آیت:
تفسیر سورۂ حاقہ
تفسیر سورۂ حاقہ
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 8 #
{الْحَاقَّةُ (1) مَا الْحَاقَّةُ (2) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ (3) كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ (4) فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ (5) وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ (6) سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ (7) فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ (8)}.
ثابت ہونے والی(1) کیا ہے ثابت ہونے والی؟(2) اور کس چیز نے خبر دی آپ کو کیا ہے ثابت ہونے والی؟(3) جھٹلایا تھا ثمود و عاد نے کھڑ کھڑانے والی کو(4) پس لیکن ثمود، تو ہلاک کیے گئے وہ حد سے گزر جانے والی (خوفناک آواز) سے(5) اور لیکن عاد! تو ہلاک کیے گئے وہ یخ ہوا، سرکش (آندھی) سے(6) مسلط کر دیا تھا (اللہ) نے اسے ان پر سات راتیں اور آٹھ دن جڑ کاٹ دینے (فنا کرنے) کے لیے پس تو دیکھتا اس قوم کو اس میں پچھاڑے (ہلاک کیے) ہوئے، گویا کہ وہ کھوکھلے تنے ہیں گری ہوئی کھجوروں کے(7) تو کیا تو دیکھتا ہے ان میں سے کوئی بھی باقی؟(8)
#
{1 ـ 3} {الحاقَّة}: من أسماء يوم القيامة؛ لأنَّها تحقُّ وتنزل بالخلق وتظهر فيها حقائق الأمور ومخبآت الصدور؛ فعظَّم تعالى شأنها وفخَّمه بما كرَّره من قوله: {الحاقَّة. ما الحاقَّة. وما أدراك ما الحاقَّة}؛ فإنَّ لها شأناً عظيماً وهولاً جسيماً. «ومن عظمتها أن الله أهلك الأمم المكذبة بها بالعذاب العاجل».
[3-1] ﴿ اَلْحَآقَّةُ﴾ یہ قیامت کے ناموں میں سے ہے، کیونکہ یہ ثابت اور واجب ہے اور مخلوق پر نازل ہو گی، اس میں تمام امور کے حقائق اور سینوں کے بھید ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان ﴿ اَلْحَآقَّةُۙ۰۰ مَا الْحَآقَّةُۚ۰۰ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحَآقَّةُ﴾ کے تکرار کے ذریعے سے اس کی عظمتِ شان اور تفخیم بیان فرمائی ہے۔ اس کی شان بہت عظیم ہے ۔
#
{4} ثم ذكر نموذجاً من أحوالها الموجودة في الدُّنيا المشاهدة فيها، وهو ما أحلَّه من العقوبات البليغة بالأمم العاتية، فقال: {كذَّبتْ ثمودُ}: وهم القبيلةُ المشهورةُ سكان الحِجْر الذين أرسل الله إليهم رسوله صالحاً عليه السلام؛ ينهاهم عمَّا هم عليه من الشِّرك ويأمرهم بالتوحيد، فردُّوا دعوته، وكذَّبوه، وكذَّبوا ما أخبر به من يوم القيامةِ، وهي القارعة التي تقرع الخَلْقَ بأهوالها، وكذلك عادٌ الأولى سكان حضرموت حين بَعَثَ الله إليهم رسوله هوداً عليه الصلاة والسلام، يدعوهم إلى عبادة الله وحده، فكذَّبوه، وأنكروا ما أخبر به من البعث، فأهلك الله الطائفتين بالهلاك العاجل.
[4] پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے احوال کے نمونے کا ذکر فرمایا جو دنیا میں موجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ سخت عقوبتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سرکش قوموں پر نازل فرمائیں، چنانچہ فرمایا: ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ﴾ ثمود ایک مشہور قبیلہ ہے جو حجر کے علاقے میں آباد تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول حضرت صالح uکو مبعوث کیا جو ان کو شرک سے روکتے تھے اور ان کو توحید کا حکم دیتے تھے، پس انھوں نے حضرت صالح کی دعوت کو ٹھکرا دیا، ان کو جھٹلایا اور قیامت کے روز کو جھٹلایا جس کے بارے میں حضرت صالحu نے خبر دی تھی اور وہی یہی کھڑکھڑانے والی ہے جو مخلوق کو اپنی ہولناکیوں سے ہلاک کر ڈالے گی۔ اسی طرح عاد اولیٰ کو ہلاک کر ڈالا جو حضر موت کے باشندے تھے جب اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اپنے رسول ہودu کو بھیجا جو انھیں اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے پس انھوں نے جناب ہود کی تکذیب کی اور قیامت کے متعلق حضرت ہود نے جو خبر دی تھی اس کا انکار کیا، پس اللہ تعالیٰ نے فوری عذاب کے ذریعے سے دونوں قوموں کو ہلاک کر ڈالا۔
#
{5} {فأمَّا ثمودُ فأهْلِكوا بالطَّاغية}: وهي الصيحة العظيمة الفظيعة، التي قطَّعتْ قلوبهم وزهقتْ لها أرواحهم، فأصبحوا موتى لا يُرى إلاَّ مساكِنُهم وجُثَثُهم.
[5] ﴿ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ﴾ ’’پس ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیے گئے۔‘‘ اور وہ ایک زبردست اور انتہائی کرخت چنگھاڑ تھی، جس نے ان کے دلوں کو پارہ پارہ کر دیا اور ان کی روحیں پرواز کر گئیں اور وہ مردہ پڑے رہ گئے کہ ان کی رہائش گاہوں اور ان کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
#
{6} {وأمَّا عادٌ فأُهْلِكوا بريح صرصرٍ}؛ أي: قويَّةٍ شديدةِ الهبوب لها صوتٌ أبلغ من صوت الرعد القاصف. {عاتيةٍ}؛ أي: عتت على خزَّانها على قول كثير من المفسرين، أو عتت على عادٍ، وزادت على الحدِّ كما هو الصحيح.
[6] ﴿ وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ ﴾ ’’اور رہے عاد تو انھیں نہایت تیز آندھی سے ہلاک کردیا گیا۔‘‘ یعنی بہت طاقت ور اور طوفانی ہوا جس کی آواز، بادل کی کڑک سے زیادہ تھی ﴿ عَاتِیَةٍ ﴾ بہت سے مفسرین کے قول کے مطابق یہ ہوا اپنے داروغوں کے سامنے سرکش تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ قوم عاد پر نہایت سرکشی کے ساتھ چلتی رہی اور حد سے بڑھ گئی۔ اور یہی صحیح قول یہی ہے۔
#
{7} {سخَّرَها عليهم سبعَ ليال وثمانية أيَّام حسوماً}؛ أي: نحساً وشرًّا فظيعاً عليهم فدمَّرتهم وأهلكتهم؛ {فترى القومَ فيها صَرْعى}؛ أي: هَلكى موتى، {كأنَّهم أعجازُ نخلٍ خاويةٍ}؛ أي: كأنهم جذوعُ النخل التي قد قُطِّعت رؤوسها الخاوية الساقط بعضها على بعض.
