آیت:
تفسیر سورۂ عبس
تفسیر سورۂ عبس
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 10 #
{عَبَسَ وَتَوَلَّى (1) أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى (2) وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى (3) أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَى (4) أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَى (5) فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى (6) وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّى (7) وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَى (8) وَهُوَ يَخْشَى (9) فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّى (10)}.
ماتھے پہ شکن ڈالے اور منہ پھیر لیا(1) اس لیے کہ آیا ان کے پاس ایک نابینا(2) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو شاید کہ وہ پاک ہو جاتا(3) یا وہ نصیحت حاصل کرتا (سنتا) پس نفع دیتی اس کو نصیحت(4) لیکن جو شخص (دین سے) بے پروائی کرتا ہے(5) تو آپ اس کےدرپے ہوتے ہیں(6) حالانکہ نہیں ہے آپ پر (کوئی الزام) یہ کہ نہ پاک ہو وہ(7) اور لیکن جو شخص آیا آپ کے پاس دوڑتا ہوا(8) اس حال میں کہ وہ ڈرتا ہے(9) تو آپ اس سے بے پروائی کرتے ہیں (10)
ان آیات کریمہ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ اہل ایمان میں سے ایک نابینا شخص نبی ٔاکرمe کی خدمت میں، آپ سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کے لیے حاضر ہوا اور (مکہ مکرمہ کے) دولت مند لوگوں میں سے بھی ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مخلوق کی ہدایت کے بہت حریص تھے، چنانچہ آپ اس دولت مند شخص کی طرف مائل ہوئے اور اس کی طرف توجہ مبذول کی اور اس نابینا محتاج کی طرف توجہ نہ کی، اس امید پر کہ وہ دولت مند شخص راہ ہدایت پا لے اور اس کا تزکیہ ہو جائے، پس اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرائے میں آپ پر ناراضی کا اظہار کیا، چنانچہ فرمایا:
#
{1 ـ 10} {عبس}؛ أي: في وجهه، {وتولَّى}: في بدنه لأجل مجيء الأعمى له. ثم ذكر الفائدة في الإقبال عليه، فقال: {وما يدريكَ لعلَّه}؛ أي: الأعمى، {يَزَّكَّى}؛ أي: يتطهر عن الأخلاق الرذيلة ويتصف بالأخلاق الجميلة، {أو يَذَّكَّرُ فَتَنفعهُ الذِّكرَى}؛ أي: يتذكَّر ما ينفعه فينتفع بتلك الذِّكرى، وهذه فائدةٌ كبيرةٌ، هي المقصودة من بعثة الرسل ووعظ الوعَّاظ وتذكير المذكِّرين؛ فإقبالُك على مَنْ جاء بنفسه مفتقراً لذلك مقبلاً هو الأليقُ الواجب، وأما تصدِّيك وتعرُّضِك للغنيِّ المستغني الذي لا يسأل ولا يستفتي لعدم رغبته في الخير مع تركك مَنْ أهمُّ منه؛ فإنَّه لا ينبغي لك؛ فإنَّه ليس عليك أن لا يَزَّكَّى؛ فلو لم يَتَزَكَّ؛ فلست بمحاسبٍ على ما عمله من الشرِّ، فدلَّ هذا على القاعدة المشهورة؛ أنَّه لا يُترَك أمرٌ معلومٌ لأمرٍ موهومٍ، ولا مصلحة متحقِّقة لمصلحة متوهَّمة، وأنَّه ينبغي الإقبال على طالب العلم المفتقر إليه الحريص عليه أزيد من غيره.
