آیت:
تفسیر سورۂ نازعات
تفسیر سورۂ نازعات
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 14 #
{وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا (1) وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا (2) وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا (3) فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا (4) فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا (5) يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (6) تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ (7) قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ (8) أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ (9) يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ (10) أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَخِرَةً (11) قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ (12) فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ (13) فَإِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ (14)}.
قسم ہے سختی سے روح نکالنے والوں کی ڈوب کر(1) اور آسانی سے روح نکالنے والوں کی نرمی سے(2) اور تیرنے والوں کی تیزی سے تیر نا (3) پھر آگے بڑھنے والوں کی دوڑ کر(4) پھر ان کی جو تدبیر کرنے والے ہیں ہر امر کی(5) جس دن کانپے گی کانپنے والی(6) اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آ نے والی(7) کئی دل اس دن دھڑکتے ہوں گے(8) ان کی آنکھیں جھکی (نیچی) ہوں گی(9) وہ کہتے ہیں، کیا یقیناً ہم لوٹائے جائیں گے پہلی حالت میں؟ (10) کیا جب ہو جائیں گے ہم ہڈیاں بوسیدہ؟ (11) وہ کہتے ہیں، یہ اس وقت واپسی ہو گی خسارے والی (12) پس صرف وہ تو ایک (خوف ناک) ڈانٹ ہو گی (13) تو یکایک وہ (لوگ) ہوں گے کھلے میدان میں (14)
#
{1 ـ 5} هذه الإقسامات بالملائكة الكرام وأفعالهم الدالَّة على كمال انقيادهم لأمر الله وإسراعهم في تنفيذه ؛ يُحتمل أنَّ المقسم عليه الجزاء والبعث؛ بدليل الإتيان بأحوال القيامة بعد ذلك، ويُحتمل أنَّ المقسَم عليه والمقسَم به متَّحِدان، وأنَّه أقسم على الملائكة؛ لأنَّ الإيمان بهم أحدُ أركان الإيمان الستَّة، ولأنَّ في ذكر أفعالهم هنا ما يتضمَّن الجزاء الذي تتولاَّه الملائكة عند الموت وقبله وبعده، فقال: {والنازعاتِ غَرْقاً}: وهم الملائكة التي تنزع الأرواح بقوَّة، وتغرق في نزعها حتى تخرج الرُّوح فتجازى بعملها. {والناشطاتِ نشطاً}: وهي الملائكة أيضاً تجتذبُ الأرواحَ بقوَّة ونشاطٍ، أو أنَّ النشطَ يكون لأرواح المؤمنين والنَّزْع لأرواح الكفَّار. {والسَّابحاتِ}؛ أي: المتردِّدات في الهواء صعوداً ونزولاً، {سبحاً. فالسَّابقاتِ}: لغيرها {سبقاً}: فتبادِرُ لأمر الله وتسبق الشياطين في إيصال الوحي إلى رسل الله؛ لئلاَّ تسترِقه ، {فالمدبِّراتِ أمراً}؛ [أي]: الملائكة الذين جعلهم الله يدبِّرون كثيراً من أمور العالم العلويِّ والسفليِّ من الأمطار والنَّبات [والأشجار] والرِّياح والبحار والأجنَّة والحيوانات والجنَّة والنار وغير ذلك.
