آیت:
تفسیر سورۂ غاشیہ
تفسیر سورۂ غاشیہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 16 #
{هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ (1) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4) تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ (5) لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ (6) لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ (7) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌ (8) لِسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ (9) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (10) لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً (11) فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ (12) فِيهَا سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ (13) وَأَكْوَابٌ مَوْضُوعَةٌ (14) وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَةٌ (15) وَزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ (16)}.
تحقیق آ گئی ہے آپ کے پاس بات چھا جانے والی (قیامت) کی(1)کئی چہرے اس دن ذلیل ہوں گے(2)عمل کرنے والے، تھک جا نے والے(3) وہ داخل ہوں گے بھڑکتی آگ میں(4) پلائے جائیں گے وہ گرم کھولتے ہوئے چشمے سے(5) نہیں ہو گا ان کے لیے کھانا سوائے خار دار جھاڑی کے(6) نہ وہ موٹا کرے گا اور نہ فائدہ دے گا بھوک سے(7)کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے(8) اپنی کوشش پر خوش ہوں گے(9) بہشت بریں میں ہوں گے (10) نہیں سنیں گے اس میں کوئی لغو بات (11) اس میں ایک چشمہ جاری ہو گا (12) اس میں تخت ہوں گے اونچے اونچے (13) اور (سامنے) ساغر رکھے ہوں گے (14) اور گاؤ تکیے برابر قطار میں لگے ہوں گے(15) اور نفیس غالیچے بچھے ہوں گے (16)
#
{1} يذكر تعالى أحوال يوم القيامة وما فيها من الأهوال الطامَّة، وأنَّها تغشى الخلائق بشدائدها، فيجازَوْن بأعمالهم، ويتميَّزون إلى فريقين: فريق في الجنَّة، وفريق في السَّعير. فأخبر عن وصف كلا الفريقين:
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے احوال اور اس کی مصیبت خیز ہولناکیوں کا ذکر کرتا ہے کہ قیامت تمام مخلوق کو اپنی سختیوں سے ڈھانپ لے گی، لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی، لوگ الگ الگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ جہنم کو سدھارے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کے وصف سے آگاہ فرمایا۔
#
{2 ـ 7} فقال في وصف أهل النار: {وجوهٌ يومئذٍ}؛ أي: يوم القيامة، {خاشعةٌ}: من الذُّلِّ والفضيحة والخزي، {عاملةٌ ناصبةٌ}؛ أي: تاعبة في العذاب، تجرُّ على وجوهها، {وتغشى وجوهَهم النارُ}؛ ويحتمل أن المراد بقوله: {وجوهٌ يومئذٍ خاشعةٌ. عاملةٌ نَّاصبةٌ}: في الدنيا لكونهم في الدُّنيا أهل عباداتٍ وعمل، ولكنَّه لما عدم شرطه، وهو الإيمان؛ صار يوم القيامة هباءً منثوراً. وهذا الاحتمال وإن كان صحيحاً من حيث المعنى؛ فلا يدلُّ عليه سياق الكلام، بل الصواب المقطوع به هو الاحتمال الأول؛ لأنَّه قيَّده بالظرف، وهو يوم القيامةِ، ولأنَّ المقصود هنا بيان ذكر أهل النار عموماً، وذلك الاحتمال جزءٌ قليلٌ بالنسبة إلى أهل النار ، ولأنَّ الكلام في بيان حال الناس عند غشيان الغاشية؛ فليس فيه تعرُّضٌ لأحوالهم في الدُّنيا. وقوله: {تَصْلى ناراً حاميةً}؛ أي: شديداً حرُّها تحيط بهم من كلِّ مكان، {تُسْقى من عينٍ آنيةٍ}؛ أي: شديدة الحرارة ، {وإن يَسْتَغيثوا يُغاثوا بماءٍ كالمهل يَشْوي الوجوهَ}؛ فهذا شرابهم، وأمَّا طعامُهم؛ فَـ {ليس لهم طعامٌ إلاَّ من ضريعٍ. لا يُسْمِنُ ولا يُغْني من جوع}: وذلك لأنَّ المقصود من الطعام أحد أمرين: إمَّا أن يسدَّ جوع صاحبه ويزيل عنه ألمه، وإمَّا أن يُسْمِنَ بدنَه من الهزال، وهذا الطعام ليس فيه شيءٌ من هذين الأمرين، بل هو طعامٌ في غاية المرارة والنَّتن والخسَّة، نسأل الله العافية.