[10-1] ﴿عَبَسَ﴾ یعنی آپ ترش رو ہو گئے ﴿وَتَوَلّٰۤى﴾ اور اپنے جسم کو موڑ لیا، اس بنا پر کہ اندھا آپ کے پاس آیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نابینا شخص کی طرف توجہ دینے کا فائدہ بیان فرمایا : ﴿وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ ﴾ ’’اور تمھیں کیاخبر کہ شاید وہ۔‘‘ یعنی نابینا شخص ﴿ یَزَّكّٰۤى﴾ اخلاق رذیلہ سے پاک اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونا چاہتا ہو۔ ﴿ اَوْ یَذَّكَّـرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى﴾ یا وہ کسی چیز سے نصیحت پکڑتا جو اسے فائدہ دیتی اور وہ اس نصیحت سے نفع حاصل کرتا ، یہ بہت بڑا فائدہ ہے اور یہی چیز انبیاء و رسل کی بعثت، واعظین کے وعظ اور یاد دہانی کرانے والوں کی تذکیر کا مقصد ہے، جو شخص اس چیز کا حاجت مند بن کر خود چل کر آیا ہے، اس کی طرف آپ کو توجہ دینا زیادہ لائق اور واجب ہے۔ رہا آپ کا اس بے نیاز دولت مند کی ہدایت کے درپے ہونا اور اس سے تعرض کرنا جو بھلائی میں عدم رغبت کی بنا پر سوال کرتا ہے نہ فتویٰ طلب کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کا اس شخص کو چھوڑ دینا جو اس سے زیادہ اہم ہے، آپ کے لیے مناسب نہیں کیونکہ آپ پر اس کے پاکیزگی اختیار نہ کرنے کا کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر وہ پاک نہیں ہوتا تو آپ اس برے کام کا محاسبہ کرنے والے نہیں ہیں جس کا وہ ارتکاب کرتا ہے۔یہ چیز مشہور شرعی قاعدے پر دلالت کرتی ہے، وہ قاعدہ یہ ہے کہ کسی امر معلوم کو کسی امر موہوم کی خاطر اور کسی مصلحت متحققہ کو کسی مصلحت موہومہ کی خاطر ترک نہ کیا جائے۔نیز مناسب یہ ہے کہ وہ طالب علم جو علم کا حاجت مند اور حصول علم کا حریص ہے اس پر دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ دی جائے۔
آیت: 11 - 32 #
{كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11) فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ (12) فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ (13) مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ (14) بِأَيْدِي سَفَرَةٍ (15) كِرَامٍ بَرَرَةٍ (16) قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ (22) كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (23) فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ (24) أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (25) ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا (26) فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (27) وَعِنَبًا وَقَضْبًا (28) وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا (29) وَحَدَائِقَ غُلْبًا (30) وَفَاكِهَةً وَأَبًّا (31) مَتَاعًا لَكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (32)}.
ہرگز نہیں! بلاشبہ یہ تو ایک نصیحت ہے (11) سو جو چاہے وہ یاد کرے اسے (12) (وہ محفوظ ہے) قابل احترام صحیفوں میں (13) بلند مرتبہ پاکیزہ (14) ہاتھوں میں ایسے لکھنے والوں کے (15) جو معزز، نیکو کار ہیں (16) ہلاک کیا جائے انسان کس قدر ناشکرا ہے؟ (17) کس چیز سے اس (اللہ) نے پیدا کیا اس کو؟ (18) ایک نطفے سے پیدا کیا اس کو ، پھر اس نے اندازہ لگایا اس کا(19) پھر راستہ آسان کر دیا اس کا (20) پھر موت دی اسے اور قبر میں لے گیا اس کو (21) پھر جب وہ چاہے گا (دوبارہ) زندہ کر دے گا اسے (22) ہرگز نہیں! ابھی نہیں پورا کیا اس نے اس کو جو حکم دیا اللہ نے اسے (23) پس چاہیے کہ دیکھے انسان اپنے کھانے کی طرف (24) کہ بلاشبہ ہم نے برسایا پانی (مینہ) خوب برسانا (25) پھر پھاڑا ہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑنا (26) پس اگایا ہم نے اس میں اناج (27) اور انگور اور سبزیاں (28) اور زیتون اور کھجور(29) اور باغات گھنے (30) اور پھل اور خود رو چارہ (31) فائدے کے لیے واسطے تمھارے اور تمھارے چوپایوں (جانوروں) کے (32)
