آیت:
تفسیر سورۂ معارج
تفسیر سورۂ معارج
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 7 #
{سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ (1) لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ (2) مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ (3) تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (4) فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا (5) إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا (6) وَنَرَاهُ قَرِيبًا (7)}.
سوال کیا ایک سوال کرنےوالے نے اس عذاب کا جو ہونے والا ہے(1) کافروں پر، نہیں اس کو کوئی ٹالنے والا(2) اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے(3) چڑھیں گے فرشتے اور روح (جبریل) اس کی طرف ایک ایسے دن میں کہ ہو گی مقدار اس کی پچاس ہزار سال(4) پس آپ صبر کیجیے! صبرِ جمیل(5) بلاشبہ وہ (لوگ) تو دیکھتے ہیں اس کو بعید(6) اور ہم دیکھتے ہیں اس کو قریب(7)
#
{1 ـ 4} يقول تعالى مبيِّناً لجهل المعاندين واستعجالهم لعذاب الله استهزاءً وتعنُّتاً وتعجيزاً: {سأل سائلٌ} أي: دعا داعٍ واستفتح مستفتح، {بعذابٍ واقعٍ للكافرينَ}: لاستحقاقهم له بكفرِهم وعنادِهم. {ليس له دافع من الله}؛ أي: ليس لهذا العذاب الذي استعجلَ به مَنِ استعجلَ من متمرِّدي المشركين أحدٌ يدفعه قبل نزوله أو يرفعه بعد نزوله، وهذا حين دعا النَّضْر بن الحارث القرشيُّ أو غيره من المكذِّبين ، فقال: {اللهمَّ إنْ كان هذا هو الحقَّ من عندِكَ فأمطِرْ علينا حجارةً من السماء أو ائتنا بعذابٍ أليم ... } [إلى آخر الآيات]؛ فالعذابُ لا بدَّ أن يقع عليهم من الله؛ فإمَّا أن يُعَجَّلَ لهم في الدُّنيا، وإمَّا أن يُدَّخَرَ لهم في الآخرة؛ فلو عرفوا الله وعرفوا عظمته وسعة سلطانه وكمال أسمائِهِ وصفاتِهِ؛ لما استعجلوا، ولاستسلموا وتأدَّبوا، ولهذا ذكر تعالى من عظمته ما يضادُّ أقوالهم القبيحة، فقال: {ذي المعارج. تَعْرُجُ الملائكةُ والرُّوح إليه}؛ أي: ذي العلوِّ والجلال والعظمة والتَّدبير لسائر الخلق، الذي تَعْرُجُ إليه الملائكة بما جعلها على تدبيره، وتَعْرُجُ إليه الرُّوح، وهذا اسم جنس يشمل الأرواح كلَّها؛ بَرَّها وفاجِرَها، وهذا عند الوفاة، فأمَّا الأبرار؛ فتعرج أرواحُهم إلى الله، فيؤذن لهم من سماءٍ إلى سماءٍ، حتى تنتهي إلى السماء التي فيها اللهُ عزَّ وجلَّ، فتحيي ربَّها وتسلِّم عليه وتحظى بقربه، وتبتهج بالدنوِّ منه، ويحصُلُ لها منه الثناء والإكرام والبرُّ والإعظام، وأمَّا أرواحُ الفجَّار؛ فتعرج، فإذا وصلت إلى السماء؛ استأذنتْ، فلا يؤذَنُ لها، وأعيدت إلى الأرض. ثم ذكر المسافةَ التي تَعْرُجُ فيها الملائكةُ والرُّوح إلى الله، وأنَّها تعرج في يوم بما يَسِّر لها من الأسباب وأعانها عليه من اللَّطافة والخفَّة وسرعة السير، مع أنَّ تلك المسافة على السير المعتاد مقدار خمسين ألف سنةٍ، من ابتداء العروج إلى وصولها ما حُدَّ لها، وما تنتهي إليه من الملأ الأعلى؛ فهذا المُلْك العظيم والعالم الكبير علويُّه وسفليُّه جميعه قد تولَّى خلقه وتدبيره العليُّ الأعلى، فعلم أحوالهم الظاهرة والباطنة، [وَعَلِمَ] مستقرَّهم ومستودَعَهم، وأوصلهم من رحمته وبرِّه وإحسانه ما عمَّهم وشَمَلَهم، وأجرى عليهم حكمه القدريَّ وحكمه الشرعيَّ وحكمه الجزائيَّ؛ فبؤساً لأقوام جهلوا عظمته ولم يقدروه حقَّ قدره، فاستعجلوا بالعذاب على وجه التعجيز والامتحان. وسبحان الحليم الذي أمهلهم وما أهملهم، وآذَوْه فصبر عليهم وعافاهم ورَزَقَهم! هذا أحدُ الاحتمالات في تفسير هذه الآية الكريمة، فيكون هذا العروجُ والصعودُ في الدنيا؛ لأنَّ السِّياق الأول يدلُّ عليه. ويُحتمل أنَّ هذا في يوم القيامةِ، وأنَّ الله [تبارك و] تعالى يظهِرُ لعباده في يوم القيامةِ من عظمته وجلاله وكبريائه، ما هو أكبر دليل على معرفتِهِ مما يشاهدونه من عروج الأملاك والأرواح، صاعدةً ونازلةً بالتدابير الإلهيّة والشؤون الربَّانيَّة في ذلك اليوم الذي مقداره خمسين ألف سنة من طوله وشدَّته، لكنَّ الله تعالى يخفِّفه على المؤمن.
