آیت:
تفسیر سورۂ فرقان
تفسیر سورۂ فرقان
آیت: 1 - 2 #
{تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (1) الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (2)}.
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے نازل کیا فرقان اوپر اپنے بندے کےتاکہ ہو وہ جہان (والوں ) کے لیے ڈرانے والا (1) وہ ذات کہ اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور نہیں بنائی اس نے کوئی اولاد اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں اور پیدا کیا اس نے ہر چیز کو، پس اس نے اندازہ کیا اس کا (پورا) اندازہ کرنا (2)
#
{1} هذا بيانٌ لعظمته الكاملة وتفرُّده بالوَحْدانية من كلِّ وجه وكثرةِ خيراتِهِ وإحسانِهِ، فقال: {تبارك}؛ أي: تعاظم، وكَمُلَتْ أوصافُه، وكَثُرَتْ خيراتُه، الذي من أعظم خيراتِهِ ونعمه أن نَزَّلَ هذا القرآن الفارقَ بين الحلال والحرام والهدى والضلال وأهل السعادة من أهل الشقاوة، {على عبدِهِ}: محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، الذي كَمَّلَ مراتبَ العبوديَّة وفاق جميع المرسلين؛ {ليكونَ}: ذلك الإنزال للفرقانِ على عبده {للعالمينَ نَذيراً}: ينذِرُهم بأسَ الله ونِقَمَهُ ويبيِّنُ لهم مواقعَ رضا الله من سَخَطِهِ، حتى إنَّ مَنْ قَبِلَ نِذارَتَه وعمل بها؛ كان من الناجين في الدنيا والآخرة، الذين حَصَلَتْ لهم السعادةُ الأبديَّة والمُلك السَّرْمَدِيُّ؛ فهل فوق هذه النعمةِ وهذا الفضل والإحسان شيءٌ؟! فتبارك الذي هذا [من] بعض إحسانِهِ وبركاتِهِ.
[1] یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت کاملہ، ہر لحاظ سے وحدانیت میں اس کے متفرد ہونے، اس کی بھلائی اور احسان کی کثرت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا:﴿تَبٰرَكَ﴾ یعنی وہ بہت بڑا ہے اس کے تمام اوصاف نہایت کامل اور اس کے احسانات بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا احسان اور سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے یہ عظیم قرآن نازل فرمایا جو حلال و حرام، ہدایت و ضلالت، اہل سعادت اور اہل شقاوت کے درمیان فرق بیان کرتا ہے۔﴿ عَلٰى عَبْدِهٖ ﴾ یہ فرقان عظیم اس نے اپنے بندے محمد مصطفیٰ e پر نازل فرمایا جنھوں نے تمام مراتب عبودیت مکمل کر لیے اور اللہ نے ان کو تمام انبیاء و مرسلین پر فوقیت عطا کی۔ ﴿لِیَكُوْنَ ﴾ ’’تاکہ وہ ہو جائے۔‘‘ یعنی اپنے بندے پر اس فرقان کا نازل کرنا﴿ لِلْ٘عٰلَمِیْنَ نَذِيْرًا ﴾ ’’جہانوں کے لیے ڈرانے والا۔‘‘ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غصے سے ڈراتا ہے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی ناراضی کے مقامات کو واضح کرتا ہے۔ جو کوئی اس کے اِنذار کو قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ دنیا و آخرت میں نجات پانے والوں میں شمار ہوتا ہے، جنھیں ابدی سعادت اور سرمدی بادشاہی حاصل ہوتی ہے۔ پس کیا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور اس کے اس فضل و احسان سے بڑھ کر بھی کوئی اور چیز ہے؟ پس نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات، جس کے احسانات و برکات میں قرآن بھی شامل ہے۔
#
{2} {الذي له مُلْكُ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: له التصرُّف فيهما وحدَه، وجميع مَنْ فيهما مماليكُ وعبيدٌ له مذعِنون لعظمتِهِ خاضعون لربوبيَّتِهِ فقراءُ إلى رحمته، الذي {لم يَتَّخِذْ ولداً ولم يكن له شريكٌ في الملكِ}: وكيف يكونُ له ولدٌ أو شريكٌ؛ وهو المالكُ وغيرُه مملوكٌ، وهو القاهرُ وغيرُه مقهورٌ، وهو الغنيُّ بذاتِهِ من جميع الوجوه والمخلوقونَ مفتَقِرون إليه [فقراً ذاتياً] من جميع الوجوه؟! وكيف يكونُ له شريكٌ في الملك ونواصي العبادِ كلِّهم بيديهِ؛ فلا يتحرَّكون أو يسكُنون ولا يتصرَّفون إلاَّ بإذنِهِ؛ فتعالى الله عن ذلك علوًّا قديراً؛ فلم يَقْدِرْهُ حقَّ قَدْرِهِ مَنْ قال فيه ذلك، ولهذا قال: {وخَلَقَ كلَّ شيءٍ}: شمل العالم العلويَّ والعالم السفليَّ من حيواناتِهِ ونباتاتِهِ وجماداتِهِ، {فقدَّره تقديراً}؛ أي: أعطى كلَّ مخلوقٍ منها ما يَليقُ به ويناسبُه من الخلقِ وما تقتضيه حكمتُه من ذلك؛ بحيث صار كلُّ مخلوقٍ لا يَتَصَوَّرُ العقلُ الصحيحُ أن يكونَ بخلاف شكلِهِ وصورتِهِ المشاهَدَة، بل كلُّ جزءٍ وعضوٍ من المخلوق الواحد لا يناسبُه غير محلِّه الذي هو فيه؛ قال تعالى: {سبِّحِ اسمَ ربِّك الأعلى الذي خَلَقَ فسَوَّى. والذي قَدَّرَ فَهَدى}، وقال تعالى: {ربُّنا الذي أعطى كُلَّ شَيءٍ خَلْقَه ثم هَدى}. ولما بيَّن كمالَه وعظمتَه وكثرةَ إحسانِهِ؛ كان ذلك مقتضياً لأن يكونَ وحدَه المحبوبَ المألوه المعظَّم المفردَ بالإخلاص وحدَه لا شريك له؛ ناسبَ أن يذكُرَ بطلانَ عبادةِ ما سواه، فقال:
[2] ﴿ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’وہ جس کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘ یعنی وہ اکیلا ہی زمین و آسمان میں تصرف کرتا ہے اور زمین اور آسمانوں میں رہنے والے، سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور غلام ہیں ، اس کی عظمت کے سامنے فروتن، اس کی ربوبیت کے سامنے سرافگندہ اور اس کی رحمت کے محتاج ہیں ۔ ﴿ وَلَمْ یَتَّؔخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَؔكُ٘نْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ ﴾ ’’اس نے کوئی اولاد بنائی ہے نہ اس کا بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔‘‘ کوئی اس کا بیٹا یا شریک کیسے ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ مالک ہے دیگر تمام لوگ اس کی مملوک ہیں ، وہ قاہر و غالب ہے اور تمام مخلوق مقہور ہے۔ وہ ہر لحاظ سے بذاتہ غنی ہے اور تمام مخلوق ہر لحاظ سے اس کی محتاج ہے؟ کوئی کیسے اقتدار میں اس کا شریک ہو سکتا ہے، حالانکہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں ، اس کی اجازت کے بغیر ان میں کوئی حرکت ہے نہ سکون اور نہ وہ کسی تصرف کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس شرک سے بہت بلند اور بالاتر ہے۔ جس کسی نے اس کے بارے میں یہ بات کہی ہے اس نے اس کی ویسی قدر نہیں کی جیسا کہ قدر کرنے کا حق ہے، اس لیے فرمایا:﴿ وَخَلَقَ كُ٘لَّ شَیْءٍ ﴾ ’’اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔‘‘ یہ تخلیق عالم علوی، عالم سفلی، تمام حیوانات، نباتات اور جمادات کو شامل ہے ﴿ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا ﴾ ’’اور اس کا مناسب اندازہ کیا۔‘‘ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی کی ہر مخلوق کو ایسی تخلیق عطا کی جو اس کے لائق اور اس کے لیے مناسب ہے اور جو اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ جہاں تمام مخلوق کی شکل ایسے ہے کہ عقل صحیح یہ تصور بھی نہیں کر سکتی کہ وہ کسی ایسی شکل میں ہو جو موجودہ شکل و صورت کے خلاف ہو جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں بلکہ مخلوق واحد کا کوئی جزو اور کوئی عضو صرف اسی جگہ مناسب ہے جہاں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ۰۰الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰىۙ۰۰وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدٰى ﴾ (الاعلی:87؍1-3) ’’تسبیح بیان کیجیے اپنے عالی شان رب کے نام کی۔ جس نے (انسان کو) پیدا کیا اور اس کو نک سک سے برابر کیا اور جس نے اس کا اندازہ ٹھہرایا پھر اس کو راہ دکھائی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰؔى ﴾ (طہ:20؍50) ’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی تخلیق عطا کی پھر اس کو راہ دکھائی۔‘‘ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عظمت، اپنے کمال اور اپنے کثرت احسان کو بیان فرمایا اور یہ چیز اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ صرف اسی کو الٰہ، محبوب و معظم ہونا چاہیے، صرف اسی کے لیے عبادت کو خالص کیا جائے۔ اس کا کوئی شریک نہیں … تب مناسب ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کے بطلان کو بھی بیان کیا جائے، اس لیے فرمایا:
آیت: 3 #
{وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا (3)}.
اور بنا لیے ہیں (مشرکوں نے) سوائے اس کے (اور) معبود جو، نہیں پیدا کرتے کچھ بھی اور وہ (خود) پیدا کیے جاتے ہیں اور نہیں اختیار رکھتے وہ اپنے نفسوں کے لیے کسی نقصان کا اور نہ کسی نفع کااور نہیں اختیار رکھتے وہ موت کا اور نہ زندگی کا اور نہ دوبارہ (جی) اٹھنے ہی کا (3)
#
{3} أي: من أعجب العجائب وأدلِّ الدليل على سَفَههم ونقص عقولهم، بل أدلُّ على ظلمهم وجراءتهم على ربِّهم: أنِ اتَّخَذوا آلهةً بهذه الصفة، في غاية العجز أنَّها لا تَقْدِرُ على خلق شيء، بل هم مخلوقون، بل بعضهم مما عملته أيديهم، {ولا يملِكون لأنفُسِهِم ضرًّا ولا نفعاً}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيراً؛ لأنه نكرةٌ في سياق النفي. {ولا يملِكون موتاً ولا حياةً ولا نشوراً}؛ أي: بعثاً بعد الموت. فأعظمُ أحكام العقل بطلانُ إلهيتها وفسادُها وفسادُ عقل من اتّخذها آلهةً وشركاءَ للخالق لسائرِ المخلوقات من غير مشاركةٍ له في ذلك، الذي بيده النفع والضرُّ والعطاء والمنع، الذي يُحيي ويميتُ ويبعثُ مَنْ في القبور ويجمعُهُم يومَ النشور، وقد جَعَلَ لهم دارين: دار الشقاءِ والخزي والنَّكال لمن اتَّخذ معه آلهةً أخرى، ودار الفوز والسعادة والنعيم المقيم لمن اتَّخذه وحدَه معبوداً. ولما قرَّر بالدليل القاطع الواضح صحَّة التوحيد وبطلان ضدِّه؛ قرَّر صحَّة الرسالة وبطلان قول من عارَضَها واعترضَها، فقال:
[3] یہ عجیب ترین بات ہے اور ان کی بے وقوفی اور کم عقلی کی سب سے بڑی دلیل ہے بلکہ ان کے ظلم اور اپنے رب کے حضور ان کی جسارت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے کہ انھوں نے کمال عجز سے موصوف ہستیوں کو اپنا معبود بنا لیا۔ ان کے خود ساختہ معبودوں کا عجز یہاں تک پہنچا ہوا ہے کہ وہ کسی چیز کی تخلیق پر قادر نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو خود ان کے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔ ﴿ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ﴾ ’’اور وہ اپنے نفسوں کے لیے بھی نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں ‘‘ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ یہاں سیاق نفی میں نکرہ کا استعمال ہے جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰؔوةً وَّلَا نُشُوْرًؔا ﴾ ’’اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی کے مارنے کا اور نہ زندہ کرنے کا اور (نہ مرنے کے بعد دوبارہ) زندہ کرنے کا۔‘‘ احکام عقل میں سب سے بڑا حکم، ان خود ساختہ معبودان کی الوہیت کے بطلان اور ان کے فساد کا حکم ہے، نیز سب سے بڑا حکم ان لوگوں کے فساد عقل کا حکم ہے، جنھوں نے ان کو معبود بنا کر اس ہستی کا شریک ٹھہرا دیا ہے جو بغیر کسی شراکت کے خالق کائنات ہے جس کے دست قدرت میں نفع و نقصان، عطا کرنا اور محروم کرنا ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، وہ ہستی قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو دوبارہ زندہ کرکے قیامت کے روز جمع کرے گی۔ اس نے لوگوں کے لیے آخرت میں دو گھر بنائے، پہلا بدبختی، رسوائی اور عذاب کا گھر، یہ اس شخص کا گھر ہو گا جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو الٰہ بنا رکھا ہے، دوسرا کامیابی، خوش بختی اور دائمی نعمتوں کا گھر اور یہ اس شخص کا گھر ہو گا جس نے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا معبود قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قطعی اور واضح دلیل کے ذریعے سے توحید کی صحت اور شرک کے بطلان کو ثابت کرنے کے بعد رسالت کی صحت اور منکرین رسالت کے موقف کے بطلان کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 4 - 6 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا (4) وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (5) قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (6)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، نہیں ہے یہ (قرآن) مگر جھوٹ ہی، گھڑا ہے اس( پیغمبر) نے اسے اور مدد کی ہے اس کی اس پر کچھ اور لوگوں نے پس تحقیق آئے ہیں وہ (لوگ) ظلم اورجھوٹ کو (4) اور کہا انھوں نے، یہ قصے کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی، لکھ لیا ہے اس نے ان کو، پس وہ پڑھی جاتی ہیں اس پر صبح اور شام(5) آپ کہہ دیجیے! نازل کیا ہے اس (قرآن) کو اس (اللہ) نے جو جانتا ہے بھید آسمانوں اور زمین کے، بے شک وہ ہے بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا (6)
#
{4} أي: وقال الكافرون بالله، الذي أوجب لَهم كُفْرُهم أنْ قالوا في القرآن والرسول: إنَّ هذا القرآنَ كذبٌ كَذَبه محمد، وإفكٌ افتراه على الله، وأعانه على ذلك قومٌ آخرون؛ فردَّ الله عليهم ذلك بأنَّ هذا مكابرةٌ منهم وإقدامٌ على الظُّلم والزُّور الذي لا يمكن أن يدخلَ عقلَ أحدٍ؛ وهم أشدُّ الناس معرفةً بحالة الرسول - صلى الله عليه وسلم - وكمال صدقِهِ وأمانتِهِ وبرِّه التامِّ، وأنَّه لا يمكِنُه لا هو ولا سائرُ الخلق أن يأتوا بهذا القرآنِ الذي هو أجلُّ الكلام وأعلاه، وأنَّه لم يجتمعْ بأحدٍ يُعينه على ذلك؛ {فقد جاؤوا} بهذا القول ظلماً {وزوراً}.
[4] یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے، جن کے قرآن اور رسول کے بارے میں قول باطل کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان پر کفر واجب کیا… کہتے ہیں کہ یہ قرآن جھوٹ ہے جسے محمد (e)نے خود تصنیف کیا ہے، ایک بہتان ہے جسے محمد (e)نے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا ہے اور ایسا کرنے میں کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کا انکار حق، ظلم اور باطل پر مبنی اقدام ہے جو کسی کی عقل میں نہیں آ سکتا، حالانکہ وہ رسول اللہ e کے احوال، آپ کے کامل صدق و امانت اور آپ کی کامل نیکی کی پوری پوری معرفت رکھتے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محمد e اور دیگر تمام مخلوق کے لیے یہ قرآن تصنیف کرنا ممکن نہیں جو جلیل ترین اور بلند ترین درجے کا کلام ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ محمد e اس قرآن کی تصنیف میں مدد حاصل کرنے کے لیے کسی کے پاس نہیں گئے … پس کفار نے ظلم اور جھوٹ پر مبنی بات کہی ہے۔
#
{5} ومن جملة أقاويلهم فيه أنْ قالوا: هذا الذي جاء به محمدٌ {أساطيرُ الأولينَ اكْتَتَبَها}؛ أي: هذا قَصَص الأولين وأساطيرُهم، التي تتلقَّاها الأفواه وينقلُها كلُّ أحدٍ، استَنْسَخَها محمدٌ؛ {فهِيَ تُملى عليه بُكرةً وأصيلاً}: وهذا القول منهم فيه عدةُ عظائم: منها: رميُهم الرسولَ الذي هو أبرُّ الناس وأصدقُهم بالكذب والجرأة العظيمة. ومنها: إخبارُهم عن هذا القرآن الذي هو أصدقُ الكلام وأعظمُه وأجلُّه بأنه كذبٌ وافتراءٌ. ومنها: أنَّ في ضمن ذلك أنَّهم قادرون أن يأتوا بمثلِهِ، وأن يضاهئ المخلوقُ الناقصُ من كلِّ وجه للخالق الكامل من كلِّ وجه بصفةٍ من صفاته، وهي الكلام. ومنها: أنَّ الرسول قد عُلِمَتْ حالُه ، وهم أشدُّ الناس علماً بها؛ أنَّه لا يكتبُ ولا يجتمعُ بمن يكتبُ له؛ وهم قد زعموا ذلك.
[5] ان کی ان باتوں میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ قرآن، جسے محمد e لے کر آئے ہیں ﴿اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ اكْتَتَبَهَا ﴾ یعنی یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو لوگوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اورانھیں ہر شخص آگے بیان کر دیتا ہے محمد (e)نے بھی ان کہانیوں کو سن کر لکھ لیا ہے۔ ﴿فَ٘هِیَ تُ٘مْ٘لٰى عَلَیْهِ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا ﴾ ’’پس وہ صبح و شام اس پر پڑھی جاتی ہیں ۔‘‘ ان کی اس بات میں متعدد گناہ کی باتیں ہیں : (۱) ان کا رسولeپر جھوٹ اور عظیم جسارت کے ارتکاب کا بہتان لگانا، حالانکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سچے ہیں ۔ (۲) قرآن کریم کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے، حالانکہ یہ سب سے سچا، جلیل ترین اور عظیم ترین کلام ہے۔ (۳) اس ضمن میں ان کا یہ دعویٰ کہ وہ ایسا کلام لانے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی یہ مخلوق جو ہر پہلو سے ناقص ہے، خالق جو ہر لحاظ سے کامل ہے، کی ایک صفت یعنی صفت کلام میں اس کی برابری کر سکتی ہے؟ (۴) رسولeکے احوال معلوم ہیں یہ آپ کے احوال کو سب سے زیادہ جانتے ہیں انھیں خوب معلوم ہے کہ آپ لکھ سکتے ہیں نہ آپ کسی ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو آپ کو لکھ کر دے۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ یہ قصے کہانیاں کسی کے پاس سے لکھ لاتے ہیں ۔
#
{6} فلذلك ردَّ عليهم ذلك بقوله: {قُلْ أنزَلَه الذي يعلم السرَّ في السمواتِ والأرضِ}؛ أي: أنزله مَنْ أحاط علمهُ بما في السماواتِ وما في الأرض من الغيب والشهادة والجهر والسرِّ؛ كقوله: {وإنَّه لَتنزيلُ ربِّ العالمينَ. نَزَلَ به الرُّوحُ الأمينُ. على قَلْبِكَ لتكونَ من المنذِرين}. ووجهُ إقامة الحجة عليهم أنَّ الذي أنزله هو المحيطُ علمُه بكلِّ شيء، فيستحيلُ ويمتنعُ أن يقولَ مخلوقٌ ويتقوَّل عليه هذا القرآن، ويقولَ: هو من عند الله، وما هو من عندِهِ، ويستحلُّ دماء مَنْ خالفَه وأموالَهم، ويزعمُ أنَّ الله قال له ذلك، والله يعلمُ كلَّ شيء، ومع ذلك؛ فهو يؤيِّده وينصرُهُ على أعدائه ويمكِّنُه من رقابهم وبلادهم؛ فلا يمكن أحداً أنْ يُنْكِرَ هذا القرآن إلاَّ بعد إنكارِ علم الله، وهذا لا يقول به طائفةٌ من بني آدم سوى الفلاسفة الدُّهرية. وأيضاً: فإنَّ ذكر علمِهِ تعالى العام ينبِّههم ويحضُّهم على تدبُّر القرآن، وأنَّهم لو تدبَّروا؛ لرأوا فيه من علمِهِ وأحكامِهِ ما يدلُّ دلالةً قاطعةً على أنَّه لا يكون إلا من عالم الغيب والشهادة. ومع إنكارهم للتوحيد والرسالة؛ من لطفِ الله بهم أنَّه لم يَدَعْهُم وظُلْمَهم، بل دعاهم إلى التوبة والإنابة إليه، ووعدهم بالمغفرة والرحمة إنْ هم تابوا ورجعوا، فقال: {إنَّه كان غَفوراً}؛ أي: وصفُه المغفرةُ لأهل الجرائم والذُّنوب إذا فعلوا أسباب المغفرةِ، وهي الرجوع عن معاصيه والتوبة منها. {رحيماً}: بهم؛ حيثُ لم يعاجِلْهم بالعقوبة وقد فعلوا مقتضاها وحيث قبِلَ توبتَهم بعد المعاصي، وحيث محا ما سلف من سيئاتهم، وحيث قبل حسناتِهم، وحيث أعاد الراجع إليه بعد شروده والمقبل عليه بعد إعراضه إلى حالة المطيعين المنيبين إليه.
[6] اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:﴿ قُ٘لْ اَنْزَلَهُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ یعنی اس قرآن عظیم کو اس ہستی نے نازل کیا ہے جس کے علم نے زمین و آسمان کی ہر چیز کا، خواہ وہ غائب ہو یا سامنے ہو، چھپی ہوئی ہو یا ظاہر ہو… احاطہ کر رکھا ہے۔ جیسے اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ۰۰نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ۰۰عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (الشعراء: 26؍192-194) ’’یہ رب العالمین کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے۔ جسے لے کر روح الامین آپ کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانے والے ہیں ۔‘‘ اس میں ان پر حجت قائم کرنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ ہستی، جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور جس کا علم ہر چیز کا احاطہ كيے ہوئے ہے، اس کے بارے میں یہ محال اور ممتنع ہے کہ کوئی مخلوق یہ قرآن گھڑ کر اس کی طرف منسوب کر دے اور کہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرے اس کی جان و مال کو مباح قرار دے دے اور دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، بایں ہمہ وہ اس شخص کی اس کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرتا ہے، ان کی جانوں اور شہروں کو اس کے حوالے کر دیتا ہے… پس اللہ تعالیٰ کے علم کا انکار كيے بغیر، کسی کے لیے اس قرآن کا انکار کرنا ممکن نہیں ۔ بنی آدم میں سے سوائے دہریے فلاسفہ کے، کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا اپنے وسیع علم کا ذکر کرنا، ان کو قرآن میں تدبر کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے، اگر انھوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ اس کے علم اور احکام میں کوئی ایسی چیز ضرور دیکھتے جو قطعی طور پر دلالت کرتی کہ یہ قرآن غائب اور حاضر، تمام امور کا علم رکھنے والی ہستی کے سوا، کسی کی طرف سے نہیں … ان کے توحید و رسالت کا، جو ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے… انکار کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کے حوالے کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کو توبہ و انابت کی طرف بلایا اور ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر وہ توبہ کریں گے تو وہ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت سے نوازے گا۔ فرمایا:﴿ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا ﴾ ’’وہ بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس کا وصف یہ ہے کہ وہ مجرموں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے، جب وہ مغفرت کے اسباب کام میں لاتے ہیں ، یعنی وہ گناہوں سے رجوع کر کے توبہ کرتے ہیں ۔﴿ رَّحِیْمًا ﴾ وہ ان پر بہت رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی حالانکہ انھوں نے اس کے تقاضوں کو پورا کر دیا تھا۔ ان کی نافرمانیوں کے بعد اس نے ان کی توبہ قبول فرمائی، ان کی برائیوں کے ارتکاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی برائیوں کو مٹا دیا، اس نے ان کی نیکیوں کو قبول فرمایا، اس نے اپنے سے دور بھاگنے کے بعد اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو اور روگردانی کے بعد اپنی طرف متوجہ ہونے والوں کو اطاعت مندوں اور رجوع کرنے والوں کی حالت کی طرف لوٹا دیا۔
آیت: 7 - 14 #
{وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا (7) أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا (8) انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (9) تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُورًا (10) بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا (11) إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا (12) وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا (13) لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا (14)}.