[5-1] مکرم فرشتوں اور ان کے افعال کی کھائی ہوئی یہ قسمیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے ان کی کامل اطاعت اور اس کو نافذ کرنے میں ان کی سرعت پر دلالت کرتی ہیں، اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ جزا اور قیامت ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد قیامت کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔اس میں (دوسرا) احتمال یہ ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے اور جس کی قسم کھائی ہے وہ دونوں ایک ہوں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر اس لیے قسم کھائی ہے کہ ان پر ایمان لانا، ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ نیز یہ کہ یہاں ان کے افعال کا ذکر کرنا اس جزا کو متضمن ہے جس کا انتظام موت کے وقت، موت سے پہلے یا موت کے بعد فرشتے کرتے ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿وَ الـنّٰ٘زِعٰتِ غَ٘رْقًا﴾ ’’ان کی قسم! جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو طاقت کے ساتھ روح قبض کرتے ہیں اور روح قبض کرنے میں مبالغہ کرتے ہیں یہاں تک کہ روح نکل جاتی ہے اور اسے اس کے عمل کی جزا دی جاتی ہے۔ ﴿وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا﴾ ’’اور ان کو جو آسانی سے کھول دیتے ہیں۔‘‘اس سے بھی فرشتے مراد ہیں، جو ارواح کو قوت اور نشاط کے ساتھ نکالتے ہیں یا اس کا معنی یہ ہے کہ پھرتی اور تیزی سے روح نکالنے کا معاملہ اہل ایمان کی ارواح کے ساتھ ہے اور ارواح کو کھینچ کر زور سے نکالنا کفار کی ارواح کے ساتھ ہے۔ ﴿وَّالسّٰؔبِحٰؔتِ﴾ یعنی ہوا کے اندر ادھر ادھر آتے جاتے، اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے فرشتوں کی قسم ﴿فَالسّٰؔبِقٰتِ ﴾ دوسروں پر سبقت لے جانے والے ﴿سَبْقًا﴾ ’’سبقت لے جانا۔‘‘ پس فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف جلدی سے آگے بڑھتے ہیں اور وحی ٔالٰہی کو اللہ تعالیٰ کے رسولوں تک پہنچانے میں شیاطین سے آگے بڑھ جاتے ہیں تاکہ شیاطین اس کو چرا نہ لیں۔ ﴿فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا﴾ یہ وہ فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عالم بالا اور عالم سفلی کے بہت سے امور کی تدبیر کے لیے مقرر فرمایا ہے، مثلاً: بارشوں، نباتات، ہواؤ ں، سمندروں، ماؤ ں کے پیٹ میں بچوں، حیوانات، جنت اور جہنم وغیرہ کے امور۔
#
{6 ـ 9} {يومَ ترجُفُ الرَّاجفةُ}: وهي قيام الساعة، {تتبعُها الرادفةُ}؛ أي: الرجفة الأخرى التي تَرْدُفُها وتأتي تلوَها. {قلوبٌ يومئذٍ واجفةٌ}؛ أي: منزعجةٌ من شدَّة ما ترى وتسمع، {أبصارُها خاشعةٌ}؛ أي: ذليلةٌ حقيرةٌ قد ملك قلوبهم الخوف وأذهل أفئدتهم الفزع وغلب عليهم التأسُّف، واستولت عليهم الحسرة.
[9-6] ﴿یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ﴾ ’’جس دن زمین پر بھونچال آئے گا۔‘‘اور یہ قیامت کا قائم ہونا ہے، ﴿تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ﴾ یعنی ایک اور زلزلہ جو اس کے ساتھ ہی اس کے پیچھے پیچھے آئے گا ﴿قُ٘لُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ﴾ اس دن جو کچھ نظر آئے گا اور سنائی دے گا اس کی شدت کی بنا پر دل دہل جائیں گے ﴿اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ﴾ نگاہیں بہت ذلیل اور حقیر ہوں گی، ان کے دلوں پر خوف طاری ہو گا، گھبراہٹ ان کی عقل کو زائل کر دے گی، ان پر تاسف کا غلبہ ہو گا اور حسرت ان پر قبضہ کر لے گی۔
#
{10 ـ 14} {يقولونَ} ؛ أي: الكفار في الدُّنيا على وجه التكذيب: {أإذا كُنَّا عظاماً نخرةً}؛ أي: باليةً فتاتاً، {قالوا تلك إذاً كَرَّةٌ خاسرةٌ}؛ أي: استبعدوا أن يبعثهم الله ويعيدهم بعدما كانوا عظاماً نخرةً جهلاً منهم بقدرة الله وتجرياً عليه! قال الله في بيان سهولة هذا الأمر عليه: {فإنَّما هي زجرةٌ واحدةٌ}: يُنفخ في الصور؛ فإذا الخلائقُ كلُّهم {بالسَّاهرةِ}؛ أي: على وجه الأرض قيامٌ ينظرونَ، فيجمعهم الله، ويقضي بينهم بحكمه العدل، ويجازيهم.
