آیت:
تفسیر سورۂ دہر(انسان)
تفسیر سورۂ دہر(انسان)
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا (1) إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (ضض 2) إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (3)}.
تحقیق گزر چکا ہے انسان پر ایک وقت زمانے سے جب کہ نہیں تھا وہ کوئی چیز قابل ذکر(1) بلاشبہ ہم نے پیدا کیا انسان کو ایک نطفے ملے جلے سے کہ ہم آزمائیں اسے، سو ہم نے بنایا اسے خوب سننے دیکھنے والا(2) بلاشبہ ہم نے ہدایت دی اسے راستے کی، خواہ وہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا(3)
#
{1} ذكر الله في هذه السورة أول حال الإنسان ومنتهاها ومتوسِّطها: فذكر أنَّه مرَّ عليه دهرٌ طويلٌ، وهو الذي قبل وجوده، وهو معدوم، بل ليس مذكوراً.
[1] اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ابتدائی، اس کے انتہائی اور اس کے متوسط احوال بیان فرمائے ہیں، چنانچہ فرمایا کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرا ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے تھا اور وہ ابھی پردۂ عدم میں تھا بلکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔
#
{2} ثمَّ لمَّا أراد خلقه؛ خلق أباه آدم من طين، ثم جعل نسله متسلسلاً {من نطفةٍ أمشاج}؛ أي: ماء مَهينٍ مستقذرٍ، {نبتليه}: بذلك؛ لنعلم هل يرى حاله الأولى ويتفطن لها أم ينساها وتغرُّه نفسه؟ فأنشأه الله وخَلَقَ له القُوى الظاهرة والباطنة ؛ كالسمع والبصر وسائر الأعضاء، فأتمَّها له وجعلها سالمةً يتمكَّن بها من تحصيل مقاصده.
[2] پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے باپ آدم u کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس کی نسل کو مسلسل بنایا ﴿ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ﴾ ’’نطفۂ مخلوط سے‘‘ یعنی حقیر اور گندے پانی سے بنایا ﴿ نَّبْتَلِیْهِ﴾ ہم اس کے ذریعے سے اس کو آزماتے ہیں تاکہ ہم جان لیں کہ آیا وہ اپنی پہلی حالت کو چشم بصیرت سے دیکھ اور اس کو سمجھ سکتا ہے یا اس کو بھول جاتا ہے۔ اور اس کو اس کے نفس نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا، اس کے ظاہر اور باطنی قویٰ ، مثلاً: کان، آنکھیں اور دیگر اعضاء تخلیق کیے، ان قویٰ کو اس کے لیے مکمل کیا، ان کو صحیح سالم بنایا تاکہ ان قویٰ کے ذریعے سے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہو۔
#
{3} ثم أرسل إليه الرُّسل، وأنزل عليه الكتب، وهداه الطريق الموصلة إليه ، وبيَّنها، ورغَّبه فيها، وأخبره بما له عند الوصول إليه ، ثم أخبره بالطريق الموصلة إلى الهلاك، ورهَّبه عنها ، وأخبره بما له إذا سلكها، وابتلاه بذلك، فانقسم الناس إلى شاكرٍ لنعمة الله عليه، قائم بما حمله الله من حقوقه. وإلى كفورٍ للنعم أنعم الله عليه بالنعم الدينيَّة والدنيويَّة، فردَّها وكفر بربه، وسلك الطريق الموصلة إلى الهلاك. [ثم ذكر تعالى الفريقين عند الجزاء، فقال]:
[3] پھر اس کی طرف اپنے رسول بھیجے، ان پر کتابیں نازل کیں اسے وہ راستہ دکھایا جو اس کے پاس پہنچاتا ہے، اس راستے کو واضح کیا اور اسے اس راستے کی ترغیب دی اور اسے ان نعمتوں کے بارے میں بتایا جو اسے اس کے پاس پہنچنے پر حاصل ہوں گی۔ پھر اس راستے سے خبردار کیا جو ہلاکت کی منزل تک پہنچاتا ہے، اسے اس راستے سے ڈرایا، اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ اس راستے پر چلے گا تو اسے کیا سزا ملے گی اور وہ کس عذاب میں مبتلا ہو گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے: اول :اس نعمت پر شکر ادا کرنے والا بندہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہرہ مند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو ادا کرنے والا جن کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا ہے۔ ثانی: نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا مگر اس نے ان نعمتوں کو ٹھکرا دیا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور اس راستے پر چل نکلا جو ہلاکت کی گھاٹیوں میں لے جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جزا کے لحاظ سے دونوں فریقوں کا ذکر کیا تو فرمایا:
آیت: 4 - 31 #
{إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا (4) إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا (5) عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا (6) يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا (7) وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (10) فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا (11) وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا (12) مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا (13) وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا (14) وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا (15) قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا (16) وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا (17) عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا (18) وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًا (19) وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا (20) عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (21) إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا (22) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا (23) فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا (24) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (25) وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا (26) إِنَّ هَؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا (27) نَحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا (28) إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (29) وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (30) يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (31)}.