اور کہا انھوں نے، کیا ہے اس رسول کو کہ وہ کھاتا ہے کھانا اور چلتا ہے بازاروں میں ؟ کیوں نہیں نازل کیا گیا اس کی طرف کوئی فرشتہ کہ ہوتا وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا؟ (7)یا ڈالا جاتا اس کی طرف کوئی خزانہ یا ہوتا اس کے لیے کوئی باغ کہ وہ کھاتا اس میں سے اور کہا (ان)ظالموں نے (مومنوں سے)، نہیں اتباع کرتے تم مگر ایسے شخص کا (جس پر) جادو کیا گیا ہے (8) دیکھیے! کیسی بیان کیں ان لوگوں نے آپ کے لیے مثالیں ؟ پس گمراہ ہو گئے وہ، پس نہیں استطاعت رکھتے وہ راہ (یابی) کی (9) بڑی ہی بابرکت ہے وہ (اللہ کی) ذات کہ اگر وہ چاہے تو بنادے آپ کے لیے بہت بہتر اس سے، ایسے باغات کہ بہتی ہوں ان کے نیچے نہریں ، اور وہ بنا دے آپ کے لیے محلات (10)بلکہ انھوں جھٹلایا قیامت کواور تیار کی ہے ہم نے، اس شخص کے لیے جو جھٹلائے قیامت کو، بھڑکتی آگ (11) جب وہ (آگ) دیکھے گی ان (مجرموں ) کو دور کے مکان سے تو سنیں گے وہ واسطے اس کے سخت غصیلی آواز اور چلانا (12)اورجب وہ ڈالے جائیں گے اس میں سے کسی تنگ جگہ میں ، زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہ پکاریں گے وہاں ہلاکت (موت) کو (13) (انھیں کہا جائے گا) نہ پکارو تم آج ایک ہلاکت (موت) کواور (بلکہ) پکارو تم بہت زیادہ ہلاکتوں (موتوں ) کو (14)
#
{7} هذا من مقالة المكذِّبين للرسول، التي قَدَحوا [بها] في رسالتِهِ، وهو أنهم اعترضوا بأنَّه هلاَّ كان مَلَكاً أو مَلِكاً أو يساعِدُه مَلَك؛ فقالوا: {مال هذا الرسول}؛ أي: ما لهذا الذي ادَّعى الرسالة تهكُّماً منهم واستهزاء {يأكل الطعام}: وهذا من خصائص البشر؛ فهلاَّ كان مَلَكاً لا يأكُل الطعام ولا يحتاجُ إلى ما يحتاج إليه البشر، {ويمشي في الأسواق}: للبيع والشراء، وهذا بزعمِهِم لا يَليقُ بمَنْ يكون رسولاً؛ مع أن الله قال: {وما أرسلنا قبلك من المرسلين إلا إنهم ليأكلون الطعام ويمشون في الأسواق}. {لولا أُنْزِلَ إليه مَلَكٌ}؛ أي: هلاَّ أنْزِل معه مَلَكٌ يساعده ويعاونُه {فيكونَ معه نذيراً}: وبزعمهم أنَّه غير كافٍ للرسالة، ولا بطوقه وقدرته القيام بها.
[7] یہ ان لوگوں کا قول ہے جنھوں نے رسول (e)کو جھٹلایا اور آپ کی رسالت میں جرح و قدح کی۔ انھوں نے اعتراض کیا کہ یہ رسول فرشتہ یا کوئی بادشاہ کیوں نہیں یا اس کی خدمت اور مدد کے لیے کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ مَالِ هٰؔذَا الرَّسُوْلِ ﴾ یعنی یہ کیسا شخص ہے جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے﴿ یَ٘اْكُ٘لُ الطَّعَامَ﴾ ’’کھانا کھاتا ہے‘‘ حالانکہ یہ تو بشر کی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ ان امور کا محتاج ہوتا بشر جن کا محتاج ہے۔﴿ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ﴾ یعنی خریدوفروخت کے لیے ’’بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘ اور یہ … ان کے خیال کے مطابق … ایک رسول کے لائق نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ ﴾ (الفرقان: 25؍20) ’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ سب کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔‘‘ ﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ ﴾ یعنی اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو اس کا ہاتھ بٹاتا﴿ فَیَكُ٘وْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا﴾ ’’پس وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔‘‘ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق آپ رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ آپ کو رسالت کی ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت اور قدرت حاصل ہے۔
#
{8} {أو يُلْقى إليه كنزٌ}؛ أي: مالٌ مجموع من غير تعب، {أو تكون له جنَّةٌ يأكُلُ منها}: فيستغني بذلك عن مشيه في الأسواق لطلب الرزق، {وقال الظالمون}: حملهم على القول ظُلْمهُم، لا اشتباه منهم: {إن تَتَّبِعونَ إلاَّ رَجُلاً مسَحْوراً}: هذا وقد علموا كمال عقله وحسن حديثه وسلامته من جميع المطاعن.
[8] ﴿ اَوْ یُلْ٘قٰۤى اِلَیْهِ كَنْ٘زٌ ﴾ ’’یا ڈال دیا جاتا اس کی طرف کوئی خزانہ۔‘‘ یعنی ایسا مال جو بغیر کسی محنت مشقت کے اکٹھا کیا گیا ہو﴿ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّ٘اْكُ٘لُ مِنْهَا﴾ ’’یا اس کے لیے باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا۔‘‘ یعنی اس باغ کی وجہ سے وہ طلب رزق کی خاطر بازاروں میں چلنے پھرنے سے مستغنی ہو جاتا ﴿وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’اور ظالموں نے کہا۔‘‘ یعنی ان کے اس اعتراض کا باعث ان کا اشتباہ نہیں بلکہ ان کا ظلم ہے: ﴿ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ﴾ ’’تم تو ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔‘‘ حالانکہ وہ آپ کی کامل عقل، آپ کی اچھی شہرت اور تمام مطاعن سے سلامت اور محفوظ ہونے کے بارے میں خوب جانتے تھے۔
#
{9} ولما كانت هذه الأقوال منهم عجيبةً جدًّا؛ قال تعالى: {انظُرْ كيفَ ضربوا لك الأمثالَ}: وهي: هلاَّ كان مَلَكاً وزالتْ عنه خصائصُ البشر، أو معهُ مَلَكٌ لأنه غير قادرٍ على ما قال، أو أنزِلَ عليه كنزٌ، أو جُعِلَتْ له جنةٌ تُغنيه عن المشي في الأسواق، أو أنه كان مسحوراً. {فضلُّوا فلا [يستطيعون] سبيلاً}: قالوا: أقوالاً متناقضةً، كلُّها جهلٌ وضلالٌ وسفهٌ، ليس في شيء منها هدايةٌ، بل ولا في شيء منها أدنى شبهةٍ تقدحُ في الرسالة، فبمجرَّدِ النظرِ إليها وتصوُّرها يجزم العاقل ببطلانها، ويكفيه عن ردِّها. ولهذا أمر تعالى بالنظر إليها وتدبُّرِها والنظرِ: هل توجِبُ التوقُّف عن الجزم للرسول بالرسالة والصدق؟!
[9] چونکہ ان کے یہ اعتراض بہت ہی عجیب و غریب تھے اس لیے ان کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ ﴾ ’’دیکھو، وہ آپ کے لیے کیسے مثالیں بیان کرتے ہیں ۔‘‘ اور وہ یہ کہ وہ (رسول) فرشتہ کیوں نہ ہوا؟ اور اس سے بشری خصوصیات کیوں زائل نہ ہوئیں ؟ یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا کیونکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ اس کی قدرت نہیں رکھتا یا اس پر کوئی خزانہ اتارا گیا ہوتا یا اس کی ملکیت میں کوئی باغ ہوتا جو اس کو بازاروں میں طلب معاش کے لیے مارے مارے پھرنے سے مستغنی رکھتا؟ یا یہ کوئی سحر زدہ آدمی ہے؟ ﴿ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ سَبِیْلًا ﴾ ’’پس وہ گمراہ ہو گئے اور کسی طرح وہ راہ پر نہیں آ سکتے۔‘‘ انھوں نے اس قسم کی متناقض باتیں کہی ہیں جو سراسر جہالت، گمراہی اور حماقت پر مبنی ہیں ۔ ان میں کوئی بھی ہدایت کی بات نہیں بلکہ ان میں کوئی ادنیٰ سا شبہ ڈالنے والی بات بھی نہیں جو رسالت میں قادح ہو۔ مجرد غوروفکر کرنے سے ایک عقلمند شخص کو اس کے بطلان کا قطعی یقین ہو جاتا ہے جو اس کو رد کرنے کے لیے کافی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے غوروفکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ہے کہ آیا یہ اعتراضات رسول کی رسالت اور صداقت کے قطعی یقین کے بارے میں توقف کے موجب بن سکتے ہیں ؟
#
{10} ولهذا أخبر أنه قادر على أن يعطيك خيراً كثيراً في الدُّنيا، فقال: {تبارك الذي إن شاء جَعَلَ لك خيراً من ذلك}؛ أي: خيراً مما قالوا، ثم فسَّره بقوله: {جنَّاتٍ تَجْري من تَحْتِها الأنهار ويَجْعَلْ لك قُصوراً}: مرتفعةً مزخرفةً؛ فقدرتُهُ ومشيئتُهُ لا تقصُرُ عن ذلك، ولكنَّه تعالى لما كانت الدُّنيا عنده في غاية البعد والحقارة؛ أعطى منها أولياءه ورسله ما اقتضتْه حكمتُه منها، واقتراحُ أعدائهم بأنَّهم هلاَّ رُزِقوا منها رزقاً كثيراً جدًّا ظلمٌ وجراءةٌ.
[10] اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کو اس دنیا میں خیر کثیر سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ ﴾ ’’بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو آپ کے لیے ان سے بہتر چیزیں کر دے۔‘‘ یعنی ان چیزوں سے بھی بہتر جن کا انھوں نے ذکر کیا ہے پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ١ۙ وَیَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا ﴾ ’’باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور کردے وہ آپ کے لیے محلات۔‘‘ یعنی بلند اور آراستہ محل۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں مگر چونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی حقیر چیز ہے، اس لیے وہ اپنے انبیاء و اولیاء کو صرف اتنی ہی دنیا عطا کرتا ہے جتنی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے اور ان کے دشمنوں کے اعتراضات کہ انھیں بہت زیادہ رزق سے کیوں نہیں نوازا گیا، محض ظلم اور جسارت ہے۔
#
{11} ولمَّا كانت تلك الأقوالُ التي قالوها معلومةَ الفسادِ؛ أخبر تعالى أنَّها لم تصدُرْ منهم لطلبِ الحقِّ ولا لاتِّباع البرهان، وإنما صدرت منهم تعنُّتاً وظلماً وتكذيباً بالحق، فقالوا ما في قلوبهم من ذلك، ولهذا قال: {بل كذَّبوا بالساعةِ}: والمكذِّبُ المتعنِّتُ الذي ليس له قصدٌ في اتِّباع الحق لا سبيلَ إلى هدايتِهِ ولا حيلةَ في مجادلتِهِ، وإنَّما له حيلةٌ واحدةٌ، وهي نزولُ العذاب به؛ فلهذا قال: {وأعْتَدْنا لمن كَذَّبَ بالساعةِ سعيراً}؛ أي: ناراً عظيمةً قد اشتدَّ سعيرُها وتغيَّظَتْ على أهلها واشتدَّ زفيرُها.
[11] چونکہ ان تمام اعتراضات و اقوال کا فساد واضح ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی آگاہ فرما دیا ہے کہ ان کی طرف سے یہ تمام اعتراضات طلب حق کی خاطر صادر ہوئے ہیں نہ دلیل کی پیروی کے لیے بلکہ یہ تمام اعتراضات انھوں نے تعنت، ظلم اورتکذیب حق کی وجہ سے كيے ہیں ، انھوں نے وہی بات کہی جو ان کے دل میں تھی بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ﴾ ’’بلکہ انھوں نے قیامت کی تکذیب کی۔‘‘ اور تکذیب کرنے والے اور اعتراض کے لیے لغزشیں تلاش کرنے والے شخص کے لیے جس کا مقصد اتباع حق نہیں ہوتا ،ہدایت کا کوئی راستہ نہیں اور نہ اس کے ساتھ بحث کرنے میں کوئی فائدہ ہے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس پر عذاب نازل کر دیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا ﴾ ’’اور ہم نے قیامت کی تکذیب کرنے والوں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کی ہے۔‘‘ یعنی بڑی آگ جس کے شعلے بہت زیادہ بھڑک رہے ہوں گے، جہنمیوں پر سخت غیظ و غضب ظاہر کرے گی اور اس کی پھنکار بہت شدید اور خوف ناک ہوگی۔
#
{12} {إذا رأتْهُم من مكانٍ بعيدٍ}؛ أي: قبل وصولهم ووصولها إليها؛ {سمعوا لها تغيُّظاً}: عليهم {وزفيراً}: تقلقُ منهم الأفئدةُ، وتتصدَّعُ القلوبُ، ويكادُ الواحدُ منهم يموتُ خوفاً منها وذُعراً، قد غضبتْ عليهم لغضَبِ خالِقِها، وقد زاد لهبُها لزيادِة كفرهم وشرهم.
[12] ﴿ اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭؔ بَعِیْدٍ ﴾ ’’جب وہ (آگ) ان کو دیکھے گی دور کی جگہ سے۔‘‘ یعنی اس سے پہلے کہ وہ جہنم میں پہنچیں اور جہنم ان کو وصول کرے﴿ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا ﴾ ’’وہ (اپنے اوپر) اس کے غیظ و غضب کی آوازیں سنیں گے‘‘ ﴿ وَّزَفِیْرًا ﴾ ’’اور دھاڑنا (سنیں گے)۔‘‘ کہ جس سے صدمے اور خوف کی وجہ سے کلیجے پھٹ جائیں گے اور دل پارہ پارہ ہو جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی خوف اور دہشت کے مارے مر ہی جائے۔ جہنم اپنے خالق کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک ہو گی، ان کے کفر اور برائی کی کثرت کی وجہ سے جہنم کے شعلے اور زیادہ ہو جائیں گے۔
#
{13} {وإذا أُلْقوا منها مكاناً ضيِّقاً مقرَّنينَ}؛ أي: وقت عذابهم وهم في وسطها جمعٌ في مكان، بين ضِيق المكان وتزاحُم السُّكان وتقرِينِهم بالسَّلاسل والأغلال؛ فإذا وَصَلوا لذلك المكان النحس وحُبِسوا في أشرِّ حبس؛ {دَعَوْا هنالك ثُبوراً}: دعوا على أنفسِهِم بالثُّبور والخزي والفضيحةِ، وعلموا أنَّهم ظالمونَ معتدون، قد عَدَلَ فيهم الخالقُ حيث أنزلهم بأعمالهم هذا المنزل.
[13] ﴿ وَاِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ ﴾ ’’اور جب انھیں جکڑ کر جہنم میں کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ یعنی عذاب کے وقت، جہنم کے عین وسط میں ایک بہت ہی تنگ جگہ اور بھیڑ میں ، بیڑیوں اور زنجیروں میں باندھ کر ڈال دیا جائے گا۔ جب یہ اس منحوس جگہ پر پہنچیں گے اور انھیں بدترین حبس کا سامنا کرنا پڑے گا ﴿ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا﴾ تو اس وقت وہ اپنے لیے موت، رسوائی اور فضیحت کو پکاریں گے۔ انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والے ہیں اور خالق کائنات نے انھیں ان کے اعمال کی پاداش میں اس جگہ بھیج کر انصاف کیا ہے۔
#
{14} وليس ذلك الدعاء والاستغاثة بنافعةٍ لهم ولا مغنيةٍ من عذاب الله، بل يُقالُ لهم: {لا تدعوا اليوم ثُبوراً واحداً وادْعوا ثُبوراً كثيراً}؛ أي: لو زاد ما قلتُم أضعاف أضعافِهِ؛ ما أفادكم إلاَّ الهمَّ والغمَّ والحزنَ.
[14] مگر یہ دعا اور استغاثہ ان کے کسی کام آئیں گے نہ انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں گے بلکہ ان سے کہا جائے گا: ﴿ لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا﴾ ’’آج تم ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں (ہلاکتوں ) کو پکارو!‘‘ یعنی اگر تم اس سے بھی کئی گنا زیادہ چیختے چلاتے رہو تو تمھیں حزن و غم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ظالموں کی سزا بیان کرنے کے بعد یہ مناسب تھا کہ متقین کی جزا کا ذکر کیا جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آیت: 15 - 16 #
{قُلْ أَذَلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا (15) لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا (16)}.
کہہ دیجیے! کیا یہ (عذاب) بہتر ہے یا جنت ہمیشگی کی، وہ جس کا وعدہ دیے گئے متقی لوگ؟ ہے وہ ان کے لیے جزا اور واپسی کی جگہ (15) ان کے لیے اس میں ہوگا جو کچھ وہ چاہیں گے، ہمیشہ رہنے والے،ہے (یہ) آپ کے رب کے ذمے وعدہ قابل طلب (16)
#
{15} أي: قُلْ لهم مبيِّناً لسفاهة رأيهم واختيارهم الضارِّ على النافع: {أذلك}: الذي وَصَفْتُ لكم من العذاب {خيرٌ أم جنَّةُ الخُلْدِ التي وُعِدَ المتَّقون}: التي زادُها تقوى الله؛ فمن قام بالتقوى؛ فالله قد وَعَدَه إيَّاها، {كانت لهم جزاءً}: على تقواهم، {ومصيراً}: موئلاً يرجعون إليها، ويستقرُّون فيها، ويخلُدون دائماً أبداً.
[15] یعنی ان کی حماقت اور ان کے نفع کی بجائے نقصان کو اختیار کرنے کو بیان کرتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے! ﴿ اَذٰلِكَ ﴾ یعنی وہ عذاب جو میں نے تمھارے لیے بیان کیا ہے﴿ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْ٘مُتَّقُوْنَ ﴾ ’’بہتر ہے یا وہ ہمیشگی والی جنت، جس کا وعدہ متقین سے کیا گیا ہے؟‘‘ جن کو تقویٰ نے بڑھا دیا ہے، پس جو کوئی تقویٰ قائم کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔﴿كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً ﴾ ’’ہو گی وہ ان کے لیے بدلہ۔‘‘ یعنی متقین کے تقویٰ کی جزا کے طور پر ﴿ وَّمَصِیْرًا ﴾ اور ان کا ٹھکانا ہو گی، جس کی طرف وہ لوٹیں گے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔
#
{16} {لهم فيها ما يشاؤون}؛ أي: يطلبون وتتعلَّق به أمانيهم ومشيئتهم؛ من المطاعم، والمشارب اللذيذة، والملابس الفاخرة، والنساء الجميلات، والقصور العاليات، والجنَّات والحدائق المرجحنَّة (1)، والفواكة التي تسر ناظريها وآكليها من حسنها وتنوُّعها وكثرة أصنافها، والأنهار التي تجري في رياض الجنَّة وبساتينها حيث شاؤوا يصرِّفونها ويفجِّرونها أنهاراً من ماءٍ غير آسنٍ، وأنهارٌ من لبن لم يتغيَّر طعمُه، وأنهارٌ من خمر لذَّةٍ للشاربين، وأنهارٌ من عسل مصفًّى وروائح طيِّبة، ومساكن مزخرفة، وأصواتٌ شجيَّة تأخُذُ من حسنها بالقلوب، ومزاورة الإخوان، والتمتُّع بلقاء الأحباب، وأعلى من ذلك كلِّه التمتُّع بالنظر إلى وجه الربِّ الرحيم، وسماع كلامِهِ والحظوة بقربه والسعادة برضاه، والأمن من سَخَطه واستمرار هذا النعيم ودوامه وزيادته على ممرِّ الأوقات وتعاقب الآنات. {كان}: دخولُها والوصولُ إليها {على ربِّك وعداً مسؤولاً}: يسأله إيَّاها عبادُه المتَّقون بلسان حالهم ولسان مقالهم. فأيُّ الدارين المذكورتين خيرٌ وأولى بالإيثارِ؟! وأيُّ العاملين عُمَّال دار الشقاء أو عمال دار السعادة أولى بالفضل والعقل والفخر يا أولي الألباب؟! لقد وَضَح الحقُّ واستنار السبيل، فلم يبق للمفرِّط عذرٌ في تركه الدليل؛ فنرجوك يا من قضيتَ على أقوام بالشقاءِ وأقوام بالسعادةِ أن تَجْعَلَنا ممَّنْ كتبتَ لهم الحسنى وزيادة، ونستغيثُ بك اللهمَّ من حالة الأشقياء ونسألك المعافاة منها.
[16] ﴿لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ ﴾ یعنی انھیں جس چیز کی طلب ہو گی اور جنت میں جس چیز کی خواہش اور آرزو ہو گی وہ انھیں حاصل ہو گی، مثلاً:لذیذ مطعومات و مشروبات، ملبوسات فاخرہ، خوبصورت بیویاں ، بلندوبالا محل، باغات، پھلوں سے لدے ہوئے باغیچے، میوے، جن کی خوبصورتی، ان کا تنوع اور ان کی کثرت اصناف دیکھنے والوں اور کھانے والوں کو خوش کر دے گی۔ جنت کی پھلواریوں اور باغات میں نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہ جدھر چاہیں گے ان نہروں کو موڑ سکیں گے، وہ نہ بدلنے والے اس پانی کی نہروں کو جہاں چاہیں گے لے جا سکیں گے، کچھ دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا ذائقہ تبدیل نہیں ہوا ہو گا، پینے والوں کی لذت کی خاطر کچھ نہریں شراب کی ہوں گی، کچھ نہریں مصفیٰ شہد کی ہوں گے، جن میں خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہوں گی، آراستہ اور مزین گھر ہوں گے، سحرانگیز اور دلکش آوازیں ہوں گی اور وہ بھائیوں کی زیارت اور دوستوں کی ملاقاتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ اور ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ تر رب رحیم کے دیدار اور اس کے کلام کے سماع سے لطف اندوز ہونا، اس کے قرب اور رضا کی سعادت حاصل کرنا، اس کی ناراضی سے مامون ہونا ان نعمتوں کا دوام اور وقت گزرنے کے ساتھ ان تمام نعمتوں کا بڑھتے چلے جانا ہے۔﴿ كَانَ ﴾ ’’ہے (یہ)‘‘ جنت میں داخل ہونا اور جنت میں پہنچنا ﴿ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا ﴾ ’’آپ کے رب کے ذمے قابل درخواست وعدہ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے متقی بندے اپنی زبان حال اور زبان قال سے، اللہ تعالیٰ سے سوال کریں گے۔ پس ان دونوں گھروں میں سے کون سا گھر اچھا ہے کہ اس کو ترجیح دی جائے؟ اے عقل مندو! ان دونوں قسم کے عمل کرنے والوں ، یعنی دار شقاوت کے اعمال رکھنے والوں اور دار سعادت کے اعمال رکھنے والوں میں سے کون سے لوگ فضیلت، عقل اور فخر کے مستحق ہیں ؟ حق واضح اور راہ راست روشن ہو گئی ہے اب کسی افراط پسند کے پاس دلیل کو ترک کرنے کا کوئی عذر نہیں ۔ اے وہ ذات گرامی! جس نے کچھ لوگوں کے لیے شقاوت اور کچھ لوگوں کے لیے سعادت کا فیصلہ کیا ہے، ہم تیرے حضور اس بات کے امیدوار ہیں کہ تو ہمیں ان لوگوں میں شامل کر دے جن کے لیے تو نے بھلائی اور اپنے دیدار کا شرف لکھ دیا ہے اور اے اللہ! ہم بدبختوں کے احوال سے تیری مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔
آیت: 17 - 20 #
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ (17) قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا (18) فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا (19) وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا (20)}.
