آیت:
تفسیر سورۂ نور
تفسیر سورۂ نور
آیت: 1 #
{سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنْزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (1)}.
(یہ) سورت ہے، نازل کیا ہے ہم نے اسے اور فرض کیا ہم نے اس کواور نازل کیں ہم نے اس میں آیتیں واضح تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (1)
#
{1} أي: هذه {سورةٌ} عظيمةُ القَدْرِ، {أنْزَلْناها}: رحمةً منَّا بالعباد، وحفظناها من كلِّ شيطان، {وفَرَضْناها}؛ أي: قدَّرنا فيها ما قدَّرنا من الحدود والشهادات وغيرها، {وأنزلنا فيها آياتٍ بيِّناتٍ}؛ أي: أحكاماً جليلةً وأوامر وزواجر وحِكماً عظيمة؛ {لعلَّكم تذكَّرون}: حين نبيِّنُ لكم، ونُعْلِمُكم ما لم تكونوا تعلمون.
[1] ﴿سُوْرَةٌ ﴾ یعنی یہ عظیم القدر سورت﴿اَنْزَلْنٰهَا﴾ ’’ہم نے اسے (بندوں پر رحمت کے طور پر) نازل کیا‘‘ اور ہر شیطان سے اس کو محفوظ رکھا ﴿وَفَرَضْنٰهَا ﴾ یعنی ہم نے اس میں حدود اور شہادات کا ضابطہ وغیرہ مقرر کیا ﴿ وَاَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭؔ بَیِّنٰتٍ ﴾ اور ہم نے اس میں جلیل القدر احکام، اوامر و نواہی اور عظیم الشان حکمتیں نازل کیں ﴿ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ یعنی جس وقت ہم تمھارے سامنے یہ احکام بیان کریں اور ہم تمھیں ان امور کی تعلیم دیں جن کا تمھیں علم نہیں تھا تب شاید تم نصیحت پکڑو۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ احکام بیان کرنا شروع كيے جن کی طرف گزشتہ آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 2 #
{الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (2)}.
بدکار عورت اور بدکار مرد، پس تم مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے سو سو کوڑےاور نہ پکڑے تمھیں ان دونوں کے حق میں شفقت اللہ کے دین (پر عمل کرنے) میں اگر ہو تم ایمان رکھتے ساتھ اللہ اور دن آخرت کےاور چاہیے کہ حاضر ہو ان دونوں کی سزا کو ایک گروہ مومنوں میں سے (2)
#
{2} هذا الحكم في الزاني والزانية البكرين: أنَّهما يُجلد كلٌّ منهما مائة جلدةٍ، وأما الثيِّب؛ فقد دلَّت السنة الصحيحة المشهورة أنَّ حدَّه الرجم. ونهانا تعالى أن تأخُذَنا رأفةٌ بهما في دين الله تمنعُنا من إقامة الحدِّ عليهما، سواء رأفة طبيعيَّة، أو لأجل قرابة أو صداقة أو غير ذلك، وأنَّ الإيمان موجبٌ لانتفاء هذه الرأفة المانعة من إقامة أمرِ الله؛ فرحمتُه حقيقةً بإقامة الحدِّ عليه، فنحنُ وإن رَحِمْناه لِجَرَيان القدر عليه؛ فلا نَرْحَمُه من هذا الجانب. وأمَرَ تعالى أن يَحْضُرَ عذابَ الزانيين {طائفةٌ}؛ أي: جماعة من المؤمنين؛ ليشتهر ويحصُلَ بذلك الخزي والارتداع، وليشاهدوا الحدَّ فعلاً؛ فإنَّ مشاهدة أحكام الشرع بالفعل مما يَقْوى به العلم، ويستقرُّ بها الفهم، ويكونُ أقربَ لإصابة الصواب؛ فلا يزادُ فيه ولا ينقص. والله أعلم.
[2] آیت میں مذکور یہ حکم غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے ہے کہ ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں ، البتہ شادی شدہ زناکار ہو تو سنت صحیحہ مشہورہ دلالت کرتی ہے کہ ان کی حد رجم (یعنی سنگسار کرنا) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ زنا کار مرد و زن پر حد جاری کرتے وقت ہم پر رحم و شفقت کا ایسا جذبہ پیدا نہ ہو کہ جو ہمیں ان پر حد قائم کرنے سے روک دے۔ خواہ یہ رحم طبعی ہو یا قرابت یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے ہو۔ ایمان اس رحم کی نفی کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے سے مانع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی رحمت تو زانی پر حد نافذ کرنے میں ہے۔ اگر زانی پر تقدیر کا فیصلہ جاری ہونے پر ہمیں رحم آئے تو یہ اور بات ہے مگر نفاذ حد کے پہلو سے ہمیں اس پر رحم نہیں آنا چاہیے، نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زنا کاروں پر حد جاری کرتے وقت اہل ایمان کی ایک جماعت موجود ہو تاکہ حد کا نفاذ مشتہر ہو، مجرموں کی رسوائی ہو، مجرم اس گھناؤنے جرم سے باز رہیں اور لوگ بالفعل نفاذ حد کا مشاہدہ کریں کیونکہ شریعت کے احکام کے بالفعل مشاہدے سے شریعت کا علم زیادہ پختہ اور اس کا فہم راسخ ہو جاتا ہے اور مشاہدہ کرنے والا منزل صواب کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اس میں کوئی اضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی۔ واللہ اعلم۔
آیت: 3 #
{الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (3)}.
بدکار مرد نہیں نکاح کرتا مگر بدکار یا مشرک عورت ہی سےاوربدکار عورت، نہیں نکاح کرتا اس سے مگر زانی یا مشرک مرد ہی اور حرام کر دیا گیا ہے یہ (زنا کاروں سے نکاح کرنا) اوپر مومنوں کے (3)
#
{3} هذا بيان لرذيلة الزنا، وأنه يدنِّس عِرْض صاحبه وعِرْض مَنْ قارَنَه ومازَجَه ما لا يفعله بقيةُ الذنوب، فأخبر أن الزاني لا يُقْدِمُ على نكاحه من النساء إلا أنثى زانيةٌ تناسب حالُه حالَها، أو مشركةٌ بالله لا تؤمن ببعثٍ ولا جزاءٍ، ولا تلتزمُ أمر الله. والزانيةُ كذلك لا ينكِحُها إلا زانٍ أو مشركٌ. {وحُرِّم ذلك على المؤمنين}؛ أي: حرم عليهم أن يُنْكِحُوا زانياً أو يَنْكِحُوا زانيةً. ومعنى الآية أنَّ مَن اتَّصف بالزِّنا من رجل أو امرأة، ولم يَتُبْ من ذلك؛ أن المُقْدِمَ على نكاحِهِ مع تحريم الله لذلك لا يخلو إمَّا أنْ لا يكون ملتزماً لحكم الله ورسولِهِ؛ فذاك لا يكون إلاَّ مشركاً، وإمَّا أنْ يكون ملتزماً لحكم الله ورسولِهِ، فأقدم على نكاحِهِ، مع علمه بزناه؛ فإنَّ هذا النكاح زنا، والناكح زانٍ مسافح؛ فلو كان مؤمناً بالله حقًّا؛ لم يُقْدِمْ على ذلك. وهذا دليلٌ صريحٌ على تحريم نكاح الزانية حتى تتوبَ، وكذلك نكاح الزاني حتى يتوبَ؛ فإنَّ مقارنة الزوج لزوجته والزوجة لزوجها أشدُّ الاقترانات والازدواجات، وقد قال تعالى: {احشُروا الذين ظلموا وأزواجَهم}؛ أي: قرناءهم، فحرَّم اللهُ ذلك لما فيه من الشرِّ العظيم، وفيه من قِلَّةِ الغَيْرَةِ وإلحاق الأولاد الذين ليسوا من الزوج، وكون الزاني لا يعفها بسبب اشتغاله بغيرها؛ مما بعضُه كافٍ في التحريم. وفي هذا دليلٌ أنَّ الزاني ليس مؤمناً كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمنٌ» ؛ فهو وإنْ لم يكن مشركاً،؛ فلا يُطْلَقُ عليه اسم المدح الذي هو الإيمانُ المطلق.
[3] اس آیت کریمہ میں زنا کی رذالت اور قباحت کا بیان ہے کہ یہ فعل بد، فاعل اور اس کے ساتھ میل جول رکھنے والے لوگوں کی عزت پر ایسا دھبہ لگا دیتا ہے جو دیگر گناہوں سے نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ زانی مرد صرف زنا کار عورت ہی سے نکاح کرے۔ اس کا حال ایسی ہی عورت کے حال سے مناسبت رکھتا ہے یا مشرک عورت اس کے مناسب حال ہے جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھتی ہے نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرتی ہے۔ اسی طرح زانیہ عورت سے صرف زانی مرد یا مشرک ہی نکاح کرے۔ ﴿ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں پر حرام ٹھہرا دیا ہے‘‘ یعنی یہ کہ وہ کسی عفت مآب عورت کا زنا کار مرد کے ساتھ نکاح کریں یا عفت مآب مرد کسی زنا کار عورت کو اپنے نکاح میں لائے۔ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ وہ مرد یا عورت جو زنا میں ملوث ہے اور اس نے اس بدکاری سے توبہ نہیں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریم کے باوجود، اس کے ساتھ نکاح کرنے والا، دو میں سے ایک امر سے خالی نہیں ۔یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام نہیں کرتا اور یہ صرف مشرک شخص کا وتیرہ ہے یا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکے حکم کا التزام کرتا ہے اور زنا کار کے زنا کا علم رکھنے کے باوجود، اس کے ساتھ عفت مآب عورت کے نکاح کا اقدام کرتا ہے تو ایسا نکاح زنا ہے اور نکاح کرنے والا زنا کا مرتکب ہے۔ اگر وہ سچا مومن ہوتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتا۔ یہ آیت کریمہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کی تحریم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ اسی طرح زانی کے ساتھ نکاح کی تحریم پر دلیل ہے کیونکہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سب سے بڑی مقارنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿ اُحْشُ٘رُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصّٰفّٰت:37؍22) ’’وہ لوگ جو ظلم کرتے تھے، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اکٹھا کرو۔‘‘ یعنی ان کے جلیسوں کو۔ چونکہ اس میں بہت بڑا شر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو حرام ٹھہرا دیا ہے۔ اس سے غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خاوند کے ساتھ ایسی اولاد کا الحاق ہوتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ۔ نیز وہ دوسری عورتوں کے ساتھ مشغول ہونے کے سبب عفت سے محروم رہتا ہے۔ یہ آیت کریمہ صریحاً دلالت کرتی ہے کہ زنا کار مومن نہیں ہوتا جیسا کہ نبی کریم e نے فرمایا ’’جب زانی زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا …۔، ،(صحیح البخاري، المظالم، باب النہي بغیر اذن صاحبہ، ح: 2475 و صحیح مسلم، الإیمان، باب بیان نقصان الإیمان بالمعاصی…، ح:100) پس وہ اگرچہ مشرک بھی نہیں ہوتا تاہم وہ اسم مدح سے موسوم نہیں ہوتا جو کہ ایمان مطلق ہے۔
آیت: 4 - 5 #
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (4) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5)}.
اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر، پھر نہیں لاتے وہ چار گواہ، پس تم مارو انھیں اَسّی کوڑے اور نہ قبول کرو تم ان کی شہادت (گواہی) کبھی بھی اور یہ لوگ ، وہی ہیں فاسق (4) مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی بعد اس کے اور اصلاح کر لی، پس بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (5)
#
{4} لما عظَّم تعالى أمر الزنا بوجوب جلدِهِ وكذا رَجْمِهِ إن كان محصناً، وأنَّه لا تجوز مقارنته ولا مخالطته على وجهٍ لا يَسْلَم فيه العبدُ من الشرِّ؛ بيَّن تعالى تعظيم الإقدام على الأعراض بالرمي بالزِّنا، فقال: {والذين يرمونَ المحصناتِ}؛ أي: النساء الأحرار العفائف، وكذلك الرجال، لا فرق بين الأمرين، والمرادُ بالرمي الرميُ بالزنا؛ بدليل السياق. {ثم لم يأتوا}: على ما رموا به {بأربعة شهداء}؛ أي: رجال عدول يشهدون بذلك صريحاً {فاجْلُدوهم ثمانينَ جلدةً}: بسوطٍ متوسطٍ يؤلِمُ فيه، ولا يبالِغُ بذلك حتى يُتْلِفَه؛ لأن القصد التأديب لا الإتلاف. وفي هذا تقريرُ حدِّ القذف، ولكن بشرط أن يكون المقذوف كما قال تعالى محصناً مؤمناً، وأما قذف غير المحصن؛ فإنَّه يوجِبُ التعزير، {ولا تَقْبَلوا لهم شهادةً أبداً}؛ أي: لهم عقوبة أخرى، وهو أنَّ شهادة القاذف غير مقبولة، ولو حُدَّ على القَذْفِ، حتى يتوبَ؛ كما يأتي. {وأولئكَ هم الفاسقونَ}؛ أي: الخارجون عن طاعة الله، الذين قد كَثُرَ شرُّهم، وذلك لانتهاك ما حرَّم الله، وانتهاك عِرْضِ أخيه، وتسليط الناس على الكلام بما تكلَّم به، وإزالة الأخوة التي عقدها الله بين أهل الإيمان، ومحبَّة أن تَشيعَ الفاحشةُ في الذين آمنوا. وهذا دليلٌ على أن القذف من كبائر الذنوب.
[4] چونکہ کوڑوں کی سزا کے وجوب کی وجہ سے زانی کے معاملہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، نیز اگر وہ شادی شدہ ہے تو رجم بہت بڑا معاملہ ہے اسی طرح زانی کے ساتھ ہم نشینی اور اس سے اختلاط، کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ، جس سے بندہ شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عزت و ناموس پر زنا کی تہمت لگانے کو بہت بڑا اقدام قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ﴾ ’’وہ لوگ جو پاک باز عورتوں پر بہتان لگاتے ہیں ‘‘ اسی طرح پاک باز مردوں پر بہتان طرازی کرتے ہیں ۔ دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں بہتان سے مراد، سیاق کے اعتبار سے زنا کا الزام لگانا ہے۔ ﴿ ثُمَّ لَمْ یَ٘اْتُوْا ﴾ ’’پھر نہ پیش کر سکیں وہ‘‘ یعنی اس پر جو انھوں نے بہتان لگایا ﴿ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَؔ ﴾ ’’ چار گواہ‘‘ یعنی چار عادل مرد، جو نہایت صراحت کے ساتھ زنا کی گواہی دیں ۔ ﴿فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً ﴾ ’’تو انھیں (ایک متوسط کوڑے کے ساتھ) اَسی (۸۰) کوڑے مارو‘‘ جن سے بہتان لگانے والے کو تکلیف پہنچے مگر کوڑے کی سختی اتنی زیادہ نہ ہو جس سے اس کی جان چلی جائے کیونکہ کوڑے لگانے سے مقصود تادیب ہے نہ کہ جان لینا۔ اس آیت کریمہ میں بہتان لگانے کی حد کا تعین ہے، البتہ یہ حد اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جس پر بہتان لگایا گیا ہے وہ مومن اور پاک دامن ہو اور اگر وہ پاک دامن نہ ہو تو بہتان لگانے والے پر حد نہیں لگائی جائے گی یہ چیز صرف تعزیر کی موجب ہے۔ ﴿ وَّلَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا﴾ یہ ایک اور سزا ہے یعنی بہتان طرازی کرنے والے کی گواہی قابل قبول نہیں خواہ اس پر قذف کی حد جاری کیوں نہ کر دی گئی ہو۔ جب تک کہ وہ بہتان طرازی سے توبہ نہ کرے۔ جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا۔﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے ہیں ‘‘ اور جن کا شر بہت زیادہ ہے۔ یہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کیا اور اپنے بھائی کی ہتک عزت کی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے کا موقع فراہم کیا اور اس قذف کے ذریعے سے وہ اس اخوت کو زائل کرنے کا باعث بنا جو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے مابین قائم کی تھی اور اس نے چاہا کہ اہل ایمان میں فواحش پھیل جائیں ۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قذف گناہ کبیرہ ہے۔
#
{5} وقوله: {إلاَّ الذين تابوا من بعدِ ذلك وأصْلَحوا فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}: فالتوبة في هذا الموضع أن يُكَذِّبَ القاذفُ نفسه، ويقرَّ أنَّه كاذبٌ فيما قال، وهو واجبٌ عليه أن يُكَذِّبَ نفسه، ولو تيقَّن وقوعَه؛ حيث لم يأتِ بأربعة شهداءَ؛ فإذا تاب القاذف وأصلح عَمَلَه وبدَّل إساءته إحساناً؛ زال عنه الفسقُ، وكذلك تُقبل شهادتُه على الصحيح؛ {فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}، يغفِرُ الذنوبَ جميعاً لمن تاب وأناب. وإنَّما يُجْلَدُ القاذف إذا لم يأت بأربعة شهداء إذا لم يكن زوجاً؛ فإنْ كان زوجاً؛ فقد ذُكِرَ بقوله:
[5] ﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا١ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ یہاں توبہ سے مراد یہ ہے کہ بہتان طرازی کرنے والا خود اپنی تکذیب کرے یعنی وہ اس بات کا اقرار کرے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا اپنی تکذیب کرنا اس پر واجب ہے اگرچہ اس کو زنا کے وقوع کا یقین ہو مگر وہ چار گواہ مہیا نہ کر سکے تب بھی اس الزام کی تردید کرنا اس پر واجب ہے۔ اگر بہتان طرازی کرنے والا توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کر لے اور برائی کی بجائے بھلائی کو وتیرہ بنا لے تو اس کا فسق زائل ہو جائے گا اور صحیح مذہب ہے کہ اس کی شہادت بھی قابل قبول ہے کیونکہ جو کوئی توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ بہتان لگانے والے کو اس صورت میں کوڑے مارے جائیں گے جب وہ چارگواہ مہیا نہ کر سکے اور جس پر اس نے بہتان لگایا ہے وہ اس کی بیوی نہ ہو۔ اگر جس پر اس نے بہتان لگایا ہے وہ اس کی بیوی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
آیت: 6 - 10 #
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (9) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ (10)}.
اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں اپنی بیویوں پر اور نہیں ہیں ان کے لیے گواہ (اس پر) مگر وہ خود ہی، پس گواہی ایک کی ان میں سے، چار بار گواہیاں ہیں ساتھ اللہ کی قسم کے کہ بے شک وہ شخص البتہ سچوں میں سے ہے (6)اور پانچویں (مرتبہ) یہ کہ بے شک لعنت ہے اللہ کی اس پر اگر ہو وہ شخص جھوٹوں میں سے (7) اور ٹال دے گی اس عورت سے سزا یہ کہ گواہی دے وہ عورت چار گواہیاں ساتھ اللہ کی قسم کے، بلاشبہ وہ شخص البتہ جھوٹوں میں سے ہے (8) اور پانچویں (مرتبہ) یہ کہ بے شک غضب ہو اللہ کا اس (عورت) پر اگر ہو وہ (مرد) سچوں میں سے (9)اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور رحمت اس کی اور یہ کہ بلاشبہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ، حکمت والا ہے (تو جھوٹوں کو سزا ملتی) (10)
بیوی پر زنا کا الزام لگانے کی صورت میں شوہر کی چار گواہیاں اسے قذف کی حد سے بچا سکتی ہیں کیونکہ غالب حالات میں شوہر بیوی پر زنا کا بہتان نہیں لگاتا جس سے اس کی بیوی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی شخصیت بھی عیب دار ہوتی ہے سوائے اس صورت میں کہ جب وہ الزام لگانے میں سچا ہو۔ نیز شوہر کا اس بارے میں حق ہے اور اسے اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں ایسی اولاد کا اس سے الحاق نہ ہو جائے جو اس کی نہیں ہے، نیز اس میں بعض دیگر حکمتیں بھی ہیں جو دوسرے احکام میں موجود نہیں ہیں ۔
#
{6 ـ 7} {والذين يرمون أزواجهم}؛ أي: الأحرار لا المملوكات {ولم يكن لهم}: على رَمْيِهِم بذلك {شهداءُ إلاَّ أنفسُهُم}: بأن لم يُقيموا شهداء على ما رموهم به، {فشهادةُ أحدِهم أربعُ شهاداتٍ بالله إنَّه لَمِنَ الصادقين}: سماها شهادةً لأنها نائبةٌ منابَ الشهود؛ بأن يقولَ: أشهدُ بالله أنِّي لمن الصادقين فيما رميتُها به. {والخامسةُ أنَّ لعنةَ الله عليه إن كان من الكاذبين}؛ أي: يزيد في الخامسة مع الشهادة المذكورة مؤكِّداً تلك الشهادات بأن يَدْعُوَ على نفسه باللعنة إنْ كان كاذباً؛ فإذا تَمَّ لعانُه؛ سقط عنه حدُّ القذف. وظاهرُ الآياتِ ولو سمَّى الرجلَ الذي رماها به؛ فإنَّه يسقطُ حقُّه تَبَعاً لها. وهل يُقام عليها الحدُّ بمجرَّد لعان الرجل ونكولها أم تُحبس؟ فيه قولانِ للعلماء، الذي يدلُّ عليه الدليل أنه يُقام عليها الحدُّ؛ بدليل قوله: {ويدرؤوا عنها العذابَ أن تَشْهَدَ ... } إلى آخره؛ فلولا أنَّ العذاب ـ وهو الحدُّ ـ قد وَجَبَ بلعانِهِ؛ لم يكن لعانها دارئاً له.
[7,6] اس لیے فرمایا:﴿ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ ﴾ ’’اور وہ جو تہمت لگائیں اپنی بیویوں پر‘‘ یعنی لونڈیوں پر نہیں بلکہ آزاد عورتوں پر ، جو بیویاں ہوں ﴿ وَلَمْ یَكُنْ لَّهُمْ ﴾ ’’اور نہ ہوں ان کے لیے‘‘ اس الزام پر ﴿ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ ﴾ ’’اپنے سوا کوئی اور گواہ‘‘ جنھیں وہ اپنے اس الزام پر اپنا گواہ بنا سکیں ۔ ﴿ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰؔتٍۭؔ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَ٘مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’تو ان میں سے ایک کی گواہی چار گواہیاں دینی ہیں اللہ کی کہ وہ سچا ہے۔‘‘ (یعنی اپنی سچائی پرچار قسمیں کھائے۔) اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کو (شہادت) کہا ہے کیونکہ یہ قسمیں گواہوں کے قائم مقام ہیں ، قسمیں اٹھانے والا یہ الفاظ کہتا ہے: ’’میں اللہ کو گواہ بنا کر گواہی دیتا ہوں کہ، میں نے جو الزام لگایا ہے، میں اس میں سچا ہوں ۔‘‘ ﴿وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹا ہو۔‘‘ یعنی ان گواہیوں کو موکد بنانے کے لیے، ان مذکورہ گواہیوں کے ساتھ پانچویں مرتبہ اپنے لیے لعنت کی بددعا کرے۔ جب لعان مکمل ہو جائے تو اس سے قذف کی حد ساقط ہو جائے گی۔ آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے ساتھ اس نے اپنی بیوی کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے تبعاً اس کا حق بھی ساقط ہو جائے گا۔ (یعنی اس کی طرف سے بھی اس خاوند پر حد قذف نہیں لگائی جائے گی۔) شوہر کے لعان کرنے اور بیوی کے لعان کرنے سے گریز کرنے پر، کیا بیوی پر حد جاری کی جائے گی یا اس کو قید کیا جائے گا؟ اس بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں ۔ وہ رائے جس کی تائید دلیل کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس پر حد قائم کی جائے گی، جیسے فرمایا: ﴿ وَیَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰؔدٰؔتٍۭؔ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَ٘مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’اور اس عورت کے چار مرتبہ اللہ کی قسمیں کھا کر یہ کہنے سے کہ وہ (خاوند) جھوٹا ہے، اس سے سزا کو ٹال دے گا۔‘‘ یہاں اگر ’’عذاب‘‘ سے مراد وہ حد نہ ہوتی جو شوہر کے لعان کی وجہ سے واجب ہوئی ہے تو عورت کا لعان اس عذاب کو ہٹا نہ سکتا ۔
#
{8 ـ 9} {ويدرؤوا عنها}؛ أي: يدفع عنها العذاب إذا قابلتْ شهادات الزوج بشهاداتٍ من جنسها؛ {أن تَشْهَدَ أربعَ شهاداتٍ بالله إنَّه لَمِنَ الكاذبين}، وتزيدُ في الخامسة مؤكِّدةً لذلك أن تدعُوَ على نفسها بالغضب، فإذا تمَّ اللِّعان بينهما؛ فُرِّقَ بينَهما [إلى] الأبد، وانتفى الولد الملاعن عنه. وظاهر الآيات يدلُّ على اشتراط هذه الألفاظ عند اللِّعان منه ومنها، واشتراط الترتيب فيها، وأنْ لا يُنْقَصَ منها شيءٌ ولا يبدَّل شيء بشيء، وأنَّ اللعان مختصٌّ بالزوج إذا رمى امرأته، لا بالعكس، وأنَّ الشبه في الولد مع اللعان لا عبرةَ به؛ كما لا يعتبر مع الفراش، وإنما يعتبر الشبه حيث لا مرجِّح إلاَّ هو.
[9,8] اور عورت سے عذاب کو دور کردیا جائے گا جب وہ شوہر کی گواہیوں کا اسی جیسی گواہیوں کے ذریعے سے مقابلہ کرے گی ﴿ وَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’وہ چار مرتبہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘ اور پانچویں گواہی میں ، جو ان چار گواہیوں کو موکد بنانے کے لیے ہے، اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے غضب کی دعا کرے گی۔پس جب اس طرح ان کے مابین لعان مکمل ہو جائے گا تو ہمیشہ کے لیے ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے گا اور شوہر سے بچے کے نسب کی نفی ہو جائے گی۔ آیات کریمہ کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کی طرف سے لعان انھی مذکورہ الفاظ اور ترتیب سے مشروط ہے، ان میں کمی بیشی یا ردوبدل جائز نہیں ، نیز لعان صرف شوہر کے ساتھ مختص ہے، جب وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے مگر اس کی بیوی ایسا نہیں کر سکتی۔ لعان کے لیے بچے میں مشابہت معتبر نہیں ، جس طرح ’’فراش‘‘ (یعنی نکاح) کی موجودگی میں معتبر نہیں ، مشابہت تو صرف وہاں معتبر ہے جہاں مشابہت کے سوا کوئی اور ترجیح دینے والی چیز نہ ہو تو وہاں مشابہت یقینا معتبر ہو گی۔
#
{10} {ولولا فضلُ الله عليكم ورحمتُه وأنَّ الله تَوَّابٌ حكيمٌ}: وجواب الشرط محذوفٌ يدلُّ عليه سياق الكلام؛ أي: لأحلَّ بأحد المتلاعنين الكاذب منهما ما دعا به على نفسه، ومن رحمتِهِ وفضلِهِ ثبوتُ هذا الحكم الخاصِّ بالزوجين؛ لشدَّة الحاجة إليه، وأنْ بيَّنَ لكم شدَّة الزِّنا وفظاعته وفظاعة القذف به، وأنْ شَرَعَ التوبة من هذه الكبائر وغيرها.
[10] ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ ﴾ شرط کا جواب محذوف ہے جس پر سیاق کلام دلالت کرتا ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل نہ ہوتا تو دونوں لعان کرنے والوں میں سے جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا جس کی اس نے دعا کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ اس نے یہ حکم نازل فرمایا جو میاں بیوی کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اس حکم کی سخت ضرورت تھی، نیز اس نے تمھارے سامنے زنا اور قذف کی قباحت اور شدت کو واضح کیا اور اس نے ان کبیرہ گناہوں سے توبہ کو مشروع فرمایا۔
آیت: 11 - 26 #
{إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (11) لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ (12) لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ (13) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (14) إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ (15) وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ (16) يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (17) وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (18) إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (19) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (20) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (21) وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (22) إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (23) يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24) يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (25) الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (26)}.
بے شک وہ لوگ جو گھڑ لائے ہیں جھوٹ (بہتان) ایک گروہ ہے تم ہی میں سے نہ گمان کرو تم اسے برا اپنے لیےبلکہ وہ بہتر ہے تمھارے لیے واسطے ہر شخص کے ان میں سے (سزا ہے اس کی) جو کمایا اس نے گناہ سےاور وہ شخص جس نے اٹھایا بڑا بوجھ اس (گناہ) کا ان میں سے، اس کے لیے عذاب عظیم ہے (11) کیوں نہیں ، جب سنا تم نے اس کو، خیال کیا مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک (خیال) ؟ اور (کیوں نہیں ) کہا انھوں نے یہ تو جھوٹ (بہتان) ہے ظاہر؟ (12) کیوں نہیں لائے وہ اس (الزام) پر چار گواہ؟ پس جب نہیں لائے وہ گواہ تو وہی لوگ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں (13) اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی رحمت دنیا اور آخرت میں تو البتہ پہنچتا تمھیں اس بارے میں کہ مشغول ہوئے تم اس (بات) میں ، عذاب عظیم(14)جب ایک دوسرے سے لیتے تھے تم اس کو ساتھ اپنی زبانوں کے اور کہتے تھے تم ساتھ اپنے مونہوں کے وہ (بات) کہ نہیں تھا تمھیں اس کا کوئی علم اور گمان کرتے تھے تم اسے معمولی، جبکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی (بات) ہے (15) اور کیوں نہیں جب سنا تم نے اس کو، کہا تم نے نہیں لائق ہمارے یہ کہ کلام کریں ہم ساتھ اس بات کے، پاک ہے تو (اے اللہ!)یہ تو بہتان ہے بہت ہی بڑا (16) نصیحت کرتا ہے تمھیں اللہ اس سے کہ دوبارہ کرو تم اس جیسی بات کبھی بھی، اگر ہو تم مومن (17) اور بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے آیتیں (اپنی ) اور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے (18) بلاشبہ وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں یہ کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ، ان کے لیے عذاب ہے نہایت درد ناک دنیا میں اور آخرت میں اوراللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے(19)اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی رحمت، (تو وہ عذاب دے دیتا) اور بلاشبہ اللہ نہایت شفقت کرنے والا رحم کرنے والا ہے (20)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ پیروی کرو تم قدموں کی شیطان کے اورجو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی، پس بلاشبہ وہ حکم کرتا ہے بے حیائی اور برے کام ہی کااور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی رحمت تو نہ پاک ہوتا تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ خوب سنتا، جانتا ہے (21) اور نہ قسم کھائیں فضل والے تم میں سے اور وسعت والے اس (بات) سے کہ وہ دیں (اپنے مال) قرابت داروں اور مسکینوں اور ہجرت کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اوردرگزر کریں ، کیا نہیں پسند کرتے تم یہ کہ بخش دے اللہ تمھیں ؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے (22)بلاشبہ وہ لوگ جو (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر، ملعون ہیں وہ دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے (23) جس دن شہادت دیں گی ان پر (ان کے خلاف) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پیر ساتھ اس کے جو تھے وہ عمل کرتے (24) اس دن پورا دے گا انھیں اللہ بدلہ ان کا پورا پورا ہی اور وہ جان لیں گے کہ بے شک اللہ، وہی حق ہے، (حق کو) بیان کرنے والا (25) ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ہیں ، او ر پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں یہ (پاکیزہ) لوگ بری ہیں ان سے جو وہ (خبیث لوگ ان کی بابت) کہتے ہیں ، ان کے لیے بخشش ہے اور رزق عزت والا (26)
چونکہ گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ نے زنا کے بہتان کی برائی کا عمومی ذکر فرمایا وہ گویا اس بہتان کا مقدمہ ہے جو دنیا کی افضل ترین خاتون، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہr پر لگایا گیا۔ یہ آیات کریمہ مشہور قصۂ افک کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ بہتان کا یہ واقعہ تمام صحاح، سنن اور مسانید میں صحت کے ساتھ منقول ہے۔ اس تمام قصہ کا حاصل یہ ہے کہ نبی اکرمe کسی غزوہ میں تھے، آپ کے ساتھ آپ کی زو جۂ محترمہ حضرت عائشہ بنت ابو بکر صدیقw بھی تھیں ۔ ان کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا، وہ اس کی تلاش میں رک گئیں ، حضرت عائشہr کے ساربان آپ کے اونٹ اور ہودج سمیت لشکر کے ساتھ کوچ کر گئے اور ان کو ہودج میں حضرت عائشہr کی عدم موجودگی کا علم نہ ہوا اور لشکر کوچ کر گیا۔ حضرت عائشہr ہار کی تلاش کے بعد واپس اس جگہ پہنچیں تو لشکر موجود نہ تھا۔ حضرت عائشہr کو معلوم تھا کہ جب لشکر والے انھیں ہودج میں مفقود پائیں گے تو واپس لوٹیں گے۔ پس انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور صفوان بن معطل سلمیt افاضل صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے لشکر کے آخری لوگوں کے ساتھ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کیا اور سوتے رہ گئے تھے۔ انھوں نے حضرت عائشہ r کو دیکھا تو پہچان لیا حضرت صفوانt نے اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عائشہ r کو اس پر سوار کرایا۔ انھوں نے حضرت عائشہ r سے کوئی بات کی نہ حضرت عائشہ r نے ان سے کوئی بات کی، پھر وہ حضرت عائشہ r کی سواری کی مہار پکڑے دوپہر کے وقت جبکہ لشکر بھی پڑاؤ کے لیے اتر چکا تھا، پڑاؤ میں پہنچ گئے۔ پس جب منافقین میں سے، جو اس سفر میں حضور e کے ہمراہ تھے، کسی نے حضرت صفوانt کو اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہr کے ساتھ آتے دیکھا تو اس نے بہتان طرازی کی خوب اشاعت کی، بات پھیل گئی، زبانیں ایک دوسرے سے اخذ کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ بعض مخلص مومن بھی دھوکہ کھا گئے اور وہ بھی بات پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ رسول اللہ e پر طویل مدت تک وحی نازل نہ ہوئی بہت مدت کے بعد حضرت عائشہ r کو منافقین کے بہتان کا علم ہوا اس پر انھیں شدید صدمہ پہنچا، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عائشہ r کی براء ت میں یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی اور ان کو مفید وصیتوں سے سرفراز کیا۔
#
{11} فقوله تعالى: {إنَّ الذين جاؤوا بالإفكِ}؛ أي: الكذب الشنيع، وهو رمي أم المؤمنين، {عصبةٌ منكُم}؛ أي: جماعة منتسِبون إليكم يا معشر المؤمنين، منهم المؤمن الصادقُ في إيمانه، لكنَّه اغترَّ بترويج المنافقين، ومنهم المنافق. {لا تَحْسَبوه شرًّا لكم بل هو خيرٌ لكم}: لِما تضمَّنَ ذلك تبرئةَ أمِّ المؤمنين ونزاهتَها والتنويهَ بذِكْرها، حتى تناول عمومُ المدح سائرَ زوجاتِ النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -، ولِما تضمَّن من بيان الآياتِ المضطرِّ إليها العباد، التي ما زال العملُ بها إلى يوم القيامة؛ فكل هذا خيرٌ عظيمٌ، لولا مقالَةُ أهل الإفك، لم يحصل بذلك ، وإذا أراد الله أمراً؛ جعل له سبباً، ولذلك جَعَلَ الخطابَ عامًّا مع المؤمنين كلهم، وأخبر أنَّ قَدْحَ بعضِهم ببعض كقدح في أنفسهم؛ ففيه أنَّ المؤمنين في توادِّهم وتراحُمِهم وتعاطُفِهم واجتماعِهم على مصالحهم كالجسدِ الواحدِ، والمؤمنُ للمؤمن كالبنيانِ يشدُّ بعضُه بعضاً؛ فكما أنَّه يكره أن يَقْدَحَ أحدٌ في عرضه؛ فليكرهْ مِنْ كلِّ أحدٍ أن يَقْدَحَ في أخيه المؤمن الذي بمنزلة نفسه، وما لم يصل العبدُ إلى هذه الحالة؛ فإنَّه من نَقْصِ إيمانه وعدم نُصحه. {لكلِّ امرئٍ منهم ما اكْتَسَبَ من الإثم}: وهذا وعيدٌ للذين جاؤوا بالإفك، وأنَّهم سيُعاقبون على ما قالوا من ذلك، وقد حدَّ النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - منهم جماعةً، {والذي تَوَلَّى كِبْرَهُ}؛ أي: معظم الإفك، وهو المنافقُ الخبيثُ عبد الله بن أُبيّ بن سَلول لعنه الله. {له عذابٌ عظيمٌ}: ألا وهو الخلودُ في الدرك الأسفل من النار.