بلاشبہ ہم نے تیار کر رکھی ہیں کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور سخت بھڑکتی آگ(4) یقیناً نیک لوگ پئیں گے ایسے جام سے کہ ہو گی اس میں ملاوٹ کافور کی(5) یعنی ایک چشمہ ہے پئیں گے اس میں سے اللہ کے بندے، وہ بہا لے جائیں گے اسے (جدھر چاہیں گے) بہا لے جانا آسانی سے (6) وہ پوری کرتے ہیں نذر (اپنی) اور ڈرتے ہیں اس دن (کے عذاب) سے کہ ہو گا شر اس کا پھیل جانے والا(7) اور وہ کھلاتے ہیں کھانا باوجود اس کی محبت کے مسکین کو اور یتیم کو اور قیدی کو(8) (کہتے ہیں:) بس ہم تو تمھیں کھاناکھلاتے ہیں اللہ ہی کی ذات کے لیے، اور نہیں چاہتے ہم تم سے کوئی جزا اور نہ شکریہ (9) بلاشبہ ہم ڈرتے ہیں اپنے رب سے اس دن سے جو ہو گا نہایت سخت بہت لمبا (10) سو بچائے گا انھیں اللہ، شر (عذاب) سے اس دن کے اور عطا کرے گا ان کو تازگی اور سرور (11) اور جزا دے گا انھیں بوجہ ان کے صبر کے جنت اور ریشمی لباس (12) وہ تکیہ لگائے ہوں گے اس میں تختوں پر، نہیں دیکھیں گے اس (جنت) میں سخت دھوپ اور نہ سخت سردی (13) اور جھکے ہوں گے ان پر اس (جنت) کے سائے اور آسان کر دیا جائے گا (حصول) ان کے پھلوں کا نہایت آسان (14) اور پھرائے جائیں گے ان پر برتن چاندی کے اور ایسے آبخورے کہ ہوں گے وہ شیشے کے (15) شیشے (بھی) چاندی کے(16) (ساقی)انھیں ٹھیک اندازے سے بھریں گے (17) اور پلائے جائیں گے وہ اس (جنت) میں ایسا جام شراب کہ ہو گی اس میں ملاوٹ زنجبیل (سونٹھ) کی (18) (یہ) چشمہ ہے۔ جنت میں کہ نام رکھا جاتا ہے (اس کا) سلسبیل (19) اور گھومیں گے ان پر ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں گے جب تو دیکھے گا انھیں تو سمجھے گا ان کو موتی بکھرے ہوئے(20) اور جب تو دیکھے گا وہاں، تو دیکھے گا تو نعمت اور سلطنت بڑی (21) ان پر کپڑے (لباس) ہوں گے باریک سبز اور دبیز ریشم کے اور زیور پہنائے جائیں گے ان کو کنگن چاندی کے اور پلائے گا انھیں ان کا رب شرابِ طَہور (22) (انھیں کہا جائے گا:)بلاشبہ یہ ہے تمھارے لیے جزا، اور ہے کوشش تمھاری قابل قدر (23) یقیناً ہم ہی نے اتارا ہے آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا اتارنا (23) پس آپ صبر کیجیے اپنے رب کے حکم کے لیے اور نہ اطاعت کیجیے ان میں سے کسی گناہ گار یا کافر کی (24) اور یاد کیجیے نام اپنے رب کا صبح اور شام (25) اور کچھ (حصہ) رات میں بھی پس سجدہ کیجیے اس کے لیے اور اس کی تسبیح کیجیے رات میں دیر تک (26) بلاشبہ یہ لوگ پسند کرتے ہیں دنیا کو اور چھوڑتے ہیں اپنے پیچھے بھاری دن کو (27) ہم ہی نے پیدا کیا انھیں اور مضبوط کیے ہم نے ان کے جوڑ، اور جب ہم چاہیں بدل کر لے آئیں ان جیسے (اور لوگ) تبدیل کر کے (28) بلاشبہ یہ ایک نصیحت ہے، سو جو چاہے وہ پکڑے اپنے رب کی طرف راستہ(29) اور نہیں چاہتے تم مگر یہ کہ چاہے اللہ ہی، یقیناً ہے اللہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا (30) وہ داخل کرتا ہے جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں، اور ظالم، اس نے تیار کیا ہے ان کے لیے عذاب درد ناک (31)
#
{4} أي: إنَّا هيَّأنا وأرصدنا لمن كفر باللَّه وكذَّب رسله وتجرَّأ على معاصيه، {سلاسل}: في نار جهنَّم؛ كما قال تعالى: {ثمَّ في سلسلةٍ ذَرْعُها سبعونَ ذِراعاً فاسلكوه}، {وأغلالاً}: تُغَلُّ بها أيديهم إلى أعناقهم ويوثقون بها، {وسعيراً}؛ أي: ناراً تستعر بها أجسامُهم وتُحرق بها أبدانُهم، كلَّما نَضِجَتْ جلودُهم؛ بدَّلناهم جلوداً غيرها ليذوقوا العذاب، وهذا العذاب الدَّائم مؤبَّدٌ لهم ، مخلَّدون فيه سرمداً.
[4] جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کی نافرمانی کے ارتکاب کی جسارت کی ہم نے اس کے لیے تیار کی ہیں ﴿ سَلٰسِلَاۡ ﴾ جہنم کی آگ میں زنجیریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ﴾ (الحاقۃ:69؍32) ’’ پھر اسے اس زنجیر میں جکڑ دو جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے۔‘‘﴿وَاَغْلٰلًا﴾’’اورطوق‘‘ جس کے ذریعے سے ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھ کر ان سے جکڑ دیا جائے گا۔﴿وَّسَعِیْرًا﴾ یعنی ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے جو ان کے جسموں کے ساتھ بھڑکے گی اور ان کے بدنوں کو جلا ڈالے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ﴾ (النساء:4؍56) ’’جب ان کی کھالیں گل جائیں گی، تو ہم ان کو ان کے سوا اور کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔‘‘ یہ عذاب ان کے لیے دائمی ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
#
{5} وأمَّا {الأبرار}، وهم الذين بَرَّتْ قلوبُهم بما فيها من معرفة الله ومحبَّته والأخلاق الجميلة؛ فبرَّت أعمالُهم ، واستعملوها بأعمال البرِّ، فأخبر أنَّهم {يشربون من كأسٍ}؛ أي: شرابٍ لذيذٍ من خمرٍ [قد] مُزِجَ بكافورٍ؛ أي: خلط به ليبرِّده ويكسر حدَّته، وهذا الكافور في غاية اللَّذَّة، قد سلم من كلِّ مكدِّرٍ ومنغِّص موجودٍ في كافور الدُّنيا؛ فإنَّ الآفة الموجودة في الدُّنيا تعدم من الأسماء التي ذكرها الله في الجنة ؛ كما قال تعالى: {في سِدْرٍ مخضودٍ. وطلح منضودٍ}، {وأزواجٌ مطهرةٌ}، {لهم دارُ السلام عند ربِّهم}، {وفيها ما تشتهيهِ الأنفسُ وتَلَذُّ الأعينُ}.