#
{11 ـ 16} يقول تعالى: {كلاَّ إنَّها تذكرةٌ}: أي: حقًّا إنَّ هذه الموعظة تذكرةٌ من الله يُذَكِّر بها عباده ويبيِّن لهم في كتابه ما يحتاجون إليه ويبيِّن الرُّشد من الغيِّ؛ فإذا تبيَّن ذلك؛ {فَمْن شاء ذَكَرَه}؛ أي: عمل به؛ كقوله تعالى: {وقلِ الحقُّ مِن ربِّكم فَمَن شاء فَلْيُؤْمِن ومَن شاءَ فَلْيَكْفُر}. ثم ذكر محلَّ هذه التذكرة وعظمها ورفع قدرها، فقال: {في صحفٍ مكرمةٍ. مرفوعةٍ}: القدر والرتبة، {مُطَهَّرَةٍ}: من الآفات وعن أن تنالها أيدي الشياطين أو يسترقوها، بل هي {بأيدي سفرةٍ}: وهم الملائكة الذين هم سفراء بين الله وبين عباده، {كرامٍ}؛ أي: كثيري الخير والبركة، {بَرَرةٍ}: قلوبهم وأعمالهم. وذلك كلُّه حفظٌ من الله لكتابه؛ أن جعل السفراء فيه إلى الرسل الملائكة الكرام الأقوياء الأتقياء، ولم يجعلْ للشياطين عليه سبيلاً، وهذا مما يوجب الإيمان به وتلقِّيه بالقَبول.
[16-11] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ﴾ ’’دیکھو یہ نصیحت ہے۔‘‘ یعنی حق بات یہ ہے کہ یہ نصیحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی ہے، جس سے اس کے بندے نصیحت کو یاد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہر وہ چیز بیان کر دی ہے جس کے بندے حاجت مند ہیں اور اس نے گمراہی میں سے رشد و ہدایت کو واضح کر دیا ہے۔ جب رشد و ہدایت واضح ہو گئی ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗ﴾ ’’تو جو چاہے اس کو یاد رکھے۔‘‘ یعنی اس پر عمل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقُ٘لِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَ٘مَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْ٘یَكْ٘فُ٘رْ﴾ (الکہف:18؍29) ’’کہہ دیجیے، حق تمھارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے، انکار کر دے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس تذکیر کا محل، اس کی عظمت اور اس کی رفعت قدر کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍۙ۰۰ مَّرْفُوْعَةٍ مُّ٘طَهَّرَةٍۭ﴾ ’’قابل ادب ورقوں میں، جو بلند مقام پر رکھے ہوئے اور پاک ہیں۔‘‘ یعنی قدر و منزلت میں بلند، تمام آفات سے سلامت اور اس بات سے محفوظ کہ شیاطین کے ہاتھ اس تک پہنچ سکیں یا وہ اسے چرا سکیں۔ بلکہ یہ ﴿ بِاَیْؔدِیْ سَفَرَةٍ﴾ ’’لکھنے والے کے ہاتھوں میں ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان سفیر ہیں ﴿ كِرَامٍۭؔ﴾ یعنی وہ بہت زیادہ خیر و برکت والے ہیں ﴿ بَرَرَةٍ﴾ ان کے دل اور اعمال نیک ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ہے۔ اس نے بزرگ، طاقتور اور نیک فرشتوں کو رسولوں کے پاس بھیجنے کے لیے سفیر بنایا اور شیاطین کو اس پر کوئی اختیار نہیں دیا۔یہ چیز اس پر ایمان لانے اور اس کو قبول کرنے کی موجب ہے۔
#
{17 ـ 23} ولكنْ مع هذا أبى الإنسان إلاَّ كُفوراً، ولهذا قال تعالى: {قُتِلَ الإنسانُ ما أكفَرَه}: لنعمة الله، وما أشدَّ معاندته للحقِّ بعدما تبيَّن، وهو؛ ما هو؟ هو من أضعفِ الأشياء، خلقه الله من ماء مَهين، ثم قدَّر خلقه وسوَّاه بشراً سويًّا، وأتقن قواه الظاهرة والباطنة، {ثم السَّبيلَ يَسَّرَه}؛ أي: يسَّر له الأسباب الدينيَّة والدنيويَّة، وهداه السبيل، وبيَّنه، وامتحنه بالأمر والنهي، {ثم أماتَه فأقْبَرَهُ}؛ أي: أكرمه بالدفن، ولم يجعلْه كسائر الحيوانات التي تكون جِيَفُها على وجه الأرض، {ثم إذا شاءَ أنشَرَه}؛ أي: بعثه بعد موته للجزاء؛ فالله هو المنفرد بتدبير الإنسان وتصريفه بهذه التَّصاريف، لم يشارِكْه فيه مشاركٌ، وهو مع هذا لا يقوم بما أمره الله، ولم يقضِ ما فرضه عليه، بل لا يزال مقصِّراً تحت الطلب!