اور جس دن اللہ اکٹھا کرے گا انھیں اورجن کی وہ عبادت کرتے تھے سوائے اللہ کے تو وہ (اللہ) کہے گا (معبودان باطلہ سے) کیا تم نے گمراہ کیا تھا میرے ان بندوں کو یا وہ خود ہی بھٹک گئے تھے راہ (حق) سے؟ (17) وہ کہیں گے، پاک ہے تو، نہیں تھا لائق ہمارے یہ کہ بنائیں ہم سوائے تیرے کار ساز لیکن تو نے فائدہ (سامان زندگی) دیا انھیں اور ان کے باپ دادا کو بھی، یہاں تک کہ بھول گئے وہ ذکر (تیرا) اور تھے یہ لوگ ہلاک ہونے والے (18)(اللہ کہے گا) پس تحقیق انھوں نے جھٹلایا تمھیں ان باتوں میں جو تم کہتے تھے، پس نہیں استطاعت رکھتے تم (عذاب کے) ہٹانے کی اور نہ مدد کرنے کی اور جو کوئی ظلم (شرک) کرے گا تم میں سے ہم چکھائیں گے اسے عذاب بہت بڑا (19) اور نہیں بھیجے ہم نے آپ سے پہلے رسول مگر بلاشبہ وہ البتہ کھاتے تھے کھانااور وہ چلتے تھے بازاروں میں اور بنایا ہم نے تمھارے ایک کو، دوسرے کے لیے آزمائش، کیا تم صبر کرتے ہو (یا نہیں )؟ اور ہے آپ کا رب خوب دیکھنے والا (20)
#
{17} يخبر تعالى عن حالة المشركين وشركائهم يوم القيامة وتبرِّيهم منهم وبطلان سعيهم، فقال: {ويوم يحشُرُهم}؛ أي: المكذِّبين المشركين، {وما يَعْبُدون من دونِ الله فيقولُ}: الله مخاطباً للمعبودينَ على وجه التقريع لمن عَبَدَهم: {أأنتم أضلَلْتُم عبادي هؤلاء أم هم ضَلُّوا السبيل}: هل أمرتُموهم بعبادتكم وزيَّنْتُم لهم ذلك أم ذلك من تلقاءِ أنفسهم؟
[17] قیامت کے روز مشرکین اور ان کے خود ساختہ معبودوں کے احوال کے بارے میں اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتاہے کہ ان کے خود ساختہ معبود ان سے براء ت کا اظہار کریں گے اور ان کی تمام کوششیں رائگاں جائیں گی۔ فرمایا:﴿ وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ ﴾ ’’اور اس دن اکٹھا کرے گا ان کو۔‘‘ یعنی ان تکذیب کرنے والے مشرکین کو اکٹھا کرے گا ﴿ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ﴾ ’’اور ان کوبھی جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے سوا اور کہے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو جھڑکنے کی خاطر ان کے جھوٹے معبودوں سے مخاطب ہو کر کہے گا: ﴿ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ﴾ ’’کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود ہی راستے سے بھٹک گئے تھے؟‘‘ یعنی کیا تم نے انھیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اور اس کو ان کے سامنے آراستہ کیا تھا یا یہ خود ان کی اپنی کارستانی تھی؟
#
{18} {قالوا سبحانك}: نزَّهوا الله عن شركِ المشركين به، وبرَّؤوا أنفسَهم من ذلك، {ما كان يَنبَغي لنا}؛ أي: لا يليق بنا ولا يَحْسُن منَّا أن نتَّخِذَ من دونك من أولياءَ نتولاَّهم ونعبُدُهم وندعوهم؛ فإذا كنَّا محتاجين ومفتقرين إلى عبادتك ومتبرِّين من عبادة غيرِك؛ فكيف تأمر أحداً بعبادتنا؟! هذا لا يكون. أو: سبحانك أنْ نُتَّخَذَ {من دونِكَ من أولياءَ}: وهذا كقول المسيح عيسى ابن مريم عليه السلام: {وإذْ قالَ اللهُ يا عيسى ابنَ مريمَ أأنتَ قلتَ للناس اتَّخِذوني وأمِّيَ إلهينِ من دونِ الله قال سبحانَكَ ما يكونُ لي أنْ أقولَ ما ليسَ لي بِحَقٍّ إن كُنْتُ قلتُهُ فقدْ علِمْتَه تعلمُ ما في نفسي ولا أعلمُ ما في نَفْسِكَ إنَّك أنتَ عَلاَّمُ الغُيوبِ. ما قلتُ لَهُمْ إلاَّ ما أمَرْتَني به أنِ اعْبُدوا اللهَ ربِّي وَرَبَّكُم ... } الآية، وقال تعالى: {ويَوَمَ يَحْشُرُهم جميعاً ثم يقولُ للملائِكَةِ أهؤلاءِ إيَّاكُم كانوا يَعْبُدونَ. قالوا سبحانَكَ أنتَ وَلِيُّنا مِن دونِهِم بل كانوا يَعْبُدونَ الجِنَّ أكَثْرُهُم بهم مؤمنونَ}، {وإذا حُشِرَ الناسُ كانوا لهم أعداءً وكانوا بعبادَتِهِم كافرينَ}. فلما نزَّهوا أنفسهم أن يَدْعوا لعبادةِ غير الله أو يكونوا أضَلُّوهم؛ ذَكَروا السبب الموجب لإضلال المشركينَ، فقالوا: {ولكن مَتَّعْتَهُمْ وآباءَهُم}: في لذَّاتِ الدُّنيا وشهواتها ومطالبِهِا النفسِيَّةِ، {حتى نَسوا الذِّكْرَ}: اشتغالاً في لَذَّاتِ الدُّنيا وإكباباً على شَهَواتها؛ فحافظوا على دُنياهم وضيَّعوا دينَهم، {وكانوا قوماً بوراً}؛ أي: بائرين، لا خير فيهم، ولا يَصْلُحون لصالح، لا يصلُحون إلاَّ للهلاك والبوار، فذكروا المانعَ من اتِّباعهم الهُدى، وهو التمتُّع في الدُّنيا، الذي صرفهم عن الهدى، وعدم المقتضي للهدى، وهو أنَّهم لا خير فيهم؛ فإذا عدموا المقتضي ووُجِدَ المانعُ؛ فلا تشاءُ من شرٍّ وهلاكٍ إلاَّ وجَدْتَهُ فيهم.
[18] ﴿ قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ ﴾ ’’وہ کہیں گے: تو پاک ہے۔‘‘ وہ اللہ تعالیٰ کو مشرکین کے شرک سے پاک گردانیں گے اور خود کو شرک سے برئ الذمہ قرار دیتے ہوئے کہیں گے: ﴿ مَا كَانَ یَنْۢ٘بَغِیْ لَنَاۤ ﴾ ’’یہ ہماری شان کے لائق نہیں ‘‘ اور نہ ہم ایسا کر ہی سکتے ہیں کہ تیرے سوا کسی اورکو اپنا سرپرست، والی و مددگار بنائیں، اس کی عبادت کریں اور اپنی حاجتوں میں اس کو پکاریں ۔ جب ہم تیری عبادت کرنے کے محتاج ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تب ہم کسی کو اپنی عبادت کا کیسے حکم دے سکتے ہیں ؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تو پاک ہے ﴿ اَنْ نَّؔتَّؔخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ ﴾ ’’اس بات سے کہ ہم تیرے سوا کوئی دوست بنائیں ۔‘‘ ان کا یہ قول حضرت عیسیٰu کے قول کی مانند ہے: ﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّؔخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰؔنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَ٘قُ٘وْلَ مَا لَ٘یْسَ لِیْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐ ؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۰۰مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ ﴾ (المائدہ:5؍116، 117) ’’جب اللہ کہے گا: اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ حضرت عیسیٰ جواب دیں گے: تو پاک ہے! میری شان کے لائق نہیں کہ میں کوئی ایسی بات کہتا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوتی تو وہ تیرے علم میں ہوتی کیونکہ جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اورجو بات تیرے دل میں ہے میں اسے نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہے۔ تو نے جو مجھے حکم دیا تھا میں نے اس کے سوا انھیں کچھ نہیں کہا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمھارا رب ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اَهٰۤؤُلَآءِ اِیَّاكُمْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ۰۰قَالُوْا سُبْحٰؔنَكَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ١ۚ بَلْ كَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْ٘جِنَّ١ۚ اَ كْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ﴾ (سبا:34؍40، 41) ’’جس روز وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا: کیا یہ لوگ تمھاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے: تو پاک ہے، ان کو چھوڑ کر ہمارا ولی تو تُو ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہماری نہیں بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر انھی کو مانتے تھے۔‘‘ اور فرمایا:﴿ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءًؔ وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ ﴾ (الاحقاف:46؍6) ’’جب تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔‘‘ جب انھوں نے اس بات سے اپنے آپ کو بری ٔالذمہ قرار دیا کہ انھوں نے غیر اللہ کی عبادت کی طرف ان کو بلایا یا ان کو گمراہ کیا ہو۔ تو انھوں نے مشرکین کی گمراہی کا اصل سبب ذکر کرتے ہوئے کہا: ﴿ وَلٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَاٰبَآءَهُمْ ﴾ یعنی تو نے ان کو اور ان کے آباءواجداد کو دنیا کی لذات و شہوات اور اس کے دیگر مطالب سے فائدہ اٹھانے دیا﴿ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَ﴾ ’’یہاں تک کہ وہ نصیحت کو بھلا بیٹھے۔‘‘ لذات دنیا میں مشغول اور اس کی شہوت میں مستغرق ہو کر ۔ پس انھوں نے اپنی دنیا کی تو حفاظت کی لیکن اپنے دین کو ضائع کر دیا﴿ وَؔكَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا ﴾ ’’اور تھی وہ ہلاک ہی ہونے والی قوم۔‘‘ (بائرین) ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ وہ کسی اصلاح کی طرف راغب نہیں ہوتے اور وہ ہلاکت کے سوا کسی چیز کے لائق نہیں ہوتے۔ پس انھوں نے اس مانع کا ذکر کیا جس نے ان کو اتباع ہدایت سے روک دیا اور وہ ہے ان کا دنیا سے متمتع ہونا، جس نے ان کو راہ راست سے ہٹا دیا… پس ان کے لیے ہدایت کا تقاضا معدوم ہے یعنی ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں جب تقاضا معدوم اور مانع موجود ہو تو آپ جو شر اور ہلاکت چاہیں وہ ان کے اندر دیکھ سکتے ہیں ۔
#
{19} فلما تبرَّوْا منهم؛ قال الله توبيخاً وتقريعاً للمعاندين: {فقد كَذَّبوكُم بما تقولونَ}: إنَّهم أمروكم بعبادتهم ورَضوا فِعْلَكم وإنَّهم شفعاء لكم عند ربكم؛ كذَّبوكم في ذلك الزعم، وصاروا من أكبر أعدائِكِم، فحقَّ عليكم العذاب. {فما تستطيعونَ صرفاً}: للعذابِ عنكم بفِعْلِكم أو بفداءٍ أو غيرِ ذلك {ولا نصراً}: لعجزكم وعدم ناصرِكم. هذا حكم الضالِّين المقلِّدين الجاهلين كما رأيت، أسوأُ حكم وأشرُّ مصير. وأما المعاند منهم الذي عَرَفَ الحقَّ وصَدَفَ عنه؛ فقال في حقِّه: {ومَن يَظْلِم منكُم}: بترك الحقِّ ظلماً وعناداً؛ {نُذِقْه عذاباً كبيراً}: لا يُقادَرُ قَدْرُهُ ولا يُبْلَغ أمرُه.
[19] پس جب ان مشرکین کے معبود ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے تو اللہ تعالیٰ معاندین حق کی زجروتوبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ فَقَدْ كَذَّبُوْؔكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ﴾ ’’انھوں نے تو تمھیں تمھاری باتوں میں جھٹلا دیا۔‘‘ یعنی وہ اس بات کا انکار کریں گے کہ انھوں نے تمھیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا یا تمھارے اس شرک پر راضی تھے یا یہ کہ وہ تمھارے رب کے پاس تمھاری سفارش کریں گے۔ وہ تمھارے اس زعم باطل کی تکذیب کریں گے اور وہ تمھارے سب سے بڑے دشمن بن جائیں گے۔ پس تم پر عذاب واجب ہو جائے گا۔ ﴿ فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ۠ صَرْفًا ﴾ ’’پس نہیں طاقت رکھو گے تم اس کو پھیرنے کی۔‘‘ یعنی تم بالفعل اپنے سے اس عذاب کو ہٹا سکو گے نہ فدیہ وغیرہ کے ذریعے اس کو دور کر سکو گے﴿ وَّلَا نَصْرًا﴾ ’’اور نہ مدد کرنے کی۔‘‘ یعنی تم اپنے عجز اور کسی حامی و ناصر کے نہ ہونے کی وجہ سے، اپنی مدد نہ کر سکو گے۔ یہ گمراہ اور جاہل مقلدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور یہ، جیسا کہ آپ نے دیکھا، ان کے حق میں انتہائی برا فیصلہ اور ان کا بدترین ٹھکانا ہے۔ رہا ان میں سے حق کے ساتھ عناد رکھنے والا شخص، جس نے حق کو پہچان کر اس سے منہ موڑ لیا تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّؔنْكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے جو کوئی ظلم اور عناد کی بنا پر حق کو چھوڑ دیتا ہے تو ﴿ نُذِقْهُ عَذَابً٘ا كَبِیْرًا ﴾ ہم اس کو اتنے بڑے عذاب کا مزا چکھائیں گے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔
#
{20} ثم قال تعالى جواباً لقول المكذبين ـ: {ما لهذا الرسولِ يأكُلُ الطعام ويمشي في الأسواقِ} ـ: [{وما أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ من الْمُرْسَلِينَ إلاَّ إنَّهُم لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ في الأَسْوَاقِ}]: فما جَعَلناهم جسداً لا يأكلونَ الطعامَ وما جَعَلْناهم ملائكةً؛ فلك فيهم أسوةٌ، وأمَّا الغنى والفقرُ؛ فهو فتنةٌ وحكمةٌ من الله تعالى؛ كما قال: {وجَعَلْنا بعضَكم لبعضٍ فتنةً}: الرسولُ فتنةٌ للمرسَلِ إليهم واختبارٌ للمطيعين من العاصين، والرُّسُل فَتَنَّاهم بدعوة الخلق، والغنيُّ فتنةٌ للفقير، والفقير فتنةٌ للغنيِّ، وهكذا سائر أصناف الخلق في هذه الدار دار الفتن والابتلاء والاختبار، والقصد من تلك الفتنةِ: {أتصبِرونَ}، فتقومون بما هو وظيفتُكُم اللازمةُ الراتبةُ، فيثيبُكم مولاكم، أم لا تصبِرونَ فتستحقُّون المعاقبة؟ {وكان ربُّك بصيراً}: يعلم أحوالَكم، ويَصْطَفي من يَعْلَمُهُ يَصْلُحُ لرسالتِهِ، ويختصُّه بتفضيلِهِ ويعلم أعمالَكم فيجازيكم عليها إنْ خيراً فخير وإن شرًّا فشر.
[20] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کے اعتراض﴿ مَالِ هٰؔذَا الرَّسُوْلِ یَ٘اْكُ٘لُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ﴾ (الفرقان:25؍7) ’’یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ ﴾ ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔‘‘ پس ہم نے ان کو کوئی ایسی مخلوق نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتی ہو اور نہ ہم نے ان کو فرشتے بنایا۔ پس وہ آپ کے لیے نمونہ ہیں ۔ رہا فقروغنا تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس کی حکمت پر مبنی آزمائش ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً﴾ ’’اور بنایا ہم نے ایک کو دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ۔‘‘ یعنی رسول ان لوگوں کے لیے آزمائش ہے جن کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، نیز اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ اطاعت کرنے والوں اور نافرمانی کرنے والوں کے درمیان فرق واضح ہو جائے اور رسولوں کو ہم نے آزمایا مخلوق کو دعوت دینے کے ذریعے سے۔ مال دار فقیر کے لیے اور فقیر مال دار کے لیے آزمائش ہے اور اسی طرح اس دنیا میں مخلوق کی تمام قسمیں آزمائش، ابتلاء اور امتحان میں مبتلا ہیں ۔ اس امتحان اور آزمائش سے مقصود یہ ہے۔ ﴿ اَتَصْبِرُوْنَ﴾ کہ تم صبر کر کے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہو تاکہ تمھارا مولا تمھیں ثواب عطا کرے یا صبر نہیں کرتے اور اس طرح تم عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہو﴿ وَؔكَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا ﴾ ’’اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ وہ تمھارے احوال کو دیکھتا اور جانتا ہے اور وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ رسالت کا اہل ہے اور وہ اسے اپنی فضیلت کے لیے مختص کر لیتا ہے۔ وہ تمھارے اعمال کا علم رکھتا ہے، وہ تمھیں ان کی جزا دے گا اگر اچھے اعمال ہوں گے تو اچھی جزا ہو گی اور برے اعمال ہوں گے تو بری جزا ہو گی۔
آیت: 21 - 23 #
{وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَى رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا (21) يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا (22) وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا (23)}.
اور کہا ان لوگوں نے جو نہیں امید رکھتے ہماری ملاقات کی، کیوں نہیں نازل کیے گئے ہم پر فرشتے؟ یادیکھتے ہم اپنے رب کو البتہ تحقیق تکبر کیا انھوں نے اپنے دلوں میں اور سرکشی کی انھوں نے سرکشی بہت بڑی (21) جس دن وہ دیکھیں گے فرشتوں کو، نہیں ہو گی کوئی خوشخبری اس دن مجرموں کے لیے اور وہ (فرشتے) کہیں گے (بہشت تم پر) ممنوع ہے، حرام کر دی گئی ہے (22) اور قصد کریں گے ہم طرف اس کی جو کیے تھے انھوں نے کوئی (نیک) عمل، پس بنا دیں گے ہم ان کو مانند ذرات اڑائے ہوؤں کے (23)
#
{21} أي: قال المكذِّبون للرسول، المكذِّبون بوعد الله ووعيده، الذين ليس في قلوبهم خوفُ الوعيد ولا رجاءُ لقاء الخالق: {لولا أُنزِلَ علينا الملائكةُ أو نرى رَبَّنا}؛ أي: هلاَّ نزلت الملائكة تشهدُ لك بالرسالةِ وتؤيِّدُك عليها، أو تنزِلُ رسلاً مستقلِّين، أو نرى ربَّنا فيكلِّمنا ويقول: هذا رسولي؛ فاتِّبعوه! وهذا معارضةٌ للرسول بما ليس بمعارِضٍ، بل بالتكبُّر والعلوِّ والعتوِّ. {لقدِ اسْتَكْبَروا في أنْفُسِهِم}: حيث اقترحوا هذا الاقتراح وتجرؤوا هذه الجرأةَ؛ فمن أنتم يا فقراءُ ويا مساكينُ حتى تطلبوا رؤيةَ الله وتزعُموا أن الرسالة متوقِّف ثبوتُها على ذلك؟! وأيُّ كِبْرٍ أعظم من هذا؟! {وعَتَوْا عُتُوًّا كبيراً}؛ أي: قسوا وصلبوا عن الحقِّ قساوةً عظيمة؛ فقلوبهم أشدُّ من الأحجار وأصلبُ من الحديد، لا تَلين للحقِّ ولا تُصْغي للناصحين؛ فلذلك لم ينجعْ فيهم وعظٌ ولا تذكيرٌ، ولا اتَّبعوا الحقَّ حين جاءهم النذيرُ، بل قابلوا أصدقَ الخَلْقِ وأنصَحَهم وآياتِ الله البيناتِ بالإعراض والتكذيب [والمعارضة]؛ فأيُّ عتوٍّ أكبرُ من هذا العتوِّ؟! ولذلك بَطَلَتْ أعمالُهم، واضمحلَّتْ، وخسروا أشدَّ الخسران، [وحرموا غايةَ الحرمانِ].
[21] وہ لوگ جنھوں نے رسول اللہ e کی تکذیب کی، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ و وعید کو جھٹلایا، جن کے دل میں وعید کا خوف ہے نہ خالق سے ملاقات کی امید… انھوں نے کہا: ﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا﴾ یعنی فرشتے کیوں نہ اترے جو تیری رسالت کی گواہی دیتے اور تیری تائید کرتے یا مستقل رسول نازل ہوتے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے وہ ہمارے ساتھ کلام کرتا اور خود کہتا کہ یہ میرا رسول ہے اس کی اتباع کرو؟ رسول (e)کے ساتھ یہ معارضہ کسی اعتراض کی بنا پر نہیں بلکہ اس کا سبب صرف تکبر، تغلب اور سرکشی ہے۔ ﴿لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’انھوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے۔‘‘ کیونکہ انھوں نے اس قسم کے اعتراض كيے اور اتنی جسارت کا مظاہرہ کیا۔ اے محتاج اور بے بس لوگو! تم ہو کون، جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ رسالت کی صحت کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے دیدار پر موقوف ہے۔ اس سے بڑا تکبر اور کیا ہو سکتا ہے؟ ﴿وَعَتَوْ عُتُوًّ٘ا كَبِیْرًا ﴾ ’’اور انھوں نے بڑی سرکشی کی۔‘‘ یعنی انھوں نے حق کے خلاف قساوت اور صلابت کا رویہ اختیار کیا۔ پس ان کے دل پتھر اور فولاد سے زیادہ سخت تھے وہ حق کے لیے نرم پڑتے تھے نہ خیرخواہی کرنے والوں کی آواز پر کان دھرتے تھے، اس لیے ان کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور جب ان کے پاس ان کو ان کے انجام سے ڈرانے والا آیا تو انھوں نے اس کی پیروی نہ کی بلکہ انھوں نے مخلوق میں سب سے زیادہ سچی اور خیرخواہ ہستی کا اور اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کا اعراض و تکذیب کے ساتھ استقبال کیا، اس سے بڑھ کر اور کونسی سرکشی ہو سکتی ہے؟ بنابریں ان کے اعمال باطل ہو کر اکارت گئے اور وہ سخت خسارے میں مبتلا ہو گئے۔
#
{22} {يوم يرون الملائكةَ}: [التي اقترحوا نُزُولَها]، {لا بُشْرى يومئذٍ للمجرِمين}: وذلك أنَّهم لا يَرَوْنَها مع استمرارِهم على جُرْمِهِم وعنادِهم إلاَّ لعقوبتِهِم وحلول البأسِ بهم: فأولُ ذلك عند الموت إذا تنزَّلت عليهم الملائكةُ؛ قال الله تعالى: {ولو تَرى إذِ الظالمونَ في غمراتِ الموتِ والملائكةُ باسطو أيديهم أخْرِجُوا أنفُسَكُمُ اليَوْمَ تُجْزَوْنَ عذابَ الهُونِ بما كنتُم تقولونَ على الله غيرَ الحقِّ وكنتُم عن آياتِهِ تَسْتَكْبِرونَ}. ثم في القبر حيث يأتيهم منكرٌ ونكيرٌ، فيسألهم عن ربِّهم ونبيِّهم ودينهم، فلا يجيبونَ جواباً يُنجيهم، فيحلُّون بهم النقمةَ وتزول عنهم بهم الرحمة. ثم يوم القيامة حين تسوقُهُم الملائكةُ إلى النار، ثم يسلِّمونَهم لخزنة جهنَّم، الذين يتولَّوْن عذابَهم ويباشِرون عقابَهم. فهذا الذي اقترحوه وهذا الذي طلبوه إنِ استمرُّوا على إجرامِهِم لا بدَّ أن يَرَوْهُ ويَلْقَوْه، وحينئذٍ يتعوَّذونَ من الملائكة ويفرُّون، ولكن لا مفرَّ لهم، {ويقولون حِجْراً مَحْجوراً}: {يا معشرَ الجنِّ والإنسِ إنِ استَطَعْتُم أن تَنْفُذوا من أقطارِ السمواتِ والأرضِ فانفُذوا لا تَنفُذونَ إلاَّ بسُلْطانٍ}.
[22] ﴿ یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىِٕكَةَ ﴾ ’’جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے۔‘‘ جن کے نزول کا انھوں نے مطالبہ کیا تھا ﴿ لَا بُشْرٰى یَوْمَىِٕذٍ لِّ٘لْ٘مُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اس دن مجرموں کے لیے کوئی خوش خبری نہ ہو گی۔‘‘ یہ اس وجہ سے کہ وہ اپنے جرم اور عناد پر جمے رہنے کی بنا پر فرشتوں کو صرف اس وقت دیکھیں گے جب وہ ان کو سزا دینے اور ان پر عذاب نازل کرنے کے لیے آئیں گے۔ پس یہ پہلا موقع ہو گا جب موت کے وقت ان پر فرشتے نازل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَ٘مَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَ٘اسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَؔكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ (الانعام: 6؍93) ’’کاش آپ ان ظالم مشرکوں کو اس وقت دیکھیں ، جب یہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے اور فرشتے جان قبض کرنے کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، (اور کہتے ہوں گے) نکالو اپنی جانیں ، آج تمھیں انتہائی رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی یہ سزا اس پاداش میں ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کیا کرتے تھے۔‘‘ دوسرا موقع وہ ہے جب قبر میں ان کے پاس منکرنکیر آئیں گے، پس وہ ان سے ان کے رب، ان کے نبی اور ان کے دین کے بارے میں پوچھیں گے اور وہ کوئی ایسا جواب نہ دے پائیں گے جو ان کو عذاب سے نجات دلا سکے۔ پس ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی نازل ہو گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دیے جائیں گے۔ تیسرا موقع وہ ہے جب قیامت کے روز فرشتے انھیں جہنم کی طرف ہانک کر لے جائیں گے اور پھر ان کو جہنم کے فرشتوں کے حوالے کر دیں گے جو ان کو سزا اور عذاب دینے پر مقرر ہوں گے۔ پس یہی وہ چیز ہے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ اپنے جرائم پر جمے رہے تو لازمی طور پر اس کا سامنا کریں گے اور وہ اس وقت فرشتوں سے پناہ مانگیں گے، ان سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے لیکن ان کے لیے کوئی فرار کی راہ نہ ہو گی۔ ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّؔحْجُوْرًا﴾ ’’اور وہ کہیں گے یہ محروم ہی محروم کیے گئے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰمَعْشَرَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰ٘نٍ﴾ (الرحمن:55؍23) ’’اے جن و انس کے گروہ! تمھیں زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جانے کی قدرت ہے تو نکل جاؤ، تم طاقت کے سوا نکل نہیں سکتے۔ ‘‘
#
{23} {وقَدِمْنا إلى ما عملوا من عمل}؛ أي: أعمالهم التي رَجَوْا أن تكونَ خيراً وتعبوا فيها، {فجَعَلْناه هباءً منثوراً}؛ أي: باطلاً مضمحلًّا قد خسروه وحُرِموا أجره وعوقبوا عليه، وذلك لفقدِهِ الإيمان وصدورِهِ عن مكذِّب لله ورسله؛ فالعمل الذي يقبلُهُ الله ما صَدَرَ من المؤمن المخلصِ المصدِّق للرسل المتَّبِع لهم فيه.
[23] ﴿ وَقَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ ﴾ یعنی ان کے وہ اعمال جن کے بارے میں انھیں امید ہے کہ وہ نیکی کے کام ہیں اور ان کے لیے انھوں نے مشقت اٹھائی ہے ﴿ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا ﴾ ’’پس ہم ان کو اڑے ہوئے ذرات کی طرح کر دیں گے۔‘‘ یعنی ان کا سب کیا دھرا باطل کر دیں گے، وہ گھاٹے میں رہیں گے اور ان کو اجر سے محروم کر دیا جائے گا اور ان کو سزا دی جائے گی۔ کیونکہ یہ اعمال ایسے شخص سے صادر ہوئے ہیں جس میں ایمان کا فقدان ہے اور جو اللہ اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو مخلص مومن، رسولوں کی تصدیق اور ان کی اتباع کرنے والے سے صادر ہو۔
آیت: 24 #
{أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا (24)}.
