آیت:
تفسیر سورۂ شعراء
تفسیر سورۂ شعراء
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 9 #
{طسم (1) تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (3) إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ (4) وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنَ الرَّحْمَنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ (5) فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (6) أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (7) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (8) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (9)}.
طٰسٓمّٓ (1) یہ آیتیں ہیں کتاب واضح کی (2) شاید کہ آپ ہلاک کر ڈالیں اپنے آپ کو ، اس لیے کہ نہیں ہوتے و ہ ایمان لانے والے (3) اگر ہم چاہیں تو نازل کر دیں ان پر آسمان سے کوئی نشانی، پس ہو جاتیں ان کی گردنیں اس کے لیے جھکنے والیں (4) اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نصیحت رحمن کی طرف سے نئی مگر ہوتے ہیں وہ اس سے اعراض کرنے والے (5) پس تحقیق جھٹلایا انھوں نے، پس عنقریب آئیں گی ان کے پاس خبریں اس چیز کی کہ تھے وہ ساتھ اس کے استہزاء کرتے (6)کیا نہیں دیکھا انھوں نے زمین کی طرف، کتنی اگائیں ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں ؟ (7) بے شک اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہے اور نہیں ہیں اکثر ان کے ایمان لانے والے (8) اور بلاشبہ آپ کا رب، البتہ وہ ہے نہایت غالب بہت رحم کرنے والا (9)
#
{1 ـ 2} يشير الباري تعالى إشارةً تدلُّ على التعظيم لآياتِ الكتاب المُبين البيِّن الواضح الدالِّ على جميع المطالب الإلهيَّةِ والمقاصدِ الشرعيَّة؛ بحيث لا يبقى عند الناظر فيه شكٌّ ولا شبهةٌ فيما أخبر به أو حكم به؛ لوضوحِهِ ودلالتِهِ على أشرف المعاني وارتباطِ الأحكام بحُكْمِها وتعليقِها بمناسبِهِا، فكان رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - يُنْذِرُ به الناس، ويَهْدي به الصراطَ المستقيمَ، فيهتدي بذلك عبادُ الله المتَّقون، ويعرِضُ عنه من كُتِبَ عليه الشقاء، فكان يحزنُ حزناً شديداً على عدم إيمانهم؛ حرصاً منه على الخير، ونُصحاً لهم.
[2,1] اللہ تعالیٰ ایسا اشارہ فرماتا ہے جو کھول کھول کر بیان کرنے والی اس کی کتاب کی تعظیم پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب عظیم تمام مطالب الٰہیہ اورمقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہے۔ غوروفکر کرنے والے کے لیے، اس کی خبر اور حکم میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ نہایت واضح کتاب ہے، بلندترین معانی پر دلالت کرتی ہے، اس کے احکام مربوط اور اس کی تعلیق مناسب ہے۔ رسول اللہ e اس کتاب عظیم کے ذریعے سے لوگوں کو ان کی بداعمالیوں کے انجام سے ڈراتے تھے اور اس کے ذریعے سے راہ راست کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے متقی بندے اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور صرف وہی لوگ اس سے رو گردانی کرتے ہیں جن کے لیے بدبختی لکھ دی گئی ہے۔ رسول اللہ e مشرکین کے ایمان نہ لانے پر بہت غمگین ہوتے تھے کیونکہ وہ ان کی بھلائی کی خواہش رکھتے تھے اور ان کے خیرخواہ تھے۔
#
{3} فلهذا قال تعالى لنبيه: {لَعَلَّكَ باخعٌ نفسَك}؛ أي: مهلكها وشاقٌّ عليها {ألاّ يكونوا مؤمنينَ}؛ أي: فلا تفعل ولا تُذْهِبْ نفسَكَ عليهم حسراتٍ؛ فإنَّ الهداية بيد الله، وقد أدَّيْت ما عليك من التبليغ، وليس فوقَ هذا القرآن المُبين آيةٌ حتى نُنْزِلَها ليؤمنوا بها؛ فإنَّه كافٍ شافٍ لمن يريدُ الهداية.
[3] اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی e سے فرمایا: ﴿لَعَلَّكَ بَ٘اخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ’’شائد کہ آپ اپنے آپ کو ہلاک کر لیں گے۔‘‘ یعنی آپ اپنے آپ کو ہلاکت اور مشقت میں ڈال رہے ہیں ﴿اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟‘‘ یعنی ایسا نہ کیجیے اور ان پر حسرت سے اپنی جان کو ختم نہ کیجیے کیونکہ ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کی ذمہ داری تبلیغ تھی، سو آپ نے یہ ذمہ داری ادا کر دی اور اس قرآن مبین کے بعد کوئی ایسی نشانی باقی نہیں کہ جسے ہم نازل کریں تاکہ یہ اس پر ایمان لے آئیں ۔جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہے اس کے لیے یہ قرآن کافی و شافی ہے۔
#
{4} ولهذا قال: {إن نَشَأ نُنَزِّلْ عليهم من السماءِ آيةً}؛ أي: من آيات الاقتراح {فَظَلَّتْ أعناقُهم}؛ أي: أعناق المكذِّبين {لها خاضعينَ}: ولكن لا حاجة إلى ذلك ولا مصلحة فيه؛ فإنَّه إذْ ذاك الوقت يكون الإيمان غير نافع، وإنَّما الإيمانُ النافعُ الإيمانُ بالغيب؛ كما قال تعالى: {هل يَنظُرون إلاَّ أن تَأتِيَهُمُ الملائكةُ أو يأتيَ رَبُّكَ أو يأتِيَ بعضُ آياتِ ربِّكَ يومَ يأتي بعضُ آياتِ ربِّكَ لا يَنفَعُ نفساً إيمانُها ... } الآية.
[4] اس لیے فرمایا: ﴿ اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً ﴾ ’’اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اتار دیں ۔‘‘ یعنی آیات معجزہ میں سے ﴿ فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ ﴾ ’’پھر ہو جائیں ان کی گردنیں ۔‘‘ یعنی جھٹلانے والوں کی گردنیں ﴿ لَهَا خٰضِعِیْنَ﴾ ’’اس کے آگے جھکنے والیں ۔‘‘ مگر اس کی کوئی ضرورت ہے نہ اس میں کوئی مصلحت کیونکہ اس وقت ایمان لانا فائدہ مند نہیں ، ایمان لانا صرف اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ ایمان بالغیب ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ هَلْ یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ یَ٘اْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَ٘اْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ١ؕ یَوْمَ یَ٘اْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَ٘عُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا ﴾ (الانعام:6؍158) ’’کیا یہ لوگ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کچھ نشانیاں آ جائیں ، جس روز آپ کے رب کی کچھ نشانیاں آ جائیں گی تو اس روز کسی جان کو اس کا ایمان لانا کوئی فائدہ نہ دے گا۔‘‘
#
{5} {وما يأتيهم من ذِكْرٍ من الرحمن مُحْدَثٍ}: يأمرُهُم وينهاهُم ويذكِّرهم ما ينفعُهم ويضرُّهم {إلاَّ كانوا عنه معرِضينَ}: بقلوبِهِم وأبدانِهِم. هذا إعراضُهم عن الذكر المحدَث الذي جرت العادةُ أنَّه يكون موقِعُهُ أبلغَ من غيرِهِ؛ فكيف بإعراضهم عن غيرِهِ؟! وهذا لأنَّهم لا خير فيهم، ولا تنجَعُ فيهم المواعظُ.
[5] ﴿ وَمَا یَ٘اْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ ﴾ ’’اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی۔‘‘ وہ انھیں حکم دیتا ہے، انھیں روکتا ہے اور ان کو یاد دہانی کراتا ہے کہ کون سے امور انھیں فائدہ دیتے ہیں اور کون سے امور انھیں نقصان دیتے ہیں ﴿ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِیْنَ ﴾ ’’مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔‘‘ اپنے قلب وبدن کے ساتھ۔ یہ ان کا اس نئی نصیحت اور یاد دہانی سے اعراض ہے جس کا مؤثر ہونا عادت کے مطابق زیادہ بلیغ ہوتا ہے تو پھر کسی اور نصیحت کے بارے میں ان کا رویہ کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں اور وعظ و نصیحت انھیں کوئی فائدہ نہیں دیتے۔
#
{6} ولهذا قال: {فقد كذَّبوا}؛ أي: بالحقِّ، وصار التكذيبُ لهم سجيَّةً لا تتغيَّرُ ولا تتبدَّلُ، {فسيأتيهم أنباءُ ما كانوا به يستهزِئونَ}؛ أي: سيقع بهم العذابُ ويحلُّ بهم ما كذَّبوا به؛ فإنَّهم قد حقَّتْ عليهم كلمةُ العذاب.
[6] بنابریں فرمایا: ﴿فَقَدْ كَذَّبُوْا ﴾ ’’پس انھوں نے تکذیب کی۔‘‘ یعنی حق کی اور یہ تکذیب ان کی فطرت بن گئی جس میں تغیر وتبدل نہیں ہے۔ ﴿ فَسَیَاْتِیْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ﴾ ’’اب عنقریب ان کے پاس وہ خبریں آجائیں گی جن کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔‘‘ یعنی عنقریب ان پر عذاب واقع ہو گا اور ان پر وہ عذاب نازل ہو گا جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے کیونکہ وہ عذاب کے مستحق بن چکے ہیں ۔
#
{7} قال الله منبهاً على التفكُّر الذي ينفع صاحبَه: {أوَلَم يَرَوْا إلى الأرض كم أنبَتْنا فيها من كلِّ زوج كريم}: من جميع أصناف النباتات، حسنة المنظر، كريمة في نفعها.
[7] اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کی، جو انسان کو فائدہ دیتا ہے، ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُ٘لِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ ﴾ ’’کیا انھوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا، کہ ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس چیزیں اگائی ہیں ۔‘‘ یعنی ہم نے نباتات کی تمام اصناف اگائیں جو بہت خوبصورت نظر آتی ہیں جو بہت فوائد کی حامل ہیں ۔
#
{8} {إنَّ في ذلك لآيةً}: على إحياء الله الموتى بعد موتِهِم؛ كما أحيا الأرض بعد موتها، {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ}؛ كما قال تعالى: {وما أكثرُ الناس ولو حَرَصْتَ بمؤمنينَ}.
[8] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اس میں نشانی ہے۔‘‘ یعنی اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو اسی طرح دوبارہ زندہ کرے گا جس طرح زمین کو اس کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’مگر یہ اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے: ﴿وَمَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ (یوسف:12؍103) ’’خواہ آپ کتنا ہی کیوں نہ چاہیں اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
#
{9} {وإنَّ ربَّكَ لهو العزيزُ}: الذي قد قَهَرَ كلَّ مخلوقٍ، ودان له العالمُ العلويُّ والسفليُّ. {الرحيمُ}: الذي وسعتْ رحمتُهُ كلَّ شيءٍ، ووصل جودُهُ إلى كلِّ حيٍّ، العزيز الذي أهلك الأشقياء بأنواع العقوبات، الرحيم بالسعداء؛ حيث أنجاهم من كل شرٍّ وبلاءٍ.
[9] ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’اور آپ کا رب غالب ہے۔‘‘ یعنی جو تمام مخلوق پر غالب ہے اور تمام عالم علوی و سفلی اس کے سامنے سرنگوں ہے ﴿الرَّحِیْمُ ﴾ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، اس کی نوازشیں ہر زندہ چیز تک پہنچتی ہیں ۔ وہ غالب ہے بدبختوں کو مختلف عقوبتوں کے ذریعے سے ہلاک کرتا ہے اور سعادت مندوں پر بہت مہربان ہے انھیں ہر شر اور ہر بلا سے نجات دیتا ہے۔
آیت: 10 - 68 #
{وَإِذْ نَادَى رَبُّكَ مُوسَى أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (10) قَوْمَ فِرْعَوْنَ أَلَا يَتَّقُونَ (11) قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ (12) وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَى هَارُونَ (13) وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ (14) قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ (15) فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (16) أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ (17) قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ (18) وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (19) قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ (20) فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ (21) وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (22) قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ (23) قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ (24) قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ (25) قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (26) قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ (27) قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (28) قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ (29) قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُبِينٍ (30) قَالَ فَأْتِ بِهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (31) فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (32) وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (33) قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ (34) يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ (35) قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (36) يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍ (37) فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (38) وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنْتُمْ مُجْتَمِعُونَ (39) لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِنْ كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ (40) فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ (41) قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (42) قَالَ لَهُمْ مُوسَى أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ (43) فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ (44) فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (45) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (46) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (47) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (48) قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ (49) قَالُوا لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ (50) إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَنْ كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ (51) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ (52) فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (53) إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (54) وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ (55) وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ (56) فَأَخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (57) وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (58) كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ (59) فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ (60) فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (61) قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (62) فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (63) وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ (64) وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ (65) ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (66) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (67) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (68)} مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ (43) فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ (44) فَأَلْقَى مُوسَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (45) فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (46) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (47) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (48) قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ (49) قَالُوا لَا ضَيْرَ إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ (50) إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَنْ كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ (51) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ (52) فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (53) إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (54) وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ (55) وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ (56) فَأَخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (57) وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (58) كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ (59) فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ (60) فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (61) قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (62) فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (63) وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ (64) وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ (65) ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (66) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (67) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (68)}.
اور (یاد کریں ) جب پکارا آپ کے رب نے موسیٰ کو، یہ کہ جا تو ظالم قوم کے پاس (10)( یعنی ) قوم فرعون کے پاس، کیا نہیں ڈرتے وہ؟ (11)موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! بے شک میں ڈرتا ہوں اس سے کہ وہ جھٹلائیں گے مجھے (12) اور تنگ ہوتا ہے میرا سینہ اور نہیں چلتی میری زبان، پس (وحی) بھیج تو ہارون کی طرف(13) اور ان کا میرے ذمہ ایک گناہ (جرم) ہے، سو ڈرتا ہوں میں اس سے کہ وہ قتل کر دیں مجھے (14) اللہ نے کہا، ہرگز نہیں پس جاؤ تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ یقینا ہم تمھارے ساتھ ہیں ، سننے والے (15) پس جاؤ تم فرعون کے پاس اور کہو، بلاشبہ ہم رسول ہیں رب العالمین کے (16) یہ کہ بھیج دے تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو (17) فرعون نے کہا، کیا نہیں پرورش کی تھی ہم نے تیری اپنے اندر جبکہ تو بچہ تھا اور ٹھہرا رہا ہے تو ہمار ے اندراپنی عمر میں سے کئی سال (18) اور کیا تو نے اپنا کام، وہ جو کیا تو نےاور تو ناشکروں میں سے ہے (19) موسیٰ نے کہا، کیا تھا میں وہ (کام) اس وقت جبکہ میں بھٹکے ہوئے لوگوں میں سے تھا (20) پس بھاگ گیا میں تم سے جب ڈرا میں تم سے، پس عطا کیا مجھے میرے رب نے حکم اور اس نے بنایا مجھے رسولوں میں سے (21)اور (کیا یہی ہے) وہ احسان کہ احسان جتلاتا ہے تو اس کا مجھ پر، یہ کہ غلام بنا رکھا ہے تو نے بنی اسرائیل کو؟ (22)کہا فرعون نےاور کیا ہے رب العالمین؟ (23)موسیٰ نے کہا،(وہ ہے) رب آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر ہو تم یقین کرنے والے (24) فرعون نے کہا ان لوگوں سے جو اس کے اردگرد تھے، کیا نہیں سنتے تم؟ (25) موسیٰ نے کہا، (وہ ہے) تمھارا رب اور رب تمھارے پہلے باپ دادا کا (26) فرعون نے کہا، بلاشبہ تمھارا رسول، وہ جو بھیجا گیا ہے تمھاری طرف، یقینا دیوانہ ہے (27)موسیٰ نے کہا، (وہ ہے) رب مشرق اور مغرب کا اور (ان کا) جوان دونوں کے درمیان ہے، اگر ہو تم عقل رکھتے (28) فرعون نے کہا، البتہ اگر پکڑا تو نے کوئی (اور) معبود سوائے میرے تو البتہ ضرور بنا دوں گا میں تجھے قیدیوں میں سے (29) موسیٰ نے کہا، کیا اگرچہ لاؤں میں تیرے پاس کوئی چیز واضح (تو بھی)؟(30)کہا اس نے، لے آتو وہ چیز، اگر ہے تو سچوں میں سے (31) پس ڈالا موسیٰ نے عَصَا اپنا تو ناگہاں وہ اژدہا تھا ظاہر (32) اور نکالا اس نے اپنا ہاتھ تو ناگہاں وہ سفید (چمکتا ہوا) تھا دیکھنے والوں کے لیے (33) کہا اس نے ان وڈیروں سے جو اردگرد تھے اس کے ، بلاشبہ یہ (موسیٰ) البتہ جادو گر ہے خوب جاننے والا (34) وہ چاہتا ہے کہ نکال دے تمھیں تمھاری زمین سے اپنے جادو کے ذریعے تو کیا مشورہ دیتے ہو تم؟ (35)انھوں نے کہا، مہلت دے تو اسے اور اس کے بھائی کواور بھیج تو شہروں میں اکٹھا کرنے والے (36)لے آئیں وہ تیرے پاس تمام بڑے بڑے ماہر جادو گر (37) پس جمع کیے گئے جادو گر (خاص) وقت پر ایک دن معین کے (38) اور کہا گیا لوگوں سے، کیا تم (بھی) جمع ہو گے؟(39) تاکہ ہم اتباع کریں جادو گروں کا، اگر ہوں وہی غالب (40) پس جب آئے جادو گر تو کہا انھوں نے فرعون سے، کیا بلاشبہ ہمارے لیے البتہ صلہ ہو گا اگر ہوں ہم ہی غالب؟ (41)اس نے کہا، ہاں ! اور بلاشبہ تم اس وقت البتہ (میرے) مقرب لوگوں میں سے ہو گے (42) کہا ان سے موسیٰ نے، ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو (43) پس ڈالیں انھوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں اور کہا انھوں نے، قسم ہے عزت فرعون کی، بلاشبہ ہم ، البتہ ہم ہی ہیں غالب (44) پس ڈالا موسیٰ نے اپنا عَصَا تو ناگہاں وہ نگلتا تھا جو کچھ وہ جھوٹ باندھتے تھے(45) پس گرا دیے گئے (وہ) جادو گر سجدہ کرتے ہوئے (46)کہا انھوں نے، ایمان لائے ہم رب العالمین کے ساتھ(47) جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا (48) کہا فرعون نے ، کیا ایمان لے آئے تم اس پر پہلے اس سے کہ میں اجازت دوں تمھیں ، بلاشبہ وہ البتہ تمھارا بڑاہے جس نے سکھایا ہے تمھیں جادو، سو یقینا عنقریب جان لو گے تم، البتہ ضرور کاٹوں گا میں تمھارے ہاتھ اور تمھارے پاؤں مخالف طرف سےاور البتہ ضرور سولی پر لٹکاؤں گا میں تم سب کو (49) انھوں نے کہا، نہیں کوئی حرج بے شک ہم طرف اپنے رب کی لوٹنے والے ہیں (50) بلاشبہ ہم امید رکھتے ہیں یہ کہ بخش دے گا ہمارے لیے ہمارا رب ہماری خطائیں ، اس لیے کہ ہم ہی ہیں پہلے ایمان لانے والے (51) اور وحی کی ہم نے موسیٰ کی طرف یہ کہ رات کو (نکال) لے جا تو میرے بندوں کو، بلاشبہ تم پیچھا کیے جاؤ گے (52) پس بھیجے فرعون نے شہروں میں اکٹھا کرنے والے (53) (یہ کہتے ہوئے) بلاشبہ یہ لوگ، البتہ ایک جماعت ہے تھوڑی سی (54) اور بلاشبہ وہ ہمیں یقینا غصہ دلانے والے ہیں (55) اور بلاشبہ ہم البتہ جماعت ہیں ہوشیار، چوکس (56)پس نکالا ہم نے انھیں باغات اور چشموں سے (57) اور خزانوں اور عمدہ قیام گاہوں سے (58) اسی طرح ہوا اور وارث بنایا ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو (59) پس پیچھے لگے فرعونی ان (بنی اسرائیل) کے سورج نکلتے وقت (60) سو جب ایک دوسرے کو دیکھا دونوں جماعتوں نے تو کہا اصحاب موسیٰ نے، یقینا ہم تو پکڑے گئے (61)موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں ، بلاشبہ میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا (62) پس وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی ، یہ کہ مار تو اپنا عَصَا سمندر کو پس سمندر پھٹ گیا اور ہو گیا ہر ایک ٹکڑا (سمندر کا) جیسے پہاڑ بہت بڑا (63) اور قریب کر دیا ہم نے وہاں دوسروں کو (64) اور نجات دی ہم نے موسیٰ کو اوران لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، سب کو (65) پھر غرق کر دیا ہم نے دوسروں (فرعونیوں ) کو (66) بلاشبہ اس میں البتہ ایک (عظیم) نشانی ہےاور نہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (67) اور بلاشبہ آپ کا رب، البتہ وہ ہے نہایت غالب بہت رحم کرنے والا(68)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰu کی مدح و ثنا اور ان کے واقعات کا بار بار جتنا اعادہ کیا ہے اتنا کسی اور واقعے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ موسیٰu کا قصہ عظیم حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس قصے میں اہل ایمان اور اہل کفر کے ساتھ حضرت موسیٰu کے طرز عمل کی تفصیل ہے نیز موسیٰu صاحب شریعت کبریٰ اور صاحب تورات تھے جو قرآن عظیم کے بعد سب سے افضل کتاب ہے۔
#
{10 ـ 11} واذْكُرْ حالة موسى الفاضلة وقت نداء الله إيَّاه حين كلَّمه ونبَّأه وأرسله، فقال: {أنِ ائتِ القومَ الظَّالمين}: الذين تَكَبَّروا في الأرض وعَلَوْا على أهلها وادَّعى كبيرُهُم الربوبيَّة، {قومَ فرعونَ ألَا يَتَّقونَ}؛ أي: قُلْ لهم بلينِ قولٍ ولطفِ عبارةٍ: ألا تتَّقونَ اللهَ الذي خَلَقَكم ورَزَقَكُم فتترُكون ما أنتم عليه من الكفر.
[11,10] فرمایا کہ حضرت موسیٰu کے فضیلت والے احوال کو یاد کیجیے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ندا دی، ان سے کلام فرمایا، ان کو نبوت سے سرفراز کیا، کو رسول بنا کر بھیجا اور انھیں حکم دیا ﴿ اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’ظالم لوگوں کے پاس جاؤ۔‘‘ جنھوں نے زمین میں تکبر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اللہ کی مخلوق پر جبر کے ساتھ مسلط ہیں اور ان کے سردار نے ربوبیت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ ﴿ قَوْمَ فِرْعَوْنَ١ؕ اَلَا یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’قوم ِفرعون کے پاس کیا وہ ڈرتے نہیں ۔‘‘ یعنی انھیں نہایت نرم لہجے اور لطیف عبارت میں کہہ دیجیے کہ تم اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتے جس نے تمھیں پیدا کیا، تمھیں رزق سے نوازا اور تم اس کے بدلے میں کفر کا رویہ اختیار كيے ہوئے ہو؟
#
{12 ـ 14} فقال موسى عليه السلام معتذراً من ربِّه ومبيِّناً لعذرِهِ وسائلاً له المعونَةَ على هذا الحمل الثقيل: {قال ربِّ إنِّي أخافُ أن يكذِّبونِ. ويضيقُ صَدْري ولا يَنْطَلِقُ لساني}، فقال: {ربِّ اشْرَحْ لي صَدْري. ويَسِّرْ لي أمري. واحْلُلْ عُقْدَهً من لساني. يَفْقَهوا قولي واجْعَلْ لي وزيراً من أهلي. هارونَ أخي}، {فأرسِلْ إلى هارونَ}: فأجاب الله طلبتَهُ ونبَّأ أخاه [هارون] كما نبَّأه، {فأرْسِلْهُ معي رِدْأً}؛ أي: معاوناً لي على أمري. {ولهم عليَّ ذنبٌ}؛ أي: في قتل القبطيِّ، {فأخافُ أن يَقْتُلونِ}.
[14-12] موسیٰu نے اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کر کے، اپنا عذر بیان کرتے ہوئے اس بھاری ذمہ داری کو اٹھانے میں معاون کا سوال کیا: ﴿ قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ۰۰وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ ﴾ ’’انھوں نے کہا، میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں اور میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان رکتی ہے۔‘‘ عرض کی ﴿ رَبِّ اشْ٘رَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ۰۰وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ۰۰وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ۰۰یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۰۰وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْ٘لِیْۙ۰۰هٰؔرُوْنَ اَخِی﴾ (طٰہٰ:20؍25-30) ’’اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے، میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات کو سمجھ سکیں ۔ میرے خاندان میں سے میرے لیے ایک وزیر مقرر کر دے، ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔‘‘ ﴿ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰؔرُوْنَ ﴾ ’’پس تو ہارون کی طرف پیغام بھیج۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ u کی دعا قبول فرما لی اور آپ کے بھائی حضرت ہارونu کو اسی طرح نبوت سے سرفراز فرمایا جس طرح حضرت موسیٰu کو سرفراز فرمایا تھا: ﴿ فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً ﴾ (القصص : 28؍34) ’’اس کو میرے ساتھ معاون بنا کر بھیج۔‘‘ یعنی میرے کام میں ہارون کو میرا معاون بنا دیتاکہ وہ لوگ میری تصدیق کریں ۔ ﴿ وَلَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ ﴾ ’’اور ان لوگوں کا میرے ذمہ ایک گناہ ہے۔‘‘ یعنی قبطی کے قتل کے ضمن میں ﴿ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ﴾ ’’تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔‘‘
#
{15 ـ 17} {قال كلاَّ}؛ أي: لا يتمكَّنون من قتلِكَ؛ فإنَّا سنجعلُ لكما سلطاناً؛ فلا يصِلون إليكُما [بآياتنا] أنتما ومن اتَّبَعَكما الغالبون، ولهذا لم يتمكَّنْ فرعونُ من قتل موسى مع منابذتِهِ له غايةَ المنابذةِ وتسفيه رأيِهِ وتضليلِهِ وقومه، {فاذهبا بآياتنا}: الدالَّةِ على صدقِكُما وصحَّةِ ما جئتما به، {إنَّا معكم مستمعونَ}: أحفظُكُما وأكلؤُكُما، {فأتِيا فرعونَ فقولا إنَّا رسولُ ربِّ العالمينَ}؛ أي: أرسلنا إليك لِتُؤْمِنَ به وبنا، وتنقادَ لعبادتِهِ وتذعنَ لتوحيدِهِ. {أنْ أرْسِلْ مَعَنا بني إسرائيلَ}: فكُفَّ عنهم عذَابَكَ، وارْفَعْ عنهم يَدَكَ؛ ليَعْبُدوا ربَّهم، ويُقيموا أمر دينِهِم.
[17-15] ﴿ قَالَ كَلَّا﴾ ’’اللہ نے فرمایا، ہرگز نہیں ‘‘ یعنی وہ تجھ کو قتل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ تم دونوں کو ہم قوت عطا کر دیں گے۔ ﴿ فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا١ۛۚ بِاٰیٰتِنَاۤ ١ۛۚ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ﴾ (القصص : 28؍35) ’’پس وہ ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم دونوں تک پہنچ نہیں سکیں گے تم دونوں اور تمھارے پیرو کار ہی غالب رہیں گے۔‘‘ اسی لیے فرعون، حضرت موسیٰu کے ساتھ انتہائی دشمنی، آپ کی رائے کو سفاہت قرار دینے، آپ کو اور آپ کی قوم کو گمراہ جاننے کے باوجود آپ کے قتل پر قادر نہ ہو سکا۔ ﴿ فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ ﴾ ’’پس تم دونوں ہماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ‘‘ جو تمھاری صداقت اور جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ۔ ﴿اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ﴾ ’’ہم تمھارے ساتھ سننے والے ہیں ۔‘‘ میں تم دونوں کی حفاظت کروں گا اور تم پر نظر رکھوں گا۔ ﴿ فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تمام جہانوں کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔‘‘ یعنی ہمیں تیری طرف بھیجا گیا ہے تاکہ تو اللہ تعالیٰ پر اور ہم پر ایمان لائے، اس کی توحید کو مان لے اور اس کی عبادت کے لیے اس کی اطاعت کرے۔ ﴿ اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’یہ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔‘‘ ان کو تعذیب اور ایذا دینا چھوڑ دے اور ان پر سے اپنی غلامی کا جوا اٹھا لے تاکہ وہ اپنے رب کی عبادت کر سکیں اور اپنے امور دین کو قائم کر سکیں ۔
#
{18 ـ 19} فلما جاءا لفرعونَ وقالا له ما قالَ الله لهما؛ لم يؤمنْ فرعونُ، ولم يَلِنْ، وجعل يعارض موسى، فقال: {ألم نُرَبِّكَ فينا وليداً}؛ أي: ألم ننعم عليكَ ونقوم بتربيتِكَ منذ كنت وليداً في مهدِكَ ولم تزل كذلك، {ولَبِثْتَ فينا من عُمُرِكَ سنينَ. وفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ التي فَعَلْتَ}: وهي قتلُ موسى للقبطيِّ حين {استغاثَهُ الذي من شيعتِهِ على الذي من عَدُوِّه فَوَكَزَهُ موسى فقضى عليه ... } الآية. {وأنت من الكافرين}؛ أي: وأنت إذ ذاك طريقُك طريقُنا وسبيلُك سبيلُنا في الكفر، فأقرَّ على نفسِهِ بالكفرِ من حيث لا يدري.
