آیت:
تفسیر سورۂ اعراف
تفسیر سورۂ اعراف
آیت: 1 - 7 #
{المص (1) كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (2) اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (3) وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ (4) فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا إِلَّا أَنْ قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (5) فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ (6) فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ (7)}.
الٓـمٓصٓ(1) (یہ) کتاب،اتاری گئی ہے آپ کی طرف،پس نہ ہو آپ کے سینے میں تنگی اس سے،تاکہ ڈرائیں آپ اس کے ذریعے اور نصیحت ہے مومنوں کے لیے(2)تم پیروی کرو اس چیز کی جو اتاری گئی ہے تمھاری طرف،تمھارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو تم اس کے سوا(اور) دوستوں کی بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہوتم(3)اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہلاک کردیا ہم نے ان کو،پس آیا ان کے پاس ہمارا عذاب رات کو یا جبکہ وہ دوپہر کو آرام کررہے تھے(4) پھر نہ تھی ان کی پکار جب آگیا ان کے پاس ہمارا عذاب،مگر یہ کہ کہا انھوں نے!بلاشبہ ہم ہی تھے ظالم(5)پس ہم پوچھیں گے ان لوگوں سے کہ بھیجے گئے ان کی طرف(رسول) اور ضرورپوچھیں گے ہم بھیجے گئے(رسولوں)سے (6) پھر ہم بیان کریں گے(سب کچھ) ان پر ساتھ علم کےاور نہ تھے ہم غائب(7)
#
{1 ـ 2} يقول تعالى لرسوله محمد - صلى الله عليه وسلم - مبيناً له عظمة القران: {كتابٌ أنْزِلَ إليك}؛ أي: كتابٌ جليلٌ حوى كلَّ ما يحتاج إليه العباد وجميع المطالب الإلهيَّة والمقاصد الشرعيَّة محكماً مفصلاً. فلا يكنْ في صدرِكَ منه {حَرَجٌ}؛ أي: ضيقٌ وشكٌّ واشتباهٌ، بل لتعلمْ أنه تنزيلٌ من حكيم حميد، لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه ، فلينشرِحْ له صدرُك، ولتطمئنَّ به نفسُك، ولْتصدعْ بأوامره ونواهيه، ولا تخش لائماً ومعارضاً؛ {لتنذرَ به}: الخلق وتَعِظهم وتذكِّرهم فتقوم الحجة على المعاندين، {و} ليكنْ {ذكرى للمؤمنينَ}؛ كما قال تعالى: {وذكِّرْ فإنَّ الذِّكرى تنفعُ المؤمنينَ}: يتذكَّرون به الصراط المستقيم، وأعماله الظاهرة والباطنة، وما يحول بين العبد وبين سلوكه.
[2,1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیe سے قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ﴾ ’’یہ کتاب اتاری گئی ہے آپ پر‘‘ یعنی یہ نہایت جلیل القدر کتاب جو ان امور پر مشتمل ہے جن کے بندے محتاج ہیں اور اس میں تمام مطالب الہیہ اور مقاصد شرعیہ محکم اور مفصل طور پر موجود ہیں ﴿فَلَا یَؔكُ٘نْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّؔنْهُ ﴾ ’’پس آپ کا سینہ اس (کے پہنچانے) سے تنگ نہ ہو‘‘ یعنی آپ کے دل میں کوئی تنگی اور شک و شبہ نہ ہو۔ بلکہ تاکہ آپ جان لیں کہ یہ حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب سے سچا کلام ہے۔ ﴿ لَّا یَ٘اْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ﴾ (حم السجدہ: 41؍42) ’’باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے‘‘ اس لیے آپ کے سینے کو کشادہ اور آپ کے دل کو مطمئن ہونا چاہیے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کو کھول کر بیان کیجیے اور کسی کی ملامت اور مخالفت سے نہ ڈریے۔ ﴿ لِتُنْذِرَ بِهٖ ﴾ ’’تاکہ آپ اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈرائیں ۔‘‘ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ڈرائیے اور ان کو وعظ و نصیحت کیجیے۔ پس اس طرح معاندین حق پر حجت قائم ہو جائے گی۔ ﴿ وَذِكْرٰى لِلْ٘مُؤْمِنِیْنَ۠ ﴾ ’’اور اہل ایمان کے لیے یاد دہانی ہوگی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَّذَكِّ٘رْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَ٘نْفَ٘عُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ (الذاریات: 51؍55) ’’نصیحت کیجیے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔‘‘اہل ایمان کو اس کے ذریعے سے صراط مستقیم، ظاہری اور باطنی اعمال کی یاددہانی ہوگی اور ان امور کے بارے میں بھی یاد دہانی ہوگی جو بندے اور اس کے سلوک کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں ۔
#
{3} ثم خاطب الله العباد، ولفتهم إلى الكتاب، فقال: {اتَّبِعوا ما أنزِلَ إليكم من ربِّكم}؛ أي: الكتاب الذي أريد إنزاله لأجلكم، وهو {من ربِّكم}، الذي يريد أن يُتِمَّ تربيتَه لكم، فأنزل عليكم هذا الكتاب الذي إن اتبعتموه كملتْ تربيتُكم وتمَّتْ عليكم النعمةُ وهُديتم لأحسن الأعمال والأخلاق ومعاليها، {ولا تتَّبِعوا من دونِهِ أولياءَ}؛ أي: تتولَّونهم، وتتَّبعون أهواءهم، وتتركون لأجلها الحقَّ، {قليلاً ما تَذَكَّرونَ}: فلو تذكَّرتم وعرفتم المصلحة؛ لما آثرتُم الضارَّ على النافع والعدوَّ على الولي.
[3] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو اپنی کتاب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ ﴾ ’’پیروی کرو اس چیز کی جو اتاری گئی تمھاری طرف‘‘ یعنی اس کتاب کی جو میں تمھاری خاطر نازل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ﴿ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے‘‘ جو تمھاری تربیت کی تکمیل چاہتا ہے اس مقصد کے لیے اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، اگر تم اس کتاب کی پیروی کرو گے تو تمھاری تربیت مکمل ہو جائے گی، تم پر اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہو جائے گی اور تمھیں بہترین اور بلند ترین اعمال کی طرف راہنمائی نصیب ہوگی۔ ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؔ﴾ ’’اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ یعنی تم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو دوست نہ بناؤ، جن کی خواہشات کی تم پیروی کرو اور ان کی خاطر تم حق کو چھوڑ دو ﴿ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘ اگر تم نصیحت حاصل کر لیتے اور مصلحت کو پہچان لیتے تو تم ضرر رساں چیز کو نفع بخش چیز پر اور دشمن کو دوست پر کبھی ترجیح نہ دیتے۔
#
{4} ثم حذرهم عقوباته للأمم الذين كذبوا ما جاءتهم به رسلهم فلا يشابهوهم، فقال: {وكم من قريةٍ أهلكْناها فجاءها بأسُنا}؛ أي: عذابُنا الشديد، {بياتاً أو هم قائلونَ}؛ أي: في حين غفلتهم وعلى غِرَّتهم غافلون، لم يخطر الهلاكُ على قلوبهم، فحين جاءهم العذاب؛ لم يدفعوه عن أنفسهم، ولا أغنت عنهم آلهتهم التي كانوا يرجونهم، ولا أنكروا ما كانوا يفعلونه من الظلم والمعاصي.
[4] پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان سزاؤں سے ڈرایا ہے جو اس نے ان قوموں کو دیں جنھوں نے اپنے رسولوں اور ان کی دعوت کو جھٹلایا۔ پس وہ ان کی مشابہت اختیار نہ کریں ، چنانچہ فرمایا:﴿ وَؔكَمْ مِّنْ قَ٘رْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَ٘اْسُنَا ﴾ ’’اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کر دیں ، پس آیا ان کے پاس ہمارا عذاب‘‘ یعنی ہمارا سخت عذاب ان پر نازل ہوا ﴿ بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآىِٕلُوْنَ﴾ ’’راتوں رات یا دوپہر کو سوتے ہوئے‘‘ یعنی ہمارا عذاب ان کی غفلت کی حالت میں نازل ہوا۔ جبکہ وہ خواب غفلت کے مزے لے رہے تھے اور ہلاکت کا ان کے دل میں کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اپنے آپ کو عذاب سے نہ بچا سکے اور ان کے وہ معبود بھی ان کے کوئی کام نہ آسکے جن سے انھیں بڑی امیدیں تھیں اور وہ جن گناہوں اور ظلم کا ارتکاب کیا کرتے تھے، انھوں نے ان پر نکیر بھی نہیں کی۔
#
{5} {فما كان دَعْواهم إذ جاءَهُم بأسُنا إلَّا أن قالوا إنا كنَّا ظالمينَ}؛ كما قال تعالى: {وكم قَصَمْنا من قريةٍ كانت ظالمةً وأنشأنا بعدَها قوماً آخرينَ. فلما أحسُّوا بأسَنا إذا هُم منها يركُضونَ. لا تركُضوا وارجِعوا إلى ما أُتْرِفْتُم فيه ومساكِنِكُم لعلَّكم تُسْألونَ. قالوا يا وَيْلنا إنَّا كنَّا ظالمينَ. فما زالتْ تلك دعواهُم حتَّى جَعَلْناهم حصيداً خامدينَ}.
[5] ﴿ فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَ٘اْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ ﴾ ’’جب ان کو ہمارے عذاب نے آلیا تو ان کی پکار اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ بے شک ہم ظالم تھے۔‘‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ وَؔكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَ٘رْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ۰۰ فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَ٘اْسَنَاۤ اِذَا هُمْ مِّؔنْهَا یَرْؔكُ٘ضُوْنَؕ۰۰ لَا تَرْؔكُ٘ضُوْا وَارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُ٘تْرِفْتُمْ فِیْهِ وَمَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُ٘سْـَٔلُوْنَ۰۰ قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ۰۰ فَمَا زَالَتْ تِّؔلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ ﴾ (الانبیاء: 21؍11-15) ’’کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو پیدا کیا۔ پس جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو لگے اس سے بھاگنے۔ اب نہ بھاگو۔ ان نعمتوں کی طرف لوٹو جن کے تم مزے لوٹا کرتے تھے اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ۔ شاید تم سے پوچھا جائے، کہنے لگے ہائے ہماری ہلاکت! بے شک ہم ہی ظالم تھے۔ وہ اس طرح پکارتے رہے اور ہم نے انھیں کھیتی کی طرح کاٹ کر ڈھیر کر دیا‘‘۔
#
{6} وقوله: {فَلَنَسْأَلَنَّ الذين أرسِل إليهم}؛ أي: لنسألن الأمم الذين أرسل الله إليهم المرسلين عما أجابوا [به] رسلهم، {وَيَوْمَ يُناديهم فَيَقولُ ماذا أجبتُمُ المرسلينَ ... } الآيات، {وَلَنَسْأَلَنَّ المرسلينَ}: عن تبليغهم لرسالات ربِّهم وعما أجابتهم به أممهم.
[6] ﴿فَ٘لَ٘نَ٘سْئَلَنَّ۠ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ ﴾ ’’ہم ان قوموں سے ضرور پوچھیں گے جن کی طرف ہم نے انبیا و مرسلین کو مبعوث کیا تھا‘‘ کہ انھوں نے اپنے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔ ﴿وَیَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَاۤ اَجَبْتُمُ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ﴾ (القصص: 28؍65) ’’اور جس روز وہ (اللہ) انھیں پکار کر کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا؟‘‘ ﴿ وَ ٘لَ٘نَ٘سْئَلَنَّ۠ الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے۔‘‘ یعنی ہم رسولوں سے ان کے رب کے پیغام کو پہنچانے کے بارے میں ضرور پوچھیں گے اور یہ بھی ضرور پوچھیں گے کہ ان کی امتوں نے کیا جواب دیا۔
#
{7} {فَلَنَقُصَّنَّ عليهم}؛ أي: على الخلق كلهم ما عملوا، {بعلم}: منه تعالى لأعمالهم، {وما كُنا غائبينَ}: في وقت من الأوقات؛ كما قال تعالى: {أحصاه الله وَنَسُوه}، وقال تعالى: {ولقد خَلَقْنا فوقَكم سبعَ طرائقَ وما كُنَّا عن الخلق غافلين}.
[7] ﴿فَ٘لَ٘نَ٘قُ٘صَّنَّ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’پھر ہم ان کے حالات بیان کریں گے۔‘‘ یعنی ہم تمام مخلوق کو بتائیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے تھے ﴿ بِعِلْمٍ ﴾ ’’اپنے علم سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتائے گا ﴿ وَّمَا كُنَّا غَآىِٕبِیْنَ ﴾ ’’ہم کسی بھی وقت غیر موجود نہ تھے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَنَسُوْهُ ﴾ (المجادلۃ: 58؍6) ’’اللہ نے ان کے تمام اعمال کو محفوظ رکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں ۔‘‘اور فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ١ۖۗ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْ٘قِ غٰفِلِیْ٘نَ﴾ (المومنون: 23؍17) ’’ہم نے تمھارے اوپر سات آسمان پیدا کیے اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں۔‘‘
پھر اعمال کی جزا بیان فرمائی، چنانچہ فرمایا:
آیت: 8 - 9 #
{وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ (9)}
اور(اعمال کا) وزن اس دن حق ہے، پھر جو شخص کہ بھاری ہوگئی میزان اس( کے نیک اعمال) کی تو وہی لوگ ہیں کامیاب(8) اور جو شخص کہ ہلکی ہوگئی میزان اس کی،تو یہی لوگ ہیں جنھوں نے خسارے میں ڈالا اپنی جانوں کو بوجہ اس کے تھے وہ ہماری آیتوں کے ساتھ بے انصافی کرتے(9)
#
{8} أي: والوزن يوم القيامة يكون بالعدل والقسط الذي لا جَوْر فيه ولا ظلم بوجه. {فمن ثَقُلَتْ موازينُه}: بأن رَجَحَتْ كفةُ حسناته على سيئاته، {فأولئك هم المفلحونَ}؛ أي: الناجون من المكروه، المدركون للمحبوب، الذين حصل لهم الربح العظيم والسعادة الدائمة.
[8] یعنی قیامت کے روز اعمال کا وزن عدل و انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔ کسی بھی لحاظ سے کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ﴿فَ٘مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ﴾ ’’تو جن لوگوں کے وزن بھاری ہوں گے۔‘‘ یعنی جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے بھاری ہوگا ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’تو وہی نجات پانے والے ہوں گے۔‘‘ یہی لوگ ہیں جو ناپسندیدہ امور سے نجات حاصل کریں گے اور اپنے محبوب امور کو پا لیں گے جن کو بہت بڑا نفع اور دائمی سعادت حاصل ہوگی۔
#
{9} {ومن خفَّتْ موازينُه}: بأن رجحتْ سيئاتُه وصار الحكم لها، {فأولئك الذين خسروا أنفسهم}: إذ فاتهم النعيمُ المقيمُ وحصل لهم العذابُ الأليم، {بما كانوا بآياتِنا يَظْلِمونَ}: فلم ينقادوا لها كما يجبُ عليهم ذلك.
[9] ﴿وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ﴾ ’’اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے۔‘‘ یعنی جن کی برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا، ان کا معاملہ اس کے مطابق ہوگا ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’پس یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنا نقصان کیا‘‘ کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے محروم ہو کر دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے ﴿ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ﴾ ’’اس واسطے کہ ہماری آیتوں کے بارے میں بے انصافی کرتے تھے‘‘ یعنی ان آیات کریمہ کی اطاعت جس طرح کرنا ان پر واجب تھی انھوں نے نہیں کی۔
آیت: 10 #
{وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (10)}
اور ، البتہ تحقیق قدرت دی ہم نے تمھیں زمین میں اور بنادیے ہم نے تمھارے لیے اس میں اسباب گزران،بہت ہی کم تم شکر کرتے ہو(10)
#
{10} يقول تعالى ممتنًّا على عباده بذكر المسكن والمعيشة: {ولقد مكَّنَّاكم في الأرض}؛ أي: هيأناها لكم بحيث تتمكَّنون من البناء عليها وحرثها ووجوه الانتفاع بها، {وجَعَلْنا لكم فيها معايشَ}: مما يخرج من الأشجار والنبات ومعادن الأرض وأنواع الصنائع والتجارات؛ فإنه هو الذي هيَّأها وسخَّر أسبابها، {قليلاً ما تشكُرون}: الله الذي أنعم عليكم بأصناف النعم، وصَرَفَ عنكم النقم.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ معاش و مسکن کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بندوں پر احسان جتلاتا ہے ﴿ وَلَقَدْ مَكَّـنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’ہم نے تمھیں زمین میں ٹھکانا مہیا کیا‘‘ جس سے تم زمین میں گھر بناتے ہو، کھیتی باڑی کرتے ہو اور بعض دیگر وجوہ سے اس سے استفادہ کرتے ہو ﴿ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ ﴾ ’’اور مقرر کر دیں ہم نے اس میں تمھارے لیے روزیاں ‘‘ تمام معاش کا دارومدار ان چیزوں پر ہے جو درختوں ، نباتات، معدنیات، مختلف قسم کی صنعتوں اور تجارت سے ہوتی ہیں ۔ وہی ہے جس نے تمھیں یہ تمام چیزیں مہیا کیں اور مختلف اسباب کو تمھارے لیے مسخر کیا ﴿ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ﴾ ’’مگر تم کم ہی شکر کرتے ہو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کا بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو، جس نے انواع و اقسام کی نعمتوں سے تمھیں نوازا اور مختلف مصائب کو تم سے دور کیا۔
آیت: 11 - 15 #
{وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (11) قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (12) قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (13) قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (14) قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (15)}.
اور البتہ تحقیق پیدا کیا ہم نے تمھیں، پھر صورتیں بنائیں ہم نے تمھاری، پھر کہا ہم نے فرشتوں سے سجدہ کرو تم آدم کو،پس سجدہ کیا انھوں نے سوائے ابلیس کے،نہ ہوا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے(11)کہا(اللہ)!کس چیز نے منع کیا تجھے اس سے کہ تو سجدہ کرے،جبکہ میں نے حکم دیا تھاتجھ کو؟اس نے کہا،میں بہتر ہوں اس سے،پیدا کیا تونے مجھے آگ سے اور پیداکیا تو نے اس کو مٹی سے(12)فرمایاپس اتر تو اس(آسمان)سے،پس نہیں لائق تھا واسطے تیرے یہ کہ تکبر کرے تو اس میں،سو نکل جاتو،بلاشبہ تو ذلیلوں میں سے ہے(13)اس نے کہا!مہلت دے تومجھے اس دن تک کہ وہ اٹھائے جائیں گے(14) کہا اللہ نے!تو مہلت دیے گئے(لوگوں) میں سے ہے(15)
#
{11} يقول تعالى مخاطباً لبني آدم: {ولقد خَلَقْناكم}: بخلق أصلِكم ومادَّتكم التي منها خرجتُم؛ أبيكم آدم عليه السلام، {ثم صوَّرْناكم}: في أحسن صورة وأحسن تقويم، وعلَّمه [اللهُ] تعالى ما به تكمُلُ صورتُه الباطنةُ؛ أسماءَ كل شيء، ثم أمر الملائكة الكرام أن يسجُدوا لآدم إكراماً واحتراماً وإظهاراً لفضلِهِ، فامتثلوا أمر ربهم، {فَسَجدوا} كلُّهم أجمعون {إلا إبليس}: أبى أن يسجدَ له تكبُّراً عليه وإعجاباً بنفسه.
[11] اللہ تبارک و تعالیٰ بنی آدم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ﴾ ’’اور ہم نے تمھیں پیدا کیا‘‘ یعنی تمھارے جد امجد آدم کی اصل اور اس کے مادے کی تخلیق کی، جس سے تم سب نکلے ہو ﴿ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ﴾ ’’پھر تمھاری صورت شکل بنائی۔‘‘ پھر ہم نے تمھیں بہترین صورت اور بہترین قامت عطا کی، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے جس سے اس کی باطنی صورت کی تکمیل ہوئی، پھر باعزت فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے اکرام و احترام اور اس کی فضیلت کے اعتراف کے طور پر اسے سجدہ کریں ، چنانچہ انھوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ﴿فَسَجَدُوْۤا ﴾ ’’پس انھوں نے سجدہ کیا۔‘‘ یعنی تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ﴿ اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ﴾ مگر ابلیس نے تکبر اور خود پسندی کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
#
{12} فوبَّخه الله على ذلك، وقال ما منعك أن تسجد لما خلقت بيديَّ أي شرفته وفضلته بهذه الفضيلة التي لم تكن لغيرِهِ، فعصيتَ أمري وتهاونت بي. {قال} إبليسُ معارضاً لربِّه: {أنا خيرٌ منه}، ثم برهن على هذه الدعوى الباطلة بقوله له: {خلَقْتَني من نارٍ وخلقتَهُ من طينٍ}: وموجب هذا أن المخلوق من نار أفضل من المخلوق من طين لعلوِّ النار على الطين وصعودها. وهذا القياس من أفسد الأقيسة؛ فإنه باطلٌ من عدة أوجه: منها: أنه في مقابلة أمر الله له بالسجود، والقياس إذا عارض النصَّ فإنه قياسٌ باطل؛ لأنَّ المقصود بالقياس أن يكون الحكم الذي لم يأت فيه نصٌّ يقارب الأمور المنصوص عليها ويكون تابعاً لها، فأما قياس يعارضها ويلزم من اعتباره إلغاء النصوص؛ فهذا القياس من أشنع الأقيسة. ومنها: أنَّ قولَه: {أنا خيرٌ منه}؛ بمجرَّدها كافية لنقص إبليس الخبيث؛ فإنَّه برهن على نقصه بإعجابه بنفسه وتكبُّره والقول على الله بلا علم، وأيُّ نقص أعظم من هذا؟! ومنها: أنه كَذَبَ في تفضيل مادة النار على مادة الطين والتراب؛ فإنَّ مادة الطين فيها الخشوعُ والسكونُ والرزانةُ، ومنها تظهر بركات الأرض من الأشجار وأنواع النبات على اختلاف أجناسه وأنواعه، وأما النار؛ ففيها الخفة والطيش والإحراق.
[12] اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ ﴾ ’’تجھ کو کیا مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا‘‘ جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا، میں نے اسے وہ شرف اور فضیلت عطا کی جو کسی اور کو عطا نہیں کی تو نے میرے حکم کی نافرمانی کر کے میری اہانت اور تحقیر کا ارتکاب کیا ﴿ قَالَ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّؔنْهُ﴾ ’’میں اس سے بہتر ہوں ‘‘ پھر اس نے اپنے اس باطل دعوے کی دلیل دیتے ہوئے کہا: ﴿ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ ﴾ ’’تو نے مجھے آگ سے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے‘‘ اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ وہ مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے اس مخلوق سے افضل ہو، جس کی تخلیق مٹی سے ہے۔ کیونکہ آگ مٹی پر غالب ہے اور اوپر اٹھ سکتی ہے۔ شیطان کا یہ قیاس فاسد ترین قیاس ہے کیونکہ یہ متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ (۱) یہ قیاس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مقابلے میں ہے کہ آدم کو سجدہ کیا جائے اور جب قیاس نص سے معارض ہو تو وہ باطل ہے۔ کیونکہ قیاس کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ جس معاملے میں نص موجود نہ ہو اس کا حکم منصوص علیہ امور کے احکام کے بالکل قریب اور ان کے تابع ہو۔ رہا وہ قیاس جو منصوص علیہ احکام کے معارض ہو اور اس کو معتبر قرار دینے سے نصوص کا لغو ہونا لازم آتا ہو تو یہ قیاس بدترین قیاس ہے۔ (۲) ابلیس کا مجرد یہ کہنا ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّؔنْهُ﴾’’میں اس (آدم) سے بہتر ہوں ‘‘ ابلیس خبیث کے نقص کے لیے کافی ہے۔ اس نے اپنے نقص پر اپنی خود پسندی، تکبر اور بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف قول منسوب کرنے کو دلیل بنایا اس سے بڑا اور کون سا نقص ہو سکتا ہے؟ (۳) ابلیس نے آگ کو مٹی اور گارے کے مادہ پر فوقیت دے کر جھوٹ کا ارتکاب کیا ہے۔ کیونکہ مٹی کے مادے میں خشوع، سکون اور سنجیدگی ہے۔ اس مٹی ہی سے زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں ، مثلاً: مختلف انواع و اجناس کے درخت اور نباتات وغیرہ۔ اس کے برعکس آگ میں خفت، طیش اور جلانے کی خاصیت ہے۔
#
{13} ولهذا؛ لما جرى من إبليس ما جرى؛ انحطَّ من مرتبته العالية إلى أسفل السافلين، فقال الله له: اهبطْ {منها} أي: من الجنة، {فما يكونُ لك أن تتكبَّرَ فيها}: لأنها دار الطيبين الطاهرين، فلا تَليقُ بأخبث خَلْق الله وأشرهم، {فاخرُجْ إنَّك من الصاغرين}؛ أي: المهانين الأذلين؛ جزاء على كبره وعجبه بالإهانة والذل.
[13] اسی لیے شیطان نے اس قسم کے افعال کا ارتکاب کیا اور اسی لیے وہ بلند ترین درجات سے گر کر اسفل السافلین کی سطح پر جا پہنچا۔پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاهْبِطْ مِنْهَا ﴾ ’’تو اس سے اترجا۔‘‘ یعنی جنت سے اتر جا ﴿ فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا ﴾ ’’تیرے یہ شایاں نہیں کہ تو یہاں (جنت میں ) رہ کر تکبر کرے‘‘ کیونکہ یہ طیب اور طاہر لوگوں کا گھر ہے، پس یہ جنت اللہ تعالیٰ کی بدترین اور خبیث ترین مخلوق کے لائق نہیں ۔ ﴿فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ﴾ ’’پس نکل جا تو ذلیل ہے۔‘‘ یعنی تو حقیر ترین اور ذلیل ترین مخلوق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے تکبر اور خود پسندی پر اہانت اور ذلت کی سزا دی۔
#
{14 ـ 15} فلما أعلن عدوُّ الله بعداوة الله وعداوة آدم وذريَّته؛ سأل الله النَّظِرة والإمهال إلى يوم البعث؛ ليتمكَّنَ من إغواءِ ما يقدِرُ عليه من بني آدم، ولما كانت حكمة الله مقتضيةً لابتلاء العباد واختبارهم ليتبيَّنَ الصادق من الكاذب ومَن يطيعه ومن يطيع عدوَّه؛ أجابه لما سأل، فقال: {إنَّك من المُنظَرينَ}.
[15,14] جب اللہ کے دشمن نے اللہ تعالیٰ کے سامنے، آدم اور اولاد آدم کے ساتھ عداوت کا اعلان کیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تاکہ وہ مقدور بھر اولاد آدم کو گمراہ کر سکے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز ہو جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کون اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور کون اس کے دشمن کی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے دی اور فرمایا: ﴿ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَ٘رِیْنَ ﴾ ’’تجھ کو مہلت دی گئی‘‘
آیت: 16 - 17 #
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17)}
اس نے کہا!پس بوجہ اس کے کہ گمراہ کیا تو نے مجھے،ضرور بیٹھوں گا میں ان(کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر(16) پھر ضرورآؤں گامیں ان کے پاس ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور نہیں پائے گا تو ان کی اکثريت کو شکرگزار(17)
#
{16} أي: قال إبليس لَمَّا أُبْلِسَ وأَيِسَ من رحمة الله: {فبما أغْوَيْتَني لأقعدنَّ لهم}؛ أي: للخلق {صراطك المستقيم}؛ أي: لألزمنَّ الصِّراط، ولأسعى غاية جهدي على صدِّ الناس عنه وعدم سلوكهم إياه.
[16] جب ابلیس اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوگیا تو کہنے لگا ﴿ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ ﴾ ’’جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بھی ضرور بیٹھوں گا ان کے لیے‘‘ یعنی مخلوق کے لیے ﴿صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ ’’تیرے سیدھے راستے پر۔‘‘اور لوگوں کو اس راستے سے روکنے اور اس پر چلنے سے منع کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔
#
{17} {ثمَّ لآتِيَنَّهُم مِنْ بينِ أيديهم ومن خلفِهم وعن أيمانِهِم وعن شمائِلِهم}؛ أي: من جميع الجهات والجوانب، ومن كل طريق يتمكن فيه من إدراك بعض مقصوده فيهم، ولما علم الخبيثُ أنهم ضعفاء قد تغلب الغفلةُ على كثير منهم، وكان جازماً ببذل مجهوده على إغوائهم؛ ظنَّ ـ وصدق ظنُّه ـ فقال: {ولا تجدُ أكثرَهُم شاكرينَ}: فإنَّ القيام بالشكر من سلوك الصراط المستقيم، وهو يريدُ صدَّهم عنه وعدم قيامهم به؛ قال تعالى: {إنَّما يَدْعو حِزْبَه ليكونوا من أصحابِ السَّعير}، وإنما نَبَّهَنا الله على ما قال، وعزم على فعله، لنأخذَ منه حِذْرَنا، ونستعدَّ لعدوِّنا، ونحترزَ منه بعلْمِنا بالطُرُق التي يأتي منها ومداخله التي ينفذ منها؛ فله تعالى علينا بذلك أكمل نعمة.
[17] ﴿ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ ﴾ ’’پھر میں ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے‘‘ یعنی میں تمام جہات اور تمام اطراف سے ان پر حملہ آور ہوں گا اور ہر طریقے سے جہاں کہیں سے بھی مجھے ان سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ جب شیطان خبیث کو معلوم ہوگیا کہ اولاد آدم بہت کمزور ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں پر بسااوقات غفلت غالب آجاتی ہے تو اس نے ان کو گمراہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور اس کا گمان سچ نکلا، اس لیے کہنے لگا ﴿وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ﴾ ’’اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘ کیونکہ شکر گزاری بھی صراط مستقیم پر چلنے ہی کا حصہ ہے اور شیطان ان کو اس راستے پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر: 35؍6) ’’وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں ۔‘‘شیطان نے جو کچھ کہا اور اپنے فعل کے عزم کا اظہار کیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر محض اس لیے متنبہ فرمایا ہے تاکہ ہم اپنے دشمن سے بچتے رہیں اور اس کے مقابلے کے لیے پوری طرح تیار رہیں اور ان راستوں اور داخل ہونے کے ان مقامات کی معرفت حاصل کر کے، جہاں سے وہ حملہ آور ہوتا ہے، اپنی حفاظت کر سکیں ۔ پس یہ خبر دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمت کامل سے نوازا ہے۔
آیت: 18 #
{قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ (18)}.
کہا اللہ نے!نکل جا اس سے حقیر اور دھتکاراہوا، البتہ جو پیروی کرے گا تیری ان میں سےتو ضرور بھروں گا میں جہنم کو تم سب سے(18)
#
{18} أي: قال الله لإبليس لما قال ما قال: {اخرُجْ منها}: خروج صَغار واحتقار، لا خروج إكرام، بل {مذؤوماً}؛ أي: مذموماً، {مدحوراً}: مبعداً عن الله وعن رحمته وعن كل خير. {لأملأنَّ جهنَّم}: منك وممَّن تَبِعَكَ منهم {أجمعين}: وهذا قَسَمٌ من الله تعالى أن النار دار العصاة، لا بد أن يملأها من إبليس وأتباعه من الجن والإنس.
[18] یعنی ابلیس نے جو کچھ کہا اس کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اخْرُجْ مِنْهَا ﴾ ’’نکل یہاں سے‘‘ یعنی ذلت و خواری کے ساتھ نکلنا۔ اس سے عزت و اکرام کے ساتھ نکلنا مراد نہیں ﴿ مَذْءُوْمًؔا ﴾ بلکہ مذمت کے ساتھ نکلنا مراد ہے ﴿ مَّدْحُوْرًؔا﴾ ’’مردود ہو کر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ، اس کی رحمت اور ہر بھلائی سے دور ﴿لَاَمْلَ٘ــَٔنَّ٘ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ ﴾ ’’میں تم سے جہنم کو بھردوں گا۔‘‘ یعنی میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا ﴿ اَجْمَعِیْنَ﴾ ’’تم سب سے‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قسم ہے کہ جہنم نافرمانوں کا ٹھکانا ہے، وہ لازمی طور پر جہنم کو ابلیس اور اس کے جن اور انسان پیروکاروں سے بھر دے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو ابلیس کے شر اور فتنے سے ڈراتے ہوئے فرمایا
آیت: 19 - 23 #
{وَيَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (19) فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (20) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ (21) فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ (22) قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (23)}
اور اے آدم!رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ جہاں سے چاہو تم دونوں اور مت قریب جانا تم دونوں اس درخت کے کہ ہو جاؤ گے تم ظالموں میں سے(19) پس وسوسہ ڈالا ان دونوں(کو بہکانے) کے لیے شیطان نے،تاکہ ظاہر کردے وہ ان کے لیے جو کہ چھپائی گئی تھیں ان سے،شرم گاہیں ان کی،اور کہا(شیطان نے) نہیں روکا تم دونوں کو،تمھارے رب نے اس درخت سے مگر (اس لیے) کہ کہیں ہوجاؤ تم فرشتے،یاہوجاؤ تم ہمیشہ رہنے والوں میں سے(20) اور قسم کھائی اس نے ان کے سامنے کہ میں تم دونوں کے لیے خیر خواہوں میں سے ہوں(21) پس پھسلا دیا (شیطان نے)ان کو دھوکے سے، پھر جب چکھاانھوں نے اس درخت سے توظاہر ہوگئیں ان کے لیے شرم گاہیں ان کی اور لگے وہ چپکانے اوپر اپنے پتے جنت کے(ستر ڈھانکنے كے لیے) اور آواز دی ان کو ان کے رب نے کیا نہیں روکا تھا میں نے تمھیں اس درخت سے؟اور (نہیں) کہا تھا میں نے تمھیں کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے کھلا؟(22) کہا انھوں نے اے ہمارے رب!ظلم کیا ہم نے اپنے آپ پر،اور اگر نہ بخشا تو نے ہمیں اور (نہ) رحم کیا تو نے ہم پرتو ہو جائیں گے ہم خسارہ پانے والوں میں سے(23)
#
{19} أي: أمر الله تعالى آدم وزوجته حواء التي أنعم الله بها عليه ليسكن إليها أن يأكلا من الجنة حيث شاءا ويتمتعا فيها بما أرادا؛ إلا أنه عيَّن لهما شجرةً ونهاهما عن أكلها، والله أعلم ما هي، وليس في تعيينها فائدةٌ لنا، وحرَّم عليهما أكلها؛ بدليل قوله: {فتكونا من الظالمين}.
[19] یعنی اللہ تعالیٰ نے جناب آدمu اور ان کی بیوی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو سکون کے لیے عطا فرمائی تھی، حکم دیا کہ وہ جنت میں جہاں سے جو جی میں آئے کھائیں اور جنت سے متمتع ہوں البتہ اللہ تعالیٰ نے ایک معین درخت کا پھل کھانے سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس چیز کا درخت تھا؟ اس درخت کے تعین میں ہمارے لیے کوئی فائدہ نہیں ۔ اس درخت کا پھل کھانے کی تحریم پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلیل ہے ﴿ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’تم دونوں گناہ گاروں میں سے ہو جاؤ گے‘‘
#
{20} فلم يزالا ممتثلينِ لأمر الله حتى تغلغل إليهما عدوُّهما إبليس بمكره، فوسوس لهما وسوسةً خدَعَهما بها وموَّه عليهما وقال: {ما نهكُما ربُّكما عن هذه الشجرة إلَّا أن تكونا مَلَكَيْن}؛ أي: من جنس الملائكة، {أو تكونا مِنَ الخالدينَ}: كما قال في الآية الأخرى: {هل أدُلُّكَ على شجرةِ الخُلْدِ وملكٍ لا يَبْلى}.
[20] آدمu اور ان کی بیوی نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پابندی کی، یہاں تک کہ ان کا دشمن ابلیس اپنے مکر و فریب سے ان کے پاس گھس آیا اور اس نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا، ان کو فریب میں مبتلا کر دیا اور ان کے سامنے بناوٹ سے کام لیتے ہوئے کہنے لگا: ﴿ مَا نَهٰؔىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰؔذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ ﴾ ’’تم کو نہیں روکا تمھارے رب نے اس درخت سے مگر اس لیے کہ کہیں تم ہو جاؤ فرشتے‘‘ یعنی فرشتوں کی جنس میں سے ﴿اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰؔلِدِیْنَ ﴾ ’’یا ہو جاؤ ہمیشہ رہنے والوں میں سے‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا یَبْلٰى ﴾ (طٰہ: 20؍120) ’’کیا میں تجھے ایسا درخت بتاؤں جس کا پھل ہمیشہ کی زندگی عطا کرے اور ایسا اقتدار جو کبھی زائل نہ ہو۔‘‘
#
{21} ومع قوله هذا أقسم لهما بالله: {إني لكما لمن الناصحين}؛ أي: من جملة الناصحين؛ حيث قلت لكما ما قلتُ.
[21] یہ سب کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ اس نے اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہا: ﴿اِنِّیْ لَكُمَا لَ٘مِنَ النّٰصِحِیْنَ ﴾ ’’میں تو تمھارا خیر خواہ ہوں ۔‘‘ یعنی میں نے جو کچھ کہا ہے اس میں تمھاری خیر خواہی کرنے والا ہوں ۔
#
{22} فاغترَّا بذلك، وغلبت الشهوة في تلك الحال على العقل، {فدلاَّهما}؛ أي: أنزلهما عن رتبتهما العالية التي هي البعدُ عن الذنوب والمعاصي إلى التلوُّث بأوضارِها، فأقدما على أكلها، {فلمَّا ذاقا الشجرةَ بَدَتْ لهما سوآتُهما}؛ أي: ظهرت عورة كل منهما بعدما كانت مستورةً، فصار للعري الباطن من التقوى في هذه الحال أثرٌ في اللباس الظاهر حتى انخلع، فظهرت عوراتُهما، ولما ظهرتْ عوراتُهما؛ خَجِلا وجَعَلا يخصِفان على عوراتهما من أوراق شجر الجنة ليستترا بذلك، {وناداهما ربهما}: وهما بتلك الحال ـ موبِّخاً ومعاتباً ـ: {ألم أنْهَكُما عن تلكما الشجرةِ وأقل لكما إنَّ الشيطان لكما عدوٌّ مبينٌ}: فَلِمَ اقترفتُما المنهيَّ وأطعتما عدوَّكما؟!
[22] پس آدمu شیطان کے دھوکے میں آگئے اور اس حال میں عقل پر شہوت نفس غالب آگئی۔ ﴿فَدَلّٰىهُمَا ﴾ ’’پس نیچے لے آیا ان دونوں کو‘‘ یعنی شیطان نے آدم و حواء کو ان کے بلند مرتبے سے، جو کہ گناہوں سے دوری پر مبنی تھا، اتار کر نافرمانی کی گندگی میں لتھیڑ دیا اور انھوں نے آگے بڑھ کر اس شجر ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا ﴿ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا ﴾ ’’پس جب چکھا ان دونوں نے درخت کو تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں ‘‘ یعنی دونوں کا ستر ظاہر ہوگیا اس سے پہلے ان کا ستر چھپا ہوا تھا۔ پس اس حالت میں تقویٰ سے باطنی عریانی نے ظاہری لباس میں اپنا اثر دکھایا۔ حتی کہ وہ لباس اتر گیا اور ان کا ستر ظاہر ہوگیا اور جب ان پر ان کا ستر ظاہر ہوا تو وہ بہت شرمسار ہوئے اور جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔ ﴿وَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے آواز دی ﴿ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَ٘قُ٘لْ لَّـكُمَاۤ اِنَّ الشَّ٘یْطٰ٘نَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’کیا میں نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمھیں کہا نہیں تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘ پھر تم نے اپنے دشمن کی اطاعت کر کے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیوں کیا؟
#
{23} فحينئذٍ مَنَّ الله عليهما بالتوبة وقَبولها، فاعترفا بالذنب، وسألا من الله مغفرتَه، فقالا: {ربَّنا ظَلمْنا أنفُسَنا وإن لم تغفرْ لنا وترحَمْنا لَنَكونَنَّ من الخاسرينَ}؛ أي: قد فعلنا الذنب الذي نبَّهتنا عنه وأضررنا بأنفسنا باقتراف الذنب، وقد فعلنا سببَ الخسار إن لم تغفرْ لنا بمحو أثر الذنب وعقوبته وترحَمْنا بقَبول التوبة والمعافاة من أمثال هذه الخطايا، فغفر الله لهما ذلك، وعصى آدمُ ربَّه فغوى. ثم اجتباه ربُّه فتاب عليه وهَدَى. هذا وإبليس مستمرٌّ على طغيانِهِ، غير مقلع من عصيانه؛ فمن أشبه آدم بالاعتراف وسؤال المغفرة والندم والإقلاع إذا صدرت منه الذُّنوب؛ اجتباهُ ربُّه وهداه، ومن أشبهَ إبليس إذا صدر منه الذنبُ لا يزالُ يزدادُ من المعاصي؛ فإنه لا يزداد من الله إلا بعداً.
[23] پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر کے ان پر احسان کیا اور انھوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے عرض کیا ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی ہم سے وہ گناہ سرزد ہوگیا جس سے تو نے ہمیں روکا تھا۔ ہم نے گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچایا اور اگر تو نے گناہ اور اس کی عقوبت کے آثار کو نہ مٹایا اور اس قسم کی خطاؤں سے توبہ قبول کر کے معافی کے ذریعے سے ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نے سخت خسارے کا کام کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی ﴿ وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۰۰ ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَهَدٰؔى ﴾ (طٰہ: 20؍121، 122) ’’اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا، پھر اس کے رب نے اس پر نوازش کی اور اس پر توجہ فرمائی اور راہ نمائی کی۔‘‘ یہ رویہ آدمu کا تھا۔ مگر اس کے برعکس ابلیس اپنی سرکشی پر جما رہا اور نافرمانی سے باز نہ آیا۔ پس جو کوئی آدم کی طرح اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے ندامت کے ساتھ مغفرت کا سوال کرتا ہے اور گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا رب اسے چن لیتا ہے اور سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے اور جو کوئی ابلیس کی طرح اپنے گناہ اور نافرمانی پر جم جاتا ہے اور اس کی نافرمانیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
آیت: 24 - 26 #
{[قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ] (24) قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (25) يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (26)}.
کہا(اللہ نے) اُترو تم،ایک تمھارا،دوسرے کادشمن ہے،اور تمھارے لیے زمین میں ٹھہرنااور فائده اٹھانا ہے ایک وقت(معین) تک(24) فرمایا اسی(زمین) میں زندہ رہو گے تم اور اسی میں مرو گے تم اور اسی سے(روزقیامت)نکالے جاؤ گے(25) اے بنی آدم!تحقیق اتارا ہم نے تم پر ایسا لباس جو چھپاتا ہے تمھاری شرم گاہیں اور(اتارا) لباس زینت، اورلباس تقویٰ کا،یہ بہت بہتر ہے۔یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ (لوگ)نصیحت حاصل کریں(26)
#
{24 ـ 25} أي: لما أهبط الله آدم وزوجته وذريتهما إلى الأرض؛ أخبرهما بحال إقامتهم فيها، وأنه جعل لهم فيها حياةً، يتلوها الموتُ مشحونةً بالامتحان والابتلاء، وأنهم لا يزالون فيها، يرسِلُ إليهم رسلَه، ويُنْزِلُ عليهم كتبه، حتى يأتِيَهُمُ الموت فيدفَنون فيها، ثم إذا استكملوا بَعَثَهم اللهُ، وأخرجهم منها إلى الدارِ التي هي الدار حقيقة، التي هي دار المقامة.
[24] یعنی اللہ تعالیٰ نے جناب آدم اور حوا i کو جمع کے صیغے کے ساتھ مخاطب کر کے نیچے اترنے کا حکم دیا کیونکہ ابلیس تو اس سے قبل اتارا جا چکا تھا، پھر سب زمین کی طرف اتارے گئے۔ آدم و حوا کے ساتھ ابلیس کو بھی بتکرار حکم دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے۔ کیونکہ ابلیس انسان سے کبھی جدا نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت ساتھ رہتا ہے اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ﴿ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ ﴾ کا جملہ (اِھِبْطُوْا) کی ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم و حواء iاور شیطان سے کہا کہ سب جنت سے نکل کر زمین پر اتر جاؤ درآں حالیکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو زمین پر تمھارا ٹھکانا ہے، اس وقت تک، جب تک تمھارا زمین میں رہنا مقدر ہے۔ [25] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدمu، ان کی بیوی اور ان کی اولاد کو زمین پر اتار دیا تو ان کو زمین کے اندر ان کے قیام کے احوال کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ زمین کے اندر ان کے لیے ایک ایسی زندگی مقرر کر دی ہے جس کے تعاقب میں موت ہے جو ابتلاء و امتحان سے لبریز ہے۔ وہ اسی دنیا میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی طرف اپنے رسول بھیجے گا، ان پر کتاب نازل کرے گا۔ حتیٰ کہ ان پر موت آئے گی اور وہ اسی زمین میں دفن کر دیے جائیں گے، پھر جب وہ اپنی مدت پوری کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندہ کرے گا اور اس دنیا سے نکال کر حقیقی گھر میں ، جو دائمی قیام کا گھر ہے، داخل کرے گا۔
#
{26} ثم امتنَّ عليهم بما يسَّر لهم من اللباس الضروري واللباس الذي المقصود منه الجمال، وهكذا سائر الأشياء كالطعام والشراب والمراكب والمناكح، ونحوها قد يسر الله للعباد ضروريَّها ومكمِّل ذلك، وبيَّن لهم أن هذا ليس مقصوداً بالذات، وإنَّما أنزله الله ليكون معونةً لهم على عبادته وطاعته، ولهذا قال: {ولباسُ التَّقوى ذلك خيرٌ}: من اللباس الحسيِّ؛ فإن لباس التقوى يستمرُّ مع العبد ولا يبلى ولا يبيد، وهو جمال القلب والروح، وأما اللباس الظاهريُّ؛ فغايتُه أن يستُر العورة الظاهرة في وقت من الأوقات، أو يكون جمالاً للإنسان، وليس وراء ذلك منه نفع. وأيضاً؛ فبتقدير عدم هذا اللباس تنكشف عورتُهُ الظاهرةُ التي لا يضرُّه كشفُها مع الضرورة، وأما بتقدير عدم لباس التقوى؛ فإنها تنكشف عورته الباطنة، وينال الخزيَ والفضيحة. وقوله: {ذلك من آيات الله لعلَّهم يذَّكَّرونَ}؛ أي: ذلك المذكور لكم من اللباس مما تذكرون به ما ينفعُكم، ويضرُّكم، وتستعينون باللباس الظاهر على الباطن.
[26] پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو ضروری لباس مہیا فرمایا۔ وہ لباس جس سے خوبصورتی مقصود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں تمام اشیا ، مثلاً: کھانا پینا، سواری اور بیویاں وغیرہ عطا کیں ۔ اس کی تکمیل کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دیگر ضروریات مہیا کیں اور ان پر واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ بالذات مقصود نہیں ہے بلکہ یہ لباس اللہ تعالیٰ نے صرف اس لیے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں ان کا مددگار ثابت ہو۔ بنا بریں فرمایا: ﴿ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ﴾ ’’اور جو تقویٰ کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔‘‘ یعنی تقویٰ کا لباس، حسی لباس سے بہتر ہے۔ کیونکہ لباس تقویٰ بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے کبھی پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا اور لباس تقویٰ قلب و روح کا جمال ہے۔ رہا حسی اور ظاہری لباس تو اس کی انتہا یہ ہے کہ یہ ایک محدود وقت کے لیے ظاہری ستر کو ڈھانپتا ہے یا انسان کے لیے خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کا اور کوئی فائدہ نہیں ۔ نیز فرض کیا یہ لباس موجود نہیں تب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس کا ظاہری ستر منکشف ہو جائے گا جس کا اضطراری حالت میں منکشف ہونا نقصان دہ نہیں اور اگر لباس تقویٰ معدوم ہو جائے تو باطنی ستر کھل جائے گا اور اسے رسوائی اور فضیحت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ﴿ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّـرُوْنَ﴾ ’’یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی تاکہ وہ غور کریں ‘‘ یعنی یہ مذکورہ لباس جس سے تم ایسی چیزوں کو یاد کرتے ہو جو تمھیں نفع و نقصان دیتی ہیں اور اس ظاہری لباس سے تم اپنے باطن کی ستر پوشی میں مدد لیتے ہو۔
آیت: 27 #
{يَابَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (27)}
اے بنی آدم! نہ فتنے میں ڈال دے تمھیں شیطان جس طرح نکلوایا تھا اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے،جبکہ اترواتا تھاوہ ان دونوں سے ان کا لباس تاکہ دکھادے ان کو شرم گاہیں ان کی،یقینا وہ دیکھتا ہے تمھیں وہ اور اس کا قبیلہ جہاں سے نہیں دیکھتے تم ان کو، یقینا ہم نے بنادیا شیطانوں کو دوست ان لوگوں کا جو نہیں ایمان لاتے(27)
#
{27} يقول تعالى محذِّراً لبني آدم أن يفعل بهم الشيطان كما فعل بأبيهم: {يا بني آدم لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشيطانُ}: بأن يزيِّن لكم العصيانَ ويدعوكم إليه ويرغِّبكم فيه فتنقادون له، {كما أخرجَ أبَوَيْكم من الجنة}: وأنزلهما من المحلِّ العالي إلى أنزل منه؛ فأنتم يريد أن يفعل بكم كذلك ولا يألو جهده عنكم حتى يفتِنَكم إن استطاع؛ فعليكم أن تجعلوا الحَذَرَ منه في بالكم، وأن تَلْبَسوا لامةَ الحرب بينَكم وبينه، وأن لا تغفلوا عن المواضع التي يدخل منها إليكم. فإنَّه يراقِبُكم على الدوام، و {يراكم هو وقَبيلُهُ}: من شياطين الجن {من حيث لا تَرَوْنَهم إنا جعلنا الشياطينَ أولياءَ للذين لا يؤمنونَ}: فعدمُ الإيمان هو الموجبُ لعقد الولاية بين الإنسان والشيطان. {إنَّه ليسَ له سلطانٌ على الذين آمنوا وَعلى ربِّهِمْ يَتَوَكَّلونَ. إنَّما سلطانُهُ على الذين يَتَوَلَّوْنَهُ والذين هم بِهِ مشركونَ}.
[27] اللہ تبارک و تعالیٰ اولاد آدم کو ڈراتا ہے کہ شیطان کہیں تمھارے ساتھ بھی وہی کچھ نہ کرے جو اس نے تمھارے جد امجد آدمu کے ساتھ کیا تھا، چنانچہ فرماتا ہے ﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ ﴾ ’’اے آدم کی اولاد! نہ بہکائے تم کو شیطان‘‘ یعنی وہ تمھارے سامنے گناہ اور معاصی کو آراستہ کر کے تمھیں ان کی طرف بلائے اور ترغیب دے اور تم اس کی اطاعت کر لو ﴿ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ ﴾ ’’جیسے اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا‘‘ اور انھیں بلند ترین مقام سے اتار کرفرو ترین مقام پر پہنچا دیا۔ پس اس سے بچو وہ تمھارے ساتھ بھی وہی کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ تمھیں گمراہ کرنے کی کوشش میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتا جب تک کہ تمھیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے، اس لیے تم اس سے اپنا بچاؤ کرتے رہو اور اس کے مقابلے میں زرہ بکتر پہنے رکھو اور جن راستوں سے داخل ہو کر وہ تم پر شب خون مارتا ہے، ان راستوں سے غافل نہ رہو۔ ﴿اِنَّهٗ ﴾ ’’بے شک وہ‘‘ دائمی طور پر تمھاری نگرانی کرتا ہے ﴿ یَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِیْلُهٗ ﴾ ’’وہ اور اس کے قبیلے کے شیاطین جن تمھیں اس مقام سے دیکھتے ہیں ‘‘ ﴿ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ١ؕ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَؔ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ پس عدم ایمان ہی انسان اور شیطان کے درمیان دوستی اور موالات کے عقد کا موجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّهٗ لَ٘یْسَ لَهٗ سُلْطٰ٘نٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَؔكَّلُوْنَ۰۰ اِنَّمَا سُلْطٰنُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهٖ مُشْ٘رِكُوْنَ۰۰ ﴾ (النحل: 16؍99-100) ’’جو مومن ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر اس کا کوئی اختیار نہیں ۔ اس کا اختیار تو ان لوگوں پر ہے جو اس کو اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کے سبب سے اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔‘‘
آیت: 28 - 30 #
{وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (28) قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (29) فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُونَ (30)}.
اور جب کرتے ہیں وہ کوئی بے حیائی کا کام،تو کہتے ہیں پایا ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو اور اللہ ے حکم دیا ہمیں اس کا، کہہ دیجیے!یقینا اللہ نہیں حکم دیتا بے حیائی کا،کیا کہتے ہو تم اللہ پر وہ باتیں جو نہیں جانتے تم؟(28) کہہ دیجیے!حکم دیا ہے میرے رب نے انصاف کا،اور(یہ کہ) سیدھے(قبلہ رخ) کرو اپنے چہرے ہر نماز کے وقت اور پکارو اسی کو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے اطاعت، جیسے پہلے پیداکیا اس نے تمھیں،لوٹو گے تم(ویسے ہی) (29) ایک فریق کو ہدایت دی اس نے اور ایک فریق ثابت ہوگئی اوپر ان کے ضلالت۔ یقینا انھوں نے بنا لیا شیطان کو دوست سوائے اللہ کے،اور وه گمان کرتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ہدایت یافتہ ہیں(30)
#
{28} يقول تعالى مبيِّناً لقبح حال المشركين الذين يفعلون الذنوب وينسبون أن اللهَ أمرهم بها: {وإذا فعلوا فاحشةً}: وهي كل ما يُستفحش ويُستقبح، ومن ذلك طوافهم بالبيت عراة، {قالوا وَجَدْنا عليها آباءَنا}: وصَدَقوا في هذا، {واللهُ أمَرَنا بها}: وكذبوا في هذا، ولهذا ردَّ الله عليهم هذه النسبة، فقال: {قل إنَّ الله لا يأمرُ بالفحشاء}؛ أي: لا يليق بكماله وحكمته أن يأمر عبادَه بتعاطي الفواحش، لا هذا الذي يفعله المشركون ولا غيره، {أتقولونَ على الله ما لا تَعْلَمونَ}: وأيُّ افتراء أعظم من هذا؟
[28] اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتا ہے جو گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً ﴾ ’’جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں ۔‘‘ فحش سے مراد ہر وہ کام ہے جو برا اور انتہائی قبیح ہو۔ عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ﴿قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا ﴾ ’’کہتے ہیں ہم نے اس پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘ اور وہ اس بارے میں سچے ہیں ﴿وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا﴾ ’’اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے‘‘ وہ اس فحش کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَ٘اْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ﴾ ’’کہہ دیجیے اللہ بے حیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔‘‘ یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کمال کے لائق نہیں کہ وہ اپنے بندوں کو فحش کاموں کا حکم دے، اللہ نے اس فحش کام کا حکم دیا ہے، جس کا ارتکاب یہ مشرک کرتے ہیں نہ کسی اور فحش کام کا۔ ﴿اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کیا تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جو تم کو معلوم نہیں ‘‘ اور اس سے بڑا اور کون سا بہتان ہو سکتا ہے؟
#
{29} ثم ذكر ما يأمر به، فقال: {قل أمَرَ ربِّي بالقِسْط}؛ أي: بالعدل في العبادات والمعاملات، لا بالظلم والجور، {وأقيموا وجوهَكم عند كلِّ مسجدٍ}؛ أي: توجَّهوا لله، واجتهدوا في تكميل العبادات، خصوصاً الصلاة، أقيموها ظاهراً وباطناً، ونقُّوها من كل مُنَقِّص ومفسد. {وادعوه مخلصين له الدينَ}؛ أي: قاصدين بذلك وجهه وحدَه لا شريك له، والدعاء يشمل دعاء المسألة ودعاء العبادة؛ أي: لا تريدُون ولا تقصدون من الأغراض في دعائكم سوى عبودية الله ورضاه، {كما بدأكم}: أول مرة {تعودونَ}: للبعث؛ فالقادر على بدء خلقكم قادرٌ على إعادته، بل الإعادةُ أهون من البداءَة.
[29] پھر اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا ذکر فرمایا جس کا وہ حکم دیتا ہے ﴿ قُ٘لْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے عبادات و معاملات میں ظلم و جور کا حکم نہیں دیا بلکہ عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ﴿وَاَ٘قِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُ٘لِّ مَسْجِدٍ ﴾ ’’اور سیدھے کرو اپنے منہ ہر نماز کے وقت‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھو، عبادات کی تکمیل کی کوشش کرو۔ خاص طور پر نماز کو ظاہر اور باطن میں کامل طور پر قائم کرو اور اسے تمام نقائص اور مفاسد سے پاک رکھو۔ ﴿ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﴾ ’’اور پکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہو کر‘‘ یعنی صرف اسی کی رضا جوئی کا مقصد رکھو، وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ یہ دعا، دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت دونوں کو شامل ہے، یعنی تمھاری دعا کی تمام اغراض میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور اس کی رضا کے سوا کوئی اور مقصد و ارادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ﴿كَمَا بَدَاَكُمْ ﴾ ’’جیسے پہلی مرتبہ تمھاری ابتدا کی‘‘ ﴿ تَعُوْدُوْنَ ﴾ ’’تم پھر پیدا ہوگے۔‘‘ یعنی اس طرح مرنے کے بعد تمھیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ وہ ہستی جو تمھاری تخلیق کی ابتدا پر قادر ہے وہ اس تخلیق کا اعادہ کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے۔ بلکہ اس کا اعادہ زیادہ آسان ہے۔
#
{30} {فريقاً}: منكم، {هَدَى}: اللهُ؛ أي: وفَّقهم للهداية ويسَّر لهم أسبابها وصرف عنهم موانعها، {وفريقاً حقَّ عليهم الضَّلالة}؛ أي: وجبت عليهم الضَّلالة بما تسبَّبوا لأنفسهم وعملوا بأسباب الغواية. فإنَّهم {اتَّخذوا الشياطينَ أولياء من دون اللهِ}؛ ومن يتَّخذ الشيطان وليًّا من دون الله؛ فقد خسر خسراناً مُبِيناً؛ فحين انسلخوا من ولاية الرحمن واستحبوا ولاية الشيطان؛ حصل لهم النصيبُ الوافر من الخذلان، ووُكِلوا إلى أنفسهم فخسروا أشد الخسران. وهم يحسبونَ {أنَّهم مهتدونَ}: لأنهم انقلبت عليهم الحقائقُ، فظنُّوا الباطل حقًّا والحقَّ باطلاً. وفي هذه الآيات دليلٌ على أن الأوامر والنواهي تابعة للحكمة والمصلحة؛ حيث ذكر تعالى أنه لا يُتَصَوَّر أن يأمر بما تستفحشه وتنكره العقول، وأنه لا يأمر إلا بالعدل والإخلاص. وفيه دليلٌ على أن الهداية بفضل الله ومَنِّه، وأن الضلالة بخذلانه للعبد إذ تولى ـ بجهله وظلمه ـ الشيطانَ، وتسبَّب لنفسه بالضلال، وأن من حسب أنه مهتدٍ وهو ضالٌّ فإنه لا عذر له؛ لأنه متمكِّن من الهدى، وإنما أتاه حسبانه من ظلمه بترك الطريق الموصل إلى الهدى.
[30] ﴿فَرِیْقًا ﴾ ’’ایک فریق کو‘‘ یعنی تم میں سے ایک فریق کو ﴿ هَدٰؔى ﴾ ’’اس نے ہدایت دی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت کی توفیق سے نوازا، اس کے اسباب مہیا کیے اور اس کے موانع کو اس سے دور کیا ﴿ وَفَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلٰ٘لَةُ﴾ ’’اور ایک فریق، ثابت ہو گئی اس پر گمراہی‘‘ چونکہ انھوں نے گمراہی کے اسباب اختیار کیے اور ہلاکت کے اسباب پر عمل پیرا ہوئے اس لیے اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو ان پر واجب کر دیا۔ ﴿ اِنَّهُمُ اتَّؔخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَؔ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’انھوں نے شیطانوں کو رفیق بنایا، اللہ کو چھوڑ کر‘‘ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بناتا ہے وہ واضح خسارے میں مبتلا ہو جاتا ہے اور چونکہ وہ اللہ رحمن کی ولایت اور دوستی سے نکل گئے اور انھوں نے شیطان کی دوستی کو پسند کر لیا، اس لیے انھیں اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے محرومی میں سے وافر حصہ نصیب ہوا اور چونکہ انھوں نے اپنے آپ پر بھروسہ کیا اس لیے وہ بہت بڑے خسارے میں پڑ گئے۔ ﴿ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ ’’اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں ‘‘ یعنی ان کے ہاں حقائق بدل گئے اور انھوں نے باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھ لیا۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اوامر و نواہی اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کے تابع ہیں ۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے امر کا حکم دے جسے عقل فحش سمجھتی ہو اور اسے ناپسند کرتی ہو اور اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا۔ اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر ہے اور گمراہی یہ ہے کہ جب بندہ اپنے ظلم و جہالت سے شیطان کو اپنا دوست اور اس کو اپنی گمراہی کا سبب بنا لے تو اللہ اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر ہے درآں حالیکہ وہ بھٹک چکا ہو تو اس کے لیے کوئی عذر نہیں کیونکہ وہ ہدایت حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنے گمان کو ہی سب کچھ سمجھا اور ہدایت کی منزل کو پہنچانے والے راستے کو ترک کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔
آیت: 31 #
{يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (31)}
اے بنی آدم! اختیار کروتم اپنی زینت ہر نماز کے وقت،اور کھاؤ اور پیو اور نہ اسراف کرویقینا وہ نہیں پسند کرتا اسراف کرنے والوں کو(31)
#
{31} يقول تعالى بعدما أنزل على بني آدم لباساً يواري سوآتهم وريشاً: {يا بني آدم خُذوا زينتكم عند كل مسجدٍ}؛ أي: استروا عوراتكم عند الصلاة كلِّها فرضها ونفلها؛ فإن سترها زينة للبدن؛ كما أن كشفها يدع البدن قبيحاً مشوهاً، ويحتمل أنَّ المراد بالزينة هنا ما فوق ذلك من اللباس النظيف الحسن. ففي هذا الأمر بستر العورة في الصلاة وباستعمال التجمل فيها ونظافة السترة من الأدناس والأنجاس. ثم قال: {وكلوا واشربوا}؛ أي: مما رزقكم الله من الطيبات، {ولا تسرِفوا}: في ذلك، والإسراف إما أن يكون بالزيادة على القدر الكافي والشره في المأكولات التي تضر بالجسم، وإما أن يكون بزيادة الترفُّه والتنوُّق في المآكل والمشارب واللباس، وإما بتجاوز الحلال إلى الحرام. {إنَّه لا يحبُّ المسرفين}: فإن السرف يبغضه الله، ويضرُّ بدن الإنسان ومعيشته، حتى إنه ربما أدَّت به الحالُ إلى أن يعجز عما يجب عليه من النفقات. ففي هذه الآية الكريمة الأمر بتناول الأكل والشرب والنهي عن تركهما وعن الإسراف فيهما.
[31] اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم پر لباس نازل کرنے کے بعد جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپتے ہیں اور زینت اختیار کرتے ہیں ، فرمایا: ﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُ٘لِّ مَسْجِدٍ ﴾ ’’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔‘‘ یعنی ہر نماز کے وقت، خواہ نماز فرض ہو یا نفل، اپنے ستر کو ڈھانپو کیونکہ ستر ڈھانپنا ہی بدن کی زینت ہے جیسے ستر کو کھولنا بدن کو قبیح اور بدنما بنا دیتا ہے۔ اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس زینت سے مراد لباس کی نظافت ہو۔ پس اس صورت میں آیت کریمہ میں نماز کے اندر ستر ڈھانپنے، زینت اختیار کرنے اور لباس کو میل کچیل اور نجاست سے پاک رکھنے کا حکم ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ وَّكُلُوْا وَاشْ٘رَبُوْا ﴾ ’’اور کھاؤ اور پیو۔‘‘ یعنی ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ پیو جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا کی ہیں ﴿ وَلَا تُ٘سْرِفُوْا ﴾ ’’اور (ان میں ) اسراف نہ کرو۔‘‘اسراف سے یا تو یہ مراد ہے کہ ماکولات کو اس مقدار سے زیادہ استعمال کرنا جو انسان کو کفایت کرتی ہے کیونکہ ماکولات کو زیادہ کھانے کی حرص جسم کو نقصان دیتی ہے۔ یا اس سے مراد ہے ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا۔ یا مراد ہے حلال سے تجاوز کر کے حرام میں پڑنا۔ ﴿ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْ٘مُسْرِفِیْنَ ﴾ ’’بے شک وہ (اللہ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ اسراف انسان کے جسم اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسراف بسا اوقات انسان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ ان نفقات سے بھی عاجز رہ جاتا ہے جو اس پر واجب ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں کھانے پینے کا حکم ہے اور کھانا پینا چھوڑنے اور اس میں اسراف کرنے کی ممانعت ہے۔
آیت: 32 - 33 #
{قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (32) قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (33)}.
کہہ دیجیے!کس نے حرام کی زینت اللہ کی،وہ جوپیدا کی اس نے اپنے بندوں کے لیے؟ اور پاکیزہ چیزیں رزق کی؟ کہہ دیجیے! یہ ان لوگوں کے لیے(بھی) ہیں جو ایمان لائے،زندگی میں دنیا کی،جبکہ خاص ہوں گی(ان کے لیے) دن قیامت کے،اس طرح مفصل بیان کرتے ہیں ہم آیات ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں (32) کہہ دیجیے! بے شک حرام ٹھہرایا ہے میرے رب نے بے حیائی کی باتوں کو،جو ظاہر ہوں ان میں سے اور جو پوشیدہ،اور گناہ کو اور ظلم کو بغیر حق کے،اور یہ کہ شریک ٹھہراؤ تم ساتھ اللہ کے اس چیز کو کہ نہیں اتاری اللہ نے اس کی کوئی دلیل،اور یہ کہ کہو تم اوپر اللہ کے وہ جو نہیں تم جانتے(33)
#
{32} يقول تعالى منكراً على من تعنَّت وحرَّم ما أحلَّ الله من الطيبات: {قل مَنْ حَرَّمَ زينةَ الله التي أخرج لعباده}: من أنواع اللباس على اختلاف أصنافه والطيبات من الرزق من مأكل ومشرب بجميع أنواعه؛ أي: من هذا الذي يقدم على تحريم ما أنعم الله بها على العباد؟ ومن ذا الذي يضيِّق عليهم ما وسعه الله؟ وهذا التوسيع من الله لعباده بالطيبات جعله لهم ليستعينوا به على عبادته فلم يُبِحْه إلا لعباده المؤمنين، ولهذا قال: {قل هي للذين آمنوا في الحياة الدُّنيا خالصةً يوم القيامة}؛ أي: لا تبعة عليهم فيها. ومفهوم الآية أن من لم يؤمن بالله بل استعان بها على معاصيه؛ فإنها غير خالصة له ولا مباحة، بل يعاقب عليها وعلى التنعُّم بها، ويسأل عن النعيم يوم القيامة. {كذلك نفصِّل الآيات}؛ أي: نوضحها ونبيِّنها، {لقوم يعلمون}: لأنهم الذين ينتفعون بما فصَّله الله من الآيات، ويعلمون أنها من عند الله، فيعقلونها ويفهمونها.
[32] اللہ تبارک و تعالیٰ اس شخص پر نکیرکرتا ہے جو تکلف میں پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی پاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے ﴿قُ٘لْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ زینت و آرائش کی چیزیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ، ان کو کس نے حرام کیا ہے؟‘‘ انواع و اصناف کے لباس، طیبات رزق یعنی ماکولات و مشروبات کی تمام اقسام کو کس نے حرام قرار دیا ہے؟ یعنی وہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو حرام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں ؟ کون ان کو اس بارے میں تنگی میں مبتلا کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے وسعت رکھی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے طیبات کو اس لیے وسیع کیا تاکہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مدد لیں ۔ اس نے ان چیزوں کو صرف اپنے مومن بندوں کے لیے مباح کیا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿ قُ٘لْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ کہہ دیجیے! یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے ہیں دنیا کی زندگی میں ، خالص انھی کے واسطے ہوں گی قیامت کے دن‘‘ یعنی ان نعمتوں کے بارے میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں تو یہ نعمتیں ان کے لیے خالص ہیں نہ ان کے لیے مباح بلکہ ان نعمتوں کو استعمال کرنے پر ان کو سزا دی جائے گی اور قیامت کے روز ان سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم ان آیات کی توضیح کرتے ہیں اور ہم ان کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔ ﴿ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ان کے لیے جو جانتے ہیں ‘‘ کیونکہ یہی لوگ ہیں جو ان آیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں چنانچہ وہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں اور ان کو سمجھتے ہیں ۔
#
{33} ثم ذكر المحرمات التي حرَّمها الله في كلِّ شريعة من الشرائع، فقال: {قلْ إنَّما حرَّم ربِّي الفواحش}؛ أي: الذنوب الكبار التي تُستفحش، وتستقبح لشناعتها وقبحها، وذلك كالزِّنا واللواط ونحوهما. وقوله: {ما ظهر منها وما بطن}؛ أي: الفواحش التي تتعلَّق بحركات البدن والتي تتعلَّق بحركات القلوب؛ كالكبر والعُجْب والرياء والنفاق ونحو ذلك، {والإثم والبغي بغير الحقِّ}؛ أي: الذنوب التي تؤثم وتوجب العقوبة في حقوق الله، والبغي على الناس في دمائهم وأموالهم وأعراضهم. فدخل في هذا الذنوب المتعلقة بحق الله والمتعلقة بحق العباد، {وأن تشرِكوا بالله ما لم ينزِّلْ به سلطاناً}؛ أي: حجة، بل أنزل الحجة والبرهان على التوحيد. والشرك هو أن يُشْرَكَ مع الله في عبادته أحدٌ من الخلق، وربما دخل في هذا الشرك الأصغر؛ كالرياء والحلف بغير الله ونحو ذلك، {وأن تقولوا على الله ما لا تعلمونَ}: في أسمائِهِ وصفاتِهِ وأفعالِهِ وشرعِهِ؛ فكل هذه قد حرمها الله ونهى العباد عن تعاطيها؛ لما فيها من المفاسد الخاصة والعامة، ولما فيها من الظلم والتجري على الله والاستطالة على عباد الله وتغيير دين الله وشرعه.