[23-17] لیکن اس کے باوجود انسان نے ناشکری ہی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘تِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ﴾ ’’انسان ہلاک ہوجائے کیسا ناشکرا ہے۔‘‘ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی کیسے ناشکری کی، حق کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اس کے ساتھ کتنا شدید عناد رکھا، حالانکہ وہ کمزور ترین چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک حقیر پانی سے پیدا کیا، پھر اس کی تخلیق کا اندازہ مقرر کیا اور اسے نک سک سے درست کر کے کامل انسان بنایا اور اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو مہارت سے بنایا۔ ﴿ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗ﴾ یعنی اس کے لیے دینی اور دنیاوی اسباب آسان کر دیے، اس کو سیدھا راستہ دکھایا اور اس کو واضح کر دیا اور امر و نہی کے ذریعے سے اس کو امتحان میں ڈالا ﴿ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ﴾ ’’ پھر اس کو موت دی، پھر قبر میں دفن کرادیا۔‘‘ یعنی تدفین کے ذریعے سے اس (کے مردہ جسم) کی تکریم کی اور تمام حیوانات کی طرح اس کے ساتھ سلوک نہیں کیا، جن کی لاشیں سطح زمین پر پڑی رہتی ہیں ﴿ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْ٘شَرَهٗ﴾ پھر اس کی موت کے بعد وہ جب چاہے گا جزا و سزا کے لیے اس کو اٹھا کھڑا کرے گا۔ پس انسان کی تدبیر کرنے اور ان کے تصرفات میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے، اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ بایں ہمہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ اس کی تعمیل نہیں کرتا اور نہ وہ اس فرض ہی کو پورا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کیا ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ طلب کے تحت ہمیشہ کوتاہی کا مرتکب رہتا ہے۔
#
{24 ـ 32} ثم أرشده الله إلى النظر والتفكُّر في طعامه، وكيف وصل إليه بعدما تكرَّرت عليه طبقاتٌ عديدةٌ ويسَّره [اللَّهُ] له؛ فقال: {فلينظُرِ الإنسانُ إلى طعامه. أنَّا صَبَبْنا الماء صَبًّا}؛ أي: أنزلنا المطر على الأرض بكثرة {ثم شَقَقْنا الأرض} للنبات {شقًّا. فأنبَتْنا فيها}: أصنافاً مصنَّفة من أنواع الأطعمة اللذيذة والأقوات الشهيَّة، {حبًّا}: وهذا شاملٌ لسائر الحبوب على اختلاف أصنافها، {وعنباً وقضباً}: وهو القتُّ، {وزيتوناً ونخلاً}: وخصَّ هذه الأربعة لكثرة فوائدها ومنافعها، {وحدائق غُلْباً}؛ أي: بساتين فيها الأشجار الكثيرة الملتفَّة ، {وفاكهةً وأبًّا}: الفاكهة ما يتفكَّه فيه الإنسان من تينٍ وعنبٍ وخوخٍ ورمانٍ وغير ذلك. والأبُّ ما تأكله البهائم والأنعام، ولهذا قال: {متاعاً لكم ولأنعامكم}: التي خلقها الله وسخَّرَها لكم. فمن نظر في هذه النعم؛ أوجب له ذلك شكر ربِّه وبذلَ الجهد في الإنابة إليه والإقبال على طاعته والتَّصديق لأخباره.