جنتی لوگ اس دن بہت بہتر ہوں گے باعتبار ٹھکانے کے اور بہت اچھے ہوں گے باعتبار آرام گاہ کے (24)
#
{24} أي: في ذلك اليوم الهائل كثير البلابل، {أصحابُ الجنَّة}: الذين آمنوا بالله وعملوا صالحاً واتَّقوا ربَّهم {خيرٌ مستقرًّا}: من أهل النار، {وأحسنُ مَقيلاً}؛ أي: مستقرُّهم في الجنة وراحتُهم التي هي القيلولة هو المستقرُّ النافع والراحةُ التامَّة؛ لاشتمال ذلك على تمام النعيم الذي لا يَشوبه كَدَرٌ؛ بخلاف أصحاب النار؛ فإنَّ جهنَّم مستقرُّهم ساءت مستقرًّا ومقيلاً، وهذا من باب استعمال أفعل التفضيل فيما ليس في الطرف الآخر منهُ شيءٌ؛ لأنَّه لا خير في مَقيل أهل النارِ ومستقرِّهم؛ كقوله: {آللهُ خيرٌ أمَّا يُشْرِكونَ}.
[24] یعنی قیامت کے ہول ناک اور سخت مصیبت والے دن ﴿ اَصْحٰؔبُ الْجَنَّةِ ﴾ ’’اہل جنت‘‘ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، انھوں نے نیک کام كيے اور اپنے رب سے ڈرتے رہے۔ ﴿ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا ﴾ ’’وہ بہتر ہوں گے باعتبار ٹھکانے کے‘‘ جہنمیوں سے ﴿ وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا ﴾ ’’اور خواب گاہ بھی عمدہ ہوگی۔‘‘ یعنی ان کا ٹھکانا جنت میں ہو گا، وہ آرام اور راحت میں قیلولہ کریں گے کیونکہ وہ کامل نعمتوں پر مشتمل، جن میں تکدر کا کوئی شائبہ تک نہ ہو گا، بہت اچھا اور مکمل طور پر آرام دہ ٹھکانا ہو گا۔ اس کے برعکس اہل جہنم کا ٹھکانا بہت برا ٹھکانا ہو گا… یہ اسلوب بیان اسم تفضیل کے اس باب سے تعلق رکھتا ہے جس میں دوسری طرف، اس میں سے کوئی چیز نہیں ہوتی کیونکہ اہل جہنم کے ٹھکانے اور قیلولے کی جگہ میں کوئی بھلائی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ (النمل:27؍59) ’’اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ معبودان باطل جنھیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رہے ہیں ؟‘‘
آیت: 25 - 29 #
{وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنْزِيلًا (25) الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا (26) وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَالَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا (27) يَاوَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا (28) لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا (29)}.
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان ساتھ بادلوں کے اور نازل کیے جائیں گے فرشتے (لگاتار) نازل کیے جانا (25) بادشاہی، اس دن حقیقی، رحمن ہی کے لیے ہو گی اور ہو گا وہ دن کافروں پر نہایت سخت (26)اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے دونوں ہاتھ (اور)کہے گا، اے کاش! پکڑتا (اختیار کرتا) میں رسول کے ساتھ راستہ (27) ہائے میری کم بختی! کاش کہ میں نہ پکڑتا فلاں (شخص) کو دوست (28) البتہ تحقیق گمرہ کیا اس نے مجھے اس ذکر (قرآن) سے بعد اس کے کہ وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان، انسان کو بے یارو مدد گار چھوڑ دینے والا (29)
#
{25 ـ 26} يُخبر تعالى عن عَظَمَةِ يوم القيامة وما فيه من الشدَّة والكُروب ومزعجات القلوب، فقال: {ويوم تَشَقَّقُ السماءُ بالغمام}: وذلك الغمام الذي ينزل الله فيه؛ ينزِلُ من فوق السماوات، فَتَنْفَطِرُ له السماواتُ وتشقَّق وتنزِلُ [ملائكةُ] كلِّ سماء، فيقفون صفًّا صفًّا، إمّا صفًّا واحداً محيطاً بالخلائق، وإمّا كلُّ سماء يكونون صفًّا، ثم السماء التي تليها صفًّا ، وهكذا القصدُ أنَّ الملائكةَ على كَثْرَتِهم وقوَّتِهم ينزلون محيطين بالخَلْق مذعِنين لأمرِ ربِّهم لا يتكلَّم منهم أحدٌ إلاَّ بإذن من الله؛ فما ظنُّك بالآدميِّ الضعيف، خصوصاً الذي بارز مالِكَه بالعظائم، وأقدم على مساخطِهِ، ثم قدم عليه بذُنوبٍ وخطايا لم يتبْ منها، فيحكُمُ فيه الملكُ الخلاَّقُ بالحكم الذي لا يجورُ ولا يظلمُ مثقالَ ذرَّةٍ، ولهذا قال: {وكان يوماً على الكافرين عسيراً}: لصعوبتِهِ الشَّديدة وتعسُّرِ أمورِهِ عليه؛ بخلاف المؤمن؛ فإنَّه يسيرٌ عليه خفيفُ الحمل: {ويَوْمَ نحشُرُ المتَّقينَ إلى الرحمن وفداً. ونَسوقُ المجْرِمين إلى جَهَنَّمَ ورْداً}. وقوله: {الملك يومئذٍ}؛ أي: يوم القيامةِ، {الحقُّ للرحمن}: لا يبقى لأحدٍ من المخلوقين مُلْكٌ ولا صورةُ مُلْكٍ؛ كما كانوا في الدنيا، بل قد تساوتِ الملوكُ ورعاياهم والأحرارُ والعبيدُ والأشرافُ وغيرهم. وممَّا يرتاحُ له القلبُ وتطمئنُّ به النفس وينشرحُ له الصدرُ أنَّه أضاف الملك في يوم القيامة لاسمِهِ الرحمن؛ الذي وسعتْ رحمتُهُ كلَّ شيءٍ، وعمَّت كلَّ حيٍّ، وملأتِ الكائناتِ، وعمرت بها الدُّنيا والآخرة، وتمَّ بها كلُّ ناقص، وزال بها كلُّ نقص، وغلبت الأسماءُ الدالَّةُ عليه الأسماءَ الدالَّة على الغضب، وسبقت رحمتُه غضَبَه وغلبتْه؛ فلها السبق والغلبة، وخَلَقَ هذا الآدميَّ الضعيف وشرَّفَه وكرَّمه لِيُتِمَّ عليه نعمته وليتغمَّدَه برحمته، وقد حضروا في موقف الذلِّ والخضوع والاستكانة بين يديه؛ ينتظرون ما يحكم فيهم وما يُجري عليهم، وهو أرحم بهم من أنفسهم ووالديهم؛ فما ظنُّك بما يعامِلُهم به، ولا يَهْلِكُ على الله إلاَّ هالكٌ، ولا يخرج من رحمتِهِ إلاَّ من غلبتْ عليه الشَّقاوة، وحقَّتْ عليه كلمةُ العذاب.
[26,25] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کی عظمت اور اس دن پیش آنے والی سختی اور کرب اور دلوں کو ہلا دینے والے مناظر کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿وَیَوْمَ تَ٘شَ٘قَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ﴾ ’’اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا ساتھ بادل کے۔‘‘ یہ وہ بادل ہو گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں سے نزول فرمائے گا۔ پس آسمان پھٹ جائیں گے اور تمام آسمانوں کے فرشتے نیچے اتر آئیں گے اور صف در صف کھڑے ہو جائیں گے یا تو تمام ایک ہی صف بنا کر تمام خلائق کو گھیر لیں گے یا اس کی صورت یہ ہو گی کہ ایک آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اس کے ساتھ دوسرے آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اور اسی طرح ساتوں آسمانوں کے فرشتے صف در صف موجود ہوں گے مقصد یہ ہے کہ فرشتے نہایت کثرت اور قوت کے ساتھ نازل ہوں گے۔ ان میں سے کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کر سکے گا۔ (اس روز جب یہ حال ہو گا) تو اس کمزور آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کام كيے اور توبہ كيے بغیر گناہوں کا بوجھ اٹھائے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ جو بادشاہ اور خلاّقِ کائنات ہے، ان کے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس میں ذرہ بھر ظلم وجور نہ ہو گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَانَ یَوْمًا عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا ﴾ یہ دن اپنی سختی اور صعوبت کی وجہ سے کفار کے لیے بہت کٹھن ہو گا اور ان کے تمام امور ان کے لیے بہت مشکل ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس مومن کا معاملہ آسان اور اس کا بوجھ بہت ہلکا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یَوْمَ نَحْشُ٘رُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ۰۰ وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا﴾ (مریم:19؍85۔86) ’’جس روز ہم اہل تقویٰ کو اکٹھا کر کے رحمان کے حضور مہمانوں کے طور پر پیش کریں گے اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانک کر لے جائیں گے۔‘‘ ﴿اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذٍ﴾ ’’بادشاہی اس روز‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ ’’رحمان ہی کے لیے صحیح طور پر ہو گی۔‘‘ یعنی مخلوقات میں سے کسی کے لیے کوئی اختیار یا اختیار و اقتدار کی کوئی صورت نہیں ہو گی جس طرح کہ وہ دنیا میں تھے۔ بلکہ بادشاہ اور ان کی رعایا، آزاد اور غلام، اشرف اور نیچ سب برابر ہوں گے اور جس چیز سے دل کو راحت اور نفس کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز اقتدار کی اپنے اسم مبارک ﴿الرَّحْمٰنِ ﴾ کی طرف اضافت کی ہے۔ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر زندہ کے لیے عام ہے، اس نے تمام کائنات کو لبریز کر رکھا ہے، دنیا و آخرت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے معمور ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر ناقص کامل ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت سے ہر نقص زائل ہو جاتا ہے۔ اس کی رحمت پر دلالت کرنے والے اسمائے حسنیٰ ان اسمائے حسنیٰ پر غالب ہیں جو اس کے غضب پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس کی رحمت کو اس کے غضب پر سبقت حاصل ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔پس اس کے لیے سبقت اور غلبہ ہے۔ یہ کمزور آدمی اس لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسے عزت و تکریم اس لیے عطا کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمت کا اتمام کرے اور اسے اپنی نعمت سے ڈھانپ لے۔ لوگ تذلل، خضوع اور انکسار کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انتظار کریں گے کہ وہ کیا حکم جاری کرتا ہے درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتا ہے جتنا وہ خود اپنے آپ پر رحم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے والدین سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ پس آپ کا کیا خیال ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ کیسا معاملہ کرے گا؟اور اللہ تعالیٰ صرف اسی کو ہلاک کرے گا جو خود ہلاک ہونا چاہتا ہے، اس کی رحمت کے دائرے سے صرف وہی خارج ہو گا جس پر بدبختی غالب آ گئی ہو اور جس پر عذاب واجب ٹھہر گیا ہو۔
#
{27} {ويوم يَعَضُّ الظالمُ}: بشركِهِ وكفرِهِ وتكذيبِهِ للرسل {على يديه}: تأسُّفاً وتحسُّراً وحزناً وأسفاً، {يقولُ يا ليتني اتَّخَذْتُ مع الرسول سبيلاً}؛ أي: طريقاً بالإيمان به وتصديقِهِ واتِّباعِهِ.
[27] ﴿ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ ﴾ ’’اور جس دن کاٹے گا ظالم‘‘ اپنے شرک، کفر اور انبیاء ورسل کی تکذیب کی بنا پر ﴿ عَلٰى یَدَیْهِ﴾ ’’اپنے ہاتھوں کو۔‘‘ تاسف، حسرت اور حزن و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا۔ ﴿ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا﴾ ’’وہ کہے گا، ہائے افسوس! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔‘‘ یعنی رسول (e)پر ایمان، آپ کی تصدیق اور آپ کی اتباع کا راستہ۔
#
{28} {يا ويلتى ليتني لم أتَّخِذْ فلاناً}: وهو الشيطانُ الإنسيُّ أو الجنيُّ {خليلاً}؛ أي: حبيباً مصافياً، عاديتُ أنصحَ الناس لي وأبرَّهم بي وأرفَقَهم بي، وواليتُ أعدى عدوٍّ لي، الذي لم تُفِدْني ولايتُهُ إلاَّ الشقاءَ والخسارَ والخِزْيَ والبَوارَ.
[28] ﴿ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا ﴾ ’’ہائے افسوس، کاش نہ پکڑا ہوتا میں نے فلاں کو‘‘ یعنی شیاطین انس و جن کو ﴿ خَلِیْلًا ﴾ یعنی اپنا جگری دوست اور مخلص ساتھی۔ میں نے ان ہستیوں سے عداوت رکھی جو میرے سب سے زیادہ خیرخواہ، میرے ساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والے اور مجھ پر سب سے زیادہ مہربان تھے اور اس کو دوست بنایا جو درحقیقت میرا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس کی دوستی نے بدبختی، خسارے، رسوائی اور ہلاکت کے سوا کوئی فائدہ نہ دیا۔
#
{29} {لقد أضلَّني عن الذِّكْرِ بعد إذْ جاءَني}: حيثُ زين له ما هو عليه من الضَّلال بخدعِهِ وتسويله، {وكان الشيطانُ للإنسانِ خَذولاً}: يزيِّن له الباطلَ ويقبِّحُ له الحقَّ ويَعِدُه الأماني ثم يتخلَّى عنه ويتبرَّأ منه؛ كما قال لجميع أتباعه حين قُضِيَ الأمرُ وفَرَغَ اللهُ من حساب الخلق: {وقالَ الشيطانُ لمّا قُضِيَ الأمرُ إنَّ اللهَ وَعَدَكُم وَعْدَ الحقِّ ووعَدْتُكم فأخلَفْتُكم وما كان لي عليكم من سلطانٍ إلاَّ أن دَعَوْتُكُم فاستجَبْتُم لي فلا تلوموني ولوموا أنفُسَكُم ما أنا بِمُصْرِخِكُم وما أنتُم بمُصْرِخِيَّ إنِّي كفرتُ بما أشْرَكْتُموني من قبل ... } الآية؛ فلينظر العبد لنفسِهِ وقتَ الإمكان، وليَتداركْ الممكنَ قبل أن لا يمكنَ، ولْيوالي مَن ولايتُهُ فيها سعادتُهُ، ويعادي مَنْ تنفعُهُ عداوتُهُ وتضرُّه صداقتُه. والله الموفقُ.
[29] ﴿ لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ﴾ ’’بلاشبہ میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد اس نے مجھے اس سے بھٹکا دیا۔‘‘ کیونکہ اس نے دھوکے اور فریب سے اس کی گمراہی کو اس کے سامنے مزین کر دیا۔ ﴿ وَؔكَانَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا﴾ ’’اور ہے شیطان، انسان کو دغا دینے والا۔‘‘ یعنی شیطان انسان کے سامنے باطل کو آراستہ کرتا ہے اور حق کو بری صورت میں پیش کرتا ہے، اسے بڑی بڑی آرزوئیں دلاتا ہے بعدازاں اس سے علیحدہ ہو کر اس سے براء ت کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ قیامت کے روز۔ جب تمام معاملات چکا دیے جائیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق کے حساب کتاب سے فارغ ہو گا تو شیطان اس روز اپنے پیروں کاروں سے کہے گا: ﴿ وَقَالَ الشَّ٘یْطٰنُ لَمَّا قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۠١ؕ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰ٘نٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ١ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ١ؕ اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَؔكْتُمُوْنِ۠ مِنْ قَبْلُ﴾ (ابراہیم:14؍22) ’’اور جب تمام معاملات کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا، بے شک اللہ نے جو تم سے وعدہ کیا تھا وہ سچا وعدہ تھا اور میں نے تمھارے ساتھ جتنے وعدے كيے تھے ان میں کوئی وعدہ پورا نہ کیا، میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا۔ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ میں نے تمھیں اپنے راستے کی طرف بلایا اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ پس اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ اب میں تمھاری فریاد رسی کر سکتا ہوں نہ تم میری کر سکتے ہو، اس سے پہلے تم نے جو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا میں اس سے بھی براء ت کا اعلان کرتا ہوں ۔‘‘ پس بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ پر غور کرے اور اس وقت سے پہلے کہ گناہوں کا تدارک ممکن نہ رہے بندے کو چاہیے کہ اپنے گناہوں کا تدارک کرلے۔ اور اس ہستی کو اپنا دوست بنائے جس کی دوستی میں سعادت ہے اور اسے اپنا دشمن سمجھے جس کو دشمن سمجھنے میں فائدہ اور اس کے دوست بنانے میں سراسر نقصان ہے۔ واللہ الموفق۔
آیت: 30 - 31 #
{وَقَالَ الرَّسُولُ يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (30) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا (31)}.
اور کہیں گے (اللہ کے) رسول، اے میرے رب ! بلاشبہ میری قوم نے بنا (ٹھہرا) لیا تھا اس قرآن کو چھوڑا ہوا (30) اور اسی طرح بنائے ہم نے واسطے ہر نبی کے دشمن مجرموں میں سے اورکافی ہے آپ کا رب ہدایت دینے والااور مدد گار (31)
#
{30} {وقال الرسولُ}: منادياً لربِّه وشاكياً عليه إعراض قومِهِ عمَّا جاء به ومتأسفاً على ذلك منهم: {يا ربِّ إنَّ قومي}: الذي أرسلْتَني لهدايتهم وتبليغهم {اتَّخذوا هذه القرآن مَهْجوراً}؛ أي: قد أعرضوا عنه وهجروه وتركوه، مع أنَّ الواجب عليهم الانقيادُ لحكمه والإقبال على أحكامه والمشي خلفه.
[30] ﴿وَقَالَ الرَّسُوْلُ ﴾ اور کہا رسول(e) نے‘‘ اپنے رب کو پکارتے، قرآن سے ان کی روگردانی کا شکوہ کرتے اور ان کے رویے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے: ﴿ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی ﴾ ’’اے میرے رب! میری قوم نے۔‘‘ جن کی ہدایت اور جن میں تبلیغ کرنے کے لیے تو نے مجھے مبعوث کیا تھا ﴿ اتَّؔخَذُوْا هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنَ مَهْجُوْرًا﴾ انھوں نے اس قرآن سے اعراض کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اس کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے، اس کے احکام کو قبول کرتے اور اس کی پیروی کرتے۔
#
{31} قال الله مسلياً لرسولِهِ ومخبراً: إنَّ هؤلاء الخلق لهم سلفٌ صنعوا كصنيعِهِم، فقال: {وكذلك جَعَلْنا لكلِّ نبيٍّ عدوًّا من المجرمين}؛ أي: من الذين لا يصلحون للخير ولا يزكون عليه؛ يعارضونهم، ويردُّون عليهم، ويجادلونهم بالباطل. من بعض فوائد ذلك أنْ يعلوَ الحقُّ على الباطل، وأن يتبيَّن الحقُّ ويتَّضح اتِّضاحاً عظيماً؛ لأنَّ معارضة الباطل للحقِّ مما تزيدُهُ وضوحاً وبياناً وكمالَ استدلال، وأن نتبيَّن ما يفعل الله بأهل الحقِّ من الكرامة، وبأهل الباطل من العقوبة؛ فلا تحزنْ عليهم، ولا تَذْهَبْ نفسُك عليهم حسراتٍ، {وكفى بربِّك هادياً}: يهديك فيحصُلُ لك المطلوبُ ومصالحُ دينك ودنياك، {ونَصيراً}: ينصُرُك على أعدائِكَ، ويدفعُ عنك كلَّ مكروه في أمر الدين والدُّنيا؛ فاكتف به وتوكَّلْ عليه.
[31] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول(e) کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ان کے گزشتہ آباء واجداد نے بھی ایسا ہی کیا تھا جیسا کہ یہ کر رہے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَؔكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُ٘لِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ ’’اور اسی طرح بنایا ہم نے ہر نبی کا دشمن، گناہ گاروں میں سے۔‘‘ یعنی ان لوگوں میں سے جو بھلائی کی صلاحیت رکھتے تھے نہ اس کے لائق تھے بلکہ اس کے برعکس وہ انبیاء ورسل کی مخالفت کرتے تھے، ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اور باطل دلائل کے ذریعے سے ان کے ساتھ جھگڑتے تھے۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ حق ہمیشہ باطل پر غالب آتا ہے، حق پوری طرح واضح ہوتا ہے کیونکہ باطل کا حق کے ساتھ معارضہ ایک ایسا امر ہے جو حق کو اور زیادہ واضح اور استدلال کو درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو کس عزت و تکریم سے سرفراز کرے گا اور اہل باطل کے ساتھ کیا سلوک کرے گا، لہٰذا آپ ان کی باتوں پر غمزوہ نہ ہوں اور ان پر حسرت اور غم کے مارے آپ کی جان نہ گھلے۔ ﴿ وَؔكَ٘فٰى بِرَبِّكَ هَادِیً٘ا﴾ ’’اور آپ کو راہ دکھانے کے لیے آپ کا رب کافی ہے۔‘‘ پس آپ کو اپنا مطلوب و مقصود اور دنیا و آخرت کے تمام مصالح حاصل ہوں گے۔ ﴿وَنَصِیْرًا﴾ ’’اور مددگار بھی۔‘‘ وہ آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کی مدد کرے گا آپ کے دینی اور دنیاوی معاملات میں آپ سے تکلیف دہ امور کو دور کرے گا، اس لیے آپ اللہ تعالیٰ ہی کو کافی سمجھیے اور اسی پر بھروسہ کیجیے۔
آیت: 32 - 33 #
{وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا (32) وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (33)}.
اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، کیوں نہیں اتارا گیا اس (رسول) پر (یہ) قرآن اکٹھا ایک بار ہی؟ اسی طرح (اتارا ہم نے) تاکہ ہم مضبوط کر دیں اس کے ذریعے سے آپ کا دل اور ہم نے اتارا اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنا(32) اور نہیں لاتے وہ آپ کے پاس کوئی مثال مگر لاتے ہیں ہم آپ کے پاس حق اور بہترین توجیہ (33)
#
{32} هذا من جملة مقترحات الكفَّار الذي توحيه إليهم أنفسُهُم، فقالوا: {لولا نُزِّلَ عليه القرآنُ جملةً واحدةً}؛ أي: كَمَا أُنْزِلَت الكتبُ قبلَه. وأيُّ محذورٍ من نزوله على هذا الوجه؟! بل نزوله على هذا الوجه أكمل وأحسن، ولهذا قال: {كذلك}: أنزلناه متفرقاً {لِنُثَبِّتَ به فؤادَكَ}: لأنَّه كلَّما نزلَ عليه شيء من القرآن؛ ازداد طمأنينةً وثباتاً، وخصوصاً عند ورود أسباب القلق؛ فإنَّ نزول القرآن عند حدوثه يكون له موقعٌ عظيمٌ وتثبيتٌ كثيرٌ أبلغ مما لو كان نازلاً قبل ذلك ثم تذكَّره عند حلول سببه، {ورتَّلْناه ترتيلاً}؛ أي: مَهَّلْناه، ودرَّجْناك فيه تدريجاً. وهذا كلُّه يدلُّ على اعتناء الله بكتابه القرآن وبرسولِهِ محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ حيث جعل إنزال كتابه جارياً على أحوال الرسول ومصالحِهِ الدينيَّةِ.
[32] یہ کفار کے جملہ اعتراضات میں سے ایک اعتراض ہے جو ان کو ان کے نفس نے سجھایا ہے، چنانچہ ان کا قول ہے: ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْ٘قُ٘رْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً﴾ یعنی وہ کونسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے تمام قرآن ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا، جیسا کہ اس سے پہلے کتابیں نازل ہوئیں ؟ بلکہ اس کا ایک ہی دفعہ نازل ہونا تو زیادہ اچھا ہے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے ﴿لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ﴾ ’’تاکہ ہم اس کے ذریعے سے آپ کے دل کو مضبوط کریں ۔‘‘ کیونکہ جب بھی آپ پر قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا تھا آپ کے اطمینان اور ثابت قدمی میں اضافہ ہو جاتا تھا، خاص طور پر اس وقت جب اسباب قلق وارد ہوتے تو آپ کا اطمینان بڑھ جاتا تھا کیونکہ کسی قلق کے پیش آنے پر قرآن کا نازل ہونا بر محل ہے اور بہت زیادہ ثبات کا باعث ہے اور اس سے زیادہ فائدہ مند ہے کہ اس واقعہ سے پہلے نازل ہوا ہو اور اس سبب کے وقوع پر یاد آئے۔ ﴿ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا﴾ ’’ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے۔‘‘ یعنی ہم نے اسے آہستہ آہستہ بتدریج نازل کیا۔ یہ تمام آیات کریمہ اپنے رسول محمد مصطفیe کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اعتناء پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو رسول e کے احوال اور آپ کے دینی مصالح کے مطابق نازل فرمایا۔
#
{33} ولهذا قال: {ولا يأتونَكَ بِمَثَلٍ}: يعارضون به الحقَّ ويدفعون به رسالتك، {إلاَّ جئناك بالحقِّ وأحسنَ تفسيراً}؛ أي: أنزلنا عليك قرآناً جامعاً للحقِّ في معانيه والوضوح والبيان التامِّ في ألفاظِهِ؛ فمعانيه كلُّها حقٌّ وصدقٌ لا يشوبها باطلٌ ولا شبهةٌ بوجه من الوجوه، وألفاظُهُ وحدودُهُ للأشياء أوضحُ ألفاظاً وأحسنُ تفسيراً، مبين للمعاني بياناً كاملاً. وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّه ينبغي للمتكلِّم في العلم من محدِّث ومعلِّم وواعظٍ أن يقتدي بربِّه في تدبيره حال رسوله، كذلك العالم يدبِّر أمر الخلق، وكلَّما حدث موجبٌ أو حصل موسمٌ؛ أتى بما يناسب ذلك من الآيات القرآنية والأحاديث النبويَّة والمواعظ الموافقة لذلك. وفيه ردٌّ على المتكلِّفين من الجهميَّة ونحوهم ممَّن يرى أنَّ كثيراً من نصوص القرآن محمولةٌ على غير ظاهرها، ولها معانٍ غير ما يُفْهَم منها؛ فإذاً على قولهم لا يكون القرآن أحسنَ تفسيراً من غيره، وإنما التفسير الأحسن على زعمهم تفسيرُهم الذي حرَّفوا له المعاني تحريفاً!