[19,18] جب حضرت موسیٰ اور ہارونi فرعون کے پاس آئے اور وہ سب کچھ اس سے کہہ دیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ مگر فرعون ایمان نہ لایا اور نہ اس میں کسی قسم کی نرمی ہی پیدا ہوئی بلکہ اس نے موسیٰu کی مخالفت شروع کر دی۔ کہنے لگا ﴿ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا﴾ ’’کیا ہم نے تیری، کہ تو ابھی بچہ ہی تھا، پرورش نہیں کی۔‘‘ یعنی کیا ہم نے تجھے اپنی نعمتوں سے نہیں نوازا؟ کیا ہم نے تیری اس وقت سے پرورش نہیں کی جب تو پنگوڑے میں تھا اور تو اسی طرح ہمارے پاس پرورش پاتا رہا؟ ﴿ وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ۰۰ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِیْ فَعَلْتَ ﴾ ’’اور تو نے ہمارے پاس اپنی عمر کے کتنے ہی سال گزارے ہیں اور تو نے وہ کام کیا تھا جو کیا۔‘‘ اس سے مراد موسیٰu کے ہاتھوں قبطی کا قتل ہے، جب اس قبطی کے خلاف جو کہ دشمن گروہ سے تھا اس شخص نے مدد چاہی جو کہ موسیٰ(u) کی قوم سے تھا۔ ﴿ فَوَؔكَزَهٗ مُوْسٰؔى فَ٘قَ٘ضٰى عَلَیْهِ﴾ (القصص:28؍15) ’’تو موسیٰu نے اس کو ایک مکا رسید کیا اور اس کا کام تمام کر دیا۔‘‘ ﴿وَاَنْتَ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور تو بھی کافروں میں سے تھا۔‘‘ یعنی اس وقت تیرا طریقہ اور راستہ وہی تھا جو کافرانہ طریقہ اور راستہ ہمارا تھا۔ پس فرعون نے اپنے بارے میں غیر شعوری طورپر کفر کا اقرار کیا۔
#
{20 ـ 22} فقال موسى: {فعلتُها إذاً وأنا من الضَّالِّين}؛ أي: عن غير كفرٍ، وإنَّما كان عن ضلال وسَفَهٍ، فاستغفرتُ ربي فغفر لي، {ففررتُ منكم لمَّا خِفْتُكم}: حين تراجعتُم بقتلي، فهربتُ إلى مدينَ، ومكثتُ سنينَ، ثم جئتُكم وقد وهب {لي ربِّي حُكماً وجَعَلني من المرسلين}. فالحاصلُ أنَّ اعتراضَ فرعونَ على موسى اعتراضُ جاهل أو متجاهل؛ فإنَّه جَعَلَ المانعَ من كونِهِ رسولاً أن جرى منه القتلُ، فبيَّن له موسى أن قَتْلَه على وجهِ الضلال والخطأ الذي لم يقصِدْ نفسَ القتل، وأنَّ فضل الله تعالى غيرُ ممنوع منه أحدٌ؛ فلم منعتُم ما منحني الله من الحكم والرسالة؟ بقي عليك يا فرعون إدلاؤُكَ بقولِكَ: {ألم نربِّكَ فينا وليداً}؟ وعند التحقيق يتبيَّن أن لا مِنَّةَ لك فيها، ولهذا قال موسى: {وتلك نعمةٌ} تمنُّ بها {عليَّ أنْ عَبَّدْتَ بني إسرائيلَ}؛ أي: تدلي عليَّ بهذه المنَّة لأنَّك سَخَّرْتَ بني إسرائيلَ، وجعلتَهم لك بمنزلةِ العبيدِ، وأنا قد أسْلَمْتَني من تعبيدِكَ وتسخيرِكَ، وجعلتها عليَّ نعمةً؛ فعند التصوُّرِ يتبيَّنُ أنَّ الحقيقةَ أنَّك ظلمتَ هذا الشعب الفاضل، وعذَّبْتَهم وسخَّرْتَهم بأعمالك، وأنا قد سلَّمنَي الله من أذاك، مع وصول أذاك لقومي؛ فما هذه المنة التي تَمُتُّ بها وتُدْلي بها؟!
[22-20] موسیٰ u نے فرمایا: ﴿ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْ٘نَ ﴾ ’’وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطا کاروں میں سے تھا۔‘‘ یعنی میں نے وہ قتل کفر کی بنا پر نہیں کیا وہ خطا اور نادانی کے باعث ہوا۔ پس میں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی تو اس نے مجھے معاف کر دیا۔ ﴿ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ﴾ ’’پس جب مجھے تم سے ڈر لگا تو میں تم سے بھاگ گیا۔‘‘ یہ وہ وقت تھا جب تم نے میرے قتل کا مشورہ کرلیا تھا پس میں مدین کی طرف بھاگ کر چلا گیا اور کئی سال وہاں رہا، پھر تمھارے پاس چلا آیا۔ ﴿ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ ’’پھر اللہ نے مجھے نبوت و علم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا۔‘‘ حاصل کلام یہ ہے کہ موسیٰ u پر فرعون کا اعتراض ایک جاہل یا جان بوجھ کر جاہل بننے والے کا اعتراض ہے کیونکہ اس نے آنجناب کے رسول ہونے سے اس امر کو مانع قرار دیا کہ ان سے قتل کا ارتکاب ہو گیا تھا۔ حضرت موسیٰu نے فرعون پر واضح کر دیا کہ ان سے یہ قتل انجانے اور خطا سے ہوا ہے جس میں انسان کے قتل کے ارادے کو دخل نہیں ہوتا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فضل کسی کے لیے ممنوع نہیں ہے تو پھر تم حکمت اور رسالت کو مجھ سے کیونکر روک سکتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی ہے۔ اے فرعون! باقی رہا تیرا یہ طعنہ: ﴿اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا﴾ ’’کیا ہم نے تیری، جبکہ تو بچہ تھا، پرورش نہیں کی۔‘‘ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس میں تیرا کوئی احسان نہیں ۔ اس لیے موسیٰu نے فرمایا: ﴿ وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ یعنی تو مجھ پر یہ احسان جتلاتا ہے حالانکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اور تو نے مجھے اپنی غلامی سے بچا دیا ہے اور اسے تو مجھ پر اپنی نعمت اور اپنا احسان قرار دیتا ہے۔ غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تو نے اس فضیلت والے گروہ پر ظلم کیا ہے تو نے اپنے ظلم سے ان کو مطیع کرکے عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ تو نے میری قوم پر اذیت اورتعذیب کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تیری ایذا رسانی سے محفوظ رکھا۔ اس میں کون سا احسان ہے جو تو مجھ پرجتلاتا ہے؟
#
{23 ـ 25} {قال فرعونُ وما ربُّ العالمينَ}: وهذا إنكارٌ منه لربِّه ظلماً وعلوًّا، مع تيقُّن صحة ما دعاه إليه موسى، {قال ربُّ السمواتِ والأرض وما بينَهما}؛ أي: الذي خَلَقَ العالم العلويَّ والسفليَّ، ودبَّره بأنوع التدبير، وربَّاه بأنواع التربية، ومن جملة ذلك أنتم أيُّها المخاطبون؛ فكيف تنكِرونَ خالقَ المخلوقات وفاطرَ الأرض والسماواتِ، {إنْ كنتُم موقِنينَ}، فقال فرعون متجرهماً ومعجباً لقوله: {ألا تستمعونَ}: ما يقوله هذا الرجل.
[25-23] ﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’فرعون نے کہا، تمام جہانوں کا مالک کیا ہے؟‘‘ یہ فرعون کی طرف سے ظلم اور تکبر کی بنا پر اپنے رب کا انکار ہے۔ حالانکہ اسے موسیٰu کی دعوت کی صحت کا یقین تھا۔ موسیٰu نے جواب میں فرمایا: ﴿ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ﴾ ’’آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے سب کا مالک ہے۔‘‘ یعنی جس نے عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کیا اور مختلف تدابیر کے ذریعے سے ان کا انتظام کیا اور مختلف طریقوں سے ان کی تربیت کی۔ اے مخاطب لوگو! تم کائنات اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے کا کیونکر انکار کر سکتے ہو؟ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ﴾ ’’اگر تم یقین رکھتے ہو۔‘‘ فرعون نے تکبر اور تعجب کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا: ﴿اَلَا تَ٘سْتَمِعُوْنَ ﴾ ’’کیا تم سنتے نہیں ‘‘ کہ یہ شخص کیا کہتا ہے۔
#
{26 ـ 27} فقال موسى: {ربُّكم وربُّ آبائِكُمُ الأوَّلين}: تعجَّبْتُم أم لا، استكبرتُم أم أذعنتُم، فقال فرعون معانداً للحقِّ قادحاً بمن جاء به: {إنَّ رسولَكُم الذي أُرسِلَ إليكم لمجنونٌ}: حيث قال خلاف ما نحنُ عليه، وخالَفَنا فيما ذهبنا إليه؛ فالعقل عنده وأهل العقل مَنْ زَعموا أنَّهم لم يُخْلَقوا، أو أن السماواتِ والأرض ما زالتا موجودتين من غير موجدٍ، وأنهم بأنفسهم خُلِقوا من غير خالق! والعقلُ عنده أن يُعْبَدَ المخلوقُ الناقصُ من جميع الوجوه! والجنون عندَه أن يُثْبَتَ الربُّ الخالق للعالم العلويِّ والسفليِّ والمنعمُ بالنِّعم الظاهرةِ والباطنةِ ويُدْعى إلى عبادتِهِ! وزيَّنَ لقومِهِ هذا القول، وكانوا سفهاء الأحلام خفيفي العقول، {فاستخفَّ قومَه فأطاعوه إنَّهم كانوا قوماً فاسقينَ}.
[27,26] موسیٰu نے فرمایا: ﴿ وَرَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یعنی خواہ تم تعجب کرو یا نہ کرو، خواہ تم تکبر کرو یا فروتنی، اللہ تعالیٰ تمھارا اور تمھارے آباء و اجداد کا رب ہے۔فرعون نے حق کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا اور حضرت موسیٰu کی دعوت میں جرح و قدح کرتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ ﴾ ’’تمھارا یہ رسول، جسے تمھاری طرف بھیجا گیا ہے، دیوانہ ہے۔‘‘ کیونکہ وہ ایسی بات کہتا ہے جو ہمارے عقیدے کے خلاف ہے اور اس راستے کی مخالفت کرتا ہے جس پر ہم گامزن ہیں ۔ پس اس کے نزدیک عقل مندی اور عقل مند وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ انھیں اور زمین و آسمان کو کسی نے پیدا نہیں کیا۔ یہ زمین و آسمان کسی موجد کی ایجاد کے بغیر ہمیشہ سے موجود ہیں اور خود ان کی ذات بغیر خالق کے خود بخود وجود میں آئی ہے اور اس کے نزدیک عقل مندی یہ ہے کہ مخلوق کی عبادت کی جائے جو ہر لحاظ سے ناقص اور محتاج ہے اور جنون اس کے نزدیک یہ ہے کہ رب کا اثبات کیا جائے جو عالم علوی اور عالم سفلی کو پیدا کرنے والا، ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرنے والا ہے اور اس رب کی عبادت کی طرف دعوت دی جائے۔ اس نے اپنی بات کو آراستہ کر کے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس کی قوم کے لوگ بیوقوف اور کم عقل تھے: ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ﴾ (الزخرف:43؍54) ’’پس اس نے اپنی قوم کی عقل کھودی اور انھوں نے اس کی اطاعت کرلی، یقینا وہ بڑے فاسق لوگ تھے۔‘‘
#
{28} فقال موسى عليه السلام مجيباً لإنكار فرعون وتعطيلِهِ لربِّ العالمين: {ربُّ المشرقِ والمغربِ وما بينَهما}: من سائر المخلوقات، {إنْ كنتُم تعقِلونَ}: فقد أدَّيْتُ لكم من البيان والتبيينِ ما يفهمُهُ كلُّ من له أدنى مُسْكَةٍ من عقل؛ فما بالُكم تتجاهلون فيما أخاطبكم به؟! وفيه إيماءٌ وتنبيهٌ إلى أنَّ الذي رميتُم به موسى من الجنون أنَّه داؤُكم، فرميتُم أزكى الخلق عقلاً وأكملهم علماً [بالجنون]!، والحالُ أنَّكم أنتم المجانين؛ حيث ذهبتْ عقولُكم عن إنكار أظهر الموجودات؛ خالق الأرض والسماوات وما بينهما؛ فإذا جَحَدْتُموه؛ فأيُّ شيءٍ تثبتون؟! وإذا جهلِتموه؛ فأيُّ شيءٍ تعلمون؟! وإذا لم تؤمنوا به وبآياته؛ فبأيِّ شيء بعد الله وآياته تؤمنون؟! تالله؛ إنَّ المجانين الذين بمنزلة البهائم أعقل منكم، وإنَّ الأنعام السارحةَ أهدى منكم.
[28] فرعون کے انکار اور رب العالمین کو اس کے معطل قرار دینے پر موسیٰu نے فرمایا: ﴿ رَبُّ الْ٘مَشْرِقِ وَالْ٘مَغْرِبِ وَمَا بَیْنَهُمَا﴾ ’’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے، سب کا مالک ہے۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات کا بھی پروردگار ہے۔ ﴿ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’اگر تم سمجھ رکھو۔‘‘ یعنی میں نے پوری طرح واضح کر دیا ہے، جس کے پاس معمولی سی بھی عقل ہے اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جو چیز میں تمھیں بتا رہا ہوں تم اس کے بارے میں جان بوجھ کرجہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف اشارہ اور تنبیہ ہے کہ تم نے جس جنون کو موسیٰu کی طرف منسوب کیا ہے وہ درحقیقت تمھاری بیماری ہے اور تم نے اسے مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اور علم میں سب سے زیادہ کامل ہستی کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ درآں حا لیکہ تم خود مجنون ہو کیونکہ تم نے موجودات میں سب سے زیادہ ظاہر ہستی کا انکار کر دیا ہے جو زمین و آسمان اور تمام کائنات کی خالق ہے۔ جب تم نے اس کا انکار کر دیا تو پھر کون سی چیز ہے جس کا تم اثبات کر رہے ہو؟ جب تم یہ چیز نہیں جانتے تو پھر تم کیا جانتے ہو؟ جب تم اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات پر ایمان نہیں لاتے تو پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد تم کس چیز پر ایمان لاؤ گے؟ اللہ کی قسم! وہ پاگل لوگ جو جانوروں کی مانند ہیں ، تم سے زیادہ عقل مند ہیں اور گھاس چرنے والے مویشی بھی تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں ۔
#
{29 ـ 33} فلما خنقت فرعونَ الحجةُ وعجزتْ قدرتُهُ وبيانُه عن المعارضة؛ {قال}: متوعداً لموسى بسلطانه: {لَئِنِ اتَّخذتَ إلهاً غيري لأجْعَلَنَّكَ من المسجونينَ}: زعم قبَّحه الله أنَّه قد طمع في إضلال موسى، وأنْ لا يتَّخِذَ إلهاً غيرَه، وإلاَّ؛ فقد تقرَّر أنه هو ومن معه على بصيرةٍ من أمرهم، فقال له موسى: {أولو جئتُك بشيءٍ مُبين}؛ أي: آيةٍ ظاهرةٍ جليَّةٍ على صحَّة ما جئتُ به من خوارق العادات، {قال فأتِ به إن كنتَ من الصادقينَ. فألْقى عصاه فإذا هي ثُعبانٌ}؛ أي: ذكر الحيات. {مبينٌ}: ظاهرٌ لكلِّ أحدٍ لا خيالٌ ولا تشبيهٌ، {ونَزَعَ يدَه}: من جيبه، {فإذا هي بيضاءُ للنَّاظِرينَ}؛ أي: لها نورٌ عظيم لا نقصَ فيه لمن نظر إليها.
[33-29] جب حضرت موسیٰu کی دلیل نے فرعون کو لاجواب کر دیا تو اس کی قدرت اور اس کا بیان موسیٰu کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گیا ﴿ قَالَ ﴾ ’’تو اس نے کہا‘‘ موسیٰu کو طاقت اور سلطنت کا رعب جماتے ہوئے اور دھمکی دیتے ہوئے ﴿ لَىِٕنِ اتَّؔخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ ﴾ ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قید کر دوں گا۔‘‘ اللہ اس کا برا کرے… اس کی خواہش تھی کہ وہ موسیٰu کو گمراہ کر دے اور موسیٰu اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائیں ورنہ یہ بات متحقق تھی کہ موسیٰu اور ان کے ساتھیوں کا موقف بصیرت پر مبنی تھا۔ موسیٰu نے اس سے فرمایا: ﴿اَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِیْنٍ﴾ یعنی خواہ میں اپنی دعوت پر واضح اور نمایاں معجزہ ہی کیوں نہ لے آؤں ؟ ﴿ قَالَ فَاْتِ بِهٖۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ۰۰ فَاَلْ٘قٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’فرعون نے کہا، اگر سچے ہو تو اس کو لاؤ۔ پس انھوں نے لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت اژدھا بن گئی۔‘‘ یعنی نر سانپ ﴿ مُّبِیْنٌ ﴾ وہ ہر ایک پر ظاہر تھا، تخیل اور تشبیہ کا کرشمہ نہ تھا۔ ﴿ وَّنَزَعَ یَدَهٗ ﴾ ’’اور آپ نے اپنا ہاتھ نکالا‘‘ اپنے گریباں سے ۔ ﴿ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ ﴾ ’’تو وہ اسی وقت دیکھنے والوں کو سفید نظر آنے لگا۔‘‘ یعنی یہ بہت زیادہ روشن تھا اور اس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ تھا۔
#
{34 ـ 37} {قال} فرعون {للملأ حولَه}: معارضاً للحقِّ ومَنْ جاء به: {إنَّ هذا لساحرٌ عليمٌ. يريدُ أنْ يُخْرِجَكم من أرضِكُم}: موَّه عليهم لعلمِهِ بضَعْفِ عقولهم أنَّ هذا من جنس ما يأتي به السحرةُ؛ لأنَّه من المتقرِّر عندَهم أنَّ السحرة يأتون من العجائب بما لا يقدِرُ عليه الناس، وخوَّفَهم أن قصدَهُ بهذا السحر التوصُّل إلى إخراجهم من وطنهم؛ ليجدُّوا ويجتهدوا في معاداةِ مَنْ يريدُ إجلاءهم عن أولادِهِم وديارِهِم، {فماذا تأمرونَ} أن نَفْعَلَ به؟ {قالوا أرْجِهْ وأخاهُ}؛ أي: أخِّرْهما، {وابْعَثْ في المدائن حاشرينَ}: جامعين للناس، يأتوكَ أولئك [الحاشرون] {بكلِّ سَحَّارٍ عليم}؛ أي: ابعثْ في جميع مُدُنِكَ التي هي مقرُّ العلم ومعدنُ السحر مَنْ يجمعُ لك كلَّ ساحرٍ ماهرٍ عليم في سحرِهِ؛ فإنَّ الساحرَ يُقَابَلُ بسحرٍ من جنس سحرِهِ، وهذا من لطفِ الله؛ أن يريَ العبادَ بطلانَ ما موَّه به فرعونُ الجاهلُ الضالُّ المضلُّ أنَّ ما جاء به موسى سحرٌ؛ قيضهم أن جمعوا أهل المهارة بالسحر؛ لينعقد المجلسُ عن حضرةِ الخلق العظيم، فيظهر الحقُّ على الباطل، ويقر أهل العلم وأهل الصناعة بصحَّةِ ما جاء به موسى، وأنَّه ليس بسحر.
[37-34] ﴿ قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ ﴾ فرعون نے حق اور موسیٰu کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے حاشیہ نشیں سرداروں سے کہا: ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ ۰۰ یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ﴾ ’’یہ کامل فن جادوگر ہے چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو کے ذریعے سے تمھارے ملک سے نکال دے۔‘‘ چونکہ اسے علم تھا کہ یہ ضعیف العقل لوگ ہیں اس لیے ان کے سامنے ملمع سازی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو جادو گروں کے شعبدوں کی جنس میں سے ایک شعبدہ ہے کیونکہ ان کے ہاں یہ بات مسلمہ تھی کہ جادوگر ایسے حیرت انگیز شعبدے دکھا سکتے ہیں جو لوگوں کی قدرت سے باہر ہیں ۔ فرعون نے ان کو ڈرایا کہ موسیٰu کا مقصد اس جادو کے ذریعے سے تمام لوگوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرنا ہے تاکہ وہ اس شخص کے ساتھ عداوت رکھنے میں پوری جدوجہد کریں جو انھیں اپنے اہل و عیال اور گھروں سے جلا وطن کرنا چاہتا ہے۔ ﴿فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ﴾ ’’بتلاؤ! تمھارا کیا مشورہ ہے‘‘ کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں ۔ ﴿ قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ﴾ ’’انھوں نے کہا، اس کے اور اس کے بھائی کے بارے میں کچھ توقف کیجیے۔‘‘ یعنی ان دونوں کو روک لو ﴿وَابْعَثْ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَ﴾ اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے شہروں میں ہر کارے دوڑا دو ﴿ یَ٘اْتُوْكَ بِكُ٘لِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ ﴾ ’’وہ سب ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں ۔‘‘ یعنی ان تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دو جو علم کا گہوارہ اور جادو کا گڑھ ہیں تاکہ وہ تمام ماہر جادو گروں کو اکٹھا کر لیں جو جادو کا پورا علم رکھتے ہیں کیونکہ جادوگر کا مقابلہ اسی قسم کے جادو ہی سے کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر جاہل، گمراہ اور گمراہ کرنے والے فرعون کی جعل سازیوں کا بطلان واضح کیا جو یہ کہتا تھا کہ یہ سب موسیٰ (u) کی شعبدہ بازی ہے۔ اس نے انھیں پابند کیا کہ وہ ماہر جادو گروں کو جمع کریں تاکہ ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے مجلس منعقد ہو، حق باطل پر غالب آئے اور اہل علم اور شعبدہ باز موسیٰu کی دعوت کی صحت کا اقرار کریں نیز یہ اعتراف کریں کہ موسیٰu کا معجزہ جادو نہیں ۔
#
{38 ـ 40} فعمل فرعون برأيهم، فأرسل في المدائن من يَجْمَعُ السحرةَ، واجتهدَ في ذلك وجدَّ، {فَجُمِعَ السحرةُ لميقاتِ يوم معلوم}: قد واعَدَهم إيَّاه موسى، وهو يوم الزينةِ الذي يتفرَّغون فيه من أشغالهم، {وقيلَ للناس هل أنتم مُجْتَمِعونَ}؛ أي: نودي بعموم الناس بالاجتماع في ذلك اليوم الموعود، {لعلَّنا نَتَّبعُ السحرةَ إن كانوا هم الغالبينَ}؛ أي: قالوا للناس: اجتَمِعوا لِتَنْظُروا غلبةَ السحرة لموسى، وأنَّهم ماهرون في صناعتِهِم، فنتَّبِعَهم ونعظِّمَهم ونعرفَ فضيلة علم السحر. فلو وُفِّقوا للحقِّ؛ لقالوا: لعلَّنا نتَّبِعُ المحقَّ منهم، ونعرفُ الصوابَ؛ فلذلك ما أفاد فيهم ذلك إلاَّ قيامَ الحجة عليهم.
[40-38] فرعون نے ان کی رائے پرعمل کرتے ہوئے تمام شہروں میں ہر کارے دوڑا دیے تاکہ وہ جادو گروں کو اکٹھا کریں اور اس نے اس معاملے میں پوری جدوجہد کی۔ ﴿ فَ٘جُمِعَ السَّحَرَةُ لِـمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ﴾ ’’تو جادوگر ایک مقرر دن کی میعاد پر جمع کرلیے گئے۔‘‘ یہ دن موسیٰu نے مقابلے کے لیے مقرر کر دیا، یعنی ان کے جشن کا دن اس دن وہ اپنے کاموں سے فارغ ہوتے تھے۔ ﴿ وَّقِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ﴾ ’’اور لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ تم (سب) کو اکٹھے ہو کر جانا چاہیے۔‘‘ یعنی اس مقررہ دن، لوگوں کے جمع ہونے کے لیے عام منادی کرائی گئی۔ ﴿ لَعَلَّنَا نَ٘تَّ٘بِـعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ ﴾ ’’تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہو جائیں ۔‘‘ یعنی انھوں نے لوگوں سے کہا کہ سب اکٹھے ہو جاؤ تاکہ موسیٰu پر جادو گروں کی فتح کا نظارہ کر سکو۔ یہ بہت ماہر جادوگر ہیں ہم ان کی تعظیم اور پیروی کریں اور علم سحر کا اعتراف کریں ۔ اگر وہ حق کے خواہاں ہوتے تو کہتے کہ ہم ان میں سے اس شخص کی پیروی کریں ، جو حق پر ہو۔ نیز حق و صواب کا اعتراف کریں ، اس لیے اس مقابلے نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا، البتہ ان کے خلاف حجت قائم ہو گئی۔
#
{41 ـ 42} {فلما جاء السحرةُ}: ووصلوا لفرعونَ؛ قالوا له: {أإنَّ لنا لأجراً إنْ كنَّا نحنُ الغالبينَ}: لموسى، {قال نعم}: لكم أجر وثواب، وإنَّكم لَمِنَ المقرَّبينَ عندي؛ وعَدَهم الأجرَ والقربةَ منه؛ ليزدادَ نشاطُهم ويأتوا بكلِّ مقدورِهم في معارضة ما جاء به موسى.
[42,41] ﴿ فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ ﴾ ’’پس جب جادوگر آ گئے۔‘‘ یعنی جب جادوگر فرعون کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: ﴿ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ ﴾ ’’کیا ہمیں انعام ملے گا اگر ہم موسیٰ پر غالب رہے۔‘‘ ﴿ قَالَ نَعَمْ ﴾ ’’کہا ضرور‘‘ تم کو اجرت اور انعام ملے گا ﴿وَاِنَّـكُمْ اِذًا لَّ٘مِنَ الْ٘مُقَرَّبِیْنَ ﴾ ’’اور اس وقت تم مقربین میں شامل کر لیے جاؤ گے۔‘‘ فرعون نے ان سے انعام اور مقرب بنانے کا وعدہ کر لیا تاکہ ان کے نشاط میں اضافہ ہو اور وہ پوری طاقت کے ساتھ موسیٰu کے معجزات کا مقابلہ کریں ۔
#
{43 ـ 45} فلما اجتمعوا للموعدِ هم وموسى وأهلُ مصر؛ وعَظَهم موسى وذكَّرهم وقال: {ويلَكُم لا تفتروا على الله كذباً فيُسْحِتَكم بعذابٍ وقد خابَ مَنِ افْتَرى}، فتنازعوا وتخاصموا، ثم شجَّعهم فرعونُ وشجَّع بعضُهم بعضاً، {قال لهم موسى ألقوا ما أنتم مُلْقونَ}؛ أي: ألقوا كل ما في خواطركم إلقاؤه ولم يقيده بشيءٍ دون شيءٍ لجزمه ببطلان ما جاؤوا به من معارضة الحقِّ، {فألقَوْا حبالَهُم وعِصِيَّهم}: فإذا هي حياتٌ تسعى، وسَحَروا بذلك أعين الناس. {وقالوا بعزَّة فرعونَ إنَّا لنحنُ الغالبونَ}: فاستعانوا بعزَّةِ عبدٍ ضعيفٍ عاجزٍ من كلِّ وجهٍ؛ إلاَّ أنَّه قد تجبَّر وحصلَ له صورة مُلْكٍ وجنودٍ، فغرَّتهم تلك الأبهة، ولم تنفذ بصائِرُهم إلى حقيقة الأمر، أو أنَّ هذا قَسَمٌ منهم بعزَّةِ فرعونَ، والمقسَم عليه أنَّهم غالبون، {فألقى موسى عصاه فإذا هي تَلْقَفُ}: تبتلعُ وتأخُذُ {ما يأفِكونَ}: فَالْتَقَفتْ جميعَ ما ألقَوْا من الحبال والعصيِّ؛ لأنَّها إفكٌ وكذبٌ وزورٌ، وذلك كلُّه باطلٌ لا يقوم للحقِّ ولا يقاومُه.
