آیت:
تفسیر سورۂ مرسلات
تفسیر سورۂ مرسلات
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 15 #
{وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا (1) فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا (2) وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا (3) فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا (4) فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا (5 ضض) عُذْرًا أَوْ نُذْرًا (6) إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ (7) فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ (8) وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ (9) وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ (10) وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (11) لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ (12) لِيَوْمِ الْفَصْلِ (13) وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ (14) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (15)}.
قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھیجی جاتی ہیں متواتر(1) پھر ان ہواؤں کی جو تند و تیز چلتی ہیں طوفان بن کر(2) اور ان ہواؤں کی جو پھیلاتی ہیں (بادل و بارش کو) پھیلانا(3) پھر ان (فرشتوں) کی جو جدا کرنےوالے ہیں (حق و باطل کو) جدا کرنا(4) پھر ان (فرشتوں) کی جو ڈالنے والے ہیں ذکر(5) عذر (ختم کرنے) یا ڈرانے کے لیے(6) یقیناً جس (قیامت) کا تم وعدہ دیے جاتے ہو (وہ) ضرور واقع ہونے والی ہے(7) پس جب ستارے مٹا (بے نور کر) دیے جائیں گے(8) اور جب آسمان پھاڑ دیا جائے گا(9) اور جب پہاڑ اڑا دیے جائیں گے (10) اور جب رسول، معین وقت پر جمع کیے جائیں گے (11) (کہا جائے گا)کس دن کے لیے (یہ) مؤخر کیے گئے تھے؟ (12) فیصلے کے دن کے لیے (13) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو، کیا ہے دن فیصلے کا؟ (14) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (15)
#
{1 ـ 6} أقسم تعالى على البعث والجزاء على الأعمال بـ {المُرْسَلات عُرْفاً}: وهي الملائكةُ التي يرسِلُها الله تعالى بشؤونه القدريَّة وتدبير العالم، وبشؤونه الشرعيَّة ووحيه إلى رسله، و {عُرْفاً}: حال من المرسلات؛ أي: أرسلت بالعُرْف والحكمة والمصلحة، لا بالنُّكر والعبث. {فالعاصفاتِ عصفاً}: وهي أيضاً الملائكة التي يرسِلُها الله تعالى، وَصَفَها بالمبادرة لأمره وسرعة تنفيذ أوامره كالريح العاصف أو أنَّ العاصفات الرياح الشديدة التي يُسْرِعُ هبوبها، {والناشرات نشراً}: يُحتمل أنَّ المراد بها الملائكة ؛ تنشر ما دُبِّرت على نشره، أو أنَّها السحاب التي يَنْشُرُ الله بها الأرض فيحييها بعد موتها. {فالمُلْقِياتِ ذِكْراً}: هي الملائكة تلقي أشرفَ الأوامر، وهو الذِّكْرُ الذي يرحم الله به عباده، ويذكِّرهم فيه منافعهم ومصالحهم؛ تلقيه إلى الرسل {عُذْراً أو نُذْراً}؛ أي: إعذاراً وإنذاراً للناس؛ تنذر الناس ما أمامهم من المخاوف وتقطَعُ أعذارهم ؛ فلا يكون لهم حُجَّةٌ على الله.