[33] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان محرمات کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تمام شریعتوں میں حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! بے شک میرے رب نے حرام کیا ہے بے حیائی کی باتوں کو‘‘ یعنی بڑے بڑے گناہ جن کی برائی اور قباحت کی وجہ سے ان کو فحش اور سخت قبیح سمجھا جاتا ہے ، مثلاً: زنا، سدومیت (عمل قوم لوط) وغیرہ۔ ﴿ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾ ’’جو ان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں ‘‘ یعنی وہ فواحش جن کا تعلق بدن کی حرکات سے ہے اور وہ فواحش جن کا تعلق قلب کی حرکات سے ہے ، مثلاً: تکبر، خود پسندی، ریا اور نفاق وغیرہ۔ ﴿ وَالْاِثْمَ وَالْ٘بَ٘غْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ ’’اور گناہ کو اور ناحق کی زیادتی کو‘‘ یعنی گناہ کے اعمال جو گناہ میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں سزا کے موجب ہیں اور (بَغْی) سے مراد ہے لوگوں کے جان و مال اور عزت و ناموس میں ان پر زیادتی وغیرہ۔ پس اس میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں ۔ ﴿ وَاَنْ تُ٘شْ٘رِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا ﴾ ’’اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے سند نہیں اتاری‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شرک پر کوئی دلیل و برہان نازل نہیں فرمائی بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توحید کی تائید کے لیے دلائل و براہین نازل فرمائے ہیں اور شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ بسااوقات شرک اصغر بھی اسی زمرے میں آجاتا ہے، مثلاً: ریا اور غیر اللہ کی قسم وغیرہ۔ ﴿ وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور اس بات کو کہ اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جو تم نہیں جانتے‘‘ یعنی اس کے اسماء و صفات اور افعال اور اس کی شریعت کے بارے میں لاعلمی پر مبنی بات کہنا۔ ان تمام امور کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور بندوں کو ان میں مشغول ہونے سے روکا ہے کیونکہ یہ امور مفاسد عامہ اور مفاسد خاصہ پر مشتمل ہیں اور یہ امور ظلم و تعدی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں جسارت و جرأت کے موجب، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر دست درازی اور اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت میں تغیر و تحریف کا باعث ہیں ۔
آیت: 34 #
{وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (34)}.
اور ہرامت کے لیے ایک وقت(معین) ہے،سو جب آجائے گا ان کا (معین) وقت تو نہ پیچھے ہوں گے وہ(اس سے) لمحہ بھر اور نہ آگے ہوں گے(34)
#
{34} أي: وقد أخرج الله بني آدم إلى الأرض، وأسكنهم فيها، وجعل لهم أجلاً مسمًّى، لا تتقدَّم أمة من الأمم على وقتها المسمَّى ولا تتأخَّر، لا الأمم المجتمعة ولا أفرادها.
[34] یعنی اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جنت سے نکال کر زمین پر آباد کر دیا اور ان کے لیے ایک مدت مقرر کر دی۔ قوموں میں سے کوئی قوم اپنی مدت مقررہ سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے، تمام قومیں اکٹھی ہو کر اس مدت مقررہ سے آگے ہو سکتی ہیں نہ ان کے افراد۔
آیت: 35 - 36 #
{يَابَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (35) وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (36)}.
اے بنی آدم!اگر آئیں تمھارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں تم پر میری آیتیں،تو جس نے تقویٰ اختیار کیا اور(اپنی) اصلاح کرلی تو نہ ہوگا کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے(35) اور وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اور تکبر کیا ان سے، یہ لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(36)
#
{35} لما أخرج الله بني آدم من الجنة؛ ابتلاهم بإرسال الرسل وإنزال الكتب عليهم يقصُّون عليهم آيات الله ويبيِّنون لهم أحكامه. ثم ذكر فضلَ من استجاب لهم وخسارَ من لم يستجبْ لهم، فقال: {فمنِ اتَّقى}: ما حرم الله من الشرك والكبائر والصغائر، {وأصلح}: أعماله الظاهرة والباطنة، {فلا خوفٌ عليهم}: من الشرِّ الذي قد يخافه غيرهم، {ولا هم يحزنونَ}: على ما مضى. وإذا انتفى الخوفُ والحزنُ؛ حصل الأمنُ التامُّ والسعادة والفلاح الأبدي.
[35] جب اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جنت سے نکال دیا تو ان کو رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کر کے آزمایا۔ یہ رسول ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور اس کے احکام ان پر واضح کرتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی جس نے رسولوں کی دعوت پر لبیک کہا اور اس شخص کا خسارہ بیان کیا جس نے رسولوں کی دعوت کا جواب نہ دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿فَ٘مَنِ اتَّ٘قٰى ﴾ ’’پس جس شخص نے تقویٰ اختیار کیا۔‘‘ یعنی جو ان امور سے بچ گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، مثلاً: شرک اور دیگر کبیرہ اور صغیرہ گناہ ﴿ وَاَصْلَ٘حَ ﴾ ’’اور اس نے (ظاہری اور باطنی اعمال کی) اصلاح کر لی‘‘ ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا۔‘‘ یعنی وہ اس شر کے خوف سے مامون ہوں گے جس سے دیگر لوگ خوفزدہ ہوں گے۔ ﴿ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ ’’نہ وہ (گزرے ہوئے واقعات پر) غمگین ہوں گے۔‘‘ جب ان سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو انھیں کامل امن اور ابدی فلاح و سعادت حاصل ہوگئی۔
#
{36} {والذين كذَّبوا بآياتنا واستكبروا عنها}؛ أي: لا آمنت بها قلوبهم ولا انقادت لها جوارحهم، {أولئك أصحابُ النار هم فيها خالدون}: كما استهانوا بآياته، ولازموا التكذيب بها؛ أهينوا بالعذابِ الدائم الملازم.
[36] ﴿وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَؔكْبَرُوْا عَنْهَاۤ ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا‘‘ یعنی ان آیات پر ان کے دل ایمان لائے نہ ان کے جوارح نے ان آیات کے احکام کی اطاعت کی۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’وہی دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ یعنی جس طرح انھوں نے ہماری آیات کی اہانت کی اور ان کی تکذیب پر جمے رہے، اسی طرح ان کو ہمیشہ رہنے والے عذاب کے ذریعے سے رسوا کیا جائے گا۔
آیت: 37 - 39 #
{فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ أُولَئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُمْ مِنَ الْكِتَابِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (37) [قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لَا تَعْلَمُونَ (38) وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ (39)]}.
پس کو ن زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے باندھا اللہ پر جھوٹ یا جھٹلایا اس کی آیات کو؟ یہ لوگ ہیں کہ پہنچے گا انھیں ان کا حصہ لکھے ہوئے سے، یہاں تک کہ جب آئیں گے ان کے پاس ہمارے قاصد جو قبض کریں گے ان کی روحیں تو وہ کہیں گے! کہاں ہیں وہ کہ تھے تم پکارتے (ان کو) سوائے اللہ کے؟وہ کہیں گے!وہ گم ہو گئے ہم سے،اور گواہی دیں گے اپنے خلاف کہ بے شک وہ تھے کفر کرنے والے(37)کہے گا (اللہ)! داخل ہو جاؤ تم ہمراہ ان امتوں کے جو گزر چکیں تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے، آگ میں۔جب بھی داخل ہوگی ایک امت تو لعنت کرے گی اپنے جیسی دوسری امت کو،یہاں تک کہ جب اکٹھے ہوں گے وہ اس میں سب،تو کہے گی ان کی پچھلی جماعت ان کی پہلی جماعت کی بابت،اے ہمارے رب!انھوں نے گمراہ کیا تھاہمیں،پس دے تو ان کو عذاب دگنا آگ کا، کہے گا(اللہ تم میں سے) ہر ایک کے لیے دگنا(عذاب) ہے لیکن تم نہیں جانتے (38) اور کہے گی ان کی پہلی جماعت ان کی پچھلی جماعت کو،پس نہیں ہے تمھارے لیے ہم پر کوئی فضیلت سو چکھو تم عذاب بوجہ اس کے جو تھے تم کماتے(39)
#
{37} أي: لا أحد أظلم {ممَّنِ افترى على الله كذباً}: بنسبة الشريك له والنقص له والتقوُّل عليه ما لم يقل، {أو كذَّب بآياته}: الواضحة المبينة للحقِّ المبين الهادية إلى الصراط المستقيم؛ فهؤلاء وإن تمتعوا بالدنيا ونالهم نصيبهم مما كان مكتوباً لهم في اللوح المحفوظ؛ فليس ذلك بمغنٍ عنهم شيئاً، يتمتَّعون قليلاً ثم يعذَّبون طويلاً. {حتى إذا جاءتهم رسُلُنا يتوفَّوْنهم}؛ أي: الملائكة الموكلون بقبض أرواحهم واستيفاء آجالهم، {قالوا}: لهم في تلك الحالة توبيخاً وعتاباً: {أين ما كنتم تَدْعون من دونِ الله}: من الأصنام والأوثان؛ فقد جاء وقت الحاجة إن كان فيها منفعةٌ لكم أو دفع مضرة، {قالوا ضَلُّوا عنا}؛ أي: اضمحلوا وبطلوا، وليسوا مغنين عنَّا من عذاب الله من شيء، {وشهدوا على أنفسِهم أنهم كانوا كافرين}: مستحقين للعذاب المهين الدائم.
[37] یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں جس نے بہتان طرازی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف شریک اور اس کی ذات و صفات کی طرف نقص کی نسبت کی اور اس کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کیا جو اس نے نہیں کہی۔ ﴿ اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ ﴾ ’’یا اس کی آیات کو جھٹلایا۔‘‘ یعنی جس نے حق مبین کو بیان کرنے والی واضح آیات کو جھٹلایا، جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتی ہیں پس یہ لوگ اگرچہ اس دنیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاہم انھیں وہ عذاب ضرور مل کر رہے گا جو لوح محفوظ میں ان کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ کوئی چیز ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ وہ اس دنیا سے تھوڑی سی مدت کے لیے فائدہ اٹھائیں گے اور ابد الآباد تک عذاب بھگتیں گے۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے۔‘‘ یعنی جب ان کے پاس وہ فرشتے آجائیں گے جو ان کی مدت مقررہ پوری کرنے اور روح قبض کرنے پر مامور ہیں ﴿قَالُوْۤا ﴾ یعنی اس حالت میں فرشتے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’ وہ (بت اور تمھارے خود ساختہ معبود) کہاں ہیں جن کو تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے؟‘‘ اب ضرورت کا وقت آ گیا ہے اگر وہ تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں یا کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں ؟ (تو ان کو بلاؤ) ﴿ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا ﴾ ’’وہ کہیں گے، وہ ہم سے گم ہو گئے‘‘ یعنی وہ مضمحل اور باطل ہوگئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارے کسی کام کے نہیں۔ ﴿ وَشَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے‘‘ یعنی وہ دائمی طور پر رسوا کن عذاب کے مستحق ہیں ۔
#
{38 ـ 39} فقالت لهم الملائكة: {ادخُلوا في أمم}؛ أي: في جملة أمم {قد خلت من قبلكم من الجنِّ والإنس}؛ أي: مضوا على ما مضيتم عليه من الكفر والاستكبار، فاستحق الجميعُ الخزيَ والبوارَ. {كلَّما دخلتْ أمةٌ}: من الأمم العاتية النار، {لعنتْ أختَها}؛ كما قال تعالى: {ويومَ القيامةِ يكفُرُ بعضُكم ببعضٍ ويلعنُ بعضكم بعضاً}، {حتَّى إذا ادَّاركوا فيها جميعاً}؛ أي: اجتمع في النار جميع أهلها من الأولين والآخرين والقادة والرؤساء والمقلِّدين الأتباع، {قالت أخراهم}؛ أي: متأخروهم المتبعون للرؤساء، {لأولاهم}: أي: لرؤسائهم شاكين إلى الله إضلالهم إياهم: {ربَّنا هؤلاء أضلُّونا فآتهم عذاباً ضعفاً من النار}؛ أي: عذِّبْهم عذاباً مضاعفاً لأنَّهم أضلُّونا وزينوا لنا الأعمال الخبيثة. فقالت {أولاهم لأخراهم}؛ أي: الرؤساء قالوا لأتباعهم: {فما كان لكم علينا من فضل}؛ أي: قد اشتركنا جميعاً في الغيِّ والضلال، وفي فعل أسباب العذاب؛ فأيُّ فضلٍ لكم علينا؟ {قال} اللَّه: {لكلٍّ} منكم {ضعفٌ}: ونصيب من العذاب، {فذوقوا العذاب بما كنتم تكسِبونَ}: ولكنه من المعلوم أن عذاب الرؤساء وأئمة الضلال أبلغُ وأشنعُ من عذاب الأتباع؛ كما أنَّ نعيم أئمة الهدى ورؤسائه أعظم من ثواب الأتباع؛ قال تعالى: {الذين كَفَروا وصدُّوا عن سبيل اللهِ زِدْناهم عذاباً فوق العذابِ بما كانوا يُفْسِدون}. فهذه الآيات ونحوها دلَّت على أن سائر أنواع المكذبين بآيات الله مخلَّدون في العذاب مشتركون فيه وفي أصله، وإن كانوا متفاوتين في مقداره بحسب أعمالهم وعنادهم وظلمهم وافترائهم وأن مودتهم التي كانت بينَهم في الدُّنيا تنقلب يوم القيامة عداوةً وملاعنةً.
[38] فرشتے ان سے کہیں گے ﴿ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ ﴾ ’’ان قوموں میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ یعنی ان جملہ امتوں میں داخل ہو جاؤ۔ ﴿ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ ﴾ ’’جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گزر چکیں ‘‘ یعنی وہ بھی اسی راستے پر گامزن رہے تھے جس پر تم چلتے رہے ہو، یعنی کفر و استکبار کا راستہ۔ اس لیے سب رسوائی اور ہلاکت کے مستحق ٹھہرے ﴿ فِی النَّارِ ﴾ اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہو۔ سرکش اور نافرمان قوموں میں سے جب کوئی قوم جہنم میں داخل ہوگی ﴿ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ﴾ ’’اپنی جیسی جماعت پرلعنت کرے گی۔‘‘ یعنی اپنے جیسے مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم پر لعنت کرے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْ٘فُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْ٘عَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا﴾ (العنکبوت: 29؍25) ’’قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔‘‘﴿ حَتّٰۤى اِذَا ادَّارَؔكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے۔‘‘ یعنی جب جہنم میں ، اولین و آخرین، قائدین، رؤسا، ان کے پیروکار اور مقلدین سب جمع ہو جائیں گے ﴿قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ﴾ ’’تو کہیں گے ان کے پچھلے‘‘ یعنی رؤسا و قائدین کے پیروکار ﴿ لِاُوْلٰ٘ىهُمْ ﴾ ’’پہلوں کو‘‘ یعنی وہ اپنے سرداروں اور رؤسا کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہوئے کہ انھوں نے گمراہ کیا تھا۔۔ کہیں گے: ﴿ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابً٘ا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ﴾ ’’اے ہمارے رب! ان ہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو ان کو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔‘‘ یعنی اے ہمارے رب انھیں کئی گنا عذاب دے کیونکہ انھوں نے ہمیں گمراہ کیا اور ناپاک اعمال کو ہمارے سامنے مزین کرکے پیش کیا۔ [39] ﴿وَقَالَتْ اُوْلٰ٘ىهُمْ لِاُخْرٰؔىهُمْ ﴾ ’’اور کہیں گے ان کے پہلے پچھلوں کو‘‘ یعنی سردار اپنے پیروکاروں سے کہیں گے: ﴿ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ﴾ ’’پس کچھ نہ ہوئی تم کو ہم پر بڑائی‘‘ یعنی ہم گمراہی، ضلالت اور عذاب کے اسباب اختیار کرنے میں مشترک ہیں ۔ تمھیں ہم پر کون سی فضیلت ہے؟ ﴿قَالَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ﴿لِکُلِّ ضِعْفٌ﴾ ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے دو گنا عذاب ہے‘‘ ﴿ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ ﴾ ’’اب چکھو عذاب بسبب اپنی کمائی کے‘‘ لیکن یہ معلوم ہے کہ سرداروں اور ائمہ ضلالت کو ان کے پیروکاروں کی نسبت زیادہ سخت اور برا عذاب دیا جائے گا۔ جیسے ائمہ ہُدیٰ کو ان کے متبعین کے ثواب کے مقابلے میں زیادہ بڑی نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابً٘ا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ﴾ (النحل: 16؍88) ’’وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا ہم انھیں عذاب پر عذاب دیں گے اس پاداش میں کہ وہ فساد برپا کرتے تھے۔‘‘ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کی تمام اقسام جہنم میں ہمیشہ رہیں گی، اس کی اتھاہ گہرائی میں سب اکٹھے ہوں گے اگرچہ عذاب کی مقدار میں ان کے اعمال، عناد، ظلم اور افترا پردازی کے مطابق تفاوت ہوگا اور ان کی وہ محبت و مودت جو دنیا میں ان کے مابین تھی، قیامت کے روز دشمنی اور ایک دوسرے پر لعنت میں بدل جائے گی۔
آیت: 40 - 41 #
{إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (40) لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (41)}.
یقینا وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اور تکبر کیا ان سے، نہیں کھولے جائیں ان کے لیے دروازے آسمان کے اور نہ داخل ہوں گے وہ جنت میں،یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ ناکے میں سوئی کے،اور اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم مجرموں کو(40)ان کے لیے جہنم ہی کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر(اسی کا) اوڑھنا ہوگا،اور اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم ظالموں کو(41)
#
{40} يخبر تعالى عن عقاب من كذَّب بآياته فلم يؤمنْ بها مع أنها آيات بيناتٌ واستكبر عنها فلم ينقدْ لأحكامها بل كذَّب، وتولى أنهم آيسون من كلِّ خير؛ فلا تفتَّحُ أبوابُ السماء لأرواحهم إذا ماتوا، وصعدت تريد العروجَ إلى الله، فتستأذنُ، فلا يؤذَنُ لها؛ كما لم تصعدْ في الدنيا إلى الإيمان بالله ومعرفته ومحبته، كذلك لا تصعد بعد الموت؛ فإن الجزاء من جنس العمل. ومفهوم الآية أنَّ أرواح المؤمنين المنقادين لأمرِ الله المصدِّقين بآياته تفتَّح لها أبواب السماء حتى تعرج إلى الله، وتصل إلى حيث أراد الله من العالم العلويِّ، وتبتهجَ بالقرب من ربِّها والحظُوةِ برضوانه. وقوله عن أهل النار: {ولا يدخُلونَ الجنَّة حتى يلجَ الجملُ}: وهو البعير المعروف {في سَمِّ الخِياطِ}؛ أي: حتى يدخُلَ البعير الذي هو من أكبر الحيوانات جسماً في خرق الإبرة الذي هو من أضيق الأشياء. وهذا من باب تعليق الشيء بالمحال؛ أي: فكما أنه محالٌ دخول الجمل في سَمِّ الخياطِ؛ فكذلك المكذِّبون بآيات الله محالٌ دخولهم الجنة؛ قال تعالى: {إنَّه من يُشْرِكْ بالله فقد حرَّم اللهُ عليه الجنةَ ومأواه النارُ}؛ وقال هنا: {وكذلك نَجْزي المجرمينَ}؛ أي: الذين كَثُرَ إجرامُهم، واشتدَّ طغيانُهم.
[40] اللہ تبارک و تعالیٰ اس شخص کے عذاب کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس نے اس کی آیتوں کو جھٹلایا اور وہ ان پر ایمان نہ لایا۔۔۔۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی آیات بالکل واضح تھیں ۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کیا اور ان کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ انھوں نے ان کو جھٹلایا اور پیٹھ پھیر کر چل دیے۔۔۔۔ یہ ہر بھلائی سے مایوس ہوں گے۔ ان کی روحیں اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آسمان کی طرف بلند ہوں گی اور اجازت طلب کریں گی مگر ان کو اجازت نہیں ملے گی۔ وہ موت کے بعد آسمان کی طرف اسی طرح بلند نہ ہو سکیں گی جس طرح انھوں نے ایمان باللہ، اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی محبت کی طرف التفات نہ کیا کیونکہ جزا عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اہل ایمان کی روحیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی مطیع ہیں ، اس کی آیات کی تصدیق کرنے والی ہیں ، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جائیں گے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوں گی اور عالم علوی میں وہاں پہنچ جائیں گی جہاں اللہ تعالیٰ چاہے گا اور اپنے رب کے قرب اور اس کی رضا کا لطف اٹھائیں گی۔ اہل جہنم کے بارے میں فرمایا: ﴿ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَـلِجَ الْجَمَلُ ﴾ ’’وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ‘‘ یعنی معروف اونٹ۔ ﴿ فِیْ سَمِّ الْؔخِیَاطِ ﴾ ’’سوئی کے ناکے میں ‘‘ یعنی جب تک کہ اونٹ جو کہ سب سے بڑا حیوان ہے، سوئی کے ناکے میں سے جو کہ سب سے تنگ گزرنے کی جگہ ہے، نہ گزر جائے۔ یہ کسی چیز کو محال کے ساتھ معلق کرنے کے باب میں سے ہے، یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا محال ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّ٘شْ٘رِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾ (المائدۃ: 5؍72) ’’جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ جنت کو اس پر حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔‘‘اور یہاں فرمایا: ﴿وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں گناہ گاروں کو‘‘ یعنی وہ لوگ جن کے جرائم بہت زیادہ اور جن کی سرکشی بے انتہا ہے۔
#
{41} {لهم من جهنَّمَ مِهادٌ}؛ أي: فراش من تحتهم، {ومن فوقِهِم غَواشٍ}؛ أي: ظلل من العذاب تغشاهم، {وكذلك نَجْزي الظالمين}: لأنفسهم جزاءً وفاقاً، وما ربُّك بظلام للعبيد.
[41] ﴿لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ ﴾ ’’ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہے‘‘ یعنی ان کے نیچے آگ کے بچھونے ہوں گے ﴿ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ﴾ ’’ان کے اوپر سے اوڑھنا‘‘ یعنی عذاب کے بادل ہوں گے جو ان پر چھائے ہوئے ہوں گے ﴿ وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ظالموں کو‘‘ اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں کو ہم ان کے جرم کے مطابق جزا دیتے ہیں اور تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
آیت: 42 - 43 #
{وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (42) وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (43)}
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے اچھے،نہیں تکلیف دیتے ہم کسی جان کو مگر اس کی طاقت کے مطابق ہی،یہ لوگ ہیں جنتی،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(42) اور نکال دیں گے ہم جوہوگا ان کے سینوں میں کینہ بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں،اور کہیں گے وہ،سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہدایت دی ہمیں اس کی اور نہ تھے ہم کہ ہدایت پاتے اگر نہ ہوتی یہ بات کہ ہدایت دی ہم کو اللہ نے، البتہ تحقیق آئے تھے رسول ہمارے رب کے ساتھ حق کے اور آواز دیے جائیں گے وہ کہ یہ جنت ہے،وارث بنائے گئے ہوتم اس کے بسبب اس کے جو تھے تم عمل کرتے(43)
#
{42} لما ذكر تعالى عقاب العاصين الظالمين؛ ذَكَرَ ثواب المطيعين، فقال: {والذين آمنوا}: بقلوبهم، {وعملوا الصالحات}: بجوارحهم؛ فجمعوا بين الإيمان والعمل، بين الأعمال الظاهرة والأعمال الباطنة، بين فعل الواجبات وترك المحرمات، ولما كان قوله: {وعَمِلوا الصالحاتِ} لفظاً عامًّا يشمل جميع الصالحات الواجبة والمستحبة، وقد يكون بعضها غير مقدور للعبد؛ قال تعالى: {لا نُكَلِّفُ نفساً إلَّا وُسْعَها}؛ أي: بمقدار ما تسعه طاقتها ولا يعسر على قدرتها؛ فعليها في هذه الحال أن تتقي الله بحسب استطاعتها، وإذا عجزت عن بعض الواجبات التي يقدر عليها غيرها؛ سقطت عنها؛ كما قال تعالى: {لا يُكَلِّفُ اللهُ نفساً إلاَّ وُسْعَها}، {لا يُكَلِّفُ الله نفساً إلاَّ ما آتاها}، {ما جَعَلَ عليكم في الدِّينِ مِنْ حَرَج}، {فاتَّقوا الله ما استطعتُم}؛ فلا واجب مع العجز، ولا محرَّم مع الضرورة. {أولئك}؛ أي: المتصفون بالإيمان والعمل الصالح، {أصحابُ الجنة هم فيها خالدون}؛ أي: لا يحولون عنها ولا يبغون بها بدلاً؛ لأنهم يَرَوْن فيها من أنواع اللَّذَّات وأصناف المشتهيات ما تقفُ عنده الغايات، ولا يطلب أعلى منه.
[42] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نافرمان ظالموں کو دیے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا، تب اس نے اہل اطاعت بندوں کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اور جو لوگ ایمان لائے۔‘‘ یعنی جو دل سے ایمان لائے ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ’’اور عمل نیک کرتے رہے۔‘‘ یعنی اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے۔ پس اس طرح وہ ایمان و عمل، اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو جمع کرتے ہیں اور بیک وقت فعل واجب اور ترک محرمات پر عمل کرتے ہیں ۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ ﴾ ایک عام لفظ ہے جو واجب اور مستحب تمام نیکیوں کو شامل ہے اور بسااوقات بعض نیکیاں بندے کی مقدرت سے باہر ہوتی ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ ﴾ ’’ہم ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف کرتے ہیں ‘‘ اور اس کی مقدرت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ لہٰذا اس حال میں اس پر فرض ہے کہ وہ استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرے اگر بعض فرائض و واجبات کی تعمیل سے عاجز ہو اور ان کو بجا لانے پر قادر نہ ہو تو یہ فرائض اس پر سے ساقط ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 2؍286) ’’اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص پر صرف وہی چیز فرض کرتا ہے جسے سر انجام دینے کی وہ طاقت رکھتا ہے۔ فرمایا : ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا﴾ (الطلاق: 65؍7) ’’اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اسی کے مطابق جو اس کو عطا کیا ہے۔‘‘ فرمایا: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ (الحج: 22؍78) ’’اور (اللہ تعالیٰ نے) تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن: 64؍16) ’’پس جہاں تک طاقت ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ عاجز ہونے کی صورت میں واجب کی ادائیگی لازم نہیں اور نہ اضطراری صورت حال میں محرمات سے اجتناب واجب رہتا ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’ایسے ہی لوگ‘‘ یعنی ایمان اور عمل صالح سے متصف لوگ ﴿ اَصْحٰؔبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’اہل بہشت ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ یعنی انھیں جنت سے نکالا نہیں جائے گا اور نہ وہ خود جنت کے بدلے کوئی اور چیز چاہیں گے۔ کیونکہ انھیں جنت میں انواع و اقسام کی لذتیں حاصل ہوں گی، تمام خواہشات پوری ہوں گی، انھیں کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور اس سے بلند تر کسی مقام کی طلب نہ ہوگی۔
#
{43} {ونزعنا ما في صُدورهم من غِلٍّ}: وهذا من كرمه وإحسانِهِ على أهل الجنة؛ أنَّ الغلَّ الذي كان موجوداً في قلوبهم والتنافس الذي بينهم أن الله يقلعه ويزيله حتى يكونوا إخواناً متحابِّين وأخلاَّء متصافين؛ قال تعالى: {ونزعنا ما في صدورهم من غلٍّ إخواناً على سُرُرٍ متقابلينَ}، ويخلُقُ الله لهم من الكرامة ما به يحصُلُ لكلِّ واحد منهم الغِبْطَةَ والسرور، ويرى أنه لا فوق ما هو فيه من النعيم نعيمٌ؛ فبهذا يأمنون من التحاسد والتباغض؛ لأنه قد فقدت أسبابه. [و] قوله: {تجري من تحتهم الأنهار}؛ أي: يفجِّرونها تفجيراً حيث شاؤوا وأين أرادوا، إن شاؤوا في خلال القصور أو في تلك الغرف العاليات أو في رياض الجنات من تحت تلك الحدائق الزاهرات، أنهار تجري في غير أخدود، وخيراتٌ ليس لها حدٌّ محدودٌ. {و} لهذا لما رأوا ما أنعم الله عليهم وأكرمهم به؛ {قالوا الحمدُ لله الذي هدانا لهذا}: بأن منَّ علينا وأوحى إلى قلوبنا فآمنت به وانقادتْ للأعمال الموصلةِ إلى هذه الدار، وحفظ الله علينا إيماننا وأعمالَنا حتى أوصَلَنا بها إلى هذه الدار، فنعم الربُّ الكريم الذي ابتدأنا بالنعم، وأسدى من النعم الظاهرة والباطنة ما لا يحصيه المحصون ولا يعدُّه العادُّون. {وما كنَّا لنهتديَ لولا أن هدانا الله}؛ أي: ليس في نفوسنا قابليةٌ للهدى، لولا أنَّه تعالى منَّ بهدايته واتِّباع رسله، {لقد جاءت رسُلُ ربِّنا بالحق}؛ أي: حين كانوا يتمتَّعون بالنعيم الذي أخبرت به الرسل وصار حقَّ يقينٍ لهم بعد أن كان علم يقينٍ لهم قالوا: لقد تحقَّقنا ورأينا ما وعدتنا به الرسلُ وأنَّ جميع ما جاؤوا به حقُّ اليقين لامِرْيَةَ فيه ولا إشكال. {ونودوا}: تهنئةً لهم وإكراماً وتحية واحتراماً {أن تِلْكُمُ الجنة أورثتموها}؛ أي: كنتم الوارثين لها، وصارت إقطاعاً لكم إذ كان إقطاع الكفار النار، أورثتموها {بما كنتم تعملونَ}: قال بعضُ السلف: أهل الجنة نَجَوْا من النار بعفو الله، وأدخلوا الجنة برحمة الله، واقتسموا المنازل، وورثوها بالأعمال الصالحة، وهي من رحمته، بل من أعلى أنواع رحمته.
[43] ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ﴾ ’’اور نکال لیں گے ہم جو کچھ ان کے دلوں میں خفگی ہو گی‘‘ یہ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہوگا کہ دنیا میں ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کینہ اور بغض اور ایک دوسرے سے مقابلے کی جو رغبت موجود تھی، اللہ تعالیٰ اس کو زائل اور ختم کر دے گا یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بھائی اور باصفا دوست ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْ٘نَ ﴾ (الحجر: 15؍47) ’’اور ان کے دلوں میں جو کینہ اور کدورت ہوگی ہم اسے نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں گے۔‘‘اللہ تعالیٰ ان کو اکرام و تکریم عطا کرے گا جس پر ہر ایک کو خوشی اور مسرت ہوگی اور ہر ایک یہی سمجھے گا کہ جو نعمتیں اسے عطا ہوئی ہیں ان سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں اس لیے وہ حسد اور بغض سے محفوظ و مامون رہیں گے۔ کیونکہ حسد اور بغض کے تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے۔ ﴿ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْ٘هٰرُ ﴾ ’’بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں ‘‘ یعنی وہ جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے نہریں نکال لیں گے۔ اگر وہ یہ نہریں اپنے محلات میں لے جانا چاہیں یا اپنے بلند و بالا خانوں میں یا پھولوں سے سجے ہوئے باغات کی روشوں میں لے جانا چاہیں تو لے جائیں گے۔ یہ ایسی نہریں ہوں گی جن میں گڑھے نہیں ہوں گے اور بھلائیاں ہوں گی جن کی کوئی حد نہ ہوگی۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ اس لیے جب وہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کو دیکھیں گے ﴿قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰؔىنَا لِهٰؔذَا ﴾ ’’کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں یہاں کا راستہ دکھایا۔‘‘ یعنی وہ پکار اٹھیں گے ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہم پر احسان فرمایا، ہمارے دلوں میں الہام فرمایا اور اس پر ایمان لے آئے اور ایسے اعمال کیے جو نعمتوں کے اس گھر تک پہنچاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایمان و اعمال کی حفاظت کی حتیٰ کہ اس نے ہمیں اس جنت میں داخل کر دیا۔ بہت ہی اچھا ہے وہ رب کریم جس نے ہمیں نعمتیں عطا کیں ، ظاہری اور باطنی اتنی نعمتوں سے نوازا کہ کوئی ان کو شمار نہیں کر سکتا۔ ﴿وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰؔىنَا اللّٰهُ ﴾ ’’اور اگر اللہ ہم کو راستہ نہ دکھاتا تو ہم راستہ نہ پاسکتے۔‘‘ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی ہدایت اور اتباع رسل سے نہ نوازا ہوتا تو ہمارے نفوس میں ہدایت کو قبول کرنے کی قابلیت نہ تھی۔ ﴿لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ﴾ ’’یقینا لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات‘‘ یعنی جب وہ ان نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہوں گے جن کے بارے میں انبیا و مرسلین نے خبر دی تھی اور یہ خبر ان کے لیے علم الیقین کے بعد حق الیقین بن گئی۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے یہ بات متحقق ہوگئی اور ہم نے ہر وہ چیز دیکھ لی ہے جس کا انبیا و رسل نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا اور یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ وہ سب کچھ حق الیقین ہے جو انبیا و مرسلین لے کر مبعوث ہوئے۔ جس میں کوئی شک و شبہ اور کوئی اشکال نہیں ۔ ﴿وَنُوْدُوْۤا ﴾ ’’اور منادی کردی جائے گی۔‘‘ تہنیت و اکرام اور سلام و احترام کے طور پر انھیں پکارا جائے گا ﴿ اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا ﴾ ’’یہ جنت ہے، وارث ہوئے تم اس کے‘‘ یعنی تم اس کے وارث ہو اور یہ تمھاری جاگیر ہے جبکہ جہنم کافروں کی جاگیر ہوگی۔ ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اپنے اعمال کے بدلے میں ‘‘ سلف میں سے کسی نے فرمایا ہے کہ اہل جنت اللہ تعالیٰ کے عفو کی وجہ سے جہنم سے نجات پائیں گے، اس کی رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہوں گے اور اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنیں گے اور اس کی منازل کو باہم تقسیم کریں گے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے بلکہ اس کی رحمت کی بلند ترین نوع ہے۔
آیت: 44 - 45 #
{وَنَادَى أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قَالُوا نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (44) الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ (45)}.
اور پکار کر کہیں گے جنتی،دوزخیوں کو کہ تحقیق پایا ہم نے جووعدہ کیا تھا ہم سے ہمارے رب نے سچا،’توکیا پایا ہے تم نے بھی جو وعدہ کیا تھا تمھارے رب نے تم سے،سچا؟کہیں گے وہ ہاں، پھر اعلان کرے گا ایک اعلان کرنے والا درمیان ان کے کہ لعنت ہے اللہ کی اوپر ظالموں کے(44) وہ لوگ جو روکتے تھے اللہ کی راہ سے اور تلاش کرتے تھے اس میں کجی،اور وہ ساتھ آخرت کے کفر کرنے والے تھے(45)
#
{44 ـ 45} يقول تعالى بعد ما ذكر استقرار كلٍّ من الفريقين في الدارين ووجدا ما أخبرت به الرُّسل ونطقتْ به الكتبُ من الثواب والعقاب: إن أهل الجنة نادوا أصحاب النار بأن قالوا: {أن قد وَجَدْنا ما وَعَدَنا ربُّنا حقًّا}: حين وعدنا على الإيمان والعمل الصالح الجنة، فأدخلناها وأرانا ما وصفه لنا، {فهل وجدتُم ما وعدكم ربكم}: على الكفر والمعاصي {حقًّا قالوا نعم}: قد وجدناه حقًّا، فتبين للخلق كلِّهم بياناً لا شكَّ فيه صدق وعد الله، ومن أصدق من الله قيلاً، وذهبت عنهم الشكوك والشبه، وصار الأمر حقَّ اليقين، وفرح المؤمنون بوعد الله واغتبطوا، وأيس الكفار من الخير، وأقروا على أنفسهم بأنهم مستحقون للعذاب. {فأذَّن مؤذنٌ بينهم}؛ أي: بين أهل النار وأهل الجنة بأن قال: {أن لعنةُ الله}؛ أي: بعده وإقصاؤه عن كل خير {على الظالمين}: إذ فتح الله لهم أبوابَ رحمتِهِ، فصدَفوا أنفسهم عنها ظلماً وصدُّوا عن سبيل الله بأنفسهم وصدُّوا غيرهم فضلُّوا وأضلُّوا. والله تعالى يريد أن تكون مستقيمةً ويعتدل سير السالكين إليه، وهؤلاء يريدونها {عِوَجاً}: منحرفةً صادةً عن سواء السبيل. {وهم بالآخرة كافرونَ}: وهذا الذي أوجب لهم الانحرافَ عن الصراط والإقبالَ على شهوات النفوس المحرَّمة عدمُ إيمانهم بالبعث، وعدم خوفهم من العقاب ورجائهم للثواب. ومفهوم هذا [النداء] أن رحمة الله على المؤمنين، وبرَّه شاملٌ لهم، وإحسانه متواترٌ عليهم.
[45,44] اللہ تعالیٰ، یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اہل ایمان اور کفار جنت اور جہنم میں اپنے اپنے ٹھکانوں میں داخل ہو جائیں گے اور وہاں سب کچھ ویسا ہی پائیں گے جیسا انبیا و رسل نے ان کو خبر دی تھی اور جیسا کہ ثواب و عقاب کے بارے میں انبیا کی لائی ہوئی کتابوں میں تحریر تھا، فرماتا ہے کہ اہل جنت جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے ﴿ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ﴾ ’’کہ جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچاپالیا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اور نیک عمل کرنے پر جنت کا وعدہ کیا تو ہم نے اس کے وعدہ کو سچا پایا، اس نے ہمیں جنت میں داخل کر دیا ہم نے وہاں وہ سب کچھ دیکھا جو اس نے ہمارے لیے بیان کیا تھا ﴿ فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ﴾ ’’بھلا جو وعدہ تمھارے رب نے تم سے کیا تھا، کیا تم نے بھی اسے سچا پایا؟‘‘ یعنی تمھارے کفر اور معاصی پر تمھارے رب نے جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے سچا پایا؟ ﴿ قَالُوْا نَعَمْ ﴾ ’’وہ کہیں گے، ہاں !‘‘ ہم نے اسے سچ پایا۔ پس تمام مخلوق کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بات سے زیادہ کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے اور معاملہ حق الیقین بن جائے گا۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے وعدے پر خوش ہوں گے، کفار بھلائی سے مایوس ہو جائیں گے۔ وہ اپنے بارے میں خود اقرار کریں گے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں ۔ ﴿ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ ﴾ ’’تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا۔‘‘ پکارنے والا اہل جہنم اور اہل جنت کے درمیان پکار کر کہے گا ﴿ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ ﴾ ’’کہ لعنت ہے اللہ کی‘‘ یعنی ہر بھلائی سے بُعد اور محرومی ﴿ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’ظالموں پر‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی رحمت کے دروازے کھولے مگر انھوں نے اپنے ظلم کی وجہ سے ان سے منہ موڑا، خود اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے رکھا اور دوسروں کو بھی اس راستے پر نہ چلنے دیا۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا راستہ سیدھا رہے اور اس پر چلنے والے اعتدال کے ساتھ اس پر گامزن رہیں ۔ ﴿وَ﴾ ’’اور‘‘ یہ کفار ﴿یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا ﴾ ’’ڈھونڈتے ہیں اس میں کجی‘‘ یعنی سیدھے راستے سے ہٹا ہوا ﴿ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ آخرت کے منکر تھے‘‘ یہی کفر ہے جو راہ راست سے ان کے انحراف کا باعث بنا اور یہی کفر ہے جو نفس کی شہوات محرمہ کو محور بنانے، آخرت پر عدم ایمان، عذاب سے عدم خوف اور ثواب سے ناامیدی کا موجب بنا۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اہل ایمان پر سایہ کناں ، اس کا فضل ان کے شامل حال اور اس کا احسان ان پر متواتر ہے۔
آیت: 46 - 49 #
{وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ (46) وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (47) وَنَادَى أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَاهُمْ قَالُوا مَا أَغْنَى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ (48) أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (49)}
اور ان کے درمیان پردہ ہوگااوراوپر اعراف کے کچھ لوگ ہوں گے، جو پہچانتے ہوں گے ہر ایک کو ان کی خاص علامات سےاور وہ پکاریں گے جنت والوں کو کہ سلام ہوتم پر، نہ داخل ہوئے ہوں گے وہ جنت میں (ابھی تک) اور وہ امید رکھتے ہوں گے(46) اور جب پھیری جائیں گی ان کی آنکھیں طرف دوزخیوں کی،تو وہ کہیں گے!اے ہمارے رب!نہ کر تو ہمیں ساتھ ظالم لوگوں کے(47) اور پکار کر کہیں گے اعراف والے کچھ ایسے لوگوں کو جنھیں وہ پہچانتے ہوں گے ان کی خاص علامات سے، کہیں گے کہ نہیں فائدہ دیا تمھیں تمھارے جتھے نے اور(نہ اس نے) جو تھے تم تکبر کرتے(48) کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کی بابت قسمیں کھاتے تھے تم کہ نہیں پہنچائے گا ان کو اللہ رحمت،(ان سے تو کہہ دیا گیا) داخل ہوجاؤ تم جنت میں نہیں ہے کوئی خوف تم پر اور نہ تم غمگین ہوگے(49)
#
{46} أي: وبين أصحاب الجنة وأصحاب النار حجابٌ يُقال له: الأعراف، لا من الجنة ولا من النار، يشرف على الدارين، وينظُر من عليه حال الفريقين، وعلى هذا الحجاب رجالٌ يعرفونَ كلًّا من أهل الجنة والنار بسيماهم؛ أي: علاماتهم التي بها يُعْرَفون ويُمَيَّزون؛ فإذا نظروا إلى أهل الجنة؛ نادَوْهم: {أن سلامٌ عليكم}؛ أي: يحيُّونهم ويسلِّمون عليهم، وهم إلى الآن لم يدخلوا الجنة، ولكنهم يطمعون في دخولها، ولم يجعل الله الطمع في قلوبهم إلا لما يُريد بهم من كرامته.
[46] یعنی اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان ایک حجاب ہوگا جسے ’’مقام اعراف‘‘ کہا جائے گا۔ یہ مقام جنت میں شامل ہوگا نہ جہنم میں ۔ اس مقام سے جنت اور جہنم دونوں میں جھانکا جا سکے گا اور جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو دیکھا جا سکے گا۔ اس مقام اعراف میں کچھ لوگ ہوں گے جو اہل جنت اور اہل جہنم کو ان کی ان علامات کے ذریعے سے پہچانتے ہوں گے جو ان کی امتیازی علامات ہیں ۔ جب وہ اہل جنت کی طرف دیکھیں گے تو پکار کر کہیں گے ﴿اَنْ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’سلامتی ہے تم پر‘‘ یعنی وہ ان پر سلام کہیں گے۔ وہ ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے البتہ وہ جنت میں داخلے کے امیدوار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں امید تب ہی جاگزیں کرتا ہے جب وہ ان کو اپنی تکریم سے نوازنے کا ارادہ کرتا ہے۔
#
{47} {وإذا صُرِفَتْ أبصارُهم تِلْقاءَ أصحابِ النَّارِ}: ورأوا منظراً شنيعاً وهولاً فظيعاً، {قالوا ربَّنا لا تَجْعَلْنا مع القوم الظالمين}: فأهل الجنة إذا رآهم أهلُ الأعراف يطمعون أن يكونوا معهم في الجنة ويحيُّونهم ويسلِّمون عليهم، وعند انصراف أبصارهم بغير اختيارهم لأهل النار يستجيرون [بالله] من حالهم هذا على وجه العموم.
[47] ﴿وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰؔبِ النَّارِ﴾ ’’اور جب ان کی نظر اہل جہنم کی طرف جائے گی‘‘ تو ان کو بہت ہی ہولناک اور قبیح منظر دیکھنے کو ملے گا۔ تو وہ پکار اٹھیں گے ﴿ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اے ہمارے رب ہم کو ظالموں کے ساتھ نہ کرنا‘‘ اہل اعراف جب اہل جنت کو دیکھیں گے تو وہ بھی جنت میں ان کی معیت کی خواہش کریں گے اور وہ ان کو تحیہ و سلام پیش کریں گے اور جب غیر اختیاری طور پر ان کی نظریں اہل جہنم کی طرف اٹھیں گی تو وہ عمومی طور پر ان کی حالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں گے۔
#
{48} ثم ذكر الخصوص بعد العموم، فقال: {ونادى أصحابُ الأعراف رجالاً يعرفونهم بسيماهُم}: وهم من أهل النار، وقد كانوا في الدنيا لهم أبهة وشرفٌ وأموالٌ وأولادٌ، فقال لهم أصحاب الأعراف حين رأوهم منفردين في العذاب بلا ناصرٍ ولا مغيث: {ما أغنى عنكُم جمعُكم}: في الدُّنيا الذي تستدفِعون به المكاره، وتوسلون به إلى مطالبكم في الدُّنيا؛ فاليوم اضمحل ولا أغنى عنكم شيئاً، وكذلك أيُّ شيءٍ نفعكم استكباركم على الحقِّ وعلى ما جاء به وعلى مَن اتبعه؟!
[48] عمومی ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصی ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَنَادٰۤى اَصْحٰؔبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ ﴾ ’’اور اعراف والے پکاریں گے ان لوگوں کو کہ ان کو پہچانتے ہوں گے ان کی نشانی سے۔‘‘اور وہ اہل جہنم ہوں گے، وہ دنیا میں شرف و آبرو اور مال و اولاد والے تھے۔۔۔۔ ان کو اکیلے عذاب میں مبتلا دیکھ کر کہ اب ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ۔۔۔ کہیں گے: ﴿ مَاۤ اَغْ٘نٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ ﴾ ’’آج تمھاری جماعت تمھارے کچھ کام نہ آئی۔‘‘ یہاں تمھارے وہ جتھے کام نہ آئے جن کی مدد سے دنیا میں اپنی تکالیف دور کیا کرتے تھے۔ دنیاوی مطالب کے حصول کے لیے ان کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ آج ہر چیز مضمحل ہوگئی اور کچھ بھی تمھارے کام نہ آیا اور اسی طرح حق، حق لانے والے اور حق کی اتباع کرنے والوں کے مقابلے میں تمھارے تکبر نے تمھیں کیا فائدہ دیا؟
#
{49} ثم أشاروا لهم إلى أناس من أهل الجنة كانوا في الدنيا فقراء ضعفاء يستهزئ بهم أهل النار، فقالوا لأهل النار: {أهؤلاء}: الذين أدخلهم الله الجنة، {الذين أقسمتُم لا ينالُهُم الله برحمةٍ}: احتقاراً لهم وازدراءً وإعجاباً بأنفسكم، قد حنثتم في أيمانكم، وبدا لكم من الله ما لم يكن لكم في حساب. {ادخلوا الجنة}: بما كنتم تعملونَ؛ أي: قيل لهؤلاء الضعفاء إكراماً واحتراماً: ادخلوا الجنة بأعمالكم الصالحة، {لا خوفٌ عليكم}: فيما يُستقبل من المكاره، {ولا أنتم تحزنونَ}: على ما مضى، بل آمنون مطمئنُّون فرحون بكل خير. وهذا كقولِهِ تعالى: {إنَّ الذين أجرموا كانوا من الذين آمنوا يضحكونَ. وإذا مَرُّوا بهم يتغامَزون ... } إلى أن قال: {فاليومَ الذين آمنوا مِنَ الكُفَّارِ يضحكون. على الأرائكِ ينظُرونَ}. واختلف أهل العلم والمفسِّرون من هم أصحاب الأعراف وما أعمالهم، والصحيح من ذلك أنهم قوم تساوت حسناتهم وسيئاتهم؛ فلا رجحتْ سيئاتهم فدخلوا النار، ولا رجحت حسناتهم فدخلوا الجنة، فصاروا في الأعراف ما شاء الله، ثم إن الله تعالى يدخِلُهم برحمته الجنة؛ فإن رحمته تسبق وتغلب غضبه، ورحمته وسعت كلَّ شيءٍ.
[49] پھر وہ اہل جنت کی طرف، جو دنیا میں کمزور و ناتواں اور محتاج ہوا کرتے تھے۔۔۔ اشارہ کر کے اہل جہنم سے کہیں گے ﴿اَهٰۤؤُلَآءِ ﴾ ’’اب یہ وہی ہیں ‘‘ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیا ﴿ الَّذِیْنَ اَ٘قْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ ﴾ ’’جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا۔‘‘ یعنی تم لوگ اہل ایمان کے ساتھ نفرت اور حقارت کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خود پسندی کے ساتھ قسمیں اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے نہیں نوازے گا۔ اب تم اپنی قسموں میں جھوٹے ہوگئے ہو۔ اس چیز کی حقیقت تمھارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دی ہے جسے تم کسی شمار میں نہیں لایا کرتے تھے۔ ﴿اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ ﴾ ’’تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ یعنی اپنے اعمال کے صلہ میں جنت میں داخل ہو جاؤ یعنی کمزور اور ناتواں لوگوں کو اکرام و احترام کے ساتھ کہا جائے گا کہ اپنے نیک اعمال کی جزا کے طور پر جنت میں داخل ہوجاؤ ﴿ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ ﴾ مستقبل میں تمھیں کسی تکلیف کا خوف نہ ہوگا ﴿ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ﴾ اور جو کچھ گزر گیا ہے تم اس پر غمزدہ نہیں ہو گے۔ بلکہ تم محفوظ و مامون اور مطمئن اور ہر بھلائی پر فرحاں و شاداں ہو گے۔۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَكُوْنَٞۖ۰۰وَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ یَتَغَامَزُوْنَٞۖ۰۰وَاِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَـكِهِیْنَٞۖ۰۰وَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْۤا اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوْنَۙ۰۰ وَمَاۤ اُرْسِلُوْا عَلَیْهِمْ حٰؔفِظِیْنَؕ۰۰ فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ یَضْحَكُوْنَۙ۰۰ عَلَى الْاَرَآىِٕكِ١ۙ یَنْظُ٘رُوْنَؕ۰۰﴾ (المطففین:83؍29-35) ’’وہ مجرم جو دنیا میں اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کیا کرتے تھے اپنے گھر واپس لوٹتے تو اکڑفوں کے ساتھ اتراتے ہوئے لوٹتے اور جب اہل ایمان کو دیکھتے تو کہتے یہ تو گمراہ ہیں ۔ حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آج اہل ایمان کافروں پر ہنسیں گے اور اپنے تختوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ اہل علم اور مفسرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اصحاب اعراف سے کیا مراد ہے اور ان کے اعمال کیا ہیں ۔ اس بارے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ نہ تو ان کی برائیاں زیادہ ہوں گی جس کی بنا پر وہ جہنم میں داخل ہو جائیں اور نہ ان کی نیکیاں زیادہ ہوں گی کہ جنت میں داخل ہو جائیں ۔ پس جب تک اللہ چاہے گا یہ لوگ مقام اعراف میں قیام کریں گے پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انھیں جنت میں داخل کرے گا کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرتی اور غالب آتی ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔
آیت: 50 - 53 #
{وَنَادَى أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ (50) الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (51) وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (52) هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَلْ لَنَا مِنْ شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (53)}
اور پکار کر کہیں گے دوزخی،جنتیوں کو، یہ کہ ڈالو تم ہم پر کچھ پانی سے یا(پھینکو) کچھ اس میں سے جو رزق دیا ہے تمھیں اللہ نے،کہیں گے جنتی! بے شک اللہ نے حرام کردی ہیں یہ دونوں چیزیں اوپر کافروں کے(50) وہ لوگ جنھوں نے بنالیا اپنے دین کو تماشہ اور کھیل اور دھوکے میں ڈالے رکھا ان کو زندگانئ دنیا نے، پس آج ہم بھلادیں گے انھیں جیسے بھلا دیا تھا انھوں نے ملاقات کو اپنے اس دن کی اور جو تھے وہ ہماری آیات کا انکار کرتے(51) اور البتہ لائے ہم ان کے پاس ایسی کتاب کہ مفصل بیان کیا ہم نے اس کو ساتھ علم کے،وہ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں(52) نہیں انتظار کرتے وہ مگر اس کے انجام(قیامت) کا جس دن آئے گا انجام اس کا،تو کہیں گے وہ لوگ جو بھولے ہوئے تھے اس کو اس سے پہلے،تحقیق آئے تھے رسول ہمارے رب کے ساتھ حق کے، پس کیا ہمارے لیے کوئی سفارشی ہیں کہ وہ سفارش کریں ہمارے لیے یا لوٹادیے جائیں ہم،تو عمل کریں گے علاوہ ان کے جو تھے ہم(پہلے) عمل کرتے،تحقیق خسارے میں ڈالا انھوں نے اپنے آپ کو اورگم ہوگیا ان سے جو تھے وہ افتراء باندھتے(53)
#
{50 ـ 52} أي: ينادي أصحاب النار أصحاب الجنة حين يبلغُ منهم العذابُ كلَّ مبلغ وحين يمسُّهم الجوع المفرط والظمأ الموجع؛ يستغيثون بهم فيقولون: {أفيضوا علينا من الماءِ أو ممَّا رزقكم الله}: من الطعام، فأجابهم أهل الجنة بقولهم: {إنَّ الله حرَّمَهما}؛ أي: ماء الجنة وطعامها {على الكافرين}: وذلك جزاء لهم على كفرهم بآيات الله واتخاذهم دينهم الذي أُمروا أن يستقيموا عليه ووُعدوا بالجزاء الجزيل عليه {لهواً ولعباً}؛ أي: لهت قلوبهم وأعرضت عنه ولعبوا واتَّخذوه سخريًّا، أو أنهم جعلوا بدل دينهم اللهو واللعب، واستعاضوا بذلك عن الدين القيم، {وغرَّتْهم الحياة الدنيا}: بزينتها وزخرفها وكثرة دعاتِها، فاطمأنوا إليها ورضوا بها وفرحوا وأعرضوا عن الآخرة ونسوها. {فاليوم ننساهم}؛ أي: نتركهم في العذاب، {كما نسوا لقاء يومهم هذا}: فكأنهم لم يُخْلقوا إلا للدُّنيا، وليس أمامهم عرض ولا جزاء، {وما كانوا بآياتنا يجحدون}: والحال أن جحودهم هذا لا عن قصور في آيات الله وبيِّناته، بل قد {جئناهم بكتابٍ فصَّلْناه}؛ أي: بينا فيه جميع المطالب التي يحتاج إليها الخلق {على علم}؛ من الله بأحوال العباد في كل زمان ومكان، وما يصلُحُ لهم وما لا يصلُحُ ليس تفصيله تفصيل غير عالم بالأمور، فتجهله بعض الأحوال فيحكم حكماً غير مناسب، بل تفصيل من أحاط علمه بكل شيء ووسعتْ رحمتُهُ كلَّ شيء. {هدىً ورحمةً لقوم يؤمنون}؛ أي: تحصل للمؤمنين بهذا الكتاب الهداية من الضلال وبيان الحق والباطل والغي والرشد، ويحصُل أيضاً لهم به الرحمة، وهي الخير والسعادة في الدنيا والآخرة، فينتفي عنهم بذلك الضلال والشقاء.
[52-50] جب اہل جہنم کو عذاب پوری طرح گھیر لے گا، جب وہ بے انتہا بھوک اور انتہائی تکلیف دہ پیاس میں مبتلا ہوں گے تو وہ اہل جنت کو پکار کر مدد کے لیے بلائیں گے اور کہیں گے ﴿ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’بہاؤ ہم پر تھوڑا سا پانی یا کچھ اس میں سے جو روزی دی تم کو اللہ نے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کھانا تمھیں عطا کیا ہے، اہل جنت ان کو جواب میں کہیں گے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا ﴾ ’’اللہ نے ان دونوں کو حرام کر دیا ہے‘‘ یعنی جنت کا پانی اور کھانا ﴿ عَلَى الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’کافروں پر۔‘‘ یہ سب کچھ اس پاداش میں ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور انھوں نے اس دین کو .... جس پر قائم رہنے کا انھیں حکم دیا گیا تھا اور اس پر انھیں بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا تھا، کھیل تماشہ بنا لیا ﴿ لَهْوًا وَّلَعِبًا ﴾ ’’تماشا اور کھیل‘‘ یعنی ان کے دل غافل اور دین سے گریزاں تھے اور انھوں نے دین کا تمسخر اڑایا۔ یا اس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے دین کے بدلے لہو و لعب کو اختیار کر لیا اور دین قیم کے عوض لہو و لعب کو چن لیا۔ ﴿ وَّغَ٘رَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال دیا۔‘‘ یعنی دنیا نے اپنی زیب و زینت سے اور دنیا کی طرف بلانے والوں کی کثرت نے انھیں دھوکے میں ڈال دیا۔ پس وہ دنیا سے مطمئن ہو کر اس سے خوش اور راضی ہوگئے اور آخرت سے منہ موڑ کر اسے بھول گئے ﴿ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ ﴾ ’’پس آج ہم ان کو بھلا دیں گے‘‘ یعنی انھیں عذاب میں چھوڑے دے رہے ہیں ﴿ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَؔ یَوْمِهِمْ هٰؔذَا﴾ ’’جیسا انھوں نے بھلا دیا اس دن کے ملنے کو‘‘ گویا کہ وہ صرف دنیا ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ان کے سامنے کوئی مقصد اور کوئی جزا نہیں ﴿ وَمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ﴾ ’’اور جیسا کہ وہ ہماری آیتوں کے منکر تھے۔‘‘ حال یہ ہے کہ ان کا یہ کفر و جحود اس بنا پر نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی روشن دلیلوں کو سمجھنے سے قاصر تھے ﴿ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ﴾ ’’ہم نے ان کے پاس کتاب پہنچادی ہے جس کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔‘‘ بلکہ ہم تو ان کے پاس ایک ایسی کتاب لے کر آئے جس میں ہم نے وہ تمام مطالب کھول کھول کر بیان کر دیے ہیں مخلوق جن کی محتاج ہوتی ہے ﴿ عَلٰى عِلْمٍ ﴾ ’’خبرداری سے‘‘ یعنی ہر زمان و مکان میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا علم رکھتا ہے کہ ان کے لیے کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کھول کھول کر بیان کرنا اس ہستی کا سا نہیں جو معاملات کا علم نہیں رکھتی اور بعض احوال اس سے اوجھل رہ جاتے ہیں اور اس سے کوئی نامناسب فیصلہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیان کرنا اس ہستی کا سا ہے جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ ﴿ هُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اور وہ مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ یعنی اس کتاب کے ذریعے سے اہل ایمان کے لیے گمراہی میں سے ہدایت واضح ہو جاتی ہے۔ حق و باطل اور رشد و ضلالت کے درمیان فرق واضح اور نمایاں ہو جاتا ہے۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق بن جاتے ہیں اور یہ دنیا و آخرت میں بھلائی اور سعادت کا نام ہے اور ان سے اس رحمت کے ذریعے سے گمراہی اور شقاوت دور ہو جاتی ہے۔
#
{53} وهؤلاء الذين حقَّ عليهم العذاب لم يؤمنوا بهذا الكتاب العظيم ولا انقادوا لأوامره ونواهيه، فلم يبق فيهم حيلة إلاَّ استحقاقُهم أن يحلَّ بهم ما أخبر به القرآن، ولهذا قال: {هل ينظُرون إلا تأويلَه}؛ أي: وقوع ما أخبر به؛ كما قال يوسف عليه السلام حين وقعت رؤياه: {هذا تأويلُ رؤيايَ مِن قَبْلُ}. {يومَ يأتي تأويلُهُ يقول الذين نسوه من قبل}: متندِّمين متأسِّفين على ما مضى متشفِّعين في مغفرة ذنوبهم مقرِّين بما أخبرت به الرسل: {قد جاءت رُسُلُ ربِّنا بالحقِّ فهل لنا من شفعاءَ فيشفعوا لنا أو نُردُّ}: إلى الدنيا؛ {فنعملَ غير الذي كُنَّا نعملُ}: وقد فات الوقتُ عن الرُّجوع إلى الدنيا؛ فما تنفعُهم شفاعة الشافعين. وسؤالهم الرجوع إلى الدنيا ليعملوا غيرَ عملهم كذبٌ منهم، مقصودُهم به دفعُ ما حلَّ بهم؛ قال تعالى: {ولو رُدُّوا لَعادوا لِما نُهوا عنه وإنَّهم لَكاذبونَ}. {قد خسروا أنفسَهم}: حين فوَّتوها الأرباحَ وسَلَكوا بها سبيل الهلاك، وليس ذلك كخسران الأموال والأثاث أو الأولاد، إنما هذا خسرانٌ لا جُبْرانَ لمصابِهِ. {وضلَّ عنهم ما كانوا يفترونَ}: في الدُّنيا مما تُمَنِّيهم أنفسُهم به، ويعدُهم به الشيطان، قدموا على ما لم يكن لهم في حساب، وتبيَّن لهم باطلهم وضلالهم، وصدق ما جاءتهم به الرسل.
[53] وہ لوگ جو عذاب کے مستحق ٹھہرے، وہ اس عظیم کتاب پر ایمان نہ لائے تھے اور انھوں نے اس کے اوامر و منہیات کے احکام کی تعمیل نہیں کی تھی اب ان کے لیے کوئی چارہ سوائے اس کے نہیں رہا کہ وہ اس عذاب کے مستحق ہوں اور وہ عذاب ان پر ٹوٹ پڑے جس کے بارے میں قرآن نے آگاہ فرمایا تھا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ هَلْ یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗ ﴾ ’’کیا اب وہ اسی کے منتظر ہیں کہ اس کا مضمون ظاہر ہو جائے‘‘ یعنی کیا وہ اس امر کے واقع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ جناب یوسفu نے اس وقت فرمایا تھا جب ان کا خواب سچا ہوگیا ﴿هٰؔذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَ٘ایَ مِنْ قَبْلُ﴾ (یوسف: 12؍100) ’’یہ حقیقت ہے میرے خواب کی جو اس سے قبل میں نے دیکھا‘‘ فرمایا: ﴿یَوْمَ یَ٘اْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’جس دن ظاہر ہو جائے گا اس کا مضمون، کہنے لگیں گے وہ لوگ جو اس کو بھول رہے تھے پہلے سے‘‘ یعنی جو کچھ بیت گیا ہے اس پر ندامت اور تاسف کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے سفارش تلاش کرتے ہوئے اور اس چیز کا اقرار کر کے جسے لے کر انبیا و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کہیں گے ﴿ قَدْ جَآءَؔتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ١ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَؔ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ ﴾ ’’بے شک لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات، سو اب کوئی ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو ہماری سفارش کریں یا ہم لوٹا دیے جائیں ‘‘ ﴿ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ ﴾ ’’تو ہم عمل کریں خلاف اس کے جو ہم کر رہے تھے‘‘ حالانکہ دنیا کی طرف واپس لوٹنے کا وقت گزر چکا ہے ﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ﴾ (المدثر: 74؍48) ’’پس سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔‘‘ان کی دنیا میں واپس لوٹنے کی التجا تاکہ وہ نیک عمل کر سکیں ، محض جھوٹ ہے ان کا مقصد تو محض اس عذاب کو دور کرنا ہے جو ان پر وارد ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ (الانعام: 6؍28) ’’اگر انھیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے۔ بے شک یہ جھوٹے ہیں ‘‘۔ ﴿ قَدْ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’بے شک نقصان میں ڈالا انھوں نے اپنے آپ کو‘‘ جبکہ وہ منافع سے محروم ہوگئے اور ہلاکت کی راہوں پر جا نکلے۔ یہ خسارہ مال اور اثاثوں یا اولاد کا خسارہ نہیں بلکہ یہ تو ایسا خسارہ ہے کہ متاثرین کے لیے اس کی کوئی تلافی ہی نہیں ۔ ﴿ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اور گم ہو جائے گا ان سے جو وہ افتراء کیا کرتے تھے‘‘ یعنی دنیا میں اپنی خواہشات نفس اور شیطان کے وعدوں کے مطابق بہتان طرازی کیا کرتے تھے اور اب ان کے سامنے وہ کچھ آگیا جو ان کے کسی حساب میں ہی نہ تھا۔ ان کے سامنے ان کا باطل اور گمراہی اور انبیا و مرسلین o کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔
آیت: 54 #
{إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (54)}.
یقینا تمھارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں ، پھر وہ مستوی ہوگیا اوپر عرش کے،وہ ڈھانپتا ہے رات سے دن کو،طلب کرتی ہے(رات) اس (دن) کو جلدی جلدی،اور (پیداکیے)سورج اور چاند اور تارے درآں حالیکہ وہ(سب) تابع ہیں اللہ کے حکم کے، آگاہ رہو! اسی کے لیے ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا،بہت بابرکت ہے اللہ،رب جہانوں کا(54)
#
{54} يقول تعالى مبيناً أنه الربُّ المعبود وحده لا شريك له: {إنَّ ربَّكم اللهُ الذي خَلَقَ السمواتِ والأرضَ}: وما فيهما على عظمهما وسعتهما وإحكامهما وإتقانهما وبديع خلقهما {في ستة أيام}: أولها يوم الأحد، وآخرها يوم الجمعة. فلما قضاهما وأودع فيهما من أمره ما أودع؛ {استوى}: تبارك وتعالى {على العرش}: العظيم الذي يسع السماوات والأرض وما فيهما وما بينهما؛ استوى استواءً يليق بجلاله وعظمته وسلطانه، فاستوى على العرش، واحتوى على الملك، ودبر الممالك، وأجرى عليهم أحكامه الكونيّة وأحكامه الدينيّة، ولهذا قال: {يُغْشي الليلَ}: المظلم {النهارَ}؛ المضيء، فيظلم ما على وجه الأرض، ويسكُن الآدميون، وتأوي المخلوقات إلى مساكنها، ويستريحون من التعب والذهاب والإياب الذي حصل لهم في النهار. {يطلُبُه حثيثاً}: كلَّما جاء الليل؛ ذهب النهار، وكلَّما جاء النهار؛ ذهب الليل ... وهكذا أبداً على الدوام حتى يطوي الله هذا العالم، وينتقل العباد إلى دار غير هذه الدار. {والشمس والقمر والنجوم مسخرات بأمره}؛ أي: بتسخيره وتدبيره الدالِّ على ما له من أوصاف الكمال، فخلقها وعظمها دالٌّ على كمال قدرته، وما فيها من الإحكام والانتظام والإتقان دالٌّ على كمال حكمته، وما فيها من المنافع والمصالح الضروريَّة وما دونها دالٌّ على سعة رحمته، وذلك دال على سعة علمه، وأنه الإله الحقُّ الذي لا تنبغي العبادة إلا له. {ألا له الخَلْق والأمر}؛ أي: له الخلق الذي صدرت عنه جميع المخلوقات علويّها وسفليّها أعيانها وأوصافها وأفعالها والأمر المتضمن للشرائع والنبوات؛ فالخلق يتضمَّن أحكامه الكونيَّة القدريَّة، والأمر يتضمَّن أحكامه الدينيَّة الشرعيَّة، وثم أحكام الجزاء، وذلك يكون في دار البقاء. {تبارك الله}؛ أي: عَظُم وتعالى وكثر خيره وإحسانه، فتبارك في نفسه لعظمة أوصافه وكمالها، وبارك في غيره بإحلال الخير الجزيل والبر الكثير؛ فكل بركة في الكون فمن آثار رحمته، ولهذا قال: {تبارك الله ربُّ العالمين}.
