آیت:
تفسیر سورۂ اَعلیٰ
تفسیر سورۂ اَعلیٰ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 19 #
{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (1) الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى (2) وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى (3) وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى (4) فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَى (5) سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (6) إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى (7) وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى (8) فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (9) سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى (10) وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى (11) الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى (12) ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى (13) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15) بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (17) إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى (18) صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى (19)}.
آپ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو سب سے بلند تر ہے(1) وہ جس نے پیدا کیا پس ٹھیک ٹھیک بنایا(2) اور وہ جس نے اندازہ کیا پھر ہدایت دی(3) اور وہ ذات جس نے نکالا (زمین سے) چارہ(4) پھر کر دیا اس کو خشک چورا سیاہ (5) عنقریب ہم پڑھائیں گے آپ کو (قرآن) پس نہیں بھولیں گے آپ(6) سوائے اس کےجو چاہے اللہ، بلاشبہ وہ جانتا ہے ظاہر کو اور اس کو جو مخفی ہے(7) اور ہم توفیق دیں گے آپ کو آسان (راستے) کی(8) پس آپ نصیحت کیجیے اگر نفع دے نصیحت(9) ضرور نصیحت حاصل کرے گا وہ جو ڈرتا ہے (10) اور دور رہے گا اس سے بد بخت (11) وہ جو داخل ہو گابہت بڑی آگ میں(12) پھر نہ مرے گا وہ اس میں اور نہ جیے گا(13)تحقیق فلاح پا گیا وہ شخص جو پاک ہوا(14) اور اس نے یاد کیا نام اپنے رب کا ، پھر نماز پڑھی(15)بلکہ تم ترجیح دیتے ہو حیات دنیا کو(16)جبکہ آخرت بہت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے(17)بلاشبہ یہ (بات) پہلے صحیفوں میں ہے(18)( یعنی ) صحیفوں میں ابراہیم اور موسیٰ کے(19)
#
{1 ـ 3} يأمر تعالى بتسبيحه المتضمِّن لذكره وعبادته والخضوع لجلاله والاستكانة لعظمته، وأن يكون تسبيحاً يليق بعظمة الله تعالى؛ بأن تُذْكَرَ أسماؤه الحسنى العالية على كل اسم بمعناها العظيم الجليل ، وتذكر أفعاله التي منها أنَّه خلق المخلوقات فسواها؛ أي: أتقن وأحسن خلقها، {والذي قَدَّرَ}: تقديراً تتبعه جميع المقدَّرات، {فهدى}: إلى ذلك جميع المخلوقات، وهذه الهداية العامَّة التي مضمونها أنَّه هدى كلَّ مخلوق لمصلحته.
[3-1] اللہ تعالیٰ اپنی تسبیح و تنزیہہ کا حکم دیتا ہے جو اس کے ذکر، اس کی عبادت، اس کے جلال کے سامنے سرافگندہ اور اس کی عظمت کے سامنے فروتن ہونے کو متضمن ہے، نیز تسبیح ایسی ہو جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لائق ہے، یعنی اس کے اسمائے حسنیٰ و عالیہ کا اس اسم سے ذکر جس کےمعنی اچھے اور عظیم ہوں۔ اس کے افعال کا ذکر کیا جائے، ان افعال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا، ان کو درست کیا، یعنی نہایت مہارت کے ساتھ ان کو اچھی طرح تخلیق کیا۔ ﴿وَالَّذِیْ قَدَّرَ ﴾ اس نے اندازہ مقرر کر دیا، جس کی تمام مقدرات پیروی کرتی ہیں ﴿ فَهَدٰى ﴾ اور اس کی طرف تمام مخلوقات کی راہنمائی کی، یہ ہدایت عامہ ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس کے مصالح کی راہ دکھائی ہے۔
#
{4 ـ 5} وتُذكَر فيها نِعَمه الدنيويَّة، ولهذا قال: {والذي أخرج المرعى}؛ أي: أنزل من السماء ماءً، فأنبت به أصناف النبات والعشب الكثير، فرتع فيه الناسُ والبهائم وجميع الحيوانات. ثم بعد أن استكمل ما قَدَّرَ له من الشباب؛ ألوى نباته وصوَّح عشبه، {فجعله غثاءً أحوى}؛ أي: أسود؛ أي: جعله هشيماً رميماً.
