لأوامري، وأقبلوا إليَّ مسلمين. وهذا في غاية الوجازة مع البيان التامِّ؛ فإنَّه تضمَّن نهيَه عن العلوِّ عليه والبقاء على حالهم التي هم عليها، والانقيادَ لأمرِهِ والدخول تحت طاعته، ومجيئَهم إليه ودعوتهم إلى الإسلام. وفيه استحبابُ ابتداء الكتب بالبسملة كاملةً، وتقديمُ الاسم في أول عنوان الكتاب.
[31-29] ہدہد یہ خط لے گیا اور ملکہ کے سامنے پھینک دیا،
اس نے اپنی قوم سے کہا: ﴿ اِنِّیْۤ اُلْ٘قِیَ اِلَیَّ كِتٰبٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’میری طرف ایک نامۂ گرامی ڈالا گیا ہے۔‘‘ یعنی روئے زمین کے سب سے بڑے بادشاہ کی طرف سے ایک جلیل القدر خط بھیجا گیا ہے،
پھر اس نے خط کا مضمون بیان کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّهٗ مِنْ سُلَ٘یْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ ۰۰ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔‘‘ یعنی مجھ سے بڑے بننے کی کوشش نہ کرو بلکہ مطیع ہو کر میری حکمرانی کو قبول کر لو میرے احکام کو تسلیم کر کے فرماں برداری کے ساتھ میرے پاس آؤ۔ یہ خط مکمل طور پر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصر تھا کیونکہ یہ خط ان کو اپنی سرکشی، اپنے اس حال پر باقی رہنے سے روکنے، سلیمانu کے حکم کی اطاعت، ان کی حکمرانی قبول کرنے، مطیع ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کو متضمن تھا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خط کی ابتدا میں پوری بسم اللہ لکھنا اور خط کے عنوان وغیرہ میں اپنے نام سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔
#
{32 ـ 33} فمن حزمها وعقلها أنْ جمعت كبارَ دولتها ورجال مملكَتِها وقالت: {يا أيُّها الملأ أفتوني في أمري}؛ أي: أخبروني ماذا نجيبُه به؟! وهل ندخُلُ تحت طاعتِهِ وننقادُ أم ماذا نفعل؟! {ما كنتُ قاطعةً أمراً حتى تَشْهَدونِ}؛ أي: ما كنتُ مستبدَّةً بأمرٍ دون رأيكم ومشورَتِكم، {قالوا نحنُ أولو قوَّةٍ وأولو بأس شديدٍ}؛ أي: إن رددتِ عليه قولَه، ولم تدخُلي في طاعتِهِ؛ فإنَّا أقوياء على القتال. فكأنَّهم مالوا إلى هذا الرأي الذي لو تمَّ، لكان فيه دمارُهم، ولكنَّهم أيضاً لم يستقرُّوا عليه، بل قالوا: {والأمرُ إليكِ}؛ أي: الرأي ما رأيتِ؛ لعلمهم بعقلِها وحزمِها ونُصحها لهم، {فانظُري}: نظر فكرٍ وتدبُّر {ماذا تأمُرينَ}.
[33,32] یہ اس ملکہ کے حزم و احتیاط اور اس کی عقل مندی تھی کہ اس نے سلطنت کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگی:
﴿ قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ ﴾ ’’اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔‘‘ یعنی مجھے بتاؤ کہ ہم سلیمان
(u) کو کیا جواب دیں کیا ہم اس کی اطاعت قبول کر لیں یا اس کے علاوہ کچھ اور کریں ؟
﴿ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ ﴾ یعنی میں تمھاری رائے اور مشورہ کے بغیر اپنی صوابدید کے مطابق احکام جاری نہیں کرتی۔
﴿قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّ٘ةٍ وَّاُولُوْا بَ٘اْسٍ شَدِیْدٍ﴾ ’’انھوں نے کہا، ہم بڑے زور آور اور سخت جنگ جو ہیں ۔‘‘ یعنی اگر آپ سلیمان
(u) کی بات کو ٹھکرا دیں اور اس کی اطاعت قبول نہ کریں تو ہم جنگ کرنے کی قوت رکھتے ہیں ۔ ان کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ اگر اس پر عمل درآمد ہو جاتا تو ان کی بہت تباہی ہوتی،
پھر وہ اپنی رائے پر قائم نہ رہے بلکہ کہنے لگے: ﴿ وَّالْاَمْرُ اِلَیْكِ ﴾ ’’اور حکم آپ کے اختیار میں ہے۔‘‘ یعنی آپ جو رائے دیں گی اسی کو اختیار کیا جائے گا کیونکہ وہ اس کی عقل مندی، حزم واحتیاط اور خیرخواہی کو جانتے تھے۔
﴿ فَانْ٘ظُ٘رِیْ ﴾ ’’پس دیکھیے‘‘ یعنی غور وفکر کیجیے!
﴿ مَاذَا تَاْمُرِیْنَ ﴾ ’’آپ کیا حکم فرماتی ہیں ۔‘‘
#
{34 ـ 35} فقالت لهم مقنعةً لهم عن رأيِهِم، ومبيِّنة سوء مغبَّة القتال: {إنَّ الملوكَ إذا دخلوا قريةً أفسَدوها}: قتلاً وأسراً ونهباً لأموالها وتخريباً لديارها، {وجعلوا أعِزَّةَ أهلها أذِلَّةً}؛ أي: جعلوا الرؤساء السادة أشراف الناس من الأرذلين ؛ أي: فهذا رأيٌ غير سديد، وأيضاً؛ فلست بمطيعةٍ له قبل الاختبار وإرسال مَنْ يكشِفُ عن أحواله ويتدبَّرُها، وحينئذٍ نكونُ على بصيرةٍ من أمرِنا. فقالت: {وإنِّي مرسلةٌ إليهم بهديَّةٍ فناظرةٌ بم يَرْجِعُ المرسلونَ}: منه؛ هل يستمرُّ على رأيِهِ وقولِهِ؟ أم تخدعُهُ الهديةُ وتُبَدِّلُ فكرتَه؟! وكيف أحوالُه وجنودُه؟!
[35,34] قوم سبا کی ملکہ نے اپنے سرداروں کو ان کی رائے سے صرف نظر کرنے پر راضی کرتے اور جنگ کا انجام واضح کرتے ہوئے کہا:
﴿ قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَ٘رْیَةً اَفْسَدُوْهَا ﴾ ’’بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں
(تو قتل و غارت، لوٹ مار کر کے، لوگوں کو قیدی بنا کر اور گھروں کو اجاڑ کر) فساد برپا کرتے ہیں۔‘‘
﴿ وَجَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً﴾ ’’اور وہاں کے عزت داروں کو ذلیل کردیتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ رؤساء اور اشراف کو ذلیل کرتے ہیں ۔ پس یہ رائے درست نہیں ہے، نیز میں آزمائے بغیر اور کوئی ایسا آدمی بھیجے بغیر جو اس کے احوال پر سے پردہ ہٹا سکے،
اس کی اطاعت قبول نہیں کروں گی تب ہمارا معاملہ بصیرت پر مبنی ہو گا۔ ملکہ نے کہا: ﴿ وَاِنِّیْ مُرْسِلَةٌ اِلَیْهِمْ بِهَدِیَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ یَرْجِعُ الْ٘مُرْسَلُوْنَ ﴾ ’’اور میں ان کی طرف کوئی تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں ۔‘‘ یعنی سلیمانu کی طرف سے ایلچی کو کیا جواب ملتا ہے آیا وہ اپنی رائے اور اپنے قول پر قائم رہتا ہے یا ہدیہ اسے فریب میں مبتلا کر کے اس کی رائے اور ارادے کو بدل دیتا ہے؟ نیز اس کے اور اس کی افواج کے کیا حالات ہیں ؟
#
{36} فأرسلت إليه بهديَّةٍ مع رسل من عقلاء قومها وذوي الرأي منهم. {فلمَّا جاءَ سليمانُ}؛ أي: جاءه الرسل بالهديةِ، {قال}: منكراً عليهم ومتغيِّظاً على عدم إجابتهم: {أتُمِدُّونَنِ بمالٍ فما آتانِيَ اللهُ خيرٌ مما آتاكم}: فليست تقع عندي موقعاً، ولا أفرح بها، قد أغناني الله عنها، وأكثر عليَّ النعم، {بل أنتُم بهديَّتِكم تفرحونَ}: لحبِّكُم للدُّنيا، وقلَّة ما بأيديكم بالنسبة لما أعطاني الله.
[36] پس ملکہ نے اپنی قوم کے عقل مند اور اصحاب رائے لوگوں کو ہدیوں کے ساتھ سلیمانu کی خدمت میں روانہ کیا۔
﴿ فَلَمَّا جَآءَ سُلَ٘یْمٰنَ ﴾ ’’پس جب وہ
(قاصد) سلیمان
(u) کے پاس پہنچا۔‘‘ یعنی ملکہ کے ایلچی تحائف لے کر سلیمانu کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
﴿ قَالَ ﴾ توحضرت سلیمان نے ان کے انکار کرنے اور ان کی دعوت پر لبیک نہ کہنے پر سخت ناراض ہوتے ہوئے کہا:
﴿ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ١ٞ فَمَاۤ اٰتٰىنِۧ اللّٰهُ خَیْرٌ مِّؔمَّاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ ’’کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمھیں دیا ہے۔‘‘ تمھاری ان چیزوں کی میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں اور نہ ان کے آنے پر مجھے کوئی خوشی ہی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بے شمار نعمتوں سے نواز کر ان چیزوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔
﴿بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ ﴾ ’’بلکہ تم ہی اپنے ہدیے پر اتراتے ہو۔‘‘ تم دنیا سے محبت کی بنا پر ان تحائف پر اتراتے ہو، تمھارے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی نسبت کہیں کم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر رکھا ہے۔
#
{37} ثم أوصى الرسول من غير كتاب لما رأى من عقلِهِ وأنَّه سينقُلُ كلامَه على وجهه، فقال: {ارجِعْ إليهم}؛ أي: بهديَّتك، {فَلَنَأتِيَنَّهم بجنودٍ لا قِبَلَ لهم}؛ أي: لا طاقة لهم {بها وَلَنُخْرِجَنَّهم منها أذلَّةً وهم صاغرونَ}: فرجع إليهم وأبلَغَهم ما قال سليمانُ، وتجهَّزوا للمسير إلى سليمانَ.
[37] پھر حضرت سلیمانu نے جب ایلچی میں عقل و دانش دیکھی اور آپ نے اندازہ کر لیا کہ وہ آپ کے پیغام کو من وعن ملکہ تک پہنچا دے گا تو آپ نے خط لکھے بغیر پیغام دیا اور کہا:
﴿ اِرْجِـعْ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’ان کے پاس واپس جاؤ۔‘‘ یعنی یہ تحائف واپس ان کے پاس لے جاؤ
﴿ فَلَنَاْتِیَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا ﴾ ’’ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے، جس کے مقابلے کی ان کو طاقت نہ ہو گی۔‘‘
﴿وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّؔنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ﴾ ’’اور ہم ان کو وہاں سے بے عزت کر کے نکال دیں گے۔‘‘ پس وہ ایلچی واپس آیا اور ان کو سلیمانu کا پیغام پہنچا دیا اور وہ سلیمانu کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔
#
{38 ـ 40} وعلم سليمانُ أنَّهم لا بدَّ أن يسيروا إليه، فقال لمن حَضَرَه من الجنِّ والإنس: {أيُّكم يأتيني بعرشِها قبلَ أن يأتوني مسلمينَ}؛ أي: لأجل أن نتصرَّف فيه قبل أن يُسْلِموا فتكونَ أموالُهم محترمةً، {قال عفريتٌ من الجنِّ}: والعفريتُ هو القويُّ النشيطُ جدًّا، {أنا آتيكَ به قبلَ أن تقومَ من مقامِكَ وإنِّي عليه لقويٌّ أمينٌ}: والظاهر أن سليمان إذ ذاك في الشام، فيكون بينَه وبين سبأ نحو مسيرة أربعة أشهر؛ شهرانِ ذهاباً وشهران إياباً، ومع ذلك يقولُ هذا العفريت: أنا ألتزِمُ بالمجيء به على كبرِهِ وثقلِهِ وبُعْدِه قبل أن تقومَ من مجلسِكَ الذي أنت فيه، والمعتادُ من المجالس الطويلة أن تكونَ معظمَ الضُّحى نحو ثُلُثِ يوم، هذا نهايةُ المعتاد، وقد يكونُ دونَ ذلك أو أكثر، وهذا المَلِكُ العظيم الذي عند آحادِ رعيَّتِهِ هذه القوَّة والقدرةُ.
وأبلغُ من ذلك أنْ {قال الذي عندَه علمٌ من الكتابِ}: قال المفسِّرون: هو رجلٌ عالمٌ صالحٌ عند سليمان، يُقالُ له: آصف بن برخيا، كان يعرفُ اسم الله الأعظم، الذي إذا دُعي به؛ أجابَ، وإذا سُئِل به أعطى: {أنا آتيكَ به قبلَ أنْ يَرْتَدَّ إليك طرفُك}: بأن يدعوَ الله بذلك الاسم، فيحضرَ حالاً، وأنَّه دعا الله، فحضر. فالله أعلم؛ هل هذا المرادُ، أم أنَّ عندَه علماً من الكتاب يقتدِرُ به على جلب البعيدِ وتحصيل الشديد؟! {فلمَّا رآهُ} سليمان {مستقرًّا عنده}: حمد الله تعالى على أقدارِهِ وملكِهِ وتيسيرِ الأمور له، و {قال هذا مِن فضل ربِّي لِيَبْلُوَني أأشكُرُ أمْ أكفُرُ}؛ أي: ليختبِرَني بذلك، فلم يغترَّ عليه السلام بِمُلْكِهِ وسلطانِهِ وقدرتِهِ كما هو دأبُ الملوك الجاهلين، بل علم أنَّ ذلك اختبارٌ من ربِّه، فخاف أنْ لا يقومَ بشكرِ هذه النعمة، ثم بيَّنَ أنَّ هذا الشكر لا ينتفعُ الله به، وإنَّما يرجِعُ نفعُه إلى صاحبه، فقال: {ومَن شَكَرَ فإنَّما يشكُرُ لنفسه ومَن كَفَرَ فإنَّ ربِّي غنيٌّ كريم}: غنيٌّ عن أعماله، كريمٌ كثير الخير، يعمُّ به الشاكر والكافر؛ إلاَّ أنَّ شكر نعمِهِ داعٍ للمزيد منها، وكفرَها داعٍ لزوالِها.