[54] اللہ تبارک و تعالیٰ واضح کرتا ہے کہ وہ اکیلا رب معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’بے شک تمھارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو‘‘ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، زمین و آسمان کی وسعت، ان کی عظمت، ان کے محکم ہونے، ان کے مہارت کے ساتھ بنے ہونے اور ان کی انوکھی تخلیق کے باوصف ﴿ فِیْ سِتَّةِ اَیَّ٘امٍ ﴾ ’’چھ دن میں ‘‘ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق پوری کر دی اور ان کے اندر اپنے تمام امور ودیعت کر دیے۔ ﴿اسْتَوٰى عَلَى الْ٘عَرْشِ ﴾ ’’وہ عرش پر جا ٹھہرا۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عرش عظیم پر مستوی ہوا اور عرش عظیم تمام آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے، سب پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم پر اس طرح مستوی ہوا جس طرح اس کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی سلطنت کے لائق ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی ہوا، اس کا اقتدار تمام ممالک کو شامل ہے، اس نے اپنے تمام احکام تکوینی اور احکام دینی جاری فرمائے۔ بنابریں فرمایا: ﴿یُغْشِی الَّیْلَ ﴾ ’’اڑھاتا ہے وہ رات کو‘‘ ﴿ النَّهَارَ ﴾ ’’دن پر‘‘ یعنی اندھیری رات روشن دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور زمین پر اندھیرا چھا جاتا ہے، انسان آرام کرتے ہیں اور مخلوقات اپنے اپنے مسکنوں میں دن بھر کے آنے جانے اور تھکاوٹ سے آرام پاتے ہیں ۔ ﴿ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا ﴾ ’’کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا‘‘ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ گردش لیل و نہار ہمیشہ جاری رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گا اور بندے اس جہان فانی سے دوسرے جہان میں منتقل ہو جائیں گے۔ ﴿وَّالشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ ﴾ ’’اور پیدا کیے سورج، چاند اور تارے، تابع دار اپنے حکم کے‘‘ یعنی سورج، چاند اور ستارے اس کی تسخیر و تدبیر سے مسخر ہیں ۔ جو اس کے اوصاف کمال کی دلیل ہے۔ پس ان کی تخلیق اور ان کا اتنا بڑا ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور اس کائنات کا محکم، مضبوط اور منظم ہونا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں میں جو ضروری اور بعض دیگر فوائد اور مصالح رکھے گئے ہیں ، وہ اس کے بے کراں علم اور بے پایاں رحمت پر دلیل ہیں ۔ نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ ﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ﴾ ’’اسی کے لیے ہے پیدا کرنا بھی اور حکم بھی۔‘‘ یعنی وہی تخلیق کا مالک ہے جس سے تمام مخلوقات مخلوق علوی، مخلوق سفلی، ان کے اعیان، اوصاف اور افعال صادر ہوتے ہیں اور امر کا بھی مالک ہے جو شریعت و نبوت کو متضمن ہے۔ پس ’’تخلیق‘‘ اس کے احکام کونی و قدری کو اور ’’امر‘‘ احکام دینی و شرعی کو متضمن ہے اور احکام جزا کا اجراء داربقا میں ہوگا ﴿ تَبٰرَكَ اللّٰهُ ﴾ یعنی وہ بلند اور عظمت والا ہے اس کی بھلائی اور احسان بہت زیادہ ہے، وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اپنی عظمت اوصاف اور کمال صفات کی بنا پر بہت بابرکت ہے اور مخلوق کو بے پایاں بھلائی اور بے شمار نیکی سے نواز کر دوسروں کو بھی برکت عطا کرتا ہے۔ پس اس کائنات میں جو برکات نظر آتی ہیں وہ اس کی رحمت کے آثار ہیں ۔ بنابریں فرمایا: ﴿ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’بڑا بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفت عظمت و جلال کا ذکر فرمایا جو عقل مندوں کی اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ تمام حوائج میں وہی اکیلا معبود مقصود ہے۔ تو اب اس چیز کا حکم دیا جو اس حقیقت پر مترتب ہوتی ہے۔
آیت: 55 - 56 #
{ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (55) وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (56)}.
پکارو تم اپنے رب کو آہ وزاری کرتے ہوئے اور چپکے چپکے،تحقیق وہ نہیں پسند کرتا حد سے تجاوز کرنے والوں کو(55) اور نہ فساد کرو تم زمین میں بعد اس کی اصلاح کےاور پکارو اللہ كو خوف اور طمع کرتے ہوئے، یقینا اللہ کی رحمت قریب ہے احسان کرنے والوں کے(56)
#
{55} الدعاء يدخل فيه دعاء المسألة ودعاء العبادة، فأمر بدعائه {تضرعاً}؛ أي: إلحاحاً في المسألة ودؤوباً في العبادة، {وخُفية}؛ أي: لا جهراً وعلانيةً يُخاف منه الرياء، بل خفية وإخلاصاً لله تعالى. {إنه لا يحبُّ المعتدين}؛ أي: المتجاوزين للحدِّ في كل الأمور، ومن الاعتداء كون العبد يسأل الله مسائل لا تصلح له، أو يتنطع في السؤال، أو يبالغ في رفع صوته بالدعاء؛ فكلُّ هذا داخل في الاعتداء المنهيِّ عنه.
[55] ’’دعا‘‘ میں دعائے مسئلہ اور دعائے عبادت دونوں شامل ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اسے پکاریں ﴿ تَضَرُّعًا ﴾ ’’عاجزی سے۔‘‘ یعنی گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے مانگیں اور جم کر اس کی عبادت کریں ۔ ﴿ وَّخُفْیَةً ﴾ ’’اور چپکے سے۔‘‘ یعنی بآواز بلند اور اعلانیہ نہ گڑگڑائیں جس سے ریا کا خدشہ ہو بلکہ چھپ چھپ کر خالص اللہ تعالیٰ کے لیے آہ و زاری کریں ﴿اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ﴾ ’’وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ یعنی تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بھی حد سے تجاوز ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیزوں کا سوال کرے جو بندے کے لیے درست نہیں یا وہ سرے سے سوال کرنا ہی چھوڑ دے یا وہ بہت زیادہ بلند آواز میں دعا مانگے۔ یہ تمام امور تجاوز حدود میں شامل ہیں جو ممنوع ہیں ۔
#
{56} {ولا تفسدوا في الأرض}: بعمل المعاصي {بعد إصلاحها}: بالطاعات؛ فإن المعاصي تفسد الأخلاق والأعمال والأرزاق؛ كما قال تعالى: {ظهر الفسادُ في البرِّ والبحر بما كسبتْ أيدي الناس}: كما أنَّ الطاعات تصلُحُ بها الأخلاق والأعمال والأرزاق وأحوال الدُّنيا والآخرة. {وادعوه خوفاً وطمعاً}؛ أي: خوفاً من عقابه، وطمعاً في ثوابه، طمعاً في قبولها وخوفاً من ردِّها، لا دعاء عبد مدلٍّ على ربه، قد أعجبته نفسه، ونزَّل نفسه فوق منزلته، أو دعاء من هو غافل لاهٍ. وحاصل ما ذكر الله من آداب الدعاء: الإخلاصُ فيه لله وحده؛ لأنَّ ذلك يتضمَّنه الخفية، وإخفاءه وإسراره، وأن يكون القلبُ خائفاً طامعاً لا غافلاً ولا آمناً ولا غير مبالٍ بالإجابة، وهذا من إحسان الدعاء؛ فإن الإحسان في كل عبادة بَذْلُ الجهد فيها وأداؤها كاملةً لا نقصَ فيها بوجه من الوجوه. ولهذا قال: {إنَّ رحمةَ الله قريبٌ من المحسنين}: في عبادة الله، المحسنين إلى عباد الله، فكلَّما كان العبد أكثر إحساناً؛ كان أقرب إلى رحمة ربِّه، وكان ربُّه قريباً منه برحمته. وفي هذا من الحثِّ على الإحسان ما لا يخفى.
[56] ﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔‘‘ یعنی اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ﴿بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ﴾ ’’اس کی اصلاح کے بعد‘‘ یعنی اطاعت اور نیکی کے ذریعے سے اس کی اصلاح کر لینے کے بعد۔ کیونکہ معاصی، اخلاق، اعمال اور رزق کو فاسد کر دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 30؍41) ’’لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب سے بحر و بر میں فساد پھیل گیا۔‘‘ جیسے نیکیوں سے اخلاق، اعمال، رزق اور دنیا و آخرت کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ ﴿وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾ ’’اور اس (اللہ) سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہو۔‘‘ اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اسے پکارو۔ نیز یہ امید بھی رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرمائے گا اور اس بات سے بھی ڈرو کہ کہیں اللہ تعالیٰ دعا کو رد نہ کر دے۔ اس بندے کی طرح دعا نہ مانگو جو ناز و ادا کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے جرأت اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو خود پسندی کا شکار ہے اور جس نے اپنے نفس کو اس کی اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دی ہے اور نہ اس شخص کی طرح دعا مانگو جو غافل دل کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آداب دعا کے بارے میں جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ہو اور دعائے خفی اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کو متضمن ہے۔ دعا کا چھپانا اور اس کا اخفاء یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ سے خائف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت کی امید رکھتا ہو، غافل دل کے ساتھ دعا نہ کرے، اپنے آپ کو مامون نہ سمجھے اور نہ قبولیت دعا کے بارے میں بے پروائی کا اظہار کرے اور یہ چیز دعا میں احسان کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ ہر عبادت میں احسان یہ ہے کہ بندہ اس عبادت میں اپنی پوری جدوجہد صرف کر دے، اسے نہایت کامل طریقے سے ادا کرے اور کسی طور بھی اس میں نقص واقع نہ ہونے دے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَ٘رِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر پہنچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والے لوگ۔ پس بندہ جتنا زیادہ احسان کے مقام پر فائز ہوگا اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قریب ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں احسان کی ترغیب ہے، جو مخفی نہیں ۔
آیت: 57 - 58 #
{وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (57) وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ (58)}.
اور وہی ہے جو بھیجتا ہے ہوائیں خوشخبری دینے والی پہلے اپنی رحمت سے،یہاں تک کہ جب وہ اٹھاتی ہیں بھاری بادل کو،تو ہانکتے ہیں ہم ان کو ایک شہر مردہ کی طرف، پھر اتارتے ہیں ہم ان کے ذریعے پانی، پھر نکالتے ہیں ہم اس کے ذریعے سے ہر طرح کے میوے، اسی طرح نکالیں گے ہم مُردوں کو(قبروں سے) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو(57) اور شہرپاکیزہ(عمدہ زمین) نکلتی ہے اس کی انگوری اپنے رب کے حکم سےاور جو(زمین) خراب ہے، نہیں نکلتی (اس کی انگوری) مگر ناقص، اسی طرح پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے جو شکر کرتے ہیں(58)
#
{57} بين تعالى أثراً من آثار قدرته ونفحة من نفحات رحمته، فقال: {وهو الذي يرسل الرياح بشراً بين يدي رحمته}؛ أي: الرياح المبشرات بالغيث، التي تثيره بإذن الله من الأرض، فيستبشر الخلق برحمة الله، وترتاح لها قلوبهم قبل نزوله. {حتى إذا أقلَّت}: الرياح {سحاباً ثقالاً}: قد أثاره بعضها، وألفه ريحٌ أخرى وألقحه ريح أخرى، {سُقْناه لبلدٍ ميِّتٍ}: قد كادت تهلك حيواناتُهُ وكاد أهله أن ييأسوا من رحمة الله. {فأنزلنا به}؛ أي: بذلك البلد الميت {الماء}: الغزير من ذلك السحاب، وسخَّر الله له ريحاً تدره وريحاً تفرِّقه بإذن الله. فأنبتنا به من كلِّ الثمرات: فأصبحوا مستبشرين برحمة الله، راتعين بخير الله. وقوله: {كذلك نخرِجُ الموتى لعلَّكم تَذَكَّرون}؛ أي: كما أحيينا الأرض بعد موتها بالنبات كذلك نخرج الموتى من قبورهم بعدما كانوا رفاتاً متمزِّقين. وهذا استدلال واضح؛ فإنه لا فرق بين الأمرين؛ فمنكِرُ البعثِ استبعاداً له مع أنه يرى ما هو نظيره من باب العناد وإنكار المحسوسات. وفي هذا الحثُّ على التذكُّر والتفكُّر في آلاء الله والنظر إليها بعين الاعتبار والاستدلال لا بعين الغفلة والإهمال.
[57] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ ﴾ ’’اور وہی ہے جو چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والى اس کی رحمت (بارش) سے پہلے‘‘ یعنی وہ ہوائیں جو بارش کی خوشخبری دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادلوں کو زمین سے اٹھاتی ہیں اور مخلوق اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور اس کے برسنے سے قبل ان کے دلوں میں خوشی کے کنول کھل اٹھتے ہیں ﴿ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب وہ اٹھا لاتی ہیں ‘‘ یعنی ہوائیں ﴿ سَحَابً٘ا ثِقَالًا ﴾ ’’بھاری بادلوں کو‘‘ بعض ہوائیں ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں ، بعض دوسری ہوائیں ان کو اکٹھا کرتی ہیں اور کچھ ہوائیں ان کو بار دار کرتی ہیں ﴿ سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّؔیِّتٍ ﴾ ’’تو ہانک دیتے ہیں ہم اس (بادل) کو ایک مردہ شہر کی طرف‘‘ اس علاقے کے حیوانات ہلاکت کے قریب اور وہاں کے باسی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو چلے تھے ﴿ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَؔ ﴾ ’’پھر اس (بادل) سے مینہ برساتے ہیں ۔‘‘ یعنی اس بادل کے ذریعے سے ہم نے اس مردہ زمین پر خوب پانی برسایا، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا کو مسخر کیا جو بادلوں کو پانی سے لبریز کرتی ہے اور دوسری ہوا اللہ کے حکم سے ان بادلوں کو لخت لخت کر کے بکھیرتی ہے ﴿ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُ٘لِّ الثَّ٘مَرٰتِ ﴾ ’’پھر نکالتے ہیں ہم اس سے ہر طرح کے پھل‘‘ پس وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی بھلائی سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ﴿كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم نصیحت پکڑو‘‘ یعنی جس طرح ہم نے زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو نباتات کے ذریعے سے زندہ کیا اسی طرح ہم مردوں کو، جب وہ اپنی قبروں میں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی بن چکے ہوں گے، زندہ کریں گے۔ یہ استدلال بہت واضح ہے دونوں امور میں کوئی فرق نہیں ۔ زندگی بعد موت کو بعید سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کا انکار کرنے والا اس کے نظائر کا مشاہدہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ عناد اور محسوسات کے انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو چشم غفلت سے دیکھنے کی بجائے چشم عبرت سے ان میں غور کرنے اور تدبر و تفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔
#
{58} ثم ذكر تفاوت الأراضي التي ينزل عليها المطر، فقال: {والبلدُ الطيِّب}؛ أي: طيب التربة والمادة، إذا نزل عليه المطر؛ {يخرج نباتُهُ}: الذي هو مستعدٌّ له {بإذن ربِّه}؛ أي: بإرادة الله ومشيئته، فليست الأسباب مستقلَّةً بوجود الأشياء حتى يأذن الله بذلك. {والذي خَبُثَ}: من الأراضي {لا يخرُجُ إلَّا نَكِداً}؛ أي: إلا نباتاً خاسًّا لا نفع فيه ولا بركة. {كذلك نصرِّف الآيات لقوم يشكرونَ}؛ أي: ننوِّعها، ونبيِّنها، ونضرب فيها الأمثال، ونسوقها لقوم يشكرون الله بالاعتراف بنعمه والإقرار بها وصرفها في مرضاة الله؛ فهم الذين ينتفعون بما فصل الله في كتابه من الأحكام والمطالب الإلهية؛ لأنَّهم يرونها من أكبر النعم الواصلة إليهم من ربهم، فيتلقونها مفتقرين إليها فرحين بها، فيتدبَّرونها ويتأمَّلونها، فيبين لهم من معانيها بحسب استعدادهم. وهذا مثالٌ للقلوب حين ينزل عليها الوحي الذي هو مادةُ الحياة كما أن الغيث مادة الحيا؛ فإن القلوب الطيبة حين يجيئها الوحي تقبله وتعلمه وتنبُتُ بحسب طيب أصلها وحسن عنصرها، وأما القلوب الخبيثة التي لا خير فيها؛ فإذا جاءها الوحي؛ لم يجد محلاًّ قابلاً، بل يجدها غافلة معرضة أو معارضة، فيكون كالمطر الذي يمرُّ على السباخ والرمال والصخور فلا يؤثِّر فيها شيئاً، وهذا كقوله تعالى: {أنزل من السماءِ ماءً فسالتْ أوديةٌ بِقَدَرِها فاحتملَ السيلُ زبداً رابياً ... } الآيات.
[58] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مختلف قطعات زمین میں تفاوت کا ذکر فرمایا ہے جن پر بارش برستی ہے۔ ﴿وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ ﴾ ’’اور جو شہر پاکیزہ ہے‘‘ یعنی جس کی مٹی اور اصل پاکیزہ ہے، جب اس پر بارش اترتی ہے ﴿ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ ﴾ ’’اس کا سبزہ نکلتا ہے‘‘ جو اس کے لیے تیار ہوتی ہے ﴿ بِـاِذْنِ رَبِّهٖ ﴾ ’’اس کے رب کے حکم سے‘‘ یہ نباتات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ظاہر ہوتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو اشیا کے وجود میں اسباب کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ ﴿ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَؔكِدًا ﴾ ’’اور جو خراب زمین ہے اس میں سے خراب اور خسیس نباتات ہی نکلتی ہیں ‘‘ جس میں کوئی فائدہ اور کوئی برکت نہیں ہوتی۔ ﴿ كَذٰلِكَ نُ٘صَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگزار لوگوں کے لیے پھیر پھیر کربیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم آیات کی مختلف انواع اور مثالیں ان لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اقرار کر کے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور ان نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں ۔ پس یہی لوگ ہیں جو ان احکام اور مطالب الہٰیہ سے مستفید ہوتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کی ہے کیونکہ وہ ان احکام الہیہ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت خیال کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس پہنچی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس نعمت کا محتاج سمجھتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں اور ان احکام میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی استعداد کے مطابق ان کے سامنے ان احکام کے معانی بیان کر دیتا ہے۔ یہ دلوں کے لیے ایک مثال ہے جب ان پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے یہ مادۂ حیات ہے اور بادل بارش کا مادہ ہے۔ قلوب طاہرہ کے پاس جب وحی آتی ہے تو اسے قبول کرتے ہیں اور اسے سیکھتے ہیں اور اپنی فطرت کی پاکیزگی اور اپنے عنصر کی اچھائی کے مطابق نشوونما پاتے ہیں ۔ قلوب خبیثہ، جن میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی جب ان کے پاس وحی آتی ہے تو وہ قابل قبول مقام و محل نہیں پاتی بلکہ وہ انھیں غافل اور روگرداں یا مخالفت کرنے والے پاتی ہے۔ پس اس کی مثال اس بارش کی مانند ہے جو شور زدہ زمین، ریت کے ٹیلوں اور چٹانوں پر برستی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا …﴾ (الرعد: 13؍17)الخ ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنے اپنے اندازے کے مطابق ندی نالے بہہ نکلے اور پانی نے پھولا ہوا جھاگ اٹھایا۔ ‘‘
آیت: 59 - 64 #
{لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (59) قَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (60) قَالَ يَاقَوْمِ لَيْسَ بِي ضَلَالَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (61) أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (62) أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (63) فَكَذَّبُوهُ فَأَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ (64)}.
البتہ تحقیق بھیجا ہم نے نوح کو طرف اس کی قوم کے،پس اس نے کہا،اے میری قوم! عبادت کرو تم اللہ کی،نہیں ہے تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے،یقینا میں اندیشہ کرتا ہوں تم پر عذاب کا بڑے دن کے(59) کہا سرداروں نے اس کی قوم میں سے! بے شک ہم تو دیکھتے ہیں تجھے گمراہی ظاہر میں(60) کہا نوح نے اے میری قوم!نہیں ہے میرے ساتھ کوئی گمراہی لیکن میں رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے(61) پہنچاتا ہوں تمھیں پیغامات اپنے رب کے اور خیر خواہی کرتا ہوں تمھاری اور جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو نہیں جانتے تم(62) کیا تعجب کرتے ہو تم اس بات سے کہ آئی تمھارے پاس نصیحت تمھارے رب کی طرف سے اوپر ایک ایسے آدمی کے جو تم میں سے ہے؟ تاکہ ڈرائے تمھیں اور تاکہ تم ڈرجاؤ اور تاکہ تم رحم کیے جاؤ(63) پس جھٹلایاانھوں نے نوح کو تونجات دی ہم نے اسے اور ان کو جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں اور غرق کردیاہم نے ان کو جنھوں نے جھٹلایا تھا ہماری آیات کو،بلاشبہ وہ لوگ تھے(دل کے) اندھے(64)
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیا و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔۔۔۔ اور کیسے انبیا و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔
#
{59} فقال عن نوح أول المرسلين: {لقد أرسلنا نوحاً إلى قومه}: يدعوهم إلى عبادة الله وحده حين كانوا يعبدُون الأوثان، {فقال}: لهم: {يا قوم اعبُدوا الله}؛ أي: وحدوه، {ما لكم من إلهٍ غيرُهُ}: لأنه الخالق الرازق المدبِّر لجميع الأمور، وما سواه مخلوقٌ مدبَّر ليس له من الأمر شيء. ثم خوَّفهم إن لم يطيعوه عذابَ الله، فقال: {إنِّي أخافُ عليكم عذابَ يوم عظيم}: وهذا من نصحه عليه الصلاة والسلام وشفقته عليهم؛ حيث خاف عليهم العذاب الأبديَّ والشقاء السرمديَّ؛ كإخوانه من المرسلين، الذين يشفِقون على الخَلْق أعظم من شفقة آبائهم وأمهاتهم.
[59] چنانچہ جناب نوحu، جو اولین رسول ہیں ، کے بارے میں فرمایا: ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ ﴾ ’’ہم نے نوحu کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔‘‘ حضرت نوح کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿ فَقَالَ ﴾ جناب نوح نے ان سے فرمایا ﴿ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ﴾ ’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ﴾ ’’اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ‘‘ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں ، پھر انھیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا: ﴿اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے‘‘ یہ ان کے لیے جناب نوحu کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔
#
{60} فلما قال لهم هذه المقالة؛ ردُّوا عليه أقبح ردٍّ، فقال {الملأ من قومِهِ}؛ أي: الرؤساء الأغنياء المتبوعون، الذين قد جرت العادة باستكبارهم على الحقِّ وعدم انقيادهم للرسل: {إنا لنراك في ضلال مبين}: فلم يكفِهِم قبَّحَهُمُ اللهُ أنهم لم ينقادوا له، بل استكبروا عن الانقياد له، وقدحوا فيه أعظم قدح، ونسبوه إلى الضلال، ولم يكتفوا بمجرَّد الضلال، حتَّى جعلوه ضلالاً مبيناً واضحاً لكلِّ أحدٍ!! وهذا من أعظم أنواع المكابرة، التي لا تروج على أضعف الناس عقلاً، وإنَّما هذا الوصف منطبقٌ على قوم نوح، الذين جاؤوا إلى أصنام قد صوَّروها ونحتوها بأيديهم من الجمادات التي لا تسمع ولا تبصِرُ ولا تغني عنهم شيئاً، فنزَّلوها منزلة فاطر السماوات، وصرفوا لها ما أمكنهم من أنواع القُرُبات، فلولا أنَّ لهم أذهاناً تقوم بها حُجَّة الله عليهم؛ لَحُكِمَ عليهم بأن المجانين أهدى منهم، بل هم أهدى منهم وأعقل.
[60] جب نوحu نے ان سے یہ بات کہی تو انھوں نے حضرت نوحu کو بدترین جواب دیا ﴿قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ ﴾ ’’ان کی قوم کے سرداروں نے کہا۔‘‘ یعنی سرداروں اور دولت مند راہنماؤں نے کہا، حق کے سامنے تکبر کرنا اور انبیا و مرسلین کی اطاعت نہ کرنا، ہمیشہ سے ان کی عادت رہی ہے ﴿ اِنَّا لَـنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’ہم دیکھتے ہیں تجھ کو صریح بہکا ہوا‘‘ انھوں نے اسی پر بس نہیں کی.... اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے..... کہ انھوں نے انبیا و رسل کی اطاعت نہیں کی بلکہ وہ جناب نوح سے تکبر کے ساتھ پیش آئے اور ان کی عیب چینی کی اور ان کو گمراہی سے منسوب کیا پھر انھوں نے آں جناب کو مجرد گمراہ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی گمراہی سے منسوب کیا جو ہر ایک پر واضح ہوتی ہے۔ یہ انکار حق اور عناد کی بدترین قسم ہے جو کمزور لوگوں میں عقل و فہم نہیں چھوڑتی یہ وصف تو قوم نوح پر منطبق ہوتا ہے جو بتوں کو خدا مانتے ہیں جن کو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر بنایا ہے۔ جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کے کوئی کام آسکتے ہیں ۔ انھوں نے ان خداؤں کو وہی مقام دے دیا جو اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا مقام ہے اور ان کے تقرب کے حصول کی خاطر مختلف عبادات ان کے لیے مقرر کر دیں ۔ اگر ان کا ذہن نہ ہوتا جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوتی ہے تو ان کے بارے میں یہی فیصلہ ہوتا کہ فاتر العقل لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں بلکہ ان سے زیادہ عقل مند ہیں ۔
#
{61 ـ 62} فرد نوح عليهم رَدًّا لطيفاً وترقَّق لهم لعلهم ينقادون له، فقال: {يا قوم ليس بي ضلالةٌ}؛ أي: لست ضالاًّ في مسألة من المسائل من جميع الوجوه، وإنما أنا هادٍ مهتدٍ، بل هدايتُهُ عليه الصلاة والسلام من جنس هداية إخوانِهِ أولي العزم من المرسلين، أعلى أنواع الهدايات وأكملها وأتمها، وهي هداية الرسالة التامَّة الكاملة، ولهذا قال: {ولكنِّي رسولٌ من ربِّ العالمينَ}؛ أي: ربي وربكم ورب جميع الخلق، الذي ربَّى جميع الخلق بأنواع التربية، الذي من أعظم تربيته أن أرسل إلى عباده رسلاً تأمرهم بالأعمال الصالحة والأخلاق الفاضلة والعقائد الحسنة، وتنهاهم عن أضدادها، ولهذا قال: {أبلِّغُكم رسالاتِ ربِّي وأنصحُ لكم}؛ أي: وظيفتي تبليغكم ببيان توحيده وأوامره ونواهيه على وجه النصيحة لكم والشفقة عليكم، {وأعلمُ من اللهِ مالا تعلمونَ}: فالذي يتعيَّن أن تطيعوني وتنقادوا لأمري إن كنتم تعلمونَ.
[62,61] نوحu نے نہایت لطیف پیرائے میں جواب دیا جو ان میں رقت پیدا کرے شاید کہ وہ اطاعت کرنے لگیں ۔ ﴿ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰ٘لَةٌ ﴾ ’’اے میری قوم! مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے۔‘‘ یعنی میں کسی بھی مسئلہ میں کسی طرح بھی گمراہ نہیں ہوں بلکہ میں تو ہدایت یافتہ اور راہ ہدایت دکھانے والا ہوں ۔ بلکہ آنجناب کی راہ نمائی، دیگر اولوالعزم رسولوں کی راہ نمائی کی جنس سے ہے اور راہنمائی کی نہایت اعلیٰ اور کامل ترین نوع ہے اور یہ ہے رسالت کاملہ و تامہ کی راہ نمائی۔ بنابریں فرمایا ﴿ وَّلٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے‘‘ یعنی جو میرا، تمھارا اور تمام مخلوق کا رب ہے، جو مختلف انواع کی ربوبیت کے ذریعے سے مخلوق کو نوازتا ہے، اس کی سب سے بڑی ربوبیت یہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی طرف اپنے رسول بھیجے جو انھیں اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ کا حکم دیتے ہیں اور ان کے منافی اور متضاد امور سے روکتے ہیں ۔ ﴿ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰؔلٰ٘تِ رَبِّیْ وَاَنْ٘صَحُ لَكُمْ ﴾ ’’پہنچاتا ہوں تم کو پیغام اپنے رب کے اور خیرخواہی کرتا ہوں تمھاری‘‘ یعنی میری ذمہ داری نہایت خیر خواہی اور شفقت کے ساتھ تمھیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اوامر و نواہی وضاحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ ﴿ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور میں جانتا ہوں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جو تم نہیں جانتے‘‘ اس لیے جو چیز متعین ہے وہ یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور اگر تم علم رکھتے ہو تو میرے حکم کی تعمیل کرو۔
#
{63} {أوَعَجِبْتُم أن جاءكم ذِكْرٌ من ربِّكم على رجل منكم}؛ أي: كيف تعجبون من حالة لا ينبغي العجب منها، وهو أن جاءكم التذكير والموعظة والنصيحة على يد رجل منكم، تعرفون حقيقتَه وصدقَه وحالَه؛ فهذه الحال من عناية الله بكم وبرِّه وإحسانه الذي يُتَلَقَّى بالقبول والشكر. وقوله: {لِيُنذِرَكُم ولتتَّقوا ولعلَّكم تُرحمون}؛ أي: لينذركم العذاب الأليم، وتفعلوا الأسباب المنجية من استعمال تقوى الله ظاهراً وباطناً، وبذلك تحصُلُ عليهم، وتنزل رحمة الله الواسعة.
[63] ﴿اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّؔنْكُمْ ﴾ ’’کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس نصیحت آئی۔‘‘ یعنی تم اس حالت پر کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے وہ یہ کہ تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے سے، جس کی حقیقت، صداقت اور حال سے تم واقف ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی، نصیحت اور خیر خواہی آئی؟ یہ صورت حال تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا احسان ہے جس کو شکر گزاری کے ساتھ قبول کیا جانا چاہیے۔ ﴿ لِیُنْذِرَؔكُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ ’’تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور تاکہ تم پرہیز گار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ یعنی تاکہ وہ تمھیں دردناک عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تم ظاہری اور باطنی طور پر تقویٰ پر عمل کر کے اپنے لیے نجات کے اسباب مہیا کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت حاصل ہوتی ہے۔
#
{64} فلم يفد فيهم ولا نَجَحَ، {فكذَّبوه فأنجَيْناه والذين معه في الفُلْك}؛ أي: السفينة التي أمر الله نوحاً عليه السلام بصنعها، وأوحى إليه أن يحمِلَ من كلِّ صنف من الحيوانات زوجين اثنين وأهله ومَنْ آمن معه، فحملهم فيها، ونجَّاهم الله بها. {وأغرقنا الذين كذَّبوا بآياتنا إنَّهم كانوا قوماً عَمِينَ}: عن الهدى، أبصروا الحقَّ، وأراهم الله على يد نوح من الآيات البيناتِ ما به يؤمِنُ أولو الألباب، فسخروا منه، واستهزؤوا به، وكفروا.
[64] مگر ان کی بابت جناب نوحu کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں ﴿ فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ ﴾ ’’پس انھوں نے اس کو جھٹلایا، پھر ہم نے بچا لیا اس کو اور ان کو جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں ‘‘ یعنی اس کشتی میں ان کو نجات دی جس کو بنانے کا اللہ تعالیٰ نے نوحu کو حکم دیا تھا اور ان کی طرف وحی فرمائی کہ وہ تمام حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا، اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھی اہل ایمان کو اس کشتی میں سوار کر لیں ۔ انھوں نے ان سب کو سوار کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کشتی کے ذریعے سے ان کو نجات دی۔ ﴿ وَاَغْ٘رَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ ﴾ ’’اور غرق کر دیا ان کو جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو، بے شک وہ لوگ اندھے تھے‘‘ یعنی وہ ہدایت سے اندھے تھے، انھوں نے حق کو دیکھ لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے جناب نوحu کے ہاتھ پر ان کو ایسی ایسی کھلی نشانیاں دکھائی تھیں کہ عقلمند لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں مگر انھوں نے حضرت نوحu کا تمسخر اڑایا، آنجناب کے ساتھ گستاخی سے پیش آئے اور ان کاانکار کیا۔
آیت: 65 - 72 #
{وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُونَ (65) قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ إِنَّا لَنَرَاكَ فِي سَفَاهَةٍ وَإِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (66) قَالَ يَاقَوْمِ لَيْسَ بِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (67) أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ (68) أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (69) قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (70) قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ (71) فَأَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ (72)}.
اور(بھیجا ہم نے) طرف عاد کی ان کے بھائی ہود کو، اس نے کہا،اے میری قوم! عبادت کرو تم اللہ کی، نہیں ہے تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے کیا پس نہیں ڈرتے تم؟ (65) کہا ان چودھریوں نے جنھوں نے کفر کیا تھا اس کی قوم میں سے، بلاشبہ ہم دیکھتے ہیں تجھے بے وقوفی میں،اور یقینا ہم گمان کرتے ہیں تجھے جھوٹوں میں سے (66) کہا (ہود نے) اے میری قوم!نہیں ہے میرے ساتھ بے وقوفی لیکن میں تو رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے(67) پہنچاتا ہوں تمھیں پیغامات اپنے رب کے،اور میں تمھارے لیے خیر خواہ ہوں،امین ہوں(68) کیا تعجب کرتے ہو تم اس بات سے کہ آئی تمھارے پاس نصیحت تمھارے رب کی طرف سے،اوپر ایسے آدمی کے جو تم ہی میں سے ہے تاکہ ڈرائے وہ تمھیں اور یاد کروجبکہ اس نے بنایا تمھیں ایک دوسرے کا جانشین بعد قوم نوح کے اور زیادہ دیا تمھیں قدوقامت میں پھیلاؤ،پس یاد کرو تم نعمتیں اللہ کی تاکہ تم فلاح پاؤ(69) انھوں نے کہا! کہا آیا ہے تو ہمارے پاس ، اس لیے کہ عبادت کریں ہم اللہ اکیلے کی اور چھوڑ دیں انھیں جن کی تھے عبادت کرتے ہمارے باپ دادا؟پس لے آتوہم پر وہ(عذاب)جس سے ڈراتاہے تو ہمیں،اگر ہے تو سچوں میں سے(70) کہا (ہودنے)تحقیق ثابت ہوگیا تم پر تمھارے رب کی طرف سے عذاب اورغضب،کیا جھگڑتے ہو تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں کہ رکھ لیے ہیں وہ تم نے اور تمھارے آباؤاجداد نے؟نہیں نازل فرمائی اللہ نے ان کی کوئی دلیل،سو انتظار کروتم،بے شک میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں(71) پھر نجات دی ہم نے ہود کو اور ان کو جو اس کے ساتھ تھے، ساتھ اپنی رحمت کے،اور کاٹ دی ہم نے جڑ ان کی جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اورنہ تھے وہ ایمان لانے والے(72)
#
{65} أي: {و}: أرسلنا {إلى عادٍ}: ـ الأولى، الذين كانوا في أرض اليمن ـ {أخاهم}: في النسب {هوداً}: عليه السلام، يدعوهم إلى التوحيد، وينهاهم عن الشرك، والطغيان في الأرض، فقال لهم: {يا قوم اعبُدوا اللهَ ما لكم من إلهٍ غيره أفلا تتقون}: سَخَطَهُ وعذابَهُ إن أقمتم على ما أنتم عليه.
[65] ﴿وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ﴾ ’’اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔‘‘ یعنی ہم نے عاد اولیٰ کی طرف، جو سرزمین یمن میں آباد تھے ان کے نسبی بھائی ہودu کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کو شرک اور زمین میں سرکشی سے روکتے تھے ﴿قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ، پس کیا تم ڈرتے نہیں ۔‘‘ اپنے اس رويے پر قائم رہتے ہوئے تمھیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟
#
{66} فلم يستجيبوا ولا انقادوا، فقال {الملأُ الذين كفروا من قومِهِ}: رادِّين لدعوته قادحين في رأيه: {إنا لنراك في سَفاهةٍ وإنا لنظنُّك من الكاذبين}؛ أي: ما نراك إلاَّ سفيهاً غير رشيد، ويغلب على ظنِّنا أنك من جملة الكاذبين. وقد انقلبت عليهم الحقيقةُ واستحكم عماهم حيث رموا نبيَّهم عليه السلام بما هم متَّصفون به، وهو أبعدُ الناس عنه؛ فإنهم السفهاء حقًّا الكاذبون، وأيُّ سفهٍ أعظم ممَّن قابل أحقَّ الحقِّ بالردِّ والإنكار، وتكبَّر عن الانقياد للمرشدين والنصحاء، وانقاد قلبُهُ وقالبه لكلِّ شيطان مريدٍ، ووضع العبادة في غير موضعها، فعَبَدَ من لا يغني عنه شيئاً من الأشجار والأحجار؟! وأيُّ كذب أبلغ من كذب من نسب هذه الأمور إلى الله تعالى؟!
[66] مگر انھوں نے حضرت ہودu کی بات مانی نہ ان کی اطاعت کی۔ ﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ ﴾ ’’ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے، کہنے لگے۔‘‘ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے اور ان کی رائے میں عیب چینی کرتے ہوئے کہا ﴿ اِنَّا لَـنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ﴾ ’’ہم تجھے بیوقوف اور بے راہ رو سمجھتے ہیں اور ہمارا ظن یہ ہے کہ تو جھوٹا ہے۔‘‘ ان کے سامنے حقیقت بدل گئی اور ان کا اندھا پن مستحکم ہوگیا کیونکہ انھوں نے اپنے نبی (u) کی مذمت کی اور ایسے وصف کو ان کی طرف منسوب کیا جس سے خود متصف تھے۔ حالانکہ ہودu لوگوں میں سب سے زیادہ اس وصف سے دور تھے۔ درحقیقت وہ خود بیوقوف اور جھوٹے تھے۔ اس شخص سے بڑھ کر کون بیوقوف ہو سکتا ہے جو سب سے بڑے حق کو ٹھکراتا اور اس کا انکار کرتا ہے۔ جو تکبر سے راہ ہدایت دکھانے والوں اور خیر خواہوں کی اطاعت نہیں کرتا۔ جو اپنے دل و جاں سے ہر سرکش شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور غیر مستحق ہستیوں کی عبادت کرتا ہے چنانچہ وہ پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتا ہے جو اس کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اور اس شخص سے بڑھ کر کون جھوٹا ہو سکتا ہے جو ان مذکورہ امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے؟
#
{67} {قال يا قوم ليس بي سفاهةٌ}: بوجهٍ من الوجوه، بل هو الرسول المرشدُ الرشيدُ، {ولكنِّي رسولٌ من ربِّ العالمين}.
[67] ﴿قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے میری قوم، میں بے عقل نہیں ‘‘ یعنی وہ کسی طرح بھی بیوقوف نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول، راہ ہدایت دکھانے والے اور ہدایت یافتہ ہیں ﴿ وَّلٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں ۔‘‘
#
{68} {أبلِّغُكم رسالاتِ ربِّي وأنا لكم ناصحٌ أمين}: فالواجب عليكم أن تتلقَّوا ذلك بالقبول والانقياد وطاعة رب العباد.
[68] ﴿اُبَلِّغُكُمْ رِسٰؔلٰ٘تِ رَبِّیْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ﴾ ’’میں پہنچاتا ہوں تم کو اپنے رب کے پیغام اور میں تمھارا خیرخواہ ہوں ، اعتماد کے لائق‘‘ پس تم پر فرض ہے کہ تم میری رسالت کو مانتے ہوئے اور بندوں کے رب کی اطاعت کرتے ہوئے اسے قبول کرو۔
#
{69} {أوَعَجِبْتُم أن جاءكم ذِكْرٌ من ربِّكم على رجل منكُم لِيُنذِرَكُم}؛ أي: كيف تعجبون من أمر لا يُتَعَجَّبُ منه، وهو أن الله أرسل إليكم رجلاً منكم، تعرفون أمره، يذكِّركم بما فيه مصالحكم، ويحثُّكم على ما فيه النفع لكم، فتعجَّبتم من ذلك تعجُّب المنكرين. {واذْكُروا إذْ جَعَلَكم خلفاء من بعد قوم نوح}؛ أي: واحمدوا ربَّكم، واشكُروه إذ مَكَّنَ لكم في الأرض، وجعلكم تخلُفون الأمم الهالكة الذين كذَّبوا الرسل، فأهلكهم الله، وأبقاكم لينظر كيف تعملون، واحذروا أن تقيموا على التكذيب كما أقاموا، فيصيبكم ما أصابهم، {و} اذكروا نعمة الله عليكم التي خصَّكم بها، وهي أن {زادكم في الخلق بَسْطَةً}: في القوة وكبر الأجسام وشدَّة البطش، {فاذكُروا آلاءَ اللهِ}؛ أي: نعمه الواسعة وأياديه المتكررة، {لعلَّكُم}: إذا ذَكَرْتُموها بشكرها وأداء حقِّها، {تفلحونَ}؛ أي: تفوزون بالمطلوب، وتنجون من المرهوب.
[69] ﴿اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّؔنْكُمْ لِیُنْذِرَؔكُمْ ﴾ ’’کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمھیں ڈرائے۔‘‘ یعنی تم ایسے معاملے میں کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے ایک شخص کو جس کو تم خوب جانتے ہو، تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، وہ تمھیں ان باتوں کی یاد دہانی کراتا ہے جن میں تمھارے مصالح پنہاں ہیں اور تمھیں ان امور کی ترغیب دیتا ہے جن میں تمھارے لیے فائدہ ہے اور تم اس پر اس طرح تعجب کرتے ہو جیسے منکرین تعجب کرتے ہیں ۔ ﴿ وَاذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ﴾ ’’اور یاد کرو جبکہ تم کو جانشین بنایا قوم نوح کے بعد‘‘ یعنی تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کیونکہ اس نے تمھیں زمین میں اقتدار عطا کیا اور اس نے تمھیں ہلاک ہونے والی قوموں کا جانشین بنایا جنھوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس پاداش میں ہلاک کر دیا اور تمھیں باقی رکھا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تم رسولوں کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، جیسے وہ جمے رہے ورنہ تمھارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمھارے لیے مختص کی اور وہ نعمت یہ ہے ﴿ وَّزَادَؔكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ﴾ ’’اس نے زیادہ کر دیا تمھارے بدن کا پھیلاؤ‘‘ یعنی اس نے تمھیں بہت زیادہ قوت، بڑے بڑے مضبوط جسم اور نہایت سخت پکڑ عطا کی۔ ﴿ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ ﴾ ’’پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں اور اس کے مکرر احسانات کو یاد رکھو ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تم‘‘ یعنی اگر تم ان نعمتوں کو شکر گزاری کے ساتھ اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے یاد رکھو گے ﴿ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’کامیاب ہو جاؤ‘‘ یعنی اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے اور اس چیز سے نجات پا لو گے جس سے ڈرتے ہو۔
#
{70} فوعظهم وذكَّرهم وأمرهم بالتوحيد وذكر لهم وصف نفسه وأنه ناصح أمين، وحذَّرهم أن يأخذهم اللهُ كما أخذ من قبلهم، وذكَّرهم نعم الله عليهم وإدرار الأرزاق إليهم، فلم ينقادوا ولا استجابوا، فقالوا متعجِّبين من دعوته ومخبرين له أنهم من المحال أن يطيعوه: {أجئتَنا لنعبدَ اللهَ وحدَهُ ونَذَرَ ما كان يعبدُ آباؤنا}: قبَّحهم الله، جعلوا الأمر الذي هو أوجبُ الواجبات وأكملُ الأمور من الأمور التي لا يعارضون بها ما وجدوا عليه آباءهم، فقدَّموا ما عليه الآباء الضالون من الشرك وعبادة الأصنام على ما دعت إليه الرسل من توحيد الله وحده لا شريك له وكذبوا نبيهم وقالوا: {ائتنا بما تعِدُنا إن كنتَ من الصادقين}: وهذا الاستفتاحُ منهم على أنفسهم.
[70] جناب ہودu نے ان کو نصیحت کی، ان کو توحید کا حکم دیا اور ان کے سامنے خود اپنے اوصاف بیان کیے اور فرمایا کہ وہ ان کے لیے نہایت امانت دار خیر خواہ ہے۔ انھیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان کا اسی طرح مواخذہ نہ کرے جس طرح اس نے ان سے پہلی قوموں کا مواخذہ کیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا جو وافر رزق کی صورت میں ان پر کیا گیا۔ مگر انھوں نے جناب ہودu کی اطاعت کی نہ ان کی دعوت کو قبول کیا۔ ﴿ قَالُوْۤا ﴾ انھوں نے ہودu کی دعوت پر تعجب کرتے اور ان کو خبردار کرتے ہوئے کہ یہ بہت محال ہے کہ وہ ان کی اطاعت کریں ، کہا ﴿ اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ﴾ ’’کیا تو ہمارے پاس اس واسطے آیا کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے رہے‘‘ اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے کہ انھوں نے اس امر کے مقابلے میں ، جو سب سے زیادہ واجب اور سب سے زیادہ کامل ہے، اس مذہب کو پیش کیا جس پر انھوں نے اپنے آباء و اجداد کو گامزن پایا۔ اپنے گمراہ آباء و اجداد کے شرک اور عبادت اصنام کو انبیا و مرسلین کی دعوت یعنی اللہ وحدہ لا شریک کی توحید پر ترجیح دی اور اپنے نبی کو جھٹلایا اور کہنے لگے ﴿ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’پس لے آ تو ہمارے پاس جس چیز سے تو ہم کو ڈراتا ہے، اگر تو سچا ہے‘‘ یہ مطالبہ خود ان کی طرف سے تھا۔
#
{71} فقال لهم هودٌ عليه السلام: {قد وَقَعَ عليكم من ربِّكم رجْسٌ وغضبٌ}؛ أي: لا بدَّ من وقوعه؛ فإنه قد انعقدت أسبابه وحان وقتُ الهلاك. {أتجادِلونَني في أسماءٍ سمَّيْتموها أنتم وآباؤكم}؛ أي: كيف تجادلون على أمور لا حقائق لها وعلى أصنام سمَّيْتُموها آلهة وهي لا شيء من الإلهية فيها ولا مثقال ذرَّة و {ما أنزل الله بها من سلطانٍ}؛ فإنها لو كانت صحيحةً؛ لأنزل الله بها سلطانًا، فعدم إنزاله له دليلٌ على بطلانها؛ فإنه ما من مطلوب ومقصود ـ وخصوصاً الأمورَ الكبارَ ـ إلا وقد بيَّن الله فيها من الحجج ما يدلُّ عليها ومن السلطان ما لا تخفى معه، {فانتظروا}: ما يقعُ بكم من العقاب الذي وَعَدْتكم به. {إنِّي معكم من المنتظرين}: وفرق بين الانتظارَيْن؛ انتظارِ مَنْ يخشى وقوع العقاب ومَنْ يرجو من الله النصر والثواب.
[71] ﴿قَالَ ﴾ ہودu نے ان سے کہا ﴿ قَدْ وَقَ٘عَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ ﴾ ’’تم پر واقع ہو چکا ہے تمھارے رب کی طرف سے عذاب اور غصہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا واقع ہونا اٹل ہے کیونکہ اس کے اسباب وجود میں آگئے اور ان کی ہلاکت کا وقت قریب آ گیا۔ ﴿اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے خود رکھ لیے ہیں ۔‘‘ یعنی تم ایسے امور میں میرے ساتھ کیوں کر جھگڑتے ہو جن کی کوئی حقیقت نہیں اور ان بتوں کے بارے میں میرے ساتھ کیسے بحث کرتے ہو جن کو تم نے معبودوں کے نام سے موسوم کر رکھا ہے حالانکہ ان کے اندر الوہیت کی ذرہ بھر بھی صفت نہیں ﴿ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْ٘طٰ٘نٍ﴾ ’’اللہ نے ان پر کوئی دلیل نہیں اتاری‘‘ کیونکہ اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی تائید میں ضرور کوئی دلیل نازل فرماتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کا عدم نزول، ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ کوئی ایسا مطلوب و مقصود نہیں ۔۔۔خاص طور پر بڑے بڑے امور۔۔۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دلائل و براہین کو بیان نہ فرما دیا ہو اور ایسی حجت نازل نہ فرما دی ہو جس کے ہوتے مطلوب و مقصود مخفی نہیں رہ سکتا۔ ﴿ فَانْتَظِرُوْۤا ﴾ ’’پس تم انتظار کرو۔‘‘ یعنی پس اس عذاب کا انتظار کرو جو تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے جس کا میں نے تمھارے ساتھ وعدہ کیا ہے ﴿ اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْ٘مُنْتَظِرِیْنَ﴾ ’’میں بھی تمھارے ساتھ منتظر ہوں ‘‘ اور انتظار کی دونوں اقسام میں فرق ہے ایک انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو عذاب کے واقع ہونے سے ڈرتا ہے دوسرا انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور ثواب کا امیدوار ہے۔
#
{72} ولهذا فتح الله بين الفريقين فقال: {فأنجَيْناه}؛ أي: هوداً، {والذين} آمنوا معه {برحمةٍ منا}: فإنه الذي هداهم للإيمان، وجعل إيمانهم سبباً ينالون به رحمته، فأنجاهم برحمته، {وقطَعْنا دابر الذين كذَّبوا بآياتنا}؛ أي: استأصلناهم بالعذاب الشديد الذي لم يُبْق منهم أحداً، وسَلَّطَ الله عليهم {الريح العقيم. ما تَذَرُ من شيءٍ أتت عليه إلا جعلته كالرَّميم}، {فأهْلِكوا فأصبحوا لا يُرى إلاَّ مساكِنُهم فانْظُرْ كيف كان عاقبةُ المنذَرين}، الذين أقيمت عليهم الحُجج فلم ينقادوا لها، وأمِروا بالإيمان فلم يؤمنوا، فكان عاقِبَتُهم الهلاك والخزي والفضيحة، {وأُتْبِعوا في هذه الدُّنيا لعنةً ويومَ القيامةِ. ألا إنَّ عاداً كَفَروا ربَّهم ألا بُعْداً لعادٍ قوم هود}. وقال هنا: {وقَطَعْنا دابرَ الذين كذَّبوا بآياتنا وما كانوا مؤمنينَ}: بوجهٍ من الوجوه، بل وَصْفُهمُ التكذيب والعناد، ونعتُهُم الكِبْر والفساد.
[72] بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں فریقین کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ ﴿ فَاَنْجَیْنٰهُ ﴾ پس ہم نے ہودu کو نجات دے دی ﴿ وَالَّذِیْنَ ﴾ ’’اور ان کو جو ایمان لائے تھے‘‘ ﴿ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّؔنَّا ﴾ ’’اس کے ساتھ، اپنی رحمت سے‘‘ کیونکہ وہی ہے جس نے ان کی ایمان کی طرف راہ نمائی کی اور ان کے ایمان کو ایسا سبب بنایا جس کے ذریعے سے وہ اس کی رحمت حاصل کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کو نجات عطا کردی۔ ﴿ وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ﴾ ’’اور جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی۔‘‘ یعنی ہم نے سخت عذاب کے ذریعے سے ان کی جڑ کاٹ دی اور اس عذاب نے ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر نامبارک سخت ہوا مسلط کر دی۔ وہ جس چیز پر بھی چلتی اسے ریزہ ریزہ کرتی چلی جاتی۔ پس وہ ہلاک کر دیے گئے اور وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پس ان لوگوں کا انجام دیکھو جن کو اس انجام سے ڈرایا گیا تھا، ان پر حجت قائم کی گئی تھی مگر انھوں نے تسلیم نہ کیا، ان کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا تھا مگر وہ ایمان نہ لائے۔ تب ان کا انجام ہلاکت، رسوائی اور فضیحت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ﴿ وَاُ٘تْبِعُوْا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّیَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ﴾ (ھود: 11؍60) ’’اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کرتی رہی اور قیامت کے روز بھی یہ لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی۔ دیکھو عاد نے اپنے رب کا انکار کیا اور دیکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔‘‘ یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور جڑ کاٹ دی ہم نے ان کی جو جھٹلاتے تھے ہماری آیتوں کو اور نہیں مانتے تھے‘‘ یعنی وہ کسی طرح بھی ایمان نہ لائے تھے بلکہ تکذیب اور عناد ان کا وصف، تکبر اور فساد ان کی صفت تھی۔
آیت: 73 - 79 #
{وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (73) وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (74) قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّهِ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ (75) قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ (76) فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا يَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (77) فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (78) فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَاقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ (79)}.
اور (بھیجاہم نے) طرف ثمود کی ان کے بھائی صالح کو(صالح نے) کہا: اے میری قوم!عبادت کرو تم اللہ کی،نہیں تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے تحقیق آگئی ہے تمھارے پاس واضح دلیل تمھارے رب کی طرف سے،یہ اونٹنی ہے اللہ کی تمھارے لیے خاص نشانی،پس چھوڑدو تم اسے کہ چرتی پھرے اللہ کی زمین میں،اور مت ہاتھ لگانا اسے ساتھ برائی کے،ورنہ پکڑلے گا تمھیں عذاب دردناک(73) اور یاد کرو جبکہ اس نے بنالیا تمھیں ایک دوسرے کا جانشین بعد عاد کے اور ٹھکانا دیا تمھیں زمین میں،بناتے ہوتم اس کی نرم(مٹی) سے محلات اور(بناتے ہوتم) تراش کر پہاڑوں کو گھر،پس یاد کرو تم نعمتیں اللہ کی اور مت پھرو زمین میں فسادی بن کر(74) کہا ان وڈیروں نے جنھوں نے تکبر کیا اس کی قوم میں سے واسطے ان لوگوں کے جو کمزور سمجھے جاتے تھے،جو ایمان لے آئے تھے ان میں سے،کیا تم جانتے ہو کہ صالح فرستادہ ہے اپنے رب کا؟ کہا انھوں نے یقینا ہم اس چیز پر کہ بھیجا گیا ہے وہ ساتھ اس کے،ایمان لاتے ہیں(75) کہا انھوں نے جنھوں نے تکبر کیا یقینا ہم ساتھ اس چیز کے کہ ایمان لائے ہوتم اس پر،کفر کرتے ہیں (76) پس کاٹ ڈالیں انھوں نے ٹانگیں اونٹنی کی اور سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے،اور کہا اے صالح!لے آہم پروہ عذاب کہ ڈراتا ہے تو ہمیں(اس سے) اگر ہے تو بھیجے ہوئے(رسولوں) میں سے(77) تو پکڑ لیا انھیں زلزلے نے پس ہوگئے وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے(78) پس پھرا وہ ان سے،اورکہا: اے میری قوم!بلاشبہ پہنچادیا تھا میں تمھیں پیغام اپنے رب کا اور خیر خواہی کی تھی میں نے تمھاری،اور لیکن نہیں پسند کرتے تم خیر خواہوں کو(79)
#
{73} أي: {و} أرسلنا {إلى ثمود}: القبيلة المعروفة الذين كانوا يسكُنون الحِجْر وما حوله من أرض الحجاز وجزيرة العرب، أرسل الله إليهم {أخاهم صالحاً}: نبيًّا يدعوهم إلى الإيمان والتوحيد وينهاهم عن الشرك والتنديد، فقال: {يا قوم اعبدوا الله مالَكُم من إلهٍ غيره}: دعوتُهُ عليه الصلاة والسلام من جنس دعوة إخوانه من المرسلين: الأمر بعبادةِ الله وبيان أنه ليس للعباد إله غير الله. {قد جاءتْكم بينةٌ من ربِّكم}؛ أي: خارق من خوارق العادات التي لا تكون إلا آية سماويَّة لا يقدر الناس عليها، ثم فسَّرها بقوله: {هذه ناقةُ الله لكم آية}؛ أي: هذه ناقةٌ شريفةٌ فاضلةٌ لإضافتها إلى الله تعالى إضافة تشريف، لكم فيها آية عظيمة، وقد ذكر وجه الآية في قوله: {لها شِرْبٌ ولكم شِرْبُ يوم معلوم}، وكان عندهم بئر كبيرةٌ، وهي المعروفة ببئر الناقة، يتناوبونها هم والناقة، للناقة يوم تشربها ويشربون اللبن من ضرعها، ولهم يوم يردونها وتصدر الناقة عنهم. وقال لهم نبيُّهم صالح عليه السلام: {فذَروها تأكلْ في أرض الله}: فلا عليكم من مؤونتها شيء، {ولا تَمَسُّوها بسوءٍ}؛ أي: بعقر أو غيره، {فيأخذَكُم عذابٌ أليم}.
[73] ﴿ وَاِلٰى ثَمُوْدَ ﴾ ’’اور ثمود کی طرف‘‘ ثمود عرب بائدہ کا معروف قبیلہ ہے جو جزیرۃ العرب اور ارض حجاز میں حجر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں آباد تھا ﴿اَخَاهُمْ صٰؔلِحًا ﴾ اللہ تعالیٰ نے صالحu کو نبی بنا کر ان کی طرف مبعوث کیا جو انھیں توحید اور ایمان کی دعوت دیتے تھے اور انھیں شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر گھڑنے سے روکتے تھے۔ ﴿ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ﴾ ’’انھوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ صالحu کی دعوت بھی وہی تھی جو ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین کی دعوت تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دینا اور یہ واضح کر دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کا کوئی الٰہ نہیں ﴿ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے۔‘‘ یعنی ایک خارق عادت دلیل تمھارے پاس آگئی ہے جو آسمانی معجزہ ہے اور انسان اس قسم کی نشانی پیش کرنے پر قادر نہیں ، پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿هٰؔذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً ﴾ ’’یہی اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے معجزہ ہے۔‘‘ یہ شرف و فضل کی حامل اونٹنی ہے کیونکہ اللہ کی طرف اس کی اضافت اس کے شرف کی باعث ہے اور اس میں تمھارے لیے ایک عظیم نشانی ہے۔ صالحu نے اس اونٹنی کے معجزہ ہونے کی وجہ بیان فرمائی ﴿ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ﴾ (الشعراء: 26؍155) ’’ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے اور ایک مقررہ دن تمھارے پانی پینے کی باری ہے۔‘‘ان کے ہاں ایک بہت بڑا کنواں تھا جو ’’اونٹنی والا کنواں ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ اسی کنوئیں سے وہ اور اونٹنی اپنی اپنی باری کے مطابق پانی پیتے تھے۔ ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لیے مقرر تھا وہ اس اونٹنی کے تھنوں سے دودھ پیتے تھے۔ ایک دن لوگوں کے لیے مقرر تھا، اس دن وہ کنوئیں پر پانی لینے کی غرض سے آتے تو اونٹنی وہاں سے چلی جاتی۔ ان کے نبی صالحu نے ان سے کہا ﴿ فَذَرُوْهَا تَاْكُ٘لْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ ﴾ ’’پس اس کو چھوڑ دو کہ کھائے اللہ کی زمین میں ‘‘ تم پر اس اونٹنی کا کچھ بھی بوجھ اور ذمہ داری نہیں ﴿وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ ﴾ ’’اور نہ ہاتھ لگاؤ اس کو بری طرح‘‘ یعنی اس کی کونچیں وغیرہ کاٹنے کی نیت سے اسے مت چھونا۔ ﴿فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’ورنہ تمھیں ایک دردناک عذاب آ لے گا۔‘‘
#
{74} {واذْكُروا إذ جَعَلَكُم خلفاءَ}: في الأرض تتمتَّعون بها وتدركون مطالبكم، {من بعد عادٍ}: الذين أهلكهم الله وجعَلَكم خلفاء من بعدهم، {وبوَّأكم في الأرض}؛ أي: مكَّن لكم فيها وسهَّل لكم الأسباب الموصلة إلى ما تريدون وتبتغون، {تتَّخذونَ من سهولها قصوراً}؛ أي: الأراضي السهلة التي ليست بجبال بيوتاً، ومن الجبال بيوتاً ينحتونها كما هو مشاهدٌ إلى الآن أعمالهم التي في الجبال من المساكن والحِجْر ونحوها، وهي باقية ما بقيت الجبال. {فاذكروا آلاء الله}؛ أي: نعمه وما خوَّلكم من الفضل والرزق والقوة، {ولا تعثَوا في الأرض مفسدين}؛ أي: لا تُخَرِّبوا في الأرض بالفساد والمعاصي؛ فإن المعاصي تدع الديارَ العامرةَ بلاقِعَ، وقد أخلتْ ديارَهُم منهم، وأبقتْ مساكِنَهم موحشةً بعدَهم.
[74] ﴿وَاذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ ﴾ ’’اور یاد کرو جب اس نے تمھیں جانشین بنایا۔‘‘ یعنی یاد کرو اس وقت کو، جب زمین میں تمھیں جانشین بنایا، تم اس زمین سے فائدہ اٹھاتے ہو اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہو: ﴿ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ ﴾ ’’عاد کے بعد‘‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد تمھیں ان کاجانشین مقرر کیا۔ ﴿ وَّبَوَّاَ كُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور تمھیں زمین پر آباد کیا۔‘‘ یعنی اس نے زمین میں تمھیں ٹھکانہ عطا کیا اور اس نے تمھیں وہ اسباب مہیا کیے جن کے ذریعے سے تم اپنے ارادوں اور مقاصد کو پورا کرتے ہو۔ ﴿ تَتَّؔخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا ﴾ ’’اور بناتے ہو تم نرم زمین میں محل‘‘ یعنی نرم اور ہموار زمین پر، جہاں پہاڑ نہیں ہوتے ۔۔۔ تم قصر تعمیر کرتے ہو ﴿ وَّتَنْحِتُوْنَ الْؔجِبَالَ بُیُوْتًا ﴾ ’’اور پہاڑوں کو تراش تراش کربناتے ہو گھر‘‘ جیسا کہ پہاڑوں میں ان کے آثار اور مساکن وغیرہ دیکھ کر اب تک مشاہدہ ہوا ہے اور جب تک یہ پہاڑ باقی ہیں یہ آثار بھی باقی رہیں گے۔ ﴿ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ ﴾ ’’پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اس نے تمھیں اپنے فضل و کرم، رزق اور قوت سے نوازا۔ ﴿ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔‘‘ یعنی فساد اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین کو مت اجاڑو کیونکہ گناہ آباد شہروں کو بیابان بنا دیتے ہیں ، چنانچہ ان کے شہر ان سے خالی ہوگئے اور ان کے مساکن بے آباد اجڑے ہوئے باقی رہ گئے۔
#
{75} {قال الملأُ الذين استكبروا من قومِهِ}؛ أي: الرؤساء والأشراف الذين تكبروا عن الحق، {للذين استضعفوا}: ولما كان المستضعَفون ليسوا كلُّهم مؤمنين؛ قالوا: {لِمَنْ آمن منهم أتعلَمون أنَّ صالحاً مرسلٌ من ربِّه}؛ أي: أهو صادقٌ أم كاذب؟ فقال المستضعفون: إنَّا بالذي {أرسِلَ به مؤمنونَ} من توحيد الله والخبر عنه وأمره ونهيه.
[75] ﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ ﴾ اس کی قوم کے وہ رؤسا اور اشراف، جنھوں نے تکبر سے حق کو ٹھکرایا۔ انھوں نے کہا ﴿ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا﴾ ’’ان لوگوں سے جو کمزور تھے‘‘ چونکہ تمام مستضعفین مومن نہ تھے ﴿ لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَ٘تَ٘عْلَمُوْنَ اَنَّ صٰؔلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ﴾ ’’کہ جو ان میں سے ایمان لا چکے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ صالح کو اس کے رب نے بھیجا ہے؟‘‘ یعنی انھوں نے ان مستضعفین سے کہا جو صالح پر ایمان لے آئے تھے کہ آیا صالح (u) سچا ہے یا جھوٹا؟ مستضعفین نے جواب دیا ﴿اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’ہم کو تو جو وہ لے کر آیا، اس پر یقین ہے‘‘ یعنی توحید الٰہی، اس کے بارے میں خبر اور اللہ کے اوامر و نواہی۔ ان سب پر ہم ایمان رکھتے ہیں ۔
#
{76} {قال الذين استكبَروا إنَّا بالذي آمنتُم به كافرونَ}: حَمَلَهُمُ الكِبْرُ أن لا ينقادوا للحقِّ الذي انقاد له الضعفاء.
[76] ﴿قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ﴾ ’’ان لوگوں نے کہا جنھوں نے تکبر کیا، جس پر تم کو یقین ہے، ہم اس کو نہیں مانتے‘‘ تکبر نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ حق کی اطاعت نہ کریں جس کی اطاعت قوم صالح کے کمزور و ناتواں لوگ کر رہے ہیں ۔
#
{77} {فعقروا الناقة}: التي توعَّدهم إن مسوها بسوء أن يصيبَهم عذابٌ أليم. {وعَتَوا عن أمر ربِّهم}؛ أي: قسوا عنه واستكبروا عن أمره الذي مَنْ عتا عنه أذاقه العذاب الشديد، لا جرم أحلَّ الله بهم من النَّكال ما لم يُحِلَّ بغيرِهم. {وقالوا}: مع هذه الأفعال متجرِّئين على الله معجِزين له غير مبالين بما فعلوا بل مفتخرين بها: {يا صالحُ ائتِنا بما تعِدُنا}: - إن كنت من الصادقين - من العذاب، فقال: {تمتَّعوا في دارِكم ثلاثةَ أيَّام ذلك وعدٌ غيرُ مكذوبٍ}.
[77] ﴿فَعَقَرُوا النَّاقَةَ﴾ ’’پس انھوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کر دیا‘‘ جس کے بارے میں جناب صالحu نے ان کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے اس اونٹنی کو بری نیت سے ہاتھ لگایا تو ان پر دردناک عذاب نازل ہوگا ﴿ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور سرکشی کی انھوں نے اپنے رب کے حکم سے‘‘ یعنی انھوں نے سخت دلی کا مظاہرہ کیا اور اس کے حکم کو تکبر سے ٹھکرا دیا کہ جس کے خلاف اگر کوئی سرکشی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب کا مزا چکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ عذاب نازل کیا جو دوسروں پر نازل نہیں کیا۔ ﴿ وَقَالُوْا﴾ ان افعال کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ انھوں نے جناب الٰہی میں جسارت کرتے ہوئے، اسے عاجز سمجھتے ہوئے اور اپنے کرتوتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بلکہ ان پر فخر کرتے ہوئے کہا ﴿ یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ ﴾ ’’اے صالح! لے آ ہم پر جس سے تو ہم کو ڈراتا ہے‘‘ یعنی جس عذاب کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے ﴿ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْ٘ن ﴾ اگر تو رسول ہے۔ ﴿ فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰ٘ثَةَ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ ﴾ (ھود: 11؍65) ’’صالح نے کہا اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ اٹھا لو یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔‘‘
#
{78} {فأخذتهم الرجفةُ فأصبحوا في دارِهِم جاثمين}: على ركبهم قد أبادهم الله وقطع دابرهم.
[78] ﴿فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ﴾ ’’پس آ پکڑا ان کو زلزلے نے، پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے‘‘ وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ اللہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کی جڑ کاٹ دی۔
#
{79} {فتولَّى عنهم}: صالحٌ عليه السلام حين أحلَّ الله بهم العذاب، {وقال}: مخاطباً لهم توبيخاً وعتاباً بعدما أهلكهم الله: {يا قوم لقد أبلغتُكُم رسالةَ ربِّي ونصحتُ لكم}؛ أي: جميع ما أرسلني الله به إليكم قد أبلغتُكم به وحرصت على هدايتكم واجتهدتُ في سلوككم الصراط المستقيم والدين القويم، {ولكن لا تحبُّونَ الناصحين}: بل رددتُم قول النُّصحاء، وأطعتم كلَّ شيطان رجيم. واعلم أن كثيراً من المفسِّرين يذكرون في هذه القصة أنَّ الناقة خرجت من صخرةٍ صماء ملساء اقترحوها على صالح، وأنها تمخَّضت تمخُّض الحامل، فخرجت الناقة وهم ينظرون، وأن لها فصيلاً حين عقروها رغى ثلاث رغيات وانفلق له الجبل ودخل فيه، وأن صالحاً عليه السلام قال لهم: آية نزول العذاب بكم أن تصبحوا في اليوم الأول من الأيام الثلاثة ووجوهكم مصفرَّة، واليوم الثاني محمرَّة، والثالث مسودَّة، فكان كما قال. وهذا من الإسرائيليات التي لا ينبغي نقلها في تفسير كتاب الله، وليس في القرآن ما يدلُّ على شيء منها بوجه من الوجوه، بل لو كانت صحيحةً لَذَكَرها الله تعالى؛ لأن فيها من العجائب والعبر والآيات ما لا يهمله تعالى ويدع ذِكْرَهُ حتى يأتي من طريق مَنْ لا يوثَق بنقله، بل القرآن يكذِّب بعض هذه المذكورات؛ فإنَّ صالحاً قال لهم: {تمتَّعوا في دارِكُم ثلاثة [أيام]}؛ أي: تنعَّموا وتلذَّذوا بهذا الوقت القصير جدًّا؛ فإنه ليس لكم من المتاع واللَّذَّة سوى هذا، وأيُّ لذَّة وتمتُّع لمن وعدهم نبيُّهم وقوع العذاب وذكر لهم وقوع مقدِّماته فوقعت يوماً فيوماً على وجهٍ يعمُّهم ويشمُلهم؛ لأن احمرار وجوههم واصفرارها واسودادها من العذاب؟! هل هذا إلا مناقض للقرآن ومضادٌّ له؟! فالقرآن فيه الكفاية والهداية عن ما سواه. نعم؛ لو صحَّ شيء عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مما لا يناقض كتاب الله؛ فعلى الرأس والعين، وهو مما أمر القرآن باتباعه: {وما آتاكُمُ الرسولُ فُخذوه وما نهاكم عنه فانتَهوا}. وقد تقدَّم أنه لا يجوز تفسير كتاب الله بالأخبار الإسرائيليَّة، ولو على تجويز الرواية عنهم بالأمور التي لا يُجْزَمُ بكذِبِها؛ فإنَّ معاني كتاب الله يقينيَّة، وتلك أمور لا تصدَّق ولا تكذَّب؛ فلا يمكن اتفاقهما.