[7-2] جہنمیوں کے وصف میں فرمایا: ﴿وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ ﴾ اس دن یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے ﴿ خَاشِعَةٌ ﴾ ذلت، فضیحت اور رسوائی کی وجہ سے جھکے ہوئے ہوں گے۔ ﴿ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ﴾ ’’سخت محنت کرنے والے، تھکے ماندے۔‘‘ یعنی عذاب میں سخت تھکے ہوئے ہوں گے، ان کو چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌۙ۰۰عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ﴾ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ دنیا کے اندر مشقت اٹھانے والے چہرے، اس روز جھکے ہوئے ہوں گے۔ دنیا کے اندر (ان کی مشقت یہ تھی) کہ وہ بڑے عبادت گزار اور عمل کرنے والے تھے۔ مگر چونکہ اس عمل میں ایمان کی شرط معدوم تھی اس لیے عمل قیامت کے دن اڑتا ہوا غبار بن جائے گا۔یہ احتمال معنی کے اعتبار سے اگرچہ صحیح ہے مگر سیاق کلام اس پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ پہلے معنیٰ ہی قطعی طور پر صحیح ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظرف کے ساتھ مقید کیا ہے اور وہ ہے قیامت کا دن، کیونکہ یہاں عمومی طور پر اہل جہنم کا ذکر کرنا مقصود ہے اور یہ احتمال اہل جہنم کی نسبت سے بہت ہی چھوٹا سا جز ہے۔ کیونکہ یہ کلام قیامت کی سختی کے لوگوں کو ڈھانپ لینے کے حال میں ہے اور اس میں دنیا کے اندر ان کے احوال سے کوئی تعرض نہیں۔﴿ تَ٘صْلٰى نَارًا حَامِیَةً﴾ ’’دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘ یعنی اس کی حرارت بہت سخت ہو گی جو ان کو ہر جگہ سے گھیرلے گی ﴿ تُ٘سْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ﴾ ’’ایک کھولتے ہوئے چشمے کا ان کو پانی پلایا جائے گا۔‘‘یعنی انتہائی گرم ﴿وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا۠ یُغَاثُ٘وْا بِمَآءٍ كَالْ٘مُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَ ﴾ (الکہف:18؍29) ’’اگر وہ فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی، جو پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہو گا، جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔‘‘ پس یہ ہو گا ان کا مشروب۔ رہا ان کا طعام تو ﴿ لَ٘یْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍۙ۰۰لَّا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ﴾ ’’خاردار جھاڑ کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جو موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا۔‘‘ یہ اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ کھانے سے دو امور میں سے ایک مقصود ہوتا ہے۔ کھانے والے کی بھوک مٹانا اور اس کی بھوک کی تکلیف دور کرنایا اس کے بدن کو موٹا کرنا اور اس کھانے میں دونوں امور کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ یہ کھانا کڑواہٹ، بدبو اور گھٹیا پن میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو گا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