[7] ﴿ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَ یَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا ﴾ ’’اس نے اس کو سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا۔‘‘ یعنی یہ ایام نہایت منحوس، برے اور ان کے لیے انتہائی سخت تھے، اس ہوا نے ان کو تباہ و برباد کر کے ہلاک کر ڈالا ﴿ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى ﴾ یعنی آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ ہلاک ہو کر مردہ پڑے ہیں ﴿ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ﴾ یعنی گویا کہ وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہیں جن کے سروں کو کاٹ دیا گیا ہے اور وہ ایک دوسرے پر گرے پڑے ہیں۔
#
{8} {فهل ترى لهم من باقيةٍ}؟: وهذا استفهامٌ بمعنى النفي المتقرِّر.
[8] ﴿ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ ﴾ ’’پس کیا تو ان میں سے کسی کو بھی باقی دیکھتا ہے؟‘‘یہ استفہام نفیٔ متقرر کے معنیٰ میں ہے۔
آیت: 9 - 12 #
{وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ (9) فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَابِيَةً (10) إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ (11) لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (12)}.
اور ارتکاب کیا تھا فرعون نے اور جو اس سے پہلے تھے اور الٹ جانے والی(بستیوں والوں)نے گناہوں کا(9) پس انھوں نے نافرمانی کی اپنے رب کے رسول کی تو اس (رب) نے پکڑا ان کو پکڑنا نہایت سخت (10) بلاشبہ، جب طغیانی کی پانی نے تو سوار کیا ہم نے تمھیں کشتی میں (11) تاکہ کریں ہم اس (فعل) کو تمھارے لیے نصیحت اور (تاکہ) یاد رکھیں اسے کان یاد رکھنے والے (12)
#
{9 ـ 10} أي: وكذلك غير هاتين الأمَّتين الطاغيتين عاد وثمود جاء غيرهم من الطُّغاة العتاة؛ كفرعون مصر الذي أرسل الله إليه عبده ورسوله موسى بن عمران عليه الصلاة والسلام، وأراهم من الآيات البيِّنات ما تيقَّنوا بها الحقَّ، ولكن جحدوا وكفروا ظلماً وعلوًّا، وجاء من قبله من المكذِّبين {والمؤتفكات}؛ أي: قرى قوم لوطٍ؛ الجميع جاؤوا {بالخاطئة}؛ أي: بالفعلة الطاغية، وهو الكفر والتكذيب والظُّلم والمعاندة وما انضمَّ إلى ذلك من أنواع المعاصي والفسوق، {فعصَوْا رسولَ ربِّهم}: وهذا اسم جنس؛ أي: كلٌّ من هؤلاء كذَّبوا الرسول الذي أرسله الله إليهم ؛ فأخذ اللهُ الجميع {أخذةً رابيةً}؛ أي: زائدة على الحدِّ والمقدار الذي يحصُلُ به هلاكهم.
[10,9] اسی طرح ان دو سرکش قوموں، عاد و ثمود کے علاوہ بھی سرکش اور نافرمان لوگ آئے، جیسے فرعون مصر جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ بن عمرانu کو مبعوث کیا اور انھیں واضح نشانیاں دکھائیں جن کی بنا پر انھیں حق کا یقین آ گیا مگر انھوں نے ظلم اور تکبر سے ان کار کر دیا اور کفر کا رویہ اختیار کیا، اور اس سے پہلے بھی جھٹلانے والے آئے۔ ﴿ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ﴾ ’’اور الٹی ہوئی بستیوں والے۔‘‘ یعنی حضرت لوط u کی قوم کی بستیاں، سب گناہ کا کام کرتے تھے ﴿ بِالْخَاطِئَةِ﴾ یعنی سرکشی کے افعال کرتے تھے، اس سے مراد کفر، تکذیب، ظلم اور عناد ہے، نیز فسق و معاصی کی دیگر اقسام بھی اس میں شامل ہے۔ ﴿ فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّهِمْ﴾ یہ اسم جنس ہے ، یعنی ان تمام قوموں نے اپنے رسول کو جھٹلایا جو ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ ﴿ فَاَخَذَهُمْ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے ان سب کو پکڑ لیا ﴿ اَخْذَةً رَّابِیَةً﴾ یعنی حد اور مقدار سے بڑھ کر ان کی گرفت کی جس سے وہ تباہ و برباد ہو گئے۔
#
{11 ـ 12} ومن جملة هؤلاء قومُ نوح؛ أغرقهم الله في اليمِّ حين طغى الماءُ على وجه الأرض وعلا على مواضعها الرفيعة، وامتنَّ الله على الخلق الموجودين بعدَهم أن حملهم {في الجاريةِ}، وهي السفينة؛ في أصلاب آبائهم وأمهاتهم، الذين نجَّاهم الله؛ فاحمدوا الله واشكروا الذي نجَّاكم حين أهلك الطاغين، واعتبروا بآياتِهِ الدالَّة على توحيده، ولهذا قال: {لِنَجْعَلَها}؛ أي: الجارية، والمراد جنسها [لكم] {تذكرةً}: تذكِّركم أول سفينةٍ صُنِعَتْ وما قصَّتها، وكيف نجَّى الله عليها مَنْ آمن به واتَّبع رسوله وأهلك أهل الأرض كلَّهم؛ فإنَّ جنس الشيء مذكِّرٌ بأصله. وقوله: {وتَعِيها أذنٌ واعيةٌ}؛ أي: يعقلها أولو الألباب، ويعرفون المقصود منها ووجه الآية بها. وهذا بخلاف أهل الإعراض والغفلة وأهل البلادة وعدم الفطنة؛ فإنَّهم ليس لهم انتفاعٌ بآيات الله؛ لعدم وعيهم عن الله وتفكُّرهم بآياته.