[4-1] اللہ تبارک و تعالیٰ معاندینِ حق کی جہالت کو، اور استہزا کے طور پر ان کے عذاب الٰہی کو مشکل اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو عاجز سمجھتے ہوئے عذاب کے لیے جلدی مچانے کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ سَاَلَ سَآىِٕلٌۢ﴾ یعنی دعا کرنے والے نے دعا کی اور نصرت طلب کرنے والے نے نصرت طلب کی ﴿بِعَذَابٍ وَّاقِعٍۙ۰۰لِّلْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’عذاب کی جو واقع ہوکر رہے گا کافروں پر۔‘‘ ان کے کفر و عناد کی بنا پر، عذاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے ﴿ لَ٘یْسَ لَهٗ دَافِعٌۙ۰۰مِّنَ اللّٰهِ ﴾ متکبر اور سرکش مشرکین میں سے جس کسی نے جلد عذاب کی خواہش کی ہے، کوئی اس عذاب کو اس کے نازل ہونے سے قبل روک سکتا ہے نہ اس کے نازل ہونے کے بعد اس کو اٹھا سکتا ہے۔ یہ آیات کریمہ اس وقت نازل ہوئیں جب نضر بن حارث قرشی وغیرہ اہل تکذیب نے دعا کرتے ہوئے کہا﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰؔذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ (الأنفال: 32/8)’’اے اللہ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے، تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب ضرور واقع ہو گا، یا تو اس دنیا ہی میں جلد ان پر عذاب بھیج دیا جائے گا یا آخرت میں (مبتلا کرنے کے لیے) اس عذاب کو ان سے مؤخر کیا جائے گا۔ اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی ہوتی، اس کی عظمت، اس کی وسعت سلطنت اور اس کے اسماء و صفات کو پہچانا ہوتا تو وہ کبھی جلدی نہ مچاتے بلکہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے اور ادب اختیار کرتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا جو ان کے اقوال قبیحہ کی ضد ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ذِی الْمَعَارِجِؕ۰۰ تَعْرُجُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَیْهِ﴾ یعنی وہ بلندی، جلال، اور عظمت کا مالک ہے، تمام مخلوقات کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے جس کی طرف اس چیز کے ساتھ فرشتے عروج کرتے ہیں جس کی تدبیر پر انھیں مقرر کیا ہے اور اس کی طرف روح بلند ہوتی ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو تمام ارواح کو شامل ہے، خواہ نیک ہوں یا بد، اللہ تعالیٰ کی طرف ارواح کا بلند ہونا، وفات کے وقت ہے۔ نیک لوگوں کی ارواح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتی ہیں، انھیں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف بلند ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے، یہاں تک کہ ارواح اس آسمان پر پہنچ جاتی ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ ان کا رب تشریف فرما ہے، یہ ارواح اللہ تعالیٰ کے حضور تحیہ و سلام پیش کرتی ہیں اس کے قرب سے سرفراز ہوتی ہیں اور اس کے قرب سے بہجت و سرور حاصل کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ثنا و اکرام، بھلائی اور بڑائی حاصل ہو گی۔ رہیں فساق و فجار کی ارواح تو وہ عروج کرتی ہیں جب وہ آسمان پر پہنچتیں ہیں تو آنے کی اجازت طلب کرتی ہیں، مگر ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور ان کو زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مسافت کا ذکر فرمایا جس کو طے کر کے فرشتے اور روح اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کرتے ہیں، نیز یہ کہ وہ ان اسباب کے ذریعے سے ایک دن میں عروج کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسان کیے ہیں اور اوپر چڑھنے میں ان کی لطافت، خفت اور سرعت رفتار ان کی اعانت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عام عادی رفتار کے مطابق، یہ مسافت ابتدائے عروج سے لے کر اس حد تک جو ان کے لیے مقرر کی گئی ہے اور ملأ اعلیٰ تک، پچاس ہزار برس کے برابر ہے۔ یہ عظیم بادشاہی، یہ وسیع کائنات، علوی اور سفلی، اس کی تخلیق اور تدبیر کا انتظام، وہی بلند و برتر کرتا ہے۔ پس وہ ان کے ظاہری و باطنی احوال کا علم رکھتا ہے، وہ ان کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں ان کو سونپا جانا ہے، اس نے اپنی رحمت، احسان اور رزق ان تک پہنچایا جو ان سب پر عام اور سب کو شامل ہے۔ اس نے ان پر حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کو جاری کیا۔پس شدت ہے ان لوگوں کے لیے جو اس کی عظمت کے بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور انھوں نے اس کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے، پس انھوں نے عجز ثابت کرنے اور امتحان کے طور پر عذاب کے لیے جلدی مچائی … پاک ہے حلم اور درگزر کرنے والی ہستی جس نے ان کو ڈھیل دے رکھی مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑا، انھوں نے اس کو اذیت پہنچائی مگر اس نے ان کے بارے میں صبر کیا، ان کو معاف کر دیا اور ان کو رزق عطا کیا۔ یہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک احتمال ہے، پس یہ عروج اور چڑھنا اس دنیا میں ہے کیونکہ آیت کریمہ کا پہلا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ یہ قیامت کے دن ہو گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندوں پر اپنی عظمت، جلال اور کبریائی ظاہر کرے گا جو اس کی معرفت کی سب سے بڑی دلیل ہے وہ فرشتوں اور ارواح کو تدابیر الٰہیہ اور امور ربانیہ کے ساتھ چڑھتے اترتے مشاہدہ کریں گے۔یہ اس روز ہوگا جس کا اندازہ اس کی لمبائی اور شدت کی بنا پر پچاس ہزار سال ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ مومنوں پر تخفیف فرمائے گا۔
#
{5 ـ 7} وقوله: {فاصْبِرْ صبراً جميلاً}؛ أي: اصبر على دعوتك لقومك صبراً جميلاً، لا تَضَجُّرَ فيه ولا ملل، بل استمرَّ على أمر الله، وادعُ عباده إلى توحيده، ولا يمنعْك عنهم ما ترى من عدم انقيادهم وعدم رغبتهم؛ فإنَّ في الصَّبر على ذلك خيراً كثيراً. {إنَّهم يرونَه بعيداً ونراه قريباً}: الضمير يعود إلى البعث الذي فيه عذابُ السائلين بالعذاب؛ أي: إنَّ حالهم حال المنكر له، والذي غلبت عليه الشِّقْوة والسكرة، حتى تباعد جميع ما أمامه من البعث والنشور، والله يراه قريباً؛ لأنَّه رفيقٌ حليمٌ لا يَعْجَلُ، ويعلم أنَّه لا بدَّ أن يكون، و [كلُّ] ما هو آتٍ فهو قريبٌ.
