آیت:
تفسیر سورۂ فجر
تفسیر سورۂ فجر
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (4) هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ (5)}.
قسم ہے فجر کی(1) اور دس راتوں کی(2) اور جفت کی اور طاق کی(3) اور رات کی جب وہ گزر جاتی ہے(4) یقیناً اس میں بہت بڑی قسم ہے صاحب عقل کے لیے(5)
#
{1 ـ 5} الظاهر أن المقسم عليه هو المقسَم به ، وذلك جائزٌ مستعملٌ إذا كان أمراً ظاهراً مهمًّا، وهو كذلك في هذا الموضع. أقسم تعالى بالفجر، الذي هو آخرُ الليل ومقدِّمة النهار؛ لما في إدبار الليل وإقبال النهار من الآيات الدالَّة على كمال قدرة الله تعالى، وأنَّه تعالى هو المدبِّر لجميع الأمور، الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له. ويقع في الفجر صلاةٌ فاضلةٌ معظَّمة يَحْسُنُ أن يُقسم الله بها، ولهذا أقسم بعده بالليالي العشر، وهي على الصحيح ليالي عشر رمضان أو عشر ذي الحجَّة ؛ فإنَّها ليالٍ مشتملةٌ على أيَّام فاضلةٍ، ويقع فيها من العبادات والقُرُبات ما لا يقع بغيرها. وفي ليالي عشر رمضان ليلة القدر، التي هي خيرٌ من ألف شهر، وفي نهارها صيامُ آخر رمضان، الذي هو أحد أركان الإسلام العظام. وفي أيَّام عشر ذي الحجَّة الوقوف بعرفة، الذي يغفر الله فيه لعباده مغفرةً يحزن لها الشيطان؛ فإنَّه ما رُئي الشيطان أحقر ولا أدحر منه في يوم عرفة ؛ لما يرى من تنزُّل الأملاك والرحمة من الله على عباده ، ويقع فيها كثيرٌ من أفعال الحجِّ والعمرة، وهذه أشياء معظَّمة مستحقَّة أن يقسم الله بها، {والليل إذا يَسْرِ}؛ أي: وقت سريانه وإرخائه ظلامه على العباد، فيسكنون ويستريحون ويطمئنُّون رحمةً منه تعالى وحكمةً. {هل في ذلك}: المذكور، {قَسَمٌ لذي حِجْرٍ}؛ أي: لذي عقل؟ نعم بعضُ ذلك يكفي لمن كان له قلبٌ أو ألقى السمع وهو شهيدٌ.
[5-1] ظاہر ہے کہ مقسم بہ ہی مقسم علیہ ہے۔ جب معاملہ ظاہر اور اہم ہو تو یہ جائز اور مستعمل ہے، اس مقام پر بھی اسی طرح ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم کھائی ہے جو رات کا آخر اور دن کا مقدمہ ہے، کیونکہ رات کے لوٹنے اور دن کے آنے میں ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں، نیز یہ کہ تمام امور کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔فجر کے وقت ایک نہایت فضیلت اور عظمت والی نماز واقع ہوتی ہے اور وہ اس کی اہل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے، اس لیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ رمضان المبارک یا ذوالحج کی دس راتیں ہیں۔ کیونکہ یہ راتیں فضیلت والے ایام پر مشتمل ہیں۔ ان راتوں میں ایسی عبادت و قربات واقع ہوتی ہیں جو دوسرے ایام میں نہیں ہوتیں، رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کسی ایک طاق رات میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ان کے دنوں میں رمضان کے آخری عشرے کے روزے رکھے جاتے ہیں، جو ارکان اسلام میں سے ایک بہت بڑا رکن ہے۔ اور ذوالحج کے پہلے عشرے میں عرفہ میں وقوف ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت سے نوازتا ہے جس سے شیطان غمگین ہوتا ہے، شیطان جس قدر حقیر اور دھتکارا ہوا عرفہ کے دن ہوتا ہے، اتنا حقیر اور دھتکارا ہوا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ کیونکہ اس روز وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر فرشتوں اور اس کی طرف سے رحمت کو اترتے دیکھتا ہے۔ ان دنوں میں حج اور عمرے کے بہت سے افعال واقع ہوتے ہیں اور یہ اشیاء قابل تعظیم اور اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔ ﴿وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ﴾ ’’اور رات کی (قسم) جب جانے لگے۔‘‘ یعنی اس کے گزرنے اور بندوں پر اپنی تاریکی کی چادر تان دینے کے وقت، پس بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت کی بنا پر آرام اور استراحت کرتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں۔ ﴿هَلْ فِیْ ذٰلِكَ﴾ ان مذکورہ چیزوں میں ﴿قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ﴾ عقل مند کے لیے قسم ہے؟ ہاں! اس میں سے کچھ چیزیں ہی اس شخص کے لیے کافی ہیں جو دل بیدار رکھتا ہے اور متوجہ ہو کر کان لگا کر سنتا ہے۔
آیت: 6 - 14 #
{أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ (6) إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (7) الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ (8) وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (9) وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ (10) الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ (11) فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ (14)}.
