آیت:
تفسیر سورۂ مومنون
تفسیر سورۂ مومنون
آیت: 1 - 11 #
{قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (2) وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (3) وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ (4) وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (8) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (9) أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ (10) الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (11)}.
یقینا فلاح پاگئے مومن (1) وہ لوگ جو وہ اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں (2) اور وہ لوگ جو وہ لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں (3) اور وہ لوگ جو وہ زکاۃ (ادا) کرنے والے ہیں (4)اور وہ لوگ جو وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں (5)مگر اپنی بیویوں سے یا جن (کنیزوں ) کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ، پس بلاشبہ وہ نہیں ہیں ملامت زدہ (6) پھر جو تلاش کرے سوائے ان کے تو یہی لوگ ہیں حد سے گزرنے والے (7) اور وہ لوگ جو وہ اپنی امانتوں کی اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں (8) اور وہ لوگ کہ وہ اوپر اپنی نمازوں کے حفاظت کرتے ہیں (9) یہ لوگ وہی ہیں وارث (10)وہ لوگ جو وارث ہوں گے فردوس (بہشت اعلیٰ) کے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (11)
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی تعریف و تعظیم اور ان کی فلاح و سعادت کا ذکر ہے، نیز اس امر کا بیان ہے کہ وہ فلاح و سعادت کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور اس ضمن میں اہل ایمان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مذکورہ صفات سے متصف کریں ۔ پس بندۂ مومن ان آیات کی میزان پر اپنے آپ کا وزن کرے اور یہ معلوم کرے کہ اس کے پاس اور دوسروں کے پاس قلت و کثرت یا اضافے اور کمی کے اعتبار سے کتنا ایمان ہے۔
#
{1} فقوله: {قد أفلح المؤمنونَ}؛ أي: قد فازوا وسَعِدوا ونجحوا، وأدركوا كلَّ ما يرام، المؤمنون الذين آمنوا بالله، وصدَّقوا المرسلين.
[1] پس فرمایا: ﴿قَدْ اَفْ٘لَ٘حَ الْ٘مُؤْمِنُوْنَؔ﴾ یعنی اہل ایمان کامیابی اور سعادت سے بہرہ مند ہوئے اور انھوں نے ہر وہ چیز حاصل کرلی جس کا حصول اہل ایمان کا مقصود و مطلوب ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انھوں نے انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی۔
#
{2} الذين من صفاتهم الكاملة أنهم {في صلاتهم خاشِعونَ}: والخشوع في الصلاة هو حضورُ القلب بين يدي الله تعالى، مستحضراً لقربه، فيسكن لذلك قلبه، وتطمئن نفسه، وتسكن حركاتُه، ويقلُّ التفاتُه، متأدِّباً بين يدي ربِّه، مستحضراً جميع ما يقوله ويفعله في صلاتِهِ من أول صلاته إلى آخرها، فتنتفي بذلك الوساوس والأفكار الرديَّة، وهذا روح الصلاة والمقصود منها، وهو الذي يُكْتَبُ للعبد؛ فالصلاةُ التي لا خشوع فيها ولا حضورَ قلبٍ، وإنْ كانت مُجْزِيَةً مثاباً عليها؛ فإنَّ الثواب على حسب ما يَعْقِلُ القلب منها.
[2] جن کی صفات کاملہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ بلاشبہ وہ ﴿ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَؔ﴾ ’’اپنی نماز میں خشوع اختیارکرتے ہیں ۔‘‘ نماز میں خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل اللہ تعالیٰ کو قریب سمجھتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہو… اس سے قلب کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، اس کی تمام حرکات ساکن اور غیر اللہ کی طرف اس کا التفات کم ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے نہایت ادب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، وہ اپنی نماز کے اندر، اول سے لے کر آخر تک جو کچھ کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے پورے استحضار کے ساتھ کہتا ہے۔ اس طرح اس کے دل سے تمام وسوسے اور غلط افکار زائل ہو جاتے ہیں ۔ یہی نماز کی روح اور یہی اس سے مقصود ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو بندے کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔پس وہ نماز جو خشوع و خضوع اور حضور قلب سے خالی ہو اس پر اگرچہ ثواب ملتا ہے مگر صرف اتنا ملتا ہے جتنا قلب اس کو سمجھ کر ادا کرتا ہے۔
#
{3} {والذين هم عن اللغو}: وهو الكلام الذي لا خير فيه ولا فائدة، {معرضون}: رغبةً عنه وتنزيهاً لأنفسهم وترفُّعاً عنه، وإذا مرُّوا باللغو مرُّوا كراماً، وإذا كانوا معرضين عن اللغو؛ فإعراضُهم عن المحرَّم من باب أولى وأحرى، وإذا مَلَكَ العبدُ لسانَه وخَزَنَه إلاَّ في الخير؛ كان مالكاً لأمرِهِ؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - لمعاذ بن جبل حين وصَّاه بوصايا؛ قال: «ألا أخبرك بملاك ذلك كله؟». قلت: بلى يا رسول الله! فأخذ بلسان نفسه وقال: «كفَّ عليك هذا». فالمؤمنون من صفاتهم الحميدة كفُّ ألسنتهم عن اللغو والمحرَّمات.
[3] ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ ﴾ ’’اور وہ لغو سے۔‘‘ یہاں (لغو) سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بھلائی اور کوئی فائدہ نہ ہو۔ ﴿مُعْرِضُوْنَ﴾ ’’اعراض کرنے والے ہیں ۔‘‘ اپنے آپ کو لغو سے پاک اور برتر رکھنے کے لیے۔ جب کبھی کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو نہایت وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور جب یہ لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں تو حرام کاموں سے ان کا اعراض اولیٰ و احریٰ ہے۔ جب بندہ بھلائی کے سوا لغویات میں اپنی زبان پر قابو پا لیتا ہے تو معاملہ اس کے اختیار میں آجاتا ہے جیسا کہ نبی اکرمe نے، جبکہ آپ معاذ بن جبلt کو نصیحت فرما رہے تھے … فرمایا ’’کیا میں تمھیں اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس پر ان سب چیزوں کا دارومدار ہے؟‘‘ حضرت معاذ کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا، جی ہاں ! ضرور بتائیں ، چنانچہ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا ’’اس کو اپنے قابو میں رکھو‘‘(جامع الترمذي، الإیمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، ح:2616 و سنن ابن ماجہ، الفتن، باب کف اللسان فی الفتنۃ، ح:3973) پس اہل ایمان کی صفات حمیدہ میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ لغویات اور محرمات سے اپنی زبان کو روکے رکھتے ہیں ۔
#
{4} {والذين هم للزَّكاةِ فاعلون}؛ أي: مؤدُّون لزكاة أموالهم على اختلاف أجناس الأموال؛ مزكين لأنفسهم من أدناس الأخلاق ومساوئ الأعمال التي تزكو النفوس بتركِها وتجنُّبِها؛ فأحسنوا في عبادة الخالق في الخشوع في الصلاة، وأحسنوا إلى خلقه بأداء الزَّكاة.
[4] ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ﴾ یعنی مال کی مختلف جنسوں کے مطابق اس کی زکاۃ ادا کرتے ہیں اپنے آپ کو گندے اخلاق اور برے اعمال سے پاک کرتے ہوئے جن کے ترک کرنے اور جن کے اجتناب ہی سے نفس پاک ہوتے ہیں ۔ پس وہ نماز میں خشوع کا اہتمام کر کے اپنے خالق کی اچھے طریقے سے عبادت کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرکے مخلوق کے ساتھ احسان کا رویہ اپناتے ہیں ۔
#
{5} {والذين هم لفروجهم حافظون}: عن الزِّنا، ومن تمام حفظها تجنُّب ما يدعو إلى ذلك؛ كالنظر واللمس ونحوهما، فحفظوا فروجهم من كلِّ أحدٍ.
[5] ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُ٘رُوْجِهِمْ حٰؔفِظُ٘وْنَ﴾ ’’اور وہ (زنا سے) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘ اور کامل حفاظت یہ ہے کہ ان تمام امور سے اجتناب کیا جائے جو زنا کی دعوت دیتے ہیں ، مثلاً:غیر محرم کو دیکھنا اور چھونا وغیرہ۔ پس وہ اپنی شرم گاہوں کی ہر ایک سے حفاظت کرتے ہیں۔
#
{6} {إلاَّ على أزواجهم أو ما ملكت أيمانُهم}: من الإماء المملوكات؛ {فإنَّهم غيرُ ملومين}: بقربهما؛ لأن الله تعالى أحلهما.
[6] ﴿اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ ﴾ ’’سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے۔‘‘ ﴿فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ﴾ یعنی اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جانے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حلال ٹھہرایا ہے۔
#
{7} {فمنِ ابتغى وراء ذلك}: غير الزوجة والسُّرِّيَّة؛ {فأولئك هم العادونَ}: الذين تعدَّوا ما أحلَّ الله إلى ما حرَّمه، المتجرِّئون على محارم الله. وعموم هذه الآية يدلُّ على تحريم [نكاح] المتعة؛ فإنَّها ليست زوجةً حقيقةً مقصوداً بقاؤها ولا مملوكةً، وتحريم نكاح المحلِّل لذلك. ويدل قوله: {أو ما مَلَكَتْ أيمانُهم}: أنَّه يُشترط في حلِّ المملوكة أن تكونَ كلُّها في ملكه؛ فلو كان له بعضُها؛ لم تحلَّ؛ لأنَّها ليست ممَّا ملكت يمينُه، بل هي ملكٌ له ولغيره؛ فكما أنَّه لا يجوز أن يَشْتَرِكَ في المرأة الحرَّة زوجان؛ فلا يجوزُ أن يشترِكَ في الأمة المملوكة سيدان.
[7] ﴿فَ٘مَنِ ابْتَ٘غٰى وَرَآءَؔ ذٰلِكَ ﴾ ’’پس جو تلاش کرے گا اس کے علاوہ۔‘‘ یعنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ﴾ ’’پس وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے تجاوز کرکے حرام میں پڑگئے اوراللہ تعالیٰ کی محرمات کے ارتکاب کی جسارت کی۔ اس آیت کریمہ کا عموم تحریم متعہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ نکاح متعہ کے ذریعے بنی ہوئی بیوی حقیقی بیوی ہے نہ اس کو نکاح میں باقی رکھنا ہی مقصود ہے اور نہ وہ لونڈیوں ہی کے زمرے میں آتی ہے، نیز یہ آیت کریمہ نکاح حلالہ کی تحریم پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ مملوکہ لونڈی کی حلت کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام صرف اسی کی ملکیت میں ہو۔ اگر وہ صرف اس کے کچھ حصے کا مالک ہے تو یہ لونڈی اس کے لیے حلال نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر اس کا مالک نہیں کیونکہ وہ اس کی اور کسی دوسرے شخص کی مشترکہ ملکیت ہے۔ پس جس طرح یہ جائز نہیں کہ کسی آزاد عورت کے دو شوہر ہوں ، اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی لونڈی کی ملکیت میں دو مالکوں کا اشتراک ہو (اور وہ اس سے مجامعت کرتے ہوں)
#
{8} {والذين هم لأماناتِهِم وعَهْدِهِم راعونَ}؛ أي: مراعون لها، ضابطون، حافظون، حريصون على القيام بها وتنفيذها. وهذا عامٌّ في جميع الأمانات التي هي حقٌّ لله، والتي هي حقٌّ للعباد؛ قال تعالى: {إنَّا عَرَضْنا الأمانة على السمواتِ والأرضِ والجبال فأبَيْنَ أنْ يحمِلْنها وأشفَقْنَ منها وحملها الإنسانُ}: فجميع ما أوجبه الله على عبدِهِ أمانةٌ على العبد حفظُها بالقيام التامِّ بها. وكذلك يدخُلُ في ذلك أمانات الآدميِّين؛ كأمانات الأموال والأسرار ونحوهما؛ فعلى العبد مراعاة الأمرين وأداء الأمانتين؛ {إنَّ اللَّه يأمُرُكم أنْ تؤدُّوا الأماناتِ إلى أهلها}، وكذلك العهد يَشْمَلُ العهدَ الذي بينهم وبين ربهم والذي بينهم وبين العباد، وهي الالتزامات والعقود التي يعقدها العبد؛ فعليه مراعاتها والوفاء بها، ويحرُمُ عليه التفريطُ فيها وإهمالها.
[8] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ﴾ یعنی وہ اپنی امانت اور اپنے عہد کی رعایت اور حفاظت کرتے ہیں ، ان کو قائم کرنے اور ان کے نفاذ کے بہت حریص ہیں … یہ آیت کریمہ تمام امانتوں کے لیے عام ہے خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَؔیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَاَشْ٘فَ٘قْ٘نَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ﴾ (الاحزاب:33؍72) ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا مگر انھوں نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس ذمہ داری کو اٹھا لیا۔‘‘ پس ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پرفرض کی ہے، امانت ہے، اس کو پوری طرح سے ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا بندے کی ذمہ داری ہے، اسی طرح انسانوں کی امانتیں اس کے تحت آتی ہے، مثلاً:مال کی امانت اور راز کی امانت وغیرہ۔ پس امانت کی ان دونوں اقسام کی حفاظت اور ان کو پوری طرح ادا کرنا فرض ہے۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ یَ٘اْمُرُؔكُمْ اَنْ تُ٘ـؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا﴾ (النساء:4؍58) ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو ان کی امانتیں واپس کر دیا کرو۔‘‘ اسی طرح عہد کا پورا کرنا بھی فرض ہے اور یہ اس عہد کو شامل ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور جو ان کے اور بندوں کے درمیان ہے اور اس سے مراد وہ التزامات اور معاہدے ہیں جو بندہ کسی سے کرتا ہے، ان کی حفاظت کرنا اور ان کو پورا کرنا اس پرواجب ہے، ان میں کوتاہی کرنا یا ان کو جان بوجھ کرچھوڑ دینا حرام ہے۔
#
{9} {والذين هم على صَلَواتهم يحافِظونَ}؛ أي: يداومون عليها في أوقاتها وحدودها وأشراطها وأركانها؛ فمدحهم بالخشوع بالصلاة وبالمحافظة عليها، لأنَّه لا يتمُّ أمرُهم إلاَّ بالأمرين؛ فمن يداوِمُ على الصلاة من غير خُشوع أو على الخُشوع من دون محافظةٍ عليها؛ فإنَّه مذمومٌ ناقصٌ.
[9] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ﴾ یعنی وہ نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ، ان کی حدود، شرائط اور ارکان کی کامل رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے نماز میں ان کے خشوع اور نماز کی حفاظت ، دونوں باتوں کی بنا پر ان کی مدح و ستائش کی ہے کیونکہ ان کا معاملہ ان دونوں امور کے بغیر تکمیل نہیں پاتا۔ پس جو شخص نماز پر مداومت تو کرتا ہے مگر بغیر خشوع کے نماز پڑھتا ہے یا وہ کامل خشوع کے ساتھ تو نماز پڑھتا ہے مگر اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ ناقص اور مذموم ہے۔
#
{10} {أولئك}: الموصوفون بتلك الصفات {هم الوارثونَ}.
[10] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں ﴿ هُمُ الْوٰرِثُ٘وْنَ﴾
#
{11} {الذين يَرِثونَ الفِرْدَوْسَ}: الذي هو أعلى الجنَّة ووسطُها وأفضلُها؛ لأنَّهم حُلُّوا من صفات الخير أعلاها وذروتها، أو المراد بذلك جميع الجنة؛ ليدخلَ بذلك عموم المؤمنين على درجاتهم في مراتبهم كلٌّ بحسب حاله. {هم فيها خالدونَ}: لا يَظْعَنون عنها ولا يَبْغون عنها حِولاً؛ لاشتمالها على أكمل النعيم وأفضله وأتمِّه من غير مكدِّرٍ ولا منغصٍ.
[11] ﴿الَّذِیْنَ یَرِثُ٘وْنَ الْ٘فِرْدَوْسَ﴾ ’’فردوس کے وارث ہوں گے‘‘ جو جنت کا بلند ترین، بہتر اور افضل طبقہ ہے کیونکہ وہ ایسی صفات سے متصف ہوئے ہیں جو بھلائی کی صفات میں سب سے اعلیٰ صفات ہیں … یا اس سے مراد تمام جنت ہے تاکہ عام مومن اپنے اپنے درجات و مراتب اور اپنے اپنے حال کے مطابق اس میں داخل ہو جائیں ۔ ﴿ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ وہ وہاں سے کبھی کوچ کریں گے نہ وہاں سے منتقل ہونا چاہیں گے کیونکہ جنت فردوس کامل اور افضل ترین نعمتوں پر مشتمل ہے وہاں کوئی تکدر ہوگا نہ پریشانی۔
آیت: 12 - 16 #
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16)}.
اور البتہ تحقیق پیدا کیا ہے ہم نے انسان کو خلاصے سے مٹی کے (12) پھر کیا ہم نے اس کو نطفہ قرار گاہ محفوظ میں (13) پھر بنایا ہم نے (اس) نطفے کو جما ہوا خون، پھر بنایا ہم نے جمے ہوئے خون کو گوشت کا لوتھڑا ، پھر بنائیں ہم نے (اس) لوتھڑے کی ہڈیاں ، پھر پہنایا ہم نے (ان) ہڈیوں کو گوشت، پھر پیدا کیا ہم نے اسے مخلوق اور (نئی) پس بڑا بابرکت ہے اللہ جو سب سے حسین بنانے والا ہے (14) پھر بے شک تم بعد اس کے البتہ مرنے والے ہو (15) پھر یقینا تم دن قیامت کے دوبارہ اٹھائے جاؤ گے (16)
#
{12} فذكر ابتداء خلق أبي النوع البشري آدم عليه السلام، وأنه {من سُلالةٍ من طينٍ}؛ أي: قد سُلَّتْ وأُخِذَتْ من جميع الأرض، ولذلك جاء بنوه على قدر الأرض: منهم الطيب والخبيث وبين ذلك، والسهل والحزن وبين ذلك.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں انسان کی ابتدائے تخلیق سے لے کر آخر تک مختلف اطواراور مراحل کا ذکر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوع بشری کے جدامجد آدمu کی پیدائش کا ذکر فرمایا کہ ﴿ مِنْ سُلٰ٘لَةٍ مِّنْ طِیْنٍ ﴾ ’’اسے زمین کے ست سے پیدا کیا۔‘‘ جوکہ تمام زمین سے حاصل کیا گیا تھا۔ بنابریں حضرت آدم کے بیٹے زمین کی نوعیت کے مطابق ہیں ، ان میں کچھ پاک، کچھ خبیث اور کچھ ان دونوں کے درمیان ہیں اور کچھ نرم دل، کچھ سخت دل اور کچھ ان دونوں کے درمیان ہیں ۔
#
{13} {ثم جعلناه}؛ أي: جنس الآدميين {نطفةً}: تخرُجُ من بين الصُّلب والترائب، فتستقر {في قَرارٍ مكينٍ}: وهو الرحم، محفوظةً من الفساد والريح وغير ذلك.
[13] ﴿ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ﴾ ’’پھر ہم نے اس کو بنایا۔‘‘ یعنی جنس آدم کو ﴿ نُطْفَةً ﴾ ’’نطفہ‘‘ جو انسان کی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے، پھر وہ نطفہ جگہ پکڑتا ﴿ فِیْ قَ٘رَارٍ مَّكِیْنٍ ﴾ ’’ایک محفوظ جگہ میں ۔‘‘ اس سے مراد رحم مادر ہے جو ہر قسم کی خرابی اور ہوا وغیرہ سے محفوظ ہے۔
#
{14} {ثم خلقنا النطفةَ}: التي قد استقرَّت قبل {علقةً}؛ أي: دماً أحمر بعد مضيِّ أربعين يوماً من النطفة، ثم {خلقنا العلقةَ}: بعد أربعين يوماً {مضغةً}؛ أي: قطعة لحم صغيرةٍ بقدر ما يُمْضَغ من صغرها، {فَخلْقنا المضغة}: اللينةَ {عظاماً}: صلبةً قد تخلَّلت اللحم بحسب حاجة البدن إليها، {فكَسَوْنا العظام لحماً}؛ أي: جعلنا اللحم كسوة للعظام؛ كما جعلنا العظام عماداً للحم، وذلك في الأربعين الثالثة، {ثم أنشأناه خَلْقاً آخر}: نفخ فيه الروح، فانتقل من كونه جماداً إلى أنْ صار حيواناً. {فتبارك الله}؛ أي: تعالى وتعاظم وكثر خيره، {أحسنُ الخالقينَ}: {الذي أحسنَ كلَّ شيءٍ خَلَقَهُ وبدأ خَلْقَ الإنسان من طين. ثم جعل نسله من سلالةٍ من ماءٍ مَهين. ثم سوَّاه ونَفَخَ فيه من روحِهِ وجعل لكم السمع والأبصار والأفئدةَ قليلاً ما تشكرون}؛ فخلقه كلُّه حسنٌ، والإنسان من أحسن مخلوقاته، بل هو أحسنها على الإطلاق؛ كما قال تعالى: {لقد خَلَقْنا الإنسان في أحسن تقويم}، ولهذا كان خواصُّه أفضل المخلوقات وأكملها.
[14] ﴿ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ ﴾ ’’پھر بنایا ہم نے نطفے کو‘‘ جو رحم مادر میں قرار پا چکا تھا ﴿ عَلَقَةً ﴾ ’’لوتھڑا‘‘ یعنی نطفے کو چالیس دن گزرنے کے بعد سرخ خون میں تبدیل کر دیا۔ ﴿ فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ﴾ ’’پھر بنایا ہم نے جمے ہوئے خون کو‘‘ یعنی چالیس دن کے بعد اس خون کے لوتھڑے کو ﴿ مُضْغَةً ﴾ ’’گوشت کا ٹکڑا‘‘ یعنی گوشت کی چھوٹی سی بوٹی یعنی اس مقدار کے برابر جسے چبایا جا سکتا ہے۔ ﴿ فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ ﴾ ’’پھر بنایا نرم بوٹی کو‘‘ ﴿ عِظٰمًا ﴾ ’’ہڈیاں ‘‘ یعنی سخت ہڈیاں بنا دیتے ہیں جوکہ بدن کی ضرورت کے مطابق گوشت کے درمیان ہوتی ہیں ۔ ﴿ فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا﴾ یعنی ہم ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنا دیتے ہیں جس طرح ہڈیوں کو گوشت کا سہارا بنایا اور یہ تیسرے چالیس دنوں میں سرانجام پاتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ﴾ ’’پھر پیدا کیا ہم نے اس کو ایک دوسری بناوٹ میں ۔‘‘ اس میں روح پھونک دی، پس وہ بے جان جسم سے جان دار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ﴿ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ بہت بلند، بہت بڑا اور بہت زیادہ بھلائی والا ہے۔ ﴿ اَحْسَنُ الْخٰؔلِقِیْنَ﴾ ’’وہ سب تخلیق کاروں سے اچھا تخلیق کار ہے‘‘ ﴿ الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُ٘لَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْ٘قَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍۚ۰۰ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍۚ۰۰ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَ٘فَ٘خَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ﴾ (السجدۃ: 32؍7-9) ’’جس نے ہر چیز بہترین طریقے سے پیدا کی اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی پھر اس کی نسل ایک خلاصے یعنی ایک حقیر پانی سے چلائی، پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے تمھارے کان، آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکر گزار ہو۔‘‘ انسان کی تمام تخلیق اچھی ہے اور انسان بہترین مخلوق بلکہ تمام مخلوقات میں علی الاطلاق بہترین ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ﴾ (التین:95؍4) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘ اس لیے انسان کے خواص تمام مخلوق میں سب سے افضل اور سب سے کامل ہیں ۔
#
{15} {ثم إنكم بعد ذلك}: الخلق ونفخ الروح، {لَمَيِّتون}: في أحد أطواركم وتنقُّلاتكم.
[15] ﴿ ثُمَّ اِنَّـكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ﴾ یعنی انسان کی تخلیق اور اس میں روح کے پھونکے جانے کے بعد ﴿ لَمَیِّتُوْنَ ﴾ یعنی تم ان مراحل میں سے گزرتے ہوئے ایک مرحلہ میں موت سے ہم کنار ہوگے۔
#
{16} {ثم إنَّكم يوم القيامةِ تُبْعَثونَ}: فتجازَوْن بأعمالكم حسنها وسيئها؛ قال تعالى: {أيحسَبُ الإنسان أن يُتْرَكَ سدى. ألم يَكُ نطفةً من مَنِيٍّ يُمْنى. ثم كان علقةً فَخَلَقَ فسَوَّى. فَجَعَلَ منه الزوجينِ الذَّكَرَ والأنثى. أليس ذلك بقادرٍ على أن يُحيي الموتى}.
[16] ﴿ ثُمَّ اِنَّـكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ ﴾ ’’پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ پھر تمھیں تمھارے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَكَ سُدًىؕ۰۰اَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰىۙ۰۰ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰىۙ۰۰فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰىؕ۰۰اَلَ٘یْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى ﴾ (القیامۃ: 75؍36۔40) ’’کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ، کیا وہ منی کا ایک ٹپکایا ہوا قطرہ نہ تھا پھر وہ لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کو تخلیق کیا اور نک سک سے درست کیا پھر اس کی دوقسمیں بنائیں یعنی مرد اور عورت۔ کیا اللہ اس بات پرقادر نہیں کہ مردوں کوزندہ کرے؟‘‘
آیت: 17 - 20 #
{وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (17) وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (18) فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (19) وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ (20)}.
اور البتہ تحقیق پیدا کیے ہیں ہم نے تمھارے اوپر سات تہ بہ تہ آسمان اور نہیں ہیں ہم (اپنی) مخلوق سے غافل (17) اور ہم نے نازل کیاآسمان سے پانی ساتھ اندازے کے ، پھر ٹھہرایا ہم نے اسے زمین میں اور بے شک ہم اس کے لے جانے پر بھی البتہ قادر ہیں (18) پھر پیدا کیے ہم نے تمھارے لیے اس کے ذریعے سے باغات کھجوروں اور انگوروں کے ، تمھارے لیے ان میں (لذیذ) میوے ہیں بہت اور کچھ کو ان میں سے تم کھاتے ہو (19) اور (پیدا کیا ہم نے) ایک درخت کو جو نکلتا (اگتا) ہے طُوْرِ سَیْنَاء سے، وہ اگاتا ہے تیل اور سالن کھانے والوں کے لیے (20)
#
{17} لما ذكر تعالى خلق الآدميِّ؛ ذكر مسكنه وتوفُّر النعم عليه من كل وجهٍ، فقال: {ولقد خَلَقْنا فوقَكُم}: سقفاً للبلاد ومصلحةً للعباد، {سبع طرائقَ}؛ أي: سبع سماواتٍ طباقاً، كلُّ طبقةٍ فوق الأخرى، قد زُيِّنَتْ بالنُّجوم والشمس والقمر، وأودِعَ فيها من مصالح الخلق ما أودع. {وما كُنَّا عن الخلق غافلين}؛ فكما أن خَلْقَنا عامٌّ لكل مخلوق؛ فعلمنا أيضاً محيطٌ بما خَلَقْنا؛ فلا نغفل مخلوقاً ولا ننساه، ولا نَخْلُقُ خلقاً فنضيِّعه، ولا نغفل عن السماء فتقع على الأرض، ولا ننسى ذرَّةً في لجج البحار وجوانب الفلوات ولا دابَّة إلاَّ سُقنا إليها رزقها، {وما من دابَّةٍ في الأرض إلاَّ على الله رِزْقُها ويعلم مُسْتَقَرَّها ومُسْتَوْدَعَها}: وكثيراً ما يقرِنُ تعالى بين خلقِهِ وعلمِهِ؛ كقوله: {ألا يعلمُ من خَلَقَ وهو اللطيفُ الخبير}، {بلى وهو الخلاقُ العليم}؛ لأنَّ خلق المخلوقات من أقوى الأدلَّة العقليَّة على علم خالقها وحكمته.