[11] اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ ﴾ ’’وہ لوگ جو نہایت قبیح جھوٹ گھڑ کر لائے ہیں ۔‘‘ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ r پر لگایا گیا۔ ﴿ عُصْبَةٌ مِّؔنْكُمْ﴾ اے مومنو! بہتان طرازی کرنے والا گروہ تمھاری ہی طرف منسوب ہے۔ ان میں کچھ لوگ سچے مومن بھی ہیں مگر منافقین کے بہتان کو پھیلانے سے دھوکہ کھا گئے۔ ﴿ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّـكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّـكُمْ ﴾ ’’تم اس کو اپنے لیے برا مت سمجھو بلکہ وہ تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ کیونکہ یہ ام المومنین حضرت عائشہ r کی براء ت، ان کی پاک دامنی اور ان کی تعظیم و توقیر کے اعلان کو متضمن ہے حتیٰ کہ یہ عمومی مدح تمام ازواج مطہرات کو شامل ہے۔ نیز اس میں ان آیات کا بھی بیان ہے بندے جن کے محتاج ہیں اور جن پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔ پس یہ سب کچھ بہت بڑی بھلائی ہے۔ اگر بہتان طراز منافقین نے بہتان نہ لگایا ہوتا تو یہ خیر عظیم حاصل نہ ہوتی اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے سبب پیدا کر دیتا ہے، اسی لیے اس کا خطاب تمام مومنین کے لیے عام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اہل ایمان کا ایک دوسرے پرعیب لگانا خود اپنے آپ پر عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان آپس میں محبت و مودت، ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور باہم نرمی کا رویہ رکھنے اور اپنے مصالح میں اکٹھے ہونے کے لحاظ سے جسد واحد کی مانند ہیں اور ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے دونوں ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہیں ۔ پس جیسے وہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس کی عزت و آبرو پر عیب نہ لگائے اسی طرح اس کو یہ بھی ناپسند ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی عزت و ناموس پر عیب لگائے جو خود اس کے نفس کی مانند ہے۔ اگر بندہ اس مقام پر نہ پہنچے تو یہ اس کے ایمان کا نقص اور اس میں خیرخواہی کا نہ ہونا ہے۔ ﴿ لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ﴾ ’’ان میں سے ہر آدمی کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔‘‘ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے جنھوں نے حضرت عائشہ طاہرہr پر بہتان لگایا تھا اور انھیں عنقریب ان کی بہتان طرازی کی سزا دی جائے گی، چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں پر نبی اکرم e نے حد جاری فرمائی۔﴿ وَالَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ ﴾ ’’جس نے اس کے بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے۔‘‘ یعنی وہ شخص جس نے بہتان کے اس واقعے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سے مراد خبیث منافق، عبداللہ بن ابی بن سلول (لعَنَہُ اللّٰہُ) ہے۔﴿ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ اس سے مراد ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہمیشہ رہے گا۔
#
{12} ثم أرشدَ الله عباده عند سماع مثل هذا الكلام، فقال: {لولا إذْ سَمِعْتُموه ظنَّ المؤمنون والمؤمناتُ بأنفسِهم خيراً}؛ أي: ظنَّ المؤمنون بعضُهم ببعضٍ خيراً، وهو السلامة مما رُمُوا به، وأنَّ ما معهم من الإيمان المعلوم يَدْفَعُ ما قيل فيهم من الإفك الباطل. {وقالوا} بسبب ذلك الظَّنِّ: {سبحانك}؛ أي: تنزيهاً لك من كلِّ سوء، وعن أن تَبتليَ أصفياءك بالأمور الشنيعة. {هذا إفكٌ مبينٌ}؛ أي: كذبٌ وبهتٌ من أعظم الأشياء وأبينها؛ فهذا من الظنِّ الواجب حين سماع المؤمن عن أخيه المؤمن مثلَ هذا الكلام، وأن يبرِئَه بلسانِهِ، ويكذِّبَ القائل لذلك.
[12] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کی کہ جب وہ اس قسم کی بات سنیں تو انھیں کیا کرنا چاہیے، چنانچہ فرمایا: ﴿ لَوْلَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَ٘نَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا﴾ ’’کیوں نہیں ، جب سنا تم نے اس (بہتان) کو، گمان کیا مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی جانوں کے ساتھ بھلائی کا۔‘‘ یعنی مومنین ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں اور وہ ہے اس بہتان سے محفوظ ہوناجو ان منافقین نے گھڑا ہے۔ ان کا ایمان، ان کو اس بہتان طرازی سے روکتا ہے۔﴿ وَّقَالُوْا ﴾ ’’اور وہ کہتے‘‘ یعنی اس حسن ظن کی بنا پر: ﴿سُبْحٰنَکَ﴾ اے اللہ! تو برائی سے پاک اور منزہ ہے تو اپنے محبوب بندوں کو اس قسم کے قبیح امور میں مبتلا نہیں کرتا۔﴿ هٰؔذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلا جھوٹ اور بہتان ہے۔‘‘ اس کا جھوٹ اور بہتان ہونا، سب سے واضح اور سب سے بڑی بات ہے۔ بندہ مومن پر واجب ہے کہ جب وہ اپنے مومن بھائی کے بارے میں کوئی ایسی بات سنے تو اپنی زبان سے اس کی براء ت کا اظہار اور اس قسم کا بہتان لگانے والے کی تکذیب کرے۔
#
{13} {لولا جاؤوا عليه بأربعة شهداءَ}؛ أي: هلاَّ جاء الرامون على ما رَمَوْا به بأربعة شهداء؛ أي: عدول مرضيين، {فإذْ لم يأتوا بالشهداءِ فأولئك عندَ اللهِ هم الكاذبونَ}: وإن كانوا في أنفسِهم قد تيقَّنوا ذلك؛ فإنَّهم كاذبونَ في حكم الله؛ لأنَّه حرَّمَ عليهم التكلُّم بذلك من دون أربعة شهود، ولهذا قال: {فأولئك عند الله هم الكاذبون}: ولم يَقُلْ: فأولئك هم الكاذبون، وهذا كلُّه من تعظيم حرمةِ عِرْضِ المسلم؛ بحيثُ لا يجوز الإقدام على رميِهِ من دون نِصاب الشهادة بالصدق.
[13] ﴿ لَوْلَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَؔ ﴾ یعنی یہ بہتان طراز اپنے بہتان پر چار عادل اور معتبر گواہ کیوں نہیں لائے۔ ﴿ فَاِذْ لَمْ یَ٘اْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’پس جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے ہاں وہ جھوٹے ہیں ۔‘‘ اگرچہ انھیں اس بارے میں یقین ہی کیوں نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ جھوٹے ہیں ۔ (کیونکہ انھوں نے چار گواہ پیش نہیں كيے) اور اللہ تعالیٰ نے چار گواہوں کے بغیر ایسی بات منہ سے نکالنا حرام قرار دے دیا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: (فاولٰئک ھم الکاذبون) ’’وہ جھوٹے ہیں ‘‘ یہ سب کچھ مسلمان کی عزت و ناموس کی حرمت کی بنا پر ہے۔ شہادت کے پورے نصاب کے بغیر، اس کی عزت و آبرو پر الزام لگانا جائز نہیں ۔
#
{14} {ولولا فضلُ اللهِ عليكم ورحمتُهُ في الدُّنيا والآخرة}: بحيث شملكم إحسانُه فيهما في أمر دينكم ودنياكم {لَمَسَّكُم فيما أفَضْتُم}؛ أي: خضتم {فيه}: من شأن الإفك {عذابٌ عظيمٌ}: لاستحقاقِكم ذلك بما قلتُم، ولكن من فضل الله عليكم ورحمتِهِ أن شَرَعَ لكم التوبةَ، وجعل العقوبةَ مطهِّرةً للذنوب.
[14] ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور اگر دنیا و آخرت میں (تمھارے دینی اور دنیاوی امور میں ) تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی رحمت سایہ کناں نہ ہوتی‘‘ ﴿ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ ﴾ ’’تو ضرور پہنچتا تمھیں اس بات کی وجہ سے جس کا چرچا تم نے کیا۔‘‘ یعنی جس بہتان طرازی میں تم شریک ہوئے ہو﴿ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’بہت بڑا عذاب۔‘‘ کیونکہ تم اپنی بہتان طرازی کی بنا پر اس عذاب کے مستحق ہو گئے تھے مگر تم پر اللہ تعالیٰ اور اس کی بے پایاں رحمت تھی کہ اس نے تمھارے لیے توبہ مشروع کی اور عقوبت کو گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بنایا۔
#
{15} {إذ تَلَقَّوْنَه بألسِنَتِكم}؛ أي: تلقَّفونه ويُلقيه بعضُكم إلى بعض وتستوشون حديثَه وهو قولٌ باطلٌ. {وتقولون بأفواهِكُم ما ليس لكم به علمٌ}: والأمران محظوران؛ التكلُّم بالباطل، والقولُ بلا علم. {وتحسبونَه هيِّناً}: فلذلك أقدمَ عليه مَن أقدمَ مِن المؤمنين الذين تابوا منه. وتطهَّروا بعد ذلك. {وهو عندَ الله عظيمٌ}: وهذا فيه الزجرُ البليغ عن تعاطي بعض الذُّنوب على وجه التهاون بها؛ فإنَّ العبدَ لا يُفيدُه حسبانُه شيئاً، ولا يخفِّف من عقوبتِهِ الذنب، بل يضاعِفُ الذنب، ويسهلُ عليه مواقعتُه مرةً أخرى.
[15] ﴿ اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ۠ ﴾ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل لے رہے تھے اور پھر یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کو سنا رہے تھے… حالانکہ وہ باطل قول تھا۔﴿ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَ٘یْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ﴾ ’’اور تم اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں علم ہی نہیں تھا۔‘‘ دونوں امور حرام ہیں ، یعنی کلام باطل اور بغیر علم کے بات کرنا ﴿ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا﴾ ’’اور تم اس بات کو بہت معمولی سمجھ رہے تھے ، اہل ایمان میں سے جس کسی نے اس کا ارتکاب کیا اسی وجہ سے کیا، بعدازاں اس سے توبہ کی اور اس گناہ سے پاک ہوئے۔﴿ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ ﴾ ’’حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بعض گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے پر سخت زجر وتوبیخ ہے۔ بندے کا گناہوں کو ہلکا شمار کرنا اس کو فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے گناہ کی سزا میں کمی ہی کی جاتی ہے بلکہ اس طرح گناہ دگنا چوگنا ہو جاتا ہے اور گناہ میں دوبارہ مبتلا ہونا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔
#
{16} {ولولا إذ سمِعْتُموه}؛ أي: وهلاَّ إذ سمعتُم أيها المؤمنون كلامَ أهل الإفك، {قلتم}: منكرين لذلك معظِّمين لأمرِه: {ما يكونُ لنا أن نتكَلَّمَ بهذا}؛ أي: ما ينبغي لنا وما يليقُ بنا الكلامُ بهذا الإفك المبين؛ لأنَّ المؤمن يمنعُه إيمانُه من ارتكاب القبائح. {هذا بهتانٌ}؛ أي: كذب {عظيمٌ}.
[16] ﴿ وَلَوْلَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ﴾ یعنی اے مومنو! جب تم نے بہتان تراشوں کی یہ باتیں سنیں ﴿ قُلْتُمْ ﴾ تو تم نے اس بہتان کا انکار کرتے ہوئے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کیوں نہ کہا؟ ﴿ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰؔذَا ﴾ اس واضح بہتان طرازی کے ساتھ کلام کرنا ہمارے لیے مناسب ہے نہ ہمارے لائق کیونکہ مومن کا ایمان اسے قبیح کاموں کے ارتکاب سے روکتا ہے۔﴿ هٰؔذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ ﴾ ’’یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔‘‘
#
{17} {يعِظُكم اللهُ أن تعودوا لمثلِهِ}؛ أي: لنظيره من رمي المؤمنين بالفُجور؛ فالله يعِظُكم وينصحُكم عن ذلك، ونعم المواعظ والنصائح من ربِّنا؛ فيجبُ علينا مقابلتُها بالقبول والإذعان والتسليم والشُّكر له على ما بيَّن لنا، أنَّ الله نِعِمَّا يَعِظُكم به. {إنْ كنتُم مؤمنينَ}: دلَّ ذلك على أنَّ الإيمان الصادق يمنعُ صاحبه من الإقدام على المحرَّمات.
[17] ﴿ یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِـمِثْلِهٖ٘ۤ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں نصیحت کرتا (روکتا) ہے کہ تم اہل ایمان پر بدکاری کے بہتان جیسے گناہ کا اعادہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں نصیحت کرتا ہے اور اس بارے میں تمھاری خیر خواہی کرتا ہے۔ ہمارے رب کے مواعظ اور نصائح کتنے اچھے ہیں ۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم انھیں قبول کریں ، ان کے سامنے سرتسلیم خم کریں ، ان کی پیروی کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمارے سامنے واضح کیا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ﴾ (النساء: 4؍58) ’’اللہ تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔‘‘﴿ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اگر تم مومن ہو۔‘‘ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایمان صادق، صاحب ایمان کو محرمات کے ارتکاب سے روکتا ہے۔
#
{18} {ويبيِّن اللهُ لكم الآياتِ}: المشتملة على بيان الأحكام والوعظِ والزجر والترغيب والترهيب، يوضِّحُها لكم توضيحاً جليًّا. {والله عليم (حكيم) }؛ أي: كامل العلم، عامُّ الحكمة؛ فمن علمِهِ وحكمتِهِ أن علَّمكم من علمه، وإنْ كان ذلك راجعاً لمصالحكم في كلِّ وقت.
[18] ﴿ وَیُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ﴾ ’’اور اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے۔‘‘ جو احکامات، وعظ و نصیحت، زجرو توبیخ اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان آیات کو خوب اچھی طرح واضح کرتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم والا ہے اور اس کی حکمت عام ہے۔ یہ اس کا علم اور اس کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے علم میں سے تمھیں علم سکھایا، اگرچہ یہ علم ہر وقت تمھارے اپنے مصالح کی طرف لوٹتا ہے۔
#
{19} {إنَّ الذين يحبُّونَ أن تشيعَ الفاحشةُ}؛ أي: الأمور الشنيعة المستَقْبَحة، فيحبُّون أن تشتهر الفاحشة {في الذين آمنوا لهم عذابٌ أليمٌ}؛ أي: موجع للقلب والبدن، وذلك لغشِّه لإخوانه المسلمين، ومحبة الشرِّ لهم، وجراءته على أعراضهم؛ فإذا كان هذا الوعيد لمجرَّد محبَّة أن تشيعَ الفاحشةُ واستحلاء ذلك بالقلب؛ فكيف بما هو أعظمُ من ذلك من إظهارِهِ ونقلِهِ؟ وسواء كانت الفاحشةُ صادرةً أو غير صادرةٍ، وكل هذا من رحمة الله لعباده المؤمنين، وصيانة أعراضهم؛ كما صان دماءهم وأموالهم، وأمرهم بما يقتضي المصافاة، وأن يحبَّ أحدُهم لأخيه ما يحبُّ لنفسه، ويكرَهَ له ما يكرَهُ لنفسه. {والله يعلم وأنتم لا تعلمون}: فلذلك علَّمكم، وبيَّن لكم ما تجهلونَه.
[19] ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَ٘شِیْعَ الْفَاحِشَةُ ﴾ ’’جو لوگ بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو چاہتے ہیں کہ قبیح امور کی اشاعت اور فواحش کا چلن ہو﴿ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اہل ایمان میں ، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ یعنی قلب و بدن کو سخت تکلیف دینے والا عذاب اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے لیے برا چاہا اور ان کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کی۔ صرف فواحش کی اشاعت کی خواہش اور دل میں ان کی چاہت کی بنا پر اتنی بڑی وعید سنائی ہے تو ان امور پر وعید کا کیا حال ہو گا جو اس سے زیادہ بڑے ہیں ، مثلاً: فواحش کا اظہار اور ان کو نقل کرنا، خواہ فواحش صادر ہوں یا صادر نہ ہوں ۔ یہ تمام احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے رحمت اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے۔ جس طرح اس نے ان کی جان و مال کی حفاظت کی اور ان کو ایسے امور کا حکم دیا جو خالص اور باہمی محبت کا تقاضا ہیں ، نیز انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور وہ کچھ ان کے لیے بھی ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں ۔﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمھیں تعلیم دی اور تم پر وہ سب کچھ واضح کیا جس سے تم لاعلم تھے۔
#
{20} {ولولا فضلُ الله عليكم}: قد أحاط بكم من كلِّ جانب {ورحمتُهُ} عليكم، {وأنَّ الله رءوفٌ رحيم}: لما بيَّن لكم هذه الأحكام والمواعظ والحِكَم الجليلة، ولمَا أمهلَ من خالف أمره، ولكنَّ فضلَه ورحمتَه، وأنَّ ذلك وصفه اللازم أثر لكم من الخيرِ الدنيويِّ والأخرويِّ ما لن تحصوه أو تعدُّوه.
[20] ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا۔‘‘ جس نے تمھیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے ﴿وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور اس کی رحمت اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔‘‘ تو وہ تمھارے سامنے یہ احکام، مواعظ اور جلیل القدر حکمتیں بیان نہ کرتا، نیز وہ اس شخص کو ڈھیل اور مہلت بھی نہ دیتا، جو اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے اور یہ اس کا وصف لازم ہے کہ اس نے تمھارے لیے دنیاوی اور اخروی بھلائی کو ترجیح دی جسے تم شمار نہیں کر سکتے۔
#
{21} ولما نهى عن هذا الذنب بخصوصِهِ؛ نهى عن الذُّنوب عموماً، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تتَّبِعوا خطواتِ الشيطانِ}؛ أي: طرقَه ووساوسَه. وخطواتُ الشيطان يدخُلُ فيها سائرُ المعاصي المتعلِّقة بالقلب واللسان والبدن. ومن حكمتِهِ تعالى أن بيَّن الحُكْمَ ـ وهو النهي عن اتِّباع خطوات الشيطان ـ والحِكْمة ـ وهو بيانُ ما في المنهيِّ عنه من الشرِّ المقتضي والداعي لتركه ـ، فقال: {ومَن يَتَّبِعْ خُطُواتِ الشيطانِ فإنَّه}؛ أي: الشيطان {يأمُرُ بالفحشاءِ}؛ أي: ما تستفحشُه العقول والشرائعُ من الذُّنوب العظيمة مع ميل بعض النفوس إليه، {والمنكَرِ}: وهو ما تُنْكِرُهُ العقولُ ولا تعرِفُه؛ فالمعاصي التي هي خُطُوات الشيطان لا تَخْرُجُ عن ذلك، فنهى الله عنها العبادَ نعمةً منه عليهم أن يشكُروه ويَذْكُروه؛ لأنَّ ذلك صيانةٌ لهم عن التدنُّس بالرذائل والقبائح؛ فمن إحسانِهِ عليهم أنْ نهاهم عنها كما نهاهم عن أكل السموم القاتلة ونحوها. {ولولا فضلُ اللهِ عليكُم ورحمتُهُ ما زكى منكُم من أحدٍ أبداً}؛ أي: ما تطهَّر من اتِّباع خطواتِ الشيطانِ؛ لأنَّ الشيطان يسعى هو وجندُه في الدعوة إليها وتحسينِها، والنفس ميالةٌ إلى السوء أمَّارةٌ به، والنقصُ مستولٍ على العبدِ من جميع جهاتِهِ، والإيمانُ غير قويٍّ؛ فلو خُلِّي وهذه الدواعي؛ ما زكى أحدٌ بالتطهُّرِ من الذُّنوب والسيئات والنماء بفعل الحسنات؛ فإنَّ الزكاء يتضمَّن الطهارة والنماء، ولكنَّ فضلَه ورحمتَه أوجبا أن يتزكَّى منكم من تزكَّى، وكان من دعاء النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: «اللهمَّ! آتِ نفسي تَقْواها، وزكِّها أنت خيرُ من زَكَّاها، أنت وَلِيُّها ومولاها». ولهذا قال: {ولكنَّ الله يزكِّي مَن يشاءُ}: من يعلمُ منه أن يتزكَّى بالتزكية، ولهذا قال: {والله سميعٌ عليمٌ}.
[21] جہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس گناہ کے ارتکاب سے منع کیا ہے وہاں عام طور پر دیگر گناہوں کے ارتکاب سے بھی روکا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ یعنی اس کے طریقوں اور اس کے وسوسوں کی پیروی نہ کرو۔ (خطوات الشیطان) ’’شیطان کے نقش قدم‘‘ میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو قلب، زبان اور بدن سے متعلق ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے تمھارے سامنے حکم واضح کیا اور وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے ممانعت ہے۔ اور حکمت ممنوع شدہ چیز میں جو شر ہے اس کے بیان کو کہتے ہیں جو اسے ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا داعی ہے۔ فرمایا:﴿ وَمَنْ یَّتَّ٘بِـعْ خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ فَاِنَّهٗ﴾ ’’اور جو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی تو بے شک وہ‘‘ یعنی شیطان﴿ یَ٘اْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ ﴾ ’’حکم دیتا ہے فحشاء کا۔‘‘ (فحشاء) سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو ان کی طرف بعض نفوس کے میلان کے باوجود شریعت اور عقل برا سمجھتی ہے۔﴿ وَالْمُنْؔكَرِ﴾ ’’اور منکر کا‘‘ اور (منکر) وہ گناہ ہیں جن کا عقل انکار کرتی ہے۔ پس تمام گناہ جو شیطان کے نقوش پا ہیں وہ اس صفت سے باہر نہیں نکلتے،اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ان گناہوں کے ارتکاب سے روکنا، ان پر اس کی نعمت کا فیضان ہے، وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں کیونکہ یہ ممانعت رذائل اور قبائح کی گندگی سے ان کی حفاظت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہے کہ اس نے بندوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکا جس طرح اس نے ان کو زہر قاتل وغیرہ کھانے سے روکا ہے۔ ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَؔكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ﴾ ’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔‘‘ یعنی تم میں سے کوئی بھی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر بندوں کو اپنے نقش قدم کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرتے رہتے ہیں اور نفس کی حالت تو یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتا ہے، بندے کو برائی کے ارتکاب کا حکم دیتا رہتا ہے اور نقص ہر جہت سے بندے پر غالب ہے اور ایمان قوی نہیں ہے اگر بندے کو ان داعیوں کے حوالے کر دیا جائے تو کوئی شخص بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کے اکتساب کے ذریعے پاک نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’تزکیہ‘‘ طہارت اور بڑھاؤ کا متضمن ہے۔ تم میں سے جس کسی نے اپنا تزکیہ کر لیا تو اس کے موجب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہیں ۔ نبی مصطفی e یہ دعا کیا کرتے تھے: ’اللّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِی تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاھَا اَنْتَ وَلِیُّھَا وَمَوْلَاھَا‘ ’’اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے پاک کر تو سب سے اچھا پاک کرنے والا ہے۔ تو اس کا والی اور مولا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الادعیۃ، ح: 2722 و سنن النسائي، الاستعاذۃ، باب الاستعاذۃ من العجز، ح:5460) بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَؔكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ اسی کو پاک کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم ہے کہ وہ تزکیہ کے ذریعے سے پاک ہونا چاہتا ہے اسی لیے فرمایا:﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘
#
{22} {ولا يَأتَلِ}؛ أي: لا يحلف {أولو الفضل منكُم والسَّعة أن يُؤتوا أولي القُربى والمساكينَ والمهاجرينَ في سبيل الله وَلْيَعْفوا وَلْيَصْفَحوا}: كان من جملة الخائضينَ في الإفك مِسْطَح بن أُثاثة، وهو قريبٌ لأبي بكرٍ الصديق رضي الله عنه، وكان مسطحٌ فقيراً من المهاجرين في سبيل الله، فحلفِ أبو بكرٍ أن لا يُنْفِقَ عليه؛ لقولِهِ الذي قال، فنزلتْ هذه الآيةُ [ينهاه] عن هذا الحَلِفَ المتضمِّن لقطع النفقة عنهُ، ويحثُّه على العفو والصفح، ويَعِدُهُ بمغفرةِ الله إنْ غَفَرَ له، فقال: {ألا تُحبُّونَ أن يَغْفِرَ اللهُ لكم واللهُ غفورٌ رحيمٌ}: إذا عامَلْتُم عبيدَه بالعفو والصفح؛ عاملكم بذلك، فقال أبو بكرٍ لمَّا سمع هذه الآية: بلى والله؛ إني لأحبُّ أن يَغْفِرَ الله لي، فَرَجَّعَ النفقةَ إلى مِسْطَحٍ. وفي هذه الآيةِ دليلٌ على النفقة على القريب، وأنَّه لا تُتْرَكُ النفقةُ والإحسانُ بمعصية الإنسان، والحثُّ على العفو والصفح ولو جرى منه ما جرى من أهل الجرائم.
[22] ﴿ وَلَا یَ٘اْتَلِ ﴾ یعنی قسم نہ اٹھائیں ﴿اُولُوا الْ٘فَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْ٘قُ٘رْبٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَالْ٘مُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَلْ٘یَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ﴾ ’’جو تم میں سے بزرگی اور کشادگی والے ہیں ، رشتے داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے اور چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں ۔‘‘ واقعۂ افک میں ملوث ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہt بھی شامل تھے جو ابوبکر صدیقt کے رشتہ دار تھے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والے اور انتہائی نادار تھے۔ مسطح بن اثاثہt کی بہتان طرازی کی وجہ سے ابوبکر صدیق t نے قسم کھالی کہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے (جو کہ اس سے وہ کیا کرتے تھے) اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قسم سے روکا جو انفاق فی سبیل اللہ کے منقطع کرنے کو متضمن تھی اور انھیں عفو اور درگزر کرنے کی ترغیب دی اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان تقصیر کاروں کو بخش دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ پس فرمایا: ﴿ا َلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ عفو اور درگزر کا معاملہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ بھی عفو اور درگزر کا معاملہ کرے گا۔ جب ابوبکر صدیقt نے یہ آیت کریمہ سنی تو انھوں نے کہا: ’’کیوں نہیں اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔‘‘ چنانچہ انھوں نے دوبارہ حضرت مسطحt کی مالی مدد شروع کر دی۔(صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿ان الذین یحبون ان تشیع…﴾، ح:4757 و صحیح مسلم، التوبۃ، باب فی حدیث الافک…، ح:2770) یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور بندے کی معصیت کی بنا پر یہ مالی مدد ترک نہیں کرنی چاہیے، نیز جرم کا ارتکاب کرنے والے سے خواہ کتنا ہی بڑا جرم سرزد کیوں نہ ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے عفو اور درگزر کی ترغیب دی ہے۔
#
{23} ثم ذكر الوعيدَ الشديدَ على رمي المحصنات، فقال: {إنَّ الذين يَرْمونَ المحصناتِ}؛ أي: العفائف عن الفجور {الغافلاتِ}: اللاتي لم يَخْطُرْ ذلك بقلوبهنَّ، {المؤمناتِ لُعِنوا في الدُّنيا والآخرة}: واللعنةُ لا تكونُ إلاَّ على ذنبٍ كبيرٍ، وأكَّد اللعنة بأنها متواصلة عليهم في الدارين. {ولهم عذابٌ عظيمٌ}: وهذا زيادةٌ على اللعنة، أبعدَهم عن رحمتِهِ وأحلَّ بهم شدَّة نقمتِهِ، وذلك العذاب يوم القيامة.
[23] پھر اللہ تعالیٰ نے عفت مآب عورتوں پر بہتان لگانے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ﴾ ’’وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر۔‘‘ یعنی فسق و فجور سے پاک عورتیں ﴿ الْغٰفِلٰ٘تِ الْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ ’’بے خبر، مومن عورتوں پر۔‘‘ یعنی جن کے دلوں میں کبھی بدکاری کا خیال بھی نہیں گزرا ﴿ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ ’’ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے۔‘‘ اور لعنت صرف کسی بڑے گناہ ہی پر کی جاتی ہے اور لعنت کو موکد اسی طرح کیا گیا ہے کہ اس کا دنیا و آخرت میں ان کو مورد قرار دیا گیا ہے﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔‘‘ یہ عذاب عظیم اس لعنت پر مستزاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا اور ان پر اپنا غضب نازل فرمایا۔یہ عذاب عظیم قیامت کے روز ہو گا۔
#
{24} {يوم تشهدُ عليهم ألسِنَتُهم وأيديهم وأرْجُلُهم بما كانوا يعملونَ}: فكلُّ جارحةٍ تشهدُ عليه بما عَمِلَتْه، يُنْطِقُها الذي أنطق كلَّ شيءٍ؛ فلا يمكنه الإنكار، ولقد عدل في العباد مَنْ جَعَلَ شهودَهم من أنفسهم.
[24] ﴿ یَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْ٘سِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ جس قیامت کے روز ہر عضو اپنے اعمال کی گواہی دے گا اور وہ ہستی انھیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے پس بندے سے گناہوں کا انکار ممکن نہ ہو گا۔ یقینا وہ ہستی جس نے بندوں کے نفوس ہی میں سے گواہ برپا كيے اس نے بندوں کے ساتھ انصاف کیا۔
#
{25} {يومئذٍ يوفِّيهم الله دينَهُمُ الحقَّ}؛ أي: جزاءهم على أعمالهم الجزاء الحقَّ الذي بالعدل والقسط؛ يجدون جزاءها موفَّراً لم يفقدوا منها شيئاً، {وقالوا يا وَيْلَتَنا مالِ هذا الكتابِ لا يغادرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها وَوَجَدوا ما عَمِلوا حاضراً ولا يَظْلِمُ ربُّكَ أحداً}، {ويعلمونَ} في ذلك الموقف العظيم {أنَّ اللهَ هو الحقُّ المبينُ}، فيعلمون انحصار الحقِّ المبين في الله تعالى؛ فأوصافُه العظيمةُ حقٌّ، وأفعالُه هي الحقُّ، وعبادتُه هي الحقُّ، ولقاؤه حقٌّ، [ووعدُه] ووعيدُه حقٌّ، وحكمه الدينيُّ والجزائيُّ حقٌّ، ورسلُه حقٌّ؛ فلا ثَمَّ حقٌّ إلاَّ في الله، وما مِن الله.