[40-38] حضرت سلیمانu کو علم تھا کہ وہ ضرور ان کی طرف آئیں گے اس لیے انھوں نے اپنی مجلس میں موجود جنوں اور انسانوں سے کہا:
﴿ اَیُّكُمْ یَ٘اْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ مطیع ہو کر ہمارے پاس آئیں ، اس
(ملکہ) کا تخت میرے پاس لے آئے۔‘‘ تاکہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے پہلے ہم ان کے تخت میں تصرف کر سکیں کیونکہ ان کے مسلمان ہونے کے بعد ان کے اموال حرام ہو جائیں گے۔(لیکن فاضل مفسر کی یہ توجیہ صحیح نہیں ۔ اس کی وجہ تو یہی معلوم ہوتی کہ ملکہ کے تخت میں تصرف کرنے سے اس کی ذہانت و فطانت کا جو صاحب اقتدار کے لیے ضروری ہے، امتحان لینا مقصود تھا، جیسا کہ آگے آیت
﴿ نَؔكِّ٘رُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُ٘رْ اَتَهْتَدِیْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَهْتَدُوْنَ﴾ سے واضح ہے۔
(ص۔ي)
﴿ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ ’’جنات میں سے ’’عفریت‘‘ نے کہا۔‘‘ عفریت سے مراد وہ
(جن وغیرہ) ہے جو نہایت طاقتور اور چست ہو۔
﴿ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ﴾ ’’قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لاحاضر کرتا ہوں ۔ میں اس کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں ۔‘‘ ظاہر ہے اس وقت سلیمانu شام کے علاقے میں تھے ان کے درمیان اور قوم سبا کے علاقے کے درمیان تقریباً چار ماہ کی مسافت تھی… دو ماہ جانے کے لیے اور دو ماہ واپس لوٹنے کے لیے۔ بایں ہمہ اس عفریت نے کہا کہ اس تخت کے بڑا اور بھاری ہونے اور فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اسے لانے کا التزام کرتا ہے اور حضرت سلیمانu کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے پہلے وہ اسے لا کر پیش کر دے گا۔ اس قسم کی طویل مجالس کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ زیادہ تر چاشت کے وقت تک رہتی ہیں یعنی یہ مجالس دن کے تیسرے حصے تک جاری رہتی ہیں یہ عام معمول کے وقت کی انتہاء ہے تاہم اس وقت میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔
اس عظیم بادشاہ کی رعیت میں ایسے افراد موجود تھے جن کے پاس اتنی قوت اور قدرت تھی اور اس سے بھی بڑھ کر
﴿ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ﴾ ’’وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا بولا … ‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ وہ ایک عالم فاضل اور صالح شخص تھا جو حضرت سلیمانu کی خدمت میں رہتا تھا اسے ’’آصف بن برخیا‘‘ کہا جاتا تھا اس کے پاس ’’اسم اعظم‘‘ کا علم تھا جس کے ذریعے سے جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور جو سوال کیا جائے اللہ عطا کرتا ہے …
﴿ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ﴾ ’’میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ اس ’’اسم اعظم‘‘ کے واسطے سے دعا مانگے گا اور تخت اسی وقت حاضر ہو جائے گا چنانچہ اس نے دعا مانگی اور ملکۂ سبا کا تخت فوراً حاضر ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے جو ہم نے بیان کیا ہے یا اس کے پاس کتاب کا کوئی ایسا علم تھا جس کی بنا پر وہ دور کی چیز کو اور مشکل امور کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔
﴿فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ﴾ ’’پس جب انھوں نے اس
(تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا۔‘‘ تو حضرت سلیمانu نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی کہ اس نے آپ کو قدرت اور اقتدار عطا کیا اور تمام امور کو آپ کے لیے آسان کر دیا۔
﴿ قَالَ هٰؔذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ﴾ ’’کہا، کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے، کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ مجھے اس کے ذریعے سے آزمائے، چنانچہ سلیمانu نے اپنے اقتدار، سلطنت اور طاقت سے … جیسا کہ جاہل ملوک وسلاطین کی عادت ہے … کبھی فریب نہیں کھایا۔ بلکہ آپ کو علم تھا کہ یہ قوت واقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ وہ خائف رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کر سکیں ،
پھر واضح کر دیا کہ شکر کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اس کا فائدہ شکر کرنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے نیاز، کرم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس کے اعمال سے بے نیاز ہے، وہ کریم ہے بے پایاں بھلائی کا مالک ہے اس کی بھلائی شکر گزار اور ناشکرے سب کو شامل ہے، البتہ جو کوئی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ مزید نعمتوں کا مستحق بنتا ہے اور جو کوئی اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ ان کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
#
{41} ثم قال لِمَنْ عندَه: {نَكِّروا لها عرشَها}؛ أي: غيروه بزيادةٍ ونقص، ونحن في ذلك: {ننظُرْ}: مختبرينَ لعقلِها: {أتهتدي} للصوابِ ويكونُ عندَها ذكاءٌ وفطنةٌ تَليقُ بملكها، {أم تكونُ من الذين لا يهتدونَ}.
[41] پھر سلیمانu نے اپنے پاس والوں سے فرمایا:
﴿ نَؔكِّ٘رُوْا لَهَا عَرْشَهَا ﴾ ’’اس
(ملکہ) کے لیے اس کے تخت کی صورت بدل دو۔‘‘ یعنی اس تخت میں کچھ کمی بیشی کر کے اسے بدل ڈالو۔
﴿ نَنْظُ٘رْ ﴾ ہم اس بارے میں اس کی عقل کا امتحان لیں گے۔
﴿ اَتَهْتَدِیْۤ ﴾ کیا اسے راہ صواب ملتی ہے اور اس کے پاس وہ ذہانت اور فطانت ہے جو اقتدار کے لائق ہے یا وہ اس سے محروم ہے؟
#
{42} {فلما جاءت}: قادمةً على سليمان؛ عرض عليها عرشَها، وكان عهدُها به قد خلَّفتْه في بلدها، و {قيلَ لها أهكذا عرشُك}؛ أي: أنَّه استقرَّ عندنا أنَّ لك عرشاً عظيماً؛ فهل هو كهذا العرش الذي أحضَرْناه لك؟ {قالتْ كأنَّه هو}: وهذا من ذكائِها وفطنتِها: لم تَقُلْ هو لوجود التغيير فيه والتنكير، ولم تَنْفِ أنَّه هو لأنها عَرَفَتْه، فأتت بلفظٍ محتمل للأمرين، صادقٍ على الحالين.
فقال سليمان متعجِّباً من هدايتها وعقلِها وشاكراً لله أن أعطاه أعظَمَ منها: {وأوتينا العلمَ مِن قبلِها}؛ أي: الهدايةَ والعقلَ والحزم من قبل هذه الملكة، {وكُنَّا مسلمينَ}: وهي الهدايةُ النافعة الأصليَّة.
ويُحتمل أنَّ هذا من قول ملكة سبأ: وأوتينا العلمَ عن مُلْكِ سليمانَ وسلطانِهِ وزيادةِ اقتدارِهِ من قبلِ هذه الحالة التي رأيْنا فيها قدرتَه على إحضار العرش من المسافة البعيدة، فأذْعَنَّا له وجِئْنا مسلمينَ له خاضعينَ لسلطانه.
[42] ﴿ فَلَمَّا جَآءَتْ ﴾ ’’پس جب وہ
(ملکۂ سبا) سلیمانu کی خدمت میں حاضر ہوئی۔‘‘ تو حضرت سلیمانu نے وہ تخت ملکہ سبا کے سامنے پیش کیا اور جس تخت پر وہ متمکن تھی اسے وہ اپنے شہر میں چھوڑ کر آئی تھی۔
﴿ قِیْلَ اَهٰؔكَذَا عَرْشُكِ ﴾ ’’پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے۔‘‘ یعنی ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آپ کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ کیا وہ اس جیسا تخت ہے جو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے؟
﴿ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَ ﴾ ’’اس نے کہا، گویا کہ یہ وہی ہے۔‘‘ یہ ملکۂ سبا کی ذہانت و فطانت تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا ’’یہ تو وہی ہے‘‘ کیونکہ اس میں تبدیلی ہو چکی تھی اور نہ اس نے اس کی نفی ہی کی کیونکہ وہ اس تخت کو پہچان چکی تھی اس لیے اس نے اپنے جواب میں ایسا لفظ استعمال کیا جو دونوں امور کا محتمل اور دونوں حالتوں پر صادق آتا تھا۔ سلیمانu نے اس کی ہدایت اور عقل مندی پر حیران ہو کر اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، کہ اس نے اسے اس سے بھی زیادہ عقل و دانش سے نوازا ہے،
کہا: ﴿وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا ﴾ ’’اور ہم کو اس سے پہلے ہی علم ہو گیا تھا۔‘‘ یعنی ہدایت، عقل و دانش اور حزم و احتیاط اس ملکہ سے پہلے عطا ہو چکی ہے
﴿ وَؔكُنَّا مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہم مسلمان ہیں ۔‘‘ اور یہی حقیقی اور نفع مند ہدایت ہے۔
اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ملکۂ سبا کا قول ہو یعنی ’’ ہمیں سلیمان کی بادشاہت، سلطنت اور وسیع اقتدار کے بارے میں اس حالت سے پہلے ہی علم تھا، جو بہت لمبی مسافت سے ہمارا تخت منگوا کر پیش کرنے کی صورت میں ہم نے اس کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ ہم اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتے ہوئے اور اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اطاعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔‘‘
#
{43} قال الله تعالى: {وصدَّها ما كانتْ تعبُدُ من دونِ الله}؛ أي: عن الإسلام، وإلاَّ؛ فلها من الذكاء والفطنة ما به تعرفُ الحقَّ من الباطل، ولكنَّ العقائدَ الباطلة تُذْهِبُ بصيرة القلب. {إنَّها كانت من قوم كافرين}: فاستمرَّتْ على دينهم، وانفرادُ الواحد عن أهل الدِّين والعادة المستمرَّة بأمرٍ يراه بعقلِهِ من ضلالهم وخطئهم من أندرِ ما يكون؛ فلهذا لايُسْتَغْرَبُ بقاؤُها على الكفرِ.
[43] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ ’’اور وہ جو اللہ کے سوا پرستش کرتی تھی، اس نے اسے روکے رکھا۔‘‘ یعنی اسے اسلام سے روکے رکھا ورنہ اس میں ذہانت و فطانت تھی جس کے ذریعے سے وہ باطل میں سے حق کو پہچان سکتی تھی۔ مگر حقیقت ہے کہ باطل عقائد بصیرت قلب کو زائل کر دیتے ہیں
﴿ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’
(اس سے پہلے) وہ کافروں میں سے تھی۔‘‘ اس لیے وہ انھی کے دین پر قائم رہی۔ اہل دین سے کسی ایک شخص کا علیحدہ ہونا… جبکہ اس کی دائمی عادت اس معاملے کے بارے میں یہ ہے کہ اس کی عقل اسے لوگوں کی گمراہی اور خطا قرار دیتی ہے… بہت نادر چیز ہے اس لیے اس کا کفر پر باقی رہنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے۔
#
{44} ثم إنَّ سليمان أراد أن ترى من سلطانِهِ ما يَبْهَرُ العقولَ، فأمرها أن تَدْخُلَ الصرحَ، وهو المجلسُ المرتفع المتَّسع، وكان مجلساً من قوارير، تجري تحتَه الأنهار. {قيلَ لها ادْخُلي الصرحَ فلمَّا رأتْه حَسِبَتْه لُجَّةً}: ماءً؛ لأنَّ القوارير شفَّافةٌ يرى الماء الذي تحتها كأنه بذاته يجري ليس دونَه شيءٌ، {وكَشَفَتْ عن ساقَيْها}: للخياضةِ، وهذا أيضاً من عقلِها وأدبها؛ فإنَّها لم تمتَنِعْ من الدُّخول للمحلِّ الذي أُمِرَتْ بدخولِهِ لعلِمها أنَّها لم تُسْتَدْعَ إلاَّ للإكرام، وأنَّ ملكَ سليمان وتنظيمَه قد بناه على الحكمةِ، ولم يكنْ في قلبها أدنى شكٍّ من حالة السوء بعدما رأت ما رأت، فلما استعدَّت للخوض؛ قيل لها: {إنَّه صرحٌ مُمَرَّدٌ}؛ أي: مجلس {من قوارير}: فلا حاجةَ منك لكشفِ الساقين؛ فحينئذٍ لما وصلتْ إلى سليمان وشاهدتْ ما شاهدتْ وعلمت نبوَّتَه ورسالتَهُ؛ تابتْ ورجعتْ عن كفرها و {قالتْ ربِّ إنِّي ظلمتُ نفسي وأسلمتُ مع سليمانَ لله ربِّ العالمين}.
فهذا ما قصَّه الله علينا من قصَّة ملكة سبأ وما جرى لها مع سليمانَ، وما عدا ذلك من الفروع المولَّدة والقصص الإسرائيليَّة؛ فإنَّه لا يتعلق بالتفسير لكلام الله، وهو من الأمورِ التي يقف الجزم بها على الدليل المعلوم المعصوم، والمنقولات في هذا الباب كلها أو أكثرها ليس كذلك؛ فالحزمُ كلُّ الحزم الإعراضُ عنها وعدم إدخالِها في التفاسير. والله أعلم.