[7-5] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا﴾ اپنی قوم کو دعوت دینے پر صبر جمیل کیجیے اس میں کوئی تنگ دلی ہو نہ کوئی ملال بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہیے، اس کے بندوں کو اس کی توحید کی دعوت دیجیے، آپ ان میں عدم اطاعت اور عدم رغبت کا جو مشاہدہ کرتے ہیں، یہ چیز آپ کو ان کو دعوت دینے سے روک نہ دے کیونکہ اس پر صبر کرنے میں خیر کثیر پنہاں ہے۔ ﴿ اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ۰۰وَّنَرٰىهُ قَ٘رِیْبًا﴾ ’’وہ اس (قیامت) کو دور تصور کرتے ہیں اور ہم سے نزدیک دیکھ رہے ہیں۔‘‘ آیت میں مذکورہ ضمیر قیامت کے دن کی طرف لوٹتی ہے جس میں عذاب کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے عذاب ہو گا ، یعنی ان کا حال اس شخص کا سا ہے جو قیامت کا منکر ہے جس پر بدبختی اور اندیشہ غالب ہو حتیٰ کہ اسے وہ چیز بھی دور نظر آئے جو اس کے سامنے ہے ، یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہ (دن) قریب نظر آتا ہے کیونکہ وہ بہت نرم اور بردبار ہے، سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ جسے آنا ہے وہ آ کر رہے گا، پس وہ بہت قریب ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کی ہولناکیوں کا ذکر فرمایا اور ان امور کا ذکر فرمایا جو اس میں واقع ہوں گے، چنانچہ فرمایا :
آیت: 8 - 18 #
{يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ (8) وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ (9) وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا (10) يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (11) وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (12) وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (13) وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ (14) كَلَّا إِنَّهَا لَظَى (15) نَزَّاعَةً لِلشَّوَى (16) تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى (17) وَجَمَعَ فَأَوْعَى (18)}.
اس دن ہو گا آسمان جیسے پگھلا ہوا تانبا (8) اور ہوں گے پہاڑ جیسے دُھنکی ہوئی رنگین اون(9) اور نہیں پوچھے گا کوئی جگری دوست کسی جگری دوست کو (10) حالانکہ وہ دکھلا ئے جائیں گے وہ ان کو پسند کرے گا مجرم کاش کہ فدیے میں دے عذاب سے (بچنے کے لیے) اس دن کے، اپنا بیٹا (11) اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی (12) اور اپنا خاندان وہ جو جگہ (پناہ) دیتا ہے اسے (13) اور وہ جو زمین میں ہیں سب، پھر وہ (فدیہ) نجات دلا دے اس کو (14) ہرگز نہیں! بلاشبہ وہ آگ ہے بھڑکتی ہوئی (15) ادھیڑ ڈالنے والی کھالوں کو (16) پکارے گی وہ(ہر) اس شخص کو جس نے پیٹھ پھیری(حق سے)اور منہ موڑا (17) اور جمع کیا (مال) اور سینت کر رکھا (18)
#
{8 ـ 9} أي: {يوم} القيامة تقع فيه هذه الأمور العظيمة {تكونُ السماءُ كالمُهْل}: وهو الرصاص المذاب من تشقُّقها وبلوغ الهول منها كلَّ مبلغ، {وتكونُ الجبالُ كالعِهْن}: وهو الصوف المنفوش، ثم تكون بعد ذلك هباءً منثوراً فتضمحلُّ.
[9,8] ﴿ یَوْمَ﴾ یعنی قیامت کے دن جس میں یہ بڑے بڑے واقعات وقوع میں آئیں گے ﴿ تَكُوْنُ السَّمَآءُ كَالْ٘مُهْلِ﴾ ’’آسمان ہوجائے گا مہل کی طرح۔‘‘ اور وہ پگھلا ہوا سیسہ ہے ۔ آسمان کے پھٹ جانے اور بے انتہا ہولناکی کے باعث آسمان پگھلے ہوئے سیسے کی مانند ہو جائے گا۔ ﴿ وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْ٘عِهْنِ﴾ ’’اور پہاڑ ہوجائیں گے روئی کی طرح۔‘‘ اور وہ ہے دھنکی ہوئی اون، اس کے بعد اڑتا ہوا غبار بن جائیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔
#
{10 ـ 14} فإذا كان هذا الانزعاج والقلق لهذه الأجرام الكبيرة الشديدة؛ فما ظنُّك بالعبد الضعيف الذي قد أثقل ظهره بالذنوب والأوزار؟! أليس حقيقياً أن ينخلِعَ قلبُه و [ينزعجَ] لبُّه ويذهلَ عن كلِّ أحدٍ؟! ولهذا قال: {ولا يسألُ حميمٌ حميماً يُبَصِّرونَهم}؛ أي: يشاهدُ الحميمُ ـ وهو القريب ـ حميمَه؛ فلا يبقى في قلبه متَّسع لسؤاله عن حاله ولا فيما يتعلَّق بعشرتهم ومودَّتهم ولا يهمُّه إلاَّ نفسُه. {يودُّ المجرِمُ}: الذي حقَّ عليه العذاب {لو يفتدي من عذاب يومِئِذٍ ببنيهِ. وصاحبتِهِ}؛ أي: زوجته، {وأخيه. وفصيلته}؛ أي: قرابته، {التي تُؤْويه}؛ أي: التي جرت عادتها في الدنيا أن تتناصَرَ ويعينَ بعضها بعضاً؛ ففي [يوم] القيامةِ لا ينفع أحدٌ أحداً، ولا يشفع أحدٌ إلاَّ بإذن الله، بل لو يفتدي المجرمُ المستحقُّ للعذاب بجميع ما في الأرض ثم ينجيه ذلك؛ لم ينفعه.