[17] اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد، اس کے مسکن اور اس پر ہر لحاظ سے اپنی بے پایاں نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ ﴾ ’’اور بنائے ہم نے تمھارے اوپر‘‘ یعنی شہروں کی چھت کے طور پر اور بندوں کے فائدے کی خاطر ﴿ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ﴾ ہم نے سات آسمان طبق بر طبق بنائے کہ ہر طبقے کے اوپر دوسرا طبقہ ہے۔ اور ان کو سورج، چاند اور ستاروں کے ذریعے سے سجایا اور ان میں مخلوق کے تمام فوائد ودیعت كيے گئے۔ ﴿ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْ٘قِ غٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں ۔‘‘ پس جیسے ہماری تخلیق ہر مخلوق کے لیے عام ہے۔ اسی طرح ہمارا علم بھی تمام مخلوق پر محیط ہے، ہم اپنی کسی مخلوق سے غافل ہیں نہ اسے بھولتے ہیں اور نہ کسی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اسے ضائع کرتے ہیں ، آسمان سے غافل ہوتے ہیں کہ وہ زمین پر گر پڑے نہ سمندروں کی موجوں میں تیرتے ہوئے اور صحراؤں میں پڑے ہوئے ایک ذرے کو بھی فراموش کرتے ہیں ۔ کوئی ایسا جان دار نہیں جس کو ہم رزق نہ پہنچاتے ہوں ۔ ﴿ وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا﴾ (ھود:11؍6) ’’زمین میں چلنے والا کوئی ایسا جاندار نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کہاں اس کا ٹھکانہ ہے اور کہاں اسے سونپا جانا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت کثرت سے اپنی تخلیق اور اپنے علم کو اکٹھا بیان کیا ہے، مثلاًفرمایا: ﴿ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ١ؕ وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾ (الملک:67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ بَلٰى ١ۗ وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ ﴾ (یٰس:36؍81) ’’کیوں نہیں ! جبکہ وہ پیدا کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کی تخلیق، ان کے خالق کے علم اور حکمت پر سب سے بڑی عقلی دلیل ہے۔
#
{18} {وأنزلنا من السماء ماءً}: يكون رزقاً لكُم ولأنعامكم بقدر ما يكفيكم؛ فلا ينقصه [بحيث لا يكفي الأرض والأشجار، فلا يحصل منه المقصود. ولا يزيده زيادة لا تحتمل]، بحيثُ يتلف المساكن، ولا تعيش منه النباتات والأشجار، بل أنزله وقتَ الحاجة لنزوله، ثم صرفه عند التضرُّر من دوامه، {فأسكنَّاه في الأرض}؛ أي: أنزلناه عليها، فسكن واستقرَّ وأخرج بقدرةِ منزلِهِ جميع الأزواج النباتيَّة، وأسكنه أيضاً معدًّا في خزائن الأرض؛ بحيث لم يذهبْ نازلاً حتى لا يوصل إليه ولا يُبلغَ قعره. {وإنَّا على ذَهابٍ به لَقادِرونَ}: إمَّا بأن لا نُنْزِلَه، أو نُنْزِلُه فيذهب نازلاً لا يوصَل إليه، أو لا يوجد منه المقصود منه، وهذا تنبيهٌ منه لعباده أن يشكروه على نعمته ويقدِّروا عدمها؛ ماذا يحصُلُ به من الضَّرر؛ كقوله تعالى: {قلْ أرأيتُم إنْ أصبحَ ماؤكم غَوْراً فمن يأتيكم بماءٍ معين}.
[18] ﴿ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً﴾ ’’اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی‘‘ تاکہ تمھارے لیے اور تمھارے مویشیوں کے لیے بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ پس وہ اسے اتنا کم بھی نہیں کرتا کہ جس سے زمین اور درختوں کی ضرورت پوری نہ ہو اور مقصود حاصل نہ ہو اور نہ اسے اتنا زیادہ کرتا ہے کہ جس سے آبادیاں تلف ہو جائیں اور نباتات اور درخت اس کے ساتھ زندہ نہ رہیں بلکہ جب اس کو نازل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نازل کرتا ہے اور جب اس کے زیادہ برسنے سے نقصان کا خدشہ ہوتا ہے تو اسے روک دیتا ہے۔ ﴿ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’پس ہم اس کو زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم پانی کو زمین پر نازل کرتے ہیں اور وہ وہاں ٹھہر جاتا ہے اور اپنے نازل کرنے والے کی قدرت سے، ہر قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دور زیر زمین پانی کے خزانوں تک لے جا کر ٹھہراتا ہے حتیٰ کہ کنواں کھودنے والا اس کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ﴿ وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ ﴾ ’’اور ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں ۔‘‘ اس طرح کہ یا تو ہم اسے نازل ہی نہ کریں یا نازل تو کریں لیکن اسے اتنا گہرا لے جائیں کہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہو یا اس سے مقصد حاصل نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو تنبیہ ہے کہ وہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں اور اس کے معدوم ہونے پر اندازہ کریں کہ انھیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًؔا فَ٘مَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ﴾ (الملک:67؍30) ’’کہہ دیجیے کہ کیا تم نے سوچا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے یعنی خشک ہو جائے تو کون ہے جو تمھارے لیے پانی کا چشمہ بہا لائے ۔‘‘
#
{19} {فأنشأنا لكم به}؛ أي: بذلك الماء، {جناتٍ}؛ أي: بساتين {من نخيل وأعنابٍ}: خصَّ تعالى هذين النوعين، مع أنه ينشر منه غيرهما من الأشجار؛ لفضلهما ومنافعهما التي فاقت بها الأشجار، ولهذا ذكر العامَّ في قوله: {لكم}؛ أي: في تلك الجنات فواكه كثيرةٌ منها تأكُلون من تينٍ وأتْرُجٍّ ورمانٍ وتفاح وغيرها.
[19] ﴿ فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ﴾ ’’پس ہم پیدا کرتے ہیں تمھارے لیے اس کے ساتھ‘‘ یعنی اس پانی کے ذریعے ﴿ جَنّٰتٍ ﴾ یعنی باغات ﴿ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ﴾ ’’کھجور اور انگور کے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان دو قسموں کا ذکر کیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے درخت اور نباتات وغیرہ بھی پانی ہی سے پیدا کی ہیں کیونکہ یہ اپنی فضیلت اور منفعت کی بنا پر دیگر درختوں پر فوقیت رکھتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں عام ذکر فرمایا ﴿ لَكُمْ فِیْهَا﴾ ’’تمھارے لیے ان (باغات) میں ‘‘ ﴿ فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ﴾ ’’بہت سے میوے ہوتے ہیں ، انھی میں سے تم کھاتے ہو‘‘ یعنی زیتون، لیموں ، انار اور سیب وغیرہ۔
#
{20} {وشجرة تخرج من طور سَيْناءَ}: وهي شجرة الزيتون؛ أي: جنسها، خُصَّت بالذكر لأنَّ مكانها خاصٌّ في أرض الشام، ولمنافعها التي ذُكِرَ بعضُها في قوله: {تَنْبُتُ بالدُّهن وصِبْغٍ للآكلين}؛ أي: فيها الزيت الذي هو دهنٌ، يُسْتَعْمَلُ استعمالَه من الاستصباح به، واصطباغ للآكلين؛ أي: يجعل إداماً للآكلين وغير ذلك من المنافع.
[20] ﴿ وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَؔ ﴾ ’’اور وہ درخت جو طور سیناء (پہاڑ) سے نکلتا ہے۔‘‘ اور اس سے مراد زیتون کا درخت ہے یعنی جنس زیتون۔ خاص طور پر اس کا ذکر اس لیے کیا کیونکہ ارض شام میں اس کا خاص علاقہ ہے، نیز اس کے کچھ فوائد ہیں ۔ ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں مذکور ہیں ۔ ﴿تَنْۢـبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اگاتا ہے وہ تیل اور سالن ہے کھانے والوں کے لیے۔‘‘ اس میں سے زیتون کا تیل نکلتا ہے جوکہ چکنائی ہے جسے روشنی کرنے اور کھانے کے لیے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے یعنی اس کوکھانے کے لیے سالن بنایا جاتا ہے۔ اس میں اس کے علاوہ دیگر فوائد بھی ہیں ۔
آیت: 21 - 22 #
{وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (21) وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (22)}.
اور بلاشبہ تمھارے لیے چوپایوں میں البتہ عبرت ہے، ہم پلاتے ہیں تمھیں اس سے جو ان کے پیٹوں میں ہےاور تمھارے لیے ان میں منافع ہیں بہت اور بعض کو ان میں سے تم کھاتے ہو (21) اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو (22)
#
{21} أي: ومن نعمه عليكم أن سَخَّرَ لكم الأنعام؛ الإبل والبقر والغنم، فيها عبرةٌ للمعتبرين ومنافع للمنتفعين، {نُسْقيكُم ممَّا في بُطونها}: من لبنٍ يخرُجُ من بين فَرْثٍ ودمٍ خالص سائغ للشاربين، {ولكم فيها منافعُ كثيرةٌ}: من أصوافها وأوبارها وأشعارِها، وجعل لكم من جلودِ الأنعام بيوتاً تستخفُّونها يوم ظَعْنِكُم ويومَ إقامتِكُم، {ومنها تأكُلون}: أفضل المآكل من لحم وشحم.
[21] ﴿ وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً﴾ یعنی یہ تم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمھارے لیے مویشيوں ، یعنی اونٹوں ، گایوں اور بکریوں کو مسخر کیا۔ اس میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت اور فائدہ اٹھانے والوں کے لیے فوائد ہیں ۔ ﴿ نُسْقِیْكُمْ مِّؔمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا﴾ ’’پلاتے ہیں ہم تمھیں اس سے جو ان کے پیٹوں میں ہے۔‘‘ یعنی دودھ، جو گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے جو خالص اور پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے ﴿ وَلَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ ﴾ یعنی ان کی پشم، اون اور بالوں میں تمھارے لیے بہت سے فائدے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کے چمڑے سے تمھارے لیے خیمے بنائے جنھیں تم اپنے سفر اور پڑاؤ کے دوران (استعمال میں ) بہت ہلکا پاتے ہو۔ ﴿ وَّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ﴾ یعنی تم ان كے گوشت اور چربی سے حاصل شدہ بہترین کھانا کھاتے ہو۔
#
{22} {وعليها وعلى الفُلْكِ تُحْمَلونَ}؛ أي: جعلها سفناً لكم في البرِّ، تحملون عليها أثقالكم إلى بلدٍ لم تكونوا بالغيهِ إلاَّ بشِقِّ الأنفس؛ كما جعل لكم السفنَ في البحر تحملكم وتحمل متاعكم قليلاً كان أو كثيراً؛ فالذي أنعم بهذه النعم وصنَّف أنواع الإحسان وأدرَّ علينا من خيره المدرار هو الذي يستحقُّ كمالَ الشُّكْر وكمال الثناء والاجتهاد في عبوديَّته وأن لا يُستعان بنعمه على معاصيهِ.
[22] ﴿ وَعَلَیْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو۔‘‘ یعنی خشکی پر تم ایک شہر سے دوسرے شہر تک ان جانوروں پر اپنے بوجھ لاد کر لے جاتے ہو جہاں تم سخت مشقت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے، جیسے سمندر میں تمھارے سفر کے لیے کشتیاں بنائیں جو تمھیں اور تمھارے سامان کو، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ اٹھائے پھرتی ہیں ۔ پس وہ ہستی جس نے یہ تمام نعمتیں عطا کی ہیں ، جس نے مختلف انواع کے احسانات كيے ہیں اور جس نے اپنی نوازشوں کی بارش کی، وہی کامل شکر، کامل حمدوثنا اور عبودیت میں پوری کوشش کی مستحق ہے اور وہ اس چیز کی بھی مستحق ہے کہ اس کی نعمتوں سے اس کی نافرمانی پر مدد نہ لی جائے۔
آیت: 23 - 30 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (23) فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ (24) إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ (25) قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (26) فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ (27) فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (28) وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (29) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ وَإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ (30)}.
اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف تو اس نے کہا، اے میری قوم! عبادت کرو تم اللہ کی، نہیں ہے تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے، کیا پس نہیں ڈرتے تم؟ (23) پس کہا(ان) سرداروں نے جنھوں نے کفر کیا اس کی قوم میں سے، نہیں ہے یہ مگر بشر تم جیسا ہی، وہ چاہتا ہے یہ کہ برتری حاصل کرے تم پر اور اگر چاہتا اللہ تو البتہ نازل کرتا فرشتے، نہیں سنی ہم نے یہ (توحید کی بات) اپنے پہلے باپ دادا میں (24) نہیں ہے یہ مگر ایک آدمی ہی، اسے جنون ہے، پس انتظار کرو تم اس کا ایک وقت تک (25) نوح نے کہا، اے میرے رب! تو میری مدد کر بسبب اس کے جو انھوں نے مجھے جھٹلایا ہے (26)پس وحی کی ہم نے اس کی طرف یہ کہ بنا تو کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے (مطابق) پس جب آجائے ہمارا حکم اور ابل پڑے تنور تو داخل (سوار) کر اس میں ہر قسم سے جوڑا دو (نر اور مادہ) اور اپنے گھر والوں کو، سوائے اس کے کہ پہلے گزر چکا اس کی بابت حکم (اللہ کا) ان میں سے اورنہ بات کرنا مجھ سے ان لوگوں (کے بارے) میں جنھوں نے ظلم کیا، بلاشبہ وہ (سب) ڈبوئے جائیں گے (27) پس جب پورے طور پر بیٹھ جائے تو اور وہ جو تیرے ساتھ ہیں ، کشتی پر تو کہہ: تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے نجات دی ہمیں ظالم قوم سے (28) اور کہہ تو، اے میرے رب! تو اتار مجھے اتارنا بابرکت اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے (29) بلاشبہ اس (واقعے) میں البتہ نشانیاں ہیں اور بلاشبہ ہم ہیں البتہ آزمانے والے (30)
#
{23} يذكر تعالى رسالة عبده ورسوله نوح عليه السلام أول رسول أرسله لأهل الأرض، فأرسله إلى قومه، وهم يعبدون الأصنام، فأمرهم بعبادة الله وحده، فقال: {يا قوم اعبُدوا الله}؛ أي: أخلصوا له العبادة؛ لأنَّ العبادة لا تصحُّ إلا بإخلاصها. {ما لكم من إلهٍ غيره}: فيه إبطال ألوهيَّة غير الله وإثباتُ الإلهيَّة لله تعالى؛ لأنَّه الخالق الرازق الذي له الكمالُ كلُّه، وغيرُه بخلاف ذلك. {أفلا تتَّقون}: ما أنتم عليه من عبادة الأوثان والأصنام التي صُوِّرت على صور قوم صالحين، فعبدوها مع الله؟
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے اور رسول نوح u کا ذکر کرتا ہے حضرت نوحu زمین پر پہلے رسول تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ ان کی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ انھوں نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، چنانچہ انھوں نے فرمایا: ﴿یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی اس کے لیے عبادت کو خالص کرو کیونکہ اخلاص کے بغیر عبادت قابل قبول نہیں ۔ ﴿ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰ٘هٍ غَیْرُهٗ ﴾ ’’تمھارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ اس میں غیر اللہ کی الوہیت کا ابطال اور صرف اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے وہی خالق اور رازق ہے اور غیر اللہ کے برعکس صرف وہی کامل کمال کا مالک ہے۔ ﴿ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ کیا تم استھانوں اور بتوں کی عبادت کرنے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں ، جن کو قوم کے صالح لوگوں کی شکل پر گھڑ لیا گیا تھا، اس طرح انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت شروع کر دی تھی۔
#
{24} فاستمرَّ على ذلك يدعوهم سرًّا وجهاراً وليلاً ونهاراً ألف سنة إلاَّ خمسين عاماً، وهم لا يزدادون إلاَّ عتوًّا ونفوراً، {فقال الملأ}: من قومه الأشرافُ والسادة المتبوعون على وجه المعارضة لنبيِّهم نوح والتحذير من اتِّباعه: {ما هذا إلاَّ بشرٌ مثلُكم يريد أن يَتَفَضَّلَ عليكم}؛ أي: ما هذا إلاَّ بشرٌ مثلُكم، قصدُهُ حين ادَّعى النبوَّة أن يزيد عليكم فضيلة ليكون متبوعاً، وإلاَّ؛ فما الذي يفضِّله عليكم وهو من جنسكم؟! وهذه المعارضة لا زالت موجودة في مكذِّبي الرسل، وقد أجاب الله عنها بجوابٍ شافٍ على ألسنة رسله؛ كما في قوله: {قالوا}؛ أي: لرسلهم. {إنْ أنتُم إلاَّ بشرٌ مثلُنا تريدونَ أنْ تصدُّونا عمَّا كان يعبدُ آباؤنا فأتونا بسلطانٍ مبينٍ. قالَت لهم رسلُهم إن نحنُ إلاَّ بشرٌ مثلُكُم ولكنَّ الله يَمُنَّ على مَن يشاء من عبادِهِ}: فأخبروا أنَّ هذا فضلُ الله ومنَّته، فليس لكم أن تحجُروا على الله، وتمنَعوه من إيصال فضلِهِ علينا. وقالوا أيضاً: {ولو شاء الله لأنزلَ ملائكةً}: وهذه أيضاً معارضةٌ بالمشيئة باطلةٌ؛ فإنَّه وإنْ كان لو شاء لأنزل ملائكة؛ فإنَّه حكيمٌ رحيمٌ، حكمتُه ورحمته تقتضي أن يكونَ الرسول من جنس الآدميِّين؛ لأنَّ الملائكة لا قدرة لهم على مخاطبتِهِ، ولا يمكن أن يكون إلاَّ بصورة رجل، ثم يعود اللبسُ عليهم كما كان. وقولهم: {ما سمعنا بهذا}؛ أي: بإرسال الرسول {في آبائنا الأوَّلينَ} وأيُّ حجَّة في عدم سماعِهم إرسالَ رسول في آبائهم الأولين؟! لأنَّهم لم يحيطوا علماً بما تقدَّم؛ فلا يجعلون جهلهم حجَّةً لهم! وعلى تقدير أنَّه لم يرسل منهم رسولاً: فإما أن يكونوا على الهدى؛ فلا حاجة لإرسال الرسول إذ ذاك، وإما أن يكونوا على غيره؛ فليحمدوا ربَّهم ويشكروه أن خصَّهم بنعمةٍ لم تأتِ آباءهم ولا شعروا بها، ولا يجعلوا عدم الإحسان على غيرهم سبباً لكفرِهم للإحسان إليهم.
[24] حضرت نوح u نے ان کو کھلے چھپے، شب و روز، ساڑھے نو سو برس تک دعوت دی مگر ان کی سرکشی اور روگردانی میں اور اضافہ ہو گیا۔ ﴿ فَقَالَ الْمَلَؤُا ﴾ پس نوحu کی قوم کے اشراف اور سرداروں نے معارضہ اور مخالفت کے طور پر اور ان کی اتباع سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہا: ﴿مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ١ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ﴾ یعنی یہ محض تمھارے ہی جیسا آدمی ہے اور اس نے تم پر فضیلت حاصل کرنے کے لیے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تاکہ وہ سردار اور پیشوا بن سکے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں کون سی ایسی چیز ہے جس کی بنا پر اسے تم پر فضیلت حاصل ہو حالانکہ وہ تمھاری ہی جنس سے ہے؟ یہ معارضہ رسولوں کی تکذیب کرنے والوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان پر اس کا شافی جواب دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ کے اس ارشاد میں ہے کہ کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ﴿ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُنَا١ؕ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ۰۰قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (ابراہیم: 14؍10، 11) ’’تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم جیسے ہی انسان ہو، تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکنا چاہتے ہو جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لاؤ۔ رسولوں نے ان سے کہا: ہم تمھارے ہی جیسے بشر ہیں مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، نوازتا ہے۔‘‘ پس رسولوں نے ان کو آگاہ فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عنایت ہے تم اللہ تعالیٰ پر پابندی لگا سکتے ہو نہ اس کے فضل کو ہم تک پہنچنے سے روک سکتے ہو۔ انھوں نے اپنے رسولوں سے یہ بھی کہا: ﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ فرشتے نازل کر دیتا۔‘‘ یہ بھی ان کا مشیت الٰہی کے ساتھ معارضۂ باطلہ ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو فرشتے نازل کر سکتا ہے مگر وہ نہایت مہربان اور بہت حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور بے پایاں رحمت تقاضا کرتی ہے کہ رسول انسانوں ہی کی جنس میں سے ہو کیونکہ انسان فرشتوں سے مخاطب ہونے کی قدرت نہیں رکھتے، نیز اگر فرشتہ بھیجا جائے تو اس کا انسان ہی کی شکل میں آنا ممکن ہے۔ تب اشتباہ تو ان پر پھر بھی واقع ہو جائے گا جیسا کہ پہلے ہے۔ کفار کا قول تھا ﴿ مَّا سَمِعْنَا بِهٰؔذَا ﴾ یعنی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں ہم نے نہیں سنا ﴿ فِیْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’اپنے باپ دادا کے زمانے میں۔‘‘ اور یہ کون سی دلیل ہے کہ انھوں نے اپنے آباء و اجداد میں کسی رسول کے مبعوث ہونے کے بارے میں نہیں سنا؟ کیونکہ گزرے واقعات ان کے احاطۂ علم میں نہیں ، اس لیے وہ اپنی لاعلمی اور جہالت کو دلیل نہ بنائیں ۔ اور فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تو اس کی وجہ یا تو یہ ہو گی کہ وہ سب ہدایت پر ہوں گے تب اس صورت میں ان میں رسول بھیجنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اور اگر وہ ہدایت پر نہ تھے تو انھیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے ان کو ایسی نعمت سے خصوصی طور پر نوازا ہے جو ان کے آباء و اجداد کو عطا نہیں ہوئی اور نہ ان کو اس نعمت کا شعور تھا۔ دوسروں پر عدم احسان کو سبب بنا کر خود پر اللہ تعالیٰ کے احسان کی ناشکری نہ کریں ۔
#
{25} {إنْ هو إلاَّ رجلٌ به جِنَّةٌ}؛ أي: مجنون، {فتربَّصوا به}؛ أي: انتظروا به {حتى حينٍ}: إلى أن يأتيه الموت. وهذه الشبه [التي] أوردوها معارضةً لنبوَّة نبيِّهم دالةٌ على شدَّة كفرهم وعنادهم وعلى أنَّهم في غاية الجهل والضَّلال؛ فإنَّها لا تَصْلُحُ للمعارضة بوجهٍ من الوجوه؛ كما ذكرنا، بل هي في نفسها متناقضةٌ متعارضة؛ فقوله: {ما هذا إلاَّ بشرٌ مثلُكُم يريدُ أن يتفضَّلَ عليكُم}؛ أثبتوا أنَّ له عقلاً يكيدُهم به ليعلُوَهم ويسودَهم، ويحتاجُ مع هذا أن يُحْذَرَ منه لئلاَّ يُغترَّ به؛ فكيف يلتئم مع قولهم: {إنْ هو إلاَّ رجلٌ به جِنَّةٌ}؟! وهل هذا إلا من مشبِّهٍ ضالٍّ، منقلبٍ عليه الأمر، قصده الدفع بأيِّ طريق اتَّفق له، غير عالم بما يقول. ويأبى الله إلاَّ أنْ يُظْهِرَ خِزْيَ مَن عاداه وعادى رسله.
[25] کفار نے کہا: ﴿ اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ ﴾ یعنی یہ تو مجنون ہے ﴿ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ ﴾ یعنی اس کے بارے میں انتظار کرو ﴿ حَتّٰى حِیْنٍ ﴾ یہاں تک کہ اس کو موت آ جائے۔ یہ شبہات جو انھوں نے وارد كيے تھے درحقیقت یہ اپنے نبی سے ان کا معارضہ تھا جو ان کے کفر اور عناد کی شدت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انتہائی جہالت اور ضلالت میں مبتلا تھے۔ یہ شبہات کسی بھی لحاظ سے معارضے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کر چکے ہیں بلکہ یہ شبہات فی نفسہ متناقض اور متعارض ہیں ۔ پس ان کا یہ کہنا ﴿ مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ١ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ ﴾ ثابت کرتا ہے کہ انھیں اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ ان کا نبی عقل مند ہے جو ان کے خلاف چال چلتے ہوئے ان پر غلبہ حاصل کر کے ان پر سرداری کرے گا اور ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے بچا جائے تاکہ اس سے دھوکہ نہ کھایا جا سکے۔ ان کا یہ مذکورہ قول ان کے اس دعوے کے ساتھ کیسے مناسبت رکھتا ہے ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ ﴾ کیا یہ گمراہ شخص کا شبہ نہیں ، جو اسی کے خلاف جاتا ہے؟ اس شخص کا مقصد دراصل یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی دعوت کو روکا جائے اور اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسوا کر کے رہتا ہے جو اس کے رسولوں سے عداوت رکھتا ہے۔
#
{26} فلما رأى نوحٌ أنَّه لا يفيدُهم دعاؤه إلاَّ فراراً؛ {قال ربِّ انْصُرْني بما كذَّبونِ}: فاستنصر ربَّه عليهم غضباً لله حيث ضيَّعوا أمره وكذَّبوا رسله. وقال: {ربِّ لا تَذَرْ على الأرضِ من الكافرين دَيَّاراً. إنَّك إن تَذَرْهُم يُضِلُّوا عبادَكَ ولا يَلِدوا إلاَّ فاجراً كفَّاراً}. قال تعالى: {وَلَقَدْ نادانا نوحٌ فَلَنِعْمَ المجيبونَ}.
[26] جب نوح u نے دیکھا کہ ان کی دعوت سوائے ان کے فرار کے انھیں کوئی فائدہ نہیں دے رہی تو ﴿ قَالَ رَبِّ انْ٘صُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ﴾ ’’انھوں نے عرض کیا: اے میرے رب! ان لوگوں نے جو مجھے جھٹلایا ہے اس پر تو ہی میری مدد فرما۔‘‘ حضرت نوحu نے اپنی قوم سے ناراض ہو کر ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے نصرت کی درخواست کی تھی کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ضائع کیا اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی۔ حضرت نوح نے کہا: ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْ٘كٰفِرِیْنَ دَیَّارًؔا۰۰اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًؔا﴾ (نوح:71؍26 ،27) ’’اے میرے رب! تو کافروں میں کسی کو زمین پر بسا نہ رہنے دے۔ تو اگر ان کو چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور وہ جس اولاد کو جنم دیں گے وہ بھی فاجر اور کافر ہی ہو گی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ ﴾ (الصافات:37؍75) ’’نوح نے ہم کو پکارا، پس ہم بہت اچھی طرح جواب دینے والے ہیں ۔‘‘
#
{27} {فأوحينا إليه}: عند استجابتنا له سبباً ووسيلةً للنجاة قبل وقوع أسبابِهِ: {أنِ اصْنَع الفُلْكَ}؛ أي: السفينة {بأعيننا ووحينا}؛ أي: بأمرِنا لك ومعونتنا، وأنت في حفظنا وكلاءتنا؛ بحيث نراك ونسمعك. {فإذا جاء أمرنا}: بإرسال الطوفان الذي عُذِّبوا به، {وفار التَّنُّورُ}؛ أي: فارت الأرض وتفجَّرت عيوناً حتى محلُّ النار الذي لم تجرِ العادة إلاَّ ببعدِهِ عن الماء. {فاسْلُكْ فيها من كلٍّ زوجينِ اثنينِ}؛ أي: أدخل في الفلك من كلِّ جنس من الحيوانات ذكراً وأنثى تبقى مادةَ النسل لسائر الحيوانات التي اقتضتِ الحكمةُ الربَّانيَّة إيجادها في الأرض. {وأهلك}؛ أي: أدخلهم {إلاَّ مَن سبقَ عليه القولُ}: كابنه، {ولا تخاطِبْني في الذين ظَلَموا}؛ أي: لا تَدْعُني أن أنجيهم؛ فإنَّ القضاء والقدَرَ قد حتم. {إنَّهُم مغرقون}.
[27] ﴿ فَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ ﴾ ہم نے حضرت نوحu کی دعا قبول فرما کر، اس کی طرف وقوع عذاب سے قبل، ایک سبب اور وسیلہ نجات کے متعلق وحی کی۔ ﴿اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ ﴾ ’’یہ کہ کشتی تیار کر‘‘ ﴿ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ﴾ یعنی ہمارے حکم کے مطابق اور ہماری مدد سے تو ہماری حفاظت اور نگرانی میں ہے ہم تجھ کو دیکھتے اور سنتے ہیں ۔ ﴿ فَاِذَا جَآءَؔ اَمْرُنَا ﴾ ’’پس جب ہمارا حکم آجائے۔‘‘ جس کے ذریعے سے ان کو عذاب دیا گیا تھا۔ ﴿ وَفَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ یعنی زمین سے پانی پھوٹ پڑے، چشمے بہہ نکلیں حتیٰ کہ آگ جلانے والی جگہوں سے بھی پانی نکلنے لگے جہاں سے عادت کے مطابق پانی کا نکلنا بہت بعید ہوتا ہے۔ ﴿ فَاسْلُكْ فِیْهَا مِنْ كُ٘لٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ﴾ تو تمام حیوانات میں سے ہر جنس سے ایک نر اور مادہ، کشتی میں داخل کرلے تاکہ تمام حیوانات کی نسل باقی رہے جن کے وجود کو زمین میں باقی رکھنے کا حکمت ربانی تقاضا کرتی ہے۔ ﴿ وَاَهْلَكَ ﴾ یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں بٹھا لے۔ ﴿ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ ﴾ ’’سوائے اس کے جس کی بابت (ہمارا) قول گزر چکا۔‘‘ جیسے جناب نوح u کا بیٹا۔ ﴿ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ یعنی مجھ سے یہ درخواست نہ کرنا کہ میں ان کو نجات دوں کیونکہ قضاء و قدر کے مطابق حتمی فیصلہ ہو چکا ہے کہ انھیں غرق ہونا ہے۔
#
{28} {فإذا استويتَ أنت ومن مَعَكَ على الفِلك}؛ أي: علوتُم عليها واستقلَّتْ بكم في تيارِ الأمواج ولُججِ اليمِّ؛ فاحْمَدوا الله على النجاة والسلامة. وقل: {الحمدُ لله الذي نجَّانا من القوم الظالمينَ}: وهذا تعليمٌ منه له ولمن معه أن يقولوا هذا شكراً له وحمداً على نَجاتِهِم من القوم الظالمين في عملهم وعذابهم.