[44] پھر سلیمانu نے ارادہ کیا کہ ملکہ ان کی سلطنت کا مشاہدہ کرے جو عقول کو حیران کر دیتی ہے۔ پس آپ نے اس سے کہا کہ وہ محل میں داخل ہو، وہ ایک بلند اور وسیع بیٹھنے کی جگہ تھی اور یہ شیشے سے بنائی گئی تھی جس کے نیچے نہریں جاری تھیں ۔
﴿ قِیْلَ لَهَا ادْخُ٘لِی الصَّرْحَ١ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً ﴾ ’’اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا۔‘‘ کیونکہ شیشے شفاف تھے اور ان کے نیچے بہتا ہوا پانی صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہ شیشہ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بذات خود چل رہا ہو۔ اس کے سوا کوئی چیز نہ ہو۔
﴿ وَّؔكَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا﴾ ’’اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹالیا‘‘ پانی میں داخل ہونے کے لیے۔ یہ چیز بھی ملکہ کی عقل مندی اور اس کے ادب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہ محل میں جہاں اسے داخل ہونے کے لیے کہا گیا،
داخل ہونے سے رکی نہیں ۔ اسے علم تھا کہ صرف اس کے اکرام و تکریم کی خاطر ایسا کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور سلیمان بادشاہ اور اس کی تنظیم نے حکمت اور دانائی کی بنیاد پر اسے تعمیر کرایا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا اس کے بعد کسی بری حالت کے بارے میں اس کے دل میں ادنیٰ سا شک بھی نہ تھا۔ اور جب وہ ’’پانی‘‘ میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوئی تو اس سے کہا گیا: ﴿ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ﴾ ’’یہ ایسا محل ہے جس میں جڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ یعنی چکنا اور ملائم کیا گیا ہے
﴿ مِّنْ قَوَارِیْرَ﴾ ’’شیشوں سے۔‘‘ اس لیے تجھے پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس جب وہ حضرت سلیمانu کے پاس پہنچی،
وہاں جو کچھ دیکھا اور اسے سلیمان u کی نبوت اور رسالت کے بارے میں علم ہوا تو وہ اپنے کفر سے باز آ گئی اور کہنے لگی: ﴿ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَ٘یْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اے میرے رب! میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی، اب میں سلیمان کے ساتھ کائنات کے رب کی اطاعت قبول کرتی ہوں ۔‘‘
ملکۂ سبا اور حضرت سلیمانu کا یہ وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ خود ساختہ فروعات اور اسرائیلی روایات، جو تفسیر کے نام پر پھیلی ہوئی ہیں ، ان کا اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس قسم کی روایات ایسے امور میں شمار ہوتی ہیں جن کا قطعی فیصلہ ایسی دلیل پر موقوف ہوتا ہے جو نبی اکرم e سے منقول ہو۔ اس قصہ میں منقول اکثر روایات اس معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ اس لیے کامل احتیاط یہ ہے کہ ان سے اعراض کیا جائے اور ان کو تفسیر میں داخل نہ کیا جائے۔
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ (45) قَالَ يَاقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (46) قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ (47) وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (48) قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (49) وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (50) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (51) فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (52) وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (53)}
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے طرف ثمود کی ان کے بھائی صالح کو یہ کہ عبادت کرو تم اللہ کی، پس ناگہاں وہ دو فریق
(مومن اورکافر ہو کر) آپس میں جھگڑتے تھے
(45) صالح نے کہا، اے میری قوم! کیوں جلدی طلب کرتے ہو تم برائی
(عذاب) کو پہلے بھلائی
(رحمت) سے، کیوں نہیں مغفرت طلب کرتے تم اللہ سے تاکہ تم رحم کیے جاؤ؟
(46) انھوں نے کہا، بدشگونی لی ہے ہم نے تیرے ساتھ اوران لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں ، اس نے کہا، تمھاری بدشگونی اللہ کے پاس ہےبلکہ تم ایسے لوگ ہو جو آزمائش میں ڈالے گئے ہو
(47) اور تھے
(اس) شہر میں نوسر غنے، وہ فساد کرتے تھے زمین
(ملک) میں اور نہیں
(تھے) وہ اصلاح کرتے
(48) انھوں نے کہا، قسم کھاؤ تم آپس میں اللہ کی! ضرور شب خون ماریں گے ہم اس پر اور اس کے اہل پر ، پھر ضرور کہیں گے ہم اس کے وارثوں سے کہ نہیں موجود تھے ہم وقت ہلاکت کے اس کے اہل کی اور بلاشبہ ہم یقینا سچے ہیں
(49) اور انھوں نے چلی ایک چال اور ہم نے بھی چلی ایک چال اور وہ نہیں شعور رکھتے تھے
(50) پس آپ دیکھیں ، کیسا ہوا انجام ان کی چال کا؟ بے شک ہم نے ہلاک کر دیا ان کو اور ان کی قوم کو سب کو
(51) پس یہ گھر ہیں ان کے اجڑے ہوئے بوجہ اس کے کہ ظلم کیا انھوں نے ، بلاشبہ اس میں البتہ نشانی
(عبرت) ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں
(52) اور نجات دی ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور تھے وہ
(اللہ سے) ڈرتے
(53)
#
{45} يخبرُ تعالى أنَّه أرسل إلى ثمود القبيلة المعروفة أخاهم في النسب صالحاً، وأنَّه أمرهم أن يعبُدوا الله وحدَه، ويترُكوا الأنداد والأوثان؛ {فإذا هم فريقان يختصمون}: منهم المؤمن، ومنهم الكافر ـ وهم معظمهم ـ.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے معروف قبیلہ ثمود میں ، ان کے نسبتی بھائی حضرت صالحu کو رسول بنا کر بھیجا۔ انھوں نے ان کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دیں ۔
﴿ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰ٘نِ یَخْتَصِمُوْنَ ﴾ ’’پس وہ دو فریق ہو کر جھگڑنے لگے۔‘‘ ان میں ایک مومنوں کا گروہ تھا اور دوسرا کفار کا گروہ تھا جو بہت بڑا تھا۔
#
{46} {قال يا قوم لم تستعجلونَ بالسيئة قبل الحسنة}؛ أي: لم تبادرونَ فعل السيئاتِ وتحرصونَ عليها قبل فعل الحسناتِ التي بها تحسُنُ أحوالُكم وتصلُحُ أمورُكم الدينيَّة والدنيويَّة، والحالُ أنَّه لا موجبَ لكم إلى الذَّهاب لفعل السيئات {لولا تستغفِرون اللهَ}: بأن تتوبوا من شِرْكِكُم وعِصْيانِكم وتَدْعونَ أن يغفر لكم، {لعلَّكم تُرحمون}: فإنَّ رحمة الله قريبٌ من المحسنين، والتائبُ من الذُّنوب هو من المحسنين.
[46] ﴿ قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ۠ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ﴾ ’’انھوں
(صالح u) نے کہا، اے میری قوم! تم نیکی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو؟‘‘ یعنی تم برائیوں کے ارتکاب میں جلدی کیوں کرتے ہو؟ اور اس نیکی سے بڑھ کر برائی کرنے کے حریص کیوں ہو جو نیکی تمھارے احوال کو درست اور تمھارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کرتی ہے حالانکہ کوئی ایسا امر نہیں جو تمھیں برائیوں کے ارتکاب پر مجبور کرتا ہو؟
﴿ لَوْلَا تَ٘سْتَغْفِرُوْنَ۠ اللّٰهَ ﴾ ’’تم اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے؟‘‘ یعنی اپنے شرک اور نافرمانی سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمھیں بخش دے،
﴿ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک لوگوں کے بہت قریب ہے اور گناہوں سے توبہ کرنے والا نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
#
{47} {قالوا}: لنبيِّهم صالحٍ مكذِّبين ومعارضينَ: {اطَّيَّرْنا بك وبمن معك}: زعموا قَبَّحَهُمُ الله أنهم لم يَرَوْا على وجهِ صالحٍ خيراً، وأنَّه هو ومن معه من المؤمنين صاروا سبباً لمنع بعض مطالبهم الدنيويَّة! فقال لهم صالحٌ: {طائِرُكم عند الله}؛ أي: ما أصابكم إلاَّ بذنوبكم. {بل أنتم قومٌ تُفْتَنون}: بالسَّراء والضرَّاء، والخير والشرِّ؛ لينظر هل تُقْلِعون وتتوبون أم لا؛ فهذا دأبُهم في تكذيبِ نبيِّهم وما قابَلوه به.
[47] ﴿ قَالُوا﴾ انھوں نے اپنے نبی صالحu کی تکذیب اور آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:
﴿ اطَّیَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ﴾ ’’تم اور تمھارے ساتھی ہمارے لیے شگون بد ہیں ۔‘‘ ان کا خیال تھا … اللہ ان کا برا کرے … کہ انھوں نے صالح
(u) میں بھلائی کی کوئی بات نہیں دیکھی۔ انھیں جو دنیاوی مقاصد حاصل نہیں ہوتے تھے وہ اس کا سبب صالحu اور ان کے متبعین کو گردانتے تھے۔ اس لیے صالحu نے ان سے فرمایا:
﴿ قَالَ طٰٓىِٕرُؔكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ ’’تمھاری بدشگونی اللہ کی طرف سے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے گناہوں کی پاداش میں تم پر مصائب نازل کرتا ہے
﴿ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ﴾ ’’بلکہ تم ایسے لوگ ہو جنھیں
(خوشحالی اور بدحالی، خیر اور شر کے ذریعے سے) آزمایا جاتا ہے‘‘ تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ آیا تم گناہوں سے باز آ کر توبہ کرتے ہو یا نہیں ؟ اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آنے کی، ان کی یہ عادت تھی۔
#
{48} {وكان في المدينةِ}: التي فيها صالحٌ، الجامعة لمعظم قومه {تسعةُ رهطٍ يفسِدون في الأرض ولا يُصْلِحونَ}؛ أي: وصفُهُم الإفساد في الأرض، ولا لهم قصدٌ ولا فعلٌ بالإصلاح، قد استعدُّوا لمعاداةِ صالح والطعنِ في دينِهِ ودعوةِ قومهم إلى ذلك؛ كما قال تعالى: {فاتقوا اللهَ وأطيعونِ. ولا تُطيعوا أمر المسرِفينَ. الذين يُفْسِدونَ في الأرض ولا يُصْلِحونَ}.
[48]﴿ وَكَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ﴾ ’’اور شہر میں تھے۔‘‘ یعنی اس شہر میں ، جس میں صالحu اور ان کی اکثر قوم رہتی تھی۔
﴿ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ﴾ ’’نو شخص، جو ملک میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔‘‘ یعنی زمین میں فساد برپا کرنا، ان کا وصف تھا اور وہ اصلاح کا کوئی کام کرتے تھے نہ اس کا وہ ارادہ رکھتے تھے۔ وہ صالحu کی دشمنی،
آپ کے دین میں طعن و تشنیع اور اپنی قوم کو بھی اسی راہ پر چلانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِۚ۰۰وَلَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْ٘مُسْرِفِیْنَۙ۰۰الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ (الشعراء:26؍150۔152) ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے۔‘‘
#
{49} فلم يزالوا بهذه الحال الشنيعةِ حتى أنَّهم من عداوتهم {تقاسموا} فيما بينَهم؛ كلُّ واحدٍ أقسم للآخر: {لَنُبَيِّتَنَّهُ وأهلَه}؛ أي: لنأتِيَنَّهم ليلاً هو وأهله، فلنقتلنّهم، {ثم لنقولَنَّ لوليِّه}: إذا قام علينا وادَّعى علينا أنَّا قَتَلْناهم؛ ننكِرُ ذلك وننفيه ونحلفُ: {إنَّا لَصادِقونَ}.
[49]وہ اسی بری حالت میں رہے حتیٰ کہ ان کی عداوت یہاں تک پہنچ گئی
﴿ تَقَاسَمُوْا﴾ ’’انھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قسم دے کر کہا‘‘
﴿ لَنُبَیِّتَنَّهٗ۠ وَاَهْلَهٗ﴾ ’’ہم رات کو اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے۔‘‘ یعنی ہم رات کے وقت اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پاس آئیں گے اور انھیں قتل کر دیں گے
﴿ ثُمَّ لَنَقُوْلَ٘نَّ لِوَلِیِّهٖ﴾ ’’پھر ہم اسے کے وارث کو کہہ دیں گے۔‘‘ جب وہ کھڑا ہو کر ہمارے خلاف قتل کا دعویٰ کرے تو ہم حلف اٹھا کر اس کا انکار کر دیں گے اور کہیں گے۔
﴿ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ٘ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ﴾ ’’ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہیں تھے اور ہم سچے ہیں ۔‘‘ پس انھوں نے اس پر ایکا کرلیا۔
#
{50} فتواطؤوا على ذلك، {ومكروا مكراً}: دبَّروا أمرهم على قتل صالح وأهله على وجه الخُفْيَةِ حتى من قومهم خوفاً من أوليائه، {ومَكَرْنا مكراً}: بنصرِ نبيِّنا صالح عليه السلام وتيسيرِ أمرِهِ وإهلاكِ قومِهِ المكذِّبين. {وهم لا يشعُرونَ}.
[50] ﴿ وَمَكَرُوْا مَكْرًا ﴾ ’’اور انھوں نے مکر کیا۔‘‘ انھوں نے خفیہ طور پر حضرت صالح u اور اس کے گھر والوں کو قتل کرنے کے منصوبے کی پوری تدبیر کر لی۔ حتیٰ کہ انھوں نے حضرت صالحu کے اولیاء کے خوف سے اس بات کو اپنی قوم سے بھی چھپائے رکھا۔
﴿ وَّمَكَرْنَا مَكْرًا﴾ ’’اور ہم نے بھی ایک چال چلی۔‘‘ یعنی اپنے نبی صالحu کی مدد، ان کے معاملے کو آسان بنانے اور ان کی قوم میں سے جھٹلانے والوں کو ہلاک کرنے کے لیے چال چلی۔
﴿ وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ﴾ ’’اور انھیں کوئی خبر نہ تھی۔‘‘
#
{51} {فانظرْ كيف كان عاقِبَةُ مَكْرِهِم}: هل حصل مقصودُهم وأدركوا بذلك المكر مطلوبَهم؟ أم انتقضَ عليهم الأمر؟! ولهذا قال: {أنَّا دَمَّرْناهم وقومَهم أجمعينَ}: أهلَكْناهم واستأصَلْنا شأفَتَهم فجاءتهم صيحةُ عذابٍ فأُهْلِكوا عن آخرهم.
[51] ﴿ فَانْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ﴾ ’’پس دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیسا ہوا؟‘‘ کیا انھوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا؟ کیا اس چال سے انھوں نے اپنا مطلوب پا لیا یا ان کا معاملہ بگڑ گیا؟
اس لیے فرمایا: ﴿اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَقَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو ہلاک کر دیا۔‘‘ ہم نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ پس عذاب کی ایک چنگھاڑ ان کے پاس آئی اور ان کا آخری آدمی تک ہلاک کر دیا گیا۔
#
{52} {فتلك بيوتُهم خاويةٌ}: قد تهدَّمت جدرانُها على سقوفِها، وأوحشتْ من ساكِنِها، وعطِّلَتْ من نازليها {بما ظَلَموا}؛ أي: هذا عاقبةُ ظلمهم وشِرْكِهم بالله وبغيِهِم في الأرض. {إنَّ في ذلك لآيةً لقومٍ يعلمونَ}: الحقائق، ويتدبَّرون وقائعَ الله في أوليائِهِ وأعدائِهِ، فيعتبِرون بذلك، ويعلمون أنَّ عاقبة الظُّلم الدَّمار والهلاك، وأنَّ عاقبة الإيمان والعدل النجاة والفوز.
[52] ﴿فَتِلْكَ بُیُوْتُهُمْ خَاوِیَةً﴾ ’’اب ان کے یہ گھر خالی پڑے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کی دیواریں چھتوں سمیت منہدم ہو گئیں ، گھر اجڑ گئے اور اپنے رہنے والوں سے خالی ہو گئے
﴿ بِمَا ظَلَمُوْا﴾ ’’بسبب اس کے جو انھوں نے ظلم کیا۔‘‘ یعنی یہ تھا ان کے ظلم، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے شرک اور زمین میں ان کی سرکشی کا انجام۔
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ ’’بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو
(حقائق کو) جانتے ہیں ‘‘ وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کے دشمنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی جو عادت رہی ہے اس میں غوروفکر کرتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں ، وہ خوب جانتے ہیں کہ ظلم کا انجام تباہی اور ہلاکت ہے۔ ایمان اور عدل کا انجام نجات اور کامیابی ہے۔
#
{53} ولهذا قال: {وأنجَيْنا الذين آمنوا وكانوا يتَّقونَ}؛ أي: أنجينا المؤمنين بالله وملائكتِهِ وكتبِهِ ورسلِهِ واليوم الآخر والقدَرِ خيرِهِ وشرِّه، وكانوا يتَّقون الشركَ بالله والمعاصيَ، ويعملونَ بطاعتِهِ وطاعةِ رسلِهِ.
[53]بنابریں فرمایا:
﴿ وَاَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَؔكَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے تھے، ان کو ہم نے نجات دی۔‘‘ یعنی ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں ،روز آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتے تھے، شرک اور گناہ سے بچتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے تھے۔
{وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (54) أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (55) فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (56) فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ (57) وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ (58)}
اور
(یاد کریں ) لوط کو جب کہا اس نے اپنی قوم سے، کیا آتے ہو تم بے حیائی
(بدفعلی) کو اس حال میں کہ تم دیکھتے ہو
(54) کیا بے شک تم البتہ آتے ہو مردوں کے پاس جنسی خواہش کی تسکین کے لیے چھوڑ کر
(اپنی) عورتوں کوبلکہ تم لوگ جہالت کا ارتکاب کرتے ہو
(55) پس نہ تھا جواب اس کی قوم کا مگر یہ کہ انھوں نے کہا، نکال دو تم لوط کے ماننے والوں کو اپنی بستی سے، بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف بنتے ہیں
(56) پس نجات دی ہم نے اسے اور اس کے اہل کو سوائے اس کی بیوی کے، فیصلہ کیا تھا ہم نے اس کے بابت
(کہ ہو گی وہ) پیچھے رہنے والوں میں سے
(57) اور بارش برسائی ہم نے ان پر
(پتھروں کی) بارش پس بری تھی بارش ڈرائے گئے لوگوں کی
(58)
#
{54} أي: واذكرْ عبدَنا ورسولَنا لوطاً ونبأه الفاضلَ حين قال لقومِهِ داعياً لهم إلى الله وناصحاً: {أتأتونَ الفاحشةَ}؛ أي: الفَعْلَةَ الشنعاء التي تستفحِشُها العقولُ والفطرُ وتستقبِحُها الشرائع. {وأنتُم تبصِرونَ}: ذلك وتعلمونَ قُبحَه، فعاندتم وارتكَبْتُم ذلك ظلماً منكم وجرأةً على الله.
