آیت:
تفسیر سورۂ انعام
تفسیر سورۂ انعام
آیت: 1 - 2 #
{الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (1) هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ (2)}.
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہے جس نے پیدا کیے آسمان و زمین اور بنائے اندھیرے اور روشنی، پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ (اوروں کو) برابر ٹھہراتے ہیں (1) اسی نے پیدا کیا تمھیں مٹی سے، پھر مقرر کیا اس نے ایک وقت اور ایک وقت معین ہے اس کے ہاں (قیامت کا)، پھر (بھی) تم شک کرتے ہو(2)
#
{1} هذا إخبارٌ عن حمدِهِ والثناء عليه بصفات الكمال ونعوت العظمة والجلال عموماً وعلى هذه المذكورات خصوصاً؛ فحمد نفسه على خلقه السماوات والأرض الدالَّةِ على كمال قدرته وسعة علمه ورحمته وعموم حكمته وانفراده بالخلق والتدبير، وعلى جَعْلِهِ الظلماتِ والنور، وذلك شاملٌ للحسيِّ من ذلك؛ كالليل والنهار والشمس والقمر، والمعنوي؛ كظلمات الجهل والشَّكِّ والشِّرك والمعصية والغفلة ونور العلم والإيمان واليقين والطاعة، وهذا كلُّه يدلُّ دلالة قاطعة أنه تعالى هو المستحقُّ للعبادة وإخلاص الدين له، ومع هذا الدليل ووضوح البرهان: {ثم الذين كَفَروا بربِّهم يعدِلون}؛ [أي: يعدلون] به سواه؛ يسوُّونهم به في العبادة والتعظيم، مع أنَّهم لم يساووا الله في شيء من الكمال، وهم فقراء عاجزون ناقصون من كل وجه.
[1] یہ صفات کمال اور نعوت عظمت و جلال کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عمومی حمد و ثنا اور ان صفات کے ذریعے سے اس کی خصوصی حمد و ثنا ہے، چنانچہ اس نے اس امر پر اپنی حمد و ثنا بیان کی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا۔ جو اس کی قدرت کاملہ، وسیع علم و رحمت، حکمت عامہ اور خلق و تدبیر میں اس کی انفرادیت پر دلالت کرتی ہے، نیز اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے تاریکیوں اور روشنی کو پیدا کیا۔ اور اس میں حسی اندھیرے اور اجالے بھی شامل ہیں ، جیسے رات، دن، سورج اور چاند وغیرہ اور معنوی اندھیرے اجالے بھی، مثلاً: جہالت، شک، شرک، معصیت اور غفلت کے اندھیرے اور علم، ایمان، یقین اور اطاعت کے اجالے۔ یہ تمام امور قطعی طور پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اور اخلاص کا مستحق ہے مگر اس روشن دلیل اور واضح برہان کے باوجود ﴿ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ ﴾ ’’پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کیے دیتے ہیں ‘‘ غیروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں ۔ وہ انھیں عبادت اور تعظیم میں اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ کمالات میں ان کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر نہیں سمجھتے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ہستیاں ہر لحاظ سے محتاج، فقیر اور ناقص ہیں ۔
#
{2} {هو الذي خَلَقَكُم من طينٍ}: وذلك بخَلْقِ مادَّتكم وأبيكم آدم عليه السلام. {ثم قضى أجلاً}؛ أي: ضرب لمدَّة إقامتكم في هذه الدار أجلاً تتمَتَّعون به، وتُمْتَحنون، وتُبْتَلَون بما يرسل إليهم به رسله؛ ليبلُوَكُم أيُّكم أحسنُ عملاً، ويعمِّرَكُم، ما يتذكَّر فيه من تذكَّر. {وأجلٌ مسمًّى عنده}: وهي الدار الآخرةُ التي ينتقل العباد إليها من هذه الدار، فيجازيهم بأعمالهم من خير وشر، {ثمَّ}: مع هذا البيان التامِّ وقطع الحجة {أنتم تَمْتَرون}؛ أي: تشكُّون في وعد الله ووعيدِهِ ووقوع الجزاء يوم القيامة. وذكر الله الظُّلمات بالجمع لكثرة موادِّها وتنوُّع طرقها، ووحَّد النور لكون الصراط الموصلة إلى الله واحدةً لا تعدُّد فيها، وهي الصراط المتضمِّنة للعلم بالحق والعمل به؛ كما قال تعالى: {وأنَّ هذا صراطي مستقيماً فاتَّبِعوه ولا تَتَّبعوا السُّبُلَ فَتَفَرَّق بكم عن سبيلِهِ}.
[2] ﴿ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ﴾ ’’وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا‘‘ یعنی تمھارا اور تمھارے باپ کا مادہ مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے ﴿ ثُمَّ قَ٘ضٰۤى اَجَلًا ﴾ ’’پھر ایک مدت مقرر کر دی‘‘ یعنی اس دنیا میں رہنے کے لیے تمھارے لیے ایک مدت مقرر کر دی اس مدت میں تم اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہو اور رسول بھیج کر تمھارا امتحان لیا جاتا ہے اور تمھاری آزمائش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: ﴿ لِیَبْلُوَؔكُمْ اَیُّؔكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ﴾ (الملک: 67؍2) ’’تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘ ﴿ وَاَجَلٌ مُّ٘سَمًّى عِنْدَهٗ ﴾ ’’اور ایک مدت مقرر ہے اللہ کے نزدیک‘‘ اس مدت مقررہ سے مراد آخرت ہے، بندے اس دنیا سے آخرت میں منتقل ہوں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا ﴿ ثُمَّ ﴾ پھر اس کامل بیان اور دلیل قاطع کے باوجود ﴿اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ ﴾ ’’تم شک کرتے ہو‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے وعد و وعید اور قیامت کے دن جزا و سزا کے وقوع کا انکار کرتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اندھیروں ﴿الظُّلُمَاتِ﴾ کو ان کے کثرت مواد اور ان کے تنوع کی بنا پر جمع کے صیغے میں بیان فرمایا ہے اور اجالے ﴿النُّوْرَ﴾ کو واحد استعمال کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا راستہ ایک ہی ہوتا ہے، اس میں تعدد نہیں ہوتا اور یہ وہ راستہ ہے جو حق، علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاَنَّ هٰؔذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ﴾ (الانعام: 6؍153) ’’اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے اور تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ تم اللہ کے راستے سے الگ ہو جاؤ گے۔‘‘
آیت: 3 #
{وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ (3)}.
اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں ، وہ جانتا ہے تمھارا پوشیدہ اور تمھارا ظاہراور جانتاہے جو کچھ تم کماتے ہو(3)
#
{3} أي: وهو المألوهُ المعبودُ، {في السموات وفي الأرض}: فأهلُ السماء والأرض متعبِّدون لربِّهم خاضعون لعظمتِهِ مستكينون لعزِّه وجلاله؛ الملائكةُ المقرَّبون والأنبياءُ والمرسلون والصِّدِّيقون والشهداء والصالحون. وهو تعالى {يَعْلَمُ سِرَّكم وجَهْرَكم ويعلمُ ما تكسِبون}: فاحذروا معاصيه وارغبوا في الأعمال التي تقرِّبكم منه، وتُدْنيكم من رحمتِهِ، واحذروا من كلِّ عمل يبعدكم منه ومن رحمته.
[3] یعنی آسمانوں میں اور زمین میں وہی معبود ہے۔ آسمان اور زمین کے رہنے والے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ، تمام مقرب فرشتے، انبیا و مرسلین، صدیقین، شہداء اور صالحین سب اس کی عظمت کے سامنے جھکے ہوئے اور اس کے غلبہ و جلال کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ تمھارے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور تمھارے اعمال بھی جانتا ہے اس لیے تم اس کی نافرمانی سے بچو اور ایسے اعمال میں رغبت کرو جو تمھیں اس کے قریب کر دیں اور اس کی رحمت کا مستحق بنا دیں اور ہر ایسے عمل سے بچو جو تمھیں اس سے اور اس کی رحمت سے دور کر دے۔
آیت: 4 - 6 #
{وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ (4) فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (5) أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (6)}.
اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی آیت ان کے رب کی آیات سے مگر ہوتے ہیں وہ اس سے اعراض کرنے والے(4) پس تحقیق جھٹلایا انھوں نے حق کو جب آیا ان کے پاس، سو عنقریب آئیں گی ان کے پاس خبریں اس چیز کی کہ تھے وہ اس کے ساتھ استہزا کرتے(5) کیا نہیں دیکھا انھوں نے کتنی ہی ہلاک کر دیں ہم نے ان سے پہلے ایسی امتیں کہ طاقت دی تھی ہم نے ان کو زمین میں ، وہ جو نہیں طاقت دی ہم نے تمھیں اور بھیجی ہم نے بارش اوپر ان کے موسلا دھاراور بنائیں ہم نے نہریں کہ وہ بہتی تھیں ان کے (گھر کے) نیچے سے ، پھر ہلاک کر دیا ہم نے انھیں بوجہ ان کے گناہوں کےاور پیدا کیں ہم نے ان کے بعد امتیں اور(6)
#
{4} هذا إخبارٌ منه تعالى عن إعراض المشركين وشدَّة تكذيبهم وعداوتهم، وأنهم لا تنفع فيهم الآيات حتى تَحِلَّ بهم المَثُلات، فقال: {وما تأتيهم من آيةٍ من آيات ربِّهم}: الدالَّة على الحقِّ دلالة قاطعة، الداعية لهم إلى اتِّباعه وقبوله، {إلَّا كانوا عنها معرِضين}: لا يُلقون لها بالاً ولا يُصْغونَ لها سمعاً، قد انصرفت قلوبُهم إلى غيرها، وولَّوْها أدبارَهم.
[4] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکین کے اعراض، ان کی شدت تکذیب اور ان کی عداوت کے بارے میں خبر ہے۔ نیز یہ کہ آیات و معجزات انھیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے جب تک کہ ان پر عبرتناک عذاب نازل نہ ہو جائے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَمَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ ﴾ ’’اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے‘‘ جو حق پر دلیل قطعی ہیں جو حق کے قبول کرنے اور اس کی اتباع کرنے کی دعوت دیتی ہیں ۔ ﴿ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ ﴾ ’’مگر وہ اس سے اعراض کرتے ہیں ‘‘ یعنی وہ ان آیات کو غور سے سنتے نہیں اور ان میں تدبر نہیں کرتے ان کے دل دوسرے امور میں مصروف ہیں اور انھوں نے پیٹھ پھیر لی ہے۔
#
{5} {فقد كذَّبوا بالحقِّ لما جاءهم}: والحقُّ حقُّه أن يُتَّبع ويُشكر الله على تيسيره لهم وإتيانهم به، فقابلوه بضدِّ ما يجب مقابلته به، فاستحقوا العقاب الشديد. {فسوف يأتيهم أنباء ما كانوا به يستهزِئون}؛ أي: فسوف يَرَوْن ما استهزؤوا به أنَّه الحقُّ والصدق، ويُبَيِّنُ الله للمكذِّبين كذبهم وافتراءهم، وكانوا يستهزئون بالبعث والجنة والنار؛ فإذا كان يوم القيامة؛ قيل للمكذبين: هذه النارُ التي كنتم بها تكذِّبون، وقال تعالى: {وأقْسَموا باللهِ جَهْدَ أيْمانِهِمْ لا يَبْعَثُ اللهُ مَنْ يَموتُ بَلى وَعْداً عليهِ حقًّا ولكنَّ أكْثَرَ الناس لا يعلمونَ. لِيُبَيِّنَ لهم الذي يختلفونَ فيه ولِيَعْلَمَ الذين كفروا أنَّهم كانوا كاذبين}.
[5] ﴿ فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَؔهُمْ ﴾ ’’انھوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا‘‘ حالانکہ حق اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے ان کے لیے حق کو آسان کر دیا اور وہ ان کے پاس حق لے کر آیا مگر انھوں نے اس حق کا سامنا اس رویہ کے برعکس رویے کے ساتھ کیا جس رویے کے ساتھ انھیں اس کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے وہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ ﴿فَسَوْفَ یَ٘اْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَؔ ﴾ ’’سو اب آئی جاتی ہے ان کے پاس حقیقت اس بات کی جس پر وہ ہنستے تھے‘‘ یعنی وہ چیز جس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے اس کے بارے میں عنقریب انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ حق اور سچ ہے، اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کے جھوٹ اور بہتان کو کھول دے گا۔ یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جانے، جنت اور جہنم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ قیامت کے روز ان جھٹلانے والوں سے کہا جائے گا ﴿ هٰؔذِهِ النَّارُ الَّتِیْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ﴾ (الطور: 52؍14) ’’یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘﴿ وَاَقْ٘سَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَؔۙ۰۰لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ﴾ (النحل: 16؍38،39) ’’اور اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا۔ کیوں نہیں یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے ان پر ظاہر کر دے اور اس لیے بھی کہ کافروں کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔‘‘
#
{6} ثم أمرهم أن يعتبروا بالأمم السابقة، فقال: {ألَم يَرَوْا كم أهلكنا من قبلهم من قرنٍ}؛ أي: كم تتابع إهلاكنا للأمم المكذِّبين وأمهلناهم قبل ذلك الإهلاك بأن {مَكَّنَّاهم في الأرض ما لم نمكِّنْ}: لهؤلاء من الأموال والبنين والرفاهية، {وأرْسَلْنا السماءَ عليهم مِدراراً وجعلنا الأنهار تجري من تحتهم}: تُنْبِتُ لهم بذلك ما شاء الله من زروع وثمار يتمتَّعون بها ويتناولون منها ما يشتهون، فلم يشكروا الله على نِعَمِهِ، بل أقبلوا على الشهوات، وألهتهم [أنواع] اللَّذَّات، فجاءتهم رسلهم بالبينات، فلم يصدِّقوها، بل ردُّوها وكذَّبوها، فأهلكهم الله بذُنوبهم، وأنشأ من بعدهم قَرْناً آخرين؛ فهذه سُنَّةُ الله ودأبه في الأمم السابقين واللاحقين؛ فاعتبروا بمن قَصَّ الله عليكم نبأهم.
[6] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ امم سابقہ کے انجام سے عبرت پکڑیں چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَ٘رْنٍ ﴾ ’’کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے جھٹلانے والی کتنی ہی قوموں کو پے در پے ہلاک کر دیا؟‘‘ اور اس ہلاکت سے پہلے ہم نے انھیں مہلت دی ﴿ مَّؔكَّـنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَؔكِّ٘نْ لَّـكُمْ ﴾ ’’ہم نے ان کو زمین میں وہ قوت و طاقت دی جو تمھیں ہم نے نہیں دی‘‘ یعنی ہم نے انھیں مال، اولاد اور خوشحالی سے نوازا ﴿وَاَرْسَلْنَا السَّمَآءَؔ عَلَیْهِمْ مِّؔدْرَارًا١۪ وَّجَعَلْنَا الْاَنْ٘هٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمْ ﴾ ’’اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان کو لگاتار برستا ہوا اور بنا دیں ہم نے نہریں بہتی ہوئی ان کے نیچے‘‘ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا اس پانی سے کھیتیاں اور پھل اگتے تھے جن سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے اور جو دل چاہتا تھا تناول کرتے تھے۔ مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا، شہوات نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا اور لذات نے ان کو غافل کر دیا۔ پس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے مگر انھوں نے ان کی تصدیق نہ کی بلکہ ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو جھٹلا دیا ﴿ فَاَهْلَكْنٰهُمْ۠ بِذُنُوْبِهِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَ٘رْنًا اٰخَرِیْنَ ﴾ ’’تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر دیا اور پیدا کیا ہم نے ان کے بعد دوسری امتوں کو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا پھر ان کے بعد اس نے اور قومیں پیدا کر دیں ۔ گزری ہوئی اور آنے والی قوموں کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے پس اللہ تعالیٰ نے تمھارے سامنے ان کا جو قصہ بیان کیا ہے اس سے عبرت پکڑو۔
آیت: 7 - 9 #
{وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ (7) وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ (8) وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ (9)}
اور اگر اتارتے ہم آپ پر کوئی نوشتہ (لکھا ہوا) کاغذ میں ، پھر چھوتے وہ اس کو اپنے ہاتھوں سے تو بھی کہتے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا نہیں ہے یہ مگر جادو ظاہر(7) اور کہا انھوں نے کیوں نہیں نازل کیا گیا اس پر فرشتہ؟ اور اگر نازل کرتے ہم کوئی فرشتہ تو فیصلہ کر دیا جاتا معاملے کا، پھر نہ مہلت دیے جاتے(8) اور اگر بناتے ہم اس کو فرشتہ تو بھی بناتے ہم اس کو آدمی ہی اور البتہ شبہ ڈالتے ہم ان پر (وہی) جو شبہ وہ (اب) کر رہے ہیں (9)
#
{7} هذا إخبارٌ من الله لرسوله عن شدَّة عناد الكافرين، وأنَّه ليس تكذيبهم لقصورٍ فيما جئتهم به ولا لجهل منهم بذلك، وإنما ذلك ظلمٌ وبغيٌ لا حيلة لكم فيه، فقال: {ولو نزَّلْنا عليك كتاباً في قِرْطاس فلَمَسوه بأيديهم}: وتيقَّنوه، {لقال الذين كفروا}: ظلماً وعلواً: {إن هذا إلا سحرٌ مبينٌ}؛ فأيُّ بينةٍ أعظم من هذه البينة، وهذا قولهم الشنيع فيها، حيث كابروا المحسوس الذي لا يمكن من له أدنى مُسْكَةٍ من عقله دفعه؟!
[7] اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (e) کو کفار کی شدت عناد سے آگاہ فرمایا ہے۔ اور یہ کہ ان کا یہ جھٹلانا آپ کی لائی ہوئی کتاب میں کسی نقص کی وجہ سے نہ تھا اور نہ اس کا سبب ان کی جہالت تھا، یہ تو محض ظلم اور زیادتی کی بنا پر تھا جس میں تمھارے لیے کوئی چارہ نہیں ۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’اگر اتاریں ہم آپ پر لکھا ہوا کاغذ میں ، پھر چھو لیں اس کو اپنے ہاتھوں سے‘‘ یعنی انھیں یقین آجائے ﴿لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ﴾ ’’تو جو کافر ہیں وہ کہیں گے۔‘‘ یعنی ظلم اور تعدی کی بنا پر کفار کہیں گے ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘ اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے؟ اور یہ ہے اس بارے میں ان کا انتہائی قبیح قول۔ انھوں نے ایسی محسوس چیز کا انکار کر دیا جس کا انکار کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا جس میں معمولی سی بھی عقل ہے۔
#
{8} {وقالوا} أيضاً تعنُّتاً مبنيًّا على الجهل وعدم العلم بالمعقول: {لولا أُنزِلَ عليه مَلَكٌ}؛ أي: هلاَّ أُنْزِل مع محمدٍ مَلَك يعاوِنُه ويساعده على ما هو عليه؛ بزعمهم أنَّه بشرٌ وأنَّ رسالة الله لا تكون إلا على أيدي الملائكة. قال الله في بيان رحمته ولطفه بعباده حيث أرسل إليهم بشراً منهم يكون الإيمان بما جاء به عن علم وبصيرةٍ وغيبٍ: {ولو أنزَلْنا مَلَكاً}: برسالتنا؛ لكان الإيمانُ لا يصدُرُ عن معرفةٍ بالحقِّ، ولكان إيماناً بالشهادة الذي لا ينفع شيئاً وحده، هذا إن آمنوا، والغالب أنهم لا يؤمنون بهذه الحالة، فإذا لم يؤمنوا؛ {لَقُضِيَ الأمرُ}: بتعجيل الهلاك عليهم وعدم إنظارِهم؛ لأنَّ هذه سنة الله فيمن طَلَبَ الآيات المقترحة فلم يؤمن بها؛ فإرسال الرسول البشريِّ إليهم بالآيات البيِّنات التي يعلمُ الله أنها أصلحُ للعباد وأرفق بهم مع إمهال الله للكافرين والمكذِّبين خيرٌ لهم وأنفعُ، فطلبُهم لإنزال المَلَكِ شرٌّ لهم لو كانوا يعلمون.
[8] ﴿وَقَالُوْا﴾ یعنی وہ تلبیس کے طور پر کہتے ہیں جو معقول سے لاعلمی اور جہالت پر مبنی ہے ﴿لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ ﴾ ’’ان پر فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا۔‘‘ یعنی محمد (e) کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اترا جو اس کی مدد کرتا اور اس کام میں اس کی معاونت کرتا۔ کیونکہ وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ رسول اللہ e تو بشر ہیں اور رسالت تو فرشتوں میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اس کی رحمت اور اپنے بندوں کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ ہے کہ اس نے انھی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ جو کچھ وہ لے کر مبعوث ہوتا ہے، اس پر ایمان علم اور بصیرت کی بنا پر اور بالغیب ہو۔ ﴿ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا ﴾ ’’اگر ہم فرشتہ نازل کرتے۔‘‘ اگر ہم نے اپنی رسالت کے ساتھ کسی فرشتے کو بھیجا ہوتا تو یہ ایمان معرفت حق کی بنا پر نہ ہوتا بلکہ ایک ایسا ایمان ہوتا جو مشاہدہ سے صادر ہوتا ہے اور ایسا ایمان اکیلا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ ایمان لے آئیں مگر غالب یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر وہ ایمان نہ لائے ﴿ لَّ٘قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ ﴾ ’’تو طے ہو جائے قصہ‘‘ تو ان کی فوری ہلاکت اور عدم مہلت کا فیصلہ ہو جائے گا یہ اس شخص کے بارے میں سنت الٰہی ہے جو حسب خواہش معجزات کا مطالبہ کرتا ہے اور ان پر ایمان نہیں لاتا۔ اس لیے ان کی طرف رسول بشری کو آیات بینات کے ساتھ مبعوث کرنا، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ بندوں کے لیے بہتر اور نرم ہیں ۔ نیز کفار اور جھٹلانے والوں کو مہلت دینا، ان کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ پس ان کا فرشتے اتارنے کا مطالبہ اگر وہ جانیں تو ان کے لیے بہت برا ہے۔
#
{9} ومع ذلك؛ فالمَلَك لو أُنزِل عليهم وأُرْسِل؛ لم يطيقوا التلقِّي عنه ولا احتملوا ذلك ولا أطاقته قُواهم الفانية، فلو {جَعَلْناه ملكاً لجعلناه رجلاً}: لأنَّ الحكمة لا تقتضي سوى ذلك، {ولَلَبَسْنا عليهم ما يَلْبِسونَ}؛ أي: ولكان الأمر مختلطاً عليهم وملبوساً، وذلك بسبب ما لَبَّسوه على أنفسهم؛ فإنهم بَنَوا أمرهم على هذه القاعدة التي فيها اللَّبْس وعدم بيان الحق، فلما جاءهم الحقُّ بطرقه الصحيحة وقواعده التي هي قواعدُه؛ لم يكنْ ذلك هدايةً لهم إذا اهتدى بذلك غيرهم، والذنب ذنبهم؛ حيث أغلقوا على أنفسهم باب الهدى، وفتحوا أبواب الضلال.
[9] بایں ہمہ اگر فرشتہ نازل کر کے ان کی طرف رسول بنا کر بھیج دیا جائے تو وہ اس سے کچھ سیکھنے کی طاقت رکھتے نہ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ان کے قوائے فانی اس کا بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں ﴿ وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا ﴾ ’’اور اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے کسی فرشتے کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا‘‘ کیونکہ حکمت الہیہ اسی کا تقاضا کرتی ہے ﴿ وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ﴾ ’’اور ان کو اسی شبہے میں ڈال دیتے جس میں اب پڑ رہے ہیں ‘‘ یعنی ان پر معاملہ مختلط ہو جاتا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو شبہ میں مبتلا کر لیا کیونکہ انھوں نے اپنے معاملے کی بنیاد اسی قاعدے پر رکھی جو مشتبہ تھا اور اس میں حق واضح نہیں تھا۔ پس جب صحیح طریقوں سے حق ان کے پاس آ گیا اور اس کے وہ قواعد بھی آ گئے جو اس کے حقیقی قواعد ہیں تو یہ حق ان کے لیے ہدایت کا باعث نہ بن سکا جبکہ دوسروں نے اس کے ذریعے سے ہدایت پائی۔ گناہ ان کا اپنا ہے کیونکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر کے گمراہی کے دروازے کھول لیے۔
آیت: 10 - 11 #
{وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (10) قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (11)}
اور تحقیق استہزا کیا گیا رسولوں کے ساتھ آپ سے پہلے، پھر گھیر لیا ان کو جنھوں نے تمسخر کیا تھا ان میں سے، اس (عذاب) نے کہ تھے وہ اس کے ساتھ تمسخر کرتے(10) کہہ دیجیے! سیر کرو تم زمین میں ، پھر دیکھو کیسا ہوا انجام جھٹلانے والوں کا؟(11)
#
{10} يقول تعالى مسلياً لرسوله ومصبِّراً ومتهدداً أعداءه ومتوعداً: {ولقد استُهْزِئ برسل من قبلِكَ}: لما جاؤوا أممهم بالبينات؛ كذَّبوهم واستهزؤوا بهم وبما جاؤوا به، فأهلكهم الله بذلك الكفر والتكذيب، ووفَّى لهم من العذاب أكمل نصيب، {فحاق بالذين سَخِروا منهم ما كانوا به يستهزِئونَ}: فاحذروا أيُّها المكذبون أن تستمِرُّوا على تكذيبكم، فيصيبكم ما أصابهم.
[10] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کو تسلی دیتا ہے اور اسے صبر کی تلقین کرتا ہے اور اس کے دشمنوں کو تہدید و وعید سناتے ہوئے کہتا ہے ﴿ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ﴾’’اور تحقیق استہزا کیا گیا رسولوں سے، آپ سے پہلے۔‘‘جب وہ واضح دلائل کے ساتھ اپنی امتوں کے پاس آئے تو انھوں نے ان کو جھٹلایا انھوں نے ان کے ساتھ اور ان کی تعلیمات کے ساتھ استہزا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کفر اور تکذیب کے باعث ہلاک کر دیا اور عذاب میں سے ان کو پورا پورا حصہ دیا۔ ﴿ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠﴾ ’’پس گھیر لیا ان کو جو ان میں سے استہزا کرنے والے تھے، اس چیز نے جس کے ساتھ وہ استہزا کرتے تھے‘‘ پس اے جھٹلانے والو! جھٹلانے کی روش پر قائم رہنے سے باز آجاؤ، ورنہ تمھیں بھی وہی عذاب آ لے گا جو ان قوموں پر آیا تھا۔
#
{11} فإن شككتُم في ذلك أو ارتَبْتم؛ {فسيروا في الأرض ثم انظُروا كيف كان عاقبةُ المكذِّبين}؛ فلن تجدوا إلا قوماً مُهْلَكين، وأمماً في المَثُلات تالفين، قد أوحشت منهم المنازل، وعَدِمَ من تلك الرُّبوع كلُّ متمتِّع بالسرور نازل، أبادهم الملك الجبار، وكان نبؤهم عِبرةً لأولي الأبصار. وهذا السير المأمور به سير القلوب والأبدان الذي يتولَّد منه الاعتبار، وأما مجرَّد النظر من غير اعتبار؛ فإن ذلك لا يفيد شيئاً.
[11] ﴿ قُ٘لْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْ٘ظُ٘رُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ۠﴾ ’’کہو کہ ملک میں چلو پھراور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘ یعنی اگر تمھیں اس بارے میں کوئی شک و شبہ ہے تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ تم دیکھو گے کہ ایسی قوم ہلاک کر دی گئی اور ایسی امتیں عذاب میں مبتلا کر دی گئیں ۔ ان کے گھر ویران ہو گئے اور ان عیش کدوں میں رہ کر مسرتوں کے مزے لوٹنے والے نیست و نابود ہو گئے۔۔۔ اللہ جبار نے ان کو ہلاک کر دیا اور اہل بصیرت کے لیے ان کو نشان عبرت بنا دیا۔ یہ (سَیْر) جس کا حکم دیا گیا ہے بدنی اور قلبی سیر کو شامل ہے جس سے عبرت جنم لیتی ہے۔ رہا عبرت حاصل کیے بغیر چل پھر کر دیکھنا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
آیت: 12 #
{قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (12)}.
کہہ دیجیے! کس کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے؟ فرما دیجیے! اللہ ہی کا ہے، لازم کر لیا ہے اس نے اپنے نفس پر مہربانی کرنا، یقینا وہ جمع کرے گا انھیں روزقیامت کے، نہیں ہے کوئی شک اس میں ، جن لوگوں نے خسارے میں ڈالا اپنے آپ کو، پس وہ نہیں ایمان لاتے(12)
#
{12} يقول تعالى لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: {قُلْ} لهؤلاء المشركين [باللهِ] مقرِّراً لهم وملزماً بالتوحيد: {لِمَن ما في السموات والأرض}؛ أي: من الخالق لذلك المالك له المتصرِّف فيه؟ {قُلْ} لهم: {لله}، وهم مقرُّون بذلك لا ينكرونه، أفلا حين اعترفوا بانفرادِ الله بالملك والتدبير أن يعترِفوا له بالإخلاص والتوحيد؟ وقوله: {كَتَبَ على نفسه الرحمةَ}؛ أي: العالم العلويُّ والسفليُّ تحت ملكه وتدبيرِهِ، وهو تعالى قد بَسَطَ عليهم رحمته وإحسانه، وتغمَّدهم برحمته وامتنانه، وكتب على نفسه كتاباً: أنَّ رحمته تغلب غضبه، وأن العطاء أحبُّ إليه من المنع، وأن الله قد فتح لجميع العباد أبواب الرحمة إن لم يغلقوا عليهم أبوابها بذُنوبهم، ودعاهم إليها إن لم تمنعهم من طلبها معاصيهم وعيوبهم. وقوله: {لَيَجْمَعَنَّكم إلى يوم القيامة لا ريبَ فيه}: وهذا قَسَمٌ منه، وهو أصدق المخبرين، وقد أقام على ذلك من الحجج والبراهين ما يجعله حقَّ اليقين، ولكن أبى الظالمون إلا جحوداً، وأنكروا قدرة الله على بعث الخلائِق، فأوضعوا في معاصيه، وتجرَّؤوا على الكفر به، فخسروا دنياهم وأخراهم، ولهذا قال: {الذين خَسِروا أنفسَهم فهم لا يؤمنونَ}.
[12] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe سے فرماتا ہے ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے‘‘ یعنی ان مشرکین سے توحید کا اقرار کرواتے اور ان پر اس کی حجت ثابت کرتے ہوئے کہیے ﴿لِّ٘مَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟‘‘ یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے کس نے پیدا کیا۔ کون ان کا مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے ﴿قُ٘لْ ﴾ ان سے کہہ دیجیے ﴿ لِّلّٰه ِ﴾ ’’اللہ کا ہے‘‘ وہ اس کا اقرار کرتے ہیں انکار نہیں کرتے، کیا جب وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ اکیلا ہی کائنات کا مالک اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے تو اس کے لیے توحید اور اخلاص کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ ﴿ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ﴾ ’’اس نے لکھا ہے کہ اپنے نفس پر رحم کرنا‘‘ یعنی تمام عالم علوی اور عالم سفلی، اس کے اقتدار اور تدبیر کے تحت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی رحمت اور احسان کی چادر پھیلا رکھی ہے اور اس کی بے پایاں رحمت نے ان سب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اس نے اپنے لیے لکھ رکھا ہے کہ ’’اس کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے۔‘‘عطا کرنا اس کے نزدیک محروم کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے ہیں اگر بندے اپنے گناہوں کے سبب خود ان کو اپنے آپ پر بند نہ کر لیں ، پھر اس نے انھیں ان دروازوں میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے اگر ان کے گناہ اور عیب ان کو ان دروازوں کی طلب سے روک نہ دیں ۔ ﴿ لَیَجْمَعَنَّـكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ﴾ ’’البتہ اکٹھا کرے گا تم کو قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں ‘‘ اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے قسم ہے اور وہ سب سے زیادہ سچی خبر دینے والا ہے اور اس پر اس نے ایسے براہین و دلائل قائم کیے ہیں جو اسے حق الیقین قرار دیتے ہیں مگر ان ظالموں نے دلائل و براہین کو ٹھکرا دیا اور اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا انکار کر دیا کہ وہ مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا اور گناہ کرنے میں جلدی کی اور اس کے ساتھ کفر کرنے کی جسارت کی، پس وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑ گئے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا تو وہ ایمان نہیں لاتے‘‘
آیت: 13 - 20 #
{وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (13) قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (14) قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (15) مَنْ يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (16) وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (17) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (18) قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُلْ لَا أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (19) الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (20)}.
اور اسی کا ہے جو سکون کرتا ہے رات اور دن میں (اور جو حرکت کرتا ہے) اور وہ سننے جاننے والا ہے(13) کہہ دیجیے! کیا سوائے اللہ کے بنا لوں میں معبود؟ پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کااور وہ (سب کو) کھلاتا ہے اور (اسے) نہیں کھلایا جاتا، کہہ دیجیے! بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ہو جاؤں میں پہلا وہ جو اسلام لایااور نہ ہوں آپ مشرکین میں سے(14) کہہ دیجیے! بے شک میں خوف کرتا ہوں ، اگر نافرمانی کی میں نے اپنے رب کی، عذاب سے ایک بہت بڑے دن کی(15) جو شخص کہ ہٹا لیا گیا (عذاب) اس سے اس دن تو یقینا رحم کر دیا اس پر اس (اللہ) نےاور یہی ہے کامیابی ظاہر(16) اور اگر پہنچائے آپ کو اللہ کوئی تکلیف تو نہیں کوئی دور کرنے والا اسے مگر وہی اور اگر پہنچائے وہ آپ کو کوئی بھلائی تو وہ اوپر ہر چیز کے خوب قادر ہے(17) اور وہ غالب ہے اوپر اپنے بندوں کےاور وہی ہے خوب حکمت والا خبردار(18) کہیے! کون سی چیز زیادہ بڑی ہے شہادت کے اعتبار سے؟ کہہ دیجیے! اللہ ہی، گواہ ہے میرے اور تمھارے درمیان اور وحی کیا گیا ہے میری طرف یہ قرآن تاکہ ڈراؤں میں تمھیں اس کے ذریعے سےاور جس کو یہ پہنچے، کیا تم شہادت دیتے ہو کہ یقینا اللہ کے ساتھ معبود ہیں دوسرے (بھی)؟ کہہ دیجیے! نہیں شہادت دیتا میں ، کہہ دیجیے! بس وہ تو ایک ہی معبود ہےاور یقینا میں بری ہوں اس سے جو تم شریک ٹھہراتے ہو(19) وہ لوگ کہ دی ہم نے انھیں کتاب، پہچانتے ہیں وہ اسے، جس طرح پہچانتے ہیں وہ اپنے بیٹوں کو، وہ لوگ جنھوں نے خسارے میں ڈالا اپنے آپ کو تو وہ نہیں ایمان لاتے(20)
معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سورۂ مبارکہ توحید کو متحقق کرنے کے لیے ہر عقلی اور نقلی دلیل پر مشتمل ہے۔ بلکہ تقریباً تمام سورت ہی توحید کی شان، مشرکین اور انبیا و رسل کی تکذیب کرنے والوں کے ساتھ مجادلات کے مضامین پر مشتمل ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دلائل کا ذکر فرمایا ہے جن سے ہدایت واضح ہوتی ہے اور شرک کا قلع قمع ہوتا ہے۔
#
{13} فذكر أن {له} تعالى {ما سَكَنَ في الليل والنهار}، وذلك هو المخلوقاتُ كلُّها من آدميِّها وجنِّها وملائكتها وحيواناتها وجماداتها؛ فالكلُّ خَلْقٌ مدبَّرون وعبيدٌ مسخَّرون لربِّهم العظيم القاهر المالك؛ فهل يصحُّ في عقل ونقل أن يُعْبَدَ من هؤلاء المماليك الذي لا نفع عنده ولا ضُرَّ ويُتْرَكَ الإخلاصُ للخالق المدبِّر المالك الضارِّ النافع؟! أم العقول السليمة والفطر المستقيمة تدعو إلى إخلاص العبادة والحبِّ والخوف والرجاء لله ربِّ العالمين؟ {السميع}: لجميع الأصوات على اختلاف اللُّغات بتفنُّن الحاجات. {العليم}: بما كان وما يكونُ وما لم يكنْ لو كان كيف كان يكونُ، المطَّلع على الظواهر والبواطن.
[13] چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَالنَّهَارِ ﴾ ’’اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ کہ آرام پکڑتا ہے رات میں اور دن میں ‘‘ یہ جن و انس، فرشتے، حیوانات اور جمادات سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ یہ سب اللہ کی تدبیر کے تحت ہیں یہ سب اللہ کے غلام ہیں جو اپنے رب عظیم اور مالک قاہر کے سامنے مسخر ہیں ۔۔۔ کیا عقل و نقل کے اعتبار سے یہ بات صحیح ہے کہ ان غلام اور مملوک ہستیوں کی عبادت کی جائے جو کسی نفع و نقصان پر قادر نہیں اور خالق کائنات کے لیے اخلاص کو ترک کر دیا جائے جو کائنات کی تدبیر کرتا ، اس کا مالک اور نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہے؟ یا عقل سلیم اور فطرت مستقیم اس بات کی داعی ہے کہ اللہ رب العالمین کے لیے ہرقسم کی عبادت کو خالص کیا جائے، محبت، خوف اور امید صرف اسی سے ہو؟ ﴿ وَهُوَ السَّمِیْعُ﴾ ’’وہ سنتا ہے۔‘‘ اختلاف لغات اور تنوع حاجات کے باوجود وہ تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿الْعَلِیْمُ﴾ ’’وہ جانتا ہے۔‘‘ وہ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو تھیں اور جو مستقبل میں ہوں گی اور ان کو بھی جانتا ہے جو نہ تھیں کہ اگر وہ ہوتیں تو کیسی ہوتیں ، اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہر چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔
#
{14} {قل} لهؤلاء المشركين بالله: {أغيرَ الله أتَّخِذُ وليًّا}: من هؤلاء المخلوقات العاجزة يتولاَّني وينصُرُني؛ فلا أتَّخذ من دونه تعالى وليًّا؛ لأنَّه {فاطر السموات والأرض}؛ أي: خالقهما ومدبِّرهما، {وهو يُطْعِمُ ولا يُطْعَمُ}؛ أي: وهو الرازق لجميع الخلق من غير حاجةٍ منه تعالى إليهم؛ فكيف يَليقُ أن أتَّخِذَ وليًّا غير الخالق الرازق الغني الحميد. {قل إنِّي أمِرْتُ أن أكونَ أولَ من أسلم}: لله بالتوحيدِ وأنقاد له بالطاعةِ؛ لأنِّي أولى من غيري بامتثال أوامر ربِّي، {ولا تكوننَّ من المشركين}؛ أي: ونُهيت أيضاً عن أن أكون من المشركين؛ لا في اعتقادِهِم، ولا في مجالستهم، ولا في الاجتماع بهم؛ فهذا أفرضُ الفروض عليَّ وأوجب الواجبات.
[14] ﴿قُ٘لْ﴾ ’’کہہ دیجیے۔‘‘ یعنی آپ اللہ تعالیٰ سے شرک کرنے والوں سے کہہ دیجیے ﴿ قُ٘لْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّؔخِذُ وَلِیًّا﴾ ’’کیا اللہ کے سوا کسی اور کو میں مددگار بناؤں ؟‘‘ ان عاجز مخلوقات میں سے کون میرا سرپرست و مددگار بنے گا؟ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا والی اور مددگار نہیں بناتا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے یعنی ان کا خالق اور ان کی تدبیر کرنے والا ہے ﴿ وَهُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ ﴾ ’’وہ سب کو کھلاتا ہے، اسے کوئی نہیں کھلاتا‘‘ یعنی وہ تمام مخلوقات کو رزق عطا کرتا ہے بغیر اس کے کہ اس کو ان میں سے کسی کے پاس کوئی حاجت ہو۔ تب یہ کیسے مناسب ہے کہ میں کسی ایسی ہستی کو اپنا والی بنا لوں جو پیدا کرنے والی ہے نہ رزق عطا کرنے والی، جو بے نیاز ہے نہ قابل تعریف۔ ﴿ قُ٘لْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ ﴾ ’’کہہ دیجیے! مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے حکم مانوں ‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی اطاعت کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دوں ۔ کیونکہ میں ہی سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہوں کہ اپنے رب کے احکام کی اطاعت کروں ﴿ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’اور آپ ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ‘‘ یعنی مجھے اس بات سے بھی روک دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں میں شامل ہوں ، یعنی ان کے اعتقادات میں ، نہ ان کے ساتھ مجالست میں اور نہ ان کے ساتھ اجتماع میں ۔ اور یہ حکم میرے لیے سب سے بڑا فرض اور سب سے بڑا واجب ہے۔
#
{15} {قل إنِّي أخافُ إن عصيتُ ربِّي عذابَ يوم عظيم}: فإنَّ المعصية في الشرك توجِبُ الخلود في النار وسَخَطَ الجبار.
[15] ﴿ قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے، میں ڈرتا ہوں ، اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی، بڑے دن کے عذاب سے‘‘ کیونکہ شرک ہمیشہ جہنم میں رہنے اور اللہ جبار کی ناراضی کا موجب ہے۔
#
{16} وذلك اليوم هو اليوم الذي يُخاف عذابُه ويُحذر عقابُه؛ لأنه من صُرِفَ عنه العذابُ يومئذٍ فهو المرحومُ، ومن نجا فيه فهو الفائز حَقًّا؛ كما أنَّ من لم ينجُ منه؛ فهو الهالك الشقيُّ.
[16] اور یوم عظیم سے مراد وہ دن ہے جس کے عذاب سے خوف کھایا جاتا ہے اور اس کی سزا سے بچا جاتا ہے کیونکہ جو اس روز عذاب سے بچا لیا گیا وہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہو گا اور جس نے اس عذاب سے نجات پا لی وہی درحقیقت کامیاب ہے جیسے جس کو اس دن کے عذاب سے نجات نہ ملی تو وہ بدبخت ہلاک ہونے والا ہے۔
#
{17} ومن أدلة توحيده أنه تعالى المنفرد بكشف الضَّرَّاء وجلب الخير والسَّرَّاء، ولهذا قال: {وإن يَمسَسْكَ الله بضُرٍّ}: من فقرٍ أو مرضٍ أو عسرٍ أو غمٍّ أو همٍّ أو نحوه، {فلا كاشفَ له إلَّا هو وإن يَمْسَسْكَ بخيرٍ فهو على كل شيء قديرٌ}: فإذا كان وحدَه النافعَ الضارَّ؛ فهو الذي يستحقُّ أن يُفْرَدَ بالعبوديَّة والإلهيَّة.
[17] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کے دلائل ہیں کہ صرف وہی ایک ہستی ہے جو تکلیفوں کو دور کرتی ہے اور صرف وہی ہے جو بھلائی اور خوشحالی عطا کرتی ہے۔ ﴿ وَاِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ ﴾ ’’اور اگر اللہ تم کو کوئی سختی پہنچائے۔‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ تجھے کسی فقر، مرض، عسرت یا غم و ہموم وغیرہ میں مبتلا کر دے ﴿فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَاِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﴾ ’’تو اسے کو ئی دور کرنے والا نہیں ، سوائے اسکے اور اگر پہنچائے وہ تجھ کو کوئی بھلائی تو وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ پس جب وہی اکیلا نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے تو وہی اکیلا عبودیت و الوہیت کا بھی مستحق ہے۔
#
{18} {وهو القاهرُ فوق عبادِهِ}: فلا يتصرَّفُ منهم متصرِّف ولا يتحرَّك متحرِّك ولا يسكن ساكنٌ إلا بمشيئتِهِ، وليس للملوك وغيرهم الخروجُ عن ملكه وسلطانِهِ، بل هم مدبَّرون مقهورون؛ فإذا كان هو القاهرَ وغيرُه مقهوراً؛ كان هو المستحقَّ للعبادة. {وهو الحكيم}: فيما أمَرَ به ونهى، وأثابَ وعاقبَ، وفيما خَلَقَ وقدَّر، {الخبير}: المطَّلع على السرائر والضمائر وخفايا الأمور، وهذا كلُّه من أدلة التوحيد.
[18] ﴿ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ﴾ ’’اور وہ غالب ہے اپنے بندوں پر‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی تصرف کر سکتا ہے نہ کوئی حرکت کرنے والا حرکت کر سکتا ہے اور نہ اس کی مشیت کے بغیر کوئی ساکن ہو سکتا ہے۔ مملوک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی ملکیت اور تسلط سے نکل سکے، وہ اللہ کے سامنے مغلوب و مقہور اور اس کے دائرۂ تدبیر میں ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ غالب و قاہر ہے اور دوسرے مغلوب و مقہور تو ظاہر ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے ﴿وَهُوَ الْحَكِیْمُ ﴾ ’’اور وہ دانا ہے۔‘‘ وہ اپنے اوامر و نواہی ، ثواب و عقاب اور خلق و قدر میں حکمت سے کام لیتا ہے ﴿ الْخَبِیْرُ ﴾ ’’خبردار ہے۔‘‘ وہ اسرار و ضمائر اور تمام مخفی امور کی اطلاع رکھتا ہے اور یہ سب توحید الٰہی کے دلائل ہیں ۔
#
{19} {قل} لهم لمَّا بيَّنَّا لهم الهدى وأوضحنا لهم المسالك: {أيُّ شيء أكبرُ شهادةً}: على هذا الأصل العظيم، {قل اللهُ} أكبرُ شهادةً؛ فهو {شهيدٌ بيني وبينَكم}؛ فلا أعظمَ منه شهادةً ولا أكبرَ، وهو يشهدُ لي بإقراره وفعلِهِ، فَيُقِرُّني على ما قلتُ لكم؛ كما قال تعالى: {ولو تَقَوَّلَ عَلَيْنا بَعْضَ الأقاويل لأخَذْنا منه باليمين ثم لَقَطَعْنا منه الوتينَ}؛ فالله حكيمٌ قديرٌ، فلا يليق بحكمتِهِ وقدرتِهِ أن يقرَّ كاذباً عليه، زاعماً أنَّ الله أرسلَه ولم يرسِلْه، وأن الله أمره بدعوة الخلق ولم يأمره، وأن الله أباح له دماء من خالفَه وأموالهم ونساءهم وهو مع ذلك يصدِّقه بإقرارِهِ وبفعلِهِ، فيؤيِّده على ما قال بالمعجزاتِ الباهرةِ والآياتِ الظاهرة، وينصرُهُ ويخذِلُ مَن خالفه وعاداه؛ فأيُّ شهادةٍ أكبرُ من هذه الشهادة. وقوله: {وأُوْحيَ إليَّ هذا القرآن لأنذِرَكُم به ومَن بَلَغَ}؛ أي: وأوحى الله إليَّ هذا القرآن الكريم لمنفعتِكم ومصلحتِكم؛ لأنْذِرَكُم به من العقاب الأليم، والنّذارة إنما تكون بذكر ما ينذِرُهم به من الترغيب والترهيب وببيان الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة التي مَن قام بها فقد قَبِلَ النذارة؛ فهذا القرآن فيه النذارةُ لكم أيُّها المخاطَبون وكل مَن بَلَغَهُ القرآن إلى يوم القيامة؛ فإن فيه بيان كلِّ ما يُحتاج إليه من المطالب الإلهية. لما بيَّن تعالى شهادَته التي هي أكبر الشهادات على توحيدِهِ؛ قال: قلْ لهؤلاء المعارضين لخبر الله والمكذِّبين لرسله: {أئنَّكم لَتشهدونَ أنَّ مع الله آلهةً أخرى قل لا أشهدُ}؛ أي: إن شهدوا؛ فلا تشهدْ معهم، فوازنْ بين شهادةِ أصدق القائلين وربِّ العالمين، وشهادة أزكى الخلق المؤيَّدة بالبراهين القاطعة والحجج الساطعة على توحيد الله وحدَه لا شريك له، وشهادةِ أهل الشِّرك الذين مَرَجَتْ عقولُهم وأديانُهم وفَسَدَتْ آراؤهم وأخلاقهم وأضحكوا على أنفسهم العقلاءَ، بل خالفتْ شهادتُهم فِطَرَهم وتناقضتْ أقوالُهم على إثبات أنَّ مع الله آلهةً أخرى مع أنه لا يقومُ على ما خالفوه أدنى شُبهة فضلاً عن الحُجج، واختر لنفسك أيَّ الشهادتين إن كنت تعقلُ، ونحن نختارُ لأنفسنا ما اختارَه الله لنبيِّه الذي أمرنا الله بالاقتداء به فقال: {قلْ إنَّما هو إله واحدٌ}؛ أي: منفرد لا يستحقُّ العبوديَّة والإلهية سواه كما أنه المنفرد بالخلق والتدبير. {وإنني بريءٌ مما تشرِكون} به من الأوثان والأنداد وكل ما أُشْرِكَ به مع الله. فهذا حقيقة التوحيد: إثبات الإلهية لله، ونفيها عما عداه.
[19] ﴿ قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے۔‘‘ چونکہ ہم نے ان کے سامنے ہدایت کو بیان کر دیا اور سیدھی راہوں کو واضح کر دیا ہے اس لیے ان سے کہہ دیجیے ﴿ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ﴾ ’’سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے۔‘‘ یعنی اس اصول عظیم کے بارے میں کون سی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ ﴾ کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَؔكُمْ ﴾ ’’وہ گواہ ہے میرے اور تمھارے درمیان‘‘ پس اس سے بڑا کوئی شاہد نہیں ، وہ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے میری گواہی دیتا ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ اس کو متحقق کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِۙ۰۰لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ۰۰ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ﴾ (الحاقہ: 69؍44۔46) ’’اگر یہ ہمارے بارے میں کوئی جھوٹ گھڑتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ قادر اور حکمت والا ہے اس کی حکمت اور قدرت کے لائق نہیں کہ ایسے جھوٹے شخص کو برقرار رکھے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ اللہ کا رسول نہ ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان لوگوں کو دعوت دینے کا حکم دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہ دیا ہو اور یہ کہ جو اس کی مخالفت کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ان کا خون، ان کا مال اور ان کی عورتیں مباح کر دی ہیں ۔ اس فریب کاری کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے اس کی تصدیق کرے، وہ جو کچھ کرے معجزات باہرہ اور آیات ظاہرہ کے ذریعے سے اس کی تائید کرے اور اسے فتح و نصرت سے نوازے جو اس کی مخالفت کرے اور اس سے عداوت رکھے، اسے اپنی نصرت سے محروم کر دے۔ پس اس گواہی سے بڑی کون سی گواہی ہے؟ ﴿ وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنُ لِاُنْذِرَؔكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَ٘غَ ﴾ ’’اور اتارا گیا میری طرف قرآن تاکہ ڈراؤں میں تم کو اس کے ساتھ اور جس کو یہ پہنچے‘‘ یعنی تمھارے فائدے اور تمھارے مصالح کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میری طرف وحی کیا ہے تاکہ میں تمھیں دردناک عذاب سے ڈراؤں ۔ (اِنْذَار) یہ ہے کہ جس چیز سے ڈرانا مقصود ہو، اسے بیان کیا جائے۔ جیسے ترغیب و ترہیب، اعمال اور اقوال ظاہرہ و باطنہ۔ جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے وہ گویا انذار کو قبول کرتا ہے۔ پس اے مخاطبین یہ قرآن تمھیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے پاس، قیامت تک یہ پہنچے گا، برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں ان تمام مطالب الہیہ کا بیان موجود ہے جن کا انسان محتاج ہے۔
#
{20} لما بيَّن شهادته وشهادة رسوله على التوحيد وشهادة المشركين الذين لا علمَ لديهم على ضدِّه؛ ذكر أنَّ أهل الكتاب من اليهود والنصارى {يعرِفونَه}؛ أي: يعرفون صحة التوحيد، {كما يعرِفون أبناءَهم}؛ أي: لا شكَّ عندهم فيه بوجهٍ؛ كما أنهم لا يشتَبِهون بأولادهم، خصوصاً البنين الملازمين في الغالب لآبائهم، ويُحتمل أن الضمير عائد إلى الرسول محمد - صلى الله عليه وسلم -، وأن أهل الكتاب لا يشتبِهون بصحَّة رسالته ولا يمترون بها لما عندهم من البشارات به ونعوتِهِ التي تنطبق عليه ولا تَصْلُحُ لغيره، والمعنيان متلازمان. قوله: {الذين خَسِروا أنفُسَهم}؛ أي: فَوَّتوها ما خُلِقَتْ له من الإيمان والتوحيد وحَرَموها الفضل من الملك المجيد، {فهم لا يؤمنون}: فإذا لم يوجدِ الإيمان منهم؛ فلا تسألْ عن الخسارِ والشرِّ الذي يحصل لهم.
[20] جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی گواہی کا ذکر فرمایا جو سب سے بڑی گواہی ہے تو اپنے رسولe سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خبر کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں سے کہہ دیجیے ﴿اَىِٕنَّـكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰى١ؕ قُ٘لْ لَّاۤ اَشْهَدُ ﴾ ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ، کہہ دیجیے! میں تو گواہی نہیں دیتا‘‘ یعنی اگر وہ گواہی دیں تو ان کے ساتھ گواہی مت دیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لاشریک ہونے پر ایک طرف اللہ کی گواہی ہے جو سب سے زیادہ سچا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی طرح مخلوق میں سے پاکیزہ ترین ہستی (آخری رسول) کی گواہی ہے جس کی تائید میں قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں اور دوسری طرف مشرکین کی شہادت ہے جن کی عقل اور دین خلط ملط ہو گئے ہیں جن کی آراء اور اخلاق خرابی کا شکار ہو گئے ہیں اور جنھوں نے عقل مندوں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا ہے، ان دونوں شہادتوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ بلکہ ان مشرکین کی گواہی تو خود ان کی اپنی فطرت کے خلاف ہے اور ان کے اقوال اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں کے اثبات کے بارے میں متناقض ہیں ۔ بایں ہمہ جس چیز کی وہ مخالفت کرتے ہیں اس کے خلاف دلائل تو کجا ایک ادنیٰ سا شبہ بھی وارد نہیں ہو سکتا۔ اگر تو سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو اپنے لیے ان دونوں میں سے کوئی سی گواہی چن لے۔ ہم تو اپنے لیے وہی چیز اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیe کے لیے اختیار کی ہے اور اس کی پیروی کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا ﴿قُ٘لْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ صرف وہی ایک معبود ہے۔‘‘ یعنی وہ اکیلا معبود ہے اور اس کے سوا کوئی عبودیت اور الوہیت کا مستحق نہیں ، جیسے وہ تخلیق و تدبیر میں منفرد ہے ﴿ وَّاِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّؔمَّا تُ٘شْرِكُوْنَ ﴾ ’’اور میں بیزار ہوں تمھارے شرک سے‘‘ یعنی تم جن بتوں اور دیگر خداؤں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ تمام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا جاتا ہے۔ میں ان سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں ۔ یہ ہے توحید کی حقیقت، یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اس کی نفی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی اور اپنے رسول کی شہادت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس مشرکین کی شہادت کا بھی ذکر کیا جن کے پاس کوئی علم نہیں۔ تو اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ یَعْرِفُوْنَهٗ ﴾ ’’وہ پہچانتے ہیں اسے‘‘ یعنی وہ توحید کی صحت کو جانتے ہیں ﴿ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ ﴾ ’’جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘‘ یعنی اس کی صحت میں ان کے ہاں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں جیسے انھیں اپنی اولاد کے بارے میں کوئی اشتباہ واقع نہیں ہوتا، خاص طور پر وہ بیٹے جو غالب طور پر اپنے باپ کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر رسول اللہe کی طرف لوٹتی ہو تب اس کے معنی ہوں گے کہ آپe کی رسالت کے حق ہونے میں اہل کتاب کو کوئی اشتباہ تھا نہ کوئی شک۔ کیونکہ ان کے پاس آپ کی بعثت کے بارے میں بشارتیں موجود تھیں اور وہ تمام صفات (جو ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں ) آپe کے سوا کسی پر منطبق ہوتی تھیں نہ آپe کے سوا کسی کے شایان شان تھیں ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ ﴿ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ﴾ ’’وہ لوگ جنھوں نے اپنے نفسوں کو نقصان میں ڈالا‘‘ یعنی جس ایمان اور توحید کے لیے ان کے نفوس کو تخلیق کیا گیا تھا انھوں نے اپنے نفوس کو ان سے بے بہرہ کر دیا اور بزرگی کے مالک، بادشاہ حقیقی کے فضل سے ان کو محروم کر دیا ﴿ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’پس وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘ پس جب ان کے اندر ایمان ہی موجود نہیں تو اس خسارے اور شر کے بارے میں مت پوچھ جو ان کو حاصل ہوگا۔
آیت: 21 #
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (21)}.
اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے، جو باندھے اوپر اللہ کے جھوٹ یا جھٹلائے اس کی آیات کو، یقینا نہیں فلاح پائیں گے ظالم(21)
#
{21} أي: لا أعظم ظلماً وعناداً ممَّن كان فيه أحد الوصفين؛ فكيف لو اجتمعا: افتراء الكذب على الله، أو التكذيب بآياته التي جاءت بها المرسلون؟! فإنَّ هذا أظلم الناس، والظالم لا يفلِحُ أبداً، ويدخل في هذا كلُّ من كذب على الله بادِّعاء الشريك له والعوين، أو زعم أنه ينبغي أن يُعْبَدَ غيره، أو اتَّخذ له صاحبةً أو ولداً، وكلُّ من ردَّ الحقَّ الذي جاءت به الرسل أو من قام مقامهم.
[21] یعنی ظلم اور عناد میں اس شخص سے بڑھ کر کوئی نہیں جس میں ان دونوں اوصاف میں سے کوئی ایک وصف ہو، چہ جائیکہ جس میں دونوں ہی جمع ہوں : (۱) اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ گھڑنا۔ (۲) اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا جنھیں رسول لے کر آئے ہیں ۔ یہ شخص سب سے بڑا ظالم ہے اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کرتے ہوئے اس کے شریک اور معاون ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنا جائز ہے یا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کوئی بیوی یا بیٹا بنایا ہے۔ اور اس وعید میں وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے حق کو جھٹلایا جسے لے کر انبیا و مرسلین مبعوث ہوئے اور جس کے علم بردار ان کے جانشین (داعیان حق) ہوئے۔
آیت: 22 - 24 #
{وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (23) انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (24)}
اور جس دن ہم اکٹھا کریں گے ان سب کو، پھر ہم کہیں گے ان لوگوں کو جو شریک ٹھہراتے تھے، کہاں ہیں تمھارے وہ شریک کہ جنھیں تھے تم (شریک) گمان کرتے؟(22) پھر نہ ہوگی معذرت ان کی مگر یہ کہ وہ کہیں گے قسم ہے اللہ، ہمارے رب کی! نہیں تھے ہم مشرک(23) دیکھیں ! کیسا جھوٹ بولیں گے وہ اپنے آپ پر اور گم ہو جائے گا ان سے جو تھے وہ افتراء باندھتے(24)
#
{22} يخبر تعالى عن مآل أهل الشرك يوم القيامة، وأنهم يُسْألون ويُوَبَّخُونَ فيُقال لهم: أين شركائي الذين كُنْتُم تزعمونَ؛ أي: إن الله ليس له شريك، وإنَّما ذلك على وجه الزعم منهم والافتراء.
[22] اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز اہل شرک کے انجام کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے ان سے اس شرک کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان کو زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا ﴿اَیْنَ شُ٘رَؔكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ﴾ ’’تمھارے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم شریک گمان کرتے تھے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا تو کوئی شریک نہیں ، یہ محض زعم باطل اور تمھاری افترا پردازی ہے جو تم نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیے۔
#
{23} {ثم لم تكن فتنتُهم}؛ أي: لم يكن جوابُهم حين يُفتنون ويُختبرون بذلك السؤال إلاَّ إنكارَهم لشِرْكهم وحَلِفَهم أنهم ما كانوا مشركين.
[23] ﴿ ثُمَّ لَمْ تَكُ٘نْ فِتْنَتُهُمْ ﴾ ’’پھر نہ رہے گا ان کے پاس کوئی فریب‘‘ یعنی جب ان کو آزمایا جائے گا اور مذکورہ سوال کیا جائے گا تو ان کا جواب اس کے سوا کوئی نہیں ہو گا کہ وہ اپنے شرک کا ہی انکار کر دیں گے اور قسم اٹھا کر کہیں گے کہ وہ مشرک نہیں ہیں۔
#
{24} {انظر}: متعجباً منهم ومن أحوالهم، {كيف كَذَبوا على أنفسهم}؛ أي: كذبوا كذباً عاد بالخَسارِ على أنفسهم وضَرَّهُم ـ واللهِ ـ غايةَ الضَّرر، {وَضَلَّ عنهم ما كانوا يفترونَ}: من الشُّركاء الذين زعَموهم مع الله، تعالى الله عن ذلك علوًّا كبيراً.
[24] ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ ﴾ ’’دیکھیے‘‘ یعنی ان پر اور ان کے احوال پر تعجب کرتے ہوئے دیکھیے ﴿ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ ﴾ ’’کیسے جھوٹ بولا انھوں نے اپنے پر‘‘ یعنی انھوں نے ایسا جھوٹ باندھا کہ… اللہ کی قسم!… اس کا خسارہ اور انتہائی نقصان انھی کو پہنچے گا ﴿ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’اور کھو گئیں ان سے وہ باتیں جو وہ بنایا کرتے تھے‘‘ یعنی وہ شریک جو وہ گھڑا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ الوہیت میں شریک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس افتراپردازی سے بالا و بلند تر ہے۔
آیت: 25 #
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (25)}.
اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو کان لگاتے ہیں آپ کی طرف اور کر دیے ہم نے ان کے دلوں پر پردے کہ وہ اسے سمجھ ہی (نہ) سکیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ ہےاور اگر دیکھ لیں وہ ساری نشانیاں ، نہیں ایمان لائیں گے وہ ان پر، حتی کہ جب آتے ہیں وہ آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے آپ سے تو کہتے ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، نہیں ہیں یہ مگر داستانیں پہلوں کی(25)
#
{25} أي: ومن هؤلاء المشركين قومٌ يحمِلُهم بعض الأوقات بعض الدواعي إلى الاستماع [لما تقول]، ولكنه استماعٌ خالٍ من قصد الحقِّ واتباعِهِ، ولهذا لا ينتفعونَ بذلك الاستماع لعدم إرادتِهِم للخير. {وجَعَلْنا على قلوبهم أكِنَّةً}؛ أي: أغطيةً وأغشيةً لئلاَّ يَفْقَهوا كلام الله، فصان كلامَه عن أمثال هؤلاء. {وفي آذانِهِم}: جعلنا {وَقْراً}؛ أي: صمماً، فلا يستمِعون ما ينفعهم، {وإن يَرَوْا كلَّ آيةٍ لا يؤمنوا بها}: وهذا غاية الظُّلم والعناد: أنَّ الآيات البيِّنات الدالَّة على الحقِّ لا ينقادون لها ولا يصدِّقون بها، بل يجادِلون الحق بالباطل لِيُدْحِضوه، ولهذا قال: {حتَّى إذا جاؤوك يجادِلونك يقولُ الذين كفروا إنْ هذا إلَّا أساطيرُ الأوَّلين}؛ أي: مأخوذ من صحف الأولين المسطورة التي ليست عن الله ولا عن رسله، وهذا من كفرِهم، وإلاَّ؛ فكيف يكون هذا الكتاب الحاوي لأنباء السابقين واللاحقين والحقائق التي جاءت بها الأنبياء والمرسلون والحق والقسط والعدل التام من كل وجهٍ أساطير الأولين؟!
[25] یعنی ان مشرکین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان کے بعض داعیے بسا اوقات سننے پر آمادہ کر دیتے ہیں مگر یہ سننا قصدِ حق اور اس کی اتباع سے عاری ہوتا ہے بنابریں وہ اس سننے سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ ان کا ارادہ بھلائی کا نہیں ہوتا ﴿وَجَعَلْنَا عَلٰى قُ٘لُوْبِهِمْ اَكِنَّةً ﴾ ’’اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں ‘‘ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہ سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس قسم کے لوگوں سے محفوظ رہے ﴿ وَفِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْ٘رًا ﴾ ’’اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا ہے۔‘‘ یعنی ان کے کانوں میں بہرا پن اور گرانی ہے وہ اس طرح نہیں سن سکتے جس سے ان کو کوئی فائدہ پہنچے۔ ﴿وَاِنْ یَّرَوْا كُ٘لَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا ﴾ ’’اور اگر وہ دیکھ لیں تمام نشانیاں ، تب بھی ایمان نہیں لائیں گے‘‘ اور یہ ظلم و عناد کی انتہا ہے کہ وہ حق کو ثابت کرنے والے واضح دلائل کو مانتے ہیں نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے باطل کی مدد سے جھگڑتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْكَ یُجَادِلُوْنَكَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں جھگڑنے کو تو کافر کہتے ہیں ، یہ تو صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ‘‘ یعنی یہ سب کچھ پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے ماخوذ کیا گیا ہے جو اللہ کی طرف سے ہیں نہ اس کے رسولوں کی طرف سے۔ یہ ان کا کفر محض ہے ورنہ اس کتاب کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کیسے کہا جا سکتا ہے جو گزرے ہوئے اور آنے والے لوگوں ، انبیا و مرسلین کے لائے ہوئے حقائق، حق اور ہرپہلو سے کامل عدل و انصاف پر مشتمل ہے؟
آیت: 26 #
{وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ وَإِنْ يُهْلِكُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (26)}.
اور وہ روكتے ہیں اس سے (دوسروں کو) اور دور رہتے ہیں (خود بھی) اس سےاور نہیں ہلاک کرتے وہ مگر اپنے آپ کواور وہ نہیں شعور رکھتے(26)
#
{26} {وهم}؛ أي: المشركون بالله المكذِّبون لرسوله يجمعون بين الضَّلال والإضلال؛ ينهون الناس عن اتباع الحقِّ، ويحذِّرونهم منه، ويبعدون بأنفسهم عنه، ولن يضرُّوا الله ولا عباده المؤمنين بفعلهم هذا شيئاً. {إن يُهلكون إلا أنفُسَهم وما يشعرونَ}: بذلك.
[26] ﴿ وَهُمْ ﴾ ’’اور وہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے اور اس کے رسولe کی تکذیب کرنے والے لوگ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کی صفات کے جامع ہیں ، وہ لوگوں کو بھی اتباع حق سے روکتے ہیں ، انھیں حق سے ڈراتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بھی حق سے دور رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے ان کرتوتوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ﴿وَاِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَشْ٘عُرُوْنَ ﴾ ’’وہ اپنے آپ کو ہی ہلاک کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں ہیں ‘‘ یعنی ان کو اس کا شعور نہیں ۔
آیت: 27 - 29 #
{وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَالَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (27) بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (28) وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (29)}
اور اگر آپ دیکھیں جبکہ کھڑے کیے جائیں گے وہ اوپر آگ کے تو کہیں گے، اے کاش! ہم لوٹا دیے جائیں تو نہ جھٹلائیں گے ہم آیات اپنے رب کی اور ہوں گے ہم مومنوں سے(27)بلکہ ظاہر ہو جائے گا ان کے لیے جو تھے وہ چھپاتے پہلےاور اگر وہ لوٹا دیے جائیں تب بھی کریں گے وہ ، پھر وہی کام کہ روکے گئے تھے وہ ان سےاور یقینا وہ جھوٹے ہیں (28) اور کہتے ہیں وہ کہ نہیں ہے یہ (زندگی) مگر زندگی ہماری دنیا کی اور نہیں ہم اٹھائے جائیں گے(29)
#
{27} يقول تعالى مخبراً عن حال المشركين يوم القيامة وإحضارهم النار: {ولو ترى إذْ وُقِفوا على النار}: ليوبَّخوا ويُقَرَّعوا؛ لرأيت أمراً هائلاً وحالاً مفظعة، ولرأيتهم كيف أقرُّوا على أنفسهم بالكفر والفسوق، وتمنَّوا أنْ لو يُرَدُّوا إلى الدُّنيا، {فقالوا يا لَيْتَنا نُرَدُّ ولا نكذِّبَ بآيات ربِّنا ونكونَ من المؤمنين}.
[27] اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین کے حال اور جہنم کے سامنے ان کو کھڑے کیے جانے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ ﴾ ’’اگر آپ دیکھیں جس وقت کھڑے کیے جائیں گے وہ دوزخ پر‘‘ تاکہ ان کو زجر و توبیخ کی جائے.... تو آپ بہت ہولناک معاملہ اور ان کا بہت برا حال دیکھتے نیز آپ یہ دیکھتے کہ یہ لوگ اپنے کفر و فسق کا اقرار کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کو دنیا میں پھر واپس بھیجا جائے ﴿ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’پس وہ کہیں گے، اے کاش ہم پھر بھیج دیے جائیں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہو جائیں ہم ایمان والوں میں سے‘‘
#
{28} {بل بدا لهم ما كانوا يُخفون من قبلُ}: فإنهم كانوا يُخفون في أنفسهم أنَّهم كانوا كاذبين، ويبدو في قلوبهم في كثير من الأوقات، ولكن الأغراض الفاسدة صدَّتهم عن ذلك وصَدَفَتْ قلوبَهم عن الخير، وهم كَذَبَةٌ في هذه الأمنية، وإنما قصدهم أن يدفعوا بها عن أنفسهم العذاب. فلو {رُدُّوا لعادوا لما نُهوا عنه وإنَّهم لكاذبون}.
[28] ﴿ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’ بلکہ ظاہر ہو گیا جو وه چھپاتے تھے پہلے‘‘ اس لیے کہ وہ اپنے دل میں اس حقیقت کو چھپاتے تھے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کے دلوں کا جھوٹ بسا اوقات ظاہر ہو جاتا تھا۔ مگر ان کی فاسد اغراض ان کو حق سے روک دیتی تھیں اور ان کے دلوں کو بھلائی سے پھیر دیتی تھیں ، وہ اپنی ان تمناؤں میں جھوٹے ہیں ، ان کا مقصد محض اپنے آپ کو عذاب سے ہٹانا ہے۔ ﴿ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’اگر ان کو واپس لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے ان کو روکا گیا ہے۔ اور بے شک یہ سخت جھوٹے ہیں ۔‘‘
#
{29} {وقالوا} منكرين للبعثِ: {إن هي إلَّا حياتُنا الدُّنيا}؛ أي: ما حقيقة الحال والأمر وما المقصودُ من إيجادِنا إلاَّ الحياة الدُّنيا وحدها، {وما نحن بمبعوثينَ}.
[29] ﴿وَقَالُوْۤا ﴾ ’’اور وہ کہتے ہیں ۔‘‘ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کہتے ہیں ﴿اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا ﴾ ’’ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے۔‘‘ یعنی حقیقت حال یہ ہے کہ ہمیں وجود میں لانے کا اس دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ﴿ وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ۠ ﴾ ’’ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔‘‘
آیت: 30 #
{وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ قَالَ أَلَيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (30)}.
اور کاش کہ دیکھیں آپ جب کھڑے کیے جائیں گے وہ سامنے اپنے رب کے، کہے گا وہ، کیا نہیں ہے یہ حق؟ وہ کہیں گے، کیوں نہیں ، قسم ہے ہمارے رب کی! تو فرمائے گا وہ، پس چکھو تم عذاب بوجہ اس کے جو تھے تم کفر کرتے(30)
#
{30} أي: {ولو ترى} الكافرينَ {إذ وُقِفوا على ربِّهم}؛ لرأيت أمراً عظيماً وهولاً جسيماً، {قال} لهم موبخاً ومقرعاً: {أليس هذا} الذي تَرَوْنَ من العذاب {بالحقِّ قالوا بلى وربِّنا}: فأقرُّوا واعترفوا حيث لا ينفعُهم ذلك، {قال فذوقوا العذابَ بما كنتُم تكفُرون}.
[30] ﴿ وَلَوْ تَرٰۤى ﴾ ’’اگر آپ دیکھیں ‘‘ یعنی اگر آپ کافروں کو دیکھیں ﴿ اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ ﴾ ’’جبکہ انھیں ان کے رب کے سامنے کھڑا کیا جائے گا‘‘ تو آپ بہت بڑا معاملہ اور بہت ہولناک منظر دیکھیں گے۔ ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ اَلَ٘یْسَ هٰؔذَا بِالْحَقِّ ﴾ ’’کیا یہ برحق نہیں۔‘‘ یعنی وہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو، کیا یہ سچ نہیں ؟ ﴿ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا ﴾ ’’وہ کہیں گے کیوں نہیں ، قسم ہے اپنے رب کی‘‘ پس وہ اقرار اور اعتراف کریں گے جبکہ یہ اعتراف انھیں کوئی فائدہ نہ دے گا ﴿ قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ ’’اب چکھو اس عذاب کا مزا جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔‘‘
آیت: 31 #
{قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَاحَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ (31)}.
یقینا خسارے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات کو، یہاں تک کہ جب آئے گی ان کے پاس قیامت اچانک تو کہیں گے وہ ہائے افسوس! اس پر جو کوتاہی کی ہم نے اس کی بابت اور وہ اٹھائے ہونگے اپنے بوجھ اوپر اپنی پیٹھوں کے خبردار! برا ہے جو (بوجھ) وہ اٹھائیں گے(31)
#
{31} أي: قد خاب وخَسِرَ وحُرِمَ الخيرُ كلُّه من كذَّب بلقاء الله، فأوجب له هذا التكذيبُ الاجتراء على المحرَّمات واقتراف الموبقات، {حتى إذا جاءتْهم الساعةُ}: وهم على أقبح حال وأسوئهِ، فأظهروا غايةَ الندم، {وقالوا يا حسرتنا على ما فرطنا فيها}: ولكن هذا تحسر ذهب وقته، {وهم يحملون أوزارهم على ظهورهم ألا ساء ما يزِرونَ}: فإنَّ وِزْرَهُم وزرٌ يُثْقِلُهم ولا يقدرون على التخلُّص منه، ولهذا خُلِّدوا في النار، واستحقوا التأبيد في غضب الجبار.
[31] جس کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کو جھٹلایا، وہ خائب و خاسر ہوا اور ہر قسم کی بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔ پس یہ تکذیب محرمات کے انکار کی جسارت اور ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال کے اکتساب کی جرأ ت کی موجب ہوتی ہے ﴿ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً﴾ ’’یہاں تک کہ جب آپہنچے گی ان پر قیامت اچانک‘‘ اور وہ اس وقت بدترین اور قبیح ترین حال میں ہوں گے تب وہ انتہائی ندامت کا اظہار کریں گے ﴿ قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا ﴾ ’’کہیں گے، اے افسوس، کیسی کوتاہی ہم نے کی اس میں ‘‘ مگر حسرت اور ندامت کے اظہار کا وقت جا چکا ہو گا ﴿ وَهُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ﴾ ’’اور وہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر، سن لو! کہ برا ہے وہ بوجھ جس کو وہ اٹھائیں گے‘‘ کیونکہ ان کا بوجھ ایسا بوجھ ہو گا جو ان کے لیے سخت بھاری ہو گا اور وہ اس سے گلوخلاصی پر قادر نہ ہوں گے، وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ جبار کی ابدی ناراضی کے مستحق ہوں گے۔
آیت: 32 #
{وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (32)}.
اورنہیں ہے زندگی دنیا کی مگر کھیل اور تماشہ اور گھر آخرت کا بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے ہیں کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟(32)
#
{32} هذه حقيقة الدُّنيا وحقيقة الآخرة: أما حقيقة الدنيا؛ فإنها لعب ولهو، لعب في الأبدان، ولهو في القلوب؛ فالقلوب لها والهةٌ، والنفوس لها عاشقةٌ، والهموم فيها متعلقةٌ، والاشتغال بها كلعب الصبيان. وأما الآخرة؛ فإنَّها {خيرٌ للذين يتَّقون}؛ في ذاتها وصفاتها، وبقائها ودوامها، وفيها ما تشتهيه الأنفُسُ وتَلَذُّ الأعينُ؛ من نعيم القلوب والأرواح، وكثرة السرور والأفراح، ولكنها ليست لكلِّ أحدٍ، وإنما هي للمتَّقين، الذين يفعلون أوامر الله، ويتركون نواهِيَهُ وزواجِرَه، {أفلا تعقِلون}؛ أي: أفلا يكون لكم عقولٌ بها تدرِكون أيَّ الدارين أحق بالإيثارِ؟!
[32] یہی دنیا اور آخرت کی حقیقت ہے۔ رہی دنیا کی حقیقت تو یہ محض لہو و لعب ہے۔ بدن کا کھیل تماشہ۔ اور قلب کا کھیل تماشہ، پس دل لہو و لعب پر فریفتہ، نفوس اس پر عاشق اور ارادے اس سے پیوست رہتے ہیں اور لہو و لعب میں مشغولیت اس میں ایسے ہوتی ہے جیسے بچے کھیل میں مگن ہوتے ہیں ۔ رہی آخرت تو وہ ﴿ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ ﴾ اپنی ذات و صفات اور بقا و دوام کے اعتبار سے اہل تقویٰ کے لیے بہتر ہے۔ اس میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جس کی نفس خواہش کریں گے ،جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی، یعنی قلب و روح کی نعمت اور مسرت و فرحت کی کثرت۔ مگر یہ نعمتیں اور مسرتیں ہر ایک کے لیے نہیں ہوں گی بلکہ صرف متقی لوگوں کے لیے ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کی منہیات کو ترک کرتے ہیں ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ کیا تمھارے پاس عقل نہیں جس کے ذریعے سے تم یہ ادراک کر سکو کہ دنیا اور آخرت میں سے کون سا گھر ترجیح دیے جانے کا مستحق ہے؟
آیت: 33 - 35 #
{قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ (33) وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ (34) وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِآيَةٍ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ (35)}.
تحقیق جانتے ہیں ہم بلاشبہ غمگین کرتی ہے آپ کو وہ بات جو وہ کہتے ہیں ، پس بے شک وہ نہیں جھٹلاتے آپ کو لیکن وہ ظالم تو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں (33) اور بلاشبہ جھٹلائے گئے کئی رسول آپ سے پہلے تو صبر کیا انھوں نے اوپر اس کے جو وہ جھٹلائے گئے اور ایذاء دیے گئے، حتی کہ آگئی ان کے پاس ہماری مدداور نہیں کوئی تبدیل کرنے والا اللہ کے کلمات کواور یقینا آچکی ہیں آپ کے پاس کچھ خبریں رسولوں کی(34) اور اگر ہو گراں آپ پر اعراض کرنا ان کا تو اگر استطاعت رکھتے ہیں آپ یہ کہ تلاش کریں کوئی سرنگ زمین میں یا سیڑھی آسمان میں، پھر لے آئیں آپ ان کے پاس کوئی نشانی، (تو کر دیکھیں )اور اگر چاہتا اللہ تو جمع کر دیتا انھیں ہدایت پر، پس نہ ہوں آپ نادانوں سے(35)
#
{33} أي: قد نعلم أنَّ الذي يقول المكذِّبون فيك يَحْزُنُك ويسوؤك، ولم نأمُرْك بما أمَرْناك به من الصبر إلاَّ لِتَحْصَلَ لك المنازلُ العالية، والأحوال الغاليةُ؛ فلا تظنَّ أنَّ قولَهم صادرٌ عن اشتباهٍ في أمرك وشكٍّ فيك؛ {فإنَّهم لا يكذِّبونَك}: لأنهم يعرفون صِدْقَكَ ومَدْخَلَك ومَخْرَجَك وجميع أحوالك، حتى إنَّهم كانوا يسمُّونه قبل بعثتِهِ الأمين، {ولكنَّ الظالمينَ بآياتِ الله يَجْحَدونَ}؛ أي: فإنَّ تكذيبهم لآيات الله التي جعلها الله على يديك.
[33] یعنی ہمیں علم ہے کہ آپ کی تکذیب کرنے والے آپ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے اور آپ غم زدہ ہوتے ہیں ۔ ہم نے آپ کو صبر کرنے کا حکم محض اس لیے دیا ہے تاکہ آپ کو مقامات بلند اور گراں قیمت احوال حاصل ہوں ۔ پس آپ یہ نہ سمجھیں کہ ان کا یہ قول اس سبب سے صادر ہوا ہے کہ ان کو آپ کے بارے میں کوئی اشتباہ یا شک لاحق ہوا ہے ﴿ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ ﴾ ’’بے شک وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے‘‘ کیونکہ وہ آپ کی صداقت، آپ کے اندر باہر اور آپ کے تمام احوال کو خوب جانتے ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ آپe کی بعثت سے پہلے آپ کو ’’امین‘‘ کہا کرتے تھے ﴿ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ ﴾ ’’لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر ظاہر کیا۔
#
{34} {ولقد كُذِّبَتْ رسلٌ من قبلك فصبروا على ما كُذِّبوا وأوذوا حتى أتاهم نصرُنا}: فاصبرْ كما صبروا؛ تظفرْ كما ظفروا، {ولقد جاءك من نبإِ المرسلين}؛ ما به يَثْبُتُ فؤادُك، ويطمئنُّ به قلبك.
[34] اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ﴾ ’’آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا، پس انھوں نے اپنی تکذیب اور ایذا دیے جانے پر صبر کیا، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی‘‘ پس جس طرح انھوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر کیجیے۔ جس طرح وہ ظفریاب ہوئے آپ بھی ظفریاب ہوں گے : ﴿وَلَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْ٘مُرْسَلِیْ٘نَ ﴾ ’’آپ کے پاس گزشتہ انبیا و مرسلین کی خبر پہنچ گئی ہے‘‘ جس سے آپ کے دل کو تقویت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
#
{35} {وإن كان كَبُرَ عليك إعراضُهم}؛ أي: شقَّ عليك من حرصِك عليهم ومحبَّتِك لإيمانهم؛ فابذلْ وسعكَ في ذلك؛ فليس في مقدورك أن تهدي من لم يُرِدِ الله هدايَتَه. {فإنِ استطعتَ أن تبتغيَ نفقاً في الأرض أو سُلَّماً في السماء فتأتيهم بآية}؛ أي: فافعل ذلك؛ فإنه لا يفيدُهم شيئاً، وهذا قطعٌ لطمعه في هدايته أشباه هؤلاء المعاندين، {ولو شاء الله لَجَمعهم على الهُدى}: ولكنَّ حكمته تعالى اقتضت أنَّهم يَبْقَوْن على الضلال، {فلا تكوننَّ من الجاهلينَ}: الذين لا يعرِفون حقائق الأمور ولا ينزِلونها على منازلها.
[35] ﴿ وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ ﴾ ’’اور اگر ان کی روگردانی آپ پر شاق گزرتی ہے۔‘‘ یعنی اگر ان کا اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے کیونکہ آپ ان کے ایمان کی بہت خواہش رکھتے ہیں تو آپ اس بارے میں اپنی پوری کوشش کر دیکھیے۔ پس اس شخص کو ہدایت دینا آپ کے بس میں نہیں جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا نہ چاہتا ہو۔ ﴿ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَ٘بْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍ﴾ ’’پس اگر آپ سے ہو سکے کہ ڈھونڈ نکالیں کوئی سرنگ زمین میں یا کوئی سیڑھی آسمان میں پھر لائیں آپ ان کے پاس کوئی نشانی‘‘ یعنی یہ سب کچھ کر دیکھیے ان میں سے کوئی چیز بھی ان کو فائدہ نہیں دے گی۔ یہ آیت کریمہ اس قسم کے معاندین حق کی ہدایت کی تمنا اور امید کو منقطع کرتی ہے۔ ﴿ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰؔى ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا‘‘ مگر حکمت الٰہی متقاضی ہوئی کہ وہ اپنی گمراہی پر باقی رہیں ﴿ فَلَا تَكُ٘وْنَنَّ مِنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ ﴾ ’’پس آپ جاہلوں میں شامل نہ ہوں ‘‘ جو حقائق امور کی معرفت نہیں رکھتے اور ان امور کو ان کے مقام پر نہیں رکھتے۔
آیت: 36 - 37 #
{إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (36) وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (37)}
بلاشبہ قبول تو وہی لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں ۔ اور مردے، اٹھائے گا ان کو اللہ، پھر اسی کی طرف وہ لوٹائے جائیں گے(36) اور کہا انھوں نے کیوں نہیں اتاری گئی اس (نبی) پر کوئی بڑی نشانی اس کے رب کی طرف سے؟ کہہ دیجیے! یقینا اللہ قادر ہے، اس پر کہ اتارے بڑی نشانی لیکن اکثر ان کے نہیں علم رکھتے(37)
#
{36} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {إنَّما يستجيب} لدعوتك ويلبِّي رسالتك وينقادُ لأمرك ونهيك، {الذين يسمعونَ}: بقلوبهم ما ينفعُهم، وهم أولو الألباب والأسماع، والمراد بالسماع هنا سماعُ القلب والاستجابة، وإلا فمجرَّد سماع الأذن يشترك فيه البَرُّ والفاجر، فكل المكلَّفين قد قامت عليهم حجة الله تعالى باستماع آياته، فلم يبق لهم عذرٌ في عدم القبول. {والموتى يبعثُهُم اللهُ ثم إليه يُرْجَعون}: يُحتمل أنَّ المعنى مقابل للمعنى المذكور؛ أي: إنما يستجيب لك أحياءُ القلوب، وأما أموات القلوب الذين لا يشعرون بسعادتهم ولا يُحِسُّون بما ينجيهم؛ فإنهم لا يستجيبون لك ولا ينقادون، وموعدهم القيامة، يبعثهم الله ثم إليه يُرْجَعون. ويحتمل أنَّ المراد بالآية على ظاهرِها، وأنَّ الله تعالى يقرِّر المعادَ، وأنه سيبعث الأموات يوم القيامة، ثم ينبِّئهم بما كانوا يعملون، ويكون هذا متضمِّنا للترغيب في الاستجابة لله ورسوله، والترهيب من عدم ذلك.
[36] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ﴿ اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ ﴾ ’’صرف وہی قبول کریں گے۔‘‘ آپ کی دعوت اور آپ کی رسالت پر صرف وہی لوگ لبیک کہیں گے اور آپ کے امر و نہی کے سامنے صرف وہی لوگ سرتسلیم خم کریں گے ﴿ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ﴾ ’’جو سنتے ہیں ۔‘‘ یعنی جو اپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور یہ عقل اور کان رکھنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں سننے سے مراد دل سے سننا اور اس پر لبیک کہنا ہے ورنہ مجرد کانوں سے سننے میں نیک اور بد سب شامل ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن کر تمام مکلفین پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو گئی اور حق کو قبول نہ کرنے کا ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔ ﴿ وَالْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ ﴾ ’’اور مردوں کو، زندہ کرے گا اللہ، پھر اس کی طرف وہ لائے جائیں گے‘‘ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ یہ معنی، مذکور بالا معنی کے بالمقابل ہوں ، یعنی آپ کی دعوت کا جواب صرف وہی لوگ دیں گے جن کے دل زندہ ہیں ، رہے وہ لوگ جن کے دل مر چکے ہیں جنھیں اپنی سعادت کا شعور تک نہیں اور جنھیں یہ بھی احساس نہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو انھیں نجات دلائے گی تو ایسے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے۔ اور نہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے۔ ان کے لیے وعدے کا دن تو قیامت کا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ زندہ کرے گا، پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد لیے جائیں ۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ معاد کو متحقق کر رہا ہے کہ وہ قیامت کے روز تمام مردوں کو زندہ کرے گا، پھر ان کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا۔یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی ترغیب اور اس کا جواب نہ دینے پر ترہیب کو متضمن ہے۔
آیت: 37 - 0 #
{37} {وقالوا}؛ أي: المكذبون بالرسول تعنُّتاً وعناداً: {لولا نُزِّلَ عليه آيةٌ من ربِّه}؛ يعنون بذلك آيات الاقتراح التي يقترِحونها بعقولهم الفاسدة وآرائهم الكاسدة؛ كقولهم: {وقالوا لن نؤمنَ لك حتى تَفْجُرَ لنا من الأرض يَنبوعاً. أو تكون لك جنَّةٌ من نخيل وعنبٍ فتفجِّرَ الأنهار خلالها تفجيراً. أو تُسْقِطَ السماءَ كما زعمتَ علينا كِسَفاً أو تأتي بالله والملائكة قبيلاً ... } الآيات. {قل}: مجيباً لقولهم: {إن الله قادرٌ على أن ينزِّل آيةً}: فليس في قدرته قصور عن ذلك، كيف وجميع الأشياء منقادةٌ لعزَّته مذعنة لسلطانه. ولكنَّ أكثر الناس لا يعلمونَ، فهم لجهلهم وعدم علمهم يطلبون ما هو شرٌّ لهم من الآيات، التي لو جاءتهم فلم يؤمنوا بها؛ لَعوجِل {وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (38)} وا بالعقاب؛ كما هي سنة الله التي لا تبديل لها، ومع هذا؛ فإنْ كان قصدُهم الآيات التي تبيِّن لهم الحقَّ وتوضِّح السبيل؛ فقد أتى محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - بكلِّ آية قاطعةٍ، وحُجَّةٍ ساطعةٍ، دالَّةٍ على ما جاء به من الحق، بحيث يتمكَّن العبدُ في كل مسألة من مسائل الدين أن يَجِدَ فيما جاء به عدَّة أدلَّة عقليَّة ونقليَّة؛ بحيث لا تبقي في القلوب أدنى شكٍّ وارتياب، فتبارك الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحقِّ وأيَّده بالآيات البيِّنات لِيَهْلِكَ من هَلَكَ عن بينة ويحيا من حَيَّ عن بينةٍ، وإن الله لسميعٌ عليمٌ.
[37] ﴿ وَقَالُوْا ﴾ ’’اور کہتے ہیں۔‘‘ یعنی عناد کی وجہ سے رسول کی تکذیب کرنے والے کہتے ہیں ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ﴾ ’’کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے‘‘ یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں نازل کی جائیں جن کا انتخاب وہ اپنی فاسد عقل اور گھٹیا آراء کے ذریعے سے کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل فرمایا ہے ﴿ وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًاۙ۰۰اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْ٘هٰرَ خِلٰ٘لَهَا تَفْجِیْرًاۙ۰۰ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَؔ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍90-92) ’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم زمین سے ہمارے لیے چشمہ جاری نہ کر دو یا تمھارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اس باغ کے بیچوں بیچ نہریں جاری کرو یا جیسا کہ تم دعویٰ کیا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ‘‘ ﴿قُ٘لْ ﴾ ان کا جواب دیتے ہوئے کہہ دیجیے! ﴿ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌؔ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً ﴾ ’’یقینا اللہ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی اتار دے‘‘ اس کی قدرت ایسا کرنے سے قاصر نہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر چیز اس کے غلبہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے اور اس کی قدرت و تسلط کی اطاعت کیے ہوئے ہے ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ پس وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی بنا پر ایسی نشانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ نشانیاں ان کے پاس آجائیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور پھر ان پر جلدی سے عذاب نازل کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بایں ہمہ اگر ان کا مقصود وہ نشانیاں ہیں جو حق کو واضح کر کے راہ حق کو روشن کر دیں تو جناب محمد مصطفیe ہر قسم کی قطعی دلیل اور روشن برہان پیش کرتے ہیں جو اس حق پر دلالت کرتی ہیں جس کے ساتھ آپe مبعوث ہوئے۔ کیونکہ بندہ دین کے ہر مسئلہ میں متعدد عقلی اور نقلی دلائل پاتا ہے کہ اس کے دل میں ادنیٰ سا شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ پس نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے رسول (e) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی تائید کی تاکہ جو کوئی ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو کوئی زندہ رہے، دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
آیت: 38 #
{وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (38)}
اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین پراور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے ساتھ اپنے دونوں پروں کے مگر امتیں ہیں وہ تمھاری ہی طرح، نہیں چھوڑی ہم نے کتاب میں کوئی چیز، پھر اپنے رب کی طرف وہ اکٹھے کیے جائیں گے(38)
#
{38} أي: جميع الحيوانات الأرضية والهوائية من البهائم والوحوش والطيور كلُّها أممٌ أمثالُكم، خلَقْناها كما خلَقْناكم، ورزقْناها كما رزقناكم، ونفذتْ فيها مشيئتُنا وقدرتُنا كما كانت نافذة فيكم. {ما فرَّطْنا في الكتاب من شيء}؛ أي: ما أهملنا ولا أغفلنا في اللوح المحفوظ شيئاً من الأشياء، بل جميعُ الأشياء ـ صغيرها وكبيرها ـ مثبتةٌ في اللوح المحفوظ على ما هي عليه، فتقع جميع الحوادث طِبْقَ ما جرى به القلم. وفي هذه الآية دليلٌ على أن الكتاب الأول قد حوى جميع الكائنات، وهذا أحدُ مراتب القضاء والقدر؛ فإنها أربعُ مراتب: علمُ الله الشامل لجميع الأشياء، وكتابُهُ المحيط بجميع الموجودات، ومشيئتُهُ وقدرتُهُ النافذة العامَّة لكلِّ شيءٍ، وخَلْقُه لجميع المخلوقات حتى أفعال العباد. ويُحتمل أنَّ المراد بالكتاب هذا القرآن، وأنَّ المعنى كالمعنى في قوله تعالى: {ونَزَّلْنا عَلَيْكَ الكِتابَ تِبيْاناً لِكُلِّ شيءٍ}. وقوله: {ثمَّ إلى رَبِّهِمْ يُحْشَرونَ}؛ أي: جميع الأمم تُحشر وتُجمع إلى الله في موقف القيامة، في ذلك الموقف العظيم الهائل، فيجازيهم بعدلِهِ وإحسانِهِ، ويُمضي عليهم حُكمَهُ الذي يَحْمَدُه عليه الأولون والآخرون؛ أهل السماء وأهل الأرض.
[38] زمین میں رہنے والے، ہوا میں اڑنے والے، بہائم، جنگلوں میں رہنے والے وحشی جانور اور پرندے سب تمھاری طرح گروہ ہیں ان کو بھی ہم نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح تمھیں پیدا کیا ہے، اسی طرح ہم ان کو بھی رزق عطا کرتے ہیں جس طرح تمھیں عطا کرتے ہیں ۔ ہماری قدرت اور مشیت ان پر بھی اسی طرح نافذ ہے جس طرح تم پر نافذ ہے۔ ﴿ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز میں کوتاہی نہیں کی۔‘‘ یعنی ہم نے کسی چیز کو لوح محفوظ میں لکھنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کی بلکہ تمام چھوٹی بڑی چیزیں جیسی بھی وہ ہیں لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں ۔ پس تمام حوادث اس کے مطابق واقع ہوتے ہیں جو قلم سے لکھے جاچکے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ سب سے پہلے لوح محفوظ میں تمام کائنات کی تقدیر لکھ دی گئی۔ یہ قضا و قدر کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ قضا و قدر کے چار مراتب ہیں ۔ (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم تمام اشیا کو شامل ہے۔ (۲) اس کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) تمام موجودات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (۳) اس کی مشیت اور قدرت عامہ ہر چیز پر نافذ ہے۔ (۴) تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، حتی کہ بندوں کے افعال کا خالق بھی وہی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں یہ احتمال ہو سکتاہے کہ ’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن ہو، تب اس کے معنی قرآن کریم کی اس آیت کی مانند ہوں گے ﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّ٘كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ (النحل: 16؍89) ’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز بیان کر دی گئی ہے۔‘‘ ﴿ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’پھر سب اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے۔‘‘ یعنی تمام امتوں کو قیامت کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کیا جائے گا۔ یہ انتہائی ہولناک مقام ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے عدل و احسان سے سب کو جزا دے گا اور ان پر اپنا فیصلہ نافذ کرے گا، جس کی تعریف اولین و آخرین، آسمانوں والے اور زمین والے سب کریں گے۔
آیت: 39 #
{وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (39)}.
اور جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو، وہ بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں ، جسے چاہے اللہ، گمراہ کرتا ہے اس کواور جسے چاہے کر دیتا ہے اسے اوپر صراط مستقیم کے(39)
#
{39} هذا بيانٌ لحال المكذِّبين بآيات الله المكذِّبين لرسله: أنَّهم قد سدُّوا على أنفسهم باب الهُدى، وفتحوا باب الرَّدى، وأنهم {صُمٌّ} عن سماع الحقِّ، {بُكْمٌ} عن النُّطق به؛ فلا ينطِقون إلا بالباطل ، {في الظُّلمات}؛ أي: منغمِسون في ظلمات الجهل والكفر والظُّلم والعناد والمعاصي، وهذا من إضلال اللهِ إيَّاهم؛ فمن {يَشَإِ اللهُ يُضْلِلْهُ ومن يَشَأ يَجْعَلْهُ على صراطٍ مستقيم}؛ لأنَّه المنفرد بالهداية والإضلال بحسبِ ما اقتضاه فضله وحكمته.
[39] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا حال بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے بند کر کے ہلاکت کے دروازے کھول لیے۔ اور وہ ﴿ صُمٌّ ﴾ ’’بہرے‘‘ یعنی حق سننے سے بہرے ہیں ﴿ بُكْمٌ ﴾ ’’گونگے‘‘ یعنی حق بولنے سے گونگے ہیں ، پس باطل کے سوا کچھ نہیں بولتے ﴿ فِی الظُّلُمٰتِ ﴾ ’’اندھیروں میں ‘‘ یعنی جہالت، کفر، ظلم، عناد اور نافرمانی کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ان کو گمراہ کر دینا ہے۔ کیونکہ ﴿ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِـلْهُ١ؕ وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’وہ جس کو چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، اسے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے‘‘ کیونکہ وہی اکیلا اپنی حکمت اور فضل و کرم کے تقاضوں کے مطابق ہدایت دیتا یا گمراہ کرتا ہے۔
آیت: 40 - 41 #
{قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (40) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ (41)}
کہہ دیجیے! مجھے بتلاؤ! اگر آئے تم پر عذاب اللہ کا یا آجائے تم پر قیامت تو کیا غیر اللہ کو پکارو گے تم؟ اگر ہو تم سچے(40)بلکہ صرف اسی کو پکارو گے تم، پھر دور کر دے گا (اللہ) وہ تکلیف کہ پکارو گے تم اس کے لیے، اگر چاہے گا وہ اور فراموش کر دو گے تم جنھیں شریک ٹھہراتے تھے(41)
#
{40} يقول تعالى لرسوله: {قُلْ} للمشركين بالله العادلينَ به غيره: {أرأيْتَكُم إن أتاكم عذابُ اللهِ أو أتَتْكُمُ الساعةُ أغير الله تدعونَ إن كنتم صادقين}؛ أي: إذا حَصَلَتْ هذه المشقات وهذه الكروب التي يُضْطَرُّ إلى دفعِها؛ هل تدعونَ آلهتكم وأصنامكم أم تدعونَ ربَّكم المَلِكَ الحقَّ المبين؟
[40] ﴿قُ٘لْ ﴾ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرانے والے مشرکین سے کہہ دیجیے ﴿ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰؔىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ’’بھلا بتلاؤ، اگر تمھارے پاس اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آجائے تو کیا تم اللہ کے سوا اوروں کو پکارو گے، اگر تم سچے ہو؟‘‘ یعنی جب تم ان تکالیف اور کرب و غم میں مبتلا ہوتے ہو اور تم ان کوہٹانے پر مجبور ہوتے ہو، تب اس وقت تم اپنے خداؤں اور بتوں کو پکارتے ہو یا تم اپنے رب بادشاہ حقیقی کو پکارتے ہو؟
#
{41} {بل إيَّاه تدعونَ فيكشِفُ ما تدعونَ إليه إن شاءَ وَتَنْسَوْنَ ما تُشْرِكون}: فإذا كانت هذه حالُكم مع أندادِكُم عند الشدائد؛ تَنْسَوْنَهم لعلمِكُم أنهم لا يملِكون لكم ضَرًّا ولا نفعاً ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً، وتخلِصونَ لله الدعاءَ؛ لِعلْمِكُم أنَّه هو الضارُّ النافعُ المجيبُ لدعوةِ المضطرِّ؛ فما بالُكم في الرخاء تُشْرِكونَ به وتجعلونَ له شركاء؟! هل دلَّكم على ذلك عقلٌ أو نقلٌ؟ أم عندَكم من سلطان بهذا؟ أم تفترونَ على الله الكذب؟
[41] ﴿ بَلْ اِیَّ٘اهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُ٘شْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’’بلکہ تم صرف اسی کو پکارتے ہو، پھر دور کر دیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے اس کو پکارتے ہو، اگر وہ چاہے اور ان کو بھول جاتے ہو جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو‘‘ جب سختیوں کے وقت تمھارا اپنے معبودوں کے بارے میں یہ حال ہے کہ تم ان کو بھول جاتے ہو کیونکہ تمھیں علم ہے کہ وہ نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات کے اور نہ وہ قیامت کے روز دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں اور تم نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو کیونکہ تم جانتے ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے، وہی ہے جو مجبور کی دعا قبول کرتا ہے۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ فراخی اور خوشحالی کے وقت تم شرک کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہراتے ہو۔ کیا عقل یا نقل نے تمھیں اس راہ پر لگایا ہے یا تمھارے پاس کوئی دلیل ہے یا تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ گھڑ رہے ہو؟
آیت: 42 - 45 #
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (42) فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (43) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (45)}.
اور تحقیق بھیجے ہم نے امتوں کی طرف (رسول) آپ سے پہلے، پھر پکڑا ہم نے ان کو ساتھ سختی اور تکلیف کے تاکہ وہ عاجزی کریں (42) پھر کیوں نہ، جب آیا ان پر ہمارا عذاب، عاجزی کی انھوں نے؟ لیکن سخت ہوگئے ان کے دل، مزین کر دیا ان کے لیے شیطان نے جو تھے وہ عمل کرتے (43) پس جب بھلا دیا انھوں نے اس کو کہ نصیحت کیے گئے تھے وہ اس کی تو کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہرچیزکے،یہاں تک کہ جب وہ اتراگئے ساتھ ان چیزوں کے جو وہ دیے گئے،تو پکڑلیا ہم نے انھیں نا گہاں ،تب وہ ناامید ہوگئے (44) پس قطع کردی گئی جڑ اس قوم کی جنھوں نے ظلم کیا تھا، او ر ہر قسم کی حمد اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے(45)
#
{42} يقول تعالى: {ولقد أرْسَلْنا إلى أمم من قبلِكَ}: من الأمم السالفينَ، والقرونِ المتقدِّمينَ، فكذَّبوا رُسَلنا، وجحدوا بآياتنا، {فأخذْناهم بالبأساءِ والضَّرَّاء}؛ أي: بالفقر والمرض والآفات والمصائب رحمةً منَّا بهم، {لعلَّهم يَتَضَرَّعونَ} إلينا، ويلجؤون عند الشدةِ إلينا.
[42] ﴿ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ ﴾ ’’اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔‘‘ یعنی ہم نے سابقہ اور گزرے ہوئے زمانوں میں رسول بھیجے۔ انھوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہماری آیات کا انکار کیا ﴿ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ ﴾ ’’ہم انھیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے۔‘‘ یعنی ان پر رحم کرتے ہوئے فقر و مرض اور آفات و مصائب کے ذریعے سے ان کی گرفت کی ﴿ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ﴾ ’’تاکہ وہ عاجزی کریں۔‘‘ شاید کہ وہ اللہ کے پاس عاجزی سے گڑگڑائیں اور سختی کے وقت اس کے پاس پناہ طلب کریں ۔
#
{43} {فلولا إذ جاءهم بأسنا تضرعوا ولكن قست قلوبهم}؛ أي: استحجرت فلا تلين للحقِّ، {وزيَّن لهم الشيطانُ ما كانوا يعملونَ}: فظنُّوا أنَّ ما هم عليه دينُ الحق، فتمتَّعوا في باطلهم برهةً من الزمان، ولعب بعقولهم الشيطان.
[43] ﴿ فَلَوْلَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْ٘سُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُ٘لُوْبُهُمْ ﴾ ’’پس کیوں نہ گڑگڑائے جب آیا ان پر عذاب ہمارا لیکن سخت ہو گئے دل ان کے‘‘ یعنی ان کے دل پتھر ہو گئے ہیں جو حق کے سامنے نرم نہیں پڑتے ﴿ وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور بھلے کر دکھلائے ان کو شیطان نے جو کام وہ کر رہے تھے‘‘ اس لیے وہ سمجھتے رہے کہ جس راستے پر وہ گامزن ہیں یہی دین حق ہے، پس وہ اپنے باطل میں غلطاں کچھ عرصہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور شیطان ان کی عقلوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔
#
{44} {فلمَّا نَسُوا ما ذُكِّروا به فَتَحْنا عليهم أبوابَ كلِّ شيءٍ}: من الدنيا ولذَّاتها وغفلاتها، {حتى إذا فرحوا بما أوتوا أخَذْناهم بغتةً فإذا هم مُبْلِسونَ}؛ أي: آيسون من كل خيرٍ، وهذا أشدُّ ما يكون من العذاب: أن يُؤْخَذوا على غِرَّةٍ وغفلةٍ وطمأنينةٍ؛ ليكون أشد لعقوبتهم، وأعظم لمصيبتهم.
[44] ﴿ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’پھر جب وہ بھول گئے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی تو کھول دیے ہم نے ان پر دروازے ہر چیز کے‘‘ یعنی ان پر دنیا، اس کی لذتوں اور اس کی غفلتوں کے دروازے کھول دیے ﴿ حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ﴾ ’’یہاں تک کہ جب وہ خوش ہوئے ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا، پس اس وقت وہ ناامید ہو کر رہ گئے‘‘ یعنی وہ ہر بھلائی سے مایوس ہو گئے۔ یہ عذاب کی سخت ترین نوعیت ہے کہ انھیں اچانک غفلت اور اطمینان کی حالت میں پکڑ لیا جائے تاکہ ان کی سزا سخت اور مصیبت بہت بڑی ہو۔
#
{45} {فقُطِعَ دابرُ القوم الذين ظلموا}؛ أي: اصطلموا العذاب، وتقطَّعت بهم الأسباب {والحمدُ لله ربِّ العالمين}: على ما قضاه وقدَّره من هلاك المكذِّبين؛ فإنَّ بذلك تتبيَّن آياتُهُ وإكرامُهُ لأوليائِهِ، وإهانتُهُ لأعدائِهِ، وصدقُ ما جاءت به المرسلون.
[45] ﴿فَ٘قُ٘طِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﴾ ’’پھر کٹ گئی جڑ ظالموں کی‘‘ یعنی عذاب سے وہ برباد ہو گئے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہو گئے ﴿وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر نے جھٹلانے والوں کی جو ہلاکت مقدر کی ہے اس پر پروردگار عالم کی تعریف ہے۔ کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے اولیا کی عزت و تکریم، اس کے دشمنوں کی ذلت و رسوائی اور رسولوں کی تعلیمات کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔
آیت: 46 - 47 #
{قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَى قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ (46) قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ (47)}.
کہہ دیجیے، مجھے بتلاؤ! اگر چھین لے اللہ، تمھارے کان اور تمھاری آنکھیں اور مہر لگادے تمھارے دلوں پر تو کون معبودہے سوائے اللہ کے ،جو لادے تمھیں یہ(چیزیں )؟ دیکھیے!کس طرح پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ہم آیتیں ، پھر بھی وہ اعراض کرتے ہیں (46) کہہ دیجیے،مجھے بتلاؤ! اگر آجائے تم پر عذاب اللہ کا یکایک یا علانیہ تو نہیں ہلاک کیے جائیں گے مگر ظالم لوگ ہی(47)
#
{46} يخبر تعالى أنَّه كما هو المتفرِّد بخَلْق الأشياء وتدبيرها؛ فإنَّه المنفرد بالوحدانيَّةِ والإلهية، فقال: قل: {أرأيتُم إن أخذ الله سمعكم وأبصاركم وخَتَمَ على قلوبكم}: فبقيتُم بلا سمع ولا بصر ولا عقل. {من إلهٌ غيرُ الله يأتيكم به}: فإذا لم يكن غير الله يأتي بذلك؛ فلم عبدتُم معه من لا قدرةَ له على شيءٍ إلاَّ إذا شاءه الله؟ وهذا من أدلة التوحيد وبطلان الشرك، ولهذا قال: {انظرْ كيف نصرِّفُ الآياتِ}؛ أي: ننوِّعها، ونأتي بها في كلِّ فنٍّ، ولتنير الحقَّ، وتتبيَّن سبيل المجرمين. {ثم هم}: مع هذا البيان التامِّ، {يصدِفونَ}: عن آيات الله، ويعرِضون عنها.
[46] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جس طرح وہ تمام کائنات کی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے اسی طرح وہ وحدانیت اور الوہیت میں بھی متفرد ہے۔ فرمایا ﴿قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَاَبْصَارَؔكُمْ وَخَتَمَ عَلٰى قُ٘لُوْبِكُمْ ﴾ ’’کہہ دیجیے بتلاؤ! اگر اللہ تعالیٰ چھین لے تمھارے کان اور آنکھیں اور مہر لگا دے تمھارے دلوں پر‘‘یعنی تم اس حالت میں باقی رہ جاؤ کہ تمھاری سماعت ہو نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت: ﴿ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهِ ﴾ ’’تو کون ایسا معبود ہے اللہ کے سوا جو تم کو یہ چیزیں لا دے۔‘‘جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو یہ چیز عطا کر سکے تو پھر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی ہستیوں کی عبادت کیوں کرتے ہو جن کے پاس کچھ بھی قدرت و اختیار نہیں مگر جب اللہ چاہے۔ یہ آیت کریمہ توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان کی دلیل ہے اس لیے فرمایا ﴿اُنْظُرْؔ كَیْفَ نُ٘صَرِّفُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’دیکھو! ہم کیوں کر طرح طرح سے بیان کرتے ہیں باتیں ‘‘ یعنی ہم اپنی آیات کو کس طرح متنوع بناتے ہیں ، ہم ہر اسلوب میں اپنی نشانی لاتے ہیں ۔ تاکہ حق روشن اور مجرموں کی راہ واضح ہو جائے ﴿ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ ﴾ ’’پھر بھی وہ اعراض کرتے ہیں ‘‘ یعنی اس کامل تبیین و توضیح کے باوجود بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے روگردانی اور اعراض کرتے ہیں ۔
#
{47} {قل أرأيْتَكُم}؛ أي: أخبروني {إن أتاكم عذابُ الله بغتةً أو جهرةً}؛ أي: مفاجأةً أو قد تقدَّم أمامه مقدماتٌ تعلمون بها وقوعَه، {هل يُهْلَكُ إلَّا القومُ الظالمون}: الذين صاروا سبباً لوقوع العذابِ بهم بظلمِهم وعنادِهم؛ فاحذروا أن تقيموا على الظُّلم؛ فإنه الهلاك الأبدي، والشقاءُ السرمديُّ.
[47] ﴿قُ٘لْ اَرَءَیْتَكُمْ ﴾ یعنی مجھے خبر دو ﴿ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً ﴾ ’’اگر تم پر اللہ کا عذاب بے خبری میں یا خبر آنے کے بعد آئے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آ جائے یا اس عذاب کے مقدمات ظاہر ہو جائیں جن سے تمھیں اس عذاب کے وقوع کا علم ہو جائے ﴿ هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’تو کیا ظالموں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا۔‘‘ یعنی وہی ظالم لوگ ہلاک ہوں گے جو اپنے ظلم و عناد کی وجہ سے اس عذاب کے وقوع کا سبب بنے۔ اس لیے ظلم پر قائم رہنے سے بچو کیونکہ ظلم ابدی ہلاکت اور دائمی بدبختی ہے۔
آیت: 48 - 49 #
{وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (48) وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (49)}.
اور نہیں بھیجتے ہم رسولوں کو مگر بشارت دینے اور ڈرانے والے بناکر، پھر جو شخص ایمان لے آئے اور اصلاح کرلے تو نہیں کوئی خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے (48)اور جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو، پہنچے گا انھیں عذاب بوجہ اس کے جو تھے نافرمانی کرتے(49)
#
{48} يذكر تعالى زبدةَ ما أرسل به المرسلين أنَّه البِشارة والنِّذارة، وذلك مستلزمٌ لبيان: المبشِّر والمبَشَّر به والأعمال التي إذا عملها العبدُ حصلت له البشارة، والمنْذِر والمنذَر والمنْذَر به والأعمال التي من عَمِلَها حقَّت عليه النِّذارة، ولكن الناس انقَسموا بحسب إجابتهم لدعوتهم وعدمها إلى قسمين: {فَمنْ آمنَ وأصلحَ}؛ أي: آمن باللهِ وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، وأصلح إيمانه وأعماله ونيَّته، {فلا خوفٌ عليهم}: فيما يُستقبل، {ولا هم يحزنونَ}: على ما مضى.