[6-1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے روز اور اعمال کی جزا و سزا پر فرشتوں کی قسم کھائی ہے، وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ کونی و قدری معاملات، تدبیر کائنات، شرعی معاملات اور اپنے رسولوں پر وحی کے لیے بھیجتا ہے ﴿عُرْفًا﴾ ﴿الْ٘مُرْسَلٰتِ﴾ سےحال ہے، یعنی ان کو محض ناشائستہ اور بے فائدہ کام کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ ان کو عرف، حکمت اور مصلحت کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ ﴿ فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا﴾ اس سے بھی مراد فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، ان کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو تیز ہوا کی مانند جلدی سے آگے بڑھ کر اخذ کرتے ہیں اور نہایت سرعت سے اس کے احکام کو نافذ کرتے ہیں یا اس سے مراد سخت ہوائیں ہیں جو نہایت تیز چلتی ہیں۔ ﴿ وَّالنّٰ٘شِرٰتِ نَ٘شْ٘رًا﴾ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہوں کہ انھیں جس کے پھیلانے کے انتظام پر مقرر کیا گیا ہے، اس کو پھیلاتے ہیں یا اس سے مراد بادل ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ زمین کو سر سبز کرتا ہے اور اس کے مردہ ہو جانے کے بعد اس کو دوبارہ زندگی عطا کرتا ہے۔ ﴿ فَالْمُلْقِیٰؔتِ ذِكْرًا﴾ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو افضل ترین احکام کا القا کرتے ہیں۔ یہ وہ ذکر ہے جس کے ذریعے سے اللہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے اس میں ان کے سامنے ان کے منافع اور مصالح کا ذکر کرتا ہے اور اسے انبیاء و مرسلین کی طرف بھیجتاہے۔ ﴿ عُذْرًا اَوْ نُذْرًا﴾ یعنی لوگوں کا عذر رفع کرنے اور ان کو تنبیہ کرنے کے لیے، تاکہ وہ لوگوں کو خوف کے ان مقامات سے ڈرائیں جو ان کے سامنے ہیں، ان کے عذر منقطع ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ پر ان کے لیے کوئی حجت نہ رہے۔
#
{7} {إنَّما توعَدون}: من البعث والجزاء على الأعمال {لَواقِعٌ}؛ أي: متحتِّم وقوعه من غير شكٍّ ولا ارتياب.
[7] ﴿ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ﴾ یعنی مرنے کے بعد زندگی اور اعمال کی جزا و سزا کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ﴿ لَوَاقِعٌ﴾ اس کا وقوع کسی شک و ریب کے بغیر حتمی ہے۔
#
{8 ـ 14} فإذا وقع؛ حصل من التغيُّر للعالم والأهوال الشَّديدة ما يزعج القلوبَ وتشتدُّ له الكروب فتنطمس النُّجوم؛ أي: تتناثر وتزول عن أماكِنِها، وتُنْسَفُ الجبال، فتكون كالهباء المنثور، وتكون هي والأرض قاعاً صفصفاً، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً، وذلك اليوم هو اليوم الذي {أُقِّتَتْ} فيه الرسل، وأجِّلَتْ للحكم بينها وبين أممها، ولهذا قال: {لأيِّ يوم أجِّلَتْ}: استفهامٌ للتعظيم والتفخيم والتهويل، ثم أجاب بقوله: {ليوم الفصل}؛ أي: بين الخلائق بعضهم من بعض، وحساب كلٍّ منهم منفرداً.
[14-8] جب قیامت کا دن واقع ہو گا تو کائنات میں تغیرات آئیں گے اور سخت ہولناکیوں کا ظہور ہو گا جس سے دل دہل جائیں گے، کرب بہت زیادہ ہو جائے گا، ستارے بے نور ہو جائیں گے، یعنی اپنے مقامات سے زائل ہو کر بکھر جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اورزمین ایک چٹیل میدان کی طرح ہوجائے گی جس میں تو کوئی نشیب و فراز نہ دیکھے گا۔ یہ وہ دن ہو گا جس دن مقررہ وقت پر رسولوں کو لایا جائے گا جس وقت کو ان کے اور ان کی امتوں کے درمیان فیصلے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ﴾ ’’بھلا تاخیر کس دن کے لیے کی گئی؟‘‘ یہ استفہام تعظیم، تفخیم اور تہویل (ہول دلانے) کے لیے ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: ﴿ لِیَوْمِ الْفَصْلِ﴾ یعنی خلائق میں ایک دوسرے کے درمیان فیصلے کرنے اور ان میں سے ہر ایک سے فرداً فرداً حساب لینے کے لیے۔
#
{15} ثم توعَّد المكذِّب بهذا اليوم، فقال: {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبينَ}؛ أي: يا حسرتهم وشدَّة عذابهم وسوءَ منقلبهم، أخبرهم الله وأقسم لهم فلم يصدقوه؛ فلذلك استحقُّوا العقوبة البليغةَ.
[15] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کی تکذیب کرنے والے کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔‘‘ یعنی انھیں کتنی حسرت ہو گی، ان کا عذاب کتنا سخت اور ان کا ٹھکانا کتنا برا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ کیا، ان کے لیے قسم کھائی مگر انھوں نے اسے سچ نہ جانا، اس لیے وہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
آیت: 16 - 19 #
{أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِينَ (16) ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ (17) كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ (18) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (19)}.