[45-43] جب مقررہ روز جادوگر، موسیٰu اور اہل مصر اکٹھے ہوئے تو موسیٰu نے ان کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ١ۚ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى ﴾ (طٰہٰ:20؍61) ’’تمھارا برا ہو، اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ عذاب تمھاری جڑ کاٹ کر رکھ دے گا اور جو بہتان طرازی کرتا ہے وہ خائب و خاسر ہوتا ہے۔‘‘ اس پر وہ آپس میں جھگڑنے لگے، پھر فرعون نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور انھوں نے خود بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا۔ ﴿۠ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْ٘قُوْنَ ﴾ ’’تو موسیٰ(u) نے کہا جو تمھارے جی میں آئے اسے پھینکو۔‘‘ آپ نے ان پر کسی جادو اور شعبدہ بازی کی قید نہیں لگائی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ حق کے مقابلے کے لیے جس شعبدہ بازی کا بھی سامان لے کر آئے ہیں ، سب باطل ہے۔ ﴿ فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِیَّهُمْ﴾ ’’تو انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔‘‘ تو اسی وقت وہ سانپ بن کر چلنے لگیں اور اس طرح انھوں نے لوگوں کی آنکھوں کو سحر زدہ کر دیا۔ ﴿ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ ﴾ ’’اور وہ کہنے لگے کہ فرعون کی عزت کی قسم! ہم ضرور غالب رہیں گے۔‘‘ پس انھوں نے ایک کمزور بندے سے مدد طلب کی جو ہر لحاظ سے عاجز تھا، البتہ وہ جبر سے مسلط تھا اور اسے اقتدار اور فوج کی طاقت حاصل تھی۔ اس تکبر اور نخوت نے اس کو فریب میں مبتلا کر رکھا تھا اور ان کی نظر فریب کے اس پردے کو چاک کر کے حقیقت الامر تک نہیں پہنچ سکی … یا یہ ان کی طرف سے عزت فرعون کے ساتھ قسم ہے اور ﴿اِنَّهُمْ الْغٰلِبُوْنَ ﴾ مقسم علیہ ہے۔ ﴿ فَاَلْ٘قٰى مُوْسٰؔى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَ٘اْفِكُوْنَ ﴾ ’’پس موسیٰ (u) نے اپنی لاٹھی ڈالی تو یکایک وہ ان کے جھوٹے شعبدے کو نگلتی چلی گئی۔‘‘ اور موسیٰu کے عصا نے ان تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کر لیا جو انھوں نے پھینکی تھیں کیونکہ ان کا جادو، سراسر بہتان، کذب اور باطل تھا جو حق کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
#
{46 ـ 48} فلما رأى السحرةُ هذه الآية العظيمةَ؛ تيقَّنوا لعلمِهِم أن هذا ليس بسحرٍ، وإنَّما هو آيةٌ من آياتِ الله ومعجزةٌ تنبئ بصدق موسى وصحَّة ما جاء به، {فأُلْقِيَ السحرةُ ساجدينَ}: لربِّهم، {قالوا آمنَّا بربِّ العالمينَ. ربِّ موسى وهارونَ}: وانقمع الباطلُ في ذلك المجمع، وأقرَّ رؤساؤُهُ ببطلانِهِ، ووضَحَ الحقُّ وظهر، حتى رأى ذلك الناظرون بأبصارهم.
[48-46] جب جادو گروں نے یہ عظیم معجزہ دیکھا تو انھیں یقین ہو گیا کہ یہ جادونہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور ایک معجزہ ہے جو موسیٰu کی صداقت اور ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿ فَاُلْ٘قِیَ السَّحَرَةُ سٰؔجِدِیْنَ﴾ ’’پس جادوگر (اپنے رب کے حضور) سجدہ ریز ہو گئے۔‘‘ ﴿ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْ٘عٰلَمِیْنَۙ ۰۰ رَبِّ مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ ﴾ ’’کہنے لگے ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے جو موسیٰ اور ہارون (i) کا رب ہے۔‘‘ اس بھرے مجمع میں باطل ذلیل و خوار ہو گیا۔ باطل کے رؤسا اور سرداروں نے اس کے بطلان کا اقرار کیا۔ حق واضح ہو گیا اور غالب آ گیا حتی کہ حق کی فتح کو دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
#
{49 ـ 51} ولكنْ أبى فرعونُ إلاَّ عتوًّا وضلالاً وتمادياً في غيِّه وعناداً، فقال للسحرة: {آمنتُم له قبلَ أنْ آذَنَ لكم} يتعجَّبُ ويُعَجِّبُ قومَه من جراءتهم عليه وإقدامِهِم على الإيمانِ من غير إذنِهِ ومؤامرتِهِ، {إنَّه لَكبيرُكُم الذي علَّمَكُمُ السحرَ}: هذا؛ وهو الذي جمع السحرةَ، وملؤه الذين أشاروا عليه بجمعِهِم من مدائنِهِم، وقد علموا أنَّهم ما اجتمعوا بموسى ولا رأوه قبل ذلك، وأنهم جاؤوا من السحر بما يحيِّرُ الناظرين ويُهيلُهم، ومع ذلك؛ فراجَ عليهم هذا القولُ الذي هم بأنفُسِهم وقفوا على بطلانِهِ؛ فلا يُسْتَنْكَرُ على أهل هذه العقول أن لا يُؤْمنوا بالحقِّ الواضح والآيات الباهرةِ؛ لأنَّهم لو قال لهم فرعون عن أيِّ شيءٍ كان، أنَّه على خلاف حقيقته؛ صدَّقوه. ثم توعَّد السحرةَ، فقال: {لأُقَطِّعَنَّ أيْدِيَكُم وأرْجُلَكُم من خِلافٍ}؛ أي: اليد اليمنى والرجل اليسرى؛ كما يفعل بالمُفْسِدِ في الأرض، {ولأصَلِّبَنَّكُم أجمعينَ}: لتختزوا وتذلُّوا، فقال السحرةُ حين وجدوا حلاوةَ الإيمان وذاقوا لَذَّتَه: {لا ضَيْرَ}؛ أي: لا نُبالي بما توعَّدْتَنا به، {إنَّا إلى ربِّنا مُنْقَلِبونَ. إنَّا نطمعُ أن يَغْفِرَ لنا ربُّنا خطايانا}: من الكفر والسحر وغيرهما {أنْ كُنَّا أولَ المؤمنينَ}: بموسى من هؤلاء الجنود. فثبَّتَهم اللهُ وصبَّرهم؛ فيُحْتَمَلُ أنَّ فرعون فعل [بهم] ما توعدهم به لسلطانه واقتداره إذ ذاك، ويحتمل أنَّ الله منعه منهم.
[51-49] مگر فرعون نے اپنی سرکشی اور ضلالت کو نہ چھوڑا اور وہ اپنی گمراہی اور عناد میں بڑھتا چلا گیا۔اس نے جادوگروں سے کہا: ﴿ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ﴾ ’’کیا تم، اس سے پہلے کہ میں تم کو اجازت دوں ، اس پر ایمان لے آئے۔‘‘ فرعون کے سامنے جادو گروں کی جرأ ت اور اس کی اجازت اور مشورہ کے بغیر ان کے ایمان لانے کے اقدام کو دیکھ کرفرعون اور اس کی قوم حیرت زدہ رہ گئے۔ ﴿ اِنَّهٗ لَكَبِیْرُؔكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ﴾ ’’بے شک یہ تمھارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔‘‘ حالانکہ اسی نے جادو گروں کو جمع کیا اور یہ اس کے مصاحبین ہی تھے جنھوں نے دوسرے شہروں سے جادوگروں کو اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔ حالانکہ ان کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ اس سے پہلے موسیٰu سے ملے تھے نہ انھوں نے موسیٰu کو دیکھا تھا، نیز ان جادوگروں نے جادو کا ایسا کرتب دکھایا تھا جس نے ناظرین کو حیرت زدہ اور خوف زدہ کر دیا۔ اس کے باوجود فرعون نے ان سے یہ بات کہی، حالانکہ جادوگر خود جادو کے بطلان سے واقف ہو چکے تھے۔ اس قسم کی عقل رکھنے والوں سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ بڑے بڑے معجزات اور واضح حق کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ۔ کیونکہ اگر فرعون کسی بھی چیز کے بارے میں کہتا کہ یہ خلاف حقیقت ہے تو وہ اس کی تصدیق کرتے، پھر فرعون نے جادو گروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: ﴿لَاُقَ٘طِّ٘عَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ﴾ ’’میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں مخالف اطراف سے کٹوا دوں گا۔‘‘ یعنی میں تمھارا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دوں گا۔ جیسا کہ زمین میں فساد پھیلانے والے کو سزا دی جاتی ہے ﴿ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’اور میں تم سب کو سولی چڑھوا دوں گا۔‘‘ تاکہ ساری دنیا تمھاری ذلت و رسوائی کا تماشہ دیکھے۔ جب جادو گروں نے ایمان کی حلاوت پالی اور اس کا مزا چکھ لیا تو کہنے لگے: ﴿لَا ضَیْرَ﴾ ’’کچھ نقصان نہیں ۔‘‘ یعنی ہمیں تمھاری دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ﴿ٞ اِنَّـاۤ٘ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ اِنَّا نَ٘طْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ ﴾ ’’بے شک ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب، (کفر اور جادو جیسی،)ہماری خطائیں معاف کر دے گا۔‘‘ ﴿ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اس لیے کہ ہم اوّل ایمان لانے والوں میں ہیں ۔‘‘ یعنی موسیٰu پر ان لشکروں سے پہلے ایمان لائے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کوثابت قدمی اور صبر عطا کیا۔ اس بات کا احتمال ہے کہ فرعون نے اپنی دھمکی پر عمل کیا ہو کیونکہ اس وقت وہ سلطنت اور اقتدار کا مالک تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی دھمکی پر عمل کرنے نہ دیا ہو۔
#
{52} ثم لم يزل فرعونُ وقومُهُ مستمرِّين على كفرِهِم؛ يأتيهم موسى بالآيات البيناتِ، وكلما جاءتهم آيةٌ وبلغت منهم كلَّ مبلغ؛ وعدوا موسى وعاهَدوه لَئِنْ كشفَ اللهُ عنهم؛ ليؤمننَّ به وليرسلنَّ معه بني إسرائيل، فيكشِفُه الله، ثم ينكثونَ. فلمَّا يَئِسَ موسى من إيمانِهِم، وحقَّتْ عليهم كلمةُ العذاب، وآن لبني إسرائيل أن ينجيهم من أسرِهِم ويمكِّنَ لهم في الأرض؛ أوحى الله إلى موسى: {أنْ أسْرِ بعبادي}؛ أي: اخرُجْ ببني إسرائيلَ أولَ الليل؛ ليتمادَوْا ويتمَهَّلوا في ذَهابهم {إنَّكُم مُتَّبَعونَ}؛ أي: سيتبعُكم فرعونُ وجنودُه. ووقع كما أخبر؛ فإنَّهم لما أصبحوا، وإذا بنو إسرائيل قد سَرَوْا كلُّهم مع موسى.
[52] اس کے باوجود کہ موسیٰu فرعون اور اس کی قوم کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے، وہ اپنے کفر پر جمے رہے۔ جب بھی ان کے پاس کوئی نشانی آتی اور ان پر پوری طرح اثر انداز ہوتی، تب وہ موسیٰu سے وعدہ کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے اس عذاب کو دور کر دیا تو وہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیج دیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو ہٹا دیتا مگر وہ اپنے عہد سے پھر جاتے۔ جب حضرت موسیٰu ان کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور ان پر عذاب الٰہی واجب ہو گیا اور وہ وقت آن پہنچا کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی قید و غلامی سے آزادی عطا فرمائے اور ان کو زمین (ملک) پر اقتدار عطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی طرف وحی کی: ﴿ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ﴾ یعنی رات کے پہلے حصے میں بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیے تاکہ ان کو نکل جانے میں کافی مہلت مل جائے۔ ﴿ اِنَّـكُمْ مُّتَّبـَعُوْنَ﴾ یعنی فرعون اور اس کے لشکر تمھارا پیچھا کریں گے اور ایسے ہی ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جب صبح کے وقت فرعونی بیدار ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ تمام بنی اسرائیل راتوں رات موسیٰu کے ساتھ نکل گئے ہیں ۔
#
{53 ـ 56} {فأرسَلَ فرعونُ في المدائن حاشرينَ}: يجمعون الناس؛ ليوقع ببني إسرائيل، ويقولُ مشجعاً لقومه: {إنَّ هؤلاءِ}؛ أي: بني إسرائيل {لَشِرْذِمَةٌ قليلونَ. وإنَّهم لَنا لَغائِظونَ}: فنريد أن ننفذَ غيظَنا في هؤلاء العبيدِ الذين أبقُوا منَّا، {وإنَّا لجميعٌ حاذِرونَ}؛ أي: الحذر على الجميع منهم، وهم أعداء للجميع، والمصلحة مشتركة.
[56-53] ﴿ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَ ﴾ ’’تو فرعون نے تمام شہروں میں جمع کرنے والے ہرکارے دوڑائے‘‘ جو لوگوں کو جمع کرتے تھے تاکہ بنی اسرائیل کے ساتھ جنگ کی جائے۔ فرعون نے اپنی قوم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا ﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ﴾ ’’بے شک یہ لوگ‘‘ یعنی بنی اسرائیل ﴿ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ ۰۰ وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىِٕظُوْنَ﴾ ’’مٹھی بھر لوگ ہیں اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان غلاموں پر اپنا غصہ نکالیں جو ہمارے پاس سے فرار ہو گئے ہیں ۔ ﴿ وَاِنَّا لَ٘جَمِیْعٌ حٰؔذِرُوْنَ ﴾ اور ہمیں ان سے چوکنا رہنا چاہیے وہ ہم سب کے اور ہمارے مشترکہ مصالح و مفادات کے دشمن ہیں ۔
#
{57 ـ 59} فخرج فرعونُ وجنودُه في جيش عظيم ونفيرٍ عامٍّ، لم يتخلَّف منهم سوى أهل الأعذار الذين منعهم العجزُ؛ قال الله تعالى: {فأخْرَجْناهم من جنَّاتٍ وعيونٍ}؛ أي: بساتين مصر وجنانها الفائقة وعيونها المتدفِّقة وزروع قد ملأت أراضيهم وعمرت بها حاضرتهم وبواديهم، {ومقام كريم}: يُعْجِبُ الناظرين ويُلهي المتأمِّلين؛ تمتَّعوا به دهراً طويلاً، وقضوا بلذَّاتِهِ وشهواتِهِ عمراً مديداً على الكفر والعناد والتكبُّر على العباد والتيه العظيم، {كذلك وأوْرَثْناها}؛ أي: هذه البساتين والعيون والزُّروع والمقام الكريم {بني إسرائيلَ}: الذين جَعَلوهم من قَبْلُ عبيدَهم وسُخِّروا في أعمالهم الشاقَّة؛ فسبحان مَنْ يؤتي الملكَ مَنْ يشاءُ وينزِعُه عمَّن يشاءُ ويعزُّ من يشاءُ بطاعتِهِ، ويذلُّ من يشاء بمعصيتِهِ.
[59-57] فرعون اپنی فوج کو ایک بہت بڑا لشکر اور عام لوگوں کے گروہ کے ساتھ لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا۔ معذور لوگوں کے سوا جو اپنے عجز کے باعث ساتھ نہ جا سکتے تھے، کوئی پیچھے نہ رہا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاَخْرَجْنٰهُمْ۠ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ﴾ ’’پس ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو ان کے خوبصورت اور اعلیٰ درجے کے باغات، ابلتے ہوئے چشموں اور ان کی کھیتیوں سے، جنھوں نے ان کی زمینوں کو بھر رکھا تھا، جن کو ان کے شہریوں اور دیہاتیوں نے آباد کر رکھا تھا، نکال دیا۔ ﴿ وَّمَقَامٍ كَرِیْمٍ ﴾ ’’اور خوبصورت اقامت گاہوں سے نکالا‘‘ جو دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈالتی تھیں اور ان میں غور کرنے والوں کو مشغول کر دیتی تھیں ۔ انھوں نے طویل زمانے تک اس سازوسامان سے فائدہ اٹھایا، اور ایک لمبی عمر تک، کفر و فساد، بندوں کے ساتھ تکبر اور بہت زیادہ غرور کے ساتھ اس کی لذات و شہوات سے بہرہ مندر ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ وَاَوْرَثْنٰهَا ﴾ ’’اسی طرح ہوا اور ہم نے ان تمام چیزوں کا وارث بنا دیا‘‘ یعنی ان باغات، چشموں ، کھیتیوں اور خوبصورت اقامت گاہوں کا ﴿ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’بنی اسرائیل کو‘‘ جن کو اس سے پہلے انھوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور وہ ان سے نہایت پر مشقت کام لیتے تھے … پاک ہے وہ ذات، جو جسے چاہتی ہے اقتدار عطا کرتی ہے اور جس سے چاہتی ہے اقتدار چھین لیتی ہے، جسے چاہتی ہے، اس کی اطاعت کی بنا پر عزت عطا کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اس کی نافرمانی کے بنا پر ذلت سے ہمکنار کرتی ہے۔
#
{60 ـ 62} {فأتْبَعوهم مشرقينَ}؛ أي: اتَّبع قومُ فرعون قومَ موسى وقتَ شُروقِ الشمس، وساقوا خلفَهم مُحِثِّينَ على غيظٍ وحنقٍ قادرين، {فلما تراءى الجمعانِ}؛ أي: رأى كلٌّ منهما صاحبه، {قال أصحابُ موسى}: شَاكِينَ لموسى وحزنين: {إنَّا لَمُدْرَكونَ}. فقال موسى مثبِّتاً لهم ومخبراً لهم بوعدِ ربِّه الصادق: {كلاَّ}؛ أي: ليس الأمر كما ذكرتُم أنَّكم مُدْرَكون، {إنَّ معي ربِّي سَيَهْدِينِ}: لما فيه نجاتي ونجاتُكم.
[62-60] ﴿ فَاَتْبَعُوْهُمْ۠ مُّشْرِقِیْنَ ﴾ یعنی طلوع آفتاب کے وقت، فرعون کے لشکروں نے موسیٰu کی قوم کا پیچھا کیا اور انتہائی غصے اور غیظ و غضب میں ان کے تعاقب میں گئے۔﴿ فَلَمَّا تَرَآءَؔ الْ٘جَمْعٰنِ ﴾ پس جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ﴿ قَالَ اَصْحٰؔبُ مُوْسٰۤى ﴾ تو موسیٰu کی قوم نے غمزدہ ہو کر موسیٰu کے پاس شکایت کی ﴿ اِنَّا لَمُدْرَؔكُوْنَ﴾ ’’ہم تو پکڑے گئے۔‘‘ ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے ان کو ثابت قدم رہنے کی تلقین اور اپنے رب کے سچے وعدے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَلَّا ﴾ ’’ہرگز ایسا نہیں ہو گا‘‘ جیسا کہ تم کہہ رہے ہو کہ تم پکڑ لیے جاؤ گے۔ ﴿ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ ﴾ ’’بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ میری راہنمائی کرے گا۔‘‘ یعنی وہ میری اور تمھاری نجات کی راہ دکھاے گا۔
#
{63 ـ 68} {فأوْحَيْنا إلى موسى أنِ اضْرِب بعصاك البحرَ}: فضربه، {فانفَلَقَ}: اثني عشر طريقاً، {فكانَ كُلُّ فِرْقٍ كالطودِ}؛ أي: الجبل {العظيم}: فدخله موسى وقومُهُ، {وأزْلَفْنا ثَمَّ}: في ذلك المكان {الآخَرينَ}؛ أي: فرعون [و] قومه، وقرَّبْناهم، وأدخَلْناهم في ذلك الطريق الذي سلك منه موسى وقومه، {وأنجَيْنا موسى ومَن معه أجمعين}: استَكْمَلوا خارجين، لم يتخلَّفْ منهم أحدٌ، {ثم أغْرَقْنا الآخَرينَ}: لم يتخلَّفْ منهم عن الغرقِ أحدٌ. {إنَّ في ذلك لآيةً}: عظيمةً على صدقِ ما جاء به موسى عليه السلام وبطلانِ ما عليه فرعونُ وقومُه، {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ}: مع هذه الآيات المقتضيةِ للإيمان؛ لفسادِ قلوبِكم، {وإنَّ ربَّكَ لهو العزيزُ الرحيمُ}: بعزَّتِهِ أهلكَ الكافرين المكذِّبين، وبرحمتِهِ نجَّى موسى ومن معه أجمعين.
[68-63] ﴿ فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ﴾ ’’پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر لاٹھی مارو۔‘‘ تو آپ نے عصا مارا ﴿ فَانْفَلَقَ ﴾ ’’پس وہ (سمندر) پھٹ گیا۔‘‘ اور بارہ راستے بن گئے ﴿ فَكَانَ كُ٘لُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ﴾ ’’اور ہر ایک (یوں ) ہو گیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے۔‘‘ اور موسیٰu اور ان کی قوم سمندر میں داخل ہو گئی۔ ﴿ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ ﴾ ’’اور وہاں ہم نے قریب کر دیا۔‘‘ یعنی اسی جگہ ﴿ الْاٰخَرِیْنَ ﴾ ’’دوسروں کو‘‘ یعنی ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو قریب کر کے ان راستوں میں ڈال دیا جہاں سے موسیٰu اور ان کی قوم نے سمندر کو پار کیا تھا۔ ﴿ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰؔى وَمَنْ مَّعَهٗۤ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا۔‘‘ یعنی موسیٰu اور ان کی قوم کے تمام لوگ باہر آ گئے اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہا۔ ﴿ ثُمَّ اَغْ٘رَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ ﴾ ’’پھر دوسروں کو ڈبو دیا۔‘‘ یعنی فرعون کی قوم میں سے کوئی شخص بھی ڈوبنے سے نہ بچا ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ اس میں موسیٰu کی دعوت کی صداقت اور فرعون اور اس کی قوم کے موقف کے بطلان پر بہت بڑی دلیل ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ان نشانیوں کے باوجود، جو کہ ایمان لانے کاتقاضا کرتی ہیں ، ان میں سے اکثر اپنے فساد قلب کی بنا پر ایمان نہ لائے۔ ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’اور بلاشبہ آپ کا رب غالب مہربان ہے۔‘‘ یعنی اس نے اپنی قوت اور غلبہ کی بنا پر جھٹلانے والے کفار کو ہلاک کیا اور اپنی رحمت سے موسیٰu اور ان کی قوم کو نجات دی۔
آیت: 69 - 104 #
{وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ (69) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ (70) قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ (71) قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ (72) أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ (73) قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (74) قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ (75) أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ (76) فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ (77) الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ (78) وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ (79) وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (80) وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ (81) وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ (82) رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (83) وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ (84) وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ (85) وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ (86) وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ (87) يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (89) وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ (90) وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ (91) وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ (92) مِنْ دُونِ اللَّهِ هَلْ يَنْصُرُونَكُمْ أَوْ يَنْتَصِرُونَ (93) فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ (94) وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ (95) قَالُوا وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ (96) تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (97) إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (98) وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ (99) فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِينَ (100) وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ (101) فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (102) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (103) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (104)}.
اور تلاوت کیجیے آپ ان پر خبر ابراہیم کی (69) جب کہا اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے، کس کی تم عبادت کرتے ہو؟ (70) انھوں نے کہا، ہم عبادت کرتے ہیں بتوں کی اور ہمیشہ رہیں گے ہم تو ان کی تعظیم کرنے والے (71) کہا ابراہیم نے ، کیا وہ سنتے ہیں تمھاری بات جب تم پکارتے ہو (انھیں )؟ (72)یا وہ نفع دیتے ہیں تمھیں یا وہ نقصان دیتے ہیں تمھیں ؟(73) انھوں نے کہا (نہیں) بلکہ پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو، اسی طرح کرتے تھے وہ (74) ابراہیم نے کہا، کیا پس دیکھا تم نے جن کی ہو تم عبادت کرتے؟(75) تم اور باپ دادا تمھارے پہلے (76) پس بلاشبہ وہ دشمن ہیں میرے، سوائے رب العالمین کے (77)وہ جس نے پیدا کیا مجھے، پس وہی رہنمائی کرتا ہے میری (78) اور وہ کہ وہی کھلاتا ہے مجھے اور پلاتا ہے مجھے (79) اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے مجھے (80) اور وہ جو مارے گا مجھے ، پھر زندہ کرے گا مجھے (81) او وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں یہ کہ وہ بخش دے گا واسطے میرے میری خطائیں دن جزا کے (82) اے میرے رب! تو عطا کر مجھے حکمت اور ملا دے مجھے ساتھ صالح لوگوں کے (83) اور تو بنا دے میرے لیے زبان سچائی کی (ذکر خیر) پچھلے لوگوں میں (84)اور بنا مجھے وارثوں میں سے جنت کا نعمتوں والی (85) اور بخش دے میرے باپ کو، بلاشبہ وہ تھا گمراہوں میں سے (86) اور نہ رسوا کرنا تو مجھے اس دن کہ وہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے (87) جس دن نہیں نفع دے گا مال اور نہ بیٹے (اولاد) (88) مگر اس کو جو آیا (حاضرہوا) اللہ کے پاس ساتھ قلب سلیم کے (89) اور قریب کی جائے گی جنت واسطے پرہیز گاروں کے (90)اور ظاہر کی جائے گی دوزخ واسطے گمراہوں کے (91) اور کہا جائے گا ان سے ، کہاں ہیں وہ جن کی تھے تم عبادت کرتے(92) سوائے اللہ کے ؟ کیا وہ تمھاری مددکر سکتے ہیں ؟ یا وہ بدلہ لے سکتے ہیں ؟ (93)پس وہ اوندھے منہ ڈال دیے جائیں گے اس میں ، وہ اور (سب) گمراہ (لوگ) (94) اور لشکر ابلیس کے سب کے سب (95) وہ کہیں گے جبکہ وہ اس میں جھگڑتے ہوں گے (96) اللہ کی قسم! بلاشبہ ہم تھے البتہ گمراہی ظاہر میں (97)جبکہ ہم برابر ٹھہراتے تھے تمھیں ساتھ رب العالمین کے (98) اور نہیں گمراہ کیا تھا ہمیں مگر (ان بڑے) مجرموں ہی نے (99) پس نہیں ہے ہمارے لیے کوئی بھی سفارشی (100) اور نہ کوئی دوست مخلص (101) پس کاش کہ! بے شک ہو ہمارے لیے ایک بار لوٹنا (دنیا میں ) تو ہوں ہم مومنوں میں سے(102) بلاشبہ اس (قصۂ ابراہیم) میں البتہ (عظیم)نشانی ہےاور نہیں اکثر ان کے ایمان لانے والے (103) اور بلاشبہ آپ کا رب البتہ وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا (104)
#
{69 ـ 71} أي: وَاتْلُ يا محمدُ على الناس نبأ إبراهيم الخليل وخَبَرَه الجليل في هذه الحالة بخصوصها، وإلاَّ؛ فله أنباءٌ كثيرة، ولكن من أعجب أنبائِهِ وأفضلِها هذا النبأُ المتضمنُ لرسالتِهِ ودعوتِهِ قومَه ومحاجَّتِهِ إيَّاهم و [إبطاله] ما هم عليه، ولذلك قيَّدَه بالظرفِ فقال: {إذْ قال لأبيهِ وقومِهِ ما تَعْبُدونَ. قالوا}: متبجِّحين بعبادتِهِم: {نعبدُ أصناماً}: ننحِتُها ونَعْمَلُها بأيدينا، {فنظلُّ لها عاكفينَ}؛ أي: مقيمين على عبادتها في كثيرٍ من أوقاتنا.
[71-69] فرمایا: اے محمد!(e)آپ لوگوں کو، اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیمu کی خبر سنا دیجیے اور ان کی جلیل القدر خبر، خاص طور پر ان حالات میں سنا دیجیے! اگرچہ ان کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں ۔ مگر ان کا یہ واقعہ سب سے زیادہ حیرت انگیز اور سب سے افضل ہے جو آپ کی رسالت، اپنی قوم کو دعوت، اپنی قوم سے آپ کے مباحثہ اور آپ کی قوم کے موقف کے ابطال کو متضمن ہے اس لیے اسے ظرف کے ساتھ مقید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ قَالُوْا﴾ ’’جب انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو تو انھوں نے کہا‘‘ بتوں کی عبادت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے: ﴿ نَعْبُدُ اَصْنَامًا﴾ ’’ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں ‘‘ جن کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور بناتے ہیں ﴿ فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ ﴾ ’’اور ان کی پوجا پر قائم ہیں ۔‘‘ یعنی ہم اپنے اکثر اوقات میں ، ان بتوں کی عبادت کے لیے قیام کرتے ہیں ۔
#
{72 ـ 74} فقال لهم إبراهيمُ مبيناً لعدم استحقاقِها للعبادةِ: {هل يسمعونَكم إذ تَدْعونَ}: فيستجيبونَ دعاءكم ويفرِّجونَ كَرْبَكُم ويزيلون عنكم كلَّ مكروه، {أو يَنفَعونَكم أو يَضُرُّونَ}: فأقرُّوا أنَّ ذلك كُلَّه غيرُ موجودٍ فيها؛ فلا تسمع دعاءً، ولا تنفع، ولا تضر! ولهذا لما كسَّرها وقال: {بَلْ فَعَلَهُ كبيرُهم هذا فاسْألوهم إن كانوا يَنطِقونَ}؛ قالوا له: {لقد عَلِمْتَ ما هؤلاء ينطِقونَ}؛ أي: هذا أمر متقررٌ من حالها، لا يقبلُ الإشكالَ والشكَّ. فلجؤوا إلى تقليد آبائهم الضالين، فقالوا: {بل وَجَدْنا آباءنا كذلك يفعلونَ}: فتبِعْناهم على ذلك، وسَلَكْنا سبيلَهم، وحافَظْنا على عاداتهم.