[48] اللہ تبارک و تعالیٰ اس چیز کا خلاصہ بیان فرماتا ہے جس کے ساتھ اس نے رسولوں کو بھیجا اور وہ ہے تبشیر اور انذار۔ یہ چیز مُبَشِّرْ ، مُبَشَّرْ بِہ اور ان اعمال کے بیان کو مستلزم ہے کہ جب بندہ ان کو بجا لاتا ہے تو اسے بشارت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ مُنْذِر، مُنْذَرْ بِہ اور ایسے اعمال کے بیان کو لازم قرار دیتی ہے کہ بندہ جب ان اعمال کا ارتکاب کرتا ہے تو انذار کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لوگ انبیا و مرسلین کی دعوت پر لبیک کہنے یا ان کی دعوت کا جواب نہ دینے کے اعتبار سے دو اقسام میں منقسم ہیں : ﴿ فَ٘مَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَ٘حَ ﴾ ’’پھر جو شخص ایمان لائے اور اصلاح کر لے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے ایمان، اعمال اور نیت کی اصلاح کرتے ہیں ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ ﴾ ’’تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا۔‘‘ آنے والے امور سے انھیں کوئی خوف نہ ہو گا ﴿ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔‘‘ اور گزرے ہوئے امور پر وہ غمزدہ نہ ہوں گے۔
#
{49} {والذين كذَّبوا بآياتِنا يَمَسُّهُم العذابُ}؛ أي: ينالُهم ويذوقونه، {بما كانوا يفسقون}.
[49] ﴿ وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’اور جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچے گا‘‘ اور وہ اس کا مزا چکھیں گے ﴿ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ﴾ ’’اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھے۔‘‘
آیت: 50 #
{قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (50)}.
کہہ دیجیے!نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس خزانے ہیں اللہ کے، اور نہ میں جانتا ہوں غیب اور نہیں کہتا میں تم سے کہ یقیناً میں فرشتہ ہوں ، نہیں پیروی کرتا میں مگر اسی چیز کی جو وحی کی جاتی ہے میری طرف ۔ کہہ دیجیے! کیا برابر ہوسکتا ہے نا بینا او بینا؟کیا پس نہیں غو رکرتے تم؟(50)
#
{50} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم - المقترِحين عليه الآياتِ، أو القائلينَ له إنَّما تدعونا لنتَّخِذَك إلهاً مع الله: {لا أقولُ لكم عندي خزائنُ الله}؛ أي: مفاتيح رزقِهِ ورحمتِهِ، {ولا أعلم الغيبَ}: وإنَّما ذلك كلُّه عند الله؛ فهو الذي ما يفتحُ للناس من رحمةٍ فلا ممسك لها وما يمسكُ فلا مرسلَ له من بعدِهِ، وهو وحده عالمُ الغيب والشهادة فلا يُظْهِرُ على غيبِهِ أحداً إلا من ارتضى من رسول. {ولا أقولُ لكم إني مَلَكٌ}: فأكون نافذَ التصرُّف قويًّا، فلست أدَّعي فوق منزلتي التي أنزلني الله بها، {إن أتَّبِعُ إلَّا ما يُوحى إليَّ}؛ أي: هذا غايتي ومنتهى أمري وأعلاه، إنْ أتَّبِع إلاَّ ما يوحى إليَّ، فأعمل به في نفسي، وأدعو الخلق كلَّهم إلى ذلك؛ فإذا عُرِفت منزلتي؛ فلأي شيء يبحثُ الباحث معي أو يطلب مني أمراً لست أدَّعيه؟! وهل يُلْزَمُ الإنسان بغير ما هو بصددِهِ؟! ولأي شيء إذا دعوتكم بما يوحى إليَّ أن تلزموني أني أدَّعي لنفسي غير مرتبتي؟! وهل هذا إلا ظلمٌ منكم وعنادٌ وتمرُّدٌ؟! قل لهم في بيان الفرق بينَ مَنْ قَبِلَ دعوتي وانقاد لما أوحي إليَّ وبين من لم يكن كذلك: {قُلْ هل يَسْتوي الأعمى والبصيرُ أفلا تتفكَّرونَ}: فتنزِلون الأشياءَ منازلَها وتختارون ما هو أولى بالاختيار والإيثار.
[50] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی eسے فرماتا ہے کہ وہ معجزات کا مطالبہ کرنے والوں سے کہہ دیں یا جو آپ سے یہ کہتے ہیں کہ ’’تو صرف اس لیے ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم تجھے بھی اللہ کے ساتھ الہ مان لیں ‘‘ ﴿ لَّاۤ اَ٘قُ٘وْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ ﴾ ’’میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے رزق اور رحمت کی کنجیاں ﴿ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ﴾ ’’اور نہ میں غیب جانتا ہوں ‘‘ غیب کا علم تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کی صفت ہے: ﴿ مَا یَفْ٘تَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا١ۚ وَمَا یُمْسِكْ١ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ﴾ (فاطر: 35؍2) ’’اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو دروازہ وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی کھول نہیں سکتا۔‘‘ یعنی وہ اکیلا ہی ہے جو غائب اور موجود کا علم رکھتا ہے ﴿ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا ۰۰ اِلَّا مَنِ ارْتَ٘ضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ﴾ (الجن: 72؍26۔27) ’’وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کرے۔‘‘ ﴿ وَلَاۤ اَقُ٘وْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ ﴾ ’’اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں ‘‘ کہ میں اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو نافذ کرنے والا ہوں ، میں اپنے اس مرتبہ و مقام سے بڑھ کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے۔ ﴿ اِنْ اَ٘تَّ٘بِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ ﴾ ’’میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے آتا ہے۔‘‘ یعنی یہ میرے معاملے کی غایت و انتہا ہے، میں وحی کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتا، میں خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں اور تمام مخلوق کو بھی اسی پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔ جب میں نے اپنا مرتبہ اور مقام پہچان لیا ہے تو تلاش کرنے والا میرے پاس کیا چیز تلاش کرتا ہے یا مجھ سے ایسی کس چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس کا میں نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ کیا انسان پر اس کے سوا کوئی چیز لازم ہے جس کے وہ درپے ہے؟ جب میں تمھیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ تو تم کس بنا پر مجھ پر یہ لازم کرتے ہو کہ میں کسی ایسی چیز کا دعویٰ کروں جو میرے مرتبہ کے شایاں نہیں ، کیا یہ محض تمھارا ظلم، عناد اور سرکشی نہیں ؟ جو آپ کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ کی طرف بھیجی گئی وحی کی اتباع کرتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ قُ٘لْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَالْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَؔكَّـرُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں ، کیا تم غور نہیں کرتے؟‘‘ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے کہ تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مرتبے اور مقام پر رکھو اور اسی چیز کو اختیار کرو جو اختیار کیے جانے اور ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے۔
آیت: 51 - 55 #
{وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَى رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (51) وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (52) وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ (53) وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (54) وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ (55)}.
اور ڈرائیں آپ اسکے ذریعے ان کو جو ڈرتے ہیں اس سے کہ وہ اکٹھے کیے جائیں گے اپنے رب کی طرف ، نہیں ہوگا ان کا اس کے سوا کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں (51) اور مت دور کریں ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام، چاہتے ہیں وہ چہرہ اس کا ، نہیں ہے آپ کے ذمے ان کے حساب میں سے کچھ اور نہیں ہے آپ کے حساب میں سے ان کے ذمے کچھ کہ دور کریں آپ ان کو! (ایسا کیا) تو ہوجائیں گے آپ ظالموں سے (52) اور اسی طرح فتنے میں ڈالا ہم نے ان کے ایک کو دوسرے کے ذریعے سے تاکہ کہیں وہ کیا یہی لوگ ہیں کہ احسان کیا اللہ نے ان پر ہمارے درمیان میں سے؟ کیا نہیں ہے اللہ خوب جانتا شکر کرنے والوں کو؟(53) اور جب آئیں آپ کے پاس وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں ہماری آیات پر تو کہہ دیجیے سلام ہو تم پر لازم کر لیا ہے تمھارے رب نے اوپر اپنے نفس کے مہربانی کرنا، بے شک جو شخص عمل کرے تم میں سے برا ، جہالت سے ، پھر وہ توبہ کرے اس کے بعد او ر اصلاح کرلے تو یقینا وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے(54) اور اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں آیات کو اور تا کہ واضح ہو جائے راستہ مجرموں کا(55)
#
{51} هذا القرآن نذارةٌ للخلق كلِّهم، ولكن إنَّما ينتفع به {الذين يخافون أن يُحْشَروا إلى ربِّهم}؛ فهم متيقِّنون للانتقال من هذه الدار إلى دار القرار؛ فلذلك يستصحِبون ما ينفعهم ويَدَعون ما يضرُّهم. {ليس لهم من دونه}؛ أي: من دون الله {وليٌّ ولا شفيعٌ}؛ أي: لا من يتولى أمرهم فيحصِّلُ لهم المطلوب، ويدفعُ عنهم المحذور، ولا من يشفعُ لهم؛ لأن الخلق كلَّهم ليس لهم من الأمر شيء. {لعلهم يتَّقون}: الله بامتثال أوامرِهِ واجتنابِ نواهيه؛ فإنَّ الإنذار موجب لذلك وسبب من أسبابه.
[51] یہ قرآن تمام مخلوق کے لیے انذار ہے مگر اس سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ﴿ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ ﴾ ’’جو اس حقیقت کا خوف رکھتے ہیں کہ انھیں ان کے رب کے پاس اکٹھے کیے جانا ہے۔‘‘ پس انھیں پورا پورا یقین ہے کہ وہ اس گھر سے منتقل ہو کر آخرت کے ہمیشہ رہنے والے گھر میں داخل ہوں گے۔ وہ اپنے ساتھ وہی کچھ رکھتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتے ہیں جو انھیں نقصان دیتا ہے۔ ﴿ لَ٘یْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ﴾ ’’نہیں ہے ان کے لیے اس کے بغیر‘‘ یعنی اللہ کے بغیر ﴿ وَلِیٌّ وَّلَا شَ٘فِیْعٌ ﴾ ’’کوئی دوست اور نہ سفارشی‘‘ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہو گی جو ان کے معاملے کی سرپرستی کر سکے جس سے ان کا مطلوب حاصل ہو جائے اور ان سے تکلیف دور ہو جائے، نہ ان کا کوئی سفارشی ہو گا کیونکہ تمام مخلوق کے پاس کوئی اختیار نہیں ﴿ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’تاکہ وہ پرہیز گار بنیں ۔‘‘ شاید وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کریں ۔ کیونکہ انذار، تقویٰ کا موجب اور اس کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
#
{52} {ولا تطردِ الذين يدعون ربَّهم بالغداة والعشي يريدون وجهه}؛ أي: لا تطرد عنك وعن مجالستك أهل العبادة والإخلاص رغبةً في مجالسة غيرهم، من الملازمين لدعاءِ ربِّهم دعاء العبادة بالذِّكر والصلاة ونحوها ودعاء المسألة في أول النهار وآخره، وهم قاصدون بذلك وجه الله، ليس لهم من الأغراض سوى ذلك الغرض الجليل؛ فهؤلاء ليسوا مستحقين للطرد والإعراض عنهم، بل هم مستحقُّون لموالاتهم ومحبتهم وإدنائهم وتقريبهم؛ لأنهم الصفوة من الخلق ـ وإن كانوا فقراء ـ الأعزاء في الحقيقة، وإن كانوا عند الناس أذلاء. {ما عليك من حسابِهِم من شيءٍ وما من حسابِكَ عليهم من شيءٍ}؛ أي: كلٌّ له حسابُهُ وله عملُهُ الحسنُ وعملُهُ القبيحُ، {فتطرُدَهم فتكونَ من الظالمين}: وقد امتثلَ - صلى الله عليه وسلم - هذا الأمر أشدَّ امتثال، فكان إذا جلس الفقراء من المؤمنين؛ صبَّر نفسه معهم، وأحسن معاملتهم، وألان لهم جانبه، وحسَّن خلقه، وقرَّبهم منه، بل كانوا هم أكثر أهل مجلسِهِ رضي الله عنهم. وكان سبب نزول هذه الآيات أن أناساً من قريش أو من أجلاف العرب قالوا للنبيِّ - صلى الله عليه وسلم -: إن أردتَ أن نؤمنَ لك ونتَّبِعَكَ؛ فاطردْ فلاناً وفلاناً ـ أناساً من فقراء الصحابة ـ؛ فإنا نستحي أن ترانا العرب جالسين مع هؤلاء الفقراء. فحَمَلَهُ حبُّه لإسلامهم واتِّباعهم له فحدَّثته نفسُه بذلك، فعاتبه الله بهذه الآيات ونحوها.
[52] ﴿ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰؔوةِ وَالْ٘عَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ ﴾ ’’اور مت دور کیجیے ان لوگوں کو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ، چاہتے ہیں اسی کا چہرہ‘‘ یعنی دوسروں کی مجالست کی امید میں اہل اخلاص اور اہل عبادت کو اپنی مجلس سے دور نہ کیجیے جو ہمیشہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں ، ذکر اور نماز کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں ، صبح و شام اس سے سوال کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے۔ اس مقصد جلیل کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں ۔ بنابریں یہ لوگ اس چیز کے مستحق نہیں کہ انھیں اپنے سے دور کیا جائے یا ان سے روگردانی کی جائے بلکہ یہ لوگ تو آپe کی موالات، محبت اور قربت کے زیادہ مستحق ہیں کیونکہ یہ مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ یہ فقرا اور نادار ہیں ۔ اور یہی درحقیقت اللہ کے ہاں باعزت لوگ ہیں اگرچہ یہ لوگوں کے نزدیک گھٹیا اور کم مرتبہ ہیں ۔ ﴿مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ ﴾ ’’نہیں ہے آپ پر ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ‘‘ یعنی ہرشخص کے ذمہ اس کا اپنا حساب ہے، اس کا نیک عمل اسی کے لیے ہے اور برے عمل کی شامت بھی اسی پر ہے ﴿ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’پس اگر ان کو دور کرو گے تو ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘ رسول اللہe نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی، چنانچہ جب آپe فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تو دلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، ان کے ساتھ حسن خلق اور نرمی کا معاملہ کرتے اور انھیں اپنے قریب کرتے بلکہ آپe کی مجلس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے تھے۔ ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش میں سے یا اعراب میں سے چند اجڈ لوگوں نے آپe سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم پر ایمان لائیں اور تمھاری پیروی کریں تو فلاں فلاں شخص جو کہ فقرائے صحابہy میں سے تھے، اپنے پاس سے اٹھا دو۔ کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں ۔ ان معترضین کے اسلام لانے اور ان کے اتباع کرنے کی خواہش کی بنا پر آپe کے دل میں بھی یہ خیال آیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور ان جیسی دیگر آیات کے ذریعے سے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔
#
{53} {وكذلك فَتَنَّا بعضَهم ببعضٍ ليقولوا أهؤلاءِ مَنَّ الله عليهم من بيننا}؛ أي: هذا من ابتلاء الله لعبادِهِ حيث جعل بعضَهم غنيًّا وبعضهم فقيراً وبعضهم شريفاً وبعضهم وضيعاً؛ فإذا مَنَّ الله بالإيمان على الفقير أو الوضيع، كان ذلك محلَّ محنةٍ للغني والشريف؛ فإنْ كان قصدُهُ الحقَّ واتباعه؛ آمن وأسلم ولم يمنعْه من ذلك مشاركة الذي يراه دونه بالغنى أو الشرف، وإن لم يكن صادقاً في طلب الحقِّ؛ كانت هذه عقبةً تردُّه عن اتِّباع الحق، وقالوا محتقرين لمن يَرَوْنَهم دونهم: {أهؤلاءِ مَنَّ الله عليهم من بيننا}: فمنعهم هذا من اتباع الحق لعدم زكائهم. قال الله مجيباً لكلامهم المتضمِّن الاعتراض على الله في هداية هؤلاء وعدم هدايتهم هم: {أليس اللهُ بأعلمَ بالشاكرينَ} الذين يعرِفون النعمةَ ويُقِرُّون بها ويقومون بما تقتضيه من العمل الصالح، فيضع فضلَه ومنَّته عليهم دون من ليس بشاكرٍ؛ فإنَّ الله تعالى حكيمٌ لا يضع فضله عند من ليس له بأهل، وهؤلاء المعترضون بهذا الوصف بخلاف مَنْ مَنَّ الله عليهم بالإيمان من الفقراء وغيرهم؛ فإنهم هم الشاكرون.
[53] ﴿ وَؔكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا ﴾ ’’اور اسی طرح ہم نے آزمایا ہے بعض لوگوں کو بعضوں سے تاکہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان میں سے، اللہ نے فضل کیا؟‘‘ یعنی یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش ہے کہ اس نے بعض کو خوشحال بنایا اور بعض کو محتاج اور تنگ دست پیدا کیا، بعض کو صاحب شرف پیدا کیا بعض کو گھٹیا اور کم تر۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی نادار اور کم تر شخص کو ایمان عطا کر کے اس پر احسان کرتا ہے تو یہ چیز خوشحالی اور بلند مرتبہ شخص کے لیے امتحان کا باعث ہوتی ہے۔ اگر اس کا مقصد اتباع حق ہے تو وہ ایمان لا کر مسلمان ہو جاتا ہے اور اسے ایمان لانے سے اس شخص کی مشارکت نہیں روک سکتی جس کو وہ مال و دولت اور جاہ و مرتبہ میں اپنے سے کم تر خیال کرتا ہے۔ اگر وہ طلب حق میں سچا نہیں تو یہ وہ گھاٹی ہے جو اسے اتباع حق سے روک دیتی ہے۔ جن کو وہ اپنے آپ سے کم تر خیال کرتے ہیں ان کو حقیر گردانتے ہوئے کہتے ہیں ﴿ اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا ﴾ ’’کیا یہی لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان میں سے، اللہ نے فضل کیا؟‘‘ اسی چیز نے ان کی عدم طہارت کے باعث ان کو اتباع حق سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کلام کا جو اللہ تعالیٰ پر اعتراض کو متضمن ہے کہ اس نے ان کو ہدایت سے نواز دیا اور ان کو محروم کر دیا۔۔۔ جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ اَلَ٘یْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’کیا نہیں ہے اللہ خوب جاننے والا شکر کرنے والوں کو‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل صالح کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ ایسے ہی کو اپنے فضل و احسان سے نوازتا ہے نہ کہ ان کو جو اس کے شکر گزار نہیں ہوتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے وہ اپنے فضل و کرم سے کسی ایسے شخص کو نہیں نوازتا جو اس کا اہل نہ ہو اور یہ معترضین اسی وصف کے مالک ہیں۔ اس کے برعکس جن فقرا کو اللہ تعالیٰ نے ایمان سے نوازا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار لوگ ہیں ۔
#
{54} ولما نهى الله رسوله عن طردِ المؤمنين القانتين؛ أمره بمقابلتِهِم بالإكرام والإعظام والتبجيل والاحترام، فقال: {وإذا جاءَكَ الذين يؤمنونَ بآياتِنا فَقُلْ سلامٌ عليكم}؛ أي: وإذا جاءك المؤمنون؛ فحيِّهم، ورحِّبْ بهم، ولقِّهم منك تحيةً وسلاماً، وبشِّرهم بما ينشِّط عزائمهم وهممهم من رحمة الله وسعة جوده وإحسانه، وحُثَّهم على كل سبب وطريق يوصِلُ لذلك، ورهِّبْهم من الإقامة على الذُّنوب، وأمُرْهم بالتوبة من المعاصي لينالوا مغفرةَ ربِّهم وجوده، ولهذا قال: {كَتَبَ ربُّكم على نفسِهِ الرحمةَ أنَّه من عَمِلَ منكم سوءاً بجهالةٍ ثمَّ تاب من بعدِهِ وأصلحَ}؛ أي: فلا بدَّ مع ترك الذُّنوب والإقلاع والندم عليها من إصلاح العمل وأداء ما أوجبَ الله وإصلاح ما فَسَدَ من الأعمال الظاهرة والباطنة؛ فإذا وُجِدَ ذلك كله؛ {فإنَّه غفورٌ رحيمٌ}؛ أي: صبَّ عليهم من مغفرتِهِ ورحمتِهِ بحسب ما قاموا به مما أمرهم به.
[54] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو اپنے مطیع مومن بندوں کو دور کرنے سے روک دیا تو ان کفار کے مقابلے میں انھیں اکرام، تعظیم، عزت اور احترام سے پیش آنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا ﴿ وَاِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰ٘مٌ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’جب آپ کے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو انھیں السلام علیکم کہیں ۔‘‘ یعنی جب اہل ایمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کہیں ، ان کو خوش آمدید کہیں ۔ سلام و تحیات سے ان کا استقبال کریں اور انھیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جود و احسان کی بشارت دیں جو ان کے عزائم اور ارادوں میں نشاط پیدا کرے اور انھیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر راستہ اور ہر سبب اختیار کرنے کی ترغیب دیں ۔ ان کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈرائیں اور انھیں گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیں تاکہ وہ اپنے رب کی مغفرت اور اس کے جود و کرم کو پا سکیں ۔ ﴿ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ۙ اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ ﴾ ’’لکھ لیا ہے تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو جو کوئی کرے تم میں سے برائی، ناواقفیت سے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیک ہو جائے‘‘ یعنی (قبولیت توبہ کے لیے) گناہوں کو ترک کرنا، ان کا قلع قمع کرنا، ان پر نادم ہونا اور اعمال کی اصلاح کرنا ضروری ہے، نیز ان امور کی ادائیگی جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور جو ظاہری اور باطنی اعمال فاسد ہو چکے ہیں ، ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ جب یہ تمام امور موجود ہوں ﴿فَاَنَّهٗ غَ٘فُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’تو بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جن امور کا حکم دیا ہے اس کی بجا آوری کے مطابق ان پر اپنی مغفرت اور رحمت کا فیضان کرتا ہے۔
#
{55} {وكذلك نفصِّلُ الآياتِ}؛ أي: نوضِّحها ونبيِّنها ونميِّز بين طريق الهدى من الضلال والغي والرشاد؛ ليهتديَ بذلك المهتدون ويتبيَّن الحقُّ الذي ينبغي سلوكه. {ولتستبينَ سبيلُ المجرمين}: الموصلةُ إلى سَخَطِ الله وعذابه؛ فإنَّ سبيل المجرمين إذا استبانت واتَّضحت؛ أمكنَ اجتنابُها والبعدُ منها؛ بخلاف ما لو كانت مشتبهةً ملتبسةً؛ فإنه لا يحصُلُ هذا المقصود الجليل.
[55] ﴿وَؔكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’اور اسی طرح ہم اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی اسی طرح ہم اپنی آیات کو واضح کرتے ہیں ، گمراہی میں سے ہدایت کے راستے کو ممیز کرتے ہیں ، رشد و ہدایت اور ضلالت میں فرق کرتے ہیں تاکہ راہ ہدایت پر چلنے والے ہدایت پا لیں تاکہ حق کا راستہ عیاں ہوجائے جس پر گامزن ہونا چاہیے۔ ﴿ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے‘‘ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب تک پہنچاتا ہے۔ کیونکہ جب مجرموں کا راستہ ظاہر اور صاف واضح ہو جاتا ہے تو اس سے اجتناب کرنا اور اس سے دور رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر راستہ مشتبہ اور غیر واضح ہو تو یہ مقصد جلیل حاصل نہیں ہو سکتا۔
آیت: 56 - 58 #
{قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قُلْ لَا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (56) قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَكَذَّبْتُمْ بِهِ مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (57) قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ (58)}
کہہ دیجیے! یقینا میں روک دیا گیا ہوں اس سے کہ عبادت کروں ان کی جنھیں تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے، کہہ دیجیے! نہیں پیچھے چلتا میں تمھاری خواہشات کے، تحقیق گمراہ ہو جاؤں گا میں اس وقت اور نہ ہوں گا میں ہدایت پانے والوں سے (56) کہہ دیجیے! یقیناً میں دلیل پر ہوں اپنے رب کی طرف سے اور جھٹلایا تم نے اسے، نہیں ہے میرے پاس وہ چیز کہ جلدی طلب کررہے ہو تم اس کو ، نہیں ہے حکم مگر اللہ ہی کا بیان فرماتا ہے وہ حق بات اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے(57) کہہ دیجیے، اگر میرے پاس ہوتی وہ چیز کہ جلدی طلب کر رہے ہو تم اس کو تو فیصلہ کر دیا جاتا معاملے کا میرے درمیان اور تمھارے درمیان اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو(58)
#
{56} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {قُلْ} لهؤلاء المشركين الذين يَدْعون مع الله آلهةً أخرى: {إني نُهيت أن أعبدَ الذين تدعون من دونِ الله}: من الأنداد والأوثان التي لا تملك نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً؛ فإن هذا باطلٌ، وليس لكم فيه حجةٌ ولا شبهةٌ إلاَّ اتباع الهوى الذي اتِّباعه أعظم الضلال. ولهذا قال: {قل لا أتَّبِعُ أهواءَكم قد ضللتُ إذاً}؛ أي: إن اتَّبعت أهواءكم، {وما أنا من المهتدينَ}: بوجهٍ من الوجوه.
[56] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ﴿قُ٘لْ ﴾ ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی پکارتے ہیں ﴿اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ ’’جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ یعنی مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اللہ کی بجائے اللہ کے بناوٹی ہمسروں اور بتوں کی عبادت کروں جو کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں ۔ یہ سب باطل ہے۔ اس میں تمھارے لیے کوئی دلیل ہے نہ اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ ہے۔ سوائے خواہشات نفس کی پیروی کے جو سب سے بڑی گمراہی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿قُ٘لْ لَّاۤ اَ٘تَّ٘بِـعُ اَهْوَؔآءَؔكُمْ١ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا ﴾ ’’کہہ دیجیے میں تمھاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا، بیشک تب میں بہک جاؤں گا‘‘ یعنی اگر میں تمھاری خواہشات کی پیروی کروں تو گمراہ ہو جاؤں گا ﴿ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ﴾ ’’اور کسی پہلو سے بھی راہ راست پر نہیں رہوں گا۔‘‘
#
{57} وأما ما أنا عليه من توحيد الله وإخلاص العمل له؛ فإنه هو الحقُّ الذي تقوم عليه البراهين والأدلة القاطعة، وأنا {على بيِّنة من ربي}؛ أي: على يقين مبينٍ بصحته وبطلان ما عداه. وهذه شهادةٌ من الرسول جازمةٌ لا تقبل التردُّد، وهو أعدل الشهود [من الخلق] على الإطلاق، فصدَّق بها المؤمنون، وتبيَّن لهم من صحَّتها وصدقها بحسب ما مَنَّ الله به عليهم، ولكنكم أيها المشركون {كذبتم به}، وهو لا يستحقُّ هذا منكم، ولا يَليقُ به إلاَّ التصديق، وإذا استمررتُم على تكذيبكم؛ فاعلموا أنَّ العذابَ واقعٌ بكم لا محالةَ، وهو عند الله، هو الذي ينزله عليكم إذا شاء وكيف شاء، وإن استعجلتم به؛ فليس بيدي من الأمر شيء، {إن الحُكْمُ إلا للهِ}؛ فكما أنه هو الذي حكم بالحكم الشرعيِّ فأمر ونهى؛ فإنه سيحكم بالحكم الجزائيِّ فيثيب ويعاقب بحسب ما تقتضيه حكمته؛ فالاعتراض على حكمه مطلقاً مدفوع، وقد أوضح السبيل وقصَّ على عباده الحقَّ قصًّا قَطَعَ به معاذيرَهم وانقطعتْ له حُجَّتُهم؛ ليهلِك مَن هَلَكَ عن بيِّنة ويحيا من حيَّ عن بيِّنة. {وهو خيرُ الفاصلينَ}: بين عبادِهِ في الدُّنيا والآخرة، فيفصل بينهم فصلاً يحمدُه عليه حتى من قضى عليه ووجَّه الحق نحوه.
[57] رہی وہ توحید اور اخلاص عمل جن پر میں عمل پیرا ہوں تو یہی حق ہے جس کی تائید واضح براہین اور قطعی دلائل کرتے ہیں ۔ ﴿ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ ﴾ ’’میں تو آپ رب کی دلیل روشن پر ہوں ۔‘‘ آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس قرآن کی صحت اور اس کے ماسوا کے بطلان کا واضح یقین رکھتا ہوں ۔ یہ رسول کی طرف سے قطعی شہادت ہے جو ہر قسم کے تردد سے پاک ہے۔ رسول علی الاطلاق سب سے عادل گواہ ہوتا ہے۔ اہل ایمان نے رسول کی گواہی کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس ایمان سے نوازا ہے اس ایمان کے مطابق ان کے ہاں اس شہادت کی صحت اور صداقت متحقق ہے۔ ﴿وَ﴾ مگر اے مشرکو! ﴿ؔكَذَّبْتُمْ بِهٖ ﴾ ’’تم نے اس کی تکذیب کی‘‘ اور یہ تمھاری طرف سے اس سلوک کا مستحق نہ تھا، تصدیق کے سوا کوئی اور سلوک اس کے شایان شان نہ تھا۔ جب تم تکذیب پر مصر ہو تو جان رکھو کہ لامحالہ عذاب تم پر واقع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عذاب مقرر ہے وہ جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم پر نازل کرے گا۔ اگر تم جلدی مچاتے ہو تو معاملہ میرے اختیار میں نہیں ﴿ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ﴾ ’’حکم صرف اللہ کا ہے‘‘ جس طرح اس نے اوامر و نواہی میں اپنا حکم شرعی نافذ کیا ہے اسی طرح وہ حکم جزائی نافذ کرے گا اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ثواب و عقاب دے گا۔ پس اس کے فیصلے پر اعتراض در خور اعتنا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے راہ حق کو واضح کر دیا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حق بیان کر کے ان کا عذر ختم کر دیا اور یوں ان کی حجت منقطع ہو گئی۔ تاکہ جو ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ ﴿وَهُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْ٘نَ ﴾ ’’وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ وہ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، وہ ان کے درمیان ایسا فیصلہ کرتا ہے جس پر اس کی تعریف کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے اور وہ حق کو واضح اور متعین کر دیتا ہے۔
#
{58} {قل} للمستعجلين بالعذاب جهلاً وعناداً وظلماً: {لو أنَّ عندي ما تستعجلونَ به لَقُضِيَ الأمرُ بيني وبينكم}: فأوقعتُه بكم، ولا خير لكم في ذلك، ولكنَّ الأمر عند الحليم الصبور الذي يعصيه العاصون ويتجرَّأ عليه المتجرِّئون وهو يعافيهم ويرزقُهم ويسدي عليهم نعمه الظاهرة والباطنة. {والله أعلم بالظالمين}: لا يخفى عليه من أحوالهم شيءٌ فيمهِلُهم ولا يهمِلُهم.
[58] ﴿ قُ٘لْ ﴾ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جو جہالت، عناد اور ظلم کی بنا پر عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ﴿ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ۠ بِهٖ لَ٘قُ٘ضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَبَیْنَكُمْ ﴾ ’’اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جس کی تم جلدی کر رہے ہو تو طے ہو چکا ہوتا جھگڑا، میرے اور تمھارے درمیان‘‘ پس میں تم پر عذاب واقع کر دیتا۔ اس جلدی مچانے میں تمھارے لیے بھلائی نہیں ۔ لیکن تمام تر معاملہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ اختیار میں ہے جو نہایت بردبار اور صبر کرنے والا ہے، نافرمان اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والے اس کے سامنے بڑی جرأ ت سے گناہ کرتے ہیں مگر وہ ان سے درگزر کرتا ہے، ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے ﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘ ان کے احوال میں سے کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے، پس وہ ان کو مہلت دیتا ہے مگر مہمل نہیں چھوڑتا۔
آیت: 59 #
{وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (59)}.
اور اسی کے پاس ہیں چابیاں غیب کی، نہیں جانتا انھیں کوئی بھی مگر وہی اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہےاور نہیں گرتا کوئی پتا بھی مگر وہ جانتا ہے اس کواور نہیں کوئی دانہ اندھیروں میں زمین کے اور نہ کوئی تر چیز اور نہ خشک چیز مگر (سب) کتاب واضح میں ہے(59)
#
{59} هذه الآية العظيمة من أعظم الآيات تفصيلاً لعلمه المحيط، وأنَّه شامل للغيوب كلِّها، التي يُطْلِعُ منها ما شاء من خلقه، وكثير منها طوى علمَهُ عن الملائكة المقرَّبين والأنبياء المرسلين فضلاً عن غيرهم من العالمين، وأنَّه يعلم ما في البراري والقفار من الحيوانات والأشجار والرمال والحصى والتراب، وما في البحار من حيواناتها ومعادنها وصيدها وغير ذلك مما تحتويه أرجاؤها ويشتمل عليه ماؤها. {وما تسقُطُ من ورقةٍ}: من أشجار البر والبحر والبلدان والقفر والدنيا والآخرة إلاَّ يعلمها، {ولا حبةٍ في ظلمات الأرض}: من حبوب الثمار والزُّروع وحبوب البذور التي يبذرها الخلقُ وبذور النوابت البريَّة التي ينشأ منها أصناف النباتات، {ولا رطبٍ ولا يابس}: هذا عموم بعد خصوص {إلَّا في كتابٍ مبينٍ}: وهو اللوحُ المحفوظُ؛ قد حواها واشتمل عليها، وبعضُ هذا المذكور يبهر عقول العقلاء، ويذهِلُ أفئدة النبلاء، فدلَّ هذا على عظمة الربِّ العظيم وسعته في أوصافه كلِّها، وأنَّ الخلق من أولهم إلى آخرهم لو اجتمعوا على أن يحيطوا ببعض صفاته؛ لم يكنْ لهم قدرةٌ ولا وسعٌ في ذلك، فتبارك الربُّ العظيم الواسع العليم الحميد المجيد الشهيد المحيط، وجلَّ مِن إلهٍ لا يُحْصي أحدٌ ثناءً عليه، بل هو كما أثنى على نفسِهِ وفوق ما يثني عليه عباده. فهذه الآية دلَّت على علمه المحيط بجميع الأشياء وكتابه المحيط بجميع الحوادث.
[59] یہ آیت کریمہ قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی تفصیل بیان کرتی ہے جو تمام غیوب کو شامل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اسے ان غیوب میں سے کسی پر مطلع کر دیتا ہے۔ اس نے اپنا بہت سا علم، عام جہان والے تو کجا ملائکہ مقربین اور انبیا و مرسلین سے بھی پوشیدہ رکھا ہے۔ صحراؤں اور بیابانوں میں حیوانات، درخت، ریت کے ذرات کنکر اور مٹی سب اس کے علم میں ہیں ۔ سمندروں کے جانوروں ، ان کی معدنیات، ان کے شکار وغیرہ اور ان تمام اشیا کو وہ جانتا ہے جو ان کے کناروں کے اندر اور ان کے پانیوں میں شامل ہے۔ ﴿ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ ﴾ ’’اور نہیں گرتا کوئی پتا۔‘‘بحروبر، آبادیوں اور بیابانوں اور دنیا و آخرت کے درختوں پر سے اگر کوئی پتہ گرتا ہے تو اسے بھی وہ جانتا ہے ﴿ وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰؔتِ الْاَرْضِ ﴾ ’’اور نہیں گرتا کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں ‘‘ یعنی پھل اور کھیتیوں کے دانے، وہ بیج جو لوگ زمین میں بوتے ہیں اور جنگلی نباتات کے بیج جن سے مختلف اصناف کی نباتات پیدا ہوتی ہے ﴿ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَ٘ابِسٍ ﴾ ’’اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز‘‘ یہ خصوص کے بعد عموم کا ذکر ہے ﴿ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے‘‘ یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور لوح محفوظ ان تمام امور کو شامل ہے۔ ان میں سے بعض امور تو بڑے بڑے عقل مندوں کو حیران اور مبہوت کر دیتے ہیں اور یہ چیز رب عظیم کی عظمت اور اس کے تمام اوصاف میں اس کی وسعت پر دلالت کرتی ہے۔ اگر تمام مخلوق کے اولین و آخرین جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا احاطہ کرنا چاہیں تو وہ اس پر قادر نہیں اور نہ ان میں اس کی طاقت ہی ہے۔ نہایت بابرکت ہے رب عظیم کی ذات جو وسیع اور علم رکھنے والی، قابل تعریف بزرگی والی، دیکھنے والی اور ہر چیز کا احاطہ کرنے والی ہے۔ وہ الہ جلیل ہے کوئی اس کی حمدو ثنا کا شمار نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی حمد و ثنا بیان کی ہے اس کی جو حمد و ثنا اس کے بندے بیان کرتے ہیں وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس کا علم تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے اور اس کی کتاب تمام حوادث پر محیط ہے۔
آیت: 60 - 62 #
{وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ (61) ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (62)}
اور وہی ہے جو فوت کرتا ہے تمھیں رات کواور جانتا ہے جو کچھ کرتے ہو تم دن میں ، پھر اٹھاتا ہے تمھیں اس (دن) میں تاکہ پورا کیا جائے وقت معین، پھر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تمھارا، پھر خبر دے گا وہ تمھیں اس کی جو تھے تم کرتے (60) اور وہ غالب ہے اوپر اپنے بندوں کے اور بھیجتا ہے تم پر محافظ (فرشتے ) حتی کہ جب آتی ہے کسی ایک کو تم میں سے موت تو فوت کرتے ہیں اسے ہمارے رسول(فرشتے) اور وہ نہیں کوتاہی کرتے (61) پھر لوٹائے جاتے ہیں وہ اللہ کی طرف جو مالک ہے ان کا سچا خبردار! اسی کے لیے ہے فیصلہ کرنااور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے (62)
یہ آیت کریمہ تمام تر توحید الوہیت کے تحقق، مشرکین کے خلاف دلائل اور اس بیان پر مشتمل ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی محبت، تعظیم، اجلال اور اکرام کا مستحق ہے۔
#
{60} فأخبر أنه وحده المتفرِّدُ بتدبير عباده في يقظتهم ومنامهم، وأنه يتوفَّاهم بالليل وفاة النوم، فتهدأ حركاتهم وتستريح أبدانهم، ويبعثهم في اليقظة من نومهم؛ ليتصرَّفوا في مصالحهم الدينيَّة والدنيويَّة، وهو تعالى يعلم ما جَرَحوا وما كَسَبوا من تلك الأعمال، ثم لا يزال تعالى هكذا يتصرَّف فيهم حتى يستوفوا آجالهم، فيَقضي بهذا التدبير أجلٌ مسمّى، وهو أجل الحياة، وأجل آخر فيما بعد ذلك، وهو البعث بعد الموت، ولهذا قال: {ثم إليه مرجِعُكم}: لا إلى غيره، {ثم ينبِّئكُم بما كنتم تعملون}: من خير وشر.
[60] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اکیلا ہی ہے جو بندوں کی ان کے سوتے جاگتے میں تدبیر کرتا ہے، وہ رات کو انھیں وفات یعنی نیند کی وفات دیتا ہے، ان کی حرکات پر سکون طاری ہو جاتا ہے اور ان کے بدن آرام کرتے ہیں ، نیند سے بیداری کے بعد وہ ان کو دوبارہ زندہ کرتا ہے تاکہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں تصرف کریں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور وہ جن اعمال کا اکتساب کرتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان میں اسی طرح تصرف کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کر لیتے ہیں ۔ وہ اپنی اس تدبیر کے ذریعے سے ان کی مدت مقررہ کا فیصلہ کرتا ہے یعنی مدت حیات اور اس کے بعد ایک اور مدت ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ثُمَّ اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ ﴾ ’’پھر اس کی طرف ہی تمھارا لوٹنا ہے‘‘ اس کے سوا اور کسی کی طرف لوٹنا نہیں ہے ﴿ ثُمَّ یُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’پھر وہ تم کو تمھارے عمل جو تم کرتے ہو، بتائے گا۔‘‘ نیک اور بد جو کام بھی تم کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے آگاہ فرمائے گا۔
#
{61} {وهو} تعالى {القاهرُ فوقَ عبادِهِ}: يُنَفِّذُ فيهم إرادته الشاملةَ ومشيئته العامة، فليسوا يملكون من الأمر شيئاً، ولا يتحرَّكون ولا يسكنون إلاَّ بإذنه، ومع ذلك؛ فقد وَكَّلَ بالعباد حفظةً من الملائكة يحفظون العبدَ ويحفظون عليه ما عَمِلَ؛ كما قال تعالى: {وإنَّ عليكم لَحافظينَ. كراماً كاتبينَ. يعلمونَ ما تفعلونَ}، {عن اليمينِ وعن الشمال قعيدٌ. ما يَلْفِظُ من قول إلا لَدَيْهِ رقيبٌ عتيدٌ}: فهذا حفظه لهم في حال الحياة. {حتى إذا جاء أحَدَكُمُ الموتُ توفَّتْه رُسُلُنا}؛ أي: الملائكة الموكلون بقبض الأرواح، {وهم لا يُفَرِّطون} في ذلك؛ فلا يزيدون ساعةً مما قَدَّرَ اللهُ، وقضاه، ولا يُنْقِصون، ولا ينفِّذون من ذلك إلا بحسب المراسيم الإلهيَّة والتقادير الربانيَّة.
[61] ﴿ وَهُوَ ﴾ ’’اور وہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ﴿ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ ﴾ ’’غالب ہے اپنے بندوں پر‘‘ وہ ان پر اپنا ارادہ اور اپنی مشیت عامہ نافذ کرتا ہے۔ بندے کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتے، وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر حرکت و سکون کے بھی مالک نہیں ۔ بایں ہمہ اس نے اپنے بندوں پر فرشتوں کو محافظ مقرر کر رکھا ہے اور بندے جو عمل کرتے ہیں یہ فرشتے اس کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰؔفِظِیْنَۙ۰۰ كِرَامًا كَاتِبِیْنَۙ۰۰یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (الانفطار: 82؍10-12) ’’اور تم پر نگہبان مقرر ہیں باعزت اور تمھاری باتوں کو لکھنے والے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں ۔‘‘ ارشاد فرماتا ہے ﴿ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ۰۰ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾ (ق: 50؍17،18) ’’اس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوتے ہیں وہ جب کوئی بات کہتا ہے تو ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘ یہ ان کی زندگی کے احوال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حفاظت ہے۔ ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَؔ اَحَدَؔكُمُ الْ٘مَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ﴾ ’’یہاں تک کہ جب آپہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضے میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے‘‘ یعنی وہ فرشتے جو روح قبض کرنے پر مقرر ہیں ﴿ وَهُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ﴾ ’’اور وہ کوتاہی نہیں کرتے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قضا و قدر سے جو مدت مقرر کر دی ہے وہ اس میں ایک گھڑی کا اضافہ کر سکتے ہیں نہ ایک گھڑی کی کمی، وہ صرف مکتوب الٰہی اور تقدیر ربانی کو نافذ کرتے ہیں ۔
#
{62} {ثم}: بعد الموت والحياة البرزخيَّة وما فيها من الخير والشر، {رُدُّوا إلى الله مولاهم الحقِّ}؛ أي: الذي تولاَّهم بحكمه القدري فنفذ فيهم ما شاء من أنواع التدبير، ثم تولاَّهم بأمره ونهيه وأرسل إليهم الرسل وأنزل عليهم الكتب، ثم رُدُّوا إليه ليتولَّى الحكم فيهم بالجزاء. ويثيبَهم على ما عملوا من الخيرات ويعاقِبَهم على الشرور والسيئات، ولهذا قال: {ألا له الحكمُ}: وحدَه لا شريك له، {وهو أسرعُ الحاسبينَ}: لكمال علمِهِ وحفظِهِ لأعمالهم بما أثبته في اللوح المحفوظ ثم أثبتته ملائكته في الكتاب الذي بأيديهم. فإذا كان تعالى هو المنفرد بالخلق والتدبير، وهو القاهر فوق عباده، وقد اعتنى بهم كل الاعتناء في جميع أحوالهم، وهو الذي له الحكم القدري والحكم الشرعي والحكم الجزائي؛ فأين للمشركين العدول عن مَن هذا وصفه ونعته إلى عبادة من ليس له من الأمر شيء ولا عنده مثقال ذرةٍ من النفع ولا له قدرة وإرادة، أما والله؛ لو علموا حلم الله عليهم، وعفوه ورحمته بهم، وهم يبارزونه بالشرك والكفران، ويتجرؤون على عظمته بالإفك والبهتان، وهو يعافيهم ويرزقهم؛ لانجذبت دواعيهم إلى معرفته، وذهلت عقولهم في حبِّه، ولمقتوا أنفسهم أشدَّ المقت حيث انقادوا لداعي الشيطان، الموجب للخزي والخسران، ولكنهم قومٌ لا يعقلون.
[62] ﴿ ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘ موت اور حیات برزخ کے بعد اور جو کچھ اس میں خیر و شر ہے ﴿ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰ٘ىهُمُ الْحَقِّ ﴾ ’’پہنچائے جائیں گے وہ اللہ کی طرف جو ان کا سچا مالک ہے‘‘ یعنی وہ مولائے حق اپنے حکم قدری کے مطابق ان کا والی ہے اور ان کے اندر اپنی مختلف انواع کی تدابیر کو نافذ کرتا ہے، پھر وہ امرونہی اور حکم شرعی کے ذریعے سے ان کا والی ہے، اس نے ان کی طرف رسول بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں پھر ان کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا وہ ان میں اپنا حکم جزائی نافذ کرے گا اور ان کو ان کے اچھے اعمال کا ثواب عطا کرے گا اور ان کی بدیوں اور برائیوں کی پاداش میں انھیں عذاب دے گا۔ ﴿ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ﴾ ’’سن رکھو! حکم اسی کا ہے‘‘ وہ اکیلا جس کا کوئی شریک نہیں ، فیصلے کا مالک ہے ﴿ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰؔسِبِیْنَ ﴾ ’’اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے‘‘ کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور اس نے ان کے اعمال کو بھی محفوظ کیا ہوا ہے، پہلے اس نے ان کو لوح محفوظ میں ثبت کیا، پھر فرشتوں نے اپنی اس کتاب میں ثبت کیا جو ان کے ہاتھوں میں ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، وہ اپنے بندوں کو ان کے تمام احوال میں درخور اعتنا سمجھتا ہے، وہی حکم قدری، حکم شرعی اور حکم جزائی کا مالک ہے، پھر مشرکین کیوں کر اس ہستی سے روگردانی کر کے جو ان صفات کی مالک ہے ایسی ہستیوں کی بندگی اختیار کرتے ہیں جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں جو ذرہ بھر نفع کی مالک نہیں اور ان میں کوئی قدرت اور ارادہ نہیں ؟ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ کھلے عام کفر و شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت پر بہتان کی جرأت کرتے ہیں اور وہ ان کو معاف کر دیتا ہے اور ان کو رزق عطا کرتا ہے اللہ کی قسم! اگر انھیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کتنا حلیم ہے اور اس کا عفو اور اس کی رحمت ان پر سایہ کناں ہے تو ان کے داعیے اس کی معرفت کی طرف خود بخود کھنچے چلے آئیں اور ان کی عقل اس کی محبت میں (دیگر ہر شے سے) غافل ہو جائے اور وہ خود اپنے آپ پر سخت ناراض ہوں کیونکہ انھوں نے شیطان کے داعی کی اطاعت کی جو رسوائی اور خسارے کا موجب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو عقل سے عاری ہیں ۔
آیت: 63 - 64 #
{قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (63) قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ (64)}.
کہہ دیجیے! کون نجات دیتا ہے تمھیں خشکی اور تری کے اندھیروں سے ؟ پکارتے ہو تم اسے عاجزی سے اور چپکے چپکے، (کہتے ہو) اگر وہ نجات دے دے ہمیں اس سے تو ضرور ہو جائیں گے ہم شکر گزاروں سے (63)کہہ دیجیے! اللہ ہی نجات دیتا ہے تمھیں اس سے اور ہر غم سے ، پھر تم شریک ٹھہراتے ہو (64)
#
{63} أي: {قل}: للمشركين بالله الداعين معه آلهةً أخرى ملزماً لهم بما أثبتوه من توحيد الربوبية على ما أنكروه من توحيد الإلهية، {مَنْ يُنَجِّيكم من ظلماتِ البرِّ والبحر}؛ أي: شدائدهما ومشقاتهما وحين يتعذَّر أو يتعسَّر عليكم وجه الحيلة، فتدعون ربكم تضرُّعاً بقلبٍ خاضع ولسان لا يزال يَلْهَجُ بحاجته في الدُّعاء وتقولون وأنتم في تلك الحال: {لَئِنْ أنجانا من هذه}: الشدة التي وقعنا فيها، {لَنَكونَنَّ من الشاكرينَ}: لله؛ أي: المعترفين بنعمتِهِ، الواضعينَ لها في طاعة ربِّهم، الذين حفظوها عن أن يبذلوها في معصيته.
[63] ﴿ قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو پکارنے والوں سے، ان کے توحید ربوبیت کے اثبات کو ان کے توحید الوہیت کے انکار پر الزامی دلیل اور حجت بناتے ہوئے کہیے ﴿ مَنْ یُّؔنَؔجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰؔتِ الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾ ’’کون تمھیں نجات دیتا ہے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے‘‘ یعنی جب بحر و بر کی سختیوں اور مشقتوں سے نجات کا کوئی بھی حیلہ تمھیں مشکل نظر آتا ہے تو تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر دل کے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی دعا میں اپنی حاجت کے لیے پکارتے رہے ہو۔ اور اپنی اس مصیبت کی حالت میں کہتے ہو ﴿ لَىِٕنْ اَنْجٰؔىنَا مِنْ هٰؔذِهٖ ﴾ ’’اگر اس نے ہمیں بچا لیا اس سے‘‘ یعنی اس مصیبت سے جس میں ہم گرفتار ہیں ﴿ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ ﴾ ’’تو ہم ضرور (اللہ تعالیٰ) کے شکر گزار ہوں گے‘‘ یعنی اس کی نعمت کا اعتراف کریں گے اور اس نعمت کو اپنے رب کی اطاعت میں استعمال کریں گے اور اس نعمت کو اس کی نافرمانی میں صرف کرنے سے بچیں گے۔
#
{64} {قل الله ينجيكم منها ومن كل كربٍ}؛ أي: من هذه الشدة الخاصة، ومن جميع الكروب العامة، {ثم أنتم تشركونَ}: لا تفون لله بما قلتُم، وتنسَوْن نعمه عليكم؛ فأي برهان أوضح من هذا على بطلان الشرك وصحة التوحيد.
[64] ﴿قُ٘لِ اللّٰهُ یُنَجِّیْكُمْ مِّؔنْهَا وَمِنْ كُ٘لِّ كَرْبٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ ہی تمھیں اس (خاص مصیبت) اور دیگر تمام مصائب سے نجات دلاتا ہے‘‘ ﴿ ثُمَّ اَنْتُمْ تُ٘شْ٘رِكُوْنَ﴾ ’’پھر بھی تم شرک کرتے ہو‘‘ تم اللہ کے بارے میں جو کہتے ہو اسے پورا نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کر دیتے ہو۔ پس شرک کے بطلان اور توحید کی صحت پر اس سے واضح اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے؟
آیت: 65 - 67 #
{قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ (65) وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (66) لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (67)}
آپ کہہ دیجیے! وہی قادر ہے اوپر اس کے کہ وہ بھیجے تم پر تمھارے اوپر سے یا نیچے سے تمھارے پاؤں کے یا خلط ملط کردے تمھیں مختلف گروہوں میں اور چکھائے تم میں سے بعض کو( مزہ) لڑائی کا بعض سے ، دیکھیں کیسے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ہم آیات کو تاکہ وہ سمجھیں (65)اور جھٹلایا اس (قرآن) کو آپ کی قوم نے، حالانکہ وہ حق ہے، کہہ دیجیے! نہیں ہو ں میں تم پر نگہبان (66)ہر ایک خبر کا وقت مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے (67)
#
{65} أي: هو تعالى قادرٌ على إرسال العذاب إليكم من كل جهة، {من فوقِكم أو من تحتِ أرجُلِكم أو يَلْبِسَكُم}؛ أي: يَخْلُطَكم {شيعاً ويذيقَ بعضَكم بأسَ بعض}؛ أي: في الفتنة وقتل بعضكم بعضاً؛ فهو قادر على ذلك كله؛ فاحذروا من الإقامة على معاصيه فيصيبكم من العذاب ما يتلفكم ويمحقكم، ومع هذا؛ فقد أخبر أنه قادر على ذلك، ولكن من رحمته أن رفع عن هذه الأمة العذاب من فوقهم بالرجم والحصب ونحوه ومن تحت أرجلهم بالخسف، ولكن عاقَبَ من عاقَبَ منهم بأن أذاق بعضهم بأس بعض وسلَّط بعضهم على بعض بهذه العقوبات المذكورة عقوبةً عاجلةً يراها المعتبرون ويشعر بها العاملون. {انظر كيف نصرِّفُ الآياتِ}؛ أي: ننوِّعُها ونأتي بها على أوجهٍ كثيرةٍ، وكلُّها دالةٌ على الحق، {لعلَّهم يفقهون}؛ أي: يفهمون ما خُلقوا من أجله ويفقهون الحقائق الشرعية والمطالب الإلهية.
[65] یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہر سمت سے تم پر عذاب بھیجنے پر قدرت رکھتا ہے فرمایا: ﴿ مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ ﴾ ’’تمھارے اوپر سے تمھارے پاؤں کے نیچے سے۔‘‘ ﴿ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا ﴾ ’’یا تمھیں فرقہ فرقہ کردے۔‘‘ یعنی تمھیں مختلف فرقوں میں بانٹ دے ﴿ وَّیُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ﴾ ’’اور چکھا دے لڑائی ایک کو ایک کی‘‘ یعنی تمھیں فتنہ میں مبتلا کر دے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ پس اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں پر قادر ہے، اس لیے اس کی نافرمانی پر قائم رہنے سے بچو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں عذاب آ لے اور وہ تمھیں تلف کر کے تمھارا نام و نشان مٹا ڈالے۔ اس کے باوجود کہ اس نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے مگر یہ اس کی بے پایاں رحمت کا فیضان ہے کہ اس نے اس امت پر سے اوپر سے پتھر برسنے اور نیچے زمین میں دھنس جانے کے عذاب کو اٹھا لیا ہے۔ اس نے اس امت میں سے جس کسی کو بھی عذاب کا مزا چکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھایا ہے۔ اور ان کو ان سزاؤں کے ساتھ ایک دوسرے پر مسلط کر دیا یہ ایک ایسی فوری سزا ہے جسے عبرت پکڑنے والے دیکھ سکتے ہیں اور عمل کرنے والے اسے سمجھ سکتے ہیں ۔ ﴿ اُنْ٘ظُ٘رْؔ كَیْفَ نُ٘صَرِّفُ الْاٰیٰتِ ﴾ ’’دیکھو ہم آیتوں کو کس کس طرح بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم ان آیات کو مختلف انواع میں لاتے ہیں اور انھیں بہت سے پہلوؤں سے ان کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ تمام آیات حق پر دلالت کرتی ہیں ﴿ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ ﴾ ’’تاکہ یہ لوگ سمجھیں ۔‘‘ یعنی شاید وہ اس بات کو سمجھ جائیں کہ انھیں کس چیز کی خاطر پیدا کیا گیا ہے۔ نیز حقائق شرعیہ اور مطالب الہٰیہ ان کی سمجھ میں آ جائیں ۔
#
{66} {وكذَّب به}؛ أي: بالقرآن {قومُك وهو الحقُّ}: الذي لا مِرْيَةَ فيه ولا شك يعتريه. {قل لستُ عليكم بوكيل}: أحفظُ أعمالَكم وأجازيكم عليها، وإنَّما أنا منذرٌ ومبلِّغ.