کیا نہیں ہلاک کیا ہم نے پہلوں کو؟ (16) پھر ہم پیچھے لگائیں گے ان کے پچھلوں کو (17) اسی طرح ہم کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ (18) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے(19)
#
{16 ـ 19} أي: أما أهلكنا المكذِّبين السابقين، ثم نتبعهم بإهلاك من كَذَّب من الآخرين، وهذه سنَّتُه السابقة واللاحقة في كلِّ مجرم، لا بدَّ من عقابه ، فلِمَ لا تعتبرون بما ترون وتسمعون؟! {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}: بعدما شاهدوا من الآيات البينات والعقوباتِ والمَثُلات.
[19-16] کیا ہم نے جھٹلانے والے گزشتہ لوگوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا ، پھر ہم آخر میں آنے والے لوگوں کو ان کے بعد ہلاک کریں گے جو جھٹلائیں گے۔ ہر مجرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سابقہ سنت بھی یہی ہے اور آئندہ سنت الٰہی بھی یہی ہو گی۔ ان کے لیے سزا حتمی ہے پس تم جو کچھ دیکھتے اور جو کچھ سنتے ہو اس سے عبرت کیوں نہیں پکڑتے؟ ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن جھٹلانے والوں کے لے خرابی ہے۔‘‘ جو واضح اور کھلی نشانیوں، عذاب اور عبرتناک سزاؤں کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی جھٹلاتے ہیں۔
آیت: 20 - 24 #
{أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (20) فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (21) إِلَى قَدَرٍ مَعْلُومٍ (22) فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ (23) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (24)}.
کیا نہیں پیدا کیا ہم نے تمھیں حقیر پانی (منی) سے؟ (20) پھر ہم نے رکھااس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں (21) ایک اندازے (وقت) مقررہ تک (22) پس ہم نے اندازہ لگایا، تو (کیا) اچھا اندازہ لگانے والے ہیں (ہم) (23) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (24)
#
{20 ـ 24} أي: أما خلقناكم أيُّها الآدميُّون {من ماءٍ مَهينٍ}؛ أي: في غاية الحقارة، خرج من بين الصُّلب والتَّرائب، حتى جعله الله {في قرارٍ مَكينٍ}: وهو الرحم به يستقرُّ وينمو، {إلى قدرٍ معلومٍ}: ووقتٍ مقدَّرٍ. {فقَدَرْنا}؛ أي: قدَّرْنا ودَبَّرْنا ذلك الجنين في تلك الظُّلمات، ونقلناه من النُّطفة إلى العلقة إلى المضغة إلى أن جعله الله جسداً و نفخ فيه الروح، ومنهم من يموت قبل ذلك. {فنعم القادِرونَ}؛ يعني بذلك نفسه المقدَّسة؛ لأنَّ قَدَرَه تابعٌ لحكمته موافقٌ للحمد. {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبينَ}، [بعد ما بَيَّن اللهُ لهم الآياتِ وأراهم العبَر والبيِّناتِ].
[24-20] اے انسانو! کیا ہم نے تمھیں پیدا نہیں کیا ﴿ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍ﴾ اس پانی سے جو انتہائی حقیر ہے جو پشت اور سینے کے درمیان سے خارج ہوتا ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے رکھ دیا ﴿ فِیْ قَ٘رَارٍ مَّكِیْنٍ﴾ ایک محفوظ جگہ میں، اس سے مراد رحم ہے، یہیں نطفہ ٹھہرتا اور نشوونما پاتا ہے ﴿ اِلٰى قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ﴾ یعنی ایک مقررہ وقت تک ﴿ فَقَدَرْنَا﴾ یعنی یہ وقت ہم نے مقرر کیا ہے، ان تاریکیوں میں اس جنین کا انتظام ہم نے کیا، ہم نے اسے نطفہ سے خون کے لوتھڑے، پھر بوٹی میں تبدیل کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑا کیا، اس کے اندر روح پھونکی، ان میں کچھ ایسے ہیں جو اس سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ﴿فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ﴾ ’’پس ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں۔‘‘ اس سے مراد خود اللہ کا نفس مقدس ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اندازہ اس کی حکمت کے تابع، اور حمد و ستائش کے موافق ہے۔ ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے جنھوں نے آیات واضح ہوجانے اور عبرت ناک چیزیں اور کھلی نشانیاں دیکھنے کے بعد جھٹلایا۔
آیت: 25 - 28 #
{أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا (25) أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا (26) وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَيْنَاكُمْ مَاءً فُرَاتًا (27) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (28)}.