[14-10] جب ان بڑے بڑے اجرام پر یہ گھبراہٹ اور بے قراری طاری ہو گی تو اس کمزور بندے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کی کمر کو گناہوں کے بوجھ نے بوجھل کر رکھا ہو گا؟ کیا وہ اس لائق نہ ہو گا کہ اس کا دل اکھڑ جائے، اس کی عقل و خرد زائل ہو جائے اور وہ ہر ایک سے غافل ہو جائے؟ اس لیےفرمایا: ﴿ وَلَا یَسْـَٔلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًاۚۖ۰۰یُّبَصَّرُوْنَهُمْ﴾ (حَمِیْمٌ) سے مراد قریبی ہے، یعنی قریبی دوست، وہ اپنے دوست کو دیکھے گا مگر اس کے دل میں اتنی گنجائش نہ ہو گی کہ وہ اس کا حال پوچھ سکے، نہ وہ ان امور کے بارے میں پوچھ سکے گا جو ان کی آپس کی معاشرت اور محبت کے متعلق ہوں گے، بس اسے اپنے آپ کا غم ہو گا۔ ﴿ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ﴾ جس پر عذاب کا استحقاق ثابت ہو چکا ہو گا، خواہش کرے گا ﴿ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍۭ بِبَنِیْهِ ۰۰ وَ صَاحِبَتِهٖ﴾ ’’کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹے اور اپنی بیوی دے دے۔‘‘ ﴿ وَاَخِیْهِۙ۰۰وَفَصِیْلَتِهِ﴾ ’’اور اپنا بھائی اور اپنا خاندان‘‘ یعنی اپنی قرابت ﴿الَّتِیْ تُــــْٔوِیْهِ﴾ ’’جس میں وہ رہتا تھا۔‘‘ یعنی دنیا کے اندر عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہیں۔ پس قیامت کے اندر کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا نہ کوئی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش ہی کر سکے گا۔ بلکہ اگر عذاب کا مستحق جو کچھ زمین میں ہے، سب فدیے میں دے کر عذاب سے بچنا چاہے ، تب بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
#
{15 ـ 18} {كلاَّ}؛ أي: لا حيلة ولا مناص لهم، قد حقَّت عليهم كلمةُ ربِّك ، وذهب نفعُ الأقارب والأصدقاء، {إنَّها لظى. نزاعةً للشَّوى}؛ أي: النار التي تتلظَّى تنزِعُ من شدَّتها للأعضاء الظاهرة والباطنة ، {تَدْعو}: إلى نفسها {مَنْ أدْبَرَ وتَوَلَّى. وجَمَعَ فأوْعى}؛ أي: أدبر عن اتِّباع الحقِّ، وأعرض عنه؛ فلا غرض له فيه ، وجمع الأموال بعضها فوق بعض، وأوعاها فلم ينفِقْ منها ما ينفعه ويدفع عنه النار؛ فالنار تدعو هؤلاء إلى نفسها ، وتستعدُّ للالتهاب بهم.
[18-15] ﴿ كَلَّا﴾ یعنی اب ان کے لیے کوئی حیلہ ہے نہ مدد کا موقع، ان پر تیرے رب کا فیصلہ واجب ہو چکا، رشتہ داروں اور دوستوں کا فائدہ بھی جا چکا ﴿ اِنَّهَا لَ٘ظٰىۙ۰۰ نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى﴾ ’’وہ آگ ہوگی کھالوں کو ادھیڑ دینے والی‘‘ یعنی ظاہر و باطنی اعضاء کو اپنے سخت عذاب کی وجہ سے اکھاڑ دے گی۔ ﴿ تَدْعُوْا﴾ اپنی طرف بلائے گی ﴿ مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰىۙ۰۰۱۷ وَجَمَعَ فَاَوْعٰى﴾ اس کو جس نے اتباع حق سے پیٹھ پھیری اور اس سے منہ موڑا، اور حق سے کوئی غرض نہ رکھی، مال پہ مال جمع کرتا رہا اور اسے سینت سینت کر رکھتا رہا، اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ بھی خرچ نہ کیا جسے خرچ کر کے اپنے آپ سے جہنم کو دور کرتا۔ پس جہنم ان لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور ان پر شعلہ زن ہونے کے لیے تیار رہتا ہے۔
آیت: 19 - 35 #
{إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا (19) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا (20) وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا (21) إِلَّا الْمُصَلِّينَ (22) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (23) وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ (24) لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (25) وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (26) وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ (27) إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ (28) وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (29) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (30) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (31) وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (32) وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ (33) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (34) أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ (35)}.