[28] ﴿ فَاِذَا اسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ ﴾ یعنی جب تم لوگ کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کشتی سرکش موجوں پر تیرنے لگے تو نجات اور سلامتی پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرو ﴿فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ نَجّٰؔىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور کہو: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوحu اور ان کے اصحاب کے لیے تعلیم تھی کہ وہ ظالم کے اعمال اور عذاب سے نجات پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی ستائش کے طور پر یہ کلمات کہیں ۔
#
{29} {وقل ربِّ أنزِلْني منزلاً مباركاً وأنت خير المنزِلينَ}؛ أي: وبقيتْ عليكُم نعمةٌ أخرى؛ فادعوا الله فيها، وهي أن ييسِّرَ الله لكم منزلاً مباركاً، فاستجاب الله دعاءه؛ قال الله: {وقُضِيَ الأمرُ واستوتْ على الجوديِّ وقيل بُعداً للقوم الظَّالمين ... } إلى أن قال: {قيلَ يا نوحُ اهبِطْ بسلام منَّا وبركاتٍ عليك وعلى أمم ممَّن معكَ ... } الآية.
[29] ﴿ وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْ٘زَلًا مُّبٰرَؔكًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْ٘زِلِیْ٘نَ ﴾ یعنی تمھیں ایک نعمت ابھی عطا ہونا باقی ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ وہ تمھیں بابرکت منزل میسر کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوحu کی دعا سن لی اور فرمایا: ﴿ وَقُ٘ضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْ٘قَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (ھود:11؍44) ’’اور فیصلہ چکا دیا گیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور کہہ دیا گیا لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰ٘مٍ مِّؔنَّا وَبَرَؔكٰتٍ عَلَیْكَ وَعَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ ﴾ (ھود:11؍48) ’’کہا گیا اے نوح! اترجا، سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتیں ہوں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ۔‘‘
#
{30} {إنَّ في ذلك}؛ أي: في هذه القصة {لآياتٍ}: تدلُّ على أنَّ الله وحدَه المعبود، وعلى أنَّ رسوله نوحاً صادقٌ، وأنَّ قومه كاذبون، وعلى رحمة الله بعباده؛ حيث حملهم في صُلْبِ أبيهم نوح في الفلك لما غَرِقَ أهلُ الأرض، والفلك أيضاً من آيات الله؛ قال تعالى: {ولقد تَرَكْناها آيةً فهل مِن مُدَّكِرٍ}. ولهذا جمعها هنا؛ لأنَّها تدلُّ على عدة آيات ومطالب. {وإن كنا لَمُبْتَلينَ}.
[30] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ ﴾ بلاشبہ اس قصہ میں ﴿ لَاٰیٰتٍ ﴾ ’’نشانیاں ہیں ۔‘‘ جو دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود ہے اور اس کے رسول نوح u سچے ہیں اور ان کی قوم جھوٹی ہے، نیز دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے بندوں پر سایہ کناں ہے کہ اس نے انھیں ان کے باپ حضرت نوحu کی صلب میں ، کشتی پر سوار کر کے محفوظ کیا جبکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگ ڈوب گئے اور کشتی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ تَّرَؔكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ﴾ (القمر:54؍15) ’’ہم نے اس کشتی کو نشانی کے طور پر چھوڑ دیا۔ تو ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟‘‘ اسی لیے اس کو یہاں جمع کیا ہے کیونکہ یہ متعدد آیات و مطالب پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ وَّاِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور ہم آزمائش کر کے ہی رہتے ہیں ۔‘‘
آیت: 31 - 41 #
{ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (31) فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (32) وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ (33) وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (34) أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ (35) هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ (36) إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (37) إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ (38) قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (39) قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ (40) فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (41)}.
پھر پیدا کی ہم نے ان کے بعد ایک امت دوسری (31) پس بھیجا ہم نے ان میں ایک رسول انھی میں سے یہ کہ تم عبادت کرو اللہ کی، نہیں ہے تمھارے لیے کوئی (اور) معبود سوائے اس کے کیا پس نہیں ڈرتے تم؟ (32)اور کہا (ان) وڈیروں نے اس کی قوم میں سے جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ملاقات کو آخرت کی اور خوشحالی دی تھی ہم نے انھیں زندگانیٔ دنیا میں، نہیں ہے یہ (رسول) مگر ایک بشر تم جیسا ہی، وہ کھاتا ہے اس (چیز) میں سے کہ کھاتے ہو تم اس میں سےاور وہ پیتا ہے اس میں سے (جس سے) پیتے ہو تم (33) اور البتہ اگر اطاعت کی تم نے ایک بشر اپنے جیسے کی تو بلاشبہ تم اس وقت البتہ خسارہ پانے والے ہو گے (34) کیا وہ وعدہ دیتا ہے تمھیں کہ بے شک تم جب مر جاؤ گے اور ہو جاؤ گے تم مٹی اور ہڈیاں تو بلاشبہ تم (زندہ کر کے) نکالے جاؤ گے (35) دور ہے (عقل و خرد سے بہت) دور ہے جو تم وعدہ دیے جاتے ہو(36) نہیں ہے یہ (زندگی) مگر زندگی ہماری دنیا ہی کی، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور نہیں ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے (37) نہیں ہے وہ (رسول) مگر ایسا آدمی کہ باندھا ہے اس نے اللہ پر جھوٹ اور نہیں ہم اس پر ایمان لانے والے(38) اس نے کہا، اے رب! تو میری مدد فرما بدلے اس کے کہ انھوں نے مجھے جھٹلایا ہے (39) اللہ نے کہا، تھوڑے سے عرصے میں البتہ وہ ہو جائیں گے پچھتانے والے (40) پس پکڑا ان کو چیخ نے ساتھ حق کے پس کر دیا ہم نے انھیں (سیلابی) خس و خاشاک پس لعنت ہے واسطے ظالم قوم کے (41)
#
{31} لما ذكر نوحاً وقومه وكيف أهلكهم؛ قال: {ثم أنشأنا من بعْدِهم قرناً آخرينَ}: الظاهر أنَّهم ثمودُ قومُ صالح عليه السلام؛ لأنَّ هذه القصة تشبه قصتهم.
[31] نوح u اور ان کی قوم کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسے ہلاک کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَ٘رْنًا اٰخَرِیْنَ﴾ ’’پھر ان کے بعد ہم نے ایک دوسری امت پیدا کی۔‘‘ بظاہر اس سے مراد ثمود، یعنی صالح u کی قوم ہے کیونکہ یہ قصہ ان کے قصہ سے مشابہت رکھتا ہے۔
#
{32} {فأرسَلْنا فيهم رسولاً منهم}: من جنسِهِم يعرفون نسبه وحسبه وصدقَه؛ ليكونَ ذلك أسرعَ لانقيادِهم إذا كان منهم وأبعد عن اشمئزازِهم، فدعا إلى ما دعتْ إليه الرسلُ أممهم: {أنِ اعبدوا الله ما لكم من إلهٍ غيرُهُ}: فكلُّهم اتَّفقوا على هذه الدعوة، وهي أول دعوة يدعون بها أممهم؛ الأمر بعبادة الله، والإخبار أنَّه المستحقُّ لذلك، والنهي عن عبادة ما سواه، والإخبار ببطلان ذلك وفساده، ولهذا قال: {أفلا تتَّقونَ}: ربَّكم فتَجْتَنِبوا هذه الأوثان والأصنام.
[32] ﴿فَاَرْسَلْنَا فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’پس ان کے اندر انھی میں سے (یعنی انھی کی جنس سے) ایک رسول مبعوث کیا‘‘ جس کے حسب و نسب اور صداقت کے بارے میں انھیں پورا علم تھاتاکہ وہ اطاعت کرنے میں جلدی کریں اور رسول ان کی کراہت اور نفرت سے بہت دور ہو۔ اس رسول نے بھی ان کو اسی چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف اس سے پہلے رسول اپنی قوموں کو دعوت دیتے چلے آ رہے تھے ﴿ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ﴾ ’’کہ اللہ کی عبادت کرو تمھارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ پس تمام انبیاء مرسلین اس دعوت پر متفق تھے۔ یہ اولین دعوت تھی جس کی طرف تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو بلایا، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا، اس حقیقت سے آگاہ کرنا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے، غیر اللہ کی عبادت سے روکنا اور غیر اللہ کی عبادت کے بطلان اور فساد سے آگاہ کرنا۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’کیا تم (اپنے رب سے) ڈرتے نہیں ؟‘‘ کہ تم خود ساختہ معبودوں اور بتوں سے اجتناب کرو۔
#
{33} فقال {الملأ من قومِهِ الذين كَفَروا وكذَّبوا بلقاءِ الآخرة وأتْرَفْناهم في الحياة الدنيا}؛ أي: قال الرؤساءُ الذين جَمَعوا بين الكفرِ والمعاندةِ وإنكار البعثِ والجزاء، وأطغاهم ترفُهم في الحياة الدُّنيا؛ معارضةً لنبيِّهم وتكذيباً وتحذيراً منه. {ما هذا إلاَّ بشرٌ مثلُكم}؛ أي: من جنسكم، {يأكُلُ ممَّا تأكُلونَ منه ويشربُ ممَّا تشرَبونَ}: فما الذي يُفَضِّلُه عليكم؟! فهلاَّ كان ملكاً لا يأكل الطعام ولا يشرب الشراب!
[33] ﴿ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَؔكَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَاَ٘تْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ یعنی ان کے رؤساء نے جن میں کفروعناد، زندگی بعد موت اور جزا و سزا کا انکار جمع تھے اور ان کو دنیاوی زندگی کی خوش حالی نے سرکش بنا دیا تھا، اپنے نبی کے ساتھ معارضہ کرتے، اس کو جھٹلاتے اور لوگوں کو اس سے ڈراتے ہوئے کہا: ﴿مَا هٰؔذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّؔثْلُكُمْ﴾ ’’نہیں ہے یہ مگر انسان تم جیساہی۔‘‘ یعنی تمھاری جنس میں سے ﴿ یَ٘اْكُ٘لُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَ٘شْ٘رَبُوْنَ﴾ ’’وہی کچھ کھاتا پیتا ہے جو تم کھاتے پیتے ہو۔‘‘ پس اسے کس چیز میں تم پر فضیلت حاصل ہے؟ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ پانی پیتا۔
#
{34} {ولئِنْ أطعتُم بشراً مثلَكم إنَّكم إذاً لخاسرونَ}؛ أي: إن تبعتُموه وجعلتُموه لكم رئيساً وهو مثلُكم؛ إنَّكم لمسلوبو العقل نادمون على ما فعلتم! وهذا من العجب؛ فإنَّ الخسارَ والندامةَ حقيقةً لمن لم يتابِعْه ولم يَنْقَدْ له، والجهلُ والسفهُ العظيم لِمَنْ تكبَّرَ عن الانقياد لبشرٍ خصَّه الله بوحيِهِ، وفضَّلَه برسالته وابتُلي بعبادة الشجر والحجر، وهذا نظيرُ قولهم: {قالوا أبشراً منَّا واحداً نتَّبِعُهُ إنَّا إذاً لفي ضلال وسُعُرٍ. أألْقِيَ الذِّكْرُ عليهِ من بَيْنِنا بل هو كذابٌ أشِرٌ}.
[34] ﴿ وَلَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّؔثْلَكُمْ اِنَّـكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ﴾ یعنی اگر تم نے اپنے جیسے انسان کی اتباع کی اور اس کو اپنا سردار بنا لیا تو تمھاری عقل ماری گئی اور تم اپنے اس فعل پر ندامت اٹھاؤ گے… یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کیونکہ حقیقی ندامت تو اس شخص کے لیے ہے جو رسول کی اتباع اور اطاعت نہیں کرتا۔ یہ اس شخص کی سب سے بڑی جہالت اور سفاہت ہے جو تکبر کے باعث ایسے انسان کی اطاعت نہ کرے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی سے مختص کر کے اپنی رسالت کے ذریعے فضیلت بخشی اور شجر و حجر کی عبادت میں مبتلا ہو جائے۔ اس کی نظیر کفار کا یہ قول ہے ﴿ فَقَالُوْۤا اَبَشَرًا مِّؔنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗۤ١ۙ اِنَّـاۤ٘ اِذًا لَّ٘فِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ۰۰ءَاُلْ٘قِیَ الذِّكْرُ عَلَیْهِ مِنْۢ بَیْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ اَشِرٌ ﴾ (القمر:54؍24۔25) ’’بھلا ہم ایک آدمی کی پیروی کریں جو ہم ہی میں سے ہے، تب تو ہم سخت گمراہی اور دیوانگی میں پڑ گئے۔ کیا ہم سب میں سے صرف اسی پر وحی نازل کی گئی، نہیں بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور متکبر ہے۔‘‘
#
{35 ـ 36} فلما أنكروا رسالَتَه وَرَدُّوها؛ أنكروا ما جاء به من البعثِ بعد الموت والمجازاة على الأعمال، فقالوا: {أيَعِدُكُم أنَّكم إذا مِتُّم وكُنْتُم تُراباً وعظاماً أنَّكم مخرَجونَ. هيهاتَ هيهاتَ لما توعَدونَ}؛ أي: بعيدٌ بعيدٌ ما يعِدُكم به من البعث بعد أنْ تمزَّقتم وكنتم تراباً وعظاماً. فنظروا نظراً قاصراً، ورأوا هذا بالنسبة إلى قُدَرِهم غير ممكن، فقاسوا قدرة الخالق بقُدَرِهم، تعالى الله، فأنكروا قدرتَه على إحياء الموتى، وعجَّزوه غاية التَّعجيز، ونسوا خَلْقَهم أول مرة، وأنَّ الذي أنشأهم من العدم؛ فإعادته لهم بعد البلى أهون عليه، وكلاهما هيِّن لديه؛ فلمَ لا يُنِكْرون أول خَلْقهم ويكابرون المحسوسات ويقولون: إنَّنا لم نزل موجودين، حتى يَسْلَمَ لهم إنكارُهم البعث ويُنْتَقَل معهم إلى الاحتجاج على إثبات وجود الخالق العظيم؟! وهنا دليلٌ آخر، وهو أن الذي أحيا الأرض بعد موتها؛ إنَّ ذلك لمحيي الموتى؛ إنَّه على كل شيء قدير. وثَمَّ دليلٌ آخر، وهو ما أجاب به المنكرينَ للبعث في قوله: {بل عَجِبوا أن جاءهم مُنْذِرٌ منهم فقال الكافرونَ هذا شيءٌ عجيبٌ. أإذا مِتْنا وكُنَّا تُرابا ذلك رَجْعٌ بعيدٌ}. فقال في جوابهم: {قَدْ عَلِمْنا ما تَنْقُصُ الأرضُ منهم}؛ أي: في البِلى {وعندنا كتابٌ حفيظٌ}.
[36,35] چونکہ انھوں نے رسول کی رسالت کا انکار کر کے اسے رد کر دیا تھا، اس لیے انھوں نے بعد موت اور اعمال کی جزا و سزا کا بھی انکار کر دیا، چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ اَیَعِدُكُمْ اَنَّـكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَؔكُنْتُمْ تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا اَنَّـكُمْ مُّخْرَجُوْنَ۪ۙ۰۰ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی تمھارے ریزہ ریزہ ہو کر، مٹی اور ہڈیاں بن کر بکھر جانے کے بعد، تمھارے دوبارہ زندہ كيے جانے کا جو وعدہ یہ رسول تمھارے ساتھ کرتا ہے وہ بہت بعید ہے۔ پس انھوں نے انتہائی کوتاہ بینی کا ثبوت دیا اور انھوں نے اپنی طاقت اور قدرت کے مطابق اسے ناممکن سمجھا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے بلندتر ہے۔پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کیا، انھوں نے اللہ تعالیٰ کو عاجز اور بے بس ٹھہرایا اور خود اپنی پہلی پیدائش کو بھول گئے حالانکہ وہ ہستی جو ان کو عدم سے وجود میں لائی ہے، اس کے لیے ان کے مرنے اور بوسیدہ ہو جانے کے بعد، دوبارہ پیدا کرنا آسان تر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں بار پیدا کرنا نہایت آسان ہے۔پس وہ اپنی پہلی تخلیق کا اور محسوس چیزوں کا انکار کیوں نہیں کرتے، نیز وہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم ہمیشہ سے موجود ہیں تاکہ ان کے لیے انکار قیامت آسان ہوتا اور ان کے پاس خالق عظیم کے وجود کے اثبات کے خلاف حجت ہوتی۔ یہاں ایک اور دلیل بھی ہے كہ وہ ہستی جو زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرتی ہے وہی ہستی مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے گی بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دلیل بھی ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زندگی بعد الموت کے منکرین کو جواب دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ بَلْ عَجِبُوْۤا اَنْ جَآءَهُمْ مُّؔنْذِرٌؔ مِّؔنْهُمْ فَقَالَ الْ٘كٰفِرُوْنَ هٰؔذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌۚ۰۰ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا١ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ﴾ (ق:50؍2، 3) ’’ان لوگوں کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس، انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا تو کافروں نے کہا: یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے (تو پھر زندہ ہوں گے؟) یہ زندگی تو بہت ہی بعید بات ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُ٘صُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ١ۚ وَعِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِیْظٌ ﴾ (ق:50؍4) ’’ان کے اجساد کو زمین کھا کھا کر کم کرتی جاتی ہے ہمیں اس کا علم ہے اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی ایک کتاب موجود ہے۔‘‘
#
{37} {إنْ هي إلاَّ حياتُنا الدُّنيا نموتُ ونحيا}؛ أي: يموت أناس ويحيا أناس، {وما نحن بمبعوثينَ}.
[37] ﴿اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا﴾ ’’بس یہ دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے اور جیتے رہتے ہیں ۔‘‘ یعنی کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ زندہ رہتے ہیں ﴿ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۠﴾ ’’اور ہمارے مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھایا جائے گا۔‘‘
#
{39} ولهذا لما اشتدَّ كفرُهم ولم ينفعْ فيهم الإنذارُ؛ دعا عليهم نبيُّهم، فقال: {ربِّ انصُرْني بما كذَّبونِ}؛ أي: بإهلاكهم وخزيهم الدنيويِّ قبل الآخرة.
[39] پس جب ان کا کفر بہت بڑھ گیا اور انذار نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔تو ان کے نبی نے ان کے لیے بددعا کی، اس نے کہا: ﴿ رَبِّ انْ٘صُرْنِیْ بِمَا كَذَّبُوْنِ ﴾ ’’اے میرے رب! میری مدد فرما بسبب اس کے جو انھوں نے مجھے جھٹلایا۔‘‘ ان کو ہلاک کر کے اور آخرت سے پہلے دنیا میں ان کو رسوا کر کے۔
#
{40 ـ 41} قال الله مجيباً لدعوته: {عمَّا قليل لَيُصْبِحُنَّ نادمينَ. فأخذتْهُمُ الصيحةُ بالحقِّ}: لا بالظلم والجَوْر، بل بالعدل وظلمهم أخذتْهُمُ الصيحةُ فأهلكَتْهم عن آخرهم. {فجعلناهم غُثاء}؛ أي: هشيماً يَبَساً بمنزلة غُثاء السيل الملقى في جَنَبات الوادي، وقال في الآية الأخرى: {إنَّا أرْسَلْنا عليهم صيحةً واحدةً فكانوا كَهَشيم المُحْتَظِر}. {فَبُعْداً للقوم الظالمين}؛ أي: أُتْبِعوا مع عذابهم البعدَ واللعنةَ والذمَّ من العالمين؛ {فما بَكَتْ عليهمُ السماءُ والأرضُ وما كانوا مُنْظَرين}.
[41,40] ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَۚ۰۰ فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ﴾ ’’بہت ہی جلد یہ اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے، پس ان کو چیخ نے پکڑ لیا حق (عدل) کے ساتھ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ظلم وجور سے نہیں پکڑا بلکہ اس کی پکڑ ان کے ظلم اور اس کے عدل کی وجہ سے ہوئی، چنانچہ ایک زبردست چنگھاڑنے ان کو آ لیا ﴿فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً﴾ یعنی ہم نے ان کو خشک بھوسہ بنا کر رکھ دیا ایسے لگتا تھا جیسے کوڑے کرکٹ کو سیلاب نے وادی کے کناروں پر پھینک دیا ہو، ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ﴾ (القمر:54؍31) ’’ہم نے ان پر عذاب کے لیے ایک زبردست چیخ بھیجی اور وہ ایسے ہو گئے جیسے ٹوٹی ہوئی باڑ‘‘ اور فرمایا: ﴿ فَبُعْدًا لِّلْ٘قَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پس دوری ہے ظالم لوگوں کے لیے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ، اس کی رحمت سے محرومی، اس کی لعنت اور جہانوں کی مذمت بھی ان کے حصے میں آئی۔ ﴿ فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ﴾ (الدخان:44؍29) ’’پس ان پر آسمان رویا نہ زمین اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔‘‘
آیت: 42 - 44 #
{ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (42) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (43) ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ (44)}.
پھر پیدا کیں ہم نے ان کے بعد امتیں دوسری (42)نہیں آگے نکل سکتی کوئی امت اپنے وقت مقرر سےاور نہ وہ لوگ پیچھے ہی رہ سکتے ہیں (43) پھر بھیجے ہم نے رسول اپنے پے درپے جب بھی آیا کسی امت کے پاس اس کا رسول تو انھوں نے جھٹلایا اسے، پس پیچھے لگایا ہم نے ان کے بعض کو بعض کے اور بنا دیا ہم نے انھیں قصے کہانیاں پس (رحمت سے) دوری ہے ان لوگوں کے لیے جو نہیں ایمان لاتے (44)
#
{42 ـ 43} أي: ثم أنشأنا من بعد هؤلاء المكذِّبين المعانِدين {قروناً آخرين}: كلُّ أمةٍ في وقت مسمًّى وأجل محدود، لا تتقدَّم عنه ولا تتأخَّر، وأرسَلْنا إليهم رُسُلاً متتابعةً لعلَّهم يؤمنون وينيبون، فلم يزلِ الكفرُ والتكذيب دأبَ الأمم العُصاة والكَفَرة البغاة، {كلَّ ما جاء أمَّةً رسولُها كذَّبوه}: مع أنَّ كلَّ رسول يأتي من الآيات ما يؤمن على مثلِهِ البشر، بل مجرَّد دعوةِ الرسل وشرعِهِم يدلُّ على حَقِّيَّة ما جاؤوا به.
[43,42] یعنی ان جھٹلانے والے معاندین حق کے بعد ہم نے دوسری قومیں پیدا کیں ، ہر قوم وقت مقرر اور مدت معین کے لیے برپا کی گئی، اس سے ایک لمحہ کے لیے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی، پھر ان میں پے در پے رسول بھیجے، شاید کہ وہ ایمان لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں ۔ مگر کفر اور تکذیب نافرمان، کافر اور باغی قوموں کا وتیرہ بنا رہا۔ کسی قوم کے پاس جب بھی ان کا رسول آتا، وہ اس کو جھٹلاتے رہے، حالانکہ وہ ان کے پاس ایسی ایسی نشانیاں لے کر آتا جو انسان کے بس سے باہر تھیں بلکہ ان رسولوں کی مجرد دعوت اور شریعت ہی اس چیز کی حقانیت پر دلالت کرتی تھی جو وہ لے کر آتے رہے۔
#
{44} {فأتْبَعْنا بعضَهم بعضاً}: بالهلاك، فلم يبقَ منهم باقيةٌ، وتعطَّلت مساكنُهم من بعدِهم، {وجَعَلْناهم أحاديثَ}: يتحدَّثُ بهم مَن بعدهم، ويكونون عبرةً للمتَّقين ونَكالاً للمكذِّبين وخزياً عليهم مقروناً بعذابهم. {فبعداً لقوم لا يؤمنونَ}: ما أشقاهم! وَتعْساً لهم! ما أخسر صفقتهم!
[44] ﴿فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا﴾ ’’پس پیچھے لگایا ہم نے بعض کو بعض کے۔‘‘ ہلاک کرنے میں ، یعنی یکے بعد دیگرے سب کو ہلاک کر دیا۔ پس ان میں سے کوئی قوم باقی نہ رہی اور ان کے بعد ان کے گھر اجڑ گئے ﴿ وَّجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِیْثَ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا‘‘ جن کو بیان کیا جاتا، جو اہل تقویٰ کے لیے عبرت، مکذبین کے لیے عقوبت اور خود ان کے لیے عذاب اور رسوائی ہے۔ ﴿ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’پس دوری ہے اس قوم کے لیے جو ایمان نہیں لاتی۔‘‘ کتنے بدبخت ہیں وہ اور ان کی تجارت کس قدر خسارے کی تجارت ہے۔
آیت: 45 - 49 #
{ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَى وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ (45) إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ (46) فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ (47) فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ (48) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (49)}.
پھر بھیجا ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو ساتھ اپنی نشانیوں اور دلیل واضح کے (45) طرف فرعون اور اس کے درباریوں کی، پس انھوں نے تکبر کیااور تھے وہ لوگ سرکش (46) پس انھوں نے کہا، کیا ہم ایمان لائیں ایسے دو آدمیوں پر جو ہم جیسے ہیں ؟ جبکہ ان دونوں کی قوم ہماری غلام ہے (47) سو انھوں نے جھٹلایا ان دونوں کو پس ہو گئے وہ ہلاک شدہ لوگوں میں سے (48) اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب تاکہ وہ (لوگ) ہدایت پا جائیں (49)
بہت عرصے کی بات ہے، کسی اہل علم کا قول میری نظر سے گزرا ہے، جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں … کہ موسیٰ u کی بعثت اور تورات کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوموں پر سے عذاب کو اٹھا لیا، یعنی وہ عذاب جو ان کا جڑ سے خاتمہ کر دیتا تھا اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مکذبین و معاندین حق کے خلاف جہاد مشروع کیا۔ معلوم نہیں انھوں نے یہ رائے کہاں سے اخذ کی ہے لیکن جب میں نے ان آیات کو سورۃ القصص کی آیات کے ساتھ ملا کر غور کیا تو میرے سامنے اس کا سبب واضح ہو گیا کہ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پے در پے ہلاک ہونے والی قوموں کا ذکر فرمایا پھر آگاہ فرمایا کہ اس نے ان قوموں کے بعد حضرت موسیٰu کو رسول بنا کر بھیجا ان پر تورات نازل فرمائی جس میں لوگوں کے لیے راہنمائی تھی اور فرعون کی ہلاکت سے اس نقطہ نظر کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ فرعون نزول تورات سے پہلے ہلاک ہو گیا تھا۔ رہی سورۃ القصص کی آیات تو وہ نہایت واضح ہیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْ٘قُ٘رُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ (القصص:28؍43) ’’پچھلی قوموں کو ہلاک کر دینے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب سے نوازا، لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت بنا کر تاکہ شاید وہ نصیحت پکڑیں ۔‘‘ اس آیت کریمہ میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغی اور سرکش قوموں کی ہلاکت کے بعد موسیٰu کو تورات عطا فرمائی اور آگاہ فرمایا کہ یہ کتاب لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت کے طور پر نازل کی گئی ہے۔ شاید وہ آیات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سورۂ یونس میں ذکر فرمایا ہے: ﴿ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ نَ٘طْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ۰۰ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰؔى وَهٰؔرُوْنَ…﴾ (یونس: 10؍74، 75) ’’پھر نوح کے بعد ہم نے دیگر رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر جس کو انھوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا وہ اب بھی اس پر ایمان نہ لائے ہم اسی طرح حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ، پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو مبعوث کیا … ‘‘ واللہ اعلم۔
#
{45} فقوله: {ثم أرسلْنا موسى}: ابن عمرانَ كليمَ الرحمن، {وأخاه هارونَ}: حين سأل ربَّه أن يُشْرِكَه في أمره فأجاب سُؤْلَه، {بآياتنا}: الدالَّة على صدقهما وصحَّة ما جاءا به، {وسلطانٍ مُبينٍ}؛ أي: حجَّة بيَّنة من قوتها أن تَقْهَرَ القلوب وتتسلَّط عليها لقوَّتها فتنقادَ لها قلوبُ المؤمنين وتقومَ الحجَّة البيِّنة على المعاندين. وهذا كقوله: {ولقد آتَيْنا موسى تسعَ آياتٍ بيِّناتٍ}: ولهذا رئيسُ المعاندين عَرَفَ الحقَّ وعاند. {فاسأل بني إسرائيلَ إذْ جاءَهم}: بتلك الآياتِ البيِّناتِ، فقال له [فرعون]: {إنِّي لأظنُّك يا موسى مسحوراً}. فقال موسى: {لقدْ علمتَ ما أنزلَ هؤلاء إلا ربُّ السمواتِ والأرض بصائرَ وإنِّي لأظنُّك يا فرعونُ مَثْبوراً}. وقال تعالى: {وجَحَدوا بها واسْتَيْقَنَتْها أنفسُهم ظُلماً وعلوًّا}.