[14-10] منکرین قیامت دنیا کے اندر استہزا کے طور پر اور حیات بعدالموت کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ۠ فِی الْحَافِرَةِ﴾ یعنی کیا مرنے کے بعد ہمیں پہلی تخلیق کی طرف لوٹایا جائے گا؟ یہ استفہام انکاری ہے، جو انتہائی تعجب اور اس کو محال سمجھنے پر مبنی ہے انھوں نے حیات بعدالموت کا انکار کیا ، پھر اس کو بعید سمجھنے میں بڑھتے چلے گئے ، پھر اسی پر جم گئے۔ وہ اس دنیا میں تکذیب کے طور پر کہتے ہیں ﴿ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً﴾ یعنی جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا اس کے بعد ہمیں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹایا جائے گا؟ ﴿قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ﴾ ’’کہتے ہیں، یہ لوٹنا خسارہ ہے۔‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں جہالت اور اس کے حضور جسارت کی بنا پر اس امر کو بعید سمجھا کہ اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ زندہ کر دے گا، جب وہ بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا انھیں دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اس امر کے بہت آسان ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ﴾ ’’وہ تو صرف ایک ڈانٹ ہوگی۔‘‘یعنی اس روز صور پھونکا جائے گا تب تمام خلائق ﴿بِالسَّاهِرَةِ﴾ روئے زمین پر کھڑے دیکھ رہے ہوں گے، پس اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا، ان کے درمیان عدل پر مبنی فیصلے کرے گا اور ان کو جزا و سزا دے گا۔
آیت: 15 - 26 #
{هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى (15) إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (16) اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (17) فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى (18) وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى (19) فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَى (20) فَكَذَّبَ وَعَصَى (21) ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى (22) فَحَشَرَ فَنَادَى (23) فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى (24) فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى (25) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى (26)}.
تحقیق آ چکی ہے آپ کے پاس بات موسیٰ کی (15) جب پکارا تھا اس کو اس کے رب نے مقدس وادی طُوٰی میں (16) (اور کہا) جاؤ فرعون کی طرف، بلاشبہ اس نے سرکشی کی ہے (17) پس کہیے، کیا تجھے (رغبت) ہے اس کی کہ تو پاک ہو؟ (18) اور میں رہنمائی کروں تیری تیرے رب کی طرف کہ تو ڈرے؟(19) پھر موسیٰ نے دکھائی فرعون کو نشانی بڑی (20) تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی (21) پھر وہ پلٹا (فساد کی) کوشش کرتے ہوئے (22) پھر اس نے (سب کو) جمع کیا اور پکارا (23) پس کہا، میں ہوں تمھارا رب سب سے بڑا (24) تو پکڑ لیا اس کو اللہ نے عذاب میں آخرت اور دنیا کے (25)بلاشبہ اس میں ، البتہ عبرت ہے اس کے لیے جو ڈرتا ہے (26)
#
{15 ـ 25} يقول الله تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {هل أتاك حديثُ موسى}: وهذا الاستفهام عن أمرٍ عظيمٍ متحقِّق وقوعه؛ أي: هل أتاك حديثه. {إذ ناداه ربُّه بالوادِ المقدَّس طوىً}: وهو المحلُّ الذي كلَّمه الله فيه، وامتنَّ عليه بالرسالة، وابتعثه بالوحي، واجتباه ، فقال له: {اذهبْ إلى فرعونَ إنَّه طغى}؛ أي: فانهه عن طغيانه وشركه وعصيانه بقولٍ ليِّنٍ وخطابٍ لطيفٍ لعله يتذكر أو يخشى، {فَقُل له هل لك إلى أن تَزكَّى}؛ أي: هل لك في خصلةٍ حميدةٍ ومحمدةٍ جميلةٍ يتنافس فيها أولو الألباب؟ وهي أن تزكِّيَ نفسك وتطهِّرَها من دَنَس الكفر والطغيان إلى الإيمان والعمل الصالح. {وأهدِيَك إلى ربِّك}؛ أي: أدلُّك عليه، وأبيِّن لك مواقع رضاه من مواقع سخطه، {فتخشى}: الله إذا علمت الصراط المستقيم. فامتنع فرعون ممَّا دعاه إليه موسى، {فأراه الآيةَ الكبرى}؛ أي: جنس الآية الكبرى؛ فلا ينافي تعدُّدها، {فألقى عصاه فإذا هي ثعبانٌ مبينٌ. ونزعَ يدَه فإذا هي بيضاءُ للنَّاظرين}. {فكذَّب}: بالحقِّ، {وعصى}: الأمر، {ثم أدبر يسعى}؛ أي: يجتهد في مبارزة الحقِّ ومحاربته. {فحشر}: جنودَه؛ أي: جمعهم، {فنادى. فقال}: لهم: {أنا ربُّكم الأعلى}: فأذعنوا له وأقرُّوا بباطله حين استخفَّهم. {فأخذه اللهُ نَكالَ الآخرةِ والأولى}؛ أي: جعل الله عقوبته دليلاً وزاجراً ومبيِّنةً لعقوبة الدُّنيا والآخرة.