[25] ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ ﴾ ’’اس دن اللہ ان کو حق کے مطابق پوری پوری جزا دے گا۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کا بدلہ حق کے ساتھ ہو گا جو عدل و انصاف پر مبنی ہو گا۔ ان کو اپنے اعمال کی پوری پوری جزا ملے گی اور وہ ان اعمال میں سے کوئی چیز مفقود نہ پائیں گے۔ ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف:18؍49) ’’اور پکار اٹھیں گے ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے چھوٹی اور بڑی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو اس میں درج نہ ہوئی ہو اور انھوں نے جو عمل كيے ان سب کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تیرا رب ذرہ بھر کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ اس عظیم مقام پر انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق مبین ہے، انھیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ واضح حق اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے۔ اس کے تمام اوصاف عظیم حق ہیں ، اس کے افعال حق ہیں ، اس کی عبادت حق ہے، اس سے ملاقات ہونا حق ہے، اس کی وعید حق ہے، اسکا حکم دینی و جزائی حق ہے اور اس کے رسول حق ہیں ۔ پس حق صرف اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ حق ہے۔
#
{26} {الخبيثاتُ للخبيثين والخبيثونَ للخبيثاتِ}؛ أي: كلُّ خبيثٍ من الرجال والنساء والكلماتِ والأفعال مناسبٌ للخبيثِ وموافقٌ له ومقترنٌ به ومشاكلٌ له، وكلُّ طيبٍ من الرجال والنساءِ والكلماتِ والأفعال مناسبٌ للطيِّبِ وموافقٌ له ومقترنٌ به ومشاكلٌ له؛ فهذه كلمةٌ عامةٌ وحصرٌ لا يخرجُ منه شيءٌ، من أعظم مفرداتِهِ أنَّ الأنبياء، خصوصاً أولي العزم منهم، خصوصاً سيدهم محمد - صلى الله عليه وسلم -، الذي هو أفضلُ الطيِّبين من الخلق على الإطلاق، لا يناسِبُهم إلاَّ كلُّ طيبٍ من النساء؛ فالقدح في عائشة رضي الله عنها بهذا الأمر قدحٌ في النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -، وهو المقصودُ بهذا الإفك من قصد المنافقين؛ فمجرَّدُ كونِها زوجةً للرسول - صلى الله عليه وسلم - يعلمُ أنَّها لا تكون إلاَّ طيبةً طاهرةً من هذا الأمر القبيح؛ فكيف وهي ما هي صديقةُ النساء وأفضلُهن وأعلمُهن وأطيبُهن حبيبةُ رسول ربِّ العالمين التي لم ينزِلِ الوحيُ عليه وهو في لحافِ زوجةٍ من زوجاتِهِ غيرها ؟! ثم صرَّح بذلك بحيثُ لا يبقى لمبطلٍ مقالاً، ولا لشكٍّ وشبهةٍ مجالاً، فقال: {أولئك مبرَّؤونَ مما يقولونَ}: والإشارةُ إلى عائشة رضي الله عنها أصلاً، وللمؤمناتِ المحصناتِ الغافلاتِ تبعاً لها. {مغفرةٌ}: تستغرق الذنوب. {ورزقٌ كريمٌ}: في الجنة صادرٌ من الربِّ الكريم.
[26] ﴿ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ۠ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ﴾ یعنی تمام ناپاک مردوزن، تمام ناپاک کلمات اور تمام ناپاک افعال ناپاک شخص کے لائق اور اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں اور تمام پاک مردوزن، پاک کلمات اور پاک افعال پاک شخص کے لائق، اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ یہ ایک عام اصول ہے اس سے کوئی چیز باہر نہیں ۔ اس کا سب سے بڑا اور اہم اطلاق انبیائے کرام پر ہوتا ہے، انبیائے کرامo، خاص طور پر اولوالعزم انبیاء ورسلo اور ان میں بھی خاص طور پر سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیe، جو تمام مخلوق میں علی الاطلاق سب سے زیادہ طیب و طاہر ہیں ، کے لائق اور مناسب حال صرف طیبات و طاہرات عورتیں ہی ہو سکتی ہیں ۔ بنابریں اس بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ r میں جرح و قدح خود رسول اللہ e میں جرح و قدح ہے۔ اس بہتان طرازی سے منافقین کا مقصد بھی یہی تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہr کے رسول اللہ e کی بیوی ہونے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس قبیح بہتان سے پاک ہیں ۔ تب ان کے بارے میں کیسے قبیح بات کہی جا سکتی ہے جبکہ ان کی اتنی بڑی شان ہے؟ وہ عورتوں میں ’’صدیقہ‘‘ کے مرتبے پر فائز ہیں ، عورتوں میں سب سے افضل، سب سے زیادہ عالمہ سب سے زیادہ طیبہ وطاہرہ اور رب العالمین کے رسول (e)کی محبوبہ ہیں ۔ صرف حضرت عائشہ r تھیں کہ آپ ان کے لحاف میں ہوتے تو آپ پر وحی نازل ہوتی دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی اور کو یہ فضیلت حاصل نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرح تصریح فرمائی کہ کسی باطل پسند کے لیے کسی بات اور کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی، چنانچہ فرمایا:﴿اُولٰٓىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ﴾ ’’یہ لوگ پاک ہیں ان باتوں سے جو لوگ (ان کی بابت) کہتے ہیں ۔‘‘ اصولاً یہ اشارہ حضرت عائشہ صدیقہr کی طرف ہے اور تبعاً دیگر مومن، پاک دامن اور بھولی بھالی بے خبر عورتوں کی طرف ہے﴿ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ ﴾ ’’ان کے لیے بخشش ہے۔‘‘ جو سارے گناہوں پر حاوی ہو گی ﴿ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ ﴾ ’’اور باعزت رزق‘‘ جو جنت میں رب کریم کی طرف سے صادر ہو گا۔
آیت: 27 - 29 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (27) فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (28) لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ (29)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ داخل ہو تم (اور) گھروں میں سوائے اپنے گھروں کے حتی کہ تم اجازت لے لواور سلام کرو اوپر ان گھر والوں کے، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (27)پس اگر نہ پاؤ تم ان میں کسی کو تو نہ داخل ہو تم ان میں حتی کہ اجازت دی جائے تمھیں اور اگر کہا جائے تمھیں ، لوٹ جاؤ تم تو لوٹ جاؤ تم، یہ (واپسی) بہت پاکیزہ ہے تمھارے لیےاور اللہ، ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خوب جاننے والا ہے (28) نہیں ہے تم پر کوئی گناہ یہ کہ داخل ہو تم ایسے گھروں میں کہ نہیں سکونت کی جاتی ان میں ،ان میں منفعت (فائدہ) ہے تمھارے لیے اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو (29)
#
{27} يُرشد الباري عبادَه المؤمنين أن لا يدخُلوا بيوتاً غير بيوتهم بغيرِ استئذانٍ؛ فإنَّ في ذلك عدَّةَ مفاسدَ: منها: ما ذكرهُ الرسولُ - صلى الله عليه وسلم -: حيث قال: «إنَّما جُعِلَ الاستئذانُ من أجل البصرِ» ؛ فبسبب الإخلال به يقع البصر على العوراتِ التي داخل البيوت؛ فإنَّ البيت للإنسان في ستر عورةِ ما وراءه بمنزلة الثوبِ في ستر عورةِ جسدِهِ. ومنها: أنَّ ذلك يوجب الرِّيبةَ من الداخل، ويتَّهم بالشرِّ سرقةٍ أو غيرها؛ لأنَّ الدُّخول خفيةً يدلُّ على الشرِّ، ومنع الله المؤمنين من دخول غير بيوتهم {حتى تَسْتَأنِسوا }؛ أي: تستأذنوا، سمى الاستئذانَ استئناساً؛ لأنَّ به يحصُلُ الاستئناس، وبعدمه تحصُل الوحشةُ، {وتُسَلِّموا على أهلها}: وصفة ذلك ما جاء في الحديث: «السلام عليكم، أأدخل؟». {ذلكم}؛ أي: الاستئذان المذكور {خيرٌ لكم لعلَّكم تَذَكَّرون}: لاشتماله على عدَّة مصالح، وهو من مكارم الأخلاق الواجبة؛ فإن أذن؛ دخل المستأذن.
[27] اللہ باری تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل نہ ہوا کریں کیونکہ اس میں متعدد مفاسد ہیں: (۱) جس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ e نے فرمایا: ’’اجازت طلبی نظر پڑنے سے بچاؤ ہی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الاستئذان، باب الاستئذان من اجل البصر، ح:6241 و صحیح مسلم، الآداب، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ، ح:2156) اجازت طلبی میں خلل واقع ہو جانے سے گھر کے اندر ستر پر نظر پڑتی ہے۔ کیونکہ گھر انسان کے لیے باہر کے لوگوں سے ستر اور پردہ ہے جیسے کپڑا جسم کو چھپاتا ہے۔ (۲) اجازت طلب كيے بغیر گھر میں داخل ہونا، داخل ہونے والے کے بارے میں شک کا موجب ہے اور وہ برائی یعنی چوری وغیرہ سے متہم ہوتا ہے کیونکہ گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونا شر پر دلالت کرتا ہے… اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اجازت طلب نہ کر لیں ۔ یہاں (استئذان) کو (استئناس) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے معدوم ہونے سے وحشت حاصل ہوتی ہے۔﴿ وَتُ٘سَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا ﴾ ’’اور گھر میں رہنے والوں کو سلام کرو۔‘‘ حدیث شریف میں اس کا یہ طریقہ بیان ہوا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کہو : ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ! اور پھر پوچھو، کیا میں اندر آجاؤں ؟‘‘(سنن ابی داود، الأدب، باب کیف الاستئذان، ح:5177) ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ یعنی یہ مذکورہ اجازت طلبی﴿ خَیْرٌ لَّـكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’تمھارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔‘‘ کیونکہ اجازت طلبی متعدد مصالح پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ایسے مکارم اخلاق میں ہوتا ہے جن کو اپنانا واجب ہے۔ پس اگر گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اجازت طلب کرنے والے کو داخل ہونا چاہیے۔
#
{28} {فإن لم تجدوا فيها أحداً}: فلا تدخلوا فيها {حتى يُؤْذَنَ لكم وإن قيلَ لكم ارجِعوا فارجِعوا}؛ أي: فلا تمتنعوا من الرُّجوع ولا تغضبوا منه؛ فإنَّ صاحب المنزل لم يمنَعْكم حقًّا واجباً لكم، وإنَّما هو متبرعٌ؛ فإنْ شاء أذن أو منع؛ فأنتم لا يأخذ أحدكم الكبرُ والاشمئزازُ من هذه الحال؛ {هو أزكى لكم}؛ أي: أشدُّ لتطهيركم من السيئاتِ وتنميتكم بالحسنات. {والله بما تعملونَ عليم}: فيجازي كلَّ عامل بعملِهِ من كثرةٍ وقلَّةٍ وحسنٍ وعدمِهِ.
[28] ﴿ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَاِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ﴾ ’’اگر وہاں تمھیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر بھی اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ اور اگر تمھیں لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ جاؤ۔‘‘ یعنی اگر تمھیں واپس لوٹنے کے لیے کہا جائے تو انکار نہ کرو اور نہ اس پر ناراضی ہی کا اظہار کرو کیونکہ صاحب خانہ نے تمھیں کسی ایسے امر سے نہیں روکا جو تمھارا حق واجب ہو یہ تو اس کی صوابدید اور نوازش ہے چاہے اجازت دے، چاہے انکار کر دے۔ تم میں سے کسی کو ہتک اور انقباض محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ﴿ هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ﴾ تمھیں برائیوں سے پاک کرنے اور تمھاری نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لیے یہ طریق کار تمھارے لیے بہتر ہے﴿ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے تھوڑے یا زیادہ، اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دے گا۔
#
{29} هذا الحكم في البيوت المسكونة سواء كان فيها متاعٌ للإنسان أم لا، وفي البيوت غير المسكونة التي لا متاع فيها للإنسان، وأما البيوتُ التي ليس فيها أهلُها، وفيها متاعُ الإنسان المحتاج للدخول إليه، وليس فيها أحدٌ يتمكَّن من استئذانه، وذلك كبيوت الكراء وغيرها؛ فقد ذكرها بقوله: {ليس عليكم جُناحٌ}؛ أي: حرجٌ وإثمٌ؛ دلَّ على أنَّ الدُّخول من غير استئذان في البيوت السابقة أنه محرَّم وفيه حرج {أن تدخُلوا بيوتاً غير مسكونةٍ فيها متاعٌ لكم}: وهذا من احترازاتِ القرآن العجيبةِ؛ فإنَّ قولَه: {لا تدخُلوا بيوتاً غير بيوتكم}: لفظٌ عامٌّ في كل بيت ليس ملكاً للإنسان، أخرج منه تعالى البيوتَ التي ليست ملكَه وفيها متاعُهُ وليس فيها ساكنٌ، فأسقط الحرج في الدُّخول إليها. {والله يعلم ما تُبدونَ وما تكتُمون}: أحوالَكم الظاهرةَ والخفيَّة، وعلم مصالِحَكُم؛ فلذلك شَرَعَ لكم ما تحتاجون إليه وتضطرُّون من الأحكام الشرعيَّة.
[29] یہ حکم ان گھروں کے لیے ہے جو آباد ہیں خواہ ان میں آدمی کا مال ومتاع موجود ہو یا نہ ہو۔ نیز یہ حکم ان گھروں کے لیے بھی ہے جن میں رہائش نہ ہو مگر اس میں آدمی کا کوئی مال و متاع موجود ہو۔ رہے وہ گھر جن میں گھر والے رہائش نہ رکھے ہوئے ہوں اس گھر میں داخل ہونے کے ضرورت مند شخص کا مال و متاع اس گھر میں موجود ہو، اس گھر میں گھر کے مالکان میں سے کوئی ایسا شخص بھی موجود نہ ہو جس سے اجازت طلب کی جا سکتی ہو ، مثلاً: کرائے کے مکانات وغیرہ… تو ایسے گھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ ﴾ ان گھروں میں داخل ہونے میں تمھارے لیے کوئی حرج ہے نہ گناہ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا گھروں میں اجازت حاصل كيے بغیر داخل ہونا حرام ہے اور اس میں حرج اور گناہ ہے۔﴿ اَنْ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ﴾ ’’یہ کہ ایسے گھروں میں تم داخل ہو جن میں رہائش نہ ہو، البتہ اس میں تمھارا سامان ہو۔‘‘ یہ حکم قرآن کریم کے تعجب انگیز احترازات میں سے ایک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ ﴾ ’’اپنے گھروں کے سوا، دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو۔‘‘ ہر گھر کے بارے میں لفظ عام ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں سے ان گھروں کو خارج کر دیا جو اس کی ملکیت میں تو نہیں ہیں البتہ اس کی کوئی متاع وہاں موجود ہے اور اس گھر میں کسی کی رہائش نہیں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اس گھر میں داخل ہونے میں حرج کو ساقط کر دیا۔ ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْ٘تُمُوْنَ ﴾ اللہ تعالیٰ تمھارے تمام ظاہری اور باطنی احوال کو خوب جانتا ہے اور اسے تمھارے مصالح کا بھی علم ہے، اس لیے اس نے تمھارے لیے ایسے احکام کی تشریع کی ہے جن کے تم محتاج اور ضرورت مند ہو۔
آیت: 30 #
{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30)}.
آپ کہہ دیجیے مومن مردوں سے، پست رکھیں وہ اپنی نگاہیں اور حفاظت کریں اپنی شرم گاہوں کی یہ بہت پاکیزہ ہے ان کے لیے، بلاشبہ اللہ خوب خبر دار ہے ساتھ ان (کاموں ) کے جو وہ کرتے ہیں (30)
#
{30} أي: أرشدِ المؤمنين وقُلْ لهم: الذين معهم إيمانٌ يمنعُهم من وقوع ما يُخِلُّ بالإيمان {يغضُّوا من أبصارِهم}: عن النظر إلى العورات وإلى النساء الأجنبيَّات وإلى المُرْدانِ، الذين يُخاف بالنظرِ إليهم الفتنة وإلى زينة الدُّنيا التي تفتنُ وتوقِعُ في المحذور. {ويحفَظُوا فروجَهم}: عن الوطء الحرام في قُبُل أو دُبُر أو ما دونَ ذلك وعن التمكين من مسِّها والنظر إليها. {ذلك}: الحفظُ للأبصار والفروج {أزكى لهم}: أطهرُ وأطيبُ وأنمى لأعمالهم؛ فإنَّ من حَفِظَ فرجَه وبصرَه؛ طَهُرَ من الخَبَثِ الذي يتدنَّس به أهلُ الفواحش، وزَكَتْ أعمالُه بسبب تركِ المحرَّم الذي تطمعُ إليه النفس وتدعو إليه؛ فمن تَرَكَ شيئاً لله؛ عوَّضَه الله خيراً منه، ومن غضَّ بصره عن المحرم أنار الله بصيرتَه، ولأنَّ العبد إذا حَفِظَ فرجَه وبصرَه عن الحرام ومقدّماته مع دواعي الشهوة؛ كان حفظُه لغيرِهِ أبلغَ، ولهذا سمَّاه الله حفظاً؛ فالشيء المحفوظُ إن لم يجتهدْ حافظُهُ في مراقبتِهِ وحفظِهِ وعمل الأسباب الموجبة لحفظِهِ؛ لم يَنْحَفِظْ، كذلك البصر والفرج إن لم يجتهدِ العبدُ في حفظِهِما؛ أوقعاه في بلايا ومحنٍ. وتأمَّل كيف أمر بحفظِ الفرج مطلقاً لأنَّه لا يُباح في حالةٍ من الأحوال، وأما البصرُ؛ فقال: {يَغُضُّوا مِنْ أبصارِهم}: أتى بأداة مِنْ الدالَّة على التبعيض؛ فإنَّه يجوز النظر في بعض الأحوال لحاجةٍ؛ كنظر الشاهدِ والمعامل والخاطبِ ونحو ذلك. ثم ذكَّرهم بعلمِهِ بأعمالهم ليجتهِدوا في حفظ أنفسِهِم من المحرَّمات.
[30] ﴿ قُ٘لْ لِّلْ٘مُؤْمِنِیْنَ﴾ مومنوں سے فرمائیے اور ان لوگوں سے کہہ دیجیے جن کے پاس کچھ ایمان ہے جو انھیں ایسے امور میں پڑنے سے روکتا ہے جو ایمان میں خلل ڈالتے ہیں ۔ ﴿ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ﴾ ’’وہ اپنی نظروں کو پست رکھیں ۔‘‘ یعنی قابل ستر اور اجنبی عورتوں کی طرف سے اپنی نظروں کو ہٹا لیا کریں ، ان بے ریش لڑکوں پر سے بھی نظر ہٹا لیں جن کو دیکھنے سے فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو، نیز دنیا کی زیب و زینت کی طرف بھی جن کو دیکھ کر فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو اور جو حرام میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔ ﴿ وَیَحْفَظُوْا فُ٘رُوْجَهُمْ﴾ یعنی عورتوں یا مردوں کے ساتھ بدکاری یا ان کے علاوہ دوسری صورتوں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ اسی طرح ان کو چھونے اور ان کو دیکھنے سے بچیں ۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ آنکھوں اور شرم گاہ کی یہ حفاظت﴿ اَزْكٰى لَهُمْ﴾ ان کے لیے زیادہ طہارت، پاکیزگی اور ان کے اعمال خیر میں زیادہ اضافے کا باعث ہے کیونکہ جو کوئی اپنی نظر اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے وہ اس گندگی سے پاک ہو جاتا ہے جس میں فواحش کے مرتکب لوگ ملوث ہوتے ہیں اور ان محرمات کو ترک کرنے سے، نفس جن کی خواہش کرتا اور ان کی طرف دعوت دیتا ہے، اعمال خیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی چیز ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے۔ جو کوئی اپنی آنکھوں کو حرام پر پڑنے سے بچائے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی بصیرت کو روشن کر دیتا ہے… نیز اگر بندہ اپنی شرم گاہ اور نظر کو حرام اور اس کے مقدمات میں پڑنے سے بچا سکتا ہے درآں حالیکہ شہوت کا داعیہ پوری طرح موجود ہو تو وہ دوسرے حرام میں پڑنے سے اپنے آپ کو زیادہ بچا سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ’’حفاظت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پس کسی محفوظ چیز کی حفاظت کے لیے نگرانی اور ان اسباب کو بروئے کار نہ لایا جائے جو اس کی حفاظت کے موجب بنیں تو وہ چیز محفوظ نہیں رہ سکتی۔اسی طرح نظر اور شرم گاہ کا معاملہ ہے، اگر بندہ ان کی حفاظت کی کوشش نہیں کرتا تو وہ ان کو آزمائشوں اور مصیبتوں میں ڈال دیتی ہیں ۔ علاوہ ازیں غور کیجیے، اللہ تعالیٰ نے کیسے شرم گاہ کی حفاظت کا مطلق طور پر حکم دیا ہے کیونکہ شرم گاہ (کا غلط استعمال) کسی حالت میں بھی جائز نہیں ۔ لیکن نظر کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ ﴾ حرف جار (مِنْ) تبعیض پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بعض حالات میں ، کسی ضرورت کے تحت غیر محرم چہروں کو دیکھنا جائز ہے، مثلاً: گواہ، حاکم اور نکاح کا پیغام دینے والے کے لیے غیر محرم چہروں پر نظر ڈالنا جائز ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے کئی اعمال کا ذکر فرمایا ہے تاکہ لوگ محرمات سے اپنے نفسوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں ۔
آیت: 31 #
{وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (31)}.
او رآپ کہہ دیجیے مومن عورتوں سے، پست رکھیں وہ اپنی نظریں اور حفاظت کریں وہ اپنی شرم گاہوں کی اور نہ ظاہر کریں وہ اپنا بناؤ سنگھار مگر جو ظاہر ہو اس میں سے اورچاہیے کہ ڈالے رہیں وہ اپنی اوڑھنیاں اوپر اپنے گریبانوں کے اور نہ ظاہر کریں وہ اپنا بناؤ سنگھار مگر اپنے خاوندوں کے لیے یااپنے باپ دادا کے لیے یا باپ داداکے لیے اپنے خاوندوں کے یا اپنے بیٹوں کے لیے یا بیٹوں کے لیے اپنے شوہروں کے یا اپنے بھائیوں کے لیے یا بیٹوں کے لیے اپنے بھائیوں کے یا بیٹوں کے لیے اپنی بہنوں کے یا اپنی (مسلمان) عورتوں کے لیے یا ان کے جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ یا ان نوکروں چاکروں کے لیے جو نہیں حاجت مند عورتوں کے ، مردوں میں سے یا ان لڑکوں کے لیے جو نہیں واقف اوپر چھپی باتوں کے عورتوں کی اور نہ ماریں وہ (عورتیں ) پاؤں اپنے (زمین پر) تاکہ جانا جائے وہ جو چھپاتی ہیں وہ اپنے بناؤ سنگھار سے اور توبہ کرو تم طرف اللہ کی سارے ہی، اے مومنو! تاکہ تم فلاح پاؤ (31)
#
{31} لما أمر المؤمنين بغضِّ الأبصار وحفظ الفروج؛ أمر المؤمناتِ بذلك، فقال: {وقُل للمؤمنات يَغْضُضْنَ من أبصارِهِنَّ}: عن النظر إلى العورات والرجال بشهوةٍ ونحو ذلك من النظر الممنوع. {ويَحْفَظْنَ فروجَهُنَّ}: من التمكين من جماعها أو مسِّها أو النظر المحرَّم إليها، {ولا يُبْدينَ زينَتَهُنَّ}: كالثياب الجميلة والحلي وجميع البدن كلِّه من الزينة. ولما كانت الثيابُ الظاهرة لا بدَّ لها منها؛ قال: {إلاَّ ما ظَهَرَ منها}؛ أي: الثياب الظاهرة التي جرتِ العادةُ بلبسها إذا لم يكنْ في ذلك ما يدعو إلى الفتنة بها، {وَلْيَضْرِبْنَ بخُمُرِهِنَّ على جيوبهنَّ}: وهذا لكمال الاستتار. ويدلُّ ذلك على أن الزينةَ التي يحرُمُ إبداؤها يدخل فيها جميعُ البدن كما ذكرنا. ثم كرَّر النهي عن إبداء زينتهن؛ ليستثني منه قوله: {إلاَّ لِبُعولَتِهِنَّ}؛ أي: أزواجهنَّ، {أو آبائهنَّ أو آباء بعولتهنَّ}: يشمل الأبَ بنفسه والجدَّ وإنْ علا، [{أو أبنائهنَّ أو أبناءِ بُعُولَتِهِنّ}: ويدخل فيه الأبناء، أو أبناء البعولة مهما نزلوا]، {أو إخوانهنَّ أو بني إخوانهنَّ}: أشقاء أو لأب أو لأم. {أو بني أخواتِهِنَّ أو نسائهنَّ}؛ أي: يجوز للنساء أن يَنْظُرَ بعضُهُنَّ إلى بعض مطلقاً، ويُحتمل أنَّ الإضافة تقتضي الجنسية؛ أي: النساء المسلمات اللاتي من جنسكنَّ؛ ففيه دليلٌ لِمَنْ قال: إنَّ المسلمةَ لا يجوزُ أن تَنْظُرَ إليها الذِّمِّيَّةُ، {أو ما ملكتْ أيمانُهُنَّ}: فيجوز للمملوك إذا كان كلُّه للأنثى أن يَنْظُرَ لسيِّدَتِه ما دامت مالكةً له كلَّه؛ فإذا زال الملكُ أو بعضُه؛ لم يجزِ النظر، {أو التابعينَ غيرِ أولي الإرْبَةِ من الرجال}؛ أي: [أو] الذين يَتْبَعونَكم ويتعلَّقون بكم من الرجال الذين لا إربةَ لهم في هذه الشهوة؛ كالمعتوه الذي لا يدري ما هنالك، وكَالْعِنِّين الذي لم يبقَ له شهوةٌ لا في فرجه ولا في قلبه؛ فإنَّ هذا لا محذورَ من نظرِهِ. {أو الطفل الذين لم يَظْهَروا على عوراتِ النساءِ}؛ أي: الأطفال الذين دونَ التمييزِ؛ فإنَّه يجوز نَظَرُهم للنساء الأجانب، وعلَّل تعالى ذلك بأنَّهم {لم يظهروا على عورات النساءِ}؛ أي: ليس لهم علمٌ بذلك، ولا وجدتْ فيهم الشهوةُ بعدُ، ودلَّ هذا أنَّ المميِّز تستترُ منه المرأةُ؛ لأنَّه يظهرُ على عوراتِ النساء. {ولا يَضْرِبنَ بأرجلهنَّ لِيُعْلَمَ ما يُخفينَ من زينتهنَّ}؛ أي: لا يَضْرِبْنَ الأرض بأرجُلِهِنَّ ليصوِّتَ ما عليهنَّ من حلي كخلاخل وغيرها، فَتُعْلَمَ زينتُها بسببه، فيكونَ وسيلةً إلى الفتنة. ويؤخَذُ من هذا ونحوه قاعدةُ سدِّ الوسائل، وأن الأمر إذا كان مباحاً ولكنَّه يفضي إلى محرم أو يُخاف من وقوعه؛ فإنَّه يمنع منه. فالضَّرْبُ بالرجل في الأرض الأصلُ أنَّه مباحٌ، ولكن لما كان وسيلةً لعلم الزينة؛ منع منه. ولما أمر تعالى بهذه الأوامر الحسنة، ووصَّى بالوصايا المستحسنة، وكان لا بدَّ من وقوع تقصيرٍ من المؤمن بذلك؛ أمر الله تعالى بالتوبة، فقال: {وتوبوا إلى الله جميعاً أيُّها المؤمنون}، [لأن المؤمنَ يدعوه إيمانه إلى التوبة]. ثم علَّق على ذلك الفلاح، فقال: {لعلَّكم تفلحونَ}: فلا سبيلَ إلى الفلاح إلاَّ بالتوبة، وهي الرجوع مما يكرهُهُ الله ظاهراً وباطناً إلى ما يحبُّه ظاهراً وباطناً. ودلَّ هذا أنَّ كلَّ مؤمن محتاجٌ إلى التوبة؛ لأنَّ الله خاطب المؤمنين جميعاً. وفيه الحثُّ على الإخلاص بالتوبة في قوله: {وتوبوا إلى الله}؛ أي: لا لمقصد غير وجهه من سلامةٍ من آفات الدُّنيا أو رياءٍ وسمعة، أو نحو ذلك من المقاصد الفاسدة.
[31] اللہ تعالیٰ نے مومنین کو نظریں جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا تو مومنات کو بھی نظر جھکانے اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا۔ فرمایا: ﴿ وَقُ٘لْ لِّلْ٘مُؤْمِنٰتِ یَغْ٘ضُ٘ضْ٘نَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ﴾ ’’اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے! کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔‘‘ یعنی وہ ستر کی جگہوں اور مردوں پر شہوت کی نظر ڈالنے سے اپنی آنکھوں کو بچائے رکھیں ﴿ وَیَحْفَ٘ظْ٘نَ فُ٘رُوْجَهُنَّ ﴾ اور جماع حرام سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، نیز شرم گاہوں کو چھونے اور ان کی طرف حرام نظر سے ان کی حفاظت کریں ۔ ﴿ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَ٘تَهُنَّ ﴾ ’’اور اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں ‘‘مثلاً: خوبصورت لباس، زیورات اور تمام بدن زینت میں شمار ہوتے ہیں ۔ چونکہ ظاہری لباس جس کو عادت کے مطابق پہنا جاتا ہے، کی نمائش کو نہیں روکا جا سکتا اس لیے فرمایا: ﴿ اِلَّا مَا ظَ٘هَرَ مِنْهَا ﴾ ’’مگر جو اس (زینت) سے ظاہر ہو۔‘‘ یعنی وہ ظاہری لباس، جو عام طور پر پہنا جاتا ہے، اس لباس میں ایسی کوئی چیز نہ ہو جو فتنہ کو دعوت دیتی ہو۔ ﴿ وَلْ٘یَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ﴾ ’’اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ۔‘‘ اور یہ حکم کامل سترپوشی کے لیے ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ وہ زینت جس کی نمائش حرام ہے اس میں تمام بدن داخل ہے جیسا کہ ہم اس کا ذکر کر چکے ہیں ، پھر زیب و زینت کی نمائش سے مکرر منع کرتے ہوئے اس میں سے ان لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا:﴿ اِلَّا لِبُعُوْلَ٘تِهِنَّ ﴾ یعنی اپنے شوہروں کے سامنے زینت کا اظہار جائز ہے۔ ﴿ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَ٘تِهِنَّ ﴾ ’’یا ان کے اپنے باپ دادا یا ان کے شوہروں کے باپ دادا کے سوا‘‘ یعنی اس استثناء میں باپ دادا اوپر تک شامل ہیں ۔ ﴿ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَ٘تِهِنَّ ﴾ اور اس میں اپنے بیٹے، اپنے خاوندوں کے بیٹے اور پوتے اور پرپوتے بھی، نیچے تک شامل ہیں ۔ ﴿ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ ﴾ ’’یا بھائی یا بھتیجے‘‘ خواہ وہ حقیقی (عینی)، علاتی (با پ شریک) یا اخیافی (ماں شریک) بھائی ہوں ۔ ﴿ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ ﴾ ’’یا بھانجے یا ان کی عورتیں ۔‘‘ یعنی مسلمان عورتوں کے لیے ایک دوسری پر نظر ڈالنا مطلقاً جائز ہے۔ اس میں اس امر کا احتمال بھی ہے کہ اضافت جنسیت کی مقتضی ہو، یعنی اپنی ’’عورتوں ‘‘ سے مراد مسلمان عورتیں ہیں جو تمھاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں تب اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے جن کا موقف ہے کہ مسلمان عورت کی طرف ذمی عورت کا دیکھنا جائز نہیں ۔ ﴿ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُ٘هُنَّ ﴾ ’’یا جن کے تمھارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے۔‘‘ یعنی اس غلام کے لیے جو گھر میں صرف خواتین کی خدمت کے لیے مامور ہے، اپنی مالکن کو اس وقت تک دیکھنا جائزہے جب تک کہ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہے جب ملکیت مکمل طور پر یا جزوی طور پر زائل ہو جائے تو مالکن پر نظر ڈالنا جائز نہیں ۔ ﴿ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ﴾ یعنی وہ مرد جو تمھارے زیردست ہیں اور تمھارے ساتھ ان کا تعلق ہے جو کسی قسم کی شہوانی اغراض نہ رکھتے ہوں ، مثلاً:ناقص العقل لوگ، جو شہوانی شعور نہیں رکھتے اور وہ لوگ جن میں عورتوں کے پاس جانے کی خواہش باقی نہ رہے، ان کی شرمگاہ میں شہوت ہو نہ ان کے دل میں خواہش۔ ایسے شخص کے لیے نظر ڈالنا جائز ہے۔ ﴿ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ﴾ یعنی وہ بچے جو اس قسم کی تمیز نہیں رکھتے ان کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنا جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ علت بیان کی ہے کہ وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ان میں شہوت پائی جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایسے بچوں سے پردہ کرنا فرض ہے جو سن تمیز کو پہنچ چکے ہوں کیونکہ اب وہ عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہیں ۔ ﴿ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَ٘تِهِنَّ﴾ یعنی وہ زمین پر پاؤں مار کر نہ چلیں تاکہ ان کے پہنے ہوئے زیورات ، مثلاً: پازیب وغیرہ کی آواز نہ آئے اور اس سبب سے اس کی زینت ظاہر نہ ہو جو فتنے کا وسیلہ بن سکے۔ اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات سے ’’سدذرائع‘‘ کے فقہی قاعدے کا استنباط کیا جاتا ہے، یعنی کوئی امر، اگرچہ وہ فی نفسہٖ مباح ہے مگر اس پر عمل کرنے سے کسی حرام امر کا ارتکاب ہوتا ہے یا اس کا خدشہ ہے تو سدذریعہ کے طور پر یہ مباح امر ممنوع ہو جائے گا… زمین پر پاؤں مارنا فی نفسہ مباح ہے لیکن چونکہ یہ اظہار زینت کا ذریعہ ہے، اس لیے پاؤں مار کر چلنے سے روک دیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین احکام کا حکم دیا ہے اور بہترین وصیتیں عنایت فرمائی ہیں ۔ ان پر عمل کرنے میں بندۂ مومن سے کوتاہی واقع ہونا ایک لابدی امر ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:﴿ وَتُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْ٘مُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور تمام مومنو! اللہ کے ہاں توبہ کرو‘‘ یہ حکم دینے کے بعد فلاح کو اس پر معلق رکھا، چنانچہ فرمایا:﴿ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم کامیابی حاصل کرو‘‘ اور توبہ کیا ہے؟ ان کاموں کو ظاہری اور باطنی طور پر ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ، ان امور کی طرف لوٹنا جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن توبہ کا محتاج ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو خطاب فرمایا ہے، نیز اس آیت میں خالص توبہ کی ترغیب دی گئی ہے۔﴿وَتُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ آفات دنیا، ریا اور شہرت وغیرہ جیسے فاسد مقاصد سے محفوظ ہو۔
آیت: 32 - 33 #
{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (32) وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ (33)}.