[54] ہمارے بندے اور رسول لوط
(u) کا ذکر کیجیے اور ان کے فضیلت والے واقعات کی خبر دیجیے۔ جب انھوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے اور ان کی خیرخواہی کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ﴾ ’’کیا تم بے حیائی کرتے ہو؟‘‘ یعنی تم ایک ایسا گندہ کام کرتے ہو جسے عقل و فطرت انتہائی فحش اور شریعت قبیح گردانتی ہے۔
﴿ وَاَنْتُمْ تُ٘بْصِرُوْنَ ﴾ ’’اور تم دیکھتے ہو‘‘ اور اس کی قباحت کو جانتے ہو۔ تم نے عناد، ظلم اور اللہ تعالیٰ کے حضور جسارت کی بنا پر اس گناہ کا ارتکاب کیا۔
#
{55} ثم فسَّر تلك الفاحشةَ فقال: {أإنَّكم لتأتونَ الرجالَ شهوةً من دون النساء}؛ أي: كيف توصَّلْتم إلى هذه الحال، فصارت شهوتُكم للرجال وأدبارِهم محلِّ الغائط والنجوِ والخبثِ، وتركتُم ما خلقَ اللهُ لكم من النساء من المحالِّ الطيِّبة التي جُبِلَتِ النفوس إلى الميل إليها، وأنتم انقلبَ عليكم الأمرُ، فاستحسنتُم القبيح، واستقبحْتُم الحسن؟! {بل أنتم قومٌ [مسرفون] }: متجاوِزون لحدود الله متجرِّئون على محارمه.
[55]پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس
(فاحشۃ) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ﴾ ’’کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔‘‘ یعنی تم اس حالت کو کیسے پہنچ گئے کہ تمھاری شہوت مردوں اور ان کی پیٹھوں ، جو کہ غلاظت و خباثت کا مقام ہیں ، کی طرف منتقل ہو گئی ہے اور اللہ نے تمھارے لیے جو عورتیں اور ان کی پاکیزہ چیزیں پیدا کیں ، تم نے ان کو چھوڑ دیا جن کی طرف میلان نفوس کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ تمھارا معاملہ بالکل الٹ ہو گیا تم نے برے کو اچھا اور اچھے کو برا بنا دیا
﴿ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ﴾ ’’حقیقت یہ ہے کہ تم جاہل لوگ ہو۔‘‘ تم اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والے اور اس کے محارم کو توڑنے کی جسارت کرنے والے ہو۔
#
{56} {فما كان جوابَ قومِهِ}: قبولٌ ولا انزجارٌ ولا تذكُّرٌ وادِّكارٌ، إنَّما كان جوابُهم المعارضةَ والمناقضةَ والتوعُّد لنبيِّهم الناصح ورسولهم الأمين بالإجلاء عن وطنِهِ والتشريدِ عن بلدِهِ؛ فما كان جوابَ قومِهِ {إلاَّ أن قالوا أخرِجوا آلَ لوطٍ من قريَتِكُم}: فكأنَّه قيل: ما نقمتُم منهم وما ذنبُهم الذي أوجبَ لهم الإخراج؟ فقالوا: {إنَّهم أناسٌ يتطهَّرونَ}؛ أي: يتنزَّهون عن اللِّواط وأدبارِ الذُّكور!! فقبَّحهم الله؛ جعلوا أفضلَ الحسناتِ بمنزلة أقبح السيئات، ولم يكتفوا بمعصيَتِهِم لنبيِّهم فيما وعظهم به، حتى وصلوا إلى إخراجِهِ، والبلاءُ موكلٌ بالمنطق؛ فهم قالوا: أخرِجوهم من قريَتِكُم إنَّهم أناسٌ يتطهَّرون! ومفهوم هذا الكلام: وأنتُم متلوِّثون بالخبثِ والقذارةِ المقتضي لنزول العقوبة بقريَتِكم ونجاةِ من خَرَجَ منها.
[56] ﴿ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ﴾ ’’آپ کی قوم کا جواب صرف یہ تھا۔‘‘ ان کا جواب قبولیت پر مبنی تھا نہ وہ گناہوں سے باز آئے اور نہ انھوں نے کوئی نصیحت ہی پکڑی۔ اس کے برعکس ان کا جواب تو عناد، مخالفت، اپنے نبی اور اپنے امانت دار رسول کو اس کے وطن اور شہر سے جلاوطن کرنے کی دھمکی پر مبنی تھا۔
﴿اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْۤا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَ٘رْیَتِكُمْ﴾ ’’انھوں نے کہا کہ لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو۔‘‘ گویا ان سے پوچھا گیا کہ تم لوطu کے گھرانے سے کیوں ناراض ہو ان کا وہ کون سا گناہ ہے جو ان کو بستی سے نکالنے کا موجب ہے۔ تو انھوں نے جواب دیا۔
﴿ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّ٘تَطَ٘هَّرُوْنَ۠ ﴾ ’’وہ بڑے پاکباز بنتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ مردوں کے ساتھ بدفعلی سے بچتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے … انھوں نے بہترین نیکی کو بدترین برائی بنا دیا۔ انھوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ ان کے نبی نے ان کو جو نصیحت کی انھوں نے اس کی نافرمانی کی بلکہ وہ اس حد تک پہنچ گئے کہ اسے اپنی بستی سے نکالنے کا ارادہ کر لیا، مصیبت کا دارومدار زبان پر ہوتا ہے، اس لیے کہنے لگے
﴿اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّ٘تَ٘طَ٘هَّرُوْنَ۠ ﴾ (الاعراف:7؍82) ’’انھیں اپنی بستی سے نکال باہر کرو وہ بڑے پاکباز لوگ بنتے ہیں ‘‘ اور اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ تم خباثت اور گندگی میں لتھڑے ہوئے ہو۔ جو تمھاری بستی پر نزول عذاب اور جو اس بستی سے نکل جائے اس کی نجات کا تقاضا کرتی ہے۔
#
{57 ـ 58} ولهذا قال تعالى: {فأنجَيْناه وأهلهَ إلاَّ امرأتَه قَدَّرْناها من الغابرينَ}: وذلك لمَّا جاءتْه الملائكةُ في صورة أضيافٍ، وسمع بهم قومُه، فجاؤوا إليه يريدونَهم بالشرِّ، وأغلق الباب دونَهم، واشتدَّ الأمر عليه، ثم أخبرتْهم الملائكةُ عن جليَّة الحال، وأنَّهم جاؤوا لاستنقاذِهِ وإخراجِهِ من بين أظهُرِهم، وأنَّهم يريدون إهلاكَهم، وأنَّ موعِدَهم الصبح، وأمروه أن يسريَ بأهلِهِ ليلاً إلاَّ امرأتَهَ؛ فإنَّه سيصيبُها ما أصابهم، فخرج بأهلِهِ ليلاً، فنجوا، وصبَّحَهم العذابُ، فقلبَ الله عليهم ديارَهم، وجعل أعلاها أسفلها، وأمطر عليهم حجارةً من سجِّيلٍ منضودٍ مسوَّمَةً عند ربِّك، ولهذا قال هنا: {وأمْطَرْنا عليهم مطراً فساء مَطَرُ المُنذَرين}؛ أي: بئس المطرُ مطرُهم، وبئس العذابُ عذابُهم؛ لأنَّهم أُنْذِروا وخوِّفوا فلم ينزَجِروا ولم يرتَدِعوا، فأحلَّ الله بهم عقابَه الشديد.
[58,57]﴿ فَاَنْجَیْنٰهُ وَاَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ٞ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰؔبِرِیْنَ﴾ ’’پس ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو نجات دی۔ مگر ان کی بیوی کہ اس کی نسبت ہم نے مقرر کر رکھا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہو گی۔‘‘ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب مہمانوں کی شکل میں فرشتے لوطu کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی قوم کو ان
(خوبصورت) مہمانوں کی آمد کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ برائی کے ارادے سے لوطu کے پاس آئے۔ لوطu نے دروازہ بند کر لیا اور ان پر معاملہ بہت شدت اختیار کر گیا،
پھر فرشتوں نے لوطu کو صورت حال سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ انھیں ان سے بچانے اور ان بدکاروں کو ہلاک کرنے آئے ہیں اور ان کی ہلاکت کے لیے صبح کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ انھوں نے لوطu سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے سوا تمام گھر والوں کو لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جائیں کیونکہ ان کی بیوی پر بھی وہی عذاب نازل ہونے والا ہے جو بستی والوں پر نازل ہو گا۔ لوطu اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات بستی سے نکل گئے اور بچ گئے اور صبح ہوتے ہی یک دم عذاب نے بستی کو آ لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بستی کو تلپٹ کر دیا اور اوندھا کر کے اوپر کے حصے کو نیچے کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر تابڑ توڑ کھنگر کے پتھر برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ارشاد فرمایا: ﴿وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ﴾ ’’اور ہم نے ان پر مینہ برسایا پس
(جو) مینہ ان دھمکائے ہوئے لوگوں پر برسایا گیا وہ بہت برا تھا۔‘‘ یعنی بہت بری تھی وہ بارش جو ان پر برسائی گئی اور بہت برا تھا وہ عذاب جو ان پر نازل کیا گیا۔ ان کو ڈرایا گیا اور خوف دلایا گیا مگر وہ بدکاری سے رکے نہ باز آئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر انتہائی سخت عذاب نازل کر دیا۔
{قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (59)}.
کہہ دیجیے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنھیں وہ
(لوگ) شریک ٹھہراتے ہیں ؟
(59)
#
{59} أي: قل الحمدُ لله الذي يستحقُّ كمالَ الحمدِ والمدح والثناءِ؛ لكمال أوصافه وجميل معروفه وهباتِهِ وعدلِهِ وحكمتِهِ في عقوبته المكذِّبين وتعذيب الظالمين، وسلِّمْ أيضاً على عبادِهِ الذين تخيَّرهم واصطفاهم على العالمين من الأنبياء والمرسلين وصفوة الله ربِّ العالمين، وذلك لرفع ذِكْرِهم وتنويهاً بقَدْرِهم وسلامتهم من الشرِّ والأدناس وسلامةِ ما قالوه في ربِّهم من النقائص والعيوب. {آللهُ خيرٌ أمْ ما يُشْرِكون}: وهذا استفهامٌ قد تقرَّر وعُرِفَ؛ أي: الله الربُّ العظيم كاملُ الأوصاف عظيمُ الألطاف خيرٌ أم الأصنامُ والأوثانُ التي عَبَدوها معه وهي ناقصةٌ من كلِّ وجه؛ لا تنفعُ ولا تضرُّ ولا تملِكُ لأنفسها ولا لِعابديها مثقالَ ذرَّةٍ من الخير؛ فاللهُ خيرٌ مما يُشْرِكون.
[59] یعنی کہہ دیجیے
﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ﴾ ’’حمدوستائش اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ جو اپنے کمال اوصاف، اپنے جمال عطا و بخشش، اہل تکذیب کو سزا دینے اور ظالموں کو عذاب دینے میں عدل و حکمت کی بنا پر کامل حمدوستائش اور مدح و ثنا کا مستحق ہے۔ نیز اس کے بندوں انبیاء و مرسلین پر سلام بھیجئے جن کو اس نے تمام جہانوں میں سے منتخب فرمایا جو رب کائنات کے چنے ہوئے اور محبوب بندے تھے اور یہ اس لیے ہے تاکہ ان کا ذکر اور ان کی تعظیم اور زیادہ ہو نیز اس لیے بھی کہ وہ شر اور گندگی سے پاک ہیں ، اپنے رب کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ نقائص و عیوب سے محفوظ ہے۔
﴿آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ ’’بھلا اللہ بہتر ہے یا جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟‘‘ یہ استفہام متحقق اور معروف ہے، یعنی اللہ، رب عظیم، جو کامل اوصاف اور عظیم الطاف کا مالک ہے، بہتر ہے یا یہ اصنام و اوثان بہتر ہیں ، جن کی یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کرتے ہیں ، جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جو خود اپنے لیے اور اپنے عبادت گزاروں کے لیے ذرہ بھر بھلائی کے مالک نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان ہستیوں سے بہتر ہے جن کو یہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔
{أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (60)}.
(یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ
(اللہ) جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کواور اتارا تمھارے لیے آسمان سے پانی، پس اگائے ہم نے اس سے باغات پر رونق؟ نہیں تھی
(قدرت) تمھیں یہ کہ اگاتے تم ان کے درخت، کیا ہے کوئی
(اور) معبود ساتھ اللہ کے ؟بلکہ
(یہ) وہ لوگ ہیں جو
(اللہ کے ) برابر
(ہمسر) ٹھہراتے ہیں
(60)
#
{60} أي: أمَّن خَلَقَ السماواتِ وما فيها من الشمس والقمر والنجوم والملائكة والأرض وما فيها من جبال وبحار وأنهار وأشجار وغير ذلك، {وأنزل لكم}؛ أي: لأجلكم {من السماءِ ماءً فأنْبَتْنا به حدائقَ}؛ أي: بساتين {ذاتَ بهجةٍ}؛ أي: حسن منظر من كثرة أشجارها وتنوُّعها وحسنِ ثمارها. {ما كانَ لكُم أن تُنبِتوا شَجَرَها}: لولا مِنَّةُ الله عليكم بإنزال المطر. {أإلهٌ مع اللهِ}: فَعَلَ هذه الأفعالَ حتى يُعبد معه ويُشرَك به، {بل هم قوم يعدِلونَ}: به غيره، ويسوُّون به سواه، مع علمِهِم أنَّه وحده خالقُ العالم العلويِّ والسفليِّ ومنزلُ الرزق.
[60] اللہ تعالیٰ نے ان تمام تفاصیل کا ذکر کیا ہے جن سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ وہی الٰہ معبود ہے، صرف اسی کی عبادت حق اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت باطل ہے،
چنانچہ فرمایا:
یعنی، بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں کو اور ان کے اندر سورج، چاند، ستاروں اورفرشتوں کو، نیز زمین کو اور اس کے اندر پہاڑوں ، سمندروں ، دریاؤں اور درختوں وغیرہ کو پیدا کیا؟
﴿وَاَنْزَلَ لَكُمْ ﴾ ’’اور نازل کیا تمھارے لیے‘‘ یعنی تمھاری خاطر
﴿ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَنْۢبـَتْنَا بِهٖ حَدَآىِٕقَ ﴾ ’’آسمان سے پانی، پھر ہم ہی نے اس سے باغات اگائے۔‘‘
﴿ ذَاتَ بَهْجَةٍ﴾ ’’رونق والے۔‘‘ یعنی وہ درختوں کی کثرت، ان کے تنوع اور اچھے پھلوں کی وجہ سے خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں ۔
﴿ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا﴾ اگر بارش نازل کر کے تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان نہ کیا ہوتا تو تم ان درختوں کو کبھی اگانہ سکتے۔
﴿ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ﴾ ’’کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے‘‘ جو یہ افعال سرانجام دیتا ہو اور اس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی بھی عبادت کی جائے؟
﴿ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ﴾ ’’بلکہ یہ لوگ
(تو اللہ تعالیٰ کے) ہمسر ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ اس حقیقت کا علم رکھنے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ اکیلا عالم علوی اور عالم سفلی کا خالق اور رزق نازل کرنے والا ہے، وہ غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں ۔
{أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (61)}.
(یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ
(اللہ) جس نے بنایا زمین کو ٹھہرنے کے لائق اور بنا دیں اس کے درمیان نہریں اور بنائے اس کے لیے مضبوط پہاڑ اور بنا دی درمیان دو سمندروں کے آڑ؟ کیا ہے کوئی
(اور) معبود ساتھ اللہ کے؟
(نہیں !)بلکہ اکثر ان کے نہیں علم رکھتے l
#
{61} أي: هل الأصنام والأوثان الناقصة من كلِّ وجه التي لا فعلَ منها ولا رزقَ ولا نفعَ خيرٌ أم الله الذي {جعل الأرضَ قَراراً}: يستقرُّ عليها العبادُ ويتمكَّنون من السكنى والحرث والبناء والذَّهاب والإياب، {وجَعَلَ خلالها أنهاراً}؛ أي: جعل في خلال الأرض أنهاراً ينتفعُ بها العبادُ في زُروعهم وأشجارهم وشُربهم وشربِ مواشيهم، {وجَعَلَ لها رَواسي}؛ أي: جبالاً تُرسيها وتُثبتها لئلاَّ تميدَ وتكون أوتاداً لها لئلا تضطرِبَ، {وجعل بين البحرينِ}: البحر المالح والبحر العذب {حاجزاً}: يمنعُ من اختلاطِهِما فتفوت المنفعةُ المقصودة من كل منهما، بل جعل بينَهما حاجزاً من الأرض؛ جعل مجرى الأنهار في الأرض مبعدة عن البحار، فيحصُلُ منها مقاصدُها ومصالحها. {أإلهٌ مع الله}: فعل ذلك حتى يُعْدَلَ بهِ اللهُ ويُشْرَكَ به معه، {بل أكثرُهم لا يعلمون}: فيشركون بالله تقليداً لرؤسائهم، وإلاَّ؛ فلو علموا حقَّ العلم لم يشركوا به شيئاً.
[61] یعنی کیا یہ بت اور اصنام جو ہر لحاظ سے ناقص ہیں ، جن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوتا، جو رزق دینے پر قادر ہیں نہ کوئی نفع پہچانے کی قدرت رکھتے ہیں ، وہ بہتر ہیں یا اللہ تعالیٰ؟ جس نے
﴿ اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَ٘رَارًا ﴾ ’’زمین کو قرار گاہ بنایا۔‘‘ جہاں بندے گھر اور ٹھکانا بناتے ہیں ، کھیتی باڑی کرتے ہیں ، عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور ادھر ادھر آتے جاتے ہیں ۔
﴿ وَّجَعَلَ خِلٰ٘لَهَاۤ اَنْ٘هٰرًا ﴾ یعنی ا س نے زمین کے اندر دریا جاری كيے جن سے اس کے بندے اپنے کھیتیوں اور باغات میں فائدہ اٹھاتے ہیں ، ان سے خود پانی پیتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں ۔
﴿ وَّجَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ ﴾ ’’اور رکھ دیے اس کے اندر بوجھ۔‘‘ یعنی زمین کے اندر پہاڑ جما دیے جو اسے مضبوط رکھتے ہیں تاکہ یہ کہیں ڈھلک نہ جائے اور پہاڑ میخوں کا کام دیں تاکہ زمین نہ ہلے۔
﴿ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ ﴾ ’’دو دریاؤں کے مابین بنائی۔‘‘ یعنی نمکین اور کھاری سمندر اور میٹھے سمندر کے درمیان
﴿حَاجِزًا﴾ ’’رکاوٹ۔‘‘ جو ان دونوں کو خلط ملط ہونے سے روکے ہوئے ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں پانیوں کی منفعت مقصود ضائع ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان زمین کی رکاوٹ حائل کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے دریاؤں کی گزر گاہوں کو سمندر سے بہت دور رکھا ہے تاکہ دریاؤں سے مصالح اور مقاصد کا حصول ممکن ہو۔
﴿ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ﴾ ’’کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے‘‘ جو یہ تمام افعال سرانجام دیتا ہو اور یوں اسے اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے کر اسے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جائے؟
﴿ بَلْ اَ كْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اس لیے وہ اپنے سرداروں کی تقلید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ورنہ اگر انھیں پوری طرح علم ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کبھی شرک نہ کرتے۔
{أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (62)}.
(یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ
(اللہ) جو قبول کرتا ہے
(دعا) لاچارکی جب وہ پکارتا ہے اسے اور وہ دور کر دیتا ہے برائی کو اور وہ بناتا ہے تمھیں جانشین زمین میں ؟ کیا ہے کوئی
(اور) معبود ساتھ اللہ کے؟ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو تم
(62)
#
{62} أي: هل يجيبُ المضطرَّ الذي أقلقتْه الكروبُ وتعسَّر عليه المطلوبُ واضطرَّ للخلاص بما هو فيه إلاَّ الله وحدَه؟! ومن يكشِفُ السوءَ؛ أي: البلاء والشرَّ والنقمةَ؛ إلاَّ الله وحده؟! ومن يجعلُكُم خلفاء الأرض يمكِّنُكم منها ويمدُّ لكم بالرزق ويوصل إليكم نعمه وتكونون خلفاء مَنْ قبلَكم كما أنَّه سيميتُكم ويأتي بقوم بعدكم؟! أإلهٌ مع الله يفعل هذه الأفعالَ؟! لا أحد يفعلُ مع الله شيئاً من ذلك، حتى بإقرارِكم أيُّها المشركون، ولهذا كانوا إذا مسَّهم الضُّرُّ دَعَوا الله مخلصين له الدين؛ لعلمِهم أنَّه وحدَه المقتدر على دفعه وإزالته، {قليلاً ما تَذَكَّرونَ}؛ أي: قليلاً تذكُّركم وتدبُّركم للأمور التي إذا تذكَّرتموها ادّكرتُم ورجعتُم إلى الهدى، ولكن الغفلة والإعراض شاملٌ لكم؛ فلذلك ما ارْعَوَيْتم ولا اهتديتم.
[62] یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی ہے جو مضطرب و مجبور کی دعاؤں کا جواب دیتی ہو کہ جسے کرب و غم نے بے قرار کر رکھا ہو، جس کے لیے مطلوب کا حصول مشکل ہو اور جس مصیبت میں وہ مبتلا ہے اس سے گلو خلاصی پر مجبور ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا برائی، مصیبت، شر اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو کون دور کرتا ہے؟ کون ہے جو تمھیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے، زمین میں تمھیں تمکن عطا کرتا ہے، تمھیں رزق سے نوازتا ہے اور تمھیں اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کرتاہے؟ اور تم گزرے ہوئے لوگوں کے خلیفہ بنتے ہو جس طرح عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں موت سے ہمکنار کرے گا اور تمھارے بعد کچھ اور لوگوں کو لے آئے گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جو یہ تمام افعال سرانجام دیتا ہو؟
کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے تمام افعال صادر ہوتے ہوں حتیٰ کہ، اے مشرکو! تمھیں خود بھی اس کا اقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تھی تو دین کو خالص کر کے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے کیونکہ انھیں علم تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی اس تکلیف کو دور کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
﴿قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّـرُوْنَ﴾ یعنی تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو اور بہت کم تدبر کرتے ہو حالانکہ یہ معاملات ایسے ہیں کہ اگر تم ان سے نصیحت پکڑو تو تمھیں نصیحت آ جائے اورتم ہدایت کی طرف لوٹ آؤ۔ مگر غفلت اور اعراض تم پر مسلط ہے بنابریں تم جہالت سے باز آتے ہو نہ راہ راست پر چلتے ہو۔
{أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (63)}.
(یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ
(اللہ) جو راہ دکھاتا ہے تمھیں اندھیروں میں خشکی اور تری کے اور وہ جو بھیجتا ہے ہوائیں خوشخبری دینے والی پہلے اپنی رحمت
(بارش) کے کیا ہے کوئی
(اور) معبود ساتھ اللہ کے؟ برتر ہے اللہ اس سے جووہ شریک ٹھہراتے ہیں
(63)
#
{63} أي: من هو الذي يهديكم حين تكونون في ظُلُمات البرِّ والبحرِ حيث لا دليل ولا مَعْلَمَ يُرى ولا وسيلةَ إلى النجاة إلاَّ هدايتُه لكم وتيسيرُهُ الطريق وجعل ما جعل لكم من الأسباب التي تهتدون بها؟! {ومَن يرسِلُ الرياح بُشراً بين يدي رحمتِهِ}؛ أي: بين يدي المطر، فيرسِلُها، فتثيرُ السحاب، ثم تؤلِّفُه، ثم تجمعُه، ثم تُلْقِحُه، ثم تُدِرُّه، فيستبشر بذلك العباد قبل نزول المطر. {أإلهٌ مع الله}: فعل ذلك؟! أم هو وحده الذي انفرد به؟! فلم أشركتُم معه غيرَه وعبدتُم سواه؟! {تعالى الله عما يشرِكون}: تعاظم وتنزَّه وتقدَّس عن شِرْكِهم وتسوِيَتِهِم به غيره.
[63] وہ کون ہے جو تمھیں اس وقت راہ دکھاتا ہے جب تم بحروبر کی تاریکیوں میں سفر کر رہے ہوتے ہو جہاں تمھارے پاس کوئی راہنمائی کرنے والا ہوتا ہے نہ کوئی علامت دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی ایسا وسیلہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سے تم نجات حاصل کر سکو، البتہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی تمھارے کام آتی ہے، وہ تمھارے لیے راستے کو آسان کرتا ہے وہ تمھیں اسباب مہیا کرتا ہے جن کے ذریعے سے تم صحیح راستہ پا لیتے ہو۔
﴿ وَمَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ﴾ ’’اور کون ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔‘‘ یعنی بارش ہونے سے پہلے۔ پس اللہ تعالیٰ ان ہواؤں کو بھیجتا ہے وہ بادل اٹھاتی ہیں ، ان کو اکٹھا کرتی ہیں پھر ان کو بارآور کرتی ہیں اور بارش برسنے سے پہلے ہی بندے ان ہواؤں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔
﴿ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ﴾ ’’کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے‘‘ جس نے یہ تمام افعال سرانجام دیے ہیں یا صرف اکیلے اللہ تعالیٰ سے یہ افعال صادر ہوئے ہیں ؟ پھرتم اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو کیوں شریک ٹھہراتے ہو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟
﴿ تَ٘عٰ٘لَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ اللہ بہت بڑا اور ان کے شرک اور ہمسر قرار دینے سے منزہ اور پاک ہے۔
{أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (64)}.
(یہ بت بہتر ہیں ) یا وہ
(اللہ) جو پہلی بار پیدا کرتا ہے مخلوق کو ، پھر لوٹائے گا اسے اور وہ جو رزق دیتا ہے تمھیں آسمان اور زمین سے؟ کیاہے کوئی
(اور) معبود ساتھ اللہ کے؟ کہہ دیجیے! لے آؤ تم اپنی دلیل اگر ہو تم سچے
(64)
#
{64} أي: من هو الذي يبدأُ الخَلْقَ وينشئ المخلوقاتِ ويبتدي خلقَها ثم يعيدُ الخَلْقَ يوم البعث والنشور؟! {ومن يرزقُكم من السماء والأرض} بالمطر والنبات؟! {أإلهٌ مع الله}: يفعلُ ذلك ويقدر عليه، {قل هاتوا برهانكم}؛ أي: حجَّتكم ودليلكم على ما قلتم: {إن كنتُم صادقين} وإلاَّ؛ فبتقدير أنَّكم تقولون: إنَّ الأصنام لها مشاركة له في شيء من ذلك؛ فذلك مجرَّد دعوى صَدِّقُوهَا بالبرهان، وإلاَّ؛ فاعرفوا أنَّكم مبطلون لا حجَّة لكم، فارجِعوا إلى الأدلَّة اليقينيَّة والبراهين القطعيَّة الدالَّة على أنَّ الله هو المتفرِّد بجميع التصرُّفات وأنَّه المستحقُّ أن يُصْرَفَ له جميع أنواع العبادات.
[64] وہ کون ہے جو تخلیق کا آغاز کرتا ہے، جو تمام مخلوقات کو پیدا کرتا ہے اور ان مخلوقات کی تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر قیامت کے روز مخلوق کا اعادہ کرے گا؟ وہ کون ہے جو تمھیں بارش اور نباتات کے ذریعے سے آسمان اور زمین سے رزق مہیا کرتا ہے؟
﴿ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ﴾ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور ہستی ہے جو یہ سب کچھ کرنے کی قدرت رکھتی ہو؟
﴿ قُ٘لْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ﴾ یعنی اپنے دعوے پر کوئی حجت اور دلیل لاؤ
﴿ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اگر تم سچے ہو۔‘‘ ورنہ تمھارا یہ قول کہ یہ بت اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں ، مجرد دعویٰ ہے۔ اس کی توثیق و تصدیق کسی دلیل کے ساتھ کرو ورنہ اس حقیقت کا اعتراف کر لو کہ تمھارا موقف باطل ہے اور تمھارے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ پس تم یقینی اور قطعی دلائل اور براہین کی طرف رجوع کرو جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ اللہ جو تمام تصرفات کا اختیار رکھتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ عبادت کی تمام انواع کو صرف اسی کے ساتھ مختص کیا جائے۔
{قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (65) بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِنْهَا بَلْ هُمْ مِنْهَا عَمُونَ (66) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ (67) لَقَدْ وُعِدْنَا هَذَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (68) قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (69)] }.
کہہ دیجیے! نہیں جانتا کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں غیب کی بات سوائے اللہ کے اور نہیں شعور رکھتے وہ کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے؟
(65)بلکہ ختم ہو گیا ہے ان کا علم آخرت کے بارے میں بلکہ وہ شک میں ہیں ان سےبلکہ وہ اس سے اندھے ہیں
(66) اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، کیا جب ہو جائیں گے ہم مٹی اور ہمارے باپ دادا بھی تو کیا ہم
(پھر زمین سے) نکالے جائیں گے؟
(67) البتہ تحقیق وعدہ دیے گئے اس بات کا ہم اور باپ دادا ہمارے اس سے پہلے، نہیں ہیں یہ مگر افسانے پہلے لوگوں کے
(68) کہہ دیجیے! سیر کرو تم زمین میں ، پھر دیکھو تم کیسا ہوا انجام مجرموں کا؟
(69)
#
{65} يخبر تعالى أنه المنفردُ بعلم غيب السماواتِ والأرض؛ كقوله تعالى: {وعنده مفاتِحُ الغيبِ لا يَعْلَمُها إلاَّ هو ويَعْلَمُ ما في البرِّ والبحرِ وما تسقُطُ من ورقةٍ إلاَّ يعلمُها ولا حبَّةٍ في ظلمات الأرضِ ولا رطبٍ ولا يابس إلاَّ في كتابٍ مبين}، وكقوله: {إنَّ الله عندَه علمُ الساعةِ وينزِّلُ الغيثَ ويعلم ما في الأرحام ... } إلى آخر السورة؛ فهذه الغيوب ونحوها اختصَّ الله بعلمِها، فلم يعلَمْها مَلَكٌ مقرَّب ولا نبيٌّ مرسلٌ، وإذا كان هو المنفردُ بعلم ذلك، والمحيط علمه بالسرائر والبواطن والخفايا؛ فهو الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له.