کیا نہیں دیکھا آپ نے کیسا سلوک کیا آپ کے رب نے عاد کے ساتھ(6) (یعنی ) ارم جو ستونوں والے تھے(7) وہ کہ نہیں پیدا کیا گیا (کوئی) ان جیسا شہروں میں(8) اور (قوم) ثمود کے ساتھ وہ جو تراشتے تھے چٹانوں کو وادی میں(9) اور فرعون میخوں والے کے ساتھ؟ (10) وہ جنھوں نے سرکشی کی شہروں میں (11) پس زیادہ کیا انھوں نے ان (شہروں) میں فساد (12) تو برسایا ان پر آپ کے رب نے کوڑا عذاب کا (13) بلاشبہ آپ کا رب گھات (تاک) میں ہے (14)
#
{6 ـ 14} يقول تعالى: {ألم تر}: بقلبك وبصيرتك، {كيف فَعَلَ}: بهذه الأمم الطاغية، عاد وهي {إرم}: القبيلة المعروفة في اليمن، {ذات العِماد}؛ أي: القوَّة الشديدة والعتوِّ والتجبُّر، {التي لم يُخْلَقْ مثلُها في البلاد} ؛ أي: في جميع البلدان في القوَّة والشدَّة؛ كما قال لهم نبيُّهم هودٌ عليه السلام: {واذكُروا إذْ جَعَلَكُم خُلَفاء من بعدِ قوم نوح وزادَكُم في الخَلْقِ بَسْطَةً فاذكُروا آلاء الله لعلَّكُم تفلِحونَ}. {وثمودَ الذين جابوا الصَّخْر بالواد}؛ أي: وادي القرى؛ نحتوا بقوَّتهم الصخور فاتَّخذوها مساكن، {وفرعونَ ذي الأوتادِ}؛ أي: ذي الجنود الذي ثبَّتوا ملكه كما تثبت الأوتاد [و] ما يراد إمساكه بها، {الذين طَغَوْا في البلاد}: هذا الوصف عائدٌ إلى عادٍ وثمودَ وفرعونَ ومن تَبِعَهم؛ فإنَّهم طَغَوْا في بلاد الله، وآذوا عباد الله في دينهم ودنياهم. ولهذا قال: {فأكثروا فيها الفسادَ}: وهو العمل بالكفر وشعبه من جميع أجناس المعاصي، وسعوا في محاربة الرُّسُل وصدِّ الناس عن سبيل الله، فلما بلغوا من العتوِّ ما هو موجبٌ لهلاكهم؛ أرسل الله عليهم من عذابه ذَنُوباً وسوطَ عذاب، {إنَّ ربَّك لبالمرصادِ}: لمن يعصيه ؛ يمهِلُه قليلاً ثم يأخُذُه أخذَ عزيزٍ مقتدرٍ.