[25-15] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰe سے فرماتا ہے: ﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰؔى﴾ یہ ایک عظیم معاملے کے بارے میں استفہام ہے جس کا وقوع متحقق ہے ، یعنی کیا آپ کے پاس حضرت موسیٰ uکا قصہ پہنچا ہے؟ ﴿ اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ ’’جب ان کے رب نے انھیں پاک میدان طوی میں پکارا۔‘‘ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ uسے کلام کیا، انھیں رسالت سے سرفراز فرمایا، انھیں وحی کے ساتھ مبعوث کیا اور انھیں اپنے لیے چن لیا۔ ﴿ اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى﴾ ’’فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہورہا ہے۔‘‘ اسے نہایت نرم بات اور پرلطف خطاب کے ذریعے سے اس کی سرکشی، شرک اور نافرمانی سے روکو شاید کہ وہ ﴿ یَتَذَكَّـرُ اَوْ یَخْشٰى ﴾(طہ: 44/20)’’نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔‘‘ ﴿ فَقُلْ﴾ اس سے کہہ دیجیے: ﴿ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَؔكّٰى ﴾ کیا تو کوئی خصلت حمیدہ اور اچھی تعریف چاہتا ہے، جس میں خرد مند لوگ ایک دوسرے سے مقابلے کی رغبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو پاک کرے اور کفر و طغیان سے اپنی تطہیر کر کے ایمان اور عمل صالح کی طرف آئے؟ ﴿ وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ ﴾ یعنی میں اس کی طرف تیری راہنمائی کروں اور اس کی ناراضی کے مواقع میں سے اس کی رضا کے مواقع واضح کروں ﴿ فَتَخْشٰى﴾ پس جب تجھے صراط مستقیم معلوم ہو جائے، تو اللہ سے ڈر جائے۔ جس چیز کی طرف حضرت موسیٰu نے فرعون کو دعوت دی تھی فرعون نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ﴿ فَاَرٰىهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى ﴾ ’’پس اس نے اس کو بڑی نشانی دکھائی۔‘‘ یعنی بڑی نشانی کی جنس اور یہ ان نشانیوں کے تعدد کے منافی نہیں ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَاَلْ٘قٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ۰۰ وَّنَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍107۔108) ’’موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ یکایک صاف ایک اژدھا بن گیا اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے لیے روشن چمکتا ہوا ہو گیا۔‘‘ ﴿ فَكَذَّبَ ﴾ پس اس نے حق کو جھٹلایا ﴿ وَعَصٰؔى﴾ اور حکم کی نافرمانی کی ﴿ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰى ﴾’’ پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا۔‘‘ یعنی حق کا مقابلہ اور اس کے خلاف جنگ میں جدوجہد کرتا ہے ﴿ فَحَشَرَ ﴾ پس اس نے اپنے لشکروں کو جمع کیا ﴿ فَنَادٰى ٞۖ۰۰ فَقَالَ ﴾ اور پکارا اور ان سے کہا ﴿ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ﴾ ’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ پس جب اس نے ان کو ہلکا پایا تو انھوں نے اس کے سامنے سر اطاعت خم کر دیا اور اس کے باطل کا اقرار کر لیا۔﴿فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ﴾ ’’پس اللہ نے اس کو دنیا وآخرت کے عذاب میں پکڑلیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کو دنیا اور آخرت کے عذاب کے لیے دلیل، تنبیہ اور اس کو بیان کرنے والی بنایا۔
#
{26} {إنَّ في ذلك لَعبرةً لمَن يَخْشى}: فإنَّ مَنْ يخشى الله هو الذي ينتفع بالآيات والعبر؛ فإذا رأى عقوبة فرعون؛ عرف أنَّ [كلَّ] من تكبَّر وعصى وبارز الملك الأعلى؛ يعاقِبه في الدُّنيا والآخرة، وأمَّا مَن ترحَّلت خشيةُ الله من قلبه؛ فلو جاءته كلُّ آيةٍ؛ لم يؤمنْ بها.
[26] ﴿ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّ٘مَنْ یَّخْشٰى ﴾ ’’بے شک اسی میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو ڈرے۔‘‘ کیونکہ جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہی آیات الٰہی اور عبرتوں سے مستفید ہوتا ہے، پس جب وہ فرعون کی سزا میں غور کرے گا تو اسے اس حقیقت کی معرفت حاصل ہو جائے گی کہ جو کوئی تکبر اور نافرمانی کرتا ہے اور مالک اعلیٰ کا مقابلہ کرتا ہے، اسے دنیا و آخرت میں سزا ملتی ہے۔ جس کسی دل سے خشیت الٰہی رخصت ہو جاتی ہے تو اس کے پاس چاہے ہر قسم کی نشانی کیوں نہ آ جائے وہ ایمان نہیں لاتا۔
آیت: 27 - 33 #
{أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا (27) رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا (28) وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا (29) وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (30) أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (31) وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (32) مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (33)}.