ثم أخبر تعالى عن ضَعْفِ علم المكذِّبين بالآخرة، منتقلاً من شيء إلى ما هو أبلغ منه، فقال: {وما يشعُرونَ}؛ أي: وما يدرون {أيانَ يُبْعَثونَ}؛ أي: متى البعث والنشور والقيام من القبور؛ أي: فلذلك لم يستعدوا.
[65] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ صرف وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کے غیب کا علم رکھتا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ١ؕ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰؔتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَ٘ابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الانعام: 6؍59) ’’اور اسی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں ، اس کے سوا انھیں کوئی نہیں جانتا، جو کچھ بروبحر میں ہے وہ سب جانتا ہے،
کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی تر اور کوئی سوکھی چیز نہیں مگر ایک واضح کتاب میں درج ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ١ۚ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ١ۚ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ١ؕ وَمَا تَدْرِیْ نَ٘فْ٘سٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا١ؕ وَمَا تَدْرِیْ نَ٘فْ٘سٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ (لقمان: 31؍34) ’’قیامت کی گھڑی کا اللہ ہی کو علم ہے، وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے، کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرنے والا ہے اور کوئی متنفس یہ نہیں جانتا کہ اسے کس سرزمین میں موت آئے گی بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس قسم کے تمام غیوب کے علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص کیا ہے۔ پس کوئی مقرب فرشتہ یا نبی بھی ان کو نہیں جانتا اور چونکہ وہ اکیلا غیب کا علم رکھتا ہے، اس کا علم تمام بھیدوں ،
باطنی اور خفیہ امور کا احاطہ كيے ہوئے ہے اس لیے اس کے سوا کوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں ۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آخرت کی تکذیب کرنے والوں کے ضعف علم کے بارے میں ایک کمتر چیز سے برتر چیز کی طرف منتقل کرتے ہوئے آگاہ کیا اور فرمایا: ﴿وَمَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ یعنی وہ نہیں جانتے
﴿ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ﴾ ’’وہ کب اٹھائے جائیں گے؟‘‘ یعنی قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے کب کھڑا کیا جائے گا، یعنی پس اسی لیے انھوں نے تیاری نہیں کی۔
#
{66} {بل ادَّارَكَ علمُهم في الآخرة}؛ أي: بل ضَعُفَ وقلَّ ولم يكن يقيناً ولا علماً واصلاً إلى القلب، وهذا أقلُّ وأدنى درجة للعلم، ضعفه ووهاؤه، بل ليس عندهم علمٌ ولا ضعيفٌ، وإنما {هم في شكٍّ منها}؛ أي: من الآخرة، والشكُّ زال به العلم؛ لأنَّ العلم بجميع مراتبه لا يُجامِعُ الشكَّ. {بل هم منها}؛ أي: من الآخرة {عَمونَ}: قد عَمِيَتْ عنها بصائِرُهم، ولم يكنْ في قلوبهم من وقوعها، ولا احتمالٌ، بل أنكروها واستبعَدوها.
[66] ﴿ بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ﴾ ’’بلکہ ان کا علم آخرت کے بارے میں ختم ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی بلکہ ان کا علم کمزور ہے، ان کا علم یقینی نہیں ہے اور وہ ایسا علم نہیں جو قلب کی گہرائیوں تک پہنچ سکے۔ یہ علم کا قلیل ترین اور ادنیٰ ترین درجہ ہے۔ بلکہ ان کے پاس کوئی قوی علم ہے نہ کمزور
﴿ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّؔنْهَا﴾ ’’بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں ۔‘‘ یعنی آخرت کے بارے میں ۔ شک علم کو زائل کر دیتا ہے کیونکہ علم اپنے تمام مراتب میں کبھی شک کے ساتھ یکجا نہیں ہوتا۔
﴿ بَلْ هُمْ مِّؔنْهَا ﴾ ’’بلکہ وہ اس سے۔‘‘ یعنی آخرت کے بارے میں
﴿ عَمُوْنَ ﴾ ’’اندھے ہیں ۔‘‘ ان کی بصیرتیں ختم ہو گئیں ۔ ان کے دلوں میں آخرت کے وقوع کے بارے میں کوئی علم ہے نہ اس کا کوئی احتمال بلکہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور اس کو بہت بعید سمجھتے ہیں ۔
#
{67} ولهذا قال: {وقال الذين كفروا أإذا كُنَّا تراباً وآباؤنا أإنَّا لَمُخْرَجونَ}؛ أي: هذا بعيدٌ غير ممكن؛ قاسوا قدرة كامل القدرة بقُدَرِهِم الضعيفة.
[67] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبً٘ا وَّاٰبَآؤُنَاۤ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ ﴾ ’’اور کافروں نے کہا کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی، کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔‘‘ یعنی یہ بہت بعید اور ناممکن ہے۔ انھوں نے کامل قدرت والی ہستی کی قدرت کو اپنی کمزور قدرت پر قیاس کیا۔
#
{68} {لقد وُعِدْنا هذا}؛ أي: البعث {نحنُ وآباؤنا من قبلُ}؛ أي: فلم يجئنا ولا رأينا منه شيئاً. {إنْ هذا إلاَّ أساطيرُ الأولينَ}؛ أي: قَصصهم وأخبارهم التي تُقطع بها الأوقات، وليس لها أصل، ولا صِدْقَ فيها. فانتقل في الإخبار عن أحوال المكذِّبين بالإخبار أنَّهم لا يدرونَ متى وقتُ الآخرة، ثم الإخبار بضَعْفِ علمِهِم فيها، ثم الإخبار بأنَّه شكٌّ، ثم الإخبار بأنه عمىً، ثم الإخبار بإنكارِهم لذلك واستبعادِهم وقوعَه؛ أي: وبسبب هذه الأحوال؛ تَرَحَّلَ خوفُ الآخرة من قلوبهم، فأقدموا على معاصي الله، وسَهُلَ عليهم تكذيب الحقِّ والتصديق بالباطل، واستحلُّوا الشهواتِ على القيام بالعبادات، فخسروا دُنياهم وأخراهم.
[68] ﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا هٰؔذَا ﴾ ’’تحقیق وعدہ کیا گیا ہے ہم سے اس کا۔‘‘ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا۔
﴿ نَحْنُ وَاٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادوں سے۔‘‘ لیکن یہ وعدہ ہمارے سامنے پورا ہوا نہ ہم نے اس کی بابت کچھ دیکھا۔
﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یعنی، یہ تو محض پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وقت گزاری کی جاتی ہے۔ اس کی کوئی اصل ہے نہ ان میں کوئی سچائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آخرت کی تکذیب کرنے والوں کے احوال کے بارے میں ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کی خبر دی کہ وہ کوئی علم نہیں رکھتے کہ قیامت کب آئے گی، پھر اس بارے میں ان کے ضعف علم کی خبر دی، پھر آگاہ فرمایا کہ وہ شک میں مبتلا ہیں پھر فرمایا کہ وہ اندھے ہیں پھر خبر دی کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے بعید سمجھتے ہیں … یعنی ان احوال کے سبب سے ان کے دلوں سے آخرت کا خوف نکل گیا اس لیے انھوں نے گناہ اور معاصی کا ارتکاب کیا، ان کے لیے تکذیب حق اور تصدیق باطل آسان ہو گئی اور عبادت کے مقابلے میں انھوں نے شہوات کو حلال ٹھہرا لیا۔ پس وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑ گئے۔
#
{69} ثمَّ نبَّههم على صدق ما أخبرت به الرسل، فقال: {قل سيروا في الأرض فانْظُروا كيف كانَ عاقبةُ المجرمينَ}؛ فلا تجدون مجرماً قد استمرَّ على إجرامه إلاَّ وعاقبتُه شرُّ عاقبة، وقد أحلَّ الله به من الشرِّ والعقوبة ما يَليق بحاله.
[69] اللہ تعالیٰ نے ان امور کی صداقت، جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے خبر دی ہے،
آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْ٘ظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! زمین میں چل پھر کر دیکھو، مجرمین کا انجام کیسا ہوا؟‘‘ پس آپ کوئی ایسا مجرم نہیں پائیں گے جو اپنے جرائم پر ڈٹا رہا ہو اور اس کا بدترین انجام نہ ہوا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اسے ایسی سزا دیتا ہے جو اس کے احوال کے لائق ہوتی ہے۔
{وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (70) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (71) قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ (72)}
اور نہ غم کریں آپ ان پراورنہ ہوں آپ تنگی میں ان سے جو وہ
(آپ کے خلاف) مکر کرتے ہیں
(70) اور وہ کہتے ہیں ، کب
(پورا) ہو گا یہ وعدہ اگر ہو تم سچے؟
(71) کہہ دیجیے! امید ہے کہ قریب آ لگا ہو تمھارے، بعض وہ
(عذاب) جسے تم جلدی طلب کر رہے ہو
(72)
#
{70} أي: لا تحزنْ يا محمدُ على هؤلاء المكذِّبين وعدم إيمانهم؛ فإنَّك لو علمتَ ما فيهم من الشرِّ وأنَّهم لا يَصْلُحون للخير؛ لم تأسَ ولم تحزنْ، ولا يضيق صدرك ولا تقلق نفسك بمكرِهِم؛ فإنَّ مكرَهم سيعود عاقبته عليهم، {ويمكُرون ويَمْكُرُ اللهُ والله خيرُ الماكرينَ}.
[70] یعنی اے محمد!
(e)آپ ان جھٹلانے والوں اور ان کے عدم ایمان کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں ۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان میں کتنی برائی ہے اور وہ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے تو آپ کبھی غمگین ہوں گے نہ آپ تنگدل ہوں گے اور نہ آپ کا دل ان کے مکروفریب پر کوئی قلق محسوس کرے گا۔ ان کے مکروفریب کا برا انجام آخر کار انھی کی طرف لوٹے گا۔
﴿ وَیَمْؔكُرُوْنَ وَیَمْؔكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَاللّٰهُ خَیْرُ الْمٰؔكِرِیْنَ ﴾ (الانفال:8؍30)’’وہ چال چلتے ہیں ، اللہ بھی ان کے مقابلے میں چال چلتا ہے اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
#
{71} ويقولُ المكذِّبون بالمَعاد وبالحقِّ الذي جاء به الرسولُ مستعجلينَ للعذاب: {متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}: وهذا من سفاهة رأيِهِم وجهلِهِم؛ فإنَّ وقوعَه ووقتَه قد أجَّله الله بأجَلِهِ وقَدَّرَه بقدرٍ؛ فلا يدلُّ عدم استعجاله على بعض مطلوبهم، ولكن مع هذا قال تعالى محذِّراً لهم وقوعَ ما يستعجِلون:
[71] آخرت اور اس حق کو جھٹلانے والے جسے لے کر رسول مصطفیٰ e مبعوث ہوئے ہیں ،
عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟‘‘ یہ ان کی جہالت اور حماقت پر مبنی رائے ہے کیونکہ اس وعدے کا وقوع اور اس کا وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے مطابق مقرر کر رکھا ہے۔ اس کا جلدی نہ آنا ان کے کسی مطلوب و مقصود پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جس بارے میں وہ جلدی مچاتے ہیں اس کے بارے میں ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
#
{72} {قل عسى أن يكونَ رَدِفَ لكم}؛ أي: قرب منكم وأوشك أن يقعَ بكم {بعضُ الذي تستعجِلونَ}: من العذاب.
[72] ﴿ قُ٘لْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ ﴾ یعنی ہو سکتا ہے وہ وقت مقرر قریب آ گیا ہو اور ہو سکتا ہے وہ تم پر واقع ہونے کے قریب ہو۔
﴿ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ۠ ﴾ یعنی وہ عذاب جس کے لیے تم جلدی مچاتے ہو۔
{وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ (73) وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ (74) وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (75)}
اور بلاشبہ آپ کا رب البتہ فضل والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر ان کے نہیں شکر کرتے
(73) اور بلاشبہ آپ کا رب البتہ جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں ان کے سینے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں
(74) اور نہیں کوئی پوشیدہ چیز آسمان او رزمین میں مگر وہ ہے کتاب واضح میں
(75)
#
{73} ينبِّه عباده على سَعَةِ جوده وكَثْرَةِ أفضاله، ويحثُّهم على شكرِها، ومع هذا؛ فأكثر الناس قد أعرضوا عن الشكر، واشتغلوا بالنعم عن المنعم.
[73] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی وسعت جود وسخا اور کثرت فضل و کرم کے بارے میں اپنے بندوں کو آگاہ کرتا ہے اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ بایں ہمہ اکثر لوگ شکر ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور نعمتوں میں مشغول ہو کر نعمتیں عطا کرنے والے کو فراموش کر دیتے ہیں ۔
#
{74} {وإنَّ ربَّك لَيعلمُ ما تُكِنُّ}؛ أي: تنطوي عليه {صدورُهم وما يُعْلِنون}: فليحذروا من عالم السَّرائر والظَّواهر وليراقبوه.
[74] ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَیَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ﴾ ’’اور بلاشبہ جو باتیں ان کے سینے چھپاتے ہیں ، تمھارا رب ان کو جانتا ہے۔‘‘ یعنی جو ان کے سینوں میں جمع ہے
﴿ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ﴾ ’’اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں ۔‘‘ اس لیے انھیں اس ہستی سے ڈرنا چاہیے جو ظاہر و باطن کا علم رکھتی ہے اور اس سے خوف کھانا چاہیے۔
#
{75} {وما من غائبةٍ في السماء والأرض}؛ أي: خفيَّةٍ وسرٍّ من أسرار العالم العلويِّ والسفليِّ {إلاَّ في كتابٍ مبينٍ}: قد أحاط ذلك الكتابُ بجميع ما كان ويكون إلى أن تقومَ الساعةُ؛ فكل حادث يحدث جليٍّ أو خفيٍّ؛ إلاَّ وهو مطابقٌ لما كتب في اللوح المحفوظ.
[75] ﴿وَمَا مِنْ غَآىِٕبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی آسمان و زمین کی کوئی چھپی ہوئی چیز اور عالم علوی اور عالم سفلی کا کوئی بھید ایسا نہیں جو
﴿ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’واضح کتاب میں نہ ہو۔‘‘ اس کتاب نے ان تمام امور و حوادث کا احاطہ کر رکھا ہے جو اب تک وقوع میں آ چکے ہیں اور جو قیامت تک واقع ہوں گے۔ پس جو بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ وقوع میں آتا ہے وہ اس کے مطابق ہوتا ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے۔
{إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (76) وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (77)}
بلاشبہ یہ قرآن بیان کرتا ہے بنی اسرائیل پر اکثر وہ باتیں کہ وہ جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں
(76) اور بلاشبہ وہ
(قرآن) البتہ ہدایت اور رحمت ہے مومنوں کے لیے
(77)
#
{76} وهذا خبر عن هيمنةِ القرآن على الكتبِ السابقةِ وتفصيله وتوضيحه لما كان فيها قد وقع فيه اشتباهٌ واختلافٌ عند بني إسرائيل، فقصَّه هذا القرآن قصًّا زال به الإشكال، وبيَّن الصوابَ من المسائل المختلَف فيها.
