آیت:
تفسیر سورۂ نبأ
تفسیر سورۂ نبأ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ (1) عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ (2) الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ (3) كَلَّا سَيَعْلَمُونَ (4) ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ (5)}.
کس چیز کی بابت وہ باہم سوال کرتے ہیں؟(1) اس عظیم خبر کی بابت(2) کہ وہ اس میں اختلاف کرتے ہیں(3) ہرگز نہیں!عنقریب وہ جان لیں گے(4) پھر ہرگز نہیں! عنقریب وہ جان لیں گے(5)
#
{1 ـ 5} أي: عن أيِّ شيءٍ يتساءل المكذِّبون بآيات الله؟ ثم بيَّن ما يتساءلون عنه فقال: {عن النبإ العظيم. الذي هم فيه مختلفونَ}؛ أي: عن الخبر العظيم الذي طال فيه نزاعُهم وانتشر فيه خلافُهم على وجه التَّكذيب والاستبعاد، وهو النبأ الذي لا يقبل الشكَّ ولا يدخُلُه الريبُ، ولكن المكذِّبون بلقاء ربِّهم لا يؤمنون، ولو جاءتهم كلُّ آيةٍ، حتى يَرَوُا العذاب الأليم، ولهذا قال: {كلاَّ سيعلمونَ. ثم كلاَّ سيعلمونَ}؛ أي: سيعلمون إذا نزل بهم العذابُ ما كانوا به يكذبون حين {يُدَعُّون إلى نار جَهَنَّم دعًّا}. ويقال لهم: {هذه النَّار التي كنتُم بها تكذِّبونَ}.
[5-1] اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس چیز کے بارے میں بیان فرمایا جس کے بارے میں وہ پوچھ رہے ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿عَنِ النَّبَ٘اِ الْعَظِیْمِۙ۰۰ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ مُخْتَلِفُوْنَؔ﴾ یعنی عظیم خبر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس میں تکذیب اور مستبعد ہونے کی وجہ سے ان کا نزاع طول پکڑ گیا اوران کی مخالفت پھیل گئی حالانکہ وہ ایسی خبر ہے جو شک کو قبول کرتی ہے نہ اس میں کوئی شبہ داخل ہو سکتا ہے مگر مکذبین کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس تمام نشانیاں ہی کیوں نہ آ جائیں، یہ اپنے رب سے ملاقات پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَؔۙ۰۰ ثُمَّ كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَؔ﴾ یعنی عنقریب جب عذاب نازل ہو گا جسے وہ جھٹلایا کرتے تھے تو انھیں معلوم ہو جائے گا، اس وقت انھیں جہنم کی آگ میں دھکے دے کر ڈالا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: ﴿هٰؔذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ﴾ (الطور:52؍14) ’’یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے نعمتوں اور ان دلائل کا ذکر کیا ہے جو اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں جسے رسول لے کر آئے ہیں۔ فرمایا:
آیت: 6 - 16 #
{أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا (6) وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (7) وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا (8) وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (9) وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا (10) وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (11) وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا (12) وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا (13) وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا (14) لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا (15) وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا (16)}.