کیا نہیں بنایا ہم نے زمین کو سمیٹنے (جمع کرنے) والی؟ (25) زندوں اور مردوں کو؟ (26) اور ہم نے بنائے (رکھے) اس میں مضبوط (جمے ہوئے) پہاڑبلند و بالا اور ہم نے پلایا تمھیں پانی میٹھا (27) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (28)
#
{25 ـ 28} أي: أما مَنَنَّا عليكم وأنعمنا بتسخير الأرض لمصالحكم فجعلناها {كفاتاً}: لكم، {أحياءً}: في الدور، {وأمواتاً}: في القبور؛ فكما أنَّ الدور والقصور من نعم الله على عباده ومنَّته؛ فكذلك القبور رحمة في حقِّهم وسترٌ لهم عن كون أجسادهم باديةً للسِّباع وغيرها. {وجعلنا فيها رواسيَ}؛ أي: جبالاً ترسي الأرض لئلاَّ تميدَ بأهلها، فثبَّتها الله بالجبال الراسيات الشامخات؛ أي: الطوال العراض. {وأسْقَيْناكم ماءً فُراتاً}؛ أي: عذباً زلالاً؛ قال تعالى: {أفرأيْتُم الماءَ الذي تشربونَ. أأنتُم أنزَلْتُموه من المُزْنِ أمْ نحنُ المنزِلونَ. لو نشاءُ جعلناه أُجاجاً فلولا تَشْكُرونَ}. {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}: مع ما أراهم الله من النعم التي انفرد بها، واختصَّهم بها فقابلوها بالتكذيب.
[28-25] یعنی کیا ہم نے تم پر احسان نہیں کیا اور تہارے مصالح کے لیے زمین کو مسخر کر کے تم پر انعام نہیں کیا؟ اور اس زمین کو ﴿ كِفَاتًا﴾ تمھارے لیے سمیٹنے والی نہیں بنایا ﴿ اَحْیَآءًؔ﴾ ’’زندوں کو‘‘ گھروں میں ﴿ وَّاَمْوَاتًا﴾ ’’اور مردوں‘‘ کو قبروں میں؟ پس جس طرح گھر اور محلات، بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا احسان ہے اسی طرح قبریں بھی ان کے حق میں رحمت اور ان کے لیے ستر ہیں کہ ان کے اجساد درندوں وغیرہ کے لیے کھلے نہیں پڑے رہتے۔ ﴿ وَّجَعَلْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ﴾ یعنی ہم نے ان کے اندر پہاڑ رکھ دیے جو زمین کو ٹھہرائے رکھتے ہیں تاکہ زمین اہل زمین کے ساتھ ڈھلک نہ جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے مضبوط اور بلند، یعنی طویل و عریض پہاڑوں کے ذریعے سے ٹھہرا دیا ﴿ وَّاَسْقَیْنٰكُمْ مَّآءًؔ فُرَاتًا﴾ یعنی ہم نے تمھیں شیریں اور خوش ذائقہ پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَ٘شْ٘رَبُوْنَؕ۰۰ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ۠ مِنَ الْ٘مُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۰۰لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ﴾ (الواقعۃ:56؍68۔69) ’’بھلا تم نے دیکھا کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو، کیا تم اسے بادل سے برسایا یا ہم اسے برساتے ہیں؟ اور اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا دیں، پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے۔‘‘ ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔ ‘‘بایں ہمہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نعمتیں دکھلائیں، جن کو عطا کرنے میں وہ متفرد ہے اور ان نعمتوں سے ان کو مختص کیا، انھوں نے ان نعمتوں کے مقابلے میں تکذیب کا رویہ اختیار کیا۔
آیت: 29 - 34 #
{انْطَلِقُوا إِلَى مَا كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (29) انْطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ (30) لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ (31) إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ (32) كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ (33) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (34)}.