[45] ﴿ ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰؔى﴾ ’’پھر ہم نے موسیٰ (بن عمران، کلیم اللہ) کو بھیجا‘‘ ﴿ وَاَخَاهُ هٰؔرُوْنَ ﴾ ’’اور (ان کے ساتھ) ان کے بھائی ہارون کو‘‘ جب حضرت موسیٰ u نے دعا کی کہ حضرت ہارون کو نبوت کے معاملے میں ان کے ساتھ شریک کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی۔ ﴿بِاٰیٰتِنَا﴾ ’’اپنی نشانیوں کے ساتھ۔‘‘ جو ان کی صداقت اور ان کی دعوت کی صحت پر دلالت کرتی تھیں ۔ ﴿ وَسُلْطٰ٘نٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’اور واضح برہان کے ساتھ۔‘‘ ان دلائل میں ایسی قوت تھی کہ وہ دلوں پر غالب آجاتے اور اپنی قوت کی بنا پر دلوں میں گھر کر لیتے اور اہل ایمان کے دل ان کو مان لیتے اور معاندین حق کے خلاف حجت قائم ہو جاتی۔ اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مانند ہے: ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰؔى تِسْعَ اٰیٰتٍۭؔ بَیِّنٰتٍ ﴾ (بنی اسرآء یل:17؍101) ’’اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو نو کھلی کھلی نشانیاں عطا کیں ۔‘‘ اس لیے معاندین حق کے سردار فرعون نے ان کو پہچان لیا لیکن عناد کا راستہ اختیار کیا۔ ﴿ فَسْـَٔلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ ﴾ ’’آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے! جب موسیٰ یہ نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے‘‘ ﴿فَقَالَ﴾ تو فرعون نے حضرت موسیٰu سے کہا ﴿ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰؔى مَسْحُوْرًا ﴾ (بنی اسرآء یل:17؍101) ’’اے موسیٰ! میں تو تجھے سحر زدہ خیال کرتا ہوں ۔‘‘ ﴿ قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ١ۚ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْ٘بُوْرًؔا ﴾ (بنی اسرآء یل: 17؍102) ’’موسیٰ نے کہا: تو جانتا ہے کہ یہ بصیرت افروز نشانیاں اللہ کے سوا کسی نے نازل نہیں کیں ۔ اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا﴾ (النمل:27؍14) ’’انھوں نے محض ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کو جھٹلایا حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو مان لیا تھا۔‘‘
#
{46} وقال هنا: {ثم أرسَلْنا موسى وأخاه هارونَ بآياتِنا وسلطانٍ مُبينٍ. إلى فرعونَ وملئِهِ}: كهامان وغيره من رؤسائهم، {فاستَكْبَروا}؛ أي: تكبَّروا عن الإيمان بالله واستكبروا على أنبيائِهِ، {وكانوا قوماً عالينَ}؛ أي: وصفهم العلوُّ والقهرُ والفسادُ في الأرض، فلهذا صدر منهم الاستكبار، ذلك غيرُ مستكثَرٍ منهم.
[46] یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰؔى وَاَخَاهُ هٰؔرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ ﴾ ’’پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح برہان کے ساتھ، فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔‘‘ مثلاً: ہامان اور دیگر سرداران قوم۔ ﴿فَاسْتَكْبَرُوْا۠﴾ پس تکبر کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لائے اور اس کے انبیاء کے ساتھ تکبر سے پیش آئے۔ ﴿وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِیْ٘نَ﴾ ’’اور تھے وہ سرکش لوگ۔‘‘ یعنی ان کا وصف غلبہ، قہر اور فساد فی الارض تھا اس لیے ان سے تکبر صادر ہوا اور اسے وہ کوئی بری بات نہیں سمجھتے تھے۔
#
{47} {فقالوا} كِبْراً وتيهاً وتحذيراً لضُعفاء العقول وتمويهاً: {أنؤمنُ لِبَشَرَيْنِ مثلِنا}: كما قاله مَنْ قبلَهم سواءً بسواءٍ؛ تشابهتْ قلوبُهم في الكفر، فتشابهت أقوالُهم وأفعالُهم، وجحدوا منَّةَ الله عليهما بالرسالة. {وقومُهُما}؛ أي: بنو إسرائيل. {لنا عابدونَ}؛ أي: معبَّدونَ بالأعمال والأشغال الشاقَّة؛ كما قال تعالى: {وإذْ نَجَّيْناكم من آلِ فرعونَ يسومونَكم سوءَ العذابِ يذبِّحون أبناءَكم ويستَحْيون نساءَكم وفي ذلِكُم بلاءٌ من ربِّكم عظيمٌ}: فكيف نكون تابعين بعد أن كُنَّا متبوعينَ؟! وكيف يكون هؤلاءِ رؤساءَ علينا؟! ونظيرُ قولِهِم قولُ قوم نوح: {أنؤمنُ لك واتَّبَعَكَ الأرذَلونَ}، {وما نراك اتَّبَعَكَ إلاَّ الذين هم أراذلُنا بادِيَ الرأي}.
[47] ﴿فَقَالُوْۤا ﴾ انھوں نے تکبر اور غرور سے ضعیف العقل لوگوں کو ڈراتے اور فریب کاری کرتے ہوئے کہا: ﴿ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا ﴾ ’’کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں ؟‘‘ جیسا کہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسے ہی کہا کرتے تھے چونکہ کفر میں ان کے دل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے تھے اس لیے ان کے اقوال و افعال بھی ایک دوسرے کے مشابہ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے ذریعے سے ان پر جو عنایت کی انھوں نے اسے جھٹلا دیا ﴿وَقَوْمُهُمَا﴾ ’’اور ان دونوں کی قوم‘‘ یعنی بنی اسرائیل ﴿ لَنَا عٰؔبِدُوْنَ﴾ ’’ہماری غلام ہے۔‘‘ یعنی وہ پر مشقت کام سرانجام دینے کے لیے ہمارے مطیع ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَؔ یَسُوْمُوْنَكُمْ۠ سُوْٓءَؔ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَؔكُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَؔكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ﴾ (البقرہ:2؍49) ’’یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمھیں آل فرعون سے نجات دی وہ تمھیں بہت عذاب دیتے تھے۔ تمھارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمھاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے۔ اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔‘‘ پس ہم ان کے متبوع (پیشوا) ہوتے ہوئے ان کے تابع کیسے بن سکتے ہیں ؟ اور یہ ہم پر سردار کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ان کے قول کی نظیر نوح u کی قوم کا یہ قول ہے ﴿ اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ (الشعراء:26؍111) ’’کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی تو رذیل لوگوں نے کی ہے۔ ‘‘ ﴿ وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَ٘ادِیَ الرَّاْیِ ﴾ (ھود:11؍27) ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف انھی لوگوں نے تیری پیروی کی ہے جو ہماری قوم میں رذیل اور چھچھورے تصور كيے جاتے ہیں ۔‘‘
#
{48} من المعلوم أن هذا لا يَصْلُحُ لدفع الحقِّ، وأنه تكذيبٌ ومعاندةٌ، ولهذا قال: {فكذَّبوهما فكانوا من المُهْلَكينَ}: في الغرقِ في البحر وبنو إسرائيل ينظُرون.
[48] اور یہ بات واضح ہے کہ حق کو رد کرنے کے لیے یہ بات درست نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تکذیب اور عناد ہے، اس لیے فرمایا ﴿ فَكَذَّبُوْهُمَا۠ فَكَانُوْا مِنَ الْ٘مُهْلَكِیْنَ ﴾ ’’پس انھوں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور وہ بھی ہلاک شدہ لوگوں میں ہو گئے۔‘‘ یعنی بنی اسرائیل کے آنکھوں دیکھتے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔
#
{49} {ولقد آتَيْنا موسى}: بعدما أهلكَ الله فرعونَ وخلَّص الشعبَ الإسرائيليَّ مع موسى وتمكَّن حينئذٍ من إقامة أمرِ الله فيهم وإظهارِ شعائرِهِ؛ وعدَه اللهُ أن ينزِّل عليه التوراةَ أربعين ليلةً، فذهب لميقاتِ ربِّه؛ قال الله تعالى: {وكَتَبْنا له في الألواح من كلِّ شيءٍ موعظةً وتفصيلاً لكلِّ شيءٍ}. ولهذا قال هنا: {لعلَّهم يهتدونَ}؛ أي: بمعرفة تفاصيل الأمر والنهي والثوابِ والعقابِ ويعرفونَ ربَّهم بأسمائِهِ وصفاتِهِ.
[49] ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ ’’اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کرکے اسرائیلی قوم کو موسیٰ u کی معیت میں نجات بخشی تب موسیٰ uکو قوت اور طاقت حاصل ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم اور اس کے شعائر کوغالب کریں تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ پر چالیس دن میں تورات نازل کرے گا۔ موسیٰ u اپنے رب کے مقرر کردہ وقت پر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَؔكَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِیْلًا لِّ٘كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ (الاعراف:7؍145) ’’اور ہم نے ہر چیز کے متعلق نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل اس کے لیے تختیوں پر لکھ دی‘‘ بنابریں یہاں فرمایا: ﴿ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’تاکہ وہ ہدایت پائیں ۔‘‘ یعنی امرونہی اورثواب و عقاب کی تفاصیل کی معرفت حاصل کرکے شاید راہ راست پر گامزن ہو جائیں اور اپنے رب کے اسماء و صفات کی بھی معرفت حاصل کریں ۔
آیت: 50 #
{وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (50)}.
اور بنایا ہم نے (عیسیٰ) ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک (عظیم) نشانی اور پناہ دی ہم نے ان دونوں کو طرف ایک بلند جگہ کی (جو) سکون و آرام اور جاری چشمہ والی (تھی) (50)
#
{50} أي: وامتَنَنَّا على عيسى ابن مريم وجَعَلْناه وأمَّه من آيات الله العجيبة؛ حيث حملتْه وولدتْه من غيرِ أبٍ، وتكلَّم في المهد صبيًّا، وأجرى الله على يديه من الآيات ما أجرى. {وآوَيْناهما إلى ربوةٍ}؛ أي: مكان مرتفع، وهذا والله أعلم وقتَ وضعِها، {ذاتِ قَرارٍ}؛ أي: مستقَرٍّ وراحةٍ، {ومَعين}؛ أي: ماء جارٍ؛ بدليلِ قوله: {قد جعل ربُّكِ تحتَكِ}؛ أي: تحت المكان الذي أنت فيه لارتفاعه {سَرِيًّا}؛ أي: نهراً، وهو المَعِيْن. {وهُزِّي إليكِ بجِذْعِ النخلةِ تُساقِطْ عليك رُطَباً جَنِيًّا. فكُلي واشْرَبي وقَرِّي عيناً}.
[50] ﴿ وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهٗۤ اٰیَةً ﴾ یعنی ہم نے عیسیٰ ابن مریم (i) پر احسان کیا، ان کو اور ان کی والدہ کو انتہائی تعجب انگیز نشان بنا دیا کیونکہ حضرت مریم[ نے حضرت عیسیٰu کو بغیر باپ کے اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر آپ کو جنم دیا اور حضرت عیسیٰu نے گہوارے میں کلام کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر بڑے بڑے معجزات دکھائے۔ ﴿ وَّاٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ﴾ یعنی ہم نے ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی اور یہ اس وقت کی بات ہے… واللہ اعلم … جب حضرت جناب مریم[ نے عیسیٰ u کو جنم دیا۔ ﴿ ذَاتِ قَ٘رَارٍ ﴾ یعنی آرام دہ ٹھکانا ﴿ مَعِیْنٍ ﴾ یعنی جاری چشمے کا پانی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔﴿ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ ﴾ ’’کر دی ہے تیرے رب نے تیرے نیچے‘‘ یعنی اس جگہ سے بہت نیچے جہاں حضرت مریم[ نے پناہ لی تھی اور یہ اس لیے کہا گیا کیونکہ آپ بلند جگہ پر تھیں ۔ ﴿ سَرِیًّا ﴾ یعنی ندی اور وہ چشمے کا بہتا ہوا پانی ہے۔ ﴿ وَهُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّاٞ۰۰فَ٘كُ٘لِیْ وَاشْ٘رَبِیْ وَقَ٘رِّیْ عَیْنًا ﴾ (مریم:19؍25،26) ’’تو کھجور کے تنے کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ کھا، پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر۔‘‘
آیت: 51 - 56 #
{يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (51) وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (52) فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (53) فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّى حِينٍ (54) أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ (55) نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ (56)}.
اے رسولو! کھاؤ تم پاکیزہ چیزوں میں سےاورعمل کرونیک، بے شک میں ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خوب جاننے والا ہوں (51) اور بلاشبہ یہ تمھاری امت ہے، امت ایک ہی اور میں تمھارا رب ہوں ، پس ڈرو تم مجھ ہی سے (52) پس جدا جدا کر لیا انھوں نے اپنے معاملے (دین) کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہر ایک گروہ ساتھ اس کے جو ان کے پاس ہے خوش ہے (53) پس آپ چھوڑ دیجیے ان کو ان کی غفلت میں ایک وقت تک (54)کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ جو ہم بڑھا رہے ہیں انھیں ساتھ اس کے، مال اور اولاد سے (55) ہم جلدی کر رہے ہیں ان کے لیے بھلائیوں میں ؟ (نہیں ، نہیں )بلکہ نہیں شعور رکھتے وہ (56)
#
{51} هذا أمرٌ منه تعالى لرسلِهِ بأكل الطيِّبات التي هي: الرزق والطيِّبُ الحلال، والشكر للَّه بالعمل الصالح الذي به يَصْلُحُ القلب والبدن والدنيا والآخرة، ويخبِرُهم أنَّه بما يعملون عليم؛ فكلُّ عمل عملوه وكلُّ سعي اكتسبوه؛ فإنَّ الله يعلمه، وسيجازيهم عليه أتمَّ الجزاء وأفضلَه، فدلَّ هذا على أنَّ الرسل كلَّهم متفقون على إباحة الطيبات من المآكل وتحريم الخبائثِ منها، وأنَّهم متَّفقون على كلِّ عمل صالح، وإنْ تنوَّعت بعضُ أجناس المأموراتِ واختلفتْ بها الشرائعُ؛ فإنَّها كلَّها عملٌ صالح، ولكنْ تتفاوت بتفاوتِ الأزمنة. ولهذا؛ الأعمال الصالحة التي هي صلاحٌ في جميع الأزمنة قد اتَّفقت عليها الأنبياء والشرائع؛ كالأمر بتوحيد الله وإخلاص الدِّين له ومحبَّته وخوفِهِ ورجائِهِ والبرِّ والصدقِ والوفاءِ بالعهد وصلةِ الأرحام وبرِّ الوالدين والإحسان إلى الضعفاء والمساكين واليتامى والحنوِّ والإحسان إلى الخلق ونحو ذلك من الأعمال الصالحة، ولهذا كان أهل العلم والكُتُب السابقة والعقل حين بَعَثَ الله محمداً - صلى الله عليه وسلم - يستدلُّون على نبوَّته بأجناس ما يأمر به وينهى عنه؛ كما جرى لِهرَقْل وغيره؛ فإنَّه إذا أمر بما أمر به الأنبياءُ الذين من قبلِهِ ونهى عما نَهَوْا عنه؛ دلَّ على أنَّه من جنسهم؛ بخلاف الكذَّاب؛ فلا بدَّ أن يأمرَ بالشرِّ وينهى عن الخير.
[51] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰؔتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ﴾ ’’اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمھارے عملوں کو خوب جانتا ہوں ۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء و رسل کو حکم ہے کہ وہ پاک اور حلال رزق کھائیں اور اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا شکر بجا لائیں یہ اعمال صالحہ قلب و بدن اور دنیا و آخرت کی اصلاح کرتے ہیں ، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کوخبردارکیا ہے کہ وہ ان کے اعمال سے آگاہ ہے ان کا ہر عمل اور ان کی ہر کوشش اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی کامل ترین اور افضل ترین جزا دے گا۔ پس یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام انبیاء کھانے پینے کی تمام پاک چیزوں کی اباحت اور ناپاک چیزوں کی تحریم پر متفق ہیں نیز وہ تمام اعمال صالحہ پر بھی متفق ہیں ۔ اگرچہ بعض مامورات کی جنس میں تنوع اور بعض شرائع میں اختلاف ہے تاہم ہر شریعت اعمال صالحہ پر مشتمل ہے، البتہ زمانے کے تفاوت کی بنا پر متفاوت ہیں ، اس لیے وہ تمام اعمال صالحہ جو ہر زمانے میں صلاح کے حامل تھے ان پرتمام انبیاء اور شریعتیں متفق ہیں ، مثلاً: توحید الٰہی ، دین میں اخلاص، محبت الٰہی، خوف الٰہی، اللہ پر امید، نیکی، صدق، ایفائے عہد، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، کمزوروں ، مسکینوں اور یتیموں کی دستگیری اور تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی کا رویہ جیسے احکام۔ اس لیے تمام اہل علم، کتب سابقہ اور عقل سلیم کے مالک محمد مصطفیe کی نبوت پر، آپ کے مامورات اور منہیات کی جنس کے ذریعے سے استدلال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہرقل نے استدلال کیا تھا کیونکہ اگر آپe ان امور کا حکم دیتے ہیں جن کا حکم آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام دیتے رہے ہیں اور آپe ان چیزوں سے روکتے ہیں جن سے گزشتہ انبیائے کرام روکتے رہے ہیں تو یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بھی انبیائے کرام کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس کے برعکس ایک کذاب برائی کا حکم دے گا اور بھلائی سے روکے گا۔
#
{52} ولهذا قال تعالى للرسل: {وإنَّ هذه أمَّتُكم أمَّةً}؛ أي: جماعتُكم يا معشرَ الرسل {واحدةً}: متفقةً على دينٍ واحدٍ وربُّكم واحدٌ. {فاتَّقونِ}: بامتثال أوامري واجتناب زواجري. وقد أمر الله المؤمنين بما أمر به المرسلين؛ لأنَّهم بهم يَقْتَدون وخلفَهم يسلُكون، فقال: {يا أيُّها الذين آمنوا كُلوا من طيِّبات ما رَزَقْناكم واشكُروا للهِ إنْ كنتُم إيَّاه تعبُدونَ}: فالواجب على كل المنتسبين إلى الأنبياء وغيرهم أن يَمْتَثِلوا هذا ويعملوا به.
[52] بنابریں انبیائے کرام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هٰؔذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ اے رسولوں کے گروہ! تمھاری جماعت ایک دین پر متفق ہے اور تمھارا رب بھی ایک ہے ﴿ فَاتَّقُوْنِ ﴾ ’’پس تم مجھ سے ڈرو۔‘‘ میرے احکام کی تعمیل کر کے اورمیرے زجر و توبیخ کے موجب امور سے اجتناب کر کے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوانھی امور کا حکم دیا جن کا حکم اپنے رسولوں کو دیا کیونکہ اہل ایمان انبیاء و رسل کی پیروی کرنے والے اور انھی کے راستے پر گامزن ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (البقرۃ:2؍172) ’’اے اہل ایمان ! جو پاک چیزیں ہم نے تمھیں عطا کی ہیں ،انھیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ پس انبیائے کرام سے نسبت رکھنے والوں اور دیگر لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کریں ۔
#
{53} ولكنْ أبى الظالمون المُفْتَرقُون إلاَّ عصياناً، ولهذا قال: {فتقطَّعوا أمرَهم بينَهم زُبُراً}؛ أي: تقطَّع المنتسبون إلى أتباع الأنبياء {أمْرَهم}؛ أي: دينهم {بينَهم زُبُرا}؛ أي: قطعاً. {كلُّ حزبٍ بما لديهم}؛ أي: بما عندهم من العلم والدين {فرِحون}: يزعمون أنَّهم المحقُّون، وغيرُهم على غير الحقِّ، مع أن المحقَّ منهم مَنْ كان على طريق الرُّسل من أكل الطيبات والعمل الصالح، وما عداهم فإنَّهم مبطِلون.
[53] بایں ہمہ جھٹلانے والے ظالم، نافرمان ہی رہے اس لیے فرمایا: ﴿ فَتَقَطَّعُوْۤا ﴾ ’’پس کاٹ دیا۔‘‘ یعنی انبیاء و رسل کی اتباع کا دعویٰ کرنے والوں نے ﴿اَمْرَهُمْ ﴾ یعنی اپنے دین کو ﴿ بَیْنَهُمْ زُبُرًا﴾ ’’آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے۔‘‘ ﴿ كُ٘لُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ ﴾ ’’ہر گروہ اس پر جو اس کے پاس ہے۔‘‘ یعنی ہر گروہ اور فرقے کے پاس جو علم اور دین ہے ﴿ فَرِحُوْنَ ﴾ وہ اسی پر خوش ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دیگر لوگ حق پر نہیں ہیں حالانکہ ان میں سے حق پر صرف وہی لوگ ہیں جو انبیاء کے راستے پر گامزن ہیں ، پاک چیزیں کھاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ۔ ان کے سوا دیگر لوگ تو باطل کی راہوں میں سرگرداں ہیں ۔
#
{54} {فَذَرْهُم في غمرتهم}؛ أي: في وسط جهلهم بالحقِّ ودعواهم أنَّهم هم المحقون {حتى حينٍ}؛ أي: إلى أن ينزِلَ العذابُ بهم؛ فإنَّهم لا ينفعُ فيهم وعظٌ، ولا يفيدُهم زجرٌ؛ فكيفَ يفيدُ بمن يزعُمُ أنَّه على الحقِّ ويطمع في دعوة غيرِهِ إلى ما هو عليه؟
[54] ﴿ فَذَرْهُمْ فِیْ غَ٘مْرَتِهِمْ ﴾ ’’پس چھوڑ دیجیے آپ ان کو ان کی غفلت ہی میں ۔‘‘ یعنی انھیں حق کے بارے میں ان کی جہالت اور ان کے دعووں میں ، کہ وہ حق پر ہیں ، غلطاں چھوڑ دیجیے ﴿ حَتّٰى حِیْنٍ ﴾ یعنی اس وقت تک جب تک کہ ان پر عذاب نازل نہیں ہو جاتا کیونکہ ان کو کوئی وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ فائدہ نہیں دے سکتی۔ یہ چیزیں انھیں فائدہ دے بھی کیسے سکتی ہیں جبکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اپنے اس مسلک کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کے متمنی ہوں ۔
#
{55 ـ 56} {أيحسبونَ أنَّما نُمِدُّهُم به من مالٍ وبنينَ. نسارِعُ لهم في الخيرات}؛ أي: أيظنُّونَ أنَّ زيادتنا إيَّاهم بالأموال والأولاد دليلٌ على أنَّهم من أهل الخير والسعادة، وأنَّ لهم خيرَ الدُّنيا والآخرة، وهذا مقدَّم لهم؟! ليس الأمر كذلك؛ {بل لا يشعرونَ}: أنَّما نُملي لهم ونُمْهِلُهم ونُمِدُّهم بالنعم ليزدادوا إثماً وليتوفَّر عقابهم في الآخرة، وليغتَبِطوا بما أوتوا، حتى إذا فَرِحوا بما أوتوا؛ أخَذْناهم بغتةً.
[56,55] ﴿اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَۙ۰۰ نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ﴾ یعنی کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد میں ہماری طرف سے اضافہ، اس امر کی دلیل ہے کہ وہ بھلائی اور سعادت سے بہرہ مند ہیں اور دنیا اور آخرت کی بھلائی انھی کے لیے ہے؟ یہ ان کا اپنا زعم باطل ہے حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ ﴿ بَلْ لَّا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’بلکہ وہ نہیں سمجھتے۔‘‘ کہ ہم ان کو ڈھیل اور مہلت دیے جا رہے ہیں اور ان کو نعمتوں سے نواز رہے ہیں ، وہ اس لیے کہ تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں اور آخرت میں اپنے عذاب کو بڑھا لیں اور دنیا میں ان کو جو نعمتیں عطا ہوئی ہیں انھی سے مزے لیتے رہیں ۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً ﴾ (الانعام:6؍44) ’’حتیٰ کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا، اس سے بہت خوش ہوگئے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا‘‘
آیت: 57 - 62 #
{إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ (57) وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (58) وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ (59) وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ (60) أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (61) وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (62)}.
بے شک وہ لوگ کہ جو خوف سے اپنے رب کے، ڈرنے والے ہیں (57) اور وہ لوگ کہ جو آیتوں کے ساتھ اپنے رب کی، ایمان لاتے ہیں (58) اور وہ لوگ کہ جو اپنے رب کے ساتھ نہیں شریک ٹھہراتے (59) اور وہ لوگ كہ جو دیتے ہیں جو کچھ وہ دیتے ہیں (صدقہ) جبکہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں (اس سے) کہ بے شک وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں (60) یہی لوگ ہیں کہ جلدی کرتے ہیں بھلائیوں میں اور وہ ان کے لیے سبقت کرنے والے ہیں (61)اور نہیں تکلیف دیتے ہم کسی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے، وہ بولتی ہے ساتھ حق کےاور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے (62)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنھوں نے برائی اور امن کو جمع کیا اور سمجھتے رہے کہ دنیا میں ان پر اللہ تعالیٰ کی عنایات اور نوازشیں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ بھلائی اور فضیلت کی راہ پر چل رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر بھی فرمایا جنھوں نے بھلائی اور خوف کو یکجا کیا، چنانچہ فرمایا:
#
{57} {إنَّ الذينَ هم من خَشْيَةِ ربِّهم مشفِقونَ}؛ أي: وجِلون، مشفقة قلوبُهم، كلُّ ذلك من خشية ربِّهم؛ خوفاً أن يَضَعَ عليهم عدلَه؛ فلا يُبقي لهم حسنةً، وسوءَ ظنٍّ بأنفسهم أنْ لا يكونوا قد قاموا بحقِّ الله تعالى، وخوفاً على إيمانِهِم من الزَّوال، ومعرفةً منهم بربِّهم وما يستحقُّه من الإجلال والإكرام. وخوفُهم وإشفاقُهم يوجِبُ لهم الكفَّ عما يوجِبُ الأمرُ المخوفُ من الذُّنوب والتقصير في الواجبات.
[57] ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ﴾ ’’بے شک جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے دل اپنے رب کے خوف سے لرزاں ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عدل کیا تو ان کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں رہے گی اور انھیں اپنے بارے میں سوء ِ ظن ہے کہ انھوں نے اللہ کے حق کو ادا نہیں کیا اور ایمان کے زوال کا خوف رہتا ہے، انھیں اپنے رب کے بارے میں معرفت حاصل ہے کہ وہ کس اجلال و اکرام کا مستحق ہے ان کا یہ خوف انھیں گناہوں اور واجبات میں کوتاہی سے باز رکھتا ہے۔
#
{58} {والذين هم بآياتِ ربِّهم يؤمنونَ}؛ أي: إذا تُلِيَتْ عليهم آياتُه؛ زادتْهم إيماناً، ويتفكَّرون أيضاً في الآيات القرآنيَّة، ويتدبَّرونها، فَيَبِينُ لهم من معاني القرآن وجلالتِهِ واتِّفاقِهِ وعدم اختلافِهِ وتناقضِهِ وما يدعو إليه من معرفة الله وخوفِهِ ورجائِهِ وأحوال الجزاء، فيحدثُ لهم بذلك من تفاصيل الإيمان ما لا يُعَبِّرُ عنه اللسانُ، ويتفكَّرون أيضاً في الآيات الأفقيَّة؛ كما في قوله: {إنَّ في خَلْقِ السمواتِ والأرضِ واختلافِ الليل والنهارِ لآياتٍ لأولي الألباب ... } إلى آخر الآيات.
[58] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اور وہ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘ یعنی جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، نیز وہ آیات قرآنی میں تفکر و تدبر کرتے ہیں تو ان پر قرآن عظیم کی جلالت شان، اس کی آیات و مضامین میں اتفاق اور ان میں عدم اختلاف اور عدم تناقض واضح ہوتا ہے اور وہ ان کو اللہ تعالیٰ، اس کے خوف ، اس سے امید اور احوال جزا و سزا کی معرفت کی طرف دعوت دیتا ہے جس سے ان کو ایمان کی تفاصیل حاصل ہوتی ہیں ۔ زبان جن کی تعبیرکرنے سے قاصر ہے۔ نیز وہ آیات آفاقی میں بھی غور و فکر کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ فِیْ خَلْ٘قِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (آل عمران:3؍190) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق، دن اور رات کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔‘‘
#
{59} {والذين هم بربِّهم لا يُشْرِكونَ}؛ أي: لا شركاً جليًّا؛ كاتخاذ غير الله معبوداً يدعوه ويرجوه، ولا شركاً خفيًّا؛ كالرياء ونحوه، بل هم مخلصونَ لله في أقوالهم وأعمالهم وسائر أحوالهم.
[59] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْ٘رِكُوْنَ﴾ ’’اور وہ جو اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔‘‘ یعنی وہ کسی شرک جلی میں مبتلا نہیں ہیں ، مثلاً: غیراللہ کو معبود بنانا، اس کو پکارنا اور اس سے امیدیں رکھنا اور نہ شرک خفی میں مبتلا ہیں ، مثلاً:ریا وغیرہ۔ بلکہ وہ اپنے تمام اقوال، اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص رکھتے ہیں ۔
#
{60} {والذين يؤتونَ ما آتوْا}؛ أي: يعطون من أنفسهم مما أُمِروا به ما آتوا من كلِّ ما يقدرون عليه من صلاةٍ وزكاةٍ وحجٍّ وصدقةٍ وغير ذلك، ومع هذا {قلوبُهُم وَجِلَةٌ}؛ أي: خائفة {أنَّهم إلى ربِّهم راجِعونَ}؛ أي: خائفةٌ عند عرض أعمالها عليه والوقوف بين يديه أن تكونَ أعمالُهم غيرَ منجِّيةٍ من عذاب الله؛ لعلمِهِم بربِّهم، وما يستحقُّه من أصناف العبادات.