[66] ﴿وَ کَذَّبَ بِهٖ﴾ ’’اور اس کو جھٹلایا۔‘‘ یعنی قرآن کو جھٹلایا ﴿قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’آپ کی قوم نے، حالانکہ وہ حق ہے‘‘ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿ قُ٘لْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَؔكِیْلٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے! میں تم پر داروغہ نہیں ہوں ‘‘ کہ تمھارے اعمال کی نگرانی کروں اور اس پر تمھیں بدلہ دوں میں تو صرف پہنچانے والا اور ڈرانے والا ہوں ۔
#
{67} {لكلِّ نبإٍ مستقرٌّ}؛ أي: وقتٌ يستقرُّ فيه وزمانٌ لا يتقدَّم عنه ولا يتأخر، {وسوف تعلمونَ}: ما توعدون به من العذاب.
[67] ﴿ لِكُ٘لِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ ﴾ ’’ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔‘‘ یعنی ہر خبر کے استقرار کا ایک وقت اور ایک زمانہ ہے جس سے وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ﴿ وَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ﴾ ’’اور تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا۔‘‘ یعنی جس عذاب کی تمھیں وعید سنائی گئی ہے تم اسے عنقریب جان لو گے۔
آیت: 68 - 69 #
{وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (68) وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (69)}
اور جب دیکھیں آپ ان کو جو مشغول ہو تے ہیں ہماری آیات میں تو اعراض کریں ان سے ، حتی کہ مشغول ہو جائیں وہ کسی اور بات میں اس کے علاوہ اور اگر بھلاد ے آپ کو شیطان (یہ بات) تو مت بیٹھیں بعد یاد آنے کے، ساتھ ظالم قوم کے (68) اور نہیں ہے ان لوگوں کے ذمے، جو ڈرتے ہیں ، ان کے حساب میں سے کچھ لیکن صرف نصیحت کرناتاکہ وہ ڈریں (69)
#
{68} المراد بالخوض في آيات الله التكلُّم بما يخالف الحقَّ من تحسين المقالات الباطلة والدعوة إليها ومدح أهلها والإعراض عن الحقِّ والقدح فيه وفي أهله؛ فأمر الله رسوله أصلاً وأمته تبعاً إذا رأوا من يخوض بآياتِ الله بشيء مما ذُكِرَ بالإعراض عنهم وعدم حضور مجالس الخائضين بالباطل والاستمرار على ذلك حتى يكونَ البحثُ والخوضُ في كلام غيره؛ فإذا كان في كلام غيره؛ زال النهي المذكور؛ فإن كان مصلحةً؛ كان مأموراً به، وإن كان غير ذلك؛ كان غير مفيد ولا مأمور به، وفي ذمِّ الخوض بالباطل حثٌّ على البحث والنظر والمناظرة بالحق. ثم قال: {وإما ينسينَّك الشيطانُ}؛ أي: بأن جلستَ معهم على وجه النسيان والغفلة، {فلا تقعُدْ بعد الذِّكرى مع القوم الظالمين}: يشملُ الخائضين بالباطل وكلَّ متكلِّم بمحرَّم أو فاعل لمحرم؛ فإنه يحرم الجلوس والحضور عند حضور المنكر الذي لا يقدِرُ على إزالته، هذا النهي والتحريم لمن جلس معهم، ولم يستعمل تقوى الله بأن كان يشارِكُهم في القول والعمل المحرم أو يسكت عنهم وعن الإنكار؛ فإن استعمل تقوى الله تعالى بأن كان يأمرهم بالخير وينهاهم عن الشرِّ والكلام الذي يصدُرُ منهم؛ فيترتَّب على ذلك زوال الشر أو تخفيفه؛ فهذا ليس عليه حرجٌ ولا إثم، ولهذا قال:
[68] اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات میں جھگڑنے اور مشغول ہونے سے مراد ہے ان کے بارے میں ناحق باتیں کرنا، اقوال باطلہ کی تحسین کرنا، ان کی طرف دعوت دینا، اقوال باطلہ کے قائلین کی مدح کرنا، حق سے روگردانی کرنا اور حق اور اہل حق کی عیب چینی کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اپنے رسولe کو اور تبعاًتمام اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات کی مذکورہ عیب چینی میں مشغول دیکھیں تو اس سے اعراض کریں ۔ باطل میں مشغول لوگوں کی مجالس میں نہ جائیں جب تک کہ وہ کسی اور بحث میں مشغول نہ ہو جائیں ۔ اگر وہ آیات الٰہی کی بجائے کسی اور بحث میں مشغول ہوں تو ان میں بیٹھنا اس ممانعت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ اگر ان میں بیٹھنے میں کوئی راجح مصلحت ہو تو وہ ان میں بیٹھنے پر مامور ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یہ بیٹھنا مفید ہے نہ وہ اس پر مامور ہے۔ باطل میں مشغولیت کی مذمت درحقیقت حق میں غور و فکر اور بحث و تحقیق کی ترغیب ہے۔ ﴿ وَاِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّ٘یْطٰ٘نُ ﴾ ’’اگر شیطان آپ کو بھلا دے۔‘‘ یعنی اگر آپ کو شیطان بھلا دے اور آپ غفلت و نسیان کی وجہ سے ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں ﴿ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ ’’تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو باطل میں مشغول ہوتے ہیں جو ایسی باتیں کہتے یا کرتے ہیں جن کو حرام ٹھہرایا گیا ہے تو ان لوگوں میں بیٹھنا حرام ہے۔ منکرات کی موجودگی میں جبکہ وہ ان کے ازالے کی قدرت نہ رکھتا ہو، اس مجلس میں حاضر ہونا بھی ممنوع ہے۔ یہ نہی اور ممانعت اس شخص کے لیے ہے جو ایسے لوگوں کی مجلس میں شریک ہوتا ہے اور تقویٰ کا دامن چھوڑ کر ان کے قول اور عمل محرم میں خود بھی شریک ہو جاتا ہے یا ان کے غیر شرعی افعال و اقوال پر خاموشی اختیار کرتا ہے اور ان پر نکیر نہیں کرتا۔ لیکن اگر وہ تقویٰ کا التزام کرتے ہوئے مجلس میں شریک ہو، شرکائے مجلس کو نیکی کا حکم دے، اس برائی اور بری گفتگو سے روکے جو اس مجلس میں صادر ہو، جس سے یہ برائی زائل ہو جائے یا اس میں تخفیف ہو جائے تو ایسی مجلس میں شریک ہونے میں کوئی حرج ہے نہ کوئی گناہ۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
#
{69} {وما على الذين يتَّقون من حسابِهم من شيءٍ ولكن ذِكْرى لعلَّهم يتَّقون}؛ أي: ولكن لِيذكِّرَهم ويَعِظَهم لعلَّهم يتَّقون الله تعالى. وفي هذا دليلٌ على أنه ينبغي أن يستعملَ المذكِّر من الكلام ما يكون أقربَ إلى حصول مقصود التقوى، وفيه دليلٌ على أنه إذا كان التذكير والوعظ مما يزيد الموعوظَ شرًّا إلى شرِّه؛ كان تركُهُ هو الواجب ؛ لأنَّه إذا ناقض المقصود؛ كان تركُهُ مقصوداً.
[69] ﴿ وَمَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ ﴾ ’’اور پرہیز گاروں پر نہیں ہے جھگڑنے والوں کے حساب میں سے کوئی چیز لیکن ان کے ذمے نصیحت کرنی ہے تاکہ وہ ڈریں ‘‘ یعنی صرف اس لیے وہ ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں ۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وعظ و نصیحت کرنے والا ایسا اسلوب کلام استعمال کرے جو مقصود تقویٰ کے حصول میں زیادہ ممد اور کارگر ہو اور اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر وعظ و نصیحت سے برائی میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہو تو وعظ و نصیحت ترک کرنا واجب ہے کیونکہ جو وعظ و نصیحت مطلوب و مقصود کے مخالف ہو تو اس کو ترک کرنا بھی مقصود ہے۔
آیت: 70 #
{وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَا يُؤْخَذْ مِنْهَا أُولَئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (70)}
اور چھوڑ دیجیے ان لوگوں کو جنھوں نے بنا لیا اپنے دین کوکھیل اور تماشہ اور دھوکے میں ڈالا ان کو حیات دنیا نےاور نصیحت کیجیے آپ ساتھ اس قرآن کے تاکہ (نہ) ہلاک کی جائے کوئی جان بدلے اس کے جو کمایا اس نے، نہیں ہو گا اس کے لیے سوائے اللہ کے کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی اور اگر بدلے میں دے ہر طرح کا فدیہ تو بھی نہ لیا جائے گا اس سے، یہی ہیں وہ لوگ جو ہلاک کیے گئے بوجہ اس کے جو کمایا انھوں نے، ان کے لیے پینا ہو گا گرم پانی اور عذاب ہوگا درد ناک بوجہ اس کے جو تھے وہ کفر کرتے (70)
#
{70} المقصود من العباد أن يُخْلِصوا لله الدين بأن يعبُدوه وحدَه لا شريك له ويبذُلوا مقدورَهم في مرضاتِهِ ومَحَابِّه، وذلك متضمِّن لإقبال القلب على الله وتوجُّهه إليه وكون سعي العبد نافعاً، وجِدًّا لا هزلاً، وإخلاصاً لوجه الله لا رياء وسمعة، هذا هو الدين الحقيقي الذي يُقالُ له: دينٌ، فأما من زعم أنه على الحقِّ، وأنه صاحب دين وتقوى، وقد اتَّخذ دينه لعباً ولهواً؛ بأنْ لَهَا قلبُهُ عن محبة الله ومعرفته، وأقبل على كلِّ ما يضرُّه، ولَهَا في باطله، ولعب فيه ببدنِهِ؛ لأن العمل والسعي إذا كان لغير الله؛ فهو لعبٌ؛ فهذا أمر الله تعالى أن يُتْرَكَ ويحذرَ ولا يغترَّ به، وتنظر حاله، ويحذر من أفعاله ، ولا يغتر بتعويقه عما يقرب إلى الله. {وذكِّر به}؛ أي: ذكِّر بالقرآن ما ينفع العباد أمراً وتفصيلاً وتحسيناً له بذكر ما فيه من أوصاف الحسن، وما يضرُّ العباد نهياً عنه وتفصيلاً لأنواعه وبيان ما فيه من الأوصاف القبيحة الشنيعة الداعية لتركِهِ، وكلُّ هذا لئلا تُبْسَلَ نفسٌ بما كَسَبَتْ؛ أي: قبل اقتحام العبد للذنوب وتجرُّئِهِ على علاَّم الغيوب واستمراره على ذلك المرهوب؛ فذكِّرْها وَعِظْهَا لترتدعَ وتنزجرَ وتكفَّ عن فعلها. وقوله: {ليس لها من دونِ الله وليٌّ ولا شفيعٌ}؛ أي: قبل أن تحيطَ بها ذنوبُها ثم لا ينفعُها أحدٌ من الخلق لا قريبٌ ولا صديقٌ ولا يتولاَّها من دون الله أحدٌ ولا يشفع لها شافعٌ. {وإن تَعْدِلْ كلَّ عَدْل}؛ أي: تفتدي بكل فداءٍ ولو بملء الأرض ذهباً {لا يُؤْخَذْ منها}؛ أي: لا يُقبل ولا يُفيد. {أولئك}: الموصوفون بما ذُكِرَ {الذين أُبْسِلوا}؛ أي: أهلِكوا وأيسوا من الخير، وذلك {بما كَسَبوا لهم شرابٌ من حميم}؛ أي: ماء حارٌّ قد انتهى حرُّه يَشْوي وجوههم ويقطع أمعاءهم {وعذابٌ أليمٌ بما كانوا يكفرون}.
[70] بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کریں ، یعنی اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے محبوب امور کے حصول میں مقدور بھر کوشش صرف کریں اور یہ چیز اس بات کو متضمن ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر اور اس کی طرف متوجہ رہے، بندے کی کوشش انتہائی سنجیدہ اور نفع مند ہو نہ کہ غیر سنجیدہ اور یہ کوشش اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اس میں ریا اور شہرت کی خواہش کا شائبہ نہ ہو۔ یہی وہ حقیقی دین ہے جس کو دین کہا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہ صاحب دین اور صاحب تقویٰ ہے اور حالت یہ ہے کہ اس نے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور اس کا قلب اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت سے خالی ہو کر لہو و لعب میں مستغرق ہو گیا اور ہر اس چیز میں مصروف ہو گیا جو اس کے لیے ضرر رساں ہے وہ اپنے بدن کے ساتھ لہو اور باطل میں مشغول ہے کیونکہ عمل اور بھاگ دوڑ اگر غیر اللہ کے لیے ہو تو وہ لہو و لعب ہے.... تو اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے، اس سے بچا جائے، اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے اور اس کے احوال پر غور کیا جائے، اس کی کارستانیوں سے ہشیار رہے اور وہ تقرب الٰہی والے اعمال سے روکے تو اس کے دھوکے میں نہ آئے۔ ﴿ وَذَكِّ٘رْ بِهٖۤ﴾ ’’اور اس کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہیں ۔‘‘ یعنی قرآن کے ذریعے سے ان کو نصیحت کیجیے جو بندوں کے لیے نفع مند ہے قرآن کے احکامات سنا کر، اس کی تفصیلات بیان کر کے، قرآن میں جو اچھے اوصاف مذکور ہیں ان کی تحسین کر کے اور وہ اوصاف جو بندوں کے لیے ضرر رساں ہیں ان سے ان کو منع کر کے، اس کی انواع کی تفصیل بیان کیجیے اور جو قبیح اوصاف بیان ہوئے ہیں جن کا ترک کرنا ضروری ہے (ان سب کے ساتھ) ان کو نصیحت کیجیے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ کہیں نفس اپنے کسب کی وجہ سے ہلاکت میں نہ ڈال دیا جائے، یعنی بندے کا گناہوں میں گھس جانے، اللہ علام الغیوب کے سامنے جرأت کرنے اور گناہوں پر قائم رہنے سے پہلے اسے نصیحت کیجیے تاکہ وہ باز آجائے اور اپنے فعل سے رک جائے۔ ﴿ لَ٘یْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّلَا شَ٘فِیْعٌ ﴾ ’’نہیں ہو گا واسطے اس کے، اللہ کے سوا، کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی‘‘ یعنی نفس کو اس کے گناہوں کا احاطہ کر لینے سے پہلے نصیحت کرو کیونکہ اس کے بعد مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے کام نہ آئے گا۔ نہ کوئی قریبی رشتہ دار اور نہ کوئی دوست، اللہ کے سوا اس کا کوئی ولی اور مددگار نہ ہو گا اور نہ اس کی کوئی سفارش کرنے والا ہو گا ﴿ وَاِنْ تَعْدِلْ كُ٘لَّ٘ عَدْلٍ ﴾ ’’اگرچہ وہ ہر چیز معاوضے میں دینا چاہے۔‘‘ یعنی اگر یہ نفس ہر قسم کا فدیہ دے خواہ وہ زمین بھر سونا کیوں نہ ہو ﴿ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَا ﴾ ’’وہ اس سے قبول نہ ہوگا۔‘‘ یعنی اس سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ فدیہ کوئی فائدہ دے گا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جو مذکورہ اوصاف سے موصوف ہیں ﴿ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا ﴾ ’’جنھیں ہلاک کردیا گیا۔‘‘ یعنی ان کو ہلاک کر دیا گیا اور وہ ہر قسم کی بھلائی سے مایوس ہو گئے اور یہ ان کے اعمال کے سبب سے ہے ﴿لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ﴾ ’’ان کا مشروب ابلتا ہوا گرم پانی ہو گا‘‘ جو ان کے چہروں کو بھون دے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ﴿ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْ٘فُرُوْنَ ﴾ ’’اور ان کے کفر کی پاداش میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
آیت: 71 - 73 #
{قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (71) وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (72) وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (73)}
کہہ دیجیے! کیا پکاریں ہم سوائے اللہ کے ان کو جو نہ نفع دے سکیں ہمیں اورنہ نقصان پہنچا سکیں ہمیں اور پھیر دیے جا ئیں ہم اپنی ایڑیوں پر(الٹے پاؤں ) بعد اس کے کہ ہدایت دی ہمیں اللہ نے، مانند اس شخص کے جسے بہکادیا شیطانوں نے زمین میں ، حیران (پھرتا) ہے ، اس کے کچھ ساتھی ہیں جو بلاتے ہیں اسے سیدھی راہ کی طرف کہ آجا ہمارے پاس، کہہ دیجیے! یقینا ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے اور حکم دیے گئے ہیں ہم کہ مطیع ہو جائیں ہم رب العالمین کے (71)اوریہ کہ قائم کرو نماز اور ڈرو اس (اللہ) سے،اور وہی ہے کہ اس کی طرف اکٹھے کیے جاؤگے تم (72) اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ساتھ حق کے اور جس دن وہ کہے گا ہو جا تو(حشر برپا) ہو جائے گا ۔ اسی کا قول حق ہےاور اسی کی بادشاہی ہوگی جس دن پھونکا جائے گا صور میں ، جاننے والا ہے غیب اور حاضر کااور وہی ہے خوب حکمت والا خبردار (73)
#
{71} {قل} يا أيها الرسولُ للمشركين بالله، الداعين معه غيرَه، الذين يدعونكم إلى دينهم؛ مبيناً وشارحاً لوصف آلهتهم التي يكتفي العاقل بذِكْرِ وصفها عن النهي عنها؛ فإنَّ كلَّ عاقل إذا تصوَّر مذهب المشركين؛ جزم ببطلانِهِ قبل أن تُقام البراهين على ذلك، فقال: {أنَدْعو من دونِ الله ما لا يَنفَعُنا ولا يضرُّنا}؟ وهذا وصفٌ يدخل فيه كلُّ من عُبِدَ من دون الله؛ فإنه لا ينفع ولا يضرُّ، وليس له من الأمر شيء، إن الأمر إلا لله. {ونُرَدُّ على أعقابنا بعد إذ هدانا الله}؛ أي: وننقلب بعد هداية الله لنا إلى الضلال، ومن الرشد إلى الغيِّ، ومن الصراط الموصل إلى جنات النعيم إلى الطرق التي تُفْضي بسالِكِها إلى العذاب الأليم!! فهذه حالٌ لا يرتضيها ذو رشدٍ، وصاحبها {كالذي استهوتْه الشياطينُ في الأرض}؛ أي: أضلَّته وتيَّهته عن طريقه ومنهجه الموصل إلى مقصده، فبقي {حيرانَ له أصحابٌ يدعونَه إلى الهدى}، والشياطين يدعونه إلى الردى، فبقي بين الداعيين حائراً، وهذه حال الناس كلِّهم؛ إلا من عصمه الله تعالى؛ فإنهم يجدون فيهم جواذب ودواعي متعارضة؛ داعي الرسالة والعقل الصحيح والفطرة المستقيمة يدعونَه إلى الهدى والصعود إلى أعلى عليين، ودواعي الشيطان ومن سَلَكَ مسلَكَه والنفس الأمارة بالسوء يدعونه إلى الضلال والنزول إلى أسفل سافلين؛ فمن الناس من يكونُ مع دواعي الهدى في أمورِهِ كلِّها أو أغلبها، ومنهم من بالعكس من ذلك، ومنهم من يتساوى لديه الداعيانِ ويتعارضُ عندَهُ الجاذبانِ، وفي هذا الموضع تعرف أهل السعادة من أهل الشقاوة. وقوله: {قل إن هدى الله هو الهدى}؛ أي: ليس الهدى إلا الطريق التي شرعها الله على لسان رسوله، وما عداه فهو ضلالٌ وردىً وهلاكٌ. {وأُمِرْنا لِنُسْلِمَ لربِّ العالمينَ}: بأنْ ننقادَ لتوحيدِهِ ونستسلمَ لأوامرِهِ ونواهيهِ وندخلَ تحت [رِقٍّ] عبوديَّته؛ فإنَّ هذا أفضل نعمة أنعم الله بها على العباد، وأكمل تربية أوصلها إليهم.
[71] ﴿ قُ٘لْ ﴾ اے رسولe !اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں اور اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو پکارنے والوں سے کہہ دو جو تمھیں اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں وہ دین جو ان کے معبودوں کے وصف کی تشریح کر کے واضح کرتا ہے۔ ایک عقل مند شخص کو ان معبودوں کو چھوڑنے کے لیے ان کے اوصاف کا ذکر ہی کافی ہے کیونکہ ہر عاقل شخص جب مشرکین کے مذہب میں غور و فکر کرتا ہے تو اس کے بطلان پر دلائل و براہین کے قائم ہونے سے پہلے ہی اس کے بطلان کا اسے قطعی یقین ہو جاتا ہے۔ اور وہ پکار اٹھتا ہے ﴿ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا ﴾ ’’کیا ہم اللہ کے سوا، ان ہستیوں کو پکاریں جو ہمیں نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان۔‘‘ اس وصف میں ہر وہ ہستی داخل ہے جس کی اللہ کے سوا بندگی کی جاتی ہے کیونکہ وہ نفع دے سکتی ہے نہ نقصان۔ اسے کسی معاملے کا کوئی اختیار نہیں ، تمام معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہے۔ ﴿ وَنُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰؔىنَا اللّٰهُ ﴾ ’’اور کیا پھر جائیں ہم الٹے پاؤں ، اس کے بعد کہ اللہ سیدھی راہ دکھا چکا ہم کو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت سے نوازے جانے کے بعد کیا ضلالت کی طرف پلٹ جائیں ، رشد کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف لوٹ جائیں ، نعمتوں بھری جنت کے راستے کو چھوڑ کر ان راستوں پر چل نکلیں جو اپنے سالک کو عذاب الیم کی منزل پر پہنچا دیتے ہیں ؟ رشد و ہدایت رکھنے والا شخص اس حال پر کبھی راضی نہیں رہ سکتا۔ ایسی حالت والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے ﴿ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ ﴾ جسے شیاطین نے بیابان میں اس کے راستے سے بھٹکا دیا ہو جو اس کی منزل کو جاتا تھا ﴿ حَیْرَانَ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰؔبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ﴾ ’’وہ حیران ہے، اس کے ساتھی اسے راستے کی طرف بلاتے ہیں ‘‘ اور شیاطین اسے ہلاکت کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ وہ دونوں پکارنے والوں کے درمیان حیران و سرگرداں ہے۔ تمام لوگوں کا یہی حال ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے، اس لیے کہ لوگ اپنے اندر کشش رکھنے والے امور اور متعارض داعیے رکھتے ہیں ۔ رسالت، عقل صحیح اور فطرت سلیم کے دواعی ﴿ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ﴾ ’’اس کو صحیح راستے کی طرف بلاتے ہیں ۔‘‘ اور اعلیٰ علیین کی بلندیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور شیطان کے داعیے اور وہ لوگ جو اس کی راہ پر گامزن ہیں اور نفس امارہ اسے گمراہی اور اسفل سافلین کی پستیوں میں گر جانے کی دعوت دیتے ہیں ۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے تمام امور میں یا اکثر امور میں ہدایت کے دواعی کے ساتھ چلتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن میں دونوں قسم کے داعیے مساوی ہوتے ہیں ، اس وقت دو جاذب امور باہم متعارض ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اہل سعادت اور اہل شقاوت کی پہچان ہوتی ہے۔ ﴿ قُ٘لْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰؔى ﴾ ’’اللہ نے جو راہ بتلائی ہے، وہی سیدھی راہ ہے‘‘ یعنی اس راستے کے سوا کوئی راستہ ہدایت کا راستہ نہیں ، جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کی زبان پر مشروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر راستے گمراہی، موت اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ﴿وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے تابع رہیں ‘‘ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانیں اس کے اوامرونواہی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور اس کی عبودیت کے تحت داخل ہو جائیں کیونکہ یہ بندوں پر سب سے بڑی نعمت اور اس کی سب سے کامل ربوبیت ہے جو اس نے اپنے بندوں تک پہنچائی ہے۔
#
{72} {وأن أقيموا الصلاة}؛ أي: وأُمِرْنا أن نقيمَ الصلاة بأركانها وشروطها وسننها ومكمِّلاتها، {واتَّقوه}: بفعل ما أمر به واجتناب ما عنه نهى. {وهو الذي إليه تُحشرون}؛ أي: تجمعون ليوم القيامة، فيجازيكم بأعمالكم خيرها وشرها.
[72] ﴿ وَاَنْ اَ٘قِیْمُوا الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’اور یہ کہ نماز پڑھتے رہو۔‘‘ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز کو اس کے تمام ارکان، شرائط، سنن اور اس کی تکمیل کرنے والے تمام امور کے ساتھ قائم کریں ﴿ وَاتَّقُوْهُ ﴾ ’’اور اس سے ڈرتے رہو۔‘‘ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اسے بجا لا کر اور جس چیز سے روکا ہے اس سے اجتناب کر کے تقویٰ کا التزام کرو ﴿ وَهُوَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ﴾ ’’اور وہی تو ہے جس کے پاس تم جمع کیے جاؤگے۔‘‘ یعنی قیامت کے روز تم اس کے پاس جمع ہو جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے اچھے اور برے اعمال کی جزا دے گا۔
#
{73} {وهو الذي خلق السموات والأرض بالحقِّ}: ليأمرَ العباد وينهاهم ويثيبَهم ويعاقِبَهم، {ويومَ يقولُ كُن فيكونُ قولُهُ الحقُّ}: الذي لا مِرْيَةَ فيه ولا مثنوية ولا يقولُ شيئاً عبثاً. {وله الملك يوم يُنفخ في الصور}؛ أي: يوم القيامة خصَّه بالذِّكر مع أنه مالك كل شيء؛ لأنه تنقطع فيه الأملاك، فلا يبقى مَلِكٌ إلا الله الواحد القهار. {عالم الغيب والشهادة وهو الحكيم الخبير}: الذي له الحكمة التامة، والنعمة السابغة، والإحسان العظيم، والعلم المحيط بالسرائر والبواطن والخفايا، لا إله إلا هو، ولا ربَّ سواه.
[73] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’وہی ذات ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ‘‘ تاکہ وہ بندوں کو حکم دے اور بعض چیزوں سے روکے پھر اس پر انھیں ثواب و عقاب دے ﴿ وَیَوْمَ یَقُوْلُ كُ٘نْ فَیَكُوْنُ١ؕ۬ قَوْلُهُ الْحَقُّ ﴾ ’’اور جس دن کہے گا کہ ہو جا تو وہ ہو جائے گا، اس کا ارشاد برحق ہے۔‘‘ جس میں کوئی شک ہے نہ کوئی ایچ پیچ اور نہ اللہ تعالیٰ کوئی عبث بات کہتا ہے ﴿وَلَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَ٘خُ فِی الصُّوْرِ ﴾ ’’اور اسی کی بادشاہی ہے جس دن پھونکا جائے گا صور‘‘ یعنی قیامت کے روز۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قیامت کے دن کا ذکر اس لیے کیا ہے، حالانکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے کیونکہ قیامت کے دن تمام ملکیتیں ختم ہو جائیں گی اور اللہ واحد و قہار کی ملکیت باقی رہ جائے گی۔ ﴿عٰؔلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ١ؕ وَهُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ ﴾ ’’وہ جاننے والا ہے چھپی اور کھلی باتوں کا اور وہی حکمت والا، خبردار ہے‘‘ جو حکمت تام، نعمت کامل اور احسان عظیم کا مالک ہے، اس کا علم اسرار نہاں ، باطنی راز اور چھپے ہوئے امور کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کے سوا کوئی معبود اور کوئی رب نہیں ۔
آیت: 74 - 83 #
{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (74) وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) [فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ] (83)}
اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے! کیا ٹھہراتے ہو تم بتوں کو معبود؟ بلاشبہ میں دیکھتا ہوں تم کو اور تمھاری قوم کو گمراہی ظاہر میں (74) اور اسی طرح دکھاتے تھے ہم ابراہیم کو بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور تاکہ ہو جائے وہ یقین کرنے والوں سے(75) پس جب چھا گئی اس پر رات تو دیکھا اس نے ایک تارا، ابراہیم نے کہا، یہ میرا رب ہے، پس جب غروب ہوگیا وہ تو کہا ، نہیں محبت کرتا میں غروب ہونے والوں سے (76) پس جب دیکھا اس نے چاند چمکتا ہوا تو کہا،یہی میرارب ہے، پھر جب غروب ہو گیاوہ تو کہا، اگر نہ ہدایت دی مجھے میرے رب نے تو ہو جاؤں گا میں گمراہ قوم سے(77) پھر جب (ابراہیم نے) دیکھا سورج جگمگاتاہوا تو کہا، یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہا اس نے، اے میری قوم! یقینا میں بیزار ہوں ان سے، جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو(78)تحقیق میں نے متوجہ کیا اپنا چہرہ اس کے لیے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو، اللہ ہی کاپرستار ہو کر اور نہیں ہوں میں مشرکین سے(79)اور جھگڑا کیااس سے اس کی قوم نے تو کہا ابراہیم نے، کیا جھگڑتے ہو تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حالانکہ اسی نے ہدایت دی مجھے؟ اور نہیں ڈرتا میں ان سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو اس کا مگر یہ کہ چاہے میرا رب کچھ، گھیر لیا ہے میرے رب نے ہر چیز کو( اپنے) علم سے، کیا پس نہیں نصیحت حاصل کرتے تم؟(80) اور کیونکر ڈروں میں ان سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو جبکہ تم نہیں ڈرتے اس بات سے کہ تم شریک ٹھہراتے ہو اللہ کا ان کو، جن کی نہیں نازل کی اس نے تم پر کوئی دلیل؟ پس کونسا دونوں فریقوں میں سے زیادہ حق دار ہے امن کا (بتاؤ) اگر ہو تم جانتے؟(81)جولوگ ایمان لائےاور نہیں خلط ملط کیا انھوں نے اپنے ایمان کو ساتھ ظلم(شرک)کے، یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے ہی امن ہےاور وہی ہدایت یافتہ ہیں (82)اور یہ ہے ہماری دلیل کہ دی تھی ہم نے یہ ابراہیم کو، مقابلے میں اس کی قوم کے، بلند کرتے ہیں ہم درجے جس کے چاہتے ہیں ، یقینا آپ کا رب ہے حکمت والاجاننے والے (83)
#
{74} يقول تعالى: واذكُرْ قصة إبراهيم عليه الصلاة والسلام مثنياً عليه ومعظماً في حال دعوته إلى التوحيد ونهيه عن الشرك. {إذ قال إبراهيمُ لأبيه آزَرَ أتتَّخِذُ أصناماً آلهةً}؛ أي: لا تنفع ولا تضرُّ، وليس لها من الأمر شيء، {إني أراك وقومَكَ في ضلال مبينٍ}: حيث عبدتُم مَن لا يستحقُّ من العبادة شيئاً، وتركتُم عبادةَ خاِلقِكُم ورازِقِكم ومدبِّرِكم.
[74] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیمu کے قصے کو یاد کیجیے، ان کی دعوت توحید اور شرک سے ممانعت کے احوال میں ان کی تعریف و ثنا اور تعظیم کیجیے ﴿وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّؔخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً ﴾ ’’جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا، کیا تو بتوں کو معبود مانتا ہے؟‘‘ جو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، جو کسی اختیار کے مالک نہیں ﴿اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِیْ ضَلٰ٘لٍ مُّبِیْنٍ ﴾ ’’میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں ‘‘ کیونکہ تم ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو عبادت کی مستحق نہیں اور اپنے خالق، رازق اور تدبیر کرنے والے کی عبادت کو چھوڑ دیتے ہو۔
#
{75} {وكذلك}: حين وفَّقناه للتوحيد والدعوة إليه، {نُري إبراهيمَ ملكوتَ السمواتِ والأرضِ}؛ أي: ليرى ببصيرتِهِ ما اشتملتْ عليه من الأدلة القاطعة والبراهين الساطعة، {وَلِيَكونَ من الموقنينَ}: فإنه بحسب قيام الأدلَّة يحصُلُ له الإيقان والعلم التامُّ بجميع المطالب.
[75] ﴿ وَؔكَذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح‘‘ جب ہم نے ابراہیمu کو توحید اور اس کی طرف دعوت کی توفیق عطا کی ﴿ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’ہم دکھانے لگے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات‘‘ تاکہ وہ چشم بصیرت سے ان قطعی دلائل اور روشن براہین کو ملاحظہ کرلے جن پر زمین اور آسمان کی بادشاہی مشتمل ہے ﴿ وَلِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ﴾ ’’اور تاکہ وہ صاحب ایقان ہو‘‘ کیونکہ تمام مطالب میں دلائل کے قیام کے مطابق ایقان اور علم کامل حاصل ہوتا ہے۔
#
{76} {فلما جَنَّ عليه الليلُ}؛ أي: أظلم، {رأى كوكباً}: لعله من الكواكب المضيئة؛ لأنَّ تخصيصَه بالذكر يدلُّ على زيادتِهِ عن غيره، ولهذا ـ والله أعلم ـ قال من قال: إنه الزُّهرة، {قال هذا ربي}؛ أي: على وجه التنزُّل مع الخصم؛ أي: هذا ربي؛ فهلمَّ ننظرْ: هل يستحقُّ الربوبيَّة؟ وهل يقوم لنا دليلٌ على ذلك؟ فإنه لا ينبغي لعاقل أن يتَّخذ إلهه هواه بغير حُجَّة ولا برهان، {فلمَّا أفَلَ}؛ أي: غاب ذلك الكوكب، {قال لا أحبُّ الآفلينَ}؛ أي: الذي يغيبُ ويختفي عمَّن عبده؛ فإنَّ المعبود لا بدَّ أن يكون قائماً بمصالح مَن عَبَدَهُ ومدبِّراً له في جميع شؤونه، فأما الذي يَمضي وقتٌ كثيرٌ وهو غائبٌ؛ فمن أين يستحقُّ العبادة، وهل اتِّخاذُهُ إلهاَ إلاَّ من أسفه السَّفه وأبطل الباطل؟!
[76] ﴿ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ ﴾ ’’جب رات نے ان کو ڈھانپ لیا۔‘‘ یعنی جب رات تاریک ہو گئی ﴿ رَاٰ كَوْؔكَبًا ﴾ ’’اس نے ایک ستارہ دیکھا‘‘ شاید یہ ستارہ زیادہ روشن ستارہ ہو گا کیونکہ اس کے تذکرے کی تخصیص دلالت کرتی ہے کہ اس کی روشنی دوسروں سے زیادہ تھی۔ بنابریں بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ﴿قَالَ هٰؔذَا رَبِّیْ ﴾ ’’کہنے لگے یہ میرا رب ہے۔‘‘ یعنی انھوں نے دلیل کی خاطر مدمقابل کے مقام پر اترتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میرا رب ہے‘‘ آؤ ہم دیکھیں کہ کیا یہ ربوبیت کا مستحق ہے؟ کیا ہمارے سامنے کوئی ایسی دلیل قائم ہوتی ہے جو اس کے رب ہونے کو ثابت کرتی ہو؟ کیونکہ کسی عقل مند کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ بغیر کسی حجت و برہان کے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لے۔ ﴿ فَلَمَّاۤ اَفَلَ ﴾ یعنی جب یہ ستارہ غائب ہو گیا ﴿ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْ٘نَ ﴾ ’’تو کہا، میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی جو غائب ہو کر عبادت کرنے والے سے اوجھل ہو جائے۔ کیونکہ معبود کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس شخص کے مصالح کا انتظام اور اس کے تمام معاملات کی تدبیر کرے جو اس کی عبادت کرتا ہے۔ رہی وہ ہستی جو اکثر اوقات غیر موجود اور غائب ہوتی ہے تو عبادت کی کیوں کر مستحق ہو سکتی ہے؟ کیا ایسی ہستی کو معبود بنانا سب سے بڑی بے وقوفی اور سب سے بڑا باطل نہیں ؟
#
{77} {فلما رأى القمر بازغاً}؛ أي: طالعاً، ورأى زيادَتَه على نور الكواكب ومخالفته لها، {قال هذا ربِّي}: تنزُّلاً، {فلمَّا أفَلَ قال لَئِن لَمْ يَهْدِني ربِّي لأكوننَّ من القوم الضالين}: فافتقر غاية الافتقار إلى هداية ربِّه، وعلم أنه إن لم يهدِهِ الله؛ فلا هاديَ له، وإن لم يُعِنْه على طاعته؛ فلا معين له.
[77] ﴿ فَلَمَّا رَاَ الْ٘قَ٘مَرَ بَ٘ازِغًا ﴾ ’’پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے۔‘‘ یعنی جب انھوں نے چاند کو طلوع ہوتے دیکھا اور یہ مشاہدہ بھی کیا کہ اس کی روشنی ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے اور یہ ان کے مخالف بھی ہے ﴿ قَالَ هٰؔذَا رَبِّیْ ﴾ ’’کہا، یہ میرا رب ہے‘‘ یعنی دلیل کی خاطر مخالفین کے مقام پر اتر کر کہا ﴿ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْ٘نَ ﴾ ’’جب وہ غائب ہو گیا، بولے، اگر نہ ہدایت کرے گا مجھ کو میرا رب تو بے شک رہوں گا میں گمراہ لوگوں میں ‘‘ ابراہیمu اپنے رب کی راہنمائی کے بے حد محتاج تھے اور انھیں علم تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو راہ راست نہ دکھائے تو کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ اگر اپنی اطاعت پر وہ ان کی اعانت نہ کرے تو کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔
#
{78} {فلما رأى الشمس بازغةً قال هذا ربِّي هذا أكبرُ}: من الكوكب ومن القمر، {فلما أفلتْ}: تقرَّر حينئذٍ الهُدى، واضمحل الرَّدى فـ {قال يا قوم إني بريءٌ مما تشركونَ}: حيث قام البرهانُ الصادق الواضح على بطلانِهِ.
[78] ﴿ فَلَمَّا رَاَ الشَّ٘مْسَ بَ٘ازِغَةً قَالَ هٰؔذَا رَبِّیْ هٰؔذَاۤ اَكْبَرُ ﴾ ’’پس جب سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا تو کہا، یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے‘‘ یہ تمام (ستاروں اور چاند سے) بڑا ہے‘‘ ﴿ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ ﴾ ’’جب وہ غروب ہوگیا۔‘‘ یعنی جب سورج بھی غروب ہو گیا تو ہدایت متحقق ہو گئی اور ہلاکت مضمحل ہو گئی ﴿ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُ٘شْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’’(تو) کہا، اے میری قوم! بے شک میں بیزار ہوں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو‘‘ کیونکہ اس کے بطلان پر سچی اور واضح دلیل قائم ہو چکی ہے۔
#
{79} {إني وجهتُ وجهيَ للذي فطر السمواتِ والأرضَ حنيفاً}؛ أي: لله وحده، مقبلاً عليه، معرضاً عن من سواه، {وما أَنَا من المشركين}: فتبرَّأ من الشرك، وأذعن بالتوحيد، وأقام على ذلك البرهان. وهذا الذي ذكرنا في تفسير هذه الآيات هو الصواب، وهو أنَّ المقامَ مقامُ مناظرةٍ من إبراهيم لقومِهِ وبيانُ بطلان إلهيَّة هذه الأجرام العلويَّة وغيرها، وأما من قال: إنه مقامُ نظرٍ في حال طفوليَّته؛ فليس عليه دليلٌ.
[79] ﴿ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا ﴾ ’’میں نے متوجہ کر لیا اپنے چہرے کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر‘‘ یعنی صرف الٰہ واحد کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو کر اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر ﴿ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْ٘مُشْرِكِیْنَ ﴾ ’’اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والا‘‘ پس یوں ابراہیمu نے شرک سے براء ت کا اظہار کیا اور توحید کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور توحید پر دلیل قائم کی۔۔۔ یہ ہے ان آیات کریمہ کی تفسیر جو ہم نے بیان کی ہے۔ اور یہی صواب ہے۔ نیز یہ کہ یہ مقام جناب ابراہیم کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد ان اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا۔ رہا ان لوگوں کا موقف کہ یہ جناب ابراہیم کے ایام طفولیت میں غور و فکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں ۔
#
{80} {وحاجَّه قومُه قال أتُحاجُّونِّي في الله وقد هدانِ}: أيُّ فائدةٍ لمحاجَّة من لم يتبيَّنْ له الهدى؟ فأما من هداه الله ووصلَ إلى أعلى درجات اليقين؛ فإنه هو بنفسه يدعو الناس إلى ما هو عليه. {ولا أخافُ ما تشرِكونَ به}: فإنَّها لن تضرَّني ولن تمنعَ عني من النفع شيئاً، {إلَّا أن يشاء ربِّي شيئاً وَسِعَ ربِّي كلَّ شيءٍ علماً أفلا تتذكَّرونَ}: فتعلمون أنه وحدَه المعبودُ المستحقُّ للعبودية.
[80] ﴿ وَحَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰؔىنِ ﴾ ’’اور اس سے جھگڑا کیا اس کی قوم نے، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور وہ مجھ کو سمجھا چکا‘‘ یعنی اس شخص کے ساتھ جھگڑنے کا کون سا فائدہ ہے جس کے سامنے ہدایت واضح نہیں ہوئی رہا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز دیا ہے اور وہ یقین کے بلند ترین مقام پر فائز ہے تو وہ خود لوگوں کو اس راستے کی طرف بلاتا ہے جس پر وہ خود گامزن ہے۔ ﴿وَلَاۤ اَخَافُ مَا تُ٘شْ٘رِكُوْنَ بِهٖۤ ﴾ ’’اور میں نہیں ڈرتا ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو اس کے ساتھ‘‘ کیونکہ یہ جھوٹے خدا مجھے کوئی نقصان نہیں دے سکتے، نہ مجھے کسی نفع سے محروم کر سکتے ہیں ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَؔ رَبِّیْ شَیْـًٔـا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُ٘لَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’مگر یہ کہ چاہے اللہ، میرا رب۔ احاطہ کر لیا ہے میرے رب کے علم نے سب چیزوں کا، کیا تم نہیں نصیحت پکڑتے؟‘‘ پس تم جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود ہے جو کہ عبودیت کا مستحق ہے۔
#
{81} {وكيف أخاف ما أشركتم}: وحالُها حالُ العجز وعدم النفع، {ولا تخافونَ أنَّكم أشركتُم بالله ما لم ينزِّلْ به عليكم سلطاناً}؛ أي: إلا بمجرَّد اتِّباع الهوى؟! {فأيُّ الفريقين أحقُّ بالأمن إن كنتُم تعلمونَ}؟!
[81] ﴿ وَؔكَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَؔكْتُمْ ﴾ ’’اور میں کیوں کر ڈروں ان سے جن کو تم شریک کرتے ہو‘‘ درانحالیکہ یہ معبودان باطل عاجز محض اور کسی قسم کا فائدہ پہنچانے سے محروم ہیں ﴿ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّـكُمْ اَشْ٘رَؔكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْؔطٰنًا ﴾ ’’اور تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم اللہ کا ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراتے ہو جس پر اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری‘‘ یعنی سوائے خواہش نفس کی پیروی کے اس پر کوئی دلیل نہیں ﴿فَاَیُّ الْ٘فَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’پس کون سا گروہ امن کا زیادہ مستحق ہے اگر تم جانتے ہو؟‘‘
#
{82} قال الله تعالى فاصلاً بين الفريقين: {الذين آمنوا ولم يلبِسوا}؛ أي: يخلُطوا {إيمانَهم بظُلْم أولئك لهمُ الأمنُ وهم مهتدونَ}: الأمنُ من المخاوف والعذاب والشقاء، والهداية إلى الصراط المستقيم؛ فإن كانوا لم يلبِسوا إيمانَهم بظلم مطلقاً لا بشركٍ ولا بمعاصٍ؛ حصل لهم الأمنُ التامُّ والهداية التامَّة، وإن كانوا لم يلبِسوا إيمانَهم بالشرك وحده، ولكنَّهم يعملون السيئاتِ؛ حصل لهم أصلُ الهداية وأصل الأمنِ، وإن لم يحصل لهم كمالها. ومفهوم الآية الكريمة: أنَّ الذين لم يحصُل لهم الأمران؛ لم يحصُل لهم هدايةٌ ولا أمنٌ، بل حظُّهم الضلالُ والشقاءُ.
[82] اللہ تبارک و تعالیٰ فریقین کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْ٘بِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ﴾ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور نہیں ملایا انھوں نے اپنے ایمان میں ظلم‘‘ یعنی ایمان کو شرک کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں ‘‘ وہ ہر قسم کے خوف سے مامون ہوں گے، عذاب اور شقاوت وغیرہ میں سے کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور سیدھے راستے کی طرف راہنمائی سے نوازے جائیں گے۔ اگر انھوں نے اپنے ایمان کو کسی قسم کے ظلم سے ملوث نہ کیا ہو گا یعنی انھوں نے شرک کیا ہو گا نہ گناہ۔ تو انھیں امن کامل اور ہدایت تام نصیب ہو گی اور اگر انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے تو پاک رکھا مگر وہ برے اعمال کا ارتکاب کرتے رہے تو انھیں اگرچہ کامل امن اور کامل ہدایت تو حاصل نہ ہو گی تاہم انھیں اصل ہدایت اور امن حاصل ہوں گے۔ آیت کریمہ کا مخالف مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں یہ دو امور حاصل نہیں وہ ہدایت اور امن سے محروم رہیں گے بلکہ ان کے نصیب میں بدبختی اور گمراہی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔
#
{83} ولما حكم لإبراهيم عليه السلام بما بيَّن به من البراهين القاطعة قال: {وتلكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إبراهيمَ على قومِهِ}؛ أي: علا بها عليهم وفلجهم بها. {نرفعُ درجاتٍ من نشاءُ}: كما رفعنا درجاتِ إبراهيم عليه السلام في الدنيا والآخرة؛ فإنَّ العلم يرفعُ اللهُ به صاحِبَه فوق العباد درجاتٍ، خصوصاً العالم العامل المعلِّم؛ فإنه يجعلُه الله إماماً للناس بحسب حاله، تُرمق أفعالُهُ، وتُقتفى آثارُه، ويُستضاء بنوره، ويُمشى بعلمه في ظلمة ديجوره؛ قال تعالى: {يرفع اللهُ الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات}. {إنَّ ربَّك حكيمٌ عليمٌ}: فلا يضعُ العلم والحكمةَ إلاَّ في المحلِّ اللائق بها، وهو أعلم بذلك المحلِّ، وبما ينبغي له.
[83] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قطعی دلائل و براہین بیان کر کے جناب ابراہیم کے حق میں فیصلہ کر دیا تو فرمایا ﴿ وَتِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ﴾ ’’اور یہ ہے ہماری دلیل، کہ دی تھی ہم نے ابراہیمu کو، اس کی قوم کے مقابلے میں ‘‘ یعنی ان دلائل و براہین کی مدد سے ابراہیمu نے ان کو نیچا دکھایا اور ان پر غالب آئے۔ ﴿ نَرْفَ٘عُ دَرَجٰؔتٍ مَّنْ نَّؔشَآءُ ﴾ ’’ہم جس کے چاہتے ہیں ، درجے بلند کرتے ہیں ‘‘ جس طرح ہم نے حضرت ابراہیم کے دنیا و آخرت میں درجات بلند فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے سے صاحب علم کو دوسرے بندوں پر فوقیت عطا کرتا ہے.... خاص طور پر وہ عالم جو صاحب عمل بھی ہے اور معلم بھی۔ پس اللہ تعالیٰ اس کے حسب حال اسے لوگوں کا امام بنا دیتا ہے۔ اس کے افعال کو دیکھا جاتا ہے، اس کے آثار کی پیروی کی جاتی ہے، اس کے نور سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور اس کے علم کی مدد سے تیرہ و تار تاریکیوں میں رواں دواں رہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ یَرْفَ٘عِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ۙ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰؔتٍ﴾ (المجادلۃ: 58؍11) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا، اللہ ان کے درجات بلند کرتا ہے۔‘‘﴿اِنَّ رَبَّ٘كَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’بے شک تمھارا رب دانا، علم والا ہے۔‘‘ اس لیے وہ علم و حکمت کو ان کے شایان شان مقام پر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس مقام کو اور جو کچھ اس کے لیے مناسب ہے خوب جانتا ہے۔
آیت: 84 - 90 #
{وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (84) وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ (85) وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ (86) وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (87) ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (88) أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ (89) أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ (90)}.
اور عطا کیے ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب، سب کو ہدایت دی ہم نےاور نوح کو ہدایت دی ہم نے پہلے اس سے،اور اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کواور اسی طرح جزاء دیتے ہیں ہم احسان کرنے والوں کو(84)اور (ہدایت دی) زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو، سب صالحین میں سے تھے (85)اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو (بھی)اور (ان) سب کو فضیلت دی ہم نے اوپر جہانوں کے(86)اور کچھ کو ان کے آباؤ اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے او ر چن لیا ہم نے انھیں اور ہدایت دی ہم نے انھیں طرف صراط مستقیم کی(87) یہ ہے ہدایت اللہ کی، ہدایت دیتا ہے اس کی جسے چاہتا ہے وہ اپنے بندوں میں سے،اور اگر شرک کرتے وہ لوگ توبرباد ہوجاتے ان سے جو کچھ کہ تھے وہ کرتے(88) یہ وہ لوگ ہیں کہ دی ہم نے انھیں کتاب اور حکم اور نبوت، پس اگر کفر کریں ساتھ ان(باتوں ) کے یہ لوگ تو تحقیق مقرر کر دی ہم نے ان باتوں کے لیے ایسی قوم کہ نہیں ہے وہ ان کا انکار کرنے والی(89)یہ لوگ ہیں جنھیں ہدایت دی اللہ نے، سو ان کے طریقے کی اقتداء کریں آپ کہہ دیجیے! نہیں مانگتا میں تم سے اس پر کوئی اجر، نہیں ہے یہ مگر نصیحت جہانوں کے لیے(90)
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندے اور خلیل ابراہیمu کا اور اپنے اس احسان کا ذکر کیا کہ اللہ نے ان کو علم، دعوت اور صبر سے نوازا تو اب ذکر فرما رہا ہے کہ صالح اور پاک نسل کے ذریعے سے بھی اللہ نے ان کو بڑی تکریم بخشی۔ اللہ نے مخلوق میں سے منتخب اور چنے ہوئے لوگ حضرت ابراہیمu کی نسل میں سے بنائے اور یہ اتنی بڑی منقبت اور اتنی زیادہ عزت افزائی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
#
{84} {ووهبنا له إسحاقَ ويعقوبَ}: ابنه الذي هو إسرائيلُ أبو الشعب الذي فضَّله الله على العالمين، {كُلًّا} منهما هَدَيْناهُ الصراطَ المستقيم في علمه وعمله، و {نوحاً} هديناهُ {من قبلُ}، وهدايته من أعلى أنواع الهدايات الخاصة التي لم تحصَلْ إلا لأفرادٍ من العالم، وهم أولو العزم من الرسل، الذي هو أحدهم، {ومن ذُرِّيَّتِهِ} ـ: يُحتمل أنَّ الضمير عائدٌ إلى نوح؛ لأنه أقرب مذكور، ولأن الله ذكر مع مَن ذَكَرَ لوطاً، وهو من ذُرِّيَّةِ نوح لا من ذُرِّيَّة إبراهيم؛ لأنه ابن أخيه، ويحتمل أن الضمير يعود إلى إبراهيم؛ لأنَّ السياق في مدحه والثناء عليه، ولوطٌ وإن لم يكن من ذُرِّيَّتِهِ؛ فإنه ممَّن آمن على يده، فكان منقبةُ الخليل وفضيلتُه بذلك أبلغَ من كونه مجردَ ابن له. ـ {داودَ وسليمانَ} ابنَ داود {وأيوبَ ويوسفَ} ابن يعقوبَ {وموسى وهارون} ابني عِمْران. {وكذلك}: كما أصلحنا ذُرِّيَّة إبراهيم الخليل لأنَّه أحسن في عبادة ربِّه وأحسن في نفع الخلق، كذلك {نَجْزي المحسنين}: بأن نجعلَ لهم من الثناء الصدق والذُّرِّيَّة الصالحة بحسب إحسانهم.
[84] ﴿ وَوَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ ﴾ ’’اور ہم نے عطا کیے اسے اسحاق اور یعقوب‘‘ یعقوب یعنی اسحاقu کے فرزند جن کو اسرائیل کہا جاتا ہے۔ ایک بڑے گروہ کے باپ جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی۔ ﴿ كُلًّا ﴾ ’’سب کو‘‘ یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک کو ﴿ هَدَیْنَا ﴾ ’’ہم نے ہدایت دی۔‘‘ یعنی علم و عمل میں راہ راست دکھائی ﴿وَنُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ ﴾ ’’اس سے قبل ہم نے نوح کو ہدایت سے نوازا‘‘ یہ ہدایت اعلیٰ ترین انواع میں سے تھی جو دنیا کے صرف معدودے چند افراد کو حاصل ہوئی ہے اور وہ اولو العزم رسول تھے۔ نوحu ان میں سے ایک تھے۔ ﴿ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهٖ﴾ ’’اور ان کی نسل میں سے‘‘ اس میں احتمال ہے کہ ضمیر نوح (u) کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ یہ قریب ترین مرجع ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتھ ہی حضرت لوط کا ذکر کیا جو کہ نوح کی ذریت سے ہیں ، حضرت ابراہیم کی ذریت سے نہیں کیونکہ حضرت لوطu حضرت ابراہیمu کے بھتیجے تھے۔۔۔ نیز اس بات کا احتمال بھی ہے کہ ضمیر حضرت ابراہیمu کی طرف لوٹتی ہو کیونکہ سیاق کلام ابراہیمu کی مدح و ثنا میں ہے اور لوطu اگرچہ حضرت ابراہیمu کی ذریت میں سے نہیں ہیں تاہم یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو جناب خلیلu کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے۔ حضرت لوط کا حضرت ابراہیم پر ایمان لانا مجرد ان کا بیٹا ہونے سے زیادہ ان کے لیے منقبت اور فضیلت کا حامل ہے۔ ﴿ دَاوٗدَ وَسُلَ٘یْمٰنَ ﴾ ’’داود اور سلیمان‘‘ یعنی سلیمان بن داؤدi ﴿ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ ﴾ ’’ایوب اور یوسف‘‘ یعنی ایوب اور یوسف بن یعقوبo ﴿وَمُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ ﴾ ’’موسیٰ اور ہارون‘‘ یعنی عمران کے بیٹے ﴿ وَؔكَذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح‘‘ یعنی جس طرح ہم نے ابراہیم خلیل اللہu کی ذریت کو صالح بنایا کیونکہ ابراہیمu نے اپنے رب کی بندگی کو بہترین طریقے سے ادا کیا اور اللہ کی مخلوق کو بہترین طریقے سے فائدہ پہنچایا ﴿ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ﴾ ’’ہم بدلہ دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو‘‘ نیکوکار لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ہم انھیں ان کی نیکیوں کے مطابق سچی مدح و ثنا اور صالح اولاد سے نوازتے ہیں ۔
#
{85} {وزكريا ويحيى}: ابنه، {وعيسى} ابن مريم، {وإلياس كلٌّ}: من هؤلاء {من الصالحين}: في أخلاقهم وأعمالهم وعلومهم، بل هم سادةُ الصالحين وقادتِهم وأئمتهم.
[85] ﴿ وَزَكَرِیَّا وَیَحْیٰى ﴾ ’’زکریا اور یحییٰ‘‘ یعنی یحییٰ حضرت زکریا کے فرزند ﴿ وَعِیْسٰؔى ﴾ یعنی عیسیٰ بن مریمi ﴿ وَاِلْیَاسَ١ؕ كُ٘لٌّ٘ ﴾ ’’اور الیاس کو بھی یہ سب‘‘ یعنی یہ تمام لوگ ﴿ مِّنَ الصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ ’’نیکوکار تھے۔‘‘ یعنی اپنے اخلاق، اعمال اور علوم میں صالح لوگ تھے بلکہ صلحا کے سردار، قائد اور ان کے امام تھے۔
#
{86} {وإسماعيل} ابن إبراهيم، أبو الشعب الذي هو أفضل الشعوب، وهو الشعب العربي، ووالد سيد ولد آدم محمد - صلى الله عليه وسلم -، {ويونُس} ابن متى، {ولوطاً} ابن هارون أخي إبراهيم، {وكلًّا}: من هؤلاء الأنبياء والمرسلين {فضَّلْنا على العالمين}: لأن درجات الفضائل أربع، وهي التي ذكرها الله بقوله: {ومَن يُطِع اللهَ والرَّسولَ فأولئكَ مع الذين أنعمَ اللهُ عليهم من النبيِّين والصدِّيقين والشهداء والصالحين}: فهؤلاء من الدرجة العليا، بل هم أفضل الرسل على الإطلاق، فالرسل الذين قصَّهم الله في كتابه أفضلُ ممَّن لم يَقْصُصْ علينا نبأهم بلا شك.