[12,11] منجملہ ان قوموں کے، نوحuکی قوم بھی تھی جن کو اللہ تعالیٰ نے سمندر (کے سیلاب) میں غرق کر ڈالا جب پانی سرکشی کر کے زمین پر پھیل گیا اور بلند مقامات سے بھی بلند ہو گیا۔ حضرت نوحu کی سرکش قوم کے غرق ہونے کے بعد جو مخلوق موجود تھی اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا کہ ان کو سوار کیا﴿ فِی الْجَارِیَةِ﴾ ’’کشتی میں ‘‘جبکہ یہ اپنے آباء اور ماؤ ں کی صلب میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے طوفان سے نجات دی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو، اس کا شکرکرو جس نے تمھیں اس وقت نجات دی جب اس نے سرکش لوگوں کو ہلاک کر ڈالا ۔۔ اور اس کی آیات سے عبرت حاصل کرو جو اس کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ لِنَجْعَلَهَا﴾ ’’تاکہ ہم اس کو بنادیں۔‘‘ یعنی کشتی کواور اس سے مراد اسم جنس ہے، تمھارے لیے ﴿ تَذْكِرَةً﴾ ’’یادگار‘‘ جو تمھیں اولین کشتی کی صنعت اور اس کے قصے کی یاد دلاتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اس کشتی پر سوار ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور اپنے رسول کی اتباع کی اور روئے زمین کے دیگر تمام لوگوں کو ہلاک کر ڈالا، کیونکہ اشیاء کی جنس اپنی اصل کی یاد دلاتی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَّتَعِیَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ﴾ ’’اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔‘‘ یعنی خرد مند لوگ ہی اس کو یاد رکھتے ہیں اور اس سے مقصود کی معرفت اور اس کے ذریعے سے نشانی و معجزے کی وجہ معلوم کرتے ہیں۔ اور اہل غفلت، کند ذہن اور ذہانت سے محروم لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتوں کو یاد نہ رکھنے اور اس کی آیات میں غور و فکر نہ کرنے کے سبب سے آیات الٰہی سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
آیت: 13 - 18 #
{فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ (13) وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً (14) فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (15) وَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ (16) وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ (17) يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ (18)}.
پس جب پھونکا جائے گا صور میں پھونکنا ایک بار (13) اور اٹھائی جائے گی زمین اور پہاڑ، پس کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے وہ دونوں (مکمل) ریزہ ریزہ کر دیا جانا ایک ہی بار (14) پس اس دن واقع ہو گی واقع ہونے والی (قیامت) (15) اور پھٹ جائے گا آسمان پس وہ ہو گا اس دن کمزور (16) اور فرشتے (ہو ں گے) اس کےکناروں پر اور اٹھائیں گے عرش آپ کے رب کا اپنے اوپر اس دن آٹھ (فرشتے) (17) اس دن تم پیش کیے جاؤ گے (حساب کے لیے) نہیں چھپے گا تمھارے (رازوں) میں سے کوئی راز (18)
#
{13 ـ 18} لمَّا ذكر تعالى ما فعله بالمكذِّبين لرسله، وكيف جازاهم وعجَّل لهم العقوبة في الدُّنيا، وأنَّ الله نجَّى الرسل وأتباعهم؛ كان هذا مقدِّمةً للجزاء الأخرويِّ وتوفيةَ الأعمال كاملةً يوم القيامةِ، فذكر الأمور الهائلة التي تقع أمام يوم القيامةِ، وأنَّ أوَّل ذلك أنَّه ينفخ إسرافيل {في الصور} ـ إذا تكاملتِ الأجسادُ نابتةً ـ نفخةً واحدةً؛ فتخرج الأرواح، فتدخلُ كلُّ روح في جسدها؛ فإذا الناس قيامٌ لربِّ العالمين، {وحُمِلَتِ الأرضُ والجبالُ فدُكَّتا دكةً واحدةً}؛ أي: فتِّتت الجبال، واضمحلَّت وخلطت بالأرض، ونُسِفَتْ عليها ، فكان الجميع قاعاً صفصفاً، لا ترى فيها عوجاً ولا أمتاً. هذا ما يُصنع بالأرض وما عليها، وأمَّا ما يُصنع بالسماء؛ فإنَّها تضطرب وتمور وتشقَّق ويتغيَّر لونُها، وتهي بعد تلك الصلابة والقوة العظيمة، وما ذاك إلا لأمرٍ عظيم أزعجها وكربٍ جسيم هائل أوهاها وأضعفها، {والمَلَكُ}؛ أي: الملائكة الكرام {على أرجائِها}؛ أي: على جوانب السماء وأركانها، خاضعين لربِّهم، مستكينين لعظمته، {ويحمِلُ عرشَ ربِّك فوقَهم يومئذٍ ثمانيةٌ}: أملاكٌ في غاية القوة، إذا أتى للفصل بين العباد والقضاء بينهم بعدله وقسطه وفضله، ولهذا قال: {يومئذٍ تُعْرَضون}: على الله، {لا تَخْفى منكم خافيةٌ}: لا من أجسادكم وذواتكم ، ولا من أعمالكم وصفاتكم؛ فإنَّ الله تعالى عالمُ الغيب والشهادة، ويحشُرُ العباد حفاةً عراةً غُرلاً في أرض مستويةٍ يسمِعُهم الدَّاعي ويَنْفُذُهم البصرُ، فحينئذٍ يجازيهم بما عملوا، ولهذا ذَكَرَ كيفيةَ الجزاءِ، فقال:
[18-13] جب اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا، انھیں کیسا بدلہ دیا، دنیا کے اندر ہی ان پر عذاب بھیج دیا اور اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو بچا لیا ۔یہ قیامت کے روز اخروی جزا اور اعمال کے کامل بدلے کا مقدمہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بہت ہولناک واقعات کا ذکر فرمایا ہے جو قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوں گے۔ ان میں سے اولین واقعہ یہ ہو گا کہ اسرافیل ﴿ فِی الصُّوْرِ﴾ صور پھونکیں گے جب اجساد مکمل ہوجائیں گے﴿نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ﴾ ’’ایک دفعہ پھونک ماری جائے گی۔‘‘ پس روحیں نکل آئیں گی اور ہر روح اپنے جسد میں داخل ہو جائے گی، تب تمام لوگ رب کائنات کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ ﴿وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْؔجِبَالُ فَدُكَّـتَا دَؔكَّةً وَّاحِدَةً﴾ یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے، وہ نیست و نابود ہو کر رزق خاک ہو جائیں گے ، یعنی ان کو ڈھا کر زمین میں برابر کر دیا جائے گا، چنانچہ تمام زمین ہموار میدان بن جائے گی، آپ اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھیں گے۔ یہ تو زمین اور اس پر رہنے والوں کے ساتھ ہو گا۔ رہا وہ معاملہ جو آسمان کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ یہ ہو گا کہ وہ متحرک اور متموج ہو کر پھٹ جائے گا، اس کا رنگ متغیر ہو جائے گا اور آسمان اپنی صلابت اور عظیم قوت کے بعد کمزور ہو جائیں گے، یہ سب کچھ ایک عظیم امر کی بنا پر جو ان کو ہلا کر رکھ دے گا اور بہت بڑے تکلیف دہ اور ہولناک معاملے کے سبب سے ہو گا جو ان کو کمزور کر دے گا۔ ﴿وَّالْمَلَكُ﴾ اور مکرم فرشتے ﴿عَلٰۤى اَرْجَآىِٕهَا﴾ آسمان کی تمام جوانب اور کناروں پر اپنے رب کے سامنے سرافگندہ اور اس کی عظمت کے سامنے فروتن ہوں گے ﴿وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ﴾ اور تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے جو انتہائی طاقت ور ہوں گے (یہ اس وقت ہو گا) جب رب تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان، اپنے عدل و انصاف اور اپنے فضل و کرم کے ساتھ، فیصلے کرنے کے لیے آئے گا، اس لیے فرمایا: ﴿یَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ﴾ اس روز تم اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے۔ ﴿لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِیَةٌ﴾ تمھارے اجساد اور ذوات چھپ سکیں گے نہ تمھارے اعمال اور اوصاف چھپ سکیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ غائب اور موجود سب کا علم رکھتا ہے۔ تمام بندے ننگے پاؤ ں، ننگے جسم اور غیر مختون حالت میں، ایک ہموار میدان میں جمع کیے جائیں گے، پکارنے والا ان کو اپنی آواز سنا سکے گا اور نگاہ ان سب تک پہنچ سکے گی، اس وقت اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کی جزا دے گا اس لیے جزا کی کیفیت کا ذکر کیا۔
آیت: 19 - 24 #
{فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ (19) إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ (20) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (21) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (22) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ (23) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ (24)}.
پس لیکن جو شخص کہ دیا گیا وہ اپنا نامۂ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں تو وہ کہے گا، لو پڑھو تم میرا نامۂ اعمال(19) بلاشبہ مجھے یقین تھا کہ بے شک میں ملنے والا ہوں اپنے حساب سے (20) پس وہ ہو گا پسندیدہ زندگی میں (21) (یعنی )بہشت بریں میں (22) اس کے پھل قریب ہوں گے (23) (کہا جائے گا:) کھاؤ اور پیو خوش گوار، بدلے ان (نیک اعمال) کے جو آگے بھیجے تم نے ایام گزشتہ میں (24)
#
{19 ـ 20} وهؤلاء هم أهل السعادة؛ يُعْطَوْن كُتُبهم التي فيها أعمالهم الصالحة بأيمانهم تمييزاً لهم وتنويهاً بشأنهم ورفعاً لمقدارهم، ويقول أحدُهم عند ذلك من الفرح والسرور ومحبَّة أن يطَّلع الخلق على ما منَّ الله عليه به من الكرامة: {هاؤمُ اقرؤوا كتابِيَهْ}؛ أي: دونكم كتابي فاقرؤوه؛ فإنَّه يبشِّر بالجنَّات وأنواع الكرامات ومغفرة الذُّنوب وستر العيوب، والذي أوصلني إلى هذه الحال ما منَّ الله به عليَّ من الإيمان بالبعث والحساب والاستعداد له بالممكن من العمل، ولهذا قال: {إنِّي ظننتُ أنِّي ملاقٍ حسابِيَهْ}؛ أي: أيقنتُ؛ فالظنُّ هنا بمعنى اليقين.
[20,19] یہی لوگ اہل سعادت ہوں گے، ان کو ان کے اعمال نامے، جن میں ان کے نیک اعمال درج ہوں گے، ان کے امتیاز، ان کی شان اور قدر بلند کے لیے، ان کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ اس وقت ان میں سے کوئی فرحت و سرور، اور اس خواہش کے ساتھ کہ مخلوق پر ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس قدر اکرام و تکریم سے سرفراز کیا ہے تو پکار اٹھے گا: ﴿ هَآؤُمُ اقْ٘رَءُوْا كِتٰبِیَهْ﴾ یعنی یہ لو میری کتاب اور اسے پڑھو، یہ کتاب جنتوں، اکرام و تکریم، گناہوں کی مغفرت اور عیوب کو ڈھانپنے کی بشارت دیتی ہے اور جس چیز نے مجھے اس مقام پر پہنچایا وہ قیامت اور حساب کتاب پر ایمان ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نوازا اور ایسے اعمال کے ذریعے سے قیامت کے دن کے لیے تیاری کی توفیق دی جو امکان اور استطاعت میں ہیں، اسی لیے فرمایا: ﴿ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰ٘قٍ حِسَابِیَهْ﴾ ’’ مجھے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ضرور ملے گا۔‘‘ یہاں (ظَنّ) یقین کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
#
{21 ـ 24} {فهو في عيشةٍ راضيةٍ}؛ أي: جامعة لما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين وقد رضوها ولم يختاروا عليها غيرها، {في جنةٍ عاليةِ}؛ أي: المنازل والقصور عالية المحلِّ، {قطوفُها دانيةٌ}؛ أي: ثمرها وجناها من أنواع الفواكه قريبةٌ سهلة التناول على أهلها، ينالها أهلُها قياماً وقعوداً ومتَّكئين، ويقال لهم إكراماً: {كلوا واشربوا}؛ أي: من كلِّ طعام لذيذٍ وشرابٍ شهيٍّ، {هنيئاً}؛ أي: تامًّا كاملاً من غير مكدِّرٍ ولا منغِّصٍ. وذلك الجزاء حصل لكم {بما أسلفْتُم في الأيَّام الخالية}: من الأعمال الصالحة ـ وترك الأعمال السيِّئة ـ من صلاةٍ وصيام وصدقةٍ وحجٍّ وإحسانٍ إلى الخلق وذكر لله وإنابةٍ إليه؛ فالأعمال جعلها الله سبباً لدخول الجنة ومادَّةً لنعيمها وأصلاً لسعادتها.