[4، 5] اور اس میں اس کی تمام دنیاوی نعمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْۤ اَخْرَجَ الْ٘مَرْعٰى﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس پانی سے نباتات اور سر سبز گھاس کی مختلف اصناف اگائیں، جنھیں انسان، چوپائے اور تمام حیوانات کھاتے ہیں ، پھر اس نباتات وغیرہ کا جتنا جو بن مقدر ہوتا ہے، اس کے مکمل کر لینے کے بعد نباتات اور سبز گھاس کو خشک کر دیتا ہے۔ ﴿ فَجَعَلَهٗ غُثَآءًؔ اَحْوٰى﴾ ’’ پھر اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کردیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس نباتات کو چورا چورا اور بوسیدہ بنا دیتا ہے اور اس میں وہ دینی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے۔
#
{6 ـ 7} ويذكر فيها نعمه الدينيَّة، ولهذا امتنَّ الله بأصلها ومادَّتها، وهو القرآن، فقال: {سنقرِئُك فلا تَنسى}؛ أي: سنحفظ ما أوحيناه إليك من الكتاب ونوعيه قلبك؛ فلا تنسى منه شيئاً، وهذه بشارةٌ من الله كبيرةٌ لعبده ورسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ أنَّ الله سيعلمه علماً لا ينساه، {إلاَّ ما شاء الله}: مما اقتضت حكمتُه أن ينسيكه لمصلحةٍ وحكمةٍ بالغةٍ. {إنَّه يعلم الجهر وما يَخْفى}: ومن ذلك أنَّه يعلم ما يُصْلِحُ عباده؛ أي: فلذلك يشرع ما أراد ويحكم بما يريد.
[6، 7] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کی اصل اور اس کے مادے یعنی قرآن کا ذکر کر کے احسان جتلایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ سَنُقْ٘رِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى﴾ ہم نے آپ کی طرف جو کتاب وحی کی ہے، اسے محفوظ کر دیں گے اور آپ کے قلب کو یاد کرا دیں گے۔ پس آپ اس میں سے کچھ بھی نہیں بھولیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفیٰe کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا علم عطا کرے گا جسے آپ کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ﴿ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ ﴾ ’’مگر جو اللہ چاہے ‘‘ اور اس کی حکمت تقاضا کرے کہ کسی مصلحت اور حکمت بالغہ کی بنا پر آپ کو فراموش کرا دے ﴿ اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا یَخْفٰى﴾ ’’بے شک وہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔‘‘ اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کیا درست ہے، اس لیے وہ جو چاہتا ہے مشروع کرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔
#
{8} {ونيسِّرُك لليُسرى}: وهذه أيضاً بشارةٌ أخرى ؛ أنَّ الله ييسِّر رسولَه - صلى الله عليه وسلم - لليُسرى في جميع أموره، ويجعل شرعَه ودينَه يسيراً.
[8] ﴿ وَنُیَسِّرُكَ لِلْ٘یُسْرٰى ﴾ یہ ایک اور خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe کو آپ کے تمام امور میں آسانی مہیا فرمائے گا اور آپ کے دین اور شریعت کو آسان بنائے گا۔
#
{9 ـ 13} {فذكِّر}: بشرع الله وآياته، {إن نفعتِ الذِّكْرى}؛ أي: ما دامت الذِّكرى مقبولةً والموعظة مسموعةً، سواء حصل من الذكرى جميع المقصود أو بعضه. ومفهوم الآية أنَّه إن لم تنفع الذِّكرى؛ بأنْ كان التَّذكير يزيد في الشرِّ أو يَنْقُصُ من الخير؛ لم تكن مأموراً بها، بل منهيًّا عنها؛ فالذِّكرى ينقسم الناس فيها قسمين: منتفعون، وغير منتفعين. فأمّا المنتفعون فقد ذكرهم بقوله: {سيذَّكَّر مَن يخشى}: الله؛ فإنَّ خشية الله تعالى والعلم بمجازاته على الأعمال توجب للعبد الانكفاف عمَّا يكرهه الله والسعي في الخيرات، وأمَّا غير المنتفعين؛ فذكرهم بقوله: {ويتجنَّبُها الأشقى. الذي يَصْلى النارَ الكُبرى}: وهي النار الموقدة، التي تطَّلِعُ على الأفئدة، {ثمَّ لا يموت فيها ولا يَحْيا}؛ أي: يعذَّب عذاباً أليماً من غير راحةٍ ولا استراحةٍ، حتَّى إنَّهم يتمنَّوْن الموت؛ فلا يحصُلُ لهم؛ كما قال تعالى: {لا يقضى عليهم فيموتوا ولا يخفَّفُ عنهم من عذابها}.