[76] یہ آیت کریمہ اس بارے میں خبر دیتی ہے کہ قرآن کتب سابقہ کی تصدیق و توضیح اور ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ چونکہ کتب سابقہ کے بارے میں بنی اسرائیل میں اشتباہ و اختلاف واقع ہوا ہے اس لیے قرآن کریم نے ایسی توضیحات بیان کی ہیں جن سے اشکال دور ہو جاتا ہے اور مختلف فیہ مسائل میں راہ صواب واضح ہو جاتی ہے۔
#
{77} وإذا كان بهذه المثابة من الجلالة والوضوح وإزالةِ كلِّ خلافٍ وفَصْل كلِّ مشكل؛ كان أعظم نعم الله على العباد، ولكن ما كل أحدٍ يقابِلُ النعمةَ بالشُّكر، ولهذا بيَّن أن نفعه ونورَه وهُداه مختصٌ بالمؤمنين، فقال: {وإنَّه لهدى}: من الضلالة والغيِّ والشبه، {ورحمةٌ}: تنثلج له صدورُهم وتستقيمُ به أمورهم الدينيَّة والدنيويَّة، {للمؤمنين}: به المصدِّقين له المتلقِّين له بالقبول المقبِلين على تدبُّره المتفكِّرين في معانيه؛ فهؤلاء تحصُلُ لهم به الهدايةُ إلى الصراط المستقيم والرحمة المتضمِّنة للسعادةِ والفوزِ والفلاح.
[77] اور جب اس میں جلالت و وضاحت، ہر اختلاف کا ازالہ اور ہر اشکال کی تفصیل جمع ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے مگر سب بندے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے، اس لیے واضح فرما دیا کہ قرآن کا فائدہ،
اس کی روشنی اور راہنمائی صرف اہل ایمان کے لیے مختص ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِنَّهٗ لَهُدًى ﴾ ’’اور بے شک یہ ہدایت ہے۔‘‘ یعنی ضلالت، شبہات اور گمراہی کے جھاڑ جھنکار کے درمیان راہ ہدایت ہے
﴿وَّرَحْمَةٌ﴾ ’’اور رحمت ہے۔‘‘ اس سے ان کے سینے ٹھنڈے اور ان کے تمام دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں
﴿ لِّلْ٘مُؤْمِنِیْنَ ﴾ یہ ان لوگوں کے لیے رحمت ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس کو قبول کرتے ہیں ، اس میں تدبر اور اس کے معانی میں غور وفکر کرتے ہیں ۔ پس انھی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی اور رحمت سے سرفراز کیا جائے گا جو سعادت اور فوز وفلاح کو متضمن ہے۔
{إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (78)}
بے شک آپ کا رب فیصلہ کرے گا ان کے درمیان اپنے حکم سے اور وہی ہے نہایت غالب، خوب جاننے والا
(78)
#
{78} أي: إنَّ الله تعالى سيفصِلُ بين المختصمين وسيحكُم بين المختلفين بحكمِهِ العدل وقضائِهِ القسط؛ فالأمور؛ وإنْ حَصَلَ فيها اشتباهٌ في الدُّنيا بين المختلفين لخفاء الدليل أو لبعض المقاصد؛ فإنَّه سيبين فيها الحقُّ المطابقُ للواقع حين يحكُمُ الله فيها. {وهو العزيزُ}: الذي قهر الخلائق فأذعنوا له. {العليم}: بجميع الأشياء، العليم بأقوال المختلفين، وعن ماذا صدرت، وعن غاياتها ومقاصدها، وسيجازي كلًّا بما علمه فيه.
[78] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ان اختلاف کرنے اور جھگڑنے والوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ اگرچہ دنیا میں معاملات کے بارے میں دلیل کے مخفی رہ جانے اور بعض دیگر مقاصد کی بنا پر اختلاف کرنے والوں کے درمیان اشتباہ واقع ہو جاتا ہے مگر جب ان معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا تو حق واقع کے مطابق واضح اور روشن ہو کر سامنے آجائے گا
﴿ وَ هَوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ وہ تمام خلائق پر غالب ہے پس اس کے سامنے سراطاعت خم کر دو
﴿ الْعَلِیْمُ﴾ وہ تمام اشیاء کا علم رکھتا ہے
﴿ الْعَلِیْمُ ﴾ وہ اختلاف کرنے والوں کے اقوال سے آگاہ ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ اقوال کس لیے صادر ہوئے ہیں ، ان کے مقاصد اور ان کی غرض و غایت کیا ہے، ان اختلاف کرنے والوں کو وہ اپنے علم کے مطابق جزا دے گا۔
{فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ (79) إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (80) وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ (81)}.
پس آپ توکل کریں اللہ پر، بلاشبہ آپ ہیں اوپر حق صریح کے
(79) یقینا آپ نہیں سنا سکتے مردوں کواور نہیں سنا سکتے آپ بہروں کو
(اپنی)پکار جب وہ ، پھر جائیں پیٹھ پھیر کر
(80) اور نہیں آپ راہ پر لانے والے اندھوں کو ان کی گمراہی سے ، نہیں سنا سکتے آپ مگر اسی شخص کو جو ایمان لاتا ہے ساتھ ہماری آیتوں کے، پس وہی ہیں فرماں بردار
(81)
#
{79} أي: اعتمدْ على ربِّك في جلب المصالح ودفع المضارِّ وفي تبليغ الرسالة وإقامة الدين وجهاد الأعداء. {إنَّك على الحقِّ المُبين}: الواضح، والذي على الحقِّ يدعو إليه ويقوم بنصرته أحقُّ من غيرِهِ بالتوكُّل؛ فإنَّه يسعى في أمر مجزوم به، معلوم صدقه، لا شكَّ فيه ولامِرْيَةَ، وأيضاً؛ فهو حقٌّ في غاية البيان، لا خفاء به ولا اشتباه.
[79] یعنی جلب منفعت، دفع ضرر، تبلیغ رسالت، اقامت دین اور دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرنے میں آپ اپنے رب پر بھروسہ کیجیے!
﴿ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ ﴾ ’’بے شک آپ واضح حق پر ہیں ۔‘‘ وہ شخص جو حق پر ہو، حق کی طرف دعوت دیتا ہو اور اس کی مدد کرتا ہو، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے میں کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے معاملے کے لیے کوشاں ہے جس کی صداقت قطعی ہے اور جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ، نیز یہ انتہائی واضح طور پر حق ہے یہ کوئی چھپی ہوئی چیز ہے نہ اس میں کوئی اشتباہ ہے۔
#
{80} وإذا قمتَ بما حملت وتوكلَّت على الله في ذلك؛ فلا يضرُّك ضلالُ مَن ضلَّ وليس عليك هداهم؛ فلهذا قال: {إنَّك لا تُسْمِعُ الموتى ولا تُسْمِعُ الصمَّ الدُّعاء}؛ أي: حين تدعوهم وتناديهم، وخصوصاً: {إذا وَلَّوْا مُدْبِرينَ}: فإنه يكون أبلغَ في عدم إسماعهم.
[80] جب آپ حق کی خاطر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں تو کسی کا گمراہ ہونا آپ کو کوئی نقصان نہیں دے سکتا اور ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے،
اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّكَ لَا تُ٘سْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُ٘سْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ ﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ آپ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ بہروں کو۔‘‘ یعنی جب آپ ان کو پکارتے اور ندا دیتے ہیں اور خاص طور پر
﴿ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ﴾ ’’اس وقت جبکہ وہ منہ پھیر کر جا رہے ہوں ‘‘ تب یہ عدم سماع کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں ۔
#
{81} {وما أنت بهادي العُمْي عن ضلالتهم}: كما قال تعالى: {إنَّك لا تَهْدي مَنْ أحببتَ ولكنَّ الله يَهْدي مَن يشاءُ}. {إن تُسْمِعُ إلاَّ مَن يؤمنُ بآياتنا فهم مسلمونَ}؛ أي: هؤلاء الذين ينقادون لك، الذين يؤمنون بآيات الله وينقادون لها بأعمالهم واستسلامهم؛ كما قال تعالى: {إنَّما يستجيبُ الذين يسمعونَ. والموتى يبعثُهُم اللهُ ثم إليه يُرْجَعون}.
[81] ﴿ وَمَاۤ اَنْتَ بِهٰؔدِی الْ٘عُمْیِ عَنْ ضَلٰ٘لَتِهِمْ﴾ ’’اور نہ آپ اندھوں کو گمراہی سے
(نکال کر) راستہ دکھا سکتے ہیں ۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (القصص:28؍56) ’’آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘
﴿ اِنْ تُ٘سْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ﴾ ’’آپ تو ان ہی کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ مطیع ہوجاتے ہیں ۔‘‘ یہی لوگ جو آپ کے سامنے سر اطاعت خم کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں اپنے اعمال اور اپنی اطاعت کے ذریعے سے ان آیات کی اتباع کرتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿ اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَالْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ﴾ (الانعام:6؍36) ’’حق کو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز زندہ کرے گا پھر وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘
{وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (82)}
اورجب واقع
(ہونے کو) ہو گا قول ان پر تو نکالیں گے ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے، وہ کلام کرے گا ان سے کہ بے شک لوگ تھے ہماری آیتوں پر نہیں یقین رکھتے
(82)
#
{82} أي: إذا وقع على الناس {القولُ} الذي حَتَّمهُ الله وفرضَ وقته؛ {أخرجنا لهم دابَّةً} خارجةً {من الأرض}، أو دابةً من دوابِّ الأرض، ليست من السماء، وهذه الدابَّة {تكلِّمهم}؛ أي: تكلِّم العباد {أنَّ الناس كانوا بآياتنا لا يوقنون}؛ أي: لأجل أنَّ الناس ضَعُفَ علمهم ويقينهم بآيات الله؛ فإظهار الله هذه الدابة من آياتِ الله العجيبة؛ ليبيِّن للناس ما كانوا فيه يمترون. وهذه الدابَّة المشهورة التي تخرج في آخر الزمان، وتكون من أشراط الساعة؛ كما تكاثرت بذلك الأحاديث ، [لم يذكر الله ورسوله كيفيَّة هذه الدابة، وإنَّما ذكر أثرها والمقصود منها، وأنَّها من آيات الله؛ تكلِّم الناسَ كلاماً خارقاً للعادة حين يقعُ القول على الناس
وحين يمترونَ بآياتِ الله، فتكون حجَّة وبرهاناً للمؤمنين، وحجَّة على المعاندين].
[82] یعنی جب لوگوں پر وہ بات پوری ہونے کا وقت آ پہنچے گا جسے اللہ تعالیٰ نے حتمی قرار دیا ہے اور اس کا وقت مقرر کر دیا ہے
﴿ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ ﴾ ’’تو ہم ان کے لیے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے‘‘ یا زمین کے جانوروں میں سے ایک جانور، جو آسمان کے جانوروں میں سے نہیں ہو گا۔
﴿تُكَلِّمُهُمْ ﴾ یہ جانور بندوں کے ساتھ کلام کرے گا کہ بے شک لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے، یعنی اس وجہ سے کہ لوگوں کا علم اور آیات الٰہی پر ان کا یقین کمزور ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ اس جانور کو ظاہر فرمائے گا جو کہ اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز نشانیوں میں سے ہے تاکہ اس چیز کو وہ لوگوں پر کھول کھول کر بیان کر دے جس میں وہ شک کیا کرتے تھے۔ یہ جانور وہ مشہور جانور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہو گا اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں ،
(اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ e نے اس جانور کی کیفیت اور اس کی نوع ذکر نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ تو دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لیے ظاہر کرے گا اور وہ خارق عادت کے طور پر لوگوں سے کلام کرے گا اور یہ ان سچے دلائل میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے۔ واللہ اعلم) (بریکٹوں کے درمیان والی عبارت نسخہ الف کے حاشیے میں شیخ (مؤلف تفسیر) کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے)
(از محقق)
{وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ (83) حَتَّى إِذَا جَاءُوا قَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِآيَاتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (84) وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ (85)}.
اور جس دن اکٹھا کریں گے ہم ہر امت میں سے ایک گروہ ان لوگوں میں سے جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو پس وہ روکے جائیں گے
(83) یہاں تک کہ جب وہ آجائیں گے
(محشر میں ) تو کہے گا
(اللہ)، کیا جھٹلایا تھا تم نے میری آیتوں کو جبکہ نہیں احاطہ کیا تھا تم نے ان کا علم سے یا کیا تھے تم عمل کرتے رہے؟
(84) اور واقع ہو جائے گا قول
(عذاب) ان پر بوجہ اس کے جو ظلم کیا انھوں نے پس وہ نہیں بول سکیں گے
(85)
#
{83} يخبر تعالى عن حالة المكذِّبين في موقف القيامة، وأنَّ الله يجمَعُهم ويحشُرُ من كلِّ أمةٍ من الأمم فوجاً وطائفةً، {مِمَّن يكذِّبُ بآياتِنا فهم يُوزَعون}: يُجْمَعُ أوَّلُهم على آخرهم، وآخرهم على أولهم؛ ليعمَّهم السؤال والتوبيخ واللوم.
[83] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز جھٹلانے والوں کی حالت بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر امت میں سے ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا۔
﴿ مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ ﴾ ’’جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے پس ان کو گروہ بندی کے ساتھ ترتیب وار کھڑا کیا جائے گا۔‘‘ ان کے اول و آخر سب کو جمع کیا جائے گا سب سے پوچھا جائے گا اور سب کو زجروتوبیخ اور ملامت کی جائے گی۔
#
{84} {حتى إذا جاؤوا}: وحضروا؛ قال لهم موبِّخاً ومقرِّعاً: {أكذَّبْتُم بآياتي ولم تحيطوا بها علماً}؛ أي: الواجب عليكم التوقف حتى ينكشف لكم الحقُّ، وأن لا تتكلَّموا إلا بعلم؛ فكيف كذبتم بأمر لم تحيطوا به علماً. {أم ماذا كنتم تعملونَ}؛ أي: يسألهم عن علمهم وعن عملهم، فيجد علمهم تكذيباً بالحق وعَمَلَهم لغير الله، أو على غير سنة رسولهم.
[84] ﴿ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ ﴾ اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو زجروتوبیخ کرتے اور ڈانٹتے ہوئے پوچھے گا
﴿ اَ كَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا ﴾ ’’کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا حالانکہ تمھارے علم نے ان کا احاطہ نہیں کیا تھا۔‘‘ تم پر اس وقت تک توقف کرنا فرض تھا جب تک کہ حق منکشف نہ ہو جاتا اور صرف کسی علم کی بنیاد پر کلام کرتے۔ تم نے ایک ایسے امر کی کیونکر تکذیب کر دی جبکہ تمھیں اس کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں
﴿ اَمَّاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور یہ بھی بتلاؤ کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان سے ان کے علم اور ان کے عمل کے بارے میں سوال کرے گا تو وہ ان کے علم کو حق کی تکذیب کرنے والا اور ان کے عمل کو غیر اللہ کے لیے یا ان کے رسول
(e) کی سنت کے خلاف پائے گا۔
#
{85} {ووقع القول عليهم بما ظلموا}؛ أي: حقت عليهم كلمة العذاب بسبب ظلمهم الذي استمرُّوا عليه وتوجهت عليهم الحجة، {فهم لا ينطِقونَ}: لأنه لا حجة لهم.
[85] ﴿ وَوَقَ٘عَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا﴾ اور جب، ان کے اس ظلم کی پاداش میں جس پر وہ اڑے ہوئے تھے، ان کے لیے عذاب کا حکم متحقق ہوجائے گا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجائے گی۔
﴿ فَهُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ ﴾ ’’تو وہ بول نہیں سکیں گے۔‘‘ کیونکہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
{أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (86)}.
کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ بے شک بنایا ہم نے رات کو تاکہ وہ آرام کریں اس میں اور
(بنایا) دن کودکھلانے والا
(روشن)؟ بلاشبہ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
(86)
#
{86} أي: ألم يشاهِدوا هذه الآية العظيمة والنعمةَ الجسيمةَ، وهو تسخيرُ الله لهم الليل والنهار، هذا بظلمتِهِ لِيَسْكُنوا فيه ويستريحوا من التعب ويستعدُّوا للعمل، وهذا بضيائه لينتَشِروا فيه في معاشهم وتصرُّفاتهم. {إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يؤمنونَ}: على كمالِ وحدانيَّة الله وسبوغ نعمتِهِ.
[86] یعنی کیا انھوں نے اس عظیم نشانی اور بہت بڑی نعمت کا مشاہدہ نہیں کیا؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے شب و روز کو مسخر کر دیا۔ یہ رات اپنے اندھیرے کی وجہ سے نعمت ہے لوگ اس میں سکون پاتے اور تھکن سے آرام کرتے ہیں اور کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور دن اپنی روشنی کی وجہ سے نعمت ہے تاکہ لوگ اس روشنی میں پھیل جائیں اور اپنی معاش اور دیگر مصروفیات میں مشغول ہو جائیں ۔
﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ اللہ تعالیٰ کی کامل وحدانیت اور اس کی بے پایاں نعمت پر۔
{وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ (87) وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (88) مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ (89) وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (90)}.
اور جس دن پھونکا جائے گا صور میں تو گھبرا جائے گا جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں سوائے اس کے جسے چاہے اللہ اور سب
(لوگ) آئیں گے اللہ کے پاس ذلیل ہو کر
(87) اور آپ دیکھیں گے پہاڑوں کو تو گمان کریں گے آپ ان کو جمے ہوئے جبکہ وہ چل رہے ہوں گے مانند چلنے بادلوں کے
(یہ) کاری گری ہے اللہ کی جس نے پختہ کیا ہرچیز کو، بلاشبہ وہ خوب خبردار ہے ساتھ اس کے جو تم کرتے ہو
(88) جو شخص لائے گا نیکی تو اس کے لیے بہت بہتر
(بدلہ) ہو گا اس سےاور اور وہ لوگ گھبراہٹ سے ا س دن بے خوف ہوں گے
(89) اور جو شخص لائے گا برائی تو اوندھے کر دے جائیں گے ان کے منہ آگ میں
(اورکہا جائے گا) نہیں سزا دیے جاؤ گے تم مگر
(اس کی) جو کچھ تھے تم عمل کرتے
(90)
#
{87} يخوِّفُ تعالى عبادَه ما أمامهم من يوم القيامة وما فيه من المحنِ والكروبِ ومزعجات القلوب، فقال: {ويوم يُنفَخُ في الصور فَفَزِغَ}: بسبب النفخ فيه {مَن في السمواتِ ومن في الأرض}؛ أي: انزعجوا وارتاعوا وماج بعضُهم ببعضٍ خوفاً مما هو مقدِّمة له {إلاَّ مَن شاء الله}: ممَّن أكرمه الله وثبَّته وحَفِظَه من الفزع. {وكلٌّ} من الخلق عند النفخ في الصور {أتَوْه داخِرينَ}: صاغِرين ذليلينَ؛ كما قال تعالى: {إن كلُّ مَن في السمواتِ والأرضِ إلاَّ آتي الرحمن عبداً}. ففي ذلك اليوم يتساوى الرؤساءُ والمرؤوسون في الذُّلِّ والخضوع لمالك الملك.
[87] اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو قیامت کے دن سے، جو انھیں پیش آنے والا ہے، ڈراتا ہے یعنی اس دن انھیں جن سخت مصائب، مشقتوں اور دل کو دہلا دینے والے واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا ان سے ڈرتا ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَیَوْمَ یُنْفَ٘خُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ ﴾ ’’اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو گھبرا اٹھیں گے۔‘‘ صور پھونکے جانے کی وجہ سے۔
﴿ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوف سے کانپ اٹھے گی اور وہ خوف کی وجہ سے جو انھیں پیش آنے والا ہے سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے سے تلاطم خیز ہوں گے
﴿ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ﴾ سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ اکرام و تکریم بخش کر ثابت قدمی عطا کرے گا وہ اس گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔
﴿ وَكُ٘لٌّ ﴾ یعنی صور پھونکے جانے کے وقت تمام مخلوق
﴿ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ﴾ ذلیل اور مطیع ہو کر بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنْ كُ٘لُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا﴾ (مریم:19؍93) ’’زمین اور آسمان کے اندر جو بھی مخلوق ہے وہ سب رحمن کے حضور بندوں کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔‘‘ اور اس روز مالک الملک کے حضور تذلل اور عاجزی میں رؤساء اور عوام سب برابر ہوں گے۔
#
{88} ومن هَوْلِهِ أنَّك {ترى الجبال تَحْسَبُها جامدةً}: لا تفقد شيئاً منها ، وتظنُّها باقية على الحال المعهودة، وهي قد بلغت منها الشدائدُ والأهوالُ كلَّ مبلغ، وقد تفتَّت، ثم تضمحلُّ وتكون هباءً منبثًّا، ولهذا قال: {وهي تَمُرُّ مَرَّ السحاب}: من خفَّتها وشدَّة ذلك الخوف، وذلك {صُنْعَ اللهِ الذي أتقنَ كلَّ شيءٍ إنه خبيرٌ بما [تفعلونَ] }: فيجازيكم بأعمالكم.
[88] قیامت کے روز کی ہولناکی کی وجہ سے
﴿تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً ﴾ ’’آپ پہاڑوں کو دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ وہ جامد ہیں ۔‘‘ یعنی آپ ان میں سے کوئی چیز مفقود نہ پائیں گے اور آپ سمجھیں گے کہ یہ تمام پہاڑ اپنے اپنے احوال میں باقی ہیں حالانکہ یہ شدت اور ہولناکی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں گے اور ٹوٹ پھوٹ کر اور غبار بن کر اڑ جائیں گے اس لیے فرمایا:
﴿ وَّهِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ﴾ ’’اور وہ بادلوں کی چال چل رہے ہوں گے۔‘‘ اپنی خفت اور شدت خوف کے باعث۔
﴿ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَ٘تْ٘قَ٘نَ كُ٘لَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ ’’یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا، بے شک وہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ پس وہ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{89} ثم بيَّن كيفيَّة جزائِهِ، فقال: {من جاء بالحسنةِ}: اسم جنس، يشملُ كلَّ حسنةٍ قوليةٍ أو فعليةٍ أو قلبيةٍ، [فله عشر أمثالها]: هذا أقلُّ التفضيل. {وهم من فزع يومئذٍ آمنونَ}؛ أي: من الأمر الذي فَزِعَ الخلقُ لأجله آمنون، وإنْ كانوا يفزعون معهم.
[89] پھر اللہ تعالیٰ نے اس جزا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ ﴾ ’’جو شخص نیکی لے کر آئے گا۔‘‘ یہ اسم جنس ہے جو تمام قسم کی قولی، فعلی اور قلبی نیکیوں کو شامل ہے
﴿ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّؔنْهَا﴾ ’’تو اس کے لیے اس سے بہتر ہے۔‘‘ یہ کمترین تفصیل ہے۔(مصنف a نے اس مقام پر سبقت قلم سے سورۃ الانعام کی آیت
﴿ فَلَهٗ عَشْ٘رُ اَمْثَالِهَا﴾ کی تفسیر کردی ہے)
﴿ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ ﴾ یعنی وہ ان تمام امور سے مامون اور مصؤن ہوں گے جن سے مخلوق گھبراہٹ اور خوف میں مبتلا ہو گی اگرچہ وہ بھی ان کے ساتھ گھبرا رہے ہوں گے۔
#
{90} {ومن جاء بالسيِّئةِ}: اسم جنس يشمل كلَّ سيئةٍ، {فكُبَّتْ وجوهُهُم في النارِ}؛ أي: أُلقوا في النار على وجوههم، ويُقالُ لهم: {هل تُجْزَوْنَ إلاَّ ما كُنتُم تَعْمَلونَ}.
[90] ﴿ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ ﴾ ’’اور جو برائی لے کر آئے گا۔‘‘ یہ اسم جنس ہے جو ہر قسم کی برائی کو شامل ہے
﴿ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ﴾ یعنی انھیں چہروں کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا
﴿ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تم کو تو ان ہی اعمال کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘
{إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (91) وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ (92) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (93)}. .
یقینا حکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ عبادت کروں میں رب کی اس شہر
(مکہ) کے وہ جس نے حرمت دی اس کو اور اسی کے لیے ہے ہر چیزاورحکم دیا گیا ہوں میں یہ کہ ہوں میں مسلمانوں میں سے
(91) اوریہ کہ تلاوت کروں میں قرآن کی، پس جس نے ہدایت پائی تو یقینا وہ ہدایت پائے گا اپنی ہی ذات کے لیےاور جو شخص گمراہ ہوا تو آپ کہہ دیجیے! یقینا میں تو ہوں ڈرانے والوں میں سے
(92) اور کہہ دیجیے! تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ دکھائے گا تمھیں اپنی نشانیاں سو پہچان لو گے تم ان کو اور نہیں ہے آپ کا رب غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو
(93)
#
{91} أي: قل لهم يا محمدُ: {إنَّما أمرتُ أن أعْبُدَ ربَّ هذه البلدةِ}؛ أي: مكةَ المكرمةَ {الذي حرَّمها} وأنعم على أهلِها؛ فيجبُ أن يقابِلوا ذلك بالشكر والقبول، {وله كلُّ شيءٍ}: من العلويَّات والسفليَّات؛ أتى به لئلاَّ يُتَوَهَّم اختصاصُ ربوبيَّتِهِ بالبيت وحدَه. وأمِرْتُ لأن {أكونَ من المسلمينَ} ؛ أي: أبادر إلى الإسلام. وقد فعل - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّه أول هذه الأمة إسلاماً، وأعظمها استسلاماً.
[91] اے محمد
(e) ان سے کہہ دیجیے:
﴿ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰؔذِهِ الْبَلْدَةِ ﴾ ’’مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں ۔‘‘ یعنی مکہ مکرمہ
﴿ الَّذِیْ حَرَّمَهَا ﴾ ’’جس نے اس کو محترم بنایا۔‘‘ اور اس کے رہنے والوں کو نعمتوں سے بہرہ ور کیا۔ پس اس لیے ان پر واجب ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔
﴿ وَلَهٗ كُ٘لُّ شَیْءٍ﴾ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام اشیاء کا وہی مالک ہے اور یہ فقرہ اس وہم کے ازالے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت صرف بیت حرام سے مختص ہے
﴿ وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ﴾(یہاں مصنف نے سبقت قلم سے
﴿ وَّاُمِرْتُ لِاَنْ اَ كُوْنَ اَوَّلَ الْ٘مُسْلِمِیْنَ﴾ لکھ دیا ہے اور اسی کے مطابق تفسیر کی ہے) یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں جلدی سے اسلام کی طرف بڑھوں اور رسول اللہ e نے اس کی تعمیل کی کیونکہ وہ اولین مسلمان اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے۔
#
{92} {و} أُمِرْتُ أيضاً {أنْ أتْلُوَ} عليكم {القرآنَ}: لِتَهْتَدوا به وتَقْتَدوا وتعلموا ألفاظَه ومعانِيَه؛ فهذا الذي عليَّ، وقد أدَّيته، {فَمَنِ اهْتَدى فإنَّما يهتدي لنفسِهِ}: نفعُهُ يعود عليه، وثمرتُهُ عائدةٌ إليه، {ومَن ضلَّ فقُل إنَّما أنا من المنذِرينَ}: وليس بيدي من الهداية شيءٌ.
[92] ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ اسی طرح مجھے یہ حکم بھی دیا گیا ہے
﴿ اَنْ اَتْلُوَا الْ٘قُ٘رْاٰنَ﴾ ’’کہ میں تمھارے سامنے قرآن کی تلاوت کروں ‘‘ تاکہ تم اس کے ذریعے سے راہ نمائی حاصل کرو اور اس کے الفاظ اور معانی کو سیکھو۔ یہی میری ذمہ داری ہے جو میں نے پوری کر دی ہے۔
﴿ فَ٘مَنِ اهْتَدٰؔى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ﴾ ’’پس جو شخص راہ راست اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے اختیار کرتا ہے۔‘‘ یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہو گا اور وہی اس کا پھل پائے گا۔
﴿ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ﴾ ’’اور جو گمراہ رہتا ہے تو کہہ دو کہ میں تو صرف متنبہ کرنے والا ہوں ۔‘‘ اور ہدایت میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔
#
{93} {وقل الحمدُ لله}: الذي له الحمد في الأولى والآخرة، ومن جميع الخلق، خصوصاً أهل الاختصاص والصفوةِ من عباده؛ فإنَّ الذي وقع والذي ينبغي أن يَقَعَ منهم من الحمدِ والثناءِ على ربِّهم أعظمُ مما يقعُ من غيرهم؛ لرفعةِ درجاتهم وكمال قُربهم منه وكثرةِ خيراتِهِ عليهم، {سيريكم آياتِهِ فتعرِفونها}: معرفةً تدلُّكم على الحق والباطل؛ فلا بدَّ أن يريكم من آياته ما تستنيرون به في الظلمات؛ ليهلك من هَلَك عن بيِّنة ويحيا مَنْ حَيَّ عن بيِّنة. {وما ربُّك بغافل عما تعملون}: بل قد علم ما أنتم عليه من الأعمال والأحوال، وعلم مقدارَ جزاء تلك الأعمال، وسيحكم بينكم حكماً تحمَدونه عليه، ولا يكون لكم حجَّةٌ بوجه من الوجوهِ عليه.
[93] ﴿ وَقُ٘لِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ﴾ یعنی دنیا وآخرت میں ، تمام خلائق، خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے خاص اور چنے ہوئے بندوں کی طرف سے ہر قسم کی حمد وثنا صرف اسی کے لیے ہے۔ کیونکہ ان کی طرف سے اپنے رب کے لیے ہونے والی حمد و ثنا دوسرے لوگوں کی طرف سے ہونے والی حمد و ثنا کی بنسبت زیادہ عظمت کے لائق ہے کیونکہ ان کے درجات بلند، ان کا اللہ تعالیٰ سے قرب کامل نیز ان پر اس کے احسانات زیادہ ہیں ۔
﴿ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا﴾ ’’وہ عنقریب تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا جنھیں تم پہچان لو گے۔‘‘ ان آیات الٰہی کی تمھیں ایسی معرفت حاصل ہو گی جو حق اور باطل کے بارے میں راہنمائی کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ضرور تمھیں اپنی نشانیاں دکھائے گا جن کے ذریعے سے تم اندھیروں میں اپنی راہوں کو روشن کرو گے۔
﴿ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔‘‘
﴿ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور تمھارا رب تمھارے عملوں سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘ بلکہ وہ تمھارے اعمال و احوال کو خوب جانتا ہے اور اسے ان اعمال کی جزا کی مقدار کا بھی علم ہے وہ تمھارے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا کہ تم اس فیصلے پر اس کی حمدوثنا بیان کرو گے اور یہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے تمھارے لیے اس کے خلاف حجت نہ ہو گا۔