کیا نہیں بنایا ہم نے زمین کو بچھونا ؟(6) اور پہاڑوں کو میخیں؟(7) اور ہم نے پیدا کیا تمھیں جوڑا جوڑا(8) اور ہم نے بنایاتمھاری نیند کو آرام کا ذریعہ(9) اور ہم نے بنایا رات کو لباس (10) اور ہم نے بنایا دن کو وقت معاش (11) اور بنائے ہم نے تمھارے اوپر سات مضبوط(آسمان) (12) اور ہم نے بنایاایک چراغ روشن (13) اور نازل کیا ہم نے بھرے بادلوں سے پانی خوب برسنے والا (14) تاکہ نکالیں ہم اس کے ذریعے سے دانہ (غلہ) اور سبزہ (15) اور باغات گھنے (16)
#
{6 ـ 16}؛ أي: أما أنعمنا عليكم بنعمٍ جليلةٍ، فجعلنا لكم {الأرضَ مِهاداً}؛ أي: ممهَّدة مذلَّلة لكم ولمصالحكم من الحروث والمساكن والسُّبل، {والجبالَ أوتاداً}: تمسك الأرض لئلاَّ تضطرب بكم وتميدَ، {وخَلَقْناكم أزواجاً}؛ أي: ذكوراً وإناثاً من جنس واحدٍ؛ ليسكن كلٌّ منهما إلى الآخر، فتتكوَّن الموَّدة والرحمة، وتنشأ عنهما الذُّرِّيَّة. وفي ضمن هذا الامتنان بلذَّة المنكح. {وجَعَلْنا نومَكم سُباتاً}؛ أى: راحةً لكم وقطعاً لأشغالكم التي متى تمادت بكم؛ أضرَّت بأبدانكم، فجعل الله الليل والنوم يُغْشي الناس لتسكنَ حركاتُهم الضارَّة وتحصل راحتُهم النافعةُ، {وبنينا فوقَكم سبعاً شِداداً}؛ أي: سبع سماواتٍ في غاية القوَّة والصَّلابة والشِّدَّة، وقد أمسكها الله بقدرته، وجعلها سقفاً للأرض، فيها عدَّة منافع لهم، ولهذا ذكر من منافعها الشمس، فقال: {وجَعَلْنا سراجاً وهَّاجاً}: نبَّه بالسِّراج على النِّعمة بنورها الذي صار ضرورةً للخلق، وبالوهَّاج ـ وهي حرارتها ـ على ما فيها من الإنضاج والمنافع ، {وأنزلنا من المعصِراتِ}؛ أي: السَّحاب {ماءً ثَجَّاجاً}؛ أي: كثيراً جدًّا؛ {لِنُخْرِجَ به حبًّا}: من برٍّ وشعيرٍ وذرةٍ وأرزٍّ وغير ذلك ممّا يأكله الآدميُّون، {ونباتاً}: يشملُ سائر النَّبات الذي جعله الله قوتاً لمواشيهم، {وجناتٍ ألفافاً}؛ أي: بساتين ملتفَّة فيها من جميع أصناف الفواكه اللَّذيذة؛ فالذي أنعم [عليكم] بهذه النِّعم الجليلة التي لا يقدر قدرها ولا يحصى عددها؛ كيف تكفُرون به وتكذِّبون ما أخبركم به من البعث والنُّشور؟! أم كيف تستعينون بنعمِهِ على معاصيه وتجحَدونها؟!
[16-6] کیا ہم نے تمھیں بڑی بڑی نعمتوں سے نہیں نوازا؟ پس ہم نے تمھارے لیے بنایا ﴿ الْاَرْضَ مِهٰدًا﴾ زمین کو ہموار اور نرم، یعنی تمھارے لیے اور تمھارے مصالح ، مثلاً کھیتی باڑی کرنے، گھر بنانے اور راستے بنانے کے لیے۔ ﴿ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا﴾ ’’اور پہاڑوں کو میخیں۔‘‘ جو زمین کو ٹھہرائے ہوئے ہیں تاکہ تمھیں لے کر متحرک نہ ہو جائے اور ڈھلک نہ جائے۔ ﴿ وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا﴾ یعنی ایک ہی جنس میں سے تمھیں مرد اور عورت بنایا تاکہ ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرے۔ پس اس طرح مودت اور رحمت وجود میں آئے اور ان دونوں سے اولاد پیدا ہو۔ اس احسان کا ذکر لذت نکاح کو متضمن ہے۔ ﴿ وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا﴾ یعنی تمھاری نیند کو تمھاری راحت اور تمھارے اشغال کو منقطع کرنے والی بنایا، جو اگر بڑھ جائیں تو تمھارے ابدان کو ضرر پہنچاتے ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے رات کی یہ خاصیت بنائی کہ وہ لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے، تاکہ ان کی ضرر رساں حرکات ٹھہر جائیں اور انھیں نفع مند راحت حاصل ہو۔ ﴿ وَّبَنَیْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا﴾ یعنی تمھارے اوپر سات آسمان بنائے جو قوت، صلابت اور سختی کی انتہا پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو تھام رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کے لیے چھت بنایا، آسمانوں میں انسانوں کے لیے متعدد فوائد ہیں، اس لیے ان کے منافع میں سورج کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا﴾ ’’اور ہم نے روشن چراغ بنایا۔