[24-21] ﴿ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ﴾ ’’پس وہ ایک دل پسند زندگی میں ہوگا۔‘‘ یعنی جو ان تمام چیزوں پر مشتمل ہو گی جن کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی، ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اس زندگی سے راضی ہوں گے اور اس کے بدلے کسی اور چیز کو منتخب نہیں کریں گے۔ ﴿ فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍ﴾ بلند رہائش گاہوں اور بلند محلوں والی جنت میں ہوں گے﴿ قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ﴾ اس کے پھل اور محتلف انواع کے میوے بہت قریب ہوں گے۔ اہل جنت کے لیے ان کا حاصل کرنا بہت آسان ہو گا۔ اہل جنت، کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے، ہر حالت میں ان کو حاصل کر سکیں گے۔ اکرام و تکریم کے طور پر ان سے کہا جائے گا: ﴿ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا﴾ ہر قسم کا لذیذ کھانا اور مزیدار مشروب کھاؤ اور پیو۔ ﴿ هَنِیْٓــًٔۢا﴾ کسی تکدر اور ناخوشگواری کے بغیر کامل طریقے سے کھاؤ اور پیو۔ یہ جزا تمھیں اس سبب سے حاصل ہوئی ہے ﴿ بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ﴾ جو تم نے اعمال صالحہ، نماز، روزہ زکاۃ، حج مخلوق کے ساتھ حسن سلوک، اللہ تعالیٰ کا ذکر، اس کی طرف انابت اور برے اعمال ترک کیے، پس اعمال کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل ہونے کا سبب، اس کی نعمتوں کا مادہ اور اس کی سعادت کی بنیاد بنایا ہے۔
آیت: 25 - 37 #
{وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَالَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ (25) وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ (26) يَالَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ (27) مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ (28) هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ (29) خُذُوهُ فَغُلُّوهُ (30) ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ (31) ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ (32) إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ (33) وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (34) فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ (35) وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ (36) لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ (37)}.
اور لیکن جو شخص کہ دیا گیا وہ اپنا نامۂ اعمال اپنے بائیں ہاتھ میں تو وہ کہے گا، اے کاش! نہ دیا جاتا میں اپنا نامہ ٔ اعمال (25) اور نہ جانتا میں، کیا ہے میرا حساب؟ (26) اے کاش! ہوتی وہ (موت) فیصلہ کر دینے والی (27) نہیں فائدہ دیا مجھے میرے مال نے (28) فنا ہو گئی مجھ سے میری سلطنت(29) (حکم ہو گا) پکڑو اس کو، پس طوق ڈال دو اسے (30) پھر دہکتی (بھڑکتی) آگ میں جھونک دو اس کو (31) پھر ایک زنجیر میں کہ لمبائی اس کی ستر ہاتھ ہے، پس (اس میں) جکڑ (یا پَرُو) دو اسے (32) بلاشبہ وہ تھا، نہیں ایمان لاتا تھا اللہ عظمت والے پر (33) اور نہ وہ شوق دلاتا تھا کھانا کھلانے پر، مسکین کو (34) پس نہیں ہے اس کے لیے آج یہاں کوئی غم خوار دوست (35) اور نہیں کوئی کھانا (اس کے لیے) سوائے زخموں کے دھووَن کے (36) نہیں کھائیں گے اس کو مگر گناہ گار ہی (37)
#
{25 ـ 29} هؤلاء هم أهل الشقاء؛ يعطَوْن كتبهم المشتملة على أعمالهم السيِّئة بشمالهم؛ تمييزاً لهم وخزياً وعاراً وفضيحةً، فيقول أحدُهم من الهمِّ والغمِّ والحزن: {يا ليتني لم أوتَ كتابِيَهْ}؛ لأنَّه يبشر بدخول النار والخسارة الأبديَّة، {ولم أدرِ ما حسابِيَهْ}؛ أي: ليتني كنت نسياً منسيًّا ولم أُبْعَثْ وأحاسب، ولهذا قال: {يا ليتَها كانتِ القاضيةَ}؛ أي: يا ليت موتتي هي الموتة التي لا بَعْثَ بعدها. ثم التفت إلى ماله وسلطانه؛ فإذا هو وبالٌ عليه لم يقدِّم منه لآخرته ولا ينفعه لو افتدى به من العذاب شيئاً ، فيقول: {ما أغنى عنِّي مالِيَهْ}؛ أي: ما نفعني لا في الدُّنيا ـ لم أقدِّم منه شيئاً ـ ولا في الآخرة؛ قد ذهب وقت نفعه، {هلك عني سُلطانِيَهْ}؛ أي: ذهب واضمحلَّ، فلم تنفع الجنود ولا الكثرة ولا العَدَدُ ولا العُدَدُ ولا الجاه العريض، بل ذهب ذلك كله أدراج الرياح، وفاتت بسببه المتاجر والأرباح، وحضرت بدله الهموم والغموم والأتراح.