[60] ﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا﴾ ’’اور وہ لوگ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی جس چیز کا انھیں حکم دیا گیا ہے مقدور بھر اس کی تعمیل کرتے ہیں ، مثلاً:نماز، زکاۃ، حج، صدقہ وغیرہ ﴿وَ﴾ اس کے باوجود ﴿ قُ٘لُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾ ’’ان کے دل خوف زدہ ہیں ۔‘‘ ﴿ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ﴾ ’’اس بات سے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کے اس کے سامنے پیش كيے جانے سے ڈرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے کے قابل نہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کا رب کیسا اور کس قسم کی عبادات کا مستحق ہے۔
#
{61} {أولئك يسارِعونَ في الخيراتِ}؛ أي: في مَيْدان التَّسارع في أفعال الخير؛ همُّهم ما يقرِّبُهم إلى الله، وإرادتُهم مصروفةٌ فيما يُنجي من عذابِهِ؛ فكلُّ خيرٍ سمعوا به أو سَنَحَتْ لهم الفرصةُ [إليه]؛ انتهزوه وبادَروه؛ قد نَظَروا إلى أولياءِ الله وأصفيائِهِ أمامهم، ويمنةً ويسرةً؛ يسارِعون في كلِّ خيرٍ، وينافِسون في الزُّلْفى عند ربِّهم؛ فنافَسوهُم، ولمَّا كان المسابِقُ لغيرِهِ المسارِعُ؛ قد يسبِقُ لجِدِّه وتشميره، وقد لا يسبِقُ لتقصيرِهِ؛ أخبر تعالى أنَّ هؤلاء من القسم السابقين، فقال: {وهم لها}؛ أي: للخيرات، {سابِقونَ}: قد بلغوا ذِرْوَتَها، وتبارَوْا هم والرعيل الأول، ومع هذا قد سبقت لهم من الله سابقةُ السعادةِ أنَّهم سابقونَ.
[61] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جو جلدی کرتے ہیں بھلائیوں میں ۔‘‘ یعنی وہ بھلائی کے کاموں کی طرف جلدی سے لپکتے ہیں ان کا عزم صرف اسی چیز پر مرتکز ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور ان کا ارادہ انھی امور میں مصروف ہوتا ہے جو انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دیتے ہیں ۔ ہر بھلائی جو وہ سنتے ہیں یا اس کی جب بھی انھیں فرصت ملتی ہے، اٹھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں ۔ وہ اولیاء اللہ، اس کے چنیدہ بندوں کو اپنے آگے اور دائیں بائیں دیکھتے ہیں جو بھلائی کے کاموں میں لپکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے سبقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسابقت کرنے والا جب کسی دوسرے سے مسابقت کرتا ہے تو کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد اور کوشش سے آگے نکل جاتا ہے اور کبھی اپنی کوتاہی کی بنا پر پیچھے رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ یہ سبقت کرنے والے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَهُمْ لَهَا ﴾ ’’اور وہ اس کے لیے۔‘‘ یعنی بھلائیوں کے لیے ﴿ سٰبِقُوْنَ ﴾ ’’دوڑتے ہیں ۔‘‘ بلاشبہ وہ بھلائی کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں ۔ وہ سب سے آگے نکلنے والے سے مسابقت کرتے ہیں ، نیز اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے سعادت لکھ دی گئی کہ وہ سبقت کرنے والے ہیں ۔
#
{62} ولما ذَكَرَ مسارَعَتَهم إلى الخيرات وَسَبْقَهم إليها؛ ربَّما وَهِمَ واهمٌ أنَّ المطلوب منهم ومن غيرهم أمرٌ غير مقدورٍ أو متعسِّر؛ أخبر تعالى أنه {لا نكلِّفُ نفساً إلاَّ وُسْعَها}؛ أي: بقدر ما تسعه ويفضُلُ من قوتها عنه، ليس ممَّا يستوعبُ قوَّتها؛ رحمةً منه وحكمةً؛ لتيسير طريق الوصول إليه، ولتعمر جادةُ السالكين في كلِّ وقت إليه. {ولَدَيْنا كتابٌ ينطِقُ بالحقِّ}: وهو الكتابُ الأوَّل الذي فيه كل شيء، وهو يطابِقُ كلَّ واقع يكون؛ فلذلك كان حقًّا. {وهم لا يُظْلَمون}: ينقص من إحسانهم، أو يزداد في عقوبتِهم وعصيانِهِم.
[62] جب اللہ تعالیٰ نے نیکیوں میں ان کی سرعت اور سبقت کا ذکر کیا تو اس سے کسی کو یہ وہم لاحق ہو سکتا تھا کہ ان سے اور دیگر لوگوں سے ایسے امور مطلوب ہیں جو ان کی مقدرت سے باہر یا بہت مشکل ہیں ، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ یعنی ہم ہر نفس کو بس اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں جتنی اس کی قوت کے دائرے میں ہوتی ہے اور وہ تکلیف ایسی نہیں ہوتی جو اس کی پوری قوت کو صرف کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت ہے تاکہ اس کے پاس پہنچنے کا راستہ ہو اور اہل سلوک کی راہیں ہر وقت آباد رہیں ۔ ﴿ وَلَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے۔‘‘ اور وہ کتاب اول ہے جس میں ہر چیز درج ہے اور چونکہ جو کچھ اس میں درج ہے ہر چیز اس کے مطابق واقع ہوگی، اس لیے یہ حق ہے۔ ﴿ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی ان کی نیکیوں میں کچھ کمی کی جائے گی نہ ان کی سزا اور گناہوں میں کوئی اضافہ ہوگا۔
آیت: 63 - 71 #
{بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِنْ هَذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ (63) حَتَّى إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ (64) لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ (65) قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ (66) مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ (67) [أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ (68) أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (69) أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (70) وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (71)}].
بلکہ ان کے دل غفلت میں ہیں اس (قرآن) سےاور ان کے لیے اور اعمال (خبیثہ بھی) ہیں سوائے اس (غفلت) کے کہ وہ انھیں کرنے والے ہیں (63) یہاں تک کہ جب پکڑیں گے ہم ان کے خوشحال لوگوں کو ساتھ عذاب کے تو اس وقت وہ چیخ و پکار کریں گے (64) (انھیں کہا جائے گا) مت چیخو چلاؤ آج، یقینا تم ہمارے ہاں سے نہیں مدد کیے جاؤگے (65) تحقیق تھیں میری آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تم پر تو تھے تم اوپر اپنی ایڑیوں کے الٹے پھر جاتے (66) تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس (قرآن) کے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے تم بے ہودہ گوئی کرتے تھے (67)کیا پس نہیں غور کیا انھوں نے قرآن میں یا آیا ہے ان کے پاس وہ جو نہیں آیا تھا ان کے پہلے باپ دادا کے پاس؟ (68)یا نہیں پہچانا انھوں نے اپنے رسول کو؟ پس وہ اس کے منکر ہیں (69) یا وہ کہتے ہیں ، اسے جنون ہے؟بلکہ وہ لایا ہے ان کے پاس حق اور اکثر ان کے حق کو ناپسند کرنے والے ہیں (70)اور اگر پیروی کرے حق ان کی خواہشات کی تو البتہ خراب ہو جائیں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں بلکہ لائے ہیں ہم ان کے پاس ان کی نصیحت، پس وہ اپنی نصیحت سے اعراض کرنے والے ہیں (71)
#
{63} يخبر تعالى أنَّ قلوبَ المكذِّبين في غمرةٍ من هذا؛ أي: وسط غمرةٍ من الجهل والظُّلم والغفلة والإعراض تمنَعُهم من الوصول إلى هذا القرآن؛ فلا يهتدونَ به، ولا يصل إلى قلوبهم منه شيءٌ، {وإذا قَرَأتَ القرآنَ جَعَلْنا بينَك وبين الذين لا يؤمنون بالآخرةِ حجاباً مستوراً، وجَعَلْنا على قلوبِهِم أكِنَّةً أنْ يَفْقَهوه وفي آذانِهِم وقراً}؛ فلمَّا كانت قلوبُهم في غمرةٍ منه؛ عملوا بحسب هذا الحال من الأعمال الكفريَّة والمعاندة للشَّرع ما هو موجبٌ لعقابهم، ولكنْ {لهم أعمالٌ من دونِ}: هذه الأعمال {هم لها عاملونَ}؛ أي: فلا يستغرِبوا عدم وقوع العذاب فيهم؛ فإنَّ الله يُمْهِلُهم ليعملوا هذه الأعمال التي بقيت عليهم مما كُتِبَ عليهم؛ فإذا عملوها، واستَوْفَوها؛ انتقلوا بشرِّ حالةٍ إلى غضب الله وعقابه.
[63] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ جھٹلانے والے، اس بارے میں جہالت میں مبتلا ہیں یعنی جہالت، ظلم، غفلت اور روگردانی میں غلطاں ہیں یہ جہالت اور غفلت انھیں قرآن تک نہیں پہنچنے دیتی۔ پس یہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور قرآن سے ان کے دلوں تک کچھ نہیں پہنچتا۔ فرمایا: ﴿وَاِذَا قَ٘رَاْتَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابً٘ا مَّسْتُوْرًؔاۙ۰۰وَّجَعَلْنَا عَلٰى قُ٘لُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْ٘رًا﴾ (بنی اسرائیل:17؍45، 46) ’’جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دیتے ہیں ۔‘‘ اور جب ان کے دل غفلت اور جہالت میں مستغرق ہیں تو وہ اپنے حسب حال کفریہ اور شریعت کے خلاف اعمال بجا لائیں گے جو ان کے لیے عذاب کے موجب ہیں ۔ ﴿ وَلَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ ﴾ مگر ان کے علاوہ بھی ان کے برے اعمال ہیں ﴿ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ ﴾ ’’جنھیں وہ کرنے والے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ عذاب کے عدم وقوع پر تعجب نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں مہلت فراہم کررہا ہے تاکہ وہ ان اعمال بد کا ارتکاب بھی کرلیں جو باقی رہ گئے ہیں اور جو ان کے لیے درج كيے گئے ہیں ۔ جب وہ ان اعمال بد کا پوری طرح ارتکاب کرلیں گے تو وہ بدترین حالت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب میں منتقل ہوں گے۔
#
{64 ـ 65} {حتى إذا أخَذْنا مُتْرَفيهم}؛ أي: متنعِّميهم الذين ما اعتادوا إلاَّ التَّرفَ والرَّفاهية والنعيم، ولم تحصُل لهم المكارهُ؛ فإذا أخذْناهم {بالعذابِ}، ووجدوا مسَّه؛ {إذا هم يجأرون}: يصرُخون ويتوجَّعون؛ لأنَّه أصابهم أمرٌ خالفَ ما هم عليه، ويستغيثونَ، فيقالُ لهم: {لا تجأروا اليومَ إنَّكم منَّا لا تُنصَرونَ}: وإذا لم تأتِهِم النُّصرةُ من الله، وانقطع عنهم الغوثُ من جانِبِه؛ لم يستطيعوا نصرَ أنفسِهِم، ولم ينصُرْهم أحدٌ.
[65,64] ﴿ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْهِمْ ﴾ یعنی جب ہم نے ان لوگوں کو پکڑ لیا جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متمتع ہیں ، جو صرف ناز و نعمت اور خوشحالی کے عادی ہیں اور انھیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ ﴿ بِالْعَذَابِ ﴾ ’’عذاب کے ساتھ‘‘ یعنی جب ہم نے ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا اور انھوں نے بھی عذاب کو دیکھ لیا۔ ﴿ اِذَا هُمْ یَجْـَٔرُوْنَ ﴾ تب وہ چیخنے اور چلانے لگے کیونکہ آج ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جو ان کی گزشتہ حالت سے مختلف تھی۔ وہ مدد کے لیے پکارنے لگے تو ان سے کہا گیا: ﴿ لَا تَجْـَٔرُوا الْیَوْمَ١۫ اِنَّـكُمْ مِّؔنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ﴾ ’’نہ چیخو چلاؤ آج، تم ہماری طرف سے مدد نہیں کیے جاؤ گے۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نہ آئی اور اس کی جانب سے مدد منقطع ہو گئی تو وہ خود اپنی مدد کرنے پر قادر ہوئے نہ کوئی ان کی مدد کرسکا۔
#
{66} فكأنَّه قيل: ما السببُ الذي أوصلَهم إلى هذه الحال؟ قال: {قد كانتْ آياتي تُتْلى عليكم}: لتؤمِنوا بها وتُقْبِلوا عليها، فلم تَفْعَلوا ذلك، بل {كنتُم على أعقابِكُم تنكِصونَ}؛ أي: راجعين القهقرى إلى الخلف، وذلك لأنَّ باتِّباعهم القرآن يتقدَّمون، وبالإعراض عنه يستأخِرون، وينزلون إلى أسفل سافلين.
[66] گویا پوچھا گیا کہ وہ کون سا سبب ہے جس نے ان کو اس حال پر پہنچا یا تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُ٘تْ٘لٰ٘ى عَلَیْكُمْ ﴾ ’’میری آیات پڑھی جاتی تھیں تم پر۔‘‘ تاکہ تم ان آیات پر ایمان لاؤ اور ان کی طرف توجہ کرو مگر تم نے ایسا نہ کیا بلکہ اس کے برعکس ﴿ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْؔكِصُوْنَ﴾ ’’تم پیچھے کی طرف الٹے پاؤں پھرتے رہے کیونکہ قرآن کی اتباع کے ذریعے لوگ آگے بڑھتے ہیں اور اس سے روگردانی کرکے پیچھے رہ جاتے ہیں اور پست ترین مقام پرجا اترتے ہیں ۔
#
{67} {مستكبِرينَ به سامراً تَهْجُرونَ}: قال المفسِّرون: معناه: مستكبرين به: الضمير يعود إلى البيت المعهود عند المخاطبين أو الحرم؛ أي: متكبِّرين على الناس بسببه، تقولون: نحنُ أهلُ الحرم؛ فنحنُ أفضلُ من غيرِنا وأعلا. {سامراً}؛ أي: جماعة يتحدثون بالليل حول البيت. {تَهْجُرونَ}؛ أي: تقولون الكلامَ الهُجْرَ الذي هو القبيح في هذا القرآن؛ فالمكذِّبون كانت طريقتُهم في القرآنِ الإعراضُ عنه، ويوصي بعضُهم بعضاً بذلك، {وقال الذين كَفَروا لا تَسْمَعوا لهذا القرآن والْغَوْا فيه لعلَّكم تغلِبونَ}، وقال الله عنهم: {أفَمِنْ هذا الحديثِ تَعْجَبونَ. وتَضْحَكونَ ولا تبكونَ. وأنتم سامِدون}، {أم يقولون تقوَّلَه} فلما كانوا جامعينَ لهذه الرذائل؛ لا جَرَمَ حقَّت عليهم العقوبةُ، ولَمَّا وقعوا فيها؛ لم يكن لهم ناصرٌ ينصُرُهم ولا مغيثٌ ينقِذُهم، ويوبَّخون عند ذلك بهذه الأعمال الساقطة.
[67] ﴿ مُسْتَكْبِرِیْنَ۠١ۖ ۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ ﴾ ’’تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس کے افسانہ گوئی کرتے ہوئے تم بیہودہ بکتے تھے۔‘‘ اصحاب تفسیر اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ ﴿ مُسْتَكْبِرِیْنَ۠١ۖ ۗ بِهٖ ﴾ میں ضمیر بیت اللہ یا حرم کی طرف لوٹتی ہے، جو مخاطبین کے ہاں معہود (ذہن میں موجود) ہے یعنی تم حرم یا بیت اللہ کے سبب سے لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل حرم ہیں بنابریں ہم دوسروں سے اعلیٰ و افضل ہیں ۔ ﴿ سٰمِرًا ﴾ یعنی ایسی جماعت کی صورت میں جو رات کے وقت بیت اللہ کے گرد بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ۔ ﴿ تَهْجُرُوْنَ﴾ یعنی تم اس قرآن عظیم کے بارے میں قبیح گفتگو کرتے تھے۔پس قرآن کریم کے بارے میں اہل تکذیب کا طریقہ روگردانی پر مبنی تھا اور اسی طریقے کی وہ ایک دوسرے کو وصیت کیا کرتے تھے۔ ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَ٘سْمَعُوْا لِهٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ﴾ (حم السجدۃ:41؍26) ’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ اس قرآن کو مت سنو، جب سنایا جائے تو شور مچا دیا کرو شاید کہ تم غالب رہو‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ اَفَ٘مِنْ هٰؔذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ۰۰وَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَۙ۰۰وَاَنْتُمْ سٰؔمِدُوْنَ ﴾ (النجم:53؍59-61) ’’کیا تم اس کلام کے بارے میں تعجب کرتے ہو، ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّ٘لَهٗ ﴾ (الطور:52؍ 33)’’کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ آپ نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟‘‘ وہ ان رذائل کے جامع تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پرعذاب واجب ہوگیا اور جب یہ عذاب واقع ہوگیا تو ان کا کوئی حامی بنا جو ان کی مدد کرسکے نہ فریاد رس بنا ہوگا جو ان کو اس عذاب سے بچا سکے اس وقت ان کے اعمال بد کی بنا پر ان کو زجر و توبیخ کی گئی۔
#
{68} {أفلم يَدَّبَّروا القولَ}؛ أي: أفلا يتفكَّرون في القرآن ويتأمَّلونه ويتدبَّرونه؛ أي: فإنَّهم لو تدبَّروه؛ لأوجبَ لهم الإيمانَ، ولَمَنَعَهم من الكفرِ، ولكن المصيبةَ التي أصابتهم بسبب إعراضهم عنه. ودل هذا على أنَّ تدبُّرَ القرآن يدعو إلى كلِّ خير ويعصِمُ من كلِّ شرٍّ، والذي منعهم من تدبُّرِهِ أنَّ على قلوبِهِم أقفالُها. {أم جاءهم ما لم يأتِ آباءَهُمُ الأوَّلينَ}؛ أي: أَوَ منعهم من الإيمان أنَّه جاءهم رسولٌ وكتابٌ ما جاء آباءَهم الأوَّلين، فرضوا بسلوك طريقِ آبائِهِم الضالِّين، وعارَضوا كلَّ ما خالفَ ذلك! ولهذا قالوا هم ومن أشبههم من الكفار ما أخبر الله عنهم: {وكذلك ما أرْسَلْنا من قبلِكَ في قريةٍ من نذيرٍ إلاَّ قال مُتْرَفوها إنَّا وَجَدْنا آباءَنا على أمَّةٍ وإنَّا على آثارِهِم مُقتدونَ}. فأجابهم بقوله: {قال أوَلَوْ جئتُكم بأهدى ممَّا وَجَدْتم عليه آباءَكم فهل تَتَّبِعونِ}: إنْ كان قصدُكم الحقَّ. فأجابوا بحقيقةِ أمرِهم: {قالوا إنا بما أرسِلْتم به كافرونَ}.
[68] ﴿ اَفَلَمْ یَدَّبَّ٘رُوا الْقَوْلَ ﴾ ’’کیا انھوں نے قرآن میں غور و فکر اور تدبر نہیں کیا؟‘‘ اگر انھوں نے قرآن میں تدبر کیا ہوتا تو وہ ان کے ایمان کا موجب اور ان کو کفر سے منع کرنے کا باعث بنتا مگر ان پر جو مصیبت نازل ہوئی ہے اس کا سبب ان کا قرآن سے اعراض ہے اور یہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر ہر بھلائی کی طرف دعوت دیتا ہے اور ہر برائی سے بچاتا ہے اور جس چیز نے ان کو قرآن میں غور و فکر کرنے سے روک رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ۔ ﴿ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یعنی یا اس بات نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ ان کے پاس رسول آیا اور ایک ایسی کتاب ان کے پاس آئی جو ان کے آباء و اجداد کے پاس آئی تھی لہٰذا یہ اپنے گمراہ آباء و اجداد کی راہ پر چلنے پر راضی ہوگئے۔ جو چیز اس راہ کے خلاف تھی انھوں نے اس کی مخالفت کی لہٰذا انھوں نے اور ان جیسے دوسرے کفار نے یہی کہا تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ ﴿وَؔكَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤ١ۙ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰۤى اٰثٰ٘رِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ﴾ (الزخرف:43؍23) ’’اسی طرح آپ سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی ڈرانے والا بھیجا تو اس کے خوشحال لوگوں نے کہا: ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے ہم تو انھی کی پیروی کررہے ہیں ۔ ‘‘ اور ان کے جواب میں ہر رسول نے فرمایا: ﴿ اَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰؔى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْ ﴾ (الزخرف:43؍24) ’’کیا تم اسی طریقے پر چلتے چلے جاؤ گے خواہ میں تمھیں اس راستے سے بہتر راستہ بتاؤں جس پر تم نے آباء و اجداد کوپایا ہے‘‘ اگر تمھارا مقصد حق جوئی ہے تو کیا تم اس کی پیروی کرو گے؟ اور انھوں نے اپنی نیتوں کے مطابق جواب دیا: ﴿ اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ﴾ (الزخرف:43؍24) ’’بلاشبہ تمھیں جس چیز کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
#
{69} وقوله: {أمْ لم يعرِفوا رسولَهم فهم له منكرونَ}؛ أي: أَوَ منعهم من اتّباع الحقِّ أنَّ رسولَهم محمداً - صلى الله عليه وسلم - غير معروفٍ عندهم فهم منكرونَ له يقولونَ: لا نعرِفُه ولا نعرِفُ صدقَه، دعونا [حتى] نَنْظُر حالَه ونسألَ عنه مَنْ له به خبرةٌ؟ أي: لم يكنِ الأمرُ كذلك؛ فإنَّهم يعرفون الرسولَ - صلى الله عليه وسلم - معرفةً تامّةً، صغيرهم وكبيرهم، يعرفون منه كلَّ خُلُق جميل، ويعرِفون صدقَه وأمانَتَه، حتى كانوا يسمُّونه ـ قبل البعثة ـ: الأمين ؛ فَلِمَ لا يصدِّقونَه حين جاءهم بالحقِّ العظيم والصدق المبين؟!
[69] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ٞ اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْؔكِرُوْنَ﴾ ’’یا کیا انھوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ اس کا انکار کررہے ہیں ۔‘‘ یعنی کیا اس چیز نے انھیں اتباع حق سے روک رکھا ہے کہ ان کے رسول محمد مصطفیe، ان کے ہاں غیر معروف ہیں اور وہ آپe کو نہیں پہچانتے، اس لیے ان کو ماننے سے انکار کررہے ہیں ؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے نہ اس کی صداقت کے بارے میں ہمیں کچھ علم ہے۔ ہمیں چھوڑ دو ہم اس کے احوال کے بارے میں غور کریں اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں ۔ نہیں ! ایسی بات نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہe کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ آپ کو ان کا چھوٹا اور بڑا ہر شخص جانتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ اخلاق جمیلہ کے حامل ہیں وہ آپ کے صدق و امانت کو خوب پہچانتے ہیں حتیٰ کہ وہ آپ کو بعثت سے قبل ’’الامین‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ جب آپ ان کے پاس حق عظیم اور صدق مبین لے کر آئے تب انھوں نے آپ کی تصدیق کیوں نہ کی؟
#
{70} {أم يقولونَ به جِنَّةٌ}؛ أي: جنون؛ فلهذا قال ما قال! والمجنونُ غيرُ مسموع منه، ولا عبرة بكلامه؛ لأنَّه يهذي بالباطل والكلام السخيف! قال الله في الردِّ عليهم في هذه المقالة: {بل جاءهم بالحقِّ}؛ أي: بالأمر الثابت الذي هو صدقٌ وعدلٌ لا اختلافَ فيه ولا تناقُضَ؛ فكيفَ يكونُ مَنْ جاء به، به جِنَّةٌ؟! وهلاَّ يكون إلاَّ في أعلى درج الكمال من العلم والعقل ومكارم الأخلاق! وأيضاً؛ فإنَّ في هذا الانتقال مما تقدَّم؛ أي: بل الحقيقة التي منعتهم من الإيمان أنَّه {جاءَهُم بالحقِّ وأكثرُهم للحقِّ كارهون}، وأعظمُ الحقِّ الذي جاءهم به: إخلاصُ العبادة للَّه وحده، وترك ما يُعْبَد من دون اللَّه، وقد علم كراهتهم لهذا الأمر وتعجُّبهم منه؛ فكونُ الرسول أتى بالحقِّ، وكونُهم كارهين للحقِّ بالأصل، هو الذي أوجب لهم التكذيب بالحقِّ؛ لا شكًّا ولا تكذيباً للرسول؛ كما قال تعالى: {فإنَّهم لا يكذِّبونَك ولكنَّ الظالمينَ بآياتِ الله يَجْحَدون}.
[70] ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ ﴾ ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون لاحق ہے‘‘ اس لیے وہ ایسی باتیں کررہا ہے اور مجنون کی باتوں پر کان دھرا جاتا ہے نہ اس کی باتوں کا اعتبار ہی کیا جاتا ہے کیونکہ وہ باطل اور احمقانہ باتیں منہ سے نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ﴾ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول (e) ان کے پاس حق (امر ثابت) لے کر آئے ہیں جو سراسر صدق و عدل پر مبنی ہے جس میں کوئی اختلاف ہے نہ تناقض۔ تب وہ شخص جو یہ چیز لے کر آیا ہو وہ کیسے پاگل ہے؟… بلکہ وہ تو علم و عقل اور مکارم اخلاق کے اعتبار سے درجہ کمال پر فائز ہے۔ اس میں گزشتہ مضمون سے انتقال ہے یعنی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے منع کیا ہے کہ آپe ﴿ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ﴾ ’’ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے۔‘‘ اور سب سے بڑا حق جو آپe ان کے پاس لے کر آئے ہیں ، اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص اور غیر اللہ کی عبادت کو ترک کرنا ہے اور ان کا اس بات کو ناپسند کرنا اور اس سے تعجب کرنا معلوم ہے۔ پس رسول (e) کا حق لے کر آنا اور ان کا حق کو ناپسند کرنا دراصل حق کی تکذیب کرنا ہے۔ یہ کسی شک کی بنا پر ہے نہ رسولe کی تکذیب کی وجہ سے بلکہ یہ انکار حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ﴾ (الانعام:6؍33) ’’یہ آپe کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کررہے ہیں ۔‘‘
#
{71} فإنْ قيلَ: لِمَ لم يكنِ الحقُّ موافقاً لأهوائهم؛ لأجْل أن يؤمنوا أو يُسْرِعوا الانقيادَ؟ أجاب تعالى بقوله: {ولوِ اتَّبَعَ الحقُّ أهواءهم لَفَسَدَتِ السمواتُ والأرضُ}: ووجهُ ذلك أنَّ أهواءهم متعلِّقة بالظُّلم والكفر والفسادِ من الأخلاق والأعمال؛ فلو اتَّبع الحقُّ أهواءهم؛ لفسدتِ السماواتُ والأرضُ؛ لفساد التصرُّف والتدبير المبنيِّ على الظُّلم وعدم العدل؛ فالسماواتُ والأرض ما استقامتا إلاَّ بالحقِّ والعدل. {بل أَتيْناهم بذِكْرِهِم}؛ أي: بهذا القرآن المذكِّر لهم بكل خيرٍ، الذي به فخرُهُم وشرفُهم حين يقومون به ويكونون به سادةَ الناس. {فهم عن ذِكْرِهِم مُعْرِضون}: شقاوةً منهم وعدمَ توفيق؛ {نَسُوا الله فَنَسِيَهم}، {نَسُوا الله فأنساهم أنفُسَهم}؛ فالقرآن ومَنْ جاء به أعظمُ نعمةٍ ساقها الله إليهم، فلم يقابلوها إلا بالردِّ والإعراض؛ فهل بعد هذا الحرمان حرمانٌ؟! وهل يكون وراءَه إلاَّ نهايةُ الخسران؟!
[71] اگر یہ کہا جائے کہ حق ان کی خواہشات نفس کے موافق کیوں نہیں تاکہ وہ ایمان لے آتے اور جلدی سے حق کی اطاعت کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں جواب عطا فرمایا: ﴿وَلَوِ اتَّ٘بَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ﴾ ’’اگر حق (دین) ہی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے تو آسمانوں اور زمین کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہشات نفس ظلم، کفر اور فسادپر مبنی اخلاق و اعمال سے متعلق ہوتی ہیں ۔ پس اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگے تو آسمان و زمین ظلم اور عدم عدل پر مبنی تدبیر و تصرف کی وجہ سے فساد کا شکار ہو جائیں ، اس لیے کہ آسمان اور زمین تو صرف حق و عدل کی بنا پر درست ہیں ۔ ﴿بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ﴾ یعنی ہم ان کے پاس یہ قرآن لے کر آئے جو ان کو ہر قسم کی بھلائی کی نصیحت کرتا ہے۔ یہ ان کا فخر و شرف ہے۔ اگر وہ اس کو قائم کریں گے تو لوگوں کی سیادت کریں گے۔ ﴿ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾ ’’وہ اپنے ذکر (نصیحت) سے روگردانی کررہے ہیں ‘‘ اپنی بدبختی اور عدم توفیق کی وجہ سے ﴿ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ ﴾ (التوبہ:9؍67) ’’انھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی ان کو فراموش کر دیا۔‘‘ ﴿ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ﴾ (الحشر:59؍19) ’’انھوں نے اللہ کو بھلا دیا اور اللہ نے ان کو اپنے تئیں بھلوا دیا۔‘‘ پس قرآن عظیم اور اس کو لانے والی ہستی سب سے بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہے مگر انھوں نے اس عظیم نعمت کو ٹھکرا دیا اور اس سے روگردانی کی۔ کیا اس ایمان سے محرومی کے بعد، اس سے بڑی کوئی حرماں نصیبی ہے؟ اور کیا اس کے پیچھے انتہائی درجے کا خسارہ نہیں ؟
آیت: 72 #
{أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (72)}.