[74-72] ابراہیمu نے ان بتوں کے لیے عبادت کے عدم استحقاق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ۠ اِذْ تَدْعُوْنَ﴾ ’’جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمھاری پکار کو سنتے ہیں ؟‘‘ تمھاری پکار کا جواب دیتے ہیں ، تمھاری تکلیف کو دور کرتے ہیں اور تم سے ہر ناپسندیدہ امر کو زائل کرتے ہیں ؟ ﴿ اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ۠ اَوْ یَضُرُّوْنَ﴾ ’’یا وہ تمھیں کوئی نفع یا نقصان دے سکتے ہیں ؟‘‘ انھوں نے اقرار کیا کہ ان مذکورہ صفات میں سے کوئی بھی ان میں موجود نہیں ۔ وہ پکار کو سن سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اس لیے جب آپ نے بتوں کو توڑا تو فرمایا: ﴿ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰؔذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ﴾ (الانبیاء:21؍63) ’’بلکہ یہ سب کچھ ان کے بڑے نے کیا ہے ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں ۔‘‘ انھوں نے جواب دیا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ﴾ (الانبیاء:21؍65) ’’تمھیں علم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں ۔‘‘ یعنی زبان حال ہی سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے جس میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں ۔ انھوں نے اپنے گمراہ آباء و اجداد کی تقلید کا سہارا لیتے ہوئے کہا: ﴿ بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’بلکہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہے‘‘ اور ہم نے ان کی پیروی کی اور ان کی عادات کی اتباع کرتے ہوئے ان کے راستے پر گامزن ہوئے۔
#
{75 ـ 82} فقال لهم إبراهيمُ: أنتُم وآباؤكم كلُّكم خصومٌ في [هذا] الأمر، والكلامُ مع الجميع واحدٌ: {أفرأيتُم ما كنتُم تعبُدونَ. أنتُم وآباؤكم الأقْدَمونَ. فإنَّهم عدوٌّ لي}: فَلْيَضُرُّونِ بأدنى شيءٍ من الضَّرر، ولْيَكيدونِ فلا يقدرونَ. {إلاَّ رَبَّ العالمينَ. الذي خَلَقَني فهو يهديني}: هو [المنْفَرِدُ] بنعمةِ الخَلْق ونعمةِ الهداية للمصالح الدينيَّة والدنيويَّة، ثم خصَّص منها بعضَ الضروريَّات، فقال: {والذي هو يُطْعِمُنِى ويسقينِ. وإذا مرضت فهو يشفينِ. والذي يُميتُني ثم يحيينِ. والذي أطمعُ أن يَغْفِرَ لي خطيئتي يومَ الدينِ}: فهذا هو وحدَه المنفردُ بذلك، فيجبُ أن يُفْرَدَ بالعبادةِ والطاعةِ، وتُتْرَكَ هذه الأصنام التي لا تخلقُ ولا تهدي، ولا تمرِضُ ولا تشفي، ولا تطعِمُ ولا تسقي، ولا تميت ولا تحيي، ولا تنفع عابديها بكشفِ الكروب ولا مغفرةِ الذنوب؛ فهذا دليلٌ قاطعٌ وحجةٌ باهرةٌ لا تقدرون أنتم وآباؤكم على معارضتها، فدلَّ على اشتراكِكُم في الضلال وتركِكُم طريق الهدى والرشد. قال الله تعالى: {وحاجَّهُ قومُهُ قالَ أتُحاجُّونِّي في الله وقد هدانِ ... } الآيات.
[82-75] ابراہیمu نے فرمایا اس معاملے میں تم اور تمھارے آباء واجداد سب ایک فریق ہو اور تم سب سے ہم ایک ہی بات کہتے ہیں : ﴿ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ۰۰ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ ۰۰فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ﴾ ’’تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو تم بھی اور تمھارے اگلے باپ دادا بھی۔ وہ میرے دشمن ہیں ۔‘‘ پس وہ مجھے ذرا سا بھی نقصان پہنچائیں ، میرے خلاف کوئی چال چل دیکھیں وہ ایسا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ﴿ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ ۰۰ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِ ﴾ ’’لیکن اللہ رب العالمین، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ یعنی تخلیق کی نعمت میں وہی متفرد ہے اور دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف راہنمائی سے بھی صرف وہی نوازتا ہے۔ پھر ان میں سے بعض ضروریات کا خاص طورپر ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِۙ ۰۰ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ۪ۙ ۰۰ وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ ۰۰ وَالَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــَٔتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ﴾ ’’اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑ جاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور وہی ہے جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے گا۔‘‘ یعنی ان تمام افعال کو اکیلا وہی سرانجام دیتا ہے اس لیے واجب ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور اطاعت کی جائے اور ان بتوں کی عبادت چھوڑ دی جائے جو تخلیق پر قادر ہیں نہ ہدایت پر، جو کسی کو بیمار کر سکتے ہیں نہ شفا دے سکتے ہیں ، جو کھلا سکتے ہیں نہ پلا سکتے ہیں ، جو مار سکتے ہیں نہ زندہ کر سکتے ہیں اور نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو دور کر کے ان کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ وہ گناہوں کو بخش سکتے ہیں ۔ یہ ایسی قطعی دلیل اور روشن حجت ہے جس کا تم اور تمھارے آباء و اجداد مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پس یہ چیز گمراہی میں تمھارے اشتراک اور رشد وہدایت کے راستے کو چھوڑ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَحَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰؔىنِ … الآیات﴾ (الانعام:6؍80) ’’اور ابراہیم سے اس کی قوم نے جھگڑا کیا، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے مجھے ہدایت دی…‘‘
#
{83 ـ 84} ثم دعا عليه السلام ربَّه، فقال: {ربِّ هَبْ لي حُكْماً}؛ أي: علماً كثيراً أعرِفُ به الأحكامَ والحلالَ والحرام، وأحكُمُ به بين الأنام، {وألْحِقْني بالصالحينَ}: من إخوانِهِ الأنبياء والمرسلين، {واجْعَلْ لي لسانَ صِدْقٍ في الآخرينَ}؛ أي: اجعل لي ثناء صدقٍ مستمرٍّ إلى آخر الدهر. فاستجاب الله دعاءَه، فوهب له من العلم والحكم ما كان به مِن أفضلِ المرسلينَ، وألحقه بإخوانِهِ المرسلينَ، وجعلَه محبوباً مقبولاً معظماً مثنياً عليه في جميع الملل في كلِّ الأوقات، قال تعالى: {وتَرَكْنا عليه في الآخِرينَ سلامٌ على إبراهيمَ. إنَّا كذلك نَجْزي المُحْسِنينَ. إنَّه مِن عبادِنا المؤمنينَ}.
[84,83] پھر ابراہیمu نے ان الفاظ میں اپنے رب سے دعا کی: ﴿ رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا﴾ ’’اے میرے رب! مجھے علم و دانش عطا فرما۔‘‘ یعنی اے میرے رب مجھے علم کثیر عطا کر جس کے ذریعے سے میں تیرے احکام اور حلال و حرام کی معرفت حاصل کروں ، پھر اس علم کے مطابق مخلوق کے درمیان فیصلے کروں ۔ ﴿وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔‘‘ یعنی میرے بھائی انبیاء و مرسلین میں ۔ ﴿ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ﴾ ’’اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔‘‘ یعنی مجھے سچی مدح و ثنا عطا کر جو ہمیشہ قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو علم و حکمت سے سرفراز فرمایا جس کی بنا پر وہ تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت لے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء و مرسلین کے گروہ میں شامل کیا، آپ کو اپنا محبوب و مقبول بندہ بنایا۔ ہر آن تمام اقوام و ملل میں آپ کو عظمت اور مدح و ثنا عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَتَرَؔكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ۰۰سَلٰ٘مٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ۰۰كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۰۰اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ (الصافات: 37؍108۔111) ’’اور ہم نے آپ کی مدح و توصیف بعد میں آنے والی نسلوں میں چھوڑی، سلام ہو ابراہیم پر، ہم اپنے نیک بندوں کوایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں تھا۔‘‘
#
{85} {واجْعَلْني من وَرَثَةِ جنَّةِ النعيم}؛ أي: من أهل الجنَّةِ التي يورِثُهم اللهُ إيَّاها، فأجاب الله دعاءَه، فرفَعَ منزلتَه في جنات النعيم.
[85] ﴿ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِ﴾ ’’اور مجھے نعمت کی جنت کے وارثوں میں کر۔‘‘ یعنی اہل جنت میں سے، جن کو اللہ تعالیٰ جنت کا وارث بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور نعمتوں بھری جنت میں بہت بلند قدرومنزلت عطا کی۔
#
{86} {واغْفِرْ لأبي إنَّه كان من الضَّالِّينَ}: وهذا الدعاء بسبب الوعد الذي قال لأبيه: {سأستغفر لك ربِّي إنَّه كانَ بي حَفِيًّا}، قال تعالى: {وما كانَ استغفارُ إبراهيمَ لأبيهِ إلاَّ عن مَوْعِدَةٍ وَعَدَها إيَّاه فَلَمَّا تَبَيَّنَ له أنه عدوٌّ لله تبرَّأ منه إنَّ إبراهيم لأوّاهٌ حليمٌ}.
[86] ﴿ وَاغْ٘فِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّیْ٘نَ﴾ ’’اور میرے باپ کو بخش دے بے شک وہ گمراہوں میں سے تھا۔‘‘ آپ کی یہ دعا اس وعدے کے سبب سے تھی جو آپ نے اپنے باپ سے کیا تھا: ﴿ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا ﴾ (مریم:19؍47) ’’میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کے لیے دعا کروں گا وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔‘‘ فرمایا: ﴿ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰؔهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّ٘اهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰؔهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ ﴾ (التوبۃ:9؍114) ’’ابراہیم کی اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت اس وعدے کی بنا پر تھی جو انھوں نے اپنے باپ سے کیا تھا جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انھوں نے اس سے براء ت کا اظہار کر دیا۔ ابراہیم بڑے ہی نرم دل اور بردبار تھے۔‘‘
#
{87 ـ 89} {ولا تُخْزِني يَوْمَ يُبْعَثونَ}؛ أي: بالتوبيخ على بعض الذُّنوب والعقوبةِ عليها والفضيحة، بل أسْعِدْني في ذلك اليوم الذي لا يَنْفَعُ فيه مالٌ ولا بنونٌ؛ {إلاَّ مَنْ أتى الله بقلبٍ سليم}: فهذا الذي ينفعُهُ عندَك، وهذا الذي ينجو من العقاب ويستحقُّ جزيل الثواب. والقلبُ السليمُ: معناهُ: الذي سَلِمَ من الشركِ والشكِّ ومحبة الشرِّ والإصرار على البدعةِ والذُّنوب، ويلزم من سلامتِهِ ممَّا ذُكِرَ اتِّصافُهُ بأضدادِها من الإخلاص والعلم واليقين ومحبَّة الخير وتزيينه في قلبِهِ، وأن تكون إرادتُهُ ومحبتُهُ تابعةً لمحبَّةِ الله، وهواه تبعاً لما جاء عن الله.
[89-87] ﴿ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ﴾ یعنی بعض لغزشوں پر زجرو توبیخ، عقاب اور فضیحت کے ذریعے سے قیامت کے روز مجھے رسوا نہ کرنا۔ بلکہ اس روز مجھے سعادت مند بنانا جس روز ﴿ یَوْمَ لَا یَنْفَ٘عُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَۙ۰۰ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ﴾ ’’مال کچھ فائدہ دے گا نہ بیٹے، ہاں جو شخص اللہ کے ہاں پاک دل لے کر آئے گا۔‘‘ پس یہی وہ چیز ہے جو تیرے ہاں اس کے لیے فائدہ مند ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے بندہ عذاب سے نجات پا سکے گا اور ثواب جزیل کا مستحق ٹھہرے گا۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک، شک وشبہ، شرکی محبت اور بدعت و معاصی پر اصرار سے پاک اور محفوظ ہو۔ متذکرہ صدر امور سے قلب کا سلامت اور محفوظ ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ان کی اضداد یعنی اخلاص، علم، یقین، خیر کی محبت اور قلب کے اس سے مزین ہونے جیسی صفات سے متصف ہو، نیز اس کا ارادہ اور محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تابع ہوں ۔
#
{90 ـ 95} ثم ذكر من صفات ذلك اليوم العظيم وما فيه من الثوابِ والعقاب، فقال: {وأُزْلِفَتِ الجنَّةُ}؛ أي: قُرِّبَتْ {للمتَّقينَ}: ربَّهم، الذين امتثلوا أوامره، واجتنبوا زواجِرَه واتَّقوا سَخَطَهُ وعقابَه. {وبُرِّزَتِ الجحيمُ}؛ أي: بُرِّزَتْ واستَعَدَّتْ بجميع ما فيها من العذاب {للغاوينَ}: الذين أوْضَعوا في معاصي الله، وتجرؤوا على محارمِهِ، وكذَّبوا رسلَه، وردُّوا ما جاؤوهم به من الحقِّ، {وقيلَ لهم أينَ ما كنتُم تعبُدونَ. من دونِ الله هل يَنصُرونَكم أو يَنتَصِرونَ}: بأنفسِهِم؛ أي: فلم يكن من ذلك من شيءٍ، وظهر كَذِبُهم وخِزْيُهم، ولاحتْ خسارتُهم وفضيحتُهم، وبان ندمُهم، وضلَّ سعيهم. {فكُبْكِبوا فيها}؛ أي: ألقوا في النار {هم}؛ أي: ما كانوا يعبدون، {والغاوونَ}: العابدونَ لها، {وجنودُ إبليسَ أجْمعونَ}: من الإنس والجنِّ، الذين أزَّهم إلى المعاصي أزًّا، وتسلَّط عليهم بشركِهِم وعدم إيمانهم، فصاروا من دعاتِهِ والساعينَ في مرضاتِهِ، وهم ما بين داعٍ لطاعتِهِ ومجيبٍ لهم ومقلدٍ لهم على شركهم.
[95-90] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم دن کی صفات اور اس میں واقع ہونے والے ثواب و عقاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ ﴾ ’’ جنت قریب کر دی جائے گی‘‘ ﴿ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ ’’متقین کے‘‘ یعنی ان کے جو اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہیں نیز اپنے رب کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرتے ہیں ۔ ﴿ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ﴾ ’’اور جہنم کو سامنے لایا جائے گا‘‘ اور ہر قسم کے عذاب کے ساتھ اس کو تیار کیا جائے گا ﴿ لِلْغٰوِیْنَ﴾ ’’گمراہ لوگوں کے لیے‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا رہے، اس کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور رسول جو دعوت حق لے کر آئے تھے اس کو ٹھکرا دیا۔ ﴿ وَقِیْلَ لَهُمْ اَیْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ ۰۰مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ هَلْ یَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ یَنْتَصِرُوْنَ﴾ ’’اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمھاری مدد کر سکتے ہیں یا خود بدلہ لے سکتے ہیں ؟‘‘ یعنی وہ کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس سے ان کا جھوٹ اور ان کی ذلت و رسوائی ظاہر ہو جائے گی، ان کا خسارہ، فضیحت اور ندامت عیاں ہو جائے گی اور ان کی تمام کوشش رائیگاں جائے گی۔ ﴿ فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا﴾ ’’پس وہ اوندھے منہ اس میں ڈال دیے جائیں گے۔‘‘ یعنی جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔ ﴿ هُمْ﴾ ’’ان کو‘‘ یعنی ان معبودوں کو جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے ﴿ وَالْغَاوٗنَ﴾ اور ان کے گمراہ عبادت گزاروں کو۔ ﴿ وَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ﴾ ’’اور شیطان کے لشکر سب کے سب۔‘‘ یعنی شیاطین جن و انس، جنھیں ابلیس گناہوں پر اکسایا کرتا تھا، ان کے شرک اور عدم ایمان کی وجہ سے ان پر مسلط ہو گیا تھا اور یہ جن و انس اس کے داعی بن کر اس کو راضی کرنے کے لیے تگ و دو کیا کرتے تھے۔ جہنم میں جھونکے جانے والے یہ تمام لوگ یا تو ابلیس کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے یا وہ لوگ تھے جو اس دعوت پر لبیک کہتے تھے اور ان کے شرک میں ان کی تقلید کرتے تھے۔
#
{96 ـ 104} {قالوا}؛ أي: جنود إبليس الغاوون لأصنامِهِم وأوثانِهِم التي عبدوها: {تاللهِ إن كُنَّا لفي ضلالٍ مبينٍ. إذْ نُسَوِّيكُم بربِّ العالَمينَ}: في العبادة والمحبَّة والخوفِ والرجاءِ، وندعوكم كما ندعوهُ. فتبيَّن لهم حينئذٍ ضلالُهم، وأقرُّوا بعدل الله في عقوبتِهِم، وأنَّها في محلِّها، وهم لم يُسَوُّوهم بربِّ العالمين؛ إلاَّ في العبادةِ، لا في الخلق؛ بدليل قولهم: {بربِّ العالمينَ}؛ أنَّهم مقرُّون أنَّ الله ربُّ العالمين كلِّهم، الذين من جملتهم أصنامهم وأوثانهم، {وما أضَلَّنا}: عن طريق الهُدى والرُّشْد ودعانا إلى طريق الغَيِّ والفِسْقِ {إلاَّ المُجْرِمونَ}: وهم الأئمة الذين يدعونَ إلى النار، {فما لنا}: حينئذٍ {من شافعينَ}: يشفعونَ لنا لِيُنْقِذَنا من عذابه {ولا صديقٍ حَميم}؛ أي: قريب مصافٍ ينفعنا بأدنى نفعٍ؛ كما جرت العادةُ بذلك في الدُّنيا؛ فأيِسوا من كلِّ خير، وأبلسوا بما كسبوا، وتمنَّوا العودة إلى الدُّنيا ليعملوا صالحاً؛ {فلو أنَّ لنا كَرَّةً}؛ أي: رجعةً إلى الدُّنيا وإعادةً إليها، {فنكونَ من المؤمنين}: لنسلمَ من العقابِ ونستحقَّ الثواب. هيهاتَ هيهاتَ؛ قد حيلَ بينَهم وبين ما يشتهونَ، وقد غُلِّقَتْ منهم الرُّهون. {إنَّ في ذلك}: الذي ذَكَرْنا لكم ووصَفْنا {لآيةً}: لكم، {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ}: مع نزول الآياتِ.
[104-96] ﴿ قَالُوْا﴾ یعنی ابلیس کے یہ گمراہ لشکر اپنے بتوں اور معبودوں سے کہیں گے جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے: ﴿ وَهُمْ فِیْهَا یَخْتَصِمُوْنَۙ ۰۰ تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَ٘فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ ۰۰ اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اللہ کی قسم! ہم تو صریح گمراہی میں تھے، جبکہ تمھیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘ یعنی عبادت، محبت، خوف اور رجا میں ہم تمھیں رب کائنات کے برابر ٹھہرایا کرتے تھے اور تمھیں بھی ویسے ہی پکارتے تھے۔ جیسے رب تعالیٰ کو پکارتے تھے تب ان پر ان کی گمراہی عیاں ہو جائے گی اور اپنی سزا میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ سزا بر محل ہے۔ وہ تخلیق میں نہیں بلکہ صرف عبادت میں اپنے معبودوں کو رب کائنات کا ہم پلہ قرار دیتے تھے اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے: ﴿ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ وہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے جن میں ان کے بت اور معبود بھی شامل ہیں ۔ ﴿ وَمَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ﴾ ’’اور ہم کو ان گناہ گاروں ہی نے گمراہ کیا تھا۔‘‘ یعنی رشد وہدایت کے راستے سے ہٹا کر فسق و فجور اور گمراہی کے راستے میں صرف انھی مجرموں نے چلایا۔ مجرموں سے مراد وہ ائمۂ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔ ﴿ فَمَا لَنَا ﴾ ’’پس نہیں ہمارے واسطے‘‘ یعنی اس وقت ﴿ مِنْ شَافِعِیْنَ﴾ ’’کوئی سفارش کرنے والا۔‘‘ یعنی جو ہماری سفارش کر کے ہمیں اس کے عذاب سے بچا لے ﴿ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ ﴾ ’’اور نہ گرم جوش دوست۔‘‘ یعنی نہ کوئی قریبی اور خالص دوست ہے جو ہمیں ادنی سا فائدہ پہنچا سکے جیسا کہ دنیا میں ہوا کرتا تھا، چنانچہ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے اور اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ وہ تمنا کریں گے کہ کاش انھیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ نیک کام کریں ۔ وہ کہیں گے: ﴿ فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً ﴾ ’’اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا۔‘‘ یعنی دنیا کی طرف پلٹنا اور اس کی طرف لوٹنا ﴿ فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’تو ہم مومنوں میں سے ہوجاتے۔‘‘ تاکہ ہم عذاب سے بچ جائیں اور ثواب کے مستحق بن جائیں ۔ مگر یہ بہت بعید ہے اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو گی ان کے قید خانے کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ ان تمام امور میں جن کا ہم نے تمھارے سامنے ذکر کیا ہے: ﴿ لَاٰیَةً﴾ ’’(تمھارے لیے) نشانی ہے‘‘ ﴿ وَمَا كَانَ اَ كْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’(یعنی ان نشانیوں کے نازل ہونے کے باوجود) ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔‘‘
آیت: 105 - 122 #
{كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ (105) إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ (106) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (107) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (108) وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (109) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (110) قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ (111) قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (112) إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ (113) وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ (114) إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (115) قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَانُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (116) قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ (117) فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (118) فَأَنْجَيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (119) ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ (120) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (121) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (122)}.
جھٹلایا قوم نوح نے رسولوں کو (105)جب کہا ان کو ان کے بھائی نوح نے کیا نہیں ڈرتے تم (اللہ سے)؟(106) بلاشبہ میں ہوں تمھارے لیے رسول امانت دار (107) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو تم میری (108) اور نہیں مانگتا میں تم سے اس پر کوئی صلہ، نہیں ہے میرا اجر مگر اوپر پروردگار جہانوں کے (109) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو تم میری (110) انھوں نے کہا، کیا ایمان لائیں ہم تجھ پر حالانکہ پیروی کی ہے تیری رذیل لوگوں نے؟ (111)نوح نے کہااور کیاعلم ہے مجھے اس کا، جو کچھ کہ تھے وہ عمل کرتے؟ (112)نہیں ہے حساب ان کا مگر ذمے میرے رب کے، کاش کہ! تم شعور رکھتے(113)اور نہیں ہوں میں دور کرنے والا ایمان والوں کو (114)نہیں ہوں میں مگر ڈرانے والا کھلم کھلا (115) انھوں نے کہا، البتہ اگر نہ رکا تو اس سے اے نوح! تو البتہ ضرور ہو جائے گا تو رجم کیے ہوؤں میں سے (116)نوح نے کہا، اے میرے رب! بے شک میری قوم نے جھٹلایا ہے مجھے (117) پس فیصلہ کر تو میرے درمیان اور ان کے درمیان (قطعی) فیصلہ اور نجات دے تو مجھے اور ان کو جو میرے ساتھ ہیں اہل ایمان میں سے (118) پس نجات دی ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے اس کشتی میں جو بھری ہوئی تھی (119) پھر غرق کر دیا ہم نے اس کے بعد باقی لوگوں کو (120) بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہےاورنہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (121) اور بلاشبہ آپ کا رب، البتہ وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا(122)
#
{105 ـ 110} يذكر تعالى تكذيبَ قوم نوح لرسولهم نوح، وما ردَّ عليهم وردُّوا عليه، وعاقبة الجميع، فقال: {كذَّبتْ قومُ نوح المرسلينَ}: جمعهم، لأنَّ تكذيبَ نوح كتكذيب جميع المرسلين؛ لأنَّهم كلَّهم اتَّفقوا على دعوة واحدةٍ وأخبارٍ واحدةٍ؛ فتكذيبُ أحدِهم كتكذيبٍ بجميع ما جاؤوا به من الحقِّ. كذبوه {إذْ قال لهم أخوهم}: في النسب {نوحٌ}: وإنَّما ابتعثَ الله الرسل مِن نسب مَنْ أرسل إليهم؛ لئلاَّ يشمئِزُّوا من الانقياد له، ولأنَّهم يعرِفون حقيقَتَه؛ فلا يحتاجون أن يبحثوا عنه، فقال لهم مخاطباً بألطف خطاب؛ كما هي طريقة الرسل صلوات الله وسلامه عليهم: {ألا تَتَّقونَ}: الله تعالى، فتترُكون ما أنتم مقيمونَ عليه من عبادةِ الأوثان، وتُخْلِصون العبادةَ لله وحدَه. {إنِّي لكم رسولٌ أمينٌ}: فكونه رسولاً إليهم بالخصوص يوجب لهم تلقي ما أُرْسِلَ به إليهم، والإيمان به، وأنْ يشكُروا الله تعالى على أنْ خَصَّهم بهذا الرسول الكريم. وكونُهُ أميناً يقتضي أنَّه لا يقول على الله، ولا يزيدُ في وحيه ولا يَنْقصُ. وهذا يوجب لهمُ التصديقَ بخبرِهِ والطاعةَ لأمره، {فاتقوا الله وأطيعونِ}: فيما أمركم به ونهاكم عنه؛ فإنَّ هذا هو الذي يترتَّب على كونِهِ رسولاً إليهم أميناً؛ فلذلك رتَّبه بالفاء الدالَّة على السبب، فذكر السبب الموجب، ثم ذكر انتفاء المانع، فقال: {وما أسألُكُم عليه من أجرٍ}: فتتكلَّفون من المَغْرَم الثقيل {إنْ أجْرِيَ إلاَّ على ربِّ العالَمينَ}: أرجو بذلك القُرْبَ منه والثواب الجزيل، وأمَّا أنتم؛ فمُنْيَتي ومُنتهى إرادتي منكم النُّصحُ لكم وسلوكُكُم الصراط المستقيم، {فاتَّقوا اللهَ وأطيعونِ}: كرَّر ذلك عليه السلام؛ لتكريره دعوةَ قومِهِ وطول مَكْثِهِ في ذلك؛ كما قال تعالى: {فَلَبِثَ فيهم ألف سنةٍ إلاَّ خمسين عاماً}، و {قال ربِّ إنِّي دعوتُ قومي ليلاً ونهاراً. فلم يَزِدْهُم دعائي إلاَّ فراراً ... } الآيات.
[110-105] اللہ تعالیٰ نے نوحu کی قوم کا ذکر فرمایا کہ انھوں نے اپنے رسول نوحu کو جھٹلایا، نیز نوحu نے ان کے شرک کو رد کیا اور انھوں نے حضرت نوحu کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کے انجام سے آگاہ فرمایا، چنانچہ فرمایا: ﴿ كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ِ۟ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ۠ ﴾ ’’نوح(u) کی قوم نے تمام رسولوں کو جھٹلایا۔‘‘ گویا حضرت نوحu کی تکذیب کو تمام رسولوں کی تکذیب قرار دیا، اس لیے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک اور ان کی خبر ایک ہے اس لیے ان میں سے کسی ایک کی تکذیب اس دعوت حق کی تکذیب ہے جسے تمام انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں ۔ ﴿اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ ﴾ ’’ جب ان کے (نسبی) بھائی نوح نے ان سے کہا ‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ہمیشہ اسی قوم کے نسب سے پیدا کیا جس میں ان کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ اطاعت کرتے ہوئے انقباض اور کراہت محسوس نہ کریں کیونکہ وہ اس کی نسبی حقیقت سے واقف ہیں اور ان کو اس کے نسب کی تحقیق کی ضرورت نہیں ۔ نوحu نے ان کو انتہائی نرمی سے خطاب کیا، جیسا کہ یہ تمام انبیاء کرامu کا طریقہ تھا۔ ﴿ اَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’کیا تم (اللہ تعالیٰ سے) نہیں ڈرتے‘‘ کہ تم بتوں کی عبادت کو چھوڑ دیتے اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی عبادت کو خالص کرتے؟ ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ ’’بے شک میں تو تمھارا امانت دار رسول ہوں ۔‘‘ حضرت نوحu کا خاص طور پر ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا جانا اس امر کا موجب ہے کہ وہ، جو چیز ان کی طرف بھیجی گئی ہے اسے قبول کریں ، اس پر ایمان لائیں اور اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انھیں اس معزز رسول کے ساتھ خاص فرمایا اور آپ کا امین ہونا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ گھڑیں اور اس کی وحی میں کمی بیشی نہ کریں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ لوگ آپ کی خبر کی تصدیق اور آپ کے حکم کی اطاعت کریں ۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ ’’پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ یعنی جس چیز کا میں تمھیں حکم دیتا ہوں اور جس چیز سے میں تمھیں روکتا ہوں اس بارے میں میری اطاعت کرو۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی طرف آپ کے رسول امین کے طور پر مبعوث ہونے پر مترتب ہوتی ہے بنابریں اللہ تعالیٰ نے (فاء) کے ساتھ ذکر فرمایا جو سبب پر دلالت کرتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے سبب موجب کا ذکر کیا پھر نفی مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ﴾ ’’اور میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا‘‘ جس سے تمھیں بھاری تاوان کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہو۔ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔‘‘ میں اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب اور ثواب جنریل کی امید رکھتا ہوں ۔ رہا تمھارا معاملہ تو میری انتہائی تمنا اور ارادہ صرف تمھاری خیرخواہی اور تمھارا راہ راست پر گامزن ہونا ہے۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ یہ آیت مکرر ذکر کی گئی ہے کیونکہ نوحu ایک نہایت طویل عرصہ تک اپنی قوم کو بار بار دعوت توحید دیتے رہے، وہ بتکرار یہ بات کہتے رہے ’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘ فرمایا: ﴿فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ﴾ (العنکبوت:29؍14) ’’پس وہ (نوحu) پچاس کم ایک ہزار سال اپنی قوم میں رہے۔‘‘ نوحu نے کہا: ﴿رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَهَارًاۙ۰۰ فَلَمْ یَزِدْهُمْ دُعَآءِیْۤ اِلَّا فِرَارًا ﴾ (نوح:71؍5،6) ’’اے میرے رب! میں اپنی قوم کو رات دن توحید کی طرف بلاتا رہا مگر وہ میرے بلانے پر اور زیادہ دور بھاگنے لگے۔‘‘
#
{111} فقالوا ردًّا لدعوته ومعارضةً له بما ليس يَصْلُحُ للمعارضة: {أنؤمنُ لك واتَّبَعَكَ الأرذلونَ}؛ أي: كيف نتَّبِعُك ونحن لا نرى أتباعَكَ إلاَّ أسافل الناس وأراذِلَهم وسَقَطَهم. بهذا يُعْرَفُ تكبُّرهم عن الحقِّ وجهلُهُم بالحقائق؛ فإنَّهم لو كان قصدُهُم الحقَّ؛ لقالوا ـ إنْ كان عندَهم إشكالٌ وشكٌّ في دعوته ـ: بيِّنْ لنا صحةَ ما جئتَ به بالطُّرق الموصلة إلى ذلك! ولو تأمَّلوا حقَّ التأمُّل؛ لعلموا أنَّ أتباعه هم الأعْلَوْنَ، خيار الخلق، أهل العقول الرزينة والأخلاق الفاضلة، وأنَّ الأرذل مَنْ سُلِبَ خاصيَّةَ عقلِهِ، فاستحسن عبادةَ الأحجار، ورضي أن يَسْجُدَ لها ويَدْعُوَها، وأبى الانقيادَ لدعوة الرُّسل الكُمَّل. وبمجرَّد ما يتكلَّم أحدُ الخصمين في الكلام الباطل؛ يُعْرَفُ فساد ما عنده؛ بقطع النظر عن صحة دعوى خصمِهِ؛ فقوم نوح لمَّا سمعنا عنهم أنهم قالوا في ردِّهم دعوةَ نوح: {أنؤمنُ لك واتَّبَعَكَ الأرذلونَ}: فبَنَوْا على هذا الأصل الذي كلُّ أحدٍ يعرف فسادَهُ ردَّ دعوتِهِ؛ عرفنا أنَّهم ضالُّون مخطئون، ولو لم نشاهِدْ من آيات نوح ودعوتِهِ العظيمةِ ما يفيدُ الجزم واليقينَ بصدقِهِ وصحَّة ما جاء به.