[5] رہے ﴿الْاَبْرَارَ﴾ ’’نیک لوگ‘‘ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دل نیک ہیں کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت اور اخلاق جمیلہ ہیں۔ پس اس سبب سے ان کے اعمال بھی نیک ہیں انھوں نے ان کو نیک اعمال میں استعمال کیا ہے۔ ﴿یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ﴾ ’’ایسے جام سے پئیں گے‘‘ یعنی شراب سے انتہائی لذیذمشروب جس میں کافور ملایا گیا ہوگا تاکہ اس مشروب کو ٹھنڈا کر کے اس کی حدت کو توڑ دے۔ یہ کافور انتہائی لذیذ ہو گا ہر قسم کے تکدر اور ملاوٹ سے پاک ہو گا جو دنیا کے کافور میں موجود ہوتی ہے۔ ہر وہ آفت ان اسماء میں ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے جبکہ اس قسم کے اسماء دنیا میں بھی ہیں تو وہ (آفت) آخرت میں نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ۰۰ وَّطَلْ٘حٍ مَّنْضُوْدٍ﴾ (الواقعہ:56/28-29) ’’وہ بغیر کانٹوں کی بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں میں ہوں گے۔‘‘ فرمایا: ﴿وَ اَزْوَاجٌ مُّ٘طَهَّرَةٌ﴾ (آل عمران:3؍15) ’’اور جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔‘‘اور فرمایا : ﴿لَهُمْ دَارُ السَّلٰ٘مِ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الانعام:6؍127) ’’ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سلامتی کا گھر ہے۔‘‘اور فرمایا: ﴿وَفِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْ٘فُ٘سُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ﴾ (الزحزف:43؍71) ’’اور اس میں وہ سب کچھ ہو گا جو دل چاہیں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔‘‘
#
{6} {عيناً يشربُ بها عبادُ اللهِ}؛ أي: ذلك الكأس اللذيذ الذي يشربونه لا يخافون نفاذه، بل له مادَّة لا تنقطع، وهي عينٌ دائمةُ الفيضان والجريان، يفجِّرها عباد الله تفجيراً أنَّى شاؤوا وكيف أرادوا؛ فإن شاؤوا؛ صرفوها إلى البساتين الزاهرات أو إلى الرياض النضرات، أو بين جوانب القصور والمساكن المزخرفات، أو إلى أيِّ جهةٍ يَرَوْنَها من الجهات المؤنَّقات.
[6] ﴿عَیْنًا یَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے‘‘ یعنی وہ لذیذ شراب، جو وہ پئیں گے، انھیں اس کے ختم ہونے کا خوف نہیں ہو گا بلکہ اس کا ایسا مادہ ہو گا جو کبھی منقطع نہ ہو گا۔ یہ ہمیشہ جاری رہنے اور بہنے والا چشمہ ہو گا۔ اللہ کے بندے جہاں چاہیں گے جیسے چاہیں گے وہاں سے نہریں نکال لے جائیں گے، اگر وہ چاہیں گے تو ان کو خوبصورت باغات کی طرف موڑ لیں گے۔ یا بارونق باغیچوں کی طرف لے جائیں گے اگر وہ چاہیں گے تو محلات کی جوانب اور آراستہ گھروں کی طرف بہا لے جائیں گے یا وہ خوبصورت جہات میں سے جس جہت میں بھی چاہیں گے ان نہروں کو لے جائیں گے۔
#
{7} ثم ذكر جملةً من أعمالهم ، فقال: {يوفون بالنَّذْرِ}؛ أي: بما ألزموا به أنفسهم للَّه من النذور والمعاهدات، وإذا كانوا يوفون بالنذر الذي هو غير واجبٍ في الأصل عليهم إلا بإيجابهم على أنفسهم؛ كان فعلُهم وقيامهم بالفروض الأصليَّة من باب أولى وأحرى، {ويخافون يوماً كان شَرُّه مستطيراً}؛ أي: فاشياً منتشراً، فخافوا أن ينالهم شرُّه، فتركوا كلَّ سببٍ موجبٍ لذلك.
[7] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں ان کے جملہ اعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ﴾ یعنی وہ جن نذروں اور معاہدوں کو اپنے آپ پر لازم کر لیتے تھے، انھیں پورا کرتے تھے۔ جب وہ نذر کو پورا کرتے تھے، جو اصل میں ان پر واجب نہیں الّا یہ کہ وہ اسے خود اپنے آپ پر واجب کر لیں، تب فرائض اصلیہ کو تو بدرجہ اولیٰ قائم کرتے اور ان کو بجا لاتے ہوں گے ﴿ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا ﴾ یعنی اس دن خوف رکھتے تھے جس کی برائی نہایت سخت اور پھیل جانے والی ہے۔ پس انھیں خوف تھا کہ اس دن کی برائی کہیں انھیں نہ پہنچ جائے، اس لیے انھوں نے ہر وہ سبب چھوڑ دیا جو اس کا موجب تھا۔
#
{8 ـ 10} {ويطعِمونَ الطَّعامَ على حبِّه}؛ أي: وهم في حال يحبُّون فيها المال والطعام، لكنَّهم قدَّموا محبَّة الله على محبَّة نفوسهم، ويتحرَّوْن في إطعامهم أولى الناس وأحوجَهم، {مسكيناً ويتيماً وأسيراً}: ويقصدون بإنفاقهم وإطعامهم وجهَ الله تعالى، ويقولون بلسان الحال: {إنَّما نطعِمُكم لوجه الله لا نريدُ منكم جزاءً ولا شكوراً}؛ أي: لا جزاءً ماليًّا ولا ثناءً قوليًّا، {إنا نخاف من ربِّنا يوماً عبوساً}؛ أي: شديد الجهمة والشرِّ، {قمطريراً}؛ أي: ضنكاً ضيقاً.