(کہا جائے گا) چلو تم اس چیز (عذاب) کی طرف کہ تھے تم اس کو جھٹلاتے(29) چلو تم ایک سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے (30) نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ فائدہ دے گا وہ شعلوں(کی تپش)سے (31) بلاشبہ وہ (جہنم) پھینکے گی (اتنی بڑی) چنگاریاں جیسے محل (32) گویا کہ وہ (چنگاریاں) اونٹ ہیں (زردی مائل) سیاہ (33) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (34)
#
{29 ـ 34} هذا من الويل الذي أُعِدَّ للمجرمين المكذِّبين أنْ يقال لهم يوم القيامةِ: {انطَلِقوا إلى ما كُنتُم به تكذِّبونَ}: ثم فسَّر ذلك بقوله: {انطَلِقوا إلى ظِلٍّ ذي ثلاثٍ شُعَبٍ}؛ أي: إلى ظلِّ نار جهنَّم التي تتمايز في خلاله ثلاث شعب؛ أي: قطع من النار تتعاوره وتتناوبه وتجتمع به. {لا ظليلٍ}: ذلك الظلُّ؛ أي: لا راحة فيه ولا طمأنينة، {ولا يُغْني}: من مَكَثَ فيه {من اللَّهب}: بل اللهب قد أحاط به يمنةً ويسرةً ومن كلِّ جانب؛ كما قال تعالى: {لهم من فوقهم ظُلَلٌ من النار ومن تحتِهِم ظُلَلٌ}، {لهم من جَهنَّمَ مهادٌ ومن فوقِهِم غواشٍ وكذلك نجزي الظَّالمينَ}. ثم ذكر عِظَمَ شرر النار الدالِّ على عظمها وفظاعتها وسوء منظرها، فقال: {إنها تَرْمي بشررٍ كالقَصْر. كأنَّه جِمالةٌ صُفْرٌ}: وهي السود التي تضرِب إلى لونٍ فيه صفرة، وهذا يدلُّ على أن النار مظلمة لهبها وجمرها وشررها، وأنها سوداءُ كريهةُ المنظر شديدةُ الحرارة؛ نسأل الله العافية منها، ومن الأعمال المقرِّبة منها. {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}.
[34-29] یہ ہلاکت ہے جو جھٹلانے والے مجرموں کے لیے تیار کی گئی ہے، ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا: ﴿اِنْطَلِقُوْۤا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ﴾ ’’جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے اس کی طرف چلو۔‘‘ پھر اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر فرمائی: ﴿اِنْطَلِقُوْۤا اِلٰى ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ﴾ یعنی جہنم کی آگ کے سائے کی طرف جو اپنے درمیان سے تین شاخوں میں متفرق ہو جائے گی ، یعنی آگ کے ٹکڑے جو مختلف سمتوں سے باری باری اس پر لپکیں گے اور اس پر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ﴿لَّا ظَلِیْلٍ﴾ اس سائے میں ٹھنڈک نہ ہو گی ، یعنی اس سائے میں راحت ہو گی نہ اطمینان۔ ﴿وَّلَا یُغْنِیْ﴾ ’’نہیں کام آئے گا‘‘اس سائے میں ٹھہرنا ﴿مِنَ اللَّهَبِ﴾ ’’شعلے کے مقابلے میں‘‘بلکہ آگ کا شعلہ اسے دائیں بائیں اور ہر جانب سے گھیرلے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ﴾ (الزمر:39/16) ’’ان کے اوپر آگ کے سائبان ہوں گے اور ان کے نیچے فرش (آگ کے) ہوں گے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ١ؕ وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍41) ’’ان کے نیچے جہنم کی آگ کا بچھونا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی جہنم کی آگ ہی کا ہو گا ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عظیم انگاروں کا ذکر کیا جو جہنم کی بڑائی، اس کی برائی اور اس کے برے منظر پر دلالت کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا: ﴿اِنَّهَا تَرْمِ٘یْ بِشَرَرٍ كَالْ٘قَ٘صْرِۚ۰۰ كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ﴾ ’’اس سے چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل، گویا زرد اونٹ ہیں۔‘‘ یہ سیاہ رنگ کے اونٹ ہیں جن میں ایسے رنگ کی جھلک ہے جو زردی مائل ہے، یہ اس امر کی دلیل ہے کہ جہنم کی آگ، اس کے شعلے، اس کے انگارے اور اس کی چنگاریاں تاریک اور سیاہ رنگ کی ہوں گی، ان کا منظر نہایت کریہہ اور ان کی حرارت انتہائی سخت ہو گی ۔ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جہنم اور ان اعمال سے عافیت عطا کرے جو جہنم کے قریب لے جاتے ہیں۔ ﴿وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت: 35 - 40 #
{هَذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ (35) وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ (36) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (37) هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ (38) فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ (39) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (40)}.