[111] انھوں نے نوحu کی دعوت کو ٹھکراتے اور ایسی چیز کی بنا پر آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا جس کی بنا پر مخالفت کرنا درست نہ تھا: ﴿اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ یعنی ہم تیری اتباع کیسے کر سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیری اتباع کرنے والے معاشرے میں سبب سے گھٹیا، رذیل اور گرے پڑے لوگ ہیں ۔ ان کی ان باتوں سے ان کا حق سے تکبر کرنا اور حقائق سے جاہل رہنا پہچانا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر ان کا مقصد تلاش حق ہوتا اور انھیں آپ کی دعوت میں کوئی شک و شبہ ہوتا تو کہتے کہ آپ جو چیز لے کر آئے ہیں اس تک پہنچانے والے طرق کے ذریعے سے ہمیں اس کے صحیح ہونے کے بارے میں وضاحت فرما دیجیے! اگر وہ غور کرتے جیسا کہ غور کرنے کا حق ہے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ نوحu کے متبعین ہی بہترین لوگ اور انسانیت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں ، وہ بہترین عقل اور اخلاق فاضلہ کے حامل ہیں ۔ سب سے رذیل وہ ہے جس سے خصوصیات عقل سلب کر لی گئی ہوں اور وہ پتھروں کی عبادت کو مستحسن سمجھتا ہو اور وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور حاجتوں میں ان کو پکارنے پر راضی ہو اور اس نے کامل ترین انسانوں یعنی انبیاء ورسل کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔جب دو جھگڑنے والوں میں سے ایک کلام باطل کے ساتھ بات کر رہا ہو تو محض اس کے کلام ہی سے اس کے فساد کا پتہ چل جائے گا، اس سے قطع نظر کہ اس کے جھگڑے کے دعویٰ کی صحت پر غور کیا جائے۔ جب ہم حضرت نوحu کی قوم کے بارے میں سنتے ہیں کہ انھوں نے نوحu کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا: ﴿ اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ اور خطا کار ہیں اگرچہ ہم حضرت نوحu کے معجزات اور ان کی عظیم دعوت کا مشاہدہ نہ بھی کریں جو کہ آپ کی سچائی پر پختہ یقین اور جس چیز کو لے کر آپ اٹھے ہیں اس کے صحیح ہونے کا فائدہ دیتے ہیں کیونکہ ان منکرین نے حضرت نوحu کی دعوت کو رد کرنے کی بنیاد ایسی چیز پر رکھی ہے جس کا فساد سب پر واضح ہے۔
#
{112 ـ 115} فقال نوحٌ عليه السلام: {وما علمي بما كانوا يَعْمَلونَ. إنْ حسابهم إلاَّ على ربِّي لو تشعُرونَ}؛ أي: أعمالُهُم وحسابُهم على الله، إنَّما عليَّ التبليغُ، وأنتم دعوهم عنكم؛ إنْ كان ما جئتُكم به الحقَّ؛ فانقادوا له، وكلٌّ له عملُه، {وما أنا بطاردِ المؤمنينَ}: كأنَّهم ـ قبَّحهم الله ـ طلبوا منه أن يَطْرُدَهم عنه تكبُّراً وتجبُّراً ليؤمنوا، فقال: {وما أنا بطاردِ المؤمنينَ}؛ فإنَّهم لا يستحقُّون الطردَ والإهانةَ، وإنَّما يستحقُّون الإكرامَ القوليَّ والفعليَّ؛ كما قال تعالى: {وإذا جاءك الذين يؤمنونَ بآياتِنا فَقُلْ سلامٌ عليكم كَتَبَ ربُّكم على نفسِهِ الرحمةَ}. {إنْ أنا إلاَّ نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: ما أنا إلاَّ منذر ومبلغ عن الله، ومجتهد في نصح العباد وليس لي من الأمر شيء إن الأمر إلا لله.
[115-112] چنانچہ نوحu نے فرمایا: ﴿ وَمَا عِلْ٘مِیْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۰۰ اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰى رَبِّیْ لَوْ تَ٘شْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’اور مجھے کیا خبر وہ پہلے کیا کرتے رہے ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تم شعور رکھتے ہو۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور میرا فرض اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے، تم ان کا معاملہ چھوڑو۔ اگر میری دعوت حق ہے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دو۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور میں مومنوں کو نکال دینے والا نہیں ہوں ۔‘‘ یوں لگتا ہے کہ انھوں نے اللہ ان کا برا کرے… تکبر اور جبر سے نوحu سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اہل ایمان کو اپنے پاس سے دھتکار دیں تب وہ ایمان لائیں گے تو نوحu نے جواب دیا: ﴿ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ کیونکہ یہ اہانت اور دھتکارے جانے کے مستحق نہیں بلکہ یہ تو قولی و فعلی اکرام و تکریم کے مستحق ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾ (الانعام:6؍54) ’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہہ دیجیے تم پر سلامتی ہو۔ اللہ نے اپنی ذات پر رحمت کو واجب کر لیا ہے۔‘‘ ﴿ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں ۔‘‘ یعنی میں صرف ڈرانے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام پہنچا دینے والا ہوں اور میں بندوں کی خیرخواہی کی کوشش میں لگا رہتا ہوں ۔ میرے پاس کوئی اختیار نہیں ، معاملے کا تمام اختیار صرف، اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
#
{116} فاستمر نوح عليه الصلاة والسلام على دعوتهم ليلاً ونهاراً، سرًّا وجهاراً، فلم يزدادوا إلاَّ نفوراً، و {قالوا لَئِن لم تَنتَهِ يا نوحُ}: من دعوتِكَ إيَّانا إلى الله وحده؛ {لتكونَنَّ من المَرْجومينَ}؛ أي: لنقتُلَنَّكَ شرَّ قِتْلة؛ بالرمي بالحجارة؛ كما يُقْتَلُ الكلبُ فتبًّا لهم! ما أقبح هذه المقابلةَ! يقابلون الناصحَ الأمين الذي هو أشفقُ عليهم من أنفسهم بشرِّ مقابلة.
[116] نوحu دن رات، کھلے چھپے، انھیں دعوت دیتے رہے مگر وہ دور ہی دور بھاگتے رہے اور کہنے لگے: ﴿ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰنُوْحُ ﴾ اے نوح! اگر تو ہمیں اللہ کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا ﴿ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْ٘مَرْجُوْمِیْنَ ﴾ ہم تجھے پتھر مارمار کر بری طرح قتل کریں گے، جس طرح کتے کو قتل کیا جاتا ہے… ان کا برا ہو… انھوں نے کتنا برا تقابل کیا ہے۔ وہ ایک خیرخواہ، امین شخص کا تقابل، جو ان کے لیے خود ان سے زیادہ شفیق ہے، بدترین تقابل کررہے ہیں ۔
#
{117 ـ 118} لا جَرَمَ لمَّا انتهى ظلمُهم واشتدَّ كفرُهم؛ دعا عليهم نبيُّهم بدعوةٍ أحاطت بهم، فقال: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرضِ من الكافرينَ دَيَّاراً ... } الآيات، وهنا قال: {ربِّ إنّ قومي كذَّبونِ فافْتَحْ بيني وبينَهم فَتْحاً}؛ أي: أَهْلِكِ الباغي منَّا، وهو يعلم أنَّهم البغاةُ الظلمة، ولهذا قال: {وَنَجِّني ومَن مَعِيَ من المؤمنين}.
[118,117] جب ان کے جرم کی انتہا ہو گئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہو گیا تو ان کے نبی نے ان کے لیے بدعا کی جس نے ان کو گھیر لیا، چنانچہ نوحu نے عرض کیا: ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا﴾ (نوح:71؍26) ’’اے میرے رب کسی کافر کو زمین پر بسانہ رہنے دے۔‘‘ اور یہاں فرمایا: ﴿رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِۚۖ۰۰ فَافْ٘تَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا ﴾ ’’میرے رب! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کر دے۔‘‘ یعنی ہم میں سے جو زیادتی کا مرتکب ہے اسے ہلاک کر دے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ ظلم اور زیادتی کے مرتکب ہیں ، اس لیے عرض کیا ﴿ وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّ٘عِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’مجھے اور ان مومنین کو جو میرے ساتھ ہیں ، نجات دے۔‘‘
#
{119 ـ 122} {فأنجَيْناه ومَن معه في الفُلْكِ}؛ أي: السفينة {المشحونِ}: من الخَلْق والحيوانات، {ثم أغْرَقْنا بعدُ}؛ أي: بعد نوح ومن معه من المؤمنين {الباقينَ}؛ أي: جميع قومه. {إنَّ في ذلك}؛ أي: نجاة نوح وأتباعه وإهلاك مَنْ كَذَّبَه {لآيةً}: دالَّة على صِدق رُسُلِنا وصحَّة ما جاؤوا به وبطلانِ ما عليه أعداؤهم المكذِّبون بهم. {وإنَّ ربَّك لهو العزيزُ}: الذي قهر بعزِّهِ أعداءَه فأغرقهم بالطُّوفان. {الرحيمُ}: بأوليائه؛ حيث نجَّى نوحاً ومن معه من أهل الإيمان.
[122-119] ﴿ فَاَنْجَیْنٰهُ وَمَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ ﴾ ’’پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچا لیا۔‘‘ ﴿ الْمَشْحُوْنِ ﴾ جو مخلوق اور حیوانات سے بھری ہوئی تھی۔ ﴿ ثُمَّ اَغْ٘رَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَ﴾ ’’پھر اس کے بعد غرق کر دیا۔‘‘ یعنی نوحu اور ان اہل ایمان کے بعد جو آپ کے ساتھ تھے ﴿ الْبٰقِیْنَ ﴾ باقی تمام قوم کو غرق کر دیا۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ ’’بے شک اس میں ۔‘‘ یعنی نوحu اور ان کے متبعین کی نجات اور جھٹلانے والوں کی ہلاکت میں ﴿ لَاٰیَةً﴾ ’’ایک نشانی ہے‘‘ جو ہمارے رسولوں کی صداقت اور ان کی دعوت کے حق ہونے اور ان کی تکذیب کرنے والے دشمنوں کے موقف کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’بے شک تمھارا رب تو غالب ہے۔‘‘ جو اپنی قوت اور غلبہ کی بنا پر اپنے دشمنوں پر غالب ہے اور اس نے ان کو طوفان کے ذریعے سے غرق کر دیا۔ ﴿الرَّحِیْمُ ﴾ ’’مہربان ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے اولیا پر بہت مہربان ہے اس نے حضرت نوحu اور ان کے ساتھ اہل ایمان کو نجات دی۔
آیت: 123 - 140 #
{كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ (123) إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ (124) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (125) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (126) وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (127) أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ (128) وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ (129) وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ (130) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (131) وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ (132) أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ (133) وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (134) إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (135) قَالُوا سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُنْ مِنَ الْوَاعِظِينَ (136) إِنْ هَذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ (137) وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (138) فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (139) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (140).
جھٹلایا (قوم) عاد نے رسولوں کو (123) جب کہا ان سے ان کے بھائی ہود نے، کیا نہیں ڈرتے تم (اللہ سے)؟ (124) بے شک میں ہوں تمھارے لیے رسول امانت دار (125) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری (126) اور نہیں مانگتا ہے میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجر (صلہ)، نہیں ہے میرا اجر مگر اوپر پروردگار جہانوں کے (127)کیا بناتے ہو تم ہر اونچی جگہ پر ایک نشانی (عمارت) کھیلتے ہوئے؟ (128)اور بناتے (تعمیر کرتے) ہو تم (رہائشی) مضبوط محل، شاید کہ تم ہمیشہ (یہاں ہی) رہو گے (129)اور جب پکڑتے ہو تم تو پکڑتے ہو سرکشوں کی طرح (130) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری (131) اور ڈرو تم اس سے جس نے بڑھایا تمھیں ساتھ ان چیزوں کے جو تم جانتے ہو (132) اس نے بڑھایا تمھیں ساتھ مویشیوں اور بیٹوں کے (133)اور باغات کے اور چشموں کے (134) بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک بڑے دن کے (135) انھوں نے کہا، برابر ہے ہم پر خواہ تو نصیحت کرے یا نہ ہو تو نصیحت کرنے والوں سے (136) نہیں ہے یہ مگر عادت پہلے لوگوں کی (137)اورنہیں ہم عذاب دیے جائیں گے (138) پس جھٹلایا انھوں نے اسے تو ہلاک کر دیا ہم نے ان کو بے شک اس میں البتہ (عظیم)نشانی ہےاور نہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (139) اور بلاشبہ آپ کا رب البتہ وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا (140)
#
{123 ـ 127} أي: كذَّبتِ القبيلةُ المسماةُ عاداً رسولهم هوداً، وتكذيبُهم له تكذيبٌ لغيره؛ لاتفاقِ الدعوة، {إذْ قال لهم أخوهم}: في النسبِ {هودٌ}: بلطفٍ وحسن خطابٍ: {ألا تتقونَ}: الله، فتترُكون الشركَ وعبادةَ غيره، {إنِّي لكم رسولٌ أمينٌ}؛ أي: أرسلني الله إليكم رحمةً بكم واعتناءً بكم، وأنا أمينٌ؛ تعرفون ذلك منِّي. رتَّب على ذلك قولَه: {فاتَّقوا الله وأطيعونِ}؛ أي: أدُّوا حقَّ الله تعالى، وهو التَّقوى، وأدُّوا حقِّي؛ بطاعتي فيما آمركم به وأنهاكم عنه؛ فهذا موجبٌ لأن تتَّبِعوني وتُطيعوني، وليس ثَمَّ مانعٌ يمنعُكم من الإيمان، فلستُ أسألُكم على تبليغي إيَّاكم ونُصحي لكم أجراً حتى تَسْتَثْقِلوا ذلك المغرم. {إنْ أجْرِيَ إلاَّ على ربِّ العالمينَ}: الذي ربَّاهم بنِعَمِهِ وأدرَّ عليهم فضلَه وكرمه؛ خصوصاً ما ربَّى به أولياءه وأنبياءه.
[127-123] یعنی عاد نامی قبیلے نے اپنے رسول ہودu کی تکذیب کی، ان کا ہودu کی تکذیب کرنا تمام رسولوں کی تکذیب ہے کیونکہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے۔ ﴿ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ ﴾ ’’جب ان کے بھائی نے انھیں کہا۔‘‘ یعنی نسبی بھائی ﴿ هُوْدٌ ﴾ ’’ہودu نے‘‘ نہایت شفقت اور بہترین طریقے سے مخاطب ہو کر کہا: ﴿اَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’کیا تم ڈرتے نہیں ۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے شرک اور غیر اللہ کی عبادت کو چھوڑتے نہیں ؟ ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ ’’میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم اور نظر عنایت کرتے ہوئے مجھے تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایک امانت دار شخص ہوں اس تمہید پر انھوں نے اپنا یہ قول مرتب کیا۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ ’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور وہ ہے تقویٰ اور میں جن امور کا حکم دیتا ہوں اور جن امور سے روکتا ہوں ، ان میں میری اطاعت کر کے میرا حق ادا کرو اور یہ چیز اس امر کی موجب ہے کہ تم میری اتباع اور اطاعت کرو۔ تمھارے ایمان لانے میں کوئی چیز مانع نہیں اور میں تمھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور خیرخواہی کرنے کے بدلے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا کہ تم اسے بھاری تاوان خیال کرو۔ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’میرا اجر تو رب کائنات کے ذمہ ہے‘‘ جس نے بے شمار نعمتوں کے ذریعے سے ان کی تربیت کی اور اپنے فضل و کرم کا ان پر فیضان کیا، خاص طور پر جو اس نے اپنے اولیاء و انبیاء کی تربیت فرمائی۔
#
{128 ـ 135} {أتبنونَ بكلِّ رِيعٍ}؛ أي: مدخل بين الجبال {آيةً}؛ أي: علامة {تَعْبَثونَ}؛ أي: تفعلون ذلك عبَثاً لغير فائدةٍ تعود بمصالح دينكم ودنياكم، {وتتَّخِذونَ مصانعَ}؛ أي: بركاً ومجابي للمياه؛ {لعلَّكم تَخْلُدون}: والحال أنَّه لا سبيل إلى الخلود لأحدٍ. {وإذا بطشتُم}: بالخَلْق {بطَشْتُم جبَّارينَ}: قتلاً وضرباً وأخذَ أموال. وكان اللهُ تعالى قد أعطاهم قوةً عظيمةً، وكان الواجب عليهم أنْ يَسْتَعينوا بقوَّتِهم على طاعةِ الله، ولكنَّهم فخروا واستكبروا وقالوا: مَنْ أشدُّ منَّا قوَّةً؟ واستعملوا قوَّتَهم في معاصي الله وفي العبث والسفه؛ فلذلك نهاهم نبيُّهم عن ذلك. {فاتَّقوا الله}: واتركوا شِرْكَكَم وبَطَرَكم {وأطيعونِ}: حيثُ علمتُم أنِّي رسولُ الله إليكم أمينٌ ناصحٌ. {واتَّقوا الذي أمدَّكم}؛ أي: أعطاكم {بما تَعْلَمون}؛ أي: أمدَّكم بما لا يُجْهَلُ ولا يُنْكَرُ من الأنعام، {أمدَّكُم بأنعام}: من إبل وبقرٍ وغنم، {وبنينَ}؛ أي: وكثرة نسل؛ كثَّرَ أموالَكم وكثَّرَ أولادَكم؛ خصوصاً الذكورَ؛ أفضل القسمين. هذا تذكيرُهم بالنِّعم، ثم ذكَّرهم حلولَ عذاب الله فقال: {إنِّي أخافُ عليكم عذابَ يوم عظيم}؛ أي: إني من شفقتي عليكُم، وبِرِّي بكم أخافُ أن ينزِلَ بكم عذابٌ عظيمٌ. إذا نَزَلَ لا يُرَدُّ إنِ استَمْرَّيْتُم على كفرِكم وبَغْيِكُم.
[135-128] ﴿اَتَبْنُوْنَ بِكُ٘لِّ رِیْعٍ﴾ ’’بھلا تم ہر اونچی جگہ پر بناتے ہو۔‘‘ یعنی پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستے پر ﴿ اٰیَةً ﴾ ’’علامت‘‘ یعنی یادگار کے طورپر ﴿تَعْبَثُوْنَ ﴾ ’’کھیل کود کرتے ہوئے۔‘‘ یعنی یہ کام تم عبث کرتے ہو جس کا تمھارے دین اور دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ۔ ﴿ وَتَتَّؔخِذُوْنَ مَصَانِعَ ﴾ ’’اور تم محل (یا حوض) بناتے ہو۔‘‘ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے حوض بناتے ہو۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ﴾ ’’شاید تم ہمیشہ رہو گے؟‘‘ اور حال یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کی کوئی راہ نہیں ۔ ﴿ وَاِذَا بَطَشْتُمْ ﴾ ’’اور جب تم (مخلوق کو) پکڑتے ہو۔‘‘ ﴿بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ﴾ ’’تو انتہائی ظلم و جبر کے ساتھ پکڑتے ہو۔‘‘ ان کو قتل کرتے ہو، مارتے ہو اور ان کا مال و متاع لوٹ لیتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ قوت عطا کر رکھی تھی ان پر واجب تھا کہ وہ اس وقت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کرتے مگر اس کے برعکس انھوں نے فخر اور تکبر کا مظاہرہ کیا اورکہنے لگے: ﴿ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ٘ةً ﴾ (حٓم السجدۃ:41؍15) ’’کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور؟‘‘ اور انھوں نے اپنی قوت و طاقت کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، عبث اور سفاہت کے کاموں میں استعمال کیا، اس لیے ان کے نبی نے ان کو ان کاموں سے روکا۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ ’’پس تم اللہ سے ڈرو۔‘‘ یعنی تم اپنے شرک اور تکبر کو چھوڑ دو ﴿ وَاَطِیْعُوْنِ ﴾ ’’اور میری اطاعت کرو۔‘‘ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مجھے تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور میں خیرخواہ اور امین ہوں ۔ ﴿وَاتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ ﴾ ’’اور اس ذات سے ڈرو، جس نے تمھیں مدد دی۔‘‘ یعنی جس نے تمھیں عطا کیا ﴿ بِمَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ان چیزوں سے جن کو تم جانتے ہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو مجہول ہیں نہ ان کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ ﴿ اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ ﴾ ’’اس نے چوپایوں کے ذریعے سے تمھاری مدد کی۔‘‘ یعنی اس نے تمھیں اونٹ، بھیڑ بکریاں اور گائیں عطا کیں ﴿ وَّبَنِیْنَ ﴾ ’’اور بیٹے عطا کیے۔‘‘ یعنی کثرت نسل سے نوازا اس نے تمھیں بہت زیادہ مال اور اولاد، خاص طور پر نرینہ اولاد عطا کی۔ جو دونوں اقسام میں سے بہترین نعمت ہے۔ یہ تو تھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد دلا کر وعظ و نصیحت، پھر انھیں نزول عذاب سے ڈرایا: ﴿ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ میں تم پر اپنی شفقت اور تمھارے ساتھ نیکی کی بنا پر ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بڑے دن کا عذاب نازل نہ ہو جائے۔ تمھارے کفر اور بغاوت کے رویے پر جمے رہنے کی بنا پر جب وہ عذاب نازل ہو گیا تو کسی کے روکے نہیں رکے گا۔
#
{136 ـ 138} فقالوا معاندينَ للحقِّ مكذِّبين لنبيِّهم: {سواءٌ علينا أوعظتَ أمْ لم تكن من الواعظينَ}؛ أي: الجميع على حدٍّ سواء! وهذا غاية العتوِّ؛ فإنَّ قوماً بلغتْ بهم الحالُ إلى أن صارتْ مواعظُ الله التي تُذيبُ الجبالَ الصُّمَّ الصِّلابَ، وتتصدَّعُ لها أفئدةُ أولي الألباب، وجودُها وعدمُها عندهم على حدٍّ سواء؛ لَقَوْمٌ انتهى ظلمُهم واشتدَّ شقاؤُهم وانقطعَ الرجاءُ من هدايَتِهِم، ولهذا قالوا: {إنْ هذا إلاَّ خُلُقُ الأوَّلينَ}؛ أي: هذه الأحوال والنعم ونحو ذلك عادةُ الأولينَ؛ تارةً يستغنون، وتارةً يفتقرونَ، وهذه أحوال الدَّهر؛ لأنَّ هذه محنٌ ومنحٌ من الله تعالى وابتلاءٌ لعباده. {وما نحن بِمُعَذَّبينَ}: وهذا إنكارٌ منهم للبعث، أو تنزُّلٌ مع نبيِّهم وتهكُّمٌ به؛ أنَّنا على فرض أنَّنا نُبْعَثُ؛ فإنَّنا كما أُدِرَّتْ علينا النعمُ في الدنيا؛ كذلك لا تزال مستمرةً علينا إذا بُعِثْنا.
[138-136] انھوں نے حق کے ساتھ عناد کامظاہرہ اور اپنے نبی کی تکذیب کرتے ہوئے کہا: ﴿ سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ ﴾ ’’خواہ نصیحت کرو یا نہ کرو، ہمارے لیے یکساں ہے۔‘‘ یعنی سب برابر ہے۔ یہ سرکشی کی انتہاء ہے کہ جب قومیں اس حالت کو پہنچ جاتی ہیں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے مواعظ و تذکیر، جن کے سامنے پہاڑوں کی ٹھوس چٹانیں بھی پگھل جاتی ہیں اور عقل مندوں کے دل لخت لخت ہو جاتے ہیں ، کا وجود اور عدم وجود برابر ہوں تو یہ ان کے ظلم اور بدبختی کی آخری حد ہے۔ تب ان کی ہدایت کی امید منقطع ہو جاتی ہے۔ اس لیے انھوں نے کہا: ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا خُ٘لُ٘قُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’یہ تو اگلوں ہی کے طرق ہیں ۔‘‘ یعنی یہ احوال اور یہ تمام نعمتیں وغیرہ، پہلے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہوتا آیا ہے۔ وہ کبھی مالدار ہوتے تھے اور کبھی محتاج۔ یہ زمانے کے حالات ہیں ۔ یہ سختیاں اور نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ اس کے بندوں کی آزمائش ہیں ﴿ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ﴾ ’’اور ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا۔‘‘ یہ گویا ان کی طرف سے قیامت کا انکار یا اپنے نبی کو اس کی رائے سے ہٹانے کی کوشش یا اس کے ساتھ استہزا ہے اور اگر ہم فرض کرلیں کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا بھی گیا تو جس طرح ہمیں دنیا میں نعمتوں سے نوازا گیا ہے اسی طرح ہمیں دوسری زندگی میں بھی نعمتیں عطا ہوتی رہیں گی۔
#
{139 ـ 140} {فكذَّبوه}؛ أي: صار التكذيب سجيَّةً لهم وخُلُقاً لا يردعُهم عنه رادعٌ؛ {فأهْلَكْناهم}: {بريح صرصرٍ عاتيةٍ. سخَّرَها عليهم سبع ليال وثمانيةَ أيَّام حسوماً فترى القومَ فيها صَرْعى كأنَّهم أعجازُ نخل خاوية}. {إنَّ في ذلك لآيةً}: على صِدْق نبيِّنا هودٍ عليه السلام، وصحَّة ما جاء به، وبطلانِ ما عليه قومُه من الشرك والجبروت. {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ}: مع وجود الآياتِ المقتضيةِ للإيمان، {وإنَّ ربَّك لهو العزيزُ}: الذي أهلكَ بقوتِهِ قومَ هودٍ على قوَّتِهِم وبطشِهِم. {الرحيم}: بنبيِّه هودٍ حيث نجَّاه ومَنْ معه من المؤمنين.