#
{8 ـ 16} وأمَّا أهلُ الخير؛ فوجوههم يوم القيامةِ {ناعمةٌ}؛ أي: قد جرت عليهم نَضْرَةُ النعيم فَنَضَّرَتْ أبدانهم واستنارت وجوههم وسُرُّوا غاية السرور، {لسعيها}: الذي قدَّمته في الدُّنيا من الأعمال الصالحة والإحسان إلى عباد الله، {راضيةٌ}: إذْ وجدت ثوابه مدَّخراً مضاعفاً، فحمدت عقباه، وحصل لها كلُّ ما تتمنَّاه. وذلك أنَّها {في جنَّةٍ}: جامعةٍ لأنواع النَّعيم كلّها، {عاليةٍ}: في محلِّها ومنازلها؛ فمحلُّها في أعلى عِلِّيين، ومنازلها مساكنُ عاليةٌ، لها غرفٌ، ومن فوق الغرف غرفٌ مبنيَّةٌ يشرفون منها على ما أعدَّ الله لهم من الكرامة. ({قطوفُها دانيةٌ}؛ أي: كثيرة الفواكه اللذيذة المثمرة بالثمار الحسنة السهلة التناول؛ بحيث ينالونها على أيِّ حال كانوا، لا يحتاجون أن يَصْعَدوا شجرةً أو يستعصي عليهم منها ثمرةٌ). {لا تسمع فيها}؛ أي: الجنَّة {لاغيةً}؛ أي: كلمة لغوٍ وباطلٍ فضلاً عن الكلام المحرَّم، بل كلامُهم كلامٌ حسنٌ نافعٌ، مشتملٌ على ذكر الله وذكر نعمه المتواترة عليهم وعلى الآداب الحسنة بين المتعاشِرين الذي يسرُّ القلوب ويشرح الصدور. {فيها عينٌ جاريةٌ}: وهذا اسم جنس؛ أي: فيها العيون الجارية التي يفجِّرونها ويصرِّفونها كيف شاؤوا وأنَّى أرادوا. {فيها سررٌ مرفوعةٌ}: والسرر جمعُ سريرٍ، وهي المجالس المرتفعة في ذاتها وبما عليها من الفُرُش الليِّنة الوطيئة. {وأكوابٌ موضوعةٌ}؛ أي: أوانٍ ممتلئةٌ من أنواع الأشربة اللذيذة، قد وضعت بين أيديهم، وأعدَّت لهم، وصارت تحت طلبهم واختيارهم، يطوفُ بها عليهم الولدان المخلدون. {ونمارقُ مصفوفةٌ}؛ أي: وسائد من الحرير والإستبرق وغيرهما مما لا يعلمه إلاَّ الله، قد صُفَّتْ للجلوس والاتِّكاء عليها، وقد أريحوا عن أن يضعوها أو يصفوها بأنفسهم. {وزَرابِيُّ مبثوثةٌ}: والزرابِيُّ هي البسط الحسان، مبثوثةٌ؛ أي: مملوءةٌ بها مجالسهم من كلِّ جانب.
[16-8] رہے نیکو کار تو قیامت کے روز ان کے چہرے ﴿ نَّاعِمَةٌ﴾ ’’تروتازہ ہوں گے۔‘‘ یعنی ان پر نعمتوں کی تازگی عیاں ہو گی، ان کے بدن تر و تازہ ہوں گے اور ان کے چہرے نور سے دمک رہے ہوں گے اور وہ انتہائی خوش ہوں گے۔ ﴿ لِّسَعْیِهَا ﴾ ’’اپنے اعمال سے۔‘‘ جو اس نے دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو آگے بھیجا ﴿ رَاضِیَةٌ﴾ ’’خوش ہوں گے۔‘‘ کیونکہ ان کو ان کی کوشش کا ثواب کئی گنا جمع کیا ہوا ملا، پس انھوں نے اپنے انجام کی تعریف کی اور انھیں ہر وہ چیز حاصل ہو گئی جس کی وہ تمنا کرتے تھے۔ اور یہ سب کچھ ﴿ فِیْ جَنَّةٍ ﴾ ایسی جنت میں ملے گا جس میں نعمتوں کی تمام انواع جمع ہیں ﴿ عَالِیَةٍ ﴾ جو اپنے محل و منازل میں بہت بلند ہے، پس اس کا محل و مقام اعلیٰ علیین میں ہے، اس کی منازل بہت بلند مسکن ہیں، اس میں بالا خانے ہیں اور بالا خانوں پر بنائے گئے بالا خانے ہیں جہاں سے وہ اکرام و تکریم کی نعمتوں کا نظارہ کر سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تیار کی ہیں۔ ﴿قُطُوْفُہَا دَانِیَۃٌ﴾(الحآقۃ: 23/69)’’جس کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے۔‘‘ جس میں نہایت لذیذ میوے بکثرت ہوں گے، وہ بہت زیادہ اچھے اچھے پھل ہوں گے جن کا حصول بہت آسان ہوگا، جس حال میں بھی وہ ہوں گے وہ ان پھلوں کو حاصل کرسکیں گے، انھیں کسی درخت پر چڑھنے کی حاجت ہوگی نہ کوئی ایسا پھل ہوگا جس کا حصول ان کے لیے دشوار ہو۔ ﴿ لَّا تَ٘سْمَعُ فِیْهَا ﴾ ’’اس میں نہیں سنیں گے۔‘‘یعنی جنت کے اندر ﴿ لَاغِیَةً﴾ کوئی حرام بات تو کجا کوئی لغو اور باطل کلمہ بھی (نہیں سنیں گے) بلکہ ان کا تمام تر کلام اچھا اور نفع بخش ہو گا، جو اللہ تعالیٰ کے ذکر، ان پر اللہ تعالیٰ کی لگاتار نعمتوں کے ذکر اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والوں میں باہم آداب حسنہ پر مشتمل ہو گا جو دلوں کو مسرت اور شرح صدر عطا کرے گا۔ ﴿ فِیْهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌ﴾ یہ اسم جنس ہے یعنی اس کے اندر چشمے جاری ہوں گے، اہلِ جنت جیسے چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے، ان چشموں کا رخ موڑ کر ان سے نہریں نکال کر لے جائیں گے۔ ﴿ فِیْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ﴾ اَلسُّرُرُ: سَرِیرٌ کی جمع ہے اور بیٹھنے کی ان جگہوں کو کہتے ہیں جو بذات خود بلند ہوں اور ان کو ملائم اور نرم بچھونوں کے ذریعے سے بلند کیا گیا ہو۔ ﴿ وَّاَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ﴾ یعنی مختلف انواع کے لذیذ مشروبات سے لبریز آبخورے ان کے سامنے رکھے ہوئے ہوں گے جو ان کے لیے تیار کیے گئے ہوں گے اور ان کی طلب اور اختیار کے تحت ہوں گے اور ہمیشہ رہنے والے کم عمر لڑکے (خدمت کے لیے) ان کے پاس گھوم پھر رہے ہوں گے۔ ﴿ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌ﴾ یعنی حریر اور دبیز ریشم وغیرہ کے تکیے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کو بیٹھنے اور ان پر آرام کرنے کے لیے صف در صف بچھایا گیا ہو گا، وہ ان کو خود بنانے یا خود بچھانے کی فکر سے آزاد اور آرام میں ہوں گے۔ ﴿ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَةٌ﴾ اَلزَّرَابِیُّ سے مراد خوبصورت بچھونے ہیں، یعنی ان کی مجالس ہر جانب سے ان بچھونوں سے بھری ہوئی ہوں گی۔
آیت: 17 - 26 #
{أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (17) وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ (18) وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (19) وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (20) فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ (21) لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (22) إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ (23) فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ (24) إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ (25) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (26)}.