بلاشبہ انسان پیدا کیا گیا تھڑدلا(19) جب پہنچتی ہے اسے برائی، تو بہت جزع فزع کرتا ہے (20) اور جب پہنچتی ہے اسے بھلائی تو نہایت بخیل ہے (21) مگر وہ نمازی (22) جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں (23) اور وہ لوگ کہ ان کے مالوں میں حق ہے مقرر (24) سوالی اور محروم کے لیے (25) اور وہ لوگ جو تصدیق کرتے ہیں یوم جزا کی (26) اور وہ لوگ کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں (27) بلاشبہ عذاب ان کے رب کا (ایسا) ہے کہ نہ بے خوف ہوا جائے(اس سے) (28) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں(29) مگر اپنی بیویوں سے اور جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ، تو بلاشبہ وہ نہیں ملامت زدہ (30) پس جو کوئی تلاش کرے علاوہ اس کے تو وہی لوگ ہیں حد سے گزرنے والے (31) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں (32) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی شہادتوں پر قائم رہنے والے ہیں (33) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں (34) یہی لوگ باغوں میں معزز ہوں گے (35)
#
{19 ـ 21} وهذا الوصف للإنسان من حيث هو؛ ووَصَفَ طبيعتَه [الأصليةَ] أنَّه هلوعٌ، وفسَّر الهَلوعَ بقوله: {إذا مسَّه الشَّرُّ جزوعاً}: فيجزع إن أصابه فقرٌ أو مرضٌ أو ذهابُ محبوبٍ له من مال أو أهل أو ولدٍ، ولا يستعمل في ذلك الصبر والرِّضا بما قضى الله، {وإذا مسَّه الخير منوعاً}: فلا يُنْفِقُ مما آتاه الله، ولا يشكر الله على نعمه وبرِّه فيجزع في الضَّراء ويمنع في السَّراء.
[21,19] یہ انسان کا وصف ہے جیسا کہ وہ ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت بیان کی ہے کہ وہ انتہائی بے صبرا ہے، پھر ’’بے صبرے‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوْعًا﴾ پس اگر کبھی اس پر فقر یا کسی مرض کا حملہ ہوتا ہے یا مال و متاع، گھر والوں اور اولاد میں سے کوئی محبوب چلا جاتا ہے تو وہ انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، اس بارے میں صبر کو استعمال نہیں کرتا اور نہ اللہ تعالیٰ کی قضا پر ہی راضی ہوتا ہے۔ ﴿ وَّاِذَا مَسَّهُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا﴾ ’’اورجب اسے آسائش پہنچتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اسے عطا کیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان پر اس کا شکر ادا نہیں کرتا۔ پس وہ مصیبت اور سختی کے وقت بے صبری کرتا ہے اور فراخی اور خوشحالی کے وقت مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روکتا ہے۔
#
{22 ـ 23} {إلاَّ المصلِّين}: الموصوفين بتلك الأوصاف؛ فإنَّهم إذا مسَّهم الخير؛ شكروا الله وأنفقوا مما خوَّلهم [الله]، وإذا مسَّهم الشرُّ؛ صبروا واحتسبوا. وقوله في وصفهم: {الذين هم على صلاتهم دائمونَ}؛ أي: مداومون عليها في أوقاتها بشروطها ومكمِّلاتها، وليسوا كمن لا يفعلها، أو يفعلها وقتاً دون وقتٍ، أو يفعلها على وجهٍ ناقص.
[23,22] ﴿ اِلَّا الْمُصَلِّ٘یْ٘نَ﴾ سوائے ان نمازیوں کے جو ان اوصاف سے موصوف ہیں، کیونکہ جب ان کو بھلائی حاصل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اس کے راستے میں وہ مال خرچ کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند کیا ہے، جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ ان کے وصف میں فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىِٕمُوْنَ﴾ یعنی نماز پر، اس کی تمام شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے دیگر امور کے ساتھ اس کے اوقات میں ہمیشگی کرتے ہیں۔ وہ اس شخص کی مانند نہیں ہیں جو نماز نہیں پڑھتا یا جو بے وقت پڑھتا ہے یا وہ نماز پڑھتا ہے مگر ناقص طریقے سے۔
#
{24 ـ 25} {والذين في أموالهم حقٌّ معلومٌ}: من زكاة وصدقة، {للسائل}: الذي يتعرَّض للسؤال، {والمحروم}: وهو المسكين الذي لا يسألُ الناس فيعطوه ولا يفطنُ له فيتصدَّق عليه.
[25,24] ﴿ وَالَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ﴾ ’’اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے۔‘‘ یعنی زکاۃ اور صدقات میں سے ﴿ لِّلسَّآىِٕلِ﴾ ’’سائل کے لیے۔‘‘ جو سوال کرتا ہے ﴿ وَالْمَحْرُوْمِ﴾ ’’اور محروم کے لیے۔‘‘ یہ وہ مسکین ہے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتا کہ لوگ اسے عطا کریں اور نہ اس کے حاجت مند ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس پر صدقہ کریں۔
#
{26} {والذين يصدِّقون بيوم الدين}؛ أي: يؤمنون بما أخبر به وأخبرت به الرسلُ من الجزاء والبعث، ويتيقَّنون ذلك، فيستعدُّون للآخرة، ويَسْعَوْن لها سعيها. والتصديق بيوم الدين يلزم منه التصديق بالرسل وبما جاؤوا به من الكتب.
[26] ﴿ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ﴾ یعنی جزا و سزا اور قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے جو خبر دی ہے، اس پر ایمان رکھتے ہیں اور انھیں اس پر یقین ہے، پس وہ آخرت کے لیے تیاری کرتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح کوشش کرتے ہیں، قیامت کے دن کی تصدیق سے رسولوں اور ان کتابوں کی جن کو لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں، تصدیق لازم آتی ہے۔
#
{27 ـ 28} {والذين هم من عذاب ربِّهم مشفِقون}؛ أي: خائفون وجِلون، فيتركون لذلك كلَّ ما يقرِّبهم من عذاب الله. {إنَّ عذاب ربِّهم غيرُ مأمونٍ}؛ أي: هو العذاب الذي يُخشى ويُحذر.