‘‘ چراغ کا ذکر کر کے سورج کی روشنی کی نعمت کی طرف اشارہ کیا ہے، جو مخلوق کی ضرورت بن گئی ہے۔ وَھَّاج یعنی اس کی حرارت کا ذکر کر کے اس کے اندر پھلوں کو پکانے کی قوت اور دیگر منافع کی طرف اشارہ کیا۔ ﴿ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْ٘مُعْصِرٰتِ﴾ یعنی ہم نے بادل سے اتارا ﴿ مَآءًؔ ثَجَّاجًا﴾ بہت زیادہ پانی۔ ﴿ لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا﴾ ’’تاکہ اس کے ذریعے سے اناج پیدا کریں۔‘‘ مثلاً: گیہوں، جو، مکئی اور چاول وغیرہ، جسے آدمی کھاتے ہیں ﴿ وَّنَبَاتًا﴾ ’’اور سبزہ۔‘‘ یہ تمام نباتات کو شامل ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے مویشیوں کے لیے خوراک بنایا ہے ﴿ وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا﴾ اور گھنے باغات، ان کے اندر تمام اقسام کے لذیذ میوے ہیں۔ پس وہ ہستی جس نے یہ جلیل القدر نعمتیں عطا کی ہیں، جس کی مقدار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے نہ انھیں شمار کیا جا سکتا ہے، تم کیونکر اس کا انکار کرتے ہو اور کیونکر اس خبر کو جھٹلاتے ہو جو اس نے تمھاری موت کے بعد تمھارے دوبارہ اٹھائے جانے اور قیامت کے بارے میں دی ہے؟
آیت: 17 - 30 #
{إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا (17) يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا (18) وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًا (19) وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا (20) إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا (21) لِلطَّاغِينَ مَآبًا (22) لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا (25) جَزَاءً وِفَاقًا (26) إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ حِسَابًا (27) وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كِذَّابًا (28) وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا (29) فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِيدَكُمْ إِلَّا عَذَابًا (30)}.
بلاشبہ دن فیصلے کا ہے وقت مقرر (17) (یعنی ) جس دن پھونک ماری جائے گی صور میں، تو تم آؤ گے فوج در فوج (18) اور کھولا جائے گا آسمان تو ہو جائے گا وہ دروازے دروازے(19) اور چلائے جائیں گے پہاڑ تو ہو جائیں گے وہ (جیسے) سراب (20) بلاشبہ جہنم ہے گھات کی جگہ (21) سرکشوں کا ٹھکانا (22) وہ ٹھہریں گے اس میں لمبی مدت (23) نہیں چکھیں گے وہ اس میں ٹھنڈک اور نہ کوئی مشروب ہی (24) سوائے کھولتے پانی اور (بہتی) پیپ کے (25) (جزا دیے جائیں گے) جزا پوری (26) بلاشبہ وہ تھے نہیں امید رکھتے حساب (کتاب) کی (27) اور وہ جھٹلاتے تھے ہماری آیات کو جھٹلانا بہت (28) اور ہر چیز کو ضبط کر رکھا ہے ہم نے ایک کتاب میں(29) سو چکھو تم،پس ہرگز نہیں زیادہ کریں گے ہم تمھیں مگر عذاب ہی میں (30)
#
{17 ـ 25} ذكر الله تعالى ما يكون في يوم القيامةِ الذي يتساءل عنه المكذِّبون ويجحده المعاندون؛ أنَّه يومٌ عظيمٌ، وأن الله جعله {ميقاتاً} للخلق، {يُنفَخُ في الصُّور} فيأتون {أفواجاً}: ويجري فيه من الزعازع والقلاقل ما يَشيبُ له المولودُ وتنزعجُ له القلوبُ، فتسير الجبال حتى تكون كالهباء المبثوثِ، وتنشقُّ السماء حتى تكون أبواباً، ويفصل الله بين الخلائق بحكمه الذي لا يجور، وتوقدُ نارُ جهنَّم التي أرصدها الله وأعدَّها للطَّاغين وجعلها مثوىً لهم ومآباً، وأنَّهم يلبَثون فيها أحقاباً كثيرةً، والحقبُ على ما قاله كثيرٌ من المفسِّرين ثمانون سنة؛ فإذا وردوها ؛ {لا يذوقون فيها برداً ولا شراباً}؛ أي: لا ما يبرِّدُ جلودَهم ولا ما يدفع ظمأهم؛ {إلاَّ حميماً}؛ أي: ماءً حارًّا يشوي وجوههم ويقطِّع أمعاءهم {وغَسَّاقاً}: وهو صديدُ أهل النار: الذي هو في غاية النتن وكراهة المذاق.