[33] اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَا یَ٘اْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ ﴾ ’’اور یہ لوگ کوئی بھی ایسی مثال آپ کے سامنے پیش نہیں کریں گے۔‘‘ جس سے وہ حق کے ساتھ معارضہ (مقابلہ) کریں اور آپ کی رسالت کا انکار کریں ۔ ﴿ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ﴾ ’’مگر ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے۔‘‘ یعنی ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا جو اپنے معانی میں جامع، اپنے الفاظ میں واضح اور بیان کامل کا حامل ہے۔ اس کے تمام معانی حق اور صداقت پر مبنی ہیں جس میں کسی بھی پہلو سے باطل کا کوئی شائبہ نہیں ، تمام اشیاء کے بارے میں اس کے الفاظ اور حدود انتہائی واضح، مفصل اور معانی کو کامل طور پر بیان کرتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ علم میں بحث کرنے والے محدث، معلم یا واعظ کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے رب کی تدبیر کی پیروی کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e کے احوال کے مطابق تدبیر فرمائی اسی طرح اس عالم کو چاہیے کو وہ مخلوق کے معاملے کی اسی طرح تدبیر کرے جب بھی کوئی ایسا موجب اور موقع پیش آئے تو موقع کی مناسبت سے لوگوں میں آیات قرآنی، احادیث نبوی اور مواعظ بیان کرے۔ نیز ان آیات کریمہ میں جہمیہ کا رد ہے جو قرآن کریم کی تفسیر میں تکلف سے کام لیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی بہت سے نصوص کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول نہیں کیا جائے گا، ان کے اصل معانی ان معانی سے مختلف ہیں جو ظاہر میں سمجھ میں آئے ہیں تب اگر ان کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو قرآن کی یہ تفسیر ’’احسن تفسیر‘‘ نہیں ہو گی ان کے زعم باطل کے مطابق، احسن تفسیر تو وہ ہے، جس کے لیے وہ معانی میں تحریف کرتے ہیں ۔
آیت: 34 #
{الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَى جَهَنَّمَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا (34)}.
وہ لوگ کہ اکٹھے کیے جائیں گے وہ اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف، یہ لوگ بدترین ہیں باعتبار مکان کےاور سب سے زیادہ بہکے ہوئے ہیں باعتبار راہ کے (34)
#
{34} يخبر تعالى عن حال المشركين الذين كذَّبوا رسوله وسوءَ مآلهم وأنهم {يُحْشَرون على وجوهِهِم}: في أشنع مرأى وأفظع منظرٍ، تسحبُهُم ملائكةُ العذاب ويجرُّونهم {إلى جهنَّم}: الجامعة لكلِّ عذابٍ وعقوبة، {أولئك}: الذين بهذه الحال {شرٌّ مكاناً}: ممَّن آمن بالله وصدَّق رسلَه {وأضلُّ سبيلاً}: وهذا من باب استعمال أفعل التفضيل فيما ليس في الطرف الآخر منه شيء؛ فإنَّ المؤمنين حسنٌ مكانهم ومستقرُّهم، واهتدوا في الدنيا إلى الصراط المستقيم، وفي الآخرة إلى الوصول إلى جنات النعيم.
[34] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کے احوال اور ان کے انجام کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ ﴾ ’’وہ منہ کے بل جمع کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی ان کو جمع كيے جانے کا منظر بدترین منظر ہو گا۔ عذاب کے فرشتے انھیں (چہروں کے بل) گھسیٹ رہے ہوں گے ﴿ اِلٰى جَهَنَّمَ﴾ ’’جہنم کی طرف۔‘‘ جس میں ہر قسم کا بدترین عذاب اور عقاب جمع ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی جن کا حال یہ ہے ﴿ شَرٌّ مَّكَانًا ﴾ ان کی جگہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں کی جگہ کی نسبت سے بدترین جگہ ہے۔ ﴿ وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ ’’اور بہت زیادہ گمراہ راستے والے ہیں ۔‘‘ یہ اسلوب بیان اسم تفضیل کے اس باب میں سے ہے جس کے بالمقابل دوسرا پہلو موجود نہیں ہوتا۔ پس اہل ایمان کی جگہ بہترین ٹھکانا ہو گی۔ اس دنیا میں ان کو راہ راست کی طرف راہنمائی عطا کی جاتی ہے اور آخرت میں انھیں نعمت والے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔
آیت: 35 - 40 #
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا (35) فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا (36) وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا (37) وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا (38) وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا (39) وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا (40)}.
اور البتہ تحقیق دی تھی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور بنایا تھا ہم نے اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو مدد گار (35) پس کہا ہم نے ، جاؤ تم دونوں اس قوم کی طرف، جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، پس ہلاک کر دیا ہم نے انھیں (بالکل ہی) ہلاک کرنا (36)اور قوم نوح کو (بھی) جب جھٹلایا انھوں نے رسولوں کو، غرق کر دیا ہم نے ان کواور بنا دیا ہم نے انھیں لوگوں کے لیے (عبرت کا) نشان اور تیار کیا ہے ہم نے ظالموں کے لیے عذاب بہت درد ناک(37) اور (ہلاک کر دیا ہم نے) قوم عاد اورثموداور کنویں والوں کو اور (دیگر) قوموں کو درمیان ان کے بہت سی (38) اور ہر ایک، بیان کیں ہم نے اس کے لیے مثالیں اور سب کو ملیامیٹ کر دیا ہم نے تباہ و برباد کر کے (39)اور البتہ تحقیق وہ آئے (گزرے) ہیں اوپر اس بستی کے کہ جس پر برسائی گئی بارش بری کیا پس نہیں تھے وہ، کہ دیکھتے وہ اس (بستی) کو؟بلکہ تھے وہ نہیں امید رکھتے دوبارہ (جی) اٹھنے کی (40)
#
{35 ـ 40} أشار تعالى إلى هذه القَصَص، وقد بسطها في آياتٍ أخرَ؛ ليحذِّرَ المخاطبين من استمرارِهم على تكذيب رسولهم، فيصيبُهم ما أصاب هؤلاء الأمم الذين كانوا قريباً منهم ويعرفون قَصصهم بما استفاض واشْتُهِر عنهم، ومنهم مَنْ يَرَوْن آثارَهم عياناً؛ كقوم صالح في الحجر، وكالقريةِ التي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْء بحجارة من سِجِّيل؛ يمرُّون عليهم مصبحين وبالليل في أسفارهم؛ فإنَّ أولئك الأمم ليسوا شرًّا منهم، ورسلهم ليسوا خيراً من رسول هؤلاء؛ {أكُفَّارُكُم خيرٌ من أولئكُم أمْ لكم براءةٌ في الزُّبُر}، ولكنَّ الذي منع هؤلاء من الإيمان مع ما شاهدوا من الآيات أنَّهم كانوا لا يَرْجونَ بعثاً ولا نُشوراً؛ فلا يرجون لقاء ربِّهم، ولا يَخْشَوْن نَكاله؛ فلذلك استمرُّوا على عنادهم، وإلاَّ؛ فقد جاءهم من الآيات ما لا يبقى معه شكٌ ولا شبهةٌ ولا إشكالٌ ولا ارتيابٌ.
[40-35] اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو دیگر آیات میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ مخاطبین کو انبیاء و رسل کی تکذیب پر جمے رہنے سے ڈرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہو جائے جو ان سے پہلی قوموں پر نازل ہوا تھا، جو ان کے قریب ہی آباد تھیں وہ ان کے واقعات کو خوب جانتے ہیں اور ان کے واقعات بہت مشہور ہیں ۔ بعض قوموں کے آثار کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں ، مثلاً: حجر کے علاقے میں صالح u کی قوم اور وہ بستی جس پر کھنگر کے پتھروں کی بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ ان کا اپنے سفروں کے دوران میں دن رات ان بستیوں پر گزر ہوتا ہے۔ وہ قومیں ان سے کوئی زیادہ بری نہیں تھیں اور نہ ان کے رسول ان لوگوں کے رسول (e)سے بہتر تھے۔ ﴿ اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِ﴾ (القمر:54؍43) ’’کیا تمھارے کفار ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمھارے لیے پہلی کتابوں میں براء ت نامہ تحریر کر دیا گیا ہے۔‘‘ جس چیز نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے، حالانکہ وہ نشانیوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں ، وہ یہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی امید نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی امید رکھتے ہیں نہ اس کی سزا سے ڈرتے ہیں ۔ اسی لیے وہ اپنے عناد پر جمے ہوئے ہیں ورنہ ان کے پاس ایسی ایسی نشانیاں آئی ہیں جنھوں نے کوئی شک و شبہ اور کوئی اشکال وریب باقی نہیں رہنے دیا۔
آیت: 41 - 44 #
{وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا (41) إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا (42) أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (43) أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا (44)}.
اور جب وہ دیکھتے ہیں آپ کو تو نہیں پکڑتے وہ آپ کو مگر ٹھٹھا مذاق (کہتے ہیں ) کیا یہی ہے وہ جسے بھیجا ہے اللہ نے رسول (بنا کر)؟ (41) تحقیق قریب تھا وہ کہ گمراہ کر دیتا ہمیں ہمارے معبودوں سے، اگر نہ ہوتی یہ بات کہ جمے رہے ہم ان پر اور عنقریب جان لیں گے وہ، جب وہ دیکھیں گے عذاب، کہ کون زیادہ گمراہ تھا راستے سے؟ (42) کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو کہ بنا لیا اس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو؟ کیا پس آپ ہیں اس کے ذمے دار؟ (43) یا گمان کرتے ہیں آپ کہ بے شک اکثر ان کے سنتے یاسمجھتے ہیں ؟ نہیں ہیں وہ مگر چوپایوں ہی کی طرح بلکہ وہ زیادہ گمراہ ہیں باعتبار راستے کے (44)
#
{41} أي: {وإذا رَأوْك}: يا محمد؛ هؤلاء المكذِّبون لك، المعاندون لآيات الله، المستكبرون في الأرض؛ استهزؤوا بك، واحتقروك، وقالوا على وجه الاحتقار والاستصغار: {أهذا الذي بَعَثَ الله رسولاً}؛ أي: غير مناسب ولا لائق أن يَبْعَثَ الله هذا الرجل! وهذه من شدَّة ظلمِهِم وعنادِهِم وقلبهم الحقائق؛ فإنَّ كلامَهم هذا يُفْهِمُ أنَّ الرسولَ ـ حاشاه ـ في غاية الخِسَّة والحقارة، وأنَّه لو كانتِ الرسالةُ لغيره؛ لكان أنسب. {وقالوا لولا نُزِّلَ هذا القرآنُ على رجل من القريتينِ عظيم}؛ فهذا الكلام لا يصدُرُ إلاَّ من أجهل الناس وأضلِّهم، أو من أعظمهم عناداً، وهو متجاهلٌ، قصدُه ترويج ما معه من الباطل بالقدح بالحقِّ وبمن جاء به، وإلاَّ؛ فمنْ تدبَّر أحوال محمد بن عبد الله - صلى الله عليه وسلم -؛ وَجَدَه رجل العالم وهمامهم ومقدَّمهم في العقل والعلم واللُّبِّ والرَّزانة ومكارم الأخلاق ومحاسن الشيم والعفة والشجاعة والكرم وكلِّ خُلُق فاضل. وأنَّ المحتقرَ له والشانئ له قد جمع من السَّفَه والجهل والضلال والتَّناقُض والظُّلم والعدوان ما لا يجمعُه غيره. وحسبه جهلاً وضلالاً أن يَقْدَحَ بهذا الرسول العظيم والهُمام الكريم، والقصد من قدحِهِم فيه واستهزائِهِم به؛ تصلُّبهم على باطلهم وغُروراً لِضُعَفَاءِ العقول.
[41] اے محمد! (e) آپ کی تکذیب کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات سے عناد رکھنے والے اور زمین پر تکبر سے چلنے والے جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے استہزاء کرتے ہیں اور آپ کی تحقیر کرتے ہیں ، آپ کو معمولی سمجھتے ہوئے حقارت آمیز لہجے میں کہتے ہیں : ﴿ اَهٰؔذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا ﴾ ’’کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟‘‘ یعنی یہ مناسب اور لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسول بناتا۔ یہ سب کچھ ان کے شدت ظلم، ان کے عناد اور حقائق بدلنے کے سبب تھا کیونکہ ان کے اس کلام سے یہ ذہن میں آتا ہے کہ (معاذ اللہ) رسول (e)انتہائی خسیس اور حقیر شخص تھے اور اگر رسالت کا منصب کسی اور شخص کو عطا کیا گیا ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔ ﴿ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْ٘قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ﴾ (الزخرف:43؍31) ’’وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اتارا گیا۔‘‘ پس یہ کلام کسی جاہل ترین اور گمراہ ترین شخص ہی سے صادر ہو سکتا ہے یا کسی ایسے شخص سے صادر ہو سکتا ہے جو بڑا عناد پسند اور جانتے بوجھتے جاہل ہو۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے نظریات کو رائج کرے اور حق اور حق پیش کرنے والے میں جرح و قدح کرے، ورنہ اگر کوئی شخص، رسول مصطفیٰ محمد بن عبداللہ e کے احوال پر غور کرے تو وہ آپ کو عقل، علم، ذہانت، وقار، مکارم اخلاق، محاسن عادات، عفت، شجاعت اور تمام اخلاق فاضلہ میں دنیا کا سب سے بڑا شخص، ان کا سردار اور ان کا قائد پائے گا۔ آپ کو حقیر جاننے اور آپ کے ساتھ دشمنی رکھنے والے شخص میں حماقت، جہالت، گمراہی، تناقض، ظلم اور تعدی جمع ہیں جو کسی اور شخص میں جمع نہیں ۔ اس کی جہالت اور گمراہی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اس عظیم رسول اور بہترین قائد میں جرح و قدح کرتا ہے۔ اس جرح و قدح سے اس کا مقصد آپ کا تمسخر اڑانا، اپنے باطل نظریات پر ڈٹے رہنا اور ضعیف العقل لوگوں کو فریب دینا ہے۔
#
{42} ولهذا قالوا: {إن كاد لَيُضِلُّنا عن آلهتنا} [هذا الرجل]: بأن يجعل الآلهة إلهاً واحداً، {لولا أن صَبَرْنا عليها}: لأضلَّنا. زعموا قبَّحهم الله أنَّ الضَّلال هو التوحيد، وأنَّ الهُدى ما هم عليه من الشرك؛ فلهذا تواصَوْا بالصبر عليه، {وانَطَلَقَ الملأُ منهم أنِ امْشوا واصبِروا على آلهتكم}، وهنا قالوا: {لولا أن صَبَرْنا عليها}: والصبر يُحمد في المواضع كلِّها؛ إلاَّ في هذا الموضع؛ فإنه صبرٌ على أسباب الغضب، وعلى الاستكثار من حطب جهنَّم، وأما المؤمنون؛ فهم كما قال الله عنهم: {وتواصَوْا بالحقِّ وتواصَوْا بالصبرِ}، ولما كان هذا حكماً منهم بأنَّهم المهتدون والرسول ضالٌّ، وقد تقرَّر أنَّهم لا حيلة فيهم توعَّدهم بالعذاب، وأخبر أنهم في ذلك الوقت، {حين يَرَوْنَ العذاب}: يعلمون علماً حقيقيًّا، {مَنْ} هو {أضَلُّ سبيلاً}. {ويوم يَعَضُّ الظالم على يديهِ يقولُ يا ليتني اتَّخَذْتُ مع الرسول سبيلاً ... } الآيات.
[42] اس لیے انھوں نے کہا: ﴿ اِنْ كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا ﴾ ’’یقینا یہ تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا چلا تھا۔‘‘ کیونکہ یہ سب معبودوں کو ختم کر کے ایک ہی معبود قرار دیتا ہے۔ ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَا ﴾ ’’اگر ہم ان معبودوں کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے‘‘ تو اس نے ہمیں گمراہ کر دیا ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے… اللہ ان کا برا کرے… کہ توحید گمراہی ہے اوران کے شرکیہ عقائد ہی سراسر ہدایت ہیں ، لہٰذا وہ اپنے ان عقائد پر ثابت قدم رہنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے تھے۔ ﴿ وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰۤى اٰلِهَتِكُمْ﴾ (صٓ:38؍6) ’’اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو۔‘‘ یہاں ان مشرکین نے کہا: ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَا ﴾ اور صبر سوائے اس مقام کے ہر مقام پر قابل تعریف ہے کیونکہ یہ اسباب غضب اور جہنم کا ایندھن بننے پر صبر کرنا ہے۔ رہے اہل ایمان تو ان کے رویے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ١ۙ۬ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر:103؍3) ’’وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے ہیں ۔‘‘ چونکہ ان کا فیصلہ تھا کہ وہ راہ راست پر گامزن ہیں اور رسول گمراہ ہے حالانکہ یہ بات متحقق ہے کہ ان کے پاس تصرف کی قدرت اور کوئی اختیار نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کی وعید سناتے ہوئے آگاہ فرمایا: ﴿حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ﴾ ’’کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے‘‘ تب انھیں اس حقیقت کا علم ہو گا کہ ﴿ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا﴾ ’’راہ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟‘‘ ﴿ وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا﴾ (الفرقان:25؍27) ’’اور اس روز ظالم اپنا ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔‘‘
#
{43} وهل فوق ضلال مَنْ جعل إلهه معبودَه ؛ فما هويه فعله؟! فلهذا قال: {أرأيتَ مَنِ اتَّخَذَ إلهه هواه}: ألا تعجبُ من حاله وتنظُر ما هو فيه من الضلال وهو يحكُم لنفسِهِ بالمنازل الرفيعة، {أفأنتَ تكون عليه وكيلاً}؛ أي: لست عليه بمسيطرٍ مسلَّط، بل إنما أنت منذرٌ قد قمتَ بوظيفتِك. وحسابُهُ على الله.
[43] کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی گمراہی ہے کہ انسان اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لے اور جو جی چاہے کرتا رہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّؔخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ﴾ ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا۔‘‘ کیا آپ کو اس کے حال پر تعجب نہیں ، کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ وہ کس گمراہی میں مبتلا ہے اور حال یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بلند منازل کا مستحق سمجھتا ہے؟ ﴿ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَؔكِیْلًا﴾ ’’کیا آپ اس پر وکیل ہوں گے؟‘‘ یعنی آپ کو اس پر نگران مقرر نہیں کیا آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں ۔ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔
#
{44} ثمَّ سجَّل تعالى على ضلالهم البليغ بأنْ سَلَبَهُمُ العقولَ والأسماع، وشبَّههم في ضلالهم بالأنعام السائمة التي لا تسمعُ إلاَّ دعاءً ونداءً {صمٌ بكمٌ عميٌ فهم لا يعقِلونَ}، بل هم أضلُّ من الأنعام؛ فإنَّ الأنعام يهديها راعيها فتهتدي، وتعرف طريق هلاكها فتجتنبه، وهي أيضاً أسلم عاقبةً من هؤلاء، فتبيَّن بهذا أن الرامي للرسول بالضَّلال أحقُّ بهذا الوصف، وأنَّ كلَّ حيوان بهيم؛ فهو أهدى منه.
[44] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حد کو پہنچی ہوئی گمراہی پر یہ فیصلہ کیا کہ ان کی عقل اور سماعت کو سلب کر لیا اور گمراہی میں ان کو مویشیوں سے تشبیہ دی جو آواز اور پکار کے سوا کچھ نہیں سنتے وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اس لیے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، بلکہ یہ تو چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔ کیونکہ مویشیوں کو جب ان کا چرواہا راہ دکھاتا ہے تو وہ اس راہ پر چل پڑتے ہیں وہ ہلاکت کی راہوں کو پہچانتے ہیں اس لیے ان سے بچتے ہیں ۔ ان چوپایوں کی عاقبت ان گمراہوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہے۔پس اس سے واضح ہو گیا کہ رسول (e)پر گمراہی کا الزام لگانے والا خود اس وصف کا زیادہ مستحق ہے اور جانور بھی اس سے زیادہ راہ راست پر ہیں ۔
آیت: 45 - 46 #
{أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا (45) ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا (46)}
کیا نہیں دیکھا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف کہ کیسے پھیلا دیا اس نے سائے کو؟ اور اگر وہ چاہتا تو البتہ بنا دیتا اسے ساکن، پھر بنایا ہم نے سورج کو اس پر راہنما (45) پھر سمیٹ لیا ہم نے اسے اپنی طرف سمیٹنا تھوڑا تھوڑا(46)
#
{45 ـ 46} أي: ألم تشاهِدْ ببصرك وبصيرتِك كمالَ قدرةِ ربِّك وسَعَةِ رحمتِهِ: أنَّه مدَّ على العباد الظلَّ، وذلك قبل طلوع الشمس، {ثم جَعَلْنا الشمس عليه}؛ أي: على الظلِّ {دليلاً}: فلولا وجودُ الشمس؛ لما عُرِفَ الظلُّ؛ فإنَّ الضدَّ يعرف بضده، {ثم قَبَضْناه إلينا قبضاً يسيراً}؛ فكلَّما ارتفعتِ الشمس؛ تقلَّص الظِّلُّ شيئاً فشيئاً، حتى يذهب بالكُلِّيَّة. فتوالي الظل والشمس على الخلق الذي يشاهدونه عياناً، وما يترتَّب على ذلك من اختلاف الليل والنهار وتعاقُبِهما وتعاقُبِ الفصول وحصول المصالح الكثيرة بسبب ذلك؛ من أدلِّ دليل على قدرةِ الله وعظمتِهِ، وكمال رحمتِهِ وعنايتِهِ بعبادِهِ، وأنَّه وحدَه المعبودُ المحمودُ المحبوب المعظَّم ذو الجلال والإكرام.
[46,45] کیا تم نے اپنی آنکھ اور اپنی بصیرت سے اپنے رب کی قدرت کاملہ اور بے پایاں رحمت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ بندوں پر سائے کو پھیلا دیتا ہے اور یہ طلوع آفتاب سے قبل ہوتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّ٘مْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا﴾ ’’پھر بنایا ہم نے سورج کو اس پر‘‘ یعنی سائے پر ﴿ دَلِیْلًا ﴾ ’’دلیل‘‘ اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ نہ پہچانا جاتا کیونکہ تمام اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ ﴿ ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا ﴾ ’’پھر ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا۔‘‘ پس جوں جوں سورج بلند ہوتا ہے تو سایہ آہستہ آہستہ سکڑتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے۔ مخلوق پر سائے اور دھوپ کا یکے بعد دیگرے واقع ہونا جس کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں ، اسی سے لیل و نہار ترتیب پاتے ہیں اور ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں پھر مختلف موسم ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور اس سبب سے مخلوق کے بہت سے مصالح حاصل ہوتے ہیں … یہ تمام امور اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت و عظمت کا مالک ہے وہ اپنے بندوں سے کمال رحمت و عنایت سے پیش آتا ہے۔ وہ اکیلا ہی معبود محمود، محبت اور تعظیم کا مستحق اور ذوالجلال والاکرام ہے۔
آیت: 47 #
{وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا (47)}.
اور وہی ہے (اللہ) جس نے بنایا تمھارے لیے رات کو لباس اور نیند کو (ذریعۂ) آرام اور اس نے بنایا دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت (47)
#
{47} أي: من رحمته بكم ولُطْفِهِ أن جَعَلَ الليل لكم بمنزلةِ اللِّباس الذي يَغْشاكم حتى تستقرُّوا فيه، وتهدؤوا بالنوم وتسبُتَ حركاتُكم؛ أي: تنقطع عند النوم؛ فلولا الليل؛ لما سكن العبادُ، ولا استمرُّوا في تصرُّفهم، فضرَّهم ذلك غاية الضرر، ولو استمرَّ أيضاً الظلام؛ لتعطَّلت عليهم معايِشُهم ومصالِحُهم، ولكنه جعل النهار نُشوراً؛ ينتشرون فيه لتجاراتهم وأسفارهم وأعمالهم، فيقوم بذلك ما يقوم من المصالح.