[10-8] ﴿وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ ﴾ یعنی وہ اس حال میں ہوتے ہیں کہ جس میں وہ خود مال اور طعام کو پسند کرتے ہیں مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو اپنے نفس کی محبت پر مقدم رکھا اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مستحق اور سب سے زیادہ حاجت مند کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں ﴿ مِسْكِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ﴾ ’’مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو۔‘‘ ان کے کھانا کھلانے اور خرچ کرنے میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ وہ اپنی زبان حال سے کہتے ہیں: ﴿ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءًؔ وَّلَا شُكُوْرًا ﴾ ’’ہم تو تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، ہم تم سے کسی بدلے کے خواست گار ہیں اور نہ شکر گزاری کے۔‘‘ یعنی نہ کوئی مالی جزا چاہتے ہیں اور نہ قولی ثنا۔ ﴿ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا ﴾ ’’ہم اپنے پرودگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی والا ہوگا۔‘‘ جو نہایت سخت اور شر والا دن ہوگا ﴿قَ٘مْطَرِیْرًا ﴾ اور نہایت تنگ دن ہوگا۔
#
{11} {فوقاهُمُ اللهُ شرَّ ذلك اليوم}: فلا يحزنهم الفزعُ الأكبر، وتتلقَّاهم الملائكة هذا يومكم الذي كنتُم توعدون، {ولَقَّاهُم}؛ أي: أكرمهم وأعطاهم {نضرةً}: في وجوههم، {وسروراً}: في قلوبهم، فجمع لهم بين نعيم الظَّاهر والباطن.
[11] ﴿ فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ ﴾ ’’پس اللہ ان کو اس دن کے شر سے بچالے گا۔‘‘ پس انھیں وہ عظیم گھبراہٹ غم زدہ نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہیں گے ’’یہ وہ دن ہے جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘ ﴿ وَلَقّٰىهُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز کرے گا ﴿نَضْرَۃً﴾ یعنی ان کے چہروں کو تازگی عطا کرے گا ﴿ وَّسُرُوْرًا﴾ اور ان کے دلوں کو سرور سے لبریز کرے گا، پس اللہ تعالیٰ ان کے لیے ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اکٹھا کر دے گا۔
#
{12} {وجزاهم بما صبروا}: على طاعته فعملوا ما أمكنهم منها، وعن معاصيه فتركوها، وعلى أقداره المؤلمة فلم يتسخَّطوها {جنَّةً}: جامعةً لكلِّ نعيمٍ سالمةً من كلِّ مكدِّرٍ ومنغِّص، {وحريراً}؛ كما قال تعالى: {ولباسُهم فيها حريرٌ}: ولعلَّ اللهَ إنَّما خصَّ الحريرَ لأنَّه لباسهم الظَّاهر الدالُّ على حال صاحبه.
[12] ﴿ وَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا ﴾ ، یعنی ان کی جزا اس سبب سے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کیا اور استطاعت بھر نیک عمل کیے اور اس سبب سے کہ انھوں نے برائیوں سے اجتناب پر صبر کیا اور ان کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کیا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا ﴿ جَنَّةً ﴾ ’’جنت ہے۔‘‘ جو ہر نعمت کی جامع اور ہر قسم کے تکدر سے سلامت ہے ﴿ وَّحَرِیْرًا﴾ ’’اور ریشم ہے‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ ﴾ (الحج:22؍23) ’’اور جنت میں ان کا لباس ریشمی ہو گا۔‘‘ شاید اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ریشم کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ ان کا ظاہری لباس ہو گا جو صاحب لباس کے حال پر دلالت کرے گا۔
#
{13} {متَّكئين فيها على الأرائكِ}: الاتِّكاء: التمكُّن من الجلوس في حال الطُّمأنينة والراحة والرَّفاهية ، والأرائك هي السُّرُر التي عليها اللباس المزيَّن، {لا يَرَوْن فيها}؛ أي: في الجنة {شمساً}: يضرُّهم حرُّها، {ولا زمهريراً}؛ أي: برداً شديداً، بل جميع أوقاتهم في ظلٍّ ظليلٍ، لا حرٌّ ولا بردٌ؛ بحيث تلتذُّ به الأجساد ولا تتألَّم من حرٍّ ولا بردٍ.
[13] ﴿ مُّتَّـكِـــِٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ ﴾ ’’وہ تختوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ (الاتّکاء)سے مراد اطمینان، راحت اور آسودگی کی حالت میں ٹیک لگا کر بیٹھنا۔ اور (الارائک) وہ تخت ہیں جن پر سجاوٹ کے لیے کپڑے بچھائے گئے ہوں۔ ﴿ لَا یَرَوْنَ فِیْهَا ﴾ یعنی وہ اس جنت کے اندر نہیں دیکھیں گے ﴿شَمْسًا﴾ دھوپ جس کی تپش ان کو نقصان پہنچائے۔ ﴿ وَّلَا زَمْهَرِیْرًا﴾ ’’اور نہ سخت سردی‘‘ یعنی ان کے تمام اوقات گہرے سائے میں گزریں گے، جہاں گرمی ہو گی نہ سردی، جہاں ان کے جسم لذت حاصل کریں گے وہاں ان کے جسموں کو گرمی سے تکلیف ہو گی نہ سردی سے۔
#
{14} {ودانيةً عليهم ظِلالها وذُلِّلَتْ قطوفُها تذليلاً}؛ أي: قُرِّبَتْ ثمراتها من مريدها تقريباً، ينالها وهو قائمٌ أو قاعدٌ أو مضطجعٌ.