[13-9] ﴿ فَذَكِّ٘رْ ﴾ پس آپ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کی آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہیے ﴿ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى ﴾ ’’اگر نصیحت فائدہ دے۔‘‘ یعنی جب تک کہ تذکیر قابل قبول اور نصیحت سنی جاتی ہو، خواہ اس نصیحت سے پورا مقصد حاصل ہوتا ہو یا اس کا کچھ حصہ۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے، یعنی جس کو نصیحت کی گئی ہے وہ شر میں اور بڑھ جائے یا اس میں بھلائی کم ہو جائے تو آپ نصیحت پر مامور نہیں، بلکہ تب آپ نصیحت نہ کرنے پر مامور ہیں۔ پس نصیحت کے ضمن میں لوگ دو اقسام میں منقسم ہیں: نصیحت سے فائدہ اٹھانے والے اور نصیحت سے فائدہ نہ اٹھانے والے۔ رہے فائدہ اٹھانے والے تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے: ﴿ سَیَذَّكَّـرُ مَنْ یَّخْشٰى ﴾ ’’جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہ نصیحت حاصل کرے گا۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اعمال کی جزا و سزا دینے پر اس کی قدرت کا علم بندے کے لیے ان ا مور سے باز رہنے کا موجب بنتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتاہے اور بھلائی کے امور میں سعی کا موجب بنتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کا ذکر کیا ہے: ﴿ وَیَتَجَنَّبُهَا الْاَشْ٘قَىۙ۰۰ الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى ﴾ ’’اور بدبخت پہلو تہی کرے گا جو بڑی آگ میں داخل ہوگا۔‘‘ اور یہ بھڑکائی ہوئی آگ ہے، جو دلوں سے لپٹ جائے گی۔ ﴿ ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰى ﴾ ’’جہاں پھر نہ وہ مرے گا نہ جیے گا۔‘‘ یعنی ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا، اس میں کوئی راحت ہو گی نہ استراحت، حتیٰ کہ وہ موت کی تمنا کریں گے، مگر موت ان کو نہیں آئے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا یُ٘قْ٘ضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ﴾ (فاطر:35؍36) ’’نہ ان کو موت آئے گی کہ مر جائیں نہ جہنم کا عذاب ان سے ہلکا کیا جائے گا۔‘‘
#
{14 ـ 15} {قد أفلح من تَزَكَّى}؛ أي: قد فاز وربح من طهَّر نفسه ونقَّاها من الشرك والظلم ومساوئ الأخلاق، {وذَكَرَ اسمَ ربِّه فصلَّى}؛ أي: اتَّصف بذكر الله، وانصبغ به قلبُه، فأوجب له ذلك العمل بما يرضي الله، خصوصاً الصلاة، التي هي ميزانُ الإيمان. هذا معنى الآية [الكريمة]، وأمَّا من فسَّر قوله: {تزكى}؛ يعني: أخرج زكاة الفطر، و {ذكر اسم ربِّه فصلى}؛ أنَّه صلاة العيد؛ فإنَّه وإن كان داخلاً في اللفظ وبعض جزئيَّاته؛ فليس هو المعنى وحده.