[32-24] پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے کھانے میں غور و فکر کرے کہ وہ متعدد مراحل میں سے گزرنے کے بعد کس طرح اس کے پاس پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کھانے کو اس کے لیے آسان بنایا، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَلْیَنْظُ٘رِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤۙ۰۰ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا﴾ ’’پس انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھے۔ بے شک ہم ہی نے پانی برسایا۔‘‘ یعنی ہم نے زمین پر بکثرت بارش برسائی ﴿ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا﴾ ، پھر نباتات اگانے کے لیے زمین کو پھاڑا ﴿ فَاَنْۢـبَتْنَا فِیْهَا ﴾ اس میں ہم نے مختلف اصناف اگائیں یعنی انواع و اقسام کے لذیذ کھانے اور مزیدار غذائیں اور ﴿حَبًّا﴾ ’’دانے۔‘‘ یہ مختلف قسم کے دانوں کی تمام اصناف کو شامل ہے۔﴿ وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا﴾’’اور انگور اور ترکاری‘‘ ﴿ وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا﴾ ’’اور زیتون اور کھجور‘‘ ان مذکورہ چار اجناس کو ان کے فوائد اور منافع کی کثرت کی بنا پر مختص کیا ہے ﴿ وَّحَدَآىِٕقَ غُلْبًا﴾ یعنی باغات، جن کے اندر بکثرت گھنے درخت ہیں ﴿ وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّ٘ا﴾ اَلْفَاکِھَۃُ ان پھلوں کو کہا جاتا ہے جن کو انسان لذت حاصل کرنے کے لیے کھاتا ہے ، مثلاً: انجیر، انگور، آڑو اور انار وغیرہ۔ اَلْأَبّ ’’چارا‘‘ جسے بہائم اور مویشی کھاتے ہیں، اس لیے فرمایا: ﴿ مَّتَاعًا لَّـكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ﴾ ’’تمھارے اور تمھارے چوپایوں کے لیے سامانِ زندگی ہے۔‘‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کر کے تمھارے لیے مسخر کر دیا۔ جو کوئی ان نعمتوں میں غور کرتا ہے تو یہ غور و فکر اس کے لیے اپنے رب کے شکر، اس کی طرف انابت میں جدوجہد کرنے کا، اس کی اطاعت کی طرف آنے اور اس کی اخبار کی تصدیق کرنے کا موجب بنتا ہے۔
آیت: 33 - 42 #
{فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ (33) يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (37) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ (38) ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ (39) وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (40) تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (41) أُولَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (42)}.