کیا تم سخت تر ہو (دوبارہ) تخلیق میں یا آسمان؟ اس (اللہ) نے اسے بنایا (27) بلند کی اس کی چھت ، پھر ٹھیک ٹھاک کیا اس کو (28) اور تاریک کیا اس کی رات کو اور ظاہر (روشن) کیا اس کے دن کو(29) اور زمین کو، بعد اس کے بچھایا اس کو (30) نکالا اس میں سے اس کا پانی اور اس کا چارہ (31) اور پہاڑوں کو، گاڑ دیا ان کو (32) فائدے کے لیے واسطے تمھارے اور تمھارے چوپایوں کے (33)
#
{27 ـ 33} يقول تعالى مبيناً دليلاً واضحاً لمنكري البعث ومستبعدي إعادة الله للأجساد: {أأنتُم}: أيُّها البشر، {أشدُّ خلقاً أم السماءُ}: ذات الجرم العظيم والخلق القويِّ والارتفاع الباهر، {بناها}: الله، {رفَعَ سَمْكَها}؛ أي: جرمها وصورتها. {فسوَّاها}: بإحكام وإتقانٍ يحيِّر العقول ويذهل الألباب، {وأغطشَ ليلَها}؛ أي: أظلمه، فعمَّت الظُّلمة جميع أرجاء السماء، فأظلم وجه الأرض، {وأخرج ضُحاها}؛ أي: أظهر فيه النُّور العظيم حين أتى بالشمس، فانتشر الناس في مصالح دينهم ودُنْياهم، {والأرضَ بعد ذلك}؛ أي: بعد خلق السماء {دحاها}؛ أي: أودع فيها منافعها، وفسر ذلك بقوله: {أخرج منها ماءها ومرعاها. والجبال أرساها}؛ أي: ثبَّتها بالأرض ، فدحى الأرض بعد خَلْق السماواتِ؛ كما هو نصُّ هذه الآيات الكريمة، وأمَّا خلق نفس الأرض؛ فمتقدِّم على خلق السماء؛ كما قال تعالى: {قل أإنَّكم لتكفرونَ بالذي خلق الأرضَ في يومين وتجعلون له أنداداً ذلك ربُّ العالمين ... } إلى أن قال: {ثمَّ استوى إلى السَّماء وهي دخان فقال لها وللأرض ائتيا طوعاً أو كرها قالتا أتينا طائعين. فقضاهنَّ سبع سمواتٍ ... }: فالذي خلق السماواتِ العظام وما فيها من الأنوار والأجرام والأرض الغبراء الكثيفة ، وما فيها من ضروريَّات الخلق ومنافعهم لا بدَّ أن يبعث الخلق المكلَّفين فيجازيهم بأعمالهم ؛ فمن أحسن؛ فله الحسنى، وَمن أساء؛ فلا يلومنَّ إلاَّ نفسه.