کیا پس نہیں دیکھتے وہ اونٹوں کی طرف کیسے پیدا کیے گئے وہ؟ (17) اور آسمان کی طرف کیسے بلند کیا گیا وہ؟ (18) اور پہاڑوں کی طرف کیسے گاڑے گئے وہ؟(19) اور زمین کی طرف کیسے بچھائی گئی وہ؟ (20) پس آپ نصیحت کریں، بس آپ تو نصیحت ہی کرنے والے ہیں (21) نہیں ہیں آپ ان پر کوئی داروغہ(22)مگر جس نے رو گردانی کی اور کفر کیا (23) تو عذاب د ے گا اسے اللہ عذاب بہت بڑا (24) بلاشبہ ہماری ہی طرف ہے ان کا لوٹ کر آنا (25) پھر یقیناً ہمارے ہی ذمے ہے ان کا حساب (26)
#
{17 ـ 20} يقول تعالى حثًّا للذين لا يصدِّقون الرسول - صلى الله عليه وسلم - ولغيرهم من الناس أنْ يتفكَّروا في مخلوقات الله الدالَّة على توحيده. {أفلا ينظُرون إلى الإبل كيف خُلِقَتْ}؛ أي: ألا ينظُرون إلى خَلْقها البديع وكيف سخَّرها الله للعباد وذلَّلها لمنافعهم الكثيرة التي يضطَرُّون إليها؟ {وإلى الجبال كيف نُصِبَتْ}: بهيئةٍ باهرةٍ حصل بها الاستقرار للأرض وثباتُها من الاضطراب وأودع [الله] فيها من المنافع الجليلة ما أودع، {وإلى الأرض كيف سُطِحَتْ}؛ أي: مُدَّت مدًّا واسعاً، وسُهِّلت غاية التسهيل؛ ليستقرَّ العبادُ على ظهرها ويتمكَّنوا من حرثها وغراسها والبنيان فيها وسلوك طرقها. واعلم أنَّ تسطيحها لا ينافي أنَّها كرةٌ مستديرةٌ قد أحاطتِ الأفلاك فيها من جميع جوانبها كما دلَّ على ذلك النقل والعقل والحسُّ والمشاهدة؛ كما هو مذكورٌ معروفٌ عند كثيرٍ من الناس ، خصوصاً في هذه الأزمنة، التي وقف الناس على أكثر أرجائها بما أعطاهم الله من الأسباب المقرِّبة للبعيد؛ فإنَّ التسطيح إنَّما ينافي كرويَّة الجسم الصغير جدًّا، الذي لو سطح؛ لم يبق له استدارةٌ تُذْكَر، وأمَّا جسم الأرض الذي هو كبيرٌ جدًّا واسعٌ ، فيكون كرويًّا مسطحاً، ولا يتنافى الأمران كما يعرف ذلك أرباب الخبرة.
[20-17] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو، جو رسولe کی تصدیق نہیں کرتے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو، اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کریں، جو اس کی توحید پر دلالت کرتی ہیں،فرماتا ہے: ﴿ اَفَلَا یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْ﴾ ’’کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گئے؟‘‘ یعنی کیا وہ اس کی انوکھی تخلیق پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بندوں کے لیے مسخر اور ان بے شمار منافع اور مصالح کے لیے ان کا مطیع کر دیا، جن کے وہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ﴿ وَاِلَى الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ﴾ ’’اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے وہ نصب کیے گئے ہیں؟‘‘ یعنی خوبصورت اور نمایاں بنا کر ان کو نصب کیا گیا ہے۔ جس سے زمین کو استقرار اور ثبات حاصل ہوا جس سے وہ حرکت نہیں کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑوں میں (انسان کے لیے) بڑے بڑے فوائد و دیعت کیے ہیں ۔ ﴿وَاِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ﴾ ’’اور زمین کی طرف کہ کس طرح وہ بچھائی گئی ہے۔‘‘ یعنی زمین کو کس طرح کشادگی کے ساتھ پھیلایا اور نہایت نرم اور ہموار بنایا گیا ہے۔ تاکہ بندے اس پر ٹھکانا کر سکیں، اس پر کھیتی باڑی کر سکیں، باغات اگا سکیں، عمارتیں تعمیر کر سکیں اور اس کے راستوں پر سفر کر سکیں۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ زمین کا ہموار ہونا، اس کے گول ہونے کے منافی نہیں۔ اس کو ہر جانب سے افلاک نے گھیرا ہوا ہے، جیسا کہ عقل، نقل، حس اور مشاہدہ اس پر دلالت کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے ہاں یہ مذکور اور معروف ہے، خاص طور پر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے دور کی مسافتوں کو قریب کرنے کے لیے جو اسباب فراہم کیے ہیں، ان کے ذریعے سے لوگ زمین کے اکثر گوشوں سے واقف ہو گئے ہیں، کسی شے کا ہموار ہونا ایک بہت ہی چھوٹے جسم کی گولائی کے منافی ہوسکتا ہے جسے اگر ہموار کیا جائے تو اس میں قابل ذکر گولائی باقی نہیں رہے گی۔رہا کرہ زمین کا جسم جو کہ بہت ہی بڑا اور کشادہ ہے جو بیک وقت گول اور ہموار ہے، دونوں امور ایک دوسرے کے منافی نہیں، جیسا کہ اہل خبر کو اس کی معرفت حاصل ہے۔
#
{21 ـ 22} {فذكِّرْ إنَّما أنت مذكِّرٌ}؛ أي: ذكِّر الناس وعِظْهم وأنذِرْهم وبشِّرْهم؛ فإنَّك مبعوثٌ لدعوة الخلق إلى الله وتذكيرهم، ولم تُبْعَثْ عليهم مسيطراً عليهم مسلطاً موكلاً بأعمالهم؛ فإذا قمت بما عليك؛ فلا عليك بعد ذلك لومٌ؛ كقوله تعالى: {وما أنت عليهم بجبارٍ. فَذكِّرْ بالقرآنِ مَن يخافُ وعيدِ}.
[21، 22] ﴿ فَذَكِّ٘رْ١ؕ۫ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّ٘رٌ﴾ یعنی لوگوں کو وعظ و نصیحت اور ان کو تنبیہ کیجیے اور ان کو خوشخبری دیجیے کیونکہ آپ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور ان کو نصیحت کرنے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ کو ان پر داروغہ بنا کر اور مسلط کر کے نہیں بھیجا گیا اور نہ ان کے اعمال کا وکیل بنا کر ہی بھیجا گیا ہے، پس جب آپ نے وہ ذمہ داری پوری کر دی جو آپ کے سپرد کی گئی تھی، تو اس کے بعد آپ پر کوئی ملامت نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مانند ہے: ﴿وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ١۫ فَذَكِّ٘رْ بِالْ٘قُ٘رْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ﴾ (ق:50؍45) ’’اور آپ ان کے ساتھ زبردستی کرنے والے نہیں، آپ قرآن کے ذریعے سے اس شخص کو نصیحت کرتے رہیے جو میرے عذاب کی وعید سے ڈرتا ہے۔‘‘
#
{23 ـ 24} وقوله: {إلاَّ مَن تولَّى وكَفَرَ}؛ أي: لكن مَن تولَّى عن الطاعة وكفر بالله، {فيعذِّبُه الله العذابَ الأكبرَ}؛ أي: الشديد الدائم.
[23، 24] ﴿ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَكَفَرَ﴾ مگر جو کوئی اطاعت سے منہ موڑ کر کفر کا رویہ اختیار اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے ﴿ فَیُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ﴾تو اللہ اسے نہایت سخت اور دائمی عذاب دے گا۔
#
{25 ـ 26} {إنَّ إلينا إيابَهم}؛ أي: رجوع الخلائق وجمعهم في يوم القيامةِ. {ثم إنَّ علينا حسابَهم}: على ما عملوا من خيرٍ وشرٍّ.
[25، 26] ﴿ اِنَّ اِلَیْنَاۤ اِیَ٘ابَهُمْ﴾ یعنی تمام خلائق کو ہماری ہی طرف لوٹنا اور قیامت کے روز ان سب کو (ہمارے ہی پاس) اکٹھے ہونا ہے۔ ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ﴾ ، پھر انھوں نے جو کوئی اچھا برا عمل کیا ہے، ان سے اس کا حساب لینا ہمارے ذمہ ہے۔