[14-6] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَلَمْ تَرَؔ﴾ یعنی کیا آپ نے اپنے قلب اور اپنی بصیرت سے دیکھا نہیں کہ اس سرکش قوم کے ساتھ کیا کیا گیا؟ اور وہ ﴿اِرَمَ﴾ ’’ارم۔‘‘ یمن کا ایک معروف قبیلہ تھا ﴿ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾ ’’ستونوںوالے۔‘‘ یعنی بہت زیادہ قوت، سرکشی اور ظلم و جبر والے لوگ تھے۔ ﴿ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ﴾ یعنی تمام شہروں میں طاقت اور سختی میں قوم عاد جیسا کوئی نہ تھا۔ جیسا کہ ان کے نبی حضرت ہودu نے ان سے فرمایا: ﴿ وَاذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَؔكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَةً١ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (الأعراف:7؍69) ’’اور یاد کرو جب اللہ نے تمھیں، قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا اور ڈیل ڈول میں تمھیں خوب تنومند کیا، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ ۔‘‘ ﴿ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ﴾ ’’اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادی میں پتھر تراشتے تھے۔‘‘ یعنی وادی القریٰ میں انھوں نے اپنی قوت اور طاقت سے چٹانوں کو تراشا اور وہاں گھر بنائے۔ ﴿ وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ﴾ ’’اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا۔‘‘ یعنی لشکروں والا تھا جنھوں نے اس کے اقتدار کو ثبات بخشا جیسے میخیں اس چیز کو مضبوط کرتی ہی جس کو ٹھہرانا مقصود ہوتا ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ﴾ ’’جنھوں نے شہروں میں سرکشی کی۔‘‘ یہ وصف عاد، ثمود، فرعون اور ان کی پیروی کرنے والوں کی طرف لوٹتا ہے، کیونکہ انھوں نے اللہ کے شہروں میں سرکشی کا رویہ اختیار کیا، اللہ کے بندوں کو ان کے دین و دنیا میں ستایا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَاَكْثَرُوْا فِیْهَا الْفَسَادَ﴾ ’’اور بہت فساد مچا رکھا تھا۔‘‘ یعنی کفر اور اس کے شعبوں، یعنی معاصی کی تمام اقسام پر عمل کیا۔ انبیاء و مرسلین کے خلاف جنگ کی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے لیے کوشاں رہے۔ جب وہ سرکشی میں اس حد تک پہنچ گئے جو ان کی ہلاکت کی موجب تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیجا اور ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْ٘مِرْصَادِ۠﴾ ’’بے شک آپ کا رب میں گھات ہے۔‘‘ اس شخص کی گھات میں ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے، اسے تھوڑا سا عرصہ مہلت دیتا ہے، پھر وہ اسے غالب اور قدرت والے کی طرح پکڑتا ہے۔
آیت: 15 - 20 #
{فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ (15) وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ (16) كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ (17) وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (18) وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا (19) وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (20)}.
پس لیکن انسان! جب آزماتا ہے اس کو اس کا رب،پھر وہ عزت دیتا ہے اس کو اور نعمت دیتا ہے اس کو تو وہ کہتا ہے، میرے رب نے مجھے عزت بخشی (15) اور لیکن جب وہ آزماتا ہے اسے ، پھر تنگ کرتا ہے اس پر اس کا رزق تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری توہین کی (16) ہرگز نہیں!بلکہ نہیں قدر کرتے تم یتیم کی (17) اور نہیں ترغیب دیتے تم کھانا کھلانے کی مسکین کو (18) اور تم کھا جاتے ہو میراث کا مال خوب سمیٹ سمیٹ کر(19) اور تم محبت کرتے ہو مال سے محبت بہت زیادہ (20)