[25-17] اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کیا ہو گا، جس کے بارے میں اہل تکذیب پوچھتے ہیں اور معاندین حق اس کا انکار کرتے ہیں، یہ بہت ہی بڑا دن ہو گا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو ﴿ مِیْقَاتًا﴾ مخلوق کے لیے فیصلے کا دن مقرر کیا۔ ﴿ یَّوْمَ یُنْفَ٘خُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا﴾ ’’جس دن صور میں پھونکا جائے گا تو تم گروہ درگروہ آؤ گے۔‘‘ اس دن بڑی بڑی مصیبتیں اور زلزلے آئیں گے، جن سے دل دہل جائیں گے اور جنھیں دیکھ کر بچے بھی بوڑھے ہو جائیں گے۔ پہاڑ چل پڑیں گے حتیٰ کہ غبار بن کر بکھر جائیں گے، آسمان پھٹ جائے گا اور اس میں دروازے بن جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ خلائق کے درمیان اپنے حکم سے ایسا فیصلہ کرے گا، جس میں ظلم نہ ہو گا۔جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی جس کو اللہ تعالیٰ نے سرکشوں کی گھات میں تیار کر رکھا ہے اور اسے ان کے لیے ٹھکانا اور لوٹنے کی جگہ بنایا ہے، یہ سرکش لوگ اس میں مدتوں رہیں گے۔ اَلْحَقَب بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق اسّی سال کا عرصہ ہے۔ جب وہ جہنم میں وارد ہوں گے ﴿ لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابً٘ا﴾ ’’وہاں ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ پینا نصیب ہوگا۔‘‘ یعنی وہ ایسی کوئی چیز نہیں پائیں گے جو ان کی جلدوں کو ٹھنڈا کرے اور ان کی پیاس ہی کو دور کرے۔ ﴿ اِلَّا حَمِیْمًا ﴾ یعنی وہی کھولتا ہوا گرم پانی ہو گا جو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ ﴿ وَّغَسَّاقًا ﴾ اور اہل جہنم کی پیپ ہوگی جو انتہائی بدبودار اور انتہائی بدذائقہ ہو گی۔ وہ ان بدترین عقوبتوں کے اس لیے مستحق ہیں کہ یہ ان کے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے جنھوں نے ان کو جہنم میں پہنچایا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرگز ظلم نہیں کیا، بلکہ انھوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔
#
{26 ـ 30} وإنَّما استحقُّوا هذه العقوبات الفظيعة جزاءً لهم وفاقاً على ما عملوا من الأعمال الموصلة إليها، لم يظلمهم الله ولكن ظلموا أنفسهم، ولهذا ذكر أعمالهم التي استحقُّوا بها هذا الجزاء، فقال: {إنَّهم كانوا لا يرجونَ حساباً}؛ أي: لا يؤمنون بالبعث، ولا أنَّ الله يجازي الخلق بالخير والشرِّ؛ فلذلك أهملوا العمل للآخرة، {وكذَّبوا بآياتِنا كِذَّاباً}؛ أي: كذَّبوا بها تكذيباً واضحاً صريحاً، وجاءتهم البيِّنات فعاندوها، {وكلَّ شيءٍ}: من قليلٍ وكثيرٍ وخيرٍ وشرٍّ، {أحصيناه كتاباً}؛ أي: أثبتناه في اللوح المحفوظ؛ فلا يحسب المجرمون أنَّا عذَّبناهم بذنوب لم يعملوها، ولا يحسبوا أنَّه يضيع من أعمالهم شيءٌ أو يُنسى منها مثقالُ ذرَّةٍ؛ كما قال تعالى: {ووُضِعَ الكتابُ فترى المجرمين مشفقين ممَّا فيه ويقولون يا ويلتنا مالِ هذا الكتاب لا يغادِرُ صغيرةً ولا كبيرةً إلاَّ أحصاها ووجدَوا ما عمِلوا حاضراً ولا يظلِمُ ربُّك أحداً}. {فذوقوا}: أيُّها المكذِّبون هذا العذاب الأليم والخزيَ الدائم، {فلن نزيدكم إلاَّ عذاباً}: فكلُّ وقتٍ وحينٍ يزدادُ عذابُهم. وهذه الآيةُ أشدُّ الآيات في شدَّة عذاب أهل النار، أجارنا الله منها.