[140,139] ﴿فَكَذَّبُوْهُ﴾ ’’پس انھوں نے اس کی تکذیب کی۔‘‘ یعنی تکذیب ان کی فطرت اور عادت بن گئی تھی اور اس سے کوئی انھیں باز نہیں رکھ سکتا۔ ﴿فَاَهْلَكْنٰهُمْ ﴾ ’’تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔‘‘ جیسا کہ فرمایا: ﴿ بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ۰۰سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى١ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ﴾ (الحاقہ:69؍6،7) ’’اور عاد کو نہایت تیز آندھی نے ہلاک کر دیا اللہ تعالیٰ نے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک اس آندھی کو ان پر چلائے رکھا، پس تو لوگوں کو اس میں اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھے گا جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔‘‘ ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ اس میں ہمارے نبی ہودu، ان کی دعوت کی صداقت اور ان کی قوم کے شرک اور سرکشی کے بطلان پر دلیل ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ان نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائے جو ایمان کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ﴾ ’’اور تمھارا رب تو غالب ہے۔‘‘ جس نے اپنی قدرت کے ذریعے سے حضرت ہودu کی قوم کو، ان کے طاقتور اور زبردست ہونے کے باوجود، ہلاک کر ڈالا۔ ﴿ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے نبی ہودu پر بہت رحم کرنے والا تھا کیونکہ اس نے حضرت ہودu اور ان کے ساتھی اہل ایمان کو کفار سے نجات بخشی۔
آیت: 141 - 159 #
{كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ (141) إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ (142) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (143) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (144) وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (145) أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ (146) فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (147) وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ (148) وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ (149) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (150) وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ (151) الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (152) قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ (153) مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (154) قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ (155) وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ (156) فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ (157) فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (158) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (159)}
جھٹلایا (قوم) ثمود نے رسولوں کو (141) جب کہا ان سے ان کے بھائی صالح نے، کیا نہیں ڈرتے تم (اللہ سے)؟ (142) بلاشبہ میں ہوں تمھارے لیے رسول امانت دار (143) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری (144) اور نہیں مانگتا میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجر (صلہ)، نہیں ہے میرا اجر مگر اوپر پروردگار جہانوں کے (145) کیا تم چھوڑ دیے جاؤ گے ان چیزوں میں جو یہاں ہیں امن سے؟ (146) (یعنی ) باغات اور چشموں میں ؟ (147) اورکھیتوں اورکھجوروں میں کہ شگوفے ان کے نرم و نازک (اور ملائم) ہیں ؟ (148) اور تراشتے ہو تم پہاڑوں سے گھر، اتراتے ہوئے (149) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری (150) اور نہ اطاعت کرو تم حد سے بڑھ جانے والوں کی (151) جو فساد کرتے ہیں زمین میں اور نہیں وہ اصلاح کرتے (152) انھوں نے کہا، یقینا تو سحر زدہ لوگوں میں سے ہے (153) نہیں ہے تو (کچھ اور) مگر بشر ہم جیسا ہی، پس لے آ تو کوئی نشانی (معجزہ) اگر ہے تو سچوں میں سے (154) صالح نے کہا، یہ اونٹنی (معجزہ)ہے، اس کے لیے پانی پینے کی باری ہے اور تمھارے لیے پانی پینے کی باری ہے ایک دن مقرر میں (155) اور نہ ہاتھ لگانا اسے برائی سے، پس آپکڑے گا تمھیں عذاب ایک بڑے دن کا (156)پس کاٹ ڈالیں انھوں نے ٹانگیں اس کی ، پھر ہو گئے وہ سخت نادم (157) پس آپکڑا ان کو عذاب نے بے شک اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہےاور نہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (158) اور بلاشبہ آپ کا رب ، البتہ وہ ہے،نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا (159)
#
{141 ـ 144} {كذبتْ ثمودُ} القبيلةُ المعروفةُ في مدائن الحِجْر {المرسلينَ}: كذَّبوا صالحاً عليه السلام، الذي جاء بالتوحيد، الذي دعتْ إليه المرسلون، فكان تكذيبُهم له تكذيباً للجميع، {إذ قال لهم أخوهم صالحٌ}: في النسب برفقٍ ولينٍ: {ألا تتَّقونَ}: الله تعالى وَتَدَعون الشركَ والمعاصي. {إنِّي لكم رسولٌ}: من الله ربِّكم، أرْسَلَني إليكُم لطفاً بكم ورحمةً، فتلَقَّوا رحمته بالقَبول، وقابِلوها بالإذعان. {أمينٌ}: تعرفون ذلك منِّي، وذلك يوجِبُ عليكم أن تؤمِنوا بي وبما جئتُ به، {وما أسألُكُم عليه من أجرٍ}: فتقولون: يمنعُنا من اتِّباعكَ أنَّك تريدُ أخذَ أموالنا. {إنْ أجْرِيَ إلاَّ على ربِّ العالمينَ}؛ أي: لا أطلبُ الثوابَ إلاَّ منه.
[144-141] ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ ﴾ ’’قوم ثمود نے جھٹلا دیا۔‘‘ علاقہ حجر کے شہروں میں آباد معروف قبیلہ ہے ﴿ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ ’’پیغمبروں کو۔‘‘ انھوں نے صالحu کی تکذیب کی جو توحید لے کر ان کے پاس آئے جو تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت تھی، اس لیے حضرت صالحu کی تکذیب گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ ﴿اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ ﴾ ’’جب ان کے بھائی صالحu نے، (جو ان کے نسبی بھائی تھے، نہایت نرمی سے) ان سے کہا: ﴿ اَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر شرک اور معاصی کو نہیں چھوڑتے؟ ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ ﴾ ’’بے شک میں تمھارے رب کی طرف سے رسول ہوں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور رحمت کی بنا پر مجھے تمھاری طرف بھیجا ہے پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو قبول کرو اور فروتنی اور اطاعت کے ساتھ اس کا استقبال کرو۔ ﴿ اَمِیْنٌ﴾ تم میری امانت و دیانت کو خوب جانتے ہیں اور یہ چیز اس امر کی متقاضی ہے کہ تم مجھ پر اور میری دعوت پر ایمان لاؤ۔ ﴿وَمَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ﴾ ’’اور میں اس کا تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔‘‘ تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تمھاری اتباع سے صرف اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم ہمارا مال ہتھیانا چاہتے ہو۔ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’میرا اجر تو رب العالمین کے ذمے ہے۔‘‘ یعنی میں اس کا اجروثواب صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہوں ۔
#
{145 ـ 152} {أتُتْرَكونَ في ما هاهنا آمنينَ. في جناتٍ وعيونٍ. وزُروعٍ ونَخْلٍ طَلْعُها هَضيمٌ}؛ أي: نضيدٌ كثيرٌ؛ أي: أتحسبونَ أنَّكم تُتْرَكونَ في هذه الخيرات والنِّعم سدىً تتنعَّمون وتمتعون كما تتمتَّع الأنعام؟ وتُتْركون سدىً لا تُؤْمَرون ولا تُنْهَوْن، وتستعينونَ بهذه النعم على معاصي الله، {وَتَنْحِتونَ من الجبالِ بيُوتاً فارهينَ}؛ أي: بلغتْ بكم الفراهةُ والحِذْق إلى أن اتَّخذتُم بيوتاً من الجبال الصمِّ الصلابِ. {فاتقوا الله وأطيعونِ. ولا تُطيعوا أمرَ المسرفينَ}: الذين تجاوزوا الحدَّ، {الذين يُفْسِدونَ في الأرض ولا يُصْلحِونَ}؛ أي: الذين وصفُهم ودأبهم الإفسادُ في الأرض بعمل المعاصي والدعوةِ إليها إفساداً لا إصلاحَ فيه، وهذا أضرُّ ما يكون؛ لأنَّه شرٌّ محضٌ، وكأنَّ أناساً عندَهم مستعدُّون لمعارضة نبيِّهم. موضِعون في الدعوة لسبيل الغَيِّ، فنهاهم صالحٌ عن الاغترارِ بهم، ولعلَّهم الذين قال الله فيهم: {وكانَ في المدينةِ تسعةُ رَهْطٍ يُفْسِدونَ في الأرضِ ولا يُصْلِحونَ}.
[152-145] ﴿ اَتُتْرَؔكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ ۰۰ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍۙ ۰۰ وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌ﴾ ’’کیا جو چیزیں ہیں ان میں تم بے خوف چھوڑ دیے جاؤ گے یعنی باغات اور چشموں میں اور کھیتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔‘‘ یعنی پھل سے لدے ہوئے یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمھیں ان نعمتوں اور آسائشوں میں بے کار چھوڑ دیا جائے گا تاکہ تم ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ جیسے چوپائے فائدہ اٹھاتے ہیں تمھیں کوئی حکم دیا جائے گا نہ کسی چیز سے روکا جائے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی میں مدد طلب کرو گے۔ ﴿ وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَ﴾ یعنی تمھاری مہارت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تم ٹھوس سخت پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بناتے ہو۔ ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِۚ ۰۰ وَلَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْ٘مُسْرِفِیْنَ﴾ ’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو۔‘‘ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کیا۔ ﴿ الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ ’’جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‘‘ یعنی جن کا وصف اور جن کی بیماری گناہوں کے ارتکاب اور لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت کے ذریعے سے زمین میں اس قدر فساد پھیلانا ہے کہ اس کی اصلاح ممکن نہ ہو۔ یہ سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہے کیونکہ یہ خالص شر ہے۔ حضرت صالحu کی قوم میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے نبی کی مخالفت کے لیے ہر وقت مستعد اور کمربستہ رہتے تھے اور محض لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر دعوت توحید کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش کرتے تھے۔ صالحu نے اپنی قوم کو ان مفسدوں کے دھوکے میں آنے سے روکا۔ شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَكَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ﴾ (النمل:27؍48) ’’اور شہر میں نو شخص تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہ کرتے تھے۔‘‘
#
{153 ـ 154} فلم يُفِدْ فيهم هذا النهيُ والوعظُ شيئاً، فقالوا لصالح: {إنَّما أنتَ من المسحَّرينَ}؛ أي: قد سُحِرْتَ فأنت تهذي بما لا معنى له، و {ما أنت إلاَّ بشرٌ مثلُنا}؛ فأيُّ فضيلة فُقْتَنا بها حتى تَدْعُوَنا إلى اتِّباعك، {فأتِ بآيةٍ إن كنتَ من الصادقين}؛ هذا مع أن مجرَّدَ اعتبار حالته وحالةِ ما دعا إليه من أكبر الآيات البيناتِ على صحَّةِ ما جاء به وصدقِهِ، ولكنَّهم من قسوتهم سألوا آياتِ الاقتراح التي في الغالب لا يُفْلِحُ مَنْ طَلَبها؛ لكونِ طلبه مبنيًّا على التعنُّتِ لا على الاسترشاد.
[154,153] اس نہی اور وعظ و نصیحت نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا، چنانچہ انھوں نے حضرت صالحu سے کہا: ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْ٘مُسَحَّرِیْنَ۠ ﴾ یعنی تجھ پر تو جادو کر دیا گیا ہے اس لیے تو ہذیانی کیفیت میں بول رہا ہے اور ایسی باتیں کہہ رہا ہے جس کا کوئی معنی نہیں ۔ ﴿ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا﴾ ’’تو ہماری ہی طرح کا آدمی ہے۔‘‘ تب وہ کون سی فضیلت ہے جس کے ذریعے سے تجھے ہم پر فوقیت حاصل ہے، یہاں تک کہ تو ہمیں اپنی اتباع کی دعوت دیتا ہے۔ ﴿فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر تو سچا ہے تو کوئی نشانی پیش کر۔‘‘ حالانکہ صالحu کی مجرد حالت کا اعتبار نیز آپ کی دعوت کا اعتبار ہی اس چیز کی صحت اور صداقت پر سب سے بڑی اور سب سے واضح دلیل ہے جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے مگر انھوں نے اپنی بدبختی کی بنا پر معجزات کا مطالبہ کیا۔ غالب حالات میں ان معجزات کا مطالبہ کرنے والے فلاح نہیں پاتے کیونکہ ان کا مطالبہ طلب رشد و ہدایت پر نہیں بلکہ تعنت پر مبنی ہوتا ہے۔
#
{155 ـ 156} فقال صالح: {هذه ناقةٌ}: تخرُجُ من صخرةٍ صماءَ ملساءَ ـ تابَعْنا في هذا كثيراً من المفسرين، ولا مانع من ذلك ـ تَرَوْنَها وتشاهِدونها بأجْمَعِكم، {لها شِرْبٌ ولكم شِرْبُ يومٍ معلومٍ}؛ أي: تشربُ ماء البئر يوماً، وأنتم تشربونَ لَبَنَها، ثم تصدُرُ عنكم اليوم الآخر، وتشربون أنتم ماء البئر، {ولا تَمَسُّوها بسوءٍ}: بعقرٍ أو غيرِه؛ {فيأخُذَكُم عذابُ يومٍ عظيم}.
[156,155] صالحu نے کہا: ﴿ هٰؔذِهٖ نَاقَةٌ ﴾ ’’یہ اونٹنی ہے‘‘ جو ٹھوس اور ملائم پتھر سے نکلی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو اور تم سب اس کا مشاہدہ کر رہے ہو۔ ﴿ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ﴾ ’’اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین روز تمھاری باری ہے۔‘‘ یعنی اس کنویں سے ایک دن اونٹنی پانی پیئے گی اور تم اس کا دودھ پیو گے اگلے روز اونٹنی پانی نہیں پیئے گی اور تم کنویں کا پانی پیو گے۔ ﴿ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ ﴾ ’’اور اس کو کوئی تکلیف پہنچانے کے لیے نہ چھونا۔‘‘ یعنی اسے ہلاک وغیرہ کرنے کی نیت سے چھونا بھی نہیں ﴿ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’ورنہ تم کو سخت دن کا عذاب آ پکڑے گا۔‘‘
#
{157 ـ 159} فخرجتْ، واستمرَّتْ عندَهم بتلك الحال، فلم يؤمنوا، واستمرُّوا على طغيانهم، {فعقروها فأصبحوا نادمينَ. فأخَذَهُم العذابُ}: وهي صيحةٌ نزلت عليهم فدمَّرتهم أجمعينَ. {إنَّ في ذلك لآيةً}: على صدق ما جاءت به رُسْلُنا وبطلانِ قول معارضيهم. {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ. وإنَّ ربَّك لهو العزيزُ الرحيم}.
[159-157] پس یہ اونٹنی ان کے سامنے برآمد ہوئی اور اسی حال میں ان کے سامنے رہی مگر وہ ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ ﴿ فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ ۰۰ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ﴾ ’’پس انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے۔ پس ان کو عذاب نے آ پکڑا۔‘‘ یہ عذاب ایک چیخ کی صورت میں نازل ہوا جس نے ان سب کو ہلاک کر کے رکھ دیا ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ اس میں ہمارے رسولوں کی دعوت کی صداقت اور ان کے مخالفین کے موقف کے بطلان کی دلیل ہے ﴿وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۰۰ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الرَّحِیْمُ﴾
آیت: 160 - 175 #
{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ (160) إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ (161) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (162) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (163) وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (164) أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ (165) وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ (166) قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَالُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ (167) قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ (168) رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ (169) فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (170) إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (171) ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ (172) وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ (173) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (174) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (175)}
جھٹلایا قوم لوط نے رسولوں کو (160) جب کہا ان سے ان کے بھائی لوط نے، کیا نہیں ڈرتے تم (اللہ سے)؟ (161) بلاشبہ میں ہوں تمھارے لیے رسول امین(162) پس ڈرو تم اللہ سےاور اطاعت کرو میری (163)اور نہیں مانگتا میں تم سے اس پر کوئی اجر، نہیں ہے میرا اجر مگر اوپر پروردگار جہانوں کے (164) کیا آتے ہو تم (جنسی تسکین کے لیے) مردوں کے پاس جہان (والوں ) میں سے؟ (165) اورچھوڑ دیتے ہو تم جنھیں پیدا کیا تمھارے لیے تمھارے رب نے تمھاری بیویوں میں سےبلکہ تم لوگ ہو حد سے گزرنے والے (166) انھوں نے کہا، البتہ اگر نہ باز آیا تو اے لوط! تو یقینا ہو جائے گا تو نکالے گئے لوگوں میں سے (167) لوط نے کہا، بلاشبہ میں ہوں تمھارے عمل کو ناپسند کرنے والوں میں سے (168) اے میرے رب! تو نجات دے مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کے انجام) سے جو وہ کرتے ہیں (169) پس نجات دی ہم نے اسے اور اس کے اہل کو سب کو (170) سوائے ایک بڑھیا کے کہ وہ تھی پیچھے رہنے والوں میں سے (171) پھر ہلاک کر دیا ہم نے دوسروں کو (172) اور بارش برسائی ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش، پس بری تھی بارش ان لوگوں کی جو ڈرائے گئے تھے (عذاب سے) (173) بلاشبہ اس میں البتہ عظیم نشانی ہے (قدرت کی) اورنہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (174) اور بلاشبہ آپ کا رب، البتہ وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا (175)
#
{160 ـ 167} قالَ لهم وقالوا كما قالَ مَنْ قَبْلَهم، تشابهتْ قلوبُهُم في الكفر، فتشابهتْ أقوالُهم، وكانوا مع شِرْكِهِم يأتون فاحشةً لم يسبِقْهم إليها أحدٌ من العالمين؛ يختارون نكاحَ الذُّكرانِ المستقذَرِ الخبيث، ويرغبون عمَّا خُلِقَ لهم من أزواجهم؛ لإسرافهم وعدوانِهِم، فلم يزل ينهاهم حتى {قالوا لَئِن لم تَنتَهِ يا لوطُ لَتَكونَنَّ من المُخْرَجينَ}؛ أي: من البلد.
[167-160] حضرت لوطu نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دی انھوں نے لوطu کو وہی جواب دیا جو ان سے پہلے لوگ اپنے رسولوں کو دیتے چلے آئے ہیں ۔ چونکہ ان کے دل کفر میں ایک دوسرے کے مشابہ تھے اس لیے ان کے اقوال بھی ایک دوسرے کے مشابہ ہوگئے۔ نیز وہ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ ایسی بدکاری کا ارتکاب بھی کرتے تھے جو ان سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کی تھی۔ وہ اپنے اسراف اور حد سے تجاوز کرنے کی بنا پر اپنی بیویوں کو چھوڑ کر جنھیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تخلیق فرمایا تھا، مردوں کے ساتھ مجامعت کے گندے اور خبیث فعل کا ارتکاب کرتے تھے۔ لوطu انھیں اس گندے کام سے روکتے رہے، یہاں تک کہ ﴿قَالُوْا ﴾ ’’انھوں نے کہا‘‘ حضرت لوطu سے ﴿ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ ﴾ ’’اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو شہر بدر کردیا جائے گا۔‘‘
#
{168 ـ 175} فلما رأى استمرارَهم عليه؛ {قال إنِّي لِعَمَلِكُم من القالينَ}؛ أي: المبغضينَ [له] الناهينَ عنه المحذِّرين، قال: {ربِّ نَجِّني وأهلي ممَّا يعملونَ}: من فعلِهِ وعقوبتِهِ، فاستجابَ اللهُ له {فنجَّيْناه وأهلَه أجمعينَ. إلاَّ عَجوزاً في الغابِرينَ}؛ أي: الباقين في العذاب، وهي امرأتُهُ. {ثم دمَّرْنا الآخرينَ. وأمْطَرْنا عليهم مَطَراً}؛ أي حجارة من سِجِّيل، {فَسَاءَ مَطَرُ المُنْذَرينَ}: أهلكهم الله عن آخرِهِم. {إنَّ في ذلك لآيةً وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ. وإنَّ ربَّك لَهو العزيزُ الرحيمُ}.
[175-168] جب لوطu نے دیکھا کہ وہ اپنی بدکاری پر جمے ہوئے ہیں تو کہنے لگے: ﴿ قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِیْ٘نَ﴾ ’’میں تمھاری اس بدکرداری پر تم پر سخت ناراض ہوں ‘‘ میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں اور اس برے کام کے انجام سے ڈراتا ہوں ۔ حضرت لوطu نے دعا کی: ﴿ رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَهْ٘لِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اے میرے رب! مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کے کاموں سے نجات دے۔‘‘ یعنی ان کے فعل بد اور اس کے عذاب سے بچا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔ ﴿ فَنَجَّیْنٰهُ وَاَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۙ ۰۰ اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ ﴾ ’’پس ہم نے ان کو اور ان کے سب گھر والوں کو نجات دی مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی۔‘‘ یعنی یہ عورت ان لوگوں میں رہ گئی جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور یہ عورت لوطu کی بیوی تھی۔ ﴿ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ ۰۰ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ﴾ ’’پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا اور ان پر بارش برسائی۔‘‘ یعنی ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے ﴿فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ ﴾ ’’پس جو بارش ان ڈرائے گئے لوگوں پر برسائی گئی، بہت بری تھی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے آخری متنفس تک کو ہلاک کر دیا۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۰۰ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ﴾ ’’بے شک اس میں ایک نشانی ہے مگر اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔ بے شک آپ کا رب بڑا زبردست ہے اور نہایت رحم والا بھی۔‘‘
آیت: 176 - 191 #
{كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ (176) إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ (177) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (178) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (179) وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ (180) أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ (181) وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ (182) وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (183) وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ (184) قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ (185) وَمَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَإِنْ نَظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (186) فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (187) قَالَ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (188) فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (189) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (190) وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ (191)}
جھٹلایا صحرا نشینوں نے رسولوں کو (176)جب کہا ان سے شعیب نے ، کیا نہیں ڈرتے تم (اللہ سے)؟ (177) بلاشبہ میں ہوں تمھارے لیے رسول امین (178) پس ڈرو تم اللہ سے اور اطاعت کرو میری (179) اور نہیں مانگتا میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجر (صلہ)، نہیں ہے میرا اجر مگر اوپر پروردگار جہانوں کے (180)پورا بھر کر دو تم ماپ اور نہ ہو تم (دوسروں کو) نقصان دینے والوں میں سے (181) اور تولو تم ساتھ ترازو سیدھی کے (182) اور نہ کم دو تم لوگوں کو ان کی چیزیں اور نہ دوڑو تم زمین میں فساد کرتے ہوئے (183) اور ڈرو تم اس (اللہ کی) ذات سے جس نے پیدا کیاتمھیں اور مخلوق پہلی کو (184) انھوں نے کہا یقینا تو سحر زدہ لوگوں میں سے ہے (185) اورنہیں ہے تو (کچھ اور) مگر بشر ہم جیسا ہی اور بلاشبہ ہم گمان کرتے ہیں تجھے البتہ جھوٹوں میں سے (186) پس گرا دے تو ہم پر ایک ٹکڑا آسمان سے اگر ہے تو سچوں میں سے (187) شعیب نے کہا، میرا رب خوب جانتا ہے اس کو جو تم کرتے ہو (188) پس انھوں نے جھٹلایا اسے تو پکڑ لیا ان کو عذاب نے سائے والے دن کے، بلاشبہ وہ تھا عذاب ایک بڑے دن کا (189) بلاشبہ اس میں البتہ (عظیم) نشانی ہے اور نہیں تھے اکثر ان کے ایمان لانے والے (190) اور بلاشبہ آپ کا رب، البتہ وہ ہے نہایت غالب، بہت رحم کرنے والا (191)
#
{176 ـ 180} أصحابُ الأيكة؛ أي: البساتين الملتفَّة الأشجار ، وهم أصحابُ مَدْيَنَ، فكذبوا نبيَّهم شُعيباً الذي جاء بما جاء به المرسلونَ. {إذْ قال لهم شعيبٌ ألا تَتَّقونَ}: الله تعالى فتترُكونَ ما يُسْخِطُه ويُغْضِبُه من الكفر والمعاصي، {إنِّي لكم رسولٌ أمينٌ}: يترتَّب على ذلك أن تتَّقوا الله، وتُطيعونِ.
[180-176] ﴿اَصْحٰؔبُ لْـَٔیْكَةِ ﴾ یعنی گنجان درختوں والے باغات میں بسنے والے، مراد اصحاب مدین ہیں انھوں نے اپنے رسول حضرت شعیبu کو جھٹلایا۔ شعیبu بھی وہی دعوت لے کر آئے تھے جو دیگر انبیاء و مرسلین لے کر آئے تھے۔ ﴿اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’جب شعیب نے انھیں کہا، تم ڈرتے کیوں نہیں ؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے کہ تم کفر اور معاصی کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں ۔ ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ﴾ ’’میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں ۔‘‘ اور اس پر یہ چیز مترتب ہوتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
#
{181 ـ 184} وكانوا مع شِرْكِهِم يَبْخَسون المكاييل والموازينَ؛ فلذلك قال لهم: {أوفوا الكَيْل}؛ أي: أتمُّوه وأكملوه، {ولا تَكونوا من المُخْسِرينَ}: الذين ينقصون الناس أموالهم ويسلبونها ببَخْسِ المكيال والميزان، {وزِنوا بالقسطاس المستقيم}؛ أي: بالميزان العادل الذي لا يميل، {واتَّقوا الذي خَلَقَكُم والجِبِلَّةَ الأولينَ}؛ أي: الخليقة الأولينَ؛ فكما انفرد بخلقِكُم وخلقِ من قَبْلَكُم من غير مشاركةٍ له في ذلك؛ فأفْرِدوه بالعبادة والتوحيد، وكما أنعم عليكم بالإيجاد والإمداد بالنعم؛ فقابلوه بشكره.
[184-181] یہ لوگ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کرتے تھے۔اس لیے شعیبu نے ان سے فرمایا: ﴿اَوْفُوا الْكَیْلَ﴾ ’’ ناپ کو پورا کرو‘‘ ﴿وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ ﴾ ’’اور کم کرکے دینے والوں میں شمولیت نہ کرو۔‘‘ یعنی جو ناپ تول میں کمی کر کے لوگوں کے مال کم کرتے ہیں ، ان کے مال ہتھیا لیتے ہیں ﴿ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ﴾ یعنی پورا تولنے والے درست ترازو کے ساتھ تولو جو کسی طرف نہ جھکے۔ ﴿ وَاتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’اور اس سے ڈرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے خلقت کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی جس نے گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا، وہ جس طرح تمھاری تخلیق میں منفرد ہے اسی طرح اس نے تم سے پہلے لوگوں کو کسی کی شراکت کے بغیر پیدا کیا۔ اس لیے اس اکیلے کو عبادت اور توحید کا مستحق جانو جس طرح اس نے تمھیں وجود عطا کیا اور تمھیں بے شمار نعمتوں سے سرفراز کیا اسی طرح تم بھی ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو۔
#
{185 ـ 187} قالوا له مكذِّبين له رادِّين لقوله: {إنَّما أنتَ من المسحَّرينَ}: فأنت تَهْذي وتتكَلَّم كلامَ المسحور الذي غايتُهُ أن لا يؤاخَذَ به، {وما أنت إلاَّ بشرٌ مثلُنا}: فليس فيك فضيلةٌ اختصصتَ بها علينا حتى تَدْعُوَنا إلى اتِّباعك. وهذا مثل قول من قبلَهم ومَنْ بعدَهم، ممَّن عارضوا الرسل بهذه الشبهة، التي لم يزالوا يُدْلون بها ويَصولون ويتَّفِقون عليها؛ لاتفاقِهِم على الكفر، وتشابُهِ قلوبِهِم، وقد أجابتْ عنها الرسلُ بقولِهِم: {إنْ نَحْنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكُم ولكن الله يمنُّ على مَن يشاءُ من عبادِهِ}. {وإن نَظُنُّكَ لَمِنَ الكاذبين}: وهذا جراءةٌ منهم وظلمٌ وقولُ زورٍ، قد انطووا على خلافِهِ؛ فإنه ما من رسول من الرسل واجَهَ قومَه ودعاهم وجادلهم وجادلوه؛ إلاَّ وقد أظهر الله على يديه من الآيات ما به يتيقَّنون صدقَه وأمانتَه، خصوصاً شعيباً عليه السلام، الذي يسمَّى خطيبَ الأنبياء؛ لحسن مراجعتِهِ قومه ومجادلَتِهِم بالتي هي أحسنُ؛ فإنَّ قومَه قد تيقَّنوا صدقَه وأنَّ ما جاء به حقٌّ، ولكنَّ إخبارَهم عن ظنِّ كذبِهِ كذبٌ منهم. {فأسْقِطْ علينا كِسَفاً من السماءِ}؛ أي: قطع عذاب تستأصلنا، {إن كنتَ من الصادقينَ}؛ كقول إخوانهم: {وإذْ قالوا اللهمَّ إن كان هذا هو الحقَّ من عندِكَ فأمطرْ علينا حجارةً من السماء أو ائْتِنا بعذابٍ أليم}، أو أنَّهم طلبوا بعضَ آيات الاقتراح التي لا يلزمُ تتميمُ مطلوبِ مَنْ سَألها.
[187-185] انھوں نے حضرت شعیب کی تکذیب کرتے اور ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا: ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْ٘مُسَحَّرِیْنَ۠﴾ ’’تم اس شخص کی مانند (کلام کرتے) ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہو‘‘ اور وہ ہذیانی کیفیت میں باتیں کر رہا ہو۔ ایسے شخص کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ اس کا مواخذہ نہ کیا جائے۔ ﴿وَمَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا﴾’’اور تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو۔‘‘ اس لیے تمھارے اندر ایسی کوئی فضیلت نہیں ہے جس کی بنا پر تمھیں ہم پر کوئی اختصاص حاصل ہو، یہاں تک کہ تم ہم سے اپنی اتباع کا مطالبہ کرنے لگو۔ اس قسم کی بات ان سے پہلے لوگوں نے بھی کی اور ان کے بعد آنے والوں نے بھی کی اور اسی شبہ کی بنا پر انھوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور ان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں ۔ وہ دلوں کی مشابہت اور کفر پر اتفاق ہونے کی وجہ سے اس شبہ پر بھی متفق ہیں ۔ رسولوں نے ان کے اس شبہ اور اعتراض کاان الفاظ میں جواب دیا: ﴿ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ﴾ (ابراہیم:14؍11) ’’ہم کچھ نہیں مگر تم ہی جیسے انسان ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔‘‘ ﴿ وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَ٘مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘ یہ ان کی جرأت، ظلم اور قول باطل تھا وہ سب حضرت شعیبu کی مخالفت پر متفق تھے۔ جو کوئی بھی رسول اپنی قوم میں مبعوث ہوا اس نے اپنی قوم کو توحید کی طرف دعوت دی اور اپنی قوم کے ساتھ مجادلہ کیا اور انھوں نے بھی اس (نبی) سے مجادلہ کیا البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر ایسی ایسی نشانیاں ظاہر کیں جن کی بنا پر انھیں اس کی صداقت اور امانت پر یقین تھا۔ خاص طور پر شعیبu، جن کو اپنی قوم کے ساتھ بہترین طریقے سے بحث و جدال کرنے کی بنا پر ’’خطیب الانبیاء‘‘ کہا جاتاہے۔ حضرت شعیبu کی قوم کو آپ کی صداقت کا یقین تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی دعوت حق ہے۔ مگر ان کا آپ کے بارے میں جھوٹ کا گمان کرتے ہوئے خبر دینا، ان کا جھوٹ تھا۔ ﴿ فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’پس تم آسمان سے ایک ٹکڑا لا کر ہم پر گراؤ۔‘‘ یعنی تو ہم پر عذاب نازل کر دے جو ہماری جڑ کاٹ دے۔ ﴿ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر تو سچا ہے۔‘‘ ان کی یہ بات ان کے بھائی، دیگر کفار کے اس قول کی مانند تھی۔ ﴿ وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ (الانفال:8؍32) ’’اور آپ اس بات کو بھی یاد کیجیے جب انھوں نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لے آ۔‘‘ یا انھوں نے بعض معجزات کا مطالبہ کیا جن کے سائل کے لیے مطلوب کو پورا کرنا لازم نہیں ۔
#
{188} {قال} شعيبٌ عليه السلام: {ربِّي أعلمُ بما تعملونَ}؛ أي: نزول العذاب ووقوعُ آياتِ الاقتراحِ لستُ أنا الذي آتي بها وأُنْزِلُها بكم، وليس عليَّ إلاَّ تبليغُكم ونُصحكم، وقد فعلتُ، وإنَّما الذي يأتي بها ربي، العالِم بأعمالكم وأحوالكم، الذي يجازيكم ويحاسبكم.