[79] ﴿فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ ﴾ ’’پس صالح ان سے منہ پھیر کر چل دیے‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا تو صالحu ان کو چھوڑ کر چل دیے ﴿ وَقَالَ ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان کو ہلاک کر دینے کے بعد ان سے مخاطب ہو کر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا ﴿ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ﴾ ’’اے میری قوم! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمھاری خیر خواہی کی۔‘‘ یعنی میں ان تمام احکامات کو تم تک پہنچا چکا ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث کیا تھا۔ میں تمھاری ہدایت کا بہت متمنی تھا اور میں نے تمھیں صراط مستقیم اور دین قیم پر گامزن کرنے کی بہت کوشش کی۔ ﴿وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ ﴾ ’’لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے‘‘ بلکہ تم نے خیر خواہوں کی بات کو ٹھکرا دیا اور ہر دھتکارے ہوئے شیطان کی اطاعت کی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ صالحu کی اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب کفار نے صالح uسے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پتھر نے اونٹنی کو اسی طرح جنم دیا تھا جس طرح کوئی حاملہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے یہ اونٹنی پتھر میں سے برآمد ہوئی۔ جب انھوں نے اونٹنی کو ہلاک کیا تو اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ تین بار بلبلایا، اس کے سامنے پہاڑ پھٹ گیا اور اونٹنی کا یہ بچہ پہاڑ کے اس شگاف میں داخل ہوگیا۔ نیز ان مفسرین کے مطابق صالحu نے کفار سے فرمایا تھا کہ تم پر عذاب کے نازل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ان مذکورہ تین دنوں میں پہلے دن تمھارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑ جائیں گے اور جیسے حضرت صالحu نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ ان مفسرین کا بیان کردہ یہ قصہ اسرائیلیات میں شمار ہوتا ہے جن کو اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں ۔ قرآن مجید میں بھی کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو کسی بھی پہلو سے اس کی صداقت پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس اگر یہ قصہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا کیونکہ یہ واقعہ بہت تعجب انگیز، عبرت انگیز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہوتا اللہ تعالیٰ کبھی اس کو مہمل نہ چھوڑتا اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیے بغیر نہ رہتا اور یوں یہ قصہ ناقابل اعتماد ذرائع سے نقل نہ ہوتا۔ بلکہ قرآن کریم اس قصہ کے بعض مشمولات کی تکذیب کرتا ہے۔ صالحu نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰ٘ثَةَ اَیَّامٍ ﴾ (ہود: ؍11۔65) ’’اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ حاصل کرلو۔‘‘ یعنی اس بہت ہی تھوڑے سے وقت میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ کر لو کیونکہ اس کے بعد تمھارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی اور ان لوگوں کے لیے کون سی لذت اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہو سکتا ہے، جن کو ان کے نبی نے عذاب کے وقوع کی وعید سنائی ہو اور اس عذاب کے مقدمات کا بھی ذکر کر دیا ہو اور یہ عذاب روز بروز بتدریج اسی طریقے سے واقع ہو رہا ہو، جو سب کو شامل ہو کیونکہ ان کے چہروں کا سرخ، زرد اور پھر سیاہ ہو جانا اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔ کیا یہ قصہ قرآن کے بیان کردہ واقعات کے خلاف اور متضاد نہیں؟ جو کچھ قرآن بیان کرتا ہے وہی کافی ہے اور وہی راہ ہدایت ہے۔ ہاں ! جو چیز رسول اللہe سے ثابت ہو جائے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو تو سر آنکھوں پر اور یہی وہ چیز ہے جس کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَمَا نَهٰؔىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ﴾ (الحشر: 59؍7) ’’جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ۔‘‘ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اسرائیلی روایات سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں ، اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایسے امور کو، جن کا جھوٹ ہونا قطعی نہ ہو، بنی اسرائیل سے روایت کرنا جائز ہے۔ تب بھی ان کے ذریعے سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ کتاب اللہ کے معانی یقینی ہیں اور ان اسرائیلیات کی تصدیق کی جا سکتی ہے نہ تکذیب۔ پس دونوں میں اتفاق ناممکن ہے۔
آیت: 80 - 84 #
{وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ (80) إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (81) وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (82) فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ (83) وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (84)}.
اور (یاد کیجیے!) لوط کو، جب کہا اس نے اپنی قوم سے کیا کرتے ہو تم ایسی بے حیائی جو نہیں کی پہلے تم سے وہ(برائی) کسی نے بھی جہان والوں میں سے؟(80) بلاشبہ تم آتے ہو مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے چھوڑ کر عورتوں کو،بلکہ تم لوگ ہو حد سے بڑھ جانے والے(81) اور نہیں تھا جواب اس کی قوم کا مگر یہ کہ کہا انھوں نے! نکال دو انھیں اپنی بستی سے، بے شک یہ لوگ ہیں بڑے پاک صاف بنتے(82) تو نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو سوائے اس کی بیوی کے کہ تھی وہ باقی ماندہ(ہلاک ہونے والوں) میں سے (83) اور برسائی ہم نے ان پر بارش(پتھروں کی) تو دیکھ لیجیے کیساہوا انجام مجرموں کا؟(84)
#
{80} أي: {و} اذكر عبدنا {لوطاً}: عليه الصلاة والسلام؛ إذ أرسلناه إلى قومه؛ يأمُرُهم بعبادة الله وحدَه، وينهاهم عن الفاحشة التي ما سبقَهم بها أحدٌ من العالمين؛ فقال: {أتأتونَ الفاحشةَ}؛ أي: الخصلة التي بلغت في العِظَم والشَّناعة إلى أن استغرقتْ أنواعَ الفحش، {ما سَبَقَكم بها من أحدٍ من العالمين}: فكونُها فاحشةً من أشنع الأشياء، وكونُهم ابتدعوها، وابتَكَروها، وسَنُّوها لمن بعدَهم من أشنع ما يكونُ أيضاً.
[80] ﴿وَلُوْطًا ﴾ یعنی ہمارے بندے لوط (u) کا ذکر کیجیے جب ہم نے ان کو ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا کہ وہ انھیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور انھیں اس برائی سے روکیں جو پورے جہان میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کی۔ لوطu نے کہا! ﴿ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ ﴾ ’’کیا تم کرتے ہو ایسی بے حیائی‘‘ یعنی تم ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہو جس کی قباحت اتنی زیادہ ہے کہ فواحش کی تمام اقسام کو اس نے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ ﴿ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’کہ تم سے پہلے نہیں کیا اس کو کسی نے جہان میں ‘‘ اس کا فحش ہونا قبیح ترین چیز ہے اور یہ کہ اس قبیح فعل کو ان لوگوں نے شروع کر کے بعد میں آنے والوں کے لیے رواج دیا تھا، اس سے بھی قبیح تر ہے۔
#
{81} ثم بيَّنها بقوله: {إنَّكم لَتأتونَ الرجال شهوةً من دون النساء}؛ أي: كيف تَذَرون النساء التي خلقهنَّ الله لكم، وفيهنَّ المستمتَعُ الموافق للشهوة والفطرة، وتقبِلون على أدبار الرجال، التي هي غايةُ ما يكون في الشناعة والخبث، محلٌّ تخرج منه الأنتان والأخباث التي يُسْتَحى من ذكرِها فضلاً عن ملامستها وقربها. {بل أنتم قومٌ مسرفونَ}؛ أي: متجاوِزون لما حدَّه الله، متجرِّئون على محارمه.
[81] پھر لوطu نے واضح کرتے ہوئے فرمایا ﴿اِنَّـكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ ﴾ ’’خواہش نفسانی پورا کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔‘‘ یعنی تم کیسے عورتوں کو چھوڑ کر، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے پیدا کیا ہے، جن سے تمتع کرنا فطرت اور جبلی شہوت کے مطابق ہے، مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو، جو کہ قباحت اور خباثت کی انتہا ہے۔ یہ جسم کا وہ حصہ ہے جہاں سے گندگی اور بدبودار مادے خارج ہوتے ہیں اس حصے کو چھونا اور اس کے قریب جانا تو کجا اس کا نام لینے سے بھی شرم آتی ہے۔ ﴿بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌؔ مُّسْرِفُوْنَ﴾ ’’بلکہ تم لوگ ہو حد سے گزرنے والے‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کو پھلانگتے ہو اور اس کے محرمات کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو۔
#
{82} {وما كانَ جوابَ قومِهِ إلَّا أن قالوا أخرِجوهِم من قريتِكُم إنَّهم أناسٌ يتطهَّرونَ}؛ أي: يتنزَّهون عن فعل الفاحشة، {وما نَقَموا منهم إلاَّ أن يؤمنوا باللهِ العزيز الحميد}.
[82] ﴿ وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّ٘تَ٘طَ٘هَّرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور نہیں تھا جواب اس قوم کا مگر یہ کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بہت ہی پاک رہنا چاہتے ہیں ‘‘ یعنی اپنے آپ کو اس فحش کام سے دور رکھنا چاہتے ہیں ﴿ وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْ٘عَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾ (البروج:85؍8) ’’وہ ان پر صرف اسی بات پر ناراض ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے جو غالب اور قابل ستائش ہے۔‘‘
#
{83} {فأنجيناه وأهلَهُ إلَّا امرأتَهُ كانت من الغابرينَ}؛ أي: الباقين المعذَّبين؛ أمره الله أن يسري بأهله ليلاً؛ فإنَّ العذابَ مصبِّحٌ قومَه، فسرى بهم إلاَّ امرأته أصابها ما أصابهم.
[83] ﴿فَاَنْجَیْنٰهُ وَاَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖٞ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ﴾ ’’پس ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی بیوی کہ رہ گئی وہ وہاں کے رہنے والوں میں ‘‘ یعنی وہ پیچھے رہ جانے اور عذاب میں گرفتار ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوطu کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو لے کر راتوں رات وہاں سے نکل جائیں کیونکہ صبح سویرے ان کی قوم پر عذاب ٹوٹنے والا ہے۔ حضرت لوطu اپنی بیوی کے سوا تمام گھر والوں کو لے کر وہاں سے نکل گئے۔ اس عورت کو بھی اس عذاب نے آلیا جو ان بدکار لوگوں پر آیا تھا۔
#
{84} {وأمطَرْنا عليهم مطراً}؛ أي: حجارة حارَّة شديدةً من سِجِّيل، وجعل الله عالِيَها سافِلَها، {فانظرْ كيف كان عاقبةُ المجرِمين}: الهلاك والخزي الدائم.
[84] ﴿ وَاَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ﴾ ’’اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینہ برسایا۔‘‘ یعنی ہم نے سخت گرم کھنگر کے پتھر ان پر برسائے اور اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو الٹ کر اوپر نیچے کر دیا۔ ﴿ فَانْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’پس دیکھو، کیا ہوا انجام گناہ گاروں کا۔‘‘ ہلاکت اور دائمی رسوائی۔
آیت: 85 - 93 #
{وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (85) وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (86) وَإِنْ كَانَ طَائِفَةٌ مِنْكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (87) قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَاشُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ (88) قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمْ بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا وَمَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (89) وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (90) فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (91) الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَانُوا هُمُ الْخَاسِرِينَ (92) فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَاقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ (93)}.
اور(بھیجاہم نے) طرف مدین کی ان کے بھائی شعیب کو اس نے کہا،اے میری قوم!عبادت کرو تم اللہ کی،نہیں ہے تمھارے لیے کوئی معبود سوائے اس کے تحقیق آگئی تمھارے پاس واضح دلیل تمھارے رب کی طرف سے،پس پورا کرو تم ماپ اور تول کواور مت کم کر کے دو لوگوں کو ان کی چیزیں،اور مت فساد کرو تم زمین میں بعد اس کی اصلاح کے، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگرہو تم مومن(85) اور مت بیٹھو تم ہر ایک راستے پر،ڈراتے ہو تم اور روکتے ہواللہ کے راستے سے اس شخص کو جو ایمان لائے ساتھ اس کے،اور تلاش کرتے ہوتم اس(راہ)میں کجی اور یاد کرو جبکہ تھے تم تھوڑے پس اس نے زیادہ کیا تمھیں۔ اور دیکھو!کیسا ہوا تھا انجام فسادیوں کا(86) اور اگر ہے ایک گروہ تم میں سے جو ایمان لایا اس پر کہ بھیجا گیاہوں میں ساتھ اس کے،اور ایک گروہ ہے کہ نہیں ایمان لایا وہ، پس صبر کرو تم،یہاں تک کہ فیصلہ کرے اللہ ہمارے درمیان،اور وہ سب سے بہتر فیصلے کرنے والا ہے(87) کہا ان وڈیروں نے جنھوں نے تکبر کیا اس کی قوم میں سے، ہم ضرو ر نکال دیں گے تجھے اے شعیب! اوران لوگوں کو بھی جو ایمان لائے تیرے ساتھ، اپنی بستی سے یا لوٹ آؤ گے تم ہمارے دین میں۔(شعیب نے ) کہا، کیا اگرچہ ہوں ہم کراہت کرنے والے بھی(88)تحقیق (پھر تو ) باندھا ہم نے اللہ پر جھوٹ! اگر لوٹ آئیں ہم تمھارے دین میں بعد اس کے کہ نجات دی ہمیں اللہ نے اس سے اور نہیں ہے لائق ہمارے لیے کہ لوٹ آئیں ہم اس میں مگر یہ کہ چاہے اللہ، ہمارا رب، گھیر لیا ہے ہمارے رب نے ہر چیز کو (اپنے) علم سے، اوپر اللہ ہی کے بھروسہ کیا ہم نے، اے ہمارے رب! تو فیصلہ فرما ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ساتھ حق کےاور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے (89) اور کہا ان سرداروں نے جنھوں نے کفر کیا اس کی قوم میں سے کہ اگر اتباع کیا تم نے شعیب کا تو یقینا تم اس وقت ، البتہ خسارہ اٹھانے والے ہو گے(90)پس پکڑ لیا انھیں زلزلے نے تو ہوگئے وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے ہوئے(91)وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا شعیب کو،(یوں ہوگئے) گویا کہ وہ کبھی نہیں بسے تھے ان میں وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا شعیب کو، تھے وہی خسارہ پانے والے(92) پھر منہ پھیرا(شعیب نے) ان سے اور کہا، اے میری قوم! البتہ تحقیق پہنچا دیے میں نے تمھیں پیغامات اپنے رب کے اور خیر خواہی کی میں نے تمھاری، پس کیوں غم کھاؤں میں اوپر کافروں کے؟(93)
#
{85} أي: {و} أرسلنا إلى القبيلة المعروفة بمدين {أخاهم}: في النسب، {شُعَيْباً}: يدعوهم إلى عبادة الله وحده لا شريك له، ويأمرهم بإيفاء المكيال والميزان، وأن لا يبخسوا الناس أشياءهم، وأن لا يعثَوْا في الأرض مفسدين بالإكثار من عمل المعاصي، ولهذا قال: {ولا تفسدوا في الأرض بعد إصلاحها ذلكم خير لكم إن كنتم مؤمنين}: فإنَّ ترك المعاصي امتثالاً لأمر الله وتقرُّباً إليه خيرٌ وأنفع للعبد من ارتكابها الموجب لسخط الجبار وعذاب النار.
[85] ﴿وَاِلٰى مَدْیَنَ ﴾ ’’مدین کی طرف‘‘ یعنی ایک معروف قبیلہ کی طرف ﴿ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ﴾ ’’ان کے بھائی شعیب کو۔‘‘ مبعوث کیا جو نسب میں ان کے بھائی تھے۔ جو انھیں اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ وہ ان کو تلقین کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو کم چیزیں نہ دیں اور کثرت معاصی کے ارتکاب سے زمین میں فساد نہ پھیلائیں ۔ ﴿ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور زمین میں خرابی مت ڈالو اس کی اصلاح کے بعد، یہ بہتر ہے تمھارے لیے اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اس کے تقرب کی خاطر گناہوں کو ترک کرنا، بندے کے لیے ان گناہوں کے ارتکاب سے۔۔۔ جو اللہ جبار کی ناراضی اور جہنم کے عذاب کا باعث ہے۔۔۔۔ بہتر اور فائدہ مند ہے۔
#
{86} {ولا تقعُدوا}: للناس {بكلِّ صراطٍ}؛ أي: طريق من الطرق التي يكثُرُ سلوكها؛ تحذِّرون الناس منها، و {توعِدونَ}: من سلكها، {وتَصُدُّون عن سبيل الله}: من أراد الاهتداء به، {وتبغونَها عِوَجاً}؛ أي: تبغون سبيل الله تكون معوجَّة، وتميلونها اتِّباعاً لأهوائكم، وقد كان الواجب عليكم وعلى غيركم الاحترام والتعظيم للسبيل التي نصبها الله لعباده، ليسلكوها إلى مرضاته ودار كرامته ورحمهم بها أعظمَ رحمةٍ، وتَصَدَّون لنصرتها والدعوة إليها والذبِّ عنها، لا أن تكونوا أنتم قطاع طريقها الصّادِّين الناس عنها؛ فإنَّ هذا كفرٌ لنعمة الله ومحادَّة لله وجعل أقوم الطرق وأعدلها مائلةً، وتشنِّعون على من سلكها، {واذكُروا}: نعمة الله عليكم {إذ كُنتُم قليلاً فكثَّرَكم}؛ أي: نمَّاكم بما أنعم عليكم من الزوجات والنسل والصحة، وأنه ما ابتلاكم بوباء أو أمراض من الأمراض المقلِّلة لكم، ولا سلَّط عليكم عدوًّا يجتاحُكم، ولا فرَّقكم في الأرض، بل أنعم عليكم باجتماعكم وإدرار الأرزاق وكثرة النسل. {وانظروا كيف كان عاقبةُ المفسدين}: فإنكم لا تجدون في جموعهم إلاَّ الشتات، ولا في ربوعهم إلاَّ الوَحْشة والانبتات، ولم يورثوا ذِكْراً حسناً، بل أُتْبِعوا في هذه الدُّنيا لعنةً ويوم القيامة [أشد] خزياً وفضيحة.
[86] ﴿وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُ٘لِّ صِرَاطٍ ﴾ ’’اور ہر راستے پر نہ بیٹھا کرو۔‘‘ یعنی لوگوں کے لیے راستوں پر گھات لگا کر نہ بیٹھو جہاں کثرت سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور تم ان راستوں سے لوگوں کو ڈراتے ہو۔ ﴿ تُوْعِدُوْنَ ﴾ ’’ڈراتے ہو۔‘‘ اور ان پر چلنے سے ان کو دھمکاتے ہو۔ ﴿وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو۔‘‘ یعنی جو کوئی راہ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہو۔ ﴿وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا ﴾ ’’اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔‘‘ یعنی تم اللہ کے راستے میں کجی چاہتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔ تم پر اور دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے کی تعظیم اور احترام کرو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا کی منزل اور عزت والے گھر تک پہنچنے کے لیے اس پر گامزن ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اپنے بندوں کو اپنی عظیم رحمت سے نوازے۔ تمھیں تو چاہیے کہ تم اس کی مدد کرو، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو اور اس کا دفاع کرو۔ نہ اس کے برعکس کہ تم اس راستے کے راہزن بن کر اس کو مسدود کر دو اور لوگوں کو اس راستے سے روکو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت اور سب سے درست اور معتدل راستے کو ٹیڑھا کرنا ہے اور تم ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہو جو اس راستے پر گامزن ہیں ۔ ﴿ وَاذْكُرُوْۤا﴾ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ﴿ اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَؔكُمْ ﴾ ’’جبکہ تم تھوڑے تھے، پس اس نے تم کو زیادہ کر دیا‘‘ یعنی تمھیں بیویاں ، نسل اور صحت عطا کر کے تمھاری تعداد کو بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کسی وبا اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جو تعداد کو کم کر دیتی ہے نہ تم پر کوئی ایسا دشمن مسلط کیا جو تمھیں ہلاک کر دیتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں تتر بتر کیا....بلکہ یہ اللہ کا تم پر انعام ہے کہ اس نے تمھیں مجتمع رکھا، تمھیں بے حساب رزق اور کثرت نسل سے نوازا۔ ﴿وَانْ٘ظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا‘‘ کیونکہ تم ان کی جمعیت میں تشتت اور افتراق اور ان کے گھروں میں وحشت اور ہلاکت کے مناظر کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔ انھوں نے اپنے بارے میں اپنے پیچھے کوئی اچھے تذکرے نہیں چھوڑے بلکہ اس کے برعکس اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور قیامت کے روز بھی ان کو رسوائی اور فضیحت کا سامنا کرنا ہوگا۔
#
{87} {وإن كان طائفةٌ منكُم آمنوا بالذي أرْسِلْتُ به وطائفةٌ لم يؤمنوا}: وهم الجمهور منهم، {فاصبِروا حتى يحكُمَ اللهُ بيننا وهو خيرُ الحاكمينَ}: فينصر المحقَّ، ويوقع العقوبة على المبطل.
[87] ﴿وَاِنْ كَانَ طَآىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَطَآىِٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا ﴾ ’’اور اگر تم میں سے ایک فرقہ ایمان لایا اس پر جو میرے ہاتھ بھیجا گیا اور ایک فرقہ ایمان نہیں لایا‘‘ اور ایمان نہ لانے والا گروہ ان میں سے اکثریت کا گروہ ہے ﴿ فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا١ۚ وَهُوَ خَیْرُ الْحٰؔكِمِیْنَ ﴾ ’’تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کرے ہمارے درمیان اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ پس وہ حق کو ماننے والے کی مدد کرے گا اور حق کا ابطال کرنے والے پر عذاب واقع کرے گا۔
#
{88} {قال الملأُ الذين استَكْبَروا من قومِهِ}: وهم الأشرافُ والكبراءُ منهم، الذين اتَّبعوا أهواءهم ولهوا بلذاتهم، فلما أتاهم الحقُّ ورأوه غير موافق لأهوائهم الرديئة؛ ردُّوه، واستكبروا عنه، فقالوا لنبيِّهم شعيب ومن معه من المؤمنين المستضعفين: {لنخرجَنَّكَ يا شعيبُ والذين آمنوا معك من قريتِنا أو لتعودُنَّ في مِلَّتنا}: استعملوا قوَّتهم السَّبُعية في مقابلة الحقِّ، ولم يراعوا ديناً ولا ذمَّةً ولا حقًّا، وإنما راعوا واتبعوا أهواءهم وعقولهم السفيهة، التي دلَّتهم على هذا القول الفاسد، فقالوا إمَّا أن ترجع أنت ومن معك إلى ديننا أو لنخرجنَّكم من قريتنا؛ فشعيبٌ عليه الصلاة والسلام كان يدعوهم طامعاً في إيمانهم، والآن لم يَسْلَم [من شرهم] حتى توعَّدوه إن لم يتابعهم بالجلاء عن وطنه الذي هو ومن معه أحقُّ به منهم. فقال لهم شعيبٌ عليه الصلاة والسلام متعجباً من قولهم: {أوَلَوْ كنَّا كارهينَ}؛ أي: أنتابعكم على دينكم وملَّتكم الباطلة ولو كُنَّا كارهين لها لعلمنا ببطلانها؛ فإنما يدعَى إليها من له نوعُ رغبة فيها، أما من يعلن بالنهي عنها والتشنيع على من اتَّبعها؛ فكيف يُدعى إليها.
[88] ﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ ﴾ ’’کہا ان سرداروں نے جو متکبر تھے اس کی قوم میں سے‘‘ اس سے مراد ان کے اشراف اور بڑے آدمی ہیں جنھوں نے اپنی لذات میں مستغرق ہو کر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی، جب ان کے پاس حق آیا اور انھوں نے دیکھ لیا کہ حق ان کی خواہشات نفس کے خلاف ہے تو انھوں نے نہایت تکبر سے حق کو ٹھکرا دیا اور اپنے نبی شعیبu اور ان مستضعفین سے کہنے لگے جو حضرت شعیبu کے ساتھ تھے۔ ﴿لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَ٘رْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ﴾ ’’ہم ضرور نکال دیں گے اے شعیب تجھ کو اور ان کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے اپنے شہر سے یا یہ کہ تم لوٹ آؤ اپنے دین میں ‘‘ انھوں نے حق کے خلاف بہیمانہ قوت استعمال کی اور انھوں نے کسی اصول، کسی ذمہ اور کسی حق کی پاسداری نہ کی۔ انھوں نے تو صرف اپنی خواہشات نفس کی رعایت اور ان کی پیروی کی اور اپنی ناقص عقل کے پیچھے لگے جو ان کے قول فاسد پر دلالت کرتی ہے۔ پس جناب شعیب سے کہنے لگے ’’یا تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہمارے دین میں واپس لوٹنا ہوگا یا ہم تجھے اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔‘‘جناب شعیبu ان کے ایمان لانے کی امید میں ان کو ایمان کی دعوت دیتے رہے مگر وہ اب تک ایمان نہ لائے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے آنجنابu کو دھمکی دی کہ اگر وہ ان کی پیروی نہیں کریں گے تو وہ ان کو ان کے اس وطن سے جلا وطن کر دیں گے جس میں رہنے کے جناب شعیب اور ان کے اصحاب زیادہ مستحق ہیں ۔ ﴿ قَالَ ﴾ شعیبu نے ان کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَوَلَوْؔ كُنَّا كٰرِهِیْنَ ﴾ ’’خواہ ہم (تمھارے دین سے) بیزار ہی ہوں ۔‘‘ یعنی کیا ہم ناپسند کرتے ہوئے بھی تمھارے باطل دین اور ملت کی اتباع کریں ؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمھارا دین باطل ہے۔ اس دین کی طرف تو صرف اسی کو دعوت دی جاتی ہے جو اس میں کوئی رغبت رکھتا ہو اور وہ شخص جو علی الاعلان لوگوں کو اس دین کی پیروی سے روکتا ہے اور جو کوئی اس دین کی اتباع کرتا ہے اس کو برا کہتا ہے تو وہ کیوں کر اس دین کی دعوت دے سکتا ہے؟
#
{89} {قدِ افتَرَيْنا على الله كذباً إن عُدْنا في ملَّتكم بعد إذ نجَّانا الله منها}؛ أي: اشهدوا علينا أننا إن عُدنا [فيها] بعد ما نجَّانا الله منها وأنقذنا من شرِّها أننا كاذبون مفترون على الله الكذب؛ فإننا نعلمُ أنه لا أعظم افتراء ممَّن جعل لله شريكاً وهو الواحد الأحد الفرد الصمد الذي لم يتَّخذ صاحبة ولا ولداً ولا شريكاً في الملك. {وما يكونُ لنا أن نعودَ فيها}؛ أي: يمتنع على مثلنا أن نعودَ فيها؛ فإنَّ هذا من المحال، فآيَسَهم عليه الصلاة والسلام من كونه يوافقهم من وجوهٍ متعددةٍ. من جهة أنهم كارهون لها مبغضون لما هم عليه من الشرك. ومن جهة أنه جعل ما هم عليه كذباً وأشهدهم أنه إنِ اتَّبَعَهم ومن معه فإنَّهم كاذبون. ومنها اعترافُهم بمنَّة الله عليهم إذ أنقذهم الله منها، ومنها أنَّ عودَهم فيها بعدما هداهم الله من المحالات بالنظر إلى حالتهم الراهنة وما في قلوبهم من تعظيم الله تعالى والاعتراف له بالعبوديَّة وأنه الإله وحده الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له وحده لا شريك له، وأنَّ آلهة المشركين أبطل الباطل وأمحل المحال، وحيث إنَّ اللهَ منَّ عليهم بعقول يعرفون بها الحقَّ والباطل والهدى والضلال، وأما من حيث النظر إلى مشيئة الله وإرادته النافذة في خلقه التي لا خروجَ لأحدٍ عنها ولو تواترتِ الأسبابُ وتوافقت القوى؛ فإنَّهم لا يحكمون على أنفسهم أنهم سيفعلون شيئاً أو يتركونه، ولهذا استثنى: {وما يكونُ لنا أن نعودَ فيها إلا أن يشاء اللهُ ربُّنا}؛ أي: فلا يمكننا ولا غيرنا الخروج عن مشيئته التابعة لعلمه وحكمته، وقد {وَسِعَ ربُّنا كلَّ شيءٍ علماً}: فيعلم ما يصلُح للعباد، وما يدبِّرُهم عليه. {على الله توكَّلْنا}؛ أي: اعتمدنا أنه سيثبِّتنا على الصراط المستقيم، وأن يعصِمَنا من جميع طرق الجحيم؛ فإن من توكَّل على الله كفاه ويسَّر له أمر دينه ودنياه. {ربَّنا افتحْ بينَنا وبين قومِنا بالحقِّ}؛ أي: انصر المظلوم وصاحب الحق على الظالم المعاند للحق، {وأنت خيرُ الفاتحين}: وفتحُهُ تعالى لعباده نوعان: فتحُ العلم بتبيين الحقِّ من الباطل والهدى من الضلال ومَنْ هو المستقيمُ على الصراط ممَّن هو منحرفٌ عنه. والنوع الثاني: فتحُهُ بالجزاء وإيقاع العقوبة على الظالمين، والنجاة والإكرام للصالحين. فسألوا الله أن يفتحَ بينَهم وبين قومهم بالحقِّ والعدل، وأن يريَهم من آياتِهِ وعِبَرِهِ ما يكون فاصلاً بين الفريقين.
[89] ﴿قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰؔىنَا اللّٰهُ مِنْهَا﴾ ’’اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے، تمھارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بے شک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھ دیا۔‘‘ یعنی تم گواہ رہو کہ اگر ہم تمھاری ملت اور دین میں واپس لوٹ آئے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچا لیا ہے... تو ہم جھوٹے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرنے والے ہیں ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی افتراء پرداز نہیں جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ ایک، یکتا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اقتدار میں کوئی شریک۔ ﴿ وَمَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ ﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ۔‘‘ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لیے ممکن نہیں کہ ہم اس دین میں پھر لوٹ آئیں کیونکہ یہ بالکل محال ہے۔ جناب شعیبu نے متعدد وجوہ سے کفار کو اس بات سے مایوس کر دیا کہ وہ ان کی موافقت کریں گے۔ (۱) حضرت شعیبu اور ان کے اصحاب ان کے دین کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے سخت بغض رکھتے تھے کیونکہ ان کا دین شرک پر مبنی تھا۔ (۲) جناب شعیب نے ان کے دین کو جھوٹ قرار دیا تھا اور ان کو اس بات پر گواہ بنایا تھا کہ اگر انھوں نے اور ان کے اصحاب نے کفار کے دین کی اتباع کی تو وہ جھوٹے ہیں ۔ (۳) انھوں نے علی الاعلان اعتراف کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے دین سے بچا کر ان پر احسان کیا ہے۔ (۴) ان کی استقامت پر مبنی حالت پر غور کریں ، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو تعظیم، اس کی عبودیت کا جو اعتراف، نیز اس بات کا اعتراف کہ وہی الٰہ واحد ہے صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا اعلان کہ مشرکین کے گھڑے ہوئے معبود سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑا فریب ہیں ..... ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ہدایت سے نوازنے کے بعد وہ ان کے دین میں واپس لوٹیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کو پہچانتے ہیں ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تمام مخلوقات میں نافذ اس کے ارادے میں غور کیا جائے، جس سے باہر نکلنا کسی کے لیے ممکن نہیں خواہ پے درپے اسباب مہیا ہوں اور قوتیں باہم موافق ہوں ..... تو وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ عنقریب فلاں فعل سر انجام دیں گے یا اس کو چھوڑ دیں گے۔ بنابریں شعیبu نے استثناء کا اسلوب استعمال کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَمَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو۔‘‘ یعنی ہمارے لیے یا کسی اور کیلیے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں ۔ ﴿ وَسِعَ رَبُّنَا كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ عِلْمًا﴾ ’’گھیرے ہوئے ہے ہمارا پروردگار سب چیزوں کو اپنے علم میں ‘‘ پس وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے کیا درست ہے اور کس چیز کے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیر کرے ﴿ عَلَى اللّٰهِ تَوَؔكَّلْنَا﴾ ’’ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے۔‘‘ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور جہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا۔ کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور وہ اس کے دین اور دنیا کے معاملے کو آسان کر دیتا ہے۔ ﴿ رَبَّنَا افْ٘تَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ ﴾ ’’اے ہمارے رب فیصلہ کر ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ‘‘ یعنی ظالم اور حق کے خلاف عناد رکھنے والے کے مقابلے میں مظلوم اور صاحب حق کی مدد فرما۔ ﴿ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ﴾ ’’اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی دو اقسام ہیں : (۱) اللہ تعالیٰ باطل میں سے حق کو، گمراہی میں سے ہدایت کو بیان کر کے نیز یہ واضح کر کے کہ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہے .... فیصلہ کرتا ہے یہ اس کا علمی فیصلہ ہے۔ (۲) ظالموں کو سزا دینے اور صالحین کو نجات اور اکرام عطا کرنے کے لیے جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کا جزائی فیصلہ ہے۔ پس اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ انھیں ایسی آیات و علامات دکھا دے جو فریقین کے مابین فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں ۔
#
{90} {وقال الملأُ الذين كفروا من قومه}: محذِّرين عن اتِّباع شعيب: {لئن اتَّبعتم شعيباً إنَّكم إذاً لخاسرونَ}: هذا ما سوَّلت لهم أنفسهم؛ أن الخسارة والشقاء في اتباع الرشد والهدى، ولم يدروا أن الخسارة كلَّ الخسارة في لزوم ما هم عليه من الضلال والإضلال، وقد علموا ذلك حين وقع بهم النَّكال.
[90] ﴿وَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ ﴾ ’’اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے کہنے لگے۔‘‘ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہا ﴿ لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّـكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ﴾ ’’اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے۔‘‘ ان کے نفس نے ان کے لیے مزین کر دیا تھا کہ رشد و ہدایت کی اتباع سراسر خسارہ اور شقاوت ہے انھیں یہ معلوم نہیں کہ خسارہ تو تمام تر خود گمراہی میں پڑے رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہے اور جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو اس وقت انھیں یہ حقیقت معلوم ہوئی۔
#
{91} {فأخذتْهُمُ الرجفةُ}؛ أي: الزلزلة الشديدة، {فأصبحوا في دارهم جاثمينَ}؛ أي: صرعى ميِّتين هامدين.
[91] ﴿فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ﴾ ’’پس ایک شدید زلزلے نے ان کو آ لیا۔‘‘ ﴿ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰؔثِمِیْنَ﴾ ’’اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ یعنی وہ خشک کٹے ہوئے درخت کی مانند پچھاڑے ہوئے مردہ پڑے تھے۔
#
{92} قال تعالى ناعياً حالَهم: {الذين كذَّبوا شعيباً كأن لم يَغْنَوْا فيها}؛ أي: كأنهم ما أقاموا في ديارهم، وكأنهم ما تمتَّعوا في عَرَصاتهم، ولا تفيَّئوا في ظلالها، ولا غنوا في مسارح أنهارها، ولا أكلوا من ثمار أشجارها، فأخذهم العذاب فنقلهم من مورد اللهو واللعب واللَّذَّات إلى مستقرِّ الحزن والشقاء والعقاب والدرَكات، ولهذا قال: {الذين كذَّبوا شُعيباً كانوا هم الخاسرينَ}؛ أي: الخسار محصورٌ فيهم؛ لأنهم خسروا أنفسهم وأهليهم يوم القيامة، ألا ذلك هو الخسران المبين، لا مَنْ قالوا لهم: {لئنِ اتَّبعتُم شعيباً إنَّكم إذاً لخاسرونَ}.
[92] اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا﴾ ’’جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا، گویا کبھی وہ وہاں بسے ہی نہ تھے‘‘ یعنی گویا کہ وہ گھروں میں رہتے ہی نہ تھے اور گویا کہ انھوں نے گھروں کے صحنوں سے کبھی استفادہ کیا تھا نہ ان کی چھاؤں میں کبھی وقت گزارا تھا۔ اور وہ اس دیار کے دریاؤں کے کنارے چراگاہوں میں رہے تھے نہ انھوں نے اس کے درختوں کے پھل کھائے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ان کو آپکڑا اور ان کو لہو و لعب اور لذات کی دنیا سے نکال کر حزن و غم، عقوبت اور ہلاکت کے گڑھوں میں منتقل کر دیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ ’’جنھوں نے شعیب کو جھٹلایا، وہی ہوئے خسارہ اٹھانے والے‘‘ یعنی وہ پوری طرح خسارے میں گھرے ہوئے ہیں کیونکہ قیامت کے روز وہ خود اور ان کے گھر والے سخت خسارے میں ہوں گے اور یہی واضح خسارہ ہے نہ کہ وہ جن کو انھوں نے کہا تھا۔ ﴿لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّـكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ﴾ ’’اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بے شک تم خسارے میں پڑ گئے۔‘‘
#
{93} فحين هلكوا تولَّى عنهم نبيُّهم عليه الصلاة والسلام، {وقال} معاتباً وموبِّخاً ومخاطباً لهم بعد موتهم: {يا قوم لقد أبلغتُكم رسالاتِ ربِّي}؛ أي: أوصلتها إليكم وبيَّنتها حتَّى بلغت منكم أقصى ما يمكن أن تصل إليه وخالطت أفئدتكم، {ونصحتُ لكم}: فلم تقَبلوا نُصحي ولا انقدتم لإرشادي، بل فسقتُم وطغيتم؛ {فكيف آسى على قوم كافرينَ}؛ أي: فكيف أحزن على قوم لا خيرَ فيهم، أتاهم الخيرُ فردُّوه ولم يقبلوه، ولا يَليقُ بهم إلا الشرُّ؛ فهؤلاء غير حقيقين أن يُحْزَنَ عليهم، بل يُفْرَحُ بإهلاكهم ومَحْقِهم؛ فعياذاً بك اللهمَّ من الخزي والفضيحة! وأيُّ شقاء وعقوبة أبلغ من أن يصلوا إلى حالة يتبرأ منهم أنصح الخلق لهم؟!
[93] پس جب وہ ہلاک ہوگئے تو ان کا نبی (u) ان سے منہ پھیر کر چل دیا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ اور ان کی موت کے بعد ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا ﴿ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰؔلٰ٘تِ رَبِّیْ﴾ ’’اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے۔‘‘ یعنی میں نے اپنے رب کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور اسے کھول کھول کر بیان کر دیا حتیٰ کہ یہ پیغام تمھیں پوری طرح پہنچ گیا اور تمھارے دلوں نے اچھی طرح اسے سمجھ لیا۔ ﴿ وَنَصَحْتُ لَكُمْ ﴾ ’’اور میں نے تمھاری خیر خواہی کی‘‘ مگر تم نے میری خیر خواہی کو قبول کیا، نہ تم نے میری بات مانی بلکہ اس کے برعکس تم نے نافرمانی کی اور سرکشی اختیار کی۔ ﴿ فَكَ٘ـیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ﴾ ’’تو میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں ۔‘‘ یعنی میں ایسے لوگوں کے انجام پر کیوں کر غمزدہ ہو سکتا ہوں جن میں کوئی بھلائی نہ تھی، بھلائی ان کے پاس آئی مگر انھوں نے اسے ٹھکرا دیا، اسے قبول نہ کیا، یہ لوگ شر کے سوا کسی چیز کے لائق نہ تھے۔ پس یہ اس چیز کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی ہلاکت پر افسوس کیا جائے بلکہ ان کی ہلاکت اور استیصال پر تو خوش ہونا چاہیے۔ اے اللہ! فضیحت اور رسوائی سے تیری پناہ! اس سے بڑھ کر کون سی بدبختی اور سزا ہو سکتی ہے کہ وہ اس حالت کو پہنچ جائیں کہ مخلوق میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہستی بھی ان سے براء ت کا اظہار کرے۔
آیت: 94 - 95 #
{وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ (94) ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّى عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (95)}
اور نہیں بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر پکڑا ہم نے اس کے رہنے والوں کو ساتھ سختی اور تکلیف کے تاکہ وہ گڑگڑائیں(94) پھر بدل کردے دی ہم نے (ان کو) برائی کی جگہ اچھائی، یہاں تک کہ جب زیادہ ہوگئے وہ اور کہا پہنچی تھی ہمارے آباؤ اجداد کو بھی سختی اور راحت تو پکڑ لیا ہم نے انھیں یکایک اور وہ نہیں شعور رکھتے تھے(95)
#
{94} يقول تعالى: {وما أرسلنا في قرية من نبيٍّ}: يدعوهم إلى عبادة الله، وينهاهم عن ما هم فيه من الشرِّ، فلم ينقادوا له؛ إلاَّ ابتلاهم الله {بالبأساءِ والضرَّاءِ}؛ أي: بالفقر والمرض وأنواع البلايا، {لعلهم}: إذا أصابتهم؛ خضعتْ نفوسُهم؛ فتضرعوا إلى الله، واستكانوا للحق.
[94] ﴿ وَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَ٘رْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ ﴾ ’’اور نہیں بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی‘‘ جو انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتا اور جن برائیوں میں وہ مبتلا ہیں ، ان برائیوں سے وہ ان کو روکتا۔ مگر وہ اس کی اطاعت نہ کرتے ﴿ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا ﴾ ’’مگر ہم مواخذہ کرتے وہاں کے لوگوں کا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا۔ ﴿ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّ٘رَّآءِ ﴾ ’’سختی اور تکلیف میں ‘‘ یعنی محتاجی، مرض اور دیگر مصائب کے ذریعے سے۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ ﴾ ’’شاید کہ وہ‘‘ یعنی جب ان پر مصیبت نازل ہو تو شاید ان کے نفس جھک جائیں ۔ ﴿ یَضَّ٘رَّعُوْنَ ﴾ ’’عاجزی اور زاری کریں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑگڑائیں اور حق کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں ۔
#
{95} {ثم}: إذا لم يُفِدْ فيهم واستمرَّ استكبارُهم وازداد طغيانُهم، {بدَّلْنا مكانَ السيئةِ الحسنةَ}: فأَدَرَّ عليهم الأرزاق، وعافى أبدانهم، ورفع عنهم البلايا، {حتى عَفَوْا}؛ أي: كثروا وكثرتْ أرزاقُهم وانبسطوا في نعمة الله وفضله ونسوا ما مرَّ عليهم من البلايا ، {وقالوا قد مسَّ آباءنا الضَّرَّاءُ والسَّرَّاءُ}؛ أي: هذه عادة جارية لم تزل موجودة في الأولين واللاحقين؛ تارة يكونون في سرَّاء، وتارة في ضرَّاء، وتارة في فرح، ومرة في ترح؛ على حسب تقلُّبات الزمان وتداول الأيام، وحسبوا أنها ليست للموعظة والتذكير ولا للاستدراج والنكير، حتى إذا اغتبطوا وفرحوا بما أوتوا، وكانت الدُّنيا أسرَّ ما كانت إليهم. أخذْناهم بالعذاب {بغتةً وهم لا يشعُرون}؛ أي: لا يخطُرُ لهم الهلاك على بالٍ، وظنُّوا أنهم قادرون على ما آتاهم الله، وأنهم غير زائلين ولا منتقلين عنه.
[95] ﴿ثُمَّ ﴾ پھر جب ان کو ابتلا نے کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ اپنے تکبر پر جمے رہے اور اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی چلے گئے ﴿ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ ﴾ ’’بدل دی ہم نے برائی کی جگہ بھلائی‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں اضافہ کر دیا، ان کو جسمانی عافیت دی اور ان سے آزمائش اور تکالیف کو دور کر دیا۔ ﴿حَتّٰى عَفَوْا ﴾ ’’حتی کہ ان کی تعداد زیادہ ہوگئی‘‘ ان کے رزق میں اضافہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم میں مزے اڑانے لگے اور وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان پر کیا مصیبتیں نازل ہوئی تھیں ۔ ﴿ وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّ٘رَّآءُ وَالسَّرَّؔآءُ ﴾ ’’اور انھوں نے کہا، کہ پہنچتی رہی ہے ہمارے باپ دادا کو بھی مصیبت اور خوشی‘‘ یعنی رنج و راحت کا آنا تو ایک عادت جاریہ ہے، اولین و آخریں تمام لوگوں پر رنج و راحت کے حالات آتے رہتے ہیں ۔ کبھی وہ راحت میں ہوتے ہیں اور کبھی رنج و غم سے دوچار ہوتے ہیں ، انقلابات زمانہ اور گردش ایام کے ساتھ ساتھ کبھی وہ خوش ہوتے ہیں اور کبھی غم زدہ۔ وہ ان مصائب اور راحتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت اور تنبیہ سمجھتے ہیں نہ استدراج اور نکیر۔ یہاں تک کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا اسی میں شاداں و فرحاں رہے اور دنیا ان کے لیے سب سے زیادہ خوش کن چیز تھی۔ ﴿فَاَخَذْنٰهُمْ ﴾ ’’کہ ہم نے (عذاب کے ذریعے سے) ان کو پکڑ لیا۔‘‘ ﴿ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا یَشْ٘عُرُوْنَ﴾ ’’اچانک اور ان کو خبر نہ تھی‘‘ یعنی ہلاکت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ عطا کیا ہے وہ اسے حاصل کرنے پر قادر تھے اور یہ سب کچھ ان سے زائل ہوگا نہ ان سے واپس لیا جائے گا۔
آیت: 96 - 99 #
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (96) أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ (97) أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ (98) أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (99)}
اور اگر بے شک بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو کھول دیتے ہم ان پر برکتیں آسمان اور زمین کی لیکن انھوں نے جھٹلایا تو پکڑ لیا ہم نے انھیں بوجہ ان (عملوں) کے جو تھے وہ کماتے(96) کیا پس بے خوف ہوگئے بستیوں والے اس سے کہ آجائے ان کے پاس ہمارا عذاب رات کواور وہ سوئے ہوئے ہوں؟(97)اور کیا بے خوف ہوگئے بستیوں والے اس سے کہ آجائے ان کے پاس ہمارا عذاب دن چڑھے اور وہ کھیل رہے ہوں؟(98) کیا پس بے خوف ہوگئے وہ اللہ کی تدبیر سے، پس نہیں بے خوف ہوتے اللہ کی تدبیر سے مگر خسارہ پانے والے لوگ ہیں(99)
#
{96} لما ذكر تعالى أنَّ المكذِّبين للرسل يُبتلون بالضراء موعظةً وإنذاراً، وبالسراء استدراجاً ومكراً؛ ذكر أنَّ أهل القُرى لو آمنوا بقلوبهم إيماناً صادقاً صدقتْه الأعمالُ، واستعملوا تقوى الله تعالى ظاهراً وباطناً بترك جميع ما حرَّم الله [تعالى]؛ لفتحَ عليهم بركاتِ السَّماء والأرض، فأرسل السماء عليهم مدراراً، وأنبتَ لهم من الأرض ما به يعيشون وتعيشُ بهائمهُم في أخصب عيش وأغزر رزق من غير عناء ولا تعبٍ ولا كدٍّ ولا نصبٍ، ولكنهم لم يؤمنوا ويتَّقوا، {فأخذناهم بما كانوا يكسِبون}: بالعقوبات والبلايا ونزع البركات وكثرة الآفات، وهي بعض جزاء أعمالهم، وإلاَّ؛ فلو آخذهم بجميع ما كسبوا؛ ما ترك على ظهرها من دابَّةٍ، {ظَهَرَ الفسادُ في البرِّ والبحر بما كَسَبَتْ أيدي الناس لِيُذيقَهم بعضَ الذي عملوا لعلَّهم يرجِعون}.
[96] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں انبیاء و مرسلین کو جھٹلانے والے گروہ کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ان کو نصیحت اور تنبیہ کے لیے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور مکر و استدراج کے طور پر انھیں آسانی اور فراخی عطا کی جاتی ہے۔ وہاں یہ بھی فرمایا کہ اگر بستیوں والے صدق دل سے ایمان لے آتے، ان کے اعمال اس ایمان کی تصدیق کرتے اور ظاہر و باطن میں تقویٰ سے کام لے کر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ تمام چیزوں کو چھوڑ دیتے تو ان پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیے جاتے۔ پس اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر لگاتار بارش برساتا اور زمین سے ان کے لیے وہ کچھ اگاتا جس پر ان کی اور ان کے جانوروں کی معیشت کا دارومدار ہے اور انھیں بغیر کسی تنگی اور بغیر کسی محنت اور مشقت کے وافر رزق عطا کرتا مگر وہ ایمان لائے نہ انھوں نے تقویٰ اختیار کیا ﴿ فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ ﴾ ’’پس ہم نے ان کی بداعمالیوں کے سبب سے ان کو عذاب اور مصائب میں مبتلا کر دیا۔‘‘ان سے برکات چھین لیں اور کثرت کے ساتھ ان پر آفتیں نازل کیں ۔ یہ ان کے اعمال کی سزا کا کچھ حصہ ہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال کی پوری سزا دنیا ہی میں دے دے تو روئے زمین پر کوئی جاں دار نہ بچے گا۔ ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ (الروم:30؍41) ’’بحر و بر میں لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘
#
{97} {أفأمِنَ أهلُ القرى}؛ أي: المكذبة بقرينة السياق، {أن يأتِيَهُم بأسُنا}؛ أي: عذابنا الشديد، {بَياتاً وهم نائمون}؛ أي: في غفلتهم وغرتهم وراحتهم.
[97] ﴿اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْ٘قُ٘رٰۤى ﴾ ’’کیا بستیوں والے (جنھوں نے انبیاء کی تکذیب کی)، اپنے آپ کو مامون سمجھتے ہیں ؟‘‘ ﴿ اَنْ یَّ٘اْتِیَهُمْ بَ٘اْسُنَا ﴾ ’’اس بات سے کہ آئے ان کے پاس ہمارا عذاب‘‘ یعنی ہمارا سخت عذاب ﴿ بَیَاتًا وَّهُمْ نَآىِٕمُوْنَ ﴾ ’’راتوں رات، جبکہ وہ سوئے ہوئے ہوں ‘‘ یعنی ان کے آرام کی گھڑیوں میں اور ان کی غفلت کے اوقات میں ۔
#
{98} {أوَ أمِنَ أهلُ القرى أن يأتِيَهم بأسُنا ضحىً وهم يلعبونَ}: أيُّ شيءٍ يؤمِّنُهم من ذلك وهم قد فعلوا أسبابه وارتكبوا من الجرائم العظيمة ما يوجب بعضُه الهلاك.
[98] ﴿اَوَاَمِنَ اَهْلُ الْ٘قُ٘رٰۤى اَنْ یَّ٘اْتِیَهُمْ بَ٘اْسُنَا ضُحًى وَّهُمْ یَلْ٘عَبُوْنَ﴾ ’’کیا بے خوف ہیں بستیوں والے اس بات سے کہ آپہنچے ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے، جبکہ وہ کھیلتے ہوں ‘‘ یعنی کون سی چیز انھیں محفوظ و مامون رکھ سکتی ہے حالانکہ انھوں نے عذاب الٰہی کے تمام اسباب کو اکٹھا کر لیا ہے اور بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کیا جن میں سے بعض جرائم ہلاکت کے موجب ہیں ؟
#
{99} {أفأمنوا مَكْرَ الله}: حيث يستدرِجُهم من حيث لا يعلمونَ، ويُملي لهم إنَّ كيده متين. {فلا يأمنُ مكرَ اللهِ إلا القومُ الخاسرون}: فإنَّ من أمِنَ من عذاب الله؛ فإنه لم يصدِّق بالجزاء على الأعمال ولا آمن بالرسل حقيقة الإيمان. وهذه الآية الكريمة فيها من التخويف البليغ على أنَّ العبد لا ينبغي له أن يكون آمناً على ما معه من الإيمان، بل لا يزالُ خائفاً وَجِلاً أن يُبتلى ببليَّةٍ تسلب ما معه من الإيمان، وأن لا يزال داعياً بقوله: يا مقلب القلوب! ثبِّتْ قلبي على دينك، وأن يعمل ويسعى في كلِّ سبب يخلِّصه من الشرِّ عند وقوع الفتن؛ فإنَّ العبد ولو بلغت به الحال ما بلغتْ؛ فليس على يقين من السلامة.
[99] ﴿ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ ﴾ ’’کیا وہ بے خوف ہو گئے ہیں اللہ کے داؤ سے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دے کر فریب میں مبتلا کر رہا ہے جسے وہ نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی چال بہت سخت ہے۔ ﴿فَلَا یَ٘اْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰؔسِرُوْنَ﴾ ’’پس اللہ کے داؤ سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں ‘‘ کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ سمجھتا ہے وہ اعمال کی جزا و سزا کی تصدیق کرتا ہے، نہ وہ انبیاء و مرسلین پر حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات سے بہت خوف دلایا گیا ہے کہ بندے کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جتنا کچھ ایمان رکھتا ہے اس کے ضیاع سے بے خوف ہو جائے، وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتا رہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے ایسی آزمائش سے دوچار نہ کر دے کہ جس سے اس کا سرمایۂ ایمان سلب ہو جائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہے (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عِلٰی دِیْنِکَ )(جامع الترمذي، کتاب الدعوات، باب دعاء: یا مقلب القلوب...، حدیث: 3522) ’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ۔‘‘اور فتنوں کے وقوع کے وقت وہ ہر اس سبب کے حصول کے لیے کوشاں رہے جو اس کو شر سے نجات دے کیونکہ بندہ.... خواہ اس کا حال کیسا ہی کیوں نہ ہو.... اس کی سلامتی یقینی نہیں ۔
آیت: 100 - 102 #
{أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ أَهْلِهَا أَنْ لَوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ (100) تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الْكَافِرِينَ (101) وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ (102)}.
کیا نہیں واضح ہوئی، ان لوگوں کے لیے جو وارث بنے زمین کے بعد (ہلاک ہونے) اس کے رہنے والوں کے، یہ بات کہ اگر ہم چاہیں تو سزا دیں ان کو بوجہ ان کے گناہوں کےاور مہر لگا دیں اوپر ان کے دلوں کے، پس وہ(کچھ) نہ سنیں(100)یہ بستیاں ہیں، بیان کرتے ہیں ہم آپ پر کچھ خبریں ان کی اور البتہ تحقیق آئے ان کے پاس رسول ان کے، ساتھ واضح دلیلوں کے، پس نہ ہوئے وہ (اس لائق) کہ ایمان لاتے، اس پر جسے جھٹلا چکے تھے وہ پہلے، اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اللہ دلوں پر کفر کرنے والوں کے(101) اورنہیں پایا ہم نے ان کے اکثر کے لیے کوئی عہد(کا پاس) اور بلاشبہ پایا ہم نے ان کے اکثر کو نافرمان ہی(102)
#
{100} يقول تعالى منبهاً للأمم الغابرين بعد هلاك الأمم الغابرين: {أوَلَمْ يَهْدِ للذين يرِثون الأرض من بعدِ أهلها أن لو نشاءُ أصبْناهم بذُنوبهم}؛ أي: أوَلم يتبيَّن ويتَّضح للأمم الذين ورثوا الأرض بعد إهلاك من قبلَهم بذنوبهم ثم عملوا كأعمال أولئك المهلَكين، أوَلم يهتدوا أنَّ الله لو شاء لأصابَهم بذُنوبهم؛ فإنَّ هذه سنته في الأولين والآخرين. وقوله: {ونطبَعُ على قلوبهم فهم لا يسمعونَ}؛ أي: إذا نبَّههم الله فلم ينتبهوا، وذكَّرهم فلم يتذكَّروا، وهداهم بالآيات والعِبَر فلم يهتَدوا؛ فإنَّ الله تعالى يعاقِبُهم ويطبعُ على قلوبهم فيعلوها الرَّانُ والدَّنَسُ حتى يُخْتَمَ عليها فلا يدخُلها حقٌّ ولا يصلُ إليها خيرٌ ولا يسمعون ما ينفعهم، وإنَّما يسمعون ما به تقوم الحجَّةُ عليهم.
[100] اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ قوموں کی ہلاکت کے بعد باقی رہ جانے والی قوموں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَوَلَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُ٘وْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ﴾ ’’کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں ۔‘‘ کیا ان امتوں پر واضح نہیں ہوا جو ان قوموں کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہلاکت کے بعد، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ، زمین میں وارث بنی ہیں ؟ پھر انھوں نے بھی ان ہلاک ہونے والے لوگوں جیسے اعمال کا ارتکاب شروع کر دیا۔ کیا انھیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انھیں بھی ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لے؟ کیونکہ اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے۔ ﴿وَنَ٘طْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں ، پس وہ نہ سنیں ‘‘، یعنی جب اللہ تعالیٰ انھیں تنبیہ کرے تو وہ متنبہ نہ ہوں ، انھیں نصیحت کرے مگر وہ نصیحت نہ پکڑیں اور اللہ تعالیٰ آیات اور عبرتوں کے ذریعے سے ان کی راہ نمائی کرے مگر وہ راہ نمائی حاصل نہ کریں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے پس ان کے دلوں پر میل کچیل جم جاتا ہے اور وہ زنگ آلود ہو جاتے ہیں ... ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے حق ان میں داخل نہیں ہو سکتا، بھلائی ان تک پہنچ نہیں سکتی۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں سن سکتے جو انھیں فائدہ دے۔ وہ تو صرف وہی بات سن سکتے ہیں جو ان کے خلاف حجت بنے گی۔
#
{101} {تلك القرى}: الذين تقدَّم ذِكْرُهم، {نَقُصُّ عليك من أنبائها}: ما يحصُلُ به عبرة للمعتبرين، وازدجارٌ للظالمين، وموعظة للمتقين، {ولقد جاءتْهم رسُلُهم بالبيناتِ}؛ أي: [ولقد] جاءت هؤلاء المكذبين رسُلُهم تدعوهم إلى ما فيه سعادتهم، وأيَّدهم الله بالمعجزات الظاهرة والبيِّنات المبيِّنات للحقِّ بياناً كاملاً، ولكنهم لم يُفِدْهم هذا ولا أغنى عنهم شيئاً؛ {فما كانوا ليؤمِنوا بما كذَّبوا من قبلُ}؛ أي: بسبب تكذيبهم وردِّهم الحقّ أول مرة ما كان يهديهم للإيمان جزاءً لهم على ردِّهم الحق؛ كما قال تعالى: {ونقلِّبُ أفْئِدَتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمنوا به أولَ مرَّةٍ ونَذَرُهم في طغيانِهِم يعمَهونَ}، {كذلك يطبعُ الله على قلوب الكافرين}: عقوبةً منه، وما ظلمهم الله، ولكنهم ظلموا أنفسهم.
[101] ﴿تِلْكَ الْ٘قُ٘رٰى ﴾ ’’وہ بستیاں ‘‘ یعنی وہ بستیاں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے ﴿ نَقُ٘صُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبـَآىِٕهَا﴾ ’’ہم بیان کرتے ہیں آپ پر ان کی کچھ خبریں ‘‘ جس سے عبرت حاصل کرنے والوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے، ظالموں کے لیے زجر و توبیخ ہے اور اہل تقویٰ کے لیے نصیحت ہے ﴿ وَلَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ﴾ ’’اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کر آئے۔‘‘ یعنی ان جھٹلانے والوں کے پاس ان کے رسول آئے جو ان کو ان امور کی طرف دعوت دیتے تھے جن میں ان کی سعادت تھی، اللہ تعالیٰ نے ظاہر معجزات کے ذریعے سے ان رسولوں کی تائید کی اور حق کو کامل طور پر واضح کر دینے والے دلائل کے ذریعے سے ان کو تقویت بخشی۔ مگر اس چیز نے انھیں کوئی فائدہ دیا، نہ ان کے کسی کام آئی۔ ﴿ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’پھر ہرگز نہ ہوا کہ ایمان لائیں اس بات پر جس کو پہلے جھٹلا چکے تھے‘‘ یعنی ان کی تکذیب اور حق کو پہلی مرتبہ رد کر دینے کے سبب سے، اللہ تعالیٰ ایمان کی طرف ان کی راہ نمائی نہیں کرے گا، یہ حق کو ٹھکرا دینے کی سزا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ﴾ (الانعام: 6؍110) ’’ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے (ویسے ہی پھر ایمان نہیں لائیں گے) ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیں گے۔‘‘﴿كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْ٘كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘یعنی سزا کے طور پر اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا انھوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا۔
#
{102} {وما وَجَدْنا لأكثرِهم من عهدٍ}؛ أي: وما وجدنا لأكثر الأمم الذين أرسل الله إليهم الرسل من عهد؛ أي: من ثبات والتزام لوصية الله التي أوصى بها جميع العالمين، ولا انقادوا لأوامره التي ساقها إليهم على ألسنة رسله. {وإن وَجَدْنا أكْثَرَهُم لفاسقينَ}؛ أي: خارجين عن طاعة الله، متَّبعين لأهوائهم بغير هدىً من الله؛ فالله تعالى امتحن العباد بإرسال الرسل وإنزال الكتب، وأمرهم باتِّباع عهده وهداه، فلم يمتثلْ لأمره إلا القليل من الناس، الذين سبقتْ لهم من الله سابقةُ السعادة، وأما أكثر الخلق؛ فأعرضوا عن الهدى، واستكبروا عما جاءت به الرسل، فأحلَّ الله بهم من عقوباتِهِ المتنوِّعة ما أحلَّ.
[102] ﴿وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ﴾ ’’ہم نے ان ہی سے اکثر میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا۔‘‘ یعنی ہم نے اکثر قوموں میں جن کی طرف رسول بھیجے گئے، عہد کی پاسداری نہیں دیکھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی وصیت کا التزام اور اس پر ثابت قدمی، جو اس نے تمام جہانوں کو کر رکھی ہے اور نہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ان احکام کی تعمیل کی ہے جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین کے ذریعے سے ان تک پہنچائے ہیں ۔ ﴿ وَاِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ﴾ ’’اور اکثر ان میں پائے نافرمان‘‘ یعنی ہم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے اور بے راہ رو ہو کر خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے ہی پایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول مبعوث فرما کر، کتابیں نازل کر کے اپنے بندوں کو آزمایا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے عہد اور اس کی ہدایت کی اتباع کریں ۔ مگر بہت کم لوگوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، یعنی صرف ان لوگوں نے جن کے لیے پہلے ہی سعادت لکھ دی گئی تھی۔ اور رہے اکثر لوگ تو انھوں نے ہدایت سے رو گردانی کی اور ان تعلیمات کو تکبر سے ٹھکرا دیا جو رسول لے کر آئے تھے۔ پس اس پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل فرمائے۔
آیت: 103 - 171 #
{ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (103) وَقَالَ مُوسَى يَافِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (104) حَقِيقٌ عَلَى أَنْ لَا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (105) قَالَ إِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (106) فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ (107) وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ (108) قَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ (109) يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ (110) قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ (111) يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ (112) وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ (113) قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (114) قَالُوا يَامُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ (115) قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (116) وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ (117) فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (118) فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوا صَاغِرِينَ (119) وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ (120) قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (121) رَبِّ مُوسَى وَهَارُونَ (122) قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنْتُمْ بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّ هَذَا لَمَكْرٌ مَكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (123) لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ (124) قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ (125) وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (126) وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (127) قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (128) قَالُوا أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (129) وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (130) فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (131) وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ (132) فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ (133) وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَامُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ لَئِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ (134) فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (135) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ (136) وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ (137) وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَامُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (138) إِنَّ هَؤُلَاءِ مُتَبَّرٌ مَا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (139) قَالَ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (140) وَإِذْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (141) وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (142) وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (143) قَالَ يَامُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاس بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (144) وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ (145) سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ (146) وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (147) وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ (148) وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِنْ لَمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (149) وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (150) قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (151) إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ (152) وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (153) وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الْأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ (154) وَاخْتَارَ مُوسَى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِنَا فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِيَّايَ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ (155) وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (156) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157) قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (158) وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (159) وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (160) وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (161) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ (162) وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (163) وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (164) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (165) فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (166) وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (167) وَقَطَّعْنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أُمَمًا مِنْهُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْهُمْ دُونَ ذَلِكَ وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (168) فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (169) وَالَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِالْكِتَابِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ (170) وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (171)}.