[33-27] اللہ تبارک و تعالیٰ آخرت کو اور اجساد کو دوبارہ زندہ کرنے کو بعید سمجھنے والوں کے لیے واضح دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ ءَاَنْتُمْ﴾ اے انسانو! کیا تمھارا ﴿ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ﴾ ’’بنانا زیادہ شدید ہے یا آسمان کا؟‘‘ جو بڑے بڑے اجرام، طاقت ور مخلوق اور انتہائی بلندیوں والا ہے ﴿ بَنٰىهَا﴾ اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ ﴿ رَفَ٘عَ سَمْؔكَهَا﴾ یعنی اس کی چھت اور صورت کو بلند کیا۔ ﴿ فَسَوّٰىهَا﴾ ’’ پھر اسے برابر کردیا۔‘‘ یعنی اس کو محکم اور مضبوط بنا کر جو عقل کو حیران اور خرد کو گم کر دیتا ہے۔ ﴿ وَاَغْ٘طَشَ لَیْلَهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ رات کو تاریک کرتا ہےتو یہ تاریکی آسمان کے تمام کناروں تک پھیل جاتی ہے اور روئے زمین کو تاریک کر دیتی ہے ﴿ وَاَخْرَجَ ضُحٰؔىهَا﴾ یعنی جب اللہ تعالیٰ سورج کو لے کر آتا ہے تو روئے زمین پر عظیم روشنی ظاہر کرتا ہے تو لوگ اپنے دینی اور دنیاوی کاموں کے لیے پھیل جاتے ہیں۔ ﴿ وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ﴾ یعنی آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کو ﴿ دَحٰؔىهَا﴾ ’’اس نے بچھا دیا۔‘‘ یعنی اس کے اندر اس کی منفعتیں ودیعت کر دیں۔ پھر اپنے اس ارشاد سے اس کی تفسیر بیان کی ﴿ اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعٰىهَا۪۰۰وَالْجِبَالَ اَرْسٰؔىهَا﴾ ’’اسی نے اس میں سے اس کا پانی نکالا اور چارا اگایا اور پہاڑوں کو گاڑ دیا۔‘‘ یعنی پہاڑ زمین پر مضبوطی سے جمائے، آسمانوں کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلا کر ہموار کیا جیسا کہ ان آیات کریمہ میں منصوص ہے اور رہی خود زمین کی تخلیق تو یہ آسمان کی تخلیق سے متقدم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُ٘لْ اَىِٕنَّـكُمْ لَتَكْ٘فُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًا١ؕ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۚ۰۰وَجَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰ٘رَكَ فِیْهَا وَقَدَّرَ فِیْهَاۤ اَ٘قْوَاتَهَا فِیْۤ اَرْبَعَةِ اَیَّامٍ١ؕ سَوَآءًؔ لِّلسَّآىِٕلِیْ٘نَ۰۰ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا١ؕ قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ۰۰فَ٘قَ٘ضٰ٘ىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ﴾ (حم السجدۃ:32؍9-12) ’’کہہ دیجیے، کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور تم ہو کہ اس کے ہم سر بناتے ہو، وہ تمام جہانوں کا رب ہے اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ رکھ دیے اور اس کے اندر برکت رکھ دی اور چار دن میں اس کے اندر اس کی غذاؤ ں کو مقدر کر دیا، تمام طلب گاروں کے لیے یکساں طور پر، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا، پس اس نے آسمان سے اور زمین سے کہا، دونوں آؤ ، خوش دلی کے ساتھ یا بادل نخواستہ، انھوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں، پس اس نے دو دن میں سات آسمان بنا دیے ۔‘‘ پس جس نے بڑے بڑے آسمان، ان کی روشنیاں، اجرام فلکی، گرد بھری اور کثیف زمین، اس کے اندر مخلوق کی ضروریات اور ان کی منفعتیں ودیعت کر دیں، وہ ضرور مکلف مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ پس جس نے نیکی کی اس کے لیے بھلائی ہے اور جس نے برائی کی وہ صرف اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔
بنابریں اس کے بعد قیامت کے برپا ہونے کا ذکر کیا اور پھر جزا و سزا کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا:
آیت: 34 - 41 #
{فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى (34) يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى (35) وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَى (36) فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (41)}.
پس جب آ جائے گی آفت بڑی (قیامت) (34) اس دن یاد کرے گا انسان جو اس نے کوشش کی (35) اور ظاہر کر دی جائے گی دوزخ (ہر) اس شخص کے لیے جو دیکھتا ہے (36) پس لیکن جس نے سرکشی کی (37) اور ترجیح دی اس نے حیات دنیا کو (38) تو بلاشبہ جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے(39) اور لیکن جو ڈر گیا سامنے کھڑے ہونے سے اپنے رب کے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بری) خواہش سے (40) تو بلاشبہ جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے (41)
#
{34 ـ 36} أي: إذا جاءت القيامةُ الكبرى والشدَّةُ العظمى، التي يَهون عندها كلُّ شدَّةٍ؛ فحينئذٍ يذهل الوالد عن ولده، والصاحب عن صاحبه، وكلُّ محبٍّ عن حبيبه، و {يتذكَّرُ الإنسانُ ما سعى}: في الدُّنيا من خير وشرٍّ، فيتمنَّى زيادة مثقال ذرَّةٍ في حسناته، ويغمُّه ويحزن لزيادة مثقال ذرَّةٍ في سيئاته، ويعلم إذ ذاك أنَّ مادة ربحه وخسرانه ما سعاه في الدُّنيا، وينقطع كلُّ سبب ووصلةٍ كانت في الدُّنيا سوى الأعمال، {وبُرِّزَت الجحيم لمن يرى}؛ أي: جُعِلَت في البراز ظاهرةً لكلِّ أحدٍ؛ قد هُيِّئت لأهلها، واستعدَّت لأخذهم منتظرةً لأمر ربِّها.