یا آپ سوال کرتے ہیں ان سے اجرت کا؟ پس اجرت آپ کے رب کی بہت بہتر ہےاور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے (72)
#
{72} أي: أَوَ مَنَعَهم من اتِّباعك يا محمد أنَّك تسألُهم على الإجابة أجراً؛ {فهم من مَغْرَم مُثْقَلون}: يتكلَّفون من اتِّباعك بسبب ما تأخُذُ منهم من الأجرِ والخراج، ليس الأمر كذلك. {فخراجُ ربِّك خيرٌ وهو خير الرازقينَ}: وهذا كما قال الأنبياءُ لأممهم: {يا قوم لا أسألُكُم عليه أجراً إنْ أجرِيَ إلاَّ على الله}؛ أي: ليسوا يدعون الخلق طمعاً فيما يُصيبهم منهم من الأموال، وإنَّما يدعونَهم نُصحاً لهم وتحصيلاً لمصالحهم، بل كان الرسلُ أنصحَ للخلق من أنفسهم، فجزاهُم اللهُ عن أممهم خيرَ الجزاءِ، ورزَقَنا الاقتداء بهم في جميع الأحوال.
[72] ﴿اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ خَرْجًا﴾ اے محمد ! (e) کیا ان کو آپ کی اتباع سے اس چیز نے روکا ہے کہ آپ ان سے اس کام پر کوئی اجرت طلب کرتے ہیں ؟ ﴿فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ﴾ (الطور:52؍40) ’’کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ‘‘ اور اس طرح آپ کی اطاعت سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ آپe ان سے اجرت اور خراج طلب کرتے ہیں ؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ ﴿فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ١ۖ ۗ وَّهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾ ’’آپ کے رب کی اجرت بہت بہتر ہے اور وہ بہترین روزی رساں ہے۔‘‘ یہ اسی طرح کا قول ہے جس طرح انبیاء کرام o نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔؔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا﴾ (ہود:11؍51) ’’اے میری قوم! میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘ ﴿ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ﴾ (ہود:11؍29) ’’میرا صلہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یعنی انبیائے کرام o کی طرف سے لوگوں کو دعوت دینے میں یہ لالچ نہیں ہوتا کہ انھیں لوگوں کی طرف سے مال و دولت حاصل ہوگا۔ وہ تو صرف خیرخواہی اور ان کے اپنے فائدے کی خاطر ان کو دعوت دیتے ہیں بلکہ انبیاء و مرسلین مخلوق کے لیے، خود ان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو ان کی امتوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے اور تمام احوال میں ہمیں بھی ان کی اقتداء سے بہرہ مند کرے۔
آیت: 73 - 74 #
{وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (73) وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ (74)}.
اور بلاشبہ آپ البتہ بلاتے ہیں ان کو طرف راہ راست (اسلام) کی (73)اوربلاشبہ وہ لوگ کہ نہیں ایمان لاتے وہ ساتھ آخرت کے، (وہ اس) راہ سے البتہ انحراف کرنے والے ہیں (74)
#
{73 ـ 74} ذكر الله تعالى في هذه الآيات الكريمات كلَّ سببٍ موجبٍ للإيمان، وذَكَرَ الموانع، وبيَّن فسادها واحداً بعد واحدٍ، فذكر من الموانع: أنَّ قلوبَهم في غَمْرةٍ، وأنهم لم يَدَّبَّروا القول، وأنَّهم اقتدَوْا بآبائهم، وأنَّهم قالوا: برسولهم جِنَّةٌ؛ كما تقدم الكلام عليها. وذكر من الأمور الموجبة لإيمانهم: تدبُّرُ القرآن، وتلقِّي نعمة الله بالقَبول، ومعرفة حال الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - وكمال صدقِهِ وأمانتِهِ، وأنَّه لا يسألُهم عليه أجراً، وإنَّما سعيُهُ لنفعهم ومصلحتهم، وأنَّ الذي يَدْعوهم إليه صراطٌ مستقيمٌ، سهلٌ على العاملين لاستقامتِهِ، موصلٌ إلى المقصودِ من قرب، حنيفيَّةٌ سمحةٌ؛ حنيفيَّةٌ في التوحيد، سمحةٌ في العمل؛ فدعوتُك إيَّاهم إلى الصراط المستقيم موجب لمن يريد الحقَّ أن يَتَّبِعَك؛ لأنَّه مما تشهدُ العقول والفطر بحسنِهِ وموافقتِهِ للمصالح؛ فأين يذهبونَ إنْ لم يتابِعوك؟ فإنَّهم ليس عندهم ما يُغنيهم ويكفيهم عن متابعتِكَ؛ لأنَّهم {عن الصراط}: ناكِبون، متجنِّبون، منحرِفون عن الطريق الموصل إلى الله وإلى دار كرامته، ليس في أيديهم إلاَّ ضلالاتٌ وجهالاتٌ، وهكذا كلُّ من خالَفَ الحقَّ؛ لا بدَّ أن يكونَ منحرفاً في جميع أمورِهِ؛ قال تعالى: {فإن لم يَسْتَجيبوا لك فاعْلَمْ أنَّما يَتَّبِعون أهواءهم ومَنْ أضَلُّ مِمَّنِ اتَّبع هواه بغير هدىً من الله}.
[74,73] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام اسباب کا ذکر کیا ہے جو ایمان کے موجب ہیں اسی طرح تمام موانع ایمان کا ذکر کیا ہے اور فرداً فرداً ان کے فساد کو واضح کیا ہے۔ پس موانع ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ منکرین حق کے دل غفلت اور جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں ، انھوں نے قرآن میں غور و فکر نہیں کیا، وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں اور اپنے رسول (e) کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انھیں جنون لاحق ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا، جو موجب ایمان ہیں اور وہ ہیں قرآن میں تدبر کرنا، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو قبول کرنا، رسول مصطفیe کے احوال اور آپ کے کمال صدق و امانت کی معرفت حاصل کرنا، نیز یہ کہ آپ ان سے کسی قسم کے اجر و صلہ کے طلب گار نہیں آپ کی کوشش تو صرف لوگوں کے فائدے اور مصالح کے لیے ہے اور جس راستے کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ سیدھا راستہ ہے۔ سیدھا ہونے کی بنا پر تمام لوگوں کے لیے نہایت آسان اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے قریب ترین راستہ ہے۔ نرمی اور آسانی پر مبنی دین حنیف ہے، یعنی توحید میں حنیفیت اور اعمال میں آسانی۔ پس آپ کا ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، اس شخص کے لیے جو حق کا ارادہ رکھتا ہے، اس بات کا موجب ہے کہ وہ آپ کی اتباع کرے کیونکہ یہ ایسا راستہ ہے جس کے اچھا اور انسانی مصالح کے موافق ہونے کی شہادت عقل صحیح اور فطرت سلیم بھی دیتی ہے… اگر وہ آپe کی اتباع نہیں کرتے تو کہاں جائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس کو اختیار کرکے آپ کی اتباع سے مستغنی ہو جائیں کیونکہ ﴿عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ ﴾ وہ صراط مستقیم سے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے، انحراف کرنے والے ہیں ان کے پاس ضلالت و جہالت کے سوا کچھ نہیں ۔ یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو حق کی مخالفت کرتا ہے، وہ لازمی طور پر تمام معاملات میں راہ راست سے منحرف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ١ؕ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّ٘بَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ ﴾ (القصص:28؍50) ’’اور اب اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ تو سمجھ لیجیے کہ وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کررہے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے۔‘‘
آیت: 75 - 77 #
{وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (75) وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ (76) حَتَّى إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (77)}.
اور اگر رحم کریں ہم ان پر اوردور کر دیں ہم وہ جو ان کے ساتھ ہیں تکلیفیں تو ضرور اصرار کریں گے اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے (75) اور البتہ تحقیق پکڑا تھا ہم نے انھیں ساتھ عذاب کے، پس نہ عاجزی کی انھوں نے اپنے رب کے سامنے اور نہ وہ گڑگڑاتے ہی ہیں (76)یہاں تک کہ جب کھول دیا ہم نے ان پر دروازہ سخت عذاب کا تو اسی وقت وہ اس (حالت) میں ناامید ہونے والے ہو گئے (77)
#
{75} هذا بيانٌ لشدَّة تمرُّدهم وعنادهم، وأنَّهم إذا أصابهم الضُّرُّ؛ دَعَوُا الله أن يكشف عنهم ليؤمنوا، أو ابتلاهم بذلك ليرجعوا إليه؛ أنَّ الله إذا كشف الضُّرَّ عنهم؛ {لَجُّوا}؛ أي: استمرُّوا {في طُغيانهم يَعْمَهون}؛ أي: يجولون في كفرهم حائرينَ متردِّدين؛ كما ذكر الله حالهم عند ركوب الفُلك، وأنَّهم يدعون مخلصين له الدينَ، وينسَوْن ما يشركُون به، فلما أنجاهم؛ إذا هم يَبْغونَ في الأرض بالشِّرْك وغيره.
[75] یہ ان کے شدید تمرد کا بیان ہے کہ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کو دور کرنے کی دعا مانگتے ہیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں یا اللہ تعالیٰ ان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ جب ان کی تکلیف دور کر دیتا ہے تو پھر سرکشی اختیار کر لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی سرکشی میں سرگرداں اور اپنے کفر میں متردد اور حیرت زدہ رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ان کا حال بیان کیا ہے کہ اس وقت وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ان ہستیوں کو بھول جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور جب اللہ تعالیٰ ان کو اس صورت سے نجات دیتا ہے تو پھر زمین میں شرک کرتے ہوئے بغاوت کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
#
{76} {ولقد أخَذْناهم بالعذابِ}: قال المفسِّرونَ: المرادُ بذلك الجوع الذي أصابهم سبع سنين، وأنَّ الله ابتلاهم بذلك ليرجِعوا إليه بالذُّلِّ والاستسلام، فلم ينجَعْ فيهم، ولا نَجَحَ منهم أحدٌ. {فما استَكانوا لربِّهم}؛ أي: خضعوا وذلُّوا، {وما يتضرَّعون}: إليه ويفتقرون، بل مرَّ عليهم ذلك ثم زال كأنه لم يُصِبْهم، لم يزالوا في غيِّهم وكفرهم.
[76] ﴿وَلَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو پکڑ لیا ساتھ عذاب کے۔‘‘ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے وہ قحط مراد ہے جس میں وہ سات سال تک مبتلا رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مصیبت میں اس لیے ڈالا تاکہ وہ تذلل اور اطاعت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کریں مگر اس چیز نے انھیں کوئی فائدہ دیا نہ ان میں سے کوئی کامیاب ہوا۔ ﴿ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ﴾ پس وہ اپنے رب کے سامنے جھکے نہ انھوں نے فروتنی اختیار کی۔﴿وَ مَا يَتَضَرَّعُوْنَ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے نہ انھوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھا بلکہ قحط آیا اور گزر گیا مگر وہ اپنی گمراہی اور کفر پر قائم رہے گویا ان پر کوئی مصیبت آئی ہی نہ تھی۔
#
{77} ولكن وراءهم العذاب الذي لا يردُّ، وهو قوله: {حتى إذا فَتَحْنا عليهم بابًا ذا عذابٍ شديدٍ}: كالقتل يومَ بدرٍ وغيره؛ {إذا هم فيه مُبْلِسونَ}: آيِسون من كلِّ خيرٍ، قد حَضَرَهم الشرُّ وأسبابُه؛ فليحْذَروا قبل نزول عذاب الله الشديد، الذي لا يردُّ؛ بخلاف مجرَّد العذاب؛ فإنَّه ربما أقلع عنهم؛ كالعقوبات الدنيويَّة التي يؤدِّب الله بها عبادَه؛ قال تعالى فيها: {ظَهَرَ الفسادُ في البرِّ والبحر بما كَسَبَتْ أيدي الناسِ لِيذُيقَهم بعضَ الذي عَمِلوا لعلَّهم يرجِعونَ}.
[77] مگر ان کے پیچھے ایک ایسا عذاب ہے جسے روکا نہیں جا سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَ٘ابً٘ا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا۔‘‘ جیسے بدر کے روز ان کا قتل کیا جانا ﴿ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ ﴾ تب وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو جاتے ہیں ان کے پاس شر اور اس کے اسباب پہنچ چکے ہیں ، لہٰذا انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب نازل ہونے سے پہلے پہلے اپنا بچاؤ کرلیں ایسا عذاب جسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کے برعکس عام عذاب بسااوقات ان سے روک لیا جاتا ہے جیسے دنیاوی سزائیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تادیب کرتا ہے۔ اس قسم کی سزاؤں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (الروم:30؍41) ’’خشکی اور سمندروں میں لوگوں کی کرتوتوں کی وجہ سے فساد برپا ہوگیا تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں ۔‘‘
آیت: 78 - 80 #
{وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (78) وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (79) وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (80)}.
اور (اللہ) وہی ہے جس نے پیدا کیے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اوردل، تھوڑا ہی شکر کرتے ہو تم (78) اور وہی ہے جس نے پھیلایا تمھیں زمین میں اوراسی کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے (79) اور وہی ہے جو زندہ کرتااور مارتا ہےاور اسی (کے حکم) سے ہے ادل بدل کر آنا رات اور دن کا، کیا پس نہیں سمجھتے تم؟ (80)
#
{78} يخبرُ تعالى بِمِنَنِه على عباده الدّاعي لهم إلى شكرِهِ والقيام بحقِّه، فقال: {وهو الذي أنشأ لكم السمعَ}: لِتُدْرِكوا به المسموعاتِ فَتَنْتَفِعوا في دينِكم ودُنْياكم، {والأبصارَ}: لِتُدْرِكوا بها المُبْصَراتِ فتنتفِعوا بها في مصالِحِكم، {والأفئدةَ}؛ أي: العقول التي تدرِكون بها الأشياءَ وتتميَّزون بها عن البهائم؛ فلو عدِمْتُم السمعَ والأبصارَ والعقولَ بأن كنتم صمًّا عمياً بكماً؛ ماذا تكونُ حالكم؟ وماذا تفقِدون من ضروريَّاتِكم وكمالكم؟ أفلا تشكُرون الذي منَّ عليكُم بهذه النِّعم؛ فتقومون بتوحيدِهِ وطاعتِهِ؟ ولكنَّكم قليلاً شكركم مع توالي النعم عليكم.
[78] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نوازشوں کا ذکر کرتا ہے جو انھیں اس کے شکر اور اس کے حقوق ادا کرنے کی دعوت دیتی ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ ﴾ ’’اور وہی ہے جس نے پیدا کیے تمھارے لیے کان۔‘‘ تاکہ مسموعات کا ادراک کرسکو اور اس طرح تم اپنے دین و دنیا میں فائدہ اٹھا سکو ﴿ وَالْاَبْصَارَ ﴾ ’’اور آنکھیں ‘‘ تاکہ مرئیات کا ادراک کرسکو اور اپنے مصالح میں ان سے فائدہ اٹھا سکو۔ ﴿وَالْاَفْـِٕدَةَ﴾ ’’اور دل۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں عقل سے نوازا تاکہ تم اس کے ذریعے سے اشیاء کا ادراک کر سکو اور جانوروں سے ممتاز ہو سکو۔ اگر تم سماعت، بصارت اور عقل سے محروم ہو جاؤ بایں طو ر کہ تم بہرے، اندھے اور گونگے ہو جاؤ تو تمھارا کیا حال ہو؟ اور تم کن کن ضروریات اور کون کون سے کمالات سے محروم ہوکر رہ جاؤ؟ کیا تم اس ہستی کا شکر نہیں کرتے جس نے تمھیں ان نعمتوں سے نوازا ہے کہ تم اس کی توحید اور اطاعت پر قائم رہتے؟ مگر اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پے درپے نعمتوں کے باوجود، تم اس کا بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔
#
{79} {وهو}: تعالى {الذي ذَرَأَكم في الأرض}؛ أي: بثَّكم في أقطارها وجهاتها، وسلَّطكم على استخراج مصالحها ومنافعها، وجعلها كافيةً لمعايِشِكُم ومساكِنِكم. {وإليه تُحْشَرون}: بعد موتِكُم فيجازيكم بما عَمِلْتُم في الأرض من خيرٍ وشرٍّ، وتُحدِّث الأرضُ التي كنتُم فيها بأخبارها.
[79] ﴿وَهُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمھیں مختلف سمتوں میں زمین کے کناروں تک پھیلایا اور تمھیں زمین کے فوائد اور مصالح حاصل کرنے کی قدرت عطا کی اور زمین کو تمھاری معاش اور رہائش کے لیے کافی کر دیا۔ ﴿ وَاِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’اور (مرنے کے بعد) تم اسی کے پاس اکٹھے كيے جاؤ گے‘‘ اور زمین پر تم جس خیر و شر کا ارتکاب کرتے رہے ہو اس کا بدلہ پاؤ گے اور زمین، جس پر تم آباد تھے، تمھاری خبریں بیان کرے گی۔
#
{80} {وهو}: تعالى وحدَه {الذي يُحيي ويُميتُ}؛ أي: المتصرِّف في الحياة والموت هو الله وحده. {وله اختلافُ الليل والنهار}؛ أي: تعاقُبُهما وتناوُبُهما؛ فلو شاء أنْ يجعلَ النهار سرمداً، مَن إلهٌ غيرُ الله يأتيكم بليل تسكنون فيه؟ ولو شاء أن يجعل الليل سرمداً من إلهٌ غيرُ الله يأتيكم بضياءٍ أفلا تُبْصِرونَ؟ ومن رحمتِهِ جَعَلَ لكُم الليلَ والنهار لِتَسْكُنوا فيه ولِتَبْتَغوا من فضلِهِ ولعلَّكم تشكُرون. ولهذا قال هنا: {أفلا تعقلون}؛ فتعرِفون أنَّ الذي وَهَبَ لكم من النِّعم السمعَ والأبصارَ والأفئدةَ، والذي نَشَرَكم في الأرض وحدَه، والذي يُحيي ويُميت وحدَه، والذي يتصرَّف بالليل والنهار وحدَه؛ إنَّ ذلك موجبٌ لكم أن تُخْلِصوا له العبادة وحدَه لا شريك له، وتترُكوا عبادةَ مَنْ لا ينفَعُ ولا يضرُّ ولا يتصرَّف بشيء، بل هو عاجزٌ من كلِّ وجهٍ؛ فلو كان لكم عقلٌ؛ لم تَفْعَلوا ذلك.
[80] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُـمِیْتُ ﴾ وہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زندگی اور موت میں تصرف کرتا ہے۔ ﴿ وَلَهُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ﴾ یعنی شب و روز کا باری باری ایک دوسرے کے پیچھے آنا اسی کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے پھر اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمھارے آرام و سکون کے لیے تمھیں رات واپس لا دے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے پھر اللہ کے سوا کون ہے جو تمھیں دن کی روشنی واپس لا دے؟ کیا تم دیکھتے نہیں ؟ ﴿ وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ٘ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (القصص:28؍73) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم آرام کر سکو اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کر سکو اور شاید تم اللہ تعالیٰ کا شکر کرو۔‘‘ بنابریں یہاں فرمایا: ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ کہ تم یہ پہچان سکو کہ وہ ہستی جس نے تمھیں سماعت و بصارت اور عقل جیسی نعمتیں عطا کیں ، جس اکیلے نے تمھیں زمین پر پھیلایا، وہ ہستی جو اکیلی زندگی اور موت پر اختیار رکھتی ہے اور جو اکیلی رات اور دن پر تصرف کرتی ہے، یہ بات اس بات کو واجب ٹھہراتی ہے کہ تم خالص اسی کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں اور ان تمام ہستیوں کی عبادت چھوڑ دو، جو کسی قسم کا کوئی فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کسی چیز میں تصرف کی مالک ہی ہیں بلکہ وہ ہر لحاظ سے عاجز ہیں اگر تم میں ذرہ بھر بھی عقل ہوتی تو تم کبھی بھی ان کی عبادت نہ کرتے۔
آیت: 81 - 83 #
{بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ (81) قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (82) لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (83)}.
بلکہ انھوں کہامثل اسی کے جو کہا تھا پہلوں نے (81) انھوں نے کہا، کیاجب ہم مر جائیں گے اور ہو جائیں گے مٹی اور ہڈیاں ، کیا ہم البتہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ (82) البتہ تحقیق وعدہ دیے گئے ہیں ہم، ہم اور ہمارے باپ دادا بھی یہی اس سے پہلے، نہیں ہیں یہ مگر (قصے) کہانیاں پہلے لوگوں کی (83)
#
{81 ـ 83} أي: بل سَلَكَ هؤلاء المكذِّبون مَسْلَكَ الأوَّلين من المكذِّبين بالبعث، واستَبْعَدوه غايةَ الاستبعاد، وقالوا: {أإذا مِتْنا وكُنَّا تراباً وعظاماً أإنا لَمَبْعوثونَ}؛ أي: هذا لا يُتَصَوَّرُ ولا يدخلُ العقل بزعمهم. {لقد وُعِدْنا نحنُ وآباؤُنا هذا من قبلُ}؛ أي: ما زلنا نوعد بأنَّ البعث كائنٌ نحن وآباؤنا، ولم نره، ولم يأت بعدُ. {إنْ هذا إلا أساطيرُ الأولينَ}؛ أي: قَصَصُهم وأسمارُهم التي يُتَحَدَّثُ بها وتُلهي، وإلاَّ؛ فليس لها حقيقةٌ، وكَذَبوا قبَّحهم الله؛ فإنَّ الله أراهم من آياتِهِ أكبرَ من البعث، ومثله: {لَخَلْقُ السمواتِ والأرضِ أكبرُ من خلق الناس}، {وضرب لنا مثلاً ونَسِيَ خَلْقَه قال مَن يُحيي العظام وهي رميمٌ ... } الآيات، {وترى الأرضَ هامدةً فإذا أنزلنا عليها الماء اهتزَّتْ ورَبَتْ ... } الآيات.
[81,83] ﴿ بَلْ قَالُوْا مِثْ٘لَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ ’’بلکہ انھوں نے بھی ایسی ہی بات کہی جو پہلوں نے کہی تھی۔‘‘ یعنی یہ مکذبین بھی انھی راہوں پر چل پڑے جن پر ان سے پہلے زندگی بعد موت کی تکذیب کرنے والے گامزن تھے، زندگی بعد موت کو بہت بعید سمجھتے تھے اور کہاکرتے تھے: ﴿ءَاِذَا مِتْنَا وَؔكُنَّا تُرَابً٘ا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُ٘وْنَ۠ ﴾ ’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟‘‘ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق اس کا تصور کیا جا سکتا ہے نہ یہ بات عقل میں آسکتی ہے۔ ﴿ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَآؤُنَا هٰؔذَا مِنْ قَبْلُ ﴾ یعنی ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہ وعدہ کیا جاتا رہا ہے کہ قیامت آئے گی، ہمیں اور ہمارے آباء و اجداد کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہم نے تو اسے نہیں دیکھا اور نہ آئندہ ہی وہ آئے گی۔ ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ ﴾ یہ تو محض قصے کہانیاں ہیں جو کھیل کے طور پر بیان کی جاتی ہیں ورنہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ۔ وہ جھوٹ کہتے ہیں … اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے … اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروایا جو قیامت کے برپا ہونے سے بھی بڑی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَخَلْ٘قُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْ٘قِ النَّاسِ ﴾ (غافر:40؍57) ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق یقیناً انسان کی تخلیق سے زیادہ بڑا کام ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ﴾ (یٰسۗ:36؍78) ’’وہ ہمارے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے: ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو کر مٹی بن چکی ہوں گی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَتَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَؔ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ﴾ (الحج:22؍5) ’’تو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ سوکھی پڑی ہے،ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور پھول گئی۔‘‘
آیت: 84 - 89 #
{قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (85) قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (86) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ (89)}.
آپ کہہ دیجیے! کس کے لیے ہے زمین اور جو (مخلوق) اس میں ہے اگر ہو تم جانتے ؟ (84) ضرور کہیں گے وہ، اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہہ دیجیے! کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟ (85) کہہ دیجیے! کون ہے رب ساتوں آسمانوں کا اور رب عرش عظیم کا؟ (86) ضرور کہیں گے وہ، اللہ ہی کے لیے ہے، کہہ دیجیے! کیا پس نہیں ڈرتے تم؟ (87)کہہ دیجیے! کون ہے جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی ہر چیز کی اور وہی پناہ دیتا ہے اور نہیں پناہ دی جاسکتی اس کے مقابلے میں اگر ہو تم جانتے؟ (88) ضرور کہیں گے وہ، اللہ ہی کے لیے ہے، کہہ دیجیے! پس کہاں سے جادو کیے جاتے ہو تم؟ (89)
#
{84 ـ 85} أي: قُلْ لهؤلاء المكذِّبين بالبعث، العادلين بالله غيرَهُ؛ محتجًّا عليهم بما أثبتوه وأقرُّوا به من توحيد الرُّبوبيَّة وانفرادِ اللهّ بها على ما أنكروه من توحيد الإلهيَّة والعبادة، وبما أثبتوه من خَلْق المخلوقات العظيمة على ما أنكروه من إعادةِ الموتى الذي هو أسهل من ذلك: {لِمَنِ الأرضُ ومَن فيها}؛ أي: مَنْ هو الخالقُ للأرض ومَنْ عليها من حيوان ونباتٍ وجمادٍ وبحارٍ وأنهارٍ وجبال، المالك لذلك، المدبِّر له؛ فإنَّك إذا سألتَهم عن ذلك؛ لا بدَّ أن يقولوا: اللهُ وحدَه. فقل لهم إذا أقرُّوا بذلك: {أفلا تَذَكَّرونَ}؛ أي: أفلا ترجعون إلى ما ذكَّركم الله به مما هو معلومٌ عندكم مستقرٌّ في فِطَرِكُم قد يُغيبه الإعراضُ في بعض الأوقات، والحقيقة أنَّكم إن رجعتم إلى ذاكِرَتِكُم بمجرَّد التأمُّل؛ علمتُم أنَّ مالك ذلك هو المعبود وحده، وأن إلهيَّة من هو مملوكٌ أبطلُ الباطل.
[85,84] یعنی زندگی بعد الموت اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں سے، جو اللہ تعالیٰ کے ہم سر اور شریک ٹھہراتے ہیں توحید ربوبیت کو جس کا وہ اقرار اور اثبات کرتے ہیں توحید الوہیت اور توحید عبادت پر دلیل بناتے ہوئے، اسی طرح بڑی بڑی مخلوقات کی تخلیق کے اثبات کو، مرنے کے بعد زندگی کے اعادہ پر، جوکہ اس سے آسان تر ہے، برہان ٹھہراتے ہوئے، کہیے! ﴿ لِّ٘مَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهَاۤ ﴾ یعنی زمین اور زمین کی تمام مخلوقات، حیوانات، نباتات، جمادات، سمندروں ، دریاؤں اور پہاڑوں کو کس نے پیدا کیا، ان کا مالک کون ہے اور کون ان کی تدبیر کرتا ہے؟ اگر آپ ان سے اس بارے میں سوال کریں تو وہ یہی جواب دیں گے ’’صرف اللہ‘‘! جب وہ اس حقیقت کا اقرار کرلیں تو آپ ان سے کہیے! ﴿اَفَلَا تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ یعنی کیا تم اس چیز کی طرف رجوع نہیں کرتے جس کی یاددہانی تمھیں اللہ تعالیٰ نے کروائی ہے جس کا تمھیں علم ہے جو تمھاری فطرت میں راسخ ہے البتہ اعراض بسااوقات اسے ذہن سے غائب کر دیتا ہے … حقیقت یہ ہے کہ اگر تم مجرد تھوڑے سے غور و فکر کے ذریعے سے، اپنی اس یاددہانی کی طرف رجوع کرو تو تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس تمام کائنات کا مالک ہی اکیلا معبود ہے اور وہ ہستی جو مملوک ہے، اس کی الوہیت سب سے بڑا باطل ہے۔
#
{86 ـ 87} ثم انتقل إلى ما هو أعظم من ذلك، فقال: {قلْ مَن ربُّ السمواتِ السبع}: وما فيها من النيِّرات والكواكب السيَّارات والثوابت، {وربُّ العرش العظيم}: الذي هو أعلى المخلوقات وأوسُعها وأعظمُها؛ فمن الذي خَلَقَ ذلك ودبَّره وصرَّفه بأنواع التدبير؟ {سيقولون لله}؛ أي: سيقرُّون بأنَّ الله ربُّ ذلك كله، قل لهم حين يُقِرُّون بذلك: {أفلا تتَّقونَ}: عبادةَ المخلوقاتِ العاجزةِ وتتَّقون الربَّ العظيم كامل القدرة عظيم السلطان؟! وفي هذا من لطف الخطاب من قوله: {أفلا تذكرون}، {أفلا تتَّقونَ}؛ والوعظ بأداة العرض الجاذبة للقلوب ما لا يخفى.