[188] ﴿ قَالَ ﴾ شعیبu نے کہا: ﴿ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’تم جو کام کرتے ہو، میرا رب اس سے خوب واقف ہے۔‘‘ یعنی میرا رب نزول عذاب اور وقوع معجزات کے بارے میں جانتا ہے۔ میں وہ ہستی نہیں جو اپنی طرف سے تمھیں یہ معجزات دکھاؤں یا تم پر کوئی عذاب نازل کروں مجھ پر اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں کہ میں تمھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دوں اور تمھاری خیرخواہی کروں ۔ سو میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا۔ معجزات کو میرا رب لے کر آتا ہے جو تمھارے اعمال و احوال سے واقف ہے جو تمھارا حساب لے گا اور تمھیں تمھارے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{189 ـ 191} {فكذَّبوه}؛ أي: صار التكذيب لهم وصفاً، والكفر لهم ديدناً، بحيث لا تفيدهم الآياتُ، وليس بهم حيلةٌ إلاَّ نزول العذاب، {فأخَذَهُم عذابُ يوم الظُّلَّة}: أظلَّتْهم سحابةٌ، فاجتمعوا تحتَها مستلذِّين لظلِّها غير الظليل، فأحرقتهم بالعذاب، فظلوا تحتها خامدين، ولديارهم مفارقين، ولدار الشقاء والعذاب نازلين، {إنَّه كان عذابَ يوم عظيم}: لا كَرَّةَ لهم إلى الدنيا فيستأنفوا العمل، ولا يُفَتَّرُ عنهم العذابُ ساعةً ولا هم يُنْظَرون. {إنَّ في ذلك لآيةً}: دالَّة على صدق شُعيب وصحَّةِ ما دعا إليه وبطلان ردِّ قومه عليه، {وما كان أكثرُهُم مؤمنينَ}: مع رؤيَتِهِم الآيات؛ لأنَّهم لا زكاءَ فيهم ولا خير لديهم؛ {وما أكثرُ الناس وَلَوْ حرصتَ بمؤمنين}. {وإنَّ ربَّكَ لهو العزيزُ}: الذي امتنعَ بقوته عن إدراك أحدٍ وقهرِ كلِّ مخلوقٍ. {الرحيم}: الذي الرحمةُ وصفُه، ومن آثارها جميعُ الخيرات في الدُّنيا والآخرةِ، من حين أوجدَ اللهُ العالَمَ إلى ما نهاية له، ومن عزَّتِهِ أن أهلَكَ أعداءَه حين كذَّبوا رسلَه، ومن رحمتِهِ أن نَجَّى أولياءَه ومَنِ اتَّبعهم من المؤمنين.
[191-189] ﴿ فَكَذَّبُوْهُ ﴾ ’’پس انھوں نے اس (شعیب u) کو جھٹلایا۔‘‘ اپنے انبیاء کی تکذیب کرنا ان کا وصف اور کفر ان کی عادت بن گئی حتی کہ نزول عذاب کے سوا معجزات نے انھیں کوئی فائدہ دیا نہ کوئی حیلہ ان کے کام آیا۔ ﴿ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ﴾ ’’پس یوم سائبان کے عذاب نے ان کو آپکڑا۔‘‘ یعنی ایک بادل ان پر سایہ کناں ہوا اور یہ لوگ اس کے سائے سے لذت حاصل کرنے کے لیے اس کے نیچے جمع ہو گئے۔ پس اس بادل نے عذاب کے ذریعے سے ان کو جلا ڈالا اور وہ اس کے نیچے بے حس و حرکت پڑے رہ گئے، وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بدبختی اور عذاب کی وادی میں جا نازل ہوئے۔ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔‘‘ یہ اب دنیا میں واپس نہیں آئیں گے کہ دوبارہ عمل کریں اور کسی گھڑی ان سے عذاب منقطع ہو گا نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً﴾ اس میں ایک نشانی ہے‘‘ جو حضرت شعیبu کی صداقت، آپ کی دعوت کے صحیح ہونے اور آپ کی قوم نے جو آپ کا رد کیا اس کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ان میں اکثر لوگ آیات و معجزات کا مشاہدہ کر لینے کے بعد بھی ایمان نہ لائے۔ کیونکہ ان میں کوئی پاکیزگی ہے نہ ان کے پاس کوئی بھلائی ہے: ﴿ وَمَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ (یوسف:12؍103) ’’خواہ آپ کتنی ہی خواہش کیوں نہ کریں مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ ﴿ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’بے شک تیرا رب غالب ہے‘‘ جو اپنی قدرت کی بنا پر کسی کے ادراک کی گرفت میں نہیں آ سکتا اور تمام مخلوقات پر غالب اور زبردست ہے۔ ﴿ الرَّحِیْمُ ﴾ وہ ذات، رحمت جس کا وصف ہے۔ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں ، یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے اس وقت سے لے کر اس کی انتہا تک، اس میں موجود تمام بھلائیاں ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ ہی ہے کہ اس نے اپنے دشمنوں کو ہلاک کر دیا جب انھوں نے اس کے انبیاء ورسل کی تکذیب کی اور یہ اس کی رحمت ہی کے آثار ہیں کہ اس نے اپنے اولیاء اور ان کے متبعین اہل ایمان کو نجات دی۔
آیت: 192 - 203 #
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195) وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ (196) أَوَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ آيَةً أَنْ يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ (197) وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ (198) فَقَرَأَهُ عَلَيْهِمْ مَا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ (199) كَذَلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ (200) لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (201) فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (202) فَيَقُولُوا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُونَ (203)}.
اور بلاشبہ وہ (قرآن) البتہ نازل کیا ہوا ہے رب العالمین کا (192) اترا ہے اس کو لے کر روح الامین (جبرائیل) (193) اوپر آپ کے دل کے تاکہ ہوں آپ ڈرانے والوں میں سے (194) زبان عربی میں جو فصیح ہے (195) اور بلاشبہ وہ (اس کا ذکر موجود) ہے البتہ پہلی کتابوں میں بھی (196) کیا نہیں ہے ان کے لیے ایک نشانی یہ کہ جانتے ہیں اس (قرآن یا رسول) کو علماء بنی اسرائیل کے؟ (197) اور اگر نازل کرتے ہم اس قرآن کو کسی پر عجمیوں میں سے (198) پس وہ پڑھتا اس ان پر، (تو بھی) نہ ہوتے وہ اس پر ایمان لانے والے (199) اسی طرح داخل کیا ہے ہم نے اس (تکذیب) کو دلوں میں مجرموں کے (200) نہیں ایمان لائیں گے وہ اس پر حتی کہ دیکھ لیں وہ عذاب نہایت درد ناک (201) پس آجائے گا وہ (عذاب) ان کے پاس اچانک ہی جبکہ وہ نہ شعور رکھتے ہوں گے (202) تو وہ کہیں گے کیا ہم مہلت دیے جائیں گے؟ (203)
#
{192} لمَّا ذَكَرَ قَصَصَ الأنبياءِ مع أممهم، وكيف دَعَوْهم وردُّوا عليهم به، وكيف أهلك اللهُ أعداءَهم وصارت لهم العاقبةُ؛ ذكر هذا الرسول الكريم والنبيَّ المصطفى العظيم وما جاء به من الكتابِ الذي فيه هدايةٌ لأولي الألباب، فقال: {وإنَّه لتنزيلُ ربِّ العالمين}: فالذي أنزله فاطرُ الأرض والسماوات، المربي جميعَ العالمِ العلويِّ والسفليِّ، وكما أنه ربَّاهم بهدايتهم لمصالح دنياهم وأبدانهم؛ فإنَّه يربِّيهم أيضاً بهدايتهم لمصالح دينهم وأخراهم، ومن أعظم ما ربَّاهم به إنزالُ هذا الكتاب الكريم، الذي اشتمل على الخير الكثير والبرِّ الغزير، وفيه من الهدايةِ لمصالح الدارينِ والأخلاق الفاضلةِ ما ليس في غيره، [و] في قوله: {إنَّه لَتنزيلُ ربِّ العالمين} من تعظيمه وشدَّة الاهتمام فيه من كونه نَزَلَ من الله لا من غيره مقصوداً فيه نفعكم وهدايتكم.
[192] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کا ان کی قوموں کے ساتھ قصہ بیان فرمایا اور انبیاء کرام نے کیسے ان کو توحید کی دعوت دی اور کیسے انھوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرایا اور پھر کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کا انجام برا ہوا … تو اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم، عظمت شان کے حامل نبی مصطفی (e)اور اس کتاب کا ذکر فرمایا جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے جس میں عقل مندوں کے لیے ہدایت ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔‘‘ پس وہ ہستی جس نے اس عظیم کتاب کو نازل فرمایا، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والی اور تمام عالم علوی اور سفلی کی مربی ہے۔ جس طرح اس نے بندوں کی ان کے جسمانی اور دنیاوی مصالح میں تربیت کی، اسی طرح اس نے ان کے دین و دنیا کے مصالح میں بھی راہنمائی فرما کر ان کی تربیت کی۔ سب سے عظیم چیز جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تربیت کی ہے وہ اس کتاب کریم قرآن مجید کا نازل فرمانا ہے جو بے انتہا بھلائی اور بے پایاں نیکی پر مشتمل ہے۔ یہ دین و دنیا کے مصالح اور اخلاق فاضلہ کو متضمن ہے جن سے دوسری کتابیں تہی دامن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ میں اس کتاب کی تعظیم اور اس کے مہتم بالشان ہونے پر دلیل ہے نیزاس امر کی دلیل ہے کہ یہ عظیم کتاب کسی اور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اس کے نازل کرنے کا مقصد تمھارا فائدہ اور تمھاری ہدایت ہے۔
#
{193 ـ 195} {نزل به الرُّوحُ الأمينُ}: وهو جبريلُ عليه السلام، الذي هو أفضل الملائكة وأقواهم، الأمين الذي قد أمِنَ أن يزيدَ فيه أو يَنْقُصَ {على قلبِكَ}: يا محمدُ {لتكونَ من المُنْذِرينَ}: تهدي به إلى طريق الرشادِ وتنذِرُ به عن طريق الغي، {بلسانٍ عربيٍّ}: وهو أفضل الألسنة، بلغة مَن بُعِثَ إليهم وباشر دعوتهم أصلاً، اللسان البيِّن الواضح. وتأمَّل كيف اجتمعت هذه الفضائِل الفاخرة في هذا الكتاب الكريم؛ فإنَّه أفضل الكتب، نزل به أفضل الملائكة، على أفضل الخلق، على أفضل بَضْعَةٍ فيه، وهي قلبُهُ على أفضل أمَّة أخرجت للناس، بأفضل الألسنةِ وأفصحِها وأوسعِها، وهو اللسانُ العربيُّ المبينُ.
[195-193] ﴿ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ﴾ ’’اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔‘‘ اس سے مراد جبریلu ہیں جو فرشتوں میں سب سے افضل اور سب سے طاقتور ہیں ﴿ الْاَمِیْنُ ﴾ ’’وہ امانت دار ہیں ‘‘ وہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے۔ ﴿ عَلٰى قَلْبِكَ﴾ ’’آپ کے دل پر۔‘‘ یعنی اے محمد (e)! جبریل اسے لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا ﴿ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو رشد و ہدایت کی راہ دکھائیں اور ان کو گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے ڈرائیں ۔ ﴿ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ﴾ ’’ صاف صاف عربی زبان میں ‘‘ اور عربی زبان سب سے افضل زبان ہے اور اسے ان لوگوں کی زبان میں نازل کیا گیا ہے جن کی طرف اسے بھیجا گیا ہے اور ان کو دعوت دینے میں یہی زبان استعمال ہوئی ہے، صاف اور واضح زبان۔ آپ غور کیجیے کہ کیسے یہ تمام فضائل فاخرہ اس عظیم کتاب میں جمع ہو گئے ہیں یہ کتاب سب سے افضل کتاب ہے، اسے سب سے افضل فرشتہ لے کر نازل ہوا، اس ہستی پر نازل ہوئی جو مخلوق میں سب سے افضل ہے اور جسم میں سب سے افضل حصے یعنی آپ کے دل پر نازل کی، سب سے افضل امت پر نازل کی گئی اور سب سے افضل، سب سے فصیح اور سب سے وسیع زبان میں نازل کی گئی اور وہ ہے واضح عربی زبان۔
#
{196} {وإنَّه لفي زُبُرِ الأوَّلين}؛ أي: قد بشرت به كتبُ الأوَّلين وصدَّقَتْه، وهو لمَّا نزل طِبْقَ ما أخبرتْ به، صدَّقها، بل جاء بالحقِّ وصدَّق المرسلينَ.
[196] ﴿ وَاِنَّهٗ لَ٘فِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’اور اس کی خبر پہلی کتابوں میں ہے۔‘‘ یعنی پہلی کتابوں میں اس کی خوشخبری دی گئی ہے اور پہلی کتابوں نے اس کی تصدیق کی ہے۔ چونکہ ان کتابوں نے اس کے بارے میں جو خبر دی تھی یہ اس کے مطابق نازل ہوئی ہے اس لیے یہ ان کی تصدیق ہے۔ بلکہ یہ کتاب حق کے ساتھ آئی ہے اور تمام رسولوں کی تصدیق کرتی ہے۔
#
{197} {أوَلَمْ يكن لهم آيةً}: على صحته وأنَّه من الله {أن يَعْلَمَهُ علماءُ بني إسرائيل}: الذين قد انتهى إليهم العلم، وصاروا أعلم الناس، وهم أهل الصنف؛ فإنَّ كلَّ شيء يحصُلُ به اشتباهٌ يُرْجَعُ فيه إلى أهل الخبرة والدِّراية، فيكون قولهم حجَّةً على غيرهم؛ كما عرف السحرة الذين مَهَروا في علم السحر صدقَ معجزة موسى، وأنَّه ليس بسحرٍ؛ فقول الجاهلين بعد هذا لا يُؤْبَهُ به.
[197] ﴿ اَوَلَمْ یَكُ٘نْ لَّهُمْ اٰیَةً ﴾ ’’کیا ان کے لیے یہ دلیل نہیں ‘‘ اس کتاب کی صحت اور اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر ﴿ اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں ‘‘ جن پر علم کی انتہا ہے اور وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور انصاف کرنے والے لوگ ہیں ۔ کیونکہ اگر کسی معاملے میں اشتباہ واقع ہو جائے تو باصلاحیت اور اہل درایت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور ان کا قول دوسروں پر حجت ہوتا ہے۔ جیسے ان جادوگروں نے، جو جادو کے علم میں ماہر تھے، موسیٰu کے معجزہ کی صداقت کو پہچان لیا۔ اس کے بعد جاہل اور لاعلم لوگوں کے قول کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
#
{198 ـ 199} {ولو نَزَّلْناه على بعضِ الأعجمينَ}: الذين لا يفقهونَ لسانَهم ولا يقدِرون على التعبير لهم كما ينبغي. {فقَرَأهُ عليهم ما كانوا به مؤمنينَ}: يقولونَ ما نَفْقَهُ ما يقولُ ولا ندري ما يدعو إليه! فَلْيَحْمَدوا ربَّهم أن جاءهم على لسانِ أفصح الخَلْقِ وأقدَرِهم على التعبيرِ على المقاصد بالعبارات الواضحةِ وأنصحهم، ولْيبادروا إلى التصديق به وتلقِّيه بالتَّسليم والقَبول.
[199,198] ﴿ وَلَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ﴾ ’’اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اتارتے۔‘‘ جو ان کی زبان کو سمجھتے ہیں نہ مناسب طریقے سے تعبیر کلام کی قدرت رکھتے ہیں ۔ ﴿ فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’تو وہ ان (قریش) کو پڑھ کر سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔‘‘ وہ کہتے کہ وہ جو کہتا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس لیے ان کواپنے رب کی حمد و ثنا کرنی چاہیے کہ یہ کتاب ایسے شخص پر نازل ہوئی ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ فصیح اللسان اور عبارات واضحہ کے ذریعے سے اس کتاب کے مقاصد کی تعبیر کرنے کی سب سے زیادہ قدرت رکھنے والا اور ان کا سب سے زیادہ خیرخواہ ہے۔ پس ان کو چاہیے کہ وہ اس کی تصدیق کرنے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اسے قبول کرنے میں جلدی کریں۔
#
{200 ـ 203} ولكنَّ تكذيبَهم له من غير شبهةٍ إنْ هو إلا محضُ الكفرِ والعنادِ وأمرٌ قد توارثَتْه الأممُ المكذبةُ؛ فلهذا قال: {كذلك سَلَكْناه في قلوب المجرمين}؛ أي: أدْخَلْنا التكذيبَ وأنظمناهُ في قلوب أهل الإجرام؛ كما يَدْخُلُ السلكُ في الإبرة، فتشرَّبَتْه، وصار وصفاً لها، وذلك بسبب ظلمهم وجرمهم؛ فلذلك {لا يؤمنونَ به حتى يَرَوا العذابَ الأليم}: على تكذيبهم، {فيأتيهم بَغْتَةً وهم لا يشعرونَ}؛ أي: يأتيهم على حين غفلةٍ وعدم إحساس منهم ولا استشعارٍ بنزوله؛ ليكون أبلغ في عقوبتهم والنَّكال بهم، {فيقولوا}: إذ ذاك: {هل نحنُ مُنْظَرونَ}؛ أي: يطلبون أن يُنْظَروا ويُمْهَلوا، والحال أنه قد فات الوقت، وحلَّ بهم العذابُ الذي لا يُرْفَع عنهم، ولا يُفَتَّرُ ساعةً.
[203-200] مگر کسی شبہ کے بغیر ان کا اس کتاب کو جھٹلانا، کفر و عناد کے سوا کچھ نہیں اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو انبیاء کی تکذیب کرنے والی امتوں میں متواتر چلا آ رہا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُ٘لُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس (تکذیب) کو اسی طرح داخل کر دیا ہے جیسے سوئی کے ناکے میں دھاگہ داخل ہوتا ہے۔ تکذیب ان کے دلوں میں رچ بس کر ان کا وصف بن گئی ہے۔ یہ ان کے ظلم اور ان کے جرائم کے سبب سے ہے۔ اس لیے ﴿ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ﴾ ’’یہ لوگ اس پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (اپنی تکذیب کی پاداش میں ) دردناک عذاب نہیں دیکھ لیتے۔‘‘ ﴿ فَیَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ﴾ یہ عذاب ان کواچانک اور ان کی غفلت کی حالت میں آ لے گا، انھیں اس کا احساس تک ہو گا نہ اس کے نازل ہونے کا شعور ہو گا تاکہ اس عذاب کے ذریعے سے ان کو پوری طرح سزا دی جائے۔ ﴿ فَیَقُوْلُوْا﴾ اس وقت یہ کہیں گے ﴿ هَلْ نَحْنُ مُنْظَ٘رُوْنَ﴾ ’’کیا ہمیں مہلت ملے گی؟‘‘ یعنی وہ درخواست کریں گے کہ ان کو مہلت اور ڈھیل دی جائے اور حال یہ ہے کہ مہلت کا وقت گزر گیا اور ان پر عذاب نازل ہو گیا جسے ان پر سے کبھی نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کبھی ایک گھڑی کے لیے منقطع ہو گا۔
آیت: 204 - 207 #
{أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ (204) أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ (205) ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ (206) مَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ (207)}.
کیا پس ہمارا عذاب وہ (لوگ) جلدی طلب کرتے ہیں ؟ (204) کیا پس دیکھا آپ نے اگر فائدہ دیں ہم ان کو کئی سال (205) پھر آجائے ان کے پاس وہ (عذاب) جس کا تھے وہ وعدہ دیے جاتے (206) تو نہیں کفایت کریں گی ان سے وہ چیزیں جن سے تھے وہ فائدہ پہنچائے جاتے (207)
#
{204} يقول تعالى: {أفبِعذابِنا}: الذي هو العذاب الأليم العظيم الذي لا يُستهانُ به ولا يُحْتَقَرُ {يستعجلونَ}؟! فما الذي غرَّهم؟! هل فيهم قوَّةٌ وطاقةٌ للصبر عليه؟! أم عندهم قوةٌ يقدرونَ على دفعه أو رفعِهِ إذا نزل؟! أم يُعْجِزوننا ويظنُّون أنَّنا لا نقدر على ذلك؟!
[204] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَفَبِعَذَابِنَا۠ ﴾ ’’کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے۔‘‘ جو بہت بڑا اور دردناک عذاب ہے جسے ہیچ سمجھا جا سکتا ہے نہ حقیر جانا جا سکتا ہے ﴿ یَسْتَعْجِلُوْنَ۠ ﴾ ’’جلدی مچاتے ہیں ؟‘‘ کس چیز نے ان کو فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ کیا اس عذاب کو برداشت کرنے کی ان میں قوت اور طاقت ہے؟ جب یہ عذاب نازل ہو جائے گا تو کیا یہ اس کو دور کرنے یا اس کو اٹھا لینے کی قوت رکھتے ہیں … یا یہ ہمیں عاجز سمجھتے ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ ہم عذاب نازل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے؟
#
{205 ـ 207} {أفرأيتَ إن مَتَّعْناهم سنينَ}؛ أي: أفرأيت إذا لم نستعجِلْ عليهم بإنزال العذاب وأمْهَلْناهم عدَّةَ سنين يتمتَّعون في الدُّنيا، {ثم جاءَهُمْ ما كانوا يوعَدونَ}: من العذاب، {ما أغنى عنهم ما كانوا يُمَتَّعونَ}: من اللذَّاتِ والشَّهواتِ؛ أي: أيُّ شيءٍ تغني عنهم وتفيدُهم، وقد مضت وبطلتْ واضمحلَّتْ، وأعقبتْ تَبَعاتها، وضوعفَ لهم العذاب عند طول المدَّةِ. القصدُ أنَّ الحذر من وقوع العذاب واستحقاقهم له، وأما تعجيله [أو] تأخيره؛ فلا أهميَّةَ تحتَه، ولا جدوى عنده.
[207-205] ﴿ اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَ﴾ ’’بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو برسوں فائدے دیتے رہیں ۔‘‘ یعنی کیا آپ نے کچھ غورکیا کہ اگر ہم ان پر جلدی عذاب نازل نہ کریں اور ان کو چند سالوں کے لیے مہلت دے دیں اور یہ دنیا سے فائدہ اٹھائیں ﴿ ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’پھر ان پر وہ واقع ہوجائے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘ یعنی عذاب کا۔ ﴿ مَاۤ اَغْنٰؔى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ﴾ ’’جن (لذات و شہوات) سے وہ متمتع ہوتے تھے، وہ ان کے کسی کام نہ آئیں گی۔‘‘ یعنی کون سی چیز ان کے کام آ سکتی اور انھیں کوئی فائدہ دے سکتی ہے؟ دراں حالیکہ لذتیں باطل اور مضمحل ہو کر ختم ہو گئیں اور اپنے پیچھے برے اثرات چھوڑ گئیں اور انھیں طویل مدت تک کئی گنا عذاب دیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ وہ وقوع عذاب اور اس کے مستحق ہونے سے بچیں اور رہا عذاب کا جلدی نازل ہونا یا اس کے نزول میں تاخیر ہونا تو اس کے تحت کوئی اہمیت ہے نہ اس کے نزدیک اس کا کوئی فائدہ۔
آیت: 208 - 212 #
{وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنْذِرُونَ (208) ذِكْرَى وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ (209) وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ (210) وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ (211) إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ (212)}.
اور نہیں ہلاک کی ہم نے کوئی بستی مگر اس کے لیے تھے ڈرانے والے (208) یاد دہانی کے لیےاورنہیں ہیں ہم ظلم کرنے والے (209) اور نہیں لے کر اترے اس (قرآن) کو شیاطین (210)اور نہیں لائق ان کے لیے اور نہ وہ (اس کی) استطاعت ہی رکھتے ہیں (211) بلاشبہ وہ تو اس کے سننے سے بھی البتہ دوررکھے گئے ہیں (212)
#
{208 ـ 209} يُخبرُ تعالى عن كمالِ عدلِهِ في إهلاك المكذِّبين، وأنَّه ما أوقع بقريةٍ هلاكاً وعذاباً إلاَّ بعد أن يُعْذِرَ منهم، ويبعثَ فيهم النُّذُرَ بالآيات البيناتِ، فيدعونهم إلى الهدى، وينْهونهم عن الردى، ويذكِّرونَهم بآيات الله، وينبِّهونَهم على أيَّامِهِ في نعمه ونقمه. {ذكرى}: لهم وإقامة حُجَّة عليهم، {وما كنَّا ظالمين}: فنهلكَ القرى قبل أن نُنْذِرَهم ونأخُذَهم وهم غافلون عن النُّذُر؛ كما قال تعالى: {وما كُنَّا معذِّبينَ حتى نبعثَ رسولاً}، {رسلاً مبشِّرينَ ومنذِرينَ لئلاَّ يكونَ للناس على اللهِ حُجَّةٌ بعد الرسل}.
[209,208] اللہ تبارک و تعالیٰ، اہل تکذیب کو ہلاک کرنے کے بارے میں اپنے عدل کامل کے متعلق آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کسی بستی پر اس وقت تک عذاب اور ہلاکت نازل نہیں کرتا جب تک ان کا عذر ختم نہ ہوجائے اور ان پر حجت قائم نہ ہوجائے۔ وہ ان کے اندر، ان کو برے انجام سے ڈرانے والے مبعوث کرتا ہے جو انھیں واضح آیات کے ذریعے سے ڈراتے ہیں ، انھیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں ، انھیں ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے روکتے ہیں ، وہ انھیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی ناراضی کے بارے میں اس کی عادت سے متنبہ کرتے ہیں ۔ ﴿ذِكْرٰى ﴾ ’’نصیحت‘‘ یعنی یہ اتمام حجت ان کے لیے یاددہانی اور ان کے خلاف حجت قائم کرنا ہے ﴿ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ۔‘‘ کہ ہم بستیوں کو ان کے انجام سے ڈرائے بغیر ہلاک کر دیں ، ان کو پکڑ لیں اور ان کی حالت یہ ہو کہ انھیں ڈرانے والوں کے بارے میں کچھ خبر نہ ہو۔ ﴿ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ﴾ (بنی اسرائیل:17؍15) ’’اور ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کہ حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے ایک رسول نہ بھیج دیں ۔‘‘ ﴿ رُسُلًا مُّبَشِّ٘رِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾ (النساء:4؍165) ’’تمام رسولوں کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ہے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت باقی نہ رہے۔‘‘
#
{210 ـ 212} ولما بيَّنَ تعالى كمالَ القرآنِ وجلالَتِهِ؛ نَرَّهه عن كلِّ صفةِ نقصٍ، وحماه وقتَ نزولِهِ وبعد نزولِهِ من شياطين الجنِّ والإنس، فقال: {وما تَنَزَّلَتْ به الشياطينُ وما ينبغي لهم}؛ أي: لا يَليق بحالهم ولا يناسبهم، {وما يستطيعونَ}: ذلك {إنَّهم عن السَّمْع لَمَعْزولونَ}: قد أبعدوا عنه، وأُعِدَّتْ لهم الرُجوم لحفظِهِ، ونزل به جبريلُ أقوى الملائكة، الذي لا يقدر شيطانٌ أن يَقْرَبَه أو يَحومَ حولَ ساحتِهِ، وهذا كقوله: {إنَّا نحنُ نَزَّلْنا الذِّكْرَ وإنَّا له لَحافظونَ}.