اور نکاح کروتم بے نکاحوں کا اپنے میں سے اور (ان کا بھی) جو نیک ہیں تمھارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے اگر ہوں گے وہ فقیر تو غنی کر دے گا انھیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ وسعت والا خوب جاننے والا ہے (32)اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ لوگ جو نہیں پاتے (طاقت) نکاح کی حتی کہ غنی کر دے انھیں اللہ اپنے فضل سےاور وہ لوگ جو چاہتے ہیں مکاتیب (آزادی کی تحریم لکھانا) ان لوگوں میں سے کہ مالک ہیں (ان کے) تمھارے دائیں ہاتھ تو تم لکھ کر دے دو ان کو اگر معلوم کرو تم ان میں بھلائی اور دو تم ان کو اللہ کے (دیے ہوئے) اس مال میں سے وہ جو اس نے دیا ہے تمھیں اور نہ مجبور کرو تم اپنی لونڈیوں کو اوپر بدکاری کرنے کے، اگر وہ چاہیں بچناتاکہ تلاش کرو تم سامان زندگانیٔ دنیا کا اور جو کوئی مجبور کرے گا انھیں تو بلاشبہ اللہ بعد ان کے مجبور کیے جانے کے، بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے (33)
#
{32} يأمر تعالى الأولياء والأسيادَ بإنكاح مَنْ تحتَ ولايَتِهِم من الأيامى، وهم مَنْ لا أزواجَ لهم من رجالٍ ونساءٍ ثِيْبٍ وأبكارٍ، فيجب على القريب وولي اليتيم أن يزوِّجَ مَنْ يحتاجُ للزواج ممَّن تجبُ نفقته عليه، وإذا كانوا مأمورين بإنكاح مَنْ تحتَ أيديهم؛ كان أمرُهم بالنِّكاح بأنفسهم من باب أولى. {والصالحين من عبادِكُم وإمائِكُم}: يُحتمل أنَّ المرادَ بالصالحين صلاحُ الدين، وأنَّ الصالح من العبيد والإماءِ ـ وهو الذي لا يكون فاجراً زانياً ـ مأمورٌ سيِّده بإنكاحه جزاءً له على صلاحِهِ وترغيباً له فيه، ولأنَّ الفاسد بالزِّنا منهيٌّ عن تزوُّجه، فيكون مؤيِّداً للمذكور في أول السورة أنَّ نِكاح الزاني والزانية محرمٌ حتى يتوبَ، ويكون التخصيصُ بالصلاح في العبيد والإماء دونَ الأحرارِ؛ لكثرة وجود ذلك في العبيد عادة. ويُحتمل أنَّ المرادَ بالصَّالحين الصَّالحين للتزوُّج المحتاجين إليه من العبيد والإماء، يؤيِّدُ هذا المعنى أنَّ السيِّد غير مأمورٍ بتزويج مملوكِهِ قبل حاجتِهِ إلى الزواج، ولا يبعُدُ إرادةُ المعنييْنِ كليهما. والله أعلم. وقوله: {إن يكونوا فقراءَ}؛ أي: الأزواج والمتزوِّجين، {يُغْنِهِمُ الله من فضلِهِ}: فلا يمنعكم ما تتوهَّمون من أنَّه إذا تزوَّج افتقر بسبب كَثْرَةِ العائلة ونحوه. وفيه حثٌّ على التزوُّج ووعدٌ للمتزوِّج بالغنى بعد الفقر. {والله واسعٌ}: كثير الخير عظيمُ الفضل. {عليمٌ}: بمن يستحقُّ فضلَه الدينيَّ والدنيويَّ أو أحدَهما ممَّن لا يستحقُّ، فيعطي كلًّا ما علمه، واقتضاه حكمه.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ سرپرستوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان مجرد عورتوں اور مردوں کا نکاح کریں جو ان کی سرپرستی میں ہیں ۔ (ایامی) سے مراد وہ مرد اور عورتیں ہیں جن کی بیویاں اور شوہر نہ ہوں یعنی کنوارے اور رنڈوے مردوزن، لہٰذا قریبی رشتہ داروں اور یتیموں کے سرپرستوں پر واجب ہے کہ وہ ایسے مردوزن کا نکاح کریں جو نکاح کے محتاج ہیں ، یعنی جن کی کفالت ان پر واجب ہے۔ جب وہ ان لوگوں کا نکاح کرنے پر مامور ہیں جو ان کے زیر دست ہیں تو خود اپنے نکاح کا حکم تو زیادہ موکد اور اولیٰ ہے۔ ﴿ وَالصّٰؔلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآىِٕكُمْ﴾ ’’اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہیں جو دینی اعتبار سے صالح ہوں کیونکہ لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو لوگ دینی اعتبار سے صالح ہیں ، وہی لوگ ہیں جو بدکار اور زانی نہیں ہوتے، ان کا آقا اس بات پر مامور ہے کہ وہ ان کا نکاح کرے، یہ ان کی صالحیت کی جزا اور اس کی ترغیب ہے، نیز زناکار کا نکاح کرنے سے روکا گیا ہے تب یہ اس حکم کی تائید ہے جس کا ذکر سورت کی ابتداء میں کیا گیا ہے کہ زانی اور زانیہ جب تک توبہ نہ کریں ، ان کا نکاح حرام ہے… اور آزاد مرد و زن کی بجائے غلاموں کے نکاح کے لیے صالحیت کی تخصیص اس لیے ہے کہ عادۃً غلاموں میں فسق و فجور زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ صالحین سے مراد وہ لونڈی اور غلام ہوں جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نکاح کے محتاج ہوں ۔ اس معنی کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ جب تک مملوک نکاح کا حاجت مند نہ ہو اس کا مالک اس کا نکاح کرنے پر مامور نہیں … اور یہ بھی کوئی بعید بات نہیں کہ اس سے دونوں ہی معنی مراد ہوں ۔ واللہ اعلم۔ ﴿ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُ٘قَرَآءَؔ ﴾ ’’اور اگر ہوں گے وہ تنگ دست۔‘‘ یعنی خاوند اور نکاح کرنے والے ﴿ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘﴾ ’’تو غنی کر دے گا اللہ ان کو اپنے فضل سے۔‘‘ پس تمھیں یہ وہم نکاح کرنے سے نہ روک دے کہ جب تم نکاح کر لو گے تو عائلی بوجھ کی وجہ سے محتاج ہو جاؤ گے۔ اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب ہے، نیز نکاح کرنے والے سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اسے فقر کے بعد فراخی اور خوش حالی حاصل ہو گی۔﴿ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بھلائی اور فضل عظیم کا مالک ہے۔ ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ وہ ان سب کو جانتا ہے جو اس کے دینی اور دنیاوی فضل یا کسی ایک کے مستحق ہیں اور وہ انھیں بھی جانتا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں ۔ وہ ان سب کو اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق عطا کرتا ہے۔
#
{33} {وليستعفِفِ الذين لا يَجِدون نكاحاً حتى يُغنيهم الله من فضلِهِ}: هذا حكم العاجز عن النِّكاح، أمره الله أن يستعففَ؛ أنْ يكفَّ عن المحرَّم ويفعلَ الأسبابَ التي تكفُّه عنه، من صرف دواعي قلبه بالأفكارِ التي تخطُرُ بإيقاعِهِ فيه، ويفعل أيضاً كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «يا معشر الشباب! من استطاعَ منكم الباءةَ؛ فليتزوَّجْ، ومنْ لم يستَطِعْ؛ فعليه بالصَّوم، فإنَّه له وجاء». وقوله: {الذين لا يَجِدون نكاحاً}؛ أي: لا يقدرون نكاحاً: إما لفقرهم، أو فقر أوليائهم وأسيادهم، أو امتناعهم من تزويجهم، وليس لهم قدرةٌ على إجبارهم على ذلك. وهذا التقدير أحسنُ من تقدير مَنْ قَدَّر لا يجدونَ مهر نكاح، وجعلوا المضاف إليه نائباً منابَ المضاف؛ فإنَّ في ذلك محذورين: أحدهما: الحذفُ في الكلام، والأصل عدم الحذف. والثاني: كون المعنى قاصراً على مَنْ له حالان: حالةُ غنى بمالِهِ، وحالةُ عُدْم، فيخرُجُ العبيد والإماءُ ومَنْ إنكاحُهُ على وليِّهِ كما ذكرنا، {حتى يُغْنِيَهُمُ اللهُ من فضلِهِ}: وعدٌ للمستعفف أنَّ الله سَيُغْنِيه وييسِّرُ له أمره، وأمرٌ له بانتظار الفرج؛ لئلا يشقَّ عليه ما هو فيه. وقوله: {والذين يبتغونَ الكتاب مما مَلَكَتْ أيمانكُم فكاتِبوهم إن علمتُم فيهم خيراً}؛ أي: من ابتغى وطلب منكم الكتابةَ وأن يَشْتَرِي نفسَه من عبيدٍ وإماءٍ؛ فأجيبوه إلى ما طلب، وكاتبوه، {إنْ علمتُم فيهم}؛ أي: في الطالبين للكتابة {خيراً}؛ أي: قدرة على التكسُّب وصلاحاً في دينه؛ لأنَّ في الكتابة تحصيلَ المصلحتين: مصلحة العِتْق والحريَّة، ومصلحة العوض الذي يبذُلُه في فداء نفسه، وربما جدَّ واجتهد وأدرك لسيِّده في مدَّة الكتابة من المال ما لا يحصُلُ في رقِّه، فلا يكون ضررٌ على السيِّد في كتابتِهِ، مع حصول عظيم المنفعة للعبد؛ فلذلك أمر الله بالكتابة على هذا الوجه أمرَ إيجابٍ؛ كما هو الظاهر، أو أمر استحبابٍ على القول الآخر، وأمر بمعاوَنَتِهِم على كتابَتِهِم؛ لكونهم محتاجين لذلك؛ بسبب أنَّهم لا مال لهم، فقال: {وآتوهم من مال الله الذي آتاكم}؛ يدخل في ذلك أمر سيده الذي كاتبه أن يعطيه من كتابته أو يسقط عنه منها وأمر الناس بمعونتهم، ولهذا جعل الله للمكاتبين قسطاً من الزكاة ورغب في إعطائه بقوله: {من مال الله الذي آتاكم}؛ أي: فكما أن المال مال الله، وإنَّما الذي بأيديكم عطيَّةٌ من الله لكم ومحضُ مِنَّة؛ فأحسنوا لعباد الله كما أحسن الله إليكم. ومفهومُ الآية الكريمة أنَّ العبد إذا لم يطلبِ الكتابة؛ لا يؤمَرُ سيِّدُه أن يبتدئ بكتابته، وأنَّه إذا لم يعلم منه خيراً؛ بأن عَلِمَ منه عكَسَه: إمَّا أنَّه يعلم أنه لا كَسْبَ له، فيكون بسبب ذلك كَلًّا على الناس ضائعاً، وإمَّا أن يخافَ إذا عُتِق وصار في حريَّةِ نفسِهِ أن يتمكَّن من الفسادِ؛ فهذا لا يؤمر بكتابتِهِ، بل ينهى عن ذلك؛ لما فيه من المحذور المذكور. ثم قال تعالى: {ولا تكرِهوا فتياتكم}؛ أي: إماءكم {على البِغاءِ}؛ أي: أن تكون زانيةً؛ {إنْ أردنَ تحصُّناً}: لأنه لا يُتَصَوَّر إكراهُها إلاَّ بهذه الحال، وأما إذا لم تُرِدْ تحصُّناً؛ فإنها تكونُ بغيًّا يجبُ على سيِّدها منعُها من ذلك، وإنما هذا نهيٌ لما كانوا يستعمِلونه في الجاهليَّة من كون السيِّد يُجْبِرُ أمَتَه على البغاءِ؛ ليأخذ منها أجرة ذلك، ولهذا قال: {لِتَبْتَغوا عَرَضَ الحياةِ الدُّنيا}: فلا يَليقُ بكم أن تكونَ إماؤكم خيراً منكم وأعفَّ عن الزِّنا وأنتم تفعلونَ بهنَّ ذلك لأجل عَرَضِ الحياة؛ متاع قليل يَعْرِضُ ثم يزولُ؛ فكسبُكم النزاهةَ والنظافةَ والمروءةَ بقطع النظر عن ثوابِ الآخرة وعقابِها أفضلُ من كسبِكُم العَرَضَ القليل الذي يُكْسِبُكُمُ الرذالةَ والخسَّة. ثم دعا مَنْ جرى منه الإكراه إلى التوبة، فقال: {وَمَن يُكْرِهْهُنَّ فإنَّ الله من بعدِ إكراهِهِنَّ غفورٌ رحيمٌ}: فْليتُبْ إلى الله، ولْيقلعْ عما صدر منه مما يُغْضِبُه؛ فإذا فَعَلَ ذلك؛ غَفَرَ الله ذنوبَه ورَحِمَه؛ كما رَحِمَ نفسه بفكاكها من العذاب، وكما رَحِمَ أمَتَهُ بعدم إكراهِها على ما يضرُّها.
[33] ﴿ وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ ’’اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ یہ اس شخص کے لیے حکم ہے جو نکاح کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ پاک بازی کو اپنا شیوہ بنائے، حرام کاری میں پڑنے سے بچے اور ایسے اسباب اختیار کرے جو اسے حرام کاری سے بچائیں یعنی قلب کو ایسے خیالات سے بچائے رکھے جو حرام کاری میں پڑنے کی دعوت دیتے ہوں ، نیز وہ حرام کاری سے محفوظ رہنے کے لیے رسول اللہ e کے اس ارشاد پر عمل کرے۔ آپe نے فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے۔‘‘( صحیح البخاري، النکاح، باب قول النبیﷺ من استطاع منکم…، ح: 5065 و صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت…، ح:1400) ﴿ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا ﴾ یعنی اپنی محتاجی یا اپنے مالکوں کی محتاجی یا مالکوں کے نکاح نہ کرنے کی وجہ سے اگر وہ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور وہ اپنے نکاح کے لیے اپنے مالکوں کو مجبور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ معنی مقدر اس معنی سے بہتر ہے جو بعض لوگوں نے مراد لیا ہے کہ ’’جو لوگ نکاح کا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ انھوں نے مضاف الیہ کو مضاف کا قائم مقام بنایا۔ مگر یہ معنی مراد لینے میں دو رکاوٹیں ہیں ۔ (۱) کلام میں حذف ماننا پڑے گا، جبکہ اصل عدم حذف ہے۔ (۲) معنی کا اس شخص میں منحصر ہونا جس کی دو حالتیں ہوں ، اپنے مال کی وجہ سے غنا کی حالت اور ناداری کی حالت۔اس صورت میں غلام اور لونڈیاں اس سے نکل جاتی ہیں اور اسی طرح وہ بھی جن کا نکاح کرانا سرپرست کے ذمے ہے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ ﴿ حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پاک دامن شخص کے لیے غنا کا وعدہ کیا ہے، نیز یہ کہ وہ اس کے معاملے کو آسان کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے کہ کشادگی کا انتظار کرے تاکہ موجود حالات اس پر گراں نہ گزریں ۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ ﴾ یعنی تمھارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو کوئی تم سے مکاتبت کا طلب گار ہو اور اپنے آپ کو خریدنا چاہے تو اس کی بات مانتے ہوئے اس سے مکاتبت کر لو﴿ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ ﴾ ’’اگر جانو تم ان میں ۔‘‘ یعنی مکاتبت کے طلب گار غلاموں میں ﴿خَیْرًا﴾ ’’بھلائی۔‘‘ یعنی کمانے کی طاقت اور دین میں بھلائی کیونکہ مکاتبت میں دو مصلحتوں کا حصول مقصود ہے۔ آزادی کی مصلحت اور اس معاوضے کی مصلحت، جو وہ اپنے نفس کی آزادی کے لیے خرچ کرتا ہے۔ بسااوقات وہ جدوجہد کر کے مکاتبت کی مدت کے اندر اپنے آقا کو اتنا مال مہیا کر دیتا ہے جو وہ غلامی میں رہتے ہوئے نہیں کر سکتا۔ اس لیے غلام کے لیے ایک بڑی منفعت کے حصول کے ساتھ ساتھ، اس مکاتبت میں آقا کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے مکاتبت کا حکم دیا ہے، جو وجوب کا حکم ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔ یا دوسرے قول کے مطابق یہ حکم استحباب کے طور پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مکاتبت پر ان کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ اس کے محتاج ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی مال نہیں ، چنانچہ فرمایا:﴿وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ﴾ ’’اور تم ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔‘‘ اس میں مکاتب کے آقا کا معاملہ بھی شامل ہے جس نے اس کے ساتھ مکاتبت کی ہے کہ وہ اس کی مکاتبت میں اس کو کچھ عطا کرے یا مکاتبت کی مقررہ رقم میں سے کچھ حصہ ساقط کر دے اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی مکاتب کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مکاتبین کے لیے زکاۃ میں حصہ رکھ دیا ہے اور زکاۃ میں سے مکاتبین کو عطا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ فرمایا: ﴿ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ یعنی جس طرح، یہ مال درحقیقت اللہ کا مال ہے، اس مال کا تمھارے ہاتھوں میں ہونا تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا محض عطیہ ہے، اسی طرح تم بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ احسان کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کے آقا کو حکم نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اس کے ساتھ مکاتبت کی ابتدا کرے، جبکہ اس میں اسے کوئی بھلائی نظر نہ آئے یا اسے معاملہ برعکس نظر آئے، یعنی وہ جانتا ہو کہ وہ کما نہیں سکتا اور اس طرح وہ لوگوں پر بوجھ بن کر ضائع ہو جائے گا۔ یا اسے یہ خوف ہو کہ جب بھی اس کو آزاد کر دیا گیا اور اسے آزادی حاصل ہو گئی تو اسے فساد برپا کرنے کی قدرت حاصل ہو جائے گی تو ایسے غلام کے بارے میں اس کے آقا کو مکاتبت کا حکم نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے برعکس اس کو مکاتبت سے روکا جائے گا کیونکہ اس میں متذکرہ بالا خطرہ موجود ہے جس سے بچنا چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ ﴾ ’’اور نہ مجبور کرو تم اپنی لونڈیوں کو‘‘ ﴿ عَلَى الْبِغَآءِ ﴾ ’’زنا کار بننے پر‘‘ ﴿ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ﴾ ’’اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں ۔‘‘ اس لیے کہ اس حالت کے سوا کسی حالت میں اسے مجبور کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ پاک دامن رہنا نہ چاہے تو اس صورت میں وہ بدکار ہے اور اس کے آقا پر واجب ہے کہ وہ اس کو اس بدکاری سے روک دے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنے سے اس لیے روکا ہے کہ جاہلیت میں لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آقا اجرت کی خاطر اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، اس لیے فرمایا:﴿ لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تاکہ تم تلاش کرو دنیا کی زندگی کا سامان۔‘‘ پس تمھارے لیے یہ مناسب نہیں کہ تمھاری لونڈیاں تم سے بہتر اور پاک باز ہوں اور تم صرف دنیا کے مال ومتاع کی خاطر ان کے ساتھ یہ سلوک کرو۔ دنیا کا مال بہت قلیل ہے وہ سامنے آتا ہے، پھر ختم ہو جاتا ہے۔ تمھاری کمائی تمھاری پاکیزگی، نظافت اور مروت ہے… آخرت کے ثواب وعقاب سے قطع نظر… یہ اس تھوڑے سے سامانِ دنیا کمانے سے کہیں بہتر ہے جو تمھارے رذالت اور خساست کے کمانے سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو توبہ کی طرف بلایا جن سے اپنی لونڈیوں پر جبر کرنے کا یہ گناہ سرزد ہوا، چنانچہ فرمایا:﴿ وَمَنْ یُّؔكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور جو ان کو مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبورکرنے کے بعد غفور رحیم ہے۔‘‘ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور ان تمام گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں ۔ جب وہ ان تمام گناہوں سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اس پر اسی طرح رحم فرمائے گا جس طرح تائب نے اپنے نفس کو عذاب سے بچا کر اپنے آپ پر رحم کیا اور جس طرح اس نے اپنی لونڈی کو ایسے فعل پر، جو اس کے لیے ضرر رساں تھا، مجبور نہ کر کے اس پر رحم کیا۔
آیت: 34 #
{وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34)}.
اور البتہ تحقیق نازل کیں ہم نے تمھاری طرف آیتیں واضح اور کچھ حال ان لوگوں کا جو گزر چکے پہلے تم سےاور نصیحت واسطے پرہیز گاروں کے (34)
#
{34} هذا تعظيمٌ وتفخيمٌ لهذه الآيات التي تلاها على عبادِهِ؛ ليعرفوا قَدْرَها ويقوموا بحقِّها، فقال: {ولقد أنْزَلْنا إليكم آياتٍ مُبَيِّناتٍ}؛ أي: واضحاتِ الدّلالةِ على كلِّ أمر تحتاجون إليه من الأصول والفُروع؛ بحيث لا يبقى فيها إشكالٌ ولا شبهةٌ. {و}: أنزلنا إليكم أيضاً {مَثَلاً من الذين خَلَوْا من قَبْلِكُم}: من أخبار الأوَّلين؛ الصالح منهم والطَّالح، وصفة أعمالهم، وما جرى لهم وجرى عليهم؛ تعتبِرونَه مثالاً ومعتَبَراً لمن فَعَلَ مثل أعمالهم أنْ يُجازى مثل ما جُوزوا. {وموعظةً للمتَّقين}؛ أي: وأنزلنا إليكم موعظةً للمتَّقين؛ من الوعدِ والوعيدِ والترغيبِ والترهيبِ؛ يتَّعِظُ بها المتَّقون، فيكفُّون عما يكره الله إلى ما يحبُّه الله.
[34] یہ ان آیات کریمہ کی قدرومنزلت اور تعظیم ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر تلاوت فرمائی تاکہ وہ ان کی قدروقیمت کو پہچان لیں اور ان کے حقوق کو قائم کریں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ ﴾ ’’اور ہم نے نازل کیں تمھاری طرف آیات واضح کرنے والی ۔‘‘ یعنی وہ اصولی اور فروعی ہر معاملے میں ، جن کے تم محتاج ہو، اس طرح واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی اشکال اور شبہ باقی نہیں رہتا۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور‘‘ اس طرح نازل کیں ہم نے ﴿مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ ’’ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزرے۔‘‘ یعنی ہم نے تمھاری طرف تم سے پہلے گزرے ہوئے اچھے برے لوگوں ، ان کے اعمال اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا… کی خبریں نازل کیں ، جن کو مثال بنا کر تم عبرت حاصل کر سکتے ہو، یعنی جو کوئی ان جیسے افعال کا ارتکاب کرے گا اس کو وہی جزا دی جائے گی جو ان لوگوں کو دی گئی۔ ﴿ وَمَوْعِظَةً لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ۠ ﴾ یعنی اور ہم نے تمھاری طرف اہل تقویٰ کے لیے نصیحت نازل کی ہے جو وعد و وعید اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہے۔ اہل تقویٰ اس سے نصیحت پکڑتے ہیں اور ان امور سے رک جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے اور ایسے امور اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں ۔
آیت: 35 #
{اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35)}.
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، مثال اس کے نور کی مانند (روشنی) طاق کے ہے، اس (طاق) میں ایک چراغ ہے، (وہ) چراغ شیشے (کی قندیل) میں ہے، وہ شیشہ، گویا کہ وہ ایک ستارہ ہے چمکتا ہوا، جلایا جاتا ہے وہ (چراغ) ایک درخت سے، جو مبارک ہے، زیتون کا، نہیں ہے وہ مشرقی اور نہ مغربی، قریب ہے کہ تیل اس (زیتون) کا (خود بخود ہی) روشن ہو جائے اگرچہ نہ لگے اسے آگ، نور پر نور ہے، ہدایت دیتا ہے اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے اور بیان کرتا ہے اللہ مثالیں لوگوں کے لیے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (35)
#
{35} {الله نورُ السمواتِ والأرض}: الحسيُّ والمعنويُّ. وذلك أنَّه تعالى بذاتِهِ نورٌ، وحجابه نورٌ، الذي لو كَشَفَه لأحرقت سُبُحاتُ وجهِهِ ما انتهى إليه بصره من خلقه، وبه استنار العرشُ والكرسيُّ والشمسُ والقمر والنورُ، وبه استنارت الجنةُ. وكذلك [النُّور] المعنويُّ يرجِعُ إلى الله؛ فكتابه نورٌ، وشرعُه نورٌ، والإيمانُ والمعرفةُ في قلوب رسله وعباده المؤمنين نورٌ؛ فلولا نورُهُ تعالى؛ لتراكمتِ الظُّلمات، ولهذا كلُّ محلٍّ يفقد نورَه؛ فثمَّ الظُّلمة والحصرُ. {مَثَلُ نورِهِ}: الذي يهدي إليه، وهو نورُ الإيمان والقرآن في قلوب المؤمنين {كمشكاةٍ}؛ أي: كوَّة {فيها مصباحٌ}: لأنَّ الكوَّة تجمع نورَ المصباح بحيث لا يتفرَّق. ذلك {المصباح في زُجاجةٍ الزجاجةُ}: من صفائها وبهائها، {كأنَّها كوكبٌ دُرِّيٌّ}؛ أي: مضيء إضاءة الدرِّ، {يوقَدُ}: ذلك المصباح الذي في تلك الزجاجة الدُّرِّيَّةِ {من شجرةٍ مباركةٍ زيتونةٍ}؛ أي: يوقَد من زيت الزيتون، الذي نارُه من أنور ما يكون {لا شرقيَّةٍ}: فقط؛ فلا تصيبُها الشمس آخر النهار {ولا غربيَّةٍ}: فقط؛ فلا تصيبها الشمس [آخر] النهار. وإذا انتفى عنها الأمران؛ كانت متوسطةً من الأرض؛ كزيتون الشام؛ تصيبُه الشمس أول النهار وآخره، فَيَحْسُنُ ويَطيبُ ويكونُ أصفى لزيتها، ولهذا قال: {يكادُ زيتُها}: من صفائه {يضيءُ ولو لم تمسَسْهُ نارٌ}: فإذا مسَّتْه النار؛ أضاء إضاءةً بليغةً. {نورٌ على نورٍ}؛ أي: نور النار ونور الزيت. ووجه هذا المثل الذي ضربه الله وتطبيقُه على حالةِ المؤمن ونورِ الله في قلبه أنَّ فطرتَه التي فُطِرَ عليها بمنزلة الزيتِ الصافي؛ ففطرتُه صافيةٌ مستعدَّة للتعاليم الإلهية والعمل المشروع؛ فإذا وصل إليه العلم والإيمان؛ اشتعل ذلك النور في قلبه بمنزلة اشتعال النار في فتيلةِ ذلك المصباح، وهو صافي القلب من سوء القصدِ وسوء الفهم عن الله، إذا وصل إليه الإيمان؛ أضاء إضاءةً عظيمةً لصفائِهِ من الكُدورات، وذلك بمنزلة صفاء الزُّجاجة الدُّرِّيَّةِ، فيجتمع له نورُ الفطرة ونورُ الإيمان ونورُ العلم وصفاء المعرفة نورٌ على نورِهِ. ولما كان هذا من نور الله تعالى، وليس كلُّ أحدٍ يَصْلُحُ له ذلك؛ قال: {يهدي الله لنورِهِ مَن يشاءُ}: ممَّن يعلم زكاءه وطهارته، وأنه يزكي معه وينمو. {ويضرِبُ الله الأمثالَ للناس}: ليعقلوا عنه ويفهموا؛ لطفاً منه بهم، وإحساناً إليهم، وليتَّضِحَ الحقُّ من الباطل؛ فإنَّ الأمثال تقرِّبُ المعاني المعقولة من المحسوسة، فيعلمها العبادُ علماً واضحاً. {والله بكلِّ شيءٍ عليم}: فعلمُهُ محيطٌ بجميع الأشياء، فَلْتَعْلَموا أنَّ ضربهَ الأمثالَ ضَرْبُ مَنْ يعلمُ حقائقَ الأشياء وتفاصيلها وأنَّها مصلحةٌ للعباد؛ فليكن اشتغالُكُم بتدبُّرها وتعقُّلها لا بالاعتراض عليها ولا بمعارضتها؛ فإنَّه يعلم وأنتم لا تعلمونَ.
[35] ﴿ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اللہ تعالیٰ (حسی اور معنوی طور پر) آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘ اللہ تعالیٰ بذات خود نور ہے اس کا حجاب نور ہے۔ اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرۂ مبارک کے انوار و جلال حدنگاہ تک تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کر دیں ۔ اس کے نور سے عرش، کرسی، سورج، چاند اور جنت منور ہیں … اسی طرح معنوی نور کا منبع بھی اللہ تعالیٰ ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کی شریعت نور ہے، ایمان نور ہے، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے مومن بندوں کے دلوں میں موجود معرفت الٰہی نور ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا نور نہ ہو تو گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھا جائیں ، لہٰذا ہر وہ مقام جہاں اللہ تعالیٰ کا نور نہیں ہے وہ اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ ﴿ مَثَلُ نُوْرِهٖ ﴾ ’’اس کے نور کی مثال‘‘ یعنی وہ نور جس کی طرف اللہ تعالیٰ راہ نمائی فرماتا ہے اور وہ اہل ایمان کے دلوں میں ایمان اور قرآن کا نور ہے۔ ﴿كَمِشْكٰوةٍ ﴾ ’’ایک طاق کی مانند ہے‘‘ ﴿ فِیْهَا مِصْبَاحٌ﴾ ’’جس میں چراغ ہو۔‘‘ کیونکہ طاق چراغ کی روشنی کو جمع کر دیتا ہے اور اسے بکھرنے نہیں دیتا ﴿اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ﴾ ’’چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا ہوا ہو اور وہ فانوس‘‘ اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے یوں لگے ﴿ كَاَنَّهَا كَوْؔكَبٌ دُرِّیٌّ﴾ ’’جیسے وہ چمکتا ہوا ستارہ ہو‘‘ یعنی وہ موتی کی مانند چمکتا ہو۔ ﴿ یُّوْقَدُ ﴾ ’’جلایا جائے‘‘ یعنی وہ چراغ جو اس چمک دار فانوس کے اندر ہے ﴿ مِنْ شَجَرَةٍ مُّؔبٰرَؔكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ ﴾ یعنی وہ زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جس کا شعلہ سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔ ﴿ لَّا شَرْقِیَّةٍ ﴾ یعنی وہ فقط مشرقی جانب نہیں کہ دن کے آخری حصے میں اس کو سورج کی روشنی نہ پہنچتی ہو ﴿ وَّلَا غَ٘رْبِیَّةٍ﴾ اور وہ فقط مغربی جانب بھی نہیں کہ دن کے پہلے حصے میں اس کو سورج کی روشنی حاصل نہ ہوتی ہو۔ جب یہ دونوں امور نہیں تو وہ زمین کے درمیان میں اگا ہوا ہے۔ جیسے ملک شام کا زیتون، جسے صبح و شام سورج کی روشنی حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے وہ نہایت عمدہ ہوتا ہے اور اس کا تیل انتہائی صاف ہوتا ہے، اس لیے فرمایا:﴿ یَّكَادُ زَیْتُهَا﴾ ’’قریب ہے کہ اس کا تیل۔‘‘ یعنی انتہائی صاف ہونے کی وجہ سے﴿ یُضِیْٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؔ﴾ ’’آپ ہی روشنی دینے لگے، اگرچہ اسے آگ بھی نہ چھوئے۔‘‘ اور جب اسے آگ چھوئے تو بہت زیادہ روشنی ہو ﴿ نُوْرٌؔ عَلٰى نُوْرٍ ﴾ ’’روشنی پر روشنی۔‘‘ یعنی آگ کی روشنی اور زیتون کے تیل کی روشنی۔ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اور اسے مومن کے احوال کے ساتھ تطبیق دی ہے نیز یہ کہ اس کا قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فطرت جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے وہ زیتون کے پاک صاف تیل کی مانند ہے۔ پس اس کی فطرت صاف اور تعلیمات الٰہیہ اور اعمال مشروعہ کے لیے مستعد ہے۔ جب اس کے پاس علم و ایمان پہنچتا ہے تو یہ نور اس کے قلب میں روشن ہو جاتا ہے جیسے آگ چراغ کی بتی کو روشن کر دیتی ہے۔ اس کا قلب برے ارادوں اور فہم کی خرابی سے پاک ہوتا ہے۔ جب قلب میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے تو تمام کدورتوں سے پاک ہونے کی وجہ سے اس نور سے جگمگا اٹھتا ہے اور قلب کی یہ صفائی، موتی کی طرح چمکتے ہوئے فانوس کی مانند ہے۔ پس قلب میں نور فطرت، نور ایمان، نورعلم اور معرفت کی صفائی تمام اسباب مجتمع ہو جاتے ہیں اور یوں قلب میں روشنی پر روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور ہر کسی میں اس نور کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے فرمایا:﴿ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ﴾ ’’رہنمائی کرتا ہے اللہ اپنے نور کے لیے جس کی چاہتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے نور کے لیے صرف اسی کی راہ نمائی کرتا ہے جس کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ پاک اور طیب و طاہر ہے اور یہ نور اس کی معیت میں مزید بڑھے گا۔﴿ وَیَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے‘‘ تاکہ وہ اس سے عقل و فہم حاصل کریں یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے، نیز یہ مثالیں اس لیے بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ باطل سے حق واضح ہو جائے کیونکہ ضرب الامثال معانی ٔمعقولہ کو محسوسات کے قریب کر دیتی ہیں اور بندوں کو واضح طور پر ان کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ ﴿ وَاللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ﴾ پس اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ كيے ہوئے ہے اس لیے تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ضرب الامثال اس ہستی کی بیان کی ہوئی ہیں جو تمام اشیاء کے حقائق اور ان کی تفاصیل کو جانتی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ان میں بندوں کے لیے مصلحت ہے۔ پس تمھیں ان پر اعتراض اور ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے بلکہ تمھیں ان میں تدبر اور غوروفکر کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
آیت: 36 - 38 #
{فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ (36) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (37) لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (38)}.