[30-26] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان اعمال کا ذکر کیا جن کی بنا پر وہ اس سزا کے مستحق ٹھہرے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابً٘ا﴾ یعنی وہ قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور نہ وہ اس پر یقین ہی رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اچھے برے اعمال کی جزا دے گا اس لیے وہ آخرت کی خاطر عمل کو فضول اور مہمل سمجھتے تھے۔ ﴿ وَّؔكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابً٘ا﴾ یعنی انھوں نے ہماری آیتوں کی واضح اور صریح طور پر تکذیب کی اور جب ان کے پاس واضح دلائل آئے تو انھوں نے ان کی مخالفت کی۔ ﴿ وَؔكُ٘لَّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور ہر چیز کو۔‘‘ یعنی ہر تھوڑی یا زیادہ، اچھی یا بری چیز ﴿ اَحْصَیْنٰؔهُ كِتٰبًا﴾ ہم نے اسے لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے، پس مجرم یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کو ایسے گناہوں کی سزا دی ہے جو انھوں نے کیے ہی نہیں اور نہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال میں سے کسی عمل کو ضائع کر دے گا یا ان میں سے کوئی ذرہ بھر عمل بھول جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَوُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْ٘مُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰؔذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُؔ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف: 18؍49)’’اعمال نامے کو (کھول کر) رکھ دیا جائے گا اور تو مجرموں کو دیکھے گا کہ جو کچھ اس کتاب میں درج ہو گا، وہ اس سے ڈر رہے ہوں گے، اور وہ کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے جو کسی چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی بات کو، مگر یہ کہ اس کو درج کر رکھا ہے اور جو اعمال انھوں نے کیے ہیں، ان سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ ﴿ فَذُوْقُوْا ﴾ ’’پس چکھو‘‘ اس درد ناک عذاب اور دائمی رسوائی کو اے جھٹلانے والو! ﴿ فَلَ٘نْ نَّزِیْدَؔكُمْ اِلَّا عَذَابً٘ا﴾ ’’ہم تم پرعذاب ہی بڑھاتے جائیں گے۔‘‘ پس ہر آن اور ہر وقت ان کا عذاب بڑھتا رہے گا۔ اہل جہنم کے عذاب کی شدت کے بارے میں یہ سخت ترین آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے بچائے۔
آیت: 31 - 36 #
{إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (31) حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا (32) وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا (33) وَكَأْسًا دِهَاقًا (34) لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا (35) جَزَاءً مِنْ رَبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (36)}.