یہ (وہ) دن ہے کہ نہیں بول سکیں گے وہ (35) اور نہ اجازت دی جائے گی ان کو کہ وہ معذرت کر سکیں (36) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (37) یہ دن ہے فیصلے کا، ہم جمع کریں گے تمھیں اور پہلوں کو (38) پس اگر ہے تمھارے لیے کوئی چال تو تم چلو مجھ سے(39) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (40)
#
{35 ـ 37} أي: هذا اليوم العظيم الشَّديد على المكذِّبين، لا ينطِقون فيه من الخوف والوَجَل الشديد، {ولا يُؤْذَنُ لهم فيعتَذِرون}؛ أي: لا تُقبل معذرتُهم ولو اعتذروا. {فيومئذٍ لا ينفع الذينَ ظَلَموا معذِرَتُهم ولا هم يُسْتَعْتَبونَ}.
[37-35] اس عظیم دن میں، جو جھٹلانے والوں کے لیے بہت سخت ہے، وہ خوف اور سخت دہشت کی وجہ سے بول نہیں سکیں گے ﴿ وَلَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۠﴾ ’’اور انھیں اجازت دی جائے گی کہ وہ معذرت کرسکیں۔‘‘ اگر وہ معذرت پیش کریں گے تو ان کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی ﴿ فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَ٘عُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۠﴾ (الروم:30؍57) ’’پس اس روز ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے توبہ ہی طلب کی جائے گی۔‘‘
#
{38 ـ 40} {هذا يومُ الفصل جَمَعْناكم والأوَّلينَ}: لنفصل بينَكم ونحكُمَ بين الخلائق. {فإن كانَ لكم كيدٌ}: تقدِرون على الخروج عن ملكي وتَنْجونَ به من عذابي، {فكيدونِ}؛ أي: ليس لكم قدرةٌ ولا سلطانٌ؛ كما قال تعالى: {يا معشرَ الجنِّ والإنسِ إنِ اسْتَطَعْتُم أن تنفُذوا من أقطارِ السمواتِ والأرضِ فانفُذوا، لا تَنفُذون إلاَّ بسلطانٍ}؛ ففي ذلك اليوم تبطُل حيل الظالمين، ويضمحلُّ مكرُهم وكيدُهم ويستسلمون لعذابِ الله، ويبين لهم كذِبُهم في تكذيبهم. {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}.
[40-38] ﴿ هٰؔذَا یَوْمُ الْفَصْلِ١ۚ جَمَعْنٰكُمْ وَالْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ ’’یہی فیصلے کا دن ہے، ہم نے تم کو اور پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے۔‘‘ تاکہ ہم تمھارے درمیان تفریق کریں اور تمام خلائق کے درمیان فیصلہ کریں۔ ﴿ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ كَیْدٌ﴾ ’’اگر تمھارے پاس کوئی تدبیر ہو۔‘‘ جس کے ذریعے سے تم میری بادشاہت سے باہر نکلنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے عذاب سے بچ سکتے ہو ﴿ فَكِیْدُوْنِ﴾ ’’تو تم میرے خلاف تدبیر کرلو۔‘‘یعنی تمھیں ایسا کرنے کی قدرت حاصل ہے نہ طاقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰمَعْشَرَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰ٘نٍ﴾ (الرحمن:55؍33) ’’اے جن و انس کے گروہ! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل بھاگو، تم طاقت کے بغیر نہیں نکل سکتے۔‘‘ اس دن ظالموں کے تمام حیلے باطل ہو جائیں گے، ان کا مکر و فریب ختم ہو جائے گا، وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے حوالے کر دیں گے اور ان کی تکذیب میں ان کا جھوٹ ان کے سامنے صاف ظاہر ہو جائے گا ﴿ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ ﴾ ’’اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت: 41 - 45 #
{إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ (41) وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ (42) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (43) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (44) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (45)}.