[14] ﴿ وَدَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا ﴾ ’’اور ان سے ان کے سائے قریب ہوں گے اور میووں کے گھچے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے۔‘‘ یعنی اس کے پھل، اس کے چاہنے والے کے اتنے قریب کر دیے جائیں گے کہ وہ ان کو کھڑے بیٹھے یا لیٹے ہوئے بھی حاصل کر سکے گا۔
#
{15 ـ 16} {ويُطافُ عليهم}؛ أي: يدور الولدان والخدم على أهل الجنة ، {بآنيةٍ من فضَّةٍ وأكوابٍ كانت قواريرَ. قواريرَ من فضَّةٍ}؛ أي: مادتها فضَّةٌ، وهي على صفاء القوارير، وهذا من أعجب الأشياء؛ أن تكون الفضَّةُ الكثيفة من صفاء جوهرها وطيب معدنها على صفاء القوارير، {قدَّروها تَقْديراً}؛ أي: قدَّروا الأواني المذكورة على قدرِ رِيِّهم؛ لا تزيدُ ولا تنقصُ؛ لأنَّها لو زادت؛ نقصتْ لذَّتها، ولو نقصت؛ لم تكفِهِم لرِيِّهم. ويُحتمل أنَّ المراد: قدَّرها أهلُ الجنة بمقدارٍ يوافقُ لذَّتَهم، فأتتْهم على ما قدَّروا في خواطرهم.
[16,15] خدمت گار لڑکے اور خدام، اہل جنت کے پاس گھوم پھر رہے ہوں گے ﴿ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّاَكْوَابٍ كَانَتْ قَ٘ؔوَارِیْرَاۡۙ۰۰ قَ٘ؔوَارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ ﴾ ’’چاندی کے برتن لیے، ہوئے اور شیشے کے (شفاف) گلاس لیے ہوئے، شیشے بھی چاندی کے ہوں گے۔‘‘ یعنی ان کا مادہ چاندی ہو گا ان کی صفائی شیشے کی سی ہو گی۔ یہ ایک عجیب ترین چیز ہو گی کہ چاندی جو کہ کثیف ہوتی ہے اپنے جوہر کی صفائی اور اچھے معدن کی بنا پر شیشے کے صاف و شفاف ہونے کی مانند صاف و شفاف ہو گی۔ ﴿ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا ﴾ ’’جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں۔‘‘ یعنی ان مذکور برتنوں (کے حجم) کو اپنی سیرابی کی مقدار کے مطابق بنائیں گے، اس سے کم ہوں گے نہ زیادہ کیونکہ اگر حجم میں زیادہ ہوں تو ان کی لذت کم ہوجائے گی اگر کم ہوں گے تو ان کی سیرابی کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اہل جنت ان برتنوں کو ایسی مقدار پر بنائیں گے جو ان کی لذات کے موافق ہو گی، وہ برتن ان کے پاس ایسے حجم اور مقدار پر آئیں گے جس کا اندازہ انھوں نے اپنے دلوں میں کیا ہو گا۔
#
{17 ـ 18} {ويُسْقَوْنَ فيها}؛ أي: الجنة {كأساً}: وهو الإناء [المملوء] من خمرٍ ورحيقٍ. {كان مِزاجُها}؛ أي: خلطها {زنجبيلاً}: ليطيب طعمُه وريحُه. {عيناً فيها}؛ [أي: في الجنة] {تسمّى سَلْسَبيلاً}: سمِّيت بذلك لسلاستها ولذَّتها وحسنها.
[18,17] ﴿ وَیُسْقَوْنَ فِیْهَا ﴾ ’’وہاں انھیں پلائی جائے گی۔‘‘ یعنی جنت میں خالص شراب کے جام بھرے ہوں گے ﴿ كَانَ مِزَاجُهَا ﴾ جس میں ملاوٹ ہوگی ﴿ زَنْجَبِیْلًا ﴾ ’’سونٹھ کی۔‘‘تاکہ اس کا ذائقہ اور خوشبو دونوں خو ش گوار بن جائیں۔ ﴿ عَیْنًا فِیْهَا﴾ ’’اس جنت میں ایک چشمہ ہے ﴿ تُ٘سَمّٰى سَلْسَبِیْلًا﴾’’جس کا نام سلسبیل ہے۔‘‘ اس کو یہ نام، اس کے آسانی کے ساتھ حاصل ہونے، اس کی لذت اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
#
{19} {ويطوفُ}: على أهل الجنة في طعامهم وشرابهم وخدمتهم، {ولدانٌ مخلَّدون}؛ أي: خلقوا من الجنة للبقاء؛ لا يتغيَّرون ولا يكبرون، وهم في غاية الحسن، {إذا رأيتَهم}: منتشرين في خدمتهم، {حسبتَهم}: من حسنهم {لؤلؤاً منثوراً}: وهذا من تمام لذَّة أهل الجنة؛ أن يكون خُدَّامُهم الولدان المخلَّدون، الذين تَسُرُّ رؤيتُهم، ويدخُلون في مساكنهم آمنين من تَبِعَتِهِم، ويأتونَهم بما يدَّعون وتطلُبُه نفوسُهم.