(یہ چراغ اور قندیلیں ہیں ) ان گھروں میں کہ حکم دیا ہے اللہ نے یہ کہ بلند کیے جائیں وہ اور ذکر کیا جائے ان میں نام اللہ کا تسبیح کرتے ہیں واسطے اس کے ان (گھروں ) میں صبح اورشام (36)وہ مرد کہ نہیں غافل کرتی انھیں تجارت اور نہ خریدو فروخت اللہ کے ذکر سےاور قائم کرنے سے نماز کےاور ادا کرنے سے زکاۃ کے، وہ ڈرتے ہیں اس دن سے کہ الٹ جائیں گے اس میں دل اور آنکھیں (37) (وہ یہ کام کرتے ہیں ) تاکہ جزا دے انھیں اللہ بہترین اس کی جو عمل کیے انھوں نے اور وہ زیادہ دے انھیں اپنے فضل سےاور اللہ رزق دیتا ہے، جسے چاہتا ہے، بغیر حساب کے (38)
#
{36} أي: يُتَعَبَّدُ لله {في بيوتٍ}: عظيمةٍ فاضلةٍ هي أحبُّ البقاع إليه، وهي المساجد، {أذِنَ الله}؛ أي: أمر ووصَّى {أن تُرْفَعَ ويُذْكَرَ فيها اسمُه}: هذان مجموع أحكام المساجد، فيدخُلُ في رفعها بناؤها وكنسُها وتنظيفُها من النجاسات والأذى وصونُها عن المجانين والصبيانِ الذين لا يتحرَّزون عن النجاسات وعن الكافرِ وأن تُصان عن اللغوِ فيها ورفع الأصواتِ بغير ذِكْرِ الله. {ويُذْكَرَ فيها اسمُه}: يدخُلُ في ذلك الصلاة كلُّها؛ فرضُها ونفلُها، وقراءةُ القرآن، والتسبيحُ، والتهليلُ، وغيره من أنواع الذِّكر، وتعلُّم العلم وتعليمُه، والمذاكرةُ فيها، والاعتكافُ، وغيرُ ذلك من العباداتِ التي تُفْعَلُ في المساجد، ولهذا كانت عِمارةُ المساجد على قسمين: عمارةُ بنيانٍ وصيانةٍ لها، وعمارةٌ بذكرِ اسم الله من الصلاة وغيرها، وهذا أشرف القسمين، ولهذا شُرِعَتِ الصلواتُ الخمس والجمعةُ في المساجد وجوباً عند أكثر العلماء واستحباباً عند آخرين.
[36] یعنی اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ﴿ فِیْ بُیُوْتٍ ﴾ ’’گھروں میں ‘‘ یعنی فضیلت اور عظمت والے گھروں میں جو اللہ تعالیٰ کو زمین کے سب ٹکڑوں سے زیادہ محبوب ہیں اور وہ مساجد ہیں ۔ ﴿ اَذِنَ اللّٰهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وصیت کی ہے ﴿ اَنْ تُرْفَ٘عَ وَیُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ ﴾ ’’کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔‘‘ ان دو امور میں مساجد کے احکام جمع کر دیے گئے ہیں ۔ مساجد کو بلند کرنے میں ان کی تعمیر، ان میں جھاڑو دینا، ان کو نجاستوں سے پاک رکھنا، ان کو بچوں اور فاتر العقل لوگوں سے محفوظ رکھنا جو نجاست سے نہیں بچتے، کفار سے محفوظ رکھنا ان کو لغویات اور ذکر الٰہی کے سوا دیگر بلند آوازوں سے محفوظ رکھنا، شامل ہیں ۔ ﴿ وَیُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ ﴾ ذکر میں فرض و نفل ہر قسم کی نماز، قراء ت قرآن، تسبیح و تہلیل اور دیگر اذکار، علم کی تعلیم و تعلم، علمی مذاکرہ، اعتکاف اور دیگر عبادات جن کو مساجد میں سرانجام دیا جاتا ہے، سب شامل ہیں ۔ اسی لیے مساجد کی آبادی دو اقسام پر مشتمل ہے۔ (۱) مساجد کی تعمیر اور ان کی حفاظت کے ساتھ ان کو آباد رکھنا۔ (۲) نماز اور ذکر الٰہی وغیرہ سے مساجد کو آباد رکھنا… دونوں اقسام میں یہ قسم افضل ہے اسی لیے نماز پنجگانہ اور جمعہ کو مساجد میں مشروع کیا گیا ہے۔ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ حکم وجوب کے طور پر ہے اور بعض دیگر علماء کے نزدیک مستحب ہے۔
#
{37} ثم مدح تعالى عُمَّارها بالعبادة، فقال: {يُسَبِّحُ له}: إخلاصاً {بالغدوِّ}: أول النهار {والآصالِ}: آخره {رجالٌ}: خصَّ هذين الوقتين لِشَرَفِهما ولتيسُّر السير فيهما إلى الله وسهولتِهِ، ويدخل في ذلك التسبيح في الصلاة وغيرها، ولهذا شُرِعَتْ أذكارُ الصباح والمساء وأورادُهما عند الصباح والمساء؛ أي: يسبِّح فيها لله رجالٌ، وأيُّ رجال؟! ليسوا ممَّن يؤثِرُ على ربِّه دنيا ذات لذاتٍ ولا تجارةٍ ومكاسبَ مشغلة عنه. {لا تُلهيهم تجارةٌ}: وهذا يَشْمَلُ كلَّ تكسُّب يُقصد به العِوَضُ، فيكون قوله: {ولا بَيْعٌ}: من باب عطف الخاصِّ على العامِّ؛ لكَثرة الاشتغال بالبيع على غيره؛ فهؤلاء الرجال وإن اتَّجروا وباعوا واشْتَرَوا؛ فإنَّ ذلك لا محذور فيه، لكنَّه لا تلهيهم تلك بأن يقدِّموها ويؤثِروها على {ذِكْر الله وإقام الصَّلاةِ وإيتاءِ الزكاة}: بل جعلوا طاعةَ الله وعبادتَه غايةَ مرادِهم ونهايةَ مقصدِهم؛ فما حال بينَهم وبينَها رفضوه. ولما كان تركُ الدُّنيا شديداً على أكثر النفوس وحبُّ المكاسب بأنواع التجاراتِ محبوباً لها، ويشقُّ عليها تركُه في الغالب وتتكلَّفُ من تقديم حقِّ الله على ذلك؛ ذَكَرَ ما يَدْعوها إلى ذلك ترغيباً وترهيباً، فقال: {يخافون يوماً تتقلَّبُ فيه القلوبُ والأبصارُ}: من شدَّة هولِهِ وإزعاجِهِ للقلوب والأبدان؛ فلذلك خافوا ذلك اليوم، فَسَهُلَ عليهم العملُ وتركُ ما يَشْغَلُ عنه.
[37] پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح کی ہے جو عبادت کے ذریعے مساجد کو آباد کرتے ہیں ، چنانچہ فرمایا:﴿ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا ﴾ ’’وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں ۔‘‘ اخلاص کے ساتھ ﴿ بِالْغُدُوِّ ﴾ ’’دن کے ابتدائی حصے میں ‘‘ ﴿ وَالْاٰصَالِ﴾ ’’اور دن کے آخری حصے میں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان دو اوقات کو ان کے شرف و فضیلت کی بنا پر مخصوص کیا ہے، نیز ان دو اوقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سفر آسان اور سہل ہوتا ہے۔ اس تسبیح میں نماز وغیرہ داخل ہیں ، اس لیے تمام اذکار اور اوراد صبح اور شام کے اوقات میں مشروع كيے گئے ہیں ۔ ﴿ رِجَالٌ﴾ یعنی ان مساجد میں ، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو اپنے رب پر دنیا، اس کی لذتوں ، تجارت، کاروبار اور اللہ سے غافل کر دینے والے کسی مشغلے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ﴿ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ ﴾ ’’ان کو غفلت میں نہیں ڈالتی کوئی تجارت۔‘‘ اور یہ ہر اس کسب کو شامل ہے جس میں معاوضہ لینا مقصود ہو تب اس صورت میں ﴿ وَّلَا بَیْعٌ ﴾ کا جملہ، عام پر عطف خاص کے باب میں سے ہے کیونکہ دیگر کاموں کی نسبت خریدوفروخت میں زیادہ مشغولیت پائی جاتی ہے۔پس یہ لوگ، اگرچہ تجارت کرتے ہیں ، خریدوفروخت کرتے ہیں … کیونکہ اس میں کوئی ممانعت نہیں … مگر یہ تمام کام انھیں غافل نہیں کرتے کہ وہ ان امور کو ﴿ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰ٘وةِ وَاِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ﴾ ’’اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے‘‘ پر ترجیح دیتے ہوئے ان کو مقدم رکھیں بلکہ اس کے برعکس ان کی غایت مراد اور نہایت مقصود یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کریں ۔ اس اطاعت و عبادت اور ان کے درمیان جو چیز بھی حائل ہو، وہ اسے دور پھینک دیتے ہیں ۔ چونکہ اکثر نفوس کے لیے دنیا کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، مختلف انواع کی تجارت اور مکاسب سے انھیں شدید محبت ہوتی ہے، غالب حالات میں ان امور کو ترک کرنا ان پر گراں گزرتا ہے اور ان امور پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو مقدم رکھنے سے انھیں بہت تکلیف پہنچتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اس کی طرف دعوت دی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾ اس روز شدت ہول اور قلب و بدن کے دہشت زدہ ہونے کے باعث دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پتھرا جائیں گی، اس لیے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں ، بنابریں ان کے لیے عمل کرنا اور عمل سے غافل کرنے والے امور کو ترک کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
#
{38} {لِيَجْزِيَهُمُ الله أحسنَ ما عَمِلوا}: والمرادُ بـ {أحسن ما عَمِلوا}: أعمالَهم الحسنة الصالحة؛ لأنَّها أحسنُ ما عملوا؛ لأنهم يعملون المباحاتِ وغيرها؛ فالثواب لا يكون إلاَّ على العمل الحسن؛ كقوله تعالى: {ليكفِّرَ اللهُ عنهم أسوأ الذي عَمِلوا ويَجْزِيَهم أجْرَهم بأحسنِ ما كانوا يعملون}، {ويزيدَهم من فَضْلِهِ}: زيادةً كثيرةً عن الجزاء المقابل لأعمالهم. {والله يَرْزُقُ مَنْ يشاءُ بغير حسابٍ}: بل يُعطيه من الأجر ما لا يبلغُهُ عملُه، بل ولا تبلُغُه أمنيتُه، ويعطيه من الأجر بلا عدٍّ ولا كيلٍ، وهذا كنايةٌ عن كثرتِهِ جدًّا.
[38] ﴿ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا ﴾ ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے۔‘‘ (احسن ماعملوا) سے مراد ان کے اعمال حسنہ اور اعمال صالحہ ہیں کیونکہ یہ ان کے بہترین اعمال ہیں کیونکہ وہ مباح اور دیگر اعمال بجا لاتے ہیں ۔ ثواب صرف اسی عمل پر عطا ہوتا ہے جو عمل حسن کے زمرے میں آتا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ لِیُكَ٘ـفِّ٘رَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الزمر:39؍35) ’’تاکہ جو بدترین عمل انھوں نے كيے ہیں اللہ ان کو ان کے حساب سے مٹا دے اور جو انھوں نے بہترین عمل كيے ہیں ، ان کے مطابق ان کو اجر عطا فرمائے۔‘‘ ﴿وَیَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ٘﴾ یعنی وہ ان کے اعمال کے مقابلے میں بہت زیادہ جزا عطا کرے گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ﴾ ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے روزی عطا فرماتا ہے۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اتنا اجر عطا کرے گا کہ اس کے اعمال وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے اور اس کی آرزو کی بھی وہاں تک رسائی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسے بغیر کسی شمار اور بغیر کسی ناپ تول کے اجر عطا کرے گا… اور یہ بہت زیادہ کثرت کے لیے کنایہ ہے۔
آیت: 39 - 40 #
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (39) أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ (40)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے اعمال مانند سراب کے ہیں چٹیل میدان میں ، گمان کرتا ہے اس کو پیاسا پانی، یہاں تک کہ جب وہ آیا اس کے پاس تو نہ پایا اسے کچھ بھی اور پایا اللہ کو اپنے پاس، پھر پورا (چکا) دیا اللہ نے اسے اس کاحساب اور اللہ بہت جلد لینے والا ہے حساب (39)یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی مانند ہیں نہایت گہرے سمندر کے، ڈھانپتی ہے اسے ایک موج، اس کے اوپر ایک (اور) موج ہے، اس کے اوپر ایک بادل ہے، اندھیرے ہیں بعض ان میں سے اوپر بعض کے (اوپر تلے) ہیں ، جب و ہ نکالے اپنا ہاتھ نہیں قریب کہ وہ دیکھ سکے اس کو اور وہ شخص کہ نہیں بنایا اللہ نے اس کے لیے کوئی نور تو نہیں ہے اس کے لیے (کہیں بھی) کوئی نور (40)
یہ دو مثالیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کفار کے اعمال کے بطلان، ان کے اکارت جانے اور ان اعمال کو سرانجام دینے والوں کی حسرت ظاہر کرنے کے لیے بیان فرمائی ہیں ، چنانچہ فرمایا:
#
{39} {والذين كفروا}: بربِّهم وكذَّبوا رسلَه {أعمالُهم كسرابٍ بِقيعةٍ}؛ أي: بقاعٍ لا شَجَرَ فيه ولا نبتَ {يحسبُهُ الظمآنُ ماءً}: شديد العطش، الذي يتوهم ما لا يتوهم غيره، بسبب ما معه من العطش، وهذا حسبانٌ باطلٌ، فيقصده ليزيل ظمأه {حتى إذا جاءه لم يَجِدْه شيئاً}: فندم ندماً شديداً، وازداد ما به من الظمأ بسبب انقطاع رجائه؛ كذلك أعمال الكفار بمنزلة السراب، تُرى ويظنُّها الجاهل الذي لا يدري الأمور أعمالاً نافعة، فيغرُّه صورتها، ويخلُبُه خيالُها، ويحسبُها هو أيضاً أعمالاً نافعة لهواه، وهو أيضاً محتاجٌ إليها، بل مضطرٌّ إليها؛ كاحتياج الظمآن للماء، حتى إذا قدم على أعماله يوم الجزاء؛ وجدها ضائعةً، ولم يجدْها شيئاً، والحال أنَّه لم يذهبْ لا له ولا عليه، بل {وجد الله عنده فوفَّاه حسابَهُ}: لم يَخْفَ عليه من عملِهِ نقيرٌ ولا قِطمير، ولنْ يَعْدَمَ منه قليلاً ولا كثيراً. {والله سريعُ الحساب}: فلا يَسْتَبْطِئ الجاهلون ذلك الوعد؛ فإنَّه لا بدَّ من إتيانه، وَمَثَّلَها الله بالسراب الذي {بقيعةٍ}؛ أي: لا شجر فيه ولا نبات، وهذا مثالٌ لقلوبِهم؛ لا خير فيها ولا بِرَّ فتزكو فيها الأعمال، وذلك للسبب المانع، وهو الكفر.
[39] ﴿ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا‘‘ اپنے رب کے ساتھ اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا﴿ اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ ﴾ ’’ان کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی طرح ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کی مثال ایسا دشت بے آب ہے جہاں کوئی درخت ہو نہ نباتات ﴿یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً ﴾ ’’پیاسا آدمی سے پانی سمجھتا ہے۔‘‘ یعنی سخت پیاسا شخص اس سراب کو پانی سمجھتا ہے کیونکہ پیاس کے مارے شخص کو پیاس کی وجہ سے وہ تو ہم لاحق ہوتا ہے جو کسی اور کو لاحق نہیں ہوتا۔ اور یہ گمان باطل ہے لیکن پیاسا شخص اپنی پیاس بجھانے کا ارادہ کرتا ہے﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْـًٔـا ﴾ ’’حتی کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہ اس کو کچھ نہیں پاتا۔‘‘ پس اسے سخت ندامت ہوتی ہے اور امید کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح کفار کے اعمال سراب کی مانند ہیں ۔ جاہل شخص جو معاملات کو نہیں جانتا اسے وہ اعمال اچھے دکھائی دیتے ہیں ، ان کی ظاہری شکل و صورت اس کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے انھیں بھی اچھے اعمال سمجھتا ہے اور وہ اعمال کا اسی طرح محتاج ہوتا ہے جس طرح ایک پیاسا شخص پانی کا محتاج ہوتا ہے حتیٰ کہ قیامت کے روز جب اپنے اعمال کا سامنا کرے گا تو ان کو ضائع شدہ اور بے فائدہ پائے گا اور حال یہ ہو گا کہ یہ اعمال اس کے حق میں ہوں گے نہ اس کے خلاف ہوں گے۔ ﴿ وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ﴾ ’’بلکہ وہ وہاں اللہ کو موجود پاتا ہے جو اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے۔‘‘ اس پر اس کا معمولی سا عمل بھی مخفی نہیں رہ سکے گا اور وہاں تھوڑا یا زیادہ عمل مفقود نہ ہو گا۔ ﴿ وَاللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ﴾ ’’اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ پس یہ جاہل لوگ اللہ تعالیٰ کے وعدے کو دور نہ سمجھیں ۔ یہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار کے اعمال کو سراب کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ایسے دشت بے آب و گیاہ میں نظر آتا ہے جہاں کوئی درخت ہوتا ہے نہ نباتات۔ کفار کے دلوں کی یہی مثال ہے جن میں کوئی بھلائی اور کوئی نیکی نہیں ہوتی۔ پس وہ وہاں اعمال خیر چھوڑ دیتے ہیں ، ایک مانع کی وجہ سے اور وہ کفر ہے۔ کفار کے اعمال کے بطلان کو واضح کرنے کے لیے یہ دوسری مثال ہے۔ ﴿ اَوْؔ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّ٘جِّیٍّ ﴾ ’’یا (ان کے عملوں کی مثال) ان اندھیروں کی سی ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں ۔‘‘ اتھاہ اور بے کراں سمندر ﴿ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ١ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ﴾ ’’جس پر لہر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر دوسری لہر اور اس کے اوپر بادل ہو، غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ، ایک پر ایک۔‘‘ بحربے پایاں کی تاریکی، پھر اس پر ایک دوسری کے اوپر سوار موجوں کی تاریکی، پھر بادلوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا اور پھر سیاہ رات کا اندھیرا… اور جہاں یہ حال ہو تو تاریکی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ﴿اِذَاۤ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا﴾ ’’جب آدمی اپنے ہاتھ کو نکالتا ہے تو اسے (اپنے قریب ہونے کے باوجود بھی) نہیں دیکھ پاتا‘‘ پھر دوسری چیزوں کو کیسے دیکھ سکتا ہے۔
#
{40} والمثل الثاني لبطلان أعمال الكفار: {كظُلُماتٍ في بحرٍ لُجِّيٍّ}: بعيدٍ قعرُهُ طويل مداهُ، {يغشاه موجٌ من فوقِهِ موجٌ من فوقِهِ سحابٌ ظلماتٌ بعضُها فوق بعض}: ظلمةُ البحر اللُّجِّيِّ، ثم فوقه ظلمة الأمواج المتراكمة، ثم فوق ذلك ظلمة السحب المدلهمَّة، ثم فوق ذلك ظلمةُ الليل البهيم، فاشتدَّت الظلمةُ جدًّا؛ بحيث أنَّ الكائن في تلك الحال {إذا أخرجَ يَدَه لم يكدْ يراها}: مع قربِها إليه؛ فكيف بغيرها؟! كذلك الكفار تراكمت على قلوبهم الظلماتُ؛ ظلمةُ الطبيعة التي لا خير فيها، وفوقها ظلمةُ الكفر، وفوقَ ذلك ظلمةُ الجهل، وفوق ذلك ظلمةُ الأعمال الصادرة عمَّا ذُكِرَ، فبقوا في الظُّلمة متحيِّرين، وفي غمرتهم يَعْمَهون، وعن الصراط المستقيم مُدْبِرون، وفي طرق الغيِّ والضلال يتردَّدون، وهذا لأنَّ الله خَذَلَهم فلم يُعْطِهِم من نوره. {وَمَن لم يَجْعَلِ الله له نوراً فما له من نورٍ}: لأنَّ نفسَه ظالمةٌ جاهلةٌ، فليس فيها من الخير والنور إلاَّ ما أعطاها مولاها ومنحها ربُّها. يُحْتَمَل أنَّ هذين المثالين لأعمال جميع الكفار؛ كلٌّ منهما منطبقٌ عليها، وعدَّدهما لتعدُّد الأوصاف، ويُحتمل أنَّ كلَّ مثال لطائفةٍ وفرقةٍ؛ فالأوَّل للمتبوعين، والثاني للتابعين. والله أعلم.
[40] کفار کا بھی یہی حال ہے، ان کے دلوں کو تہ در تہ تاریکیوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ طبیعت کی تاریکی، جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی، اس کے اوپر کفر کی تاریکی، اس کے اوپر جہالت کی تاریکی اور اس کے اوپر ان مذکورہ بالا صفات کی وجہ سے صادر ہونے والے اعمال کی تاریکی… پس کفار ان اندھیروں میں متحیر، اپنی جہالت میں سرگرداں ، صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے، ضلالت اور گمراہی کے راستوں میں مارے مارے پھرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی توفیق سے محروم کر کے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور انھیں اپنا نور عطا نہیں کیا۔ ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًؔا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ ﴾ ’’اور جس کے حصے میں اللہ نور نہ کرے تو اس کے لیے کوئی نور نہیں ۔‘‘ کیونکہ اس کا نفس ظالم اور جاہل ہے، اس میں کوئی بھلائی اور کوئی روشنی نہیں سوائے اس بھلائی اور روشنی کے جو اس کا رب اسے عطا کر دے… ان دونوں تمثیلوں میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے تمام کفار کے اعمال مراد ہوں ۔ دونوں تمثیلیں کفار کے اعمال پر منطبق ہوتی ہیں اور اعمال کے تعدد اوصاف کی بنا پر ان کو متعدد بیان کیا ہے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ دونوں مثالیں الگ الگ گروہوں کے لیے بیان کی گئی ہوں ۔ پہلی تمثیل قائدین کے لیے اور دوسری مثال پیروکاروں کے لیے ہو۔واللہ اعلم۔
آیت: 41 - 42 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ (41) وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (42)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ، تسبیح کرتا ہے اس کے لیے جو کوئی ہے آسمانوں اور زمین میں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے (بھی) ہر ایک (مخلوق) نے یقینا جان لی ہے اپنی نماز (عبادت) اور اپنی تسبیح اور اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو کچھ وہ کرتے ہیں (41)اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف ہے واپسی (42)
#
{41} نبَّه تعالى عبادَه على عظمتِهِ وكمال سلطانِهِ وافتقارِ جميع المخلوقاتِ له في ربوبيَّتها وعبادتها، فقال: {ألم تر أنَّ الله يسبِّحُ له مَن في السمواتِ والأرضِ}: من حيوان وجمادٍ، {والطيرُ صافاتٍ}؛ أي: صافات أجنِحَتِها في جوِّ السماء تسبِّحُ ربَّها. {كلٌّ}: من هذه المخلوقات {قد عَلِمَ صلاتَه وتسبيحَه}؛ أي: كلٌّ له صلاةٌ وعبادةٌ بحسب حاله اللائقة به، وقد ألهمه الله تلك الصلاة والتسبيح: إما بواسطة الرسل كالجن والإنس والملائكة، وإما بإلهام منه تعالى كسائر المخلوقات غير ذلك. وهذا الاحتمال أرجح؛ بدليل قوله: {واللهُ عليمٌ بما يفعلونَ}؛ أي: علم جميعَ أفعالها، فلم يخفَ عليه منه شيء، وسيجازيهم بذلك، فيكون على هذا قد جَمَعَ بين علمها بأعمالهم، وذلك بتعليمه، وبين علمه بأعمالهم المتضمِّن للجزاء. ويُحتمل أنَّ الضمير في قوله: {قد علم صلاتَه وتسبيحَه}: يعودُ إلى الله، وأنَّ الله تعالى قد عَلِمَ عباداتِهِم، وإنْ لم تَعْلَموا أيُّها العبادُ منها إلاَّ ما أطلعكم الله عليه. وهذه الآية كقوله تعالى: {تُسَبِّحُ له السمواتُ السبعُ والأرضُ ومَنْ فيهنَّ وإن من شيءٍ إلاَّ يسبِّح بحمدِهِ ولكن لا تَفْقَهونَ تسبيحَهم إنَّه كان حليماً غفوراً}.
[41] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ عظمت اور کامل تسلط کا مالک ہے، تمام مخلوق اپنی ربوبیت اور عبادت میں اس کی محتاج ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے ہر وہ مخلوق جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔‘‘ یعنی تمام حیوانات و جمادات﴿ وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ﴾ اور وہ پرندے (جو آسمان میں ) اپنے پر پھیلائے اڑ رہے ہیں وہ بھی تسبیح کرتے ہیں ﴿ كُ٘لٌّ ﴾ ’’ہر ایک نے‘‘ یعنی ان تمام مخلوقات میں سے ﴿ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِیْحَهٗ ﴾ ’’جان لیا ہے اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں ہر نوع کی، اس کی حسب حال نماز اور عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نماز اور تسبیح الہام کی ہے خواہ انبیاء ومرسلین کے توسط سے، جیسے جنوں ، انسانوں اور فرشتوں کی نماز اور تسبیح۔ یا اپنی جانب سے الہام کے ذریعے سے، جیسے دیگر مخلوق اور یہ احتمال زیادہ راجح ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ عنقریب انھیں اس کی جزا دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے ان اعمال کے بارے میں اپنے علم کو، جو اس کے سکھلانے سے وہ کرتے ہیں اور ان کے ان اعمال کے بارے میں ، جو جزا و سزا کو متضمن ہیں ، اپنے علم کو جمع کر دیا۔ آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِیْحَهٗ﴾ میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہو یعنی اللہ تعالیٰ ان کی عبادات کو جانتا ہے اگرچہ تم نہیں جانتے… اے بندو! اگرچہ تم اس میں سے صرف وہی کچھ جانتے ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمھیں مطلع کیا ہے… یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ تُ٘سَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًؔا﴾ (بنی اسرائیل:17؍44) ’’ساتوں آسمان، زمین اور ان کے اندر جتنی چیزیں ہیں سب اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں ۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ بڑا ہی بردبار اور بخشنے والا ہے۔‘‘
#
{42} فلما بيَّن عبوديَّتهم وافتقارهم إليه من جهة العبادة والتوحيد؛ بيَّن افتقارَهم من جهة الملك والتربية والتدبير، فقال: {ولله ملكُ السمواتِ والأرض}: خالقهما ورازقهما والمتصرِّفُ فيهما في حكمه الشرعيِّ والقدريِّ في هذه الدار وفي حكمه الجزائيِّ بدار القرار؛ بدليل قوله: {وإلى الله المصيرُ}؛ أي: مرجع الخلق ومآلهم ليجازِيَهم بأعمالهم.
[42] اللہ تبارک و تعالیٰ نے عبادت اور توحید کے پہلو سے ان کی عبودیت اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کی احتیاج بیان فرمائی، بعدازاں بیان فرمایا کہ وہ اقتدار، تربیت اور تدبیر کے پہلو سے بھی اس کے محتاج ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا خالق، رازق اور اس دنیا میں اپنے حکم شرعی و قدری کے ذریعے ان میں تصرف کرنے والا ہے اور آخرت میں حکم جزائی کے ذریعے سے ان میں تصرف کرے گا اور اس کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ ﴾ یعنی آخر کار تمام مخلوق کا مرجع و منتہی اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے۔
آیت: 43 - 44 #
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِيهَا مِنْ بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشَاءُ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ (43) يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ (44)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ بے شک اللہ (ہی) چلاتا ہے بادل کو، پھر وہ ملاتا ہے باہم ان کو، پھر وہ کر دیتا ہے اسے تہ بہ تہ، پس دیکھتے ہیں آپ بارش کو کہ وہ نکلتی ہے اس کے درمیان میں سے اور وہ اتارتا ہے آسمان سے (یعنی )ان پہاڑوں میں سے جو اس (آسمان) میں ہیں ، اولے ، پھر وہ پہنچاتا (برساتا) ہے وہ اولے اس پر جس کو وہ چاہتا ہےاور پھیر دیتا ہے ان (اولوں ) کو جس سے چاہتا ہے قریب ہے کہ چمک اس کی بجلی کی لے جائے آنکھوں (کی روشنی) کو (43)الٹتا پلٹتا رہتا ہے اللہ رات اور دن کو، بلاشبہ اس میں البتہ عبرت ہے واسطے اہل نظر کے (44)
#
{43} أي: ألم تشاهدْ ببصرِك عظيمَ قدرةِ الله وكيف {يُزْجي}؛ أي: يسوق {سحاباً}: قطعاً متفرقة، {ثم يؤلِّفُ}: بين تلك القطع، فيجعلُه سحاباً متراكماً مثل الجبال {فترى الوَدْقَ}؛ أي: الوابل والمطر يخرجُ من خلال السحابِ نقطاً متفرِّقة؛ ليحصُلَ بها الانتفاع من دون ضررٍ، فتمتلئ بذلك الغُدران، وتتدفَّق الخُلجان، وتسيل الأوديةُ، وتنبتُ الأرض من كلِّ زوج كريم. وتارةً ينزِّلُ الله من ذلك السحاب بَرَداً يُتْلِفُ ما يصيبُه {فيصيبُ به من يشاءُ ويصرِفُه عن مَن يشاءُ}؛ أي: بحسب اقتضاء حكمه القدريِّ وحكمتِهِ التي يُحْمَدُ عليها، {يكاد سَنا بَرْقِهِ}؛ أي: يكادُ ضوءُ برق ذلك السحاب من شدَّته {يذهبُ بالأبصارِ}؛ أليس الذي أنشأها وساقَها لعبادِهِ المفتقرين وأنزلها على وجهٍ يحصُلُ به النفع وينتفي به الضررُ كاملَ القدرة نافذَ المشيئة واسعَ الرحمة؟!