[29-25] یہی وہ لوگ ہیں جو بدبخت ہیں جن کو امتیاز، رسوائی، عار اور فضیحت کے طور پر ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے جن میں اعمال بد درج ہوں گے، پس ان میں سے کوئی حزن و غم سے کہے گا: ﴿ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْ﴾ ’’اے کاش مجھے کتاب نہ دی گئی ہوتی۔‘‘ کیونکہ یہ کتاب جہنم میں داخلے اور ابدی خسارے کی ’’خوشخبری‘‘ سناتی ہے۔ ﴿ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْ﴾ اور کاش میں بھولا بسرا ہو گیا ہوتا، مجھے دوبارہ زندہ کیا جاتا نہ مجھ سے حساب لیا جاتا، اس لیے وہ کہے گا: ﴿ یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَ﴾ کاش میری موت، ایسی موت ہوتی جس کے بعد مجھے دوبارہ زندہ نہ کیا جاتا۔ پھر وہ اپنے مال اور سلطنت کی طرف التفات کرے گا تو وہ اس کے لیے وبال ہی وبال ہوں گے، اس نے اس میں سے کچھ بھی آگے روانہ نہ کیا، (اب) یہ مال، خواہ اسے فدیے میں دے دے، اسے عذاب سے نہیں بچا سکے گا، پس وہ کہے گا ﴿ مَاۤ اَغْنٰؔى عَنِّیْ مَالِیَهْ﴾ یعنی اس مال نے مجھے دنیا میں کوئی فائدہ نہیں دیا کیونکہ میں نے اس میں سے کچھ بھی آگے نہیں بھیجا اور نہ یہ مال آخرت ہی میں میرے کام آیا کیونکہ اس کے نفع مند ہونے کا وقت گزر گیا۔ ﴿ هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْ﴾ یعنی سلطنت چلی گئی اور مٹ گئی، پس لشکروں نے کوئی فائدہ دیا نہ کثرت اور تعداد نے، ساز و سامان کوئی کام آیا نہ جاہ و جلال بلکہ سب کچھ رائیگاں گیا، اس کے سبب سے تمام منافع کھو گئے اور اس کے بدلے میں غم و ہموم اور محتاجی نے آ گھیرا۔
#
{30 ـ 37} فحينئذٍ يؤمَر بعذابه، فيقال للزَّبانية الغلاظ الشداد: {خُذوه فغُلُّوه}؛ أي: اجعلوا في عنقه غلًّا يخنقه، {ثم الجَحيم صَلُّوه}؛ أي: قلِّبوه على جمرها ولهبها، {ثم في سلسلةٍ ذَرْعُها سبعون ذراعاً}: من سلاسل الجحيم في غاية الحرارة، {فاسْلُكوه}؛ أي: انظموه فيها بأن تدخل في دبره وتخرج من فمه ويعلَّق فيها فلا يزال يعذَّب هذا العذاب الفظيع؛ فبئس العذاب والعقاب، وواحسرة له من التوبيخ والعتاب؛ فإنَّ السبب الذي أوصله إلى هذا المحلِّ {إنَّه كان لا يؤمن بالله العظيم}: بأن كان كافراً بربِّه معانداً لرسله رادًّا ما جاؤوا به من الحقِّ، {ولا يحضُّ على طعام المسكين}؛ أي: ليس في قلبه رحمةٌ يرحم بها الفقراء والمساكين؛ فلا يطعمهم من ماله ولا يحضُّ غيره على إطعامهم؛ لعدم الوازع في قلبه، وذلك لأنَّ مدار السعادة ومادَّتها أمران: الإخلاص لله الذي أصله الإيمان بالله، والإحسان إلى الخلق بجميع وجوه الإحسان، الذي من أعظمها دفع ضرورة المحتاجين بإطعامهم ما يتقوَّتون به، وهؤلاء لا إخلاص ولا إحسان؛ فلذلك استحقُّوا ما استحقُّوا. {فليس له اليومَ ها هنا}؛ أي: يوم القيامة {حميمٌ}؛ أي: قريب أو صديق يشفع له لينجو من عذاب الله أو يفوز بثوابه. {ولا تنفعُ الشفاعة عندَه إلاَّ لمن أذن له}، {ما للظالمين من حميمٍ ولا شفيع يُطاع}. وليس له {طعامٌ إلاَّ من غِسْلينَ}: وهو صديدُ أهل النار، الذي هو في غاية الحرارة والمرارة ونتن الريح وقبح الطعم ، لا يأكل هذا الطعامَ الذميم {إلاَّ الخاطئونَ}، الذين أخطؤوا الصراط المستقيم، وسلكوا كلَّ طريق يوصِلُهم إلى الجحيم ؛ فلذلك استحقُّوا العذاب الأليم.
[37-30] پس اس وقت اسے عذاب میں ڈال دینے کا حکم دیا جائے گا، انتہائی سخت اور نہایت درشت خو فرشتوں سے کہا جائے گا: ﴿ خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ﴾ یعنی اس کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو جو اس کا گلا گھونٹ دے۔ ﴿ ثُمَّ الْؔجَحِیْمَ صَلُّوْهُ﴾ پھر جہنم کے انگاروں اور اس کے شعلوں پر اسے الٹ پلٹ کرو ، ﴿ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا ﴾’’پھر زنجیر سے جس کی ناپ سترگز ہے۔‘‘ یعنی انتہائی حرارت میں، جہنم کی زنجیروں کے ساتھ ﴿فَاسْلُكُوْهُ﴾ ’’اسے جکڑ دو‘‘ یعنی ان زنجیروں میں پرو دو، وہ اس طرح کہ زنجیروں کو اس کی دبر میں داخل کر کے منہ کی طرف سے نکالا گیا ہو اور پھر ان زنجیروں میں لٹکادیا گیا ہو، پس اسے ہمیشہ یہ انتہائی برا عذاب ملتا رہے گا۔ یہ بہت برا عذاب اور بہت بری سزا ہے، ہائے اس کے لیے حسرت ہے اس زجر و توبیخ اور عتاب پر۔ وہ سبب جس نے اسے مقام پر پہنچایا یہ ہے کہ ﴿ اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ﴾ وہ اپنے رب کا انکار کرنے والا اس کے رسولوں سے عناد رکھنے والا اور رسول جو حق لے کر آئے ہیں اس کو ٹھکرانے والا تھا ﴿ وَلَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ﴾ یعنی اس کے دل میں رحم نہیں تھا کہ اس بنا پر فقراء اور مساکین پر رحم کرتا۔ وہ اپنے مال میں سے ان کو کھانا کھلاتا ہے نہ دوسروں کو ترغیب دیتا تھا کہ وہ ان کو کھانا کھلائیں کیونکہ اس کا دل ملامت کرنے والے ضمیر سے خالی تھا۔ سعادت اور اس کے مادے کا دار و مدار دو امور پر ہے۔ (۱): اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص جس کی بنیاد ایمان باللہ ہے۔ (۲): احسان کی تمام اقسام کے ذریعے سے مخلوق پر احسان کرنا جن میں سے سب سے بڑا احسان محتاجوں کو کھانا کھلا کر ان کی ضرورت پوری کرنا ہے … مگر ان لوگوں کے پاس اخلاص ہے نہ احسان، اس لیے وہ اسی چیز کے مستحق ہیں جس کا استحقاق انھوں نے ثابت کیا ہے۔ ﴿ فَ٘لَ٘یْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا﴾ ’’پس نہیں ہے آج یہاں اس کے لیے۔‘‘ یعنی قیامت کے دن ﴿حَمِیْمٌ ﴾ کوئی قریبی رشتہ دار یا کوئی دوست جو اس کی سفارش کرے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے یا اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَ٘نْ٘فَ٘عُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ﴾ (سبا: 34؍23) ’’اللہ کے ہاں، کسی کے لیے سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لیے جس کے بارے میں خود سفارش کی اجازت دے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَ٘فِیْعٍ یُّطَاعُ﴾ (المؤمن:40؍18) ’’ظالموں کا کوئی جگری دوست ہو گا نہ کوئی سفارش کرنے والا کہ اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘ ﴿ وَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْ٘نٍ﴾ ’’اور نہ غسلین کے سوا ان کا کوئی کھانا ہے۔‘‘ یہ اہل جہنم کی پیپ ہے جو حرارت، کڑواہٹ بدبو اور بدذائقہ ہونے میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہو گی۔ نہیں کھائیں گے یہ قابل مذمت کھانا ﴿ اِلَّا الْخَاطِــُٔوْنَ﴾ مگر خطاکار ہی جو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور ہر اس راستے پر چل پڑے جو انھیں جہنم تک پہنچاتا ہے، اس لیے وہ درد ناک عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
آیت: 38 - 52 #
{فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ (38) وَمَا لَا تُبْصِرُونَ (39) إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (40) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ (41) وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (42) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47) وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ (48) وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُكَذِّبِينَ (49) وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ (50) وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ (51) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (52)}.