[87,86] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی بڑی دلیل کی طرف منتقل ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ ﴾ ’’کہہ دیجیے سات آسمانوں کا رب کون ہے؟‘‘ اور ان کے اندر ستاروں ، سیاروں ، کواکب اور ثوابت کا رب کون ہے؟ ﴿ وَرَبُّ الْ٘عَرْشِ الْعَظِیْمِ ﴾ ’’اور عرش عظیم کا رب کون ہے‘‘ جو تمام مخلوقات سے زیادہ بلند، سب سے وسیع اور سب سے بڑا ہے؟ وہ کون ہے جس نے اس پورے نظام کی تخلیق کی پھر اس کی تدبیر کی اور وہ مختلف تدابیر کے ذریعے سے ان میں تصرف کرتا ہے؟ ﴿ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ﴾ یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ ان سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو ان سے کہیے! ﴿ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’کیا پس تم (عاجز اور بے بس مخلوق کی عبادت سے ) بچتے کیوں نہیں ؟‘‘ اس کے برعکس تم رب عظیم کی عبادت سے، جو کامل قدرت اور عظیم قوت کا مالک ہے، دور بھاگتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں خطاب کا ایسا اسلوب ہے جو لطف و کرم پر مبنی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ﴾ میں نظر آتا ہے، نیز اس میں وعظ و نصیحت کا ایسا پیرایہ ہے جو انتہائی دلکش ہے۔
#
{88 ـ 89} ثم انتقل إلى إقرارهم بما هو أعمُّ من ذلك كلِّه، فقال: {قل من بيدِهِ ملكوتُ كلِّ شيءٍ}؛ أي: ملك كل شيء من العالم العلويِّ والعالم السفليِّ، ما نبصِرُه وما لا نبصِرُه، والملكوتُ صيغةُ مبالغةٍ؛ بمعنى الملك. {وهو يُجيرُ}: عباده من الشرِّ ويدفعُ عنهم المكارِهَ ويحفَظُهم مما يضرُّهم، {ولا يُجارُ عليه}؛ أي: لا يقدر أحدٌ أن يجيرَ على الله ولا يدفَعَ الشرَّ الذي قدَّره الله، بل ولا يشفَعُ أحدٌ عنده إلاَّ بإذنه. {سيقولون لله}؛ أي: سيقرُّون أنَّ الله المالك لكل شيءٍ، المجيرُ الذي لا يُجار عليه، {قل} لهم حين يقرُّون بذلك ملزِماً لهم: {فأنَّى تُسْحَرونَ}؛ أي: فأين تذهبُ عقولُكم حيث عبدتم مَنْ علمتم أنَّهم لا مُلك لهم ولا قِسْطَ من الملك، وأنَّهم عاجزون من جميع الوجوه، وتركتُم الإخلاص للمالِكِ العظيم القادرِ المدبِّر لجميع الأمور؟ فالعقول التي دلَّتكم على هذا لا تكون إلاَّ مسحورةً، وهي بلا شكٍّ قد سَحَرَها الشيطانُ بما زيَّنَ لهم، وحسَّنَ لهم وقَلَبَ الحقائق لهم فَسَحَرَ عقولَهم، كما سَحَرَت السحرةُ أعينَ الناس.
[89,88] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے اس امر کے اقرار کی طرف منتقل ہوتا ہے جو ان سب سے زیادہ عمومیت کا حامل ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ مَنْۢ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ یعنی عالم علوی اور عالم سفلی میں جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے اور جو کچھ ہمیں نظر نہیں آتا ان سب کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ (الملکوت)اقتدار اور بادشاہی کے لیے مبالغے کا صیغہ ہے۔ ﴿ وَّهُوَ یُجِیْرُ ﴾ ’’وہ شر سے پناہ دیتا ہے‘‘ اپنے بندوں کو ، ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان چیزوں سے ان کو محفوظ کرتا ہے جو انھیں ضرر پہنچاتی ہیں ﴿وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ ﴾ کسی کی قدرت میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو پناہ دے سکے اور نہ کوئی اس شر اور تکلیف کو دور کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا ہو بلکہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کسی کو سفارش کرنے کی بھی مجال نہیں ۔ ﴿ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ﴾ یعنی وہ اس حقیقت کا اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے، وہی پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ ﴿قُ٘لْ﴾ جب وہ اس حقیقت کا اقرار کریں تو الزامی طور پر ان سے کہہ دیجیے! ﴿ فَاَنّٰى تُ٘سْحَرُوْنَ﴾ ’’پھر تم کہاں سے جادو کر دیے جاتے ہو؟‘‘ یعنی پھر تمھاری عقل کہاں ماری جاتی ہے کہ تم ان ہستیوں کی عبادت کرنے لگے جن کے بارے میں تم خود جانتے ہو کہ وہ کسی چیز کی مالک نہیں ، اقتدار میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور وہ ہر لحاظ سے عاجز اور بے بس ہیں اور تم نے مالک عظیم، قادر مطلق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے لیے اخلاص کو ترک کر دیا۔ اس لیے وہ عقل جس نے اس غیر معقول کام کی طرف تمھاری راہ نمائی کی ہے، سحر زدہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ۔ بلاشبہ شیطان نے ان کی عقل پر جادو کر دیا ہے اس نے ان کے سامنے شرک کو مزین کرکے خوبصورت بنا کر دکھایا، حقائق کو بدل ڈالا اور یوں ان کی عقلوں پر جادو کر دیا جس طرح جادوگر لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیتے ہیں ۔
آیت: 90 - 92 #
{بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (90) مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (91) عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (92)}.
بلکہ لائے ہیں ہم ان کے پاس حق اور بلاشبہ وہ البتہ جھوٹے ہیں (90) نہیں بنائی اللہ نے کوئی اولاد اور نہ ہے اس کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہی (اگر ہوتا تو) اس وقت البتہ لے جاتا ہر معبود اس چیز کو جو اس نے پیدا کی اور البتہ چڑھائی کرتا بعض ان کا اوپر بعض کے، پاک ہے اللہ ان (باتوں ) سے جو وہ بیان کرتے ہیں (91) جاننے والا ہے غیب اور حاضر کا، پس وہ برتر ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں (92)
#
{90 ـ 92} يقولُ تعالى: بل أتينا هؤلاء المكذِّبين بالحقِّ؛ المتضمِّن للصدق في الأخبار، العدل في الأمر والنهي؛ فما بالُهم لا يعترِفون به، وهو أحقُّ أن يُتَّبَع، وليس عندَهم ما يعوِّضُهم عنه إلاَّ الكذبُ والظلمُ؟! ولهذا قال: {وإنَّهم لَكاذبون. ما اتَّخَذَ الله من ولدٍ وما كان معه من إلهٍ}: كذبٌ يُعْرَفُ بخبرِ الله وخبرِ رسلِهِ، ويُعْرَفُ بالعقل الصحيح، ولهذا نَبَّهَ تعالى على الدليل العقليِّ على امتناع إلهين فقال: {إذاً}؛ أي: لو كان معه آلهةٌ كما يقولون؛ {لَذَهَبَ كلُّ إلهٍ بما خَلَقَ}؛ أي: لانفرد كلُّ واحدٍ من الإلهين بمخلوقاتِهِ واستقلَّ بها، ولحرص على ممانعة الآخر ومغالبته، {ولَعَلا بعضُهم على بعضٍ}؛ فالغالب يكون هو الإله؛ فمع التمانُع لا يمكِنُ وجودُ العالَم ولا يُتَصَوَّرُ أن يَنْتَظِمَ هذا الانتظامَ المدهشَ للعقول، واعتبر ذلك بالشمس والقمر والكواكب الثابتة والسيَّارة؛ فإنَّها منذ خُلِقَتْ وهي تجري على نظام واحدٍ وترتيبٍ واحدٍ، كلُّها مسخرةٌ بالقدرةِ، مدبَّرةٌ بالحكمة لمصالح الخَلْق كلِّهم، ليست مقصورةً على مصلحةِ أحدٍ دون أحدٍ، ولن ترى فيها خللاً ولا تناقضاً ولا معارضةً في أدنى تصرُّف؛ فهل يُتَصَوَّرُ أن يكون ذلك تقدير إلهيْنِ ربَّيْنِ. {سبحان اللهِ عمَّا يصفِون}: قد نطقتْ بلسانِ حالِها، وأفهمتْ ببديع أشكالها: أنَّ المدبِّر لها إلهٌ واحدٌ؛ كامل الأسماء والصفات، قد افتقرتْ إليه جميعُ المخلوقات في ربوبيَّتِهِ لها وفي إلهيَّتِهِ لها؛ فكما لا وجود لها ولا دوام إلاَّ بربوبيَّتِهِ؛ كذلك لا صلاح لها ولا قِوامَ إلاَّ بعبادته وإفراده بالطاعة. ولهذا نبَّه على عظمةِ صفاتِهِ بأنموذج من ذلك، وهو علمُهُ المحيطُ، فقال: {عالم الغيب}؛ أي: الذي غاب عن أبصارِنا وعلمنا من الواجبات والمستحيلات والممكنات {والشهادةِ}: وهو ما نشاهِدُ من ذلك. {فتعالى}؛ أي: ارتفع وعظم {عما يُشْرِكون}: به، ولا علم عندَهم إلاَّ ما علَّمه الله.
[92-90] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ ہم ان جھٹلانے والوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں جو خبر میں صدق اور امرونہی میں عدل کو متضمن ہے۔ ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ حق کا اعتراف نہیں کرتے حالانکہ حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے؟ ان کے پاس جھوٹ اور ظلم کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو حق کا بدل بن سکے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’اور وہ سخت جھوٹے ہیں ۔‘‘ ﴿ مَا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰ٘هٍ﴾ ’’اللہ کی کوئی اولاد ہے نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے۔‘‘ یعنی یہ سب جھوٹ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے آگاہ فرمایا ہے اور جسے عقل صحیح خوب پہچانتی ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے دو خداؤں کے ممتنع ہونے پر عقلی دلیل کی طرف توجہ دلائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِذًا ﴾ ’’اس وقت۔‘‘ یعنی اگر ان کے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوں ﴿ لَّذَهَبَ كُ٘لُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ ﴾ یعنی دونوں خدا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے اپنی اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتے۔ ﴿ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’اور ایک، دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔‘‘ پس جو غالب ہوتا وہی معبود ہوتا ۔ اس قسم کی کھینچا تانی میں وجود کائنات کا باقی رہنا ممکن نہیں تھا اور نہ اس صورت حال میں کائنات کے اس عظیم انتظام کا تصور کیا جا سکتا ہے جسے دیکھ کر عقل حیرت میں گم ہو جاتی ہے۔اس کا اندازہ سورج، چاند، منجمد ستاروں اور سیاروں کے درمیان باہمی نظم کودیکھ کر کرو! جب سے ان کو پیدا کیا گیا ہے یہ ایک خاص ترتیب اور ایک خاص نظام کے مطابق چل رہے ہیں ، اس بے کراں کائنات کے تمام سیارے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مسخر ہیں ، اس کی حکمت تمام مخلوق کی ضروریات و مصالح کے مطابق ان کی تدبیر کرتی ہے، ان میں کوئی ایک دوسرے پر منحصر نہیں ۔ آپ اس نظام کائنات میں ، اس کے کسی ادنیٰ سے تصرف میں بھی کوئی خلل دیکھیں گے نہ تناقض اور تعارض۔ کیا دو معبودوں کے انتظام کے تحت اس قسم کے نظام کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟ … ﴿سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ ’’اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یہ تمام کائنات اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے اور اپنی مختلف اشکال کے ذریعے سے سمجھا رہی ہے کہ اس کی تدبیر کرنے والا، الٰہ ایک ہے جو کامل اسماء و صفات کا مالک ہے تمام مخلوقات، اس کی ربوبیت و الوہیت میں اس کی محتاج ہے۔ جس طرح اس کی ربوبیت کے بغیر مخلوقات کا کوئی وجود ہے نہ اس کو کوئی دوام، اسی طرح صرف اسی کی عبادت اور صرف اسی کی اطاعت کے بغیر مخلوقات کے لیے کوئی صلاح ہے نہ اس کا کوئی قوام۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونے کے ذریعے سے اپنی صفات مقدسہ کی عظمت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور وہ ہے اس کا علم محیط، چنانچہ فرمایا: ﴿عٰلِمِ الْغَیْبِ ﴾ یعنی وہ تمام واجبات، مستحیلات اور ممکنات کوجاننے والا ہے جو ہماری نظروں اور ہمارے علم سے اوجھل ہیں ﴿ وَالشَّهَادَةِ ﴾ اور وہ ان امور کو بھی جانتا ہے جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ﴿فَ٘تَ٘عٰ٘لٰ٘ى ﴾ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ﴿ عَمَّا یُشْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’ان ہستیوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں سوائے اس علم کے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔
آیت: 93 - 95 #
{قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ (93) رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (94) وَإِنَّا عَلَى أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ (95)}.
آپ کہہ دیجیے! اے میرے رب! اگر تو دکھلادے مجھے وہ جو وعدہ دیے جاتے ہیں وہ (93) اے میرے رب! پس نہ کرنا مجھے ظالم لوگوں میں (94) اور بلاشبہ ہم اس (بات) پر، کہ ہم دکھلائیں آپ کو وہ (عذاب) جس کا وعدہ کر رہے ہیں ہم ان سے، البتہ قادر ہیں (95)
#
{93 ـ 95} لمَّا أقام تعالى على المكذِّبين أدلَّتَه العظيمةَ، فلم يلتَفِتوا لها، ولم يُذْعِنوا لها؛ حقَّ عليهم العذابُ، ووُعِدوا بنزوله، وأرشد اللهُ رسولَه أن يقول: {قُلْ ربِّ إمَّا تُرِيَنِّي ما يوعَدونَ}؛ أي: أيَّ وقتٍ أريتني عذابَهم وأحضرتَني ذلك، {ربِّ فلا تَجْعَلْني في القوم الظالمين}؛ أي: اعصِمْني وارْحَمْني مما ابتلَيْتَهم به من الذُّنوب الموجبة للنقم، واحْمِني أيضاً من العذاب الذي ينزِلُ بهم؛ لأنَّ العقوبة العامَّة تَعُمُّ عند نزولها العاصي وغيره. قال الله في تقريب عذابهم: {وإنَّا على أن نُرِيَكَ ما نَعِدُهُم لَقادِرونَ}: ولكنْ إنْ أخَّرْناه؛ فلحكمةٍ، وإلاَّ؛ فقُدْرَتنا صالحةٌ لإيقاعِهِ [فيهم].
[95-93] چونکہ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں پر اپنے عظیم دلائل و براہین قائم کر دیے مگر انھوں نے ان دلائل کی طرف التفات کیا نہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا اس لیے ان پر عذاب واجب ہوگیا اور ان پر عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے رسولe سے فرمایا کہ وہ یوں کہیں : ﴿ قُ٘لْ رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیْ مَا یُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی اے رب! تو جس وقت بھی ان پر ٹوٹنے والا عذاب مجھے دکھائے اور میری موجودگی میں تو یہ عذاب لائے ﴿ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تو اے میرے رب! تو مجھے ظالموں میں سے نہ کرنا۔‘‘ یعنی اے میرے رب! مجھ پر رحم فرما مجھے ان گناہوں سے بچا لے جو تیری ناراضی کے موجب ہیں اور جن کے ذریعے سے تو نے ان کفار کو آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔ اے میرے رب ! مجھے اس عذاب سے بھی بچا لے جو ان پر نازل ہوگا کیونکہ عذاب عام جب نازل ہوتا ہے تو نیک اور بد سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عذاب کے قریب ہونے کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿ وَاِنَّا عَلٰۤى اَنْ نُّ٘رِیَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ ﴾ ’’اور ہم اس بات پر کہ ہم آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا وعدہ ہم ان سے کرتے ہیں ، یقینا قادر ہیں ۔‘‘ لیکن اگر ہم اس عذاب کو موخر کرتے ہیں تو کسی حکمت کی بنا پر، ورنہ ہم اس عذاب کو واقع کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتے ہیں ۔
آیت: 96 - 98 #
{ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ (96) وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ (97) وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (98)}.
ٹالیے ساتھ اس (طریقے) کے کہ وہ اچھا ہے، برائی کو۔ ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو وہ بیان کرتے ہیں (96)اور کہیں ، اے میرے رب! میں تیری پناہ میں آتا ہوں وسوسوں سے شیطانوں کے (97) اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں اے میرے رب! اس سے کہ وہ حاضر ہوں میرے پاس (98)
#
{96} هذا من مكارم الأخلاق التي أمر اللهُ رسولَه بها، فقال: {ادفَعْ بالتي هي أحسنُ السيئةَ}؛ أي: إذا أساء إليك أعداؤك بالقول والفعل؛ فلا تقابِلْهم بالإساءة؛ مع أنَّه يجوزُ معاقبة المسيء بمثل إساءته، ولكن ادْفَعْ إساءتهم إليك بالإحسان منك إليهم؛ فإنَّ ذلك فضلٌ منك على المسيء، ومن مصالح ذلك أنَّه تخفُّ الإساءة عنك في الحال وفي المستقبل، وأنَّه أدعى لجلب المسيء إلى الحقِّ، وأقرب إلى ندمه وأسفه ورجوعِهِ بالتوبة عمَّا فَعَلَ، ويتَّصِفُ العافي بصفة الإحسان، ويقهرُ بذلك عدوَّه الشيطان، ويستوجبُ الثواب من الربِّ؛ قال تعالى: {فَمَنْ عفا وأصلحَ فأجرُهُ على الله}، وقال تعالى: {ادفَعْ بالتي هي أحسنُ السيئةَ فإذا الذي بينَكَ وبينَهُ عداوةٌ كأنَّه وليٌّ حميمٌ. وما يُلَقَّاها}؛ أي: ما يوفَّق لهذا الخُلُق الجميل {إلاَّ الذين صَبَروا وما يُلَقَّاها إلاَّ ذو حظٍّ عظيم}. وقوله: {نحن أعلم بما يَصِفون}؛ أي: بما يقولون من الأقوال المتضمِّنة للكفر والتكذيب بالحق، قد أحاط علمُنا بذلك، وقد حَلِمْنا عنهم وأمهَلْناهم وصبَرْنا عليهم، والحقُّ لنا، وتكذيبُهم لنا؛ فأنت يا محمد ينبغي لك أن تصبِرَ على ما يقولون، وتقابِلَهم بالإحسان. هذه وظيفة العبد في مقابلة المسيء من البشر.
[96] یہ ان مکارم اخلاق میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (e) کو حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِدْفَ٘عْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ ﴾ ’’دور کریں برائی کو اس طریقے سے جو احسن ہو۔‘‘ یعنی جب آپe کے دشمن قول و فعل کے ذریعے سے آپ کے ساتھ برائی سے پیش آئیں تو آپ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئیں ، ہرچند کہ برائی کا بدلہ اسی قسم کی برائی سے دینا جائز ہے مگر آپ ان کے برے سلوک کے بدلے میں ، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں یہ آپe کی طرف سے برا سلوک کرنے والے پر احسان ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ حال اور مستقبل میں آپe کی طرف سے برائی میں تخفیف ہوگی۔ آپ کا یہ حسن سلوک آپ کے ساتھ برائی سے پیش آنے والے کو حق کی طرف لانے میں زیادہ ممد ثابت ہوگا۔ آپ کا حسن سلوک برائی سے پیش آنے والے کو ندامت، تاسف اور توبہ کے ذریعے سے بدسلوکی سے رجوع کرنے کے زیادہ قریب لے آئے گا۔ معاف کرنے والے کو احسان کی صفت سے متصف ہونا چاہیے ، اس سے وہ اپنے دشمن شیطان پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور رب کریم کی طرف سے ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ عَفَا وَاَصْلَ٘حَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ﴾ (الشوریٰ:42؍40) ’’جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اِدْفَ٘عْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۰۰وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا١ۚ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ (حم السجدۃ:41؍34،35) ’’آپ برائی کو ایسی نیکی کے ذریعے سے روكيے جو بہترین ہو تب آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص، جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے، آپ کا جگری دوست بن جائے گا اور یہ صفت نصیب نہیں ہوتی (یعنی خلق جمیل کی توفیق) مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اس صفت سے بہرہ مند نہیں ہوتے مگر وہ لوگ جو بہت بڑے نصیب کے مالک ہیں ۔‘‘ ﴿نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ﴾ ’’ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان باتوں کو جو کفر اور تکذیب حق کو متضمن ہیں ہمارے علم نے ان کی باتوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ ہم نے ان کے بارے میں حلم سے کام لیا، ہم نے ان کو مہلت دی اور ہم نے ان کے بارے میں صبر کیا ہے۔ حق ہمارے لیے ہے اور ان کی تکذیب بھی ہماری طرف لوٹتی ہے۔ اے محمد! (e) آپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپ ان کی اذیت ناک باتوں پر صبر کریں اور ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں انسانوں کی طرف سے برے سلوک کے مقابلے میں بندۂ مومن کا یہی وظیفہ ہے۔
#
{97 ـ 98} وأما المسيء من الشياطين؛ فإنَّه لا يُفيد فيه الإحسانُ، ولا يدعو حِزْبَهُ إلاَّ لِيكونوا من أصحاب السعير؛ فالوظيفةُ في مقابلته أن يسترشِدَ بما أرشد الله إليه رسوله، فقال: {وقُل ربِّ أعوذُ بك}؛ [أي: أعتصم بحولك وقوَّتك متبرئًا من حولي وقوَّتي]، {من هَمَزات الشياطين. وأعوذُ بكَ ربِّ أن يحضُرونِ}؛ أي: أعوذُ بك من الشرِّ الذي يصيبُني بسبب مباشرتِهِم وهَمْزِهِم ومسِّهم، ومن الشرِّ الذي بسبب حضورِهِم ووسوستِهِم، وهذه استعاذةٌ من مادَّة الشرِّ كلِّه وأصله، ويدخُلُ فيه الاستعاذةُ من جميع نَزَغات الشيطان ومن مسِّه ووسوستِهِ؛ فإذا أعاذ اللهُ عبدَه من هذا الشرِّ، وأجاب دعاءَه؛ سَلِمَ من كلِّ شرٍّ، ووفِّقَ لكلِّ خير.
[98,97] رہی شیاطین کی بدسلوکی تو ان کے ساتھ حسن سلوک کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ شیاطین تو اپنے گروہ کے لوگوں کو دعوت دیتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ جہنم میں جھونکے جانے والوں میں شامل ہو جائیں ۔پس شیطان کی بدسلوکی کے مقابلے میں بندۂ مومن کا وظیفہ وہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کی راہ نمائی فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقُ٘لْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ ﴾ یعنی میں اپنی قدرت و قوت سے براء ت کا اظہار کرکے تیری قدرت و قوت کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ ﴿ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ۰۰ وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ﴾ یعنی میں اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو ان شیاطین سے ملنے جلنے کی وجہ سے مجھے لاحق ہو سکتا ہے، نیز میں ان کی وسوسہ اندازی اور ایذارسانی سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اور میں اس شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو ان کی موجودگی اور ان کی وسوسہ اندازی کے باعث مجھے لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ استعاذہ ہر قسم کے شر اور اس کی اصل سے پناہ طلبی ہے اس میں شیطان کی دراندازی، اس کا وسوسہ اور اس کی ایذارسانی وغیرہ سب داخل ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول کرکے اسے شیطان کے شر سے پناہ دے دیتا ہے تو بندہ ہر شر سے محفوظ و مصئون ہو جاتا ہے اور اسے ہر بھلائی کی توفیق عطا ہو جاتی ہے۔
آیت: 99 - 100 #
{حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)}.
حتی کہ جب آئے گی ایک کو ان میں سے موت تو کہے گا، اے میرے رب! واپس لوٹادے مجھے (99) تاکہ میں عمل کروں صالح دنیا میں جسے میں چھوڑ آیا، ہرگز نہیں ، بے شک یہ ایک بات ہے، وہ کہنے والا ہے اسے اور ان کے آگے ایک پردہ ہے اس دن تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے (100)
#
{99 ـ 100} يخبرُ تعالى عن حال مَنْ حَضَرَهُ الموت من المفرِّطين الظَّالمين: أنَّه يندمُ في تلك الحال إذا رأى مآله، وشاهَدَ قُبْحَ أعماله، فيطلبُ الرجعة إلى الدنيا، لا للتمتُّع بلذَّاتها واقتطاف شَهَواتها، وإنَّما ذلك يقول: {لعلِّي أعملُ صالحاً فيما تركتُ}: من العمل وفرَّطْتُ في جَنْب الله. {كلاَّ}؛ أي: لا رجعةَ له ولا إمهالَ، قد قضى اللهُ أنَّهم إليها لا يُرْجَعون، {إنَّها}؛ أي: مقالتُه التي تمنَّى فيها الرجوعَ إلى الدُّنيا {كلمةٌ هو قائلُها}؛ أي: مجرد قول باللسانِ، لا يفيدُ صاحبَه إلاَّ الحسرةَ والندم، وهو أيضاً غير صادقٍ في ذلك؛ فإنَّه لَوْ رُدَّ لَعادَ لما نُهِيَ عنه. {ومن ورائِهِم برزخٌ إلى يوم يُبْعَثونَ}؛ أي: من أمامهم وبين أيديهم برزخٌ، وهو الحاجز بين الشيئين؛ فهو هنا الحاجزُ بين الدُّنيا والآخرة، وفي هذا البرزخ يتنعَّم المطيعونَ، ويعذَّبُ العاصونَ من موتِهِم إلى يوم يبعثونَ؛ أي: فَلْيَعُدُّوا له عُدَّتَهُ، وليأخذوا له أُهْبَتَهُ.
[100,99] اللہ تبارک و تعالیٰ بدکردار اور ظالم لوگوں کے ان لمحات کا حال بیان فرماتا ہے جب موت ان کے سامنے آتی ہے۔ جب وہ اپنے انجام کو دیکھتے ہیں اور اپنے اعمالِ بد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس حال میں وہ سخت نادم ہوتے ہیں تو وہ دنیا میں واپس لوٹنے کی خواہش کرتے ہیں ، اس کی لذات سے متمتع اور اس کی شہوات سے مستفید ہونے کی خاطر نہیں بلکہ وہ صرف یہ کہتے ہیں : ﴿٘لَعَ٘لِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَؔكْتُ ﴾ ’’شاید کہ میں نیک عمل کروں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں ۔‘‘ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو کوتاہی کی اور نیک اعمال کو ترک کیا شاید ان نیک اعمال کو سرانجام دے سکوں ۔ ﴿كَلَّا﴾ ’’ہرگز نہیں ‘‘ یعنی اب وہ دنیا میں واپس لوٹ سکیں گے نہ ان کو مہلت عطا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ وہ دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔ ﴿اِنَّهَا ﴾ یعنی ان کی وہ بات جس میں وہ دنیا میں واپس جانے کی تمنا کرتے ہیں ﴿ كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا﴾ مجرد زبان سے نکلی ہوئی بات ہے جو اپنے قائل کو حسرت و ندامت کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گی… علاوہ بریں وہ اس میں بھی سچا نہیں ہے کیونکہ اگر اسے دنیا میں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کرے گا جن سے اس کو روکا گیا تھا۔ ﴿ وَمِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے سامنے برزخ ہے ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک۔‘‘ (برزخ) دو چیزوں کے درمیان رکاوٹ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں وہ حجاب مراد ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان حائل ہے۔ اس برزخ میں اللہ تعالیٰ کے مطیع بندے نعمتوں سے سرفراز ہوں گے اور نافرمانوں کو عذاب دیا جائے گا موت کی ابتدا یعنی ان کو قبروں میں رکھے جانے سے لے کر قیامت کے روز دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت تک۔ پس ان کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے تیاری اور اس کا سامان کریں ۔
آیت: 101 - 114 #
{فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (101) فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (102) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ (103) تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ (104) أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ (105) قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ (106) رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ (107) قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (108) إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (109) فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّى أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ (110) إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ (111) قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (112) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ (113) قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (114)}.