[47] یہ اللہ تعالیٰ کی تم پر بے پایاں رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے رات کو تمھارے لیے بمنزلہ لباس بنایا جو تمھیں ڈھانپ لیتی ہے حتیٰ کہ تم رات کے وقت قرار پکڑتے ہو، سو کر آرام کرتے ہو اور نیند کے وقت تمھاری تمام حرکات منقطع ہو جاتی ہیں ۔ اگر رات نہ ہوتی تو بندے آرام نہ کر سکتے اور اپنی مصروفیات کو جاری نہ رکھ سکتے اور اس طرح انھیں بہت زیادہ ضرر پہنچتا اور اس کے برعکس اگر ہمیشہ رات رہتی تو بندے کی معاش اور دیگر مصالح معطل ہو کر رہ جاتے۔ مگر دن کو اللہ تعالیٰ نے جی اٹھنے کا وقت بنایا ہے جس میں بندے اپنی تجارت، سفر اور دیگر کاروبار کے لیے پھیل جاتے ہیں اور اس سے ان کے مصالح کا انتظام ہوتا ہے۔
آیت: 48 - 50 #
{وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (48) لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا (49) وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا (50)}.
اور وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا ہواؤں کو خوشخبری دینے والی پہلے اپنی رحمت (بارش) کےاور نازل کیا ہم نے آسمان سے پانی پاک (48) تاکہ زندہ کریں ہم اس کے ذریعے سے مردہ شہر کو اور تاکہ پلائیں ہم وہ پانی، ان چیزوں میں سے جنھیں پیدا کیا ہم نے، مویشیوں کو اور بہت سے انسانوں کو (49) اور البتہ تحقیق پھیر پھیر کر بیان کیا ہم نے اس (قرآن) کو ان کے درمیان تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں پس انکار کیا اکثر لوگوں نے مگر کفر کرنے سے (انکار نہیں کیا) (50)
#
{48 ـ 49} أي: هو وحده الذي رحم عبادَه وأدرَّ عليهم رزقَه بأن أرسل الرياح مبشراتٍ بين يدي رحمته، وهو المطر، فثار بها السحاب وتألَّف، وصار كِسَفاً وألْقَحَتْهُ وأدرَّتْه بإذن آمرها والمتصرِّف فيها؛ ليقع استبشار العباد بالمطر قبل نزوله، وليستعدُّوا له قبل أن يَفْجَأَهم دفعةً واحدةً، {وأنْزَلْنا من السماءِ ماءً طَهوراً}: يطهِّر من الحدث والخَبَث، ويطهِّر من الغش والأدناس، وفيه بركةٌ من بركتِهِ؛ أنه أنزله ليحيي به بلدةً ميتاً، فتختلف أصناف النوابت والأشجار فيها مما يأكل الناس والأنعام، {ونُسْقِيَه مما خَلَقْنا أنعاماً وأناسِيَّ كثيراً}؛ أي: نسقيكموه أنتم وأنعامكم؛ أليس الذي أرسل الرياح المبشِّرات، وجعلها في عملها متنوِّعات، وأنزل من السماء ماء طهوراً مباركاً، فيه رزقُ العباد ورزقُ بهائمهم؛ هو الذي يستحقُّ أن يُعْبَدَ وحدَه ولا يُشْرَكَ معه غيره؟!
[49,48] یعنی اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے اپنے بندوں کو اپنی بے پایاں رحمت سے ڈھانپ لیا ہے اور اپنے رزق کی ان پر اس طرح فراوانی کی کہ اس نے اپنی رحمت یعنی بارش کے آگے آگے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجیں اور اس کے ذریعے سے اس نے بادلوں پر اپنے رزق کے دروازے کھول دیے … ان ہواؤں کے ذریعے سے بادل اٹھتا ہے پھر اکٹھا ہو کر گھٹا کے ٹکڑے بن جاتا ہے، ہوائیں اسے بار آور کرتی ہیں اور پھر اپنے رب اور تصرف کرنے والے کے حکم سے اس گھٹا کو کھینچ کر لاتی ہیں … تاکہ بارش برسنے سے پہلے بندے بارش کی آمد کی نوید پر خوش ہو جائیں اور بارش کے اچانک آجانے سے پہلے بارش کے لیے تیار ہو جائیں ۔ ﴿وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا ﴾ ’’اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی پاک کرنے والا۔‘‘ جو بندوں کو حدث اور گندگی سے پاک اور میل کچیل کو صاف کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی برکت یہ ہے کہ اس نے بارش برسا کر مردہ زمین کو زندہ کیا، پھر اس سے مختلف قسم کی نباتات اور درخت اگائے جنھیں انسان اور مویشی کھاتے ہیں : ﴿وَّنُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِیَّ كَثِیْرًا ﴾ یعنی ہم تمھیں اور تمھارے مویشیوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں ۔ کیا وہ ہستی جس نے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجیں ، ان کو متنوع امور پر مامور کیا، جس نے آسمان سے پاک اور بابرکت پانی برسایا، جس میں بندوں اور ان کے جانوروں کا رزق ہے اس بات کی مستحق نہیں کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے؟
#
{50} ولما ذكر تعالى هذه الآيات العيانيَّة المشاهدة، وصرفها للعباد ليعرفوه ويشكروه ويذكروه؛ مع ذلك: أبى {أكثرُ الناس إلا كُفوراً}: لفساد أخلاقهم وطبائعهم.
[50] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کا ذکر فرمایا جن کا عینی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور بندوں کی طرف انھیں پھیر دیا تاکہ بندے اپنے رب کو پہچان لیں ، اس کا شکر ادا کریں اور اس کو یاد رکھیں مگر اس کے باوجود ﴿فَاَبٰۤى اَ كْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا ﴾ اکثر لوگوں نے فساد اخلاق اور فساد طبائع کی بنا پر کفر اور ناشکری ہی کا رویہ اختیار کیا۔
آیت: 51 - 52 #
{وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا (51) فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (52)}.
اور اگر ہم چاہتے تو البتہ بھیجتے ہم ہر بستی میں ایک ڈرانے والا (51)پس نہ اطاعت کریں آپ کافروں کی اور جہاد کریں آپ ان سے قرآن کے ذریعے سے جہاد خوب زور سے (52)
#
{51} يخبر تعالى عن نفوذ مشيئتِهِ، وأنَّه لو شاء؛ لبعثَ في كلِّ قرية نذيراً؛ أي: رسولاً ينذِرُهم ويحذِّرهم؛ فمشيئتُهُ غير قاصرة عن ذلك، ولكنِ اقتضتْ حكمتُهُ ورحمتُهُ بك وبالعباد يا محمدُ أنْ أرسَلَك إلى جميعهم؛ أحمرِهم وأسودِهم، عربيِّهم وعجميِّهم، إنسهم وجنهم.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مشیت کے نفوذ کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتا، یعنی ہر بستی میں ایسا رسول بھیج دیتا جو ان کو گناہوں کے انجام سے ڈراتا۔ پس اس کی مشیت اس سے قاصر نہ تھی مگر اے محمد! (e)آپ اور اپنے بندوں پر اس کی حکمت اور رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ اس نے آپ کو سرخ و سیاہ، عربی و عجمی اور انس و جن تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
#
{52} {فلا تُطِعِ الكافرينَ}: في تركِ شيء مما أرْسِلْتَ به، بلِ ابذلْ جهدكَ في تبليغ ما أُرْسِلْتَ به، {وجاهِدْهم}: بالقرآن {جهاداً كبيراً}؛ أي: لا تُبْقِ من مجهودك في نصر الحقِّ وقمع الباطل إلاَّ بذلته، ولو رأيتَ منهم من التكذيب والجراءة ما رأيت؛ فابذل جهدك، واستفرغْ وُسْعَكَ، ولا تيأسْ من هدايَتِهِم، ولا تترُكْ إبلاغَهم لأهوائهم.
[52] اس لیے ﴿فَلَا تُ٘طِعِ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’پس نہ بات مانیں آپ کافروں کی۔‘‘ یعنی کفار کی بات مان کر اس چیز کو ترک نہ کیجیے جس چیز کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے بلکہ اس کی تبلیغ کے لیے پوری کوشش کیجیے۔ ﴿ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ ﴾ ’’اور ان کے ساتھ جہاد کیجیے‘‘ ﴿ جِهَادًا كَبِیْرًا ﴾ ’’جہاد بہت بڑا۔‘‘ یعنی نصرت حق اور باطل کے قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ وہ تکذیب اور جسارت پر جمے ہوئے ہیں تو آپ اپنی پوری کوشش کرتے رہیے، آپ ان کی ہدایت سے مایوس ہو کر اور ان کی خواہشات کی خاطر تبلیغ کو ترک نہ کیجیے۔
آیت: 53 #
{وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (53)}.
اور وہی ہے (اللہ) جس نے ملا دیا دو سمندروں کو، یہ میٹھا ہے خوب میٹھااور یہ کھارا ہے، نہایت کڑوا اور بنا دیا اللہ نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اورآڑ مضبوط (53)
#
{53} أي: {وهو}: وحدَه {الذي مَرَج البحرين}: يلتقيانِ؛ البحر العذبُ، وهي الأنهار السارحة على وجه الأرض، والبحر الملحُ، وجعل منفعةَ كلِّ واحدٍ منهما مصلحةً للعباد. {وجعل بينهما برزخاً}؛ أي: حاجزاً يحجُزُ من اختلاط أحدِهِما بالآخر، فتذهب المنفعةُ المقصودةُ منها {وحجراً محجوراً}؛ أي: حاجزاً حصيناً.
[53] یعنی وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ اور شیریں پانی اور یہ روئے زمین پر بہنے والے دریا ہیں ، دوسرا تلخ اور شور پانی۔ دونوں کی منفعت بندوں کے مصالح کے لیے ہے۔ ﴿وَجَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر رکھا ہے‘‘ جو دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے روکتا ہے تاکہ منفعت مقصود ضائع نہ ہو۔ ﴿ وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا﴾ اور دونوں کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ حائل ہے۔
آیت: 54 #
{وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (54)}.
اور وہی ہے (اللہ) جس نے پیدا کیا پانی (منی) سے انسان کو، پھر بنایا اسے نسب (والا) اور سسرال (والا) اور ہے آپ کا رب بڑی قدرت والا (54)
#
{54} أي: وهو الله وحدَه لا شريكَ له الذي خلق الآدميَّ من ماءٍ مَهينٍ، ثم نشر منه ذُرِّيَّةً كثيرةً، وجعلهم أنساباً وأصهاراً، متفرِّقين ومجتمعين، والمادةُ كلُّها من ذلك الماء المَهين؛ فهذا يدلُّ على كمال اقتداره؛ لقوله: {وكان ربُّك قديراً}، ويدلُّ على أنَّ عبادته هي الحقُّ وعبادة غيره باطلة؛ لقوله:
[54] وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے انسان کو ایک حقیر پانی سے پیدا کیا پھر اس میں سے بے شمار اولاد پھیلائی پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ اور اکٹھے سلسلے چلائے ان تمام کا مادہ یہی حقیر پانی ہے اور یہ چیز اس کے اقتدار پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَكَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا ﴾ ’’اور آپ کا رب بہت قدرت والا ہے۔‘‘ اور اللہ کا قادر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی عبادت حق ہے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت باطل ہے۔
آیت: 55 #
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا (55)}.
اور عبادت کرتے ہیں وہ سوائے اللہ کے ان کی کہ نہیں نفع دے سکتے وہ انھیں اور نہ وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کواور ہے کافر اپنے رب کے مقابلے میں (شیطان کا) مدد گار (55)
#
{55} أي: يعبدون أصناماً وأمواتاً لا تضرُّ ولا تنفع، ويجعلونها أنداداً لمالك النفع والضر والعطاء والمنع؛ مع أنَّ الواجب عليهم أن يكونوا مُقْتَدين بإرشادات ربِّهم، ذابِّين عن دينه، ولكنَّهم عكسوا القضية، {وكان الكافر على ربِّه ظهيراً}: فالباطل الذي هو الأوثانُ والأندادُ أعداءٌ لله؛ فالكافرُ عاوَنَها وظاهرَهَا على ربِّها، وصار عدوًّا لربِّه مبارزاً له في العداوة والحرب؛ هذا وهو الذي خلقَه ورزقَه وأنعم عليه بالنِّعَم الظاهرة والباطنة، وليس يخرُجُ عن ملكِهِ وسلطانِهِ وقبضتِهِ، والله لم يقطَعْ عنه إحسانَه وبرَّه، وهو بجهله مستمرٌّ على هذه المعاداة والمبارزة.
[55] یعنی یہ لوگ بتوں اور مردوں کی عبادت کرتے ہیں جو کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ انھوں نے ان معبودان باطل کو نفع و نقصان کے مالک کے ہمسر بنا رکھا ہے، حالانکہ ان پر فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے ارشادات کی پیروی کریں اور اس کے دین کا دفاع کریں لیکن ان کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ ﴿وَكَانَ الْ٘كَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا ﴾ ’’اور ہے کافر اپنے رب کے خلاف مدد کرنے والا۔‘‘ پس باطل جو خود ساختہ بت اور ہمسر ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اور کافر اپنے رب کے خلاف ان کی معاونت کر کے اپنے رب کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کے خلاف جنگ اور عداوت کا اعلان کرتا ہے، حالانکہ وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا، اسے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت، تسلط اور قبضۂ قدرت سے باہر نہیں نکل سکتا اور اللہ تعالیٰ اس سے اپنے احسان اور بھلائی کو کبھی منقطع نہیں کرتا، لیکن وہ ہے کہ اپنی جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت پر ڈٹا ہوا ہے۔
آیت: 56 - 60 #
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (56) قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (57) وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا (58) الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا (59) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا (60)}.
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر خوشخبری دینے والااور ڈرانے والا (بنا کر) (56) آپ کہہ دیجیے! نہیں سوال کرتا میں تم سے اس (تبلیغ) پر کسی صلے کا مگر جو چاہے یہ کہ وہ پکڑے اپنے رب کی طرف راستہ (تو وہ اسے مان لے) (57) اور آپ توکل کیجیے اوپر اس زندہ (اللہ) کے جو نہیں مرتااور آپ تسبیح کریں ساتھ اس کی حمد کےاور کافی ہے اللہ ساتھ گناہوں کے اپنے بندوں کے خبر دار ہونے کے اعتبار سے (58) وہ ذات جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں ، پھر مستوی ہوا عرش پر، (وہی) رحمن ہے، پس پوچھ لیں اس کی بابت کسی خبر رکھنے والے سے (59) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، سجدہ کرو تم رحمن کو تو کہتے ہیں وہ اور کیا ہے رحمن؟ کیا ہم سجدہ کریں اسے جس کی بابت تو حکم دیتا ہے ہمیں ؟ اور زیادہ کر دیا ان کو (تبلیغ نے) نفرت میں (60)
#
{56} يخبر تعالى أنَّه ما أرسل رسولَه محمداً - صلى الله عليه وسلم - مسيطراً على الخلق، ولا جعله مَلَكاً، ولا عندَه خزائن الأشياء، وإنما أرسله {مبشراً}: يبشِّر من أطاع الله بالثواب العاجل والآجل. {ونذيراً}: ينذر من عصى الله بالعقاب العاجل والآجل، وذلك مستلزمٌ لتبيينِ ما بِهِ البِشارةُ، وما تحصُلُ به النِّذارةُ من الأوامر والنواهي.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے رسول محمدe کو لوگوں پر داروغہ بنا کر بھیجا ہے نہ انھیں فرشتہ بنایا ہے اور نہ ان کے پاس چیزوں کے خزانے ہیں اس نے تو آپ کو صرف ﴿ مُبَشِّ٘رًا ﴾ ’’خوشخبری سنانے والا‘‘ بنا کر بھیجا ہے آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سناتے ہیں جواللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ﴿ وَّنَذِیْرًا﴾ ’’اور ڈرانے والا۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کو دنیاوی اور اخروی سزا سے ڈراتے ہیں اور یہ اوامر و نواہی میں سے ان امور کی تبیین کو مستلزم ہے جن کی بشارت دی گئی ہے اور جن سے انذار حاصل ہوتا ہے۔
#
{57} وإنَّك يا محمدُ لا تسألُهم على إبلاغِهِم القرآنَ والهدى أجراً حتى يَمْنَعَهم ذلك من اتِّباعك ويتكلَّفون من الغرامة، {إلاَّ مَن شاء أن يَتَّخِذَ إلى رَبِّه سبيلاً}؛ أي: إلاَّ مَن شاء أن يُنْفِقَ نفقةً في مرضاة ربِّه وسبيله؛ فهذا؛ وإن رغبتَّكم فيه؛ فلستُ أجْبِرُكم عليه، وليس أيضاً أجراً لي عليكم، وإنَّما هو راجعٌ لمصلحتِكم وسلوكِكم للسبيل الموصلة إلى ربكم.
[57] اے محمد! (e)آپ قرآن اور ہدایت پہنچانے پر ان سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے کہ یہ چیز ان کو آپ کی اتباع کرنے سے روکتی ہو اور انھیں اس مالی بوجھ کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہو۔ ﴿ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّؔتَّؔخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا ﴾ ’’مگر جو چاہے یہ کہ وہ اپنے رب کی طرف کوئی راستہ پکڑے۔‘‘ یعنی سوائے اس شخص کے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس بارے میں بھی میں تمھیں ترغیب دیتا ہوں لیکن تمھیں اس پر مجبور نہیں کرتا اور تمھارے ذمے میرا کوئی اجر نہیں ، یہ تو تمھاری راجح مصلحت اور تمھارے رب کے پاس پہنچانے والے راستے پر تمھارا گامزن ہونا ہے۔
#
{58} ثم أمره أن يتوكَّلَ عليه ويستعينَ به، فقال: {وتوكَّلْ على الحيِّ}: الذي له الحياة الكاملة المطلقة {الذي لا يموتُ وسَبِّحْ بحمدِهِ}؛ أي: اعبُدْه وتوكَّلْ عليه في الأمور المتعلِّقة بك والمتعلِّقة بالخلق، {وكفى به بذنوبِ عبادِهِ خبيراً}: يَعْلَمها ويجازي عليها؛ فأنتَ ليس عليك من هداهم شيءٌ، وليس عليك حفظُ أعمالهم، وإنَّما ذلك كلُّه بيد الله.
[58] پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے رب پر بھروسہ کرنے اور اسی سے مدد مانگنے کا حکم دیا، فرمایا :﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْ٘حَیِّ ﴾ ’’اور اس زندہ پر بھروسہ کیجیے۔‘‘ یعنی اس ہستی پر بھروسہ کیجیے جس کے لیے کامل اور مطلق زندگی ہے ﴿ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهٖ﴾ ’’جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کیجیے اور اپنی ذات اور مخلوق سے متعلق عام امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔ ﴿ وَكَ٘فٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرً﴾ ’’اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار ہے وہ انھیں ان گناہوں کی سزا دے گا۔ ان کی ہدایت کی ذمہ داری آپ پر ہے نہ ان کے اعمال کی حفاظت آپ کا فرض ہے۔ یہ تمام امور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔
#
{59} {الذي خلقَ السمواتِ والأرضَ وما بينهما في ستَّةِ أيام ثم استوى}: بعد ذلك {على العرش}: الذي هو سقفُ المخلوقات وأعلاها وأوسعُها وأجملُها، {الرحمن}: استوى على عرشِهِ الذي وَسِعَ السماواتِ والأرض باسمه الرحمن الذي وسعتْ رحمتُهُ كلَّ شيءٍ، فاستوى على أوسع المخلوقات بأوسع الصفاتِ، فأثبت بهذه الآية خَلْقَه للمخلوقاتِ واطِّلاعَه على ظاهِرِهم وباطِنِهم وعُلُوَّه فوق العرش ومبايَنَتَهُ إيَّاهم. {فاسألْ به خبيراً}؛ يعني: بذلك نفسَه الكريمة؛ فهو الذي يعلم أوصافَه وعظمتَه وجلاله، وقد أخبركم بذلك، وأبان لكم من عظمتِهِ ما [تسعدون] به من معرفتِهِ، فعرفه العارفونَ وخَضَعوا لجلالِهِ، واستكبر عن عبادتِهِ الكافرون، واستَنْكَفوا عن ذلك.
[59] ﴿الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى ﴾ ’’جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ مستوی ہوا۔‘‘ یعنی ان امور کے بعد ﴿ عَلَى الْ٘عَرْشِ﴾ ’’عرش پر ‘‘وہ جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے اور تمام مخلوقات سے بلند، سب سے وسیع اور سب سے خوبصورت ہے۔ ﴿ اَلرَّحْمٰنُ ﴾ ’’وہ رحم کرنے والا ہے‘‘ جس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی سب سے زیادہ وسیع صفت کے ساتھ مخلوقات میں سے سب سے زیادہ وسیع مخلوق پر مستوی ہوا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، وہ ان کے تمام ظاہر و باطن کی اطلاع رکھتا ہے، وہ عرش کے اوپر مستوی اور تمام مخلوق سے جدا ہے۔ ﴿ فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِیْرًا ﴾ ’’تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر۔‘‘ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی ذات کریمہ مراد لی ہے۔ وہی ہے جو اپنے تمام اوصاف اور اپنی عظمت و جلال کا علم رکھتا ہے اور اس نے تمھیں اپنے بارے میں آگاہ فرما دیا ہے اور اس نے تمھارے سامنے اپنی عظمت بیان کر دی ہے۔ جس کے ذریعے سے تم اس کی معرفت حاصل کر سکتے ہو۔ عارف اس کی معرفت حاصل کر کے اس کے سامنے سرافگندہ ہو گئے اور کفار نے اس کی عبادت سے تکبر کیا اور اس کو عار گردانتے ہوئے اس سے اعراض کیا۔
#
{60} ولهذا قال: {وإذا قيلَ لهم اسجُدوا للرحمن}؛ أي: وحده، الذي أنعم عليكم بسائر النعم، ودفع عنكم جميع النقم، {قالوا} جحداً وكفراً: {وما الرحمن}: بزعمِهِم الفاسدُ أنَّهم لا يعرِفون الرحمن، وجعلوا من جملةِ قوادحِهِم في الرسول أنْ قالوا: ينهانا عن اتِّخاذ آلهة مع الله، وهو يدعو معه إلهاً آخر؛ يقول: يا رحمن! ونحو ذلك؛ كما قال تعالى: {قلِ ادْعوا اللهَ أو ادْعوا الرحمن أيًّا ما تَدْعُو فله الأسماءُ الحسنى}: فأسماؤه تعالى كثيرةٌ لكَثْرَة أوصافِهِ وتعدُّد كمالِهِ؛ فكلُّ واحد منها دلَّ على صفة كمال، {أنسجُدُ لما تأمُرُنا}؛ أي: لمجرَّد أمرِك إيَّانا، وهذا مبنيٌّ منهم على التكذيب بالرسول واستكبارِهِم عن طاعته، {وزادَهم}: دعوتُهم إلى السجود للرحمن {نُفوراً}: هرباً من الحقِّ إلى الباطل وزيادة كفر وشقاء.
[60] بنابریں فرمایا: ﴿ وَاِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ ﴾ ’’جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو۔‘‘ یعنی صرف رحمن کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ جس نے تمھیں تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور تم سے تمام سختیوں کو دور کیا ہے ﴿قَالُوْا﴾ ’’تو انھوں نے (انکار کرتے ہوئے) کہا:‘‘ ﴿وَمَا الرَّحْمٰنُ﴾ ’’اور رحمان کیا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے زعم فاسد کے مطابق کہتے ہیں کہ وہ ’’رحمن‘‘ کو نہیں پہچانتے۔ رسول (e)کے بارے میں ان کی جملہ جرح وقدح یہ بھی ہے کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک اور معبود کو پکارتا ہے اور کہتا ہے )یارحمٰن( جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰؔى ﴾ (بنی اسرائیل:17؍110) ’’کہہ دیجیے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر پکارو۔ اسے جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام بہت اچھے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے کثرت اوصاف اور تعدد کمال کی بنا پر اس کے نام بھی بکثرت ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام اس کی ایک صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا ﴾ ’’کیا جس کے لیے تم ہمیں کہتے ہو کہ ہم اس کے آگے سجدہ کریں ۔‘‘ یعنی مجرد تیرے حکم دینے سے اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں ۔ ان کا یہ قول رسول (e)کی تکذیب اور اللہ کی اطاعت کے بارے میں ان کے تکبر پر مبنی ہے۔ ﴿ وَزَادَهُمْ ﴾ ’’اور زیادہ کیا ان کو‘‘ یعنی رحمن کو سجدہ کرنے کی دعوت نے ﴿ نُفُوْرًا ﴾ ’’بدکنے میں ‘‘ یعنی ان کے حق سے باطل کی طرف بھاگنے، ان کے کفر اور ان کی بدبختی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
آیت: 61 - 62 #
{تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا (61) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا (62)}
بابرکت ہے وہ ذات جس نے بنائے آسمان میں برج اور اس نے بنایا اس میں چراغ (سورج) اور چاند روشن (61)اور وہی ہے، (اللہ) جس نے بنایا رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا واسطے اس شخص کے جو چاہے یہ کہ نصیحت حاصل کرے وہ یا چاہے وہ شکر کرنا (62)
اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ کریمہ میں (تبارک) کا لفظ تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے، یہ لفظ باری تعالیٰ کی عظمت، اس کے اوصاف کی کثرت اور اس کے احسان اور بھلائی کی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سورۂ مبارکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی لامحدود قوت و تسلط، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کے علم و قدرت کے عموم، امری و جزائی احکام پر اس کے احاطۂ اختیار اور اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی بے پایاں رحمت، اس کے وسیع جود وکرم اور اس کے دینی و دنیاوی احسانات پر دلالت کرتی ہیں یہ تمام اس وصف حسن کے تکرار کا تقاضا کرتے ہیں ،
#
{61} فقال: {تبارك الذي جَعَلَ في السماء بروجاً}: وهي النجوم عمومها أو منازل الشمس والقمر التي [تنزلها] منزلةً منزلة، وهي بمنزلة البروج والقلاع للمدن في حفظها، كذلك النجوم بمنزلة البروج المجعولة للحراسة؛ فإنَّها رجومٌ للشياطين، {وجعل فيها سِراجاً}: فيه النور والحرارة، وهي الشمس {وقمراً منيراً}: فيه النُّورُ لا الحرارة، وهذا من أدلَّة عظمتِهِ وكثرة إحسانِهِ؛ فإنَّ ما فيها من الخَلْقِ الباهر والتَّدْبير المنتظم والجمال العظيم دالٌّ على عظمة خالِقِها في أوصافه كلِّها، وما فيها من المصالح للخَلْق والمنافع دليلٌ على كثرةِ خيراتِهِ.