#
{15 ـ 20} يخبر تعالى عن طبيعة الإنسان من حيث هو، وأنَّه جاهلٌ ظالمٌ لا علم له بالعواقب، يظنُّ الحالة التي تقع فيه تستمرُّ ولا تزول، ويظنُّ أنَّ إكرام الله في الدُّنيا وإنعامه عليه يدلُّ على كرامته [عنده] وقربِهِ منه، وأنَّه إذا {قَدَرَ عليه رِزْقَه}؛ أي: ضيَّقه، فصار بِقَدَرِ قوتِهِ لا يفضُلُ عنه؛ أنَّ هذا إهانةٌ من الله له، فردَّ الله عليه هذا الحسبان، فقال: {كلا}؛ أي: ليس كلُّ مَنْ نَعَّمْتُهُ في الدُّنيا فهو كريمٌ عليَّ، ولا كلُّ من قَدَرْتُ عليه رِزْقَه فهو مهانٌ لديَّ، وإنَّما الغِنى والفقر والسعة والضيق ابتلاءٌ من الله وامتحانٌ يمتحن به العباد؛ ليرى من يقوم له بالشكر والصبر، فيثيبه على ذلك الثواب الجزيل، ممَّن ليس كذلك، فينقله إلى العذاب الوبيل. وأيضاً؛ فإنَّ وقوف همَّة العبد عند مراد نفسه فقط من ضعف الهمَّة، ولهذا لامَهُمُ الله على عدم اهتمامهم بأحوال الخلق المحتاجين، فقال: {كلاَّ بل لا تكرِمون اليتيمَ}: الذي فقد أباه وكاسبه واحتاج إلى جبر خاطره والإحسان إليه؛ فأنتُم لا تكرِمونه بل تهينونه، وهذا يدلُّ على عدم الرحمة في قلوبكم وعدم الرغبة في الخير، {ولا تحاضُّون على طعام المسكين}؛ أي: لا يحضُّ بعضكم بعضاً على إطعام المحاويج من الفقراء والمساكين ، وذلك لأجل الشحِّ على الدنيا ومحبَّتها الشديدة المتمكَّنة من القلوب. ولهذا قال: {وتأكُلون التُّراثَ}؛ أي: المال المخلَّف، {أكلاً لَمًّا}؛ أي: ذريعاً، لا تبقون على شيء منه، {وتحبُّون المال حُبًّا جَمًّا}؛ أي: شديداً ، وهذا كقوله: {بل تؤثرون الحياةَ الدُّنيا والآخرةُ خيرٌ وأبقى}، {كلاَّ بل تحبُّونَ العاجِلَةَ وتَذَرون الآخرةَ}.
[20-15] اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کی فطرت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ ہے، نیز یہ کہ وہ جاہل اور ظالم ہے، اسے اپنے انجام کا کوئی علم نہیں، وہ جس حالت میں ہوتا ہے، اس کے بارے میں سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہ ہو گی وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے اندر اللہ تعالیٰ کا اس کو اکرام بخشنا اور اسے نعمتوں سے نوازنا (آخرت میں) اس کی تکریم اور اس کے قرب پر دلالت کرتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ ﴿ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ﴾ اس کا رزق تنگ کر دے اور اس کا رزق نپا تلا ہو جائے اور وافر نہ ہو، تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اہانت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اس خیال کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿كَلَّا﴾ یعنی ضروری نہیں کہ ہر وہ شخص جس کو میں نے نعمتوں سے نوازا ہے، میرے ہاں قابل اکرام و تکریم ہے اور جس کا رزق میں نے تنگ کر دیا ہے وہ میرے ہاں حقیر ہے۔ دولت مندی اور محتاجی، رزق کی کشادگی اور تنگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے جس کے ذریعے سے وہ بندوں کا امتحان لیتا ہے، تاکہ وہ دیکھے کہ کون اس پر شکر اور صبر کرتا ہے تاکہ وہ اسے ثواب جزیل سے نوازے، جو ایسا نہ کرے اسے سخت عذاب میں ڈال دے۔ نیز بندے کے ارادے کا فقط اپنے نفس کی مراد پر ٹھہرنا ارادے کی کمزوری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے محتاج مخلوق کے بارے میں ان کے عدم اہتمام پر ان کو ملامت کی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ﴾ ’’ہر گز نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔‘‘ جو اپنے باپ اور کمانے والے سے محروم ہے اور وہ اس چیز کا محتاج ہے کہ اس کے دل کو جوڑا جائے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ تم اس کا اکرام نہیں کرتے، بلکہ تم اس کی اہانت کرتے ہو اور یہ چیز تمھارے دلوں میں رحم کے معدوم ہونے اور بھلائی میں عدم رغبت پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ﴾ یعنی تم حاجت مندوں، فقراء اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم دنیا (کے مال و دولت) پر بہت بخیل ہو۔ تم دنیا سے بہت محبت کرتے ہو اور اس کی شدید محبت تمھارے دلوں میں سما گئی ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَتَاْكُلُوْنَ الـتُّ٘رَاثَ﴾ ’’اور تم کھا جاتے ہو وراثت۔‘‘ یعنی چھوڑا ہوا مال ﴿ اَكْلًا لَّمًّا﴾ ’’سمیٹ کر ۔‘‘ اور اس میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتے۔ ﴿ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ یعنی تم مال سے سخت محبت کرتے ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاٞۖ۰۰وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى﴾ (الأعلی:87؍16-17) ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَۙ۰۰ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 75؍20-21) ’’ہرگز نہیں، بلکہ تم دنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو ترک کیے دیتے ہو۔‘‘
آیت: 21 - 30 #
{كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا (21) وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (22) وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (23) يَقُولُ يَالَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (24) فَيَوْمَئِذٍ لَا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ (25) وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (26) يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي (30)}
ہرگز نہیں! جب کوٹ کر ہموار کر دی جائے گی زمین ریزہ ریزہ کر کے (21) اور آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف در صف (22) اور لائی جائے گی اس دن جہنم اس دن یاد کرے گا انسان (اپنے کرتوت) اور کیونکر (مفید) ہو گا اس کے لیے یاد کرنا؟ (23) وہ کہے گا اے کاش! آگے بھیجا ہوتا میں نے اپنی (اس) زندگی کے لیے (24) پس اس دن نہیں عذاب دے گا اس جیسا عذاب کوئی بھی (25) اور نہ جکڑے گا اس جیسا جکڑنا کوئی بھی (26) اے روح اطمینان والی! (27) تو لوٹ اپنے رب کی طرف راضی ہونے والی پسندیدہ (28) پس تو داخل ہو میرے بندوں میں(29) اور داخل ہو میری جنت میں (30)
#
{21 ـ 24} {كلاَّ}؛ أي: ليس كلُّ ما أحببتم من الأموال وتنافستُم فيه من اللَّذَّات بباقٍ لكم، بل أمامكم يومٌ عظيمٌ وهولٌ جسيمٌ تُدَكُّ فيه الأرض والجبال وما عليها حتى تُجْعَلَ قاعاً صفصفاً لا عِوَجَ فيه ولا أمتا، ويجيء الله لفصل القضاء بين عباده في ظُلَلٍ من الغمام، ويجيء الملائكة الكرام أهل السماواتِ كلُّهم {صفًّا صفًّا}؛ أي: صفّاً بعد صفٍّ، كلُّ سماءٍ يجيء ملائكتها صفًّا، يحيطون بمن دونَهم من الخلق، وهذه الصفوف صفوفُ خضوع وذُلٍّ للملك الجبار، {وجيء يومئذٍ بجهنَّم}: تقودُها الملائكة بالسلاسل؛ فإذا وقعت هذه الأمور؛ فَـ {يومئذٍ يتذكَّرُ الإنسان}: ما قدَّمه من خيرٍ وشرٍّ، {وأنَّى له الذِّكرى}: فقد فات أوانُها وذهب زمانها، {يقول}: متحسِّراً على ما فرَّط في جنب الله: {يا ليتني قدَّمتُ لحياتي}: الباقية الدائمة عملاً صالحاً؛ كما قال تعالى: {يقول يا ليتني اتَّخَذْتُ مع الرسولِ سبيلاً. يا ويلتى لَيْتَني لم أتَّخِذْ فلاناً خليلاً}، وفي هذا دليلٌ على أنَّ الحياة التي ينبغي السعي في كمالها وتحصيلها وكمالها وفي تتميم لَذَّاتها هي الحياة في دار القرار؛ فإنَّها دارُ الخُلد والبقاء.