[14، 15] ﴿ قَدْ اَفْ٘لَ٘حَ مَنْ تَزَؔكّٰى ﴾ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، شرک، ظلم اور برے اخلاق سے اس کی تطہیر کی، اس نے نفع اٹھایا اور فوزیاب ہوا ﴿ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَ٘صَلّٰى﴾ ’’اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔‘‘ یعنی جو ذکر الٰہی سے متصف ہوا اور اس کا قلب ذکر الٰہی کے رنگ میں ڈوب گیا تو یہ ان اعمال کا موجب بنتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، خاص طور پر نماز جو ایمان کی میزان ہے۔یہ ہیں آیت کریمہ کے معنی اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ تَزَؔكّٰى ﴾ کےمعنی یہ کرتا ہے کہ اس نے زکاۃ فطر دی اور ﴿ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَ٘صَلّٰى﴾ سے مراد عید کی نماز ہے۔ تو یہ اگرچہ لفظ کے (عمومی) معنی میں داخل ہے اور اس کی جزئیات میں سے ہے مگر صرف یہی ایک معنی نہیں ہیں۔
#
{16 ـ 17} {بل تؤثرون الحياة الدُّنيا}؛ أي: تقدِّمونها على الآخرة، وتختارون نعيمها المنغَّص المكدَّر الزائل على الآخرة، {والآخرةُ خيرٌ وأبقى}: خيرٌ من الدُّنيا في كلِّ وصفٍ مطلوبٍ، {وأبقى}؛ لكونها دار خلدٍ وبقاءٍ [وصفاء] والدنيا دار فناء. فالمؤمن العاقل لا يختار الأردأ على الأجود، ولا يبيع لذَّةَ ساعةٍ بترحة الأبد، فحبُّ الدُّنيا وإيثارها على الآخرة رأس كلِّ خطيئة.
[16، 17] ﴿ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا﴾ یعنی تم دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم رکھتے ہو اور آخرت کے مقابلے میں ختم ہونے والی، مکدر کرنے والی اور زائل ہو جانے والی نعمتوں کو ترجیح دیتے ہو ﴿ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى ﴾ حالانکہ آخرت ہر وصف مطلوب میں دنیا سے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے، کیونکہ آخرت دارالخلد اور دارالبقاء ہے اور دنیا دارالفنا ءہے، اور ایک عقل مند مومن عمدہ کے مقابلے میں ردی کو منتخب کرے گا نہ ایک گھڑی کی لذت کے لیے ابدی رنج و غم کو خریدے گا ۔پس دنیا کی محبت اور اس کو آخرت پر ترجیح دینا ہر گناہ کی جڑ ہے۔
#
{18 ـ 19} {إنَّ هذا}: المذكور لكم في هذه السورة المباركة من الأوامر الحسنة والأخبار المستحسنة، {لفي الصُّحُفِ الأولى. صُحُفِ إبراهيم وموسى}: اللَّذيْنِ هما أشرف المرسلين بعد محمدٍ صلى الله عليه وعليهم أجمعين. فهذه أوامر في كلِّ شريعةٍ؛ لكونها عائدةٌ إلى مصالح الدارين، وهي مصالح في كلِّ زمانٍ ومكانٍ.
[18، 19] ﴿ اِنَّ هٰؔذَا ﴾ ’’بے شک یہ۔‘‘یعنی وہ اوامر حسنہ اور اخبار مستحسنہ جو اس سورۂ مبارکہ میں تمھارے سامنے ذکر کیے گئے ﴿ لَ٘فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ۙ۰۰ صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰؔى﴾ ’’پہلے صحیفوں میں ہیں یعنی ابراہیم اور موسیٰ(i) کے صحیفوں میں۔‘‘ جو دونوں محمد مصطفیٰe کے بعد تمام انبیاء و مرسلین میں سب سے زیادہ شرف کے حامل رسول ہیں۔ پس یہ اوامر ہر شریعت میں موجود ہیں کیونکہ یہ دنیا اور آخرت کے مصالح کی طرف لوٹتے ہیں اور ہر زمان و مکان میں ان مصالح کی حاجت ہے۔