[61] چنانچہ فرمایا: ﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا ﴾ ’’اور بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں برج بنائے۔‘‘ یہ عام ستارے ہیں یا سورج اور چاند کی منازل ہیں جہاں وہ منزل بمنزل چلتے رہتے ہیں اور وہ منازل ایسی ہیں جیسے شہروں کی حفاظت کے لیے برج اور قلعے ہوتے ہیں ۔ اس طرح ستارے ان برجوں کی مانند ہوتے ہیں جو حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں … کیونکہ یہ ستارے شیاطین کے لیے شہاب ثاقب ہیں ۔ ﴿ وَّجَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا﴾ ’’اور اس میں (آفتاب کو) چراغ بنایا۔‘‘ یعنی جس میں روشنی اور حرارت ہو اس سے مراد سورج ہے ﴿ وَّقَ٘مَرًا مُّنِیْرًا ﴾ ’’اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔‘‘ جس میں روشنی ہو مگر حرارت نہ ہو (وہ چاند ہے) یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بے شمار احسانات کی دلیل ہے چونکہ اس میں نمایاں تخلیق، انتہائی منظم تدبیر اور عظیم جمال ہے اس لیے یہ اپنے خالق کے تمام اوصاف میں اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے اور چونکہ ان میں مخلوق کے لیے مصالح اور منافع ہیں اس لیے یہ اس کی بھلائیوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے۔
#
{62} {وهو الذي جَعَلَ الليلَ والنَّهار خِلْفَةً}؛ أي: يذهبُ أحدُهما؛ فيخلُفُه الآخر، هكذا أبداً لا يجتمعان ولا يرتفعان، {لِمَنْ أرادَ أن يَذَّكَّرَ أو أرادَ شُكوراً}؛ أي: لمن أراد أن يتذكَّر بهما ويعتبر ويستدلَّ بهما على كثيرٍ من المطالب الإلهيَّة ويشكر الله على ذلك، ولمن أراد أن يَذْكُرَ الله ويشكُرَهُ، وله وردٌ من الليل أو النهار؛ فَمَنْ فاتَه وردُه من أحدهما؛ أدركه في الآخر، وأيضاً؛ فإنَّ القلوب تتقلَّب وتنتقل في ساعات الليل والنهار، فيحدث لها النشاط والكسل والذِّكْر والغفلة والقبض والبسط والإقبال والإعراض، فجعلَ اللهُ الليل والنهار يتوالى على العباد ويتكرران؛ ليحدثَ لهما الذِّكْرُ والنشاط والشكر لله في وقت آخر، ولأنَّ أوقات العبادات تتكرَّر بتكرُّر الليل والنهار؛ فكلَّما تكرَّرت الأوقات؛ أحدث للعبد همَّةً غير هِمَّته التي كسلت في الوقت المتقدم، فزاد في تذكرها وشكرها، فوظائفُ الطاعاتِ بمنزلة سقي الإيمان الذي يمدُّه؛ فلولا ذلك؛ لذوى غرسُ الإيمان ويبس، فلله أتمُّ حمدٍ وأكملُهُ على ذلك.
[62] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً ﴾ ’’اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔‘‘ یعنی دن رات میں سے ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کا پیچھا کرتا ہے یہ سلسلہ یونہی ہمیشہ چلتا رہے گا وہ کبھی اکٹھے ہوں گے نہ کبھی مرتفع ہوں گے۔ ﴿ لِّ٘مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّـرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا﴾ ’’اس شخص کے لیے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے۔‘‘ یہ شب و روز اس شخص کے لیے نصیحت ہیں جو ان سے نصیحت حاصل کرنا، عبرت پکڑنا، ان کے ذریعے سے بہت سے مطالب الٰہیہ پر استدلال کرنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کاشکر کرنا چاہتا ہے تو دن یا رات میں اس کے لیے ورد ہے۔ اگر کسی ایک وقت اس سے اس کا ورد فوت ہو جائے تو وہ دوسرے وقت میں اس کی تلافی کر سکتا ہے۔ نیز دل بھی شب و روز کی مختلف گھڑیوں میں ، اپنی کیفیات کے اعتبار سے تبدیلیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں انھیں نشاط اور کسل مندی، ذکر اور غفلت، قبض اور بسط، اقبال اور اعراض کی کیفیات پیش آتی رہتی ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے شب و روز کو اس طرح تخلیق فرمایا ہے کہ وہ تسلسل سے باری باری وارد ہوتے رہتے ہیں تاکہ اگر ایک وقت فوت ہو جائے تو دوسرے وقت میں نشاط، ذکر اور شکر کی کیفیت حاصل ہو جائے نیز شب و روز کے تکرار میں عبادات کے اوقات کا تکرار ہے۔ جب بھی عبادات کا وقت دوبارہ آئے گا تو بندے میں ایک نیا ارادہ پیدا ہو گا جو گزشتہ وقت میں اس کی کسل مندی کا شکار ہو گیا تھا۔ اس طرح اس کے ذکر و شکر میں اضافہ ہو گا نیکیوں کا وظیفہ شجرۂ ایمان کے لیے آب پاشی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اگر یہ نہ ہو تو ایمان کا پودا مرجھا کر سوکھ جاتا ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ کی خوبصورت پیرائے میں کامل ترین حمد ہے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بے شمار بھلائیوں اور احسانات کا ذکر کیا ہے جن سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نوازا اور انھیں نیک اعمال کی توفیق سے سرفراز کیا جو انھیں جنت میں بلند ترین مقامات پر فائز کریں گے، چنانچہ فرمایا :
آیت: 63 - 77 #
{وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (64) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (65) إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (66) وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (67) وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (70) وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (71) وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (72) وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (73) وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (74) أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا (75) خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (76) قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (77)}
اور رحمن کے بندے وہ لوگ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر آہستگی (وقار اور عاجزی) سے اور جب بات کرتے ہیں ان سے جاہل (لوگ) تو وہ کہتے ہیں سلام ہے (63)اور وہ لوگ رات گزارتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کرتے ہوئے (64) اور وہ لوگ جو کہتے ہیں ، اے ہمار رب! پھیر دے ہم سے عذاب جہنم کا، بلاشبہ عذاب اس کا ہے چمٹنے والا، دائمی (65) بے شک وہ (جہنم) بری ہے جگہ ٹھہرنے کی اور قیام کرنے کی(66)اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہیں بے جا خرچ کرتے وہ اور تنگی کرتے ہیں اور ہوتا ہے (خرچ کرنا ان کا) درمیان اس کے معتدل گزران (67) اوروہ لوگ کہ نہیں پکارتے وہ ساتھ اللہ کے دوسرے معبود کواور نہیں قتل کرتے وہ اس جان کو جسے (مارنا) حرام کیا ہے اللہ نے مگر ساتھ حق کے اور نہیں وہ زنا کرتے اورجو کوئی کرے گا یہ کام، وہ ملے گا گناہ (کی سزا) کو (68) دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب دن قیامت کےاور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر (69) مگر جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور اس نے عمل کیا عمل نیک تو یہ لوگ ہیں کہ بدل دے گا اللہ ان کی برائیوں کو اچھائیوں سے اور ہے اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا (70) اور جو کوئی توبہ کرے اور عمل کرے نیک، پس بلاشبہ وہ شخص تو رجوع کرتا ہے اللہ کی طرف رجوع کرنا (71) اور وہ لوگ کہ نہیں شہادت دیتے وہ جھوٹی اور جب گزرتے ہیں وہ ساتھ لغو کاموں کے تو وہ گزر جاتے ہیں عزت ووقار سے (72) اور وہ لوگ کہ جب وہ نصیحت کیے جاتے ہیں اپنے رب کی آیتوں کے ساتھ تو نہیں گر پڑتے وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر (73) اور وہ لوگ کہ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! عطا کر ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے ٹھنڈک آنکھوں کی اور بنا ہمیں متقیوں کا امام (74) یہ لوگ جزاء دیے جائیں گے وہ بالا خانے (جنت میں ) بوجہ اس کے کہ صبر کیا انھوں نے، استقبال کیے جائیں گے وہ اس میں دعاء اور سلام کے ساتھ (75) ہمیشہ رہیں گے وہ اس میں ، اچھی ہے وہ قرار گاہ اور قیام گاہ (76) آپ کہہ دیجیے، نہیں پروا کرتا تمھاری میرا رب، اگر نہ ہوتا دعا کرنا تمھارا، پس تحقیق جھٹلایا ہے تم نے حق کو سو عنقریب ہو گی (سزا اس کی) لازمی (77)
#
{63} العبوديَّةُ لله نوعان: عبوديَّةٌ لربوبيَّتِهِ؛ فهذه يشتركُ فيها سائرُ الخلق؛ مسلمهُم وكافرُهم، بَرُّهم وفاجِرُهم؛ فكلُّهم عبيدٌ لله مربوبون مدبرون، {إن كُلُّ مَنْ في السمواتِ والأرضِ إلاَّ آتي الرحمنِ عَبْداً}. وعبوديَّةٌ لألوهيَّتِهِ وعبادتِهِ ورحمتِهِ، وهي عبوديَّةُ أنبيائِهِ وأوليائِهِ، وهي المراد هنا، ولهذا أضافها إلى اسمه الرحمن؛ إشارةً إلى أنَّهم إنَّما وصلوا إلى هذه الحال بسبب رحمته، فَذَكَرَ [أنَّ] صفاتِهِم أكملُ الصفات ونعوتَهم أفضلُ النعوتِ، فوصَفَهم بأنَّهم {يَمْشونَ على الأرضِ هَوْناً}؛ أي: ساكنين متواضعين لله وللخَلْق؛ فهذا وصفٌ لهم بالوقارِ والسَّكينةِ والتَّواضُع لله ولعبادِهِ، {وإذا خاطَبَهُمُ الجاهلونَ}؛ أي: خطابَ جهل؛ بدليل إضافةِ الفعل وإسناده لهذا الوصفِ، {قالوا سلاماً}؛ أي: خاطَبوهم خطاباً يَسْلمونَ فيه من الإثم، ويَسْلَمونَ من مقابلة الجاهل بجهلِهِ، وهذا مدحٌ لهم بالحِلْم الكثير ومقابلة المسيء بالإحسان والعفو عن الجاهل ورزانةِ العقل الذي أوصلهم إلى هذه الحال.
[63] اللہ تعالیٰ کی عبودیت کی دو اقسام ہیں : (۱) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی بنا پر اس کی عبودیت: یہ عبودیت مسلمان اور کافر، نیک اور بد تمام مخلوق میں مشترک ہے تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلام، اس کی ربوبیت کی محتاج اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ ﴿ اِنْ كُ٘لُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا﴾ (مریم:19؍93) ’’آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں وہ سب رحمان کے حضور بندوں کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔‘‘ (۲) اللہ تعالیٰ کی الوہیت اس کی عبادت اور اس کی رحمت کے سبب سے اس کی عبودیت: یہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اس کے اولیاء کی عبودیت ہے اور یہاں عبودیت کی یہی قسم مراد ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اضافت اپنے اسم مبارک (رحمن) کی طرف کی جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب سے اس مقام پر پہنچے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان کی صفات سب سے کامل اور ان کی نعت سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا ﴾ ’’وہ زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے سامنے نہایت پرسکون متواضع ہوتے ہیں ۔ وقار، سکون اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے تواضع اور انکساری ان کا وصف ہے۔ ﴿وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ﴾ ’’اور جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی جہالت پر مبنی خطاب اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فعل کی اضافت اور اس کی نسبت اس وصف کی طرف ہے ﴿قَالُوْا سَلٰمًا ﴾ ’’تو سلام کہتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ انھیں اس طریقے سے خطاب کرتے ہیں جس سے وہ گناہ اور جاہل کی جہالت کے مقابلہ سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ ان کے حلم، برائی کے بدلے احسان، جاہل سے عفوو درگزر اور وفور عقل کی مدح ہے جس نے انھیں اس بلند مقام پر فائز کیا۔
#
{64} {والذين يَبيتونَ لربِّهم سُجَّداً وقياماً}؛ أي: يكثِرون من صلاةِ الليل مخلِصين فيها لربِّهم متذلِّلين له؛ كما قال تعالى: {تتجافى جُنوبُهم عن المضاجِع يَدْعونَ رَبَّهم خَوْفاً وطَمَعاً ومما رَزَقْناهم يُنفِقون. فلا تَعْلم نفسٌ ما أُخْفِي لهم مِن قُرَّةِ أعْيُنٍ جزاءً بما كانوا يَعْمَلونَ}.
[64] ﴿ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ﴾ ’’اور وہ جو اپنے رب کے حضور سجدہ کر کے اور قیام کر کے راتیں بسر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی راتوں کے وقت بہت کثرت سے نماز پڑھتے ہیں ، اپنے رب کے سامنے اخلاص اور تذلل کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا١ٞ وَّمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۰۰فَلَا تَعْلَمُ نَ٘فْ٘سٌ مَّاۤ اُخْ٘فِیَ لَهُمْ مِّنْ قُ٘رَّةِ اَعْیُنٍ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (السجدہ:32؍16، 17) ’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں عطا کیا ہے، اس میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ۔ کسی متنفس کو خبر نہیں کہ کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے۔‘‘
#
{65} {والذين يقولونَ ربَّنا اصرِفْ عنَّا عذابَ جَهَنَّمَ}؛ أي: ادفعه عنا بالعصمةِ من أسبابِهِ ومغفرةِ ما وَقَعَ منَّا مما هو مقتضٍ للعذاب، {إنَّ عَذابها كانَ غراماً}؛ أي: ملازماً لأهلها بمنزلة ملازمةِ الغريم لغريمه.
[65] ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ﴾ ’’اور وہ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب! دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھ۔‘‘ یعنی اسباب عصمت کے ذریعے سے اور ہمارے ان گناہوں کو بخش کر جو موجب عذاب ہیں ، ہم سے جہنم کے عذاب کو دور فرما۔ ﴿ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَ٘رَامًا ﴾ ’’بے شک اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔‘‘ یعنی جہنم کا عذاب جہنمیوں سے چپک جائے گا۔ جیسے قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے۔
#
{66} {إنَّها ساءتْ مُستقرًّا ومُقاماً}: وهذا منهم على وجه التضرُّع لربِّهم، وبيانِ شدَّةِ حاجتهم إليه، وأنَّهم ليس في طاقتهم احتمالُ هذا العذاب، وليتذكَّروا مِنَّةَ الله عليهم؛ فإنَّ صرف الشدَّةِ بحسب شدتها وفظاعتها يعظُمُ وقعُها، ويشتدُّ الفرحُ بصرفها.
[66] ﴿اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا﴾ ’’بلاشبہ دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے۔‘‘ یہ ان کی طرف سے اپنے رب کے سامنے عاجزی اور شدت احتیاج کا اظہار ہے۔ نیز یہ کہ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اس عذاب کو برداشت کر سکیں … نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد رکھیں کیونکہ سختی کو دور کرنا بھی اس کی شدت اور برائی کے مطابق ہوتا ہے اور سختی جس قدر زیادہ شدت سے واقع ہو گی، اس کے ہٹائے جانے سے خوشی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔
#
{67} {والذين إذا أنفَقوا}: النفقاتِ الواجبةَ والمستحبةَ {لم يُسْرِفوا}: بأن يَزيدوا على الحدِّ فيدخُلوا في قسم التبذير، {ولم يَقْتُروا}: فيدخلوا في باب البُخْل والشُّحِّ، وإهمال الحقوق الواجبة، {وكان}: إنفاقُهم {بينَ ذلك}: بين الإسراف والتقتير {قَواماً}: يبذُلون في الواجبات من الزَّكَواتِ والكفاراتِ والنفقاتِ الواجبةِ وفيما ينبغي على الوجه الذي يَنْبَغي من غير ضررٍ ولا ضِرارٍ، وهذا من عدلهم واقتصادهم.
[67] ﴿ وَالَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا ﴾ ’’اور وہ جب خرچ کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی نفقات واجبہ و مستحبہ ﴿ لَمْ یُسْرِفُوْا﴾ ’’تو اسراف نہیں کرتے۔‘‘ یعنی وہ حد اعتدال سے آگے بڑھ کر تبذیر اور حقوق واجبہ سے بے اعتنائی کی حدود میں داخل نہیں ہوتے ﴿ لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا﴾ اور نہ نفقات میں تنگی کر کے بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿وَکَانَ﴾ ’’اور ہوتا ہے‘‘ یعنی ان کا خرچ کرنا۔ ﴿ بَیْنَ ذٰلِكَ ﴾ اسراف اور بخل کے بین بین ﴿ قَوَامًا ﴾ ’’اعتدال کی راہ پر۔‘‘ وہ ان مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا واجب ہے ، مثلاً: زکاۃ، کفارہ اور نفقات واجبہ وغیرہ۔ نیز ان مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا مناسب ہو اور اس سے نقصان نہ پہنچتا ہو۔ یہ ان کے عدل و انصاف اور اعتدال کی دلیل ہے۔
#
{68} {والذين لا يَدْعونَ مع اللهِ إلهاً آخر}: بل يَعْبُدونَه وحدَه مخلصين له الدين حنفاءَ مقبلينَ عليه معرِضين عمَّا سواه، {ولا يَقْتُلونَ النفسَ التي حرَّمَ اللهُ}: وهي نفسُ المسلم والكافرِ المعاهَد {إلاَّ بالحقِّ}: كقتل النفس بالنفس، وقتل الزاني المحصَن والكافر الذي يَحِلُّ قتله، {ولا يَزْنونَ}: بل يحفَظون فروجَهم؛ إلاَّ على أزواجِهِم أوْما مَلَكَتْ أيمانُهم، {ومَنْ يَفْعَلْ ذلك}؛ أي: الشرك بالله أو قتل النفس التي حرَّم الله بغير حقٍّ أو الزِّنا؛ فسوف {يَلْقَ أثاما}.
[68] ﴿ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ﴾ ’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔‘‘ بلکہ وہ دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر کے غیر اللہ سے منہ موڑ کر یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں ﴿ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّ٘فْ٘سَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ﴾ ’’اور جس جان کا مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے۔‘‘ اس سے مراد مسلمان اور معاہد کافر ہے ﴿ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ’’مگر جائز طریق پر۔‘‘ ، مثلاً: قتل کے قصاص میں قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو زنا کی پاداش میں قتل کرنا اور اس کافر کو قتل کرنا جس کو قتل کرنا جائز ہو۔ ﴿ وَلَا یَزْنُوْنَ﴾ ’’اور وہ زنا نہیں کرتے۔‘‘ بلکہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ﴿ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ ﴾ (المومنون:23؍6) ’’سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جوان کی ملکیت میں ہوں ۔‘‘ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور جو یہ کام کرے گا۔‘‘ یعنی جو کوئی شرک اور زنا کا ارتکاب کرے گا اور ناحق قتل کرے گا تو عنقریب ﴿ یَلْ٘قَ اَثَامًا﴾ ’’وہ گناہ کا بدلہ پائے گا۔‘‘
#
{69} ثم فسَّره بقوله: {يُضاعَفْ له العذابُ يوم القيامةِ ويَخْلُدْ فيه}؛ أي: في العذاب {مهاناً}، فالوعيد بالخلودِ لمن فعلها كلَّها ثابتٌ لا شكَّ فيه، وكذلك لمن أشركَ بالله، وكذلك الوعيد بالعذاب الشديد على كلِّ واحدٍ من هذه الثلاثة؛ لكونها إمَّا شرك وإمَّا من أكبر الكبائر، وأما خلود القاتل والزاني في العذاب؛ فإنَّه لا يتناوله الخلودُ؛ لأنه قد دلَّت النصوصُ القرآنيَّة والسنَّة النبويَّة أنَّ جميع المؤمنين سيخرُجون من النار، ولا يخلُدُ فيها مؤمنٌ، ولو فعل من المعاصي ما فعل. ونصَّ تعالى على هذه الثلاثة لأنها أكبر الكبائر: فالشرك فيه فساد الأديان، والقتلُ فيه فسادُ الأبدان، والزِّنا فيه فساد الأعراض.
[69] پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَیَخْلُدْ فِیْهٖ﴾ ’’قیامت کے دن اس کو دگنا عذاب ہو گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ یعنی وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا ﴿ مُهَانًا ﴾ ’’رسوائی کے ساتھ۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ان تمام افعال کا ارتکاب کرتا ہے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اسی طرح شرک کا مرتکب بھی ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح ان تینوں گناہوں میں سے ہرگناہ کے ارتکاب پر سخت عذاب کی وعید ہے۔ کیونکہ یہ گناہ یا تو شرک ہے یا کبیرہ گناہ ہے۔ رہا قاتل اور زناکار کا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا تو قرآن اور سنت کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا، اس لیے کہ تمام اہل ایمان جہنم سے نکال لیے جائیں گے، کوئی مومن جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا خواہ اس نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہ کیوں نہ كيے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ انھیں اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ تینوں سب سے بڑے گناہ ہیں ۔ شرک فساد ادیان، قتل فساد ابدان اور زنا فساد عزت و ناموس ہے۔
#
{70} {إلاَّ مَن تابَ}: عن هذه المعاصي وغيرِها بأنْ أقْلَعَ عنها في الحال، وندم على ما مضى له من فعلها، وعزم عزماً جازماً أنْ لا يعود، {وآمنَ} بالله إيماناً صحيحاً يقتضي تركَ المعاصي وفعل الطاعات، {وعمل صالحاً}: مما أمر به الشارعُ إذا قَصَدَ به وجه الله؛ {فأولئك يبدِّلُ الله سيئاتِهِم حسناتٍ}؛ أي: تتبدَّل أفعالُهم وأقوالُهم التي كانت مستعدِّة لعمل السيئات، تتبدَّلُ حسناتٍ، فيتبدَّل شِرْكُهم إيماناً، ومعصيتُهم طاعةً، وتتبدَّلُ نفس السيئات التي عملوها ثم أحدثوا عن كل ذنبٍ منها توبةً وإنابةً وطاعةً، تبدَّلُ حسناتٍ كما هو ظاهر الآية، وورد في ذلك حديث الرجل الذي حاسبه الله ببعض ذنوبه، فعدَّدها عليه، ثم أبدل مكان كلِّ سيئةٍ حسنةً، فقال: يا ربِّ! إنَّ لي سيئاتٍ لا أراها هاهنا. والله أعلم. {وكان الله غفوراً}: لمن تاب يغفر الذُّنوب العظيمة. {رحيماً}: بعبادِهِ؛ حيثُ دعاهم إلى التوبة بعد مبارزتِهِ بالعظائم، ثم وَفَّقَهم لها، ثم قَبِلَها منهم.
[70] ﴿اِلَّا مَنْ تَابَ ﴾ ’’مگر جس نے توبہ کی۔‘‘ یعنی جس نے ان گناہوں اور دیگر گناہوں سے توبہ کی، اس نے فی الفور ان گناہوں کو ترک کر دیا، ان گناہوں پر نادم ہوا اور پختہ عزم کر لیا کہ اب وہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا ﴿ وَاٰمَنَ ﴾ ’’اور ایمان لایا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر صحیح طور پر ایمان لایا جو گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیوں کے اکتساب کا تقاضا کرتا ہے ﴿ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾ ’’اور اچھے کام کیے۔‘‘ یعنی وہ ایسے نیک کام کرتا ہے جن کا شارع نے حکم دیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ﴾ ’’تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔‘‘ یعنی ان کے وہ افعال اور اقوال جو برائی کی راہ میں سرانجام پانے کے لیے تیار تھے، نیکیوں میں بدل جاتے ہیں ، چنانچہ ان کا شرک ایمان میں بدل جاتا ہے،ا ن کی نافرمانی اطاعت میں اور وہ برائیاں جن کا انھوں نے ارتکاب کیا تھا، بدل جاتی ہیں ، پھر ان کا وصف یہ بن جاتا ہے کہ جو بھی گناہ ان سے صادر ہوتا ہے تو وہ اس کے بعد توبہ کرتے اور انابت و اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، جس سے وہ گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بعض گناہوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرے گا اور ان گناہوں کو اس کے سامنے شمار کرے گا پھر ہر برائی کو نیکی میں بدل دے گا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا ’’اے میرے رب! میری تو بہت سی برائیاں تھیں جومجھے یہاں دکھائی نہیں دیتیں ۔‘‘(صحیح مسلم، الایمان، باب ادنیٰ اہل الجنۃ منزلۃ فیہا، ح:190) واللہ اعلم ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا﴾ ’’اور اللہ تو بخشنے والا ہے۔‘‘ جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمام بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ رَّحِیْمًا ﴾ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے ان کو ان کے گناہ کرنے کے بعد توبہ کی طرف بلایا ہے، پھر انھیں توبہ کی توفیق عطا کی اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔
#
{71} {ومن تاب وعَمِلَ صالحاً فإنَّه يتوبُ إلى الله مَتاباً}؛ أي: فليعلم أنَّ توبتَه في غاية الكمال؛ لأنَّها رجوعٌ إلى الطريق الموصل إلى الله، الذي هو عينُ سعادة العبد وفلاحه؛ فَلْيُخْلِصْ فيها، ولْيُخَلِّصْها من شوائب الأغراض الفاسدة. فالمقصودُ من هذا الحثُّ على تكميل التوبة واتِّباعها على أفضل الوجوه وأجلها؛ ليقدم على من تاب إليه، فيوفيه أجره بحسب كمالها.