[28,27] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ﴾ یعنی اپنے رب کے عذاب سے خائف اور ڈرتے ہیں اس لیے وہ ہر اس کام کو چھوڑ دیتے ہیں جو انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے قریب کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ﴾ ’’بے شک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونےوالی چیز نہیں ہے۔‘‘ یہ وہ عذاب ہے جس سے ڈرا جاتا اور بچا جاتا ہے۔
#
{29 ـ 31} {والذين هم لفروجهم حافظون}: فلا يطؤون بها وطئاً محرماً من زنا أو لواطٍ أو وطءٍ في دُبُرٍ أو حيضٍ ونحو ذلك، ويحفظونها أيضاً من النظر إليها ومسِّها ممَّن لا يجوز له ذلك، ويتركون أيضاً وسائل المحرَّمات الداعية لفعل الفاحشة، {إلا على أزواجهم أو ما ملكتْ أيمانُهم}؛ أي: سُرِّيَّاتهم، {فإنَّهم غير ملومين}: في وطئهنَّ في المحلِّ الذي هو محلُّ الحرثِ. {فمنِ ابتغى وراء ذلك}؛ أي: غير الزوجة وملك اليمين، {فأولئك هم العادون}؛ أي: المتجاوزون ما أحل الله إلى ما حرم الله. ودلَّت هذه الآية على تحريم نكاح المتعة؛ لكونها غير زوجةٍ مقصودةٍ ولا ملك يمينٍ.
[31-29] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰؔفِظُوْنَ﴾ پس وہ اپنی شرم گاہوں کے ذریعے سے ایسی مجامعت نہیں کرتے جو حرام قرار دی گئی ہو ، یعنی زنا، سدومیت (قوم لوط والا عمل ) ، بیوی کی دبر میں مجامعت اور حالت حیض وغیرہ میں مجامعت سے بچتے ہیں،نیز وہ اپنی شرم گاہوں کو ان لوگوں کے دیکھنے اور چھونے سے حفاظت کرتے ہیں جن کے لیے دیکھنا اور چھونا جائز نہیں۔ وہ ان تمام وسائل محرمہ کو بھی ترک کر دیتے ہیں جو فحش کام کے ارتکاب کی دعوت دیتے ہیں ﴿ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ ﴾ ’’مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے۔‘‘ یعنی ان کے پاس جانے میں ﴿ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ﴾ ’’ان پر کوئی علامت نہیں۔‘‘ یعنی اس مقام میں جماع کرنے پر، جو کھیتی کا مقام ہے، ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ﴿ فَ٘مَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَؔ ذٰلِكَ﴾ پس جو بیوی اور لونڈی کے علاوہ تلاش کریں۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ﴾ ’’تو وہ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘ یعنی جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے اس سے تجاوز کر کے اس میں پڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ یہ آیت کریمہ نکاحِ متعہ (اورمروجہ حلالہ) کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ زوجۂ مقصود ہے نہ لونڈی۔
#
{32} {والذين هم لأماناتهم وعهدِهِم راعونَ}؛ أي: مراعون لها حافظون مجتهدون على أدائها والوفاء بها، وهذا شاملٌ لجميع الأمانات التي بين العبد وبين ربِّه؛ كالتكاليف السِّرِّيَّة التي لا يطَّلع عليها إلاَّ اللهُ، والأمانات التي بيْن العبد وبيْن الخلق في الأموال والأسرار، وكذلك العهد شاملٌ للعهد الذي عاهد عليه الله، والعهد الذي عاهد الخلق عليه ؛ فإنَّ العهد يُسأل عنه العبد؛ هل قام به ووفَّاه أم رفضه وخانه فلم يقم به.
[32] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ﴾ یعنی وہ امانتوں اور عہد کی رعایت رکھنے اور حفاظت کرنے والے ہیں، امانتوں کو ادا کرنے اور عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ ان تمام امانتوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے وہ پوشیدہ امور جن کا انسان مکلف بنایا گیا ہے اورانھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اوروہ امانتیں جواموال اور اسرار کے بارے میں ہیں جو آپس میں بندوں کے مابین ہیں۔ اسی طرح یہ عہد اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے مخلوق سے کیا ہے۔ کیونکہ عہد کے بارے میں بندے سے پوچھا جائے گا کہ آیا وہ اس عہد پر قائم رہا اور اسے پورا کیا یا اس نے اسے دور پھینک دیا، اس میں خیانت کی اور اس پر قائم نہ رہا؟
#
{33} {والذين هم بشهادتهم قائمونَ}؛ أي: لا يشهدون إلاَّ بما يعلمونه من غير زيادةٍ ولا نقصٍ ولا كتمانٍ، ولا يحابي فيها قريباً ولا صديقاً ونحوه، ويكون القصد بإقامتها وجه الله؛ قال تعالى: {وأقيموا الشهادةَ لله}، {يا أيُّها الذين آمنوا كونوا قوَّامينَ بالقِسطِ شهداءَ لله ولو على أنفسِكُم أوِ الوالِدَيْن والأقربين}.
[33] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِشَهٰؔدٰؔتِهِمْ قَآىِٕمُوْنَ﴾ یعنی وہ کسی کمی بیشی اور کچھ چھپائے بغیر صرف اسی بات کی گواہی دیتے ہیں جسے وہ جانتے ہیں، وہ گواہی میں کسی رشتہ کی رعایت رکھتے ہیں نہ کسی دوست وغیرہ کی۔ ان کے نزدیک، اس گواہی کو قائم کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ﴾ (الطلاق:65؍2) ’’اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی کو قائم کرو۔‘‘ اور فرمایا :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَؔ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْ٘رَبِیْنَ﴾ (النساء:4؍135) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر قائم رہنے والے بن جاؤ ، اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ یہ گواہی خود تمھارے خلاف، تمھارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
#
{34} {والذين هم على صلاتهم يحافظون}: بالمداومة عليها على أكمل الوجوه.