پھر بھیجا ہم نے بعد ان کے موسیٰ کو ساتھ اپنی آیات کے، فرعون اور کے درباریوں کی طرف پس ظلم کیا انھوں نے ساتھ ان کے، پس دیکھیے کیسا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا(103) اور کہا موسیٰ نے اے فرعون! بلاشبہ میں رسول ہوں رب العالمین کی طرف سے(104) سزاوار ہے(میرے لیے) یہ بات کہ نہ کہوں میں اللہ پر مگر حق، تحقیق آیا ہوں میں تمھارے پاس ساتھ واضح دلیل کے، تمھارے رب کی طرف سے، پس بھیج دے تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو(105)اس نے کہا، اگر ہے تو آیا ساتھ کسی (بڑی) نشانی کے تو لے آ اسے، اگر ہے تو سچوں سے(106)پس ڈال دیا موسیٰ نے اپنا عصا تو دفعتہ وہ اژدھا تھا ظاہر(107)اور (باہر) نکالا اس نے اپنا ہاتھ، تب وہ سفید چمکتا ہوا تھادیکھنے والوں کے لیے (108) کہا سرداروں نے فرعون کی قوم میں سے، یقینا یہ تو جادو گر ہے بڑا ماہر(109)چاہتا ہے وہ یہ کہ نکال دے تمھیں، تمھاری زمین سے تو کیا مشورہ دیتے ہو تم؟(110) انھوں نے کہا، مہلت دے اسے اوراس کے بھائی کو اور بھیج تو شہروں میں اکٹھے کرنے والے(111)لے آئیں وہ تیرے پاس ہر جادوگر ماہر کو(112) اورآئے جادوگر فرعون کے پاس (اور)کہا یقیناً ہمارے لیے انعام ہوگا اگر ہوئے ہم غالب؟(113)فرعون نے کہا، ہاں اور بلاشبہ تم البتہ مقرب لوگوں میں سے ہو گے(114)انھوں نے کہا، اے موسیٰ ! یا تو تو ڈالے اور یا یہ کہ ہم ہی ہوں(پہلے) ڈالنے والے(115) (موسیٰ نے) کہا! تم ہی ڈالو، پس جب انھوں نے ڈالیں(لاٹھیاں) تو جادو کردیا آنکھوں پر لوگوں کی اور ڈرادیا انھیں اور لائے وہ جادو بہت بڑا (116) اور وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی کہ ڈال تو(بھی) اپنا عصا، (جب اس نے ڈالا) تو یکایک وہ نگلنے لگا وہ (جھوٹ) جو وہ گھڑتے تھے(117) پس ثابت ہوگیا حق اور باطل ہوگیا جو کچھ کہ تھے وہ کر رہے(118)پس مغلوب ہوگئے وہ (جادوگر) وہاں اور لوٹے وہ ذلیل و خوار (119)اور گرا دیے گئے جادوگر(چہروں کے بل) سجدہ کرتے ہوئے(120) انھوں نے کہا! ایمان لائے ہم رب العالمین پر (121) ربِ موسیٰ اور ہارون پر(122) کہا فرعون نے! (کیا) ایمان لے آئے ہوتم اس پرپہلے اس سے کہ اجازت دوں میں تمھیں؟ یقینا یہ مکر ہے، مکر کیا ہے تم نے یہ اس شہر میں تاکہ نکال دو تم اس (شہر) سے اس کے رہنے والوں کو، پس عنقریب جان لو گے تم(123) ، البتہ ضرورکاٹوں کا میں تمھارے ہاتھ اور تمھارے پاؤں مخالف سمت سے، پھر ضرور سولی پر لٹکاؤں گا میں تم سب کو(124)انھوں نے کہا! یقینا ہم طرف اپنے رب ہی کی لوٹنے والے ہیں(125) اور نہیں سزا دے رہا تو ہمیں مگر اس کی کہ ایمان لائے ہم آیات پر اپنے رب کی، جب آئیں وہ ہمارے پاس۔ اے ہمارے رب! ڈال دے اوپر ہمارے صبر اور فوت کر ہمیں جبکہ ہم مسلمان ہوں(126) اور کہا چودھریوں نے فرعون کی قوم میں سے کیا چھوڑتا ہے تو موسیٰ اوراس کی قوم کو تاکہ فساد کریں وہ زمین میں اور چھوڑ دے وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو؟ کہا(فرعون نے) عنقریب قتل کردیں گے ہم ان کے بیٹے اور زندہ رہنے دیں گے ان کی عورتیں، (بیٹیاں) اور بلاشبہ ہم اوپر ان کے غالب ہیں(127)کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے مدد طلب کرو تم اللہ سے اور صبر کرو، یقینا زمین تو اللہ ہی کی ہے، وہ وارث بناتا ہے اس کا جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سےاور (اچھا) انجام تو متقیوں ہی کے لیے ہے(128)کہا انھوں نے ایذاء دیے گئے ہم پہلے اس سے کہ آئے تو ہمارے پاس اور بعد اس کے کہ آگیا تو ہمارے پاس (موسیٰ نے) کہا، امید ہے کہ تمھارا رب ہلاک کردے گا تمھارے دشمن کو اور جانشین بنا دے گا تمھیں زمین میں، پھر وہ دیکھے گا کہ کیسے عمل کرتے ہو تم؟(129) اور البتہ تحقیق پکڑا ہم نے آل فرعون کو ساتھ قحط سالیوں کے اور ساتھ نقصان کرنے کے پھلوں میں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں(130) پھر جب آتی ان کے پاس بھلائی تو کہتے ہمارے لیے ہی ہے یہ اور اگر پہنچتی انھیں کوئی برائی تو نحوست پکڑتے ساتھ موسیٰ کے اور ان لوگوں کے جو اس کے ساتھ تھے، خبردار! ان کی نحوست اللہ کے پاس ہے لیکن اکثران کے نہیں جانتے(131) اورانھوں نے کہا جو بھی لائے تو ہمارے پاس کوئی نشانی تاکہ جادو کرے تو ہم پر ساتھ اس کے تو بھی نہیں ہیں ہم تیرے لیے ایمان لانے والے(132)پس بھیجا ہم نے اوپر ان کے طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون، (تمام) نشانیاں الگ الگ، پھربھی تکبر کیا انھوں نے اور تھے ہی وہ لوگ مجرم (133) اور جب واقع ہوتا اوپر ان کے عذاب تو کہتے، اے موسیٰ! دعا کر تو ہمارے لیے اپنے رب سے بہ سبب اس کے جو عہد کیا اس نے تجھ سے، اگر دور کردے تو ہم سے یہ عذاب تو ضرور ایمان لے آئیں گے ہم تجھ پراور ضرور بھیج دیں گے ہم تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو(134) پس جب ہٹا دیتے ہم ان پر سے عذاب، ایک وقت تک کہ وہ پہنچنے والے ہوتے اس کو، تب وہ عہد توڑ دیتے(135)پس انتقام لیا ہم نے اس سے ، پھر غرق کردیا انھیں سمندر میں بوجہ اس کے کہ انھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور تھے وہ ان سے غفلت کرنے والے(136)اور وارث کردیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے اس زمین کی مشرقی اور مغربی جہتوں کا وہ (زمین) کہ برکت رکھی تھی ہم نے اس میں اور پورا ہوا وعدہ آپ کے رب کا اچھا، اوپر بنی اسرائیل کے بوجہ اس کے جو صبر کیا انھوں نےاور تباہ کردیں ہم نے وہ (فیکٹریاں) کہ تھا بناتا (ان کو) فرعون اوراس کی قوم اوران (محلات) کو جو تھے وہ بلند کرتے(137)اور پاراتار دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے تو آئے وہ اوپر ایسے لوگوں کے جو عبادت میں لگے ہوئے تھے اپنے بتوں کی، انھوں نے کہا، اے موسیٰ! بنا دے تو ہمارے لیے ایک معبود جس طرح کہ ہیں ان کے معبود (موسیٰ نے)کہا، بلاشبہ تم لوگ تو (یکسر) جاہل ہو(138) یقینا یہ لوگ، تباہ ہونے والاہے وہ (مذہب) کہ وہ اس میں (مشغول) ہیں۔ اور باطل ہے جو کچھ کہ ہیں وہ عمل کرتے(139) (موسیٰ نے) کہا کیا سوائے اللہ کے تلاش کروں میں تمھارے لیے معبود جبکہ اسی نے فضیلت دی ہے تمھیں جہانوں پر(140) اور جب نجات دی ہم نے تمھیں آل فرعون سے وہ دیتے تھے تمھیں بد ترین عذاب، قتل کردیتے تھے وہ بیٹے تمھارے اور زندہ رہنے دیتے تھے عورتیں (بیٹیاں) تمھاری اور اس میں آزمائش تھی تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی(141)اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا اور پورا کیا ہم نے ان کو ساتھ دس راتوں کے تو پوری ہوگئی مدت مقررہ اس کے رب کی چالیس راتیں اور کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے میری جانشینی کرنا میری قوم میں اور اصلاح کرنا (ان کی) اور نہ پیروی کرنا راستے کی فساد کرنے والوں کے(142)اور جب آئے موسیٰ ہماری مقررہ مدت پر اور کلام کیا ان سے ان کے رب نے تو کہا موسیٰ نے اے میرے رب! دکھا مجھے (اپنی جھلک) کہ دیکھوں میں تجھے، کہا ہر گز نہیں دیکھ سکے گا تو مجھے لیکن دیکھ تو طرف اس پہاڑ کی پس اگر ٹھہر رہا وہ اپنی جگہ پر توضرور دیکھ سکے گا تو بھی مجھے، پھر جب جلوہ ڈالا اس کے رب نے پہاڑ پر تو کردیا اس کو ریزہ ریزہ اور گر پڑے موسیٰ بے ہوش ہوکر، پھر جب ہوش میں آئے تو کہا پاک ہے تو توبہ کی میں نے تیری طرف اور میں ہوں سب سے پہلا مومن(143)کہا(اللہ نے) اے موسیٰ! بلاشبہ میں نے چن لیا ہے تجھے اوپر لوگوں کے، اپنے پیغامات (پہنچانے) اور اپنی ہمکلامی کے لیے پس لے لے تو جو دیا میں نے تجھے اور ہوجا تو شکر گزاروں میں سے (144)اور لکھ دی ہم نے اس (موسیٰ) کے لیے تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور تفصیل ہر ایک شے کی، سو پکڑ لے تو ان کو ساتھ قوت کے اور حکم دے اپنی قوم کو کہ پکڑیں وہ اچھی باتیں ان کی عنقریب دکھاؤں گا میں تمھیں گھر فاسقوں کا(145)اور البتہ پھیردوں گا میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق اور اگر دیکھ لیں وہ ہر نشانی تو بھی نہ ایمان لائیں گے وہ ساتھ ان کےاوراگر دیکھ لیں وہ راہ ہدایت تو نہ پکڑیں اسے (اپنے لیے) راستہ اور اگر دیکھ لیں وہ راستہ گمراہی کا تو پکڑ لیں اسے (اپنے لیے) راستہ، یہ اس لیے کہ بلاشبہ انھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور تھے وہ ان سے غافل(146)اور وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں اور ملاقات کو آخرت کی، برباد ہوگئے ان کے عمل، نہیں بدلہ دیے جائیں گے وہ مگر ان کاموں کا جو تھے وہ کرتے(147) اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے بعد (جانے) اس (موسیٰ) کے، اپنے زیورات سے ایک بچھڑا، جو ایک جسم تھا، اس کی آواز تھی گائے کی، کیا نہیں دیکھا انھوں نے کہ وہ نہیں کلام کرتا ان سے اورنہیں بتلاتا انھیں کوئی راستہ؟ بنا لیا انھوں نے اسے (معبود) اور تھے وہ ظالم(148)اور جب نادم ہوئے وہ اور دیکھا انھوں نے کہ بلاشبہ گمراہ ہوگئے ہیں وہ تو کہا انھوں نے اگر نہ رحم کیا ہم پر ہمارے رب نے اور نہ بخشا ہمیں تو ضرور ہوجائیں گے ہم خسارہ پانے والوں میں سے(149)اور جب واپس آئے موسیٰ کی طرف اپنی قوم کی غضب ناک، افسوس کرتے ہوئے تو کہا، بری ہے جو جانشینی کی تم نے میری، میرے (جانے کے )بعد، کیا جلدی کی تم نے اپنے رب کے حکم سے؟ اور ڈال دیں تختیاں اور پکڑ لیا سر اپنے بھائی کا، کھینچتے تھے اس کو اپنی طرف، کہا (ہارون) نے اے میرے ماں جائے! بے شک ان لوگوں نے کمزور سمجھا مجھےاور قریب تھا کہ وہ قتل ہی کر دیتے مجھے، پس نہ ہنسا مجھ پر دشمنوں کو اور نہ (شامل) کر تو مجھے ساتھ ان لوگوں کے جو ظالم ہیں(150) کہا(موسیٰ نے) اے میرے رب! تو بخش دے مجھے اور میرے بھائی کواور داخل فرما ہمیں اپنی رحمت میں اور تو ہے سب سے زیادہ رحم کرنے والا(151)بے شک وہ لوگ جنھوں نے بنایا بچھڑے کو(معبود) عنقریب پہنچے گا انھیں غضب ان کے رب کی طرف سےاور ذلت زندگانی ٔ دنیا میں اوراسی طرح سزا دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو(152) اور وہ لوگ جنھوں نے عمل کیے برے، پھر توبہ کی بعد ان کے اور ایمان لے آئے تو یقینا آپ کا رب اس کے بعد البتہ بہت بخشنے والا ہے نہایت مہربان(153)اور جب ٹھنڈا ہوا موسیٰ کا غصہ تو اٹھا لیں اس نے تختیاں اوران کے مضامین میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے(154)اور منتخب کیے موسی نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی ہمارے مقررہ وقت کے لیے پس جب پکڑ لیا ان کو زلزلے نے تو کہا موسیٰ نے اے میرے رب! اگر چاہتا تو تو ہلاک کردیتا انھیں پہلے اس سے اور مجھے بھی، کیا ہلاک کرتا ہے تو ہمیں بوجہ اس کے جو کیا بیوقوفوں نے ہم میں سے؟ نہیں ہے یہ مگر آزمائش تیری، گمراہ کرتا ہے تو ساتھ اس (آزمائش) کے جسے چاہتا ہےاور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے تو ہی ہمارا کار ساز ہے پس بخش دے ہمیں اور رحم فرما ہم پر اورتو ہے بہترین بخشنے والا(155)اور لکھ دے تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی، یقینا ہم نے رجوع کیا تیری طرف، کہا (اللہ نے) میرا عذاب، پہنچاتا ہوں میں وہ جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت، اس نے گھیر رکھا ہے ہر ایک چیز کو پس عنقریب لکھ دوں گا میں یہ (رحمت) ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے ہیں اور دیتے ہیں زکاۃاور وہ لوگ کہ وہ ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں(156)وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول کا، جو نبی ٔ امی ہے، وہ جو پاتے ہیں وہ اس کو لکھا ہوا اپنے ہاں تورات اور انجیل میں، وہ حکم دیتا ہے انھیں اچھے کاموں کااور روکتا ہے انھیں برے کاموں سےاور وہ حلال کرتا ہے ان کے لیے پاکیزہ چیزیں اور حرام ٹھہراتا ہے ان پر ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان سے ان کے بوجھ اور وہ طوق جو تھے اوپر ان کے پس وہ لوگ جو ایمان لائے ساتھ اس کے اور تعظیم کی اس کی اور مدد کی اس کی اور اتباع کیا اس نور کا جو نازل کیا گیا ساتھ اس کے یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے(157)کہہ دیجیے اے لوگو! یقینا میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف، وہ ذات کہ اسی کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں اورزمین کی، نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر وہی ، وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے، پس ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اوراس کے رسول کے جو نبی ٔ امی ہے وہ جو (خود بھی) ایمان لاتا ہے ساتھ اللہ اوراس کے کلمات کےاور اتباع کرو اس کا تاکہ تم ہدایت پاؤ(158)اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک جماعت ہے جو رہنمائی کرتی ہے ساتھ حق کے اور ساتھ اسی (حق) کے وہ عدل کرتی ہے(159) اور جدا جدا کردیا ہم نے انھیں بارہ قبیلوں کے لحاظ سے (بارہ) جماعتوں میں اور وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی جب پانی مانگا اس سے اس کی قوم نے، یہ کہ مار تو لاٹھی اپنی (اس) پتھر پر، (اس نے ماری) تو پھوٹ پڑے اس(پتھر) سے بارہ چشمے، تحقیق جان لیا ہر قبیلے نے اپنا گھاٹاور سایہ کیا ہم نے اوپر ان کے بادلوں کااورنازل کیا اوپر ان کے من اور سلویٰ (اور کہا) کھاؤ تم ان پاکیزہ چیزوں سے جو رزق دیا ہم نے تمھیں اور نہیں ظلم کیا انھوں نے ہم پر لیکن تھے وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے(160) اور جب کہا گیا ان سے، ٹھہرو تم اس بستی میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو تم اور کہو معاف کردے ہمیں اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے، بخش دیں گے ہم تمھارے لیے تمھاری خطائیں، عنقریب زیادہ دیں گے ہم نیکی کرنے والوں کو(161)پس بدل دیا ان لوگوں نے جنھوں نے ظلم کیا تھا ان میں سے، بات کو، مخالف اس بات کے جوکہی گئی تھی ان سے تو بھیجا ہم نے اوپر ان کے عذاب آسمان سے بوجہ اس کے جو تھے وہ ظلم کرتے(162) اور پوچھیے ان (لوگوں) سے اس بستی کے بارے میں جو تھی ساحل سمندر پر، جب وہ حد سے تجاوز کرتے تھے ہفتے کے (دن کے) بارے میں جبکہ آتی تھیں ان کے پاس مچھلیاں ان کی، ان کے ہفتے کے دن میں ظاہر (پانی کے اوپر) اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا تو نہ آتیں وہ ان کے پاس اسی طرح ہم آزماتے تھے انھیں بوجہ اس کے جو تھے وہ نافرمانی کرتے(163) اور جب کہا ایک گروہ نے ان میں سے کیوں وعظ کرتے ہوتم ایسی قوم کو کہ اللہ ہلاک کرنے والا ہے انھیں یا عذاب دینے والا ہے انھیں عذاب سخت تو انھوں نے کہا، معذرت پیش کرنے کے لیے تمھارے رب کی طرف اور شاید کہ وہ ڈر جائیں(164) پس جب بھلا دیا انھوں نے جو نصیحت کیے گئے تھے وہ ساتھ اس کے تو نجات دی ہم نے ان لوگوں کو جو روکتے تھے برے کام سےاور پکڑ لیا ہم نے ان کو جنھوں نے ظلم کیا، ساتھ بدترین عذاب کے، بوجہ اس کے جو تھے وہ نافرمانی کرتے(165) پس جب سرکشی کی انھوں نے اس سے کہ روکے گئے تھے وہ اس سے تو کہا ہم نے ان کو ہو جاؤ تم بندر ذلیل(166) اور (یاد کرو) جب جتلا دیا آپ کے رب نے کہ وہ ضرور بھیجتا رہے گا اوپر ان کے روز قیامت تک ایسے شخص کو جو چکھا تا رہے گا انھیں برا عذاب، بلاشبہ آپ کا رب ، البتہ جلدی سزا دینے والا ہے اور یقینا وہ البتہ بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے(167) اور جدا جدا کردیا ہم نے انھیں زمین میں کئی گروہ بناکر، کچھ ان میں سے صالح تھے اور کچھ ان میں سے علاوہ اس کےاور آزمایا ہم نے انھیں ساتھ نعمتوں اور تکلیفوں کے تاکہ وہ رجوع کریں(اللہ کی طرف) (168) پھر جانشین بنے بعد ان کے ناخلف جو وارث ہوئے کتاب (تورات) کے، وہ لے لیتے سامان اس ادنیٰ (دنیا) کا اور کہتے کہ عنقریب بخش دیا جائے گا ہمیں اوراگر آئے ان کے پاس(پھر) سامان اس جیسا ہی تو وہ لے لیں اسے (بھی)، کیا نہیں لیا گیا ان سے پختہ وعدہ کتاب میں یہ کہ وہ نہ کہیں اوپر اللہ کے سوائے حق کے؟ حالانکہ انھوں نے پڑھ لیا ہے جو کچھ اس میں ہے اور گھر آخرت کا بہت بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟ (169)اور وہ لوگ جو مضبوطی سے پکڑتے ہیں کتاب کو اور قائم کیا انھوں نے نماز کو تو یقینا ہم نہیں ضائع کرتے اجر اصلاح کرنے والوں کا(170)اور جب اٹھایا ہم نے پہاڑ کو اوپر ان کے، گویا کہ وہ ایک سائبان ہے اور یقین کر لیا تھا انھوں نے کہ یقینا وہ (پہاڑ) گرنے والا ہے ان پر، (کہا ہم نے) پکڑو اس(تورات) کو جودی ہم نے تمھیں، ساتھ قوت کے اور یاد کرو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم بچ جاؤ(171)
#
{103} أي: ثم بعثنا من بعد أولئك الرسل موسى الكليم الإمام العظيم والرسول الكريم إلى قوم عتاةٍ جبابرةٍ ـ وهم فرعون وملؤه من أشرافهم وكبرائهم ـ فأراهم من آيات الله العظيمة ما لم يشاهَدْ له نظيرٌ. {فظلموا بها}: بأن لم ينقادوا لحقِّها الذي مَن لم ينقدْ له فهو ظالمٌ، بل استكبروا عنها، {فانظرْ كيفَ كان عاقبةُ المفسدينَ}: كيف أهلَكَهُمُ الله وأتْبَعَهم الذمَّ واللعنة في الدنيا، ويوم القيامة بئس الرِّفْدُ المرفود.
[103] پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے امام عظیم اور رسول کریم موسیٰ کلیم اللہu کو انتہائی سرکش اور جابر قوم یعنی فرعون اور اس کے سرداروں اور اشراف کی طرف مبعوث کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی بڑی آیات و معجزات کا مشاہدہ کروایا کہ ان جیسے معجزات کا مشاہدہ کبھی نہیں ہوا۔ ﴿ فَظَلَمُوْا بِهَا ﴾ ’’پس ظلم کیا انھوں نے ان کے مقابلے میں ‘‘ بایں صورت کہ انھوں نے اس حق کی پیروی نہ کی کہ جس کی پیروی نہ کرنا ظلم ہے اس کے برعکس انھوں نے تکبر کے ساتھ حق کو ٹھکرا دیا۔ ﴿فَانْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’پس دیکھو، کیا انجام ہوا مفسدوں کا‘‘ یعنی دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسے ہلاک کر دیا، دنیا میں کیسے ان کو ملعون اور مذموم ٹھہرایا اور قیامت کے روز بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی۔ بہت برا ہے وہ انعام جو ان کو ملا ہے۔
#
{104} وهذا مجمل فصَّله بقوله: {وقال موسى}: حين جاء إلى فرعون يدعوه إلى الإيمان: {يا فرعونُ إنِّي رسولٌ من ربِّ العالَمين}؛ أي: إني رسولٌ من مُرسِل عظيم، وهو ربُّ العالَمين، الشامل للعالم العلويِّ والسفليِّ، مربِّي جميع خلقِهِ بأنواع التدابير الإلهيَّة، التي من جملتها أنه لا يترُكُهم سدىً، بل يرسل إليهم الرسل مبشِّرين ومنذرين، وهو الذي لا يقدر أحدٌ أن يتجرَّأ عليه ويدَّعي أنه أرسله ولم يرسله.
[104] یہ مجمل بیان تھا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَقَالَ مُوْسٰؔى ﴾ ’’موسیٰ (u) نے فرمایا‘‘ یعنی موسیٰu نے فرعون کے پاس آکر اسے ایمان کی دعوت دی اور فرمایا: ﴿ یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اے فرعون، میں رب العالمین کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں ‘‘ یعنی میں ایک عظیم ہستی کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں جو عالم علوی اور عالم سفلی تمام جہانوں کا رب ہے جو مختلف تدابیرالہیہ کے ذریعے سے تمام مخلوق کی تربیت کرتا ہے۔ ان جملہ تدابیر میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو مہمل نہیں چھوڑتا بلکہ وہ انبیاء و مرسلین کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر ان کی طرف مبعوث کرتا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جراء ت نہیں کر سکتا کہ اسے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے درآں حالیکہ اسے رسول نہ بنایا گیا ہو۔
#
{105} فإذا كان هذا شأنه، وأنا قد اختارني واصطفاني لرسالته؛ فحقيقٌ عليَّ أن لا أكذب عليه ولا أقول عليه إلا الحقَّ؛ فإني لو قلتُ غير ذلك؛ لعاجلني بالعقوبة، وأخذني أخذ عزيز مقتدر؛ فهذا موجبٌ لأن ينقادوا له ويتَبعوه، خصوصاً وقد جاءهم ببيِّنة من الله واضحةٍ على صحَّة ما جاء به من الحقِّ، فوجب عليهم أن يعملوا بمقصود رسالته، ولها مقصودان عظيمان: إيمانُهم به واتِّباعُهم له، وإرسالُ بني إسرائيل الشعب الذي فضَّله الله على العالمين أولاد الأنبياء وسلسلة يعقوب عليه السلام الذي موسى عليه الصلاة والسلام واحدٌ منهم.
[105] جب اس عظیم ہستی کی یہ شان ہے اور اس نے مجھے اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہے۔ تو مجھ پر فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھوں اور اس کی طرف وہی بات منسوب کروں جو حق ہے اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور کہوں تو وہ مجھے بہت جلد عذاب میں مبتلا کر دے گا اور وہ مجھے ایسے پکڑے گا جیسے ایک غالب اور قادر ہستی پکڑتی ہے۔ پس یہ امر اس بات کا موجب ہے کہ وہ موسیٰu کی اتباع کریں اور ان کے حکم کی تعمیل کریں ، خاص طور پر جبکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے جو اس حق پر دلالت کرتی ہے جو موسیٰu لے کر آئے۔ اس لیے ان پر واجب ہے کہ وہ آنجناب کی رسالت کے مقاصد پر عمل درآمد کریں ۔ اس رسالت کے دو عظیم مقاصد ہیں ۔ (۱) وہ موسیٰu پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں ۔ (۲) بنی اسرائیل کو آزاد کر دیں جو ایسی قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی ہے۔ جو انبیاءo کی اولاد اور یعقوبu کا سلسلہ ہے اور موسیٰu، اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں ۔
#
{106} فقال له فرعون: {إن كنتَ جئتَ بآيةٍ فأت بها إن كنتَ من الصادقين}.
[106] فرعون نے موسیٰu سے کہا ﴿ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ دکھاؤ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔‘‘
#
{107} {فألقى} موسى {عصاه}: في الأرض، {فإذا هي ثعبانٌ مبينٌ}؛ أي: حية ظاهرةٌ تسعى وهم يشاهدونها.
[107] ﴿فَاَلْ٘قٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’پس موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ واضح طور پر سانپ بن گیا‘‘ جو بھاگ رہا تھا اور وہ سب کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
#
{108} {ونزع يده}: من جيبه، {فإذا هي بيضاء للناظرين}: من غير سوءٍ؛ فهاتان آيتان كبيرتان دالَّتان على صحة ما جاء به موسى وصدقِهِ، وأنَّه رسولُ ربِّ العالمين.
[108] ﴿وَّنَزَعَ یَدَهٗ ﴾ ’’حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان سے نکالا‘‘ ﴿ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ ﴾ ’’پس وہ دیکھنے والوں کو (بغیر کسی عیب اور مرض کے) سفید نظر آتا تھا۔‘‘ یہ دو بڑے معجزے جو موسیٰu کی تعلیم اور ان کی صداقت پر دلالت کرتے تھے کہ وہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہیں۔
#
{109} ولكن الذين لا يؤمنون لو جاءتهم كلُّ آيةٍ لا يؤمنون حتى يروا العذاب الأليم؛ فلهذا {قال الملأ من قوم فرعون} حين بهرهم ما رأوا من الآيات ولم يؤمنوا وطلبوا لها التأويلات الفاسدة: {إنَّ هذا لساحرٌ عليمٌ}؛ أي: ماهرٌ في سحره.
[109] مگر وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے اگر ان کے پاس تمام معجزات آجائیں وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ بنابریں ﴿قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’قوم فرعون کے جو سردار تھے وہ کہنے لگے۔‘‘ یعنی جب انھوں نے معجزات کو دیکھا اور ان معجزات نے ان کو مبہوت کر دیا تو وہ ایمان نہ لائے وہ معجزات کے لیے فاسد تاویلات تلاش کرنے لگے اور بولے ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’یہ بڑا ماہر جادوگر ہے۔‘‘ یعنی یہ اپنے جادو میں بہت ماہر ہے۔
#
{110} ثم خوَّفوا ضعفاءَ الأحلام وسفهاء العقول بأنه {يريدُ} موسى بفعلِهِ هذا {أن يخرِجَكم من أرضكم}؛ أي: يريد أن يجليكم من أوطانكم، {فماذا تأمرونَ}؟ أي: إنهم تشاوروا فيما بينهم ما يفعلون بموسى، وما يندفع به ضررهم بزعمهم عنهم؛ فإنَّ ما جاء به إن لم يقابَلْ بما يبطِلُه ويدحضه، وإلا؛ دخل في عقول أكثر الناس.
[110] پھر وہ کمزور عقل اور کم فہم لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہنے لگے ﴿ یُّرِیْدُ ﴾ یعنی اس فعل سے موسیٰu کا ارادہ ہے ﴿ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ ﴾ ’’کہ وہ تمھیں تمھارے وطن سے نکال باہر کرے۔‘‘ ﴿فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ﴾ ’’اب تمھاری کیا صلاح ہے‘‘ یعنی انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ موسیٰ (u) کے ساتھ کیسے نبٹا جائے اور ان کے زعم کے مطابق موسیٰ کے ضرر سے کیسے بچا جائے۔ کیونکہ موسیٰ u جو کچھ لے کر آئے ہیں اگر اس کا مقابلہ کسی ایسی چیز سے نہ کیا جائے جو اسے باطل اور بے اثر کر دے تو موسیٰ کے معجزات عوام میں سے اکثر لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کریں گے۔
#
{111 ـ 112} فحينئذ انعقد رأيهم إلى أن قالوا لفرعون: {أرْجِهِ وأخاه}؛ أي: احبسهما وأمهلهما، وابعثْ في المدائن أناساً يحشُرون أهل المملكة ويأتون بكل سَحَّارٍ عليم؛ أي: يجيئون بالسحرة المهرة؛ ليقابلوا ما جاء به موسى، فقالوا: يا موسى {اجعلْ بيننا وبينَكَ موعداً لا نُخْلِفُهُ نحن ولا أنت مكاناً سُوىً. قال موعِدْكم يومُ الزينةِ وأن يُحْشَرَ الناس ضحىً. فتولَّى فرعونُ فجمَعَ كيدَه ثم أتى}.
[112,111] تب وہ ایک رائے پر متفق ہوئے اور انھوں نے فرعون سے کہا ﴿ اَرْجِهْ وَاَخَاهُ ﴾ ’’(فی الحال) موسیٰ(u) اور اس کے بھائی کے معاملے کو معاف رکھیے۔‘‘ یعنی دونوں بھائیوں کو روک کر ان کو مہلت دو اور تمام شہروں میں ہرکارے دوڑا دو جو مملکت کے لوگوں کو اکٹھا کریں اور تمام ماہر جادوگروں کو لے آئیں تاکہ وہ موسیٰ (u) کے معجزات کا مقابلہ کر سکیں ، چنانچہ انھوں نے موسیٰ u سے کہا ’’ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کر لو، نہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں گے نہ تم اس کے خلاف کرو گے اور یہ مقابلہ ایک ہموار میدان میں ہوگا۔‘‘موسیٰu نے جواب میں فرمایا: ﴿ مَوْعِدُؔكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ۰۰ فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَ٘جَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى ﴾ (طٰہ: 20؍59۔60)’’تمھارے لیے مقابلے کا دن عید کا روز مقرر ہے اور یہ کہ تمام لوگ چاشت کے وقت اکٹھے ہو جائیں ۔ فرعون لوٹ گیا۔ اس نے اپنی تمام چالیں جمع کیں پھر مقابلے کے لیے آ گیا‘‘۔
#
{113} وقال هنا: {وجاء السحرةُ فرعونَ}: طالبين منه الجزاء إن غلبوا، فقالوا: {إنَّ لنا لأجراً إن كُنَّا نحنُ الغالبينَ}.
[113] ﴿ وَجَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’اور جادوگر فرعون کے پاس آپہنچے۔‘‘ جادوگر غالب آنے کی صورت میں انعام کا مطالبہ کرتے ہوئے فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے ﴿ اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ ﴾ ’’اگر ہم مقابلے میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں انعام دیا جائے گا؟‘‘
#
{114} فقالَ فرعونُ: {نعم}: لكم أجر، {وإنَّكم لمن المقرَّبين}: فوعَدَهم الأجر والتقريب وعلو المنزلة عنده؛ ليجتهدوا ويبذُلوا، وسعهم وطاقتهم في مغالبة موسى.
[114] ﴿قَالَ ﴾ فرعون نے کہا ﴿نَعَمْ﴾ ہاں تمھیں انعام سے نوازا جائے گا ﴿ وَاِنَّـكُمْ لَ٘مِنَ الْ٘مُقَرَّبِیْنَ۠ ﴾ ’’(اور اس پر مستزاد یہ کہ) تم میرے مقربین میں سے ہو گے۔‘‘ فرعون نے جادوگروں کو انعام و اکرام دینے، ان کو اپنے مقربین میں شامل کرنے اور ان کی قدر و منزلت بڑھانے کا وعدہ کر لیا تاکہ وہ موسیٰu کے مقابلے میں اپنی پوری طاقت صرف کر دیں ۔
#
{115} فلما حضروا مع موسى بحضرة الخلق العظيم، {قالوا}: على وجه التألِّي وعدم المبالاة بما جاء به موسى، {يا موسى إما أن تُلْقِيَ}: ما معك، {وإما أن نكونَ نحنُ الملقينَ}.
[115] جب لوگوں کے ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے جادوگر موسیٰu کے مقابلے میں آئے۔ ﴿قَالُوْا﴾ تو انھوں نے موسیٰu کے معجزات کے بارے میں بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ ﴿ یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُ٘لْ٘قِیَ ﴾ ’’اے موسیٰ! یا تو تم ڈالو۔‘‘ یعنی تمھارے پاس جو کچھ ہے تم سامنے لاتے ہو۔ ﴿وَاِمَّاۤ اَنْ نَّـكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ ﴾ ’’یا ہم ڈالتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم اپنا جادو دکھاتے ہیں ۔
#
{116} فقالَ موسى: {ألقوا}: لأجل أن يرى الناسُ ما معهم وما مع موسى، {فلما ألقَوْا}: حبالَهم وعصيَّهم إذا هي من سحرهم كأنها حياتٌ تسعى، فسحروا {أعين الناس واسترهبوهم وجاؤوا بسحرٍ عظيم}: لم يوجدْ له نظيرٌ من السحر.
[116] ﴿قَالَ ﴾ موسیٰu نے کہا ﴿اَلْقُوْا﴾ ’’ڈالو تم‘‘ تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ ان جادوگروں کے پاس کیا ہے اور موسیٰu کے پاس کیا ہے ﴿فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا﴾ ’’پس جب انھوں نے ڈالیں ۔‘‘ یعنی جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں تو ان کے جادو کے سبب سے یوں لگا جیسے لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن گئی ہیں جو بھاگتے پھر رہے ہیں ۔ ﴿ سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’اس طرح انھوں نے جادو کر کے ان کی نظر بندی کر دی اور اپنے جادو سے ان کو ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا۔‘‘ جادو کی دنیا میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔
#
{117} {وأوحَيْنا إلى موسى أن ألقِ عصاك}: فألقاها، {فإذا هي}: حيَّةٌ تسعى فتلقفت جميعَ ما يأفِكونَ؛ أي: يكذِّبون به ويموِّهون.
[117] ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْ٘قِ عَصَاكَ﴾ ’’اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی ڈال دے‘‘ پس موسیٰu نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا ﴿فَاِذَا هِیَ ﴾ ’’وہ فوراً‘‘ یعنی عصا دوڑتا ہوا سانپ بن گیا ﴿ تَلْقَفُ مَا یَ٘اْفِكُوْنَ﴾ اور انھوں نے جھوٹ اور شعبدہ بازی سے جو سانپ بنائے تھے، ان کو نگلتا گیا۔
#
{118} {فوقع الحقُّ}؛ أي: تبين، وظهر، واستعلن في ذلك المجمع، {وبَطَلَ ما كانوا يعملون}.
[118] ﴿ فَوَقَ٘عَ الْحَقُّ ﴾ ’’تو حق ثابت ہوگیا۔‘‘ یعنی اس بھرے مجمع میں حق واضح طور پر نمایاں اور ظاہر ہوگیا ﴿ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور جو کچھ وہ کرتے تھے سب باطل ہوگیا۔‘‘
#
{119} {فغُلِبوا هنالك}؛ أي: في ذلك المقام، {وانقلبوا صاغرينَ}؛ أي: حقيرين قد اضمحلَّ باطلُهم وتلاشى سحرهم ولم يحصُل لهم المقصود الذي ظنوا حصوله.
[119] ﴿فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ ﴾ ’’اس مقام پر وہ مغلوب ہوگئے۔‘‘ ﴿ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ﴾ ’’اور وہ حقیر بن کر رہ گئے‘‘ ان کا باطل مضمحل اور ان کا جادو نابود ہوگیا اور انھیں وہ مقصد حاصل نہ ہو سکا جس کے حصول کا وہ گمان رکھتے تھے۔
#
{120 ـ 122} وأعظم من تبيَّن له الحقُّ العظيم أهل الصنف والسحر [الذين] يعرفون من أنواع السحر وجزئياتِهِ ما لا يعرفه غيرُهم، فعرفوا أن هذه آية عظيمة من آيات الله، لا يدان لأحد بها، فألقي {السحرةُ ساجدينَ. قالوا آمنا بربِّ العالمين. ربِّ موسى وهارون}؛ أي: وصدَّقنا بما بُعِثَ به موسى من الآيات البينات.
[122-120] جادوگروں پر حق عظیم واضح ہوگیا جو جادو کی مختلف اقسام اور جزئیات کو پہچانتے تھے جو کہ دوسرے لوگ نہ پہچانتے تھے... وہ جناب موسیٰ کے معجزات کی عظمت کے قائل ہوگئے پس انھوں نے پہچان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ﴿ وَاُلْ٘قِیَ السَّحَرَةُ سٰؔجِدِیْنَ۰۰قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۰۰رَبِّ مُوْسٰؔى وَهٰؔرُوْنَ﴾ ’’جادوگر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے کہ ہم جہاں کے پروردگار پر ایمان لائے (یعنی) موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر۔‘‘ یعنی موسیٰu جن معجزات اور دلائل کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں ۔
#
{123} فقال لهم {فرعونُ} متهدِّداً لهم على الإيمان: {آمنتُم به قبل أن آذنَ لكم}: كان الخبيث حاكماً مستبداً على الأبدان والأقوال، قد تقرَّر عنده وعندهم أن قوله هو المطاع وأمره نافذٌ فيهم ولا خروج لأحدٍ عن قوله وحكمه، وبهذه الحالة تنحطُّ الأمم وتضعف عقولها ونفوذها وتعجز عن المدافعة عن حقوقها، ولهذا قال الله عنه: {فاستخفَّ قومَه فأطاعوه}، وقال هنا: {آمنتُم به قبلَ أن آذنَ لكم}؛ أي: فهذا سوءُ أدبٍ منكم وتجرُّؤ عليَّ، ثم موَّه على قومه وقال: {إنَّ هذا لَمَكرٌ مكرتُموه في المدينة لتُخْرِجوا منها أهلها}؛ أي: إن موسى كبيركم الذي علَّمكم السحر، فتواطأتم أنتم وهو على أن تنغلِبوا له فيظهرَ فتتَّبعونه ثم يتَّبعكم الناس أو جمهورهم، فتُخْرِجوا منها أهلها، وهذا كذب يعلم هو ومن سبر الأحوال أن موسى عليه الصلاة والسلام لم يجتمع بأحدٍ منهم، وأنهم جُمِعوا على نظر فرعون ورسله، وأن ما جاء به موسى آية إلهيَّة، وأن السحرة قد بذلوا مجهودهم في مغالبة موسى حتى عجزوا وتبيَّن لهم الحق فاتبعوه. ثم توعَّدهم فرعون بقوله: فلسوف {تعلمونَ}: ما أحِلُّ بكم من العقوبة.
[123] ﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے ان کے ایمان لانے پر ان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ﴾ ’’کیا تم اس پر میری اجازت سے پہلے ہی ایمان لے آئے؟‘‘ وہ خبیث شخص ،جابر حکمران تھا وہ ادیان و مذاہب کے مقابلے میں اپنی رائے کو ترجیح دیتا تھا۔ ان لوگوں کے ہاں اور خود اس کے نزدیک بھی یہ بات تسلیم شدہ تھی کہ وہ اطاعت کا حق دار ہے اور ان کے اندر اس کا حکم نافذ ہے اور اس کے حکم سے سرتابی کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ۔ ان حالات کا شکار ہو کر قومیں انحطاط پذیر ہوتی ہیں ان کی عقل کمزور اور اس کی قوت نفوذ کم ہو جاتی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ ﴾ (الزخرف: 43؍54) ’’پس اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی بات مان لی۔‘‘یہاں فرعون نے کہا ﴿ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ﴾’’اس سے پہلے کہ میں تمھیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے۔‘‘ یعنی یہ تمھاری طرف سے سوء ادبی اور میرے حضور بہت بڑی جسارت ہے، پھر اس نے اپنی قوم کے سامنے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے کہا ﴿ اِنَّ هٰؔذَا لَمَؔكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَا ﴾ ’’بے شک یہ فریب ہے جو تم نے مل کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے نکال دو۔‘‘ یعنی موسیٰ(u) تمھارا سردار ہے تم نے اس کے ساتھ مل کر سازش کی تاکہ تم اس کے غلبہ حاصل کرنے میں مدد کرو، پھر تم اس کی اطاعت کرو، پھر تمام لوگ یا اکثر لوگ تمھاری اطاعت کریں اور تم سب مل کر یہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرو۔ یہ سب جھوٹ تھا، فرعون خود بھی جانتا تھا اصل صورت احوال یہ تھی کہ موسیٰu کی ان میں سے کسی جادوگر سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی، فرعون اور اس کے ہرکاروں کے حکم پر ان جادوگروں کو جمع کیا گیا تھا اور موسیٰu نے وہاں جو کچھ کر دکھایا تھا وہ معجزہ تھا۔ تمام جادوگران کو نیچا دکھانے سے عاجز رہے اور حق ان کے سامنے واضح ہوگیا اور وہ جناب موسیٰ پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے جادوگروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا‘‘ کہ تم کس سزا سے دوچار ہونے والے ہو۔
#
{124} {لأقطِّعنَّ أيديَكم وأرجلَكم من خلافٍ}: زعم الخبيثُ أنَّهم مفسدون في الأرض، وسيصنع بهم ما يُصنع بالمفسدين من تقطيع الأيدي والأرجل من خلافٍ؛ أي: اليد اليمنى والرجل اليسرى، {ثم لأصَلِّبَنَّكُم}: في جذوع النخل؛ لتختَزوا بزعمه {أجمعينَ}؛ أي: لا أفعل هذا الفعل بأحدٍ دون أحدٍ، بل كلُّكم سيذوق هذا العذاب.
[124] ﴿لَاُقَ٘طِّ٘عَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ﴾ ’’میں تمھارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دوں گا۔‘‘ وہ خبیث شخص سمجھتا تھا کہ یہ جادوگر زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں لہذا وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو فسادیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا… یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں ﴿ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّـكُمْ ﴾ ’’پھر تم کو سولی دوں گا۔‘‘ یعنی کھجور کے تنوں پر تم سب کو سولی دے دوں گا۔ ﴿اَجْمَعِیْن ﴾ ’’سب کو۔‘‘ یعنی یہ سزا تم میں سے کسی ایک کو نہیں دوں گا بلکہ تم سب اس سزا کا مزہ چکھو گے۔
#
{125} فقال السحرة الذين آمنوا لفرعون حين تهدَّدهم: {إنَّا إلى ربِّنا منقلبونَ}؛ أي: فلا نبالي بعقوبتك؛ فالله خيرٌ وأبقى؛ فاقضِ ما أنت قاضٍ.
[125] ایمان لانے والے جادوگروں کو جب فرعون نے دھمکی دی تو انھوں نے کہا ﴿قَالُوْۤا اِنَّـاۤ٘ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ﴾ ’’ہم تو اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں ‘‘ یعنی ہمیں تمھاری سزا کی کوئی پروا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے بہتر ہے اور وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لیے تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر لے۔
#
{126} {وما تَنقِمُ منَّا}؛ أي: وما تعيب منَّا على إنكارك علينا وتوعُّدك لنا؛ فليس لنا ذنبٌ {إلَّا أنْ آمنَّا بآيات ربِّنا لما جاءتْنا} ؛ فإنْ كان هذا ذنباً يُعاب عليه ويستحقُّ صاحبه العقوبة؛ فهو ذنبُنا. ثم دعوا الله أن يثبِّتهم ويصبِّرهم، فقالوا: {ربَّنا أفرغْ}؛ أي: أفض {عليْنا صبراً}؛ أي: عظيماً كما يدلُّ عليه التنكير؛ لأنَّ هذه محنة عظيمة تؤدي إلى ذهاب النفس، فيحتاج فيها من الصبر إلى شيء كثير؛ ليثبت الفؤاد ويطمئن المؤمن على إيمانِهِ ويزول عنه الانزعاج الكثير. {وتوفَّنا مسلمينَ}؛ أي: منقادين لأمرك متَّبعين لرسولك. والظاهر أنه أوقع بهم ما توعَّدهم عليه، وأنَّ الله تعالى ثبَّتهم على الإيمان.
[126] ﴿وَمَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ ﴾ ’’تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے۔‘‘ یعنی وہ کون سی بری بات ہے جس پر تو ہماری نکیر کرتا ہے اور ہمیں دھمکی دیتا ہے۔ ہمارا کوئی گناہ نہیں ﴿ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا﴾ ’’سوائے اس کے کہ ہم ایمان لائے اپنے رب کی آیتوں پر جب وہ ہمارے پاس آئیں ‘‘ پس اگر یہ گناہ ہے جس کو معیوب کہا جائے اور اس کے مرتکب کو سزا کا مستحق سمجھا جائے تو ہم نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے، پھر جادوگروں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انھیں ثابت قدمی عطا کرے اور انھیں صبر سے نوازے۔ ﴿ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا ﴾ ’’ہم پر صبر عظیم کا فیضان کر‘‘... جیسا کہ ’’صَبْرًا‘‘ میں نکرہ کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے... کیونکہ یہ بہت بڑا امتحان ہے جس میں جان کے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ پس اس امتحان میں صبر کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ دل مضبوط ہو اور مومن اپنے ایمان پر مطمئن ہو اور قلب سے بے یقینی کی کیفیت دور ہو جائے۔ ﴿ وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور ہمیں مسلمان مارنا۔‘‘ یعنی ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے تابع فرمان بندے اور تیرے رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں ۔ظاہر ہے کہ فرعون نے جو دھمکی دی تھی اس پر عمل کیا ہوگا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ایمان پر ثابت قدم رکھا ہوگا۔
#
{127} هذا وفرعون وملؤه وعامتهم المتبعون للملأ قد استكبروا عن آيات الله وجحدوا بها ظلماً وعلوًّا وقالوا لفرعون مهيجين له على الإيقاع بموسى وزاعمين أن ما جاء باطل وفساد: {أتذرُ موسى وقومَه ليفسِدوا في الأرض}: بالدعوة إلى الله وإلى مكارم الأخلاق ومحاسن الأعمال التي هي الصلاح في الأرض وما هم عليه هو الفساد، ولكنَّ الظالمين لا يبالون بما يقولون، {وَيَذَرَكَ وآلهتَكَ}؛ أي: يدعك أنت وآلهتك، وينهى عنك، ويصد الناس عن اتباعك، فقال فرعونُ مجيباً لهم بأنه سيدع بني إسرائيل مع موسى بحالةٍ لا ينمون فيها ويأمنُ فرعونُ وقومُه بزعمه من ضررهم: {سَنُقَتِّلُ أبناءَهم ونستحيي نساءَهم}؛ أي: نستبقيهنَّ فلا نقتلهنَّ؛ فإذا فعلْنا ذلك؛ أمنَّا مِن كثرتِهِم، وكنَّا مستخدمين لباقيهم ومسخِّرين لهم على ما نشاء من الأعمال، {وإنَّا فوقَهم قاهرونَ}: لا خروج لهم عن حكمنا ولا قدرة. وهذا نهاية الجَبَروت من فرعون والعتوِّ والقسوة.
[127] یہ تو تھا ان جادوگروں کا حال، فرعون، اس کے سرداروں اور ان کے پیروکار عوام نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکبر کیا اور ظلم کے ساتھ ان کا انکار کر دیا۔ انھوں نے فرعون کو موسیٰu پر ہاتھ ڈالنے پر اکساتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ موسیٰ جو کچھ لائے ہیں سب باطل اور فاسد ہے… کہا ﴿ اَتَذَرُ مُوْسٰؔى وَقَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’کیا تم موسیٰ او راس کی قوم کو چھوڑ دو گے کہ ملک میں خرابی کریں ۔‘‘ یعنی کیا تم موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ رہے ہو تاکہ وہ دعوت توحید، مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی تلقین کے ذریعے سے زمین میں فساد پھیلائے۔ حالانکہ ان اخلاق و اعمال میں زمین کی اصلاح ہے اور جس راستے پر فرعون اور اس کے سردار گامزن تھے، وہ درحقیقت فساد کا راستہ ہے مگر ان ظالموں کو کوئی پروا نہ تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ﴿ وَیَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ﴾ ’’وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے‘‘ اور لوگوں کو تیری اطاعت کرنے سے روک دے۔ ﴿ قَالَ ﴾ فرعون نے ان کو جواب دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو موسیٰ (u) کے ساتھ اس حالت میں رکھے گا جس سے ان کی آبادی اور تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس طرح فرعون اور اس کی قوم.... بزعم خود.... ان کے ضرر سے محفوظ ہو جائیں گے، چنانچہ کہنے لگا: ﴿ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ﴾ ’’ہم ان کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو زندہ رکھیں گے‘‘ یعنی ان کی عورتوں کو باقی رکھیں گے اور انھیں قتل نہیں کریں گے۔ جب تک یہ حکمت عملی اختیار کریں گے تو ہم ان کی کثرت تعداد سے محفوظ رہیں گے اور ہم باقی ماندہ لوگوں سے خدمت بھی لیتے رہیں گے اور ان سے جو کام چاہیں گے لیں گے۔ ﴿ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰ٘هِرُوْنَ﴾ ’’اور ہم ان پر غالب ہیں ‘‘ یعنی وہ ہماری حکمرانی اور تغلب سے باہر نکلنے پر قادر نہ ہوں گے۔ یہ فرعون کا انتہا کو پہنچا ہوا ظلم و جبر، اس کی سرکشی اور بے رحمی تھی۔
#
{128} فقال {موسى لقومه}: موصياً لهم ـ في هذه الحالة التي لا يقدرون معها على شيء ولا مقاومة ـ بالمقاومة الإلهية والاستعانة الربانيَّة: {استعينوا بالله}؛ أي: اعتمدوا عليه في جلب ما ينفعكم ودفع ما يضرُّكم، وثِقوا بالله أنه سيتمُّ أمركم، {واصبروا}؛ أي: الزموا الصبر على ما يحلُّ بكم منتظرين للفرج. {إنَّ الأرض لله}: ليست لفرعون ولا لقومه حتى يتحكَّموا فيها، {يورِثُها مَن يشاءُ من عبادِهِ}؛ أي: يداولها بين الناس على حسب مشيئته وحكمته، ولكن العاقبة للمتَّقين؛ فإنهم وإن امتُحِنوا مدة ابتلاء من الله وحكمة؛ فإنَّ النصر لهم، {والعاقبةُ}: الحميدة لهم على قومهم. وهذه وظيفة العبد؛ أنَّه عند القدرة أن يفعل من الأسباب الدافعة عنه أذى الغير ما يقدر عليه وعند العجز أن يصبر ويستعين الله وينتظر الفرج.
[128] ﴿ قَالَ مُوْسٰؔى لِقَوْمِهِ ﴾ ’’موسیٰ (u) نے اپنی قوم سے کہا۔‘‘ ان حالات میں ، جن میں وہ کچھ کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ موسیٰu نے ان کو وصیت کرتے ہوئے کہا۔ ﴿ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ ﴾ ’’اللہ سے مدد طلب کرو‘‘ یعنی اس چیز کے حصول میں جو تمھارے لیے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو دور ہٹانے میں جو تمھارے لیے ضرر رساں ہے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ اس پر اعتماد کرو، وہ تمھارے معاملے کو پورا کرے گا۔ ﴿ وَاصْبِرُوْا﴾ ’’اور صبر کرو۔‘‘ یعنی مصائب و ابتلاء کے دور ہونے کی امید رکھتے ہوئے صبر کا التزام کرو۔ ﴿ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ﴾ ’’زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے‘‘ فرعون اور اس کی قوم کی ملکیت نہیں کہ وہ اس زمین میں حکم چلائیں ﴿ یُوْرِثُ٘هَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ ’’وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، بناتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق زمین کی حکمرانی باری باری لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ مگر اچھا انجام متقین کا ہوتا ہے کیونکہ اس حکمرانی کی مدت میں اگر ان کو امتحان میں ڈالا جائے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور اس کی حکمت کے تحت۔ تب بھی بالآخر کامیابی انھی کے لیے ہے۔ ﴿ وَالْعَاقِبَةُ ﴾ ’’اور اچھا انجام‘‘ ﴿ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ ’’متقین کے لیے ہے‘‘ یعنی جو اپنی قوم کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ بندۂ مومن کا وظیفہ ہے کہ مقدور بھر ایسے اسباب مہیا کرتا رہے جن کے ذریعے سے وہ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی اذیت سے اپنی ذات کو بچا سکے اور جب وہ ایسا کرنے سے عاجز آجائے تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور اچھے وقت کا انتظار کرے۔
#
{129} {قالوا}: لموسى متضجِّرين من طول ما مكثوا في عذاب فرعون وأذيَّته: {أوذينا من قبل أن تأتِيَنا}: فإنهم يسوموننا سوء العذاب يذبِّحون أبناءنا ويستحيون نساءنا، {ومن بعدِ ما جئتنا}: كذلك، فقال لهم موسى مرجياً لهم بالفرج والخلاص من شرِّهم: {عسى ربُّكم أن يُهْلِكَ عدوَّكم ويستخلِفَكم في الأرض}؛ أي: يمكِّنكم فيها ويجعل لكم التدبير فيها، {فينظرَ كيف تعملونَ}: هل تشكُرون أم تكفُرون؟ وهذا وعدٌ أنجزه الله لمَّا جاء الوقت الذي أراده الله.
[129] ﴿ قَالُوْۤا ﴾ بنی اسرائیل نے، جو کہ طویل عرصے سے فرعون کی تعذیب اور عقوبت برداشت کرتے کرتے تنگ آچکے تھے... موسیٰu سے کہا ﴿اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا ﴾ ’’ہمیں تکلیفیں دی گئیں آپ کے آنے سے پہلے‘‘ کیونکہ انھوں نے ہمیں بدترین عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا وہ ہمارے بیٹوں کو قتل کر دیا کرتے تھے اور ہماری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ﴿ وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ ’’اور آپ کے آنے کے بعد بھی‘‘ ایسا ہی سلوک ہے۔ ﴿ قَالَ ﴾ جناب موسیٰu نے ان کو آل فرعون کے شر سے نجات اور اچھے وقت کی امید دلاتے ہوئے فرمایا: ﴿ عَسٰؔى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّؔكُمْ وَیَسْتَخْلِفَكُمْ۠ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنادے‘‘ یعنی زمین میں تمھیں حکومت عطا کر دے اور زمین کا اقتدار اور تدبیر تمھارے سپرد کر دے۔ ﴿ فَیَنْظُ٘رَؔ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو‘‘ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہو یا ناشکری کرتے ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وعدہ تھا اور جب وہ وقت آ گیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا تو اس نے یہ وعدہ پورا کر دیا۔
#
{130} قال الله تعالى في بيان ما عامل به آلَ فرعون في هذه المدة الأخيرة ـ إنها على عادته وسنته في الأمم أن يأخُذَهم {بالبأساء والضرَّاء لعلهم يضَّرَّعون} الآيات ـ: {ولقد أخذنا آل فرعون بالسنين}؛ أي: بالدُّهور والجدب، {ونقص من الثمرات لعلهم يذَّكَّرون}؛ أي: يتَّعظون أنَّ ما حلَّ بهم وأصابهم معاتبة من الله لهم لعلَّهم يرجِعون عن كفرهم، فلم ينجعْ فيهم ولا أفاد، بل استمرُّوا على الظُّلم والفساد.
[130] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آخری مدت میں آل فرعون کے ساتھ جو معاملہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا حال بیان فرماتا ہے کہ قوموں کے بارے میں اس کی سنت اور عادت یہ ہے کہ وہ سختیوں اور تکلیفوں کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے شاید کہ وہ اس کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں ﴿ وَلَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ ﴾ ’’ہم نے ان پر خشک سالی اور قحط کو مسلط کر دیا۔‘‘ ﴿وَنَقْ٘صٍ مِّنَ الثَّ٘مَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّـرُوْنَ﴾ ’’اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘ یعنی ان پر جو قحط سالی مسلط کی اور جو مصیبت نازل کی گئی شاید وہ اس سے نصیحت پکڑیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے، شاید وہ اپنے کفر سے رجوع کریں ۔ مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ اپنے ظلم اور فساد پر بدستور جمے رہے۔
#
{131} {فإذا جاءتهم الحسنةُ}؛ أي: الخصب وإدرار الرزق، {قالوا لنا هذه}؛ أي: نحن مستحقُّون لها، فلم يشكروا الله عليها، {وإن تصِبْهم سيئةٌ}؛ أي: قحط وجدب، {يطَّيَّروا بموسى ومن معه}؛ أي: يقولوا: إنما جاءنا بسبب مجيء موسى واتباع بني إسرائيل له. قال الله تعالى: {ألا إنَّما طائِرُهم عند الله}؛ أي: بقضائه وقدرته، ليس كما قالوا، بل إن ذنوبهم وكفرهم هو السبب في ذلك، بل أكثرهم لا يعلمونَ؛ أي: فلذلك قالوا ما قالوا.
[131] ﴿ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ ﴾ ’’پس جب پہنچتی ان کو بھلائی‘‘ یعنی جب انھیں شادابی اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی۔ ﴿ قَالُوْا لَنَا هٰؔذِهٖ﴾ تو کہتے ’’ہم اس کے مستحق تھے‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار نہ ہوتے۔ ﴿ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ ﴾ ’’اور اگر پہنچتی ان کو کوئی برائی‘‘ یعنی جب ان پر قحط اور خشک سالی وارد ہوتی ﴿ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰؔى وَمَنْ مَّعَهٗ ﴾ ’’تو نحوست بتلاتے موسیٰ کی اور اس کے ساتھیوں کی‘‘ یعنی وہ کہتے کہ اس تمام مصیبت کا سبب موسیٰ (u) کی آمد اور بنی اسرائیل کا ان کی اتباع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’ان کی بدشگونی تو (اللہ کی قضا و قدر سے) اس کے ہاں مقدر ہے‘‘ اور یہ معاملہ ایسے نہیں جیسے وہ کہتے ہیں بلکہ ان کا کفر اور ان کے گناہ ہی بدشگونی کا اصل سبب ہیں ﴿ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ بنابریں وہ یہ سب کچھ کہتے ہیں ۔
#
{132} {وقالوا}: مبيِّنين لموسى أنهم لا يزالون ولا يزولون عن باطلهم: {مهما تأتِنا به من آيةٍ لِتَسْحَرَنا بها فما نحن لك بمؤمنين}؛ أي: قد تقرَّر عندنا أنك ساحرٌ؛ فمهما جئت بآية؛ جزمنا أنها سحرٌ؛ فلا نؤمن لك ولا نصدِّق. وهذا غاية ما يكون من العناد أن يبلغ بالكافرين إلى أن تستوي عندهم الحالات سواء نزلت عليهم الآيات أم لم تنزل.
[132] ﴿ وَقَالُوْا﴾ ’’اور انھوں نے کہا۔‘‘ یعنی انھوں نے موسیٰu پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے باطل پر قائم رہیں گے۔ ﴿ مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا١ۙ فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ یعنی ہمارے ہاں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ تو جادوگر ہے تو جو بھی کوئی معجزہ لے کر آئے ہمیں قطعی یقین ہے کہ وہ جادو ہے اس لیے ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں نہ تیری تصدیق کرتے ہیں ۔ یہ عناد کی انتہا ہے جس نے کفار کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ ان پر کوئی معجزہ نازل ہو یا نہ ہو ان کے لیے حالات برابر ہیں ۔
#
{133} {فأرسلنا عليهم الطوفان}؛ أي: الماء الكثير الذي أغرق أشجارهم وزروعهم وأضرَّهم ضرراً كثيراً، {والجراد}: فأكل ثمارَهم وزروعَهم ونباتهم، {والقُمَّلَ}: قيل: إنه الدُّباء؛ أي: صغار الجراد، والظاهر أنه القمل المعروف، {والضفادع}: فملأت أوعيتهم وأقلقتهم وآذتهم أذيَّة شديدةً، {والدم}: إما أن يكونَ الرعاف، أو كما قال كثير من المفسرين: إنَّ ماءهم الذي يشربون انقلب دماً، فكانوا لا يشربون إلاَّ دماً ولا يطبخون [إلاّ بدم]. {آياتٍ مفصَّلاتٍ}؛ أي: أدلَّة وبيِّنات على أنَّهم كانوا كاذبين ظالمين، وعلى أن ما جاء به موسى حقٌّ وصدقٌ. {فاستكبروا}: لما رأوا الآيات، {وكانوا}: في سابق أمرهم {قوماً مجرمين}: فلذلك عاقبهم الله تعالى بأن أبقاهم على الغيِّ والضلال.
[133] ﴿ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ ﴾ ’’ہم نے ان پر طوفان بھیجا۔‘‘ یعنی ہم نے بہت بڑا سیلاب بھیجا جس میں ان کی کھیتیاں اور باغات ڈوب گئے اور انھیں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ﴿ وَالْجَرَادَ ﴾ ’’اور ٹڈیاں ‘‘ ہم نے ان پر ٹڈی دل بھیجا جو ان کے باغات، کھیتوں اور ہر قسم کی نباتات کو چٹ کر گیا۔ ﴿ وَالْ٘قُ٘مَّلَ ﴾ ’’اور جوئیں ۔‘‘ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد چھوٹی ٹڈی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد معروف جوں ہے۔ ﴿وَالضَّفَادِعَ﴾ ’’اور مینڈک‘‘ پس مینڈکوں نے ان کے برتنوں وغیرہ کو بھر دیا، ان کے لیے سخت تکلیف اور قلق کا باعث بنے۔ ﴿ الدَّمَ ﴾ ’’اور خون‘‘ یا تو اس سے مراد نکسیر ہے یا اس سے مراد یہ ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ ان کا پینے والا پانی خون میں بدل جاتا تھا، وہ خون کے سوا کچھ نہیں پی سکتے تھے اور کچھ نہیں پکا سکتے تھے۔ ﴿اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰ٘تٍ﴾ ’’نشانیاں جدا جدا‘‘ یہ اس بات کے واضح دلائل تھے کہ وہ جھوٹے اور ظالم ہیں اور موسیٰu حق اور صداقت پر ہیں ۔ ﴿فَاسْتَكْبَرُوْا۠﴾ ’’پس انھوں نے تکبر کیا۔‘‘ جب انھوں نے ان معجزات الٰہی کو دیکھا تو تکبر کرنے لگے ﴿ وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور وہ لوگ تھے ہی گناہ گار۔‘‘ یعنی پہلے ہی سے ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مجرموں کی قوم تھی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان کو گمراہی پر برقرار رکھا۔
#
{134} {ولما وقع عليهم الرِّجْزُ}؛ أي: العذاب؛ يحتمل أنَّ المراد به الطاعون كما قاله كثيرٌ من المفسِّرين، ويحتمل أن يُراد به ما تقدَّم من الآيات الطوفان والجراد والقمَّل والضفادع والدَّم؛ فإنها رجزٌ وعذابٌ، وإنهم كلَّما أصابهم واحد منها؛ {قالوا يا موسى ادعُ لنا ربك بما عَهدَ عندك}؛ أي: تشفَّعوا بموسى بما عَهدَ الله عنده من الوحي والشرع. {لئن كشفتَ عنَّا الرِّجْزَ لنؤمننَّ لك ولنرسلنَّ معك بني إسرائيل}: وهم في ذلك كذبةٌ لا قصدَ لهم إلا زوالُ ما حلَّ بهم من العذاب، وظنُّوا إذا رفع لا يصيبهم غيره.
[134] ﴿ وَلَمَّا وَقَ٘عَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ ﴾ ’’اور جب ان پر عذاب واقع ہوا‘‘ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد طاعون ہو، جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے اور اس سے مراد وہ عذاب بھی ہو سکتا ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں آچکا ہے یعنی طوفان، ٹڈی دل، جوئیں ، مینڈک اور خون۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب تھیں … یعنی جب ان پر ان میں سے کوئی عذاب نازل ہوتا۔ ﴿ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّ٘كَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ﴾ ’’تو کہتے اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، اس عہد کی وجہ سے جو اللہ نے تجھ سے کیا ہوا ہے‘‘ یعنی وہ موسیٰu کو سفارشی بناتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وحی اور شریعت کا عہد کر رکھا ہے اور کہتے: ﴿لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَ٘نَّ لَكَ وَلَـنُرْسِلَ٘نَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﴾ ’’اگر دور کر دیا تو نے ہم سے یہ عذاب تو بے شک ہم ایمان لے آئیں گے تجھ پر اور جانے دیں گے تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو۔‘‘وہ اس بارے میں سخت جھوٹے تھے اور اس بات سے ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ ان سے وہ عذاب دور ہو جائے جو ان پر نازل ہو چکا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جب عذاب ایک بار دور ہوگیا، دوبارہ کوئی عذاب واقع نہیں ہوگا۔
#
{135} {فلما كشَفْنا عنهم الرِّجْزَ إلى أجل هم بالغوهُ}؛ أي: إلى مدة قدر الله بقاءهم إليها، وليس كشفاً مؤبَّداً، وإنما هو موقت، {إذا هم ينكُثون}: العهد الذي عاهدوا عليه موسى ووعدوه بالإيمان به وإرسال بني إسرائيل؛ فلا آمنوا به ولا أرسلوا معه بني إسرائيل، بل استمرُّوا على كفرهم يعمهون وعلى تعذيب بني إسرائيل دائبين.
[135] ﴿ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ ﴾ ’’پھر جب ہم ایک مدت کے لیے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے۔‘‘ یعنی جب ایک مدت تک ان سے عذاب دور کر دیا جاتا جس مدت تک اللہ تعالیٰ نے ان کی بقا مقدر کی تھی۔ یہ عذاب ہمیشہ کے لیے ان سے دور نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک مقرر وقت تک کے لیے اس عذاب کو ہٹایا جاتا تھا۔ ﴿ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ ﴾ ’’تو اسی وقت عہد توڑ ڈالتے‘‘ وہ موسیٰu پر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزاد کر دینے کے عہد کو، جو انھوں نے جناب موسیٰ سے کیا تھا توڑ دیتے۔ وہ موسیٰu پر ایمان لائے نہ انھوں نے بنی اسرائیل کو آزاد کیا بلکہ وہ اپنے کفر پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے اور بنی اسرائیل کو تعذیب دینا انھوں نے اپنی عادت بنا لیا تھا۔
#
{136} {فانتقمنا منهم}؛ أي: حين جاء الوقت الموقَّت لهلاكهم؛ أمر الله موسى أن يسري ببني إسرائيل ليلاً، وأخبره أن فرعون سيتبعُهم هو وجنوده. {فأرسلَ فرعونُ في المدائن حاشرين} يجمعونَ الناس لِيَتْبَعوا بني إسرائيل، وقالوا لهم: {إنَّ هؤلاء لَشِرْذمةٌ قليلون. وإنَّهم لنا لغائظونَ. وإنَّا لجميعٌ حاذرون. فأخْرَجْناهم من جناتٍ وعيون. وكنوزٍ ومقام كريم. كذلك وأورَثْناها بني إسرائيل. فأتْبعوهم مشرقينَ. فلما تراءى الجمعانِ قال أصحابُ موسى إنا لَمُدْرَكونَ. قال كلاَّ إن معي ربي سيهدين. فأوحَيْنا إلى موسى أنِ اضرِبْ بعصاك البحرَ فانفلق فكان كلُّ فرقٍ كالطودِ العظيم. وأزلفنا ثَمَّ الآخرين. وأنجينا موسى ومن معه أجمعين. ثم أغرقنا الآخرين}. وقال هنا: {فأغرَقْناهم في اليمِّ بأنَّهم كذَّبوا بآياتنا وكانوا عنها غافلين}؛ أي: بسبب تكذيبهم بآيات الله، وإعراضهم عمَّا دلَّت عليه من الحقِّ.
[136] ﴿ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ﴾ ’’پھر بدلہ لیا ہم نے ان سے‘‘ یعنی جب ان کی ہلاکت کے لیے مقرر کیا ہوا وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کو حکم دیا کہ وہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر وہاں سے نکل جائیں اور ان کو آگاہ فرما دیا کہ فرعون اپنی فوجوں کے ساتھ ضرور اس کا پیچھا کرے گا۔ ﴿ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَ﴾ (الشعراء: 26؍53) ’’پس فرعون نے تمام شہروں میں اپنے نقیب روانہ کر دیے۔‘‘ تاکہ وہ لوگوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کریں اور کہلا بھیجا۔ ﴿اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَۙ۰۰وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىِٕظُوْنَۙ۰۰وَاِنَّا لَ٘جَمِیْعٌ حٰؔذِرُوْنَؕ۰۰فَاَخْرَجْنٰهُمْ۠ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍۙ۰۰وَّكُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِیْمٍۙ۰۰كَذٰلِكَ١ؕ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ۰۰فَاَتْبَعُوْهُمْ۠ مُّشْرِقِیْنَ۰۰فَلَمَّا تَرَآءَؔ الْ٘جَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰؔبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَؔكُوْنَۚ۰۰قَالَ كَلَّا١ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ۰۰فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ١ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُ٘لُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ۰۰وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَۚ۰۰وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰؔى وَمَنْ مَّعَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۚ۰۰ثُمَّ اَغْ٘رَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ۰۰ ﴾ (الشعراء: 26؍54۔66) ’’یہ لوگ ایک نہایت قلیل سی جماعت ہے اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں اور ہم سب تیار اور چوکنے ہیں ۔ پس ہم نے ان کو باغات اور چشموں سے نکال باہر کیا اور اس طرح ان کو خزانوں اور اچھے مکانوں سے بے دخل کیا اور ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا۔ پس سورج نکلتے ہی انھوں نے ان کا تعاقب کیا اور جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے اصحاب نے کہا ہم تو پکڑ لیے گئے۔ موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں ، میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔ پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو۔ تو سمندر پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا یوں لگا جیسے بہت بڑا پہاڑ ہو اور ہم وہاں دوسروں کو قریب لے آئے۔ اور موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو ہم نے نجات دی پھر دوسروں کو غرق کر دیا‘‘۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاَغْ٘رَقْنٰهُمْ۠ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’پس ہم نے ان کو دریا میں ڈبودیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے بے پروائی کرتے تھے۔‘‘ یعنی ان کے آیات الٰہی کو جھٹلانے اور حق سے روگردانی کرنے کے سبب سے، جس پر یہ آیات دلالت کرتی ہیں ، ہم نے ان کو غرق کر دیا۔
#
{137} {وأورثنا القوم الذين كانوا يُسْتَضْعَفونَ}: في الأرض؛ أي: بني إسرائيل الذين كانوا خدمة لآل فرعون يسومونهم سوء العذاب، أورثهم الله {مشارقَ الأرض ومغاربها}: والمراد بالأرض ها هنا أرض مصر التي كانوا فيها مستضعفين أذلين؛ أي: ملَّكهم الله جميعها ومكَّنهم فيها، {التي باركنا فيها وتمَّتْ كلمةُ ربك الحسنى على بني إسرائيل بما صبروا}: حين قال لهم موسى: {استعينوا باللَّهِ واصبِروا إنَّ الأرضَ للَّه يورِثها من يشاءُ من عباده والعاقبةُ للمتَّقين}، {ودمَّرْنا ما كان يصنعُ فرعونُ وقومُهُ}: من الأبنية الهائلة والمساكن المزخرفة، {وما كانوا يعرِشون}: فتلك بيوتهم [خاوية] بما ظلموا إن في ذلك لآية لقوم يعلمون.
[137] ﴿ وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ۠ ﴾ ’’اور وارث کر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے‘‘ یعنی بنی اسرائیل جو زمین میں کمزور لوگ تھے جو آل فرعون کی خدمت پر مامور تھے اور آل فرعون ان کو بدترین عذاب دیا کرتے تھے۔ ﴿ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا ﴾ ’’اس زمین کے مشرق و مغرب کا‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا۔ یہاں (ارض) سے مراد سرزمین مصر ہے،(بنو اسرائیل کا مصر سے نکلنے کے بعد تاریخی طورپر دوبارہ مصر جانا ثابت نہیں۔ اس لیے یہاں زمین سے مراد، جس کا وارث اور حکمران بنو اسرائیل کو بنایا گیا، شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اس علاقے پر عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ حضرت موسیٰ اور ہارونi کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نونu نے عمالقہ کو شکست دی اور بنو اسرائیل کے لیے یہاں آنے کا راستہ ہموار کیا۔ قرآن کے الفاظ ’’ہم نے اس زمین میں برکت رکھی۔‘‘ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے دوسرے مقام (بني إسرائیل:17؍1) پر ارض فلسطین ہی کو بابرکت کہا ہے۔ (ص۔ی) جہاں بنی اسرائیل کو مطیع اور غلام بنا کر رکھا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سرزمین کا مالک بنا دیا اور ان کو اس کی حکمرانی عطا کر دی۔ ﴿ الَّتِیْ بٰرَؔكْنَا فِیْهَا١ؕ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ بِمَا صَبَرُوْا ﴾ ’’جس میں برکت رکھی ہے ہم نے اور پورا ہو گیا نیکی کا وعدہ تیرے رب کا بنی اسرائیل پر بسبب ان کے صبر کرنے کے‘‘ اور یہ اس وقت ہوا جب موسیٰu نے ان سے کہا ﴿ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ یُوْرِثُ٘هَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَالْعَاقِبَةُ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (الاعراف: 7؍128) ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے۔ اچھا انجام تو پرہیزگاروں کے لیے ہے‘‘۔ ﴿وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ ﴾ ’’اور تباہ کر دیا ہم نے جو کچھ بنایا تھا فرعون اور اس کی قوم نے‘‘ یعنی ہم نے ان کی حیران کن عالی شان عمارتیں اور سجے سجائے گھر تباہ کر دیے ﴿ وَمَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ ﴾ ’’اور (وہ انگور کے باغات تباہ کر دیے) جو وہ چھتریوں پر چڑھاتے تھے۔‘‘یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلم کے باعث خالی پڑے ہیں ۔ بے شک اس میں علم رکھنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے۔
#
{138} {وجاوزنا ببني إسرائيل البحر}: بعدما أنجاهم الله من عدوِّهم فرعون وقومه وأهلكهم الله، وبنو إسرائيل ينظرون، {فأتَوْا}؛ أي: مرُّوا {على قوم يعكُفون على أصنامٍ لهم}؛ أي: يقيمون عندها ويتبرَّكون بها ويعبُدونها، فقالوا من جهلهم وسَفَهِهم لنبيِّهم موسى بعدما أراهم الله من الآيات ما أراهم: {يا موسى اجعلْ لنا إلهاً كما لهم آلهةٌ}؛ أي: اشرع لنا أن نتَّخذ أصناماً آلهة كما اتَّخذها هؤلاء، فقال لهم موسى: {إنَّكم قومٌ تجهلونَ}: وأيُّ جهل أعظم من جَهِل ربَّه وخالقَه، وأراد أن يسوِّيَ به غيره ممَّن لا يملِكُ نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً؟!