پس جب پھونکاجائے گا صور میں تو نہ قرابت داریاں رہیں گے ان کے درمیان اس دن اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے (101) پس وہ شخص کہ بھاری ہو گئے پلڑے اس کے تو وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں (102)اور وہ شخص کہ ہلکے ہو گئے پلڑے اس (کی نیکیوں ) کے تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں رکھا اپنے آپ کو، جہنم میں وہ ہمیشہ رہیں گے (103) جلا ڈالے گی ان کے چہروں کو آگ اور وہ اس میں بد شکل ہوں گے (104)(کہا جائے گا) کیا نہیں تھیں آیتیں میری تلاوت کی جاتیں تم پر، پس تھے تم ان کو جھٹلاتے؟ (105) وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! غالب آگئی ہم پر ہماری بد بختی اور تھے ہم لوگ گمراہ (63) اے ہمارے رب! تو نکال ہمیں اس سے، پس اگر دوبارہ کریں ہم تو بلاشبہ ہم ظالم ہوں گے (63) اللہ کہے گا، ذلیل و خوار پڑے رہو اسی میں اور مت کلام کرو مجھ سے (74) بے شک تھا ایک فریق میرے بندوں میں سے وہ کہتے تھے، اے ہمارے رب! ایمان لائے ہم سو بخش دے تو ہمیں اور رحم فرما تو ہم پراور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے (74) پس کرتے تھے تم ان سے مسخری، یہاں تک کہ بھلا دیا تھا انھوں نے تمھیں میرا ذکر اور تھے تم ان سے ہنستے (110) بلاشبہ میں نے جزا دی ہے انھیں آج بوجہ اس کے جو انھوں نے صبر کیا، کہ بے شک وہی لوگ ہی کامیاب ہیں (111) اللہ کہے گا کتنی (مدت) ٹھہرے تم زمین میں (بہ اعتبار) شمار کرنے کے سالوں کے؟ (112) وہ کہیں گے، ٹھہرے ہم ایک دن یا کچھ حصہ دن کا، پس پوچھ لے تو شمار کرنے والوں سے (113) اللہ کہے گا نہیں ٹھہرے تم مگر تھوڑا سا وقت، کاش کہ بے شک ہوتے تم جانتے (114)
#
{101} يخبر تعالى عن هول يوم القيامةِ، وما في ذلك [اليوم] من المزعجاتِ والمقلقاتِ، وأنَّه إذا نُفِخَ في الصور نفخةُ البعث، فحُشِرَ الناس أجمعون، لميقاتِ يوم معلوم؛ أنَّه يُصيبهم من الهول ما يُنسيهم أنسابَهم التي هي أقوى الأسباب، فغير الأنساب من باب أولى، وأنَّه لا يسألُ أحدٌ أحداً عن حالِهِ؛ لاشتغالِهِ بنفسه؛ فلا يدري هل يَنْجو نجاةً لا شقاوةَ بعدَها أو يشقى شقاوةً لا سعادةَ بعدها؛ قال تعالى: {فإذا جاءتِ الصَّاخَّة. يوم يَفِرُّ المرءُ من أخيه وأمّه وأبيه. وصاحبتِهِ وبنيه. لكلِّ امرئٍ منهم يومئذٍ شأنٌ يُغنيه}.
[101] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز کی ہولناکیوں اور دل دہلا دینے والے مناظر کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے۔ جب انسانوں کو ان کی قبروں سے اٹھانے کے لیے صور پھونکا جائے گا اور تمام لوگوں کو ایک مقررہ مقام پر اکٹھا کیا جائے گا تو لوگ اس وقت ہول اور دہشت میں مبتلا ہوں گے وہ اپنے نسبی تعلق تک کو بھول جائیں گے جوکہ سب سے زیادہ طاقتور تعلق ہوتا ہے۔ جب ایسا ہو گا تو نسب کے علاوہ تعلقات تو زیادہ آسانی سے بھول جائیں گے اور نفسانفسی کے اس عالم میں کوئی کسی کا حال نہیں پوچھے گا۔ کسی کو علم نہیں ہوگا کہ آیا اسے نجات مل جائے گی یا نہیں ، ایسی نجات کہ اس کے بعد بدبختی قریب نہیں بھٹکے گی؟ یا وہ ایسی بدبختی سے دوچار ہوگا کہ اس کے بعد کبھی خوش بختی سے بہرہ مند نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُٞ۰۰یَوْمَ یَفِرُّ الْ٘مَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ۰۰وَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِۙ۰۰وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِؕ۰۰لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ﴾ (عبس:80؍33-37) ’’جب قیامت برپا ہوگی تو اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اپنی ماں اور باپ سے، بیوی اور بیٹوں سے دور بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنی ہی فکر میں مبتلا ہوگا جو اسے دوسروں سے بے پروا کر دے گی۔‘‘ اور جیسا کہ ارشاد ہے۔ ﴿یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍۭ بِبَنِیْهِۙ۰۰وَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِۙ۰۰وَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُــــْٔوِیْهِۙ۰۰وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ﴾ (المعارج:70؍11-14) ’’اس دن مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹوں ، بیوی، بھائی اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور زمین کی ہر چیز فدیہ میں دے کر عذاب سے نجات حاصل کرلے۔‘‘
#
{102} وفي القيامة مواضعُ يشتدُّ كربُها ويعظُمُ وقْعُها؛ كالميزان الذي يُمَيَّزُ به أعمالُ العبدِ، ويُنْظَرُ فيه بالعدل ما له وما عليه، وتَبين فيه مثاقيلُ الذَّرِّ من الخيرِ والشر. {فَمَنْ ثَقُلَتْ موازينُهُ}: بأن رَجَحَتْ حسناتُه على سيئاته؛ {فأولئك هم المفلحونَ}: لنجاتِهِم من النار، واستحقاقِهِم الجنَّة، وفوزِهم بالثناء الجميل.
[102] قیامت کے روز بعض مقامات ایسے ہوں گے جو شدید کرب ناک اور سخت تکلیف دہ ہوں گے جیسے میزان عدل کا مقام، جہاں بندے کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور نہایت عدل و انصاف سے دیکھا جائے گا کہ اس کے نیک اور بداعمال کیا ہیں اور اس وقت نیکی اور بدی کا ذرہ بھر وزن بھی ظاہر ہو جائے گا۔ ﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ﴾ پس جس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے جھک جائے گا ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔‘‘ یعنی یہی لوگ جہنم سے نجات حاصل کریں گے اور جنت کے استحقاق سے بہرہ ور ہوں گے اور ثنائے جمیل سے سرفراز ہوں گے
#
{103} {ومَنْ خَفَّتْ موازينُهُ}: بأن رَجَحَتْ سيئاتُه على حسناتِهِ وأحاطتْ بها خطيئاتُهُ؛ {فأولئك الذين خَسِروا أنْفُسَهم}: كلُّ خسارةٍ غير هذه الخسارةِ؛ فإنَّها بالنسبة إليها سهلةٌ، ولكن هذه خسارةٌ صعبةٌ؛ لا يُجْبَرُ مُصابها، ولا يُسْتَدْرَكُ فائِتُها؛ خسارةٌ أبديَّة وشقاوةٌ سرمديَّة، قد خسر نفسَه الشريفة التي يتمكَّن بها من السعادة الأبديَّة، ففوَّتها هذا النعيم المقيم في جوار الربِّ الكريم. {في جهنَّمَ خالدونَ}: لا يخرُجون منها أبدَ الآبدينَ، وهذا الوعيد إنَّما هو ـ كما ذكرنا ـ لمن أحاطَتْ خطيئاتُهُ بحسناتِهِ، ولا يكون ذلك إلاَّ كافراً؛ فعلى هذا لا يُحاسَبُ محاسبةَ من توزَنُ حسناتُه وسيئاتُه؛ فإنَّهم لا حسنات لهم، ولكن تعدُّ أعمالُهم وتُحصى، فيوقَفون عليها، ويقرَّرون بها، ويُخْزَوْن بها. وأمَّا مَنْ مَعَهُ أصلُ الإيمان، ولكنْ عَظُمَتْ سيئاتُه، فرجَحَتْ على حسناتِهِ؛ فإنَّه وإن دَخَلَ النار؛ لا يَخْلُدُ فيها كما دلَّت على ذلك نصوص الكتاب والسنة.
[103] ﴿ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ﴾ اور جس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا اور اس کے پلڑے پر برائیاں چھا جائیں گی۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’پس یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔‘‘ اس خسارے کی نسبت دنیا کا بڑے سے بڑا خسارہ بھی بہت معمولی ہے۔ یہ بہت بڑا اور ناقابل برداشت خسارہ ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ۔ یہ ابدی خسارہ اور دائمی بدبختی ہے اس نے اپنے شرف کے حامل نفس کو خسارے میں مبتلا کر دیا جس کے ذریعے سے وہ ابدی سعادت حاصل کر سکتا تھا۔ پس اس نے اپنے رب کریم کے پاس ابدی نعمتوں کو ہاتھ سے گنوا دیا۔ ﴿ فِیْ جَهَنَّمَ خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔‘‘ وہ ابد الآباد تک اس سے نہیں نکلیں گے۔ یہ وعید، جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکر کر چکے ہیں ، اس شخص کے لیے ہے جس کی برائیاں اس کی نیکیوں پر چھا گئی ہوں گی اور ایسا شخص کافر ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح اس کا حساب اس شخص کے حساب کی مانند نہیں ہوگا جس کی نیکیوں اور برائیوں دونوں کا وزن ہوگا کیونکہ کفار کے پاس تو کوئی نیکی ہی نہیں ہوگی، البتہ ان کی بداعمالیوں کو اکٹھا کرکے شمار کیا جائے گا۔ وہ ان بداعمالیوں کا مشاہدہ اور ان کا اقرار کریں گے اور رسوائی اٹھائیں گے۔ رہا وہ شخص جو بنیادی طور پر مومن ہے مگر اس کی برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے پلڑے کے مقابلے میں جھکا ہوا ہوگا… تو وہ اگرچہ جہنم میں داخل ہوگا مگر وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا جیسا کہ کتاب و سنت کی نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں ۔
#
{104} ثم ذَكَرَ تعالى سوءَ مصير الكافرين، فقال: {تَلْفَحُ وجوهَهُم النارُ}؛ أي: تغشاهم من جميع جوانِبِهم، حتى تصيبَ أعضاءهم الشريفةَ، ويتقطَّع لهبُها عن وجوههم، {وهم فيها كالِحونَ}: قد عَبَسَتْ وجوهُهم وقَلَصَتْ شفاهُهم، من شدَّة ما هم فيه، وعظيم ما يَلْقَوْنَه.
[104] پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے برے انجام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ تَ٘لْ٘فَ٘حُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ ﴾ ’’جھلسائے گی ان کے چہروں کو آگ۔‘‘ یعنی آگ انھیں ہر جانب سے ڈھانپ لے گی حتیٰ کہ ان کے تمام قابل شرف و احترام اعضاء کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی آگ کے شعلے ان کے چہروں سے ٹکڑے ہو ہو کر گریں گے۔ ﴿ وَهُمْ فِیْهَا كٰلِحُوْنَ ﴾ ’’اور وہ اس میں بدشکل ہوں گے۔‘‘ شدت عذاب کی وجہ سے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان کے ہونٹ اوپر کی طرف سکڑ جائیں گے۔
#
{105} فيُقالُ لهم توبيخاً ولوماً: {ألم تَكُنْ آياتي تُتْلى عليكم}: تُدْعَون بها لِتؤمنوا وتُعْرَضُ عليكم لِتَنْظُروا؛ {فكنتم بها تكذِّبونَ}: ظلماً منكم وعناداً، وهي آياتٌ بيناتٌ، دالاَّتٌ على الحقِّ والباطل، مبيِّناتٌ للمحقِّ والمبطل؟!
[105] زجرو توبیخ اور ملامت کے طور پر ان سے کہا جائے گا: ﴿ اَلَمْ تَكُ٘نْ اٰیٰتِیْ تُ٘تْ٘لٰ٘ى عَلَیْكُمْ ﴾ ’’كيا ميری آیتوں کی تم پر تلاوت نہیں کی جاتی تھی؟‘‘ ان آیات کے ذریعے سے تمھیں دعوت دی گئی کہ تم ایمان لے آؤ اور آیات تمھارے سامنے پیش کی گئیں تاکہ تم غور کرو۔ ﴿ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ﴾ پس تم ظلم اور عناد کی وجہ سے ان آیات کو جھٹلاتے تھے حالانکہ یہ واضح آیات تھیں جو حق اور باطل پر دلالت کرتی تھیں اور اہل حق اور اہل باطل کو کھول کھول کر بیان کرتی تھیں ۔
#
{106} فحينئذٍ أقرُّوا بظلمهم حيث لا ينفع الإقرار: {قالوا ربَّنا غَلَبَتْ عَلَيْنا شِقْوَتُنا}؛ أي: غلبت علينا الشَّقاوة الناشئةُ عن الظُّلم والإعراض عن الحقِّ والإقبال على ما يضرُّ وتركِ ما ينفعُ، {وكنَّا قوماً ضالِّين}: في عملهم، وإن كانوا يَدْرون أنَّهم ظالمون؛ أي: فعلنا في الدُّنيا فعلَ التائِهِ الضالِّ السفيهِ؛ كما قالوا في الآية الأخرى: {وقالوا لو كُنَّا نَسْمَعُ أو نَعْقِلُ ما كُنَّا في أصحابِ السَّعير}.
[106] یہ اس وقت اپنے ظلم کا اقرار کریں گے جب اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا۔ ﴿ قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا ﴾ کہیں گے: ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی جس نے ظلم، حق سے روگردانی، ضرررساں امور کو اختیار کرنے اور فائدہ مند امور کو ترک کرنے سے جنم لیا۔ ﴿ وَؔكُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْ٘نَ ﴾ ’’اور ہم گمراہ لوگ تھے۔‘‘ یعنی اپنے عمل میں گمراہ تھے اگرچہ وہ جانتے تھے کہ وہ ظالم ہیں ، یعنی ہم نے دنیا میں اس طرح کام كيے جس طرح گمراہ، بیوقوف اور حیران و سرگرداں لوگ کام کرتے ہیں ۔ جس طرح ایک اور آیت میں ان کا قول نقل ہوا ہے۔ ﴿وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَ٘سْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (الملک:67؍10) ’’اور کہیں گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو جہنمیوں میں سے نہ ہوتے۔‘‘
#
{107} {ربَّنا أخْرِجْنا منها فإنْ عُدْنا فإنَّا ظالِمونَ}: وهم كاذِبون في وعدِهم هذا؛ فإنَّهم كما قال تعالى: {لو رُدُّوا لَعادوا لما نُهوا عنه}، ولم يُبْقِ الله لهم حجَّة، بل قطع أعذارَهم، وعَمَّرَهم في الدُّنيا ما يتذكَّر فيه من تذكَّر ، ويرتدِعُ فيه المجرمُ.
[107] ﴿ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰ٘لِمُوْنَ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال لے، پھر اگر ہم یہی کام کریں تو یقینا ظالم ہوں گے۔‘‘ وہ اپنے اس وعدے میں بھی جھوٹے ہیں کیونکہ تب بھی ان کا حال وہی ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ ﴾ (الانعام:6؍28) ’’اگر ان کو دنیا میں لوٹا دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو منع کیا گیا ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی حجت باقی نہیں رکھی بلکہ ان کے تمام عذر منقطع کر دیے اور دنیا میں ان کو اس نے اتنی عمریں دیں کہ اس میں نصیحت پکڑنے والے نصیحت پکڑلیتے ہیں اور مجرم جرم سے باز آجاتے ہیں ۔
#
{108} فقال الله جواباً لسؤالهم: {اخسؤوا فيها ولا تُكَلِّمونِ}: وهذا القول ـ نسألُه تعالى العافيةَ ـ أعظمُ قول على الإطلاق يسمعهُ المجرِمون في التخييبِ والتوبيخ والذُّلِّ والخسارِ والتأييس من كلِّ خيرٍ والبُشرى بكل شرٍّ، وهذا الكلام والغضب من الربِّ الرحيم أشدُّ عليهم، وأبلغُ في نِكايتهم من عذاب الجحيم.
[108] اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ اخْسَـُٔوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ ﴾ ’’پھٹکارے ہوئے اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ کلام… ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں … علی الاطلاق بہت بڑا قول ہے جو مجرموں کو ناکامی، زجروتوبیخ، ذلت، خسارے، ہر بھلائی سے مایوسی اور ہر شر کی خوشخبری کے طور پر سننے کو ملے گا۔ یہ کلام اور رب رحیم کا غیظ و غضب جہنم کے عذاب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔
#
{109} ثم ذكر الحال التي أوصلَتْهم إلى العذاب وقَطَعَتْ عنهم الرحمةَ، فقال: {إنَّه كان فريقٌ من عبادي يقولونَ ربَّنا آمنَّا فاغْفِرْ لنا وارْحَمْنا وأنتَ خيرُ الراحمينَ}: فجمعوا بين الإيمان المقتضي لأعمالِهِ الصالحة، والدُّعاء لربِّهم بالمغفرة والرحمة، والتوسُّل إليه بربوبيَّته ومنَّته عليهم بالإيمان، والإخبار بسعةِ رحمتِهِ وعموم إحسانِهِ، وفي ضمنِهِ ما يدلُّ على خضوعهم وخشوعهم وانكسارِهم لربِّهم وخوفهم ورجائهم؛ فهؤلاءِ ساداتُ الناس وفضلاؤهم.
[109] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا وہ حال بیان کیا ہے جس نے ان کو عذاب تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌؔ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْ٘فِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ ’’میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے، اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ پس انھوں نے ایمان کو، جو اعمال صالحہ کا تقاضا کرتا ہے، اپنے رب سے مغفرت اور رحمت کی دعا کو، اس کی ربوبیت کے توسل کو، ایمان عنایت کرنے میں اس کی نوازش کو، اس کی بے پایاں رحمت کو اور احسان کو جمع کر دیا۔ یہ آیت کریمہ ضمناً اہل ایمان کے خشوع و خضوع، اپنے رب کے حضور ان کی فروتنی، ان کے خوف الٰہی اور اللہ تعالیٰ سے پر امیدی پر دلالت کرتی ہے۔پس یہ لوگوں کے سردار اور اصحاب فضیلت ہیں ۔
#
{110} {فاتَّخَذْتُموهم}: أيُّها الكفرةُ الأنذالُ ناقصو العقول والأحلام، {سِخْرِيًّا}: تهزؤون بهم وتحتقرونهم حتى اشتغلتُم بذكر السَّفه، {حتى أنْسَوْكُم ذِكْري وكنتم منهم تَضْحَكونَ}: وهذا الذي أوجبَ لهم نسيان الذِّكر اشتغالُهم بالاستهزاء بهم؛ كما أنَّ نسيانهم للذِّكر يحثُّهم على الاستهزاء؛ فكلٌّ من الأمرين يمدُّ الآخر؛ فهل فوق هذه الجرأة جرأة؟!
[110] ﴿ فَاتَّؔخَذْتُمُوْهُمْ ﴾ ’’لیکن تم نے ان کو بنا لیا۔‘‘ اے حقیر اور ناقص العقل کا فرو!﴿ سِخْرِیًّا ﴾ ’’مذاق (کا موضوع)‘‘ یعنی تم ان کے ساتھ استہزا کرتے تھے اور ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتے تھے حتیٰ کہ تم انھیں بیوقوف سمجھتے تھے﴿ حَتّٰۤى اَنْسَوْؔكُمْ ذِكْرِیْ وَؔكُنْتُمْ مِّؔنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ ﴾ ’’یہاں تک کہ (اس شغل نے) تمھیں میری یاد ہی بھلا دی اور تم ان سے مذاق کرتے رہے۔‘‘ اہل ایمان کے ساتھ استہزاء میں ان کی مشغولیت، ان کے لیے ذکر کو بھلا دینے کی موجب ہوئی، جیسے ذکر کو فراموش کر دینا ان کو تمسخر و استہزاء پر آمادہ کرتا رہا۔ پس دونوں امور ایک دوسرے کے لیے معاون بنے رہے۔ کیا اس جرأت سے بڑھ کر کوئی جرأت ہے؟
#
{111} {إنِّي جزيتُهُمُ اليومَ بما صَبَروا}: على طاعتي وعلى أذاكم حتى وصلوا إليَّ {أنَّهم هُمُ الفائزونَ}: بالنعيم المقيم والنَّجاة من الجحيم؛ كما قال في الآية الأخرى: {فاليومَ الذين آمنوا من الكُفَّارِ يَضْحَكونَ ... } الآيات.
[111] ﴿ اِنِّیْ جَزَیْتُهُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤا ﴾ میں نے آج ان کو اپنی اطاعت کرنے اور تمھاری اذیتوں کو برداشت کرنے کا بدلہ دیا ہے، حتیٰ کہ وہ مجھ تک پہنچ گئے۔﴿اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠ ﴾ ’’بے شک وہی لوگ کامیاب ہیں ۔‘‘ یعنی دائمی نعمتیں اور جہنم سے چھٹکارا پاکر کامیاب ہوئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور آیت کریمہ میں فرماتا ہے ﴿فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُوْنَ﴾ (المطففین:83؍34) ’’آج وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں کافروں پر ہنسیں گے۔‘‘
#
{112 ـ 114} {قال} لهم على وجهِ اللَّوم وأنَّهم سفهاءُ الأحلام حيث اكْتَسَبوا في هذه المدَّة اليسيرةِ كلَّ شرٍّ أوصَلَهم إلى غضبِهِ وعقوبتِهِ، ولم يكتَسِبوا ما اكْتَسَبَه المؤمنون من الخير الذي يوصِلُهم إلى السعادة الدائمة ورضوان ربِّهم: {كم لَبِثْتُم في الأرضِ عددَ سنينَ. قالوا لَبِثْنا يوماً أو بعضَ يوم}: كلامُهم هذا مبنيٌّ على استقصارِهم جدًّا لمدَّة مُكْثِهِم في الدُّنيا، وأفاد ذلك، لكنَّه لا يفيدُ مقدارَه ولا يُعَيِّنُه؛ فلهذا قالوا: {فاسألِ العادِّينَ}؛ أي: الضابطين لعددِهِ، وأمَّا هم؛ ففي شغل شاغل وعذاب مذهل عن معرفةِ عددِهِ. فقال لهم: {إن لبثتم إلاَّ قليلاً}: سواء عيَّنْتُم عدَدَه أم لا، {لو أنكم كنتُم تعلمونَ}.
[114-112] ﴿ قٰلَ﴾ اللہ تعالیٰ ملامت کے اسلوب میں ان سے کہے گا۔ یہ اسلوب اس لیے بھی ہو گا کیونکہ وہ بیوقوف تھے انھوں نے اس تھوڑی سی مدت میں ہر برائی کا ارتکاب کیا جو اس کے غضب اور عقاب کا باعث بنتی ہے۔ انھوں نے ان نیکیوں کا اکتساب نہ کیا جن کا اکتساب اہل ایمان نے کیا تھا جو ان کے لیے دائمی سعادت اور ان کے رب کی رضا کی باعث بنیں ۔ ﴿ كَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ۰۰ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ﴾ ’’تم زمین میں کتنے برس رہے، وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔‘‘ ان کا یہ کلام، ان کے دنیا میں رہنے، اس سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بہت ہی کم اندازے پر مبنی ہے مگر یہ اس کی مقدار کو کوئی فائدہ دیتی ہے نہ اس کی تعیین کرتی ہے۔ اس لیے وہ کہیں گے۔ ﴿ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّیْنَ﴾ یعنی اس کی تعداد کا حساب کتاب رکھنے والوں سے پوچھ لیجیے۔ وہ خود تو اب ایک شغل اور اس کے عدد کی معرفت سے غافل کر دینے والے عذاب میں مبتلا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: ﴿اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا﴾ ’’نہیں ٹھہرے تم مگر بہت کم۔‘‘ خواہ تم اس کی تعداد کا تعین کرو یا نہ کرو تمھارے لیے برابر ہے۔ ﴿ لَّوْ اَنَّـكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کاش تمھیں علم ہوتا۔‘‘
آیت: 115 - 116 #
{أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (115) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (116)}.
کیا گمان کیا تھا تم نے یہ کہ پیدا کیا ہم نے تمھیں بے فائدہ اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟ (115) پس برتر ہے اللہ، بادشاہ سچا، نہیں کوئی (اور) معبود سوائے اس کے، (وہ) رب ہے عرش کریم کا (116)
#
{115 ـ 116} أي: {أفحَسِبْتُم} أيُّها الخلقُ، {أنَّما خَلَقْناكم عَبَثاً}؛ أي: سدىً وباطلاً تأكلون وتشربون وتمرَحون وتتمتَّعون بَلذَّات الدُّنيا ونتركُكم لا نأمُرُكم ولا ننهاكم ولا نُثيبكم ونعاقبكم، ولهذا قال: {وأنَّكم إلينا لا تُرْجَعونَ}؟ لا يَخْطُر هذا ببالكم. {فتعالى اللهُ}؛ أي: تعاظمَ وارتفعَ عن هذا الظنِّ الباطل الذي يرجِع إلى القدح في حكمته، {المَلكُ الحقُّ لا إله إلاَّ هو ربُّ العرش العظيم}: فكونُهُ ملكاً للخلق كلِّهم حقًّا في صدقِهِ ووعدِهِ [و] وعيدِهِ مألوهاً معبوداً لما له من الكمال ربَّ العرش العظيم فما دونه من باب أولى يمنَعُ أن يَخْلُقَكم عَبَثاً.
[116,115] ﴿ اَفَحَسِبْتُمْ ﴾ یعنی اے مخلوق! ’’کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے‘‘ کہ ﴿ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا ﴾ ’’بلاشبہ ہم نے تمھیں بے فائدہ اور باطل پیدا کیا ہے‘‘ کہ تم کھاؤ، پیو، زمین پر اکڑ کر چلو اور دنیا کی لذتوں سے متمتع ہوتے رہو اور ہم تمھیں یونہی چھوڑ دیں گے۔ ہم تمھیں کسی چیز کا حکم دیں گے نہ تمھیں منع کریں گے، تمھیں ثواب عطا کریں گے نہ تمھیں عذاب دیں گے؟ اس لیے فرمایا:﴿ وَّاَنَّـكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟‘‘ یہ بات تمھارے دل ہی میں نہ آئے۔ ﴿ فَ٘تَ٘عٰ٘لَى اللّٰهُ ﴾ یعنی اس گمان باطل سے اللہ بہت بڑا اور بلندتر ہے جو اس کی حکمت میں قادح ہے۔ ﴿الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ١ۚ رَبُّ الْ٘عَرْشِ الْكَرِیْمِ﴾ ’’وہ حقیقی بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ اس کا تمام مخلوق کا مالک ہونا حق ہے وہ اپنے صدق، اپنے وعدہ اور وعید میں حق ہے، وہ محبوب اور معبود ہے کیونکہ وہ ہر کمال کا مالک ہے۔﴿ رَبُّ الْ٘عَرْشِ الْكَرِیْمِ ﴾ ’’وہ عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ پھر اس سے کم تر مخلوق کا تو بدرجہ اولیٰ رب ہے۔ یہ چیز مانع ہے اس سے کہ وہ تمھیں عبث پیدا کرے۔
آیت: 117 - 118 #
{وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (117) وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (118)}.
اور جو کوئی پکارے ساتھ اللہ کے معبود کسی اور کو کہ نہیں کوئی دلیل اس کے لیے اس (بات) کی تویقینا حساب اس کا اس کے رب کے پاس ہے، بلاشبہ نہیں فلاح پائیں گے کافر (117) اور آپ کہیں ، اے میرے رب! تو بخش دے اور رحم فرمااور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے (118)
#
{117} أي: ومن دعا مع الله آلهةً غيره بلا بيِّنة من أمرِهِ ولا برهانٍ على ذلك يدلُّ على ما ذهب إليه، وهذا قيدٌ ملازمٌ؛ فكلُّ مَن دعا غير الله؛ فليس له برهانٌ على ذلك، بل دلَّت البراهينُ على بطلانِ ما ذهبَ إليه، فأعرض عنها ظلماً وعناداً؛ فهذا سيقدُمُ على ربِّه فيجازيه بأعمالِهِ ولا ينيلُه من الفلاح شيئاً؛ لأنه كافر، {إنَّه لا يفلحُ الكافرونَ}: فكفرُهم منعهم من الفلاح.
[117] یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو پکارتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل اور برہان نہیں جو اس کے اس مذہب کی صحت پر دلالت کرتی ہو۔ یہ ایک الزامی قید ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی ہی نہیں بلکہ تمام دلائل و براہین اس کے مذہب کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں مگر اس نے ظلم اور عناد کی بنا پر ان سے روگردانی کی۔ پس یہ شخص جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے برے اعمال کا بدلہ دے گا اسے فلاح میں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے۔ ﴿اِنَّهٗ لَا یُفْ٘لِحُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’بلاشبہ، کافر فلاح نہیں پاتے۔‘‘ پس ان کے کفر نے ان کو فلاح سے محروم کر دیا۔
#
{118} {وقل}: داعياً لربِّك مخلصاً له الدين: {ربِّ اغْفِرْ}: لنا حتى تُنْجِيَنا من المكروه، وارحَمْنا لتوصِلَنا برحمتك إلى كلِّ خير. {وأنت خيرُ الراحمين}: فكلُّ راحم للعبدِ؛ فالله خيرٌ له منه، أرحمُ بعبدِهِ من الوالدة بولدِها، وأرحمُ به من نفسه.
[118] ﴿ وَقُ٘لْ ﴾ دین کو اپنے رب کے لیے خالص کر کے اسے پکارتے ہوئے کہہ دیجیے! ﴿ رَّبِّ اغْ٘فِرْ وَارْحَمْ ﴾ اے میرے رب! ہمیں بخش دے یہاں تک کہ ہمیں ناپسندیدہ چیزوں سے بچا اور ہم پر رحم فرما تاکہ تو ہمیں اپنی بے پایاں رحمت کے ساتھ ہر بھلائی کی منزل تک پہنچا دے۔ ﴿ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ ’’اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ بندے پر رحم کرنے والی ہر ہستی سے زیادہ رحیم ہے ماں اپنی اولاد کے لیے جس قدر رحیم و شفیق ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ بلکہ انسان اپنے آپ پر جس قدر رحم کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ رحیم ہے۔