[36-34] یعنی جب قیامت کبریٰ اور بہت بڑی سختی، جس کے سامنے ہر سختی ہیچ ہے ، آئے گی، اس وقت باپ اپنے بیٹے سے، دوست اپنے دوست سے اور محب اپنے محبوب سے غافل ہو جائے گا اور ﴿ یَوْمَ یَتَذَكَّـرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى ﴾ ’’اس دن انسان اپنے کاموں کو یاد کرے گا۔‘‘ یعنی دنیا کے اندر اس نے اچھے اور برے جو کام کیے تھے۔ پس وہ اپنی نیکیوں میں ذرہ بھر نیکی کے اضافے کی بھی تمنا کرے گا اور اپنی برائیوں میں ذرہ بھر اضافے پر غم زدہ ہو جائے گا۔ تب اسے اپنے اس نفع اور خسارے کی حقیقت معلوم ہو گی جو اس نے دنیا کے اندر کمایا۔ اعمال کے سوا تمام اسباب اور تعلقات منقطع ہو جائیں گے جو وہ دنیا کے اندر رکھتا تھا۔﴿ وَبُرِّزَتِ الْؔجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى﴾ یعنی جہنم کو میدان میں ہر ایک کے سامنے ظاہر کر دیا جائے گا جس کو جہنمیوں کے لیے تیار کیا گیاہے۔ جہنم ان کو پکڑنے کے لیے تیار اور اپنے رب کے حکم کا منتظر ہو گا۔
#
{37 ـ 39} {فأمَّا مَن طغى}؛ أي: جاوز الحدَّ بأن تجرَّأ على المعاصي الكبار ولم يقتصرْ على ما حدَّه الله، {وآثرَ الحياة الدُّنيا}: على الآخرة، فصار سعيه لها ووقته مستغرقاً في حظوظها وشهواتها، ونسي الآخرة والعمل لها؛ {فإنَّ الجحيم هي المأوى}: له؛ أي: المقرُّ والمسكن لمن هذه حاله.
[39-37] ﴿ فَاَمَّا مَنْ طَغٰى﴾ یعنی اس نے حد سے تجاوز کیا، بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کی اور ان حدود پر اقتصار نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کی تھیں ﴿ وَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا﴾ اور آخرت پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اور دنیا ہی کے حظوظ و شہوات میں مستغرق رہا اور اسی کے لیے بھاگ دوڑ کی اور اس کا تمام تر وقت دنیا ہی کے لیے رہا اور اس نے آخرت اور اس کے لیے عمل کو فراموش کر دیا۔ ﴿فَاِنَّ الْؔجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى ﴾ یعنی جس کا یہ حال ہے، جہنم اس کا ٹھکانا اور مسکن ہوگا۔
#
{40 ـ 41} {وأمَّا مَنْ خافَ مقامَ ربِّه}؛ أي: خاف القيام عليه ومجازاته بالعدل؛ فأثَّر هذا الخوف في قلبه، فنهى {النفس عن}: هواها الذي يصدُّها عن طاعة الله، وصار هواه تبعاً لما جاء به الرسول، وجاهد الهوى والشهوة الصادَّيْن عن الخير؛ {فإنَّ الجنَّة}: المشتملة على كلِّ خيرٍ وسرورٍ ونعيم، {هي المأوى}: لمن هذا وصفُه.
[40، 41] ﴿ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ﴾ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے اور عدل و انصاف پر مبنی اس کی جزا سے ڈر گیا اور اس ڈر نے اس کے دل کو متاثر کیا اور اپنے نفس کو ان خواہشات سے روک لیا جو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روکتی ہیں اور اس کی خواہشات اس چیز کے تابع ہو گئیں جو رسولe لے کر آئے ہیں اور ان خواہشات کے خلاف جدوجہد کی جو بھلائی سے روکتی ہیں۔ ﴿ فَاِنَّ الْؔجَنَّةَ ﴾ ’’تو بے شک جنت۔‘‘ جو ہر بھلائی، سرور اور نعمت پر مشتمل ہے ﴿هِیَ الْمَاْوٰى ﴾ مذکورہ اوصاف کے حامل شخص کا ٹھکانا ہے۔
آیت: 42 - 46 #
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا (42) فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا (43) إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا (44) إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا (45) كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا (46)}.