پس جب آئے گی کان بہرے کر دینے والی سخت آواز(33)اس دن بھاگے گا آدمی اپنے بھائی سے(34)اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے (35) اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے (36) ہر مرد کے لیے ان میں سے اس دن ایک حال ہو گا کہ وہ بے پروا کر دے گا اس کو (دوسروں سے) (37) کئی چہرے اس دن چمکنے والے (روشن) ہوں گے (38) ہشاش بشاش(39) اور کئی چہرے اس دن ان پر غبار ہو گا (40) ڈھانپتی ہو گی ان کو سیاہی (41) یہی لوگ ہیں کافر فاجر (42)
#
{33 ـ 42} أي: إذا جاءت صيحة القيامةِ التي تُصَخُّ لهولها الأسماع وتنزعج لها الأفئدة يومئذٍ؛ ممَّا يرى الناس من الأهوال وشدَّة الحاجة لسالف الأعمال؛ يفرُّ المرء من أعزِّ الناس إليه وأشفقهم عليه ؛ من أخيه وأمِّه وأبيه وصاحبته؛ أي: زوجته وبنيه، وذلك لأنَّه {لكلِّ امرئٍ منهم يومئدٍ شأنٌ يُغنيه}؛ أي: قد أشغلته نفسُه، واهتمَّ لفكاكها، ولم يكنْ له التفاتٌ إلى غيرها. فحينئذٍ ينقسم الخلقُ إلى فريقين: سعداء وأشقياء: فأمَّا السعداءُ؛ فوجوههم {يومئذٍ مسفرةٌ}؛ أي: قد ظهر فيها السرور والبهجةُ مما عرفوا من نجاتهم وفوزهم بالنعيم، {ضاحكةٌ مستبشرةٌ. ووجوهٌ}: الأشقياء {يومئذٍ عليها غَبَرَةٌ. ترهقُها}؛ أي: تغشاها {قترةٌ}: فهي سوداء مظلمةٌ مدلهمةٌ، قد أيست من كلِّ خير، وعرفتْ شقاءها وهلاكها. {أولئك}: الذين بهذا الوصف، {هم الكفرةُ الفجرةُ}؛ أي: الذين كفروا بنعمة الله، وكذَّبوا بآياته، وتجرَّؤوا على محارمِهِ. نسأل الله العفوَ والعافيةَ؛ إنَّه جوادٌ كريمٌ.
[42-33] یعنی جب قیامت کی چنگھاڑ آئے گی، جس کے ہول سے کان بہرے ہو جائیں گے اس روز لوگ قیامت کی ہولناکیاں دیکھیں گے اور انھیں اعمال کی سخت ضرورت ہو گی تو دل دہل جائیں گے۔ ﴿ یَفِرُّ الْ٘مَرْءُ ﴾ انسان اس شخص سے بھی بھاگے گا جو اسے سب سے عزیز اور اس کے لیے سب سے زیادہ شفیق ہے ﴿مِنْ اَخِیْهِۙ۰۰وَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِۙ۰۰وَصَاحِبَتِهٖ ﴾ ’’اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے اوراپنی بیوی سے‘‘ ﴿ وَبَنِیْهِ ﴾ ’’اور اپنے بیٹوں سے‘‘ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ﴿ لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ﴾ اسے خود اپنی پڑی ہو گی اور وہ خود اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے فکر مند ہو گا، اور وہ کسی دوسری طرف التفات نہیں کر سکے گا۔ اس وقت مخلوق دو گروہوں میں منقسم ہو جائے گی، خوش بختوں کا گروہ اور بدبختوں کا گروہ، رہے خوش بخت لوگ تو ان کے چہرے اس روز ﴿مُّسْفِرَةٌ﴾ ’’روشن ہوں گے۔‘‘ یعنی ان کے چہروں پر مسرت اور تر و تازگی نمایاں ہو گی، کیونکہ انھیں اپنی نجات اور نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے بارے میں معلوم ہو گیا ہو گا ﴿ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۰۰ وَوُجُوْهٌ ﴾ ’’وہ چہرے خنداں و شاداں ہوں گے اور کئی چہرے۔‘‘ یعنی بدبختوں کے چہرے ﴿ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌۙ۰۰تَرْهَقُهَا ﴾ اس روز غبار آلود ہوں گے اور انھیں ڈھانپ رکھا ہو گا ﴿ قَتَرَةٌ ﴾ ’’سیاہی نے۔‘‘ پس یہ چہرے سیاہ اور نہایت تاریک ہوں گے اور ہر بھلائی سے مایوس ہوں گے اور انھیں اپنی بدبختی اور ہلاکت کا علم ہو گیا ہو گا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ جن کا یہ وصف ہے، یہی وہ لوگ ہیں ﴿ هُمُ الْ٘كَفَرَةُ الْفَجَرَةُ﴾ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کی، اس کی آیتوں کو جھٹلایا اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کے طلب گار ہیں، وہ بڑا ہی فیاض اور نہایت کرم والا ہے۔