[43] کیا تو نے اپنی آنکھوں کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ کیسے ﴿ یُزْجِیْ سَحَابً٘ا ﴾ ’’بادل کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو ہانکتا ہے‘‘﴿ثُمَّ یُؤَلِّفُ ﴾ پھر وہ ان بدلیوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کو پہاڑوں کی مانند گہرا ابر بنا دیتا ہے۔﴿ فَتَرَى الْوَدْقَ ﴾ تو ان بادلوں میں سے متفرق قطروں کی صورت میں بارش کو نکلتے ہوئے دیکھتا ہے تاکہ کسی ضرر کے بغیر اس بارش سے فائدہ حاصل ہو۔ پس اس بارش سے بڑے بڑے تالاب بھر جاتے ہیں ، دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں ، وادیاں بہہ نکلتی ہیں اور روئے زمین پر قسم قسم کی نباتات اگ آتی ہیں اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بادل میں سے ژالہ باری بھی کرتا ہے یہ ژالہ باری جہاں ہوتی ہے ہر چیز کو تلف کر کے رکھ دیتی ہے۔ ﴿ فَیُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَیَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ﴾ پس وہ اپنے حکم کونی و قدری کے تقاضے اور اپنی قابل ستائش حکمت کے مطابق جس پر چاہتا ہے ژالہ باری کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس ژالہ باری سے بچا لیتا ہے۔﴿ یَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ ﴾ یعنی اس بادل میں کوندنے والی بجلی اپنی تیز روشنی کی وجہ سے، قریب ہے کہ ﴿ یَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِ﴾ ’’آنکھوں کو لے جائے۔‘‘ وہ ہستی، جس نے ان بادلوں کو اٹھایا اور ان کو اپنے ان بندوں تک پہنچایا جو اس کے محتاج ہیں اور ان کو اس طرح برسایا کہ اس بارش سے فائدہ حاصل ہو اور نقصان نہ ہو… کیا وہ کامل قدرت، اٹل مشیت اور بے پایاں رحمت کی مالک نہیں ؟
#
{44} {يقلِّب الله الليل والنهار}: من حرٍّ إلى برد، ومن بردٍ إلى حرٍّ، ومن ليل إلى نهار، ونهار إلى ليل ويُديلُ الأيام بين عبادِهِ. {إنَّ في ذلك لَعبرةً لأولي الأبصار}؛ أي: لذوي البصائر والعقول النافذة للأمور المطلوبة منها كما تنفذ الأبصار إلى الأمور المشاهَدَة الحسيَّة؛ فالبصير ينظُرُ إلى هذه المخلوقات نَظَرَ اعتبار وتفكُّر وتدبُّر لما أريدَ بها ومنها، والمعرضُ الجاهل نَظَرُهُ إليها نظرُ غفلةٍ بمنزلة نَظَرِ البهائم.
[44] ﴿ یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ﴾ ’’بدلتا ہے اللہ رات اور دن کو۔‘‘ یعنی گرمی میں سے نکال کر سردی کی طرف لاتا ہے اور سردی سے نکال کر گرمی کی طرف لاتا ہے۔ رات میں سے دن کو اور دن میں سے رات کو نکال لاتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان دنوں کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔ ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ ﴾ یعنی اس میں اصحاب بصیرت اور امور مطلوبہ کی گہرائی تک پہنچنے والی عقل رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے، جیسے نظر قابل مشاہدہ حسی امور تک پہنچتی ہے۔ صاحب بصیرت ان مخلوقات کو عبرت اور تفکر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس بات میں تدبر کرتا ہے کہ ان مخلوقات کی تخلیق کا کیا مقصد ہے اور روگردانی کرنے والا جاہل شخص اس کائنات پر غفلت کی نظر ڈالتا ہے، جیسے جانور اشیاء کو دیکھتے ہیں ۔
آیت: 45 #
{وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (45)}.
اور اللہ ہی نے پیدا کیا ہر زمین پر چلنے والے جان دار کو پانی سے، پس کچھ ان میں سے وہ ہیں جو چلتے ہیں اپنے پیٹ کے بل اور کچھ ان میں سے وہ ہیں جو چلتے ہیں دو پاؤں پر اور کچھ ان میں سے وہ ہیں جو چلتے ہیں چار پاؤں پر پیدا کرتا ہے اللہ جو چاہتا ہے بلاشبہ اللہ اوپر ہر چیز کے قادر ہے (45)
#
{45} ينبِّه عباده على ما يشاهدونَه أنَّه خَلَقَ جميع الدوابِّ التي على وجه الأرض {من ماءٍ}؛ أي: مادَّتُها كلُّها الماء؛ كما قال تعالى: {وَجَعَلْنا من الماءِ كلَّ شيءٍ حيٍّ}؛ فالحيوانات التي تتوالد، مادتها ماءُ النطفةِ حين يلقحُ الذَّكر الأنثى، والحيوانات التي تتولَّد من الأرض لا تتولَّد إلاَّ من الرطوبات المائيَّة؛ كالحشرات، لا يوجد منها شيءٌ يتولَّد من غير ماء أبداً؛ فالمادَّة واحدةٌ، ولكن الخِلْقَةَ مختلفةٌ من وجوه كثيرة. {فمنهم من يمشي على بطنِهِ}؛ كالحيَّة ونحوها، {ومنهم مَنْ يمشي على رجلينِ}؛ كالآدميِّين وكثيرٍ من الطُّيور، {ومنهم من يمشي على أربع}؛ كبهيمة الأنعام ونحوها؛ فاختلافُها مع أنَّ الأصل واحدٌ يدلُّ على نفوذِ مشيئة الله وعموم قدرتِهِ. ولهذا قال: {يَخْلُقُ الله ما يشاءُ}؛ أي: من المخلوقات على ما يشاؤه من الصفات. {إنَّ الله على كلِّ شيء قديرٌ}؛ كما أنزل المطر على الأرض، وهو لقاحٌ واحدٌ، والأمُّ واحدةٌ، وهي الأرضُ، والأولاد مختلفو الأصنافِ والأوصافِ. {وفي الأرض قطعٌ متجاوراتٌ وَجَنَّاتٌ من أعنابٍ وَزَرْع ونَخيلٍ صِنْوانٌ وغَيْرُ صنوانٍ يُسْقى بماءٍ واحدٍ ونُفَضِّلُ بعضَها على بعض في الأُكُلِ إنَّ في ذلك لآياتٍ لقوم يعقلونَ}.
[45] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین کے تمام جانداروں کو… جیسا کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں ﴿ مِنْ مَّآءٍ ﴾ ’’پانی سے‘‘ تخلیق فرمایا، یعنی تمام جان داروں کا مادۂ تخلیق پانی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُ٘لَّ شَیْءٍ حَیٍّ﴾ (الانبیاء:21؍30) ’’اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ہے۔‘‘ پس وہ حیوانات جن کا سلسلۂ تناسل جاری ہے، ان کا مادۂ تخلیق نطفہ کا پانی ہے جب نر مادہ کو حاملہ کرتا ہے تو اسی آب نطفہ سے تخلیق ہوتی ہے اور وہ حیوانات جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف پانی کی رطوبتوں سے پیدا ہوتے ہیں ، مثلاً:حشرات الارض۔ ان میں نطفہ وغیرہ موجود نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ آب نطفہ کے بغیر پیدا ہوتے ہیں ۔ پس مادۂ تخلیق ایک ہے مگر اس سے پیدا ہونے والی مخلوق بہت سے پہلوؤں سے (ایک دوسرے سے) مختلف ہوتی ہے۔ ﴿فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖ ﴾ ’’پس ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے‘‘ جیسے سانپ وغیرہ﴿وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْ٘نِ ﴾ ’’اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے ‘‘ جیسے آدمی اور بہت سے پرندے﴿وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ ﴾ ’’اور بعض ان میں سے چار ٹانگوں پر چلتے ہیں ۔‘‘ جیسے چوپائے اور مویشی وغیرہ۔ اصل ایک کے باوجود ان میں تنوع دلالت کرتا ہے کہ اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی مشیت سب میں نافذ ہے۔ بنابریں فرمایا:﴿ یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ﴾ ’’اللہ جو چاہتا ہے (اور جیسی چاہتا ہے اپنی مخلوق) پیدا کرتا ہے‘‘ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ مثلاً: اللہ تعالیٰ زمین پر پانی نازل کرتا ہے، یعنی پانی ایک ہی ہے۔ ماں ، یعنی زمین ایک ہے مگر اس زمین سے جنم لینے والی اولاد مختلف اوصاف کی حامل اور متنوع ہے۔ فرمایا: ﴿ وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰؔوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُّ٘سْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُ٘لِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ﴾ (الرعد:13؍4) ’’اور زمین میں الگ الگ خطے ہیں جو ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں ، انگور کے باغات ہیں ، کھیتیاں ہیں ، نخلستان ہیں ان میں سے کچھ ایک ہی جڑ سے دو درخت نکلے ہوئے ہیں ، کچھ اکہرے ہیں ، جن کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر مزے میں ہم ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دے دیتے ہیں ۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔‘‘
آیت: 46 #
{لَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (46)}.
البتہ تحقیق نازل کیں ہم نے آیتیں کھول کر بیان کرنے والی اور اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے طرف راہ راست کی (46)
#
{46} أي: لقد رَحِمْنا عبادنا وأنزلنا إليهم آياتٍ بيِّناتٍ؛ أي: واضحات الدِّلالة على جميع المقاصد الشرعيَّة والآداب المحمودة والمعارف الرشيدة، فاتَّضحتْ بذلك السُّبُل، وتبيَّن الرُّشْدُ من الغَيِّ والهُدى من الضلال؛ فلم يبقَ أدنى شبهةٍ لمبطل يتعلَّقُ بها، ولا أدنى إشكال لمريدِ الصوابِ؛ لأنَّها تنزيلُ مَنْ كَمُلَ علمهُ وكَمُلَتْ رحمتُه وكَمُلَ بيانُه؛ فليس بعد بيانِهِ بيان. لِيَهْلِكَ بعد ذلك مَنْ هَلَكَ عن بَيِّنَةٍ وَيَحْيا مَنْ حَيَّ عن بَيِّنَةٍ. {والله يهدي مَنْ يشاءُ}: ممَّن سبقتْ لهم سابقةُ الحسنى وقَدَمُ الصدق {إلى صراطٍ مستقيم}؛ أي: طريق واضح مختصر موصِل إليه وإلى دار كرامته متضمِّنٍ العلمَ بالحقِّ وإيثارَه والعملَ به. عمَّمَ البيانَ التامَّ لجميع الخَلْق، وخَصَّصَ بالهدايةِ مَنْ يشاءُ؛ فهذا فضلُه وإحسانُه، وما فضلُ الكريم بممنونٍ، وذاك عدلُه، وقَطَعَ الحجَّةَ للمحتجِّ، والله أعلم حيثُ يجعل مع مواقع إحسانه.
[46] ہم نے اپنے بندوں پر رحم کر کے آیات بینات نازل کی ہیں ، جو تمام مقاصد شرعیہ، آداب محمودہ اور معارف رشیدہ پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں ۔ پس اس طرح راستے واضح ہو گئے، گمراہی میں سے راہ راست اور ضلالت میں سے ہدایت نمایاں ہو گئی۔ اس بارے میں کسی باطل پسند کے لیے شبہ کی ادنیٰ سی گنجائش باقی رہی نہ کسی متلاشی حق کے لیے کوئی اشکال باقی رہا… کیونکہ یہ آیات بینات اسی ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہیں جس کا علم کامل، جس کی رحمت کامل اور جس کا بیان کامل ہے۔ اس کے بیان سے بڑھ کر کوئی بیان نہیں ﴿ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّیَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ﴾ (الانفال:8؍42) ’’تاکہ (اس کے بعد) جو کوئی ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔‘‘ ﴿ وَاللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ’’اور اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔‘‘ ان لوگوں میں سے جن کے لیے بھلائی اور سچی عزت سبقت کر گئی ﴿ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ واضح اور مختصر راستے کی ، جو اس تک اور اس کے اکرام و تکریم والے گھر تک جاتا ہے، جو علم حق، اس کو ترجیح دینے اور اس پرعمل کرنے کو متضمن ہے۔ اس کا بیان کامل تمام مخلوق کے لیے اور سب کو شامل ہے مگر ہدایت صرف اسی کے لیے مخصوص ہے جسے وہ چاہتا ہے۔ یہ اس کا فضل و احسان ہے اور رب کریم کا فضل و کرم کبھی منقطع نہیں ہوتا اور یہ اس کا عدل ہے۔ اس نے کسی کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہنے دی اور احسان کے مواقع کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
آیت: 47 - 50 #
{وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (47) وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ (48) وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ (49) أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (50)}.
اور وہ (منافق) کہتے ہیں ، ایمان لائے ہم ساتھ اللہ کے اور ساتھ( اس کے)رسول کےاور اطاعت کی ہم نے، پھر پھر جاتا ہے ایک فریق ان میں سے بعد اس کےاور نہیں ہیں وہ لوگ مومن (47) اور جب بلائے جاتے ہیں وہ طرف اللہ اور اس کے رسول کی تاکہ وہ فیصلہ کرے ان کے درمیان تو ناگہاں کچھ لوگ ان میں سے اعراض کرنے والے (ہوتے) ہیں (48)اور اگر ہو ان کے لیے حق تو آتے ہیں آپ کی طرف فرماں بردار ہو کر (49) کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا انھوں نے شک کیا یا وہ ڈرتے ہیں اس بات سے کہ ظلم کرے گا اللہ ان پر او ر اس کا رسول؟ (نہیں !)بلکہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں (50)
#
{47} يخبر تعالى عن حالةِ الظَّالمينَ ممَّن في قلبه مرضٌ وضعفُ إيمانٍ أو نفاقٌ ورَيْبٌ وضعفٌ، علم أنَّهم يقولون بألسنتهم ويلتزمون الإيمان بالله والطاعة، ثم لا يقومون بما قالوا، ويتولَّى فريقٌ منهم عن الطاعة تولياً عظيماً؛ بدليل قوله: {وهُم معرِضونَ}؛ فإنَّ المتولِّي قد يكون له نيَّةُ عَوْدٍ ورُجوع إلى ما تولَّى عنه، وهذا المتولِّي معرضٌ لا التفات له ولا نَظَرَ لما تولَّى عنه. وتجدُ هذه الحالة مطابقةً لحال كثيرٍ ممَّن يَدَّعي الإيمان والطاعة لله، وهو ضعيفُ الإيمان، تجِدُه لا يقومُ بكثيرٍ من العبادات، خصُوصاً العبادات التي تشقُّ على كثيرٍ من النفوس؛ كالزكوات، والنفقات الواجبة والمستحبَّة، والجهاد في سبيل الله، ونحو ذلك.
[47] اللہ تبارک و تعالیٰ ان ظالموں کی حالت بیان کرتا ہے جن کے دلوں میں بیماری، ضعف ایمان، نفاق، شک و ریب اور ضعف علم ہے جو اپنی زبان سے ایمان باللہ اور اطاعت کے التزام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتے اور ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے بہت زیادہ روگردانی کرتا ہے۔ فرمایا: ﴿وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾ (الانفال:8؍23) ’’اور وہ اعراض کرنے والے ہیں ۔‘‘ کیونکہ روگردانی کرنے والے کی کبھی کبھی اس امر کی طرف رجوع کی نیت ہوتی ہے جس سے اس نے روگردانی کی تھی۔ مگر یہ ظالم اس کی طرف التفات اور اس کی طرف رجوع کا کوئی ارادہ نہیں رکھتااور اس حالت کو آپ ایسے بہت سے لوگوں کے احوال کے مطابق پائیں گے جو ایمان اور اطاعت کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ ضعیف الایمان ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ بہت سی عبادات کو قائم نہیں کرتے خاص طور پر ایسی عبادات جو بہت سے نفوس پر گراں گزرتی ہیں ، مثلاً: زکاۃ، نفقات واجبہ و مستحبہ اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔
#
{48} {وإذا دُعوا إلى الله ورسوله ليحكم بينهم}؛ أي: إذا صار بينَهم وبينَ أحدٍ حكومةٌ ودُعوا إلى [حكم] الله ورسوله، {إذا فريقٌ منهم معرِضونَ}: يريدونَ أحكامَ الجاهليَّة ويفضِّلون أحكام القوانين غير الشرعيَّة على الأحكام الشرعيَّة؛ لعلمِهِم أنَّ الحقَّ عليهم، وأنَّ الشرع لا يحكُم إلاَّ بما يطابِقُ الواقع.
[48] ﴿ وَاِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ﴾ جب ان کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مخاصمت ہوتی ہے اور انھیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ﴿ اِذَا فَرِیْقٌ مِّؔنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ ’’تو ایک گروہ ان میں سے اعراض کرتا ہے۔‘‘ وہ جاہلیت کے احکام چاہتے ہیں اور غیر شرعی قوانین کو شرعی قوانین پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ حق ان کے خلاف ہو گا اور شریعت وہی فیصلہ کرے گی جو واقع کے مطابق ہو گا۔
#
{49} {وإن يكن لهم الحقُّ يأتوا إليه}؛ أي: إلى حكم الشرع {مُذْعِنينَ}: وليس ذلك لأجل أنَّه حكم شرعيٌّ، وإنَّما ذلك لأجل موافقة أهوائهم؛ فليسوا ممدوحينَ في هذه الحال، ولو أتوا إليه مذعنين؛ لأنَّ العبدَ حقيقةً مَن يتَّبع الحقَّ فيما يحبُّ ويكره، وفيما يسرُّه ويحزنُه. وأما الذي يتَّبع الشرع عند موافقة هواه وينبِذُهُ عند مخالفتِهِ، ويقدِّم الهوى على الشرع؛ فليس بعبدٍ على الحقيقة.
[49] ﴿ وَاِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَ٘اْتُوْۤا اِلَیْهِ ﴾ اور اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو شریعت کے فیصلے کو قبول کرلیتے ہیں ﴿ مُذْعِنِیْنَ﴾ ’’اس کو مانتے ہوئے۔‘‘ ان کا شریعت کے فیصلے کو قبول کرنا اس بنا پر نہیں کہ یہ شرعی فیصلہ ہے بلکہ وہ اس فیصلے کو اس بنا پر قبول کرتے ہیں کہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے تب وہ اس صورت میں قابل ستائش نہیں ہیں خواہ وہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہی کیوں نہ آئیں کیونکہ بندہ درحقیقت وہ ہے جو اپنے محبوب اور ناپسندیدہ امور میں اور اپنی خوشی اور غمی میں حق کی اتباع کرتا ہے اور وہ شخص جو شریعت کی اتباع اس وقت کرتا ہے جب شریعت اس کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور اگر شریعت کا حکم اس کی خواہش کے خلاف ہو تو اسے دور پھینک دیتا ہے، وہ خواہش نفس کو شریعت پر مقدم رکھتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ نہیں ہے۔
#
{50} قال الله في لومهم على الإعراض عن الحكم الشرعي: {أفي قلوبِهِم مرضٌ}؛ أي: علَّة أخرجت القلبَ عن صحَّتِهِ وأزالت حاسَّته فصار بمنزلة المريض الذي يعرِضُ عمَّا ينفعُه ويُقْبِلُ على ما يضرُّه. {أم ارتابوا}؛ أي: شكُّوا وقلقتْ قلوبُهم من حكم الله ورسوله واتَّهموه أنه لا يحكُمُ بالحقِّ. {أم يخافون أن يحيفَ اللهُ عليهم ورسولُه}؛ أي: يحكم عليهم حكماً ظالماً جائراً، وإنَّما هذا وصفُهم؛ {بل أولئك هم الظالمونَ}، وأما حكُم اللهِ ورسولِهِ؛ ففي غاية العدالةِ والقِسْط وموافقةِ الحكمة، {ومَنْ أحسنُ من الله حُكْماً لقوم يوقِنونَ}. وفي هذه الآيات دليلٌ على أنَّ الإيمان ليس هو مجرد القول حتى يقترِنَ به العملُ، ولهذا نفى الإيمان عمَّنْ تولَّى عن الطاعة ووجوب الانقياد لحكم الله ورسولِهِ في كلِّ حال، وأنَّ مَن لم يَنْقَدْ له دلَّ على مرض في قلبِهِ ورَيْبٍ في إيمانِهِ، وأنَّه يحرم إساءة الظنِّ بأحكام الشريعة، وأنْ يظنَّ بها خلاف العدل والحكمة.
[50] ان لوگوں کی احکام شریعت سے روگردانی پر ملامت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ اَفِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ ’’کیا ان کے دلوں میں کوئی بیماری ہے؟‘‘ جس نے ان کے دلوں کو صحت کے دائرہ سے نکال دیا، اس کا احساس جاتا رہا اور وہ بیمار آدمی کی طرح ہوگئے جو ہمیشہ اس چیز سے اعراض کرتا ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو قبول کرتا ہے جو اس کے لیے ضرر رساں ہے۔﴿ اَمِ ارْتَابُوْۤا ﴾ یا انھیں کوئی شک ہے یا ان کے دل اللہ اور اس کے رسول (e)کے حکم کے بارے میں اضطراب کا شکار ہو گئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔ ﴿ اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ﴾ ’’یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ظلم وجور پر مبنی فیصلہ کرے گا حالانکہ یہ تو انھی کا وصف ہے۔ ﴿بَلْ اُولٰٓىِٕـكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’بلکہ ظالم تو وہ خود ہیں ۔‘‘ رہا اللہ اور اس کے رسول (e)کا فیصلہ تو وہ انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اور حکمت کے موافق ہے۔ ﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ﴾ (المائدہ:5؍50) ’’یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بڑھ کر کس کا فیصلہ اچھا ہو سکتا ہے؟‘‘ ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان مجرد قول کا نام نہیں بلکہ ایمان صرف اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی مقرون ہو۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے ایمان کی نفی کی ہے جو اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے وجوب کو نہیں مانتا اور اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سرافگندہ نہیں ہوتا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں بیماری اور اس کے ایمان میں شک وریب کا شائبہ ہے، نیز احکام شریعت کے بارے میں بدگمانی کرنا اور ان کو عدل و حکمت کے خلاف سمجھنا حرام ہے۔
آیت: 51 - 52 #
{إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (51) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (52)}.
بلاشبہ ہے بات مومنوں کی، جب بلائے جاتے ہیں وہ طرف اللہ اور اس کے رسول کی تاکہ وہ فیصلہ کرے درمیان ان کے،یہ کہ کہتے ہیں وہ، سنا ہم نے اور اطاعت کی ہم نےاور یہ لوگ، وہی ہیں فلاح پانے والے (51) اور جو شخص اطاعت کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور وہ ڈرے اللہ سے اور تقویٰ اختیار کرے اس کا، پس یہ لوگ ، وہی ہیں کامیاب (52)
#
{51} أي: {إنَّما كان قولَ المؤمنين}: حقيقةً، الذين صَدَّقوا إيمانَهم بأعمالهم حين يدعون {إلى الله ورسولِهِ لِيَحْكُم بينَهم}: سواء وافق أهواءهم أو خالفها، {أنْ يقولوا سَمِعْنا وأطَعْنا}؛ أي: سمعنا حكم الله ورسولِهِ وأجَبْنا مَنْ دعانا إليه وأطعنا طاعةً تامةً سالمةً من الحرج. {وأولئك هم المفلحونَ}: حَصَرَ الفلاح فيهم؛ لأنَّ الفلاحَ الفوزُ بالمطلوب والنجاةُ من المكروه، ولا يُفْلِحُ إلاَّ مَنْ حَكَّمَ اللهَ ورسولَه وأطاع اللهَ ورسولَه.
[51] اللہ تبارک و تعالیٰ نے احکام شریعت سے روگردانی کرنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد، اہل ایمان، جو مدح کے مستحق ہیں ، کا حال بیان کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ یعنی حقیقی مومن جنھوں نے اپنے اعمال کے ذریعے اپنے ایمان کی تصدیق کی جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے خواہ یہ فیصلہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے یا مخالف﴿ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا﴾ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘ یعنی ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کے فیصلے کوسنا اور جس نے ہمیں اس فیصلے کی طرف بلایا ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور ہم نے مکمل طور پر بغیر کسی تنگی کے، اس کی اطاعت کی۔ ﴿ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’اور یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر فلاح کو منحصر قرار دیا ہے کیونکہ فلاح سے مراد ہے مطلوب و مقصود کے حصول میں کامیابی اور امر مکروہ سے نجات… صرف وہی شخص فلاح پا سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو حَکَم اور ثالث بناتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔
#
{52} ولما ذَكَرَ فضل الطاعة في الحكم خصوصاً؛ ذَكَرَ فضلَها عموماً في جميع الأحوال، فقال: {ومَنْ يُطِع اللهَ ورسولَه}: فيصدِّقُ خَبَرَهُما ويمتثلُ أمْرَهُما {ويَخْشَ الله}؛ أي: يخافُه خوفاً مقروناً بمعرفة، فيترُكُ ما نهى عنه، ويكفُّ نفسَه عمَّا تَهْوى، ولهذا قال: {وَيَتَّقْهِ}: بترك المحظور؛ لأن التَّقْوى عند الإطلاق يدخُلُ فيها فعلُ المأمور وتركُ المنهيِّ عنه، وعند اقترانها بالبرِّ أو الطاعة ـ كما في هذا الموضع ـ تفسَّر بتوقِّي عذاب الله بترك معاصيه. {فأولئك}: الذين جَمَعوا بين طاعةِ الله وطاعةِ رسوله، وخشيةِ الله وتقواه {هم الفائزون}: بنجاتِهِم من العذاب؛ لتركِهم أسبابَه، ووصولِهم إلى الثواب؛ لفعلهم أسبابه؛ فالفوزُ محصورٌ فيهم، وأمَّا مَنْ لم يتَّصِفْ بوصفِهم؛ فإنَّه يفوته من الفوز بحسب ما قصَّر عنه من هذه الأوصافِ الحميدة. واشتملتْ هذه الآيةُ على الحقِّ المشترك بين الله وبين رسوله، وهو الطاعةُ المستلزمةُ للإيمان، والحقِّ المختص بالله، وهو الخشيةُ والتقوى، وبقي الحقُّ الثالث المختصُّ بالرسول، وهو التعزيرُ والتوقيرُ؛ كما جَمَعَ بين الحقوق الثلاثة في سورة الفتح في قوله: {لِتُؤْمِنوا باللهِ ورسولِهِ وتعزِّروهُ وتوقِّروهُ وتسبِّحوهُ بُكْرَةً وأصيلاً}.
[52] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اطاعت، خاص طور پر حکم شریعت کی اطاعت کی فضیلت بیان کی تو تمام احوال میں اطاعت کی فضیلت کا عمومی تذکرہ کیا اور فرمایا:﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ﴾ ’’اور جو اطاعت کرتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی۔‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی خبر کی تصدیق اور ان کے حکم کی تعمیل کرتا ہے﴿ وَیَخْشَ اللّٰهَ ﴾ اور اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرتا ہے کہ اس کا یہ خوف معرفت سے مقرون ہوتا ہے، بنابریں وہ منہیات کو ترک کر دیتا ہے اور خواہشات نفس کی تعمیل سے باز آجاتا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَیَتَّقْهِ ﴾ اور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے محظورات کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ تقویٰ سے، علی الاطلاق، مراد ہے مامورات کی تعمیل کرنا اور منہیات کو چھوڑ دینا اور جب یہ نیکی اور اطاعت سے مقرون ہو… جیسا کہ اس مقام پر ہے… تب اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو چھوڑ کر اس کے عذاب سے بچنا ہے۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ ﴾ یہی لوگ ، جو اطاعت الٰہی، اطاعت رسول، تقوائے الٰہی اور خشیت الٰہی کے جامع ہیں ﴿ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠ ﴾ ’’کامیاب ہیں ۔‘‘ اسباب عذاب کو ترک کر کے، اس سے نجات حاصل کرکے، ثواب کے اسباب اختیار کر کے اور اس کی منزل تک پہنچ کر وہ کامیاب ہوئے۔ پس کامیابی انھی کے لیے مخصوص ہے۔ جو کوئی ان لوگوں کے اوصاف سے متصف نہیں تو وہ ان اوصاف حمیدہ میں کوتاہی کے مطابق اس فوزوفلاح سے محروم ہو گا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(e) کے مشترک حق کے بیان پر مشتمل ہے۔ رسول کے حق سے مراد اطاعت رسول ہے جو ایمان کو مستلزم ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص حق سے مراد تقویٰ اور خشیت الٰہی ہے اور تیسرا حق جو صرف رسولeکے ساتھ مختص ہے، وہ ہے آپ کی مدد و توقیر کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان حقوق ثلاثہ کو‘‘ سورۃ الفتح‘‘ میں یوں جمع فرمایا ہے: ﴿ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّ٘رُوْهُ١ؕ وَتُسَبِّحُوْهُ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الفتح:48؍9) ’’تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد اور توقیر کرو اور صبح و شام اس (اللہ تعالیٰ) کی تسبیح بیان کرو۔‘‘
آیت: 53 - 54 #
{وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (53) قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (54)}.
اور انھوں نے قسمیں کھائیں اللہ کی پختہ قسمیں اپنی البتہ اگر حکم دیں آپ ان کو (جہاد کا) تو وہ ضرور نکلیں گے، آپ کہہ دیجیے! مت قسمیں کھاؤ تم، اطاعت (تمھاری) معروف ہے بلاشبہ اللہ خوب خبردار ہے ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو (53) آپ کہہ دیجیے! اطاعت کرو تم اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، پس اگر تم روگردانی کرو گے تو یقینا اس (رسول) کے ذمے ہے جو کچھ بار رکھا گیا (اس پر) اور تمھارے ذمے ہے جو کچھ بار رکھا گیا (تم پر) اور اگر تم اطاعت کرو گے اس کی تو ہدایت پا جاؤ گےاور نہیں ہے رسول کے ذمے مگر پہنچا دینا کھلم کھلا (54)
#
{53} يخبِرُ تعالى عن حالة المتخلِّفين عن الرسول - صلى الله عليه وسلم - في الجهادِ من المنافقين ومَن في قلوبِهِم مرضٌ وضَعْفُ إيمان أنَّهم يقسِمون بالله: {لئن أمَرْتَهم}: فيما يُسْتَقْبَلُ أو لئنْ نصصتَ عليهم حين خرجتَ؛ {لَيَخْرُجُنَّ} والمعنى الأولُ أولى. قال الله رادًّا عليهم: {قُلْ لا تقسِموا}؛ أي: لا نحتاج إلى إقسامكم وإلى أعذاركم؛ فإنَّ الله قد نبَّأنا من أخباركم. وطاعتُكُم معروفةٌ لا تَخْفى علينا، قد كُنَّا نعرِفُ منكم التثاقلَ والكسلَ من غير عذرٍ؛ فلا وجهَ لِعُذْرِكم وقَسَمِكم، إنَّما يحتاجُ إلى ذلك من كان أمرُهُ محتملاً وحاله مُشتبهةً؛ فهذا ربما يفيدُه العذر براءةً، وأمَّا أنتُم؛ فكلاَّ ولمَّا، وإنَّما يُنْتَظَرُ بكم ويُخاف عليكم حلول بأس الله ونقمته، ولهذا توعَّدهم بقوله: {إنَّ الله خبيرٌ بما تعملون}: فيجازِيكم عليها أتمَّ الجزاء.
[53] اللہ تبارک و تعالیٰ ان منافقین کا حال بیان کرتا ہے جو جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ e کے ساتھ نہیں نکلے اورپیچھے گھروں میں بیٹھ رہے، نیز ان کا حال بیان کرتا ہے جن کے دلوں میں مرض اور ضعف ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں :﴿ لَىِٕنْ اَمَرْتَهُمْ ﴾ ’’البتہ اگر آپ انھیں حکم دیں ‘‘ مستقبل میں یا جہاد کے لیے نکلتے وقت آپ ان کے نکلنے پر صراحت کے ساتھ اصرار کریں گے﴿ لَیَخْرُجُنَّ ﴾ ’’تو وہ ضرور نکلیں گے۔‘‘ پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ قُ٘لْ لَّا تُ٘قْ٘سِمُوْا ﴾ ’’کہہ دیجیے! نہ قسمیں کھاؤ۔‘‘ یعنی ہمیں تم سے قسمیں اٹھوانے کی اور تمھارے عذروں کی توضیح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے بارے میں ہمیں آگاہ فرما دیا ہے اور تمھاری اطاعت گزاری سب کے سامنے ہے، ہم پر مخفی نہیں ، ہم تمھاری سستی اور کسی عذر کے بغیر تمھاری کسل مندی کو خوب جانتے ہیں ، اس لیے تمھارے عذر پیش کرنے اور قسمیں اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا محتاج تو صرف وہ ہوتا ہے جس کے معاملے میں متعدد احتمالات ہوں اور اس کا حال مشتبہ ہو، ایسے شخص کے لیے کبھی کبھی عذر اس کی براء ت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ مگر تمھیں عذر کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تمھارے بارے میں تو اس بات کا ڈر اور انتظار ہے کہ کب تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا غضب نازل ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ وہ تمھیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا…
#
{54} هذه حالُهم في نفس الأمر، وأمَّا الرسولُ عليه الصلاة والسلام؛ فوظيفتُهُ أنْ يأمُرَكم وينهاكُم، ولهذا قال: {قُلْ أطيعوا اللهَ وأطيعوا الرسولَ فإن}: امتثلوا؛ كان حظَّكم وسعادَتَكم، وإنْ {تَوَلَّوْا فإنَّما عليه ما حُمِّلَ}: من الرسالة، وقد أدَّاها، {وعليكُم ما حُمِّلْتُم}: من الطاعة، وقد بانت حالُكم وظهرتْ، فبان ضلالُكم وغيُّكم واستحقاقُكم العذاب. {وإن تُطيعوه تَهْتَدوا}: إلى الصراط المستقيم قولاً وعملاً؛ فلا سبيلَ لكم إلى الهداية إلاَّ بطاعتِهِ، وبدون ذلك لا يمكنُ، بل هو محالٌ. {وما على الرسول إلاَّ البلاغُ المُبينُ}؛ أي: تبليغُكُم البيِّنُ الذي لا يُبقي لأحدٍ شَكًّا ولا شبهةً، وقد فعل - صلى الله عليه وسلم -؛ بَلَّغَ البلاغَ المُبين، وإنَّما الذي يحاسِبُكم ويجازيكم هو الله تعالى؛ فالرسول ليس له من الأمرِ شيءٌ، وقد قام بوظيفتِهِ.