[212-210] اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن عظیم کا کمال اور اس کی جلالت بیان کرتے ہوئے اسے ہر صفت نقص سے منزہ قرار دیا نیز واضح کر دیا کہ وہ قرآن کے نازل ہونے کے وقت اور اس کے بعد شیاطین جن و انس سے اس کی حفاظت کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لَهُمْ ﴾ ’’اور اس (قرآن) کو شیاطین لے کر نازل ہوئے ہیں نہ یہ ان کے لائق ہی ہے۔‘‘ یعنی یہ چیز ان کے حال کے لائق ہے نہ ان سے کوئی مناسبت رکھتی ہے ﴿ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠﴾ ’’اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۔‘‘ ﴿اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَ٘مَعْزُوْلُوْنَ۠﴾ ’’وہ (آسمانی باتوں کے) سننے سے الگ کر دیے گئے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اس سے دور کر دیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کی خاطر شیاطین کے لیے شہاب ثاقب تیار كيے گئے ہیں ۔ اس قرآن کو جبریل لے کر نازل ہوتا ہے جو سب سے طاقتور فرشتہ ہے شیطان اس کے قریب پھٹک سکتا ہے نہ اس کے اردگرد منڈلا سکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰؔفِظُوْنَؔ ﴾ (الحجر:15؍9) ’’ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘
آیت: 213 - 216 #
{فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ (213) وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (214) وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (215) فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ (216)}
پس نہ پکاریں آپ ساتھ اللہ کے معبود کو اور، پس ہو جائیں گے آپ (بھی) ان لوگوں میں سے جو عذاب دیے گئے (213) اور ڈرائیں آپ اپنے قبیلے سے قریبی لوگوں کو (214) اور جھکا دیجیے اپنا بازو واسطے ان لوگوں کے، جنھوں نے پیروی کی آپ کی مومنوں میں سے (215) پس اگر وہ نافرمانی کریں آپ کی تو کہہ دیجیے، بلاشبہ میں بری ہوں اس سے جو تم عمل کرتے ہو (216)
#
{213} ينهى تعالى رسولَه أصلاً وأمَّته أسوةً له في ذلك عن دعاءِ غيرِ الله من جميع المخلوقين، وأنَّ ذلك موجبٌ للعذاب الدائم والعقاب السرمديِّ؛ لكونِهِ شركاً، ومن يشرِكْ بالله؛ فقد حرَّمَ الله عليه الجنَّةَ، ومأواه النار، والنهي عن الشيء أمرٌ بضدِّه؛ فالنهيُ عن الشرك أمرٌ بإخلاص العبادة لله وحدَه لا شريكَ له؛ محبَّة وخوفاً ورجاءً وذلًّا وإنابةً إليه في جميع الأوقات.
[213] اللہ تعالیٰ اپنے رسول (e)کو اصلاً اور آپ کی امت کو تبعاً غیر اللہ یعنی تمام مخلوق کو پکارنے سے روکتا ہے، اس لیے کہ غیر اللہ کو پکارنا عذاب دائمی اور عقوبت سرمدی کا موجب ہے کیونکہ یہ شرک ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿ مَنْ یُّ٘شْ٘رِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ﴾ (المائدۃ:5؍72) ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔‘‘ کسی کام سے روکنا دراصل اس کے مخالف کام کے کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ اس لیے شرک سے روکنا درحقیقت عبادت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، اسی کے لیے محبت، اسی سے خوف، اسی سے امید صرف، اسی کے سامنے اظہار تذلل اور ہر وقت صرف اسی کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے۔
#
{214} ولمَّا أمره بما فيه كمالُ نفسه؛ أمَرَه بتكميل غيره، فقال: {وأنذِرْ عشيرتَكَ الأقربينَ}: الذين هم أقربُ الناس إليك، وأحقُّهم بإحسانك الدينيِّ والدنيويِّ، وهذا لا ينافي أمره بإنذار جميع الناس؛ كما إذا أُمِرَ الإنسان بعموم الإحسان، ثم قيل له: أحسن إلى قرابتِكَ؛ فيكون هذا الخصوص دالًّا على التأكيد وزيادة الحثِّ. فامتثلَ - صلى الله عليه وسلم - هذا الأمرَ الإلهيَّ، فدعا سائرَ بطون قريش، فعمَّم وخصَّص، وذكَّرهم ووعظهم، ولم يُبْقِ - صلى الله عليه وسلم - من مقدوره شيئاً من نصحهم وهدايتهم إلاَّ فعلَه، فاهتدى من اهتدى، وأعرض من أعرض.
[214] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول (e)کو ان امور کا حکم دیا جن سے آپ کے نفس کو کمال حاصل ہوتا ہے تو پھر آپ کو دوسروں کی تکمیل کے بارے میں حکم فرمایا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْ٘رَبِیْنَ ﴾ ’’اور اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرائیں ۔‘‘ یعنی جو آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور دینی اور دنیاوی احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ یہ چیز تمام لوگوں کو ڈرانے کے حکم کے منافی نہیں ہے۔ جیسے، جب انسان کو عمومی احسان کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے: (أحسن الیٰ قرابتک) ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ تب یہ خاص حکم تاکید اور حق کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبی اکرمe نے اس حکم الٰہی کی تعمیل کی، چنانچہ آپ نے قریش کے تمام گھرانوں کو عمومی اور خصوصی دعوت دی ان کو وعظ و نصیحت کی۔ آپ نے اپنے رشتہ داروں کی خیر خواہی اور ہدایت کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جسے ہدایت عطا ہونی تھی اس نے ہدایت حاصل کر لی، جس نے روگردانی کرنی تھی اس نے روگردانی کی۔
#
{215} {واخْفِضْ جناحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ من المؤمنينَ}: بلين جانبك، ولطفِ خطابِك لهم وتودُّدك وتحبُّبك إليهم وحُسنِ خُلُقِك والإحسان التامِّ بهم، وقد فعل - صلى الله عليه وسلم - ذلك؛ كما قال تعالى: {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم ولو كنتَ فَظًّا غليظَ القلب لانْفَضُّوا من حولِكَ فاعفُ عنهم واستَغْفِرْ لهم وشاوِرْهم في الأمر}؛ فهذه أخلاقُه - صلى الله عليه وسلم - أكملُ الأخلاق التي يحصُلُ بها من المصالح العظيمة ودفع المضارِّ ما هو مشاهدٌ؛ فهل يَليقُ بمؤمن بالله ورسوله يدَّعي اتِّباعَه والاقتداء به أن يكون كَلًّا على المسلمين، شرسَ الأخلاقِ، شديدَ الشَّكيمةِ [عليهم]، غليظَ القلبِ، فظَّ القول فظيعَه، وإنْ رأى منهم معصيةً أو سوءَ أدبٍ؛ هَجَرَهُم ومَقَتَهم وأبْغَضَهم، لا لينَ عنده، ولا أدبَ لديه، ولا توفيقَ؛ قد حصل من هذه المعاملة من المفاسِدِ وتعطيل المصالح ما حَصَلَ، ومع ذلك تَجِدُهُ محتقراً لِمَنِ اتَّصفَ بصفات الرسول الكريم، وقد رماه بالنِّفاق والمداهنةِ، وذكر نفسَه ورفَعَها وأُعْجِبَ بعمله؟! فهل يعدُّ هذا إلاَّ من جهله وتزيين الشيطان وخدعه له؟!
[215] ﴿ وَاخْ٘فِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اہل ایمان جو آپ کے متبعین ہیں ان کے ساتھ نرم برتاؤ کیجیے‘‘ ان کے ساتھ نہایت نرمی سے بات کیجیے ان کے ساتھ محبت و مودت، حسن اخلاق اور احسان کامل سے پیش آئیے۔ رسول اللہ e نے اس ارشاد کی تعمیل کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ ان لوگوں کے لیے بڑے نرم واقع ہوئے ہیں اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے آس پاس سے چھٹ جاتے پس آپ ان کو معاف کر دیجیے، ان کے لیے مغفرت مانگیے اور اجتماعی امور میں ان سے مشاورت کر لیا کیجیے۔‘‘ رسول مصطفی e کے یہ اخلاق، کامل ترین اخلاق تھے جن کے ذریعے سے عظیم مصالح حاصل ہوتے ہیں اور بہت سے مضر امور دور ہوتے ہیں ۔ جن کا ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے … تب کیا اس شخص کے لائق ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی اتباع اور اقتدا کا دعوی کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں پر بوجھ بنے ، بداخلاق، سخت طبیعت، سخت دل، بدخو اور بدکلام ہو؟ اور اگر وہ ان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سوء ادب دیکھے تو ان سے ناراض ہو جائے اور ان کو چھوڑ دے تب وہ ان سے نرم برتاؤ کرے نہ اس کے ہاں ان کے لیے کوئی ادب اور کوئی توفیق ہو۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں بہت سے مفاسد حاصل اور بہت سے مصالح معطل ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ اسے پائیں گے کہ وہ اس شخص کی تحقیر کرتا ہے جو رسول اللہ e کی صفات کو اختیار کرتا ہے، وہ اس کے حسن اخلاق کو نفاق اور مداہنت کا نام دیتا ہے، اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھتا ہے اور اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے۔ یہ طرز عمل اس کی جہالت، شیطان کی تزیین اور اس کا فریب شمار ہو گا۔
#
{216} ولهذا قال الله لرسوله: {فإنْ عَصَوْكَ}: في أمر من الأمور؛ فلا تتبرَّأْ منهم، ولا تتركْ معاملتهم بخفض الجناح ولين الجانب، بل تبرَّأْ من عملهم؛ فعِظْهُم عليه، وانصَحْهم، وابذُلْ قدرتَكَ في ردِّهم عنه وتوبَتِهِم منه. وهذا الدفع احتراز وَهْم من يتوهَّم أنَّ قوله: {واخْفِضْ جناحك للمؤمنين}: يقتضي الرضاء بجميع ما يصدُرُ منهم ما داموا مؤمنينَ، فدفع هذا بهذا. والله أعلم.
[216] اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe سے فرمایا: ﴿ فَاِنْ عَصَوْكَ ﴾ اگر یہ کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی کریں تو آپ ان سے بیزار ہوں نہ ان سے معاملات کو ترک کریں ان کے ساتھ نرم برتاؤ کریں اور نرمی سے پیش آئیں ، البتہ آپ ان کے برے عمل سے براء ت کا اظہار کریں ، ان کو نصیحت کریں اور ان کے ساتھ خیرخواہی سے پیش آئیں ۔ ان کو اس برے عمل سے روکنے اور اس سے توبہ کروانے کے لیے مقدور بھر کوشش کریں ۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے وہم کو رد کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَاخْ٘فِضْ جَنَاحَكَ﴾ اہل ایمان سے صادر ہونے والے ہر فعل پر، جب تک وہ مومن ہیں ، رضا کا تقاضا کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
آیت: 217 - 220 #
{وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (217) الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ (218) وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (219) إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (220)}.
اور توکل کیجیے اس پر جو غالب نہایت رحم کرنے والا ہے (217) وہ جو دیکھتا ہے آپ کو جب آپ کھڑے ہوتے ہیں (نماز کے لیے) (218) اور آپ کے ، پھرنے (اٹھنے بیٹھنے) کو سجدہ کرنے والوں میں (219) بلاشبہ وہ (اللہ) ہے خوب سننے والا، خوب جاننے والا (220)
#
{217} أعظم مساعدٍ للعبد على القيام بما أُمِرَ به الاعتمادُ على ربِّه والاستعانةُ بمولاه على توفيقِهِ للقيام بالمأمور؛ فلذلك أمر الله تعالى بالتوكُّل عليه، فقال: {وتوكَّلْ على العزيز الرحيم}: والتوكُّل هو اعتمادُ القلب على الله تعالى في جلب المنافع ودفع المضارِّ، مع ثقتِهِ به وحسنِ ظنِّه بحصولِ مطلوبِهِ؛ فإنَّه عزيزٌ رحيم؛ بعزَّته يقدرُ على إيصال الخير ودفع الشرِّ عن عبده، وبرحمتِهِ به يفعلُ ذلك.
[217] جن امور کو قائم کرنے کا حکم بندۂ مومن کو دیا گیا ہے، ان کے قیام میں سب سے بڑی مددگار چیز اپنے رب پر بھروسہ اور ان امور کو قائم کرنے کی توفیق کے لیے اپنے مولائے کریم سے اعانت کا سوال ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے توکل کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْ٘عَزِیْزِ الرَّحِیْمِ﴾ ’’اور غالب، مہربان پر توکل کرو۔‘‘ توکل سے مراد دل کا جلب منفعت اور دفع مضرت کے لیے، اپنے مطلوب کے حصول پر وثوق اور حسن ظن کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے کیونکہ وہ غالب اور مہربان ہے۔ وہ اپنی قوت اور غلبے کی بنا پر اپنے بندے کو بھلائی عطا کرنے اور اس سے شر کو دور کرنے پر قادر ہے اور وہ اپنی رحمت سے اس فعل کو سرانجام دیتا ہے۔
#
{218 ـ 220} ثم نبَّهه على الاستعانة باستحضارِ قُرْبِ الله والنُّزول في منزل الإحسان، فقال: {الذي يراك حين تقومُ. وتَقَلُّبَكَ في الساجدين}؛ أي: يراك في هذه العبادة العظيمة، التي هي الصلاة؛ وقت قيامِكَ وتقلُّبِكَ راكعاً وساجداً؛ خصَّها بالذِّكْرِ لفضلها وشرفها، ولأنَّ من استحضر فيها قربَ ربِّه؛ خَشَعَ وذلَّ وأكملها، وبتكميلها يَكْمُلُ سائرُ عملِهِ، ويستعينُ بها على جميع أموره. {إنَّه هو السميعُ}: لسائر الأصوات على اختلافها وتشتُّتها وتنوُّعها. {العليمُ}: الذي أحاط بالظواهرِ والبواطنِ والغيبِ والشهادةِ. فاستحضارُ العبد رؤيةَ الله له في جميع أحواله، وسمعَه لكلِّ ما ينطِقُ به، وعلمَه بما ينطوي عليه قلبُه من الهمِّ والعزم والنيَّاتِ؛ مما يعينُه على منزلة الإحسان.
[220-218] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اعانت، اس کے قرب کے استحضار اور مقام احسان پر فائز ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ۰۰ وَتَقَلُّبَكَ فِی السّٰؔجِدِیْنَ ﴾ وہ آپ کو، اس عظیم عبادت میں ، جو نماز ہے، جب آپ قیام اور رکوع و سجود میں مصروف ہوتے ہیں ، دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نماز کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ نماز فضل و شرف کی حامل ہے نیز جو کوئی استحضار کے ساتھ نماز پڑھتا ہے وہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے اور اسے خشوع و تذلل حاصل ہوتا ہے اور وہ اس کی تکمیل کرتا ہے۔ نماز کی تکمیل ہی سے تمام اعمال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز ہی کے ذریعے سے دیگر تمام امور پر اللہ تعالیٰ سے اعانت طلب کی جاتی ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ ﴾ یعنی وہ تمام آوازوں کو، ان کے اختلاف، تشتت اور تنوع کے باوجود سنتا ہے۔ ﴿ الْعَلِیْمُ ﴾ یعنی اس کے علم نے تمام ظاہر و باطن اور غائب و موجود کا احاطہ کر رکھا ہے۔ پس بندۂ مومن کا یہ استحضار اور شہود کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے تمام احوال میں دیکھ رہا ہے، وہ جو کچھ بولتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سن رہا ہے، وہ اس کے دل کے عزائم، ارادوں اور نیتوں کو خوب جانتا ہے، منزل احسان تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
آیت: 221 - 227 #
{هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ (221) تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (222) يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ (223) وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (224) أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ (225) وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ (226) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (227)}.
کیا خبر دوں میں تمھیں کس پر نازل ہوتے ہیں شیطان؟ (221) نازل ہوتے ہیں وہ اوپر ہرجھوٹ گھڑنے والے، گناہ گار کے (222) وہ لگاتے ہیں کان(اپنے شیطانوں کی طرف) اوراکثر ان کے جھوٹے ہیں (223) اور شاعر، پیروی کرتے ہیں ان کی گمراہ لوگ (224)کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بلاشبہ وہ (خیال کی) ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں ؟ (225) اور بلاشبہ وہ کہتے ہیں وہ بات جو وہ نہیں کرتے (226) مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک اور یاد کیا انھوں نے اللہ کو بہت اور بدلہ لیا انھوں نے بعد اس کے کہ وہ ظلم کیے گئے تھےاور عنقریب جان لیں گے وہ جنھوں نے ظلم کیا کہ کون سی لوٹنے کی جگہ وہ لوٹیں گے؟ (227)
#
{221 ـ 223} فقال: {هل أنبِّئُكم}؛ أي: أخبركم الخبر الحقيقيَّ الذي لا شكَّ فيه ولا شبهةَ عن مَنْ تَنَزَّلُ الشياطين عليه؛ أي: بصفة الأشخاص الذين تَنَزَّلُ عليهم الشياطين. {تَنَزَّلُ على كُلِّ أفاكٍ}؛ أي: كذابٍ كثير القول للزُّورِ والإفك بالباطل، {أثيم}: في فعلِهِ كثير المعاصي. هذا الذي تَنْزِلُ عليه الشياطين وتناسبُ حالُه حالَهم. {يُلقونَ}: عليه {السمعَ}: الذي يَسْتَرِقونه من السماء، {وأكثَرُهُم كاذبونَ}؛ أي: أكثر ما يُلقون إليه كذباً، فَيَصْدُقُ واحدةً ويَكْذِبُ معها مائةً، فيختلط الحقُّ بالباطل، ويضمحلُّ الحقُّ بسبب قلتِهِ وعدم علمِهِ. فهذه صفة الأشخاص الذين تَنَزِّلُ عليهم الشياطين، وهذه صفةُ وحيِهِم له. وأمَّا محمدٌ - صلى الله عليه وسلم -؛ فحالُه مباينةٌ لهذه الأحوال أعظمَ مباينةٍ؛ لأنه الصادق الأمين البارُّ الراشدُ، الذي جمع بين برِّ القلب وصدق اللهجة ونزاهة الأفعال من المحرَّم، والوحيُ الذي ينزِلُ عليه من عند الله ينزِلُ محروساً محفوظاً مشتملاً على الصدق العظيم الذي لا شكَّ فيه ولا ريبَ؛ فهل يستوي يا أهلَ العقول هذا وأولئك؟! وهل يشتبهانِ إلاَّ على مجنونٍ لا يميِّزُ ولا يفرِّقُ بين الأشياء؟!
[223-221] یہ اہل تکذیب میں سے ان لوگوں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ محمد (e)پر شیطان نازل ہوتا ہے نیز ان لوگوں کی بات کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد (e)شاعر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ ﴾ ’’کیا تمھیں (حقیقی خبر سے) آگاہ نہ کروں ؟‘‘ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں ، یعنی میں تمھیں ان لوگوں کی صفات سے آگاہ کرتا ہوں جن پر شیاطین نازل ہوا کرتے ہیں ۔ ﴿تَنَزَّلُ عَلٰى كُ٘لِّ اَفَّاكٍ﴾ ’’ہر کذاب، (قول باطل کے قائل اور افترا پرداز) پر شیاطین نازل ہوتے ہیں ۔‘‘ ﴿ اَثِیْمٍ ﴾ یعنی گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اور بہت نافرمان … اس قسم کے لوگوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور شیاطین انھی لوگوں کے احوال سے مناسبت رکھتے ہیں ۔ ﴿ یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ ﴾ ’’جو سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں ۔‘‘ یعنی آسمان سے سن گن لے کر چرائی ہوئی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ﴿ وَاَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ﴾ ’’اور وہ اکثر جھوٹے ہیں ۔‘‘ یعنی جو باتیں ، ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ان میں سے اکثر باتیں جھوٹی ہیں ۔ اگر ایک بات سچی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک سو جھوٹی باتیں شامل کر دیتے ہیں ۔ تب حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہو جاتا ہے اور حق اپنی قلت اور عدم علم کی بنا پر کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے اوصاف ہیں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور یہ شیطانی الہام کا وصف ہے… رہے رسول مصطفی محمدe تو آپ کا حال ان احوال سے بہت زیادہ مختلف ہے کیونکہ آپ صادق، امین، نیکوکار، رشدوہدایت پر کاربند ہیں ۔ آپ طہارت قلب، صدق مقال، محرمات سے پاک افعال کے جامع ہیں ۔ آپ کی طرف جو اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے، نزول کے وقت اس کی حفاظت کی جاتی ہے یہ وحی صدق عظیم پر مشتمل ہوتی ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا۔ اے عقل مند لوگو! کیا رسول اللہ e کا رشدوہدایت پر مبنی طریقہ اور شیاطین کی افترا پردازی برابر ہو سکتے ہیں ؟ یہ دونوں متضاد اوصاف صرف اسی شخص پر مشتبہ ہو سکتے ہیں جو پاگل ہو اور چیزوں کے درمیان فرق اور امتیاز کرنے سے عاری ہو۔
#
{224 ـ 226} فلما نزَّهه عن نزول الشياطين عليه؛ برَّأه أيضاً من الشعر، فقال: {والشعراءُ}؛ أي: هل أنبئكم أيضاً عن حالة الشعراء ووصفِهِم الثابتُ؛ فإنَّهم {يَتَّبِعُهُمُ الغاوونَ}: عن طريق الهدى، المقبِلون على طريق الغَيِّ والرَّدى؛ فهم في أنفسهم غاوونَ، وتجدُ أتباعَهم كلَّ غاوٍ ضالٍّ فاسدٍ. {ألم تر}: غوايَتَهم وشدَّةَ ضلالهم، {أنَّهم في كلِّ وادٍ}: من أودية الشعر {يَهيمون}: فتارةً في مدح، وتارةً في قدح، وتارةً في صدق، وتارةً في كذب، وتارةً يتغزَّلون، وأخرى يَسْخَرون، ومرَّة يمرحون، وآونةً يحزنون؛ فلا يستقرُّ لهم قرارٌ، ولا يثبُتونَ على حالٍ من الأحوال. {وأنَّهم يقولون ما لا يفعلون}؛ أي: هذا وصف الشعراء: أنَّهم تخالفُ أقوالُهم أفعالَهم؛ فإذا سمعتَ الشاعر يتغزَّل بالغزل الرقيق؛ قلتَ: هذا أشدُّ الناس غراماً، وقلبُهُ فارغٌ من ذاك، وإذا سمعتَه يمدحُ أو يذمُّ؛ قلت: هذا صِدْقٌ! وهو كذبٌ. وتارةً يتمدَّح بأفعال لم يَفْعَلْها، وتروكٍ لم يَتْرُكْها، وكرم لم يَحُمْ حول ساحتِهِ، وشجاعةٍ يعلو بها على الفرسان، وتراه أجبنَ من كلِّ جبان. هذا وصفُهم؛ فانْظُرْ هل يطابقُ حالةَ الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - الراشدِ البارِّ، الذي يَتَّبِعُهُ كلُّ راشد ومهتدٍ، الذي قد استقام على الهدى وجانَبَ الرَّدى ولم تتناقَضْ أفعاله، [ولَمْ تُخَالِفْ أَقْوَالَه أَفْعَالُه] ؛ الذي لا يأمُرُ إلاَّ بالخير، ولا ينهى إلاَّ عن الشرِّ، ولا أخبر بشيء إلاَّ صدق، ولا أمر بشيءٍ إلاَّ كان أول الفاعلين له، ولا نهى عن شيءٍ إلاَّ كان أول التاركين له؛ فهل تناسب حالُهُ حالةَ الشعراء أو يقارِبُهم؟ أم هو مخالفٌ لهم من جميع الوجوه؟ فصلواتُ الله وسلامه على هذا الرسول الأكمل، والهمام الأفضل، أبدَ الآبدين، ودهرَ الدَّاهرين، الذي ليس بشاعرٍ ولا ساحرٍ ولا مجنونٍ، ولا يَليقُ به إلاَّ كلُّ كمال.
[226-224] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت e کو ان نزول شیاطین سے منزہ قرار دیا تو آپ کو شعر سے بھی مبرا قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَالشُّ٘عَرَآءُ ﴾ یعنی کیا میں تمھیں شعراء کے احوال اور ان کے اوصاف ثابتہ کے بارے میں بھی آگاہ نہ کروں ؟ ﴿ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ﴾ ’’ان کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے‘‘ راہ ہدایت سے اور گمراہی اور ہلاکت کے راستے پر گامزن ہیں ۔ پس شعراء خود گمراہ ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ نظریاتی طورپر بھٹکا ہوا گمراہ اور مفسد شخص ان کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہے۔ ﴿ اَلَمْ تَرَ ﴾ کیا آپ نے ان کی گمراہ اور شدت ضلالت کو نہیں دیکھا ﴿ اَنَّهُمْ فِیْ كُ٘لِّ وَادٍ ﴾ ’’کہ بے شک وہ (شاعری کی) ہر وادی میں ‘‘ ﴿ یَّهِیْمُوْنَ﴾ ’’آوارہ و سرگشتہ پھرتے ہیں ۔‘‘ کبھی مدح میں اشعار کہتے ہیں کبھی مذمت میں ، کبھی صدق کے بارے میں اور کبھی کذب کے بارے میں ، کبھی غزل کہتے ہیں اور کبھی تمسخر اڑاتے ہیں ، کبھی تکبر کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی حزن و غم کا۔ ان کو کہیں قرار ملتا ہے نہ کسی حال میں ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ﴿ وَاَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ ﴾ ’’اور بے شک وہ ایسی بات کہتے وہ ہیں ، جو وہ بذات خود نہیں کرتے۔‘‘ یہ شعراء کا وصف ہے کہ ان کے قول و فعل میں سخت تضاد ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی شاعر کو رقت انگیز غزل کہتے ہوئے سنیں گے تو آپ کہہ اٹھیں گے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ عشق کا مارا ہوا شخص ہے حالانکہ اس کا دل عشق سے خالی ہو گا۔ اگر آپ اس کو کسی کی مدح یا مذمت کرتے ہوئے سنیں توکہیں گے کہ یہ سچ ہے حالانکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ بعض افعال پر اپنی ستائش آپ کرتا ہے حالانکہ وہ ان افعال کے قریب سے نہیں گزرا ہوتا، وہ افعال کے ترک کرنے پر اپنی تعریف کرتا ہے حالانکہ اس نے اس فعل کو کبھی ترک نہیں کیا ہوتا، وہ اپنی سخاوت کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے حالانکہ اس کا اس کوچے سے کبھی گزر ہی نہیں ہوا ہوتا۔ وہ اپنی شجاعت کے تذکرے کرتا ہے جس کی بنا پر اس نے بڑے بڑے شہسواروں کو زیر کر لیا ہوتا ہے حالانکہ آپ اسے دیکھیں گے کہ وہ انتہائی بزدل ہے … یہ ہیں شعراء کے اوصاف۔ اب آپ غور کیجیے کہ آیا مرقومہ بالا احوال رسول کریم محمد مصطفیe جیسی ہدایت یافتہ اور پاکیزہ ہستی کے احوال سے مطابقت رکھتے ہیں ، جن کی پیروی ہر وہ شخص کرتا ہے جو صاحب رشدوہدایت ہے۔ آپ راہ راست پر نہایت استقامت سے گامزن اور ہلاکت کی وادیوں سے دور رہتے ہیں ۔ آپ کے افعال تناقض سے پاک ہوتے ہیں اور آپ کے اقوال و افعال میں تضاد نہیں ہوتا۔ آپ صرف نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ، ہمیشہ سچی خبر دیتے ہیں ۔ اگر آپ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ہیں اور اگر کسی کام سے روکتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس کام کو ترک کرتے ہیں ۔ کیا آپ کا حال ان شاعروں کے احوال سے کوئی مناسبت رکھتا ہے یا ان کے احوال کے کہیں قریب دکھائی دیتا ہے؟ یا ہر لحاظ سے آپ کے احوال ان شعراء حضرات کے احوال سے بالکل مختلف ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کا سلام ہو ابدلآباد تک اس رسول اکمل اور سب سے افضل، عالی ہمت سردار پر جو شاعر ہے نہ ساحر و مجنون بلکہ اوصاف کمال کے سوا اورکچھ اس کے لائق نہیں ۔
#
{227} ولما وَصَفَ الشعراء بما وَصَفَهم به؛ استثنى منهم مَنْ آمنَ بالله ورسولِهِ وعَمِلَ صالحاً وأكثر من ذِكْر الله وانتصر من أعدائِهِ المشركين من بعدِ ما ظلموهم، فصار شعرُهُم من أعمالهم الصالحة وآثار إيمانهم؛ لاشتمالِهِ على مدح أهل الإيمان والانتصار من أهل الشرك والكفر والذبِّ عن دين الله وتبيينِ العلوم النافعةِ والحثِّ على الأخلاق الفاضلة، فقال: {إلاَّ الذين آمَنوا وعَمِلوا الصالحاتِ وذَكَروا الله كثيراً وانتَصروا من بعدِ ما ظُلِموا وسَيَعْلَمُ الذين ظَلَموا أيَّ مُنْقَلَبٍ يَنقَلِبونَ}: إلى موقفٍ وحسابٍ لا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها ولا حقًّا إلاَّ استوفاه. والحمد لله ربِّ العالمين.
[227] اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعراء کے یہ اوصاف بیان کرنے کے بعد ان میں ان شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ، نیک کام کرتے ہیں ، نہایت کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، اپنے مشرک دشمنوں سے ان کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں ۔ ان کی شاعری ان کے اعمال صالحہ اور آثار ایمان میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ اہل ایمان کی مدح، اہل کفر و شرک سے انتقام، اللہ تعالیٰ کے دین کے دفاع، علوم نافعہ کی توضیح و تبیین اور اخلاق فاضلہ کی ترغیب پر مشتمل ہوتی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ﴾ ’’مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں ۔‘‘ یعنی حساب کتاب کے لیے، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہ ہو گی جسے اللہ تعالیٰ نے درج نہ کر رکھا ہو، کوئی حق ایسا نہ ہو گا جسے اللہ تعالیٰ پورا نہ کرے۔ والحمدللہ رب العالمین