[34] ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ﴾ ’’اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ یعنی بہترین طریقے سے اس پر مداومت کے ذریعے سے اس کی حفاطت کرتے ہیں۔
#
{35} {أولئك}؛ أي: الموصفون بتلك الصفات، {في جناتٍ مُكْرَمون}؛ أي: قد أوصل الله لهم من الكرامة والنعيم المقيم، ما تشتهيه الأنفس، وتلذُّ الأعين، وهم فيها خالدون. وحاصل هذا أنَّ الله وصف أهل السعادة والخير بهذه الأوصاف الكاملة والأخلاق المرضيَّة الفاضلة من العبادات البدنيَّة؛ كالصلاة والمداومة عليها، والأعمال القلبيَّة؛ كخشية الله الداعية لكلِّ خير، والعبادات الماليَّة، والعقائد النافعة، والأخلاق الفاضلة؛ ومعاملة الله ومعاملة خلقِهِ أحسن معاملةٍ؛ من إنصافهم وحفظ حقوقهم وأماناتهم والعفَّة التامَّة بحفظ الفروج عمَّا يكرهه الله تعالى.
[35] ﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ یعنی جو لوگ ان صفات سے موصوف ہیں وہ ﴿ فِیْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ﴾ ’’جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام و تکریم اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے نوازے گا جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے اور ان کی آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ وہ ان نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل سعادت و خیر کو اوصاف کاملہ، اخلاق فاضلہ سے موصوف کیا ہے، یعنی عبادت بدنیہ ، مثلاً: نماز اور اس پر مداومت۔ اعمال قلبیہ ، مثلاً: خشیت الٰہی جو ہر بھلائی کو دعوت دیتی ہے، عبادات مالیہ، عقائد نافعہ، اخلاق فاضلہ، اللہ تعالیٰ سے معاملہ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بہترین معاملہ، یعنی ان کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق اور ان کی امانتوں کی حفاظت کرنا ایسے افعال سے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کر کے عفت کامل اختیار کرنا۔
آیت: 36 - 39 #
{فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ (36) عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ (37) أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ (38) كَلَّا إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ (39)}.
پس کیا ہے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا کہ آپ کی طرف تیزی سے دوڑے آ رہے ہیں (36) دائیں سے اور بائیں سے گروہ در گروہ؟ (37) کیا طمع رکھتا ہے ہر شخص ان میں سے یہ کہ داخل کیا جائے گا وہ نعمت والی جنت میں؟ (38) ہرگز نہیں! بلاشبہ ہم نے پیدا کیا ہے انھیں اس چیز سے کہ وہ (اس کو) جانتے ہیں(39)
#
{36 ـ 39} يقول تعالى مبيناً اغترار الكافرين: {فمال الذين كَفَروا قِبَلَكَ مُهْطِعينَ}؛ أي: مسرعين، {عن اليمين وعن الشمال عِزينَ}؛ أي: قطعاً متفرِّقة وجماعاتٍ متنوِّعة ، كلٌّ منهم بما لديه فرحٌ. {أيطمعُ كلُّ امرئٍ منهم أن يُدْخَلَ جنَّةَ نعيم}؛ أيُّ سببٍ أطمعهم وهم لم يقدِّموا سوى الكفر والجحود لربِّ العالمين؟! ولهذا قال: {كلاَّ}: أي: ليس الأمر بأمانيهم ولا إدراك ما يشتهون بقوَّتهم، {إنَّا خلَقْناهم ممَّا يعلمونَ}؛ أي: من ماء دافقٍ يخرج من بين الصُّلب والترائب؛ فهم ضعفاء لا يملكون لأنفسهم نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً.
[39-36] اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی فریب خوردگی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ فَمَالِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا قِبَلَكَ مُهْطِعِیْنَ﴾ ’’پس ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمھاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔‘‘ یعنی بڑی سرعت سے ﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ﴾ ’’دائیں بائیں سے گروہ گروہ ہوکر۔‘‘ یعنی متفرق گروہوں اور مختلف جماعتوں میں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس جو کچھ ہے اسی پر خوش ہے۔ ﴿ اَیَطْمَعُ كُ٘لُّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ اَنْ یُّدْخَلَ جَنَّةَ نَعِیْمٍ﴾ ’’کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ نعمت کے باغ میں داخل کیا جائے گا۔‘‘ یعنی کس سبب کی بنا پر وہ توقع رکھتے ہیں جبکہ ان سب کا حال یہ ہے کہ انھوں نے کفر اور رب کائنات کے انکار کے سوا کچھ آگے نہیں بھیجا؟ بنابریں فرمایا: ﴿ كَلَّا﴾ یعنی معاملہ ان کی آرزؤ ں کے مطابق ہو گا نہ وہ اپنی قوت کے ذریعے سے ہر وہ چیز حاصل کرسکیں گے جسے وہ چاہیں گے۔ ﴿ اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّؔمَّا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’ہم نے انھیں اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم نے انھیں اچھل کر گرنے والے پانی سے بنایا جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے، پس وہ بہت کمزور ہیں، وہ خود اپنے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں، وہ موت پر قادر ہیں نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر۔
آیت: 40 - 44 #
{فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (40) عَلَى أَنْ نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ (41) فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ (42) يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ (43) خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (44)}.