[138] ﴿ وَجٰؔوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ ﴾ ’’اور پار اتار دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے‘‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون اور اس کی قوم سے نجات دے کر سمندر سے پار کیا اور فرعون اور اس کی قوم کو بنی اسرائیل کے سامنے ہلاک کر ڈالا۔ ﴿ فَاَ تَوْا ﴾ ’’پس وہ پہنچے۔‘‘ یعنی ان کا گزر ہوا ﴿ عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْ﴾ ’’ایک قوم پر جو اپنے بتوں کے پوجنے میں لگی ہوئی تھی۔‘‘ یعنی وہ ان بتوں کے پاس ٹھہرتے تھے، ان سے برکت حاصل کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ﴿ قَالُوْا ﴾ بنی اسرائیل نے اپنی جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزات دکھائے تھے، اپنے نبی موسیٰu سے کہا ﴿ یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ﴾ ’’اے موسیٰ! جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ، ہمارے لیے بھی ایک معبود بنادو۔‘‘ یعنی تو ہمارے لیے بھی مشروع کر دے کہ ہم بھی بتوں کو معبود بنائیں جیسے ان لوگوں نے بتوں کو معبود بنایا ہوا ہے۔ ﴿ قَالَ ﴾ موسیٰu نے ان سے کہا ﴿ اِنَّـكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ ﴾ ’’تم لوگ تو جہالت کا ارتکاب کرتے ہو‘‘ اس شخص کی جہالت سے بڑھ کر کون سی جہالت ہو سکتی ہے جو اپنے رب اور خالق سے جاہل ہے اور چاہتا ہے کہ وہ غیر اللہ کو اس کا ہمسر بنائے، جو کسی نفع نقصان کا مالک نہیں اور نہ زندگی اور موت اور دوبارہ اٹھایا جانا اس کے اختیار میں ہے؟
#
{139} ولهذا قال لهم موسى: {إنَّ هؤلاء مُتَبَّرٌ ما هم فيه وباطلٌ ما كانوا يعملونَ}: لأن دعاءهم إياها باطلٌ وهي باطلة بنفسها؛ فالعمل باطلٌ وغايته باطلةٌ.
[139] بنابریں موسیٰu نے فرمایا: ﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’یہ لوگ، تباہ ہونے والی ہے وہ چیز جس میں وہ لگے ہوئے ہیں اور غلط ہے جو وہ کر رہے ہیں ‘‘ کیونکہ ان کا ان معبودوں کو پکارنا باطل، یہ معبود خود باطل، وہ عمل جو وہ کرتے ہیں باطل اور اس کی غرض و غایت باطل ہے۔
#
{140} {قال أغيرَ الله أبغيكم إلهاً}؛ أي: أطلب لكم إلهاً غير الله المألوه الكامل في ذاته وصفاته وأفعاله. {وهو فضَّلكم على العالمين}: فيقتضي أن تقابلوا فضله وتفضيله بالشكرِ، وذلك بإفراد الله وحدَه بالعبادة والكفرِ بما يُدعى من دونه.
[140] فرمایا ﴿ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْؔكُمْ اِلٰهًا ﴾ ’’کیا میں اللہ کے سوا تمھارے لیے کوئی اور معبود تلاش کروں ۔‘‘ یعنی کیا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو اپنی ذات، صفات اور افعال میں کامل معبود ہے، تمھارے لیے کوئی اور معبود تلاش کروں ﴿ وَّهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’حالانکہ اس نے تمھیں تمام دنیا پر فضیلت بخشی ہے‘‘ اور اس فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنو.... اور شکر گزاری یہ ہے کہ تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو عبادت کا مستحق جانو اور ہر اس ہستی کا انکار کرو جسے اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔
#
{141} ثم ذكَّرهم ما امتنَّ الله به عليهم فقال: {وإذ أنجيناكم من آل فرعونَ}؛ أي: من فرعون وآله، {يسومونكم سوءَ العذابِ}؛ أي: يوجِّهون إليكم من العذاب أسوأه، وهو أنهم كانوا يذبحون {أبناءكم ويَسْتَحيون نساءَكم وفي ذلِكم}؛ أي: النجاة من عذابهم، {بلاءٌ من ربِّكم عظيمٌ}؛ أي: نعمةٌ جليلةٌ ومنحةٌ جزيلةٌ، أو وفي ذلك العذاب الصادر منهم لكم بلاءٌ من ربِّكم عليكم عظيم.
[141] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِذْ اَنْجَیْنٰؔكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾ ’’اور جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی۔‘‘ یعنی جب ہم نے تمھیں فرعون اور آل فرعون سے نجات دی ﴿ یَسُوْمُوْنَكُمْ۠ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ﴾ ’’دیتے تھے وہ تم کو برا عذاب‘‘ انھوں نے تم پر بدترین عذاب مسلط کر رکھا تھا۔ ﴿یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَفِیْ ذٰلِكُمْ ﴾ ’’کہ مار ڈالتے تھے تمھارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تھے تمھاری عورتوں کو اور اس میں ‘‘ یعنی ان کے عذاب سے نجات میں ۔ ﴿ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے جلیل ترین نعمت اور بے پایاں احسان تھا۔‘‘ یا اس کا معنی یہ ہیں کہ آل فرعون کی طرف سے تم پر جو عذاب مسلط تھا اس میں ، ’’تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔‘‘
#
{142} فلما ذكَّرهم موسى ووعظهم؛ انتَهَوْا عن ذلك، ولما أتمَّ الله نعمته عليهم بالنجاة من عدوهم وتمكينهم في الأرض؛ أرادَ تبارك وتعالى أن يُتِمَّ نعمته عليهم بإنزال الكتاب الذي فيه الأحكام الشرعيَّة والعقائد المرضيَّة، فواعد موسى ثلاثين ليلة، وأتمَّها بعشر، فصارت أربعين ليلة؛ ليستعدَّ موسى ويتهيَّأ لوعد الله ويكون لنزولها موقع كبير لديهم وتشوق إلى إنزالها، ولما ذهب موسى إلى ميقات ربِّه، قال لهارون موصياً له على بني إسرائيل من حرصه عليهم وشفقته: {اخْلُفْني في قَوْمي}؛ أي: كنْ خليفتي فيهم، واعمل فيهم بما كنت أعمل، {وأصلِحْ}؛ أي: اتَّبع طريق الصلاح، {ولا تتَّبِعْ سبيلَ المفسدين}: وهم الذين يعملون بالمعاصي.
[142] پس جب حضرت موسیٰu نے ان کو وعظ و نصیحت کی تو وہ اس سے باز آگئے۔جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلا کر اور زمین میں اقتدار عطا کر کے ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دی تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ شرعی احکام اور صحیح عقائد پر مشتمل کتاب نازل کر کے ان پر معنوی نعمت کی بھی تکمیل کر دے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰu سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس راتیں اور شامل کر کے چالیس راتوں کی معیاد پوری کر دی تاکہ موسیٰu اللہ تعالیٰ کے وعدے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیں ۔ تاکہ اس کے نزول کا موقع ان کے ہاں ایک عظیم موقع ہو اور اس کے نزول کا انھیں اشتیاق ہو۔ جب موسیٰu اپنے رب کے مقرر کردہ وعدے پر جانے لگے تو انھوں نے ہارونu سے بنی اسرائیل کے بارے میں ، جن پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے، وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ ﴾ ’’میرے بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔‘‘ یعنی تم ان کے اندر میرے خلیفہ ہو، ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو میں کیا کرتا تھا ﴿ وَاَصْلِحْ ﴾ ’’اصلاح کرتے رہنا۔‘‘ یعنی اصلاح کے راستے پر گامزن رہنا۔ ﴿ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ ’’اور مفسدوں کی راہ مت چلنا‘‘ یہاں مفسدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
#
{143} {ولمَّا جاء موسى لميقاتنا}: الذي وقَّتْناه له لإنزال الكتاب، {وكلَّمَه ربُّه}: بما كلَّمه من وحيه وأمره ونهيه؛ تشوَّق إلى رؤية الله، ونَزَعَتْ نفسُه لذلك حبًّا لربِّه ومودَّة لرؤيته، فـ {قال ربِّ أرني أنظرْ إليك}، فقال الله: {لن تَراني}؛ أي: لن تقدِرَ الآن على رؤيتي؛ فإنَّ الله تبارك وتعالى أنشأ الخلق في هذه الدار على نشأة لا يقدرون بها ولا يثبتون لرؤية الله، وليس في هذا دليلٌ على أنَّهم لا يرونه في الجنة؛ فإنه قد دلَّت النصوص القرآنيَّة والأحاديث النبويَّة على أن أهل الجنة يرون ربَّهم تبارك وتعالى ويتمتَّعون بالنظر إلى وجهه الكريم. وأنه يُنْشِئُهم نشأةً كاملةً يقدرون معها على رؤية الله تعالى، ولهذا رتَّب الله الرؤية في هذه الآية على ثبوت الجبل، فقال مقنعاً لموسى في عدم إجابتِهِ للرؤية: {ولكِنِ انظرْ إلى الجبل فإنِ استقرَّ مكانَه}: إذا تجلَّى اللهُ له، {فسوف تراني فلمَّا تجلَّى ربُّه للجبل}: الأصمِّ الغليظ، {جعله دكًّا}؛ أي: انهال مثل الرمل انزعاجاً من رؤية الله وعدم ثبوتٍ لها، {وخرَّ موسى}: حين رأى ما رأى، صَعِقاً فتبيَّن له حينئذٍ أنه إذا لم يثبت الجبلُ لرؤية الله؛ فموسى أولى أن لا يثبتَ لذلك، واستغفر ربَّه لما صدر منه من السؤال الذي لم يوافقْ موضعاً، و {قالَ سبحانك}؛ أي: تنزيهاً لك وتعظيماً عما لا يليق بجلالك، {تبتُ إليك}: من جميع الذنوب وسوء الأدب معك، {وأنا أول المؤمنين}؛ أي: جدَّد عليه الصلاة والسلام إيمانه بما كمَّل اللهُ له مما كان يجهله قبل ذلك.
[143] ﴿ وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰؔى لِـمِیْقَاتِنَا ﴾ ’’اور جب پہنچے موسیٰ اپنے وعدے پر‘‘ یعنی وہ وعدہ جو ہم نے کتاب نازل کرنے کے لیے کر رکھا تھا ﴿ وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ﴾ ’’اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے کلام کے ذریعے سے وحی نازل کی اور ان کو اوامر و نواہی سے نوازا تو اپنے رب کی محبت اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی چاہت پیدا ہوئی۔ ﴿قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْ٘ظُ٘رْ اِلَیْكَ﴾ ’’عرض کیا، اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کروں ‘‘ ﴿ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ ﴾ ’’فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔‘‘ یعنی اس وقت تو میرے دیدار کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخلوق کو اس کائنات میں اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کر سکتے اور نہ وہ اس کے دیدار کی طاقت رکھتے ہیں اور یہ چیز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ جنت میں بھی اس کا دیدار نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ قرآن اور احادیث نبوی کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ اہل جنت اپنے رب کا دیدار کریں گے اور اس کے چہرۂ انور کے جلوے سے متمتع ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو جنت میں ایسی کامل تخلیق سے نوازے گا جس کی بنا پر وہ اس کا دیدار کر سکیں گے۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنے دیدار کے بارے میں موسیٰu کی دعا کی عدم قبولیت پر تسلی کے لیے اپنی تجلی کے سامنے پہاڑ کے قائم رہ سکنے کی شرط عائد کی، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلٰكِنِ انْ٘ظُ٘رْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ ﴾ ’’لیکن پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا‘‘ یعنی جب پہاڑ پر اللہ تعالیٰ اپنی تجلی فرمائے اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ جائے۔ ﴿ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ﴾ ’’تو تو مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ ﴿ فَلَمَّا تَ٘جَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ ﴾ ’’جب موسیٰ کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی‘‘ جو کہ نہایت سخت اور ٹھوس تھا۔ ﴿ جَعَلَهٗ دَكًّا ﴾ ’’تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلی کے سامنے خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے پہاڑ ریت کے ذروں کی مانند ہوگیا ﴿ وَّخَرَّ مُوْسٰؔى صَعِقًا﴾ ’’اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔‘‘ یعنی پہاڑ کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھ کر بے ہوش ہوگئے اور گر پڑے۔ ﴿ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ ﴾ ’’جب وہ ہوش میں آئے۔‘‘ یعنی جب موسیٰu کو ہوش آیا تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جب پہاڑ اللہ تعالیٰ کی تجلی کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا تو موسیٰ کا اس کو برداشت کرنا بدرجہ اولیٰ ناممکن تھا۔ موسیٰu نے اس سوال پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی جو بے موقع اور بے محل ان سے صادر ہوا تھا۔ اس لیے انھوں نے عرض کیا ﴿ سُبْحٰؔنَكَ ﴾ ’’تیری ذات پاک ہے۔‘‘ یعنی تو بہت بڑا اور ہر اس چیز سے پاک اور منزہ ہے جو تیری شان کے لائق نہیں ۔ ﴿ تُبْتُ اِلَیْكَ ﴾ ’’اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ یعنی میں تمام گناہوں اور اس سوء ادبی سے جو میں تیری جناب میں کر بیٹھا ہوں تیرے پاس توبہ کرتا ہوں ۔ ﴿ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’اور میں سب سے پہلے یقین لایا‘‘ یعنی موسیٰu نے اس چیز کے ساتھ اپنے ایمان کی تجدید کی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی تکمیل فرمائی اور اس چیز کو ترک کر دیا جس کے بارے میں وہ اس سے قبل لاعلم تھے۔
#
{144} فلما منعه الله من رؤيته بعدما كان متشوقاً إليها؛ أعطاه خيراً كثيراً، فقال: {يا موسى إنِّي اصطفيتُك على الناس}؛ أي: اخترتك واجتبيتك وفضَّلتك وخصصتك بفضائل عظيمة ومناقب جليلة، {برسالاتي}: التي لا أجعلها ولا أخصُّ بها إلا أفضل الخلق، {وبكلامي}: إيَّاك من غير واسطة، وهذه فضيلة اختُصَّ بها موسى الكليم، وعُرِف بها من بين إخوانه من المرسلين، {فخُذْ ما آتيتُك}: من النعم، وخذ ما آتيتُك من الأمر والنهي بانشراح صدرٍ، وتلقَّه بالقَبول والانقياد، {وكن من الشاكرين}: لله على ما خصَّك وفضَّلك.
[144] جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دیدار سے محروم کر دیا حالانکہ موسیٰu دیدار الٰہی کے بہت مشتاق تھے.... تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خیر کثیر سے نواز دیا۔﴿ قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ ﴾ ’’اے موسیٰ! میں نے تجھ کو لوگوں میں سے ممتاز کیا ہے۔‘‘ یعنی میں نے تجھے چن لیا، تجھے فضیلت عطا کی اور تجھے خاص طور پر عظیم فضائل اور جلیل القدر مناقب سے نوازا ﴿ بِرِسٰؔلٰ٘تِیْ ﴾ ’’اپنی رسالت کے لیے‘‘ جو ایسا منصب ہے جو بطور خاص صرف مخلوق میں سے بہترین شخص کو عطا کرتا ہوں ۔ ﴿ وَبِكَلَامِیْ ﴾ ’’اور اپنے کلام کے لیے‘‘ میں نے بلاواسطہ تجھ سے کلام کیا۔ یہ فضیلت بطور خاص موسیٰu کو عطا ہوئی اور وہ تمام انبیاء و مرسلین میں اسی صفت سے معروف ہیں ۔ ﴿فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ ﴾ ’’تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو۔‘‘ یعنی میں نے تمھیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان سے استفادہ کرو اور میں نے جو احکام امر و نہی نازل کیے ہیں انھیں شرح صدر اور اطاعت مندی کے ساتھ قبول کرو ﴿ وَكُ٘نْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’اور (میرا) شکر بجالاؤ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تجھے فضیلت عطا کی ہے اور تجھے اپنا خاص بندہ بنایا، اس پر اس کا شکر ادا کرو۔
#
{145} {وكتبنا له في الألواح من كلِّ شيء}: يحتاج إليه العباد {موعظة}: ترغِّب النفوس في أفعال الخير وترهِّبهم من أفعال الشر، {وتفصيلاً لكلِّ شيء}: من الأحكام الشرعيَّة والعقائد والأخلاق والآداب، {فخذْها بقوَّةٍ}؛ أي: بجدٍّ واجتهاد على إقامتها، {وأمُرْ قومَك يأخذوا بأحسنها}: وهي الأوامر الواجبة والمستحبَّة؛ فإنها أحسنها. وفي هذا دليلٌ على أن أوامر الله في كل شريعة كاملة عادلة حسنة. {سأريكم دارَ الفاسقينَ}: بعدما أهلكهم الله وأبقى ديارهم عبرةً بعدهم يعتبر بها المؤمنون الموفَّقون المتواضعون.
[145] ﴿ وَؔكَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور ہم نے (تورات کی) تختیوں میں ان کے لیے ہر چیز لکھ دی۔‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿ مَّوْعِظَةً ﴾ ’’اور نصیحت‘‘ یعنی لوگوں کو بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتی اور برائی کے کاموں سے ڈراتی ہے۔ ﴿ وَّتَفْصِیْلًا لِّ٘كُ٘لِّ شَیْءٍ﴾ ’’اور ہر چیز کی تفصیل‘‘ یعنی احکام شریعت، عقائد، اخلاق اور آداب وغیرہ کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ﴿ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ﴾ ’’پس پکڑ لو ان کو زور سے‘‘ یعنی ان احکام کو قائم کرنے کی بھرپور جدوجہد کیجیے۔ ﴿ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ یَ٘اْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا﴾ ’’اور حکم کرو اپنی قوم کو کہ پکڑے رہیں اس کی بہتر باتیں ‘‘ اس سے مراد واجب اور مستحب احکامات ہیں کیونکہ یہی بہترین احکام ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر شریعت میں اللہ تعالیٰ کے احکام نہایت کامل، عادل اور اچھائی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ ﴿ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْ٘فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’عنقریب میں دکھلاؤں گا تم کو نافرمانوں کا گھر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے گھروں کو باقی رکھتا ہے، ان سے توفیق یافتہ اور متواضع مومن نصیحت پکڑتے ہیں ۔
#
{146} وأما غيرهم؛ فقال عنهم: {سأصرِفُ عن آياتي}؛ أي: عن الاعتبار في الآيات الأفقية والنفسيَّة والفهم لآيات الكتاب، {الذين يتكبَّرون في الأرض بغير الحقِّ}؛ أي: يتكبَّرون على عباد الله وعلى الحقِّ وعلى من جاء به؛ فمن كان بهذه الصفة؛ حَرَمَهُ الله خيراً كثيراً، وخَذَلَه، ولم يَفْقَهْ من آيات الله ما ينتفع به، بل ربَّما انقلبت عليه الحقائقُ واستحسن القبيحَ، {وإن يَرَوْا كلَّ آيةٍ لا يؤمنوا بها}: لإعراضهم واعتراضهم ومحادَّتهم لله ورسوله، {وإن يَرَوْا سبيلَ الرُّشد}؛ أي: الهدى والاستقامة، وهو الصراط الموصل إلى الله وإلى دار كرامته، {لا يتَّخذوه [سبيلاً]}؛ أي: لا يسلكوه ولا يرغبوا فيه، {وإن يَرَوْا سبيلَ الغَيِّ}؛ أي: الغواية الموصل لصاحبه إلى دار الشقاء، {يتَّخذوه سبيلاً}. والسبب في انحرافهم هذا الانحراف، {ذلك بأنَّهم كذَّبوا بآياتنا وكانوا عنها غافلين}: فردُّهم لآيات الله وغفلتُهم عمَّا يُراد بها واحتقارهم لها هو الذي أوجب لهم من سلوك طريق الغي وترك طريق الرُّشْدِ ما أوجب.
[146] رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ ﴾ ’’میں اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا‘‘ یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیوں سے عبرت پکڑنے اور کتاب اللہ کی آیات کے فہم سے، میں ان کو روک دوں گا۔ ﴿ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ ’’ان کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق‘‘ یعنی جو بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں ، حق کے ساتھ تکبر کا رویہ رکھتے ہیں اور ہر اس شخص کو تکبر سے ملتے ہیں جو ان کے پاس آتا ہے اور جس کا یہ رویہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بہت سی بھلائی سے محروم کر دیتا ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھ سکتا ہے نہ فائدہ اٹھا سکتا ہے..... بلکہ بسااوقات اس کے سامنے حقائق بدل جاتے ہیں اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا كُ٘لَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا﴾ ’’اگر وہ دیکھ لیں ساری نشانیاں ، ایمان نہ لائیں ان پر‘‘ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرتے ہیں اور ان پر اعتراضات کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول(e) کی مخالفت کرتے ہیں ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ﴾ ’’اور اگر دیکھیں وہ ہدایت کا راستہ‘‘ یعنی ہدایت اور استقامت کی راہ.... اور یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک اور عزت و اکرام کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ ﴿ لَا یَتَّؔخِذُوْهُ سَبِیْلًا ﴾ ’’تو نہ ٹھہرائیں اس کو راہ‘‘ یعنی وہ اس راستے پر گامزن ہوتے ہیں اور نہ اس پر گامزن ہونے کی رغبت رکھتے ہیں ۔ ﴿وَاِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْ٘غَیِّ ﴾ ’’اور اگر دیکھیں وہ گمراہی کا راستہ‘‘ یعنی جو اپنے چلنے والے کو بدبختی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ ﴿یَتَّؔخِذُوْهُ سَبِیْلًا﴾ ’’تو اس کو ٹھہرا لیں راہ‘‘ یعنی اسی راستے پر رواں دواں رہتے ہیں ۔ ان کے اس انحراف کا سبب یہ ہے ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَؔكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’یہ اس لیے کہ انھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان سے بے خبر رہے‘‘ پس ان کا آیات الٰہی کو ٹھکرا دینا اور ان کے بارے میں غفلت اور حقارت کا رویہ اختیار کرنا یہی ان کو گمراہی کے راستوں پر لے جانے اور رشد و ہدایت کی راہ سے ہٹانے کے موجب بنے ہیں ۔
#
{147} {والذين كذبوا بآياتنا}: العظيمة الدالَّة على صحَّة ما أرسلنا به رسلنا، {ولقاء الآخرة حَبِطَتْ أعمالُهم}: لأنَّها على غير أساس، وقد فقد شرطها، وهو الإيمان بآيات الله والتصديق بجزائه. {هل يُجْزَوْنَ}: في بطلان أعمالهم وحصول ضدِّ مقصودهم {إلَّا ما كانوا يعملونَ}: فإن أعمال مَنْ لا يؤمن باليومِ الآخر لا يرجو فيها ثواباً، وليس لها غايةٌ تنتهي إليه؛ فلذلك اضمحلَّت وبطلت.
[147] ﴿ وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ﴾ ’’اور وہ لوگ جنھوں نے ہماری (ان عظیم) آیات کو جھٹلایا‘‘ جو اس چیز کی صحت پر دلالت کرتی ہیں جس کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو مبعوث کیا ہے۔ ﴿ وَلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ﴾ ’’اور آخرت کی ملاقات کو، برباد ہو گئے اعمال ان کے‘‘ کیونکہ ان کی کوئی اساس نہ تھی اور ان کے صحیح ہونے کی شرط مفقود تھی۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھا جائے اور اس کی جزا و سزا کی تصدیق کی جائے ﴿ هَلْ یُجْزَوْنَ ﴾ ’’وہی بدلہ پائیں گے‘‘ ان کے اعمال کے اکارت جانے اور ان کے مقصود کے حصول کی بجائے اس کے متضاد امور کے حاصل ہونے میں ﴿ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’جو کچھ وہ عمل کرتے تھے‘‘ کیونکہ اس شخص کے اعمال، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، وہ ان اعمال پر کسی ثواب کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان اعمال کی غرض و غایت ہی ہوتی ہے، پس بنابریں یہ اعمال باطل ہوگئے۔
#
{148} {واتَّخذ قوم موسى مِن بعدِهِ من حُلِيِّهم عجلاً جسداً}: صاغه السامِرِيُّ وألقى عليه قبضةً من أثر الرسول فصار {له خُوارٌ} وصوتٌ، فعبدوه واتَّخذوه إلهاً، وقال: هذا إلهكم وإله موسى، فنسي موسى، وذهب يطلبه، وهذا من سفههم وقلة بصيرتهم؛ كيف اشتبه عليهم ربُّ الأرض والسماوات بعجل من أنقص المخلوقات؟! ولهذا قال مبيناً أنه ليس فيه من الصفات الذاتيَّة ولا الفعليَّة ما يوجِب أن يكون إلهاً: {ألم يَرَوْا أنَّه لا يكلِّمهم}؛ أي: وعدم الكلام نقصٌ عظيمٌ؛ فهم أكمل حالة من هذا الحيوان أو الجماد الذي لا يتكلَّم، {ولا يهديهم سبيلاً}؛ أي: لا يدلُّهم طريقاً دينيًّا ولا يحصِّل لهم مصلحةً دنيويَّةً؛ لأن من المتقرِّر في العقول والفطر أنَّ اتِّخاذَ إلهٍ لا يتكلم ولا ينفع ولا يضرُّ من أبطل الباطل وأسمج السفه، ولهذا قال: {اتَّخذوه وكانوا ظالمينَ}: حيث وضعوا العبادة في غير موضعها، وأشركوا بالله ما لم ينزِّل به سلطاناً. وفيها دليلٌ على أنَّ من أنكر كلام الله؛ فقد أنكر خصائص إلهيَّة الله تعالى؛ لأن الله ذكر أن عدم الكلام دليلٌ على عدم صلاحيَّة الذي لا يتكلَّم للإلهيَّة.
[148] ﴿ وَاتَّؔخَذَ قَوْمُ مُوْسٰؔى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا﴾ ’’اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا، ایک بدن۔‘‘بچھڑے کے اس بت کو سامری نے بنایا تھا۔ اس نے فرشتے کے نشان قدم سے مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے بت پر ڈال دی۔ ﴿ لَّهٗ خُوَارٌ ﴾ ’’اس کی آوازتھی۔‘‘ اس میں سے بچھڑے کی آواز آنے لگی۔ بنی اسرائیل نے اس کو معبود مان لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ سامری نے کہا ’’یہ تمھارا اور موسیٰ کا معبود ہے، موسیٰ اسے بھول گیا ہے اور اسے تلاش کرتا پھر رہا ہے‘‘… یہ ان کی سفاہت اور قلت بصیرت کی علامت ہے ان پر زمین اور آسمانوں کے پروردگار اور ایک بچھڑے کے درمیان کیسے اشتباہ واقع ہوگیا۔ بچھڑا تو کمزور ترین مخلوق ہے؟ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس بچھڑے کے اندر ایسی صفات ذاتی یا صفات فعلی موجود نہیں ہیں جو اس کے معبود ہونے کے استحقاق کو ثابت کرتی ہوں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ ﴾ ’’کیا انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا‘‘ یعنی کلام کرنے سے محرومی ایک بہت بڑا نقص ہے، وہ خود اس حیوان سے زیادہ کامل حالت کے مالک ہیں جو بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿ وَلَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا﴾ ’’اور نہیں بتلاتا ان کو راستہ‘‘ یعنی وہ کسی دینی طریقے کی طرف ان کی راہنمائی نہیں کر سکتا اور نہ انھیں کوئی دنیاوی فائدہ عطا کر سکتا ہے۔ انسانی عقل و فطرت میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ایسی ہستی کو خدا بنانا جو کلام نہیں کر سکتی جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتی، سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿اِتَّؔخَذُوْهُ وَؔكَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ﴾ ’’انھوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے‘‘ کیونکہ انھوں نے ایسی ہستی کی عبادت کی جو عبادت کی مستحق نہ تھی، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتا ہے تو وہ تمام خصائص الہیہ کا منکر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کلام نہ کرنا اس ہستی کے الہ ہونے کی عدم صلاحیت پر دلیل ہے جو کلام نہیں کر سکتی۔
#
{149} {ولمَّا}: رجع موسى إلى قومه، فوجدهم على هذه الحال، وأخبرهم بضلالهم؛ ندموا، و {سُقِطَ في أيديهم}؛ أي: من الهمِّ والندم على فعلهم، {ورأوا أنَّهم قد ضلُّوا}: فتنصَّلوا إلى الله وتضرَّعوا، {وقالوا لئن لم يرحَمْنا ربُّنا}: فيدُّلنا عليه، ويرزقنا عبادته، ويوفِّقُنا لصالح الأعمال، {ويغفِرْ لنا}: ما صدر منا من عبادة العجل؛ {لَنَكونَنَّ من الخاسرينَ}: الذين خسروا الدنيا والآخرة.
[149] ﴿ وَلَمَّا ﴾ ’’اور جب‘‘ یعنی جب موسیٰu اپنی قوم میں واپس آئے، ان کو اس حالت میں پایا اور ان کو ان کی گمراہی کے بارے میں آگاہ فرمایا تو انھیں بڑی ندامت ہوئی۔ ﴿ سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’پچھتائے‘‘ یعنی وہ اپنے فعل پر بہت غم زدہ اور بہت نادم ہوئے ﴿ وَرَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْا ﴾ ’’اور دیکھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں ‘‘ تو انھوں نے نہایت عاجزی کے ساتھ اس گناہ سے براء ت کا اظہار کیا۔ ﴿ قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا ﴾ ’’اور انھوں نے کہا، اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘ یعنی اگر وہ ہماری راہنمائی نہ کرے اور ہمیں اپنی عبادت اور نیک اعمال کی توفیق سے نہ نوازے۔ ﴿ وَیَغْفِرْ لَنَا ﴾ ’’اور ہم کو معاف نہیں کرے گا۔‘‘ یعنی بچھڑے کی عبادت کا گناہ جو ہم سے صادر ہوا ہے اسے بخش نہ دے۔ ﴿ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ ﴾ تو ہم یقینا ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جنھیں (دنیا و آخرت) میں خسارہ ملا۔
#
{150} {ولما رجع موسى إلى قومِهِ غضبان أسِفاً}؛ أي: ممتلئاً غضباً وغيظاً عليهم لتمام غيرته عليه [الصلاة و] السلام وكمال نصحه وشفقته، {قال بئسَما خَلَفْتُموني من بعدي}؛ أي: بئس الحالة التي خلفتموني بها من بعد ذهابي عنكم؛ فإنها حالةٌ تفضي إلى الهلاك الأبدي والشقاء السرمديِّ. {أعَجِلْتُم أمرَ ربِّكُم}: حيث وَعَدَكم بإنزال الكتاب فبادرتُم برأيكم الفاسد إلى هذه الخصلة القبيحة، {وألقى الألواحَ}؛ أي: رماها من الغضب، {وأخذ برأس أخيه}: هارونَ ولحيتِهِ، {يجرُّه إليه}: وقال له: {ما منعك إذ رأيتَهم ضلُّوا. أن لا تتَّبِعَني أفعصيتَ أمري}: لك بقولي: {اخلُفْني في قومي وأصْلِحْ ولا تتَّبِعْ سبيل المفسدين}؟! فقال: {يا ابنَ أمَّ لا تأخُذْ بلحيتي ولا برأسي إني خشيتُ أن تقولَ فرَّقْتَ بين بني إسرائيل ولم ترقُبْ قولي} و {قال} هنا: {ابنَ أمَّ}: هذا ترقيقٌ لأخيه بذكر الأمِّ وحدها، وإلاَّ فهو شقيقه لأمِّه وأبيه. {إنَّ القوم استضعفوني}؛ أي: احتقروني حين قلتُ لهم: يا قوم! إنما فُتِنْتُم به، وإنَّ ربَّكم الرحمن؛ فاتَّبِعوني وأطيعوا أمري، {وكادوا يَقْتُلونَني}؛ أي: فلا تظنَّ بي تقصيراً، {فلا تُشْمِتْ بيَ الأعداء}: بنهرِك لي ومسِّك إيَّايَ بسوءٍ فإنَّ الأعداء حريصون على أن يجدوا عليَّ عثرةً أو يطَّلعوا لي على زَلَّة، {ولا تجعلني مع القوم الظالمين}: فتعامِلُني معاملتهم.
[150] ﴿ وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا﴾ ’’اور جب موسیٰ (u) اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے۔‘‘ یعنی موسیٰu ان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز واپس لوٹے۔ کیونکہ ان کی غیرت اور (اپنی قوم کے بارے میں ) ان کی خیر خواہی اور شفقت کامل تھی۔ ﴿ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ۠ مِنْۢ بَعْدِیْ﴾ ’’کہنے لگے تم نے میرے بعد بہت ہی بداطواری کی۔‘‘ یعنی بہت ہی برے اطوار تھے جن کے ساتھ تم نے میرے جانے کے بعد میری جانشینی کی۔ یہ ایسے احوال اطوار تھے جو ابدی ہلاکت اور دائمی شقاوت کے موجب بنتے ہیں ۔ ﴿ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ﴾ ’’کیا تم نے اپنے رب کے حکم کے بارے میں جلدی کی‘‘ کیونکہ اس نے تمھارے ساتھ کتاب نازل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پس تم اپنی فاسد رائے کے ذریعے سے جلدی سے اس قبیح خصلت کی طرف آگے بڑھے۔ ﴿ وَاَلْ٘قَى الْاَلْوَاحَ ﴾ ’’اور (تورات کی) تختیاں ڈال دیں ۔‘‘ یعنی نہایت غصے سے ان کو پھینک دیا۔ ﴿ وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ ﴾ ’’اور اپنے بھائی کے سر (اور داڑھی) کو پکڑ کر۔‘‘ ﴿ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِ ﴾ ’’اپنی طرف کھینچا‘‘ اور ان سے کہا: ﴿ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْۤاۙ۰۰اَلَّا تَ٘تَّ٘بِعَنِ١ؕ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ﴾ (طٰہ: 20؍92۔93) ’’جب تم نے ان کو دیکھا کہ وہ بھٹک گئے ہیں تو تمھیں کس چیز نے میری پیروی کرنے سے روکا۔ کیا تم نے میری حکم عدولی کی؟‘‘ یعنی میرے حکم ﴿ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (الاعراف: 7؍142) کی نافرمانی کی۔ ہارونu نے عرض کیا ﴿یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَاْسِیْ١ۚ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ﴾ (طٰہ: 20؍94) ’’اے میرے ماں جائے بھائی! مجھے میری داڑھی اور سر کے بالوں سے نہ پکڑیے میں تو اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کو ملحوظ نہ رکھا۔‘‘ ﴿ قَالَ ابْنَ اُمَّ ﴾ ’’کہا اے ماں جائے‘‘ یہاں صرف ماں کا ذکر، بھائی کو نرم کرنے کے لیے کیا ہے ورنہ ہارونu ماں اور باپ دونوں کی طرف سے موسیٰu کے بھائی تھے۔ ﴿ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ ﴾ ’’لوگوں نے مجھ کو کمزور سمجھا‘‘ یعنی جب میں نے ان سے کہا ﴿ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ۠ وَاَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ﴾ (طٰہ: 20؍90) ’’اے میری قوم! اس سے تمھاری آزمائش کی گئی ہے، تمھارا پروردگار تو اللہ رحمن ہے۔ پس میری اتباع کرو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘ ﴿ وَؔكَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ۠﴾ ’’اور قریب تھے کہ مجھ کو مار ڈالیں ‘‘ یعنی مجھے قصور وار نہ سمجھیں ﴿ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَؔ ﴾ ’’پس نہ ہنساؤ مجھ پر دشمنوں کو‘‘ یعنی مجھے ڈانٹ ڈپٹ اور میرے ساتھ برا سلوک کر کے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم نہ کریں ۔ کیونکہ دشمن تو چاہتے ہیں کہ وہ میری کوئی غلطی پکڑیں یا انھیں میری کوئی لغزش ہاتھ آئے۔ ﴿ وَلَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملایے۔‘‘ یعنی مجھے ظالم لوگوں کے ساتھ شامل کر کے میرے ساتھ ان جیسا معاملہ نہ کریں ۔
#
{151} فندم موسى عليه السلام على ما استعجل من صنعِهِ بأخيه قبل أن يعلم براءتَهُ مما ظنَّه فيه من التقصير، و {قال ربِّ اغفِرْ لي ولأخي}: هارون، {وأدخِلْنا في رحمتِكَ}؛ أي: في وسطها، واجعل رحمتك تحيطُ بنا من كل جانب؛ فإنها حصنٌ حصينٌ من جميع الشرور وثَمَّ كلُّ خير وسرور. {وأنت أرحمُ الراحمين}؛ أي: أرحم بنا من كلِّ راحم، أرحم بنا من آبائنا وأمَّهاتنا وأولادنا وأنفسنا.
[151] جناب موسیٰu نے عجلت میں ، اپنے بھائی کی براء ت معلوم کرنے سے پہلے ہی اس کے ساتھ جو معاملہ کیا اس پر انھیں سخت ندامت ہوئی۔ ﴿ قَالَ رَبِّ اغْ٘فِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ ﴾ ’’موسیٰu نے عرض کی کہ اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے۔‘‘ ﴿ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ﴾ ’’اور تو ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر۔‘‘ تیری بے پایاں رحمت ہمیں ہر جانب سے گھیر لے۔ کیونکہ تیری رحمت تمام برائیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے اور ہر بھلائی اور مسرت کا سرچشمہ ہے۔ ﴿ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰؔحِمِیْنَ ﴾ ’’اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ یعنی تو ہمارے ماں ، باپ، اولاد، ہر رحم کرنے والے بلکہ خود ہم سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والا ہے۔
#
{152} قال الله تعالى مبيناً حال أهل العجل الذين عبدوه: {إنَّ الذين اتَّخذوا العجل}؛ أي: إلهاً، {سينالُهم غضبٌ من ربِّهم وذلَّةٌ في الحياة الدُّنيا}: كما أغضبوا ربَّهم واستهانوا بأمره. {وكذلك نجزي المفترين}: فكلُّ مفترٍ على الله كاذب على شرعه متقوِّل عليه ما لم يقلْ؛ فإنَّ له نصيباً من الغضب من الله والذُّلِّ في الحياة الدنيا.
[152] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّؔخَذُوا الْعِجْلَ ﴾ ’’وہ لوگ جنھوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا‘‘ ﴿ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’ان کو پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیا کی زندگی میں ‘‘ جیسا کہ انھوں نے اپنے رب کو ناراض کیا اور اس کے حکم کی تحقیر کی۔ ﴿وَؔكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ ﴾ ’’اور اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہم بہتان باندھنے والوں کو‘‘ پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرتا ہے، اس کی شریعت پر جھوٹ گھڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتا ہے جو اس نے نہیں کہیں تو اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سامنا کرنا ہوگا اور دنیا کی زندگی میں اسے ذلت اٹھانا پڑے گی۔
#
{153} وقد نالهم غضبُ الله حيث أمرهم أن يقتُلوا أنفسهم، وأنَّه لا يرضى الله عنهم إلاَّ بذلك، فقتل بعضُهم بعضاً، وانجلت المعركة على قتلى كثيرةٍ، ثم تاب الله عليهم بعد ذلك، ولهذا ذكر حكماً عامًّا يدخُلون فيه هم وغيرهم، فقال: {والذين عمِلوا السيئاتِ}: من شرك وكبائر وصغائر، {ثم تابوا من بعدها}: بأن ندموا على ما مضى وأقلعوا عنها وعزموا على أن لا يعودوا، {وآمنوا}: بالله وبما أوجبَ الله الإيمان به، ولا يتمُّ الإيمان إلا بأعمال القلوب وأعمال الجوارح المترتِّبة على الإيمان. {إنَّ ربَّك من بعدها}؛ أي: بعد هذه الحالة ـ حالة التوبة من السيئات والرجوع إلى الطاعات ـ {لغفورٌ}: يغفر السيئات ويمحوها، ولو كانت قُراب الأرض. {رحيمٌ}: بقبول التوبة والتوفيق لأفعال الخير وقبولها.
[153] چنانچہ انھیں اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ ان سے اس وقت تک خوش نہیں ہوگا جب تک کہ وہ یہ فعل سر انجام نہ دیں ۔ پس انھوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا اور مقتولین کی کثرت سے میدان بھر گیا، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عام حکم ذکر فرمایا جس میں یہ لوگ اور دیگر لوگ شامل ہیں ، فرمایا: ﴿ وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ﴾ ’’اور جنھوں نے برے اعمال کیے۔‘‘ یعنی جنھوں نے شرک، کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ﴿ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا ﴾ ’’پھر اس کے بعد توبہ کرلی۔‘‘ یعنی گزشتہ گناہوں پر ندامت کے ساتھ ساتھ ان کے ارتکاب سے رک گئے اور عزم کر لیا کہ وہ ان گناہوں کا اعادہ نہیں کریں گے۔ ﴿ وَاٰمَنُوْۤا ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ اور ان تمام امور پر ایمان لے آئے جن پر ایمان لانا اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور ایمان، اعمال قلوب اور اعمال جوارح، جو ایمان کا نتیجہ ہیں ، کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ﴿ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا ﴾ ’’بے شک تمھارا رب اس کے بعد۔‘‘ یعنی اس حالت کے بعد، یعنی گناہوں سے توبہ اور نیکیوں کی طرف رجوع کے بعد ﴿لَغَفُوْرٌؔ ﴾ ’’بخشنے والا۔‘‘ وه گناہوں کو بخش کر انھیں مٹا دیتا ہے خواہ یہ زمین بھر کیوں نہ ہوں ۔ ﴿ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’رحم کرنے والا ہے۔‘‘ وہ توبہ قبول کر کے اور بھلائی کے کاموں کی توفیق عطا کر کے اپنی بے پایاں رحمت سے نوازتا ہے۔
#
{154} {ولما سَكَتَ عن موسى الغضبُ}؛ أي: سكن غضبه وتراجعت نفسُهُ، وعَرَفَ ما هو فيه؛ اشتغل بأهمِّ الأشياء عنده، فَأَخَذَ {الألواحَ}: التي ألقاها، وهي ألواحٌ عظيمة المقدار جليلةٌ {في نُسْخَتِها}؛ أي: مشتملة ومتضمِّنة {هدىً ورحمةٌ}؛ أي: فيها الهدى من الضَّلالة، وبيان الحقِّ من الباطل، وأعمال الخير وأعمال الشر، والهدى لأحسن الأعمال والأخلاق والآداب، ورحمة وسعادة لمن عمل بها وعلم أحكامها ومعانيها، ولكن؛ ليس كل أحدٍ يقبل هدى الله ورحمته، وإنما يقبلُ ذلك، وينقاد له، ويتلقَّاه بالقَبول، {الذين هُم لربِّهم يرهَبونَ}؛ أي: يخافون منه ويخشونه، وأما مَنْ لم يخفِ الله ولا المقام بين يديه؛ فإنه لا يزداد بها إلا عتوًّا ونفوراً، وتقوم عليه حجة الله فيها.
[154] ﴿ وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ ﴾ ’’اور جب موسیٰ (u) کا غصہ فرو ہوا۔‘‘ یعنی جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور وہ آپے میں آکر پوری صورت حال کو سمجھ گئے تو وہ اہم تر امور میں مشغول ہوگئے۔ ﴿ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ﴾ ’’انھوں نے ان تختیوں کو اٹھایا‘‘ جن کو انھوں نے غصے میں آکر پھینک دیا تھا۔ یہ جلیل القدر تختیاں تھیں ۔ ﴿وَفِیْ نُسْخَتِهَا ﴾ ’’اور ان میں جو لکھا ہوا تھا‘‘ یعنی یہ تختیاں مشتمل تھیں ﴿هُدًى وَّرَحْمَةٌ ﴾ ’’اس میں ہدایت اور رحمت تھی۔‘‘ ان میں گمراہی اور ہدایت کو واضح کیا گیا تھا۔ حق اور باطل، اعمال خیر، اعمال شر، بہترین اعمال کی طرف راہ نمائی، اخلاق و آداب کو ان تختیوں میں کھول کھول کر بیان کیا گیا تھا اور ان تختیوں میں ان لوگوں کے لیے رحمت اور سعادت ہے جو ان پر عمل کرتے ہیں اور ان کے احکام اور معانی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ مگر ہر شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ ﴾ ’’جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے روز اس کے حضور کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتا تو اس سے اس کی سرکشی اور روگردانی میں اضافہ ہی ہوگا اور اس بارے میں اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو جائے گی۔
#
{155} {و} لما تاب بنو إسرائيل، وتراجعوا إلى رُشْدِهم، {اختار موسى} منهم {سبعين رجلاً}: من خيارهم ليعتذروا لقومهم عند ربِّهم، ووعدهم الله ميقاتاً يحضُرون فيه، فلما حضروا؛ قالوا: يا موسى! أرِنا الله جهرةً! فتجرؤوا على الله جراءة كبيرة، وأساؤوا الأدب معه، فأخذتهم الرجفةُ، فصعقوا وهلكوا، فلم يزل موسى عليه الصلاة والسلام يتضرَّع إلى الله ويتبتَّل ويقول: {ربِّ لو شئتَ أهلكتَهم من قبلُ}: أن يحضُروا، ويكونون في حالة يعتذرون فيها لقومهم فصاروا هم الظالمين. {أتُهْلِكُنا بما فعل السفهاءُ منَّا}؛ أي: ضعفاء العقول سفهاء الأحلام، فتضرَّع إلى الله، واعتذر بأنَّ المتجرِّئين على الله ليس لهم عقولٌ كاملةٌ تردعُهم عما قالوا وفعلوا، وبأنهم حصل لهم فتنةٌ يخطر بها الإنسان ويخاف من ذهاب دينه، فقال: {إنْ هي إلَّا فتنتُك تُضِلُّ بها من تشاءُ وتهدي من تشاءُ أنت وَلِيُّنا فاغْفِرْ لنا وارْحَمْنا وأنت خير الغافرين}؛ أي: أنت خير من غفر، وأولى من رحم، وأكرم من أعطى وتفضَّل، فكأنَّ موسى عليه الصلاة والسلام قال: المقصود يا ربِّ بالقصد الأول لنا كلّنا، هو التزام طاعتك والإيمان بك، وأن من حَضَرَه عقله ورشده وتمَّ على ما وهبته من التوفيق؛ فإنه لم يزل مستقيماً، وأما من ضَعُفَ عقلُه وسَفِه رأيُهُ وصرفته الفتنة؛ فهو الذي فعل ما فعل لذينك السببين، ومع هذا؛ فأنت أرحم الراحمين وخير الغافرين؛ فاغفر لنا وارحمنا! فأجاب الله سؤاله، وأحياهم من بعد موتهم، وغفر لهم ذنوبهم.
[155] جب بنی اسرائیل نے توبہ کر لی اور وہ رشد و ہدایت کی راہ پر لوٹ آئے۔ ﴿ وَاخْتَارَ مُوْسٰؔى قَوْمَهٗ ﴾ ’’اور چن لیے موسیٰ نے اپنی قوم میں سے‘‘ ﴿سَبْعِیْنَ رَجُلًا﴾ ’’بہترین، ستر آدمی‘‘ تاکہ وہ اپنی قوم کی طرف سے رب کے حضور معذرت پیش کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا تھا تاکہ اس وقت وہ اللہ کے حضور حاضر ہوں اور جب وہ حاضر ہوئے تو انھوں نے موسیٰu سے کہا ﴿اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً ﴾ (النساء: 4؍153) ’’ان ظاہری آنکھوں سے ہمیں اللہ کا دیدار کروا۔‘‘پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں جسارت اور اس کے حضور بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔ ﴿ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ﴾ ’’تو ان کو زلزلے نے پکڑ لیا‘‘ پس وہ بے ہوش ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پس موسیٰu اللہ تعالیٰ کے حضور فروتنی اور تذلل سے گڑگڑاتے رہے۔ انھوں نے عرض کیا ﴿ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّ٘ایَ ﴾ ’’اے میرے رب! اگر تو ان کو ہلاک ہی کرنا چاہتا تو مجھے اور ان کو میقات کی طرف سے نکلنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتا‘‘ ﴿اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا﴾ ’’کیا تو ہم کو ہلاک کرتا ہے اس کام پر جو ہماری قوم کے بے وقوفوں نے کیا‘‘ یعنی جو کچھ کم عقل اور بے وقوف لوگوں نے کیا ہے۔ پس موسیٰu اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے اور معذرت کی کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ جسارت کی ہے وہ کامل عقل کے مالک نہیں ہیں ، ان کی بے وقوفی کے قول و فعل سے صرف نظر کر۔ وہ ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہوگئے جس میں انسان خطا کا شکار ہو جاتا ہے اور دین کے چلے جانے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے۔ موسیٰu نے عرض کیا ﴿ اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ١ؕ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَتَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ١ؕ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْ٘فِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْ٘غٰفِرِیْنَ ﴾ ’’یہ سب تیری آزمائش ہے، گمراہ کرتا ہے اس کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے اور سیدھا رکھتا ہے جس کو چاہتا ہے تو ہی ہمارا کار ساز ہے، پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے‘‘ یعنی تو بخش دینے والوں میں سے بہترین ہستی ہے۔ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور عطا کرنے والوں میں سب سے زیادہ فضل و کرم کا مالک ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰu نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں عرض کیا ’’اے ہمارے رب ہم سب کا اولین مقصد تیری اطاعت کا التزام اور تجھ پر ایمان لانا ہے اور جس میں عقل اور سمجھ موجود ہے اور تیری توفیق جس کے ہم رکاب رہے گی وہ ہمیشہ راہ راست پر رواں دواں رہے گا۔ رہا وہ شخص جو ضعیف العقل ہے، جو کمزور رائے رکھتا ہے اور جس کو فتنے نے گمراہی کی طرف پھیر دیا تو وہی شخص ہے جس نے ان دو اسباب کی بنا پر اس جسارت کا ارتکاب کیا۔ بایں ہمہ تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور سب سے زیادہ بخش دینے والا ہے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔‘‘پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰu کی دعا قبول کر لی اور ان (ستر آدمیوں ) کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کر دیا اور ان کے گناہ بخش دیے۔
#
{156} وقال موسى في تمام دعائه: {واكتبْ لنا في هذه الدنيا حسنةً}: من علم نافع ورزق واسع وعمل صالح، {وفي الآخرة}: حسنة، وهي ما أعد الله لأوليائه الصالحين من الثواب. {إنَّا هُدْنا إليك}؛ أي: رجعنا مقرِّين بتقصيرنا منيبين في جميع أمورنا، {قال} الله تعالى: {عذابي أصيبُ به من أشاءُ}: ممَّن كان شقيًّا متعرضاً لأسبابه، {ورحمتي وسعتْ كلَّ شيء}: من العالم العلويِّ والسفليِّ؛ البر والفاجر، المؤمن والكافر؛ فلا مخلوق إلا وقد وصلت إليه رحمة الله وغمره فضله وإحسانه، ولكن الرحمة الخاصة المقتضية لسعادة الدنيا والآخرة ليست لكل أحد، ولهذا قال عنها: {فسأكتُبها للذين يتَّقون}: المعاصي صغارها وكبارها، {ويؤتون الزَّكاة}: الواجبة مستحقيها، {والذين هم بآياتنا يؤمنون}.
[156] موسیٰu نے اپنی دعا کو مکمل کرتے ہوئے عرض کی ﴿ وَاكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰؔذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً ﴾ ’’اور لکھ دے ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی‘‘ یعنی اس دنیا میں علم نافع، رزق واسع اور عمل صالح عطا کر۔ ﴿وَّفِی الْاٰخِرَةِ ﴾ ’’اور آخرت میں ‘‘ یہ وہ ثواب ہے جو اس نے اپنے اولیائے صالحین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ ﴿ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَ ﴾ ’’ہم تیری طرف رجوع ہوچکے۔‘‘ ہم اپنی کوتاہی کا اقرار کرتے اور اپنے تمام امور تیرے سپرد کرتے ہوئے تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔ ﴿قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ ﴾ ’’میرا عذاب، پہنچاتا ہوں میں اس کو جس کو چاہوں ‘‘ یعنی اس کو جو بدبخت ہے اور بدبختی کے اسباب اختیار کرتا ہے۔ ﴿وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ﴾ ’’اور میری رحمت، اس نے گھیر لیا ہے ہر چیز کو۔‘‘میری بے پایاں رحمت نے عالم علوی اور عالم سفلی، نیک اور بد، مومن اور کافر سب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ کوئی مخلوق ایسی نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سایہ کناں نہ ہو اور اس کے فضل و کرم نے اس کو ڈھانپ نہ رکھا ہو مگر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جو دنیا و آخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رحمت کے بارے میں فرمایا ﴿ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ﴾ ’’سو اس کو لکھ دوں گا ان کے لیے جو ڈر رکھتے ہیں ‘‘ جو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ﴿وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ ﴾ ’’اور جو (مستحق لوگوں کو) زکاۃ دیتے ہیں ‘‘ ﴿ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور جو ہماری آیات پر یقین رکھتے ہیں ‘‘
#
{157} ومن تمام الإيمان بآيات الله معرفة معناها والعمل بمقتضاها، ومن ذلك اتباع النبي - صلى الله عليه وسلم - ظاهراً وباطناً في أصول الدين وفروعه: {الذين يتَّبِعون الرسول النبيَّ الأميَّ}: احترازٌ عن سائر الأنبياء؛ فإن المقصود بهذا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب والسياق في أحوال بني إسرائيل، وأن الإيمان بالنبيِّ محمد - صلى الله عليه وسلم - شرطٌ في دخولهم في الإيمان، وأن المؤمنين به المتَّبعين هم أهل الرحمة المطلقة التي كتبها الله لهم، ووصفه بالأمي لأنَّه من العرب الأمة الأميَّة التي لا تقرأ ولا تكتب وليس عندها قبل القرآن كتاب. {الذي يجِدونَهُ مكتوباً عندَهم في التوراة والإنجيل}: باسمه وصفته التي من أعظمها وأجلِّها ما يدعو إليه وينهى عنه، وأنه {يأمُرُهم بالمعروف}: وهو كل ما عُرِفَ حسنُهُ وصلاحه ونفعه. {وينهاهم عن المنكر}: وهو كلُّ ما عرف قبحه في العقول والفطر، فيأمرهم بالصلاة والزكاة والصوم والحج وصلة الأرحام وبر الوالدين والإحسان إلى الجار والمملوك وبذل النفع لسائر الخلق والصدق والعفاف والبر والنصيحة وما أشبه ذلك، وينهى عن الشرك بالله وقتل النفوس بغير حق والزِّنا وشرب ما يسكر العقل والظلم لسائر الخلق والكذب والفجور ونحو ذلك؛ فأعظم دليل يدلُّ على أنه رسول الله ما دعا إليه وأمر به ونهى عنه وأحلَّه وحرَّمه؛ فإنه يُحِلُّ الطيبات: من المطاعم والمشارب والمناكح. {ويحرِّمُ عليهم الخبائث}: من المطاعم والمشارب والمناكح والأقوال والأفعال. {ويَضَعُ عنهم إصْرَهُم والأغلال التي كانت عليهم}؛ أي: ومِنْ وَصْفِهِ أنَّ دينه سهلٌ سَمْحٌ ميسَّر لا إصر فيه ولا أغلال ولا مشقات ولا تكاليف ثقال. {فالذين آمنوا به وعزَّروه}؛ أي: عظَّموه وبجَّلوه، {ونصروه واتَّبعوا النور الذي أنزلَ معه}: وهو القرآن الذي يُستضاء به في ظلمات الشَّكِّ والجهالات، ويقتدى به إذا تعارضت المقالات. {أولئك هم المفلحون}: الظافرون بخير الدُّنيا والآخرة، والناجون من شرِّهما؛ لأنَّهم أتوا بأكبر أسباب الفلاح، وأما مَن لم يؤمنْ بهذا النبيِّ الأميِّ، ويعزِّره، وينصره، ولم يتَّبع النور الذي أنزل معه؛ فأولئك هم الخاسرون.
[157] اللہ تعالیٰ کی آیات پر کامل ایمان یہ ہے کہ ان کے معانی کی معرفت حاصل کی جائے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اور انھی میں سے دین کے اصول و فروع میں ، ظاہری اور باطنی طور پر نبی اکرمe کی اتباع ہے۔﴿ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ﴾ ’’وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبئ امی ہے‘‘ یہاں تمام انبیائے کرام کے ذکر سے احتراز کیا ہے کیونکہ یہاں صرف حضرت محمد مصطفی بن عبداللہ بن عبدالمطلبe مقصود ہیں ۔ یہ آیت بنی اسرائیل کے حالات کے سیاق میں ہے، ان کے لیے ایمان میں داخل ہونے کی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ نبی اکرمe پر ایمان لائیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت مطلق جو اس نے اپنے بندوں کے لیے لکھ رکھی ہے صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس نبی اکرم (e) پر ایمان لا کر اس کی اتباع کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ﴿اَلْاُمِّیَّ﴾ کے وصف سے موصوف فرمایا ہے کیونکہ آپ عربوں میں سے ہیں اور عرب ایک ان پڑھ امت ہیں جو لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور قرآن مجید سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ ﴿الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبً٘ا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ ﴾ ’’وہ آپ(e کا نام اور آپe کی صفات) کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔‘‘ اور ان میں سب سے بڑی اور جلیل ترین صفت وہ ہے جس کی طرف آپe دعوت دیتے ہیں اور جس چیز سے آپ منع کرتے ہیں ۔ ﴿ٞیَ٘اْمُرُهُمْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’وہ معروف کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘ اور (مَعْروف) سے مراد ’’ہر وہ کام ہے جس کی اچھائی، بھلائی اور اس کا فائدہ مند ہونا معروف ہو۔‘‘ ﴿ وَیَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْؔكَرِ ﴾ ’’اور برے کاموں سے روکتے ہیں ۔‘‘ (منکر) سے مراد ’’ہر وہ برا کام ہے جس کی برائی اور قباحت کو عقل اور فطرت سلیم تسلیم کرتی ہو‘‘ پس وہ نماز، زکٰوۃ، روزے، حج، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ نیک سلوک، ہمسایوں اور غلاموں کے ساتھ نیکی، تمام مخلوق کو فائدہ پہنچانے، سچائی، پاکبازی، نیکی، خیر خواہی اور دیگر اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قتل ناحق، زنا، شراب اور نشہ دار مشروبات پینے، تمام مخلوق پر ظلم کرنے، جھوٹ، فسق و فجور اور دیگر برائیوں سے روکتا ہے۔ رسول اللہe کے رسول ہونے کی سب سے بڑی دلیل وہ کام ہیں جن کا آپ حکم دیتے ہیں ، جن سے آپ روکتے ہیں ، جن کو آپ حلال قرار دیتے ہیں اور جن کو آپ حرام قرار دیتے ہیں ۔ اس لیے ﴿ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰؔتِ ﴾ ’’وہ حلال کرتا ہے ان کے لیے سب پاک چیزیں ‘‘ یعنی آپ ماکولات اور مشروبات میں سے طیبات اور پاک عورتوں کو حلال قرار دیتے ہیں ۔ ﴿ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْؔخَبٰٓؔىِٕثَ ﴾ ’’اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ یعنی ماکولات اور مشروبات میں سے ناپاک چیزوں ، ناپاک اقوال و افعال اور ناپاک عورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ ﴿ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْ٘لٰ٘لَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ﴾ ’’اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان کے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں ۔‘‘ یعنی آپe کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین نہایت آسان، نرم اور کشادہ ہے۔ اس دین میں کوئی بوجھ، کوئی ناروا بندش، کوئی مشقت اور کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ﴿ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ ﴾ ’’پس وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے اور جنھوں نے آپ کی توقیر و تعظیم کی‘‘ ﴿ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَؔعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ ﴾ ’’اور آپ کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو آپ کے ساتھ اترا ہے‘‘ نور سے مراد قرآن ہے جس سے شک و شبہات اور جہالت کے تیرہ و تار اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے اور مقالات و نظریات کے اختلاف میں اس کو راہ نما بنایا جاتا ہے ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ’’وہی مراد پانے والے ہیں ۔‘‘ یہی لوگ ہیں جو دنیا و آخرت کی بھلائی سے ظفر یاب ہوں گے اور یہی لوگ دنیا و آخرت کے شر سے نجات پائیں گے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح کا سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوئے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اس نبی امیe پر ایمان نہ لائے، انھوں نے آپ کی تعظیم و توقیر کی، نہ آپ کی مدد کی اور نہ اس نور کی اتباع کی جو آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔
#
{158} ولما دعا أهل التوراة من بني إسرائيل إلى اتباعه، وكان ربما توهَّم متوهِّم أن الحكم مقصورٌ عليهم، أتى بما يدلُّ على العموم، فقال: {قلْ يا أيُّها الناس إني رسولُ الله إليكم جميعاً}؛ أي: عربيّكم وعجميّكم، أهل الكتاب منكم وغيرهم، {الذي له ملكُ السموات والأرض}: يتصرَّف فيهما بأحكامه الكونيَّة والتدابير السلطانيَّة وبأحكامه الشرعيَّة الدينيَّة، التي من جملتها أن أرسل إليكم رسولاً عظيماً يدعوكم إلى الله وإلى دار كرامته، ويحذِّركم من كلِّ ما يباعدكم منه ومن دار كرامته. {لا إله إلاَّ هو}؛ أي: لا معبود بحقٍّ إلا الله وحده لا شريك له، ولا تُعْرَفُ عبادته إلا من طريق رسله. {يحيي ويميتُ}؛ أي: من جملة تدابيره الإحياء والإماتة، التي لا يشاركه فيها أحدٌ، التي جعل الله الموت جسراً ومعبراً، يُعبَرُ منه إلى دار البقاء التي من آمن بها صدَّق الرسول محمداً - صلى الله عليه وسلم - قطعاً. {فآمنوا بالله ورسولِهِ النبيِّ الأميِّ}: إيماناً في القلب متضمناً لأعمال القلوب والجوارح، {الذي يؤمِنُ بالله وكلماته}؛ أي: آمنوا بهذا الرسول المستقيم في عقائده وأعماله، {واتَّبِعوه لعلكم تهتدونَ}: في مصالِحِكم الدينيَّة والدنيويَّة؛ فإنكم إذا لم تتَّبعوه؛ ضللتم ضلالاً بعيداً.
[158] چونکہ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں سے اہل تورات کو رسول اللہe کی اتباع کی دعوت دی ہے اور بسا اوقات کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ یہ حکم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے.... اس لیے وہ اسلوب اختیار کیا جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعًا ﴾ ’’کہہ دیجیے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔‘‘ یعنی اہل عرب، اہل عجم، اہل کتاب اور دیگر تمام قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ﴿ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں ‘‘ وہ اپنے احکام تکوینی، تدابیر سلطانی اور احکام دینی کے ذریعے سے کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ اس کے احکام دینی و شرعی میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اس نے تمھاری طرف ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ جو تمھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و اکرام کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور تمھیں ہر اس چیز سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جو تمھیں اس گھر سے دور کرتی ہے۔ ﴿ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ ﴾ ’’اس (اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ‘‘ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس کی عبادت کی معرفت صرف اس کے انبیاء و مرسلین کے توسط ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ﴿ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ﴾ ’’وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔‘‘ اس کی جملہ تدابیر و تصرفات میں سے زندہ کرنا اور مارنا ہے، جس میں کوئی ہستی شریک نہیں ہو سکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موت کو ایک ایسا پل بنایا ہے جسے عبور کر کے انسان دار فانی سے دارالبقا میں داخل ہوتا ہے۔ جو کوئی اس دارالبقا پر ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ کے رسول محمد مصطفیe کی یقینا تصدیق کرتا ہے۔ ﴿ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﴾ ’’پس اللہ پر اور اس کے رسول پیغمبر امی پر ایمان لاؤ۔‘‘ یعنی اس نبی امی پر ایسا قلبی ایمان لاؤ جو اعمال قلوب اور اعمال جوارح کو متضمن ہو۔ ﴿ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَؔكَلِمٰتِهٖ ﴾ ’’جو یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کی باتوں پر‘‘ یعنی اس رسول پر ایمان لاؤ جو اپنے عقائد و اعمال میں راست رو ہے ﴿ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ﴾ ’’اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ‘‘ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں ہدایت پاؤ گے کیونکہ جب تم اس نبی کی اتباع نہیں کرو گے تو بہت دور کی گمراہی میں جا پڑو گے۔
#
{159} {ومن قوم موسى أمَّةٌ}؛ أي: جماعة، {يهدون بالحقِّ وبه يعدِلونَ}؛ أي: يهدون [به] الناس في تعليمهم إياهم وفتواهم لهم، ويعدِلون به بينهم في الحكم بينهم قضاياهم؛ كما قال تعالى: {وَجَعَلْناهم أئمةً يهدون بأمرِنا لما صبروا وكانوا بآياتنا يوقنون}. وفي هذا فضيلةٌ لأمة موسى عليه الصلاة والسلام، وأنَّ الله تعالى جعل منهم هُداةً يهدون بأمره. وكأنَّ الإتيان بهذه الآية الكريمة فيه نوعُ احتراز مما تقدَّم؛ فإنه تعالى ذكر فيما تقدَّم جملةً من معايب بني إسرائيل المنافية للكمال المناقضة للهداية، فربما توهَّم متوهِّم أن هذا يعمُّ جميعهم، فذكر تعالى أن منهم طائفة مستقيمة هادية مهدية.
[159] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ ﴾ ’’موسیٰ کی قوم میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ‘‘ ﴿ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ یَعْدِلُوْنَ ﴾ ’’جو راہ بتلاتے ہیں حق کی اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں ‘‘ یعنی لوگوں کو تعلیم دے کر ان کی راہ نمائی کرتے ہیں ، ان کو فتویٰ دیتے ہیں اور ان کے آپس کے جھگڑوں کے فیصلوں میں حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا١ؕ۫ وَكَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ: 32؍24) ’’اور ان میں سے ہم نے راہ نما بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق راہ نمائی کیا کرتے تھے جب وہ صبر کرتے رہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے رہے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں امت موسیٰu کی فضیلت بیان ہوئی ہے نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر پیشوا مقرر کیے جو اس کے حکم سے پیشوائی کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ کو یہاں بیان کرنا درحقیقت گزشتہ آیات کے مضامین سے احتراز کی ایک قسم ہے کیونکہ گزشتہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایسے معایب بیان فرمائے ہیں جو کمال کے منافی اور ہدایت کی ضد ہیں ۔ بسا اوقات کسی کو یہ وہم لاحق ہو سکتا ہے کہ مذکورہ معایب میں بنی اسرائیل کے تمام لوگ شامل ہیں بنابریں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو راست رو، ہدایت یافتہ اور لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے تھے۔
#
{160} {وقطَّعناهم}؛ أي: قسَّمناهم {اثنتي عشرة أسباطاً أمماً}؛ أي: اثنتي عشرة قبيلةً متعارفةً متوالفةً، كل بني رجل من أولاد يعقوب قبيلة، {وأوحينا إلى موسى إذِ استسقاه قومُهُ}؛ أي: طلبوا منه أن يدعو الله تعالى أن يسقيهم ماء يشربون منه وتشرب منه مواشيهم، وذلك لأنَّهم ـ والله أعلم ـ في محلٍّ قليل الماء، فأوحى الله لموسى إجابة لِطلبَتِهِم: {أنِ اضربْ بعصاك الحجرَ}: يُحتمل أنه حجرٌ معيَّن، ويُحتمل أنه اسم جنس يشمل أي حجر كان، فضربه، {فانبَجَستْ}؛ أي: انفجرت من ذلك الحجر {اثنتا عشرة عيناً}: جارية سارحة، {قد علم كلُّ أناس مشرَبَهم}؛ أي: قد قسم على كل قبيلة من تلك القبائل الاثنتي عشرة، وجعل لكلٍّ منهم عيناً، فعلموها، واطمأنُّوا واستراحوا من التعب والمزاحمة، وهذا من تمام نعمة الله عليهم، {وظلَّلْنا عليهم الغمام}: فكان يستُرهم من حرِّ الشمس، {وأنزلنا عليهم المنَّ}: وهو الحلوى، {والسَّلوى}: وهو لحم طير من أحسن أنواع الطيور وألذِّها، فجمع الله لهم بين الظلال والشراب والطعام الطيب من الحلوى واللحوم على وجه الراحة والطمأنينة، وقيل لهم: {كلوا من طيِّبات ما رَزَقْناكم وما ظلمونا}: حين لم يشكُروا الله ولم يقوموا بما أوجب الله عليهم. {ولكن كانوا أنفسَهم يظلمونَ}: حيث فوَّتوها كلَّ خير وعرَّضوها للشرِّ والنقمة، وهذا كان مدة لبثهم في التيه.