[19] ﴿ وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ ﴾ یعنی اہل جنت کے پاس، ان کے کھانے، ان کے مشروب اور ان کی خدمت کے لیے گھومتے پھرتے ہوں گے ﴿ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ﴾ ’’لڑکے ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہنے والے۔‘‘ ان کو جنت میں بقا کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان کی ہیئت بدلے گی نہ وہ بڑے ہوں گے اور وہ انتہائی خوبصورت ہوں گے۔ ﴿ اِذَا رَاَیْتَهُمْ ﴾ جب تو ان کو اہل جنت کی خدمت میں منتشر ہوئے دیکھے ﴿حَسِبْتَهُمْ ﴾ تو ان کو ان کی خوبصورتی کی وجہ سے سمجھے گا ﴿ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا ﴾ کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ یہ اہل جنت کی لذت کی تکمیل ہے کہ ان کے خدام، ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے جن کا نظارہ اہل جنت کو خوش کر دے گا، وہ اپنی تابع داری کی بنا پر امن کے ساتھ ان کی آرام گاہ میں وہ چیزیں لے کر آئیں گے جو وہ منگوائیں گے اور جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے۔
#
{20} {وإذا رأيتَ ثَمَّ}؛ أي: رمقتَ ما أهل الجنة عليه من النعيم الكامل، {رأيتَ نعيماً وملكاً كبيراً}: فتجد الواحد منهم عنده من [القصور و] المساكن والغرف المزيَّنة المزخرفة ما لا يدرِكُه الوصفُ، ولديه من البساتين الزاهرة والثِّمار الدَّانية والفواكه اللَّذيذة والأنهار الجارية والرِّياض المعجِبَة والطُّيور المطربة المُشْجِيَة، ما يأخُذُ بالقلوب ويُفْرِحُ النفوس، وعنده من الزَّوْجاتِ اللاَّتي هنَّ في غاية الحسن والإحسان الجامعات لجمال الظاهر والباطن الخَيِّراتِ الحسانِ، ما يملأ القلبَ سروراً ولذَّةً وحبوراً، وحوله من الوِلْدان المخلَّدين والخدم المؤبَّدين ما به تحصل الراحة والطُّمأنينة، وتتمُّ لَذَّة العيش وتكمل الغِبطة، ثم علاوة ذلك ومعظمه الفوز برضا الربِّ الرحيم وسماع خطابه ولَذَّة قربه والابتهاج برضاه والخلود الدائم، وتزايد ما هم فيه من النعيم كلَّ وقتٍ وحينٍ؛ فسبحان المالك الملك الحقِّ المُبين، الذي لا تَنْفَدُ خزائنُه ولا يقلُّ خيرُه؛ كما لا نهاية لأوصافِهِ؛ فلا نهايةَ لبرِّه وإحسانه.
[20] ﴿ وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ ﴾ یعنی جب تو جنت میں دیکھے کہ اہل جنت کن کامل نعمتوں میں ہیں ﴿ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْ٘كًا كَبِیْرًا ﴾ ’’تو نعمتیں ہی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت دیکھے گا‘‘تو ان میں سے ایک کو اس طرح پائے گا کہ اس کے پاس ایسی آرام گاہیں ہوں گی، سجائے اور مزین کیے ہوئے ایسے بالا خانے ہوں گے جن کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس کے پاس خوبصورت باغات ہوں گے ایسے ہوں گے جو اس کی پہنچ میں ہوں گے، لذیذ میوہ جات ہوں گے، بہتی ہوئی ندیاں اور خوش کن باغیچے ہوں گے۔ سحر انگیز چہچہانے والے پرندے ہوں گے جو دلوں کو متاثر اور نفوس کو خوش کریں گے۔اس کے پاس بیویاں ہوں گی جو انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی جو ظاہری اور باطنی جمال کی جامع ہوں گی جو نیک اور حسین ہوں گی، ان کا حسن قلب کو سرور، لذت اور خوشی سے لبریز کردے گا۔ اس کے ارد گرد ہمیشہ رہنے والے خدمت گار لڑکے اور دائمی خدام (گھوم پھر رہے) ہوں گے جس سے راحت و اطمینان حاصل ہو گا، لذت عیش کا اتمام اور مسرت کی تکمیل ہو گی۔پھر اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر رب رحیم کی رضا، اس کے خطاب کا سماع، اس کے قرب کی لذت، اس کی رضا کی خوشی اور دائمی زندگی حاصل ہو گی جن نعمتوں میں وہ رہ رہے ہوں گے وہ ہر وقت اور ہر آن بڑھتی ہی رہیں گی۔پس پاک ہے اللہ تعالیٰ، اقتدار اور واضح حق کا مالک جس کے خزانے کبھی ختم ہوتے ہیں نہ اس کی بھلائی کم پڑتی ہے ،جیسے اس کے اوصاف کی کوئی انتہا ہے نہ اس کی نیکی اور احسان کی کوئی حد ہے۔
#
{21} {عاليهم ثيابُ سندسٍ خضرٌ}؛ أي: قد جلَّلتهم ثياب السندس والإستبرق الأخضران اللَّذان هما أجلُّ أنواع الحرير، فالسُّندس ما غلظ من الحرير، والإستبرقُ ما رقَّ منه، {وحُلُّوا أساوِرَ من فضَّةٍ}؛ أي: حُلُّوا في أيديهم أساور الفضَّة؛ ذكورهم وإناثهم. وهذا وعدٌ وَعَدَهم الله، وكان وعدُه مفعولاً؛ لأنَّه لا أصدق منه قيلاً ولا حديثاً. وقوله: {وسقاهم ربُّهم شراباً طهوراً}؛ أي: لا كدر فيه بوجهٍ من الوجوه، مطهراً لما في بطونهم من كلِّ أذىً وقذىً.
[21] ﴿ عٰؔلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ﴾ ، یعنی ان کو سبز اور دبیز ریشم کے باریک اطلس کے لباس پہنائے جائیں گے۔ یہ دونوں حریر کی بہترین اقسام ہیں۔ ﴿ سُنْدُسٍ ﴾ موٹے اور دبیز ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں، اور (استبرق) باریک ریشمی کپڑے کو کہا جاتا ہے۔ ﴿ وَّحُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ﴾ مردوں اور عورتوں کو ان کے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے، یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے کیونکہ اپنے قول اور اپنی بات میں اس سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ﴿ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابً٘ا طَهُوْرًا ﴾ ’’اور انھیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا۔‘‘ جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی کدورت نہ ہو گی اور ان کے پیٹ میں جو آلائشیں وغیرہ ہوں گی ان کو پاک صاف کر دے گی۔
#
{22} {[إنَّ] هذا}: الجزاء الجزيل [والعطاء الجميل] {كان لكم جزاءً}: على ما أسلَفْتموه من الأعمال، {وكان سعيُكم مشكوراً}؛ أي: القليل [منه] يجعل الله لكم به من النعيم [المقيم] ما لا يمكن حصره.