پس قسم کھاتا ہوں میں رب کی مشرقوں اور مغربوں کے یقیناً ہم البتہ قادر ہیں (40) اس بات پر کہ ہم بدلے میں لے آئیں بہتر ان سے اور نہیں ہیں ہم عاجز و مغلوب (41) پس آپ چھوڑ دیجیے انھیں کہ وہ مشغول رہیں (باطل میں) اور کھیلتے رہیں یہاں تک کہ ملاقات کریں وہ اپنے اس دن سے جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں وہ (42) جس دن وہ نکلیں گے قبروں سے دوڑتے ہوئے، گویا کہ وہ تھانوں (بتوں) کی طرف دوڑ رہے ہیں (43) جھکی ہوں گی ان کی نگاہیں ڈھانپتی ہو گی ان کو ذلت یہی ہے وہ دن جس کا تھے وہ وعدہ دیے جاتے (44)
#
{40 ـ 41} هذا إقسامٌ منه تعالى بالمشارق والمغارب للشمس والقمر والكواكب؛ لما فيها من الآيات الباهرات على البعث وقدرته على تبديل أمثالهم وهم بأعيانهم؛ كما قال تعالى: {وننشِئُكم فيما لا تعلمونَ}. {وما نحنُ بمسبوقينَ}؛ أي: ما أحدٌ يسبقنا ويفوتنا ويعجِزُنا إذا أردنا أن نعيدَه.
[41,40] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشارق و مغارب، سورج، چاند اور ستاروں کی قسم ہے۔ کیونکہ ان میں قیامت پر اور ان کی مانند ایسے لوگ لے آنے میں اس کی قدرت پر بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو عین انھی کی طرح ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَنُنْشِئَؔكُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الواقعہ:56؍61) ’’اور ہم تمھیں ایسے جہان میں پیدا کریں جس کو تم نہیں جانتے۔‘‘ ﴿ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۠﴾ یعنی اگر ہم کسی کو دوبارہ زندہ کریں تو وہ ہم پر سبقت لے جا سکتا ہے اور نہ ہم سے آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہمیں عاجز کر سکتا ہے۔
#
{42} فإذا تقرَّر البعث والجزاء، واستمرُّوا على تكذيبهم وعدم انقيادهم لآيات الله؛ {فذَرْهم يخوضوا ويلعبوا}؛ أي: يخوضوا بالأقوال الباطلة والعقائد الفاسدة، ويلعبوا بدينهم، ويأكلوا ويشربوا ويتمتَّعوا، {حتَّى يلاقوا يومَهُمُ الذي يوعدونَ}: فإنَّ الله قد أعدَّ لهم فيه من النَّكال والوبال ما هو عاقبةُ خوضهم ولعبهم.
[42] جب حیات بعدالممات اور جزا و سزا متحقق ہو گئی اور وہ اپنی تکذیب اور عدم اطاعت پر جم گئے ﴿ فَذَرْهُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا﴾ ’’تو آپ ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیلنے میں چھوڑ دیں۔‘‘ یعنی باطل اقوال اور فاسد عقائد میں مشغول اپنے دین سے کھیلتے رہیں، کھاتے پیتے اور مزے اڑاتے رہیں ﴿ حَتّٰى یُلٰ٘قُوْا یَوْمَهُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’حتی کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس سے ملاقات کرلیں۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عبرت ناک سزا اور وبال تیار کر رکھا ہے جو ان کے باطل اقوال و عقائد میں مشغول رہنے کا انجام ہے۔
#
{43 ـ 44} ثم ذكر حال الخلق حين يلاقون اليوم الذي يوعدون، فقال: {يوم يَخْرُجونَ من الأجداثِ}؛ أي: القبور {سراعاً}: مجيبين لدعوة الداعي مهطِعين إليها، {كأنَّهم إلى نُصُبٍ يوفِضونَ}؛ أي: كأنَّهم إلى علم يَؤُمُّون ويقصدون؛ فلا يتمكَّنون من الاستعصاء على الدَّاعي ولا الالتواء عن نداء المنادي ، بل يأتون أذلاَّء مقهورين للقيام بين يدي ربِّ العالمين، {خاشعةً أبصارُهم ترهَقُهم ذِلَّةٌ}: وذلك أنَّ الذِّلَّة والقلق قد ملك قلوبهم، واستولى على أفئدتهم، فخشعتْ منهم الأبصار، وسكنتِ [منهم] الحركاتُ، وانقطعت الأصوات. فهذه الحال والمآل هو يومهم {الذي كانوا يوعدون}: ولا بدَّ من الوفاء بوعد الله.
[44,43] پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے حال کا ذکر فرمایا جب وہ اس دن کا سامنا کریں گے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا، چنانچہ فرمایا: ﴿ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ﴾ ’’اس دن یہ قبر وں سے نکلیں گے۔‘‘ ﴿ سِرَاعًا﴾ ’’دوڑتے ہوئے۔‘‘ پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بڑی سرعت سے اس پکار کی طرف لپکیں گے ﴿ كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ﴾ ’’جیسے وہ معین نشان کی طرف دوڑ رہےہوں۔‘‘ یعنی گویا کہ وہ ایک نشان کا قصد رکھتے ہیں، وہ اس داعی کی آواز کی نافرمانی کر سکیں گے نہ پکارنے والے کی پکار سے ادھر ادھر التفات کریں گے بلکہ ذلیل و مقہور ہو کر رب کائنات کے سامنے پیش ہوں گے۔ ﴿ خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ﴾ وہ اس طرح کہ ذلت اور اضطراب ان کے دلوں اور عقلوں پر غالب آ جائیں گے، ان کی نگاہیں جھک جائیں گی، تمام حرکات ساکن اور تمام آوازیں منقطع ہو جائیں گی ، پس یہ حال اور یہ انجام اس دن ہوگا ﴿ الْیَوْمُ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ﴾ ’’جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ‘‘اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کا پورا ہونا لا زمی امر ہے۔