بلاشبہ متقی لوگوں کے لیے کامیابی ہے (31) باغات اور انگور ہیں (32) اور ابھری چھاتیوں والیاں ہم عمر (بیویاں) (33) اور شراب کے جام چھلکتے ہوئے (34) نہیں سنیں گے وہ اس میں لغو (باتیں) اور نہ جھوٹ (35) (دیے جائیں گے) جزا آپ کے رب کی طرف سے عطیہ کافی ہو جانے والا (36)
#
{31 ـ 36} لمَّا ذكر حال المجرمين؛ ذَكَرَ مآلَ المتَّقين، فقال: {إنَّ للمتَّقين مفازاً}؛ أي: الذين اتَّقوا سَخَطَ ربِّهم بالتَّمسُّك بطاعته والانكفاف عن معصيته ؛ فلهم مفازٌ ومنجىً وبعدٌ عن النار، وفي ذلك المفاز لهم {حدائق}: وهي البساتين الجامعة لأصناف الأشجار الزاهية بالثِّمار التي تتفجَّر بين خلالها الأنهار، وخصَّ العنب لشرفه وكثرته في تلك الحدائق. ولهم فيها زوجاتٌ على مطالب النُّفوس {كواعبَ}: وهي النواهِدُ اللاَّتي لم تتكسَّر ثديُهُنَّ من شبابهنَّ وقوَّتهن ونضارتهنَّ. والأتراب اللاَّتي على سنٍّ واحدٍ متقاربٍ، ومن عادة الأتراب أن يكنَّ متآلفاتٍ متعاشراتٍ، وذلك السنُّ الذي هنَّ فيه ثلاثٌ وثلاثونَ سنةً أعدل ما يكون من الشباب ، {وكأساً دِهاقاً}؛ أي: مملوءة من رحيقٍ لَذَّةٍ للشاربين، {لا يسمعون فيها لغواً}؛ أي: كلاماً لا فائدة فيه، {ولا كِذَّاباً}؛ أي: إثماً؛ كما قال تعالى: {لا يسمعون فيها لغواً ولا تأثيماً. إلاَّ قِيلاً سلاماً سلاماً}، وإنَّما أعطاهم الله هذا الثَّواب الجزيل من فضله وإحسانه. {عطاءً حساباً}؛ أي: بسبب أعمالهم التي وفَّقهم الله لها، وجعلها سبباً للوصول إلى كرامته.
[36-31] جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجرموں کا حال بیان کیا، وہاں اہل تقویٰ کے انجام کا ذکر بھی فرمایا: ﴿ اِنَّ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ مَفَازًا﴾ یعنی جو لوگ اپنے رب کی ناراضی سے ڈر گئے اور اس کی اطاعت کا دامن تھام لیا اور اس کی نافرمانی سے باز آ گئے، ان کے لیے کامیابی، نجات اور جہنم سے دوری ہے۔ اس کامیابی میں ان کے لیے ﴿ حَدَآىِٕقَ﴾ باغ ہیں۔ ﴿ حَدَآىِٕقَ﴾ ان باغات کو کہا جاتا ہے جن میں خوبصورت درختوں اور پھلوں کی تمام اقسام جمع ہوں۔ ﴿ وَاَعْنَابً٘ا﴾ ’’اور انگور ہیں۔‘‘ ان باغات کے بیچوں بیچ ندیاں بہہ رہی ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے انگور کے شرف اور ان باغات میں ان کی کثرت کی بنا پر ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان باغات میں ان کی چاہت اور طلب کے مطابق بیویاں ہوں گی ﴿ وَّؔكَوَاعِبَ﴾ اس سے مراد ابھرے ہوئے پستانوں والی کنواری لڑکیاں ہیں، جن کے پستان ان کے شباب، ان کی قوت اور ان کی تازگی کے باعث ڈھیلے نہیں پڑے۔ ﴿ اَ٘تْرَابً٘ا﴾ ’’ہم عمر عورتیں۔‘‘ ہم عمر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ باہم محبت و الفت رکھنے والی اور باہم اچھی معاشرت والی ہوتی ہیں، وہ عمر جس میں ہوں گی، وہ تینتیس سال ہے اور یہ معتدل ترین شباب کی عمر ہے۔ ﴿ وَّكَاْسًا دِهَاقًا﴾ یعنی شراب کے چھلکتے ہوئے جام ہوں گے پینے والوں کی لذت کے لیے ﴿ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا﴾ یعنی وہ ایسا کلام نہیں سنیں گے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو ﴿ وَّلَا كِذّٰبً٘ا﴾ ’’اور نہ جھوٹ۔‘‘ یعنی گناہ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًاۙ۰۰اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا﴾ (الواقعۃ:56؍25۔26) ’’وہ جنت میں کوئی بے ہودہ بات سنیں گے نہ گناہ کی بات، صرف سلام ہی سلام کی بات سنیں گے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے ان کو یہ ثواب جزیل عطا کیا ہے۔ ﴿ جَزَآءًؔ مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’ان کے لیے بدلہ ہے تمھارے رب کی طرف سے۔‘‘ ﴿عَطَآءًؔ حِسَابً٘ا ﴾’’یہ انعام کثیر۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کے سبب سے جن کی توفیق سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند کیا اور ان اعمال کو اپنی تکریم و اکرام تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا۔
آیت: 37 - 40 #
{رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَنِ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا (37) يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا (38) ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآبًا (39) إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَالَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا (40)}.
جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، نہایت مہربان، نہیں اختیار رکھیں گے وہ اس سے بات کرنے کا (37) اس دن کھڑے ہوں گے جبریل اور (سب) فرشتے صف بستہ، نہیں کلام کر سکیں گے وہ مگر وہی کہ اجازت د ے گا اس کو رحمن، اور کہے گا وہ درست (بات) (38) یہ دن ہے برحق سو جو چاہے وہ پکڑے اپنے رب کی طرف ٹھکانا(39) بلاشبہ ہم نے ڈرا دیا ہے تمھیں قریب کے عذاب سے اس دن دیکھے گا انسان جو کچھ آگے بھیجا اس کے دونوں ہاتھوں نے اور کہے گا کافر، اے کاش! ہوتا میں مٹی (40)
#
{37 ـ 39} أي: الذي أعطاهم هذه العطايا هو ربُّهم، {ربُّ السمواتِ والأرضِ}: الذي خلقها ودبَّرها. {الرحمن}: الذي رحمته وسعتْ كلَّ شيءٍ، فربَّاهم ورحمهم ولطف بهم حتى أدركوا ما أدركوا. ثم ذكر عَظَمَتَه وملكَه العظيم يوم القيامةِ، وأنَّ جميع الخلق كلَّهم ساكتون ذلك اليوم لا يتكلَّمون و {لا يملِكونَ منه خطاباً}؛ {إلاَّ مَنْ أذِنَ له الرحمن وقال صواباً}: فلا يتكلَّم أحدٌ إلاَّ بهذين الشرطين: أن يأذنَ الله له في الكلام، وأنْ يكونَ ما تكلَّم به صواباً؛ لأنَّ {ذلك اليوم} [هو] {الحقُّ}: الذي لا يَروج فيه الباطلُ ولا ينفعُ فيه الكذب. وفي ذلك اليوم {يقومُ الرُّوح}: وهو جبريلُ عليه السلام، الذي هو أفضلُ الملائكة، {والملائكةُ}: أيضاً يقوم الجميع {صفًّا}: خاضعين لله، لا يتكلَّمون إلاَّ بإذنه. فلمَّا رَغَّب ورَهَّب وبشَّرَ وأنذر؛ قال: {فَمَن شاء اتَّخذ إلى ربِّه مآباً}؛ أي: عملاً وقَدَمَ صدقٍ يرجع إليه يوم القيامةِ.