[22] ﴿ اِنَّ هٰؔذَا ﴾ بلاشبہ یہ اجر جزیل اور عطائے جمیل ﴿ كَانَ لَكُمْ جَزَآءًؔ ﴾ ان اعمال کی جزا ہے جو تم آگے بھیج چکے ہو۔ ﴿ وَّكَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا﴾ ’’اور تمھاری کوشش کی قدر کی گئی ہے۔‘‘ یعنی تمھاری تھوڑی سے کوشش کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمھیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔
#
{23} وقوله تعالى لما ذكر نعيم الجنة: {إنَّا نحن نزَّلْنا عليك القرآن تنزيلاً}: فيه الوعد والوعيد وبيانُ كلِّ ما يحتاجه العباد، وفيه الأمر بالقيام بأوامره وشرائعه أتمَّ القيام والسعي في تنفيذها والصبر على ذلك.
[23] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْ٘قُ٘رْاٰنَ تَنْزِیْلًا﴾ ’’ہم نے آپ پر قرآن آہستہ آہستہ اتارا ہے۔‘‘اور اس کے اندر وعد و وعید اور ہر چیز کا بیان ہے جس کے بندے محتاج ہیں۔ قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ کے اوامر و شرائع کو پوری طرح قائم کرنے، ان کے نفاذ کی کوشش کرنے اور اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، بنابریں فرمایا:
#
{24} ولهذا قال: {فاصبر لحكم ربِّكَ ولا تُطِعْ منهم آثماً أو كفوراً}؛ أي: اصبر لحكمه القدريِّ؛ فلا تسخطه، ولحكمه الدينيِّ؛ فامض عليه، ولا يعوقَنَّك عنه عائقٌ، {ولا تطعْ}: من المعاندين الذين يريدونَ أن يَصُدُّوك {آثماً}؛ أي: فاعلاً إثماً ومعصيةً، {ولا كفوراً}: فإنَّ طاعة الكفَّار والفجَّار والفسَّاق لا بدَّ أن تكون معصيةً لله ؛ فإنَّهم لا يأمرون إلاَّ بما تهواه أنفسهم.
[24] یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری پر صبر کیجیے اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کیجیے اور اس کے حکم دینی پر صبر کیجیے اور اس پر رواں دواں رہیے اور کوئی چیز آپ کی راہ کھوٹی نہ کر سکے۔ ﴿ وَلَا تُ٘طِعْ ﴾ معاندین حق کی اطاعت نہ کیجیے جو چاہتے ہیں کہ آپ کو راہ حق سے روک دیں ﴿ اٰثِمًا ﴾ یعنی جو گناہ اور معصیت کا ارتکاب کرنے والا ہے اور نہ (اطاعت کریں) ﴿ كَفُوْرًا﴾ ’’كفر كرنے والے كی‘‘ کیونکہ کفار، فجار اور فساق کی اطاعت حتمی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے کیونکہ یہ لوگ صرف اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جسے ان کے نفس پسند کرتے ہیں۔
#
{25} ولما كان الصبر يُسْتَمَدُّ من القيام بطاعة الله والإكثار من ذِكْرِه؛ أمر الله بذلك، فقال: {واذكُرِ اسمَ ربِّك بكرةً وأصيلاً}؛ أي: أول النهار وآخره، فدخل في ذلك الصلوات المكتوبات، وما يتبعها من النَّوافل والذِّكْر والتَّسبيح والتَّهليل والتَّكبير في هذه الأوقات.
[25] چونکہ صبر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے قیام اور اس کے ذکر کی کثرت میں مدد کرتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُؔكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ یعنی صبح و شام اپنے رب کا نام لیتے رہو۔ اس میں فرض نمازیں، اس کے توابع نوافل وغیرہ اور ان اوقات میں ذکر، تسبیح، تہلیل اور تکبیر وغیرہ داخل ہیں۔
#
{26} {ومن الليل فاسْجُدْ له}؛ أي: أكثر له من السُّجود، وذلك متضمِّن لكثرة الصلاة ، {وسبِّحْه ليلاً طويلاً}: وقد تقدَّم تقييد هذا المطلق بقوله: {يا أيُّها المزَّمِّلُ. قم الليلَ إلاَّ قليلاً. نِصْفَهُ أو انقُصْ منه قليلاً. أو زِدْ عليه ... }.
[26] ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ ﴾ ’’اور رات کو سجدے کرو۔‘‘ یعنی اس کے حضور کثرت سے سجدے کیجیے اور یہ چیز کثرت نماز کو متضمن ہے۔ ﴿ وَسَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا﴾ ’’اور طویل رات تک اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔‘‘ اس مطلق کی تقیید اس ارشاد کے ذریعے سے گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْ٘مُزَّمِّلُۙ۰۰قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۰۰نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُ٘صْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ۰۰اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلِ الْ٘قُ٘رْاٰنَ تَرْتِیْلًا﴾ (المزمل:73؍1-4) ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے، رات کو تھوڑا سا قیام کیا کیجیے، قیام نصف شب یا اس سے بھی کچھ کم، یا اس سے کچھ زیادہ۔‘‘
#
{27} وقوله: {إنَّ هؤلاء}؛ أي: المكَذِّبين لك أيها الرسول بعدما بُيِّنَتْ لهم الآيات ورُغِّبوا ورُهِّبوا، ومع ذلك لم يُفِدْ فيهم ذلك شيئاً، بل لا يزالون يُؤْثرون {العاجلةَ}: ويطمئنُّون إليها، {ويذرونَ}؛ أي: يتركون العمل ويهملون {وراءهم}؛ أي: أمامهم {يوماً ثقيلاً}: وهو يوم القيامةِ، الذي مقداره خمسون ألفَ سنةٍ ممَّا تعدُّون، وقال تعالى: {يقولُ الكافرون هذا يومٌ عَسِرٌ}؛ فكأنَّهم ما خُلِقوا إلاَّ للدُّنيا والإقامة فيها.