[160] ﴿ وَقَطَّعْنٰهُمُ ﴾ ’’اور ہم نے ان کو تقسیم کر دیا۔‘‘ ﴿ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا﴾ ’’بارہ قبیلوں (کی شکل) میں ، بڑی بڑی جماعتیں ‘‘ یعنی بارہ قبیلے بنا دیے جو ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور باہم الفت رکھتے تھے۔ حضرت یعقوبu کے ہر بیٹے کی اولاد ایک قبیلہ بنی۔ ﴿ وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ﴾ ’’اور وحی کی ہم نے موسیٰ کی طرف، جب مانگا اس کی قوم نے اس سے پانی‘‘ یعنی جب انھوں نے موسیٰu سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انھیں پانی عطا کرے جسے وہ خود پئیں اور اپنے مویشیوں کو پلائیں اور اس مطالبے کی وجہ یہ تھی ...واللہ اعلم... کہ وہ ایک ایسے علاقے میں تھے جہاں پانی بہت کم دستیاب تھا۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے موسیٰu کی طرف وحی فرمائی ﴿ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ﴾ ’’اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ مذکورہ پتھر کوئی معین پتھر ہو اور اس میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ (اَلْحَجَر)اسم جنس کے لیے استعمال ہوا ہو جو ہر پتھر کو شامل ہے.... پس حضرت موسیٰu نے پتھر پر عصا مارا ﴿ فَانْۢبـَجَسَتْ ﴾ ’’(اس پتھر سے) پھوٹ پڑے‘‘ ﴿ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْ٘رَةَ عَیْنًا ﴾ ’’بارہ چشمے‘‘ آہستہ آہستہ بہتے ہوئے۔ ﴿ قَدْ عَلِمَ كُ٘لُّ٘ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ﴾ ’’سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔‘‘ ان بارہ قبائل کے درمیان اس پانی کو تقسیم کر دیا گیا اور ہر قبیلے کے لیے ایک چشمہ مقرر کر دیا گیا اور انھوں نے اپنے اپنے چشمے کو پہچان لیا۔ پس انھوں نے اطمینان کا سانس لیا اور تھکاوٹ اور مشقت سے راحت پائی۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام تھا۔ ﴿ وَظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ ﴾ ’’اور ہم نے ان پر بادلوں کا سایہ کیا‘‘ پس یہ بادل انھیں سورج کی گرمی سے بچاتا تھا۔ ﴿ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْ٘مَنَّ﴾ ’’اور اتارا ہم نے اوپر ان کے من‘‘ اس سے مراد میٹھا میوہ ہے ﴿ وَالسَّلْوٰى ﴾ اس سے مراد پرندوں کا گوشت ہے، یہ بہترین اور لذیذ ترین قسم کے پرندوں کا گوشت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی راحت اور اطمینان کے لیے ان پر بیک وقت سایہ، پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے میٹھے میوے اور گوشت عطا کیا۔ ان سے کہا گیا: ﴿ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰؔتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَمَا ظَلَمُوْنَا ﴾ ’’وہ ستھری چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمھیں دیں اور انھوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر جو چیز واجب قرار دی تھی اسے پورا نہ کر کے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا ﴿ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’بلکہ انھوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا‘‘ کیونکہ انھوں نے اپنے آپ کو ہر بھلائی سے محروم کر لیا اور اپنے نفس کو شر اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں مبتلا کیا۔ یہ سب کچھ اس مدت کے دوران ہوا جب وہ بیابان میں سرگرداں تھے۔
#
{161} {وإذ قيلَ لهم اسكنوا هذه القريةَ}؛ أي: ادخلوها لتكون وطناً لكم ومسكناً، وهي إيلياء، {وكلوا منها حيث شئتُم}؛ أي: قرية كانت كثيرة الأشجار غزيرة الثمار رغيدة العيش؛ فلذلك أمرهم الله أن يأكلوا منها حيث شاؤوا، {وقولوا}: حين تدخلون الباب: {حِطَّةٌ}؛ أي: احطُطْ عنَّا خطايانا واعفُ عنا، {وادخُلوا الباب سجَّداً}؛ أي خاضعين لربكم مستكينين لعزَّته شاكرين لنعمته؛ فأمرهم بالخضوع وسؤال المغفرة، ووعدهم على ذلك مغفرة ذنوبهم والثواب العاجل والآجل، فقال: {نغفر لكم خطيئاتِكُم سنزيدُ المحسنينَ}: من خير الدنيا والآخرة.
[161] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَاِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰؔذِهِ الْ٘قَرْیَةَ ﴾ ’’جب ان سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار کرو۔‘‘ یعنی اس بستی میں داخل ہو جاؤ تاکہ یہ بستی تمھارا وطن اور مسکن بن جائے۔ یہ بستی ’’ایلیاء‘‘ یعنی ’’قدس‘‘ کی بستی تھی۔ ﴿ وَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ ﴾ ’’اور اس میں سے جو چاہو کھاؤ۔‘‘ یعنی اس بستی میں بہت زیادہ درخت، بے حساب پھل اور وافر سامان زندگی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ جو جی چاہے کھاؤ۔ ﴿وَقُوْلُوْا﴾ یعنی جب تم بستی کے دروازے میں داخل ہو تو کہو۔ ﴿ حِطَّةٌ ﴾ یعنی ہم سے ہمارے گناہوں کو دور کر دے اور ہمیں معاف کر دے۔ ﴿ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا ﴾ ’’اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو‘‘ یعنی اپنے رب کے سامنے خشوع و خضوع، اس کے غلبہ کے سامنے انکساری اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دروازے میں داخل ہو پس اللہ تعالیٰ نے ان کو خضوع و خشوع اور بخشش طلب کرنے کا حکم دیا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ان کے گناہ بخش دینے، دنیاوی اور اخروی ثواب کا وعدہ فرمایا ﴿ نَّ٘غْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓــٰٔتِكُمْ۠١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’ہم تمھاری خطائیں بخش دیں گے، البتہ زیادہ دیں گے ہم نیکی کرنے والوں کو‘‘ یعنی ہم دنیا اور آخرت کی بھلائی میں اضافہ کریں گے۔
#
{162} فلم يمتثلوا هذا الأمر الإلهيَّ، بل بدَّل الذين ظلموا منهم؛ أي: عصوا الله واستهانوا بأمره {قولاً غير الذي قيل لهم}: فقالوا بدل طلب المغفرة وقولهم حطة: حبَّة في شعيرة، وإذا بدلوا القول مع يسره وسهولته؛ فتبديلهم للفعل من باب أولى، ولهذا دخلوا يزحفون على أَسْتَاهِهم، {فأرسلنا عليهم}: حين خالفوا أمر الله وعَصَوْه {رِجزاً من السماء}؛ أي: عذاباً شديداً إما الطاعون وإما غيره من العقوبات السماويَّة، وما ظلمهم الله بعقابه، وإنَّما كان ذلك {بما كانوا يظلمونَ}.
[162] مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل نہ کی بلکہ اس کی خلاف ورزی کی۔﴿ فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ﴾ ’’پس بدل ڈالا ظالموں نے ان میں سے‘‘ یعنی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی تحقیر کی ﴿ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ ﴾ ’’دوسرا لفظ، اس کے سوا جو ان سے کہا گیا تھا‘‘ پس انھوں نے طلب مغفرت اور (حِطَّۃٌ) کو (حَبَّۃٌ فِی شَعِیرَۃٍ) سے بدل ڈالا۔ جب قول کے آسان اور سہل ہونے کے باوجود انھوں نے اس کو بدل ڈالا تو فعل کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہوئے۔ ﴿ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ ﴾ ’’تو ہم نے ان پر بھیجا۔‘‘ یعنی جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اس کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔ ﴿ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ ﴾ ’’آسمان سے سخت عذاب۔‘‘ یہ عذاب یا تو طاعون کی شکل میں تھا یا کوئی اور آسمانی سزا تھی۔ یہ سزا دے کر اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ سزا تو ان کے اس ظلم کی پاداش میں تھی جو وہ کیا کرتے تھے۔
#
{163} {واسْألْهُم}؛ أي: اسأل بني إسرائيل {عن القرية التي كانت حاضرةَ البحر}؛ أي: على ساحله في حال تعدِّيهم وعقاب الله إيَّاهم، {إذ يَعْدونَ في السبتِ}: وكان الله تعالى قد أمرهم أن يعظِّموه ويحترموه ولا يصيدوا فيه صيداً، فابتلاهُم الله وامتحنهم، فكانت الحيتان تأتيهم يومَ سبتهم شُرَّعاً؛ أي: كثيرة طافية على وجه البحر. {ويوم لا يَسْبِتونَ}؛ أي: إذا ذهب يوم السبت {لا تأتيهم}؛ أي: تذهب في البحر فلا يرون منها شيئاً. {كذلك نبلوهُم بما كانوا يفسُقون}: ففسقُهم هو الذي أوجب أن يبتلِيَهم الله وأن تكون لهم هذه المحنة، وإلاَّ؛ فلو لم يفسُقوا؛ لعافاهم الله، ولما عرَّضهم للبلاء والشرِّ.
[163] ﴿وَسْـَٔؔلْهُمْ ﴾ ’’ان (بنی اسرائیل) سے پوچھیے‘‘ ﴿ عَنِ الْ٘قَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ﴾ ’’اس بستی کا حال جو دریا کے کنارے تھی‘‘ یعنی جب انھوں نے ظلم و تعدی سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اس حال میں کہ بستی سمندر کے کنارے پر تھی۔ ﴿ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ ﴾ ’’جب وہ حد سے بڑھنے لگے ہفتے کے حکم میں ‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہفتے کی تعظیم اور احترام کریں ، ہفتے کے روز شکار نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا۔ ﴿ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُ٘رَّعًا ﴾ ’’جب آتیں ان کے پاس مچھلیاں ہفتے کے دن، پانی کے اوپر‘‘ یعنی مچھلیاں سطح سمندر پر بہت کثیر تعداد میں تیرتی ہوئی آتیں ۔ ﴿ وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ﴾ ’’اور جب سبت کا دن نہ ہوتا‘‘ یعنی سبت کا دن گزر جاتا: ﴿ لَا تَاْتِیْهِمْ ﴾ ’’ان کے پاس نہ آتیں ۔‘‘ یعنی مچھلیاں سمندر میں واپس چلی جاتیں اور ان میں سے کوئی مچھلی دکھائی نہ دیتی۔ ﴿ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح ہم نے ان کو آزمایا، اس لیے کہ وہ نافرمان تھے‘‘ یعنی یہ ان کا فسق تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو آزمائے اور ان کا امتحان ہو۔ ورنہ اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دیتا اور ان کو مصیبت اور شر میں مبتلا نہ کرتا۔
#
{164} فتحيلوا على الصيد، فكانوا يحفرون لها حفراً، وينصبون لها الشباك؛ فإذا جاءت يوم السبت ووقعت في تلك الحفر والشِّباك؛ لم يأخذوها في ذلك اليوم؛ فإذا جاء يوم الأحد؛ أخذوها، وكثر فيهم ذلك، وانقسموا ثلاث فرق: معظمهم اعتَدَوا وتجرَّؤوا وأعلنوا بذلك. وفرقةٌ أعلنت بنهيهم والإنكار عليهم. وفرقةٌ اكتفتْ بإنكار أولئك عليهم ونهيهم لهم وقالوا: {لم تَعِظونَ قوماً اللهُ مهلِكُهم أو معذِّبهم عذاباً شديداً}: كأنَّهم يقولون: لا فائدة في وعظ مَن اقتحم محارم الله ولم يُصْغِ للنصيح بل استمرَّ على اعتدائه وطغيانه؛ فإنه لا بد أن يعاقبهم الله إما بهلاك أو عذاب شديد. فقال الواعظون: نعظهم وننهاهم {معذرةً إلى ربِّكم}؛ أي: لنُعْذَرَ فيهم، {ولعلَّهم يتَّقون}؛ أي: يتركون ما هم فيه من المعصية؛ فلا نيأس من هدايتهم؛ فربَّما نجع فيهم الوعظ وأثر فيهم اللوم، وهذا المقصود الأعظم من إنكار المنكر؛ ليكون معذرة وإقامة حجةٍ على المأمور المنهي، ولعل الله أن يهديه فيعمل بمقتضى ذلك الأمر والنهي.
[164] پس انھوں نے شکار کے لیے حیلہ کیا، وہ سمندر کے کنارے گڑھے کھود لیتے اور ان گڑھوں میں جال لگا دیتے۔ جب سبت کا دن آتا تو مچھلیاں ان گڑھوں میں آکر جال میں پھنس جاتیں اور وہ اس روز ان مچھلیوں کو نہ پکڑتے۔ جب اتوار کا دن آتا تو وہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے۔ یہ حیلہ ان میں بہت زیادہ ہوگیا اور اس بارے میں بنی اسرائیل تین گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ (۱) ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جنھوں نے علی الاعلان سبت کے قانون کو توڑنے کی جسارت کی۔ (۲) دوسرے وہ لوگ تھے جنھوں نے اعلانیہ ان کو ایسا کرنے سے روکا اور ان پر نکیر کی۔ (۳) تیسرے وہ لوگ تھے جنھوں نے انکار کرنے والوں کے انکار ہی کو کافی سمجھا (اور خود خاموش رہے) اور انھوں نے منع کرنے والوں سے کہا ﴿ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْ مَا ِ۟ ١ۙ اللّٰهُ مُهْلِكُ٘هُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا شَدِیْدًؔا ﴾ ’’تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ نے ہلاک کرنا یا سخت عذاب دینا ہے‘‘ گویا وہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کو نصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتے ہیں اور خیر خواہوں کی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ اس کے برعکس ظلم اور تعدی پر جمے ہوئے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور ان کو سزا دے گا یا تو ان کو ہلاک کرے گا یا ان کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ نصیحت کرنے والے کہتے تھے کہ ہم تو ان کو نصیحت کرتے رہیں گے اور ان کو برائیوں سے روکتے رہیں گے۔ ﴿مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ ﴾ ’’تاکہ تمھارے رب کے ہاں عذر پیش کر سکیں ‘‘ ﴿ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور شاید کہ وہ پرہیز گار بن جائیں ۔‘‘ یعنی شاید وہ اس نافرمانی کو ترک کر دیں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں ، ہم ان کی ہدایت سے مایوس نہیں ہیں ، بسااوقات ان میں نصیحت کارگر ہو جاتی ہے اور ملامت اثر کر جاتی ہے اور برائی پر نکیر کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معذرت ہو تاکہ اس شخص پر حجت قائم ہو سکے جسے روکا گیا یا اسے کسی کام کا حکم دیا گیا ہو.... اور شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا کر دے اور وہ امرونہی کے تقاضوں پر عمل کر سکے۔
#
{165} {فلما نسوا ما ذُكِّروا به}؛ أي: تركوا ما ذُكِّروا به واستمروا على غَيِّهم واعتدائهم، {أنْجَيْنا الذين ينهون عن السوء}: وهكذا سنة الله في عباده أن العقوبة إذا نزلت نجا منها الآمرون بالمعروف والناهون عن المنكر، {وأخذنا الذين ظلموا}: وهم الذين اعتدَوْا في السبت {بعذابٍ بئيس}؛ أي: شديد {بما كانوا يفسُقون}. وأما الفرقة الأخرى التي قالت للناهين: لم تعِظون قوماً الله مهلكهم؛ فاختلف المفسرون في نجاتِهِم وهلاكهم، والظاهرُ أنهم كانوا من الناجين؛ لأنَّ الله خصَّ الهلاك بالظالمين، وهو لم يذكر أنهم ظالمون، فدلَّ على أن العقوبة خاصَّة بالمعتدين في السبت، ولأنَّ الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرضُ كفاية إذا قام به البعض سقط عن الآخرين؛ فاكتفوا بإنكار أولئك، ولأنهم أنكروا عليهم بقولهم: {لم تَعِظونَ قوماً الله مهلِكُهم أو معذِّبهم عذاباً شديداً}: فأبدَوْا من غضبهم عليهم ما يقتضي أنَّهم كارهون أشدَّ الكراهة لفعلهم، وأنَّ الله سيعاقبهم أشدَّ العقوبة.
[165] ﴿ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖۤ ﴾ ’’جب انھوں نے اس چیز کو بھلادیا جس کی ان کو یاد دہانی کرائی گئی تھی‘‘ اور وہ اپنی گمراہی اور نافرمانی پر جمے رہے۔ ﴿اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ ﴾ ’’ہم نے ان کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے‘‘ اپنے بندوں کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے کہ جب عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ لوگ اس عذاب سے نجات پاتے ہیں جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہے ہیں ۔ ﴿ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾ ’’اور پکڑ لیا ہم نے ظالموں کو‘‘ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ﴿ بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭؔ ﴾ ’’برے عذاب میں ‘‘ یعنی سخت عذاب میں ۔ ﴿ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ﴾ ’’اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔‘‘ رہا وہ گروہ جو برائی سے روکنے والوں سے کہا کرتا تھا: ﴿ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْ مَا ِ۟ ١ۙ اللّٰهُ مُهْلِكُ٘هُمْ ﴾ ’’تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے‘‘… اہل تفسیر میں ان کی نجات اور ان کی ہلاکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ نجات پانے والوں میں شامل تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت کو صرف ظالموں کے ساتھ مخصوص کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ظالموں میں ذکر نہیں کیا۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سزا خاص طور پر صرف ان لوگوں کو ملی تھی جنھوں نے سبت کی پابندی کو توڑا تھا۔ نیز نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض کفایہ ہے جب کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر رہے ہوں تو دوسرے لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے اور ان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھتے ہوئے اسے ناپسند کریں ۔ علاوہ ازیں انھوں نے (ان بدکردار لوگوں پر) ان الفاظ میں نکیر کی ﴿ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْ مَا ِ۟ ١ۙ اللّٰهُ مُهْلِكُ٘هُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا شَدِیْدًؔا ﴾ ’’تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا انھیں سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘پس انھوں نے ان پر اپنی ناراضی کا اظہار کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ان کا یہ فعل سخت ناپسند تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو سخت سزا دے گا۔
#
{166} {فلما عَتَوْا عما نُهوا عنه}؛ أي: قسوا فلم يلينوا ولا اتَّعظوا، {قلنا لهم} قولاً قدريًّا: {كونوا قردةً خاسئين}: فانقلبوا بإذن الله قردةً وأبعدهم الله من رحمته.
[166] ﴿فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ ﴾ ’’پھر جب وہ بڑھ گئے اس کام میں جس سے وہ روکے گئے تھے‘‘ یعنی وہ نہایت سنگ دل ہوگئے۔ ان میں نرمی آئی نہ انھوں نے نصیحت حاصل کی۔ ﴿ قُلْنَا لَهُمْ ﴾ ’’تو ہم نے ان سے کہا‘‘ یعنی قضا و قدر کی زبان میں ۔ ﴿ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىِٕیْنَ ﴾ ’’ہو جاؤ تم بندر ذلیل‘‘ پس وہ اللہ کے حکم سے بندر بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا۔
#
{167} ثم ذكر ضَرْبَ الذلة والصغار على من بقي منهم، فقال: {وإذ تأذَّنَ ربُّك}؛ أي: أعلم إعلاماً صريحاً، {ليبعثنَّ عليهم إلى يوم القيامة من يسومُهم سوء العذاب}؛ أي: يهينُهم ويذلُّهم، {إنَّ ربَّك لسريع العقاب}: لمن عصاه، حتى إنه يعجِّل له العقوبة في الدنيا. {وإنَّه لغفورٌ رحيم}: لمن تاب إليه وأناب؛ يغفر له الذُّنوب، ويستُر عليه العيوب، ويرحمه بأن يتقبَّل منه الطاعات ويثيبه عليها بأنواع المثوبات، وقد فعل الله بهم ما وعدهم به؛ فلا يزالون في ذلٍّ وإهانة، تحت حكم غيرهم، لا تقوم لهم رايةٌ ولا ينصر لهم عَلَمٌ.
[167] پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان میں سے جو لوگ باقی بچ گئے تھے ان پر ذلت اور محکومی مسلط کر دی گئی، چنانچہ فرمایا ﴿ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ ﴾ ’’جب تیرے رب نے آگاہ کردیا تھا‘‘ یعنی واضح طور پر بتا دیا۔ ﴿ لَیَبْعَثَ٘نَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَؔ الْعَذَابِ﴾ ’’کہ ضرور بھیجتا رہے گا یہود پر قیامت کے دن تک ایسے شخص کو جو ان کو برا عذاب دیا کرے گا‘‘ جو ان کو ذلیل و رسوا کرتا رہے گا۔ ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ﴾ ’’بے شک تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اس شخص کو بہت جلد سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی اس پر جلدی سے عذاب بھیج دیتا ہے۔ ﴿ وَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے بہت غفور و رحیم ہے جو کوئی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہ اس کے گناہ بخش دیتا ہے، اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے، اس پر رحم کرتے ہوئے اس کی نیکیوں کو قبول فرماتا ہے وہ اسے ان نیکیوں پر انواع و اقسام کے ثواب عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا، وہ ہمیشہ سے ذلیل و خوار اور دوسروں کے محکوم چلے آرہے ہیں ان کی اپنی کوئی رائے نہیں اور نہ (دنيا كی انصاف پسند قوموں میں)ان کا کوئی مدد کرنے والا ہے۔
#
{168} {وقطَّعناهم في الأرض أمماً}؛ أي: فرَّقناهم ومزَّقناهم في الأرض بعدما كانوا مجتمعين، {منهم الصالحون}: القائمون بحقوق الله وحقوق عباده، {ومنهم دون ذلك}؛ أي: دون الصلاح: إما مقتصدون، وإما الظالمون لأنفسهم. {وبَلَوْناهم}: على عادتنا وسنَّتنا {بالحسنات والسيئات}؛ أي: باليُسْر والعُسْر، {لعلَّهم يرجِعون}: عما هم عليه مقيمون من الرَّدى، ويراجعون ما خُلقوا له من الهدى، فلم يزالوا بين صالح وطالح ومقتصدٍ.
[168] ﴿وَقَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا﴾ ’’اور ہم نے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں منتشر کر دیا۔‘‘جبکہ پہلے وہ مجتمع تھے۔ ﴿ مِنْهُمُ الصّٰؔلِحُوْنَ ﴾ ’’کچھ ان میں نیک ہیں ‘‘ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو پورا کرتے ہیں ۔ ﴿ وَمِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور بعض اور طرح کے ہیں ۔‘‘ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نیکی کے کم تر درجے پر فائز ہیں یا تو وہ نیکی میں متوسط قسم کے لوگ ہیں یا وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ ﴿وَبَلَوْنٰهُمْ ﴾ اور ہم نے اپنی عادت اور سنت کے مطابق ان کو آزمایا ﴿ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ ﴾ ’’خوبیوں میں اور برائیوں میں ‘‘ یعنی آسانی اور تنگی کے ذریعے سے ﴿ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ ’’شاید کہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘ شاید کہ وہ ہلاکت کی وادی سے واپس لوٹ آئیں جس میں وہ مقیم ہیں اور اس ہدایت کی طرف رجوع کریں جس کے لیے ان کو پیدا کیا گیا ہے۔ پس ان میں ہمیشہ سے نیک، بد اور متوسط لوگ موجود رہے ہیں ۔
#
{169} حتى خلف {من بعدِهم خَلْفٌ}: زاد شرُّهم {ورثوا}: بعدهم {الكتابَ}: وصار المرجع فيه إليهم، وصاروا يتصرَّفون فيه بأهوائهم، وتُبْذَلُ لهم الأموال ليفْتُوا ويحكموا بغير الحقِّ، وفشت فيهم الرشوة. {يأخُذون عَرَضَ هذا الأدنى ويقولونَ}: مقرِّين بأنه ذنب وأنهم ظلمة: {سَيُغْفَرُ لنا}: وهذا قول خالٍ من الحقيقة؛ فإنه ليس استغفاراً وطلباً للمغفرة على الحقيقة؛ فلو كان ذلك؛ لندموا على ما فعلوا، وعزموا على أن لا يعودوا، ولكنهم إذا أتاهم عرضٌ آخر ورشوةٌ أخرى؛ يأخذوه، فاشتروا بآيات الله ثمناً قليلاً، واستبدلوا الذي هو أدنى بالذي هو خير! قال الله تعالى في الإنكار عليهم وبيان جراءتهم: {ألم يؤخَذْ عليهم ميثاقُ الكتاب أن لا يقولوا على الله إلا الحقَّ}: فما بالُهم يقولون عليه غير الحقِّ اتِّباعاً لأهوائهم وميلاً مع مطامعهم؟! {و} الحالُ أنهم قد {دَرَسوا ما فيه}: فليس عليهم فيه إشكالٌ، بل قد أتوا أمرهم متعمِّدين، وكانوا في أمرهم مستبصرين، وهذا أعظمُ للذنب وأشدُّ للَّوم وأشنع للعقوبة، وهذا من نقص عقولهم وسفاهة رأيهم بإيثار الحياة الدُّنيا على الآخرة، ولهذا قال: {والدارُ الآخرة خيرٌ للذين يتَّقون}: ما حرَّم الله عليهم من المآكل التي تُصاب وتؤكل رشوة على الحكم بغير ما أنزل الله وغير ذلك من أنواع المحرمات. {أفلا تعقلون}؛ أي: أفلا يكون لكم عقولٌ توازن بين ما ينبغي إيثاره وما ينبغي الإيثار عليه، وما هو أولى بالسعي إليه والتقديم له على غيره؟! فخاصيَّة العقل النظر للعواقب، وأما من نَظَرَ إلى عاجل طفيف منقطع يفوِّت نعيماً عظيماً باقياً؛ فأنَّى له العقل والرأي؟!
[169] ﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ ﴾ ’’پھر پیچھے آئے ان کے ناخلف‘‘ ان کا شر بڑھ گیا ﴿ وَّرِثُ٘وا الْكِتٰبَ ﴾ ’’وہ (ان کے بعد) کتاب کے وارث بن گئے‘‘ اور کتاب کے بارے میں لوگوں کا مرجع بن گئے اور انھوں نے اپنی خواہشات کے مطابق کتاب میں تصرف شروع کر دیا۔ ان پر مال خرچ کیا جاتا تھا تاکہ وہ ناحق فتوے دیں اور حق کے خلاف فیصلے کریں اور ان کے اندر رشوت پھیل گئی۔ ﴿ یَ٘اْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰؔذَا الْاَدْنٰى وَیَقُوْلُوْنَ ﴾ ’’لیتے سامان ادنیٰ زندگی کا اور کہتے‘‘ یعنی یہ اقرار کرتے ہوئے کہ یہ ظلم اور گناہ ہے، کہتے ﴿ سَیُغْفَرُ لَنَا﴾ ’’ہم کو معاف ہو جائے گا‘‘ ان کا یہ قول حقیقت سے خالی ہے کیونکہ درحقیقت یہ استغفار ہے نہ مغفرت کی طلب ہے۔ اگر انھوں نے حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ہوتی تو اپنے کیے پر ان کو ندامت ہوتی اور اس کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کرتے.... مگر اس کے برعکس جب ان کو اور مال اور رشوت پیش کی جاتی تو اسے لے لیتے تھے۔ پس انھوں نے آیات الٰہی کو بہت تھوڑی قیمت پر فروخت کر دیا اور اچھی چیز کے بدلے گھٹیا چیز لے لی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر نکیر کرتے ہوئے اور ان کی جسارت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّؔیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ﴾ ’’کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا کہ نہ بولیں اللہ پر سوائے سچ کے‘‘ پس انھیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی خواہشات نفس کے تحت اور طمع و حرص کی طرف میلان کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف باطل قول منسوب کرتے ہیں ۔ ﴿وَ﴾ دراں حالیکہ ﴿دَرَسُوْا مَا فِیْهِ﴾ ’’انھوں نے اس کتاب کے مشمولات کو پڑھ بھی لیا ہے۔‘‘ پس انھیں اس بارے میں کوئی اشکال نہیں بلکہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے جان بوجھ کر کیا ہے اور ان کو اس معاملے میں پوری بصیرت حاصل تھی اور ان کا یہ رویہ بہت بڑا گناہ، سخت ملامت کا موجب اور بدترین سزا کا باعث ہے اور یہ ان میں عقل کی کمی اور ان کی بے وقوفی پر مبنی رائے ہے کہ انھوں نے آخرت پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْن﴾ ’’اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے ہیں ‘‘ یعنی جو ان امور سے بچتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام ٹھہرا دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کے خلاف فیصلے کے عوض رشوت کھانے سے اور دیگر محرمات سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’کیا تم سمجھتے نہیں ۔‘‘ کیا تم میں وہ عقل نہیں جو یہ موازنہ کر سکے کہ کس چیز کو کس چیز پر ترجیح دی جانی چاہیے اور کون سی چیز اس بات کی مستحق ہے کہ اس کے لیے بھاگ دوڑ اور کوشش کی جائے اور اسے دیگر تمام چیزوں پر مقدم رکھا جائے... عقل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انجام پر نظر رکھتی ہے۔ رہا وہ شخص جو جلدی حاصل ہونے والی اور ختم ہو جانے والی نہایت حقیر اور خسیس چیز پر نظر رکھتا ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی بہت بڑی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے اس کے پاس عقل اور رائے کہاں ہے؟
#
{170} وإنما العقلاءُ حقيقة من وصفهم الله بقوله: {والذين يمسِّكونَ بالكتاب}؛ أي: يتمسَّكون به علماً وعملاً، فيعلمون ما فيه من الأحكام والأخبار التي علمها أشرف العلوم، ويعملون بما فيها من الأوامر التي هي قرة العيون وسرور القلوب وأفراح الأرواح وصلاح الدنيا والآخرة. ومن أعظم ما يجب التمسُّك به من المأمورات إقامة الصلاة ظاهراً وباطناً، ولهذا خصها بالذِّكر لفضلها وشرفها وكونها ميزان الإيمان وإقامتها داعيةٌ لإقامة غيرها من العبادات. ولما كان عملهم كلُّه إصلاحاً؛ قال تعالى: {إنَّا لا نُضيعَ أجر المصلحين}: في أقوالهم وأعمالهم ونيَّاتهم، مصلحين لأنفسهم ولغيرهم. وهذه الآية وما أشبهها دلَّت على أنَّ الله بعث رسله عليهم الصلاة والسلام بالصلاح لا بالفساد، وبالمنافع لا بالمضار، وأنَّهم بُعِثوا بصلاح الدارين؛ فكلُّ مَن كان أصلح؛ كان أقرب إلى اتِّباعهم.
[170] حقیقی عقل مند وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں وصف بیان کیا ہے ﴿ وَالَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ ﴾ ’’جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ یعنی علم و عمل کے لحاظ سے کتاب اللہ سے تمسک کرتے ہیں ۔ کتاب اللہ کے احکام و اخبار کا علم رکھتے ہیں ۔ کتاب اللہ کے احکام و اخبار کا علم، جلیل ترین علم ہے۔ وہ کتاب اللہ کے اوامر کا علم رکھتے ہیں جن میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کا سرور، روح کی فرحت اور ان کے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ ان مامورات میں سب سے بڑی چیز، جس کی پابندی واجب ہے، ظاہری اور باطنی طور پر نماز قائم کرنا ہے۔ بنابریں اس کی فضیلت و شرف، اس کے ایمان کی میزان و معیار ہونے اور اس کے قیام کا دوسری عبادات کے قیام کا سبب ہونے کے باعث اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے۔ چونکہ ان کا عمل تمام تر بھلائی پر مبنی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اِنَّا لَا نُ٘ضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ ﴾ ’’ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔‘‘ ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اپنے قول و اعمال اور نیتوں میں خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ اور اس نوع کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کو فساد اور ضرر رساں امور کے ساتھ مبعوث نہیں کیا بلکہ اصلاح اور نفع رساں احکام کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور دنیا و آخرت کی اصلاح کی خاطر ان کو بھیجا گیا ہے۔ پس جو کوئی جتنا زیادہ صالح ہے اتنا ہی زیادہ ان کی اتباع کے قریب ہے۔
#
{171} ثم قال تعالى: {وإذ نَتَقْنا الجبل فوقَهم}: حين امتنعوا من قَبول ما في التوراة، فألزمهم الله العمل، وَنَتقَ فوق رؤوسهم الجبل، فصار فوقهم: {كأنه ظُلَّة وظنُّوا أنه واقعٌ بهم}، وقيل لهم: {خذوا ما آتيناكم بقوَّةٍ}؛ أي: بجدٍّ واجتهاد. {واذكُروا ما فيه}: دراسة ومباحثة واتصافاً بالعمل به، {لعلَّكم تتَّقون}: إذا فعلتُم ذلك.
[171] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ ﴾ ’’اور جس وقت اٹھایا ہم نے پہاڑ ان کے اوپر‘‘ یعنی جب انھوں نے تورات کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر عمل کو لازم کر دیا اور ان کے سروں پر پہاڑ کو معلق کر دیا۔ پہاڑ ان پر یوں تھا ﴿ كَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّظَنُّوْۤا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ ﴾ ’’گویا کہ وہ سائبان ہو اور وہ سمجھے کہ پہاڑ ان پر گرنے کو ہے۔‘‘ ان سے کہا گیا۔ ﴿خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰؔكُمْ بِقُوَّةٍ ﴾ ’’پکڑو جو ہم نے دیا ہے تم کو زور سے‘‘ یعنی پوری کوشش اور جہد سے پکڑے رہو۔ ﴿ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ ﴾ ’’اور یاد رکھو جو اس میں ہے‘‘ درس، مباحثے اور عمل کے ذریعے سے اس کے مضامین کو یاد رکھو۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ ’’شاید کہ تم بچ جاؤ۔‘‘ جب تم یہ سب کچھ کر لو گے تو امید ہے کہ تم پرہیزگار بن جاؤ گے۔
آیت: 172 - 174 #
{وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (172) أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (173) وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (174)}
اور جب پکڑا( نکالا) آپ کے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کواور گواہ بنایا انھیں اوپر ان کی جانوں کے،(اور پوچھا) کیا نہیں ہوں میں تمھارا رب؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں! گواہی دیتے ہیں ہم (تاکہ نہ) کہو تم دن قیامت کے کہ ہم تو تھے اس بات سے غافل(172) یا (نہ) کہو تم بے شک شرک کیا تھا ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے اور تھے ہم اولاد (ان کی) بعد ان کے، کیا پس تو ہلاک کرتا ہے ہمیں بوجہ اس (فعل) کے جو کیا تھا گمراہ لوگوں نے(173) اوراسی طرح مفصل بیان کرتے ہیں ہم آیتیں اور تاکہ وہ رجوع کریں(174)
#
{172 ـ 173} يقول تعالى: {وإذْ أخَذَ ربُّك من بني آدمَ من ظهورهم ذُرِّيَّتهم}؛ أي: أخرج من أصلابهم ذريتهم، وجعلهم يتناسلون ويتوالدون قرناً بعد قرنٍ. {و}: حين أخرجهم من بطون أمَّهاتهم وأصلاب آبائهم، {أشهدهم على أنفسِهِم ألستُ بربِّكم}؛ أي: قرَّرهم بإثبات ربوبيَّته بما أودعه في فطرهم من الإقرار بأنه ربُّهم وخالقهم ومليكهم. قالوا: بلى؛ قد أقررنا بذلك؛ فإنَّ الله تعالى فطر عباده على الدين الحنيف القيم، فكلُّ أحدٍ فهو مفطورٌ على ذلك، ولكن الفطرة قد تُغيَّر وتُبدَّل بما يطرأ على العقول والعقائد الفاسدة ، ولهذا {قالوا بلى شَهِدْنا أن تَقولوا يوم القيامةِ إنَّا كنَّا عن هذا غافلين}؛ أي: إنما امتحنَّاكم حتى أقررتم بما تقرَّر عندكم من أنَّ الله تعالى ربُّكم؛ خشية أن تنكِروا يوم القيامة فلا تقرُّوا بشيء من ذلك، وتزعمون أن حجَّة الله ما قامت عليكم، ولا عندكم بها علم، بل أنتم غافلون عنها لاهون؛ فاليوم قد انقطعت حجَّتكم، وثبتت الحجة البالغة لله عليكم. أو تحتجون أيضاً بحجَّة أخرى، فتقولون: {إنَّما أشركَ آباؤنا من قَبْلُ وكُنَّا ذُرِّيَّةً من بعدِهم}: فحذونا حَذْوَهم، وتبعناهم في باطلهم. {أفتهلِكُنا بما فعل المبطلون}؟ فقد أودع الله في فطركم ما يدلُّكم على أن ما مع آبائكم باطلٌ، وأنَّ الحقَّ ما جاءت به الرسل، وهذا يقاوم ما وجدتم عليه آباءكم ويعلو عليه. نعم؛ قد يعرض للعبد من أقوال آبائه الضالِّين ومذاهبهم الفاسدة ما يظنُّه هو الحقَّ، وما ذاك إلا لإعراضه عن حجج الله وبيِّناته وآياته الأفقيَّة والنفسيَّة؛ فإعراضه عن ذلك وإقباله على ما قاله المبطلون، ربَّما صيَّره بحالة يُفضِّل بها الباطل على الحق. هذا هو الصواب في تفسير هذه الآيات، وقد قيل: إن هذا يوم أخذ الله الميثاق على ذريَّة آدم حين استخرجهم من ظهره وأشهدهم على أنفسهم فشهدوا بذلك فاحتجَّ عليهم بما أمرهم به في ذلك الوقت على ظلمهم في كفرهم وعنادهم في الدنيا والآخرة! ولكن ليس في الآية ما يدلُّ على هذا، ولا له مناسبة، ولا تقتضيه حكمة الله تعالى، والواقع شاهدٌ بذلك؛ فإنَّ هذا العهد والميثاق الذي ذَكَروا أنه حين أخْرَجَ اللهُ ذُرِّيَّةَ آدم من ظهره حين كانوا في عالم كالذَّرِّ لا يذكُرُه أحدٌ ولا يخطُرُ ببال آدميٍّ؛ فكيف يحتجُّ الله عليهم بأمرٍ ليس عندهم به خبرٌ ولا له عينٌ ولا أثرٌ؟!
[173,172] یعنی انسانوں کی صلبوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کے درمیان قرن بعد قرن سلسلہ تناسل و توالد جاری ہوا۔ ﴿وَ ﴾ ’’اور‘‘ جب ان کو ان کی ماؤں کے بطنوں اور ان کے آباء کی صلبوں سے نکالا ﴿اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ’’اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر، کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟‘‘ یعنی ان کی فطرت میں اپنے رب ہونے، ان کا خالق و مالک ہونے کا اقرار ودیعت کر کے اپنی ربوبیت کے اثبات کا اقرار کروایا۔ ﴿قَالُوْا بَلٰى﴾ ’’انھوں نے کہا‘‘ ہاں ! ہم نے اقرار کیا‘‘.... کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ پس ہرشخص کو دین حنیف پر تخلیق کیا گیا ہے۔ مگر عقل پر عقائد فاسدہ کے غلبہ کی وجہ سے کبھی کبھی فطرت میں تغیر و تبدل واقع ہو جاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قَالُوْا بَلٰى شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰؔذَا غٰفِلِیْ٘نَ﴾ ’’وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں ، کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔‘‘ یعنی ہم نے تمھارا امتحان لیا حتی کہ تم نے اس بات کا اقرار کیا، جو تمھارے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ تمھارا رب ہے اور ہم نے یہ امتحان اس لیے لیا کہ کہیں تم قیامت کے روز انکار نہ کر دو اور کسی بھی چیز کا اقرار نہ کرو اور یہ دعویٰ کرنے لگو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم نہیں ہوئی اور اس بارے میں تمھارے پاس کوئی علم نہ تھا بلکہ اس بارے میں تم بالکل لاعلم اور غافل تھے۔ پس آج تمھاری حجت منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر قائم ہوگئی۔ یا تم ایک اور حجت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہو ﴿اِنَّمَاۤ اَشْ٘رَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَؔكُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ﴾ ’’یہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد ان کی اولاد ہوئے۔‘‘پس ہم ان کے نقش قدم پر چلے اور ان کے باطل میں ہم نے ان کی پیروی کی۔ ﴿اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْ٘مُبْطِلُوْنَ ﴾ ’’کیا تو ہم کو ایسے فعل پر ہلاک کرتا ہے جو گمراہوں نے کیا‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھاری فطرت میں ایسی چیز ودیعت کر دی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ تمھارے آباء و اجداد کے پاس تھا وہ باطل تھا اور حق وہ ہے جو انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں اور یہ حق اس چیز کے خلاف اور اس پر غالب ہے جس پر تم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا۔ ہاں ! کبھی کبھی اپنے گمراہ آباء و اجداد کے بعض ایسے اقوال اور فاسد نظریات بندے کے سامنے آتے ہیں جنھیں وہ حق سمجھ بیٹھتا ہے اور ان کو حق سمجھنے کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے براہین، اس کے دلائل اور آفاق و انفس میں اس کی آیات سے گریز کرتا ہے۔ اس کا یہ گریز اور اہل باطل کے نظریات کی طرف اس کا متوجہ ہونا اس کو اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ باطل کو حق پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں یہی قرین صواب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے جناب آدمu کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکال کر ان سے عہد لیا اور ان کو خود ان کی ذات پر گواہ بنایا اور انھوں نے یہ گواہی دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان کو جو حکم دیا تھا اس کو دنیا و آخرت میں ان کے کفر و عناد میں ان کے ظلم کے خلاف ان پر حجت بنایا.... مگر آیت کریمہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس قول کی تائید کرتی ہو یا اس سے مناسبت رکھتی ہو... نہ حکمت الٰہی اس کا تقاضا کرتی ہے۔ اور واقعہ اس کا شاہد ہے، اس لیے کہ وہ عہد اور میثاق جس کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا اس وقت وہ چیونٹی کی مانند تھی، یہ عہد کسی کو یاد نہیں اور نہ کسی آدمی کے خیال میں اس میثاق کا گزر ہوا ہے ... پس اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو بندوں کے خلاف کیسے دلیل بنا سکتا ہے جس کی انھیں کوئی خبر ہی نہیں جس کی کوئی حقیقت ہے نہ اثر؟(آیت ﴿واذااخذ ربک…﴾ کی تفسیر میں مفسرین کی زیادہ تر دو رائے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے فاضل مفسر رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے کہ ربوبیت الٰہی کا اقرار و اعتراف اور اس کی گواہی سے مراد، توحید الٰہی پر انسان کی تخلیق ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں اللہ کی عظمت و محبت اور اس کی وحدانیت ودیعت کردی گئی ہے، حافظ ابن کثیر کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر کی رو سے عالم واقعات میں ایسا نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ ایک تمثیل ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ تمثیل نہیں ہے۔بلکہ ایک واقعہ ہے‘ اللہ تعالیٰ نے صلب آدم سے (براہ راست) پیدا ہونے والے انسانوں کو اور پھر بنی آدم کی صلبوں سے نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والے انسانوں کو چیونٹی کی شکل میں نکالا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہدو اقرار لیا۔ اس کی تائید میں بعض صحیح احادیث بھی ہیں اور صحابۂ کرام کے آثار و اقوال بھی اس کی مختصر تفصیل تفسیر ’’احسن البیان‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی لیے امام شوکانی نے اسی تفسیر کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں فاضل مفسر کا اس دوسری رائے کو یکسر غیر صحیح قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ یہ عہد و اقرار کسی کو یاد ہی نہیں ہے تو اس پر گرفت کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے؟ تو یہی اعتراض پہلی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کا انسان کی فطرت میں ودیعت کردینا کیا اس با کے لیے کافی ہے کہ وہ اس کی پابندی کرے‘ جب کہ اسے اس بات کا شعور و ادراک ہی نہیں ہے؟ اس کی جو توجیہ ہوسکتی ہے، دوسری تفسیر میں بھی وہی توجیہ ہے (ص۔ی)
#
{174} ولهذا؛ لما كان هذا أمراً واضحاً جليًّا؛ قال تعالى: {وكذلك نفصِّل الآيات}؛ أي: نبيِّنها ونوضِّحها، {ولعلَّهم يرجعون}: إلى ما أودع الله في فِطَرِهم وإلى ما عاهدوا الله عليه فيرتدعوا عن القبائح.
[174] چونکہ یہ معاملہ نہایت واضح اور نمایاں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم اس طرح آیات کو کھول کھول کر بیان کر کے واضح کرتے ہیں ‘‘ ﴿ وَلَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ ’’شاید وہ (اس چیز کی طرف) رجوع کریں ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور شاید وہ اس عہد کی طرف لوٹیں جو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اس طرح وہ برائیوں سے باز آجائیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ۔
آیت: 175 - 178 #
{وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ (175) وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (176) سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ (177) مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي وَمَنْ يُضْلِلْ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (178)}.
اور پڑھیے ان پر خبر اس شخص کی کہ دی تھیں ہم نے اسے اپنی آیتیں، پس نکل گیا وہ ان سے تو پیچھے لگا لیا اس کو شیطان نے پس ہوگیا وہ گمراہوں میں سے(175) اوراگر چاہتے ہم تو البتہ بلند کرتے اس کو بسبب ان (آیات) کے لیکن وہ جھک پڑا طرف زمین کی اور پیچھے لگ گیا وہ اپنی خواہش کے، پس مثال اس کی مانند مثال کتے کی ہے کہ اگر بوجھ لا دے تو اس پر تو بھی وہ ہانپتا ہے یا چھوڑ دے تو اس کو تو بھی ہانپتا ہے، یہی مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو، پس بیان کریں آپ یہی واقعات تاکہ وہ غور و فکر کریں(176) بری ہے مثال ان لوگوں کی جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اوراپنی جانوں پر تھے وہ ظلم کرتے(177) جسے ہدایت دے اللہ پس وہی ہے ہدایت یافتہ اور جسے گمراہ کردے (اللہ) تو وہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے(178)
#
{175} يقول تعالى لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: {واتلُ عليهم نبأ الذي آتَيْناه آياتِنا}؛ أي: علمناه [علم] كتاب الله فصار العالم الكبير والحبر النحرير فانسلخ منها فأتبعه الشيطان؛ أي: انسلخ من الاتِّصاف الحقيقيِّ بالعلم بآيات الله؛ فإنَّ العلم بذلك يصيِّر صاحبه متصفاً بمكارم الأخلاق ومحاسن الأعمال ويرقى إلى أعلى الدرجات وأرفع المقامات؛ فترك هذا كتاب الله وراء ظهره، ونبذ الأخلاق التي يأمر بها الكتاب، وخلعها كما يُخْلَعُ اللباس، فلما انسلخ منها؛ أتْبَعَهُ الشيطانُ؛ أي: تسلَّط عليه حين خرج من الحصن الحصين وصار إلى أسفل سافلين، فأزَّه إلى المعاصي أزًّا، {فكان من الغاوين}: بعد أن كان من الراشدين المرشدين.
[175] ﴿ وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا ﴾’’اور سنا دو ان کو حال اس شخص کا جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں ‘‘ یعنی ہم نے اسے کتاب اللہ کی تعلیم دی اور وہ ایک علامہ اور ماہر عالم بن گیا ﴿ فَانْ٘سَلَ٘خَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ ﴾ ’’پھر وہ ان کو چھوڑ نکلا اور شیطان اس کے پیچھے گیا‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے علم سے حقیقی طور پر متصف نہ ہوا کیونکہ آیات الٰہی کا علم، صاحب علم کو مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق سے متصف کر دیتا ہے اور اسے اعلیٰ ترین درجات اور بلند ترین مقامات پر فائز کر دیتا ہے۔ پس اس نے کتاب کو چھوڑ دیا اور ان اخلاق کو دور پھینک دیا جن کا حکم کتاب اللہ دیتی تھی اور ان اخلاق کو اس طرح (اپنی ذات سے) اتار دیا جس طرح لباس اتارا جاتا ہے۔ جب وہ آیات الٰہی سے نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور جب وہ مضبوط پناہ گاہ سے نکل بھاگا تو شیطان اس پر مسلط ہوگیا اور یوں وہ ادنیٰ ترین لوگوں میں شامل ہوگیا شیطان نے اسے گناہوں پر آمادہ کیا (اور وہ گناہوں میں گھر گیا) ﴿ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ﴾ ’’پس وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔‘‘ جبکہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے تھا۔
#
{176} وهذا لأنَّ الله تعالى خَذَلَه ووَكَلَه إلى نفسه؛ فلهذا قال تعالى: {ولو شِئْنا لرَفَعْناه بها}: بأن نوفِّقه للعمل بها، فيرتفع في الدنيا والآخرة، فيتحصَّن من أعدائه، {ولكنَّه}: فعل ما يقتضي الخذلان؛ فأخلدَ إلى الأرضِ؛ أي: إلى الشهوات السفليَّة والمقاصد الدنيويَّة، {واتَّبع هواه}: وترك طاعة مولاه. {فَمَثله}: في شدة حرصه على الدنيا وانقطاع قلبه إليها {كمثل الكلب إن تَحْمِلْ عليه يَلْهَثْ أو تترُكْهُ يلهثْ}؛ أي: لا يزال لاهثاً في كل حال، وهذا لا يزال حريصاً حرصاً قاطعاً قلبه لا يسدُّ فاقتَهُ شيءٌ من الدُّنيا. {ذلك مَثَلُ القوم الذين كذَّبوا بآياتنا}: بعد أن ساقها الله إليهم، فلم ينقادوا لها، بل كذَّبوا بها وردُّوها لهوانهم على الله واتِّباعهم لأهوائهم بغير هدى من الله. {فاقصُص القَصَص لعلَّهم يتفكَّرون}: في ضرب الأمثال وفي العبر والآيات؛ فإذا تفكَّروا؛ علموا، وإذا علموا؛ عملوا.
[176] کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ کر اس کے نفس کے حوالے کر دیا تھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا ﴾ ’’اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت بلند کر دیتے‘‘ یعنی ہم اسے آیات الٰہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتے اور یوں وہ دنیا و آخرت میں بلند درجات پاتا اور اپنے دشمنوں سے محفوظ ہو جاتا ﴿ وَلٰكِنَّهٗۤ ﴾ مگر اس نے ایسے افعال سرانجام دیے جو اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی توفیق سے محروم کر دے۔ ﴿ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ ﴾ ’’وہ ہو رہا زمین کا‘‘ یعنی وہ سفلی جذبات و خواہشات اور دنیاوی مقاصد کی طرف مائل ہوگیا ﴿ وَاتَّ٘بَعَ هَوٰىهُ﴾ اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا اور اپنے آقا و مولیٰ کی اطاعت چھوڑ دی۔ ﴿ فَمَثَلُهٗ ﴾ ’’تو اس کی مثال۔‘‘ پس دنیا کی حرص کی شدت اور اس کی طرف میلان میں اس کی حالت یہ ہوگئی ﴿ كَمَثَلِ الْكَلْبِ١ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُؔكْهُ یَلْهَثْ﴾ ’’جیسے کتا ہوتا ہے، اس پر تو بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے‘‘ یعنی وہ ہر حال میں (حرص کی وجہ سے) زبان باہر نکالے رکھتا ہے، سخت لالچی بنا رہتا ہے، اس میں ایسی حرص ہے جس نے اس کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے دنیا کی کوئی چیز اس کی محتاجی کو دور نہیں کر سکتی۔ ﴿ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ﴾ ’’یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنی آیات بھیجیں مگر انھوں نے ان کی اطاعت نہ کی بلکہ انھوں نے خواہشات نفس کی پیروی میں ان آیات کو جھٹلا کر ٹھکرا دیا۔ ﴿ فَاقْ٘صُصِ الْ٘قَ٘صَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَؔكَّـرُوْنَ ﴾ ’’پس بیان کرو یہ احوال تاکہ وہ غوروفکر کریں ‘‘ یعنی شاید وہ ان ضرب الامثال، آیات الٰہی اور عبرتوں میں غور و فکر کریں ۔ کیونکہ جب وہ غور و فکر کریں گے تو انھیں علم حاصل ہوگا، جب علم حاصل ہوگا تو اس پر عمل بھی کریں گے۔
#
{177} {ساء مَثَلاً القومُ الذين كذَّبوا بآياتِنا وأنفسَهم كانوا يظلمونَ}؛ أي: ساء وقَبُح مَثَلُ مَن كذب بآيات الله، وظلم نفسه بأنواع المعاصي؛ فإنَّ مَثَلَهم مَثَلُ السَّوْء. وهذا الذي آتاه الله آياته يُحتمل أنَّ المرادَ به شخصٌ معيَّن قد كان منه ما ذكره اللهُ فقص اللهُ قصَّته تنبيهاً للعباد، ويُحتمل أنَّ المراد بذلك أنه اسم جنس، وأنَّه شاملٌ لكلِّ من آتاه اللهُ آياته فانسلخ منها. وفي هذه الآيات الترغيب في العمل بالعلم، وأنَّ ذلك رفعة من الله لصاحبه وعصمة من الشيطان، والترهيب من عدم العمل به، وأنه نزولٌ إلى أسفل سافلين وتسليط للشيطان عليه. وفيه أنَّ اتِّباع الهوى وإخلادَ العبد إلى الشهوات يكون سبباً للخذلان.
[177] ﴿ سَآءَؔ مَثَلَا ِ۟ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاَنْفُسَهُمْ كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ ﴾ ’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انھوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔‘‘ یعنی اس شخص کی بہت بری مثال ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی کے ذریعے سے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ پس ان کی مثال بدترین مثال ہے۔ یہ شخص، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، احتمال ہے کہ اس سے کوئی معین شخص مراد ہو جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور بندوں کو تنبیہ کے لیے یہ قصہ بیان کیا اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد اسم جنس ہو اور اس کے عموم میں ہر وہ شخص شامل ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا ہو اور وہ ان سے نکل بھاگا ہو۔ ان آیات کریمہ میں علم پر عمل کرنے کی ترغیب ہے۔ نیز یہ کہ علم پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ صاحب علم کو رفعت عطا کرتا اور شیطان سے بچاتا ہے۔ نیز ان آیات کریمہ میں علم پر عدم عمل سے ڈرایا گیا ہے اس لیے کہ اگر علم پر عمل نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عمل نہ کرنے والے کو اسفل سافلین کے درجے پر اتار دیتا ہے اور اس پر شیطان کو مسلط کر دیتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور شہوات میں دھنس جاتا ہے تو یہ چیز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔
#
{178} ثم قال تعالى مبيناً أنه المنفرد بالهداية والإضلال: {مَن يهدِ الله}: بأن يوفِّقه للخيرات ويعصمه من المكروهات ويعلِّمه ما لم يكن يعلم، {فهو المهتدي}: حقًّا؛ لأنه آثر هدايته تعالى، {ومن يُضْلِلْ}: فيخذله ولا يوفِّقه للخير، {فأولئك هم الخاسرون}: لأنفسهم وأهليهم يوم القيامة، ألا ذلك هو الخسران المبين.
[178] پھر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ راہ راست دکھانا اور گمراہ کرنا صرف اسی اکیلے کے قبضۂ قدرت میں ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ ﴾ ’’جس کو اللہ ہدایت دے۔‘‘ یعنی نیکیوں کی توفیق عطا کر کے اللہ تعالیٰ جسے راہ راست دکھا دے اور ناپسندیدہ امور سے بچا لے اور ان چیزوں کے علم سے نواز دے جنھیں وہ نہیں جانتا تھا ﴿فَهُوَ الْمُهْتَدِیْ﴾ ’’تو وہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے‘‘ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ترجیح دی۔ ﴿وَمَنْ یُّضْلِلْ ﴾ ’’اور جس کو گمراہ کردے۔‘‘ یعنی جسے اس کے حال پر چھوڑ کر اور بھلائی کی توفیق سے محروم کر کے وہ گمراہ کر دے۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰؔسِرُوْنَ ﴾ ’’تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ یہی لوگ قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں ڈالنے والے ہیں ۔ خبردار! یہی کھلا خسارہ ہے۔
آیت: 179 #
{وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (179)}.
اور البتہ تحقیق پیدا کیے ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جن اورانسان، ان کے دل ہیں (لیکن) نہیں سمجھتے وہ ساتھ ان کے (حق کو) اوران کی آنکھیں ہیں (لیکن) نہیں دیکھتے وہ ساتھ ان کےاوران کے کان ہیں(لیکن) نہیں سنتے وہ ساتھ ان کے(حق)، یہی لوگ ہیں مانند چوپایوں کےبلکہ وہ (ان سے) بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ ہیں غافل(179)
#
{179} يقول تعالى مبيناً كثرة الغاوين الضالِّين المتَّبعين إبليس اللعين: {ولقد ذَرَأنا}؛ أي: أنشأنا، وبثثنا {لجهنَّم كثيراً من الجنِّ والإنس}: صارت البهائم أحسن حالة منهم. {لهم قلوبٌ لا يفقهون بها}؛ أي: لا يصلُ إليها فقهٌ ولا علمٌ إلاَّ مجرَّد قيام الحجة، {ولهم أعينٌ لا يبصرون بها}: ما ينفعُهم، بل فقدوا منفعتها وفائدتها، {ولهم آذانٌ لا يسمعون بها}: سماعاً يصل معناه إلى قلوبهم. {أولئك}: الذين بهذه الأوصاف القبيحة {كالأنعام}؛ أي: البهائم التي فقدت العقول، وهؤلاء آثروا ما يفنى على ما يبقى فسُلِبوا خاصية العقل. {بل هم أضلُّ}: من البهائم؛ فإنَّ الأنعام مستعملة فيما خُلِقت له، ولها أذهانٌ تدرك بها مضرَّتها من منفعتها؛ فلذلك كانت أحسن حالاً منهم. و {أولئك هم الغافلون}: الذين غفلوا عن أنفع الأشياء؛ غفلوا عن الإيمان بالله وطاعته وذِكْره، خُلِقَتْ لهم الأفئدة والأسماع والأبصار لتكونَ عوناً لهم على القيام بأوامر الله وحقوقه، فاستعانوا بها على ضدِّ هذا المقصود؛ فهؤلاء حقيقون بأن يكونوا ممَّن ذرأ الله لجهنَّم وخلقهم لها؛ فخلقهم للنار وبأعمال أهلها يعملون، وأما مَن استعمل هذه الجوارح في عبادة الله وانصبغ قلبُهُ بالإيمان بالله ومحبَّته ولم يغفل عن الله؛ فهؤلاء أهل الجنة وبأعمال أهل الجنة يعملون.
[179] اللہ تبارک و تعالیٰ راہ راست سے بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں اور شیطان لعین کے پیروکاروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا ﴾ ’’اور ہم نے پیدا کیا۔‘‘ یعنی ہم نے پیدا کیا اور پھیلایا ﴿ لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ﴾ ’’جہنم کے لیے بہت سے جن اور آدمی‘‘ پس چوپائے بھی ان سے بہتر حالت میں ہیں ۔ ﴿ لَهُمْ قُ٘لُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا﴾ ’’ان کے دل ہیں ، جن سے وہ سمجھتے نہیں ‘‘ یعنی علم اور سمجھ ان تک راہ نہیں پاتے، سوائے ان کے خلاف قیام حجت کے ﴿ وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا﴾ ’’ان کی آنکھیں ہیں ، جن سے وہ دیکھتے نہیں ‘‘ یعنی وہ ان آنکھوں سے اس طرح نہیں دیکھتے کہ دیکھنا ان کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ انھوں نے اپنی بینائی کی منفعت اور فائدے کو کھو دیا۔ ﴿ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا﴾ ’’ان کے کان ہیں ، جن سے وہ سنتے نہیں ‘‘ وہ ان کانوں سے اس طرح نہیں سنتے کہ ان کے دلوں تک معانی و مفاہیم پہنچ جائیں ۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی وہ لوگ جو ان اوصاف قبیحہ کے حامل ہیں ﴿كَالْاَنْعَامِ﴾ ’’چوپاؤں کی مانند ہیں ‘‘ جو عقل سے محروم ہیں ۔ انھوں نے فانی چیزوں کو ان چیزوں پر ترجیح دی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں پس ان سے عقل کی خاصیت سلب کر لی گئی۔ ﴿بَلْ هُمْ اَضَلُّ ﴾ ’’بلکہ وہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور بے سمجھ ہیں کیونکہ بہائم سے تو وہ کام لیے جاتے ہیں جن کاموں کے لیے ان کو تخلیق کیا گیا ہے، ان کے ذہن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مضرت و منفعت کا ادراک کرتے ہیں ۔ بنابریں چوپایوں کا حال ان کے حال سے اچھا ہے۔ ﴿اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ﴾ ’’وہی لوگ ہیں غافل‘‘ جو سب سے زیادہ نفع مند چیز سے غافل ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی اطاعت اور اس کے ذکر سے غافل ہیں حالانکہ ان کو دل، کان اور آنکھیں عطا کی گئیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں ان سے مدد لیں لیکن انھوں نے اس مقصد کے برعکس امور کے لیے ان کو استعمال کیا۔ پس یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو ان لوگوں میں شمار کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ میں جھونکنے کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جہنم کے اعمال سر انجام دے رہے ہیں ۔ رہا وہ شخص جو ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے، جس کا قلب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی محبت کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور وہ اللہ سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس ایسے ہی لوگ اہل جنت ہیں اور وہ اہل جنت کے اعمال سرانجام دیتے ہیں ۔
آیت: 180 #
{وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (180)}.
اور اللہ ہی کے لیے ہیں نام اچھے اچھے، سو تم پکارو اسے ساتھ ان (ناموں) کےاور چھوڑ دو ان لوگوں کو کج روی اختیار کرتے ہیں اس کے ناموں میں عنقریب بدلہ دیے جائیں گے وہ اس کا جو تھے وہ عمل کرتے(180)
#
{180} هذا بيانٌ لعظيم جلاله وسعة أوصافه بأن له الأسماء الحسنى؛ أي: له كل اسم حسن، وضابطه أنه كل اسم دال على صفة كمال عظيمة، وبذلك كانت حسنى؛ فإنها لو دلَّت على غير صفة، بل كانت علماً محضاً؛ لم تكن حسنى، وكذلك لو دلَّت على صفة ليست بصفة كمال، بل إما صفة نقص أو صفة منقسمة إلى المدح والقدح؛ لم تكن حسنى؛ فكلُّ اسم من أسمائه دال على جميع الصفة التي اشتُقَّ منها، مستغرقٌ لجميع معناها، وذلك نحو: {العليم} الدال على أنَّ له علماً محيطاً عامًّا لجميع الأشياء فلا يخرج عن علمه مثقال ذرةٍ في الأرض ولا في السماء، و {الرحيم} الدال على أن له رحمة عظيمة واسعة لكلِّ شيء، و {القدير} الدال على أن له قدرة عامَّة لا يُعْجِزُها شيء ... ونحو ذلك. ومن تمام كونها حسنى أنَّه لا يُدعى إلا بها، ولذلك قال: {فادعوه بها}: وهذا شاملٌ لدعاء العبادة ودعاء المسألة، فيُدعى في كل مطلوب بما يناسب ذلك المطلوب، فيقول الداعي مثلاً: اللهمَّ! اغفر لي، وارحمني؛ إنك أنت الغفور الرحيم. وتب عليَّ يا توَّاب! وارزقني يا رزاق! والطفْ بي يا لطيف! ونحو ذلك. وقوله: {وَذَروا الذين يُلحِدون في أسمائِهِ سيُجْزَوْن ما كانوا يعملون}؛ أي: عقوبة وعذاباً على إلحادهم في أسمائه. وحقيقة الإلحاد: الميلُ بها عما جُعِلَتْ له، إمَّا بأن يسمَّى بها من لا يستحقُّها؛ كتسمية المشركين بها لآلهتهم، وإما بنفي معانيها وتحريفها وأن يجعل لها معنى ما أراده الله ولا رسوله، وإما أن يشبِّه بها غيرها؛ فالواجب أن يُحذر الإلحاد فيها ويُحذر الملحدون فيها. وقد ثبت في الصحيح عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: «إنَّ لله تسعةً وتسعين اسماً من أحصاها دخل الجنة».
[180] یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے جلال کی عظمت اور اس کے اوصاف کی وسعت کو بیان کرتی ہے نیز یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اسمائے حسنیٰ ہیں ، یعنی اس کا ہر نام اچھا ہے۔ اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک عظیم صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے ان اسماء کو اسمائے حسنیٰ کہا گیا ہے۔ اگر یہ اسماء صفات پر دلالت نہ کرتے بلکہ محض علم ہوتے تو یہ اسماء ’’حسنیٰ‘‘ نہ ہوتے اس طرح اگر یہ اسماء کسی ایسی صفت پر دلالت کرتے جو صفت کمال نہ ہو بلکہ اس کے برعکس صفت نقص یا صفت منقسم ہوتے یعنی بہ یک وقت مدح و قدح پر دلالت کرتے تب بھی یہ اسماء ’’حسنیٰ‘‘ نہیں کہلا سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہر اسم پوری صفت پر دلالت کرتا ہے جس سے یہ اسم مشتق ہے اور وہ اس صفت کے تمام معنی کو شامل ہے۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک (اَلْعَلِیم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایسے علم کا مالک ہے جو عام ہے اور تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے، پس زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہیں ۔ اس کا اسم مبارک (اَلرَّحِیم) دلالت کرتا ہے کہ وہ عظیم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ (اَلْقَدِیر) دلالت کرتا ہے کہ وہ قدرت عامہ کا مالک ہے کوئی چیز بھی اس کی قدرت کو عاجز اور لاچار نہیں کر سکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء کا کامل طور پر (حُسْنٰی) ہونا یہ ہے کہ اس کو ان اسماء حسنیٰ کے سوا کسی اور اسم سے نہ پکارا جائے بنابریں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ﴿فَادْعُوْهُ بِهَا ﴾ ’’پس اس کو انھی ناموں سے پکارو‘‘ اور اس دعا میں دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں شامل ہیں ۔ پس ہر مطلوب میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اس اسم مبارک سے پکارا جائے جو اس مطلوب سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس دعا مانگنے والا یوں دعا مانگے ’’اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر بے شک تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ’’اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول کر‘‘ ’’اے رزق دینے والے مجھے رزق عطا کر‘‘ اور ’’اے لطف و کرم کے مالک مجھے اپنے لطف سے نواز...‘‘ وغیرہ۔ ﴿ وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىِٕهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں ، عنقریب ان کو ان کے عملوں کا بدلہ دیا جائے گا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی پاداش میں انھیں سخت سزا اور عذاب دیا جائے گا اور الحاد کی حقیقت یہ ہے کہ ان اسماء کو ان معانی سے ہٹا کر جن کے لیے ان کو وضع کیا گیا ہے، دوسری طرف موڑنا، (اور اس کی مختلف صورتیں ہیں )۔ (۱) ان ناموں سے ایسی ہستیوں کو موسوم کرنا جو ان ناموں کی مستحق نہیں ، مثلاً: مشرکین کا اپنے معبودوں کو ان ناموں سے موسوم کرنا۔ (۲) ان اسماء کے اصل معانی مراد کی نفی اور ان میں تحریف کر کے، ان کے کوئی اور معانی گھڑ لینا، جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں ۔ (۳) ان اسماء سے دوسروں کو تشبیہ دینا۔ پس واجب ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں الحاد سے بچا جائے اور اسماء میں الحاد کرنے والوں سے دور رہا جائے۔ صحیح حدیث میں نبئ اکرمe سے ثابت ہے، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کو یاد کر لیتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الشروط، باب مایجوزمن الاشتراط والثنیا فی الإقرار… الخ، ح: 2736)
آیت: 181 #
{وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (181)}.
اوران میں سے جنھیں پیدا کیا ہم نے ایک جماعت جو رہنمائی کرتی ہے ساتھ حق کےاور ساتھ اسی کے وہ عدل کرتی ہے(181)
#
{181} أي: ومن جملة من خلقنا أمة فاضلة كاملة في نفسها مكمِّلة لغيرها يهدون أنفسهم وغيرهم بالحقِّ فيعلمون الحقَّ ويعملون به ويعلِّمونه ويدعون إليه وإلى العمل به. {وبه يعدلون}: بين الناس في أحكامهم إذا حكموا في الأموال والدماء والحقوق والمقالات وغير ذلك. وهؤلاء أئمة الهدى ومصابيح الدُّجى، وهم الذين أنعم الله عليهم بالإيمان والعمل الصالح والتواصي بالحقِّ والتواصي بالصبر، وهم الصدِّيقون الذين مرتبتهم تلي مرتبة الرسالة، وهم في أنفسهم مراتب متفاوتة؛ كل بحسب حاله وعلوِّ منزلته؛ فسبحان من يختصُّ برحمته من يشاء والله ذو الفضل العظيم.
[181] ﴿ وَمِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا راستہ بتاتے ہیں ۔‘‘ یعنی ان تمام لوگوں میں جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ایک ایسا گروہ بھی ہے جو فضیلت کا مالک ہے، جو خود کامل ہے اور دوسروں کی حق کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، یہ لوگ حق کا علم رکھتے ہیں ، اس پر عمل کرتے ہیں ، حق کی تعلیم دیتے، اس کی طرف بلاتے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ﴿ وَبِهٖ یَعْدِلُوْنَ ﴾ ’’اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں ‘‘ جب وہ لوگوں کے مال، خون، حقوق اور ان کے مقالات وغیرہ کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں تو حق کی بنیاد پر انصاف کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ائمہ ہدی اور تاریکیوں میں روشن قندیل ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان، عمل صالح، حق کی وصیت اور صبر کی وصیت جیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ صدیق ہیں جن کا مرتبہ رسالت کے بعد ہے اور خود ان کے مراتب میں ان کے احوال اور قدر و منزلت کے مطابق تفاوت ہے۔پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتی ہے، مختص کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کی تکذیب کی، جو محمد رسول اللہe پر نازل ہونے والی کتاب اور ہدایت کی صحت پر دلالت کرتی ہیں ، پس انھوں نے ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو قبول نہ کیا ﴿سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسی جگہ سے پکڑیں گے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی‘‘ یعنی اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ان کو وافر رزق بہم پہنچاتا ہے۔
آیت: 182 - 186 #
{وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ (183) أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (184) أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (185) مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (186)}.
اور وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، ضرور بتدریج پکڑیں گے ہم انھیں جہاں سے انھیں علم بھی نہ ہوگا(182) اور مہلت دیتا ہوں میں انھیں، بلاشبہ میری تدبیر انتہائی مضبوط ہے(183)کیانہیں غور کیا انھوں نے کہ نہیں ہے ان کے ساتھی (پیغمبر) کو کوئی جنون؟ نہیں ہے وہ مگر ڈرانے والا ظاہر(184)اور کیا نہیں دیکھا انھوں نے بادشاہی میں آسمانوں اورزمین کی اور جو کچھ پیدا کیا اللہ نے ہر چیز سے؟ اور یہ کہ شاید قریب آگئی مقررہ مدت ان کی پس ساتھ کس بات کے، بعد اس (قرآن) کے وہ ایمان لائیں گے؟(185)جس کو گمراہ کردے اللہ تو نہیں کوئی ہدایت دینے والا اسےاور وہ چھوڑ دیتا ہے انھیں ان کی سرکشی میں، وہ سرگرداں پھرتے ہیں(186)
#
{183} {وأملي لهم}؛ أي: أمهلهم حتى يظنُّوا أنهم لا يؤخَذون ولا يعاقَبون، فيزدادون كفراً وطغياناً وشرًّا إلى شرِّهم، وبذلك تزيد عقوبتهم ويتضاعف عذابهم، فيضرُّون أنفسهم من حيث لا يعلمون. ولهذا قال: {إن كيدي متينٌ}؛ أي: قويٌّ بليغٌ.