[86] ﴿ وَاِسْمٰعِیْلَ ﴾ یعنی حضرت ابراہیمu کے بیٹے جو نسل انسانی کے ایک بڑے گروہ کے جد امجد تھے، یعنی گروہ عرب کے باپ اور اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیe کے جد امجد۔ ﴿و َیُوْنُ٘سَ ﴾ یعنی یونس بن متیu ﴿ وَلُوْطًا ﴾ یعنی ابراہیمu کے بھائی ہاران کے بیٹے ﴿وَؔكُلًّا ﴾ یعنی ان تمام انبیا و مرسلین کو ﴿ فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ’’ہم نے جہانوں پر فضیلت دی‘‘ کیونکہ فضیلت کے چار درجے ہیں جن کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کیا ہے ﴿ وَمَنْ یُّ٘طِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّؔیْقِیْنَ۠ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰؔلِحِیْنَ ﴾ (النساء: 4؍69) ’’جو اللہ اور رسولe کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیا، صدیق، شہداء اور صلحا‘‘ اور یہ مذکور انبیائے کرام علیہم السلام بہت بلند درجے پر فائز ہیں بلکہ علی الاطلاق تمام رسولوں سے افضل ہیں ۔ پس وہ تمام انبیا و مرسلین جن کا قصہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ بلاشبہ ان نبیوں میں سے افضل ہیں جن کا ذکر نہیں فرمایا۔
#
{87} {ومن آبائهم}؛ أي: آباء هؤلاء المذكورين، {وذُرِّيَّاتهم وإخوانهم}؛ أي: وهدينا من آباء هؤلاء وذُرِّيَّاتهم وإخوانهم، {واجتبيناهم}؛ أي: اخترناهم، {وهديناهُم إلى صراط مستقيم}.
[87] ﴿ وَمِنْ اٰبَآىِٕهِمْ ﴾ یعنی ان انبیائے مذکورین کے آبا ؤاجداد میں سے ﴿ وَذُرِّیّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ﴾ ’’ان کی اولاد اور بھائیوں میں سے‘‘ یعنی ہم نے ان کے آبا ؤ اجداد ، ان کی ذریت اور ان کے بھائی بند لوگوں کو ہدایت سے نوازا ﴿ وَاجْتَبَیْنٰهُم ﴾ ’’ہم نے ان کو چن لیا‘‘ ﴿ ْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’اور ان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی۔‘‘ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی یہ ہدایت مذکورہ ﴿ هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی ہدایت ہے‘‘ جس کی ہدایت کے سوا کوئی ہدایت نہیں ﴿یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ﴾ ’’وہ ہدایت دیتا ہے اس کی جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے‘‘ پس اسی سے ہدایت طلب کرو، اگر وہ راہنمائی نہ کرے تو اس کے سوا تمھیں راہ دکھانے والا کوئی نہیں اور جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔
#
{88 ـ 89} {ذلك}: الهدى المذكور {هُدى الله}: الذي لا هدى إلا هداه. {يهدي به من يشاءُ من عبادِهِ}: فاطلبوا منه الهُدى؛ فإنّه إنْ لم يهدِكُم؛ فلا هادي لكم غيره، وممن شاء هدايته هؤلاء المذكورين. {ولو أشركوا}: على الفَرَض والتقدير، {لَحَبِطَ عنهم ما كانوا يعملون}: فإن الشرك محبطٌ للعمل موجبٌ للخلودِ في النار؛ فإذا كان هؤلاء الصفوة الأخيار لو أشركوا ـ وحاشاهم ـ لحبطتْ أعمالُهم؛ فغيرُهم أولى.
[89,88] ﴿وَلَوْ اَشْرَؔكُوْا ﴾ ’’اگر یہ لوگ شرک کرتے‘‘ یعنی بفرض محال ﴿ لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’تو ان کے عمل برباد ہو جاتے‘‘ کیونکہ شرک تمام اعمال کو ساقط اور اکارت کر دیتا ہے اور جہنم میں خلود اور دوام کا موجب بنتا ہے۔ اگر یہ چنے ہوئے بہترین لوگ بھی شرک کرتے حالانکہ وہ اس سے پاک ہیں تو ان کے اعمال بھی اکارت ہو جاتے۔ دیگر لوگ تو اس جزا کے زیادہ مستحق ہیں ۔
#
{90} {أولئك}: المذكورون {الذين هدى الله فبهداهُمُ اقْتَدِهْ}؛ أي: امش أيها الرسول، الكريمُ خلفَ هؤلاءِ الأنبياءِ الأخيارِ واتَّبعْ ملتَهم. وقد امتثل - صلى الله عليه وسلم - فاهتدى بهدي الرسل قبله، وجمع كلَّ كمال فيهم، فاجتمعت لديه فضائل وخصائص فاق بها جميع العالمين، وكان سيد المرسلين وإمام المتقين صلوات الله وسلامه عليه وعليهم أجمعين. وبهذا الملحظ استدلَّ بهذه من استدلَّ من الصحابة أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أفضل الرسل كلهم، {قل} للذين أعرضوا عن دعوتك: {لا أسألكم عليه أجراً}؛ أي: لا أطلبُ منكم مغرماً ومالاً جزاء عن إبلاغي إياكم ودعوتي لكم، فيكون من أسباب امتناعكم، إنْ أجري إلاَّ على الله. {إنْ هو إلا ذِكرى للعالمين}: يتذكَّرون به ما ينفعُهم فيفعلونَه وما يضُرُّهم فيذرونَه، ويتذكَّرون به معرفةَ ربِّهم بأسمائه وأوصافه، ويتذكَّرون به الأخلاق الحميدةَ والطُّرق الموصلة إليها، والأخلاق الرذيلة والطرق المفضية إليها؛ فإذا كان ذكرى للعالمين؛ كان أعظم نعمة أنعم الله بها عليهم، فعليهم قبولها، والشكر عليها.
[90] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی یہ مذکورہ بالا لوگ ﴿ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰؔىهُمُ اقْتَدِهْ ﴾ ’’وہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی، پس آپ ان کی ہدایت کی پیروی کریں ‘‘ یعنی اے رسول کریم (e) ان انبیائے اخیار کی پیروی اور ان کی ملت کی اتباع کیجیے۔ اور واقعی رسول اللہe نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پہلے انبیا و مرسلین کی پیروی کی اور ان کے ہر کمال کو اپنے اندر جمع کر لیا۔ آپe کے اندر ایسے فضائل اور خصائص جمع تھے جن کی بنا پر آپ کو تمام جہانوں پر فوقیت حاصل تھی آپ تمام انبیا و مرسلین کے سردار اور متقین کے امام تھے۔ صلوات اللٰہ وسلامہ علیہ وعلیھم اجمعین۔ یہ ہے (آپe کی سیرت کا) وہ پہلو جس سے بعض صحابہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہe تمام انبیا و مرسلین سے افضل ہیں ۔ ﴿ قُ٘لْ﴾ یعنی ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے آپe کی دعوت سے اعراض کیا ﴿ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا ﴾ ’’میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا۔‘‘ یعنی میں تم سے اپنی تبلیغ اور تمھیں اسلام کی دعوت دینے کے عوض کسی مال اور تاوان کا مطالبہ نہیں کرتا جو تمھارے اسلام نہ لانے کا سبب بنے، میرا اجر صرف اللہ کے ذمے ہے ﴿ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْ٘عٰلَمِیْنَ ﴾ ’’یہ تو محض نصیحت ہے جہان کے لوگوں کے لیے‘‘ وہ جو ان کے لیے مفید ہے، اس سے نصیحت پکڑتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جو چیز ان کے لیے ضرر رساں ہے، اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ اس کے ذریعے سے اپنے رب اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اخلاق حمیدہ، ان کے حصول کے مناہج اور اخلاق رذیلہ اور ان میں مبتلا کرنے والے امور کا علم حاصل کرتے ہیں ۔ چونکہ یہ تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے اس لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس نعمت کو قبول کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ۔
آیت: 91 #
{وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ (91)}.
اور نہیں قدر کی انھوں نے اللہ کی جس طرح حق ہے اس کی قدر کرنے کا، جس وقت کہا انھوں نے ، نہیں نازل کی اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز، کہہ دیجیے! کس نے نازل کی کتاب، وہ جو لائے اسے موسیٰ؟ وہ نور اور ہدایت (تھی ) لوگوں کے لیے(نقل)کرتے ہو تم اس (کتاب) کو اوراق میں ظاہر کرتے ہو اس سے (کچھ) اور چھپاتے ہو بہت اور تم سکھلائے گئے ہو وہ کچھ کہ نہیں جانتے تھے تم اور نہ باپ دادا تمھارے، کہہ دیجیے! (نازل کی) اللہ نے پھر چھوڑیے انھیں ، وہ اپنی مشغولیت میں کھیلتے رہیں (91)
#
{91} هذا تشنيعٌ على من نفى الرسالة من اليهود والمشركين وزَعَمَ أنَّ الله ما أنزل على بشر من شيء؛ فمن قال هذا؛ فما قَدَرَ الله حقَّ قدرِهِ ولا عظَّمه حقَّ عظمته؛ إذ هذا قدحٌ في حكمته، وزعمٌ أنه يترك عباده هملاً لا يأمرهم ولا ينهاهم، ونفيٌ لأعظم مِنَّةٍ امْتَنَّ الله بها على عباده، وهي الرسالة التي لا طريق للعباد إلى نيل السعادة والكرامة والفلاح إلا بها؛ فأيُّ قدح في الله أعظم من هذا؟! {قل} لهم ملزماً بفساد قولهم وقَرِّرْهم بما به يُقِرُّون: {من أنزل الكتابَ الذي جاء به موسى}: وهو التوراة العظيمة {نوراً}: في ظلمات الجهل، {وهدىً}: من الضلالة، وهادياً إلى الصراط المستقيم علماً وعملاً، وهو الكتاب الذي شاع وذاع وملأ ذكرُهُ القلوب والأسماع، حتى إنهم جعلوا يتناسَخونه في القراطيس ويتصرَّفون فيه بما شاؤوا؛ فما وافق أهواءهم منه؛ أبدَوْه وأظهروه، وما خالف ذلك؛ أخفَوْه وكتموه، وذلك كثير. {وعُلِّمْتُم}: من العلوم التي بسبب ذلك الكتاب الجليل {ما لم تعلموا أنتم ولا آباؤكم}. فإذا سألتهم عن من أنزل هذا الكتاب الموصوف بتلك الصفات؛ فأجب عن هذا السؤال و {قلِ اللهُ}: الذي أنزله، فحينئذٍ يتضح الحق، وينجلي مثل الشمس؛ وتقوم عليهم الحجة. {ثم} إذا ألزمتهم بهذا الإلزام {ذَرْهم في خوضِهِم يلعبونَ}؛ أي: اتركهم يخوضوا في الباطل ويلعبوا بما لا فائدةَ فيه حتى يُلاقوا يومَهم الذي يوعدون.
[91] اللہ تعالیٰ نے یہود و مشرکین کے نفی رسالت کے قول کو سخت قبیح قرار دیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی چیز نازل نہیں فرمائی۔ جو اس بات کا قائل ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی وہ قدر اور تعظیم نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں عیب جوئی ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مہمل چھوڑ دے گا ان کو کوئی حکم دے گا نہ ان کو کسی چیز سے روکے گا اور اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت کی نفی کی ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ اور وہ یہ رسالت ہے۔ اس رسالت کے سوا بندوں کے لیے سعادت، کرامت اور فلاح حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ، تب اس نفئ رسالت سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور کون سی طعن و تشنیع ہے؟ ﴿ قُ٘لْ ﴾ ان کے فساد قول کو متحقق کرتے ہوئے اور جس چیز کا وہ خود اقرار کرتے ہیں اس کو منواتے ہوئے ان سے کہہ دیجیے ﴿مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَؔ بِهٖ مُوْسٰؔى ﴾ ’’کون ہے جس نے وہ کتاب اتاری جسے موسیٰ لے کر آئے‘‘ اور وہ ہے تورات عظیم ﴿ نُوْرًؔا﴾ جو جہالت کی تاریکیوں میں روشنی ہے ﴿وَّهُدًى﴾ اور گمراہی میں ہدایت ہے اور علم و عمل میں راہ راست کی طرف راہنمائی کرتی ہے، یہ وہ کتاب ہے جو شائع ہو کر پھیل چکی ہے اور جس کے تذکروں نے کانوں اور دلوں کو لبریز کر دیا ہے حتیٰ کہ انھوں نے اسے کتابوں میں لکھنا شروع کیا اور پھر جیسے جی چاہا اس میں تصرف کیا۔ جو ان کی خواہشات کے موافق تھا اسے ظاہر کیا اور جو ان کے خلاف تھا اسے چھپا کر کتمان حق کے مرتکب ہوئے اور ایسا حصہ بہت زیادہ ہے۔ ﴿ وَعُلِّمْتُمْ ﴾ ’’اور تمھیں وہ علوم سکھائے گئے‘‘ جو اس کتاب جلیل کے سبب سے تھے ﴿ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَلَاۤ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ ’’جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمھارے باپ دادا‘‘ جب آپ نے اس ہستی کے بارے میں ان سے پوچھ لیا جس نے یہ کتاب نازل کی جو ان صفات سے موصوف ہے تو انھیں اس کا جواب دیجیے ﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ ﴾ ’’کہہ دیجیے! اللہ۔‘‘ یعنی انھیں بتلا دیں کہ کتاب نازل کرنے والا اللہ ہے۔ ﴿ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْ٘عَبُوْنَ ﴾ ’’پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بے ہودہ باتوں میں کھیلتے رہیں ۔‘‘ یعنی پھر ان کو ان کے اپنے حال پر باطل میں مشغول چھوڑ دیجیے تاکہ یہ ان چیزوں کے ساتھ کھیلتے رہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے جاملیں جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔
آیت: 92 #
{وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (92)}.
اور یہ کتاب، ہم نے اتارااسے، مبارک ہے، تصدیق کرنے والی ہے اس (کتاب)کی جو اس سے پہلے ہے اور تا کہ آپ ڈرائیں مکہ اور اس کے پاس والوں کو‘ اور وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں آخرت پر وہ ایمان لاتے ہیں اس (قرآن) پراور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں (92)
#
{92} أي: {وهذا}: القرآن الذي {أنزلناه} إليك {مباركٌ}؛ أي: وصفه البركة، وذلك لكثرة خيراتِهِ وسعة مَبَرَّاتِهِ {مصدقُ الذي بين يديه}؛ أي: موافقٌ للكتب السابقة وشاهدٌ لها بالصدق، {ولِتُنذِرَ أمَّ القُرى ومن حولَها}؛ أي: وأنزلناه أيضاً لتنذرَ أمَّ القرى ـ وهي مكة المكرمة ـ ومن حولها من ديار العرب، بل ومن سائر البلدان، فتحذِّر الناس عقوبة الله وأخذه الأمم، وتحذِّرهم مما يوجب ذلك. {والذين يؤمنون بالآخرة يؤمنون به}: لأنَّ الخوف إذا كان في القلب؛ عمرتْ أركانُهُ وانقادَ لمراضي الله، {وهم على صلاتهم يحافظونَ}؛ أي: يداومون عليها ويحفظون أركانها وحدودَها وشروطها وآدابها ومكمِّلاتها. جعلنا الله منهم.
[92] ﴿ وَهٰؔذَا ﴾ ’’اور یہ‘‘ یعنی قرآن مجید ﴿ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ ﴾ ’’کتاب ہے، اس کو اتارا ہم نے آپ کی طرف، برکت والا‘‘ یعنی برکت اس کا وصف ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ بھلائیوں اور نیکیوں پر مشتمل ہے ﴿ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ ﴾ ’’جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔‘‘ یعنی یہ کتاب، گزشتہ کتابوں کی موافقت کرتی ہے اور ان کی صداقت پر گواہ ہے۔ ﴿ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْ٘قُ٘رٰى وَمَنْ حَوْلَهَا ﴾ نیز ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ بستیوں کی ماں ، یعنی مکہ مکرمہ کے لوگوں اور اس کے ارد گرد دیار عرب بلکہ تمام شہروں کے لوگوں کو ڈرائیں تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچیں اور ان امور سے بچیں جو اس کے عذاب کے موجب ہیں ۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ﴾ ’’اور جن کو یقین ہے آخرت کا، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ‘‘ کیونکہ جب خوف دل میں جاگزیں ہوتا ہے تو اس کے تمام ارکان آباد ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کرنے لگ جاتا ہے ﴿ وَهُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ﴾ ’’اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘ یعنی وہ نمازوں پر دوام کرتے ہیں ، اس کے ارکان و حدود، اس کے آداب و شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے دیگر تمام امور کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل کرے۔
آیت: 93 - 94 #
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (93) وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ (94)}.
اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جو باندھے اوپر اللہ کے جھوٹ؟ یا کہے وحی کی گئی ہے میری طرف جبکہ نہیں وحی کی گئی اس کی طرف کوئی چیز اور جس نے کہا، ابھی اتاروں گا میں بھی مثل اس کے جو اتارا اللہ نےاور کاش کہ آپ دیکھیں جبکہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے پھیلاتے ہیں اپنے ہاتھ(یہ کہتے ہوئے کہ) نکالو اپنی جانیں ، آج بدلہ دیے جاؤگے تم عذاب ذلت کا بوجہ اس کے کہ تھے تم کہتے اللہ پر ناحق (باتیں ) اور تھے تم اس کی آیات سے تکبر کرتے(93) اور یقیناً تم آئے ہو ہماے پاس اکیلے، جس طرح کہ پیدا کیا تھا ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ اور چھوڑ آئے تم جو کچھ دیا تھا ہم نے تمھیں ، اپنی پیٹھوں کے پیچھےاور نہیں دیکھتے ہم تمھارے ساتھ تمھارے وہ سفارشی جن کی بابت دعویٰ کرتے تھے تم کہ بے شک وہ تمھارے(معاملات) میں شریک ہیں ۔ تحقیق ٹوٹ گیا(تعلق) تمھارے درمیان اور گم ہوگئے تم سے وہ (معبود) کہ تھے تم (جن کو) گمان کرتے (94)
#
{93} يقول تعالى: لا أحد أعظم ظلماً ولا أكبر جُرماً ممَّن كَذَبَ على الله بأن نسب إلى الله قولاً أو حكماً وهو تعالى بريء منه، وإنما كان هذا أظلم الخلق؛ لأن فيه من الكذب وتغيير الأديان أصولها وفروعها ونسبة ذلك إلى الله ما هو من أكبر المفاسد، ويدخل في ذلك ادِّعاء النبوة، وأنَّ الله يوحي إليه، وهو كاذب في ذلك؛ فإنَّه مع كذبه على الله وجرأته على عظمته وسلطانه يوجب على الخلق أن يتَّبِعوه ويجاهِدَهم على ذلك ويستحلَّ دماء مَن خالفه وأموالهم. ويدخل في هذه الآية كلُّ من ادَّعى النبوة كمسيلمة الكذاب والأسود العنسي والمختار وغيرهم ممن اتصف بهذا الوصف. {ومن قال سأنزِلُ مثلَ ما أنزلَ الله}؛ أي: ومن أظلم ممَّن زعم أنه يقدر على ما يقدر الله عليه ويجاري الله في أحكامه ويشرعُ من الشرائع كما يشرعه الله. ويدخل في هذا كل من يزعم أنه يقدِرُ على معارضة القرآن، وأنَّه في إمكانه أن يأتي بمثله! وأي ظلم أعظمُ من دعوى الفقير العاجز بالذات الناقص من كل وجه، مشاركةَ القوي الغني الذي له الكمال المطلق من جميع الوجوه في ذاته وأسمائه وصفاته؟! ولما ذمَّ الظالمين؛ ذَكَرَ ما أعدَّ لهم من العقوبة في حال الاحتضار ويوم القيامة، فقال: {وَلَوْ تَرى إذ الظالمونَ في غَمَراتِ الموتِ}؛ أي: شدائدِهِ وأهواله الفظيعة وكُرَبه الشنيعة؛ لرأيت أمراً هائلاً وحالةً لا يقدر الواصف أن يصفها. {والملائكة باسطو أيديهم}: إلى أولئك الظالمين المحتضرينَ بالضَّرب والعذاب؛ يقولون لهم عند منازعة أرواحهم وقلقها وتعصِّيها عن الخروج من الأبدان: {أخْرِجوا أنفُسَكُم اليومَ تُجْزَوْنَ عذاب الهُونِ}؛ أي: العذاب الشديد الذي يُهينكم ويُذِلُّكم، والجزاء من جنس العمل؛ فإنَّ هذا العذاب {بما كُنتم تقولونَ على الله غير الحقِّ}: من كذبِكم عليه وردِّكم للحقِّ الذي جاءت به الرسل، {وكنتُم عن آياتِهِ تستكبرونَ}؛ أي: تَرَفَّعُون عن الانقياد لها والاستسلام لأحكامها. وفي هذا دليل على عذاب البرزخ ونعيمه؛ فإنَّ هذا الخطاب والعذاب الموجه إليهم إنما هو عند الاحتضار وقُبيل الموت وبعده. وفيه دليل على أن الرُّوح جسم يدخُلُ، ويخرُجُ، ويخاطَب، ويساكِن الجسد، ويفارقه.
[93] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات یا حکم منسوب کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کو سب سے بڑا ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ بہتان پر مبنی ہے، اس میں ادیان، ان کے اصول و فروع میں تغیر و تبدل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سب سے بڑی برائی ہے، نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی ہے، اسی افترا میں شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی عظمت و غلبہ کے سامنے جسارت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ، اس بات کو بھی واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس (جھوٹے نبی) کی پیروی کریں اور اس بات پر لوگوں سے لڑائی کریں اور اپنے مخالفین کے جان و مال کو وہ حلال قرار دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور دیگر مدعیان نبوت جو اس وصف سے متصف ہیں ۔ ﴿ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْ٘لَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جو کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اس کے جو اتارا اللہ نے‘‘ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو یہ زعم رکھتا ہے کہ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ احکام میں اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کر سکتا ہے، وہ بھی اسی طرح شریعت بنا سکتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔ اس وعید میں وہ شخص بھی شامل ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کر سکتا ہے اور قرآن جیسی کتاب وہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک بالذات محتاج اور عاجز بندہ جو ہر لحاظ سے ناقص ہے، یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک طاقتور اور بے نیاز ہستی کے ساتھ خدائی میں شریک ہے جو ہر پہلو سے اپنی ذات، اسما اور صفات میں کمال مطلق کی مالک ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ظالموں کی مذمت کی تو ساتھ ہی اس عذاب کا بھی ذکر فرما دیا جو ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اور حالت نزع میں ان کو دیا جائے گا۔ ﴿ وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَ٘مَرٰتِ الْمَوْتِ ﴾ ’’اور اگر آپ دیکھیں جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں ‘‘ یعنی جب یہ ظالم موت کی شدت، اس کے ہول اور اس کے کرب میں مبتلا ہوں تو آپ ایک نہایت ہولناک حالت اور معاملہ دیکھیں گے کہ کوئی اس کا وصف بیان نہیں کر سکتا ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَ٘اسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں ‘‘ جب نزع کی حالت میں فرشتے ان ظالموں کو ماریں گے اور عذاب کے ساتھ ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔ ان کی روحوں کو قبض کرتے اور حرکت دیتے وقت، جبکہ روحیں جسموں سے نکلنے سے انکار کریں گی، کہیں گے ﴿ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ ﴾ ’’کہ نکالو تم اپنی جانیں ، آج تمھیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گا‘‘ یعنی ایسا سخت عذاب جو تمھیں ذلیل و رسوا کر دے گا اور جزا ہمیشہ عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ﴾ ’’اس لیے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق باتیں لگاتے تھے۔‘‘ تم جھوٹ بولتے تھے اور حق کو ٹھکراتے تھے جو انبیاء لے کر تمھارے پاس آئے تھے ﴿وَؔكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کی اطاعت اور ان کے احکام کو ماننے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے تھے۔ یہ آیت کریمہ برزخ کے عذاب اور برزخ کی نعمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس خطاب اور عذاب کا رخ ان کی طرف عین نزع کے وقت اور موت سے تھوڑا سا پہلے اور پھر موت کے بعد ہے۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ روح جسم رکھتی ہے جو داخل ہوتی ہے اور خارج ہوتی ہے جس کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ جسد کے ساتھ مل کر رہتی ہے اور اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔
#
{94} فهذه حالهم في البرزخ، وأما يوم القيامة؛ فإنهم إذا وردوها؛ وردوها مفلسين فرادى بلا أهل ولا مال ولا أولاد ولا جنودٍ ولا أنصارٍ؛ كما خلقهم الله أول مرة، عارين من كل شيء؛ فإن الأشياء إنما تُتَمَوَّلُ وتحصُل بعد ذلك بأسبابها التي هي أسبابها، وفي ذلك اليوم تنقطع جميع الأمور التي كانت مع العبد في الدنيا سوى العمل الصالح والعمل السيئ الذي هو مادة الدار الآخرة الذي تنشأ عنه ويكون حسنها وقبحها وسرورها وغمومها وعذابها ونعيمها بحسب الأعمال؛ فهي التي تنفع أو تضرُّ وتسوء أو تسرُّ، وما سواها من الأهل والولد والمال والأنصار فعواري خارجية وأوصاف زائلة وأحوال حائلة، ولهذا قال تعالى: {ولقد جئتُمونا فُرادى كما خلقْناكم أولَ مرةٍ وتركتُم ما خوَّلْناكم}؛ أي: أعطيناكُم وأنعمنا به عليكم {وراءَ ظهورِكم}: لا يُغنون عنكم شيئاً، {وما نرى معكم شُفعاءَكُم الذين زعمتُم أنهم فيكم شركاءُ}: فإن المشركين يشركون بالله ويعبُدون معه الملائكة والأنبياء والصالحين وغيرهم، وهم كلُّهم لله، ولكنهم يجعلون لهذه المخلوقات نصيباً من أنفسهم وشركة في عبادتهم، وهذا زعمٌ منهم وظلمٌ؛ فإن الجميع عبيد لله، والله مالكهم والمستحقُّ لعبادتهم؛ فشركُهم في العبادة وصرفها لبعض العبيد تنزيلٌ لهم منزلة الخالق المالك، فيوبَّخون يوم القيامة، ويُقال لهم هذه المقالة {ما نرى معكم شفعاءَكم الذين زعمتُم أنهم فيكم شركاء لقد تقطَّع بينَكم}؛ أي: تقطَّعت الوصل والأسباب بينكم وبين شركائكم من الشفاعة وغيرها، فلم تنفعْ ولم تُجْدِ شيئاً. {وضلَّ عنكم ما كنتُم تزعُمون}: من الرِّبح والأمن والسعادة والنجاة التي زيَّنها لكم الشيطانُ وحسَّنها في قلوبكم، فنطقتْ بها ألسنتكُم، واغتررتُم بهذا الزعم الباطل الذي لا حقيقةَ له حين تبيَّن لكم نقيضُ ما كنتم تزعُمون، وظهر أنَّكم الخاسرون لأنفسكم وأهليكم وأموالكم.
[94] یہ ان کا برزخی حال ہے۔قیامت کے روز جب یہ وارد ہوں گے تو نہایت افلاس کی حالت میں اکیلے اکیلے آئیں گے۔ ان کے ساتھ گھر والے ہوں گے نہ مال ہو گا نہ اولاد ہو گی، ان کے ساتھ لشکر ہوں گے نہ اعوان و انصار، وہ قیامت کے روز اسی طرح ہر چیز سے عاری اور عریاں حالت میں آئیں گے جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا کیونکہ اشیا تو اس کے بعد ان اسباب کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہیں جو ان کے لیے مقرر ہیں ۔ اس روز وہ تمام امور منقطع ہو جائیں گے جو دنیا میں بندے کے ساتھ تھے۔ سوائے نیک اعمال یا بداعمال کے اور یہ اعمال ہی آخرت کا مادہ ہیں جن سے آخرت ظہور پذیر ہو گی ۔آخرت کا حسن و قبح، اس کا سرور و غم اور اس کا عذاب و نعمت اعمال کے مطابق حاصل ہوگا۔ یہ اعمال ہی ہیں جو نفع دیں گے یا نقصان دیں گے جو اچھے لگیں گے یا برے لگیں گے۔ اور ان اعمال کے علاوہ اہل و اولاد، مال و متاع اور اعوان و انصار تو یہ سب دنیا میں رہ جانے والے اسباب، زائل ہو جانے والے اوصاف اور بدل جانے والے احوال ہیں ۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُ٘رَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَؔكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ ﴾ ’’البتہ تم ہمارے پاس آ گئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی مرتبہ اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے دیے تھے تمھیں ‘‘ یعنی جو کچھ ہم نے تمھیں عطا کیا اور جن نعمتوں سے ہم نے تمھیں نوازا تھا ﴿ وَرَآءَؔ ظُهُوْرِكُمْ ﴾ ’’اپنے پیچھے‘‘ انھیں پیچھے چھوڑ آئے ہو اور وہ تمھارے کسی کام نہ آئیں گی ﴿وَمَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَؔكٰٓؤُا ﴾ ’’اور ہم نہیں دیکھتے تمھارے ساتھ سفارشیوں کو جن کو تم گمان کرتے تھے کہ ان کا تم میں ساجھا ہے‘‘ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملائکہ، انبیا اور صالحین وغیرہم کی عبادت بھی کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں مگر وہ لوگ ان مخلوق ہستیوں کے لیے ایک حصہ ٹھہراتے تھے اور اپنی عبادت میں ان کو شریک کرتے تھے اور یہ ان کا زعم باطل اور ظلم ہے کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا مالک اور ان کی عبادت کا مستحق ہے۔ لہذا ان کے شرک فی العبادۃ، بعض بندوں کو عبادت کا مستحق ٹھہرانے اور ان کو خالق و مالک کا مقام دینے کی بنا پر قیامت کے روز ان کو زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے مذکورہ بات کہی جائے گی ﴿لَقَدْ تَّ٘قَ٘طَّ٘عَ بَیْنَكُمْ ﴾ ’’تمھارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے۔‘‘ یعنی آج تمھارے اور تمھارے شرکاء کے مابین سفارش وغیرہ کے تمام روابط اور تعلقات منقطع ہو گئے اور ان تعلقات نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ ﴿ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ﴾ ’’اور جاتے رہے وہ دعوے جو تم کیا کرتے تھے‘‘ وہ نفع، امن، سعادت اور نجات جن کے وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے، گم ہو گئے جن کو شیطان تمھارے سامنے مزین کیا کرتا تھا، تمھارے دلوں میں انھیں خوبصورت بنایا کرتا تھا اور تمھاری زبانوں پر ان کا ذکر رہا کرتا تھا۔ اور تم اپنے اس زعم باطل کے فریب میں مبتلا رہے جس کی کوئی حقیقت نہیں یہاں تک کہ ان تمام دعووں کا بطلان واضح ہو گیا اور ظاہر ہو گیا کہ تم خود اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال و متاع کے بارے میں خسارے میں پڑے رہے۔
آیت: 95 - 98 #
{إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللَّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ (95) فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (96) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (97) وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ (98)}.
بلا شبہ اللہ پھاڑنے والا ہے دانے اور گٹھلی کو، وہ نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالنے والا ہے مردہ کو زندہ سے یہ ہے اللہ، پس کہاں پھیرے جاتے ہو تم؟(95) نمودرا کرنے والا ہے سپیدۂ صبح کااور بنایا اس نے رات کو سکون کا باعث اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ، یہ (سب) اندازہ ہے بہت زبردست، جاننے والے کا(96)اور وہی ہے جس نے بنائے تمھارے لیے تارےتاکہ راہ پاؤ تم ان کے ذریعے اندھیروں میں خشکی اور تری کے، تحقیق کھول کر بیان کردی ہیں ہم نے (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں (97)اور وہی ہے جس نے پیدا کیا تمھیں ایک جان سے، پس (تمھارے لیے) ایک قرار گاہ ہے اور ایک جائے امانت، تحقیق مفصل بیان کردی ہیں ہم نے (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں (98)
#
{95} يخبر تعالى عن كماله وعظمةِ سلطانه وقوة اقتداره وسعة رحمته وعموم كرمه وشدة عنايته بخلقه، فقال: {إنَّ الله فالقُ الحبِّ} شاملٌ لسائر الحبوب التي يباشر الناس زرعَها، والتي لا يباشِرونها منها؛ كالحبوب التي يبثها الله في البراري والقفار، فيفلق الحبوب عن الزروع والنوابت على اختلاف أنواعها وأشكالها ومنافعها، ويفلق النوى عن الأشجار من النخيل والفواكه وغير ذلك، فينتفع الخلقُ من الآدميين والأنعام والدواب، ويرتعون فيما فَلَقَ الله من الحبِّ والنوى، ويقتاتون وينتفعون بجميع أنواع المنافع التي جعلها الله في ذلك، ويريهم الله من برِّه وإحسانه ما يبهر العقول ويُذْهِلُ الفحول، ويريهم من بدائع صنعته وكمال حكمته ما به يعرفونه ويوحِّدونه ويعلمون أنه هو الحقُّ وأن عبادة ما سواه باطلة. {يُخْرِجُ الحيَّ من الميِّت}: كما يخرِجُ من المنيِّ حيواناً ومن البيضة فرخاً ومن الحبِّ والنوى زرعاً وشجراً، {ومُخْرِجُ الميِّتِ}: وهو الذي لا نموَّ فيه أو لا روح {من الحيِّ}: كما يخرِجُ من الأشجار والزُّروع النوى والحب، ويخرِجُ من الطائر بيضاً ونحو ذلك. {ذلكم} الذي فعل ما فعل وانفردَ بخلقِ هذه الأشياء وتدبيرِها {اللهُ ربُّكم}؛ أي: الذي له الألوهيَّة والعبادة على خلقه أجمعينَ، وهو الذي ربَّى جميع العالَمين بنعمِهِ وغذَّاهم بكرمه، {فأنَّى تؤفَكونَ}؛ أي: فأنَّى تصرَفون وتَصُدُّون عن عبادة من هذا شأنه إلى عبادة من لا يملك لنفسه نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياةً ولا نشوراً؟
[95] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال، عظمت سلطان، قوت اقتدار، وسعت رحمت، بے پایاں فضل و کرم اور اپنی مخلوق کے ساتھ انتہائی عنایت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ فَالِـقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ﴾ ’’بے شک اللہ پھاڑ نکالتا ہے دانہ اور گٹھلی‘‘ یہاں دانہ ہر قسم کے اناج کے دانوں کو شامل ہے جن کو عام طور پر لوگ کاشت کرتے ہیں اور وہ بھی جن کو کاشت نہیں کیا جاتا ، مثلاً: وہ دانے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحراؤں اور بیابانوں میں بکھیر دیے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کھیتیوں اور مختلف انواع و اشکال و منفعت والی نباتات کے بیجوں کو پھاڑتا ہے اور درختوں کی نوع میں کھجور اور دیگر پھلوں کی گٹھلی کو جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق، انسان، مویشی اور دیگر جانور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ بیج اور گٹھلی سے جو کچھ اگاتا ہے یہ اسے کھاتے ہیں اور اس سے اپنی خوراک اور ہر قسم کی منفعت حاصل کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و احسان کی جھلک دکھاتا ہے جس سے عقل ششدر اور بڑے بڑے اصحاب فضیلت حیران رہ جاتے ہیں ۔ وہ ان کو اپنی انوکھی صنعت گری اور اپنی حکمت کا کمال دکھاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں اور اسے ایک مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ حق ہے اور اس کے سوا ہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ ﴿ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ﴾ ’’وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے‘‘مثلاً: وہ منی سے حیوان اور انڈے سے چوزہ پیدا کرتا ہے، دانے اور گٹھلی سے اناج اور درخت پیدا کرتا ہے ﴿ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ ﴾ ’’اور مردہ کو نکالتا ہے‘‘ میت سے مراد وہ تمام اشیا ہیں جو نشوونما کی صلاحیت سے محروم ہوں یا ان کے اندر روح نہ ہو ﴿ مِنَ الْحَیِّ ﴾ ’’زندہ سے‘‘مثلاً: درختوں اور کھیتیوں سے گٹھلیاں اور دانے پیدا کرتا اور پرندے سے انڈہ نکالتا ہے۔ ﴿ ذٰلِكُمُ ﴾ وہ ہستی، جو یہ تمام افعال سرانجام دیتی ہے اور ان اشیاء کی تخلیق اور تدبیر میں منفرد ہے وہ ﴿ اللّٰهُ رَبُّکُمْ﴾ ’’اللہ ہے، رب تمھارا‘‘ تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اس کی الوہیت و عبودیت کو تسلیم کرے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام جہانوں کی ربوبیت فرمائی اور اپنے فضل و کرم سے ان کو غذا مہیا کی ﴿ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ ﴾ ’’پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘ یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو اور جو اس شان کا مالک ہے اس کی عبادت کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو خود اپنے لیے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں ۔
#
{96} ولما ذكر تعالى مادة خلق الأقواتِ؛ ذكر مِنَّته بتهيئة المساكن وخلقه كلَّ ما يحتاجُ إليه العباد من الضياء والظلمة وما يترتَّب على ذلك من أنواع المنافع والمصالح، فقال: {فالقُ الإصباح}؛ أي: كما أنه فالق الحبِّ والنَّوى، كذلك هو فالقُ ظلمةِ الليل الداجي الشامل لما على وجه الأرض بضياء الصُّبح الذي يفلقه شيئاً فشيئاً، حتى تذهبَ ظلمةُ الليل كلُّها ويخلُفُها الضياءُ والنورُ العامُّ الذي يتصرَّف به الخلقُ في مصالحهم ومعايشهم ومنافع دينهم ودنياهم. ولما كان الخلقُ محتاجين إلى السكون والاستقرار والراحة التي لا تتمُّ إلا بوجود النهار والنور؛ {جعل}: الله الليلَ سَكَناً يسكن فيه الآدميُّون إلى دورهم ومنامهم والأنعامُ إلى مأواها والطيورُ إلى أوكارها فتأخذ نصيبها من الراحة، ثم يزيل الله ذلك بالضياء، وهكذا أبداً إلى يوم القيامة. {و} جعل تعالى {الشمسَ والقمرَ حُسْباناً}: بهما تُعرف الأزمنة والأوقات؛ فتنضبِطُ بذلك أوقات العبادات وآجال المعاملات، ويُعْرَفُ بها مدة ما مضى من الأوقات التي لولا وجودُ الشمس والقمر وتناوُبُهما واختلافُهما لما عَرَفَ ذلك عامة الناس واشتركوا في علمه، بل كان لا يعرفه إلا أفرادٌ من الناس بعد الاجتهاد، وبذلك يفوت من المصالح الضرورية ما يفوت. {ذلك}: التقدير المذكور، {تقديرُ العزيز العليم}: الذي من عزَّته انقادت له هذه المخلوقاتُ العظيمة فَجَرَتْ مذلَّلة مسخَّرة بأمره، بحيثُ لا تتعدَّى ما حدَّه الله لها ولا تتقدَّم عنه ولا تتأخَّر، العليم الذي أحاط علمُهُ بالظواهر والبواطن والأوائل والأواخر. ومن الأدلة العقلية على إحاطة علمِهِ تسخيرُ هذه المخلوقات العظيمة على تقديرٍ ونظام بديع تَحير العقول في حسنِهِ وكماله وموافقته للمصالح والحكم.
[96] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے غذاؤں کی تخلیق کے مادے کا ذکر فرمایا تو اب اس احسان کا ذکر کیا جو اس نے مساکن مہیا کر کے مخلوق پر کیا ہے اور ہر وہ چیز تخلیق کر کے جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں ، مثلاً: روشنی اور تاریکی اور وہ تمام منافع اور مصالح جو اس پر مترتب ہوتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ فَالِـقُ الْاِصْبَاحِ﴾ ’’پھاڑ نکالنے والا ہے صبح کی روشنی کا‘‘ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے اسی طرح اندھیری رات کے اندھیروں کو جو تمام روئے زمین کو ڈھانپ لیتے ہیں ، صبح کے اجالے کے ذریعے سے پھاڑتا ہے جو دھیرے دھیرے تاریکی کے پردے کو چاک کیے چلا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام تاریکی ختم ہو جاتی ہے اور مخلوق اپنے مصالح، معاش اور اپنے دین و دنیا کے فوائد کے حصول میں مصروف ہو جاتی ہے۔ چونکہ مخلوق سکون، آرام اور ٹھہرنے کی محتاج ہوتی ہے اور یہ امور دن اور رات کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتے ﴿وَجَعَلَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے بنایا ﴿الَّیْلَ سَكَنًا ﴾ ’’رات کو آرام کے لیے‘‘ جس میں آدمی اپنے گھروں اور خواب گاہوں میں ، جانور اور مویشی اپنے ٹھکانوں میں اور پرندے اپنے گھونسلوں میں آرام کرتے ہیں اور سب راحت اور آرام میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اسے روشنی کے ذریعے سے زائل کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ ﴿ وَّالشَّ٘مْسَ وَالْ٘قَ٘مَرَ حُسْبَانًا ﴾ ’’اور سورج اور چاند حساب کے لیے‘‘ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند بنائے جن کے ذریعے سے زمان و اوقات کی پہچان کی جاتی ہے، ان کے ذریعے سے عبادات کے اوقات منضبط ہوتے ہیں ، معاملات کی مدت مقرر ہوتی ہے اور سورج اور چاند کے وجود ہی سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ اگر سورج اور چاند کا وجود اور ان کا باری باری ایک دوسرے کے پیچھے آنا نہ ہوتا تو عامتہ الناس ان تمام امور کو معلوم کر کے علم میں اشتراک نہ کر سکتے بلکہ چند افراد کے سوا کوئی بھی ان امور کی معرفت حاصل نہ کر پاتا اور وہ بھی نہایت کوشش اور اجتہاد کے بعد اور اس طرح تمام ضروری مصالح فوت ہو جاتے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ یہ مذکورہ اندازہ ﴿ تَقْدِیْرُ الْ٘عَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ﴾ ’’اندازہ ہے غالب جاننے والے کا‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا غلبہ ہے کہ یہ بڑی بڑی مخلوق اس کی تدبیر کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ اور اس کے حکم سے مطیع اور مسخر ہو کر اپنے راستے پر جاری و ساری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو حدود مقرر کر دی ہیں وہ اس سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی، آگے ہو سکتی ہے نہ پیچھے۔ ﴿ الْعَلِیْمِ ﴾ وہی ہستی ہے جس کے علم نے تمام ظاہر و باطن اور اوائل و اواخر کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس کے علم محیط کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو ایک اندازے پر ایک انوکھے نظام کے ذریعے سے مسخر کر رکھا ہے کہ جس کے حسن و کمال اور مصالح اور حکمتوں کے ساتھ اس کی مطابقت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
#
{97} {وهو الذي جعل لكم النُّجومَ لِتَهْتَدوا بها في ظلمات البرِّ والبحر}: حين تشتبه عليكم المسالك، ويتحيَّر في سيره السالك، فجعل الله النجوم هدايةً للخلق إلى السبيل التي يحتاجون إلى سلوكها لمصالحهم وتجاراتهم وأسفارهم، منها نجومٌ لا تزال تُرى ولا تسيرُ عن محلِّها، ومنها ما هو مستمرُّ السير يعرِفُ سيرَه أهلُ المعرفة بذلك، ويعرفون به الجهاتِ والأوقاتِ. ودلَّت هذه الآيةُ ونحوها على مشروعيَّة تعلُّم سير الكواكب ومحالِّها الذي يسمَّى علم التسيير؛ فإنه لا تتمُّ الهداية ولا تُمْكِنُ إلاَّ بذلك. {قد فصَّلْنا الآياتِ}؛ أي: بيَّناها ووضَّحناها وميَّزنا كل جنس ونوع منها عن الآخر بحيث صارت آياتُ الله باديةً ظاهرة، {لقوم يعلمونَ}؛ أي: لأهل العلم والمعرفة؛ فإنَّهم الذين يوجَّه إليهم الخطاب، ويُطلب منهم الجواب؛ بخلاف أهل الجهل والجفاء المعرضين عن آيات الله وعن العلم الذي جاءت به الرسل؛ فإن البيان لا يفيدُهم شيئاً، والتفصيل لا يزيل عنهم ملتبساً، والإيضاح لا يكشف لهم مشكلاً.
[97] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾ ’’وہی ہے جس نے بنائے تمھارے لیے ستارے تاکہ ان کے ذریعے سے تم راستے معلوم کرو، خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں ‘‘ جب راستے تم پر مشتبہ ہو جاتے ہیں اور مسافر کا سفر تحیر کا شکار ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو راستے دکھانے کے لیے ستاروں کو تخلیق فرمایا۔ لوگ اپنے مصالح، سفر تجارت اور دیگر سفروں میں ان راستوں کی پہچان کے محتاج ہوتے ہیں ۔ کچھ ستارے ایسے ہیں جو ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ کچھ ستارے ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں ۔ ستاروں کی معرفت رکھنے والے ستاروں کی رفتار کو پہچانتے ہیں ، بنابریں وہ سمتیں اور اوقات معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ ستاروں کی رفتار اور ان کے محل و مقام کا علم حاصل کرنا مشروع ہے جسے ستاروں کی رفتار کے علم سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر راستوں کے علم سے بہرہ ور ہونا ممکن نہیں ۔ ﴿ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ ﴾ ’’ہم نے آیات کھول کھول کر بیان کردیں ۔‘‘ یعنی ہم نے نشانیوں کو بیان کر کے واضح کر دیا ہے اور ہر جنس اور نوع کو ایک دوسری سے ممیز کر دیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات صاف ظاہر اور عیاں ہو گئیں ﴿ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ﴾ ’’جاننے والوں کے لیے۔‘‘ یعنی ہم نے ان آیات کو ان لوگوں کے سامنے واضح کر دیا جو علم اور معرفت سے بہرہ ور ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف خطاب کا رخ ہے اور جن سے جواب مطلوب ہے۔ بخلاف جاہل اور اہل جفا کے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس علم سے منہ موڑتے ہیں جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کیونکہ ان کے سامنے بیان کرنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور ان کے سامنے اس کی تفصیل بیان کرنے سے ان کا التباس رفع نہیں ہو سکتا اور اس کی توضیح سے ان کا اشکال دور نہیں ہوتا۔
#
{98} {وهو الذي أنشأكم من نفس واحدة}: وهو آدمُ عليه السلام، أنشأ الله منه هذا العنصر الآدميَّ الذي قد ملأ الأرض، ولم يزل في زيادة ونموٍّ، الذي قد تفاوت في أخلاقه وخلقه وأوصافه تفاوتاً لا يمكن ضبطه، ولا يُدْرَكُ وصفُه، وجعل الله لهم مستقرًّا؛ أي: منتهى ينتهون إليه وغاية يُساقون إليها، وهي دار القرار التي لا مستقرَّ وراءها ولا نهايةَ فوقَها؛ فهذه الدار هي التي خلق الخلق لسكناها، وأوجدوا في الدنيا ليسعوا في أسبابها التي تنشأ عليها وتعمر بها، وأودعهم الله في أصلاب آبائهم وأرحام أمهاتهم، ثم في دار الدنيا، ثم في البرزخ؛ كلُّ ذلك على وجه الوديعة التي لا تستقرُّ ولا تثبت، بل ينتقل منها، حتى يوصل إلى الدار التي هي المستقر، وأما هذه الدار؛ فإنَّها مستودعٌ وممرٌّ. {قد فصَّلْنا الآيات لقوم يفقهون}: عن الله آياتِهِ، ويفهمون عنه حججَهُ وبيِّناتِهِ.
[98] ﴿ وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّ٘فْ٘سٍ وَّاحِدَةٍ ﴾ ’’اور وہی ذات ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا‘‘ اور وہ آدم ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب آدم سے تمام نسل انسانی کو پیدا کیا جس نے روئے زمین کو بھر دیا ہے اور یہ اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نسل انسانی کے افراد کی خلقت، ان کے اخلاق اور اوصاف میں اس قدر تفاوت ہے کہ ان کو ضبط میں لانا اور ان کے تمام اوصاف کا ادراک ممکن ہی نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کا (مُسْتَقَر) یعنی ان کی غایت و انتہا مقرر فرما دی ہے جس کی طرف ان کو لے جایا جا رہا ہے اور وہ ہے آخرت کی جائے قرار، اس سے آگے کوئی غایت و منتہا نہیں ۔ دنیا وہ گھر ہے جہاں رہنے کے لیے مخلوق کو پیدا کیا گیا اور ان کو اس لیے وجود میں لایا گیا تاکہ وہ ان اسباب کے لیے بھاگ دوڑ کریں جو زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور زمین ان سے آباد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے آباء کی صلبوں میں اور ماؤں کے رحموں میں امانت رکھ دیا، وہاں سے یہ امانت اس دنیا میں آجاتی ہے، پھر برزخ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ہر جگہ اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے جس کو ٹھہراؤ اور ثبات نہیں بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ دار آخرت میں اسے پہنچا دیا جائے جو اس کا مستقر و مقام ہے۔ رہا دنیا کا یہ گھر تو یہ صرف گزر گاہ ہے ﴿ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ ﴾ ’’تحقیق ہم نے کھول کر بیان کر دیں نشانیاں ، ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں ‘‘ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی آیات کو سمجھیں اور اس کے دلائل و براہین کا فہم حاصل کریں ۔
آیت: 99 #
{وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ انْظُرُوا إِلَى ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ إِنَّ فِي ذَلِكُمْ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (99)}
اور وہی ہے جس نے اتارا آسمان سے پانی، پس نکالیں ہم نے اس کے ذریعے سے نباتات ہر چیز کی ، پھر نکالا ہم نے اس سے سبزہ نکالتے ہیں ہم اس سے دانے باہم جڑے ہوئے اور کجھوروں کے شگوفے سے گچھے جھکے ہوئے اور(نکالے) باغات انگوروں اور زیتون اور انار کے، ملتے جلتے ہیں ( پتے ان کے) اور مختلف ہیں (پھل ان کے)، دیکھو اس کے پھل کو جبکہ وہ پھل لائے اور اس کا پکنا، بلا شبہ اس میں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں (99)
#
{99} وهذا من أعظم مننه العظيمة التي يضطرُّ إليها الخلق من الآدميين، وغيرهم، وهو أنه أنزل من السماء ماء متتابعاً وقت حاجة الناس إليه، فأنبت الله به كل شيء مما يأكل الناس والأنعام، فرتع الخلق بفضل الله وانبسطوا برزقِهِ وفرحوا بإحسانه وزال عنهم الجدب واليأس والقحط، ففرحتِ القلوبُ وأسفرتِ الوجوه وحصل للعباد من رحمة الرحمن الرحيم ما به يتمتَّعون وبه يرتعون، مما يوجِبُ لهم أن يبذُلوا جهدهم في شكر من أسدى النعم وعبادته والإنابة إليه والمحبة له. ولما ذكر عموم ما ينبت بالماء من أنواع الأشجار والنبات؛ ذَكَرَ الزرع والنخل لكثرة نفعهما وكونهما قوتاً لأكثر الناس، فقال: {فأخرجنا منه خَضِراً نخرِجُ منه}؛ أي: من ذلك النبات الخضر {حبًّا متراكباً}: بعضُه فوق بعض من بُرٍّ وشعير وذرة وأرز وغير ذلك من أصناف الزروع، وفي وصفه بأنه متراكبٌ إشارة إلى أنَّ حبوبه متعددة، وجميعها تستمدُّ من مادةٍ واحدةٍ، وهي لا تختلط، بل هي متفرِّقة الحبوب مجتمعة الأصول، وإشارة أيضاً إلى كثرتها وشمول ريعها وغلتها؛ ليبقى أصل البذر، ويبقى بقية كثيرةٌ للأكل والادِّخار. {ومن النخل}: أخرج اللهُ {من طَلْعِها}: وهو الكُفُرَّى والوعاء قبل ظهور القنو منه، فيخرج من ذلك الوعاء {قِنْوانٌ دانيةٌ}؛ أي: قريبة سهلة التناول متدلية على من أرادها؛ بحيث لا يعسُرُ التناول من النخل، وإن طالت؛ فإنه يوجد فيها كَرَبٌ ومراقي يَسْهُلُ صعودها. {و}: أخرج تعالى بالماء {جناتٍ من أعناب والزيتون والرمان}: فهذه من الأشجار الكثيرة النفع العظيمة الوقع؛ فلذلك خصَّصها الله بالذِّكر بعد أن عمَّ جميع الأشجار والنوابت. وقوله: {مشتبهاً وغير متشابهٍ}: يحتملُ أن يرجعَ إلى الرُّمَّانِ والزيتون؛ أي: مشتبهاً في شجره وورقه غير متشابه في ثمره، ويحتمل أن يرجع ذلك إلى سائر الأشجار والفواكه، وأن بعضها مشتبه؛ يشبه بعضه بعضاً، ويتقارب في بعض أوصافه، وبعضها لا مشابهة بينه وبين غيره، والكل ينتفع به العباد ويتفكَّهون، ويقتاتون ويعتبرون، ولهذا أمر تعالى بالاعتبار به، فقال: {انظروا}: نظر فكرٍ واعتبار {إلى ثمره}؛ أي: الأشجار كلها، خصوصاً النخل، {إذا أثْمَرَ وينعِهِ}؛ أي: انظروا إليه وقت إطلاعه ووقت نضجه وإيناعه؛ فإن في ذلك عبراً وآياتٍ يُستدلُّ بها على رحمة الله وسَعَة إحسانِهِ وجودِهِ وكمال اقتداره وعنايته بعباده، ولكن ليس كل أحدٍ يَعْتَبِرُ ويتفكَّر، وليس كلُّ من تفكَّر؛ أدرك المعنى المقصود، ولهذا قَيَّدَ تعالى الانتفاع بالآيات بالمؤمنين، فقال: {إنَّ في ذلكم لآياتٍ لقوم يؤمنونَ}: فإن المؤمنين يحمِلُهم ما معهم من الإيمان على العمل بمقتضياته ولوازمه التي منها التفكر في آيات الله والاستنتاج منها ما يراد منها وما تدلُّ عليه عقلاً وفطرةً وشرعاً.