بلاشبہ متقی لوگ سایوں اور بہتے چشموں میں ہوں گے (41) اور (لذیذ) میووں میں، ان میں سے جو وہ چاہیں گے (42) (کہا جائے گا) تم کھاؤ اور پیو مزے سے بدلے اس کے جو تھے تم عمل کرتے (43) بلاشبہ ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو (44) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (45)
#
{41 ـ 45} لمَّا ذكر عقوبة المكذِّبين؛ ذكر مثوبة المحسنين، فقال: {إنَّ المتَّقين}؛ أي: للتكذيب، المتَّصفين بالتَّصديق في أقوالهم وأفعالهم وأعمالهم، ولا يكونون كذلك إلاَّ بأدائهم الواجبات وتركهم المحرَّمات، {في ظلالٍ}: من كثرة الأشجار المتنوِّعة الزاهرة البهيَّة، {وعيونٍ}: جاريةٍ من السلسبيل والرحيق وغيرهما، {وفواكهَ ممَّا يشتهونَ}؛ أي: من خيار الفواكه وأطيبها ، ويقال لهم: {كُلوا واشْرَبوا}: من المآكل الشهيَّة والأشربة اللَّذيذة، {هنيئاً}؛ أي: من غير منغِّص ولا مكدِّر، ولا يتمُّ هناؤه حتى يسلمَ الطعام والشرابُ من كلِّ آفةٍ ونقصٍ، وحتى يجزموا أنَّه غيرُ منقطع ولا زائل؛ {بما كنتُم تعملونَ}: فأعمالكم هي السبب الموصل لكم إلى جنَّات النعيم المقيم، وهكذا كلُّ من أحسن في عبادة الله وأحسن إلى عباد الله، ولهذا قال: {إنَّا كذلك نجزي المحسِنينَ. ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}: ولو لم يكن من هذا الويل إلاَّ فوات هذا النعيم؛ لكفى به حزناً وحرماناً.
[45-41] چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل تکذیب کے لیے عذاب کا ذکر فرمایا اس لیے محسنین کے لیے ثواب کا بھی تذکرہ کیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ ﴾ ’’بے شک پرہیز گار‘‘ یعنی اپنے اقوال، افعال اور اعمال میں، تکذیب سے بچنے والے اور تصدیق سے متصف لوگ، اور واجبات کو ادا کیے اور محرمات کو ترک کیے بغیر متقی نہیں بن سکتے ﴿ فِیْ ظِلٰلٍ﴾ متنوع اقسام کے خوبصورت اور خوش منظر کثیر درختوں کے سائے میں ہوں گے ﴿ وَّعُیُوْنٍ﴾ اور خوش ذائقہ پانی اور شراب کے رواں دواں چشموں میں ہوں گے۔﴿ وَّفَوَاكِهَ مِمَّا یَشْتَهُوْنَ﴾ اور بہترین اور لذیذ ترین میوہ جات، جو وہ چاہیں گے، ان میں ہوں گے۔ان سے کہا جائے گا: ﴿كُلُوْا وَاشْ٘رَبُوْا﴾کھاؤ پیو، مزے دار مرغوب کھانے اور لذیذ مشروبات پیو﴿ هَنِیْٓــًٔۢـا﴾ یعنی کسی روک ٹوک اور تکدر کے بغیر۔ اس کھانے کی خوشگواری کبھی ختم نہ ہو گی، حتیٰ کہ جنت کے مطعومات اور مشروبات ہر آفت اور نقص سے سلامت ہوں گے یہاں تک کہ اہل جنت کو یقین ہو گا کہ یہ طعام و شراب منقطع ہوں گے نہ ختم ہوں گے ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ پس تمھارے اعمال ہی وہ سبب ہیں جنھوں نے تمھیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں پہنچایا۔ اسی طرح ہے ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں احسان سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احسان کرتا ہے۔بنابریں فرمایا: ﴿ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۰۰ وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ہلا کت ہے۔‘‘ اگر یہ ہلاکت اور خرابی صرف ان نعمتوں سے محرومی ہی ہوتی تب بھی یہ حزن و غم اور حرماں نصیبی کے لیے کافی ہے۔
آیت: 46 - 50 #
{كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ (46) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (47) وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ (48) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (49) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (50)}.