[54] یہ ہے ان کی حقیقت احوال۔رہے رسول اللہe تو آپ کا وظیفہ یہ ہے کہ آپ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اس لیے فرمایا: ﴿قُ٘لْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ ’’کہہ دیجیے! اطاعت کرو اللہ اور رسول کی۔‘‘ اگر وہ اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں تو یہ ان کی سعادت ہے۔ ﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ ﴾ ’’پس اگر تم نے روگردانی کی تو اس (پیغمبر) پر وہ (ذمے داری) ہے جو اس پر ڈالی گئی۔‘‘ یعنی رسالت کی ذمے داری، جو اس نے ادا کر دی﴿ وَعَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ﴾ ’’اور تم پر وہ ہے جو تم پر ڈالی گئی۔‘‘ یعنی اطاعت کی ذمہ داری اور اس بارے میں تمھارا حال ظاہر ہو گیا ہے، تمھاری گمراہی اور تمھارا استحقاق عذاب واضح ہو گیا ہے۔ ﴿ وَاِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا﴾ ’’اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پالو گے۔‘‘ اپنے قول و فعل میں راہ راست کی۔ اس کی اطاعت کے سوا تم کسی طریقے سے بھی راہ راست نہیں پا سکتے، یہ ناممکن ہی نہیں بلکہ سخت محال بھی ہے۔ ﴿ وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْ٘بَلٰ٘غُ٘ الْمُبِیْنُ ﴾ یعنی رسولeکے ذمے تمھیں واضح طور پر پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے، جس میں کسی کے لیے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ اور رسول اللہe نے ایسا ہی کیا اور پیغام الٰہی کو واضح طور پر پہنچا دیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ ہی تمھارا حساب لے گا اور تمھیں اس کی جزا دے گا۔ رسول کا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں اس نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔
آیت: 55 #
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (55)}.
وعدہ کیا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل کیے انھوں نے نیک، البتہ وہ ضرور خلافت عطا کرے گا انھیں زمین میں جس طرح کہ اس نے خلافت دی تھی ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھےاور البتہ وہ ضرور مضبوط کر دے گا ان کے لیے ان کا دین، وہ جو اس نے پسند کیا ان کے لیےاور البتہ وہ ضرور بدل (کر) دے گا ان کو ان کے خوف کے بعد امن، وہ عبادت کریں گے میری، نہیں شریک ٹھہرائیں گے وہ میرے ساتھ کسی چیز کو بھی اورجو کوئی کفر کرے گا بعد اس کے، پس یہ لوگ، وہی ہیں فاسق (55)
#
{55} هذا من أوعاده الصادقةِ التي شوهِدَ تأويلُها ومَخْبَرُها؛ فإنَّه وعد مَنْ قام بالإيمان والعمل الصالح من هذه الأمة أن يَسْتَخْلِفَهم في الأرض، يكونونَ هم الخلفاءَ فيها، المتصرفين في تدبيرها، وأنه يمكِّن {لهم دينَهُمُ الذي ارتضى لهم}، وهو دينُ الإسلام الذي فاقَ الأديانَ كلَّها، ارتضاه لهذه الأمة لفضلِها وشرفِها ونعمتِهِ عليها بأن يتمكَّنوا من إقامتِهِ وإقامةِ شرائعِهِ الظاهرةِ والباطنةِ في أنفسهم وفي غيرِهم؛ لكونِ غيرِهم من أهل الأديان وسائرِ الكفَّار مغلوبينَ ذليلينَ، وأنَّه يبدِّلُهم [أمناً] {من بعدِ خوفِهم}؛ الذي كان الواحد منهم لا يتمكَّنُ من إظهار دينِهِ وما هو عليه إلاَّ بأذى كثيرٍ من الكفار، وكون جماعة المسلمين قليلينَ جدًّا بالنسبة إلى غيرهم، وقد رماهُم أهلُ الأرض عن قوسٍ واحدةٍ، وبَغَوْا لهم الغوائلَ، فوعَدَهم الله هذه الأمورَ وقت نزول الآية، وهي لم تشاهد الاستخلافَ في الأرض والتمكينَ فيها والتمكينَ من إقامةِ الدين الإسلاميِّ والأمنَ التامَّ بحيثُ يعبُدون الله ولا يشرِكون به شيئاً ولا يخافون أحداً إلاَّ الله، فقام صدرُ هذه الأمة من الإيمان والعمل الصالح بما يفوقُ على غيرهم، فمكَّنهم من البلاد والعباد، وفُتِحَتْ مشارقُ الأرض ومغاربُها، وحصل الأمنُ التامُّ والتمكين التامُّ؛ فهذا من آيات الله العجيبة الباهرة، ولا يزالُ الأمر إلى قيام الساعة، مهما قاموا بالإيمان والعمل الصالح؛ فلا بدَّ أن يوجَدَ ما وَعَدَهُم الله، وإنَّما يسلِّطُ عليهم الكفار والمنافقين ويُديلُهم في بعض الأحيان بسبب إخلال المسلمين بالإيمان والعمل الصالح. {ومَن كَفَرَ بعد ذلك}: التمكين والسلطنة التامَّة لكم يا معشرَ المسلمينَ، {فأولئك هم الفاسقون}: الذين خرجوا عن طاعة الله وفسدوا، فلم يصلحوا لصالح، ولم يكنْ فيهم أهليَّةٌ للخير؛ لأنَّ الذي يَتْرُكُ الإيمانَ في حال عزِّه وقهرِهِ وعدم وجودِ الأسباب المانعة منه يدلُّ على فساد نيَّته وخُبث طويَّته؛ لأنَّه لا داعي له لترك الدين إلاَّ ذلك. ودلت هذه الآية أنَّ الله قد مكَّن مَنْ قبلَنا واستخلَفَهم في الأرض؛ كما قال موسى لقومه: {ويَسْتَخْلِفكُم في الأرْضِ فَيَنْظُرَ كيف تعملونَ}، وقال تعالى: {ونريدُ أن نَمُنَّ على الذين استُضْعِفوا في الأرض [ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين] ونمكِّنَ لهم في الأرض}.
[55] یہ اللہ تعالیٰ کے ان سچے وعدوں میں سے ہے جن کی تاویل و تعبیر کا مشاہدہ کروایا گیا ہے۔ امت محمدیہ میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ وہ زمین میں خلفاء ہوں گے اور زمین کی تمام تدبیر ان کے دست تصرف میں ہو گی۔ وہ اس دین کو، جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، یعنی دین اسلام کو جو تمام ادیان پر فائق ہے، مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کے لیے اس کے فضل و شرف اور اس پر اپنی نعمت کی بنا پر دین اسلام کو پسند فرمایا، یعنی وہ اس دین کو قائم کرنے، اس کے ظاہری و باطنی قوانین کو خود اپنی ذات پر اور دوسروں پر یعنی دیگر ادیان کے پیروکاروں اور تمام کفار پر نافذ کریں گے جو مفتوح اور مغلوب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ ان میں سے جب اور جہاں کہیں ایک مسلمان ہوتا تو وہ اپنے دین کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتا تھا اگر اظہار کرتا تو کفار کی طرف سے بے شمار اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلمان من حیث الجماعت دوسروں کی نسبت بہت کم تھے روئے زمین کے تمام لوگ مسلمانوں کو اذیت دینے میں متحد تھے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان امور کا وعدہ فرمایا جن کا اس سے قبل مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ ہیں خلافت ارضی، زمین میں اقتدار، اقامت دین پر قدرت، کامل امن، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا انھیں کسی کا خوف نہ ہو گا۔ اس امت کے اولین لوگوں نے ایمان کو قائم کیا اور دوسرں سے بڑھ کر نیک کام كيے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملکوں اور قوموں پر حکمرانی عطا کی، مشرق و مغرب کو ان کے زیرنگیں کر دیا، ان کو کامل امن اور کامل قدرت عطا کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی حیران کن اور تعجب انگیز نشانی ہے۔ قیامت کے برپا ہونے تک یہ معاملہ اسی نہج پر جاری و ساری رہے گا جب تک مسلمان ایمان کو قائم رکھیں گے اور اس کے تقاضوں کے مطابق نیک کام کرتے رہیں گے اس وقت تک انھیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیزیں حاصل ہوتی رہیں گی… البتہ مسلمانوں کے ایمان اورعمل صالح میں خلل واقع ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کفار کو اقتدار عطا کر کے انھیں مسلمانوں پر مسلط کر دیتا ہے۔ ﴿وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ اے مسلمانو! اس کامل اقتدار اور تسلط کے بعد بھی اگر کوئی کفران نعمت کا ارتکاب کرتا ہے ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘فٰسِقُوْنَ ﴾ ’’تو یہی لوگ نافرمان ہیں ۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے اور بگڑے ہوئے ہیں انھوں نے اصلاح کا کوئی کام سرانجام دیا نہ ان میں بھلائی کی کوئی اہلیت ہے کیونکہ جو کوئی اپنے اقتدار، غلبہ اور موانع ایمان کے عدم وجود کے وقت ایمان کو ترک کر دیتا ہے تو یہ چیز اس کے فساد نیت اور خبث باطن پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کے لیے خبث باطن کے سوا ترک دین کا کوئی داعیہ موجود نہیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے بھی اہل ایمان کو خلافت ارضی عطا کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu سے فرمایا: ﴿وَیَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُ٘رَؔ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ﴾ (الاعراف:7؍129) ’’اور تم کو زمین کی خلافت عطا کرے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّ٘مُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ۰۰وَنُمَؔكِّ٘نَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ﴾ (القصص: 28؍5-6) ’’ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں کمزور اور ذلیل بنا کر رکھا گیا ہے اور انھیں سردار بنائیں اور انھی کو (بادشاہت کا) وارث ٹھہرائیں ، نیز ہم زمین میں ان کو اقتدار عطا کریں ۔‘‘
آیت: 56 - 57 #
{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (56) لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ (57)}.
اور قائم کرو تم نماز اور ادا کرو زکاۃاور اطاعت کرو رسول کی تاکہ تم رحم کیے جاؤ (56) نہ گمان کریں آپ ان لوگوں کو، جنھوں نے کفر کیا (ہمیں ) عاجز کرنے والے زمین میں اور ان کا ٹھکانا آگ ہےاور البتہ بری ہے وہ جگہ واپسی کی (57)
#
{56} يأمر تعالى بإقامة الصلاة بأركانها وشروطها وآدابها ظاهراً وباطناً، وبإيتاء الزكاة من الأموال التي استَخْلَفَ الله عليها العباد وأعطاهم إياها؛ بأن يُؤتوها الفقراء وغيرهم ممَّن ذَكَرَهُم الله لمصرِفِ الزكاة؛ فهذان أكبرُ الطاعات وأجلُّهما، جامعتان لحقِّه وحقِّ خلقِهِ، للإخلاص للمعبود وللإحسان إلى العبيد. ثم عَطَفَ عليهما الأمرَ العامَّ، فقال: {وأطيعوا الرَّسولَ}: وذلك بامتثال أوامرِهِ واجتنابِ نواهيه، {ومَن يُطِعِ الرسولَ فَقَدْ أطاع الله}، {لعلَّكم}: حين تقومون بذلك {تُرْحَمون}: فمن أراد الرحمةَ؛ فهذا طريقُها، ومَنْ رجاها من دون إقامة الصلاة وإيتاء الزَّكاة وإطاعة الرسول؛ فهو متمنٍّ كاذبٌ، وقد منَّته نفسُه الأمانيَّ الكاذبة.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے تمام ارکان، شرائط اور آداب کے ساتھ قائم کرنے اور اس مال کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کو عطا کیا اور ان کو اس مال پر خلیفہ بنایا کہ وہ یہ مال محتاجوں اور ان لوگوں پر خرچ کریں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مصارف زکاۃ کے ضمن میں کیا ہے اور یہ دو عبادات سب سے زیادہ جلیل القدر عبادات ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد، اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کی جامع ہیں پھر اس حکم پر عطف کے ساتھ عام حکم دیا، فرمایا:﴿ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ ’’اور اطاعت کرو رسول کی۔‘‘ یعنی اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کر کے رسول اللہ e کی اطاعت کا ثبوت دو۔﴿ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النساء:4؍80) ’’جس نے رسول(e) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تم‘‘ یعنی جب تم ان امور کا خیال رکھو گے تو ﴿ تُرْحَمُوْنَ ﴾ ’’رحم کیے جاؤ۔‘‘ جو کوئی رحمت کا طلب گار ہے تو اس کے حصول کا صرف یہی طریقہ ہے اور جو کوئی نماز قائم كيے، زکاۃ ادا كيے اور رسول اللہe کی اطاعت كيے بغیر رحمت کی امید رکھتا ہے تو اس کی تمنائیں جھوٹی ہیں اور وہ جھوٹی آرزوؤں میں گرفتار ہے۔
#
{57} {لا تحسبنَّ الذين كفروا مُعْجِزينَ في الأرض}: فلا يَغْرُرْكَ ما مُتِّعوا به في الحياة الدُّنيا؛ فإنَّ الله وإنْ أمْهَلَهم؛ فإنَّه لا يُهْمِلُهم؛ {نمتِّعُهم قليلاً ثم نضطرُّهم إلى عذابٍ غليظٍ}. ولهذا قال هنا: {ومأواهُمُ النارُ ولبئسَ المصيرُ}؛ أي: بئس المآلُ مآل الكافرين؛ مآل الشرِّ والحسرة والعقوبة الأبديَّة.
[57] ﴿ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’نہ گمان کریں آپ کافروں کو کہ وہ (اللہ کو) زمین میں عاجز کر دیں گے۔‘‘ پس اس دنیا کی زندگی میں ان کو مال و متاع سے نوازا جانا آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ان کو مہلت دے رکھی ہے مگر وہ ان کو مہمل نہیں چھوڑے گا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ نُمَتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ﴾ (لقمان:31؍24) ہم تھوڑے عرصے کے لیے ان کو متاع دنیا سے نوازتے ہیں پھر ان کو بے بس کر کے ایک نہایت سخت عذاب کی طرف کھینچ لاتے ہیں ۔‘‘ بنابریں فرمایا: ﴿وَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ١ؕ وَلَ٘بِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’ان کا ٹھکانا آگ ہے اور البتہ وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یعنی کافروں کا انجام بدترین ہے، ان کا انجام شر، حسرت اور ابدی عذاب ہے۔
آیت: 58 - 59 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (58) وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (59)}.
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! چاہیے کہ اجازت طلب کریں تم سے وہ (غلام) جن کے مالک ہوئے تمھارے دائیں ہاتھ اور وہ (لڑکے بھی) جو نہیں پہنچے بلوغت کو تم میں سے، تین بار (یعنی تین اوقات میں ) پہلے نماز فجر سےاور جس وقت اتار دیتے ہو تم کپڑے اپنے دوپہر کواور بعد نماز عشاء کے (یہ) تین وقت پردے کے ہیں تمھارے لیے ، نہیں ہے تم پر اور نہ ان ہی پر کوئی گناہ بعد ان (وقتوں ) کے، (وہ) بکثرت پھرنے (آنے جانے) والے ہیں تم پر (یعنی ) بعض تمھارے بعض پر، اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے آیتیں اور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے (58) اور جب پہنچ جائیں لڑکے تم میں سے بلوغت کو تو چاہیے کہ وہ (بھی) اجازت طلب کریں جس طرح اجازت لیتے تھے وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں اور اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے (59)
#
{58} أمر المؤمنين أن يستأذِنَهم مماليكُهم والذين لم يبلُغوا الحُلُمَ منهم، قد ذَكَرَ الله حكمتَه، وأنَّه ثلاثُ عوارتٍ للمستأذَنِ عليهم؛ وقتَ نومِهم بالليل بعد العشاء، وعند انْتِباههم قبل صلاة الفجر؛ فهذا في الغالب أنَّ النائم يستعمل للنوم في الليل ثوباً غير ثوبِهِ المعتاد، وأمَّا نومُ النهار؛ [فلمّا] كان في الغالب قليلاً قد ينام فيه العبد بثيابِهِ المعتادة؛ قيَّده بقوله: {وحين تَضَعون ثيابَكم من الظهيرةِ}؛ أي: للقائلة وسط النهار؛ ففي ثلاث هذه الأحوال يكون المماليكُ والأولادُ الصغارُ كغيرهم لا يمكَّنون من الدُّخول إلاَّ بإذنٍ، وأمَّا ما عدا هذه الأحوالُ الثلاثة؛ فقال: {ليس عليكُم ولا عليهِم جُناح بعدهنَّ}؛ أي: ليسوا كغيرِهم؛ فإنَّهم يُحتاج إليهم دائماً، فيشقُّ الاستئذان منهم في كلِّ وقتٍ، ولهذا قال: {طَوَّافونَ عليكم بعضُكم على بعضٍ}؛ أي: يتردَّدون عليكم في قضاء أشغالكم وحوائجكم. {كذلك يبيِّنُ الله لكم الآياتِ}: بياناً مقروناً بحكمتِهِ؛ ليتأكَّدَ ويتقوَّى ويعرفَ به رحمةَ شارِعِه وحكمتَه، ولهذا قال: {والله عليمٌ حكيمٌ}: له العلم المحيطُ بالواجبات و [المستحيلات] والممكنات والحكمة التي وَضَعَتْ كلَّ شيءٍ موضِعَه، فأعطى كلَّ مخلوق خَلْقَه اللائق به، وأعطى كلَّ حكم شرعيٍّ حكمه اللائقَ به، ومنه هذه الأحكام التي بَيَّنَها وبيَّنَ مآخِذَها وحُسْنَها.
[58] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ ان کے غلام اور نابالغ بچے اجازت طلب کر کے ان کے پاس آیا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کی ہے اور یہ کہ اجازت طلب کرنے والوں کے لیے پردے کے یہ تین اوقات ہیں ۔ عشاء کی نماز کے بعد جب سونے کا وقت ہوتا ہے اور فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونے سے پہلے۔ غالب حالات میں ، رات کے وقت سونے والے نے معمول کے لباس کی بجائے شب خوابی کا لباس پہنا ہوتا ہے… البتہ دن کے وقت، قیلولہ وغیرہ میں انسان بسا اوقات اسی معمول کے لباس ہی میں سو جاتا ہے۔ اس کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ مقید کیا ہے۔﴿ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ ﴾ ’’دوپہر کے وقت جب تم (قیلولہ کے لیے) کپڑے اتارتے ہو۔‘‘ پس مذکورہ بالا تین اوقات میں تمھارے غلام اور چھوٹے بچوں کو دوسرے لوگوں کی مانند اجازت لیے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں … ان تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات کے بارے میں فرمایا:﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ﴾ ’’نہیں ہے تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان اوقات کے بعد۔‘‘ یعنی یہ غلام اور بچے دوسروں کی مانند نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کے محتاج ہوتے ہیں اس لیے ان کا ہر وقت اجازت طلب کرتے رہنا ان کے لیے باعث تکلیف ہو گا۔ بنابریں فرمایا:﴿ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ یعنی تمھارے کام سرانجام دینے اور تمھاری ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کا تمھارے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ﴿كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ ﴾ وہ تاکید کے لیے اپنی آیات کو اپنی حکمت کے ساتھ مقرون بیان کرتا ہے تاکہ شارع کی رحمت اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہو۔ اس لیے فرمایا:﴿ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم تمام واجبات و مستحبات اور تمام ممکنات کا احاطہ كيے ہوئے ہے، وہ اس حکمت کو بھی خوب جانتا ہے جس کی بنا پر ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا گیا۔ پس ہر مخلوق کو وہی تخلیق عطا کی گئی ہے جو اس کے لائق ہے اور اس نے تمام شرعی احکام عطا كيے ہیں جو اس کے مناسب حال ہیں ۔ یہ متذکرہ صدر احکام بھی انھی میں سے ہیں جنھیں اس نے خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے اور ان کے مآخذ کو اور ان کے حسن کو واضح کیا ہے۔
#
{59} {وإذا بَلَغَ الأطفالُ منكم الحُلُمَ}: وهو إنزالُ المنيِّ يقظةً أو مناماً؛ {فَلْيَسْتَأذِنوا كما استأذنَ الذين من قبلِهِم}؛ أي: في سائر الأوقات، والذين مِنْ قبلِهِم هم الذين ذَكَرَهُمُ اللهُ بقوله: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تَدْخُلوا بيوتاً غير بيوتِكُم حتى تَسْتَأنِسوا ... } الآية. {كذلك يبيِّنُ الله لكم آياتِهِ}: ويوضِّحُها ويفصِّلُ أحكامها. {والله عليم حكيم}. وفي هاتين الآيتين فوائدُ: منها: أنَّ السيِّد وولي الصغير مخاطبان بتعليم عبيدِهم ومَنْ تحتَ ولايَتِهم من الأولاد العلمَ والآدابَ الشرعيَّة؛ لأنَّ الله وجَّه الخطاب إليهم بقوله: {يا أيُّها الذين آمنوا لِيَسْتَأذِنكُمُ الذين ملكت أيمانكم والذين لم يَبْلُغوا الحُلُم ... } الآية، ولا يمكنُ ذلك إلاَّ بالتعليم والتأديب، ولقوله: {ليس عليكُم ولا عليهِم جُناح بَعْدَهُنَّ}. ومنها: الأمر بحفظِ العورات والاحتياط لذلك من كلِّ وجه، وأنَّ المحلَّ والمكانَ الذي مَظِنَّةٌ لرؤيةِ عورة الإنسان فيه، أنَّه منهيٌّ عن الاغتسال فيه والاستنجاء ونحو ذلك. ومنها: جوازُ كشفِ العورة لحاجةٍ؛ كالحاجة عند النوم وعند البول والغائط ونحو ذلك. ومنها: أنَّ المسلمين كانوا معتادين القَيْلولة وسطَ النهار؛ كما اعتادوا نومَ الليل؛ لأنَّ الله خاطَبَهم ببيانِ حالِهِم الموجودةِ. ومنها: أنَّ الصغير الذي دون البلوغ لا يجوزُ أن يمكَّنَ من رؤية العورة، ولا يجوزُ أن تُرى عورتُهُ؛ لأنَّ الله لم يأمُرْ باستئذانِهِم إلاَّ عن أمرٍ ما يجوز. ومنها: أنَّ المملوك أيضاً لا يجوزُ أن يرى عورةَ سيِّده؛ كما أنَّ سيِّده لا يجوز أن يرى عورتَه؛ كما ذكرنا في الصغير. ومنها: أنَّه ينبغي للواعظ والمعلِّم ونحوهم ممَّن يتكلَّم في مسائل العلم الشرعيِّ أن يقرِنَ بالحكم بيانَ مأخذِهِ ووجهِهِ، ولا يُلقيه مجرَّداً عن الدليل والتَّعليل؛ لأنَّ الله لما بيَّن الحكم المذكور؛ علَّله بقوله: {ثلاثُ عوراتٍ لكم}. ومنها: أنَّ الصَّغيرَ والعبدَ مخاطبان كما أنَّ وليَّهما مخاطبٌ؛ لقوله: {ليس عليكُم ولا عليهم جناحٌ بَعْدَهُنَّ}. ومنها: أنَّ ريق الصبيِّ طاهرٌ، ولو كان بعد نجاسةٍ؛ كالقيء؛ لقوله تعالى: {طوَّافونَ عليكُم}؛ مع قول النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - حين سُئِلَ عن الهرة: «إنها ليست بِنَجَسٍ، إنَّها من الطَّوَّافينَ عليكم والطَّوَّافاتِ». ومنها: جوازُ استخدام الإنسان مَنْ تحت يدِهِ من الأطفال على وجهٍ معتادٍ لا يشقُّ على الطفل؛ لقوله: {طوَّافونَ عليكم}. ومنها: أنَّ الحكم المذكورَ المفصَّل إنَّما هو لما دونَ البلوغ، وأمَّا ما بعدَ البلوغ؛ فليس إلاَّ الاستئذان. ومنها: أنَّ البلوغَ يحصُلُ بالإنزال، فكلُّ حكم شرعيٍّ رُتِّبَ على البلوغ؛ حصل بالإنزال، وهذا مجمعٌ عليه، وإنَّما الخلاف هل يَحْصُلُ البلوغُ بالسنِّ أو الإنباتِ للعانةِ. والله أعلم.
[59] ﴿وَاِذَا بَلَ٘غَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ ﴾ ’’اور جب پہنچ جائیں بچے تم میں سے بلوغت کو۔‘‘ اور یہ وہ عمر ہے جب سوتے یا جاگتے میں منی کا انزال ہو جاتا ہے۔ ﴿ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ ’’تو ان کو چاہیے کہ وہ اجازت طلب کریں جیسے اجازت مانگتے ہیں وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے۔‘‘ یعنی تمام اوقات میں ۔ اور جن لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے ﴿ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ﴾ میں اشارہ فرمایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا﴾ (النور:24؍27) ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔‘‘ ﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ اپنی آیتیں ۔‘‘ یعنی واضح کرتا ہے اور اس کے احکام کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ باخبر اور حکمت والا ہے۔‘‘ ان دو آیات کریمہ میں متعدد فوائد ہیں : (۱) آقا اور چھوٹے بچوں کے سرپرست کو مخاطب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے غلاموں اور ان چھوٹے بچوں کوعلم اور آداب شرعیہ کی تعلیم دیں جو ان کی سرپرستی میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں اس کے خطاب کا رخ ان کی طرف ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰ٘ثَ مَرّٰتٍ ﴾ ’’اے ایمان والو! تم سے تمھاری ملکیت کے غلاموں اور انھیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں ان کو تین اوقات میں اجازت طلب کرنی چاہیے۔‘‘ اور یہ چیز ان کی تعلیم و تادیب کے بغیر ممکن نہیں اور نیز اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’تم پر اور ان پر ان اوقات کے بعد کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ (۲) اللہ تعالیٰ نے پردہ کی حفاظت اور اس معاملے میں ہر قسم کی احتیاط کا حکم دیا ہے، نیز اس جگہ پر جہاں انسان کے ستر کے نظر آنے کا امکان ہو وہاں غسل اور استنجاء وغیرہ سے روکا گیا ہے۔ (۳) ضرورت کے وقت ستر کھولنا جائز ہے، مثلاً:سونے یا بول و براز وغیرہ کے وقت۔ (۴) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دنوں میں مسلمان رات کے وقت سونے کی طرح دوپہر کے وقت قیلولہ کرنے کے عادی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انھیں ان کی موجودہ حالت کے مطابق خطاب کیا ہے۔ (۵) اس بچے کے بارے میں جو ابھی بالغ نہیں ہوا، جائز نہیں کہ اسے ستر دیکھنے کی اجازت دی جائے اور نہ ہی اس کا ستر دیکھنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت طلب کرنے کا حکم ایسے معاملے میں دیا ہے جو جائز ہے۔ (۶) غلام کے لیے اپنے مالک کا ستر دیکھنا جائز نہیں ۔ اسی طرح مالک کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے غلام کا ستر دیکھے،جیسے ہم نے بچے کے سلسلے میں بیان کیا۔ (۷) واعظ اور معلم جو علوم شرعیہ میں بحث کرتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ حکم بیان کرنے کے ساتھ اس کا ماخذ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دے اور دلیل اور تعلیل کے بغیر کوئی بات نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم مذکور بیان کرنے کے بعد اس کی علت بیان کی ہے۔ فرمایا: ﴿ ثَلٰ٘ثُ عَوْرٰتٍ لَّـكُمْ ﴾ ’’یہ تین اوقات تمھارے لیے پردے کے اوقات ہیں ۔‘‘ (۸) یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نابالغ بچے اور غلام حکم شرعی میں مخاطب ہیں جس طرح ان کا سرپرست مخاطب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے ﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ وَلَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’ان اوقات کے بعد اگر وہ اجازت لیے بغیر آئیں تو تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔‘‘ (۹) بچے کا لعاب پاک ہے خواہ وہ نجاست، مثلاً:قے وغیرہ کے بعد کا لعاب ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’وہ تمھارے پاس بار بار آنے والے ہیں ۔‘‘ نیز جب رسول اللہe سے بلی کے جوٹھے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (اِنَّھَا مِنَ الطَّوَّافِیْنَ عَلَیْکُمْ وَالطَّوَّافَاتِ) (سنن أبي داود، الطہارۃ، باب سؤر الہرۃ، 75، و سنن النسائي، الطہارۃ، باب سؤر الہرۃ، ح: 68)’’یہ تمھارے پاس نہایت کثرت سے آنے جانے والے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہیں ۔‘‘ (اس لیے ان کا جوٹھا جائز ہے) (۱۰) انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے زیر سایہ بچوں سے ایسی خدمت لے لے جس میں ان کے لیے مشقت نہ ہو۔ اس کے لیے دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:﴿ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’وہ تمھارے پاس باربار آنے والے ہیں ۔‘‘ (۱۱) متذکرہ صدر حکم صرف ان بچوں کے لیے ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے۔ بالغ ہونے کے بعد تو ہر حال میں اجازت طلب کرنے کا حکم ہے۔ (۱۲) منی کے انزال سے بلوغت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ تمام شرعی احکام جو بلوغت پر مترتب ہوتے ہیں ، انزال کے ساتھ ہی لاگو ہو جاتے ہیں اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ عمر یا زیر ناف بال اگنے سے بلوغت حاصل ہو جاتی ہے یا نہیں ۔
آیت: 60 #
{وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (60)}.
اور گھروں میں بیٹھ رہنے والی عورتیں ، وہ جو نہیں امید رکھتیں نکاح کی، پس نہیں ان پر کوئی گناہ یہ کہ اتار دیں وہ اپنے (پردہ کرنے کے) کپڑے جبکہ نہ ظاہر کرنے والی ہوں وہ (اپنی) زینت کو اور یہ کہ بچیں وہ (اس سے بھی تو) بہت بہتر ہے ان کے لیے اور اللہ خوب سننے والا ، جاننے والا ہے (60)
#
{60} {والقواعدُ من النساء}؛ [أي]: اللاتي قَعَدْنَ عن الاستمتاع والشهوةِ، {اللاتي لا يَرْجونَ نِكاحاً}؛ أي: لا يَطْمَعْنَ في النكاح ولا يُطْمَعُ فيهن، وذلك لكونها عجوزاً لا تشتهي أو دميمةَ الخِلْقَةِ لا تُشْتَهى ولا تَشْتَهي. {فليس عليهنَّ جُناحٌ}؛ أي: حرجٌ وإثمٌ، {أن يَضَعْنَ ثيابَهُنَّ}؛ أي: الثياب الظاهرة كالخمار ونحوه، الذي قال الله فيه للنساء: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ على جُيوبِهِنَّ}؛ فهؤلاء يجوز لهنَّ أن يَكْشِفْنَ وجوهَهُنَّ لأمن المحذور منها وعليها. ولما كان نفيُ الحرج عنهنَّ في وضع الثياب ربَّما تُوُهِّمَ منه جوازُ استعمالها لكلِّ شيءٍ؛ دَفَعَ هذا الاحتراز بقوله: {غيرَ مُتَبَرِّجات بزينةٍ}؛ أي: غير مظهراتٍ للناس زينةً من تجمُّلٍ بثيابٍ ظاهرةٍ، وتَسْتُرُ وجهها، ومن ضربِ الأرض ليعلم ما تُخفي من زينتها؛ لأنَّ مجرَّد الزينة على الأنثى، ولو مع تستُّرها، ولو كانت لا تُشتهى؛ يفتن فيها ويوقِعُ الناظر إليها في الحرج. {وأن يَسْتَعْفِفْنَ خيرٌ لهنَّ}: والاستعفافُ طلبُ العفَّة بفعل الأسباب المقتضية لذلك من تزوُّج وتركٍ لما يُخْشى منه الفتنة. {والله سميعٌ}: لجميع الأصوات. {عليمٌ}: بالنيَّات والمقاصدِ؛ فليحذَرْن من كلِّ قول وقصدٍ فاسدٍ، ويَعْلَمْنَ أنَّ الله يُجازي على ذلك.