[27] ﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ﴾ اے رسول! آپ کو جھٹلانے والے یہ لوگ، اس کے بعد کہ ان کے سامنے کھول کھول کر آیات بیان کی گئیں، ان کو ترغیب دی گئی، ان کو ڈرایا گیا، اس کے باوجود، اس نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ وہ ہمیشہ ترجیح دیتے رہے﴿ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ ﴾ دنیا ہی کو اور اسی پر مطمئن رہے ﴿ وَیَذَرُوْنَ ﴾ یعنی وہ عمل چھوڑ دیتے ہیں اور مہمل بن جاتے ہیں ﴿ وَرَآءَؔهُمْ ﴾ یعنی اپنے آگے ﴿ یَوْمًا ثَقِیْلًا ﴾ ’’بھاری دن‘‘ اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس کی مقدار تمھارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ یَقُوْلُ الْ٘كٰفِرُوْنَ هٰؔذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ﴾ (القمر:54؍8) ’’کافر کہیں گے کہ یہ بہت ہی مشکل دن ہے۔‘‘ گویا کہ وہ صرف دنیا اور دنیا کے اندر قیام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
#
{28} ثم استدلَّ عليهم وعلى بعثهم بدليل عقليٍّ، وهو دليلُ الابتداء، فقال: {نحن خَلَقْناهم}؛ أي: أوجدناهم من العدم، {وشَدَدْنا أسْرَهم}؛ أي: أحكمنا خِلْقَتَهم بالأعصاب والعروق والأوتار والقُوى الظاهرة والباطنة، حتى تمَّ الجسم واستكمل وتمكَّن من كلِّ ما يريده؛ فالذي أوجدهم على هذه الحالة قادرٌ على أن يعيدَهم بعد موتهم لجزائهم، والذي نقَّلهم في هذه الدار إلى هذه الأطوار لا يَليقُ به أن يَتْرُكَهم سدىً، لا يُؤْمَرون، ولا يُنْهَوْن، ولا يُثابون، ولا يُعاقبون، ولهذا قال: {وإذا شِئْنا بَدَّلْنا أمثالَهم تَبْديلاً}؛ أي: أنشأناكم للبعث نشأةً أخرى، وأعدْناكم بأعيانكم، وهم بأنفسهم أمثالهم.
[28] پھر اللہ تعالی ٰنے ان پر اور ان کی موت کے بعد دوبارہ زندگی پر، عقلی دلیل سے استدلال کیا ہے اور یہ ابتدائے تخلیق کی دلیل ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿ نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ ﴾ یعنی ہم ان کو عدم سے وجود میں لائے۔ ﴿ وَشَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ ﴾ یعنی ہم نے ان کی تخلیق کو اعصاب، رگوں، پٹھوں، ظاہری اور باطنی قویٰ کے ذریعے سے محکم کیا، یہاں تک کہ جسم تکمیل کی منزل پر پہنچ گیا اور ہر اس فعل پر قادر ہو گیا جو وہ چاہتا تھا۔ پس وہ ہستی جو انھیں اس حالت پر وجود میں لائی ہے، وہ ان کے مرنے کے بعد ان کو جزا و سزا دینے کے لیے انھیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ ہستی جس نے اس دنیا میں ان کو ان مراحل میں سے گزارا ہے، اس کی شان کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے کار چھوڑ دے، ان کو حکم دیا جائے نہ ان کو روکا جائے، ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا ﴾ ’’ان کے بدلے انھی کی طرح کے اور لوگ لے آئیں۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں روز قیامت دوبارہ اٹھنے کے لیے تخلیق کیا ہے، ہم نے ان کے اعیان، ان کے نفوس اور ان کی امثال کا اعادہ کیا۔
#
{29} {إنَّ هذه تذكرةٌ}؛ أي: يتذكَّر بها المؤمن، فينتفع بما فيها من التخويف والترغيب، {فمَن شاءَ اتَّخَذَ إلى ربِّه سَبيلاً}؛ أي: طريقاً موصلاً إليه؛ فالله يبيِّن الحقَّ والهدى، ثم يخيِّر الناس بين الاهتداء بها أو النُّفور عنها؛ إقامةً للحُجَّة ؛ ليهلكَ من هَلَكَ عن بيِّنةٍ، ويحيا من حيَّ عن بينةٍ.
[29] ﴿ اِنَّ هٰؔذِهٖ تَذْكِرَةٌ ﴾ ’’یہ ایک نصیحت ہے۔‘‘یعنی اس سے مومن نصیحت حاصل کرتا ہے، اس کے اندر جو تحویف و ترغیب ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ شَآءَؔ اتَّؔخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا ﴾ ’’پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔‘‘ یعنی وہ راستہ جو اس کے رب تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق اور ہدایت کو پوری طرح واضح کر دیا اور حجت قائم کرنے کے لیے لوگوں کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو ہدایت کے راستے پر گامزن ہوں اور اگر چاہیں تو اس سے دور بھاگیں۔
#
{30} {وما تشاؤون إلاَّ أن يشاءَ اللهُ}: فإنَّ مشيئة الله نافذةٌ. {إنَّ الله كان عليماً حكيماً}: فله الحكمةُ في هداية المهتدي وإضلال الضالِّ.
[30] ﴿ وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو۔‘‘بے شک اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا﴾ ’’بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ ہدایت یاب کی ہدایت اور گمراہ کی گمراہی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے۔
#
{31} {يُدْخِلُ مَن يشاءُ في رحمتِهِ}: فيختصُّه بعنايته، ويوفِّقه لأسباب السعادة، ويهديه لطُرُقِها، {والظَّالمين}: الذين اختاروا الشقاء على الهدى، {أعدَّ لهم عذاباً أليماً}: بظلمهم وعدوانهم.
[31] ﴿ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖ ﴾ ’’وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے۔‘‘ پس اسے اپنی عنایت سے مختص کرتا ہے، اسے سعادت کے اسباب کی توفیق سے نوازتا ہے اور سعادت کے راستوں کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿ وَالظّٰلِمِیْنَ ﴾ جنھوں نے ہدایت کی بجائے شقاوت کو منتخب کیا ﴿اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابً٘ا اَلِیْمًا﴾ تو ان کے ظلم اور عدوان کی پاداش میں، ہم نے ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