[39-37] یعنی جس نے انھیں یہ عطیات عطا کیے وہ ان کا رب ہے ﴿ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’جو آسمانوں اور زمین کارب ہے۔‘‘ جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کی تدبیر کی ﴿ الرَّحْمٰنِ﴾ جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے، پس اس نے ان کی نشوونما کی، ان پر رحم کیا اور ان کو لطف و کرم سے نوازا حتیٰ کہ انھوں نے بہت کچھ پا لیا۔پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اپنی عظمت اور اپنی عظیم بادشاہی کا ذکر فرمایا۔ اس روز تمام مخلوق خاموش ہو گی، کوئی بات نہیں کر سکے گا ﴿ لَا یَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابً٘ا﴾ ’’اس سے بات چیت کرنے کا انھیں اختیار نہیں ہوگا۔‘‘ ﴿ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابً٘ا﴾یعنی کوئی شخص بات نہیں کر سکے گا مگر ان دو شرطوں کے ساتھ: اول: جسے اللہ تعالیٰ بات کی اجازت دے۔ ثانی: اور وہ جو بات کرے وہ ٹھیک ہو۔ اس لیے کہ﴿ ذٰلِكَ الْیَوْمُ ﴾ ’’یہ دن ۔‘‘ ﴿ الْحَقُّ ﴾ ’’ہی سچا (دن) ہے‘‘ جس میں باطل رائج ہو سکتا ہے نہ جھوٹ فائدہ دے سکتا ہے۔ اور یہ وہ دن ہے ﴿ یَقُوْمُ الرُّوْحُ ﴾ ’’جس میں روح (الامین) کھڑا ہو گا۔‘‘ روح سے مراد جبریل uہیں جو تمام فرشتوں میں افضل ہیں۔ ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ﴾ اور تمام فرشتے بھی کھڑے ہوں گے ﴿ صَفًّا﴾ صف باندھے، اللہ تعالیٰ کے حضور سرافگندہ ہو کر ﴿ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ﴾ ’’وہ کلام نہیں کرسکیں گے‘‘ سوائے اس بات کے جس کی اللہ تعالیٰ اجازت دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ترغیب وترہیب اور تبشیر و انذار کے بعد فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَؔ اتَّؔخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبً٘ا﴾ ’’ پس جو شخص چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنالے۔‘‘ یعنی عمل اور اچھی بات کرے جو قیامت کے دن اس کی طرف لوٹے گی۔
#
{40} {إنَّا أنذَرْناكم عذاباً قريباً}: لأنَّه قد أزِفَ مقبلاً، وكلُّ ما هو آتٍ [فهو] قريبٌ. {يوم ينظُرُ المرءُ ما قدَّمتْ يداه}؛ أي: هذا الذي يهمُّه ويفزع إليه، فلينظر في هذه الدار ما قدَّم لدار القرار ، {يا أيُّها الذين آمنوا اتَّقوا الله وَلْتَنظُرْ نفسٌ ما قدَّمت لغدٍ واتَّقوا اللهَ إنَّ الله خبيرٌ بما تعملونَ ... } الآيات؛ فإن وجد خيراً؛ فليحمدِ الله، وإن وجدَ غير ذلك؛ فلا يلومنَّ إلاَّ نفسه. ولهذا كان الكفار يتمنَّوْن الموت من شدَّة الحسرة والندم. نسأل الله أن يعافِيَنا من الكفر والشرِّ كلِّه إنَّه جوادٌ كريمٌ.
[40] ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابً٘ا قَ٘رِیْبًا﴾ ’’بلاشبہ ہم نے تمھیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے۔‘‘ کیونکہ وہ عذاب قریب آ گیا ہے اور جو چیز آ رہی ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے ﴿ یَّوْمَ یَنْظُ٘رُ الْ٘مَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰؔهُ﴾ ’’اس دن آدمی ان (اعمال) کو د یکھ لے گا جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے۔‘‘ یعنی یہی وہ چیز ہے جو اسے ہم وفکر میں ڈالے گی اور وہ اس سے گھبرائے گا۔ پس اسے اس دنیا میں دیکھنا چاہیے کہ اس نے دائمی گھر کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُ٘رْ نَفْ٘سٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الحشر:59/18) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ ہر اس عمل کی خبر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘اگر وہ (اپنے اعمال میں) کوئی بھلائی پائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور اگر بھلائی کے سوا کچھ اور پائے تو وہ صرف اپنے ہی نفس کو ملامت کرے ، اسی لیے کفار شدت حسرت و ندامت کی وجہ سے موت کی تمنا کریں گے ﴿ وَیَقُوْلُ الْ٘كٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْؔ كُنْتُ تُرٰبً٘ا﴾ ’’اور کافر کہے گا، کاش! میں مٹی ہوتا۔‘‘ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں کفر اور ہر قسم کے شر سے عافیت عطا کرے۔ وہ بہت جواد اور نہایت کرم والا ہے۔