[183] ﴿وَاُمْلِیْ لَهُمْ﴾ ’’اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں ‘‘ یہاں تک کہ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور ان کو سزا نہیں دی جائے گی، پس وہ کفر اور سرکشی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کے شر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بنابریں ان کی سزا میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ان کا عذاب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور انھیں علم تک نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ ﴾ ’’میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے۔‘‘ یعنی میری چال بہت مضبوط اور کارگر ہے۔
#
{184} {أوَ لَمْ يتفكَّروا ما بصاحبهم}: [محمدٍ]- صلى الله عليه وسلم - {من جِنَّةٍ}؛ أي: أولم يُعْمِلوا أفكارهم وينظروا هل في صاحبهم الذي يعرفونه ولا يخفى عليهم من حاله شيءٌ؛ هل هو مجنونٌ؟! فلينظروا في أخلاقه وهديه ودلِّه وصفاته، وينظروا فيما دعا إليه؛ فلا يجدون فيه من الصفات إلا أكملها، ولا من الأخلاق إلا أتمَّها، ولا من العقل والرأي إلا ما فاق به العالمين، ولا يدعو إلا لكلِّ خير، ولا ينهى إلا عن كلِّ شرٍّ! أفبهذا يا أولي الألباب جِنَّة ؟! أم هو الإمام العظيم والناصح المبين والماجد الكريم والرءوف الرحيم؟! ولهذا قال: {إن هو إلا نذيرٌ مبينٌ}؛ أي: يدعو الخلق إلى ما يُنجيهم من العذاب، ويحصِّل لهم الثواب.
[184] ﴿ اَوَلَمْ یَتَفَؔكَّـرُوْا١ٚ مَا بِصَاحِبِهِمْ﴾ ’’کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو‘‘ یعنی محمد مصطفیe کو ﴿ مِّنْ جِنَّةٍ ﴾ ’’کوئی جنون نہیں ‘‘ یعنی کیا انھوں نے غور و فکر نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کا حال، جس کو یہ اچھی طرح جانتے ہیں ، چھپا ہوا نہیں ہے۔ کیا وہ پاگل ہے؟ پس اس کے اخلاق و اطوار، اس کی سیرت، طریقے اور اس کے اوصاف کو دیکھیں اور اس کی دعوت میں غور و فکر کریں ۔ وہ اس میں کامل ترین صفات، بہترین اخلاق اور ایسی عقل و رائے کے سوا کچھ نہیں پائیں گے جو تمام جہانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ وہ بھلائی کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا اور برائی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا۔ پس اے صاحبان عقل و دانش! کیا اس شخص کو جنون لاحق ہے یا یہ شخص بہت بڑا رہ نما، کھلا خیر خواہ، مجد و کرم کا مالک اور رؤف و رحیم ہے؟ بنابریں فرمایا: ﴿ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’وہ تو صرف ڈرانے والا ہے‘‘ یعنی وہ تمام مخلوق کو اس چیز کی طرف بلاتا ہے جو انھیں عذاب سے نجات دے اور جس سے انھیں ثواب حاصل ہو۔
#
{185} {أولم ينظروا في مَلَكوت السموات والأرض}: فإنهم إذا نظروا إليها؛ وجدوها أدلة دالة على توحيد ربِّها وعلى ما لَه من صفات الكمال. {و}: كذلك لينظروا إلى جميع {ما خَلَقَ الله من شيء}: فإن جميع أجزاء العالم يدلُّ أعظم دِلالة على علم الله وقدرته وحكمته وسَعَةِ رحمته وإحسانه ونفوذ مشيئته وغير ذلك من صفاته العظيمة الدالَّة على تفرُّده بالخلق والتدبير الموجبة لأن يكون هو المعبودَ المحمودَ المسبَّح الموحَّد المحبوب. وقوله: {وأنْ عسى أن يكونَ قد اقترب أجَلُهم}؛ أي: لينظروا في خصوص حالهم، وينظروا لأنفسهم قبل أن يقتربَ أجلُهم ويفجأهم الموتُ وهم في غفلةٍ معرضونَ؛ فلا يتمكَّنون حينئذٍ من استدراك الفارط. {فبأيِّ حديثٍ بعدَه يؤمنون}؛ أي: إذا لم يؤمنوا بهذا الكتاب الجليل؛ فبأيِّ حديث يؤمنون به؟! أبكتب الكذب والضلال؟! أم بحديث كل مفترٍ دجَّال؟!
[185] ﴿ اَوَلَمْ یَنْظُ٘رُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’کیا انھوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں نظر نہیں کی‘‘ کیونکہ جب یہ لوگ زمین و آسمان کی بادشاہی میں غور و فکر کریں گے تو وہ اسے اس کے رب کی وحدانیت اور اس کی صفات کمال پر دلیل پائیں گے۔ ﴿ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’اور جو کچھ پیدا کیا اللہ نے ہر چیز سے‘‘ اسی طرح وہ ان تمام چیزوں میں غور و فکر کریں کیونکہ کائنات کے تمام اجزا اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کی بے کراں رحمت، اس کے احسان، اس کی مشیت نافذہ اور اس کی ان عظیم صفات پر سب سے بڑی دلیل ہیں ، جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ اکیلا خلق و تدبیر کا مالک ہے وہ اکیلا معبود محمود، وہ اکیلا پاکیزگی کا مستحق اور واحد محبوب ہے۔ فرمایا ﴿ وَّاَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ﴾ ’’اور شاید کہ قریب آ گیا ہو ان کا وعدہ‘‘ یعنی وہ اپنے خصوصی احوال میں غور کریں اس سے قبل کہ ان کا وقت آن پہنچے اور اچانک ان کی غفلت اور اعراض کی حالت میں موت کا پنجہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے اور اس وقت وہ اپنی کوتاہی کا استدراک نہ کر سکیں ﴿ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭؔ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’تو اس کے بعد وہ اور کسی بات پر ایمان لائیں گے۔‘‘ یعنی اگر یہ اس جلیل القدر کتاب پر ایمان نہیں لائے تو پھر کون سی بات پر ایمان لائیں گے؟ کیا یہ جھوٹ اور گمراہی کی کتابوں پر ایمان لائیں گے؟ کیا وہ ہر بہتان طراز اور دجال کی بات پرایمان لائیں گے؟
#
{186} ولكن الضالَّ لا حيلة فيه ولا سبيل إلى هدايته، ولهذا قال تعالى: {مَن يُضْلِلِ الله فلا هاديَ له وَيَذَرُهم في طغيانِهِم يعمهونَ}؛ أي: متحيَّرون ، يتردَّدون لا يخرجون منه، ولا يهتدون إلى حقٍّ.
[186] مگر گمراہ شخص کی ہدایت کی کوئی سبیل نہیں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَیَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ ﴾ ’’جس کو اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور اللہ چھوڑے رکھتا ہے ان کو گمراہی میں سرگرداں ‘‘ یعنی وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگرداں پھرتے ہیں ، وہ اپنی سرکشی سے نکل کر حق کی طرف نہیں آتے۔
آیت: 187 - 188 #
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (187) قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (188)}.
سوال کرتے ہیں آپ سے قیامت کے بارے میں کہ کب ہے واقع ہونا اس کا؟ کہہ دیجیے! یقینا اس کا علم نزدیک میرے رب ہی کے ہے، نہیں ظاہر کرے گا اس کو اس کے وقت پر مگر وہی، بھاری (حادثہ) ہے وہ (قیامت) آسمانوں اورزمین میں، نہیں آئے گی وہ تمھارے پاس مگر اچانک ہی، وہ (لوگ) سوال کرتے ہیں آپ سے گویا کہ آپ پوری تحقیق کرچکے ہیں اس کی بابت، فرما دیجیے! اس کا علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے(187) کہہ دیجیے! نہیں اختیار رکھتا میں اپنی جان کے لیے نفع کا اور نہ نقصان کا مگر جو چاہے اللہ اوراگر ہوتا میں جانتا غیب تو البتہ بہت حاصل کرلیتا میں بھلائیاں اور نہ پہنچتی مجھے تکلیف ، نہیں ہوں میں (کچھ بھی) مگر ڈرانے والا (کافروں کو) اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں(188)
#
{187} يقول تعالى لرسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -: {يسألونَك}؛ أي: المكذبون لك المتعنِّتون {عن الساعة أيان مُرْساها}؛ أي: متى وقتها التي تجيء به؟ ومتى تحِلُّ بالخلق؟ {قل إنَّما علمُها عند ربي}؛ أي: إنه تعالى المختصُّ بعلمها، {لا يجلِّيها لوقتها إلا هو}؛ أي: لا يظهرها لوقتها الذي قُدِّر أن تقوم فيه إلا هو. {ثَقُلَتْ في السموات والأرض}؛ أي: خفي علمها على أهل السماوات والأرض واشتدَّ أمرُها أيضاً عليهم فهم من الساعة مشفقون. {لا تأتيكم إلَّا بغتةً}؛ أي: فجأة من حيث لا يشعرون لم يستعدُّوا لها ولم يتهيؤوا لها. {يسألونك كأنَّك حَفِيٌّ عنها}؛ أي: هم حريصون على سؤالك عن الساعة كأنك مستحفٍ عن السؤال عنها، ولم يعلموا أنك لكمال علمك بربِّك وما ينفعُ السؤال عنه غير مبال بالسؤال [عنها، ولا حريص على ذلك، فَلِمَ لا يقتدون بك؟ ويكفون عن الاستحفاء عن هذا السؤال] الخالي من المصلحة المتعذِّر علمه؛ فإنَّه لا يعلمها نبيٌّ مرسلٌ ولا مَلَكٌ مقرَّب، وهي من الأمور التي أخفاها عن الخلق لكمال حكمته وسعة علمه. {قل إنَّما علمُها عند الله ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمون}: فلذلك حرصوا على ما لا ينبغي الحرص عليه، وخصوصاً مثل حال هؤلاء الذين يتركون السؤال عن الأهمِّ ويَدَعون ما يجبُ عليهم من العلم، ثم يذهبون إلى ما لا سبيل لأحدٍ أن يدركه ولا هُم مطالبون بعلمه.
[187] اللہ تبارک و تعالیٰ جناب محمد مصطفیe سے فرماتا ہے ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ ﴾ ’’آپ سے پوچھتے ہیں ۔‘‘ یعنی یہ جھٹلانے والے اور تلبیس کی غرض سے سوال کرنے والے آپe سے پوچھتے ہیں ۔ ﴿ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّ٘انَ مُرْسٰؔىهَا ﴾ ’’قیامت کے بارے میں ، کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔‘‘ یعنی وہ وقت کب ہوگا جب قیامت کی گھڑی آئے گی اور مخلوق میں قیامت قائم ہوگی۔ ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے‘‘ یعنی قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ ﴿ لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ﴾ ’’وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔‘‘ یعنی وہ وقت جو اس کے قائم ہونے کے لیے مقرر کیا ہوا ہے، صرف اللہ تعالیٰ ہی ظاہر کرے گا ﴿ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’وہ بھاری بات ہے آسمانوں اور زمین میں ‘‘ یعنی زمین و آسمان کے رہنے والوں پر قیامت کی گھڑی مخفی ہے، اس گھڑی کا معاملہ ان کے لیے نہایت شدید اور وہ اس گھڑی سے بہت خوف زدہ ہیں ۔ ﴿ لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً﴾ ’’اور وہ ناگہاں تم پر آجائے گی۔‘‘ یہ گھڑی اچانک انھیں اس طرح آئے گی کہ وہ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگی اور اس کے لیے وہ تیار بھی نہ ہوں گے۔ ﴿یَسْـَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَا ﴾ ’’یہ آپ سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں ۔‘‘ وہ اس گھڑی کے بارے میں آپ سے سوال کرنے کے بہت خواہش مند ہیں گویا کہ آپ اس سوال کے متعلق پورا علم رکھتے ہیں اور انھوں نے اس بات کو نہیں جانا کہ باوجود اس بات کے کہ آپ کو اپنے رب کی بابت کمال علم حاصل ہے اور یہ کہ رب سے کون سی بات پوچھنی فائدہ مند ہے، آپ ایسے سوال کی پروا نہیں کرتے تھے جو مصلحت سے خالی ہوتا اور جس کا جاننا ناممکن ہوتا، قیامت کی گھڑی کو کوئی رسول جانتا ہے نہ کوئی مقرب فرشتہ۔ اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت اور وسیع علم کی بنا پر مخلوق سے مخفی رکھا ہے۔ ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اس قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ اسی لیے وہ اس چیز کے خواہش مند ہوتے ہیں جس کی خواہش کرنا ان کے لیے مناسب نہیں ۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ان اہم امور کے بارے میں تو سوال نہیں کرتے، جن کے بارے میں علم حاصل کرنا ان پر فرض ہے اور ان امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں جن کے بارے میں حصول علم کی کوئی سبیل نہیں ہوتی، نہ ان سے یہ مطالبہ ہی کیا جائے گا کہ انھوں نے اس کا علم حاصل کیوں نہیں کیا۔
#
{188} {قل لا أملِكُ لنفسي نفعاً ولا ضرًّا}: فإني فقير مدبَّر، لا يأتيني خيرٌ إلا من الله، ولا يَدْفَعُ عني الشرَّ إلا هو، وليس لي من العلم إلا ما علمني الله تعالى. {ولو كنتُ أعلم الغيبَ لاستكثرتُ من الخير وما مسَّني السوءُ}؛ أي: لفعلت الأسباب التي أعلم أنها تنتج لي المصالح والمنافع، ولحذرتُ من كلِّ ما يفضي إلى سوءٍ ومكروهٍ؛ لعلمي بالأشياء قبل كونها، وعلمي بما تفضي إليه، ولكني لعدم علمي قد ينالني ما ينالني من السوء وقد يفوتني ما يفوتني من مصالح الدُّنيا ومنافعها؛ فهذا أدلُّ دليل على أني لا علم لي بالغيب. {إن أنا إلا نذيرٌ}: أنذر العقوبات الدينيَّة والدنيويَّة والأخرويَّة، وأبيِّن الأعمال المفضية إلى ذلك وأحذِّر منها. وبشير بالثواب العاجل والآجل، ببيان الأعمال الموصلة إليه والترغيب فيها، ولكن ليس كلُّ أحدٍ يقبل هذه البشارة والنذارة، وإنما ينتفع بذلك ويقبله المؤمنون. وهذه الآيات الكريمات مبيِّنة جهل من يقصد النبي - صلى الله عليه وسلم - ويدعوه لحصول نفع أو دفع ضرٍّ؛ فإنَّه ليس بيده شيء من الأمر، ولا ينفع مَنْ لم ينفعْه الله، ولا يدفعُ الضرَّ عمَّن لم يدفعْه الله عنه، ولا له من العلم إلاَّ ما علَّمه الله [تعالى]، وإنما ينفع مَنْ قَبِلَ ما أرسل به من البشارة والنذارة وعمل بذلك؛ فهذا نفعه عليه السلام الذي فاق نفع الآباء والأمهات والأخلاَّء والإخوان، بما حثَّ العباد على كلِّ خير، وحذَّرهم عن كلِّ شرٍّ، وبينه لهم غاية البيان والإيضاح.
[188] ﴿قُ٘لْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْ٘سِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا ﴾ ’’کہہ دیجیے! میں تو اپنے نفس کے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا‘‘ اس لیے کہ میں تو محتاج بندہ ہوں اور کسی دوسری ہستی کے دست تدبیر کے تحت ہوں ۔ مجھے اگر کوئی بھلائی عطا ہوتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور مجھ سے شر بھی کوئی دور کرتا ہے تو صرف وہی اور میرے پاس کوئی علم بھی نہیں ، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے ﴿وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَ٘رْتُ مِنَ الْخَیْرِ١ۛۖۚ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ﴾ ’’اگر میں غیب جان لیا کرتا تو بہت بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے برائی کبھی نہ پہنچتی‘‘ یعنی میں وہ اسباب مہیا کر لیتا جن کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ وہ مصالح اور منافع پر منتج ہوں گے اور میں ہر تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیز سے بچ جاتا کیونکہ مجھے ان کے وقوع کا بھی پہلے ہی سے علم ہوتا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ مگر مجھے غیب کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی تکلیف بھی پہنچتی ہے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی مجھ سے دنیاوی فوائد اور مصالح بھی فوت ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ اس بات کی اولین دلیل ہے کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ ﴿ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ ﴾ ’’میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں ۔‘‘ یعنی میں تو صرف دنیاوی، دینی اور اخروی سزاؤں سے ڈراتا ہوں اور ان اعمال سے آگاہ کرتا ہوں جو ان سزاؤں کا باعث بنتے ہیں اور سزاؤں سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ﴿وَّبَشِیْرٌ ﴾ ’’اور خوشخبری سنانے والا ہوں ۔‘‘ اور ثواب عاجل و آجل کی منزل تک پہنچانے والے اعمال کو واضح کر کے اور ان کی ترغیب دے کر اس ثواب کی خوشخبری سناتا ہوں ۔ مگر ہر شخص اس تبشیر و انذار کو قبول نہیں کرتا بلکہ صرف اہل ایمان ہی اس بشارت و انذار کو قبول کر کے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ یہ آیات کریمہ اس شخص کی جہالت کو بیان کرتی ہیں جو نبئ اکرمe کی ذات کو مقصود بناتا ہے اور حصول منفعت اور دفع مضرت کے لیے حضورe کو پکارتا ہے.... کیونکہ رسول اللہe کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ، جسے اللہ تعالیٰ نفع پہنچانا نہ چاہے آپ اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ جس سے ضرر دور نہ کرے آپ اس سے ضرر کو دور نہیں کر سکتے۔ اسی طرح آپ کے پاس علم بھی صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ صرف تبشیر و انذار اور ان پر عمل ہی فائدہ دیتا ہے جن کے ساتھ آپe کو مبعوث کیا گیا۔ یہ تبشیر اور انذار ہی آپe کی طرف سے فائدہ ہے جو ماں باپ، دوست احباب اور بھائیوں کی طرف سے فائدے پر فوقیت رکھتا ہے، یہی وہ نفع ہے جس کے ذریعے سے بندوں کو ہر بھلائی پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ہر برائی سے ان کے لیے حفاظت ہے اور اس میں ان کے لیے حد درجہ بیان اور توضیح ہے۔
آیت: 189 - 193 #
{هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (189) فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (190) أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (191) وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (192) وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَتَّبِعُوكُمْ سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ أَدَعَوْتُمُوهُمْ أَمْ أَنْتُمْ صَامِتُونَ (193)}.
وہی ہے (اللہ) جس نے پیدا کیا تمھیں ایک جان سے اور بنایا اس نے اس سے اس کا جوڑاتاکہ وہ سکون حاصل کرے اس سے، پس جب صحبت کی اس نے بیوی سے تو اٹھایا اس نے حمل ہلکا، پس وہ لیے پھرتی رہی اس کو، سو جب بوجھل ہو گئی وہ تو دعا کی ان دونوں نے اللہ، اپنے رب سے کہ اگر دیا تو نے ہمیں تندرست (بچہ) تو ہوں گے ہم شکر گزاروں میں سے(189) پس جب دیا اللہ نے انھیں تندرست (بچہ) تو بنا لیے انھوں نے اللہ کے شریک اس میں جو دیا تھا اس نے انھیں پس بلند تر ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں(190) کیا شریک ٹھہراتے ہیں وہ ان کو جو نہیں پیدا کرتے کوئی چیز بھی اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں(191) اور نہیں طاقت رکھتے وہ، ان (مشرکین) کی مدد کرنے کی اورنہ اپنی ہی وہ مدد کر سکتے ہیں(192) اور اگر بلاؤ تم انھیں طرف ہدایت کی تو نہیں پیروی کریں گے وہ تمھاری، برابر ہے اوپر تمھارے خواہ تم بلاؤ ان کو یا ہوتم خاموش رہنے والے(193)
#
{189} أي: {هو الذي خلقكم}: أيها الرجال والنساء المنتشرون في الأرض على كثرتكم وتفرُّقكم، {من نفس واحدةٍ}: وهو آدمُ أبو البشر - صلى الله عليه وسلم -، {وجعل منها زوجَها}؛ أي: خلق من آدم زوجته حواء. لأجل أن يسكن إليها، لأنها إذا كانت منه؛ حصل بينهما من المناسبة والموافقة ما يقتضي سكونَ أحدهما إلى الآخر، فانقاد كلٌّ منهما إلى صاحبه بزمام الشهوة. {فلما تغشَّاها}؛ أي: تجلَّلها مجامعاً لها؛ قدَّر الباري أن يوجد من تلك الشهوة ـ وذلك الجماع ـ النسل، فحملتْ {حملاً خفيفاً}، وذلك في ابتداء الحمل لا تحس به الأنثى ولا يثقلها. {فلما} استمرَّت [به] و {أثقلت} به حين كبر في بطنها؛ فحينئذٍ صار في قلوبهما الشفقة على الولد وعلى خروجه حيًّا صحيحاً سالماً لا آفة فيه، فدَعَوَا {الله ربَّهما لئن آتَيْتنَا}: ولداً: {صالحاً}؛ أي: صالح الخلقة تامّها لا نقص فيه، {لنكوننَّ من الشاكرين}.
[189] ﴿ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ ﴾ ’’وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا۔‘‘اے مردو اور عورتو! جو روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہو، تمھاری کثرت تعداد اور تمھارے متفرق ہونے کے باوصف، ﴿ مِّنْ نَّ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ ﴾ ’’ایک جان سے۔‘‘ اور وہ ہیں ابوالبشر آدمu۔ ﴿ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾ ’’اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا‘‘ یعنی آدمu سے ان کی بیوی حوا [ کو تخلیق کیا۔ ﴿ لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا ﴾ ’’تاکہ اس کے پاس آرام پکڑے‘‘ چونکہ حواء کو آدم سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے ان دونوں کے مابین ایسی مناسبت اور موافقت موجود ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں اور شہوت کے تعلق سے ایک دوسرے کی اطاعت کریں ۔ ﴿فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا ﴾ ’’سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے۔‘‘ یعنی جب آدمی نے اپنی بیوی سے مجامعت کی تو باری تعالیٰ نے یہ بات مقدر کردی کہ اس شہوت اور جماع سے ان کی نسل وجود میں آئے اور اس وقت ﴿ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا ﴾ ’’حمل رہا ہلکا ساحمل‘‘ یہ کیفیت حمل کے ابتدائی ایام میں ہوتی ہے عورت اس کو محسوس نہیں کر پاتی اور نہ اس وقت یہ حمل بوجھل ہوتا ہے۔ ﴿ فَلَمَّاۤ ﴾ ’’پس جب‘‘ یہ حمل اسی طرح موجود رہا ﴿ اَثْقَلَتْ ﴾ ’’بوجھل ہوگئی‘‘ یعنی اس حمل کی وجہ سے، جبکہ وہ حمل بڑا ہو جاتا ہے تو اس وقت والدین کے دل میں بچے کے لیے شفقت، اس کے زندہ صحیح و سالم اور ہر آفت سے محفوظ پیدا ہونے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ بنابریں ﴿ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَیْتَنَا ﴾ ’’دونوں نے دعا کی اللہ اپنے رب سے، اگر بخشا تو نے ہم کو‘‘ یعنی بچہ ﴿صَالِحًا ﴾ ’’صحیح و سالم‘‘ یعنی صحیح الخلقت، پورا اور ہر نقص سے محفوظ ﴿ لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’تو ہم شکر گزار بندوں میں سے ہوں گے۔‘‘
#
{190} {فلما آتاهما صالحاً}: على وَفْق ما طَلَبَا وتمَّت عليهما النعمة فيه، {جعلا له شركاء فيما آتاهما}؛ أي: جعلا لله شركاء في ذلك الولد الذي انفرد الله بإيجاده والنعمة به وأقرَّ به أعين والديه، فعبَّداه لغير الله: إمّا أن يسمياه بعبد غير الله؛ كعبد الحارث وعبد العزَّى وعبد الكعبة ونحو ذلك، أو يشركا في الله في العبادة بعدما منَّ الله عليهما بما منَّ من النعم التي لا يحصيها أحدٌ من العباد، وهذا انتقالٌ من النوع إلى الجنس؛ فإنَّ أول الكلام في آدم وحواء، ثم انتقل [إلى] الكلام في الجنس، ولا شكَّ أنَّ هذا موجود في الذُّرية كثيراً؛ فلذلك قرَّرهم الله على بطلان الشرك، وأنهم في ذلك ظالمون أشدَّ الظلم، سواء كان الشرك في الأقوال أم في الأفعال؛ فإنَّ الخالق لهم من نفس واحدة، الذي خلق منها زوجها، وجعل لهم من أنفسهم أزواجاً، ثم جعل بينهم من المودَّة والرحمة ما يسكُنُ بعضُهم إلى بعض ويألفه ويلتذُّ به، ثم هداهم إلى ما به تحصل الشهوة واللَّذة والأولاد والنسل، ثم أوجد الذُّرية في بطون الأمهات وقتاً موقَّتاً تتشوَّف إليه نفوسهم ويدعون الله أن يخرِجَه سويًّا صحيحاً، فأتمَّ الله عليهم النعمة، وأنالهم مطلوبهم، أفلا يستحقُّ أن يعبدوه ولا يشركوا به في عبادته أحداً ويخلصوا له الدين؟!
[190] ﴿ فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا ﴾ ’’پس جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے۔‘‘ یعنی ان کی دعا قبول کرتے ہوئے جب ان کو صحیح سالم بچہ عطا کیا اور اس بارے میں ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دی ﴿ جَعَلَا لَهٗ شُ٘رَؔكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا ﴾ ’’تو اس میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی اس بچے کے عطا ہونے پر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیے۔ جس کو اکیلا اللہ تعالیٰ وجود میں لایا ہے اس نے یہ نعمت عطا کی ہے اور اسی نے یہ بچہ عطا کر کے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ پس انھوں نے اپنے بیٹے کو غیر اللہ کا بندہ بنا دیا۔ یا تو اسے غیر اللہ کے بندے کے طور پر موسوم کر دیا ، مثلاً: ’’عبدالحارث‘‘ ’’عبدالعزیٰ‘‘ اور ’’عبدالکعبہ‘‘ وغیرہ۔ یا انھوں نے یہ کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نعمتوں سے نوازا جن کا شمار کسی بندے کے بس سے باہر ہے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کیا۔ کلام میں یہ انتقال نوع سے جنس کی طرف انتقال کی قسم شمار ہوتا ہے کیونکہ کلام کی ابتدا آدم اور حوا کے بارے میں ہے پھر کلام آدم و حوا سے جنس کی طرف منتقل ہوگیا.... اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شرک، آدم و حوا کی ذریت میں بہت کثرت سے موجود ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے شرک کے بطلان کا اقرار کروایا ہے نیز یہ کہ وہ اس بارے میں سخت ظالم ہیں ، خواہ یہ شرک اقوال میں ہو یا افعال میں .... کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان سب کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس جان سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان میں سے ان کے جوڑے پیدا کیے پھر ان کے درمیان مودت و محبت پیدا کی جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے پاس سکون پاتے ہیں ، ایک دوسرے کے لیے الفت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے لذت حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف ان کی راہ نمائی فرمائی جس سے شہوت، لذت، اولاد اور نسل حاصل ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک ماؤں کے بطن میں اولاد کو وجود عطا کیا۔ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ اولاد کی پیدائش کا انتظار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بچے کو صحیح سالم ماں کے پیٹ سے باہر لائے۔ پس (اس دعا کو قبول کرتے ہوئے) اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت پوری کر دی اور ان کو ان کا مطلوب عطا کر دیا۔ تب کیا اللہ تعالیٰ اس بات کا مستحق نہیں کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں ، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اسی کے لیے اطاعت کو خالص کریں ؟
#
{191 ـ 192} ولكنَّ الأمر جاء على العكس، فأشركوا بالله {مالا يَخْلُقُ شيئاً وهم يُخْلَقونَ. ولا يستطيعون لهم}؛ أي: لعابديها {نصراً ولا أنفسَهم ينصرونَ}: فإذا كانت لا تخلق شيئاً ولا مثقال ذرَّة، بل هي مخلوقة، ولا تستطيع أن تدفع المكروه عن من يعبُدُها ولا عن أنفسها؛ فكيف تُتَّخذ مع الله آلهة؟! إنْ هذا إلا أظلم الظلم وأسفه السفه.
[192,191] مگر معاملہ اس کے برعکس ہے، انھوں نے ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا دیا ﴿ مَا لَا یَخْلُ٘قُ شَیْـًٔـا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۠ لَهُمْ﴾ ’’جو پیدا نہ کریں کوئی چیز بھی اور وہ پیدا ہوئے ہیں اور نہیں کر سکتے وہ ان کے لیے‘‘ یعنی اپنے عبادت گزاروں کے لیے ﴿ نَصْرًا وَّلَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ﴾ ’’مدد اور نہ اپنی ہی مدد کریں ‘‘ کسی کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ جب (شریک ٹھہرائی ہوئی اس ہستی کی) یہ حالت ہو کہ وہ پیدا نہ کر سکتی ہو، ایک ذرہ بھی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو بلکہ وہ خود مخلوق ہو اور وہ اپنے عبادت گزار سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو بلکہ خود اپنی ذات سے بھی کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنے پر قادر نہ ہو تو بھلا اس کو اللہ کے ساتھ کیسے معبود بنایا جا سکتا ہے؟ بلاشبہ یہ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی حماقت ہے۔
#
{193} وإن تدعوا أيُّها المشركون، هذه الأصنام التي عبدتم من دون الله {إلى الهدى لا يتَّبعوكم سواءٌ عليكم أدعوتُموهم أم أنتم صامتونَ}: فصار الإنسانُ أحسنَ حالةً منها؛ لأنَّها لا تسمع ولا تبصِرُ ولا تَهْدي ولا تُهْدَى، وكل هذا إذا تصوَّره اللبيب العاقل تصوراً مجرداً؛ جزم ببطلان إلهيتها وسفاهة مَنْ عبدها.
[193] ﴿ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ﴾ ’’اور اگر تم ان کو پکارو۔‘‘ یعنی اے مشرکو! اگر تم ان بتوں کو، جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، پکارو ﴿ اِلَى الْهُدٰؔى لَا یَتَّبِعُوْؔكُمْ١ؕ سَوَؔآءٌؔ عَلَیْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ ﴾ ’’راستے کی طرف تو نہ چلیں تمھاری پکار پر، برابر ہے تم پر کہ تم ان کو پکارو یا چپکے ہو رہو‘‘ ان معبودوں سے تو انسان ہی اچھا ہے کیونکہ یہ معبود سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں ۔ یہ کسی کی راہ نمائی کر سکتے ہیں نہ ان کی راہ نمائی کی جا سکتی ہے۔ ایک عقل مند شخص جب ان تمام امور کو مجرد طور پر اپنے تصور میں لاتا ہے تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی الوہیت باطل ہے اور جو کوئی ان کی عبادت کرتا ہے وہ بے وقوف ہے۔
آیت: 194 - 196 #
{إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195) إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ (196)}.
بے شک وہ لوگ جنھیں پکارتے ہوتم اللہ کو چھوڑ کر،(وہ تو) بندے ہیں تم جیسے ہی، سو پکارو تم انھیں، پس چاہیے کہ جواب دیں وہ تمھیں، اگر ہوتم سچے(194) کیا ان کے ایسے پیر ہیں کہ چلتے ہیں وہ ان سے؟ کیا ان کے ایسے ہاتھ ہیں کہ پکڑتے ہیں وہ ان سے؟ کیا ان کی ایسی آنکھیں ہیں کہ دیکھتے ہیں وہ ان سے؟ کیا ان کے ایسے کان ہیں کہ وہ سنتے ہیں ان سے؟ کہہ دیجیے! بلاؤ تم اپنے شریکوں کو، پھر تدبیر کرو تم میرے خلاف اورنہ مہلت دو تم مجھے(195) بلاشبہ میرا کار ساز تو اللہ ہی ہے جس نے نازل کیا ہے یہ کتاب اور وہی کارسازی کرتا ہے صالحین کی(196)
#
{194} وهذا من نوع التحدي للمشركين العابدين للأوثان؛ يقول تعالى: {إنَّ الذين تَدْعون من دونِ الله عبادٌ أمثالكم}؛ أي: لا فرق بينكم وبينهم؛ فكلُّكم عبيدٌ لله مملوكون؛ فإن كنتم كما تزعمون صادقين في أنها تستحقُّ من العبادة شيئاً؛ {فادْعوهم فليستجيبوا لكم}: فإن استجابوا لكم وحصَّلوا مطلوبكم، وإلاَّ؛ تبيَّن أنكم كاذبون في هذه الدعوى مفترون على الله أعظم الفرية.
[194] یہ بتوں کے پوجنے والے مشرکین کو مقابلے کی دعوت ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ ﴾ ’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، تم جیسے ہی بندے ہیں ‘‘ ان کے اور تمھارے درمیان کوئی فرق نہیں ، تم سب اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے غلام ہو۔ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو کہ یہ ہستیاں جن کو تم نے معبود بنارکھا ہے عبادت کی مستحق ہیں ﴿ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ ﴾ ’’تو تم انھیں پکارو، پس چاہیے کہ وہ تمھاری پکار کا جواب دیں ۔‘‘پس اگر وہ تمھاری پکار کا جواب دے دیں اور تمھارا مطلوب حاصل ہو جائے.... ورنہ ثابت ہوگیا کہ تم اپنے دعوے میں جھوٹے ہو اور اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان لگا رہے ہو۔
#
{195} وهذا لا يحتاج إلى تبيين فيه ؛ فإنَّكم إذا نظرتُم إليها؛ وجدتُم صورتها دالةً على أنه ليس لديها من النفع شيء، فليس لها أرجلٌ تمشي بها، ولا أيدٍ تبطش بها، ولا أعينٌ تبصر بها، ولا آذان تسمع بها؛ فهي عادمةٌ لجميع الآلات والقوى الموجودة في الإنسان؛ فإذا كانت لا تجيبكم إذا دعوتموها؛ فهي عبادٌ أمثالكم، بل أنتم أكمل منها وأقوى على كثير من الأشياء؛ فلأيِّ شيء عبدتموها؟! {قل ادعوا شركاءكم ثم كيدونِ فلا تُنظِرونِ}؛ أي: اجتمعوا أنتم وشركاؤكم على إيقاع السوء والمكروه بي من غير إمهال ولا إنظار فإنكم غير بالغين لشيء من المكروه بي.
[195] یہ چیز کوئی وضاحت کی محتاج نہیں کیونکہ اگر تم ان کی طرف دیکھو تو ان کی شکل ہی دلالت کرتی ہے کہ ان کے پاس کوئی نفع مند چیز نہیں ... ان کے پاس چلنے کے لیے پاؤں ، پکڑنے کے لیے ہاتھ، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سننے کے لیے کان نہیں ۔ یہ تمام اعضاء و قویٰ سے محروم ہیں جو انسان میں موجود ہوتے ہیں ۔ جب تم انھیں پکارتے ہو تو یہ جواب نہیں دے سکتے۔ تو یہ تمھاری ہی مانند بندے ہیں بلکہ تم ان سے زیادہ کامل اور ان سے زیادہ طاقت ور ہو۔ تب کس بنا پر تم ان کی عبادت کرتے ہو؟ ﴿ قُ٘لِ ادْعُوْا شُ٘رَؔكَآءَكُمْ ثُمَّ كِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! پکارو اپنے شریکوں کو، پھر برائی کرو میرے حق میں اور مجھ کو ڈھیل نہ دو‘‘ یعنی اگر تمھارے معبود اور تم خود مجھے برائی اور تکلیف پہنچانے کے لیے اکٹھے ہو جاؤ اور مجھے کوئی ڈھیل اور مہلت بھی نہ دو، تب بھی تم مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچا سکو گے۔
#
{196} لأنَّ وَلِيِّيَ اللهُ الذي يتولاَّني فيجلب لي المنافع ويدفع عني المضار. {الذي نزَّل الكتابَ}: الذي فيه الهدى والشفاء والنور، وهو من تولِّيه وتربيته لعباده الخاصة الدينيَّة. {وهو يتولَّى الصالحين}: الذين صلحت نيَّاتهم وأعمالهم وأقوالهم؛ كما قال تعالى: {اللهُ وليُّ الذين آمنوا يخرِجُهم من الظُّلمات إلى النور}؛ فالمؤمنون الصالحون لمَّا تولَّوا ربَّهم بالإيمان والتقوى ولم يتولَّوا غيره ممَّن لا ينفع ولا يضرُّ؛ تولاَّهم الله ولطف بهم وأعانهم على ما فيه الخير والمصلحة لهم في دينهم ودنياهم ودفع عنهم بإيمانهم كلَّ مكروه؛ كما قال تعالى: {إنَّ الله يدافِعُ عن الذين آمنوا}.
[196] ﴿ اِنَّ وَلِیِّۧ َاللّٰهُ ﴾ ’’میرا حمایتی تو اللہ ہے‘‘ جو میری سرپرستی کرتا ہے، پس مجھے ہر قسم کی منفعت عطا کرتا ہے اور ہر قسم کے ضرر سے بچاتا ہے۔ ﴿ الَّذِیْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ﴾ ’’جس نے کتاب نازل فرمائی۔‘‘ جس میں ہدایت، شفا اور روشنی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے خاص بندوں کی دینی تربیت کے لیے، سرپرستی ہے۔ ﴿ وَهُوَ یَتَوَلَّى الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’اور وہ حمایت کرتا ہے نیک بندوں کی‘‘ وہ لوگ جن کی نیتیں ، اعمال اور اقوال پاک ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰؔتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ (البقرۃ: 2؍257) ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست اور سرپرست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔‘‘ پس صالح مومن، جب ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے اپنے رب کو اپنا دوست اور سرپرست بنا لیتے ہیں اور کسی ایسی ہستی کو اپنا دوست نہیں بناتے جو کسی کو نفع پہنچا سکتی ہے نہ نقصان تو اللہ تعالیٰ ان کا دوست اور مددگار بن جاتا ہے، ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے، ان کے دین و دنیا کی بھلائی اور مصالح میں ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے ایمان کے ذریعے سے ان سے ہر ناپسندیدہ چیز کو دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُدٰؔفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (الحج: 22؍38) ’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا ہے۔‘‘
آیت: 197 - 198 #
{وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (197) وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لَا يَسْمَعُوا وَتَرَاهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (198)}.
اور وہ جنھیں تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے، نہیں استطاعت رکھتے وہ تمھاری مدد کرنے کی اورنہ اپنی ہی وہ مدد کر سکتے ہیں(197) اور اگر بلاؤ تم انھیں طرف ہدایت کی تو نہ سنیں وہ اور دیکھتے ہیں آپ ان کو کہ دیکھ رہے ہیں وہ طرف آپ کی حالانکہ وہ نہیں دیکھتے(198)
#
{197 ـ 198} وهذا أيضاً في بيان عدم استحقاق هذه الأصنام التي يعبُدونها من دون الله شيئاً من العبادة؛ لأنها ليس لها استطاعةٌ ولا اقتدارٌ في نصر أنفسهم ولا في نصر عابديها، وليس لها قوة العقل والاستجابة؛ فلو دعوتَها إلى الهدى؛ لم تهتدِ، وهي صورٌ لا حياة فيها، فتراهم ينظرون إليك وهم لا يبصرونَ حقيقةً؛ لأنهم صوَّروها على صور الحيوانات من الآدميين أو غيرهم، وجعلوا لها أبصاراً وأعضاءً؛ فإذا رأيتها؛ قلت: هذه حيَّة؛ فإذا تأملتها؛ عرفت أنها جمادات لا حراك بها ولا حياة؛ فبأيِّ رأي اتَّخذها المشركون آلهةً مع الله؟! ولأيِّ مصلحة أو نفع عكفوا عندها وتقرَّبوا لها بأنواع العبادات؟! فإذا عُرِفَ هذا؛ عُرِفَ أن المشركين وآلهتهم التي عبدوها ولو اجتمعوا وأرادوا أن يكيدوا من تولاَّه فاطر السماوات والأرض متولِّي أحوال عباده الصالحين؛ لم يقدروا على كيده بمثقال ذرَّةٍ من الشرِّ؛ لكمال عجزهم وعجزها وكمال قوَّة الله واقتداره وقوَّة من احتمى بجلاله وتوكَّل عليه، وقيل: إنَّ معنى قوله: {وتَراهُم ينظُرونَ إليكَ وهم لا يبصِرونَ}: إنَّ الضمير يعود إلى المشركين المكذِّبين لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فتحسبهم ينظُرون إليك يا رسول الله نظر اعتبارٍ يتبيَّن به الصادق من الكاذب، ولكنهم لا يبصرون حقيقتك وما يتوسَّمه المتوسِّمون فيك من الجمال والكمال والصدق.
[198,197] یہ آیت بھی ان بتوں کی عبادت کے عدم استحقاق کو بیان کرتی ہے جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ یہ خود اپنی مدد کرنے کی استطاعت اور قدرت رکھتے ہیں نہ اپنے عبادت گزاروں کی مدد کر سکتے ہیں ۔ ان میں قوت عقل ہے نہ جواب دینے کی طاقت۔ اگر تو ان کو ہدایت کی طرف بلائے تو ان کی طرف نہیں آئیں گے کیونکہ یہ تو زندگی کے بغیر محض تصویریں ہیں ۔ تو ان کو دیکھے گا کہ گویا وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں مگر حقیقت میں وہ دیکھ نہیں سکتے کیونکہ مصوروں نے ان کو انسانوں وغیرہ جانداروں کی صورت دی ہے، ان کی آنکھیں اور دیگر اعضاء بنائے ہیں ۔ جب تو ان کی طرف دیکھے گا تو کہہ اٹھے گا کہ یہ زندہ ہیں مگر جب تو ان کو غور سے دیکھے گا تو پہچان لے گا کہ یہ تو جامد پتھر ہیں جن میں کوئی حرکت ہے نہ زندگی۔ تب کس بنا پر مشرکین نے ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ ٹھہرا لیا؟ کون سی مصلحت اور کون سے فائدے کی خاطر یہ لوگ ان کے پاس اعتکاف کرتے ہیں اور مختلف عبادات کے ذریعے سے ان کا تقرب حاصل کرتے ہیں ؟ جب اس چیز کی معرفت حاصل ہوگئی تو یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر مشرکین اور ان کے معبود، جن کی یہ عبادت کرتے ہیں ، اکٹھے ہو کر ان لوگوں کے خلاف چالیں چل لیں جن کو زمین اور آسمانوں کی تخلیق کرنے والے نے اپنی سرپرستی میں لے رکھا ہے اور اپنے نیک بندوں کے احوال کا والی ہے، وہ اپنی چال سے ذرہ بھر نقصان پہنچانے پر قادر نہیں کیونکہ وہ کامل طور پر عاجز اور ان کے معبود بھی عاجز ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ پوری قوت اور کامل اقتدار کا مالک ہے اور وہ شخص بھی قوی ہے جو اس کے جلال کی پناہ لیتا اور اس پر بھروسہ کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَتَرٰىهُمْ یَنْظُ٘رُوْنَ اِلَیْكَ وَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ ﴾ میں ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہے جنھوں نے رسول اللہe کی تکذیب کی (تب اس کے معنی یہ ہوں گے) اے اللہ کے رسول! آپ سمجھتے ہیں کہ مشرکین آپ کو اعتبار کی نظر سے دیکھتے ہیں تاکہ جھوٹے میں سے سچے کا امتیاز ہو سکے۔ مگر وہ آپe کی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور وہ جمال و کمال اور صدق کی ان علامتوں کو نہیں دیکھ سکتے جن کے ذریعے سے پہچاننے والے حقیقت کو پہچانتے ہیں ۔
آیت: 199 #
{خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (199)}.
اختیار کیجیے درگزر کو اور حکم کیجیے نیک کام کا اور اعراض کیجیے جاہلوں سے(199)
#
{199} هذه الآية جامعة لِحُسْنِ الخلق مع الناس وما ينبغي في معاملتهم: فالذي ينبغي أن يعامَلَ به الناس: أن يأخذَ العفوَ؛ أي: ما سمحتْ به أنفسُهم وما سَهُلَ عليهم من الأعمال والأخلاق؛ فلا يكلِّفهم ما لا تسمح به طبائعهم، بل يشكُر من كلِّ أحدٍ ما قابله به من قول وفعل جميل أو ما هو دونَ ذلك، ويتجاوزُ عن تقصيرِهم ويغضُّ طرفه عن نقصهم ولا يتكبَّر على الصغير لصغره ولا ناقص العقل لنقصه ولا الفقير لفقره، بل يعامل الجميع باللُّطف والمقابلة بما تقتضيه الحال وتنشرح له صدورهم. {وأمُرْ بالعُرْفِ}؛ أي: بكل قول حسن وفعل جميل وخلق كامل للقريب والبعيد؛ فاجعل ما يأتي إلى الناس منك إما تعليم علم أو حث على خير من صلة رحم أو برِّ والدين أو إصلاح بين الناس أو نصيحة نافعة أو رأي مصيب أو معاونة على برٍّ وتقوى أو زجر عن قبيح أو إرشاد إلى تحصيل مصلحة دينيَّة أو دنيويَّة. ولما كان لا بدَّ من أذيَّة الجاهل؛ أمر الله تعالى أن يقابَلَ الجاهل بالإعراض عنه وعدم مقابلته بجهله؛ فمن آذاك بقوله أو فعله؛ لا تؤذه، ومن حَرَمَكَ لا تحرِمْه، ومن قطعك فَصِلْه، ومن ظلمك فاعدل فيه.
[199] یہ آیت کریمہ لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق اور ان کے ساتھ رويے کے بارے میں جامع آیت ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملے میں مناسب رویہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ عفو و درگزر، آسان اعمال و اخلاق اور نرمی سے پیش آیا جائے، ان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہ کیا جائے جس کو ان کی طبائع قبول نہ کریں بلکہ ہر شخص کی بات اور اچھے یا برے فعل کو قبول کیا جائے، ان کی کوتاہی سے درگزر کیا جائے اور ان کے نقائص سے چشم پوشی کی جائے۔ کسی چھوٹے کے ساتھ اس کے چھوٹا ہونے، کسی ناقص العقل کے ساتھ اس کے نقص اور کسی محتاج کے ساتھ اس کی محتاجی کی بنا پر تکبر سے پیش نہ آیا جائے بلکہ تمام لوگوں کے ساتھ لطف و کرم کا اور احوال کے تقاضے کے مطابق معاملہ کیا جائے کہ جس سے ان کے سینے کھل جائیں ۔ ﴿ وَاْمُرْ بِالْ٘عُرْفِ ﴾ ’’اور حکم کیجیے نیک کام کرنے کا‘‘ یعنی ہر قریب اور بعید شخص کو اچھی بات، اچھے فعل اور کامل اخلاق کا حکم دیجیے۔ آپ جو کچھ لوگوں کو عطا کریں وہ تعلیم علم ہو یا کسی بھلائی کی ترغیب دینا، جیسے صلہ رحمی یا والدین کے ساتھ حسن سلوک یا لوگوں کے درمیان صلح کروانا یا نفع بخش خیر خواہی یا صائب رائے یا نیکی اور تقویٰ پر معاونت یا برائی پر زجر و توبیخ یا کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف راہ نمائی۔ چونکہ جاہل کی طرف سے تکلیف اور اذیت کا پہنچنا ایک لابدی امر ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جاہل سے اعراض اور درگزر سے کام لیا جائے اور اس کی جہالت کا مقابلہ نہ کیا جائے، پس جو کوئی آپ کو اپنے قول و فعل سے اذیت دیتا ہے آپ اس کو اذیت نہ دیں ، جو آپ کو محروم کرتا ہے آپ اس کو محروم نہ کریں ، جو آپ سے قطع تعلق کرتا ہے آپ اس سے تعلق جوڑے رکھیں اور جو آپ پر ظلم کرتا ہے آپ اس کے ساتھ انصاف کریں ۔
رہی یہ بات کہ بندۂ مومن کو شیاطین جن کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہیے؟ تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
آیت: 200 - 202 #
{وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (200) إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ (202)}.
اوراگر ابھارے آپ کو شیطان کا کوئی وسوسہ تو پناہ مانگیے اللہ کی، یقینا وہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے(200)بے شک وہ لوگ جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا جب پہنچتا ہے انھیں کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے چونک پڑتے ہیں، پھر ناگہاں وہ سوجھ بوجھ والے ہوجاتے ہیں(201)اور بھائی ان (شیاطین) کے، کھینچتے ہیں وہ انھیں گمراہی میں پھر نہیں وہ کمی کرتے(202)
#
{200} أي: أيَّ وقت وفي أيِّ حال، {ينزغنَّك من الشيطان نزغٌ}؛ أي: تحس منه بوسوسةٍ وتثبيطٍ عن الخير أو حثٍّ على الشرِّ وإيعازٍ إليه، {فاستعذْ بالله}؛ أي: التجئ واعتصم بالله واحتم بحماه. فإنَّه سميعٌ لما تقول، {عليمٌ}: بنيَّتك وضعفك وقوة التجائك له فسيحميك من فتنته ويقيك من وسوسته؛ كما قال تعالى: {قل أعوذُ بربِّ الناس ... } إلى آخر السورة.
[200] ﴿ وَاِمَّا یَنْ٘زَغَنَّكَ مِنَ الشَّ٘یْطٰ٘نِ نَزْغٌ ﴾ ’’ابھارے آپ کو شیطان کی چھیڑ‘‘ یعنی کسی وقت اور کسی حال میں بھی اگر آپ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ، بھلائی کے راستے میں رکاوٹ، برائی کی ترغیب اور اکتاہٹ محسوس کریں ﴿ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ﴾ ’’تو اللہ تعالیٰ کی پناہ لیجئے‘‘ اور اس کی حفاظت میں آکر محفوظ ہو جائیے ﴿ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ ﴾ ’’بے شک وہ سننے والا ہے۔‘‘ آپ جو کچھ کہتے ہیں اللہ اسے سنتا ہے۔ ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ آپ کی نیت، آپ کی کمزوری اور آپ کی پناہ لینے کی قوت کو خوب جانتا ہے، وہ آپ کو اس کے فتنے سے محفوظ رکھے گا اور آپ کو اس کے وسوسوں سے بچائے گا۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿قُ٘لْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۰۰مَلِكِ النَّاسِۙ۰۰اِلٰهِ النَّاسِۙ۰۰مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْؔخَنَّاسِ۪ۙ۰۰الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ۰۰مِنَ الْؔجِنَّةِ وَالنَّاسِ۰۰﴾ (الناس: 114؍1-6) ’’کہو میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے رب کی، لوگوں کے بادشاہ حقیقی کی، لوگوں کے معبود کی، شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے، شیطان پیچھے ہٹ جانے والے سے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے خواہ وہ شیطان جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے‘‘۔
#
{201} ولما كان العبدُ لا بدَّ أن يغفل وينال منه الشيطان الذي لا يزال مرابطاً ينتظر غرَّته وغفلته؛ ذكر تعالى علامة المتَّقين من الغاوين، وأن المتَّقي إذا أحسَّ بذنب ومسَّه طائفٌ من الشيطان فأذنب بفعل محرَّم أو ترك واجبٍ؛ تذكَّر من أي باب أُتِيَ ومن أيِّ مدخل دخل الشيطان عليه، وتذكَّر ما أوجب الله عليه وما عليه من لوازم الإيمان، فأبصر، واستغفر الله تعالى، واستدرك ما فرط منه بالتوبة النصوح والحسنات الكثيرة، فرد شيطانه خاسئاً حسيراً؛ قد أفسد عليه كلَّ ما أدركه منه.
[201] جب بندے کا غافل ہو جانا اور اس شیطان کا اس کو کچھ نہ کچھ شکار کر لینا لابدی امر ہے، جو ہمیشہ گھات لگائے رہتا اور بندے کی غفلت کا منتظر رہتا ہے تو اب اللہ تعالیٰ نے گمراہ کرنے والوں سے بچ جانے والوں کی علامت ذکر کی ہے... اور صاحب تقویٰ جب شیطانی وسوسے کو محسوس کر لیتا ہے اور وہ کسی فعل واجب کو ترک کر کے یا کسی فعل حرام کا ارتکاب کر کے گناہ کر بیٹھتا ہے تو فوراً اسے تنبیہ ہوتی ہے، وہ غور کرتا ہے کہ شیطان کہاں سے حملہ آور ہوا ہے اور کون سے دروازے سے داخل ہوا ہے۔ وہ ان تمام لوازم ایمان کو یاد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیے ہیں تو اسے بصیرت حاصل ہو جاتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے اور جو اس سے کوتاہی واقع ہوئی ہے توبہ اور نیکیوں کی کثرت کے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس وہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے دھتکار دیتا ہے اور شیطان نے اس سے جو کچھ حاصل کیا ہوتا ہے، اس پر پانی پھیر دیتا ہے۔
#
{202} وأما إخوان الشياطين وأولياؤهم؛ فإنهم إذا وقعوا في الذُّنوب لا يزالون يمدُّونهم في الغيِّ ذنباً بعد ذنبٍ، ولا يقصرون عن ذلك؛ فالشياطين لا تقصر عنهم بالإغواء؛ لأنها طمعت فيهم حين رأتهم سلسي القياد لها وهم لا يقصرون عن فعل الشرِّ.
[202] رہے شیاطین کے بھائی اور ان کے دوست تو یہ جب کسی گناہ میں پڑ جاتے ہیں تو یہ اپنی گمراہی میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ، گناہ پر گناہ کرتے ہیں اور گناہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، پس شیاطین بھی ان کو بد راہ کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت آسانی سے ان کے تابع ہو جاتے ہیں اور برائی کے ارتکاب میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے تو وہ ان کی بدراہی کے بہت خواہش مند ہو جاتے ہیں ۔
آیت: 203 #
{وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي هَذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (203)}.
اور جب نہیں لاتے آپ ان کے پاس کوئی نشانی تو کہتے ہیں، کیوں نہیں خود بنالایا تو؟ کہہ دیجیے! میں تو پیروی کرتا ہوں صرف اس چیز کی جو وحی کی جاتی ہے میری طرف میرے رب کی طرف سے، یہ روشن دلائل ہیں تمھارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں(203)
#
{203} أي: لا يزال هؤلاء المكذِّبون لك في تعنُّت وعناد، ولو جاءتهم الآيات الدالَّة على الهدى والرشاد؛ فإذا جئتهم بشيء من الآيات الدالَّة على صدقك؛ لم ينقادوا. {وإذا لم تأتهم بآيةٍ}: من آيات الاقتراح التي يعيِّنونها، {قالوا لولا اجتبيتها}؛ أي: هلاَّ اخترت الآية فصارت الآية الفلانية أو المعجزة الفلانية، كأنك أنت المنزِّل للآيات المدبِّر لجميع المخلوقات، ولم يعلموا أنه ليس لك من الأمر شيء، أو [أنّ المعنى]: لولا اخترعتها من نفسك، {قل إنَّما أتَّبع ما يوحى إليَّ من ربي}: فأنا عبدٌ مُتَّبِعٌ مدبَّر، والله تعالى هو الذي ينزل الآيات ويرسلها على حسب ما اقتضاه حمده، وَطَلبَتْهُ حكمته البالغة؛ فإن أردتم آية لا تضمحلُّ على تعاقب الأوقات وحجة لا تبطل في جميع الآنات؛ فهذا: القرآن العظيم والذكر الحكيم. {بصائرُ من ربِّكم}: يستبصر به في جميع المطالب الإلهيَّة والمقاصد الإنسانيَّة، وهو الدليل والمدلول؛ فمن تفكَّر فيه وتدبَّره؛ علم أنه تنزيلٌ من حكيم حميدٍ، لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه، وبه قامت الحجَّة على كلِّ من بلغه، ولكن أكثر الناس لا يؤمنون، وإلاَّ؛ فمن آمن؛ فهو {هدىً} له من الضلال {ورحمةٌ} له من الشقاء؛ فالمؤمن مهتدٍ بالقرآن، متَّبع له، سعيدٌ في دنياه وأخراه، وأما من لم يؤمنْ به؛ فإنه ضالٌّ شقيٌّ في الدنيا والآخرة.
[203] یہ جھٹلانے والے آپ کے ساتھ عناد رکھتے ہی رہیں گے خواہ ان کے پاس رشد و ہدایت پر کتنے ہی دلائل کیوں نہ آجائیں ۔ پس جب آپ ان کو کوئی ایسی دلیل دیتے ہیں جو آپ کی صداقت پر دلالت کرتی ہے تو یہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ ﴿ وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ ﴾ ’’اور جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہیں لاتے۔‘‘ یعنی جب ان کے حسب خواہش آیات و معجزات نہیں لاتے ﴿ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَیْتَهَا﴾ ’’تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنالی۔‘‘ یعنی کہتے ہیں کہ تم فلاں آیت اور فلاں معجزہ کیوں نہیں لاتے گویا کہ آیات اور معجزات آپ نازل کرتے ہیں اور تمام مخلوقات کی تدبیر آپ کرتے ہیں ۔ حالانکہ انھیں اس بات کا علم نہیں کہ آپ تو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے..... (یا وہ یوں کہتے ہیں کہ) تم نے ان آیات کو اپنے پاس سے کیوں نہیں گھڑ لیا۔ ﴿قُ٘لْ اِنَّمَاۤ اَ٘تَّ٘بِـعُ مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ میں تو اس حکم کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔‘‘ پس میں تو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان بندہ اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہوں ۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو معجزات نازل کرتا ہے وہ اپنی حمد و ثنا اور حکمت بالغہ کے تقاضوں کے مطابق آیات اور معجزات بھیجتا ہے۔ اگر تم ایسی نشانی اور معجزہ چاہتے ہو جو مرور اوقات کے ساتھ کمزور نہ ہو اور ایسی حجت چاہتے ہو جو کسی بھی لمحہ باطل نہ ہو تو ﴿ هٰؔذَا﴾ ’’یہ‘‘ یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿ بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے دانائی ہے‘‘ جن کے ذریعے سے الٰہی مطالب اور انسانی مقاصد کو پرکھا جاتا ہے۔ یہ قرآن عظیم دلیل اور مدلول ہے۔ جو کوئی اس میں تدبر کرتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ، حکمت والے اور قابل تعریف کی طرف سے نازل کردہ ہے، باطل جس کے سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور یہ قرآن ہر اس شخص کے خلاف حجت ہے جس کے پاس یہ پہنچتا ہے۔ مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے ﴿ وَهُدًى ﴾ ’’اور ہدایت ہے‘‘ تو یہ قرآن گمراہی کے اندھىرے میں اس کے لیے ہدایت کا نور ہے ﴿ وَّرَحْمَةٌ ﴾ ’’اور رحمت ہے‘‘ اور بدبختیوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ پس مومن قرآن سے راہ نمائی حاصل کرتا ہے اور اس کی اتباع کرتا ہے، اپنی دنیا و آخرت میں سعادت مند ہے اور جو کوئی اس پر ایمان نہیں لاتا وہ دنیا و آخرت میں گمراہ اور بدبخت ہے۔
آیت: 204 #
{وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204)}.
اور جب پڑھا جائے قرآن تو غور سے (کان لگا کر) سنو تم اس کواور خاموش رہوتاکہ تم رحم کیے جاؤ(204)
#
{204} هذا الأمر عامٌّ في كلِّ من سمع كتاب الله يتلى؛ فإنه مأمور بالاستماع له والإنصات، والفرق بين الاستماع والإنصات أن الإنصات في الظاهر بترك التحدُّث أو الاشتغال بما يشغل عن استماعه، وأما الاستماع له؛ فهو أن يُلْقِيَ سَمْعَه ويحضِرَ قلبَه ويتدبَّر ما يستمع؛ فإنَّ من لازم على هذين الأمرين حين يُتلى كتاب الله؛ فإنه ينال خيراً كثيراً وعلماً غزيراً وإيماناً مستمرًّا متجدداً وهدىً متزايداً وبصيرةً في دينه، ولهذا رتَّب الله حصول الرحمة عليهما، فدلَّ ذلك على أن مَنْ تُلي عليه الكتاب فلم يستمع له وينصت أنه محروم الحظ من الرحمة، قد فاته خيرٌ كثير. ومن أوكدِ ما يؤمر [به] مستمع القرآن أن يستمعَ له وينصتَ في الصلاة الجهرية إذا قرأ إمامُهُ؛ فإنَّه مأمورٌ بالإنصات حتى إنَّ أكثر العلماء يقولون: إنَّ اشتغاله بالإنصات أولى من قراءته الفاتحة وغيرها.
[204] یہ ہر اس شخص کے لیے ایک عام حکم ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتا ہے، وہ اسے غور سے سننے اور خاموش رہنے پر مامور ہے۔ استماع اور انصات کے درمیان فرق یہ ہے کہ (انْصَات) ’’چپ رہنا‘‘ ظاہر میں بات چیت اور ایسے امور میں مشغولیت کو ترک کرنے کا نام ہے جن کی وجہ سے وہ غور سے سن نہیں سکتا اور (اسْتِمَاع) ’’سننا‘‘ یہ ہے کہ سننے کے لیے پوری توجہ مبذول کی جائے، قلب حاضر ہو اور جو چیز سنے اس میں تدبر کرے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کے وقت جو کوئی ان دونوں امور کا التزام کرتا ہے وہ خیر کثیر، بے انتہا علم، دائمی تجدید شدہ ایمان، بہت زیادہ ہدایت اور دین میں بصیرت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔بنابریں اللہ تعالیٰ نے حصول رحمت کو ان دونوں امور پر مترتب قرار دیا ہے اور یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس کے سامنے کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور وہ اسے غور سے نہ سنے اور خاموش نہ رہے تو رحمت کے بہت بڑے حصے سے محروم ہو جاتا ہے، وہ خیر کثیر حاصل نہیں کر پاتا اور قرآن سننے والے کو سخت تاکید ہے کہ جہری نمازوں میں ، جبکہ امام قراء ت کرے، وہ توجہ سے سنے اور خاموش رہے کیونکہ اسے چپ رہنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ اکثر اہل علم کی رائے ہے کہ نماز کے اندر امام کی قراء ت کے وقت خاموش رہنا سورۂ فاتحہ وغیرہ پڑھنے سے اولیٰ ہے۔(یہ مؤلف کتاب کی اپنی رائے ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، مرحوم کی یہ رائے صحیح نہیں، کیونکہ یہ نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔ احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ امام ہر آیت پر وقف کر کے سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس وقفے میں مقتدی بھی سورۂ فاتحہ پڑھتے جائیں۔ کیونکہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس طرح وقفوں اور سکتات میں سورۂ فاتحہ پڑھنے سے استماع اور انصات کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے، ہاں البتہ سورۂ فاتحہ کے علاوہ کچھ اور پڑھنا جائز نہیں۔ (ص ۔ ی)
آیت: 205 - 206 #
{وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (205) إِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ (206)}.
اور یاد کیجیے اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور ڈرتے ہوئےاورایسی آواز سے کہ کم ہوپکار کر بات کرنے سے، صبح اور شام کواورنہ ہوں آپ غافلوں میں سے(205) بے شک وہ (فرشتے) جو آپ کے رب کے پاس ہیں، نہیں تکبر کرتے وہ اس کی عبادت سے اور تسبیح بیان کرتے ہیں وہ اس کی اوراسی کو وہ سجدہ کرتے ہیں(206)
#
{205} الذكر لله تعالى يكون بالقلب ويكون باللسان ويكون بهما وهو أكمل أنواع الذكر وأحواله، فأمر الله عبده ورسوله محمداً أصلاً وغيره تبعاً بذكر ربِّه في نفسه؛ أي: مخلصاً خالياً، {تضرُّعاً}؛ أي: متضرعاً بلسانك مكرِّراً لأنواع الذكر، {وخِيفةً}: في قلبك؛ بأن تكون خائفاً من الله، وَجِلَ القلب منه خوفاً أن يكون عملك غير مقبول، وعلامة الخوف أن يسعى ويجتهد في تكميل العمل وإصلاحه والنصح به. {ودون الجهر من القول} ـ؛ أي: كن متوسطاً، لا تجهرْ بصلاتك ولا تخافِتْ بها وابتغ بين ذلك سبيلاً ـ {بالغدو}: أول النهار، {والآصال}: آخره، وهذان الوقتان [لذكرِ اللهِ] فيهما مزيَّةٌ وفضيلةٌ على غيرهما. {ولا تكن من الغافلينَ}: الذين نَسُوا الله فأنساهم أنفُسَهم؛ فإنَّهم حُرِموا خير الدنيا والآخرة، وأعرضوا عمَّن كلُّ السعادة والفوز في ذكره وعبوديَّته، وأقبلوا على مَن كلُّ الشقاوة والخيبة في الاشتغال به. وهذه من الآداب التي ينبغي للعبد أن يراعِيَها حقَّ رعايتها، وهي الإكثار من ذكر الله آناء الليل والنهار، خصوصاً طرفي النهار، مخلصاً خاشعاً متضرِّعاً متذللاً ساكناً متواطئاً عليه قلبه ولسانه بأدبٍ ووَقارٍ وإقبال على الدُّعاء والذِّكر وإحضارٍ له بقلبه وعدم غفلة؛ فإنَّ الله لا يستجيبُ دعاءً من قلبٍ غافلٍ لاهٍ.
[205] اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر قلب کے ذریعے سے، زبان کے ذریعے سے اور قلب اور زبان دونوں کے ذریعے سے ہوتا ہے اور یہ ذکر اپنی نوع اور احوال کے اعتبار سے کامل ترین ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول جناب محمد مصطفیe کو اصلاً اور دیگر اہل ایمان کو تبعاً حکم دیا ہے کہ وہ نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں ۔ ﴿ تَضَرُّعًا ﴾ ’’عاجزی اور تذلل سے‘‘ ذکر کی مختلف انواع کے تکرار کے ساتھ اپنی زبان سے ذکر کریں ﴿وَّخِیْفَةً﴾ ’’اور ڈرتے ہوئے‘‘ اور آپ کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ آپ اپنے دل میں ، اللہ تعالیٰ سے خائف اور ڈرتے ہوں مبادا کہ آپ کا عمل قبول نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی علامت یہ ہے کہ بندہ خیر خواہی کے ساتھ اپنے عمل کی اصلاح اور تکمیل میں پیہم کوشاں رہتا ہے۔ ﴿ وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ﴾ ’’اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو‘‘ یعنی متوسط رویہ اختیار کیجیے ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍110) ’’اپنی نماز بلند آواز سے پڑھیے نہ بہت آہستہ آواز سے بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کیجیے۔‘‘﴿ بِالْغُدُوِّ ﴾ ’’دن کے ابتدائی حصے میں ‘‘ ﴿ وَالْاٰصَالِ ﴾ ’’اور دن کے آخری حصے میں ۔‘‘ ان دونوں اوقات کو دیگر اوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ ﴿ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ‘‘ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال کر دیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔ پس وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی سے محروم رہ گئے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبودیت میں ہر فلاح و سعادت سے روگردانی کی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر بدبختی اور ناکامی کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ آداب ذکر ہیں جن کی بندے کو رعایت رکھنی چاہیے جیسا کہ رعایت رکھنے کا حق ہے یعنی دن اور رات کے اوقات میں ، خاص طور پر دن کے دونوں کناروں میں ، نہایت اخلاص، خشوع و خضوع، عاجزی، تذلل کے ساتھ، پر سکون حالت میں ، قلب و لسان کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، نہایت ادب و وقار سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور بہت توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کی جائے۔ غفلت کو دور کر کے حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل اور مشغول دل کے ساتھ کی ہوئی دعا کو قبول نہیں فرماتا۔
#
{206} ثم ذكر تعالى أن له عباداً مستديمين لعبادته، ملازمين لخدمته، وهم الملائكة. فلتعلموا أن الله لا يريدُ أن يتكثَّر بعبادتكم من قلَّة، ولا ليتعزَّز بها من ذِلَّة، وإنما يريدُ نفع أنفسكم، وأن تربحوا عليه أضعاف أضعاف ما عملتم، فقال: {إنَّ الذين عند ربِّك}: من الملائكة المقرَّبين وحملة العرش والكروبيين، {لا يستكبِرون عن عبادته}: بل يُذْعِنون لها وينقادون لأوامر ربِّهم، {ويسبِّحونه}: الليل والنهار لا يفترون. {وله} وحده لا شريك له {يسجُدون}: فليقتَدِ العبادُ بهؤلاء الملائكة الكرام، وليداوِموا على عبادة الملك العلاَّم.
[206] پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو ہمیشہ اس کی عبادت اور خدمت میں مصروف رہتے ہیں ...اور وہ ہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے... تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمھاری کثرت عبادت سے کوئی کمی پوری کرنی چاہتا ہے، نہ تمھاری عبادت کے ذریعے سے ذلت سے نکل کر معزز ہونا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھاری عبادت کے ذریعے سے تمھیں ہی فائدہ دینا چاہتا ہے تاکہ تم اس کے ہاں اپنے اعمال سے کئی گنا زیادہ نفع حاصل کر سکو۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ ﴾ ’’وہ لوگ جو آپ کے رب کے پاس ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے، عرش الٰہی کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے اشراف فرشتے ﴿ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِهٖ ﴾ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے‘‘ بلکہ اس کی عبادت کے لیے سرافگندہ اور اپنے رب کے احکام کے سامنے مطیع ہیں ۔ ﴿ وَیُسَبِّحُوْنَهٗ ﴾ ’’اور اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔‘‘ رات دن اس کی تسبیح میں مگن رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی نہیں کرتے۔ ﴿وَلَهٗ ﴾ ’’اور اس کے لیے۔‘‘ یعنی اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ﴿ یَسْجُدُوْنَ ﴾ ’’سجدے کرتے ہیں ۔‘‘ پس بندوں کو ان ملائکہ کرام کی پیروی کرنی چاہیے اور ہمیشہ اللہ، علم والے بادشاہ حقیقی کی عبادت میں مصروف رہنا چاہیے۔