[99] اس آیت کریمہ میں مذکور نعمت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، انسان اور دیگر مخلوق جس کے سخت محتاج ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضرورت اور حاجت کے وقت پے در پے پانی برسایا، اس پانی کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی جسے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلوق اس نباتات کو کھاتی ہے، اس کے عطا کردہ رزق سے انبساط محسوس کرتی ہے، لوگ اس کے احسان پر خوش ہوتے ہیں اور ان سے قحط اور خشک سالی دور ہو جاتی ہے۔ پس دل خوش ہو جاتے ہیں اور چہرے نکھر جاتے ہیں ، بندوں کو اللہ رحمان و رحیم کی بے پایاں رحمت نصیب ہوتی ہے جس سے وہ متمتع ہوتے ہیں ، اس سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں ۔ یہ چیز ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اس ہستی کا شکر ادا کریں جس نے انھیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں اور اس کی عبادت، اس کی طرف انابت اور اس کی محبت میں اپنی کوشش صرف کریں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس پانی سے اگنے والے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کیا تو اب (خصوصی طور پر) کھیتیوں اور کھجوروں کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ ان کی منفعت بہت زیادہ ہے اور اکثر لوگوں کی خوراک بھی انھی سے حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُ٘لِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ ﴾ ’’پھر نکالی ہم نے اس سے سبز کھیتی، ہم نکالتے ہیں اس سے‘‘ یعنی اس سرسبز نباتات میں سے ﴿ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا ﴾ ’’دانے، ایک پر ایک چڑھا ہوا‘‘ یعنی گندم، جو، مکئی اور چاول جیسی زرعی اجناس میں دانے اپنی بالیوں میں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے وصف میں ’’ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے‘‘ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ ایک بالی میں متعدد دانے ہوتے ہیں ، سب ایک ہی مادے سے خوراک حاصل کرتے ہیں ، وہ ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں ہوتے، تمام دانے متفرق ہوتے ہیں ، ان کی جڑ ایک ہی ہوتی ہے، نیز یہ دانوں کی کثرت، ان کے بڑھنے اور غلے کے عام ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے تاکہ اصل بیج باقی رہے اور دوسرا غلہ کھایا اور ذخیرہ کیا جا سکے۔ ﴿ وَمِنَ النَّخْلِ ﴾ ’’اور کھجور سے‘‘ اللہ تعالیٰ نے نکالا ﴿مِنْ طَلْعِهَا ﴾ ’’اس کے گابھے سے‘‘ اور وہ کھجور کا خوشہ نکلنے سے قبل اس پر چڑھا ہوا غلاف ہے۔ پس اس غلاف میں سے کھجور کا خوشہ نکلتا ہے ﴿ قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ ﴾ ’’پھل کے گچھے، جھکے ہوئے‘‘ یعنی قریب قریب لگے ہوئے خوشے جن کا حصول بہت آسان ہوتا ہے جو کوئی خوشوں کو توڑنا چاہے وہ ان کے بہت قریب ہوتا ہے۔ انھیں کھجور سے حاصل کرنا مشکل نہیں ہوتا، خواہ کھجور کا درخت کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو کیونکہ کھجور کے تنے سے کٹی ہوئی شاخوں کی جگہ سیڑھیاں سی بن جاتی ہیں ان کی مدد سے کھجور پر چڑھنا آسان ہو جاتا ہے ﴿ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ ﴾ ’’اور (اس پانی سے) انگور، زیتون اور انار کے باغات اگائے۔‘‘چونکہ یہ درخت کثیر الفوائد اور عظیم وقعت کے حامل ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ﴿ مُشْتَبِهًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ﴾ ’’آپس میں ملتے جلتے بھی اور جدا جدا بھی‘‘ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے مراد انار اور زیتون ہو کیونکہ ان کے درخت اور پتے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور ان کے پھل غیر مشابہ (جدا جدا) ہوتے ہیں اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تمام درخت اور میوے وغیرہ ہوں جن میں سے بعض ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور بعض اوصاف میں ایک دوسرے سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے (بلکہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں )۔ ان تمام درختوں سے بندے فائدہ اٹھاتے ہیں ، ان سے پھل اور غذا حاصل کرتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں ۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ان سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ﴿ اُ٘نْ٘ظُ٘رُوْۤا ﴾ ’’دیکھو‘‘ یعنی غور و فکر اور عبرت کی نظر سے دیکھو ﴿ اِلٰى ثَمَرِهٖۤ ﴾ تمام درختوں کے پھل کی طرف عام طور پر اور کھجور کے پھل کی طرف خاص طور پر ﴿ اِذَاۤ اَثْ٘مَرَ ﴾ ’’جب وہ پھل لائے‘‘ ﴿ وَیَنْعِهٖ ﴾ ’’اور اس کے پکنے پر‘‘ یعنی اس کے شگوفے نکلنے، پھل پکنے اور اس کے پک کر سرخ ہونے کی طرف دیکھو کیونکہ اس میں عبرت اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے جود و احسان کی وسعت، اس کے کامل اقتدار اور بندوں پر اس کی بے پایاں عنایات پر استدلال کیا جاتا ہے۔ مگر ہر ایک تفکر و تدبر کے ذریعے سے عبرت حاصل نہیں کرتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی غور و فکر کرے وہ معنی مقصود کو پا لے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے فائدہ اٹھانے کو مومنین کے ساتھ خاص کیا ہے، چنانچہ فرمایا ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اس میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘‘ کیونکہ مومنین کا ایمان ان کو اپنے ایمان کے تقاضوں اور لوازم پر عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور ان لوازم میں آیات الٰہی میں غور و فکر، ان سے نتائج کا استخراج، ان کا معنی مراد اور یہ آیات عقلاً، شرعاً اور فطرتاً جس چیز پر دلالت کرتی ہیں ، سب شامل ہیں ۔
آیت: 100 - 104 #
{وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ (100) بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (101) ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (102) لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (103) قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ (104)}.
اور ٹھہرایا انھوں نے اللہ کا شریک جنوں کو حالانکہ اس نے تو انھیں پیدا کیا ہے اور گھڑ لیے انھوں نے اس(اللہ) کے بیٹے اور بیٹیاں بغیر علم کے ، پاک ہے وہ اور بلند ان باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں (100) وہی موجد ہے آسمانوں اور زمین کا ، کس طرح ہوسکتی ہے اس کی اولاد جبکہ نہیں ہے کوئی اس کی بیوی؟ اور اسی نے پیدا کیا ہر چیز کواور وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے (101)یہ اللہ رب ہے تمھارا، نہیں کوئی معبود سوائے اس کے ،خالق ہے ہر چیز کا،پس تم اسی کی عبادت کرواور وہ اوپر ہر چیز کے نگران ہے(102) نہیں پاسکتیں اس کو آنکھیں اور وہ پالیتا ہے آنکھوں کواور وہ باریک بین ہے خبردار(103) تحقیق آچکیں تمھارے پاس دلیلیں تمھارے رب کی طر ف سے پس جس نے بصیرت سے کام لیا تو اپنے ہی لیے اور جو اندھا رہا تو اسی پر ہے (وبال)اور نہیں ہوں میں تم پر محافظ(104)
#
{100} يخبر تعالى أنه مع إحسانه لعباده وتعرفه إليهم بآياته البينات وحججه الواضحات؛ أن المشركين به من قريش وغيرهم جعلوا له شركاء يدعونهم ويعبُدونهم من الجنِّ والملائكة، الذين هم خَلْقٌ مِن خَلْق الله، ليس فيهم من خصائص الربوبيَّة والألوهيَّة شيء، فجعلوها شركاء لمن له الخلقُ والأمرُ، وهو المنعم بسائر أصناف النعم، الدافع لجميع النقم، وكذلك خَرَقَ المشركون؛ أي: ائتفكوا وافتروا من تلقاء أنفسهم لله بنينَ وبناتٍ بغير علم منهم، ومن أظلم ممن قال على الله بلا علم، وافترى عليه أشنعَ النَّقص الذي يجب تنزيهُ الله عنه، ولهذا نزَّه نفسه عما افتراه عليه المشركون، فقال: {سبحانَه وتعالى عمَّا يَصِفونَ}؛ فإنه تعالى الموصوف بكل كمالٍ، المنزَّه عن كل نقصٍ وآفةٍ وعَيْبٍ.
[100] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اپنے بندوں پر اس کے احسان اور واضح نشانیوں کے ذریعے سے ان کو اپنی معرفت عطا کرنے کے باوجود مشرکین قریش وغیرہم جنوں اور فرشتوں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہیں ، ان کو پکارتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور ان میں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی بھی صفت نہیں ۔ وہ ان کو اس ہستی کا شریک ٹھہراتے ہیں جو خلق و امر کی مالک ہے اور وہ ہر قسم کی نعمت عطا کرنے والی اور تمام دکھوں اور تکالیف کو دور کرنے والی ہے۔ اور اسی طرح مشرکین نے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ پر بہتان گھڑتے اور جھوٹ باندھتے ہوئے بغیر کسی علم کے اللہ تعالیٰ کے بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو علم کے بغیر کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ذمے لگاتا ہے اور اس پر ایسے بدترین نقص کا بہتان باندھتا ہے جس سے اس کی تنزیہ واجب ہے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو مشرکین کی افترا پردازیوں سے منزہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ وَتَ٘عٰ٘لٰ٘ى عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ ’’وہ ان باتوں سے جو اس کی نسبت بیان کرتے ہیں پاک ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص، آفت اور عیب سے منزہ ہے۔
#
{101} {بديع السموات والأرض}؛ أي: خالقهما ومتقن صنعتهما على غير مثال سبق بأحسن خلق ونظام وبهاء لا تقترحُ عقول أولي الألباب مثله، وليس له في خلقهما مشارك. {أنَّى يكونُ له ولدٌ ولم تكن له صاحبةٌ}؛ أي: كيف يكون لله الولد وهو الإله السيد الصمد الذي لا صاحبةَ له؛ أي: لا زوجة، وهو الغني عن مخلوقاته، وكلها فقيرةٌ إليه مضطرةٌ في جميع أحوالها إليه، والولد لا بدَّ أن يكون من جنس والده، والله خالق كل شيء، وليس شيءٌ من المخلوقات مشابهاً لله بوجه من الوجوه. ولما ذكر عمومَ خَلْقِهِ للأشياء؛ ذكر إحاطة علمه بها، فقال: {وهو بكلِّ شيءٍ عليمٌ}، وفي ذكر العلم بعد الخلق إشارة إلى الدليل العقلي إلى ثبوت علمه، وهو هذه المخلوقات وما اشتملت عليه من النظام التامِّ والخلق الباهر؛ فإنَّ في ذلك دلالة على سَعَة علم الخالق وكمال حكمته؛ كما قال تعالى: {ألا يعلمُ مَنْ خَلَقَ وهو اللطيف الخبير}، وكما قال تعالى: {وهو الخلاَّقُ العليم}.
[101] ﴿ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ ’’نئی طرح پر بنانے والا آسمانوں اور زمین کا‘‘ اللہ تعالیٰ ان کو تخلیق کرنے والا بغیر کسی سابقہ نمونے کے، ان کو مہارت کے ساتھ بہترین شکل میں ، بہترین نظام اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا ہے۔ بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل اس جیسی کوئی چیز وجود میں لانے سے قاصر ہے۔ اسی طرح زمین اور آسمان کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک بھی نہیں ۔ ﴿اَنّٰى یَكُ٘وْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُ٘نْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ﴾ ’’کیوں کر ہو سکتی ہے اس کی اولاد جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں ہے؟‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ وہ بے نیاز، سردار اور الٰہ حق ہے جس کی کوئی ساتھی، یعنی بیوی نہیں ہے وہ اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج اور اپنے تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے مجبور ہے اور اولاد لازمی طورپر اپنے باپ کی جنس سے ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اس کی مخلوقات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی بھی پہلو سے اس کی مشابہ ہو۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر کا عمومی ذکر فرمایا ہے کہ اس نے تمام اشیا کو پیدا کیا ہے، اس لیے اس نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ اس کا علم ان تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ﴿ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ﴾ ’’وہ ہر چیز کو جانتا ہے‘‘ تخلیق کے بعد علم کا ذکر کرنا اس دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے کہ اسے اپنی مخلوق کا علم بھی ہے اور مخلوق میں اس کی پیدا کردہ تمام چیزیں اور وہ پورا نظام ہے جس پر کائنات قائم ہے۔ اس لیے کہ اس میں خالق کے علم کی وسعت اور اس کی کامل حکمت پر دلیل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ١ؕ وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الملک: 67؍14) ’’بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ وہ تو پوشیدہ اور باریک امور سے آگاہ اور ان کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘اور فرمایا: ﴿وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ﴾(یس: 36؍81) ’’وہ بڑا پیدا کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘
#
{102} ذلكم الذي خلق ما خلق وقدَّر ما قدَّر؛ {اللهُ ربُّكم}؛ أي: المألوهُ المعبودُ الذي يستحقُّ نهاية الذُّلِّ ونهاية الحبِّ، الربُّ الذي ربَّى جميع الخلق بالنعم، وصرف عنهم صنوف النقم، خالق كل شيءٍ لا إله إلا هو {فاعبدوه}؛ أي: إذا استقرَّ وثبت أنه الله الذي لا إله إلاَّ هو؛ فاصرِفوا له جميع أنواع العبادة، وأخلصوها لله، واقصدوا بها وجهه؛ فإنَّ هذا هو المقصود من الخلق الذي خُلِقوا لأجله، {وما خَلَقْتُ الجنَّ والإنسَ إلا لِيَعبُدُونِ}. {وهو على كل شيء وكيل}، أي: جميع الأشياء تحت وكالة الله وتدبيره خلقاً وتدبيراً وتصريفاً. ومن المعلوم أن الأمر المتصرَّف فيه يكون استقامته وتمامه وكمال انتظامه بحسب حال الوكيل عليه، ووكالته تعالى على الأشياء ليست من جنس وكالة الخلق؛ فإن وكالتهم وكالة نيابة، والوكيل فيها تابع لموكله، وأما الباري تبارك وتعالى؛ فوكالته من نفسه لنفسه، متضمنة لكمال العلم وحسن التدبير والإحسان فيه والعدل، فلا يمكن أحداً أن يستدرك على الله، ولا يرى في خلقه خللاً ولا فطوراً، ولا في تدبيره نقصاً وعيباً، ومن وكالته أنه تعالى توكَّل ببيان دينه وحفظه عن المزيلات والمغيِّرات، وأنه تولَّى حفظ المؤمنين وعصمتهم عما يزيل إيمانهم ودينهم.
[102] ﴿ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ﴾ ’’یہی اللہ تمھارا رب ہے۔‘‘ یعنی یہ معبود، جو انتہائی تذلل اور انتہائی محبت کا مستحق ہے وہی تمھارا رب ہے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی ربوبیت کا انتظام فرمایا اور ان سے مختلف اصناف کی تکالیف کو دور ہٹایا۔ ﴿ لَاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّا هُوَ١ۚ خَالِقُ كُ٘لِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُ ﴾ ’’اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ہر چیز کا خالق ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو‘‘ یعنی جب یہ بات ثابت ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اپنی ہر قسم کی عبادت کا رخ اسی کی طرف پھیر دو اپنی تمام عبادات کو اسی کے لیے خالص کرو۔ اور ان عبادات میں صرف اسی کی رضا کو مقصد بناؤ۔ تخلیق کائنات کا مقصد بھی یہی ہے اور اسی کی خاطر ان کو پیدا کیا گیا ہے ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْ٘سَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 51؍56) ’’میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘ ﴿وَهُوَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ ﴾ ’’اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے‘‘ یعنی تمام اشیا تخلیق و تدبیر اور تصرف کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی وکالت اور بندوبست کے تحت ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ امر جو کسی کے تصرف میں دیا گیا ہے، اس کی استقامت، اس کا اتمام اور اس کا کمال انتظام وکیل کے حسب حال ہوتا ہے۔ تمام اشیاء پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وکالت، مخلوق کی وکالت کی مانند نہیں ہے کیونکہ مخلوق کی وکالت تو درحقیقت نیابت ہے اور اس میں وکیل اپنے موکل کے تابع ہوتا ہے۔ جہاں باری تعالیٰ کی ذات ہے تو اس کی وکالت اپنی طرف سے اپنے لیے ہوتی ہے جو کمال علم، حسن تدبیر اور عدل و احسان کو متضمن ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر استدراک (کسی کوتاہی کا ازالہ) کرے نہ اسے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی خلل نظر آئے گا اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی نقص اور عیب۔ اللہ تعالیٰ کی وکالت کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کی توضیح و تبیین کا کام اپنے ذمہ لیا اور دین کو خراب کرنے اور بدلنے والے تمام امور سے اس کی حفاظت کی اور وہ اہل ایمان کی حفاظت اور ایسے امور سے ان کو بچانے کا ضامن بنا جو ان کے دین و ایمان کو خراب کرتے ہیں ۔
#
{103} {لا تدركه الأبصار}: لعظمته وجلالِهِ وكماله، أي: لا تحيط به الأبصار وإن كانت تراه وتفرح بالنظر إلى وجهه الكريم، فنَفْيُ الإدراك لا يَنْفي الرؤية، بل يثبتها بالمفهوم؛ فإنه إذا نفى الإدراك الذي هو أخص أوصاف الرؤية؛ دلَّ على أن الرؤية ثابتة؛ فإنه لو أراد نفي الرؤية؛ لقال: لا تراه الأبصارُ ... ونحو ذلك، فعلم أنه ليس في الآية حجة لمذهب المعطلة الذين ينفون رؤية ربِّهم في الآخرة، بل فيها ما يدل على نقيض قولهم. {وهو يدرِكُ الأبصار}؛ أي: هو الذي أحاط علمُهُ بالظواهر والبواطن، وسمعُهُ بجميع الأصوات الظاهرة والخفية، وبصرُهُ بجميع المبصرات صغارها وكبارها، ولهذا قال: {وهو اللطيف الخبير}؛ أي: الذي لَطُفَ علمه وخبرته ودقَّ حتى أدرك السرائر والخفايا والخبايا والبواطن، ومن لطفه أنه يسوقُ عبدَه إلى مصالح دينه، ويوصلها إليه بالطرق التي لا يشعر بها العبد ولا يسعى فيها، ويوصله إلى السعادة الأبدية والفلاح السرمديِّ من حيث لا يحتسب، حتى إنه يقدِّرُ عليه الأمورَ التي يكرهها العبدُ ويتألَّمُ منها ويدعو اللهَ أن يزيلَها؛ لعلمه أن دينَهُ أصلح؛ وأن كمالَه متوقِّفٌ عليها؛ فسبحان اللطيفِ لما يشاء الرحيم بالمؤمنين.
[103] ﴿ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ ’’اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں ‘‘ اس کی عظمت اور اس کے جلال و کمال کی بنا پر نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں ، یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ اگرچہ آخرت میں اس کو دیکھ سکیں گی اور اس کے چہرۂ مکرم کے نظارے سے خوش ہوں گی۔ پس ادراک کی نفی سے رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ مفہوم مخالف کی بنا پر رؤیت کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ ادراک، جو کہ رؤیت کا ایک خاص وصف ہے، کی نفی رؤیت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر اس آیت کریمہ سے رؤیت باری تعالیٰ کی نفی مراد ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہوتا (لَا تَرَاہُ الْاَبْصَارُ) یا اس قسم کا کوئی اور فقرہ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں معطلہ کے مذہب پر کوئی دلیل نہیں جو آخرت میں رب تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں ۔ بلکہ اس سے ان کے مذہب کے نقیض (برعکس) کا اثبات ہوتا ہے۔ ﴿ وَهُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ﴾ ’’اور وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے‘‘ یعنی وہی ہے جس کے علم نے ظاہر و باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کی سماعت تمام جہری اور خفیہ آوازوں کو سنتی ہے اور بصارت تمام چھوٹی بڑی مرئیات کو دیکھتی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾ ’’اور وہ نہایت باریک بین، خبردار ہے‘‘ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں ، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک کر لیتا ہے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کی اس کے دینی مصالح کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ان مصالح کو اس کے پاس اس طریقے سے پہنچاتا ہے کہ بندے کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا اور اسے ان مصالح کے حصول کے لیے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ وہ اپنے بندے کو ابدی سعادت اور دائمی فلاح کی منزل پر اس طرح پہنچاتا ہے جس کا وہ اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ وہ بندے کے لیے ایسے امور مقدر کر دیتا ہے جنھیں بندہ ناپسند کرتا ہے اور ان کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ان کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا دین اس کے لیے زیادہ درست ہے اور اس کا کمال انھی امور پر موقوف ہے۔ پاک ہے وہ لطف و کرم والی باریک بین ذات جو مومنوں کے ساتھ بہت رحیم ہے۔
#
{104} {قد جاءكم بصائرُ من ربِّكم فمن أبصر فلنفسِهِ ومن عَمِيَ فعليها وما أنا عليكم بحفيظٍ}: لما بيَّن تعالى من الآيات البينات والأدلة الواضحات الدالة على الحقِّ في جميع المطالب والمقاصد؛ نبَّه العباد عليها، وأخبر أن هدايتهم وضدها لأنفسهم، فقال: {قد جاءَكُم بصائِرُ من ربِّكُم}؛ أي: آيات تبيِّن الحقَّ وتجعله للقلب بمنزلة الشمس للأبصار؛ لما اشتملت عليه من فصاحة اللفظ وبيانه ووضوحه ومطابقته للمعاني الجليلة والحقائق الجميلة؛ لأنَّها صادرةٌ من الربِّ الذي ربَّى خلقه بصنوف نعمه الظاهرة والباطنة، التي من أفضلها وأجلها تبيين الآيات وتوضيح المشكلات. {فمن أبصر}: بتلك الآياتِ مواقعَ العبرة وعمل بمقتضاها {فلنفسه}: فإنَّ الله هو الغنيُّ الحميد، ومن عَمِيَ بأن بُصِّرَ فلم يَتَبَصَّر، وزُجِرَ فلم ينزجِرْ، وبُيِّن له الحقُّ فما انقاد له ولا تواضع؛ فإنما عماه مضرَّتُه عليه. {وما أنا}: أيها الرسول، {عليكم بحفيظٍ}: أحفظ أعمالَكم وأراقِبُها على الدوام، إنما عليَّ البلاغُ المبين، وقد أدَّيته وبلَّغت ما أنزل الله إليَّ؛ فهذه وظيفتي، وما عدا ذلك فلست موظفاً فيه.
[104] جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور واضح دلائل کو بیان کر دیا جو تمام مطالب و مقاصد میں حق پر دلالت کرتی ہیں تو ان کو آگاہ کر کے خبردار کر دیا کہ ان کی ہدایت اور گمراہی خود ان کی ذات کے لیے ہے۔ پس فرمایا: ﴿ قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’تحقیق آچکیں تمھارے پاس نشانیاں تمھارے رب کی طرف سے‘‘ یعنی تمھارے پاس ایسی آیات آ گئی ہیں جو حق کو واضح کرتی ہیں وہ قلب کے لیے حق کو ایسے واضح اور نمایاں کر دیتی ہیں جیسے آنکھوں کے سامنے سورج۔ کیونکہ یہ آیات فصاحت لفظ، بیان و وضوح، معانی جلیلہ کے ساتھ مطابقت اور حقائق جمیلہ پر مشتمل ہیں ۔ اس لیے کہ یہ اس رب کی طرف سے صادر ہوئی ہیں جو اپنی مختلف ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے اپنی مخلوق کی تربیت کرتا ہے اور ان میں جلیل ترین نعمت تبیین آیات اور توضیح مشکلات ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ اَبْصَرَ ﴾ ’’پس جس نے دیکھ لیا‘‘ جو کوئی ان آیات کے ذریعے سے عبرت کے مواقع دیکھ لیتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے ﴿فَلِنَفْسِهٖ ﴾ ’’تو یہ خود اس کی ذات کے لیے ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز اور قابل تعریف ہے ﴿ وَمَنْ عَمِیَ ﴾ ’’اور جو اندھا رہا‘‘ یعنی وہ دیکھتا تو ہے مگر بصیرت کے ساتھ غور و فکر نہیں کرتا۔ اسے زجر و توبیخ کی جاتی ہے مگر وہ اسے قبول نہیں کرتا، اس کے سامنے حق واضح کیا جاتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتا ہے نہ اس کے سامنے جھکتا ہے، پس اس کے اندھے پن کا نقصان اسی کے لیے ہے۔ ﴿ وَمَاۤ اَنَا ﴾ یعنی اے رسولe کہہ دیجیے ’’اور نہیں ہوں میں ‘‘ ﴿عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ ﴾ ’’تم پر نگہبان‘‘ کہ میں تمھارے اعمال پر نظر رکھوں اور دائمی طور پر ان کی نگرانی کروں میری ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے اور میں نے یہ ذمہ داری ادا کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر نازل کیا تھا میں نے پہنچا دیا اور یہی میرا فرض ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ میرے فرائض میں شامل نہیں ۔( مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے آیت نمبر۱۰۴ کے بعد آیت نمبر ۱۰۵ تا ۱۰۷ کی تفسیر نہیں کی۔از محقق)
آیت: 105 - 108 #
{[وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (105) اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (106) وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (107)] وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (108)}.
اور اسی طرح پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ہم آیات اور تا کہ کہیں وہ پڑھاہے تو نے (کسی سے) اور تا کہ ہم بیان کریں وہ، ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں (105) پیروی کریں اس چیز کی جو وحی کی جاتی ہے آپ کی طرف، آپ کے رب کی جانب سے، نہیں کوئی معبود مگر وہی اور اعراض کیجیے مشرکین سے (106) اور اگر چاہتا اللہ تو نہ شرک کرتے وہ اور نہیں بنایا ہم نے آپ کو ان پر محافظ اور نہیں ہیں آپ ان کے ذمے دار(107) اور مت گالی دو ان کو جنھیں پکارتے ہیں وہ اللہ کے سوا، پس گالی دیں گے وہ( بھی) اللہ کو حد سے گزرتے ہوئے، بغیر علم کے، اسی طرح مزین کر دیا ہم نے ہر امت کے لیے ان کا عمل، پھر طرف اپنے رب کی ان کی واپسی ہے، پس وہ خبر دے گا انھیں اس کی جو تھے وہ عمل کرتے (108)
#
{108} ينهى الله المؤمنين عن أمر كان جائزاً بل مشروعاً في الأصل، وهو سبُّ آلهة المشركين التي اتُّخذت أوثاناً وآلهة مع الله، التي يُتَقَرَّب إلى الله بإهانتها وسبها، ولكن لمَّا كان هذا السبُّ طريقاً إلى سبِّ المشركين لربِّ العالمين، الذي يجب تنزيه جنابه العظيم عن كل عيبٍ وآفةٍ وسبٍّ وقدح؛ نهى الله عن سبِّ آلهة المشركين؛ لأنهم يحمون لدينهم ويتعصَّبون له؛ لأن كلَّ أمة زين الله لهم عملهم فرأوه حسناً وذبوا عنه ودافعوا بكل طريق، حتى إنهم يسبُّون الله ربَّ العالمين الذي رسخت عظمتُهُ في قلوب الأبرار والفجار إذا سبَّ المسلمون آلهتهم، ولكن الخلقَ كلَّهم مرجعُهم ومآلُهم إلى الله يوم القيامة، يعرَضون عليه وتعرَضُ أعمالهم، فينبِّئهم بما كانوا يعملون من خيرٍ وشرٍّ. وفي هذه الآية الكريمة دليلٌ للقاعدة الشرعيَّة، وهو أن الوسائل تُعتبر بالأمور التي توصِلُ إليها، وأن وسائل المحرم ـ ولو كانت جائزة ـ تكون محرمةً إذا كانت تفضي إلى الشرِّ.
[108] اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک ایسے کام سے روکا ہے جو بنیادی طور پر جائز بلکہ مشروع ہے اور وہ ہے مشرکین کے معبودوں کو سب و شتم کرنا جن کے بت بنائے گئے اور جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا لیا گیا ہے، ان کی اہانت اور سب و شتم سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ سب و شتم مشرکین کے لیے اللہ رب العالمین کو سب و شتم کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے جس عظیم ذات کی، ہر عیب و آفت اور سب و شتم سے تنزیہہ واجب ہے، اس لیے مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے دین میں متعصب ہیں اور اپنے دین کے لیے جوش میں آجاتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے اعمال کو ان کے لیے مزین کر دیا ہے۔ وہ اعمال انھیں اچھے دکھائی دیتے ہیں لہذا وہ ہر طریقے سے ان کی مدافعت کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر مسلمان ان کے معبودوں کو گالی دیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھی گالی دیے بغیر نہیں رہتے جس کی عظمت ابرار و فجار کے دلوں میں راسخ ہے۔ مگر تمام مخلوق کو انجام کار قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے پھر انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور ان کے اعمال پیش کیے جائیں گے اور جو وہ اچھا برا کام کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس شرعی قاعدہ پر دلیل ہے کہ وسائل کا اعتبار ان امور کے ذریعے سے کیا جاتا ہے جن تک یہ پہنچاتے ہیں چنانچہ امور محرمہ کی طرف لے جانے والے وسائل و ذرائع حرام ہیں ، خواہ وہ فی نفسہ حلال ہی کیوں نہ ہوں ۔
آیت: 109 - 111 #
{ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ (109) وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (110) وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ (111)}.
اور قسمیں کھائیں انھوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کہ اگر آجائے ان کے پاس(مخصوص) نشانی تو ضرور ایمان لائیں گے وہ اس پر، کہہ دیجیے! یقینا نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں اور تمھیں کون سمجھائے یہ کہ جب وہ نشانی آجائے گی ، وہ ایمان نہیں لائیں گے(109) اور پھیر دیں گے ہم ان کے دل اوران کی آنکھیں ، جیسے نہیں ایمان لائے تھے وہ اس پر پہلی مرتبہ اور چھوڑ دیں گے ہم ان کو ان کی سر کشی میں ، سرگرداں، پھرتے ہوئے(110) اور اگر بلاشبہ ہم نازل کرتے ان کی طرف فرشتے اور کلام کرتے ان سے مُردےاور اکٹھا کر دیتے ہم ان پر ہر چیز کو سامنے، تب بھی نہ تھے وہ کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ چاہتا اللہ لیکن اکثر ان کے جہالت سے کام لیتے ہیں(111)
#
{109} أي: وأقسم المشركون المكذِّبون للرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - {بالله جَهْدَ أيمانِهِم}؛ أي: قسماً اجتهدوا فيه وأكَّدوه، {لئن جاءتْهم آيةٌ}: تدلُّ على صدق محمد - صلى الله عليه وسلم -، {ليؤمنُنَّ بها}: وهذا الكلام الذي صدر منهم لم يكن قصدُهم فيه الرشاد، وإنما قصدُهم دفع الاعتراض عليهم وردُّ ما جاء به الرسول قطعاً؛ فإنَّ الله أيَّد رسوله - صلى الله عليه وسلم - بالآيات البينات والأدلة الواضحات التي عند الالتفات لها لا تَبْقَى أدنى شُبهة ولا إشكال في صحَّة ما جاء به؛ فطلبهم بعد ذلك للآيات من باب التعنُّت الذي لا يلزم إجابته، بل قد يكون المنع من إجابتهم أصلح لهم؛ فإنَّ الله جرت سنَّتُهُ في عباده أن المقترحين للآيات على رسلهم إذا جاءتهم فلم يؤمنوا بها أنه يعاجلهم بالعقوبة، ولهذا قال: {قل إنَّما الآياتُ عند الله}؛ أي: هو الذي يرسلها إذا شاء، ويمنعها إذا شاء، ليس لي من الأمر شيء، فطلبُكم مني الآيات ظلمٌ وطلبٌ لما لا أملك، وإنما توجَّهون إلى توضيح ما جئتكم به وتصديقه، وقد حصل، ومع ذلك؛ فليس معلوماً أنَّهم إذا جاءتهم الآيات يؤمنون ويصدِّقون، بل الغالب ممن هذه حاله [أنه] لا يؤمن، ولهذا قال: {وما يشعِرُكم أنها إذا جاءتْ لا يؤمنونَ}.
[109] یعنی محمد رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے مشرکین قسمیں اٹھاتے ہیں ﴿ بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ ﴾ یعنی زور دار اور موکد قسمیں ﴿ لَىِٕنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ ﴾ ’’اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ گئی‘‘ جو محمد مصطفیe کی صداقت پر دلالت کرتی ہو ﴿ لَّیُؤْمِنُ٘نَّ بِهَا ﴾ ’’تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے‘‘ یہ کلام جو ان سے صادر ہوا اس سے ان کا مقصد طلب ہدایت نہ تھا بلکہ ان کا مقصد تو محض دفع اعتراض اور اس چیز کو قطعی طور پر ٹھکرانا تھا جو انبیا و رسل لے کر آئے ہیں ۔ بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کی آیات بینات اور واضح دلائل کے ساتھ تائید فرمائی۔ ان دلائل کی طرف التفات کرنے سے اس بات میں ادنیٰ سا شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا کہ جو کچھ آپe لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ صحیح ہے۔ اس کے بعد ان آیات و معجزات کا مطالبہ کرنا محض تعنت ہے جس کا جواب دینا لازم نہیں بلکہ کبھی کبھی ان کو جواب نہ دینا ان کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اس کی سنت یہ ہے کہ اس کے انبیا و رسل سے معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس جب معجزات آ جاتے ہیں اور وہ ان پر ایمان نہیں لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتاہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے! کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو جب چاہتا ہے معجزات نازل کرتا ہے اور وہ جب چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں ، لہٰذا مجھ سے تمھارا مطالبہ کرنا ظلم اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جس پر مجھے کوئی اختیار نہیں ، تاہم تمھارا مقصود اس سے صرف اس چیز کی توضیح و تصدیق ہے جو میں لایا ہوں جبکہ وہ ثابت شدہ امر ہے۔ بایں ہمہ یہ بھی معلوم نہیں کہ جب ان کے پاس یہ نشانیاں آ جائیں گی تو یہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی تصدیق کریں گے۔ بلکہ جن کے احوال یہ ہیں کہ وہ غالب طور پر صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق سے محروم ہونے کی و جہ سے ایمان نہیں لاتے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَمَا یُشْ٘عِرُؔكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ ’’اور تمھیں کیا معلوم کہ جب ان کے پاس نشانیاں آ بھی جائیں ، تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
#
{110} {ونُقَلِّبُ أفئدتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمِنوا به أولَ مرةٍ ونذرُهم في طُغيانهم يعمَهونَ}؛ أي: ونعاقبهم إذا لم يؤمنوا أول مرة يأتيهم فيه الداعي وتقوم عليهم الحجَّة بتقليب القلوب والحيلولة بينهم وبين الإيمان وعدم التوفيق لسلوك الصراط المستقيم، وهذا من عدل الله وحكمته بعباده؛ فإنهم الذين جَنَوْا على أنفسهم، وفُتح لهم الباب فلم يدخلوا، وبُيِّن لهم الطريق فلم يسلكوا؛ فبعد ذلك إذا حُرِموا التوفيق؛ كان مناسباً لأحوالهم.
[110] ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ ﴾ ’’اور ہم الٹ دیں گے ان کے دل اور ان کی آنکھیں جیسے کہ ایمان نہیں لائے نشانیوں پر پہلی بار اور ہم چھوڑے رکھیں گے ان کو ان کی سرکشی میں بہکتے ہوئے‘‘ یعنی جب ان کے پاس حق کی دعوت دینے والا آیا اور ان پر حجت قائم ہو گئی مگر وہ ایمان نہیں لائے۔ اس پہلی مرتبہ کے انکار کے نتیجے میں ہم ان کو عذاب دیں گے ان کے دلوں کو حق سے پھیر کر، ان کے اور ایمان کے درمیان حائل ہو کر اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق سے محروم کرکے۔ یہ بندوں کے ساتھ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔ انھوں نے اپنے آپ پر جرم کا ارتکاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دروازہ کھولا مگر وہ اس میں داخل نہیں ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہدایت کا راستہ واضح کر دیا لیکن وہ اس پر گامزن نہ ہوئے۔ اگر اس کے بعد ان کو توفیق سے محروم کر دیا گیا تو یہ ان کے احوال کے عین مطابق ہے۔
#
{111} وكذلك تعليقهم الإيمان بإرادتهم ومشيئتهم وحدهم وعدم الاعتماد على الله من أكبر الغلط؛ فإنهم لو جاءتهم الآياتُ العظيمة من تنزيل الملائكة إليهم يشهدون للرسول بالرسالة وتكليم الموتى وبعثهم بعد موتهم، وحشرنا عليهم كلَّ شيءٍ حتى يكلِّمهم قبلاً ومشاهدةً ومباشرة بصدق ما جاء به الرسول؛ ما حَصَلَ لهم الإيمان إذا لم يشأ الله إيمانهم، ولكن أكثرهم يجهلون؛ فلذلك رتَّبوا إيمانهم على مجرد إتيان الآيات، وإنما العقل والعلم أن يكون العبد مقصوده اتِّباع الحق، ويطلبه بالطرق التي بيَّنها الله، ويعمل بذلك، ويستعين ربَّه في اتباعه، ولا يتَّكل على نفسه وحوله وقوته، ولا يطلب من الآيات الاقتراحية ما لا فائدة فيه.
[111] اسی طرح ان کا اپنے ایمان کو اپنے ارادے اور خود اپنی مشیت سے معلق کرنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا، سب سے بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے پاس بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات بھی آ جائیں ، فرشتے نازل ہو کر رسول کی رسالت کی شہادت دے دیں ، ان کے ساتھ مردے باتیں کرنے لگیں اور خود ان کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا جائے ﴿ وَحَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ ﴾ ’’اور زندہ کر دیں ہر چیز کو ان کے سامنے‘‘ حتیٰ کہ وہ ان کے ساتھ باتیں کریں ﴿قُبُلًا﴾ ’’سامنے‘‘ یعنی ان کے سامنے نظر آتے ہوئے اس چیز کی تصدیق کریں جسے لے کر رسول آیا ہے، تب بھی ان کے حصے میں ایمان نہیں آسکتا، اگر اللہ کی مشیت ان کے ایمان لانے کی نہ ہو۔ مگر ان میں سے اکثر جاہل ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے ایمان کو مجرد آیات و معجزات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ عقل اور علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ بندے کا مطلوب و مقصود اتباع حق ہو اور وہ اسے ان طریقوں سے تلاش کرے جنھیں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے، حق پر عمل کرے اور اس کی اتباع میں اپنے رب کی مدد طلب کرے۔ اپنے نفس اور اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہ کرے اور ان آیات و معجزات کا مطالبہ نہ کرے جن کا کوئی فائدہ نہیں ۔
آیت: 112 - 113 #
{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (112) وَلِتَصْغَى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ (113)}.
اور اسی طرح بنائے ہم نے ہر نبی کے دشمن، شیطان انسانوں اور جنوں (دونوں) میں سے، ڈالتا ہے ایک ان کا دوسرے کی طرف ملمع کی ہوئی بات، دھوکہ دینے کے لیے اور اگر چاہتا آپ کا رب تو نہ کرتے وہ یہ (کام)، پس چھوڑیے آپ ان کو اور جو وہ افترا باندھتے ہیں(112)اور تاکہ مائل ہو جائیں اس (جھوٹ) کی طرف دل ان کے جو نہیں ایمان لاتے آخرت پراور تا کہ راضی ہوںوہ اس (جھوٹ) سےاور تاکہ کرتے رہیں (برے کام) جو وہ کر رہے ہیں(113)
#
{112} يقول تعالى مسلياً لرسولِه [محمدٍ]- صلى الله عليه وسلم -: وكما جعلنا لك أعداء يردُّون دعوتك ويحاربونك ويحسدونك؛ فهذه سنتنا أن نجعل لكلِّ نبي نرسله إلى الخلق أعداءً من شياطين الإنس والجن يقومون بضد ما جاءت به الرسل، {يوحي بعضُهم إلى بعض زُخْرُفَ القول غروراً}؛ أي: يزين بعضُهم لبعض الأمر الذي يدعون إليه من الباطل ويزخرفونَ له العبارات حتى يجعلوه في أحسن صورة ليغترَّ به السفهاءُ وينقادَ له الأغبياءُ الذين لا يفهمون الحقائق ولا يفقهون المعاني، بل تعجبهم الألفاظ المزخرفة والعبارات المموِّهة، فيعتقدون الحقَّ باطلاً والباطل حقًّا.
[112] اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہe کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے جس طرح ہم نے آپ کے دشمن بنا دیے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے ہیں اور آپ سے حسد کرتے ہیں تو یہ ہماری سنت ہے، ہم ہر نبی کے، جس کو ہم مخلوق کی طرف مبعوث کرتے ہیں ، جن اور انسانوں میں سے دشمن مقرر کر دیتے ہیں وہ ان تمام امور کی مخالفت کرتے ہیں جنھیں رسول لے کر آئے ہیں ۔ ﴿ یُوْحِیْ بَعْضُ٘هُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُ٘رُوْرًا ﴾ ’’سکھلاتے ہیں وہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں ، فریب دینے کے لیے‘‘ یعنی وہ ایک دوسرے کو ان باطل امور کو سجا کر اور مزین کر کے پیش کرتے ہیں جن کی طرف وہ دعوت دیتے ہیں اور وہ اس کی تعبیرات کو آراستہ کر کے بہترین اسلوب میں پیش کرتے ہیں تاکہ بیوقوف اس سے دھوکہ کھا جائیں اور سیدھے سادے لوگ ان کے سامنے سراطاعت خم کر دیں جو حقائق کا فہم رکھتے ہیں نہ معانی کو سمجھتے ہیں بلکہ خوبصورت الفاظ اور ملمع سازی ان کو اچھی لگتی ہے، پس وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتے ہیں ۔
#
{113} ولهذا قال تعالى: {ولِتَصْغَى إليه}؛ أي: ولتميلَ إلى ذلك الكلام المزخرف {أفئدةُ الذين لا يؤمنون بالآخرة}: لأن عدم إيمانهم باليوم الآخر وعدم عقولهم النافعة يحمِلُهم على ذلك، {ولِيَرْضَوْه}: بعد أن يَصْغَوا إليه، فيصغَوْن إليه أولاً، فإذا مالوا إليه ورأوا تلك العبارات المستحسنة؛ رضوه وزُيِّن في قلوبهم وصار عقيدةً راسخةً وصفة لازمة، ثم ينتجُ من ذلك أن يقترفوا من الأعمال والأقوال ما هم مقترفون؛ أي: يأتون من الكذب بالقول والفعل ما هو من لوازم تلك العقائد القبيحة؛ فهذه حال المفترين شياطين الإنس والجن المستجيبين لدعوتهم، وأما أهل الإيمان بالآخرة وأولو العقول الوافية والألباب الرزينة؛ فإنهم لا يغترُّون بتلك العبارات، ولا تخلبهم تلك التمويهات، بل همَّتهم مصروفةٌ إلى معرفة الحقائق، فينظرون إلى المعاني التي يدعو إليها الدعاة؛ فإن كانت حقًّا؛ قبلوها وانقادوا لها، ولو كُسِيَتْ عباراتٍ رديةً وألفاظاً غير وافية، وإن كانت باطلاً؛ ردُّوها على من قالها، كائناً مَن كان، ولو ألبست من العبارات المستحسنة ما هو أرقُّ من الحرير. ومن حكمةِ اللهِ تعالى في جعله للأنبياء أعداءً وللباطل أنصاراً قائمين بالدعوة إليه: أن يحصُلَ لعبادِهِ الابتلاءُ والامتحانُ؛ ليتميَّز الصادقُ من الكاذب، والعاقل من الجاهل، والبصير من الأعمى. ومن حكمتِهِ: أنَّ في ذلك بياناً للحقِّ وتوضيحاً له؛ فإنَّ الحقَّ يستنير ويتَّضح إذا قام الباطل يصارعه ويقاومه؛ فإنه حينئذ يتبيَّن من أدلة الحقِّ وشواهده الدالة على صدقه وحقيقته ومن فساد الباطل وبطلانه ما هو من أكبر المطالب التي يتنافس فيها المتنافسون.
[113] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ ﴾ ’’تاکہ اس کی طرف مائل ہوں ۔‘‘ یعنی اس مزین کلام کو سننے کی طرف مائل ہوں ﴿ اَفْــِٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’ان لوگوں کے دل جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے‘‘ کیونکہ یوم آخرت پر ان کا ایمان نہ رکھنا اور عقل نافع سے ان کا محروم ہونا، ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے ﴿ وَلِیَ٘رْضَوْهُ ﴾ ’’اور تاکہ وہ اس کو پسند بھی کر لیں ‘‘ یعنی اس کی طرف مائل ہونے کے بعد۔ پس ان کے دل پہلے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں پھر ان خوبصورت اور مزین عبارت کو جب دیکھتے ہیں تو ان کو پسند کرنے لگتے ہیں یہ عبارات ان کے دل میں سج جاتی ہیں اور ایک راسخ عقیدہ اور لازم وصف بن جاتی ہیں ، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے اس قسم کے اعمال سرزد ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے قول و فعل میں جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان عقائد قبیحہ کا لازمہ ہیں پس یہ حال ان شیاطین جن و انس کا ہے جو ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں ۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے والے عقل مند اور سنجیدہ لوگ تو وہ ان عبارات سے دھوکہ کھاتے ہیں نہ ان ملمع سازیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کی ہمت اور ان کے ارادے حقائق کی معرفت حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ان معانی پر نظر رکھتے ہیں جن کی طرف دعوت دینے والے دعوت دیتے ہیں ۔ اگر یہ معانی حق ہیں تو انھیں قبول کر لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں خواہ ان کو کم تر عبارات اور غیر وافی الفاظ میں کیوں نہ بیان کیا گیا ہو اور اگر یہ معانی باطل ہیں تو انھیں ان کے قائل کی طرف لوٹا دیتے ہیں خواہ ان کا قائل کوئی بھی ہو اور خواہ ان الفاظ کو ریشم سے بھی زیادہ خوشنما لبادہ اوڑھا دیا گیا ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ اس نے انبیا کرامo کے دشمن بنا دیے اور باطل کے انصار و اعوان مقرر کر دیے جو باطل کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ اس کے بندوں کی آزمائش اور امتحان ہو سکے اور سچے، جھوٹے، عقل مند اور جاہل، صاحب بصیرت اور اندھے کے درمیان امتیاز ہو سکے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے اندر حق کی تبیین اور توضیح ہے کیونکہ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق روشن ہو کر اور نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ تب اس وقت حق کے وہ دلائل اور شواہد واضح ہو جاتے ہیں جو حق کی صداقت اور حقیقت اور باطل کے فساد اور اس کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں جو سب سے بڑا مقصد ہے جس کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آیت: 114 - 115 #
{أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115)}.
کیا پس اللہ کے سوا تلاش کروں میں کوئی حاکم؟ حالانکہ وہی ہے جس نے نازل کی ہے تمھاری طر ف یہ کتاب مفصل،اور وہ لوگ کہ دی ہم نے انھیں کتاب، جانتے ہیں وہ اس بات کو کہ بلاشبہ وہ نازل شدہ ہے آپ کے رب کی طرف سے ساتھ حق کے، پس نہ ہوں آپ شک کرنے والوں سے(114) اور مکمل ہے بات آپ کے رب کی صدق اور عدل میں، نہیں ہے کوئی تبدیل کرنے والا اس کی باتوں کو اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (115)
#
{114} أي: قلْ يا أيُّها الرسولُ: {أفغير الله أبتغي حَكَماً}: أحاكم إليه وأتقيَّد بأوامره ونواهيه؛ فإن غير الله محكومٌ عليه لا حاكم، وكلُّ تدبير وحكم للمخلوق؛ فإنه مشتمل على النقص والعيب والجور، وإنما الذي يجب أن يُتَّخذ حاكماً؛ فهو الله وحده لا شريك له، الذي له الخلق والأمر {الذي أنزل إليكم الكتاب مفصَّلاً}؛ أي: موضحاً فيه الحلال والحرام والأحكام الشرعية وأصول الدين وفروعه، الذي لا بيان فوقَ بيانِهِ، ولا برهانَ أجلى من برهانه، ولا أحسن منه حكماً، ولا أقوم قيلاً؛ لأنَّ أحكامه مشتملة على الحكمة والرحمة، وأهل الكتب السابقة من اليهود والنصارى يعترفون بذلك و {يعلمونَ أنَّه منزَّلٌ من ربِّك بالحقِّ}: ولهذا تواطأت الإخبارات، {فلا} تَشُكَّنَّ في ذلك ولا {تكوننَّ من الممترين}.
[114] یعنی اے رسولe! ان سے کہہ دیجیے ﴿ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْ٘تَ٘غِیْ حَكَمًا ﴾ ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی منصف تلاش کروں ‘‘ اور اس کے پاس اپنے فیصلے لے کر جاؤں اور اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کروں ؟ کیونکہ غیر اللہ حاکم نہیں محکوم ہوتا ہے اور مخلوق کے لیے ہر تدبیر اور ہر فیصلہ نقص، عیب اور ظلم و جور پر مشتمل ہوتا ہے اور جسے حاکم بنانا واجب ہے، وہ صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات ہے جو خلق و امر کی مالک ہے۔ ﴿ وَّهُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا﴾ ’’حالانکہ اسی نے اتاری ہے تم پر کتاب واضح‘‘ یعنی جس میں حلال و حرام، احکام شریعت اور دین کے اصول و فروع واضح کیے گئے ہیں ، اس کی توضیح سے بڑھ کر کوئی توضیح نہیں ، اس کی دلیل سے روشن کوئی دلیل نہیں ، اس کے فیصلے سے اچھا کوئی فیصلہ نہیں اور اس کی بات سے زیادہ درست کسی کی بات نہیں کیونکہ اس کے احکام حکمت و رحمت پر مشتمل ہیں ۔ کتب سابقہ کے حاملین یہود و نصاریٰ اس حقیقت کو پہچانتے ہیں ﴿ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ﴾ ’’اور جانتے ہیں کہ وہ آپ کے رب کی طرف سے ٹھیک نازل ہوئی ہے‘‘ اسی لیے اخبار سابقہ اس کی موافقت کرتی ہیں ﴿ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾ پس آپ اس بارے میں شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوں ۔
#
{115} ثم وصف تفصيلها فقال: {وتمَّتْ كلمةُ ربِّك صدقاً وعدلاً}؛ أي: صدقاً في الإخبار وعدلاً في الأمر والنهي؛ فلا أصدق من أخبار الله التي أودعها هذا الكتاب العزيز، ولا أعدل من أوامره ونواهيه، {لا مبدِّلَ لكلماتِهِ}؛ حيثُ حفظها وأحكمها بأعلى أنواع الصدق وبغاية الحقِّ؛ فلا يمكن تغييرها ولا اقتراح أحسن منها. {وهو السميع}: لسائر الأصوات، باختلاف اللغات، على تفنن الحاجات، {العليم}: الذي أحاط علمُهُ بالظواهر والبواطن والماضي والمستقبل.
[115] پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ ’’اور آپ کے رب کی بات پوری سچی ہے اور انصاف کی‘‘ یعنی خبر میں صداقت اور اوامر و نواہی میں عدل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب عزیز میں جو خبریں بیان کی ہیں ان سے سچی کوئی خبر نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے بڑھ کر کسی حکم میں عدل و انصاف نہیں ۔ ﴿ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ﴾ ’’اس کی بات کو کوئی بدلنے والا نہیں ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی ہے اور صدق کی مختلف انواع اور حق کے ذریعے سے ان کو محکم کیا ہے، اس لیے ان میں تغیر و تبدل کرنا ممکن نہیں اور نہ اس سے زیادہ خوبصورت کلام وجود میں لایا جا سکتا ہے ﴿وَهُوَ السَّمِیْعُ ﴾ ’’اور وہ سنتا ہے‘‘ وہ مختلف زبانوں اور متفرق حاجتوں پر مبنی تمام آوازوں کو سن سکتا ہے ﴿الْعَلِیْمُ﴾ ’’جانتا ہے۔‘‘ جس کا علم ظاہر و باطن اور ماضی و مستقبل ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
آیت: 116 - 117 #
{وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (116) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (117)}.
اور اگر اطاعت کریں آپ اکثر کی ان میں سے جو زمین میں ہیں تو وہ بہکادیں گے آپ کو اللہ کے راستے سے، نہیں پیروی کرتے وہ مگر اپنے گمان کی اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل پچو کرتے (116)یقینا آپ کا رب، وہ خوب جانتا ہے اس کو جو بہکتا ہے اس کی راہ سےاور وہ خوب جانتا ہے ہدایت یافتہ لوگوں کو(117)
#
{116} يقول تعالى لنبيِّه محمد - صلى الله عليه وسلم - محذراً عن طاعة أكثر الناس: {وإن تُطِعْ أكثرَ مَنْ في الأرض يضلُّوكَ عن سبيل الله}: فإنَّ أكثرهم قدِ انحرفوا في أديانهم وأعمالهم وعلومهم؛ فأديانُهم فاسدةٌ، وأعمالُهم تبعٌ لأهوائِهِم، وعلومُهم ليس فيها تحقيقٌ ولا إيصالٌ لسواء الطريق، بل غايتُهم أنَّهم يتَّبعون الظنَّ الذي لا يغني من الحقِّ شيئاً، ويتخرَّصون في القول على الله ما لا يعلمون.
[116] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیe کو لوگوں کی اکثریت کی اطاعت سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے ﴿وَاِنْ تُ٘طِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اگر آپ کہنا مانیں گے اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو وہ آپ کو بہکا دیں گے‘‘ کیونکہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے دین، اعمال اور علوم سے منحرف ہو چکے ہیں ۔ پس ان کے دین فاسد اور ان کے اعمال ان کی خواہشات نفس کے تابع ہیں اور ان کے علوم میں تحقیق ہے نہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی۔ ان کا تمام تر مقصد ظن و گمان کی پیروی ہے اور ظن و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں محض اندازوں سے ایسی بات کہتے ہیں جس کا انھیں علم نہیں ۔
#
{117} ومَن كان بهذه المثابة؛ فحريٌّ أن يحذِّر اللهُ منه عبادَه ويصفُ لهم أحواله؛ لأنَّ هذا وإن كان خطاباً للنبي - صلى الله عليه وسلم -؛ فإنَّ أمتَه أسوةٌ له في سائر الأحكام التي ليست من خصائصه، والله تعالى أصدقُ قيلاً وأصدقُ حديثاً، و {هو أعلم بمن يَضِلُّ عن سبيله}، وأعلم بمن يهتدي ويهدي، فيجب عليكم أيُّها المؤمنون أن تتَّبعوا نصائحه وأوامره ونواهيه؛ لأنه أعلم بمصالحكم، وأرحم بكم من أنفسكم. ودلت هذه الآية على أنه لا يستدل على الحقِّ بكثرة أهله، ولا يدلُّ قلةُ السالكين لأمرٍ من الأمور أن يكون غير حقٍّ، بل الواقع بخلاف ذلك؛ فإنَّ أهل الحقِّ هم الأقلون عدداً الأعظمون عند الله قدراً وأجراً، بل الواجب أن يستدلَّ على الحق والباطل بالطرق الموصلة إليه.
[117] جس کے یہ احوال ہوں تو اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ڈرانا اور ان کے احوال کو بیان کرنا مناسب ہے کیونکہ اس آیت کریمہ کا خطاب اگرچہ نبی اکرمe کی طرف ہے تاہم آپ کی امت ان تمام احکام میں آپ کی تابع ہے جو خصوصی طور پر صرف آپ کے لیے نازل نہیں فرمائے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے ﴿ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖ ﴾ ’’وہ خوب جانتا ہے اس کو جو اس کے راستے سے بہکے‘‘ اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو راہ راست پر چلے اور جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرے۔ پس اے مومنو! تم پر فرض ہے کہ تم اس کی نصیحتوں پر عمل کرو اور اس کے اوامر و نواہی کی پیروی کرو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ تمھارے مصالح کا علم رکھتا ہے اور تم سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی گروہ کی کثرت سے اس کے حق ہونے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح اگر کسی معاملے میں ، اس کو اختیار کرنے والے تھوڑے ہوں تو یہ قلت ان کے ناحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ بلکہ اس کے برعکس فی الواقع حقیقت یہ ہے کہ اہل حق تعداد میں بہت کم اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر اور اجر میں بہت عظیم ہوتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ حق و باطل کی پہچان کے لیے ان ذرائع کو اختیار کیا جائے جو اس کے لیے معروف ہیں ۔
آیت: 118 - 119 #
{فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (118) وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ (119)}
پس کھاؤ تم! اس (جانور) میں سے کہ ذکر کیا گیا ہے نام اللہ کا اس پر، اگر ہو تم اس کی آیتوں پر ایمان لانے والے(118) اور کیا ہے تمھیں کہ نہ کھاؤ تم اس(جانور) میں سے کہ ذکر کیا گیا ہے نام اللہ کا اس پر؟ جبکہ واضح کر دیا ہے اس نے تمھارے لیے جو حرام کیا ہے اس نے تم پر مگر وہ کہ مجبور کردیے جاؤ تم اس(کے کھانے) پراور بلاشبہ اکثر لوگ بہکاتے ہیں(لوگوں کو) اپنی خواہشات سے،بغیر علم کے، بے شک آپ کا رب وہ خوب جانتا ہے حد سے گزرنے والوں کو(119)
#
{118 ـ 119} يأمر تعالى عباده المؤمنين بمقتضى الإيمان، وأنهم إن كانوا مؤمنين؛ فليأكلوا مما ذُكِرَ اسم الله عليه من بهيمة الأنعام وغيرها من الحيوانات المحلَّلة، ويعتقدوا حلَّها، ولا يفعلوا كما يفعله أهل الجاهلية من تحريم كثير من الحلال ابتداعاً من عند أنفسهم وإضلالاً من شياطينهم؛ فذكر الله أنَّ علامة المؤمن مخالفةُ أهل الجاهلية في هذه العادة الذميمة المتضمِّنة لتغيير شرع الله، وأنَّه أي شيء يمنعُهم من أكل ما ذُكِر اسم الله عليه؛ وقد فصَّل الله لعباده ما حرَّم عليهم وبيَّنه ووضَّحه، فلم يبق فيه إشكالٌ ولا شبهةٌ توجِبُ أن يمتنعَ من أكل بعض الحلال خوفاً من الوقوع في الحرام. ودلت الآية الكريمة على أن الأصل في الأشياء والأطعمة الإباحة، وأنه إذا لم يرد الشرعُ بتحريم شيءٍ منها؛ فإنَّه باق على الإباحة؛ فما سكتَ الله عنه؛ فهو حلالٌ؛ لأنَّ الحرام قد فصَّله الله؛ فما لم يفصِّله الله؛ فليس بحرام. ومع ذلك؛ فالحرام الذي قد فصَّله الله وأوضحه قد أباحه عند الضرورة والمخمصة؛ كما قال تعالى: {حُرِّمَتْ عليكمُ الميتةُ والدمُ ولحمُ الخنزيرِ ... } إلى أن قال: {فمنِ اضْطُرَّ في مخمصةٍ غير متجانفٍ لإثم فإنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}. ثم حذر عن كثير من الناس، فقال: {وإنَّ كثيراً لَيُضِلُّونَ بأهوائهم}؛ أي: بمجرَّد ما تهوى أنفسهم {بغيرِ علم}: ولا حجَّة؛ فليحذرِ العبد من أمثال هؤلاء، وعلامتُهم كما وصَفَهم الله لعبادِهِ أنَّ دعوتَهم غير مبنيَّة على برهانٍ ولا لهم حجَّة شرعيَّة، وإنما يوجد لهم شبهٌ بحسب أهوائهم الفاسدة، وآرائهم القاصرة؛ فهؤلاء معتدونَ على شرع الله وعلى عبادِ الله، والله لا يحبُّ المعتدين؛ بخلاف الهادين المهتدين؛ فإنهم يدعون إلى الحقِّ والهدى، ويؤيِّدون دعوتهم بالحجج العقليَّة والنقليَّة، ولا يتَّبعون في دعوتهم إلا رضا ربِّهم والقرب منه.