[71] ﴿ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابً٘ا ﴾ ’’اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘ یعنی بندے کو معلوم ہونا چاہیے کہ توبہ کمال کا بلند ترین مقام ہے کیونکہ توبہ اس راستے کی طرف رجوع ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور اس مقام پر پہنچنے میں بندے کی عین سعادت اور فلاح ہے اس لیے اسے چاہیے کہ وہ توبہ میں اخلاص سے کام لے اور توبہ کو اغراض فاسدہ کے تمام شائبوں سے پاک رکھے۔ اس سے مقصود دراصل بندوں کو تکمیل توبہ نیز بہترین اور جلیل القدر انداز سے اس کی اتباع کی ترغیب دینا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی طرف توجہ فرمائے اور توبہ کی تکمیل کے مطابق، پورا پورا اجر عطا کرے۔
#
{72} {والذين لا يشهدون الزُّورَ}؛ أي: لا يحضُرونَ الزُّورَ؛ أي: القول والفعل المحرم، فيجتنبون جميع المجالس المشتملة على الأقوال المحرَّمة أو الأفعال المحرَّمة؛ كالخوض في آيات الله، والجدال الباطل، والغيبة، والنميمة، والسب، والقذف، والاستهزاء، والغناء المحرم، وشرب الخمر، وفرش الحرير والصور ... ونحو ذلك، وإذا كانوا لا يشهدون الزور؛ فمن باب أولى وأحرى أنْ لا يقولوه ويفعلوه، وشهادة الزُّور داخلة في قول الزُّور، تدخل في هذه الآية بالأولوية، {وإذا مَرُّوا باللغوِ}: وهو الكلام الذي لا خيرَ فيه ولا فيه فائدةٌ دينيةٌ ولا دنيويةٌ؛ ككلام السفهاء ونحوهم {مَرُّوا كِراماً}؛ أي: نَزَّهوا أنْفُسَهم، وأكرموها عن الخوض فيه، ورأوا الخوضَ فيها وإن كان لا إثم فيه؛ فإنَّه سفهٌ ونقصٌ للإنسانيَّة والمروءة؛ فربؤوا بأنفسهم عنه. وفي قوله: {إذا مَرُّوا باللغوِ}: إشارة إلى أنهم لا يقصدون حُضورَه ولا سماعَه، ولكن عند المصادفةِ التي من غير قصدٍ يُكْرِمونَ أنفسهم عنه.
[72] ﴿ وَالَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ﴾ یعنی جو لوگ جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے (الزور) سے مراد حرام قول و فعل ہے۔ پس وہ ان تمام مجالس سے اجتناب کرتے ہیں جواقوال محرمہ یا افعال محرمہ پر مشتمل ہوتی ہیں ، مثلاً:اللہ تعالیٰ کی آیات میں باطل انداز سے گفتگو میں مشغول ہونا اور جھگڑنا، غیبت، چغلی، سب و شتم، قذف و استہزا، حرام گانا بجانا، شراب پینا، ریشم کے بچھونے اور تصاویر وغیرہ۔ جب وہ جھوٹ میں حاضر ہونے سے اجتناب کرتے ہیں تو جھوٹی بات کہنے اور جھوٹے فعل کے ارتکاب سے بدرجہ اولیٰ بچتے ہوں گے۔ جھوٹی گواہی جھوٹی بات میں داخل ہے اور یہ بھی بدرجہ اولیٰ اس آیت کریمہ میں داخل ہے۔ ﴿ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ﴾ ’’اور جب وہ بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرتے ہیں ۔‘‘ (لغو) سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو، مثلاً:بیوقوف لوگوں کا کلام ﴿ مَرُّوْا كِرَامًا ﴾ ’’تو باوقار انداز سے گزر جاتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ لغویات میں مشغول ہونے سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ لغویات میں مغشول ہونا خواہ ان میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو، سفاہت ہے جو انسانیت اور مروت کے منافی ہے بنابریں وہ اپنے لیے اسے پسند نہیں کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ ﴾ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان لغویات میں حاضر ہونا اور انھیں سننا، ان کا مقصد نہیں بلکہ اگر کسی لغو بات کا کہیں سامنا ہو جاتا ہے تو نہایت باوقار طریقے سے اپنے آپ کو وہاں سے بچا لیتے ہیں ۔
#
{73} {والذين إذا ذُكِّروا بآياتِ ربِّهم}: التي أمَرَهُم باستماعها والاهتداء بها {لم يَخِرُّوا عليها صُمًّا وعُمياناً}؛ أي: لم يقابلوها بالإعراض عنها، والصمم عن سماعها، وصرف النظر والقلوب عنها كما يفعله من لم يؤمن بها ويصدق، وإنَّما حالهم فيها وعند سماعها كما قال تعالى: {إنَّما يؤمنُ بآياتنا الذين إذا ذُكِّروا بها خَرُّوا سُجَّداً وسَبَّحوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وهُم لا يَسْتَكْبِرونَ}: يقابلونها بالقَبول والافتقار إليها والانقيادِ والتسليم لها، وتجِدُ عندَهم آذاناً سامعةً وقلوباً واعيةً، فيزداد بها إيمانُهم، ويتمُّ بها إيقانُهم، وتُحْدِثُ لهم نشاطاً، ويفرحون بها سروراً واغتباطاً.
[73] ﴿ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّ٘رُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور وہ لوگ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے سمجھایا جاتا ہے۔‘‘ جن کو سننے اور جن سے راہنمائی حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ﴿ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا﴾ ’’تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے۔‘‘ یعنی ان سے روگردانی نہیں کرتے۔ وہ آیات الٰہی کو بہرے بن کر سنتے ہیں نہ اپنے قلب و نظر کی توجہ کو کسی دوسری طرف کرتے ہیں ، جس طرح اس پر ایمان نہ لانے والوں اور اس کی تصدیق نہ کرنے والوں کا رویہ ہوتا ہے۔ ان کا آیات الٰہی کے سماع کے وقت یہ حال ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّ٘رُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠﴾ (السجدہ:32؍15) ’’ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ ریزہ ہو جاتے ہیں ۔ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔‘‘ وہ اپنے آپ کو آیات الٰہی کا محتاج سمجھتے ہوئے انھیں قبول کرتے ہیں اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ۔
#
{74} {والذين يقولونَ ربَّنا هَبْ لنا من أزواجِنا}؛ أي: قُرَنائِنا من أصحابٍ وأقرانٍ وزوجاتٍ، {وذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أعينٍ}؛ أي: تَقَرُّ بهم أعيننا، وإذا اسْتَقْرَأنا حالَهم وصفاتِهِم؛ عَرَفْنا من هِمَمِهِم وعلوِّ مرتبتِهِم [أنَّهم لا تَقَرُّ أَعْيُنُهم حَتَّى يَرَوهُم مُطِيعين لربِّهم عَالِمين عَامِلين وهذا كما أنه دعاء لأزواجهم] وذُرِّيَّاتِهم في صلاحهم؛ فإنَّه دعاءٌ لأنفسهم؛ لأنَّ نفعه يعودُ عليهم، ولهذا جعلوا ذلك هبةً لهم، فقالوا: {هَبْ لنا}، بل دعاؤهم يعودُ إلى نفع عموم المسلمين؛ لأنَّ بِصَلاحِ مَنْ ذُكِرَ يكونُ سبباً لصلاح كثيرٍ ممَّن يتعلَّق بهم وينتفعُ بهم. {واجْعَلْنا للمتَّقين إماماً}؛ أي: أوْصِلْنا يا ربَّنا إلى هذه الدرجة العالية؛ درجة الصديقين والكُمَّل من عباد الله الصالحين، وهي درجة الإمامة في الدين، وأنْ يكونوا قدوةً للمتَّقين في أقوالهم وأفعالهم، يُقتدى بأفعالهم ويطمئنُّ لأقوالهم ويسير أهل الخير خلفَهم، فيهدون ويهتدون. ومن المعلوم أنَّ الدعاءَ ببلوغ شيء دعاءٌ بما لا يتمُّ إلاَّ به، وهذه الدرجة ـ درجة الإمامة في الدين ـ لا تتمُّ إلاَّ بالصبر واليقين؛ كما قال تعالى: {وجعلناهم أئِمَّةً يهدونَ بأمرِنا لمَّا صبروا وكانوا بآياتنا يوقنونَ}: فهذا الدُّعاء يستلزم من الأعمال والصبر على طاعةِ الله وعن معصيتِهِ وأقدارِهِ المؤلمة ومن العلم التامِّ الذي يوصل صاحِبَه إلى درجة اليقين خيراً كثيراً وعطاءً جزيلاً، وأنْ يكونوا في أعلى ما يمكن من درجاتِ الخَلْقِ بعد الرسل.
[74] ﴿ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا ﴾ ’’اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں عطا کر ہماری بیویوں کی طرف سے‘‘ یعنی ہمارے ہم عصروں ، ہمارے ساتھیوں اور ہماری بیویوں کی طرف سے ﴿ وَذُرِّیّٰتِنَا قُ٘رَّةَ اَعْیُنٍ ﴾ ’’اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔‘‘ یعنی ان کے ذریعے سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ جب ہم ان اللہ کے نیک بندوں کے احوال و اوصاف کا استقرا کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند ہمت اور عالی مرتبہ لوگ ہیں ، اس لیے ان کی آنکھیں تب ہی ٹھنڈی ہوں گی جب وہ انھیں اپنے رب کے حضور مطیع، اس کے متعلق جاننے والے اور نیک اعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ گویا کہ ان کی یہ دعا جو ان کی بیویوں اور ان کی اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے ہے، درحقیقت وہ ان کے اپنے ہی لیے ہے۔ کیونکہ اس دعا کا فائدہ خود ان ہی کی طرف لوٹتا ہے، اس لیے انھوں نے اس کواپنے لیے ہبہ قرار دیتے ہوئے یوں کہا: ﴿ هَبْ لَنَا ﴾ ’’ہمیں عطا فرما۔‘‘ بلکہ ان کی دعا کا فائدہ عام مسلمانوں کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ مذکورہ لوگوں کی اصلاح سے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہو گی جو ان سے متعلق ہیں اور جو ان سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ﴿ وَّاجْعَلْنَا لِلْ٘مُتَّقِیْنَ اِمَامًا ﴾ اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘ یعنی، اے ہمارے رب! ہمیں بلند درجہ یعنی صدیقین اور اللہ کے صالح بندوں کے درجے پہ پہنچا دے اور وہ ہے امامت دینی کا درجہ، نیز یہ کہ وہ اپنے اقوال و افعال میں اہل تقویٰ کے لیے نمونہ بن جائیں لوگ ان کے افعال کی پیروی کریں اور ان کے اقوال پر مطمئن ہوں اور اہل خیر ان کے پیچھے چلیں اور ان سے راہنمائی حاصل کریں ۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز تک پہنچنے کی دعا ایسی چیز کی دعا ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ درجہ، امامت دین کا درجہ ہے اور صبر ویقین کے بغیر اس درجہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا١ؕ ۫ وَكَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ: 32؍24) ’’جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین رکھتے رہے تو ہم نے ان کے اندر راہنما پیدا کر دیے جو ہمارے حکم سے راہنمائی کرتے تھے۔‘‘ یہ دعا اعمال صالحہ، اطاعت الٰہی پر استقامت اور ثابت قدمی، معاصی سے باز رہنے، المناک تقدیر پر صبر کرنے، علم کامل … جو صاحب علم کو درجۂ یقین پر فائز کرتا ہے … خیر کثیر اور عطائے جزیل کو مستلزم ہے۔ نیز یہ دعا اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ وہ انبیاء و مرسلین کے بعد مخلوق میں بلند ترین درجہ پر فائز ہوں ۔
#
{75 ـ 76} ولهذا لما كانت هِمَمُهُم ومطالِبُهم عاليةً، كان الجزاء من جنس العمل، فجازاهم بالمنازل العاليات، فقال: {أولئك يُجْزَوْنَ الغرفةَ بما صبروا}؛ أي: المنازل الرفيعة والمساكن الأنيقة الجامعة لكلِّ ما يشتهَى وتلذُّه الأعين، وذلك بسبب صبرِهِم نالوا ما نالوا؛ كما قال تعالى: {والملائكةُ يَدْخُلون عليهم مِن كلِّ بابٍ. سلامٌ عليكم بما صَبَرْتُم فنعمَ عُقْبى الدَّار}، ولهذا قال هنا: {ويُلَقَّوْنَ فيها تحيَّةً وسلاماً}: من ربِّهم ومن ملائكتِهِ الكرام ومن بعضٍ على بعضٍ، ويَسْلَمون من جميع المنغِّصات والمكدِّرات. والحاصل أنَّ الله وَصَفَهم بالوَقار، والسَّكينة، والتَّواضع له ولعبادِهِ، وحسنِ الأدبِ، والحلم، وسعةِ الخُلُق، والعفوِ عن الجاهلين، والإعراض عنهم، ومقابلة إساءتهم بالإحسان، وقيام الليل، والإخلاص فيه، والخوف من النار، والتضرُّع لربِّهم أن يُنَجِّيَهم منها، وإخراج الواجب والمستحبِّ في النفقات، والاقتصاد في ذلك. وإذا كانوا مقتصدينَ في الإنفاق الذي جَرَتِ العادةُ بالتفريط فيه أو الإفراط؛ فاقتصادُهُم وتوسُّطُهم في غيره من باب أولى، والسلامةُ من كبائِر الذُّنوب، والاتِّصاف بالإخلاص لله في عبادتِهِ، والعِفَّةِ عن الدِّماء والأعراضِ، والتوبة عند صدور شيءٍ من ذلك، وأنهم لا يحضُرون مجالس المنكر والفسوق القوليَّة والفعليَّة، ولا يفعلونها بأنفسهم، وأنَّهم يتنزَّهون من اللغو والأفعال الرديَّة، التي لا خير فيها، وذلك يستلزمُ مروءتهم وإنسانيَّتَهم وكمالَهم ورفعةَ أنفسِهِم عن كلِّ خسيس قوليٍّ وفعليٍّ، وأنَّهم يقابِلون آياتِ الله بالقَبول لها والتفهُّم لمعانيها والعمل بها والاجتهاد في تنفيذِ أحكامها، وأنَّهم يَدْعون الله تعالى بأكمل الدُّعاء في الدُّعاءِ الذي ينتفعونَ به، وينتفع به من يتعلَّقُ بهم، وينتفعُ به المسلمون من صلاح أزواجِهِم وذُرِّيَّتِهِم، ومن لوازم ذلك سعيُهم في تعليمهم ووعظِهِم ونُصْحِهِم؛ لأنَّ مَنْ حَرَصَ على شيءٍ ودعا الله فيه؛ لا بدَّ أن يكون متسبباً فيه، وأنَّهم دَعَوا الله ببلوغ أعلى الدرجات الممكنة لهم، وهي درجة الإمامة والصديقيَّة؛ فلله ما أعلى هذه الصفات، وأرفع هذه الهمم، وأجل هذه المطالب، وأزكى تلك النفوس، وأطهر تيك القلوبِ، وأصفى هؤلاء الصفوةِ، وأتقى هؤلاء السادة. ولله فضلُ الله عليهم، ونعمتُهُ، ورحمتُهُ التي جلَّلتهم، ولطفُه الذي أوصلهم إلى هذه المنازل. ولله مِنَّةُ الله على عبادِهِ أنْ بَيَّنَ لهم أوصافَهم ونعتَ لهم هيئاتِهِم، وبيَّن لهم هِمَمَهم وأوضحَ لهم أجورَهم؛ ليشتاقوا إلى الاتِّصاف بأوصافهم، ويبذُلوا جهدهم في ذلك، ويسألوا الذي منَّ عليهم وأكرمهم، الذي فضلُهُ في كل زمان ومكان وفي كل وقت وأوان أنْ يَهْدِيَهم كما هداهم، ويتولاَّهم بتربيته الخاصَّة كما تولاَّهم. فاللهمَّ لك الحمدُ، وإليك المشتكى، وأنت المستعان، وبك المستغاث، ولا حول ولا قوة إلاَّ بك، لا نملِكُ لأنفسنا نفعاً ولا ضرًّا، ولا نقدر على مثقال ذرَّةٍ من الخير إن لم تُيَسِّرْ ذلك لنا؛ فإنَّا ضعفاء عاجزون من كلِّ وجه، نشهد أنَّك إن وَكَلْتَنا إلى أنفسنا طرفة عين؛ وَكَلْتَنا إلى ضعفٍ وعجزٍ وخطيئةٍ؛ فلا نثق يا ربَّنا إلاَّ برحمتك، التي بها خلقتنا ورزَقْتَنا وأنعمتَ علينا بما أنعمتَ من النعم الظاهرة والباطنة، وصرفت عنا من النقم؛ فارحمنا رحمةً تُغنينا بها عن رحمةِ مَنْ سواك، فلا خاب من سألَكَ ورجاك.
[76,75] چونکہ وہ بلند ہمت اور بلند مقصد لوگ ہیں اس لیے ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہو گی، اللہ تعالیٰ انھیں جزا کے طور پر بلند منازل عطا کرے گا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اُولٰٓىِٕكَ یُجْزَوْنَ الْ٘غُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا﴾ ’’ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے۔‘‘ یعنی انھیں بلند منازل اور خوبصورت مساکن عطا كيے جائیں گے اوران کے لیے ہر وہ چیز جمع ہو گی جس کی دل خواہش کرے گا اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ سب کچھ انھیں ان کے صبر کی بنا پر عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُ٘لِّ بَ٘ابٍۚ۰۰ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾ (الرعد:13؍23، 24) ’’فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ سب کچھ اس بنا پر عطا ہوا کہ تم نے صبر کیا تھا، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔‘‘ اس لیے یہاں فرمایا: ﴿ وَیُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا ﴾ ’’اور وہ ان سے دعا و سلام سے ملاقات کریں گے۔‘‘ یعنی ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام بھیجا جائے گا، عالی قدر فرشتے ان کو سلام کہیں گے اوروہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو بھی سلام کہیں گے اور وہ ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں وقار، سکینت، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے لیے تواضع اور انکسار، حسن ادب، بردباری، وسعت اخلاق، جہلاء سے درگزر اور اعراض، ان کے برے سلوک کے مقابلے میں حسن سلوک، تہجد، اس میں اخلاص، جہنم سے خوف، اس (جہنم) سے اپنی نجات کے لیے اپنے رب کے سامنے گڑ گرانے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں واجب اور مستحب نفقات میں سے خرچ کرنے اور اس میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے جیسے اوصاف سے ان کو موصوف کیا ہے۔ جب خرچ کرنے میں ، جس کے بارے میں عادۃً افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے، وہ اعتدال کو اختیار کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں ان کی میانہ روی تو بدرجہ اولیٰ ہو گی۔ وہ کبائر سے محفوظ ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص، جان اور ناموس کے معاملات میں عفت اور کسی گناہ کے صادر ہونے پر توبہ جیسی صفات سے متصف ہیں نیز وہ ایسی تقریبات اور مجالس میں حاضر نہیں ہوتے جن میں منکرات اور قولی و فعلی فسق و فجور ہو اور نہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ لغویات اور ایسے گھٹیا افعال سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں ، جن میں کوئی فائدہ نہیں اور یہ چیز ان کی مروت، انسانیت اور ان کے کمال کو مستلزم ہے نیز اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ قولی وفعلی طور پر خسیس افعال سے بالاوبلند تر ہیں ۔ وہ آیات الٰہی کا قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں ، ان کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان پر عمل کرتے ہیں ، ان کے احکام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کو کامل ترین طریقے سے پکارتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے متعلقین فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی اولاد اور ان کی بیویوں کی اصلاح سے تمام مسلمان فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں ، انھیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ رکھتے ہیں کیونکہ جو کوئی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے وہ لازمی طور پر اس کے لیے اسباب بھی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بلندترین درجات پر پہنچنے کی دعا کرتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لیے ممکن ہے اور وہ امامت اور صدیقیت کا درجہ ہے… اللہ کی قسم! یہ کتنی بلند مرتبہ صفات ہیں ، یہ کتنی بلند ہمتی ہے، یہ کتنے جلیل القدر مقاصد ہیں ، یہ نفوس کتنے پاک اور یہ قلوب کتنے طاہر ہیں ، یہ چنے ہوئے لوگ کتنے پاکیزہ اور یہ سادات کتنے متقی ہیں ! یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل، اس کی نعمت اور اس کی رحمت ہے جس نے ان کو ڈھانپ لیا ہے اور یہ اس کا لطف و کرم ہے جس نے ان کو ان بلند مقامات تک پہنچایا۔ اللہ کی قسم! یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت ہے کہ اس نے ان کے سامنے اپنے ان بلند ہمت بندوں کے اوصاف بیان فرمائے، ان کی نشانیاں بیان کیں ، ان کے سامنے ان کی ہمت اور عزائم آشکارا كيے اور ان کا اجر واضح کیا تاکہ ان میں بھی ان اوصاف سے متصف ہونے کا اشتیاق پیدا ہو اور یہ بھی اس راستے میں جدوجہد کریں اور وہ اس ہستی سے سوال کریں ، جس نے اپنے ان بندوں پر احسان کیا، جس نے ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا اور جس کا فضل و کرم ہر زمان و مکان میں ہر وقت اور ہرآن عام ہے … کہ وہ انھیں بھی ہدایت سے نوازے جیسے ان کو ہدایت سے نوازا ہے اور اپنی تربیت خاص کے ذریعے سے ان کی بھی سرپرستی فرمائے جیسے ان کی سرپرستی فرمائی ہے۔ اے اللہ! ہر قسم کی ستائش کا صرف تو ہی مستحق ہے، میں صرف تیرے ہی پاس شکوہ کرتا ہوں ، تجھ ہی سے اعانت طلب کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں ۔ مجھ میں گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی مگر صرف تیری توفیق کے ساتھ۔ ہم خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور اگر تو ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا کر کے نیکی کو ہمارے لیے آسان نہ کرے تو ہم ذرہ برابر بھی نیکی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، ہم ہر لحاظ سے نہایت کمزور اور عاجز بندے ہیں ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اگر تو ایک لمحے کے لیے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کر دے تو گویا تو نے ہمیں کمزوری، عجز اور گناہ کے حوالے کر دیا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم صرف تیری رحمت پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی بنا پر تو نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق عطا کیا، ہمیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا اور تکلیفوں اور سختیوں کو ہم سے دور کیا، ہم پر ایسی رحمت کو سایہ کناں کر جو ہمیں تیری رحمت کے سوا ہر رحمت سے بے نیاز کر دے۔ پس جو کوئی تجھ سے سوال کرتا ہے اور تجھ سے امیدیں باندھتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا۔
#
{77} ولما كان الله تعالى قد أضاف هؤلاء العبادَ إلى رحمتِهِ واختصَّهم بعبوديَّتِهِ لشرفهم وفضلِهِم، ربَّما توهَّم متوهِّم أنَّه وأيضاً غيرهم؛ فَلِمَ لا يدخل في العبوديَّة؟! فأخبر تعالى أنَّه لا يبالي ولا يعبأ بغيرِ هؤلاء، وأنَّه لولا دعاؤكم إيَّاه دعاء العبادة ودعاء المسألة؛ ما عبأ بكم ولا أحبَّكم، فقال: {قُلْ ما يَعْبَأُ بكم رَبِّي لولا دُعاؤكُم فقدْ كَذَّبْتُم فسوفَ يكون لِزاماً}؛ أي: عذاباً يَلْزَمُكُم لزومَ الغريم لغريمه، وسوف يحكُمُ اللهُ بينكم وبين عبادِهِ المؤمنين.
[77] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی اپنی رحمت کی طرف اضافت کی ہے اوران کے فضل و شرف کی وجہ سے ان کو اپنی عبودیت سے مختص کیا ہے اس لیے کسی کو یہ وہم لاحق ہو سکتا ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے سوا وہ بذات خود اور دوسرے لوگ عبودیت میں داخل کیوں نہیں ہو سکتے؟ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کو ان مذکورہ لوگوں کے سوا کسی کی پروا نہیں ۔ اگر تم نے دعائے عبادت اور مسئلہ میں اسے نہ پکارا ہوتا تو وہ تمھاری کبھی پروا کرتا نہ تم سے محبت کرتا، چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا ﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر تم اللہ کو نہ پکارتے تو میرا رب بھی تمھاری کچھ پروا نہ کرتا۔ پس تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا لازم ہو گی۔‘‘ یعنی عذاب تم سے اس طرح چپک جائے گا جس طرح قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے درمیان اور اپنے مومن بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