(جھٹلانے والو!) تم کھاؤ اور فائدہ اٹھاؤ تھوڑا سا، یقیناً تم مجرم ہو (46) ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے (47) اور جب کہا جاتا ہے ان سے، رکوع کرو تم تو نہیں رکوع کرتے وہ (48) تباہی ہے اس دن تکذیب کرنے والوں کے لیے(49) پس کس بات پر اس (قرآن) کے بعد وہ ایمان لائیں گے؟ (50)
#
{46 ـ 50} هذا تهديدٌ ووعيدٌ للمكذِّبين أنَّهم وإن أكلوا في الدُّنيا وشربوا وتمتَّعوا باللَّذَّات وغفلوا عن القُرُبات؛ فإنَّهم مجرمون يستحقُّون ما يستحقُّه المجرمون، فتنقطع عنهم اللَّذَّات، وتبقى عليهم التَّبِعات. ومن إجرامهم أنَّهم إذا أمِروا بالصَّلاة التي هي أشرف العبادات، و {قيل لهم اركعوا}: امتنعوا من ذلك؛ فأيُّ إجرام فوق هذا؟ وأيُّ تكذيب يزيد على هذا؟ {ويلٌ يومئذٍ للمكذِّبين}: ومن الويل عليهم أنَّهم تنسدُّ عنهم أبواب التوفيق ويُحْرَمون كلَّ خيرٍ؛ فإنَّهم إذا كذَّبوا هذا القرآن الذي هو أعلى مراتب الصدق واليقين على الإطلاق؛ {فبأيِّ حديثٍ بعدَه يؤمنونَ}: أبالباطل الذي هو كاسمه لا يقوم عليه شبهةٌ فضلاً عن الدليل؟ أم بكلام مشركٍ كذَّابٍ أفَّاكٍ مبينٍ؟ فليس بعد النُّور المبين إلاَّ دياجي الظلمات، ولا بعد الصدق الذي قامت الأدلة والبراهين القاطعة إلاَّ الإفك الصراح والكذب المبينُ الذي لا يَليقُ إلاَّ بمن يناسبه؛ فتبًّا لهم ما أعماهم! وويحاً لهم ما أخسرهم وأشقاهم! نسأل الله العفو والعافية؛ إنَّه جوادٌ كريمٌ.
[50-46] یہ تکذیب کرنے والوں کے لیے تہدید و وعید ہے کہ اگرچہ انھوں نے دنیا میں کھایا پیا اور لذات دنیا سے فائدہ اٹھایا اور عبادات سے غافل رہے مگر وہ مجرم ہیں اور اسی سزا کے مستحق ہیں جس کے مستحق مجرم ہوتے ہیں، لہٰذا عنقریب ان کی لذات منقطع ہو جائیں گی اور تاوان اور نقصان باقی رہ جائیں گے۔ ان کا ایک جرم یہ ہے کہ جب انھیں نماز، جو کہ سب سے زیادہ شرف کی حامل عبادت ہے، کا حکم دیا جاتا اور ان سے کہا جاتا تھا﴿ارْکَعُوْا﴾’’رکوع کرو‘‘ تو حکم کی تعمیل نہیں کرتے تھے۔ پس کون سا جرم اس سے بڑھ کر اور کون سی تکذیب اس سے زیادہ بڑی ہے؟ ﴿وَیْلٌ یَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اس دن ہلاکت ہے جھٹلانے والوں کے لیے‘‘ ان کی ایک ہلاکت یہ بھی ہے کہ ان پر توفیق کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے اور وہ ہر بھلائی سے محروم ہو جائیں گے۔ پس جب انھوں نے اس قرآن کو جھٹلا دیا جو علی الاطلاق صدق و یقین کے بلند ترین مرتبے پر ہے ﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭؔ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’تو اس کے بعد وہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔‘‘ کیا وہ باطل پر ایمان لائیں گے جو اپنے نام کی مانند ہے جس پر کوئی دلیل تو کجا، کوئی شبہ بھی قائم نہیں ہوتا ؟یا وہ کسی مشرک، کذاب اور کھلے بہتان طراز کے کلام پر ایمان لائیں گے؟پس نور مبین کے بعد گھٹا ٹوپ اندھیروں کے سوا کچھ نہیں رہتا، صدق کے بعد، جس پر قطعی دلائل و براہین قائم ہوں، صریح بہتان اور کھلے جھوٹ کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا جو صرف اسی شخص کے لائق ہے جس سے یہ مناسبت رکھتا ہے۔ ہلاکت ہے ان کے لیے، وہ کتنے اندھے ہو گئے ہیں! اور برا ہو ان کا، کس قدر خسارے اور بدبختی کا شکار ہو گئے ہیں !ہم اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتے ہیں وہ جوّاد اور صاحب کرم ہے۔