[24-21] ﴿ كَلَّاۤ ﴾ یعنی ہرگز ایسا نہیں، تم جس مال سے محبت کرتے ہو اور اس کی لذتوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت رکھتے ہو ، تمھارے پاس باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ بلکہ تمھارے سامنے ایک بہت بڑا دن اور ایک بہت بڑا خوف ہے۔ اس دن زمین، پہاڑوں اور اس پر موجود ہر چیز کو کوٹ کوٹ کر ہموار کر دیا جائے گا، حتیٰ کہ اسے ہموار چٹیل میدان بنا دیا جائے گا، اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے بادلوں کے سائے میں آئے گا، تمام اہل آسمان مکرم فرشتے﴿صَفًّا صَفًّا﴾ صف در صف آئیں گے، ہر آسمان کے فرشتے ایک صف میں آئیں گے اور اپنے سے کم تر مخلوق کو گھیر لیں گے۔ یہ صفیں بادشاہ جبار کے حضور خشوع اور عاجزی کی صفیں ہوں گی۔ ﴿ وَجِایْٓءَ یَوْمَىِٕذٍۭؔ بِجَهَنَّمَ﴾ ’’اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی۔‘‘ فرشتے اسے زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، پس جب یہ تمام امور وقوع پذیر ہوں گے ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّـرُ الْاِنْسَانُ﴾ اس روز انسان یاد کرے گا کہ اس نے کیا بھلائی یا برائی آگے بھیجی ہے ﴿ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى ﴾ ’’مگر اس تنبیہ سے اسے فائدہ کہاں مل سکے گا؟‘‘ اس کا وقت گزر چکا اور اس کا زمانہ بیت گیا۔ ﴿ یَقُوْلُ﴾ اس نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو کوتاہی کی، اس پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا: ﴿یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ﴾ کاش میں نے اپنی دائمی اور ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے لیے کچھ نیک عمل آگے بھیجا ہوتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّؔخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۰۰ یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّؔخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا﴾ (الفرقان:25؍27-28) ’’کہے گا، کاش! میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا، ہائے میری شامت! کاش! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ان آیات کریمہ میں دلیل ہے کہ وہ زندگی جس کے کمال کے حصول اور اس کی لذات کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کے گھر کی زندگی ہے، کیونکہ آخرت کا گھر دارالخلد اور دارالبقاء ہے۔
#
{25 ـ 26} {فيومئذٍ لا يعذِّبُ عذابَه أحدٌ}: لمن أهمل ذلك اليوم ونسي العمل له، {ولا يوثِقُ وَثاقَه أحدٌ}؛ فإنَّهم يقرنون بسلاسل من نارٍ، ويسحَبون على وجوههم في الحميم، ثم في النار يُسْجَرون؛ فهذا جزاءُ المجرمين.
[25، 26] ﴿ فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَهٗۤ اَحَدٌ﴾ ’’پس اس دن کوئی اللہ کے عذاب کی طرح عذاب نہیں دے گا۔‘‘ اس شخص کو جس نے اس دن کو مہمل جانا اور اس کے لیے عمل کو فراموش کر دیا۔ ﴿ وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَهٗۤ اَحَدٌ﴾ ’’اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا۔‘‘ پس انھیں آگ کی زنجیروں میں باندھا جائے گا اور چہروں کے بل کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ان کو جلایا جائے گا، پس یہی مجرموں کی سزا ہے۔
#
{27 ـ 30} وأمَّا مَن آمن بالله واطمأنَّ به وصدَّق رسله؛ فيقال له: {يا أيَّتها النفسُ المطمئنَّةُ}: إلى ذِكْرِ الله، الساكنة إلى حبِّه ، التي قرَّتْ عينُها بالله، {ارجِعي إلى ربِّك}: الذي ربَّاك بنعمته، [وأسدى عليك من إحسانه ما صرت به من أوليائه وأحبابه] {راضيةً مَرْضِيَّةً}؛ أي: راضيةً عن الله وعن ما أكرمها به من الثواب، والله قد رضي عنها، {فادْخُلي في عبادي. وادْخُلي جنَّتي}: وهذا تخاطَبُ به الرُّوح يوم القيامةِ، وتخاطَبُ به وقتَ السياق والموت.
[30-27] وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اسی پر مطمئن ہوا اور اس نے اس کے رسولوں کی تصدیق کی تو اس سے کہا جائے گا :﴿ یٰۤاَیَّتُهَا النَّ٘فْ٘سُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ﴾ اے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان اور اس کی محبت میں سکون حاصل کرنے والے نفس! جس کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ ﴿ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ﴾ ’’اپنے رب کی طرف لوٹ چل‘‘ جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے تیری نشوونما کی ﴿ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب سے راضی ہو کر جس سے اللہ تعالیٰ نے تجھ کو سرفراز فرمایا اور اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہوا۔ ﴿فَادْخُ٘لِیْ فِیْ عِبٰؔدِیْۙ۰۰ وَادْخُ٘لِیْ جَنَّتِیْ﴾ ’’پس تو میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔‘‘ قیامت کے روز ان الفاظ سے روح کو مخاطب کیا جائے گا اور اسی خطاب سے موت کے وقت اور اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہوئے اس کو مخاطب کیا جائے گا۔