سو قسم کھاتا ہوں میں ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو (38) اور ان کی جو نہیں دیکھتے تم(39) بلاشبہ یہ (قرآن) البتہ قول ہے رسول کریم کا (40) اور نہیں ہے یہ(قرآن)قول کسی شاعر کا بہت ہی کم ایمان لاتے ہو تم (41) اور نہیں ہے (یہ) قول کسی کاہن کا، بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو تم (42) (یہ تو) نازل شدہ ہے رب العالمین کی طرف سے (43) اور اگر وہ (رسول) گھڑ کر لگا دیتا ہمارے ذمے بعض باتیں (44) تو البتہ پکڑ لیتے ہم اس کا دایاں ہاتھ (45) پھر البتہ ہم کاٹ دیتے اس کی رگ دل(شہ رگ) (46) پھر نہ ہوتا تم میں سے کوئی ایک بھی (ہمیں) اس سے روکنے والا (47) اور بلاشبہ وہ (قرآن) البتہ نصیحت ہے متقی لوگوں کے لیے (48) اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک کچھ تم میں سے جھٹلانے والے ہیں(49) اور یقیناً وہ (جھٹلانا) البتہ حسرت ہو گا کافروں پر (50) اور بلاشبہ وہ البتہ یقینی حق ہے (51) پس تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو عظمت والا ہے (52)
#
{38 ـ 43} أقسم تعالى بما يُبْصِرُ الخلقُ من جميع الأشياء وما لا يبصِرونه، فدخل في ذلك كلُّ الخلق، بل دخل في ذلك نفسُه المقدَّسة، على صدق الرسول بما جاء به من هذا القرآن الكريم، وأنَّ الرسول الكريم بلَّغه عن الله تعالى، ونزَّه اللهُ رسولَه عمَّا رماه به أعداؤه من أنَّه شاعرٌ أو ساحرٌ، وأنَّ الذي حملهم على ذلك عدم إيمانهم وتذكُّرهم؛ فلو آمنوا وتذكَّروا ما ينفعهم ويضرُّهم، ومن ذلك أن ينظروا في حال محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - ويرمُقوا أوصافه وأخلاقه ليروا أمراً مثل الشمس يدلُّهم على أنَّه رسول الله حقًّا وأن ما جاء به {تنزيلٌ من ربِّ العالمين}، لا يَليقُ أن يكون قولاً للبشر، بل هو كلامٌ دالٌّ على عظمة من تكلَّم به وجلالة أوصافه وكمال تربيته للخلق وعلوِّه فوق عباده. وأيضاً؛ فإنَّ هذا ظن منهم بما لا يليق بالله وحكمته.
[43-38] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی قسم کھائی ہے جنھیں مخلوق دیکھ سکتی ہے اور جنھیں نہیں دیکھ سکتی، ان میں تمام مخلوق داخل ہے بلکہ اس کا نفس مقدس بھی شامل ہے ۔ یہ قسم رسول اللہe اور اس قرآن کی صداقت پر کھائی ہے جسے آپ لے کر آئے ہیں، نیز اس بات پر کہ رسول کریم e نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان تمام بہتان طرازیوں سے … مثلاً: یہ کہ آپ شاعر ہیں یا آپ جادوگر ہیں … منزہ قرار دیا ہے۔ ان بہتان طرازیوں پر جس چیز نے ان کو آمادہ کیا، وہ ہے ان کا عدم ایمان اور عدم تفکر، چنانچہ اگر وہ ایمان لائے ہوتے اور انھوں نے غور و فکر کیاہوتا تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ کیا چیز انھیں فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز نقصان دیتی ہے، اس میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ وہ نبی ٔکریمe کے احوال میں غور کریں، آپ کے اوصاف اور اخلاق کو گہری نظر سے دیکھیں تاکہ ان کو ایسا معاملہ نظر آئے جو سورج کی مانند روشن ہے جو اس حقیقت کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہے اور وہ بشر کا قول نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ایسا کلام ہے جو کلام کرنے والے کی عظمت، اس کے اوصاف کی جلالت، بندوں کے لیے اس کے کمال تربیت اور بندوں پر اس کے بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے، نیز یہ ان کی طرف سے ایسا گمان ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت کے لائق نہیں۔
#
{44 ـ 47} فإنه {لو تقوَّل}: عليه وافترى {بعض الأقاويل}: الكاذبة، {لأخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتينَ}: وهو عرقٌ متصلٌ بالقلب إذا انقطع هلك منه الإنسان؛ فلو قدِّر أنَّ الرسول ـ حاشا وكلا ـ تقوَّل على الله؛ لعاجَلَه بالعقوبة وأخذَه أخذَ عزيزٍ مقتدرٍ؛ لأنَّه حكيمٌ قديرٌ على كلِّ شيءٍ ؛ فحكمته تقتضي أن لا يُمْهِلَ الكاذب عليه الذي يزعم أنَّ الله أباح له دماء مَنْ خالفه وأموالهم، وأنَّه هو وأتباعه لهم النجاةُ، ومَنْ خالفَه؛ فله الهلاكُ. فإذا كان الله قد أيَّد رسوله بالمعجزات، وبرهن على صدق ما جاء به بالآيات البيِّنات، ونصره على أعدائه، ومكَّنه من نواصيهم؛ فهو أكبر شهادةٍ منه على رسالته. وقوله: {فما منكم من أحدٍ عنه حاجزينَ}؛ أي: لو أهلكه؛ ما امتنعَ هو بنفسه ولا قَدَرَ أحدٌ أن يمنعه من عذاب الله.