[60] ﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ ﴾ ’’اور بڑی بوڑھی عورتیں ۔‘‘ یعنی وہ عورتیں جو شہوت اور تعلقات زن وشوہر میں رغبت نہ رکھتی ہوں ۔﴿الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا ﴾ جو نکاح کی خواہش مند ہوں نہ کوئی مرد ان کے ساتھ نکاح کی رغبت رکھتا ہو اور یہ اس کے بوڑھی ہونے کی وجہ سے ہو کہ کسی کو اس میں کوئی رغبت ہو نہ وہ رغبت رکھتی ہو یا اتنی بدصورت ہو کہ کسی کو اس میں رغبت نہ ہو۔ ﴿ فَ٘لَ٘یْسَ عَلَ٘یْهِنَّ جُنَاحٌ ﴾ ’’تو ان پر کوئی گناہ اور حرج نہیں ‘‘ ﴿ اَنْ یَّ٘ضَ٘عْنَ ثِیَابَهُنَّ ﴾ کہ وہ اپنا ظاہری لباس یعنی چادر وغیرہ اتار دیں جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا تھا: ﴿وَلْ٘یَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ﴾ (النور:24؍31) ’’اور وہ اپنے سینوں پر اپنے دوپٹوں کی بکل مارے رہیں ۔‘‘ پس ان خواتین کے لیے اپنے چہروں کا ننگا کرنا جائز ہے کیونکہ اب ان کے لیے یا ان کی طرف سے کسی فتنے کا ڈر نہیں ۔ چونکہ ان خواتین کے اپنی چادر اتار دینے میں نفی حرج سے بعض دفعہ یہ وہم بھی لاحق ہو سکتا ہے کہ اس اجازت کا استعمال ہر چیز کے لیے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس احتراز کو اپنے اس ارشاد کے ذریعے دور کیا ہے: ﴿ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰؔتٍۭؔ بِزِیْنَةٍ ﴾ ’’وہ اپنی زینت کو ظاہر کرنے والی نہ ہوں ۔‘‘ یعنی ظاہری لباس اور چہرے کے نقاب کی زینت کو لوگوں کو نہ دکھائیں اور نہ زمین پر پاؤں مار کر چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو کیونکہ عورت کی مجرد زینت خواہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو اور خواہ اس میں عدم رغبت ہی کیوں نہ ہو… فتنہ کی باعث ہے اور دیکھنے والے کو گناہ میں مبتلا کر سکتی ہے ﴿ وَاَنْ یَّ٘سْتَ٘عْ٘فِفْ٘نَ خَیْرٌ لَّ٘هُنَّ﴾ ’’اور اگر وہ احتیاط کریں تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ استعفاف سے مراد ہے، ان اسباب کو استعمال کر کے جو عفت کا تقاضا کرتے ہیں ، عفت کا طلب گار ہونا، مثلاً:نکاح کرنا اور ان امور کو ترک کرنا جن کی وجہ سے فتنہ میں پڑنے کا خوف ہو۔ ﴿ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ ﴾ اللہ تعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے﴿ عَلِیْمٌ ﴾ اور وہ نیتوں اور مقاصد کو بھی خوب جانتا ہے، اس لیے ان عورتوں کو ہر قول فاسد اور قصد فاسد سے بچنا چاہیے۔
آیت: 61 #
{لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (61)}.
نہیں ہے اندھے پر کوئی حرج اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج اورنہ مریض پر کوئی حرج اور نہ خود تم ہی پر (کوئی حرج) اس بات میں یہ کہ کھاؤ تم اپنے گھروں سے یا گھروں سے اپنے باپ دادوں کے یا گھروں سے اپنی ماؤں کے یا گھروں سے اپنے بھائیوں کے یا گھروں سے اپنی بہنوں کے یا گھروں سے اپنے چچاؤں کے یا گھروں سے اپنی پھوپھیوں کے یا گھروں سے اپنے ماموؤں کے یا گھروں سے اپنی خالاؤں کے یا وہ گھر کہ مالک ہو تم ان کی چابیوں کے یا (گھروں سے) اپنے دوستوں کے، نہیں تم پر کوئی گناہ یہ کہ کھاؤ تم (سب) اکٹھے یا الگ الگ پس جب داخل ہو تم گھروں میں تو سلام کرو اوپر اپنے (لوگوں کے) (یہ) تحفہ ہے اللہ کی طرف سے بابرکت، پاکیزہ، اسی طرح (کھول کر) بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے آیتیں تاکہ تم عقل کرو (61)
#
{61} يخبر تعالى عن منَّته على عبادِهِ، وأنَّه لم يجعلْ عليهم في الدين من حرج، بل يسَّره غاية التيسير، فقال: {ليس على الأعمى حَرَجٌ ولا على الأعرجِ حَرَجٌ ولا على المريضِ حَرَجٌ}؛ أي: ليس على هؤلاء جُناح في ترك الأمور الواجبة التي تتوقَّف على واحدٍ منها، وذلك كالجهاد ونحوه مما يتوقَّف على بصر الأعمى أو سلامة الأعرج أو صحَّة المريض، ولهذا المعنى العامِّ الذي ذَكَرْناه؛ أطلقَ الكلامَ في ذلك، ولم يقيِّدْ؛ كما قيَّدَ قوله: {ولا على أنفسكم}؛ أي: حرج، {أن تأكلوا مِن بيوتكم}؛ أي: بيوت أولادكم. وهذا موافقٌ للحديث الثابت: «أنت ومالُكَ لأبيك» ، والحديث الآخر: «إنَّ أطيبَ ما أكلتُم من كسبِكُم، وإنَّ أولادَكُم من كسبِكُم». وليس المرادُ من قولِهِ: {من بيوتِكُم}: بيت الإنسان نفسه؛ فإنَّ هذا من باب تحصيل الحاصل، الذي يُنَزَّهُ عنه كلامُ الله، ولأنَّه نفي الحرج عمَّا يُظَنُّ أو يتوهَّمُ فيه الإثمُ من هؤلاء المذكورين، وأمَّا بيتُ الإنسان نفسه؛ فليس فيه أدنى توهُّم. {أو بيوتِ آبائِكُم أو بيوت أمَّهاتِكم أو بيوتِ إخوانِكم أو بيوت أخَواتِكُم أو بيوتِ أعمامِكُم أو بيوتِ عَمَّاتِكُم أو بيوتِ أخْوالِكُم أو بيوتِ خالاتكم}: وهؤلاء معروفون. {أو ما مَلَكْتُم مفاتِحَهُ}؛ أي: البيوت التي أنتم متصرِّفون فيها بوكالةٍ أو ولايةٍ ونحو ذلك، وأمَّا تفسيرُها بالمملوك؛ فليس بوجيه؛ لوجهين: أحدِهما: أنَّ المملوكَ لا يُقال فيه: ملكتَ مفاتِحَهُ، بل يقال: ما ملكْتُموه، أو: ما ملكت أيمانُكم؛ لأنَّهم مالكونَ له جملةً، لا لمفاتِحِهِ فقط. والثاني: أنَّ بيوتَ المماليك غيرُ خارجةٍ عن بيت الإنسان نفسه؛ لأنَّ المملوك وما مَلَكَه لسيِّده؛ فلا وجه لنفي الحَرَج عنه. {أو صديقِكُم}: وهذا الحرج المنفيُّ من الأكل من هذه البيوت؛ كلُّ ذلك إذا كان بدون إذنٍ، والحكمةُ فيه معلومةٌ من السياق؛ فإن هؤلاء المسمَّيْن قد جرتِ العادةُ والعرفُ بالمسامحة في الأكل منها؛ لأجل القرابة القريبة أو التصرُّف التامِّ أو الصَّداقة؛ فلو قُدِّرَ في أحدٍ من هؤلاء عدم المسامحة والشحُّ في الأكل المذكور؛ لم يَجُزِ الأكلُ ولم يرتَفِع الحرجُ نظراً للحكمة والمعنى. وقوله: {ليس عليكم جُناحٌ أن تَأكُلوا جميعاً أو أشتاتاً}؛ فكلُّ ذلك جائزٌ؛ أكلُ أهل البيت الواحد جميعاً، أو أكلُ كلِّ واحدٍ منهم وحدَه، وهذا نفيٌ للحرج لا نفيٌ للفضيلة، وإلاَّ؛ فالأفضل الاجتماع على الطعام. {فإذا دَخَلْتُم بيوتاً}: نكرة في سياق الشرط؛ يشمَلُ بيتَ الإنسان وبيتَ غيرِهِ، سواء كان في البيت ساكنٌ أم لا؛ فإذا دَخَلَها الإنسان؛ {فسلِّموا على أنفُسِكُم}؛ أي: فَلْيُسَلِّمْ بعضُكم على بعضٍ؛ لأنَّ المسلمين كأنَّهم شخصٌ واحدٌ من توادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم؛ فالسلامُ مشروعٌ لدخول سائر البيوت؛ من غير فرقٍ بين بيتٍ وبيتٍ، والاستئذانُ تقدَّم أن فيه تفصيلاً في أحكامه، ثم مدح هذا السلام، فقال: {تحيَّةً من عند الله مباركةً طيبةً}؛ أي: سلامكم بقولِكم: السلامُ عليكُم ورحمةُ الله وبركاتُه، أو: السلامُ علينا وعلى عباد الله الصالحين؛ إذْ تدخُلون البيوتَ {تحيةً من عند الله}؛ أي: قد شرعها لكم وجعلها تحيَّتَكُم، {مباركةً}: لاشتمالها على السلامة من النقص وحصول الرحمة والبركة والنَّماء والزيادة، {طيبة}: لأنها من الكَلِم الطيِّب المحبوب عند الله، الذي فيه طيبُ نفس للمحيَّا ومحبَّة وجلب مودَّة. لما بيَّن لنا هذه الأحكام الجليلة؛ قال: {كذلك يبيِّنُ الله لكم الآياتِ}: الدَّالاَّت على أحكامِهِ الشرعيَّة وحِكَمِها {لعلَّكم تعقلونَ}: عنه؛ فتفهَمونها وتعقِلونها بقُلوبكم، ولتكونوا من أهل العقول والألباب الرَّزينةِ؛ فإنَّ معرفة أحكامه الشرعيَّة على وجهها يزيدُ في العقل ويَنْمو به اللُّبُّ؛ لكون معانيها أجلَّ المعاني وآدابها أجلَّ الآداب، ولأنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فكما استعمل عقلَه للعقل عن ربِّه وللتفكُّر في آياته التي دعاه إليها؛ زاده من ذلك. وفي هذه الآيات دليلٌ على قاعدةٍ عامَّةٍ كليَّةٍ، وهي: أنَّ العرف والعادة مخصِّص للألفاظ؛ كتخصيص اللفظ للفظ؛ فإنَّ الأصل أن الإنسان ممنوع من تناول طعام غيره مع أنَّ الله أباح الأكل من بيوت هؤلاء للعُرف والعادةِ؛ فكلُّ مسألة تتوقَّف على الإذن من مالك الشيء إذا عُلِمَ إذنُه بالقول أو العُرف؛ جاز الإقدام عليه. وفيها: دليلٌ على أنَّ الأب يجوزُ له أن يأخُذَ ويتملَّك من مال ولدِهِ ما لا يضرُّه؛ لأنَّ الله سمَّى بيتَه بيتاً للإنسان. وفيها: دليلٌ على أن المتصرِّفَ في بيت الإنسان كزوجتِهِ وأختِهِ ونحوِهما يجوزُ لهما الأكل عادةً وإطعامُ السائل المعتاد. وفيها: دليلٌ على جوازِ المشاركة في الطعام، سواء أكلوا مجتمعينَ أو متفرِّقين، ولو أفضى ذلك إلى أن يأكُلَ بعضُهم أكثر من بعض.
[61] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی عنایات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے ان کو دین کے معاملے میں کسی حرج میں مبتلا نہیں کیا بلکہ اس نے دین کو بے حد آسان کر دیا ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ لَ٘یْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الْ٘مَرِیْضِ حَرَجٌ ﴾ ’’اندھے پر، لنگڑے پر اور مریض پر کوئی حرج نہیں ۔‘‘ یعنی ان لوگوں پر، ان امور واجبہ کو ترک کرنے میں جن کا دارومدار ان میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے ، مثلاً: جہاد وغیرہ جن کا دارومدار بصارت، لنگڑے پن سے صحیح ہونا یا مریض کی صحت پر ہے اس عام معنی ہی کی وجہ سے، جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس میں کلام مطلق کیا گیا ہے اور اس کو مقید نہیں فرمایا جس طرح کہ اس نے اپنے اس ارشاد میں مقید فرمایا ہے۔ ﴿ وَّلَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ ﴾ یعنی خود تم پر کوئی حرج نہیں ﴿ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ ﴾ ’’اس بات میں کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے۔‘‘ یعنی تم پر اپنی اولاد کے گھروں میں سے کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں یہ آیت کریمہ اس حدیث صحیح کے موافق ہے۔ آپ نے فرمایا: (اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ) (سنن ابن ماجہ، التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، ح:2291)’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ e نے فرمایا: (اِنَّ اَطْیَبَ مَا اَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَ اِنَّ اَوْلَادَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ) (سنن ابن ماجہ، التجارات، باب ماللرجل من مال ولدہ، ح:2290 و سنن ابی داود، البیوع، باب الرجل یأکل من مال ولدہ، ح:3528) ’’بہترین چیز جو تم کھاتے ہو، تمھاری کمائی ہے اور تمھاری اولاد بھی تمھاری کمائی ہے۔‘‘ اور﴿ مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ ﴾ سے مراد خود اپنا گھر نہیں ہے کیونکہ یہ تو تحصیل حاصل ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا کلام منزہ اور پاک ہے، نیز یہ نفی حرج، ان جگہوں کے بارے میں ہے جہاں گناہ کا گمان یا وہم ہو سکتا ہے۔ رہا انسان کا اپنا گھر تو وہاں گناہ اور حرج کا ادنیٰ سا گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ ﴿ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰؔتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰؔتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰؔلٰتِكُمْ ﴾ ’’تم پر اپنے باپوں ، اپنی ماؤں ، اپنے بھائیوں ، اپنی بہنوں ، اپنے چچاؤں ، اپنی پھوپھیوں ، اپنے ماموؤں اور اپنی خالاؤں کے گھر سے کھانے پر کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ یہ سب لوگ معروف ہیں ۔﴿ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ ﴾ ’’یا وہ (گھر) جن کی چابیوں کے تم مالک ہوئے۔‘‘ اس سے مراد وہ گھر ہیں جن میں آپ وکالت یا سرپرستی وغیرہ کی بنا پر تصرف کا اختیار رکھتے ہیں رہا ’’غلام‘‘ سے اس کی تفسیر کرنا تو یہ دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ (۱) غلام کے لیے: ﴿ مَلَكَتْ مَفَاتِحَهٗۤ ﴾ ’’نہیں کہا جاتا بلکہ ﴿ مَا مَلَكْتُمُوْہُ﴾ یا ﴿ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ﴾ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس گھر کی صرف کنجیوں کے مالک نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام گھر کے مالک ہوتے ہیں ۔ (۲) غلاموں کے مکان انسان کے خود اپنے گھر سے باہر نہیں ہیں کیونکہ غلام اور اس کی ہر چیز اس کے آقا کی ملکیت ہے۔ پس یہاں نفی حرج کو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ ﴿ اَوْ صَدِیْقِكُمْ﴾ ’’یا اپنے دوست کے (گھر) سے۔‘‘ یہ نفی حرج، مذکورہ بالا تمام گھروں میں ، بغیر اجازت کھا پی لینے میں نفی حرج ہے اور اس کی حکمت سیاق کلام سے واضح ہے۔ ان مذکورہ گھروں میں عادت اور عرف عام کے مطابق، قرابت قریبہ، تصرف کامل اور دوستی کی وجہ سے، کھا پی لینے کے معاملے میں مسامحت برتی جاتی ہے۔ اگر ان مذکورہ بالا گھروں میں کھا لینے میں عدم مسامحت اور بخل معلوم ہو جائے تو حکمت اور معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کھانا پینا جائز ہے نہ حرج ہی رفع ہوتا ہے۔ ﴿ لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا﴾ ’’نہیں ہے تم پر کوئی گناہ یہ کہ تم اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ‘‘ یہ سب جائز ہے ایک گھر کے تمام افراد کا اکٹھے مل کر کھانا یا علیحدہ علیحدہ کھانا ہر طرح سے جائز ہے۔ یہاں حرج کی نفی ہے فضیلت کی نفی نہیں ہے، اس لیے اکٹھے مل کر کھانا افضل ہے۔ ﴿ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا﴾ ’’جب تم داخل ہو گھروں میں ۔‘‘ یہ سیاق شرط میں نکرہ ہے جو خود اپنے گھر اور دیگر گھروں کو شامل ہے، خواہ گھر میں کوئی سکونت پذیر ہو یا نہ ہو۔ جب تم ان گھروں میں داخل ہوا کرو ﴿ فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کیا کرو کیونکہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ عاطفت سے پیش آنے میں ، فرد واحد کی مانند ہیں ، لہٰذا کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام گھروں میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا مشروع ہے اور اجازت طلبی کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اس کے احکام میں تفصیل ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلام کی مدح بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَؔكَةً طَیِّبَةً ﴾ ’’یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔‘‘ یعنی تمھارا سلام جب تم گھروں میں داخل ہو، ان الفاظ میں ہونا چاہیے۔ (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ) یا (اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ) ﴿ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے تمھارے لیے تحیہ و سلام کے طور پر مشروع کیا ہے﴿ مُبٰرَؔكَةً ﴾ ’’بابرکت۔‘‘ کیونکہ یہ ہر قسم کے نقص سے سلامتی، حصول رحمت، برکت، نمو اور اضافے پر مشتمل ہے﴿ طَیِّبَةً ﴾ ’’پاکیزہ۔‘‘ کیونکہ ان کا شمار ان کلمات طیبہ میں سے ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں جن میں اس شخص کے لیے دلی مسرت، محبت اور مودت ہے جسے سلام کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے یہ احکام جلیلہ واضح کرنے کے بعد فرمایا:﴿ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’اسی طرح بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنی آیتیں ۔‘‘ جو احکام شرعیہ اور ان کی حکمتوں پر دلالت کرتی ہیں ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ شاید کہ تم ان آیات کو سمجھو اور اپنے دل میں ان پر غور کرو تاکہ تم عقل و فہم رکھنے والوں میں شامل ہو جاؤ کیونکہ احکام شرعیہ کی معرفت عقل میں اضافہ کرتی ہے اور فہم کو نشوونما دیتی ہے، اس لیے اس کے معانی و آداب سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں ، نیز عمل کی جزا اس کی جنس میں سے ہوتی ہے۔ پس جس طرح اس نے اپنے رب کو سمجھنے اور ان آیات میں تفکر و تدبر کرنے کے لیے عقل کو استعمال کیا جن میں اسے تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی عقل میں اضافہ کر دیا۔ یہ آیات کریمہ ایک عام قاعدہ و کلیہ پر دلالت کرتی ہیں ، وہ قاعدہ و کلیہ یہ ہے: ’’عرف اور عادت الفاظ کی اسی طرح تخصیص کرتے ہیں ، جس طرح لفظ کی تخصیص لفظ کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ اصل یہ ہے کہ انسان کے لیے کسی دوسرے کا کھانا ممنوع ہے اس کے باوجود عرف و عادت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مذکور لوگوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت دی ہے۔ درحقیقت ہر مسئلہ چیز کے مالک کی اجازت پر موقوف ہے، اگر قول یا عرف و عادت کے ذریعے مالک کی اجازت معلوم ہو جائے تو اس پر اقدام جائز ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ باپ کا اپنے بیٹے کے مال میں سے اتنے مال کو اپنی ملکیت میں لے لینا جائز ہے جس سے اس کو ضرر نہ پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے گھر کو باپ کے گھر سے موسوم کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی شخص کے گھر میں تصرف کرنے والا، مثلاً:اس کی بیوی اور بہن وغیرہ… تو عادت اور عرف کے مطابق ان کے لیے اس شخص کے گھر سے کھانا پینا اور کسی سائل کو کھلانا جائز ہے۔ اس میں کھانے میں مشارکت کے جواز پر دلیل ہے، خواہ وہ مل کر کھائیں یا متفرق طورپر، خواہ ان میں سے بعض، بعض سے زیادہ کھالیں ۔
آیت: 62 - 64 #
{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (62) لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (63) أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (64)}.
یقینا مومن تو صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پراورجب ہوتے ہیں ساتھ اس (رسول) کے اوپر ایسے کام کے جو جمع کرنے والا (اجتماع کا متقاضی) ہے تو نہیں جاتے وہ یہاں تک کہ اجازت طلب کر لیں وہ آپ سے، بلاشبہ وہ لوگ جو اجازت مانگتے ہیں آپ سے، وہی لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر، پس جب وہ اجازت طلب کریں آپ سے اپنے کسی کام کے لیے تو اجازت دے دیں آپ جس کے لیے چاہیں ان میں سےاور مغفرت طلب کریں آپ ان کے لیے اللہ سے، بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے (62)نہ بناؤ تم رسول کے بلانے کو اپنے درمیان مانند بلانے بعض تمھارے کے بعض کو تحقیق جانتا ہے اللہ ان لوگوں کو جو کھسک جاتے ہیں تم میں سے چھپ کر پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ، جو مخالفت کرتے ہیں اس (اللہ اور رسول) کے حکم کی، اس(بات) سے کہ پہنچے انھیں کوئی آزمائش (دنیا میں ) یا پہنچے انھیں عذاب درد ناک (آخرت میں ) (63)آگاہ رہو! بلاشبہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے تحقیق جانتا ہے اللہ اس (حالت) کو کہ ہو تم جس پراور جس دن وہ (منافق) لوٹائے جائیں گے اس کی طرف تو وہ خبر دے گا انھیں ساتھ اس کے جو انھوں نے عمل کیے تھےاور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (64)
#
{62} هذا إرشادٌ من الله لعبادِهِ المؤمنين أنَّهم إذا كانوا مع الرسول - صلى الله عليه وسلم - على أمرٍ جامع؛ أي: من ضرورتِهِ أو مصلحتِهِ أن يكونوا فيه جميعاً؛ كالجهاد والمشاورة ونحو ذلك من الأمور التي يشتركُ فيها المؤمنون؛ فإنَّ المصلحة تقتضي اجتماعُهم عليه وعدمُ تفرُّقهم؛ فالمؤمنُ بالله ورسوله حقًّا لا يذهبُ لأمرٍ من الأمور؛ لا يرجِعُ لأهلِهِ، ولا يذهبُ لبعض الحوائج التي يشذُّ بها عنهم؛ إلاَّ بإذنٍ من الرسول أو نائبِهِ من بعدِهِ، فجعل موجَبَ الإيمان عدمَ الذَّهاب إلاَّ بإذنٍ، ومَدَحَهم على فعلهم هذا وأدَبِهِم مع رسولِهِ وولي الأمر منهم، فقال: {إنَّ الذين يستأذِنونك أولئك الذين يؤمِنون باللهِ ورسولِهِ}: ولكنْ؛ هل يأذنُ لهم أم لا؟ ذكر لإذنِهِ لهم شرطين: أحدَهما: أن يكون لشأنٍ من شؤونهم وشغل من أشغالهم، فأما مَنْ يستأذنُ من غيرِ عذرٍ؛ فلا يُؤْذَنُ له. والثاني: أن يشاءَ الإذنَ، فتقتضيه المصلحةُ من دونِ مضرَّةٍ بالآذنِ؛ قال: {فإذا استأذنوكَ لبعض شأنِهِم فأْذَن لِمَن شئتَ منهُم}: فإذا كان له عذرٌ، واستأذنَ؛ فإنْ كان في قعودِهِ وعدم ذَهابه مصلحةٌ برأيِهِ أو شجاعته ونحو ذلك؛ لم يأذنْ له. ومع هذا؛ إذا استأذنَ وأذِنَ له بشرطيه؛ أمر الله رسولَه أن يَسْتَغْفِرَ له لما عسى أن يكون مقصراً في الاستئذان، ولهذا قال: {فاسْتَغْفِرْ لهم اللهَ إنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}: يغفرُ لهم الذنوبَ، ويرحمُهم؛ بأن جوَّز لهم الاستئذان مع العذر.
[62] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے ارشاد ہے کہ جب وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ e کے ساتھ ہوں ، یعنی آپ کی ضرورت اور مصلحت ، مثلاً: جہاد اور مشاورت وغیرہ میں ، جہاں اہل ایمان کا اشتراک عمل ہوتا ہے… تو اس معاملے میں اکٹھے رہیں کیونکہ مصلحت ان کے اجتماع و اتحاد اور عدم تفرق و تشتت کا تقاضا کرتی ہے … اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھنے والا رسول اللہ e اور آپ کے بعد آپ کے نائب کی اجازت کے بغیر اپنے گھر لوٹتا ہے نہ اپنی کسی ضرورت سے دیگر مومنوں کو چھوڑ کر جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اجازت کے بغیر نہ جانے کو موجب ایمان قرار دیا ہے اور اس فعل پر نیز رسول اللہ eاور آپ کے نائب کے ساتھ ان کے ادب پر ان کی مدح کی ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ ﴾ ’’بے شک وہ لوگ جو آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر۔‘‘ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا آپ اور آپ کا نائب ان کو اجازت دے یا نہ دے؟ اجازت دینے کے لیے دو شرائط عائد کی گئی ہیں : (۱) یہ اجازت طلبی ان کے کسی ضروری معاملے اور ضروری کام کے لیے ہو اور اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے اجازت طلب کرتا ہے تو اس کو اجازت نہ دی جائے۔ (۲) اجازت دینے میں مشیت مصلحت کے تقاضے پر مبنی ہو اور اجازت دینے والے کو ضرر نہ پہنچے۔ اس لیے فرمایا: ﴿فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّ٘مَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ ﴾ ’’پس جب وہ آپ سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لیے تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دیں ۔‘‘ اگر اجازت طلب کرنے والے کے پاس کوئی عذر ہو اور وہ اجازت طلب کرے اگر اس کے پیچھے بیٹھ رہنے میں اور ساتھ نہ جانے میں اس کی رائے یا شجاعت سے محرومی کی وجہ سے نقصان ہو تو صاحب امر اس کو اجازت نہ دے… بایں ہمہ اگر کسی نے پیچھے رہنے کی اجازت طلب کی اور صاحب امر ان مذکورہ شرائط کے ساتھ اجازت دے دے تو اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ وہ اجازت طلب کرنے والے کے لیے بخشش کی دعا کریں ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کی اجازت طلبی تقصیر پر مبنی ہو، اس لیے فرمایا: ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور بخشش مانگیں ان کے لیے اللہ سے، بلاشبہ اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان پر رحم فرماتا ہے کہ اس نے کسی عذر کی بنا پر اجازت طلبی کا جواز عطا کیا۔
#
{63} {لا تجعلوا دُعاءَ الرسول بينَكم كدعاءِ بعضِكُم بعضاً}؛ [أي لا تجعلوا دُعاءَ الرَّسولِ إيَّاكُم، ودُعَاءَكم للرَّسولِ كَدُعاءِ بَعْضِكم بَعْضاً]، فإذا دعاكم؛ فأجيبوه وجوباً، حتى إنه تجبُ إجابة الرسول - صلى الله عليه وسلم - في حال الصلاة، وليس أحدٌ إذا قال قولاً يجبُ على الأمَّة قَبولُ قولِهِ والعملُ به إلاَّ الرسول؛ لعصمتِهِ، وكونِنا مخاطَبينَ باتِّباعه؛ قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا اسْتَجيبوا للهِ وللرسولِ إذا دَعاكُم لِما يُحْييكُم}. وكذلك لا تجعلوا دعاءكم للرَّسول كدُعاءِ بعضِكُم بعضاً؛ فلا تقولوا: يا محمدُ عند ندائِكم، أو: يا محمد بن عبد الله! كما يقولُ ذلك بعضُكم لبعض، بل من شرفِهِ وفضلِهِ وتميُّزِهِ - صلى الله عليه وسلم - عن غيرِهِ أنْ يُقال: يا رسولَ الله! يا نبيَّ الله! {قد يعلم الله الذين يتسلَّلونَ منكم لِواذاً}. لما مَدَحَ المؤمنين بالله ورسولِهِ الذين إذا كانوا معه على أمرٍ جامع لم يَذْهبوا حتى يستأذِنوه؛ توعَّدَ مَنْ لم يفعلْ ذلك وذَهَبَ من غير استئذانٍ؛ فهو؛ وإن خفي عليكم بذَهابه على وجهٍ خفيٍّ، وهو المراد بقوله: {يتسلَّلون مِنكم لِواذاً}؛ أي: يلوذون وقتَ تسلُّلهم وانطلاقهم بشيء يحجُبُهم عن العيون؛ فالله يعلمهم، وسيجازيهم على ذلك أتمَّ الجزاء، ولهذا توعَّدهم بقولِهِ: {فليحذرِ الذين يخالفونَ عن أمرِهِ}؛ أي: يذهبون إلى بعض شؤونهم عن أمرِ الله ورسولِهِ؛ فكيف بمَنْ لم يذهبْ إلى شأن من شؤونه، وإنَّما تركَ أمرَ الله من دون شغل له؛ {أن تُصيبَهم فتنةٌ}؛ أي: شركٌ وشرٌّ، {أو يُصيبَهم عذابٌ أليمٌ}.
[63] ﴿ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا﴾ ’’نہ کرو تم رسول کے بلانے کو آپس میں جیسے ایک تمھارا دوسرے کو بلاتا ہے۔‘‘ یعنی رسول اللہe کا تمھیں بلانا اور تمھارا رسول اللہe کو بلانا ایسے نہ ہو جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ پس جب رسول اللہ e تمھیں بلائیں تو ان کی آواز پر لبیک کہنا تم پر فرض ہے یہاں تک کہ اگر تم نماز کی حالت میں ہو تب بھی تم پر آپ کے بلانے پر جواب دینا فرض ہے۔ رسول اللہ e کے سوا امت میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ رسول اللہ e معصوم ہیں اور ہم پر آپ کی اتباع واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ ﴾ (الانفال:8؍24) ’’اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب رسول تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جوتمھیں زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح تم رسول اللہ e کو اس طرح نہ بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، یعنی رسول اللہ e سے مخاطب ہوتے وقت (یامحمد) ’’اے محمد!‘‘ یا (یا محمد بن عبداللہ) ’’اے محمد بن عبداللہ!‘‘ نہ کہو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو… بلکہ آپ کو فضل و شرف حاصل ہے اور آپ دوسروں سے ممتاز ہیں اس لیے آپ سے مخاطب ہوتے وقت یہ کہا جائے ’’اے اللہ کے رسول!‘‘ یا ’’اے اللہ کے نبی!‘‘ ﴿ قَدْ یَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا﴾ ’’اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو کھسک جاتے ہیں تم میں سے نظر بچا کر۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کی مدح بیان کی ہے کہ جب وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ e کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لیے بغیر واپس نہیں جاتے۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی جنھوں نے ایسا نہیں کیا اور اجازت لیے بغیر چلے گئے۔ اگرچہ ان کا چپکے سے چلے جانا تم پر مخفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے:﴿ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ﴾ یعنی کھسکتے اور آپ کے پاس سے جاتے وقت، لوگوں کی نظر سے چھپنے کے لیے کسی چیز کی آڑ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے وہ ان کو ان کے ان کرتوتوں کی پوری پوری جزا دے گا، اس لیے فرمایا:﴿ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ ﴾ ’’پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں آپ کے حکم کی۔‘‘ یعنی جو لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے کام کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ تب اس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے کسی ضروری کام اور مشغولیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرتا ہے۔ ﴿ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ﴾ ’’یہ کہ پہنچے ان کو کوئی فتنہ‘‘ یعنی شرک اور شر﴿ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ ’’یا ان کو کوئی دردناک عذاب آ لے۔‘‘
#
{64} {ألا إنَّ لله ما في السمواتِ والأرض}: مُلكاً وعبيداً يتصرَّف فيهم بحكمِهِ القدريِّ وحكمه الشرعيِّ. {قد يعلم ما أنتُم عليه}؛ أي: قد أحاط علمُه بما أنتُم عليه من خيرٍ وشرٍّ، وعلم جميعَ أعمالكم؛ أحصاها علمُه، وجرى بها قلمُه، وكتبتْها عليكم الحفظةُ الكرام الكاتِبون. {ويومَ يُرْجَعون إليه}؛ أي: يوم القيامة {فينَبِّئُهم بما عَمِلوا}: يخبرُهم بجميع أعمالِهِم؛ دقيقِها وجليلها؛ إخباراً مطابقاً لما وَقَعَ منهم، ويستشهدُ عليهم أعضاءَهم؛ فلا يعدَمون منه فَضْلاً أو عدلاً. ولما قيَّد علمَه بأعمالهم؛ ذكر العمومَ بعد الخُصوص، فقال: {واللهُ بكلِّ شيءٍ عليمٌ}.
[64] ﴿ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’آگاہ ہوجاؤ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘ وہ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں وہ ان میں اپنے حکم قدری اور حکم شرعی کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے۔﴿ قَدْ یَعْلَمُ مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ ﴾ تم جو بھلائی یا برائی کرتے ہو اللہ تعالیٰ کا علم اس کا احاطہ كيے ہوئے ہے، وہ تمھارے تمام اعمال کو جانتا ہے، اس کے علم نے اس کو محفوظ اور اس کے قلم نے اس کو لکھ رکھا ہے اور (کراماً کاتبین) فرشتوں نے اس کو درج کر لیا ہے۔ ﴿وَیَوْمَ یُرْجَعُوْنَ اِلَیْهِ ﴾ ’’اور جس دن لوٹائے جاؤ گے تم اس کی طرف۔‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ﴾ ’’پس وہ انھیں ان کے عملوں کی خبر دے گا۔‘‘ وہ ان کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کے بارے میں ان کو اس طرح آگاہ کرے گا کہ یہ آگاہی واقع کے مطابق ہو گی۔ وہ ان کے اعضاء سے ان کے خلاف گواہی لے گا۔ وہ اس کے فضل وعدل سے محروم نہیں ہوں گے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے علم کو بندوں کے اعمال کے ساتھ مقید کیا ہے اس لیے خصوص کے بعد عموم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿ وَاللّٰهُ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