وہ (کافر) سوال کرتے ہیں آپ سے قیامت کی بابت،کب ہے قائم (واقع) ہونا اس کا؟(42)کس چیز میں ہیں آپ اس کےذکر سے؟ (43) آپ کے رب ہی کی طرف ہے انتہا اس (کے علم) کی (44) پس صرف آپ تو ڈرانے والے ہیں اس کو جو ڈرتا ہے اس سے(45)گویا کہ وہ (کافر) جس دن دیکھیں گے اس کو (تو سمجھیں گے کہ) نہیں ٹھہرے وہ (دنیا میں) مگر ایک شام یا صبح اس کی (46)
#
{42 ـ 44} أي: يسألك المتعنِّتون المكذِّبون بالبعث {عن الساعة}: متى وقوعُها؟ و {أيَّان مُرْساها}؟! فأجابهم الله بقوله: {فيم أنت من ذكراها}؛ أي: ما الفائدة لك ولهم في ذكرها ومعرفة وقت مجيئها؛ فليس تحت ذلك نتيجةٌ، ولهذا لمَّا كان علم العباد للساعة ليس لهم فيه مصلحةٌ دينيةٌ ولا دنيويةٌ، بل المصلحة في إخفائه عليهم، طوى علم ذلك عن جميع الخلق واستأثر بعلمه فقال: {إلى ربك منتهاها}؛ أي: إليه ينتهي علمها؛ كما قال في الآية الأخرى: {يسألونَكَ عن الساعة أيَّانَ مُرْساها قل إنَّما علمُها عند ربِّي لا يُجَلِّيها لوقتها إلاَّ هو}.
[44-42] قیامت کو جھٹلانے والے اور لغزش کے خواہاں لوگ آپ سے پوچھتے ہیں: ﴿ عَنِ السَّاعَةِ﴾ ’’قیامت کے متعلق‘‘ کہ اس کا وقوع اور ﴿اَیَّانَ مُرْسٰہَا﴾’’اس کا قیام کب ہوگا؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿ فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا﴾ ’’پس تم اس کے ذکر کی فکر میں ہو؟‘‘ یعنی اس کے ذکر اور اس کی آمد کے وقت کی معرفت حاصل کرنے میں آپ کو اور ان کو کیا فائدہ؟ پس اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اس لیے، کہ قیامت کے وقت کے بارے میں بندوں کے علم میں کوئی دینی مصلحت ہے نہ دنیاوی مصلحت، بلکہ قیامت کے وقت کے اخفاء ہی میں مصلحت ہے، اس لیے اس کے علم کو تمام مخلوق سے مخفی رکھا اور اس کے علم کو صرف اپنے لیے مخصوص رکھا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا﴾ یعنی اس کا علم اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّ٘انَ مُرْسٰؔىهَا١ؕ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ١ۚ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔ ۘ ؕ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً١ؕ یَسْـَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا١ؕ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۰۰﴾ (الاعراف:7؍187) ’’یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا، آپ کہہ دیجیے کہ اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے اس کو اس وقت پر صرف وہی ظاہر کرے گا ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا۔ وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں۔ فرمادیجیے کہ اُس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
#
{45 ـ 46} {إنَّما أنت منذرُ مَنْ يَخْشاها}؛ أي: إنَّما نذارتك نفعها لمن يخشى مجيء الساعة ويخاف الوقوف بين يدي الله ؛ فهم الذين لا يُهِمُّهم إلاَّ الاستعداد لها والعمل لأجلها، وأما مَنْ لم يؤمن بها؛ فلا يُبَالى به ولا بتعنُّته؛ لأنَّه تعنتٌ مبنيٌّ على التَّكذيب والعناد ، وإذا وصل إلى هذه الحال؛ كان الإجابة عنه عبثاً، ينزَّه أحكم الحاكمين عنه.
[45، 46] ﴿ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىهَا﴾ یعنی آپ کی تنبیہ کا فائدہ صرف اسی شخص کوہوتا ہے جو اس گھڑی کی آمد سے ڈرتا اور اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے خائف ہے، پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے سب سے اہم چیز اس کے لیے تیاری اور اس کے لیے عمل ہے۔ جو کوئی قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ اس کی پروا نہیں کرتا، اور نہ وہ اس تکلیف میں پڑتا ہے، کیونکہ یہ ایسا تعنت ہے جو تکذیب اور عناد پر مبنی ہے، اور جب سائل اس حال کو پہنچ جائے تو اس کے بارے میں جواب دینا عبث ہے، احکم الحاکمین اس عبث کام سے منزہ ہے۔