[47-44] اگر اس رسول نے ہم پر کوئی جھوٹ گھڑا ہوتا ﴿ بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ﴾ اور بعض جھوٹی باتیں بنائی ہوتیں۔ ﴿ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِۙ۰۰ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ﴾ ’’تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور رگ گردن کاٹ دیتے۔‘‘ (وَتِیْنٌ )وہ رگ ہے جو دل کے قریب ہوتی ہے اگر وہ کٹ جائے تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے … حاشا و کلا … کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو فوراً سزا دیتا اور آپ کو اس طرح پکڑتا جس طرح ایک غالب اور قدرت رکھنے والی ہستی پکڑتی ہے کیونکہ وہ حکمت والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بارے میں جھوٹ گھڑنے والے کو مہلت نہ دے جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خون اور اموال اس کے لیے مباح ٹھہرا دیے ہیں جو اس کی مخالفت کریں، نجات صرف اسی کے لیے اور اس کے پیروکاروں کے لیے ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد فرمائی اور جو کچھ لے کر وہ مبعوث ہوا اس کی صداقت پر واضح نشانیوں کے ساتھ دلائل و براہین دیے، اس کے دشمنوں کے خلاف اسے فتح و نصرت سے نوازا اور ان کی پیشانیاں اس کے قبضے میں دے دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی رسالت پر سب سے بڑی گواہی ہے۔ ﴿ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰؔجِزِیْنَ﴾ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہلاک کرنا چاہے تو آپ خود اس کی ہلاکت سے بچ سکتے ہیں نہ کوئی اس پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔
#
{48} {وإنَّه}؛ أي: القرآن الكريم، {لتذكرةٌ للمتَّقين}: يتذكَّرون به مصالح دينهم ودنياهم، فيعرفونها ويعملون عليها، يذكِّرهم العقائد الدينيَّة والأخلاق المرضيَّة والأحكام الشرعيَّة، فيكونون من العلماء الربانيِّين، والعباد العارفين، والأئمَّة المهديِّين.
[48] ﴿ وَاِنَّهٗ﴾ بے شک یہ قرآن کریم ﴿ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ۠﴾ ’’پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘ وہ اپنے دین و دنیا کے مصالح کے بارے میں اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ پس وہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں، چنانچہ وہ ان کو عقائد دینیہ، اخلاق حَسَینہ، اور احکام شرعیہ کی یاد دہانی کراتا ہے۔ پس وہ علمائے ربانی، عباد عارفین اور ائمۂ مہدیین بن جاتے ہیں۔
#
{49} {وإنَّا لَنَعْلَمُ أنَّ منكم مكذِّبين}: به، وهذا فيه تهديدٌ ووعيدٌ للمكذِّبين، وأنَّه سيعاقِبُهم على تكذيبهم بالعقوبة البليغة.
[49] ﴿ وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِیْنَ﴾ ’’اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اسے جھٹلاتے ہیں۔‘‘ اس میں رسول کو جھٹلانے والے اور تکذیب کرنے والوں کے لیے وعید اور تہدید ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ان کو سخت عقوبت کے ذریعے سے سزا دے گا۔
#
{50} {وإنَّه لحسرةٌ على الكافرين}: فإنَّهم لما كفروا به ورأوا ما وَعَدَهم به؛ تحسَّروا إذ لم يهتدوا به ولم ينقادوا لأمره، ففاتهم الثواب، وحصلوا على أشدِّ العذاب، وتقطَّعت بهم الأسباب.
[50] ﴿ وَاِنَّهٗ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ﴾ ’’اور یہ کافروں کے لیے حسرت ہے۔‘‘ چونکہ انھوں نے اس کا انکار کیا تھا اس نے ان کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ انھوں نے دیکھ لیا، اس لیے وہ حسرت کا اظہار کریں گے کہ انھوں نے اس سے راہنمائی حاصل نہ کی اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، پس وہ ثواب سے محروم ہو کر شدید ترین عذاب میں مبتلا ہو گئے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہو گئے۔
#
{51} {وإنَّه لحقُّ اليقين}؛ أي: أعلى مراتب العلم؛ فإنَّ أعلى مراتب العلم اليقين، وهو العلم الثابت الذي لا يتزلزل ولا يزول. واليقين مراتبه ثلاثةٌ، كلُّ واحدة أعلى مما قبلها: أولُها علم اليقين، وهو العلمُ المستفاد من الخبر. ثم عينُ اليقين، وهو العلم المدرَك بحاسة البصر. ثم حقُّ اليقين، وهو العلم المدرَك بحاسَّة الذوق والمباشرة. وهذا القرآن بهذا الوصف؛ فإنَّ ما فيه من العلوم المؤيَّدة بالبراهين القطعيَّة وما فيه من الحقائق والمعارف الإيمانيَّة يحصُلُ به لمن ذاقه حقُّ اليقين.
[51] ﴿ وَاِنَّهٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ﴾ ’’اور کچھ شک نہیں کہ یہ برحق ہے۔‘‘ یعنی علم کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے کیونکہ علم کا بلند ترین مرتبہ یقین ہے اور یقین، علم ثابت کو کہا جاتا ہے جو کبھی متزلزل ہوتا ہے نہ زائل ہوتا ہے۔ یقین کے تین مراتب ہیں ان میں سے ہر مرتبہ ما قبل مرتبے سے بلند تر ہے: اول :علم الیقین وہ علم ہے جو خبر سے مستفاد ہوتا ہے۔ ثانی: عین الیقن وہ علم ہے جس کا ادراک حاسۂ بصر سے ہوتا ہے۔ ثالث: حق الیقین وہ علم جس کا ادراک حاسۂ ذوق و لمس سے ہوتا ہے۔ اس قرآن میں حق الیقین کا وصف پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں جو علوم مذکور ہیں قطعی دلائل و براہین سے ان کی تائید ہوتی ہے اور اس میں جو حقائق اور معارف ایمانی ہیں وہ اسے حاصل ہوتے ہیں جس نے حق الیقین کا ذائقہ چکھا ہے۔
#
{52} {فسبِّح باسم ربِّك العظيم}؛ أي: نزِّههُ عما لا يَليق بجلاله، وقدِّسْه بذِكْرِ أوصاف جلاله وجماله وكماله.
[52] ﴿ فَ٘سَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ﴾ ’’پس تو اپنے رب عظیم کی پاگی بیان کرو۔‘‘ یعنی اسے ان اوصاف سے منزہ گردانیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں، اس کے اوصاف جلال و جمال اور اوصاف کمال کا ذکر کر کے اس کی تقدیس بیان کریں۔