[119,118] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا حکم دیتا ہے نیز وہ یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اگر وہ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ ان حلال مویشیوں کا گوشت کھائیں جن پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اور ان جانوروں کی حلت کا اعتقاد بھی رکھیں اور اس طرح نہ کریں جس طرح اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔ انھوں نے شیاطین کے گمراہ کرنے کے باعث اپنی طرف سے گھڑ کے بہت سی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ وہ اس مذموم عادت میں ، جو اللہ تعالیٰ کی شریعت میں تغیر و تبدل کو متضمن ہے، اہل جاہلیت کی مخالفت کریں نیز یہ کہ کون سی چیز ہے جو انھیں اس جانور کو کھانے سے روکتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مفصل طور پر بیان کر کے واضح کر دیا ہے کہ کون سی چیز ان پر حرام ٹھہرائی گئی ہے؟ تب کوئی اشکال اور کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ حرام میں پڑنے کے خوف کی وجہ سے بعض حلال چیزیں بھی کھانی چھوڑ دی جائیں ۔ اور آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اشیا میں اصل اباحت ہے۔ اگر شریعت کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیتی تو وہ اپنی اباحت پر باقی ہے۔ پس جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے وہ حلال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے اس کی تفصیل بیان کر دی ہے اور جس کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کی وہ حرام نہیں ہے۔ بایں ہمہ وہ حرام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے سخت بھوک اور اضطراری حالت میں مباح کر دیا ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ ﴾ ’’تم پر مرا ہوا جانور، بہتا خون اور خنزیر کا گوشت حرام کردیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ﴿فَ٘مَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَ٘فُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (المائدہ: 5؍3) ’’اگر کوئی بھوک کی شدت میں مجبور ہو جائے اور وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں سے ڈراتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآىِٕهِمْ﴾ ’’اور بہت لوگ بہکاتے ہیں اپنی خواہشات سے‘‘ یعنی مجرد خواہشات نفس کے ذریعے سے ﴿ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ بغیر کسی علم اور بغیر کسی دلیل کے۔۔۔ پس بندے کو اس قسم کے لوگوں سے بچنا چاہیے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں ۔ ان کی علامت یہ ہے کہ ان کی دعوت کسی دلیل اور برہان پر مبنی نہیں ہے اور نہ ان کے پاس کوئی شرعی حجت ہے۔ پس ان کی فاسد خواہشات اور گھٹیا آراء کے مطابق ان کو شبہ لاحق ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے بندوں پر ظلم و تعدی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے برعکس راہ راست کی طرف راہنمائی کرنے والے ہدایت یافتہ لوگ حق اور ہدایت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی دعوت کو دلائل عقلیہ و نقلیہ کی تائید فراہم کرتے ہیں اور وہ اپنی دعوت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کے سوا اور کوئی مقصد پیش نظر نہیں رکھتے۔
آیت: 120 #
{وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ (120)}
اور چھوڑ دوظاہر گناہ اور پوشیدہ گناہ، بلاشبہ جو لوگ کرتے ہیں گناہ، عنقریب جزاء دیے جائیں گے وہ ساتھ اس کے جو تھے وہ کرتے (120)
#
{120} المراد بالإثم: جميع المعاصي التي تؤثم العبدَ؛ أي: توقعه في الإثم والحَرَج من الأشياء المتعلِّقة بحقوق الله وحقوق عباده، فنهى الله عبادَهُ عن اقتراف الإثم الظاهر والباطن؛ أي: السر والعلانية المتعلِّقة بالبدن والجوارح والمتعلقة بالقلب، ولا يتمُّ للعبد ترك المعاصي الظاهرة والباطنة إلا بعد معرفتها والبحث عنها، فيكون البحث عنها ومعرفة معاصي القلب والبدن والعلم بذلك واجباً متعيناً على المكلَّف، وكثيرٌ من الناس تخفى عليه كثيرٌ من المعاصي، خصوصاً معاصي القلب؛ كالكبر والعجب والرياء ... ونحو ذلك حتى إنّه يكون به كثيرٌ منها وهو لا يحسُّ به ولا يشعر، وهذا من الإعراض عن العلم وعدم البصيرة. ثم أخبر تعالى أن الذين يكسبون الإثم الظاهر والباطن سيُجْزَون على حسب كسبهم وعلى قدر ذنوبهم قلَّت أو كثرت، وهذا الجزاء يكون في الآخرة، وقد يكون في الدُّنيا؛ يعاقَب العبد فيخفَّف عنه بذلك من سيئاته.
[120] یہاں ﴿ الْاِثْمِ ﴾ سے مراد تمام معاصی ہیں جو بندے کو گناہ گار کرتے ہیں یعنی اسے ان امور کے بارے میں گناہ اور حرج میں مبتلا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی گناہوں کے ارتکاب سے منع کیا ہے یعنی چھپ کر یا اعلانیہ ان تمام گناہوں سے روکا ہے جو بدن، جوارح اور قلب سے متعلق ہیں ۔ بندہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو اس وقت تک کامل طور پر ترک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ بحث و تحقیق کے بعد ان کی معرفت حاصل نہیں کر لیتا۔ بنابریں گناہوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرنا، قلب و جوارح کے گناہوں کی معرفت اور ان کے بارے میں علم حاصل کرنا مکلف پر حتمی طور پر فرض ہے اور بہت سے لوگوں پر ان کے گناہ مخفی رہتے ہیں خاص طور پر قلب کے گناہ چھپے رہتے ہیں ، مثلاً: تکبر، خود پسندی اور ریا وغیرہ۔ یہاں تک کہ بندہ ان میں سے بہت سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے مگر اسے اس کا احساس اور شعور تک نہیں ہوتا اور یہ علم سے اعراض اور عدم بصیرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ ظاہری اور باطنی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے اکتساب کے مطابق اور ان کے گناہوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے ان کو سزا دی جائے گی اور یہ سزا آخرت میں ملے گی۔ کبھی کبھی بندے کو دنیا میں سزا دے دی جاتی ہے اس طرح اس کی برائیوں اور گناہوں میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
آیت: 121 #
{وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (121)}
اور مت کھاؤ تم اس (جانور) میں سے کہ نہیں ذکر کیاگیا نام اللہ کا اس پراور یقیناً یہ (کھانا) البتہ فسق ہےاور بلاشبہ شیطان البتہ (شبہات) ڈالتے ہیں طرف اپنے دوستوں کی تاکہ جھگڑا کریں وہ تم سےاور اگر اطاعت کی تم نے ان کی تو یقینا تم بھی البتہ مشرک ہوگے(121)
#
{121} ويدخل تحت هذا المنهي عنه ما ذُكِرَ عليه اسم غير الله؛ كالذي يُذبح للأصنام وآلهة المشركين ؛ فإنَّ هذا مما أُهلَّ لغير الله به المحرَّم بالنصِّ عليه خصوصاً. ويدخل في ذلك متروك التسمية مما ذبح لله كالضحايا والهدايا، أو للحم والأكل، إذا كان الذابح متعمِّداً ترك التسمية عند كثير من العلماء، ويخرج من هذا العموم الناسي بالنصوص الأخر الدالة على رفع الحرج عنه. ويدخل في هذه الآية ما مات بغير ذكاة من الميتات؛ فإنها مما لم يذكر اسم الله عليه، ونص الله عليها بخصوصها في قوله: {حُرِّمَتْ عليكم الميتةُ}، ولعلها سبب نزول الآية؛ لقوله: {وإنَّ الشياطينَ لَيوحون إلى أوليائهم ليجادِلوكم} بغير علم؛ فإن المشركين حين سمعوا تحريم الله ورسوله للميتة وتحليله للمذكاة، وكانوا يستحلون أكل الميتة قالوا معاندة لله ورسوله ومجادلة بغير حجة ولا برهان: أتأكلونَ ما قتلتُم ولا تأكلون ما قَتَلَ الله يعنون بذلك الميتة؟! وهذا رأي فاسدٌ لا يستند على حجة ولا دليل، بل يستند إلى آرائهم الفاسدة التي لو كان الحق تبعاً لها لفسدت السماوات والأرض ومن فيهن؛ فتبًّا لمن قدَّم هذه العقول على شرع الله وأحكامه الموافقة للمصالح العامة والمنافع الخاصة. ولا يُستغرب هذا منهم؛ فإن هذه الآراء وأشباهها صادرة عن وحي أوليائهم من الشياطين الذين يريدون أن يُضِلُّوا الخلق عن دينهم ويدعوهم ليكونوا من أصحاب السعير. {وإنْ أطعتُموهم}: في شركهم وتحليلهم الحرام وتحريمهم الحلال، {إنَّكم لمشركونَ}؛ لأنكم اتَّخذتموهم أولياء من دون الله، ووافقتموهم على ما به فارقوا المسلمين؛ فلذلك كان طريقكم طريقهم. ودلت هذه الآية الكريمة على أن ما يقع في القلوب من الإلهامات والكشوف التي يكثر وقوعها عند الصوفية ونحوهم لا تدلُّ بمجرَّدها على أنها حقٌّ ولا تصدَّق حتى تعرض على كتاب الله وسنة رسوله؛ فإن شهدا لها بالقبول؛ قبلت، وإن ناقضتْهما؛ رُدَّتْ، وإن لم يعلم شيء من ذلك؛ توقف فيها ولم تصدَّق ولم تكذَّب؛ لأن الوحي والإلهام يكون من الرحمن ويكون من الشيطان؛ فلا بد من التمييز بينهما والفرقان، وبعدم التفريق بين الأمرين حصل من الغلط والضلال ما لا يحصيه إلا الله.
[121] اس ممانعت میں وہ اشیا بھی داخل ہیں جن پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو ، مثلاً: بتوں اور مشرکین کے معبودوں کے لیے ذبح کرنا۔ اور یہ ممانعت ﴿ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ﴾ (المائدہ: 5؍3) ’’جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔‘‘ کی نص کے ذریعے سے خصوصی طور پر حرام ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہیں جو اللہ کے لیے ذبح کیے گئے ہوں مگر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو ، مثلاً: قربانی اور ہدی کے جانور کا ذبیحہ یا گوشت کھانے کے لیے جانور ذبح کرنا۔ بہت سے علماء کے نزدیک یہ جانور اس وقت حرام ہو گا جب جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو اور اس عموم سے دوسری نصوص کی بنا پر دفع حرج کی خاطر بھول کر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام چھوڑنے والا مستثنی ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہے جو بغیر ذبح کیے مر جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا ہوتا۔ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ نص بیان فرمائی ہے ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ ﴾ (المائدہ: 5؍3) ’’تم پر مردہ جانور حرام کر دیا گیا ہے‘‘ اور شاید اس فرمان کے نازل ہونے کی وجہ بھی یہی ہے ﴿ وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیِٰٕٓهِمْ۠ لِیُجَادِلُوْؔكُمْ﴾ ’’اور شیطان دل میں ڈالتے ہیں اپنے رفیقوں کے تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ‘‘ یعنی وہ تمھارے ساتھ بغیر کسی علم کے جھگڑا کریں گے کیونکہ مشرکین نے جب یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے مردار کو حرام قرار دے دیا ہے اور جس کو ذبح کیا گیا ہو اس کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا مسلک یہ تھا کہ وہ مردار کے کھانے کو حلال سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عناد کی بنا پر بغیر کسی دلیل اور برہان کے کہا ’’تم اس جانور کو تو کھا لیتے ہو جسے تم نے خود قتل کیا اور وہ جانور نہیں کھاتے جسے اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے‘‘ اور اس سے مراد وہ مردار لیتے۔ یہ انتہائی فاسد رائے ہے جو کسی دلیل اور حجت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی فاسد آراء کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ اگر حق ان کی آراء کا تابع ہوتا تو زمین و آسمان اور ان کے رہنے والے سب فساد کا شکار ہو جاتے، اس لیے ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکام پر، جو کہ مصالح عامہ اور منافع خاصہ کے موافق ہیں ، اس عقل کو مقدم رکھتا ہے۔ اور یہ ان سے کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ یہ آراء ان سے اس بنا پر صادر ہوئی ہیں کہ ان کے سرپرست شیاطین ان کو باطل آراء الہام کرتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ مخلوق بھٹک کر اپنے دین سے دور ہو جائے اور وہ ان کو دعوت دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ جہنمی بن جائیں ﴿ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ﴾ ’’اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی۔‘‘ یعنی اگر تم نے ان کے شرک، ان کے حرام کو حلال ٹھہرانے اور حلال کو حرام قرار دینے میں ان کی بات مانی ﴿ اِنَّـكُمْ لَ٘مُشْرِكُوْنَ﴾ ’’تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے‘‘ کیونکہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا سرپرست اور والی بنا لیا ہے اور وہ جس بنیاد پر مسلمانوں سے علیحدہ ہوئے تم نے بھی اس کی موافقت کی اس لیے تمھارا راستہ اور ان کا راستہ ایک ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہ کشف و الہامات جو دل میں القاء ہوتے ہیں.... اور یہ کشف و الہام خاص طور پر صوفیہ کے ہاں بہت کثرت سے واقع ہوتے ہیں ۔۔۔ اپنے مجرد الہام ہونے کی بنا پر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ حق ہیں ۔ اور ان کی اس وقت تک تصدیق نہیں کی جا سکتی جب تک کہ ان کو قرآن و سنت پر پیش نہ کیا جائے۔ اگر قرآن و سنت ان کو قبول کرنے کی شہادت دیں تو ان کو قبول کر لیا جائے۔ اگر یہ کشف و الہام قرآن و سنت کے منافی ہوں تو ان کو رد کر دیا جائے۔ اگر ان کا حق یا باطل ہونا واضح نہ ہو تو اس میں توقف کیا جائے، اس کی تصدیق کی جائے نہ تکذیب۔ کیونکہ وحی اور الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوتا ہے اس لیے الہام رحمانی اور الہام شیطانی کے مابین فرق اور امتیاز کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ دونوں قسم کے الہامات کے درمیان عدم تفریق سے بندہ جن غلطیوں اور گمراہیوں کا شکار ہوتا ہے ان کو اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا۔
آیت: 122 - 124 #
{أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (122) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (123) وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ (124)}
کیا وہ شخص جو تھا مردہ، پھر زندہ کیا ہم نے اس کو اور بنادیا اس کے لیے نور وہ چلتا ہے اس کے ساتھ لوگوں میں، اس شخص جیسا (ہو سکتا) ہے جو کہ اندھیروں میں ہے، نہیں نکلتا ان سے، اسی طرح مزین کیے گئے کافروں کے لیے وہ (کام) جو تھے وہ کرتے(122) اور اسی طرح بنادیا ہم نے ہر بستی میں بڑے لوگوں کو جرائم پیشہ اس بستی کا تاکہ مکر کریں وہ اس میں اور نہیں مکر کرتے وہ مگر اپنے آپ ہی سےاور نہیں شعور رکھتے وہ(123)اور جب آ تی ہے ان کے پاس نشانی تو کہتے ہیں: ہر گز نہیں ایمان لائیں گے ہم، یہاں تک کہ دیے جائیں ہم مثل اس کے جو دیے گئے اللہ کے رسول، اللہ خوب جانتا ہے جہاں وہ رکھتا ہے اپنی رسالت، عنقریب پہنچے گی ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیے، ذلت اللہ کے ہاں اور شدید عذاب بوجہ اس کے جو تھے وہ مکر کرتے(124)
#
{122} يقول تعالى: {أوَمَن كان}: من قبل هداية الله له {مَيْتاً}: في ظلمات الكفر والجهل والمعاصي، {فأحييناهُ}: بنور العلم والإيمان والطاعة، فصار يمشي بين الناس في النور، متبصراً في أموره، مهتدياً لسبيله، عارفاً للخير، مؤثراً له، مجتهداً في تنفيذه في نفسه وغيره، عارفاً بالشر، مبغضاً له، مجتهداً في تركه وإزالته عن نفسه وعن غيره، أفيستوي هذا بمن هو في الظلمات؟ ظلمات الجهل والغي والكفر والمعاصي، {ليس بخارج منها}، قد التبستْ عليه الطرق، وأظلمت عليه المسالكُ، فحضره الهمُّ والغمُّ والحزن والشقاء، فنبه تعالى العقولَ بما تدركه وتعرفه أنه لا يستوي هذا ولا هذا كما لا يستوي الليل والنهار والضياء والظلمة والأحياء والأموات، فكأنه قيل: فكيف يؤثِرُ مَن له أدنى مُسْكةٍ من عقل أن يكون بهذه الحالة وأن يبقى في الظلمات متحيراً؟! فأجاب بأنه {زُيِّنَ للكافرين ما كانوا يعملونَ}، فلم يزل الشيطانُ يحسِّنُ لهم أعمالهم ويزيِّنُها في قلوبهم حتى استحسنوها ورأوها حقًّا وصار ذلك عقيدةً في قلوبهم وصفةً راسخةً ملازمةً لهم؛ فلذلك رضوا بما هم عليه من الشرِّ والقبائح.
[122] ﴿ اَوَمَنْ كَانَ﴾ ’’بھلا ایک شخص جو کہ تھا‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہدایت عطا کرنے سے پہلے ﴿ مَیْتًا ﴾ ’’مردہ‘‘ یعنی کفر، جہالت اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ﴿ فَاَحْیَیْنٰهُ ﴾ ’’پھر ہم نے اس کو زندہ کیا۔‘‘ پھر ہم نے اسے علم، ایمان اور اطاعت کی روشنی کے ذریعے سے زندہ کر دیا اور وہ اس روشنی میں لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو، اپنے امور میں بصیرت سے بہرہ ور ہو، اپنے راستے کو جانتا ہو، بھلائی کی معرفت رکھتا ہو، اسے ترجیح دیتا ہو، اپنے آپ پر اور دوسروں پر اس کے نفاذ کی کوشش کرتا ہو، جو برائی کی معرفت رکھتا ہو اور اسے ناپسند کرتا ہو اور اسے ترک کرنے کی کوشش کرتا ہو اور خود اپنی ذات سے اور دوسروں سے اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہو۔۔۔ کیا یہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو جہالت، گمراہی، کفر اور گناہوں کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہو؟ ﴿ لَ٘یْسَ بِخَارِجٍ مِّؔنْهَا ﴾ ’’وہاں سے نکلنے والا نہ ہو‘‘ اس پر تمام راستے مشتبہ ہو گئے ہوں ، وہ تاریکی کے راستوں میں بھٹک رہا ہو، پس اسے غم و ہموم، حزن اور بدبختی نے گھیر لیا ہو اور ان میں سے نکل نہ سکتا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کو ان امور کے ذریعے سے متنبہ کیا ہے جن کا وہ ادراک کر سکتی ہے اور ان کی معرفت رکھتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے شخص مساوی نہیں ہو سکتے ہیں ، جیسے رات اور دن، اندھیرا اور اجالا، زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ وہ شخص جو رتی بھر بھی عقل رکھتا ہے، اس حالت میں رہنے کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے اور وہ گمراہی کے اندھیروں میں حیران و سرگرداں کیسے رہ سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ زُیِّنَ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’مزین کر دیے گئے کافروں کی نگاہ میں ان کے کام‘‘ پس شیطان ان کے سامنے ان کے اعمال کو خوشنما بناتا رہتا ہے اور ان کو ان کے دل میں سجاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ یہ اعمال ان کو اچھے لگنے لگ جاتے ہیں اور حق دکھائی دیتے ہیں۔ یہ چیزیں عقیدہ بن کر ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہیں اور ان کا وصف راسخ بن کر ان کے کردار میں شامل ہو جاتی ہیں ۔ بنابریں وہ اپنی برائیوں اور قباحتوں پر راضی رہتے ہیں ۔
#
{123} وهؤلاء الذين في الظلمات يعمهون وفي باطلهم يتردَّدون غير متساوين؛ فمنهم القادةُ والرؤساء والمتبوعون، ومنهم التابعون المرؤوسون، والأولون منهم الذين فازوا بأشقى الأحوال، ولهذا قال: {وكذلك جَعَلْنا في كلِّ قريةٍ أكابرَ مجرِميها}؛ أي: الرؤساء الذين قد كبر جرمهم واشتدَّ طغيانهم؛ {ليمكُروا فيها}: بالخديعة والدعوة إلى سبيل الشيطان ومحاربة الرسل وأتباعهم بالقول والفعل، وإنما مكرهم وكيدهم يعود على أنفسهم؛ لأنهم يمكُرون ويمكُر الله والله خير الماكرين. وكذلك يجعل الله كبار أئمة الهدى وأفاضلهم يناضلون هؤلاء المجرمين ويردُّون عليهم أقوالهم، ويجاهدونهم في سبيل الله، ويسلكون بذلك السُّبُل الموصلة إلى ذلك، ويعينهم الله، ويسدِّد رأيهم، ويثبِّت أقدامهم، ويداوِلُ الأيام بينَهم وبين أعدائهم حتى يَدولَ الأمر في عاقبته بنصرِهِم وظهورِهم. والعاقبة للمتقين.
[123] یہ وہ لوگ ہیں جو اندھیروں میں سرگرداں اور اپنے باطل میں لڑکھڑاتے رہتے ہیں ۔ تاہم ان کی حیثیت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ان میں سے قائدین اور متبوعین ہیں اور کچھ تابع اور پیروکار۔پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو انتہائی بدبختی کے احوال سے بہرہ یاب ہوئے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَؔكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُ٘لِّ قَ٘رْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا﴾ ’’اور اسی طرح کیے ہیں ہم نے ہر بستی میں گناہ گاروں کے سردار‘‘ یعنی وہ قائدین اور رؤسا جن کا جرم بہت بڑا اور سرکشی بہت سخت ہوتی ہے ﴿لِیَمْؔكُرُوْا فِیْهَا﴾ ’’کہ حیلے کیا کریں وہاں ‘‘ یعنی فریب کاری، شیطان کے راستے کی طرف دعوت دینے، انبیا و مرسلین اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ قولی و فعلی جنگ و جدل کے ذریعے سے سازشیں کریں مگر ان کی سازش اور فریب کاری انجام کار انھی کے خلاف جاتی ہے۔ وہ بھی چالیں چلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی چال چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کبار ائمہ ہدی اور بڑے بڑے فاضل لوگوں کو کھڑا کرتا ہے جو ان مجرموں کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کے نظریات و اقاویل کا جواب دیتے ہیں ، اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح وہ ان راستوں پر گامزن ہوتے ہیں جو انھیں ان کے مقصد تک پہنچاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مدد سے نوازتا ہے، ان کی رائے کو درست کرتا ہے، ان کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور کامیابی ان کے اور ان کے دشمنوں کے مابین ادلتی بدلتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ انجام کار فتح و نصرت اور غلبہ اہل ایمان کے حصہ میں آتا ہے۔
#
{124} وإنما ثبتَ أكابر المجرمين على باطلهم، وقاموا بردِّ الحقِّ الذي جاءت به الرسل، حسداً منهم وبغياً، فقالوا: {لن نؤمنَ حتَّى نُؤتى مثلَ ما أوتي رسلُ الله}: من النبوة والرسالة، وفي هذا اعتراض منهم على الله، وعجبٌ بأنفسهم، وتكبُّرٌ على الحقِّ الذي أنزله على أيدي رسله، وتحجُّرٌ على فضل الله وإحسانه، فردَّ الله عليهم اعتراضهم الفاسد، وأخبر أنهم لا يصلحون للخير، ولا فيهم ما يوجِبُ أن يكونوا من عبادِ الله الصالحين، فضلاً أن يكونوا من النبيين والمرسلين، فقال: {الله أعلم حيثُ يجعلُ رسالَتَه}؛ فمَنْ عَلِمَهُ يَصْلُحُ لها ويقوم بأعبائها وهو متَّصفٌ بكلِّ خلق جميل ومتبرئ من كل خلق دنيء، أعطاه الله ما تقتضيه حكمتُه أصلاً وتبعاً، ومَن لم يكن كذلك؛ لم يضع أفضل مواهبه عند من لا يستأهله ولا يزكو عنده. وفي هذه الآية دليل على كمال حكمة الله تعالى: لأنَّه وإن كان تعالى رحيماً واسع الجود كثير الإحسان؛ فإنه حكيمٌ لا يضع جوده إلا عند أهله. ثم توعَّد المجرمين، فقال: {سيصيبُ الذين أجرموا صَغارٌ عند الله}؛ أي: إهانةٌ وذُلٌّ؛ كما تكبَّروا على الحقِّ؛ أذلَّهم الله، {وعذابٌ شديدٌ بما كانوا يمكُرون}؛ أي: بسبب مكرِهم لا ظلماً منه تعالى.
[124] بڑے بڑے مجرم صرف حسد اور بغاوت کی بنا پر باطل پر قائم اور حق کو ٹھکرا رہے تھے اور کہتے تھے ﴿ ٘لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْ٘لَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ﴾ ’’ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ نہ دیا جائے ہم کو جیسا کچھ دیا گیا ہے اللہ کے رسولوں کو‘‘ یعنی نبوت اور رسالت۔ یہ ان کی طرف سے محض اللہ تبارک و تعالیٰ پر اعتراض، ان کی خود پسندی اور اس حق کے مقابلے میں تکبر کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا و رسل پر نازل فرمایا تھا، نیز اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر قدغن لگانی تھی۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے فاسد اعتراض کو رد کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نیز یہ کہ ان لوگوں کا انبیا و مرسلین بننا تو کجا ان میں تو کوئی ایسی چیز بھی نہیں جو ان کو اللہ کے نیک بندوں میں شمار کرنے کی موجب ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ ’’اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو جہاں رکھے وہ اپنی پیغمبری‘‘ یعنی اللہ کے علم میں جو رسول بننے کا اہل ہے، جو رسالت کے بوجھ کو اٹھا سکتا ہے، جو ہر قسم کے خلق جمیل سے متصف اور ہر قسم کے گندے اخلاق سے مبرا ہو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے رسالت کا منصب عطا کرتا ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو اور اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مواہب سے ہرگز نہیں نوازتا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاک گردانا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ ہر چند کہ اللہ تعالیٰ نہایت رحیم، وسیع جود و کرم اور بہت فضل و احسان کا مالک ہے تاہم وہ حکیم بھی ہے اس لیے وہ اپنی بخشش سے صرف اس کو نوازتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجرموں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’عنقریب پہنچے گی گناہ گاروں کو ذلت، اللہ کے ہاں ‘‘ یعنی اہانت اور ذلت۔ جیسے وہ حق کے ساتھ تکبر سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ ﴿ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْؔكُرُوْنَ﴾ ’’اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکر کرتے تھے‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں بلکہ ان کی چالبازیوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ انھیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔
آیت: 125 #
{فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ (125)}
پس جسے چاہتا ہے اللہ کہ ہدایت دے اسے تو کھول دیتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیےاور جسے وہ چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اسے تو کر دیتا ہے اس کا سینہ تنگ، انتہائی تنگ، گویا کہ وہ چڑھ رہا ہے آسمان میں، اسی طرح کرتا ہے اللہ پلیدی اوپر ان لوگوں کے جو نہیں ایمان لاتے(125)
#
{125} يقول تعالى مبيِّناً لعبادِهِ علامة سعادة العبد وهدايته وعلامة شقاوته وضلاله: إنَّ مَن انشرح صدره للإسلام؛ أي: اتسع وانفسح فاستنار بنور الإيمان وحيي بضوء اليقين فاطمأنت بذلك نفسه وأحبَّ الخير وطوَّعت له نفسُهُ فعلَه متلذذاً به غير مستثقل؛ فإن هذا علامة على أن اللهَ قد هداه ومنَّ عليه بالتوفيق وسلوك أقوم الطريق، وأنَّ علامة من يُرِدِ اللهُ {أن يُضِلَّه}: أنه {يجعلْ صدرَه ضيِّقاً حَرَجاً}؛ أي: في غاية الضيق عن الإيمان والعلم واليقين، قد انغمس قلبُهُ في الشبهات والشهوات، فلا يصل إليه خير، لا ينشرحُ قلبه لفعل الخير. كأنه من ضيقه وشدَّته يكاد {يَصَّعَّدُ في السماء}؛ أي: كأنه يكلَّف الصعود إلى السماء الذي لا حيلة فيه، وهذا سببه عدم إيمانهم؛ هو الذي أوجب أن يجعل الله الرجس عليهم؛ لأنهم سدُّوا على أنفسهم باب الرحمة والإحسان، وهذا ميزان لا يعول وطريق لا يتغير؛ فإنَّ مَن أعطى واتَّقى وصدَّق بالحسنى؛ ييسِّره الله لليسرى، ومن بخل واستغنى وكذب بالحسنى؛ فسيُيَسِّره للعسرى.
[125] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے بندے کی سعادت و ہدایت اور اس کی شقاوت و ضلالت کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس کو اسلام کے لیے انشراح صدر ہو جاتا ہے یعنی اس کا سینہ وسیع ہو جاتا ہے۔ تو دل نور ایمان سے منور اور یقین کے پرتو سے زندہ ہو جاتا ہے اور نفس ایمان پر مطمئن ہو جاتا ہے، نفس نیکی سے محبت کرنے لگتا ہے اور وہ نیکی میں لذت محسوس کرتے ہوئے نیکی کرتا ہے نیکی کو بوجھ نہیں سمجھتا۔ پس یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت عطا کر دی ہے اور اسے توفیق سے نواز کر سب سے درست راستے پر گامزن کر دیا ہے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے یعنی اس کا سینہ ایمان، علم اور یقین کے لیے بہت تنگ ہو جاتا ہے، اس کا دل شبہات و شہوات کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے، بھلائی اس تک راہ نہیں پا سکتی، نہ بھلائی اور نیکی کے لیے اس کو انشراح صدر حاصل ہوتا ہے۔ گویا وہ سخت تنگی اور شدت میں ہے، گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے، یعنی اسے آسمان پر چڑھنے کا مکلف کیا جارہا ہے جہاں چڑھنے کا اس کے اندر کوئی حیلہ نہیں ۔ یہ ہے ان کے عدم ایمان کا سبب اور یہی وہ چیز ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجے کیونکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور احسان کے دروازے بند کر لیے۔ یہ ایسی میزان ہے جو کبھی خیانت نہیں کرتی اور ایسا راستہ ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ بے شک جو کوئی اللہ کے راستے میں مال عطا کرتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، نیکی کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کو آسان راستے ( بھلائی) کی توفیق عطا کر دیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے اور بے پروا بنا رہتا ہے اور نیکی کو جھٹلاتا ہے تو ہم اس کو مشکل راستے ( گناہ) پر گامزن کردیتے ہیں ۔
آیت: 126 - 127 #
{وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ (126) لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (127)}.
اور یہ ہے راستہ آپ کے رب کا سیدھا، تحقیق مفصل بیان کردیں ہم نے آیات ان لوگوں کے لیے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں(126)ان کے لیے ہے گھر سلامتی کا، نزدیک ان کے رب کےاور وہی دوست ہے ان کا بہ سبب اس کے جو تھے وہ عمل کرتے(127)
#
{126} أي: معتدلاً موصلاً إلى الله وإلى دار كرامتِهِ، قد بُيِّنَتْ أحكامُه، وفصِّلت شرائعه، وميز الخير من الشر. ولكن هذا التفصيل والبيان ليس لكل أحد، إنما هو {لقومٍ يَذَّكَّرونَ}؛ فإنهم الذين علموا فانتفعوا بعلمهم، وأعد الله لهم الجزاء الجزيل والأجر الجميل.
[126] یعنی آپ کے رب تک اور عزت و تکریم کے گھر تک پہنچانے والا راستہ معتدل راستہ ہے جس کے احکام واضح کر دیے گئے ہیں جس کے قوانین کی تفصیل یہاں بیان کر دی گئی ہے اور خیر کو شر سے ممیز کر دیا گیا۔ یہ تفصیل و توضیح ہر شخص کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں ، پھر اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ان کے لیے بہت بڑی جزا اور خوبصورت اجر تیار کیا گیا ہے۔
#
{127} فلهذا قال: {لهم دارُ السلام عند ربِّهم}، وسميت الجنة دار السلام لسلامتها من كل عيب وآفة وكَدَرٍ وهمٍّ وغمٍّ وغير ذلك من المنغِّصات، ويلزم من ذلك أن يكون نعيمُها في غاية الكمال ونهاية التمام؛ بحيث لا يقدر على وصفه الواصفون، ولا يتمنَّى فوقه المتمنون؛ من نعيم الروح والقلب والبدن، ولهم فيها ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين وهم فيها خالدون. {وهو وَليُّهم}: الذي تولَّى تدبيرهم وتربيتهم، ولطفَ بهم في جميع أمورهم، وأعانهم على طاعتِهِ، ويسَّر لهم كل سبب موصل إلى محبَّته، وإنما تولاَّهم بسبب أعمالهم الصالحة ومقدِّماتهم التي قصدوا بها رضا مولاهم؛ بخلاف مَن أعرض عن مولاه، واتَّبع هواه؛ فإنه سلَّطَ عليه الشيطان، فتولاَّه، فأفسد عليه دينَه ودُنياه.
[127] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَهُمْ دَارُ السَّلٰ٘مِ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ ’’ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ان کے رب کے ہاں ‘‘ چونکہ جنت ہر عیب، آفت و تکدر اور غم و ہموم جیسی ناخوشگواریوں سے سلامت اور پاک ہے، اس لیے اس کو ’’دار السلام‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جنت کی نعمتیں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہوں گی، کہ کوئی ان کا وصف بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ جنت کے اندر قلب و روح اور بدن کے لیے نعمتوں کے جو سامان ہیں تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی نعمت کی تمنا نہیں کر سکتے۔ اس جنت میں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو ان کے دل چاہیں گے اور جس سے ان کی آنکھوں کو لذت حاصل ہو گی اور وہ اس جنت میں ابد الآباد تک رہیں گے۔ ﴿ وَهُوَ وَلِیُّهُمْ﴾ ’’وہی ان کا ولی و مددگار ہے‘‘ جو ان کی تدبیر اور تربیت کا مالک ہے، وہ ان کے تمام معاملات میں ان کے ساتھ لطف و کرم سے پیش آتا ہے جو اپنی اطاعت پر ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے لیے ہر وہ راستہ آسان کرتا ہے جو انھیں اس کی محبت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اور وہ ان کی سرپرستی اپنے ذمے صرف اس لیے لیتا ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لاتے اور ایسے کام آگے بھیجتے ہیں جن سے ان کا مقصد اپنے آقا کی رضامندی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شخص ہے جس نے اپنے آقا سے روگردانی کی اور اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا رہا تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کر دیتا ہے جو اس کا سرپرست بن کر اس کے دین و دنیا کو تباہ کر دیتا ہے۔
آیت: 128 - 135 #
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (128) وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (129) يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (130) ذَلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ (131) وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (132) وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ (133) إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ (134) قُلْ يَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (135)}.
اور جس دن وہ اکٹھا کرے گا ان سب کو، (توفرمائے گا) اے گروہ جنوں کے! تحقیق بہت زیادہ (گمراہ)کیے تھے تم نے انسانوں میں سے اور کہیں گے ان کے دوست انسانوں سے، اے ہمارے رب!فائدہ اٹھایا ہمارے ایک نے دوسرے سےاور پہنچے ہم اس میعاد کوجو مقررفرمائی تھی تو نے ہمارے لیے،(اللہ) فرمائے گا: آگ ہی ٹھکانا ہے تمھارا، ہمیشہ رہوگے(تم)اس میں مگر جو چاہے اللہ، یقینا آپ کا رب حکمت والا ہے خوب جاننے والا(128) او ر اسی طرح مسلط کردیتے ہم بعض ظالموں کو بعض پر، بہ سبب اس کے جو تھے وہ کماتے(129)اے جماعت جنوں اور انسانوں کی! کیا نہیں آئے تھے تمھارے پاس رسول تم میں سے، وہ بیان کرتے تھے تم پر میری آیات اور ڈراتے تھے تمھیں ملاقات سے تمھارے اس دن کی؟ تو وہ کہیں گے!گواہی دیتے ہم اپنے آپ پراور دھوکے میں ڈالے رکھا انھیں زندگانئ دنیا نےاور گواہی دیں گے وہ اپنے آپ پر کہ بے شک وہ تھے کفر کرنے والے (130) یہ (رسول بھیجنا) اس لیے کہ نہیں ہے آپ کا رب ہلاک کرنے والا بستیوں کو ظلم سے جبکہ ان کے باشندے غافل ہوں(131) اور ہر ایک کے درجے ہیں بہ سبب اس کے جو عمل کیے انھوں نے،اور نہیں آپ کا رب غافل اس سے جو وہ عمل کرتے ہیں(132) اور آپ کا رب بے نیاز ہے رحمت والا، اگر وہ چاہے تو لے جائے تمھیں اور جانشین بنا دے بعدتمھارے جنھیں وہ چاہے، جس طرح کہ پیدا فرمایا اس نے تمھیں نسل سے دوسرے لوگوں کی(133) بلاشبہ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو، یقینا وہ آنے والی ہےاور نہیں تم عاجز کرنے والے(134) کہہ دیجیے، اے میری قوم!عمل کرو تم اپنے مقام پر، بے شک میں عمل کرنے والا ہوں (اپنی جگہ پر) پس عنقریب جان لوگے تم اس شخص کو کہ ہے اس کے لیے (اچھا) انجام آخرت کا، یقینا نہیں فلاح پائیں گے ظالم(135)
#
{128} يقول تعالى: {ويوم يحشُرُهم جميعاً}؛ أي: جميع الثقلين من الإنس والجن، مَنْ ضلَّ منهم ومَنْ أضلَّ غيره، فيقول موبخاً للجنِّ الذين أضلُّوا الإنس وزيَّنوا لهم الشرَّ وأزُّوهم إلى المعاصي: {يا معشر الجنِّ قد استكثرتُم من الإنس}؛ أي: من إضلالهم وصدِّهم عن سبيل الله؛ فكيف أقدمتم على محارمي، وتجرَّأتم على معاندة رسلي، وقمتم محاربين لله، ساعين في صدِّ عباد الله عن سبيله إلى سبيل الجحيم؟! فاليوم حقَّت عليكم لعنتي، ووجبت لكم نقمتي، وسنزيدكم من العذاب بحسب كفرِكُم وإضلالكم لغيرِكم، وليس لكم عذرٌ به تعتذِرون، ولا ملجأ إليه تلجؤون، ولا شافع يشفع، ولا دعاء يُسمع! فلا تسأل حينئذٍ عما يحل بهم من النَّكال والخِزْي والوَبال، ولهذا لم يذكِر الله لهم اعتذاراً، وأما أولياؤهم من الإنس؛ فأبدوا عذراً غير مقبول، فقالوا: {ربَّنا استمتعَ بعضُنا ببعض}؛ أي: تمتَّع كلٌّ من الجني والإنسي بصاحبه وانتفع به؛ فالجنيُّ يستمتع بطاعة الإنسيِّ له وعبادته وتعظيمه واستعاذته به، والإنسيُّ يستمتع بنيل أغراضه وبلوغه بحسب خدمة الجنيِّ له بعض شهواته؛ فإن الإنسيَّ يعبُدُ الجنيَّ فيخدمُهُ الجنيُّ ويحصِّلُ له بعض الحوائج الدنيويَّة؛ أي: حصل منا من الذنوب ما حصل، ولا يمكن ردُّ ذلك. {وبَلَغْنا أجَلَنا الذي أجَّلْتَ لنا}؛ أي: وقد وصلنا المحل الذي تُجازي فيه بالأعمال؛ فافعل بنا الآن ما تشاء، واحكم فينا بما تريدُ، قد انقطعت حُجَّتُنا، ولم يبق لنا عذرٌ، والأمر أمرُك والحكم حكمُك، وكأَن في هذا الكلام منهم نوع تضرُّع وترقُّق، ولكن في غير أوانه، ولهذا حكم فيهم بحكمه العادل، الذي لا جَوْر فيه، فقال: {النارُ مَثْواكم خالدين فيها}، ولما كان هذا الحكم من مقتضى حكمتِهِ وعلمِهِ؛ ختم الآية بقوله: {إنَّ ربَّك حكيمٌ عليمٌ}؛ فكما أن علمه وسع الأشياء كلَّها وعمَّها؛ فحكمتُهُ الغائيةُ شملت الأشياء، وعمَّتها، ووسعتها.
[128] ﴿ وَیَوْمَ یَحْشُ٘رُهُمْ جَمِیْعًا﴾ ’’اور جس دن جمع کرے گا ان سب کو‘‘ یعنی تمام جن و انس کو، ان میں سے جو گمراہ ہوئے اور جنھوں نے دوسروں کو گمراہ کیا۔ اللہ تعالیٰ جنوں کو، جنھوں نے انسانوں کو گمراہ کیا، برائی کو ان کے سامنے مزین کیا اور ارتکاب معاصی میں ان کی مدد کی، زجز و توبیح کرتے ہوئے فرمائے گا ﴿یٰمَ٘عْشَرَ الْ٘جِنِّ قَدِ اسْتَكْثَ٘رْتُمْ مِّنَ الْاِنْ٘سِ﴾ ’’اے گروہ جنات! تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کیے۔‘‘ یعنی اے جنوں کی جماعت! تم نے انسانوں کو خوب گمراہ کیا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔ تم نے کیسے میرے محارم کی خلاف ورزی کی اور میرے رسولوں کے ساتھ عناد رکھنے کی جرأت کی اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کے راستے سے روکنے اور جہنم کے راستے پر دھکیلنے کی کوشش کی؟ آج تم میری لعنت کے حق دار ہو اور تم پر میری ناراضی واجب ہو گئی۔ آج ہم تمھیں ، تمھارے کفر اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے مطابق زیادہ عذاب دیں گے۔ آج تمھارے پاس کوئی عذر نہیں جو پیش کر سکو، کوئی ٹھکانا نہیں جہاں تم پناہ لے سکو، کوئی سفارشی نہیں جو تمھاری سفارش کر سکے اور نہ تمھاری پکار ہی سنی جائے گی۔ اس وقت مت پوچھیے کہ ان پر سزا کے کون سے پہاڑ ٹوٹیں گے اور انھیں کون سی رسوائی اور وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی عذر کا ذکر نہیں فرمایا۔ رہے ان کے دوست انسان تو وہ عذر پیش کریں گے جسے قبول نہیں کیا جائے گا ﴿ رَبَّ٘نَا اسْتَ٘مْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ﴾ ’’اے رب ہمارے! فائدہ اٹھایا ہم میں سے ایک نے دوسرے سے‘‘ یعنی تمام جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جنوں نے انسانوں سے اپنی اطاعت، اپنی عبادت اور اپنی تعظیم کروا کے اور ان کی پناہ کی طلب سے فائدہ اٹھایا۔ اور انسان جنوں کی خدمت کے مطابق اپنی اغراض اور شہوات کے حصول میں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ انسان جنوں کی عبادت کرتے ہیں ، جن ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی دنیاوی حاجتیں پوری کرتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سے بہت ہی گناہ سرزد ہوئے اور اب ان کا لوٹانا ممکن نہیں ﴿ وَّبَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَا﴾ ’’اور ہم پہنچے اپنے اس وعدے کو جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا‘‘ یعنی اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اب تو جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کر اور جو تیرا ارادہ ہے ہمارے بارے میں ، وہی فیصلہ کر۔ ہماری حجت تو منقطع ہو گئی، ہمارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ معاملہ وہی ہو گا جو تیرا حکم ہے۔ فیصلہ وہی ہے جو تیرا فیصلہ ہے۔ ان کے اس کلام میں ایک قسم کی گریہ زاری اور رقت ہے مگر یہ سب کچھ بے وقت اور بے موقع ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ جو ظلم و جور سے پاک ہے، کرتے ہوئے فرمایا ﴿النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ ﴾ ’’تمھارا ٹھکانا جہنم ہے تم ہمیشہ اس کی آگ میں (جلتے) رہو۔‘‘ چونکہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے فرمایا ﴿ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’بے شک تمھارا رب دانا، خبردار ہے۔‘‘ جیسے اس کا علم تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے، ویسے ہی اس کی بے انتہا حکمت تمام اشیا پر عام اور تمام اشیا کو شامل ہے۔
#
{129} {وكذلك نُوَلِّي بعضَ الظالمين بعضاً بما كانوا يكسِبون}؛ أي: وكما ولَّيْنا الجنَّ المردة وسلَّطْناهم على إضلال أوليائهم من الإنس وعقَدْنا بينهم عقد الموالاة والموافقة بسبب كسبِهم وسعيهم بذلك؛ كذلك من سنَّتنا أن نولِّي كلَّ ظالم ظالماً مثلَه يؤزُّه إلى الشرِّ ويحثُّه عليه ويزهِّده في الخير وينفِّره عنه، وذلك من عقوبات الله العظيمة الشنيع أثرها البليغ خطرها، والذنب ذنبُ الظالم؛ فهو الذي أدخل الضرر على نفسه وعلى نفسه جنى، وما ربك بظلاَّم للعبيد. ومن ذلك أنَّ العباد إذا كَثُرَ ظلمُهم وفسادُهم ومنعُهم الحقوق الواجبة؛ وُلِّي عليهم ظلمةٌ يسومونهم سوء العذاب، ويأخذون منهم بالظُّلم والجَوْر أضعاف ما منعوا من حقوق الله وحقوق عباده على وجه غير مأجورين فيه ولا محتسبين؛ كما أن العباد إذا صلحوا واستقاموا؛ أصلح الله رعاتهم، وجعلهم أئمة عدل وإنصاف، لا ولاة ظلم واعتساف.
[129] ﴿وَؔكَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ ’’اور اسی طرح ہم ساتھی بنا دیتے ہیں گناہ گاروں کو ایک دوسرے کا، ان کے اعمال کے سبب‘‘ یعنی جیسے ہم سرکش جنوں کو مسلط کر دیتے ہیں کہ وہ انسانوں میں سے اپنے دوستوں کو گمراہ کریں اور ہم ان کے کسب و کوشش کے سبب سے ان کے درمیان موالات اور موافقت پیدا کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح یہ ہماری سنت ہے کہ ہم کسی ظالم کو اسی جیسے کسی ظالم پر مسلط کر دیتے ہیں جو اسے شر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کو شر کی ترغیب دیتا ہے، خیر میں بے رغبتی پیدا کر کے اسے اس سے متنفر کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سزا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اس کا اثر بہت برا ہے۔ گناہ كرنے واالا ظالم ہی ہے۔ پس یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور جن بھی اس کو نقصان پہنچاتا ہے ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ ظالموں کو مسلط کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب بندوں کا فساد اور ظلم بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ حقوق واجبہ ادا نہیں کرتے تو ان پر ظالم مسلط کر دیے جاتے ہیں جو انھیں بدترین عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں اور وہ ان سے ظلم و جور کے ذریعے سے اس سے کئی گنا زیادہ چھین لیتے ہیں جو وہ اللہ اور اس کے بندوں کے حق کے طور پر ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان سے اس طرح وصول کرتے ہیں کہ ان کو اس کا اجر و ثواب بھی نہیں ملتا۔ جیسے جب بندے درست اور راست رو ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے حکمرانوں کو درست کر دیتا ہے اور انھیں ظالم اور گمراہ حاکم نہیں بلکہ انھیں عدل و انصاف کے امام بنا دیتا ہے۔
#
{130} ثم وبَّخ الله جميع من أعرض عن الحق وردَّه من الجنِّ والإنس، وبيَّن خطأهم، فاعترفوا بذلك، فقال: {يا مَعْشَرَ الجنِّ والإنسِ ألم يأتِكُم رسلٌ منكم يقصُّونَ عليكُم آياتي}: الواضحات البيِّنات التي فيها تفاصيل الأمر والنهي والخير والشرِّ والوعد والوعيد، {وينذِرونَكم لقاءَ يومِكم هذا}: ويعلِّمونكم أنَّ النجاةَ فيه والفوزَ إنَّما هو بامتثال أوامر الله واجتناب نواهيه، وأنَّ الشقاء والخسران في تضييع ذلك، فأقروا بذلك واعترفوا، فقالوا: بلى، {شَهِدْنا على أنفُسِنا وغرَّتْهُمُ الحياةُ الدُّنيا}: بزينتها وزُخرفها ونعيمها، فاطمأنوا بها ورضوا وألهتْهم عن الآخرةِ، {وشهِدوا على أنفسهم أنَّهم كانوا كافرين}: فقامت عليهم حجةُ الله، وعَلِمَ حينئذٍ كلُّ أحدٍ حتى هم بأنفسهم عدلَ الله فيهم، [فقال لهم حاكماً عليهم بالعذاب الأليم: ادخُلوا في جملة أمم قد خلت من قبلكم من الجنِّ والإنس؛ صنعوا كصنيعكم، واستمتعوا بخلاقهم كما استمتعتم، وخاضوا بالباطل كما خضتم؛ إنهم كانوا خاسرين؛ أي: الأولون من هؤلاء والآخرون، وأيُّ خسرانٍ أعظم من خسران جنات النعيم وحرمان جوار أكرم الأكرمين] ؟!
[130] پھر اللہ تعالیٰ ان تمام جن و انس کو زجر و توبیخ کرتا ہے جو حق سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں ، وہ ان کی خطا واضح کرتا ہے اور وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ یٰمَعْشَرَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ اَلَمْ یَ٘اْتِكُمْ رُسُلٌ مِّؔنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ ﴾ ’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا نہیں پہنچے تھے تمھارے پاس رسول تمھی میں سے کہ سناتے تھے تمھیں میرے حکم‘‘ یعنی واضح آیات جن کے اندر امر و نہی، خیر و شر اور وعد و وعید کی تفصیلات ہیں ﴿ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ۠ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰؔذَا ﴾ ’’اور اس دن کی ملاقات سے تمھیں ڈراتے تھے‘‘ یعنی تمھیں آگاہ کرتے تھے کہ تمھاری نجات اسی میں ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب میں ہے۔ اور ان کو ضائع کرنے میں انسان کی بدبختی اور خسارہ ہے وہ اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے ﴿قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَغَ٘رَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ﴾ ’’ہم نے اقرار کیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے‘‘ یعنی دنیا کی زندگی نے اپنی زینت، آرائش اور نعمتوں کے ذریعے سے ان کو دھوکے میں مبتلا کر دیا، وہ دنیا پر مطمئن اور راضی ہو کر بیٹھ گئے۔ اور دنیا نے انھیں آخرت کے بارے میں غافل کر دیا۔ ﴿ وَشَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ ﴾ ’’اور گواہی دی انھوں نے اپنے آپ پر کہ وہ کافر تھے‘‘ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو گئی۔ تب اس وقت ہر ایک نے اور خود انھوں نے بھی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں دردناک عذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا ﴿ ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْ٘جِنِّ وَالْاِنْ٘سِ ﴾ (الاعراف: 7؍38) ’’یعنی جنوں اور انسانوں کے تم سے پہلے جو گروہ گزر چکے ہیں ان میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ان کے کرتوت بھی تمھارے کرتوتوں کی مانند تھے۔ انھوں نے بھی اپنے حصے سے خوب فائدہ اٹھایا جیسے تم نے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی باطل میں گھس گئے جیسے تم گھس گئے ہو۔ یہ سب خسارے میں رہنے والے لوگ تھے، یعنی پہلے لوگ بھی اور یہ لوگ بھی اور کون سا خسارہ جنت سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ کون سا خسارہ سب سے مکرم ہستی کی ہمسائیگی سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہو سکتا ہے؟
#
{132} ولكنَّهم وإن اشتركوا في الخسران؛ فإنهم يتفاوتون في مقداره تفاوتاً عظيماً، {ولكلٍّ}: منهم {درجات مما عملوا}: بحسب أعمالهم، لا يُجعل قليل الشرِّ منهم ككثيره، ولا التابع كالمتبوع، ولا المرؤوس كالرئيس؛ كما أن أهل الثواب والجنة وإن اشتركوا في الربح والفلاح ودخول الجنة؛ فإن بينهم من الفرق ما لا يعلمه إلا الله، مع أنهم كلهم [قد] رضوا بما آتاهم مولاهم وقنعوا بما حباهم، فنسأله تعالى أن يجعلَنا من أهل الفردوس الأعلى التي أعدَّها الله للمقربين من عباده والمصطَفَيْن من خلقه وأهل الصفوة من أهل وداده. {وما ربُّك بغافل عما يعملونَ} فيجازي كلًّا بحسب عمله، وبما يعلمه من مقصده.
[132] البتہ یہ لوگ اگرچہ خسارے میں مشترک ہوں گے مگر خسارے کی مقدار میں وہ ایک دوسرے سے بہت متفاوت ہوں گے۔ ﴿وَلِكُ٘لٍّ ﴾ ’’اور ہر ایک کے لیے۔‘‘ یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے ﴿ دَرَجٰؔتٌ مِّؔمَّا عَمِلُوْا ﴾ ’’بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں ۔‘‘ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات ہیں جس نے تھوڑی سی برائی کا ارتکاب کیا ہے وہ اس شخص کی مانند نہیں ہو سکتا جس نے بہت برائیاں کمائی ہیں ۔ تابع متبوع کے برابر ہو سکتا ہے نہ رعایا حکمران کے برابر ہو سکتی ہے۔ جیسے اہل ثواب اور اہل جنت منافع، فوز و فلاح اور جنت میں داخل ہونے میں مشترک ہیں مگر ان کے درجات میں اس قدر تفاوت ہوگا کہ اللہ کے سوا اسے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے باوجود وہ سب اس پر راضی ہوں گے جو ان کا آقا ان کو عطا کرے گا اور اس پر قناعت کریں گے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی جنت الفردوس کے بلند درجات عطا کرے جو اس نے اپنے مقرب، چنے ہوئے اور محبوب بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہے ﴿وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ﴾ ’’اور آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘ وہ ہر ایک کو اس کے قصد اور عمل کے مطابق جزا دے گا۔
#
{133} وإنما أمر الله العباد بالأعمال الصالحة ونهاهم عن الأعمال السيئة رحمةً بهم وقصداً لمصالحهم، وإلاَّ؛ فهو الغني بذاته عن جميع مخلوقاته؛ فلا تنفعه طاعة الطائعين؛ كما لا تضره معصية العاصين. {إن يشأ يُذْهِبْكم}: بالإهلاك، {ويستخلِفْ من بعدِكم ما يشاء كما أنشأكم من ذُرِّيَّة قوم آخرين}: فإذا عرفتم بأنكم لا بدَّ أن تنتقلوا من هذه الدار كما انتقل غيركم، وترحلون منها وتخلونها لمن بعدكم كما رَحَلَ عنها مَنْ قبلكم وخلَّوها لكم؛ فَلِمَ اتَّخذتموها قراراً، وتوطنتم بها، ونسيتم أنها دار ممرٍّ، لا دار مقرٍّ وأن أمامكم داراً هي الدار التي جمعتْ كلَّ نعيم وسلمتْ من كلِّ آفة ونقص؟ وهي الدار التي يسعى إليها الأوَّلون والآخرون، ويرتحل نحوها السابقون واللاحقون، التي إذا وصلوها؛ فثم الخلودُ الدائم والإقامة اللازمة والغاية التي لا غاية وراءها والمطلوب الذي ينتهي إليه كل مطلوب والمرغوب الذي يضمحلُّ دونه كل مرغوب، هنالك والله ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين ويتنافس فيه المتنافسون من لذَّة الأرواح وكثرة الأفراح ونعيم الأبدان والقلوب والقرب من علام الغيوب؛ فلله همةٌ تعلَّقت بتلك الكرامات، وإرادة سَمَتْ إلى أعلى الدرجات، وما أبخس حظَّ من رضي بالدُّون، وأدنى همة من اختار صفقة المغبون!
[133] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیا ہے اور ان پر رحم کرتے ہوئے اور ان کی بھلائی کی خاطر ان کو برے اعمال سے منع کیا ہے۔ ورنہ وہ بذاتہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ اطاعت کرنے والوں کی اطاعت اسے کوئی فائدہ دیتی ہے نہ نافرمانی کرنے والوں کی نافرمانی اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ ﴿اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ ﴾ ’’اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے‘‘ یعنی تمھیں ہلاک کر کے ختم کر دے ﴿ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَ﴾ ’’اور تمھارے بعد جس کو چاہے تمھارا جانشین بنا دے جیسے تمھیں پیدا کیا اوروں کی اولاد سے‘‘ جب تمھیں اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمھارا اس دنیا سے منتقل ہونا لابدی ہے تم بھی اپنے بعد آنے والوں کے لیے اس دنیا کو خالی کر کے یہاں سے کوچ کر جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ یہاں سے کوچ کر گئے اور انھوں نے اس دنیا کو تمھارے لیے خالی کر دیا، پھر تم نے اس دنیا کو کیوں ٹھکانا اور وطن بنا لیا اور تم نے کیوں فراموش کر دیا کہ یہ دنیا ٹھکانا اور جائے قرار نہیں بلکہ گزرگاہ ہے اور اصل منزل تمھارے سامنے ہے۔ یہی وہ گھر ہے جہاں ہر نعمت جمع کر دی گئی ہے اور جو ہر آفت اور نقص سے محفوظ ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کی طرف اولین و آخرین لپکتے ہیں اور جس کی طرف سابقین و لاحقین کوچ کرتے ہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دائمی اور لازمی قیام ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس کے آگے کوئی منزل نہیں ، یہ وہ مطلوب و مقصود ہے جس کے سامنے ہر مطلوب ہیچ ہے اور یہ وہ مرغوب نعمت ہے جس کے مقابلے میں ہر مرغوب مضمحل ہے۔ اللہ کی قسم! وہاں وہ نعمتیں عنایت ہوں گی جن کو نفس چاہیں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی اور رغبت کرنے والے رغبت کریں گے۔ جیسے روحوں کی لذت، بے پایاں فرحت، قلب و بدن کی نعمت اور اللہ علام الغیوب کا قرب۔ پس کتنی اعلیٰ فکر ہے جو ان مقامات پر مرتکز ہے اور کتنا بلند ارادہ ہے جو ان اعلیٰ درجات کی طرف مائل پرواز ہے اور وہ کتنا بدنصیب ہے جو اس سے کم تر پر راضی ہے اور وہ کتنا کم ہمت ہے جو گھاٹے کا سودا پسند کرتا ہے۔
#
{134} ولا يستبعد المعرض الغافل سرعة الوصول إلى هذه الدار؛ فإنَّ {ما توعدونَ لآتٍ وما أنتُم بمعجزينَ}: لله، فارِّين من عقابه؛ فإنَّ نواصِيَكم تحت قبضته، وأنتم تحت تدبيره وتصرفه.
[134] غفلت کا شکار روگرداں شخص اس منزل پر جلدی سے پہنچنے کو بعید نہ سمجھے۔ ﴿اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍ١ۙ وَّمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ﴾ ’’تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہ آنے والا ہے اور تم عاجز نہیں کر سکتے‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے اور اس کے عذاب سے کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتے کیونکہ تمھاری پیشانیاں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور تم اس کی تدبیر اور تصرف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہو۔
#
{135} {قل}: يا أيها الرسولُ لقومك إذا دعوتَهم إلى الله وبينت لهم مآلهم وما عليهم من حقوقه فامتنعوا من الانقياد لأمرِهِ واتَّبعوا أهواءهم واستمروا على شركهم: {يا قومِ اعملوا على مكانتِكُم}؛ أي: على حالتكم التي أنتم عليها ورضيتموها لأنفسكم، {إني عاملٌ}: على أمر الله ومتبعٌ لمراضي الله: {فسوف تعلمونَ من تكونُ له عاقبةُ الدار}: أنا أو أنتم، وهذا من الإنصاف بموضع عظيم؛ حيث بيَّن الأعمال وعامليها، وجعل الجزاء مقروناً بنظر البصير، ضارباً فيه صفحاً عن التصريح الذي يغني عنه التلويح، وقد علم أن العاقبة الحسنة في الدنيا والآخرة للمتقين، وأن المؤمنين لهم عُقبى الدار، وأنَّ كلَّ معرض عن ما جاءت به الرسل عاقبته عاقبة سوء وشر، ولهذا قال: {إنه لا يفلحُ الظالمونَ}: فكلُّ ظالم وإن تمتَّع في الدُّنيا بما تمتع به؛ فنهايته فيه الاضمحلال والتلف؛ إن الله ليملي للظالم حتى إذا أخذه لم يُفْلِتْه.
[135] ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے‘‘ اے رسول (e) جبکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے دی اور ان کے انجام اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں ان کو آگاہ کر دیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے باز رہے بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہے اور اپنے شرک پر قائم رہے تو آپ ان سے کہہ دیجیے ﴿یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ ﴾ ’’اے میری قوم! تم کام کرتے رہو، اپنی جگہ پر‘‘ یعنی جس حال میں تم ہو اور جس حال کو تم نے اپنے لیے پسند کر لیا ہے اسی پر قائم رہو ﴿ اِنِّیْ عَامِلٌ ﴾ ’’میں (اپنی جگہ) عمل کیے جاتا ہوں ۔‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور اس کی مرضی کی اتباع کرتا ہوں ﴿ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ﴾ ’’عنقریب تم جان لو گے کہ کس کو ملتا ہے عاقبت کا گھر‘‘ یعنی آخرت کا گھر تمھارے لیے ہے یا میرے لیے۔ اور یہ انصاف کا عظیم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعمال اور ان پر عمل کرنے والوں کے بارے میں بیان فرما دیا اور نہایت بصیرت کے ساتھ ان اعمال کی جزا بھی ساتھ بیان فرما دی جہاں تصریح سے گریز کرتے ہوئے تلویح سے کام لیا ہے۔ اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دنیا و آخرت میں اچھا انجام صرف اہل تقویٰ کے لیے ہے۔ آخرت کا گھر اہل ایمان کے لیے ہے اور انبیا و رسل کی لائی ہوئی شریعت سے روگردانی کرنے والوں کا انجام انتہائی برا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ لَا یُفْ٘لِحُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ ’’یقینا ظالم فلاح یاب نہیں ہوں گے‘‘ ظالم خواہ اس دنیا سے کتنا ہی فائدہ اٹھا لے، اس کی انتہا اضمحلال اور اتلاف ہے۔ حدیث میں ہے۔ ’اِن اللّٰہَ لُیُمْلِی للِظَّالِمِ، حَتَّی اِذَا اَخَذَہُ لَم یُفْلِتْہ‘ (صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب قولہ (وکذالک أخذ ربک… الخ) حدیث: 4686) ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں ‘‘
آیت: 136 - 140 #
{وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (136) وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (137) وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (138) وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (139) قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (140)}
اور ٹھہرایا انھوں نے اللہ کے لیے اس میں سے جو پیدا کی اس نے کھیتی اور چوپائے، ایک حصہ، پس کہا یہ اللہ کے لیے ہے ان کے خیال کے مطابق اور یہ (حصہ) ہے ہمارے دیوتاؤں کے لیے تو جو (حصہ) ہے ان کے دیوتاؤں کا، پس وہ نہیں پہنچتا اللہ کی طرف اور جو حصہ ہے اللہ کا تو وہ پہنچ جاتا ہے طرف ان کے دیوتاؤں کی، برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں (136)اور اسی طرح مزین کر دیا بہت سے مشرکوں کے لیے قتل کرنا اپنی اولاد کا ان کے دیوتاؤں نےتاکہ وہ ہلاک کردیں انھیں اور تاکہ خلط ملط کر دیں ان پر ان کا دین اور اگر چاہتا اللہ تو نہ کرتے وہ یہ، پس چھوڑ دیجیے انھیں اور جو وہ افترا باندھتے ہیں(137) اور کہا انھوں نے، یہ چوپائے اور کھیتی ممنوع ہے، نہیں کھا سکتا اسے مگر وہی جسے ہم چاہیں،(یہ کہا انھوں نے) اپنے خیال کے مطابق اور بعض چوپائے ہیں کہ حرام کردی گئیں ان کی پیٹھیں اوربعض چوپائے ہیں کہ نہیں ذکر کرتے وہ اللہ کا نام ان پر، افترا باندھتے ہوئے اس( اللہ) پر، عنقریب وہ سزا دے گا انھیں بوجہ اس کے جو تھے وہ افترا باندھتے (138)اور کہا انھوں نے، جو (بچہ) ہے پیٹوں میں ان چوپایوں کے، وہ خالص ہے صرف ہمارے مردوں کے لیے اور حرام ہے ہماری بیویوں پر اور اگر ہو وہ مردہ تو وہ سب (مردو عورت) اس میں شریک ہیں، عنقریب وہ سزا دے گا انھیں ان کے (اس) بیان کی، یقینا وہ حکمت والا جاننے والا ہے(139) تحقیق خسارے میں رہے وہ لوگ، جنھوں نے قتل کیا اپنی اولاد کو بیوقوفی سے، بغیر علم کےاور حرام ٹھہرایا انھوں نے جو رزق دیا انھیں اللہ نے، افترا باندھتے ہوئے اللہ پر، تحقیق گمراہ ہوگئے وہ اور نہ ہوئے وہ ہدایت یافتہ(140)
#
{136} يخبر تعالى عما عليه المشركون المكذِّبون للنبي - صلى الله عليه وسلم - من سفاهة العقل وخفة الأحلام والجهل البليغ، وعدَّد تبارك وتعالى شيئاً من خرافاتهم؛ لينبِّه بذلك على ضلالهم والحذر منهم، وأن معارضة أمثال هؤلاء السفهاء للحقِّ الذي جاء به الرسول لا تقدح فيه أصلاً؛ فإنَّهم لا أهليَّة لهم في مقابلة الحق، فذكر من ذلك أنهم: {جعلوا للهِ} نصيباً {مما ذَرَأ من الحَرْثِ والأنعام}: ولشركائهم من ذلك نصيباً، والحال أنَّ الله تعالى هو الذي ذرأه للعباد وأوجده رزقاً، فجمعوا بين محذورين محظورين، بل ثلاثة محاذير: منَّتهم على الله في جعلهم له نصيباً مع اعتقادهم أنَّ ذلك منهم تبرُّع. وإشراك الشركاء الذين لم يرزُقوهم ولم يوجدوا لهم شيئاً في ذلك. وحكمهم الجائر في أنَّ ما كان للهِ لم يبالوا به ولم يهتمُّوا، ولو كان واصلاً إلى الشركاء وما كان لشركائهم؛ اعتنوا به واحتفظوا به ولم يصلْ إلى الله منه شيءٌ، وذلك أنهم إذا حصل لهم من زروعهم وثمارهم وأنعامهم التي أوجدها الله لهم شيء؛ جعلوه قسمينِ: قسماً قالوا: هذا لله بقولهم وزعمهم، وإلاَّ؛ فالله لا يقبلُ إلا ما كان خالصاً لوجهه ولا يقبلُ عمل مَن أشرك به، وقسماً جعلوه حصة شركائِهِم من الأوثان والأنداد؛ فإن وصل شيء مما جعلوه لله واختلط بما جعلوه لغيره؛ لم يبالوا بذلك، وقالوا: الله غنيٌّ عنه فلا يردُّونه، وإن وصل شيءٌ مما جعلوه لآلهتهم إلى ما جعلوه لله؛ ردُّوه إلى محلِّه، وقالوا: إنها فقراء، لا بدَّ من ردِّ نصيبها؛ فهل أسوأ من هذا الحكم وأظلم حيث جعلوا ما للمخلوق يجتهد فيه وينصح ويحفظ أكثر مما يفعل بحقِّ الله. ويحتمل أن تأويل الآية الكريمة ما ثبت في «الصحيح» عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: أنَّه قال عن الله تعالى: أنّه قال: «أنا أغنى الشُّركاءِ عن الشرك، مَنْ أشرك معي شيئاً؛ تركتُه وشِرْكَه» ، وأنَّ معنى الآية أنَّ ما جعلوه وتقربوا به لأوثانهم فهو تقرُّبٌ خالصٌ لغير الله، ليس لله منه شيءٌ، وما جعلوه لله على زعمهم؛ فإنه لا يصل إليه؛ لكونِهِ شركاً، بل يكون حظَّ الشركاء والأنداد؛ لأن الله غنيٌّ عنه، لا يقبل العمل الذي أشرك به معه أحدٌ من الخلق.
[136] اللہ تعالیٰ رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی بیوقوفی، کم عقلی اور انتہا کو پہنچی ہوئی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، چنانچہ ان کی متعدد خرافات کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ ان کی گمراہی پر متنبہ کر کے اہل ایمان کو ان سے بچائے اور ان بیوقوفوں کا اس حق کی مخالفت کرنا، جسے انبیا و رسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں ، حق میں نقص کا باعث نہیں ۔ کیونکہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا ﴾ ’’اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مویشی اور کھیتی پیدا کی ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لیے مقرر کرتے ہیں ۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کر کے بندوں کے لیے رزق فراہم کیا ہے۔ انھوں نے دو محظور امور بلکہ تین کو یکجا کر دیا جن سے بچنے کے لیے ان کو کہا گیا تھا۔ (۱) اللہ تعالیٰ پر ان کا احسان دھرنا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر کیا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر نوازش ہے۔ (ب) اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کی پیداوار میں شریک کرنا حالانکہ وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی وجود میں نہیں لائے۔ (ج) اور ظلم و جور پر مبنی ان کا یہ فیصلہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حصے کی کوئی پروا نہیں کرتے، اگرچہ یہ حصہ اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیں اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے حصے کو درخور اعتناء سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصے کے ساتھ نہیں ملاتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مشرکین کو کھیتیوں اور پھلوں کی پیداوار اور مویشی حاصل ہوتے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کے لیے وجود میں لایا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے (۱) ایک حصے کے بارے میں بزعم خود کہتے ’’یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔‘‘حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (۲) دوسرا حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے معبودوں اور بتوں کی نذر کرتے تھے، اگر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے نکل کر اس حصے میں خلط ملط ہو جاتی جو غیر اللہ کے لیے مقرر کیا تھا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصہ کی طرف نہیں لوٹاتے تھے اور کہتے تھے ’’اللہ اس سے بے نیاز ہے‘‘ اور اگر کوئی چیز، جو انھوں نے اپنے معبودوں اور بتوں کے لیے مقرر کی تھی اس حصے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا تھا تو اسے بتوں کے لیے مقرر حصے کی طرف لوٹا دیتے اور کہتے ’’یہ بت تو محتاج ہیں اس لیے ان کے حصے کو ان کی طرف لوٹانا ضروری ہے‘‘۔۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر ظلم پر مبنی، بدترین فیصلہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انھوں نے جو حصہ مخلوق کے لیے مقرر کیا ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے حق سے زیادہ خیر خواہی اور حفاظت کرتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس معنی کا احتمال بھی ہو سکتا ہے جو رسول اللہe کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں تمام شریکوں سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں ۔ جو کوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے میں اسے چھوڑ کر اس کے شرک کے حوالے کر دیتا ہوں ۔۔۔۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب تحریم الریاء، حدیث: 3985) آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین نے اپنے معبودوں اور بتوں کے تقرب کے حصول کے لیے جو حصے مقرر کر رکھے ہیں وہ خالص غیر اللہ کے لیے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ۔ اور ان کے زعم باطل کے مطابق انھوں نے جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا ہے وہ ان کے شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں پہنچتا۔ بلکہ یہ بھی ان کے معبودوں اور بتوں کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ وہ مخلوق میں سے اس شخص کا عمل کبھی قبول نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے۔
#
{137} ومن سَفَه المشركين وضلالهم أنه {زَيَّنَ لكثيرٍ من المشركين} شركاؤهم ـ أي: رؤساؤهم وشياطينهم ـ قتلَ أولادهم، وهو الوأد الذين يدفنون أولادهم خشية الافتقار والإناث خشية العار، وكل هذا من خدع الشياطين الذين يريدون أن يُرْدوهم بالهلاك ويَلْبِسوا عليهم دينهم فيفعلون الأفعال التي في غاية القبح، ولا يزال شركاؤهم يزيِّنونها لهم حتى تكونَ عندهم من الأمور الحسنة والخصال المستحسنة، ولو شاء الله أن يمنَعَهم ويحَولَ بينهم وبين هذه الأفعال ويمنعَ أولادَهم عن قتل الأبوين لهم؛ ما فعلوه، ولكنِ اقتضتْ حكمتُهُ التخليةَ بينهم وبين أفعالهم؛ استدراجاً منه لهم وإمهالاً لهم وعدم مبالاة بما هم عليه، ولهذا قال: {فذَرْهُم وما يفترونَ}؛ أي: دعهم مع كذِبِهم وافترائهم، ولا تحزن عليهم؛ فإنَّهم لن يضرُّوا الله شيئاً.
[137] مشرکین کی حماقت اور گمراہی یہ ہے کہ اکثر مشرکین کے سامنے ان کے خداؤں یعنی ان کے سرداروں اور شیاطین نے ان کے اعمال، یعنی قتل اولاد کو مزین کر دیا ہے۔ یہاں قتل اولاد سے مراد ان لوگوں کا اپنے بچوں کو قتل کرنا ہے جو بھوک اور فقر کے ڈر سے اپنے بچوں کو اور عار کے ڈر سے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ یہ سب شیاطین کی فریب کاری ہے جو انھیں ہلاکت کی وادیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دین ان پر مشتبہ ہو جائے اس لیے وہ انتہائی برے کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ان کے یہ شرکاء ان کے ان اعمال کو آراستہ کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہ ان کے ہاں نیکی کے اعمال اور اچھے خصائل بن جاتے ہیں ۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان اعمال سے روکنا اور ان کے اور ان افعال قبیحہ کے درمیان حائل ہونا چاہتا اور اگر وہ چاہتا کہ ماں باپ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں تو وہ کبھی قتل نہ کرتے۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ ان کو مہلت دینے کے لیے ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان سے ہٹ جائے اور ان کے اعمال کی پروا نہ کرے، اس لیے فرمایا: ﴿فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ﴾ ’’تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ۔‘‘ یعنی ان کو ان کے جھوٹ اور افترا کے ساتھ چھوڑ دیں اور ان کے بارے میں غم زدہ نہ ہوں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
#
{138} ومن أنواع سفاهتهم أن الأنعام التي أحلَّها الله لهم عموماً وجعلها رزقاً ورحمة يتمتَّعون بها وينتفعون قد اخترعوا فيها بدعاً وأقوالاً من تلقاء أنفسهم؛ فعندهم اصطلاح في بعض الأنعام والحرث أنهم يقولون فيها: {هذه أنعامٌ وحَرْثٌ حِجْرٌ}؛ أي: محرم. لا يطعمه {إلا من نشاء}؛ أي: لا يجوز أن يَطْعَمُه أحدٌ إلاَّ مَن أردنا أن يُطعمه أو وصفناه بوصفٍ من عندنا، وكلُّ هذا بزعمهم لا مستندَ لهم ولا حجة إلا أهويتهم وآراؤهم الفاسدة. وأنعام ليست محرمةً من كل وجه، بل يحرِّمون ظهورها؛ أي: بالركوب والحمل عليها، ويحمون ظهرها، ويسمونها الحام. وأنعام لا يذكرون اسم الله عليها، بل يذكرون اسم أصنامهم وما كانوا يعبدون من دون الله عليها، وينسبون تلك الأفعال إلى الله، وهم كَذَبَةٌ فُجَّارٌ في ذلك. {سيجزيهم بما كانوا يفترونَ}: على الله من إحلال الشرك وتحريم الحلال من الأكل والمنافع.
[138] ان کی حماقت و سفاہت کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انھوں نے ان مویشیوں اور چوپائیوں کے سلسلے میں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عام طور پر حلال ٹھہرایا اور ان کے لیے ان کو رزق اور رحمت کا ذریعہ بنایا، جن سے یہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ، اپنی طرف سے بدعات اور بدعی اقوال گھڑ لیے ہیں ۔ بعض مویشیوں اور کھیتیوں کے بارے میں انھوں نے اصطلاح وضع کر رکھی ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں : ﴿ هٰؔذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ ﴾ ’’یہ مویشی اور کھیتی ممنوع ہے‘‘ یعنی یہ حرام ہیں ﴿ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ ﴾ ’’اسے اس شخص کے سوا جسے ہم چاہیں کوئی نہ کھائے۔‘‘ یعنی اس کا کھانا کسی کے لیے جائز نہیں اور اس کو صرف وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں یا ہم بیان کریں کہ فلاں قسم کا شخص کھا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ان کا زعم باطل ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔ سوائے اس کے کہ یہ ان کی خواہشات نفس اور باطل آراء ہیں ۔ مویشی ان پر کسی لحاظ سے حرام نہیں تھے بلکہ انھوں نے ان کی پیٹھ کو حرام ٹھہرایا یعنی ان پر سواری کرنے اور بوجھ لادنے کو۔ اور ایسے جانور کو انھوں نے (حام) سے موسوم کر رکھا تھا۔ ’’حام‘‘ حمی یحمی سے ہے بمعنی ’’حفاظت کرنا۔‘‘ پیٹھ کی، سواری اور بوجھ سے حفاظت کرنے کی وجہ سے یہ نام پڑا۔ کچھ جانور وہ تھے جن پر وہ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ ان بتوں کا نام لیتے تھے جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے۔ اور وہ تمام افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ جھوٹے اور فاسق و فاجر تھے ﴿ سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ﴾ ’’عنقریب وہ سزا دے گا ان کو اس جھوٹ کی‘‘ یعنی شرک کو حلال ٹھہرانے اور کھانے پینے اور دیگر منفعت کی اشیا کو حرام ٹھہرانے میں وہ اللہ تعالیٰ پر جو جھوٹ گھڑتے تھے۔
#
{139} ومن آرائهم السخيفة أنهم يجعلون بعض الأنعام ويعيِّنونها محرماً ما في بطنها على الإناث دون الذكور، فيقولون: {ما في بطونِ هذه الأنعام خالصةٌ لذكورنا}؛ أي: حلال لهم لا يشاركهم فيها النساء. {ومحرَّمٌ على أزواجنا}؛ أي: نسائنا، هذا إذا وُلِدَ حيًّا، وإن يكن ما في بطنها يولد ميتاً؛ فهم فيه شركاء؛ أي: فهو حلال للذكور والإناث. {سيَجْزيهم}: الله {وَصْفَهُمْ}: حيث وصفوا ما أحلَّه الله بأنه حرام، ووصفوا الحرام بالحلال، فناقضوا شرع الله وخالفوه ونسبوا ذلك إلى الله. {إنَّه حكيمٌ}؛ حيث أمهل لهم ومكَّنهم مما هم فيه من الضلال، {عليمٌ}: بهم لا تخفى عليه خافيةٌ، وهو تعالى يعلم بهم، وبما قالوه عليه، وافتَرَوْه وهو يعافيهم، ويرزقهم جل جلاله.
[139] ان کی کم عقلی پر مبنی آراء میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بعض مویشیوں کو معین کر دیتے اور کہتے کہ ان کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردوں کے لیے حلال اور عورتوں کے لیے حرام ہے، چنانچہ وہ کہتے تھے: ﴿وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰؔذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا ﴾ ’’جو کچھ ان مویشیوں کے پیٹوں میں ہے، اس کو صرف ہمارے مرد ہی کھائیں گے‘‘ یعنی ان کے لیے حلال ہے اس کے کھانے میں عورتیں شریک نہیں ہوں گی ﴿ وَمُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَا ﴾ ’’اور ہماری عورتوں کو (اس کاکھانا) حرام ہے۔‘‘ یعنی یہ ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے کہ وہ زندہ پیدا ہو۔ اگر مویشی کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردہ پیدا ہوا تو اس میں سب شریک ہوں گے یعنی وہ مردوں اور عورتوں سب کے لیے حلال ہے ﴿سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْ ﴾ ’’وہ عنقریب سزا دے گا ان کو ان کی غلط بیانیوں کی‘‘ اس لیے کہ انھوں نے اس چیز کو حرام ٹھہرایا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا۔ اور حرام کو حلال سے موصوف کیا پس اس طرح انھوں نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت کی اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر ڈالا ﴿ اِنَّهٗ حَكِیْمٌ ﴾ ’’بے شک وہ حکمت والا ہے۔‘‘ کیونکہ اس نے ان کو مہلت دی اور اس گمراہی کا ان کو اختیار دیا جس میں یہ سرگرداں ہیں ﴿ عَلِیْمٌ ﴾ ’’جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جانتا ہے وہ ان کی باتوں اور افترا پردازیوں کا بھی خوب علم رکھتا ہے۔ بایں ہمہ وہ ان کو معاف کرتا اور ان کو رزق سے نوازتا ہے۔
#
{140} ثم بيَّن خُسرانهم وسفاهةَ عقولهم، فقال: {قد خَسِرَ الذين قتلوا أولادَهم سفهاً بغير علم}؛ أي: خسروا دينهم وأولادهم وعقولهم، وصار وصفهم بعد العقول الرزينة السَّفَه المردي والضلال، {وحرَّموا ما رزقهم الله}؛ أي: ما جعله رحمة لهم وساقه رزقاً لهم، فردُّوا كرامة ربِّهم، ولم يكتفوا بذلك، بل وصفوها بأنها حرام وهي من أحلِّ الحلال، وكل هذا {افتراءٌ على الله}؛ أي: كذب يَكْذِب به كلُّ معاندٍ كفارٍ، {قد ضَلُّوا وما كانوا مهتدينَ}؛ أي: قد ضلُّوا ضلالاً بعيداً ولم يكونوا مهتدينَ في شيءٍ من أمورِهم.
[140] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے خسران اور ان کی کم عقلی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ ’’بے شک خسارے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے بغیر علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا‘‘ یعنی وہ اپنے دین، اولاد اور عقل کے بارے میں خسارے میں رہے۔ پختہ رائے اور عقل کے بعد ہلاکت انگیز حماقت اور ضلالت ان کا وصف ٹھہری ﴿ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ ﴾ ’’اور حرام ٹھہرایا اس رزق کو جو اللہ نے ان کو دیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو ان کے لیے رحمت بنایا اور اسے ان کے لیے رزق قرار دیا تھا۔ پس انھوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کو ٹھکرا دیا، پھر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اس نعمت کو حرام سے موصوف کیا۔ حالانکہ یہ نعمت ان کے لیے سب سے زیادہ حلال تھی۔ اور یہ سب کچھ ﴿ افْتِرَآءًؔ عَلَى اللّٰهِ ﴾ ’’جھوٹ باندھ کر اللہ پر‘‘ یعنی یہ سب کچھ جھوٹ ہے اور ہر عناد پسند کافر جھوٹ گھڑتا ہے ﴿قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ ﴾ ’’وہ بے شبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں ۔‘‘ یعنی وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے اور وہ اپنے تمام امور میں سے کسی چیز میں بھی راہ راست پر نہیں ہیں ۔
آیت: 141 #
{وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (141)}
اور وہی(اللہ) ہے جس نے پیدا فرمائے باغات چھتریوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئےاور(پیدا فرمائی) کھجور اور کھیتی مختلف ہیں(مزے میں) ان کے پھل اور زیتون اور انار، ملتے جلتے بھی اور نہ ملتے جلتے بھی، تم کھاؤ اس کا پھل جب وہ پھل لائےاور دو اس کا حق دن اس کی کٹائی کے اور نہ اسراف کرو تم، بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا، فضول خرچوں کو(141)
#
{141} لما ذكر تعالى تصرُّفَ المشركين في كثير مما أحلَّه الله لهم من الحروث والأنعام؛ ذكر تبارك وتعالى نعمتَه عليهم بذلك ووظيفَتَهم اللازمة عليهم في الحروثِ والأنعام، فقال: {وهو الذي أنشأ جناتٍ}؛ أي: بساتين فيها أنواع الأشجار المتنوعة والنباتات المختلفة، {معروشاتٍ وغير معروشاتٍ}؛ أي: بعض تلك الجنات مجعولٌ لها عريشٌ تنتشر عليه الأشجار ويعاونها في النهوض عن الأرض، وبعضها خالٍ من العروش تنبُتُ على ساقٍ أو تنفرش في الأرض. وفي هذا تنبيهٌ على كَثرة منافعها وخيراتها، وأنه تعالى علَّم العباد كيف يعرشونها وينمونها. {و}: أنشأ تعالى {النخل والزرع مختلفاً أُكُلُه}؛ أي: كله في محل واحد، ويشرب من ماء واحد، ويفضل الله بعضه على بعض في الأكل، وخص تعالى النخل والزرع على اختلاف أنواعه لكثرة منافعها ولكونها هي القوتُ لأكثر الخلق. {و} أنشأ تعالى {الزيتونَ والرُّمانَ متشابهاً}: في شجره، {وغير متشابهٍ}: في ثمره وطعمه، كأنه قيل: لأي شيء أنشأ الله هذه الجنات؟ وما عطف عليها؟ فأخبر أنه أنشأها لمنافع العباد، فقال: {كلوا من ثمرِهِ}؛ أي: النخل والزرع، {إذا أثمر وآتوا حَقَّه يومَ حصادِهِ}؛ أي: أعطوا حقَّ الزرع، وهو الزكاة ذات الأنصباء المقدَّرة في الشرع؛ أمرهم أن يعطوها يوم حصادها، وذلك لأنَّ حصادَ الزرع بمنزلة حَوَلان الحول؛ لأنه الوقت الذي تتشوَّف إليه نفوس الفقراء، ويسهُلُ حينئذٍ إخراجُه على أهل الزرع، ويكون الأمر فيها ظاهراً لمن أخرجها حتى يتميَّز المخرِج ممَّن لا يخرج. وقوله: {ولا تسرفوا}؛ يعمُّ النهي عن الإسراف في الأكل، وهو مجاوزة الحدِّ والعادة. وأن يأكلَ صاحبُ الزرعِ أكلاً يضرُّ بالزكاة، والإسراف في إخراج حقِّ الزرع بحيث يخرِجُ فوقَ الواجبِ عليه أو يضرُّ نفسه أو عائلتَه أو غرماءَه؛ فكلُّ هذا من الإسراف الذي نهى الله عنه الذي لا يحبُّه الله بل يبغِضُه، ويمقتُ عليه. وفي هذه الآية دليلٌ على وجوب الزكاة في الثمار، وأنه لا حَوْلَ لها، بل حولُها حصادُها في الزروع وجذاذ النخيل، وأنه لا تتكرَّر فيها الزكاة لو مكثت عند العبد أحوالاً كثيرةً إذا كانت لغير التجارة؛ لأنَّ الله لم يأمر بالإخراج منه إلاَّ وقتَ حصادِهِ، وأنَّه لو أصابها آفةٌ قبل ذلك بغير تفريط من صاحب الزرع والثمر؛ أنه لا يضمنها، وأنه يجوز الأكل من النخل والزرع قبل إخراج الزكاة منه، وأنه لا يُحْسَبُ ذلك من الزكاة، بل يزكِّي المال الذي يبقى بعده، وقد كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يَبْعَثُ خارصاً يخرُصُ للناس ثمارَهم ويأمرُهُ أن يَدَعَ لأهلها الثلث أو الربع بحسب ما يعتريها من الأكل وغيره من أهلها وغيرهم.
[141] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کھیتیوں اور مویشیوں میں مشرکین کے تصرف کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حلال ٹھہرایا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت کا تذکرہ فرمایا اور کھیتیوں اور مویشیوں کے بارے میں ان کے لازمی وظیفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ ﴾ ’’وہی ہے جس نے باغ پیدا کیے‘‘ جس میں مختلف انواع کے درخت اور نباتات ہیں ۔ ﴿ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ ﴾ ’’جو ٹٹیوں (چھتریوں ) پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے‘‘ یعنی ان میں سے بعض باغات کے لیے چھتریاں بنائی جاتی ہیں اور ان کو ان چھتریوں پر چڑھایا جاتا ہے اور یہ چھتریاں انھیں اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ اور بعض درختوں کے لیے چھتریاں نہیں بنائی جاتیں بلکہ وہ اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں یا زمین پر بچھ جاتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں ان کے کثرت منفعت اور ان کے فوائد کی طرف اشارہ ہے۔ نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھایا کہ پودوں کو کیسے چھتریوں پر چڑھانا اور کیسے ان کی پرورش کرنا ہے۔ ﴿ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ ﴾ ’’(اور پیدا کیے) کھجور کے درخت اور کھیتی کہ مختلف ہیں ان کے پھل‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر کھجور اور کھیتیاں پیدا کیں جو ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہیں مگر کھانے اور ذائقے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر کھجور اور کھیتیوں کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ مختلف انواع و اقسام کی بنا پر بہت سے فوائد کی حامل ہیں نیز یہ اکثر مخلوق کے لیے خوراک کا کام دیتی ہیں ۔ ﴿وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا﴾ ’’اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے زیتون اور انار کو پیدا کیا جس کے درخت ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ﴿ وَّغَیْرَ مُتَشَابِهٍ ﴾ ’’اور جدا جدا بھی‘‘ جو اپنے پھل اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ گویا کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان باغات کو کس مقصد کے لیے پیدا کیا اور کس پر یہ نوازش کی؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی منفعت کے لیے یہ باغات پیدا کیے، اس لیے فرمایا: ﴿ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ ﴾ ’’ان کے پھل کھاؤ۔‘‘ یعنی کھجور اور کھیتیوں کا پھل کھاؤ ﴿ اِذَاۤ اَثْ٘مَرَ﴾ ’’جب وہ پھل لائیں ‘‘ ﴿ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﴾ ’’اور جس دن (پھل توڑو) اور کھیتی کاٹو تو اللہ کا حق اس میں سے ادا کرو۔‘‘ یعنی فصل کی برداشت کے روز کھیتی کا حق ادا کرو۔ اس سے کھیتی کی زکاۃ (یعنی عشر) مراد ہے جس کا نصاب شریعت میں مقرر ہے۔ ان کو حکم دیا کہ زکاۃ فصل کی برداشت کے وقت ادا کریں کیونکہ برداشت کا دن، ایک سال گزرنے کے قائم مقام ہے۔ نیز یہ وہ وقت ہے جب فقراء کے دلوں میں زکاۃ کے حصول کی امید بندھ جاتی ہے۔ اور اس وقت کاشت کاروں کے لیے اپنی زرعی جنس میں سے زکاۃ نکالنا آسان ہوتا ہے۔ اور جو زکاۃ نکالتا ہے اس کے لیے یہ معاملہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اور زکاۃ نکالنے والے اور زکاۃ نہ نکالنے والے کے درمیان امتیاز واقع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَلَا تُ٘سْرِفُوْا ﴾ ’’اور بے جا خرچ نہ کرو‘‘ یہ ممانعت کھانے میں اسراف کے لیے عام ہے یعنی عادت اور حدود سے تجاوز کر کے کھانا۔ یہ اسراف اس بات کو بھی شامل ہے کہ کھیتی کا مالک اس طرح کھائے جس سے زکاۃ کو نقصان پہنچے اور کھیتی کا حق نکالنے میں اسراف یہ ہے کہ واجب سے بڑھ کر زکاۃ نکالے یا اپنے آپ کو یا اپنے خاندان یا اپنے قرض خواہوں کو نقصان پہنچائے۔ یہ تمام چیزیں اسراف کے زمرے میں آتی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ سخت ناپسند ہے اور وہ اسراف پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ پھلوں میں بھی زکاۃ فرض ہے اور ان میں زکاۃ کی ادائیگی ایک سال گزرنے کی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ غلے کی زکاۃ فصل کٹنے اور کھجوروں کی زکاۃ پھل چنے جانے پر واجب ہو جاتی ہے، پھر زرعی اجناس زکاۃ کی ادائیگی کے بعد کئی سال تک بھی بندے کے پاس پڑی رہیں تو ان میں زکاۃ فرض نہیں بشرطیکہ وہ تجارت کی غرض سے نہ رکھی گئی ہوں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف فصل کی برداشت کے وقت زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اگر فصل برداشت کرنے سے قبل، صاحب زراعت کی کوتاہی کے بغیر، باغ یا کھیتی پر کوئی آفت آ جائے تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا اور زکاۃ نکالنے سے پہلے اگر کھیتی یا کھجور کے پھل میں سے کچھ کھا لیا جائے تو اسے زکاۃ کے حساب میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ جو باقی بچے گا اسی کے حساب سے زکاۃ نکالی جائے گی۔ رسول اللہe پھل کا اندازہ لگانے کا ماہر روانہ فرمایا کرتے تھے جو زکاۃ ادا کرنے والے لوگوں کی کھیتیوں اور کھجوروں کے پھل کا اندازہ لگاتے تھے آپe انھیں حکم دیتے کہ اندازہ لگانے کے بعد وہ ان کے اور دیگر لوگوں کے کھانے کے لیے ایک تہائی یا ایک چوتھائی چھوڑ دیا کریں ۔
آیت: 142 - 144 #
{وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (142) ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (143) وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَذَا فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (144)}.
اور (پیدا کیے) چوپایوں میں سے بوجھ اٹھانے والے اور زمین سے لگے ہوئے، کھاؤ اس میں سے جو دیا تمھیں اللہ نے اور مت پیچھے لگوقدموں کے شیطان کے، یقینا وہ تمھارا دشمن ہے ظاہر (142) (پیدا فرمائیں) آٹھ قسمیں، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجیے! کیا دونوں نر اللہ نے حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ (بچہ) کہ مشتمل ہیں اس پر رحم دونوں ماداؤں کے؟ تم خبر دو مجھے ساتھ علم کے، اگر ہو تم سچے (143)اور (پیدا فرمائے) اونٹ میں سے دو اور گائے میں سے دو، کہہ دیجیے! کیا دونوں نر حرام کیے اللہ نے یا دونوں مادہ یا وہ(بچہ) کہ مشتمل ہیں اس پر رحم دونوں ماداؤں کے؟ کیا تھے تم حاضر جب وصیت کی تھی تمھیں اللہ نے اس کی؟ پس کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے گھڑا اوپر اللہ کے جھوٹ تاکہ گمراہ کرے وہ لوگوں کو بغیر علم کے، یقینا اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم قوم کو(144)
#
{142} أي: {و} خلق وأنشأ {من الأنعام حَمُولةً وفَرْشاً}؛ أي: بعضها تحملون عليه وتركبونه، وبعضها لا تصلح للحمل والركوب عليها لِصغَرِها كالفُصلان ونحوها، وهي الفرش؛ فهي من جهة الحمل والركوب تنقسم إلى هذين القسمين. وأما من جهة الأكل وأنواع الانتفاع؛ فإنها كلها تؤكل وينتفع بها، ولهذا قال: {كُلوا ممَّا رَزَقَكُمُ الله ولا تتَّبِعوا خطواتِ الشيطانِ}؛ أي: طرقه وأعماله التي من جملتها أن تُحَرِّموا بعض ما رزقكم الله. {إنَّه لكم عدوٌّ مبينٌ}: فلا يأمركم إلا بما فيه مضرتكم وشقاؤكم الأبدي.
[142] ﴿وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّفَرْشًا ﴾ ’’اور پیدا کیے مویشی میں سے بوجھ اٹھانے والے اور زمین سے لگے ہوئے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے چوپائے پیدا کیے جن میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور ان سے باربرداری کا کام لیتے ہو۔ اور ان میں سے بعض اپنی کم عمری کی وجہ سے سواری اور باربرداری کے قابل نہیں ہوتے ، مثلاً: ان چوپائیوں کے بچے جو ابھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں ۔ پس یہ مویشی سواری اور باربرداری کے پہلو سے ان دو اقسام میں منقسم ہوتے ہیں ۔ رہا ان کو کھانے کا پہلو اور ان سے دیگر مختلف انواع کے فوائد حاصل کرنا۔ تو یہ تمام مویشی کھائے بھی جاتے ہیں اور ان سے دیگر فوائد بھی حاصل کیے جاتے ہیں ۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ ﴾ ’’کھاؤ اللہ کے رزق میں سے اور مت چلو شیطان کے قدموں پر‘‘ یعنی شیطان کے طریقوں اور اس کے اعمال کی پیروی نہ کرو۔ ان میں سے منجملہ یہ ہیں کہ تم ان چیزوں کو حرام ٹھہرا لیتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں ﴿اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ ’’وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘ پس وہ تمھیں صرف اسی بات کا حکم دے گا جس میں تمھارا نقصان اور تمھاری ابدی بدبختی اور بدنصیبی ہے۔
#
{143} وهذه الأنعام التي امتنَّ الله بها على عباده، وجعلها كلَّها حلالاً طيباً، فصَّلها بأنها: {ثمانيةُ أزواجٍ من الضأن اثنين}: ذكر وأنثى، {ومن المعز اثنين}: كذلك؛ فهذه أربعةٌ، كلُّها داخلةٌ فيما أحلَّ الله، لا فرق بين شيءٍ منها؛ فقلْ لهؤلاء المتكلِّفين الذين يحرمون منها شيئاً دون شيء أو يحرمون بعضها على الإناث دون الذكور ملزماً لهم بعدم وجود الفرق بين ما أباحوا منها وحرموا: {آلذَّكَرَيْنِ}: من الضأن والمعز {حرَّمَ}: الله فلستم تقولون بذلك وتطردونه، {أم الأُنثيين}: حرم الله من الضأن والمعز؛ فليس هذا قولكم؛ لا تحريم الذكور الخُلَّص، ولا الإناث الخُلَّص من الصنفين، بقي إذا كان الرحم مشتملاً على ذكر وأنثى أو على مجهول، فقال: {أم}: تحرمون {ما اشتملت عليه أرحام الأنثيين}؛ أي: أنثى الضأن وأنثى المعز من غير فرق بين ذكر وأنثى؛ فلستُم تقولون أيضاً بهذا القول؛ فإذا كنتم لا تقولون بأحدِ هذه الأقوال الثلاثة التي حصرت الأقسام الممكنة في ذلك؛ فإلى أي شيء تذهبون؟ {نبِّئوني بعلم إن كنتُم صادقينَ}: في قولِكم ودعواكم. ومن المعلوم أنهم لا يمكنهم أن يقولوا قولاً سائغاً في العقل إلا واحداً من هذه الثلاثة، وهم لا يقولون بشيء منها، إنما يقولون: إن بعضَ الأنعام التي يصطَلِحون عليها اصطلاحاتٍ من عند أنفسهم حرامٌ على الإناثِ دون الذكور، أو محرَّمة في وقت من الأوقات، أو نحو ذلك من الأقوال التي يعلم علماً لا شكَّ فيه أنَّ مصدرها من الجهل المركب والعقول المختلة المنحرفة والآراء الفاسدة، وأنَّ الله ما أنزل بما قالوه من سلطان، ولا لهم عليه حجة ولا برهان.
[143] یہ چوپائے جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور ان سب کو حلال اور طیب قرار دیا ان کی تفصیل یوں بیان کی ہے ﴿ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ١ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ ﴾ ’’پیدا کیے آٹھ نر اور مادہ، بھیڑ میں سے دو‘‘ یعنی نر اور مادہ ﴿ وَمِنَ الْ٘مَعْزِ اثْنَیْنِ ﴾ ’’اور دو (۲) بکریوں میں سے۔‘‘ یعنی اسی طرح بکریوں میں سے دو، نر اور مادہ۔ یہ چار اصناف ان مویشیوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ۔ ان تکلف کرنے والوں سے کہہ دیجیے جو ان میں سے کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں یا ان میں سے کچھ اصناف کو عورتوں پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ جس کو انھوں نے مباح اور جس کو انھوں نے حرام ٹھہرایا، ان دونوں کے درمیان فرق کے عدم وجود کو ان پر لازم کرتے ہوئے ان سے کہیے ﴿ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ۠ ﴾ ’’کیا دونوں (کے) نروں کو۔‘‘ یعنی بھیڑ اور بکری میں سے ان کے نر کو ﴿ حَرَّمَ ﴾ ’’(اللہ تعالیٰ نے) حرام ٹھہرایا؟‘‘ پس تم اس بات کے قائل نہیں ہو ﴿ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ ’’یا دونوں (کے) مادہ کو۔‘‘ یعنی مادہ بھیڑ اور بکری کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے؟ تم اس بات کے بھی قائل نہیں ہو۔ تم دونوں اصناف میں سے خالص نر کی تحریم کے قائل ہو نہ خالص مادہ کی۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر مادہ کا رحم نر اور مادہ بچے پر مشتمل ہو یا نر اور مادہ کے بارے میں علم نہ ہو۔ پس فرمایا ﴿ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ ’’یا جو بچہ دونوں ماداؤں کے پیٹوں میں ہو۔‘‘ یعنی کیا تم نر اور مادہ کے فرق کے بغیر اسے حرام ٹھہراتے ہو جو بھیڑ یا بکری کے رحم میں ہے؟ تم اس قول کے بھی قائل نہیں ہو۔ جب تم ان تین اقوال میں کسی ایک قول کے بھی قائل نہیں جو ممکنہ تمام صورتوں پر محیط ہیں ۔ تو پھر تم کون سے مذہب پر عامل ہو ﴿ نَبِّـُٔوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ ﴾ ‘‘اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ۔‘‘ یعنی اگر تم اپنے قول اور دعوے میں سچے ہو تو مجھے علمی دلیل سے آگاہ کرو اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ کوئی ایسا قول نہیں لا سکتے جسے عقل تسلیم کر لے، سوائے اس کے کہ مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بات کہیں اور وہ ان میں سے کوئی بات نہیں کہتے۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ بعض مویشی جن کے بارے میں انھوں نے اپنی طرف سے کچھ اصطلاحات گھڑ رکھی ہیں مردوں کی بجائے عورتوں پر حرام ہیں ۔ یا وہ بعض اوقات و احوال میں حرام ہیں یا اس قسم کے دیگر اقوال، جن کے بارے میں بلاشک و شبہ ہمیں معلوم ہے کہ ان کا مصدر جہل مرکب، راہ راست سے منحرف عقل اور فاسد آراء و نظریات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور نہ ان کے پاس کوئی اور حجت و برہان ہے۔
#
{144} ثم ذكر في الإبل والبقر مثل ذلك، فلما بيَّن بطلان قولهم وفساده؛ قال لهم قولاً لا حيلة لهم في الخروج من تَبِعَتِهِ إلا في اتباع شرع الله، {أم كنتُم شهداءَ إذ وصَّاكم اللهُ}؛ أي: لم يبق عليكم إلا دعوى لا سبيل لكم إلى صدقها وصحتها، وهي أن تقولوا: إن الله وصَّانا بذلك وأوحى إلينا كما أوحى إلى رسله، بل أوحى إلينا وحياً مخالفاً لما دعت إليه الرسل ونزلت به الكتب، وهذا افتراءٌ لا يجهلُه أحدٌ، ولهذا قال: {فمن أظلم ممَّنِ افترى على الله كذباً ليضلَّ الناس بغير علم}؛ أي: مع كذبه وافترائه على الله قصدُهُ بذلك [إضلال] عباد الله عن سبيل الله بغير بيِّنةٍ منه ولا برهانٍ ولا عقلٍ ولا نقلٍ. {إنَّ الله لا يهدي القوم الظالمين}: الذين لا إرادةَ لهم في غير الظلم والجور والافتراء على الله.
[144] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی طرح اونٹ اور گائے کا ذکر فرمایا۔ جب ان کے قول کا بطلان اور فساد واضح ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک ایسی بات کہی جس سے نکلنا ان کے بس میں نہ تھا۔ سوائے شریعت کی اتباع کے ﴿ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَؔ اِذْ وَصّٰؔىكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَا﴾ ’’کیا تم حاضر تھے جس وقت تم کو اللہ نے یہ حکم دیا تھا‘‘ یعنی تمھارے پاس اپنے دعویٰ کے سوا باقی کچھ بھی نہیں ، جس کی صداقت اور صحت کو پرکھنے کے لیے تمھارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ۔ اور وہ ہے تمھارا یہ کہنا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی وصیت کی ہے اور اس نے ہماری طرف وحی کی ہے جس طرح اس نے اپنے انبیا و مرسلین کی طرف وحی کی۔ بلکہ اس نے ہماری طرف ایسی وحی بھیجی جو اس چیز کے مخالف ہے جس کی طرف انبیا و رسل نے دعوت دی اور جس کے ساتھ کتابیں نازل ہوئیں ‘‘ اور یہ ایک ایسا بہتان ہے جس سے کوئی شخص ناواقف نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ ’’پس اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو بہتان باندھے اللہ پر جھوٹا تاکہ بغیر تحقیق کے لوگوں کو گمراہ کرے‘‘ یعنی اس کے جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر اس کے بہتان و افتراء باندھنے کے ساتھ وہ اس سے اللہ کے بندوں کو بغیر کسی دلیل و برہان اور بغیر کسی عقل و نقل کے، اللہ کے راستے سے گمراہ کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ جن کا ظلم و جور اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے کے سوا اور کوئی ارادہ نہیں ۔
آیت: 145 - 146 #
{قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (145) وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (146)}
کہہ دیجیے! نہیں پاتا میں اس میں جو وحی کی گئی ہے میری طرف کوئی چیز حرام کسی کھانے والے پر جو کھائے اسے مگر یہ کہ ہو وہ مردار یا خون بہایا ہوا یا گوشت سورکا پس یقینا وہ ناپاک ہے یا وہ فسق ہے کہ نام پکارا گیا اللہ کے سوا کسی اورکا اس پر، پھر جو شخص لاچار ہو جائے (بشرطیکہ) نہ ہو وہ سرکش اور نہ حد سے گزرنے والا تو آپ کا رب ہے بہت بخشنے والا رحم کرنے والا(145) اور اوپر ان کے جو یہودی ہوئے حرام کیا تھا ہم نے ہر ناخن والا(جانور) اور گائے اور بکری میں سے حرام کیں ہم نے ان پر چربیاں ان دونوں کی مگر جس کو اٹھایا ہوا ہو ان کی پیٹھوں یاآنتوں نے یا جو ملی ہو ساتھ ہڈی کے، یہ سزا دی ہم نے انھیں بوجہ ان کی سرکشی کےاور یقینا ہم البتہ سچے ہیں(146)
#
{145} لما ذكر تعالى ذمَّ المشركين على ما حرَّموا من الحلال ونسبوه إلى الله وأبطل قولهم؛ أمر تعالى رسولَه أن يبيِّن للناس ما حرَّمه الله عليهم؛ ليعلموا أنَّ ما عدا ذلك حلالٌ؛ مَنْ نسب تحريمه إلى الله فهو كاذب مبطل؛ لأنَّ التحريم لا يكون إلا من عند الله على لسان رسوله، وقد قال لرسوله: {قل لا أجِدُ فيما أوحي إليَّ محرَّماً على طاعم}؛ أي: محرَّماً أكله؛ بقطع النظر عن تحريم الانتفاع بغير الأكل وعدمه، {إلاَّ أن يكون ميتةً}: والميتة ما مات بغير ذكاةٍ شرعيةٍ؛ فإنَّ ذلك لا يحلُّ؛ كما قال تعالى: {حُرِّمَتْ عليكمُ الميتةُ والدَّمُ ولحمُ الخنزيرِ}، {أو دماً مَسْفوحاً}: وهو الدمُ الذي يخرج من الذبيحة عند ذكاتها؛ فإنه الدَّمُ الذي يضرُّ احتباسه في البدن؛ فإذا خرج من البدن؛ زال الضرر بأكل اللحم. ومفهوم هذا اللفظ أنَّ الدَّمَ الذي يبقى في اللحم والعروق بعد الذبح أنه حلالٌ طاهرٌ، {أو لحم خنزيرٍ فإنه رجسٌ}؛ أي: فإن هذه الأشياء الثلاثة رجسٌ؛ أي: خبث نجس مضرٌّ حرمه الله لطفاً بكم ونزاهة لكم عن مقاربة الخبائث {أو}: إلا أن يكونَ {فسقاً أهِلَّ لغيرِ الله به}؛ أي: إلا أن تكون الذبيحةُ مذبوحةً لغير الله من الأوثان والآلهة التي يعبُدها المشركون؛ فإن هذا من الفسق الذي هو الخروج عن طاعة الله إلى معصيته. ومع هذا؛ فهذه الأشياء المحرَّمات؛ مَن اضْطُرَّ إليها؛ أي: حملته الحاجة والضرورة إلى أكل شيء منها بأن لم يكن عنده شيء وخاف على نفسه التلف، {غيرَ باغٍ ولا عادٍ}؛ أي: {غير باغٍ}؛ أي: مريد لأكلها من غير اضطرار، ولا متعدًّ؛ أي: متجاوز للحدِّ؛ بأن يأكل زيادة عن حاجته، {فمَنِ اضطُرَّ غير باغٍ ولا عادٍ فإنَّ ربَّك غفور رحيم}؛ أي: فالله قد سامح من كان بهذه الحال. واختلف العلماء رحمهم الله في هذا الحصر المذكور في هذه الآية مع أن ثَمَّ محرماتٌ لم تُذْكَر فيها كالسباع وكل ذي مخلب من الطير ونحو ذلك: فقال بعضهم: إن هذه الآية نازلة قبل تحريم ما زاد على ما ذُكِرَ فيها؛ فلا ينافي هذا الحصر المذكور فيها التحريمَ المتأخِّرَ بعد ذلك؛ لأنه لم يجده فيما أوحي إليه في ذلك الوقت. وقال بعضهم: إن هذه الآية مشتملة على سائرِ المحرَّمات، بعضها صريحاً وبعضها يُؤْخَذ من المعنى وعموم العلة؛ فإنَّ قوله تعالى في تعليل الميتة والدم ولحم الخنزير أو الأخير منها فقط: {فإنَّه رِجْسٌ}: وصفٌ شاملٌ لكلِّ محرَّم؛ فإنَّ المحرمات كلَّها رجسٌ وخبثٌ، وهي من الخبائث المستقذرة التي حرَّمها الله على عبادِهِ صيانةً لهم وتكرمةً عن مباشرة الخبيث الرجس، ويؤخذ تفاصيل الرجس المحرَّم من السُّنَّةِ؛ فإنها تفسِّرُ القرآنَ وتبيِّنُ المقصودَ منه. فإذا كان الله تعالى لم يحرِّم من المطاعم إلا ما ذُكِرَ، والتحريمُ لا يكونُ مصدرُهُ إلا شرعَ الله؛ دلَّ ذلك على أن المشركين الذين حَرَّموا ما رزقهم اللهُ مفترون على الله، متقوِّلون عليه ما لم يقلْ. وفي هذه الآية احتمالٌ قويٌّ لولا أن الله ذكر فيها الخنزير، وهو أن السياق في نقض أقوال المشركين المتقدِّمة في تحريمهم لما أحلَّه الله وخوضهم بذلك بحسب ما سوَّلت لهم أنفسهم، وذلك في بهيمة الأنعام خاصة، وليس منها محرم إلاَّ ما ذكر في الآية؛ الميتة منها وما أهِلَّ لغير الله به، وما سوى ذلك؛ فحلال. ولعل مناسبة ذكر الخنزير هنا على هذا الاحتمال أنَّ بعض الجهَّال قد يُدْخِلُهُ في بهيمة الأنعام، وأنه نوعٌ من أنواع الغنم؛ كما قد يتوهَّمه جهلة النصارى وأشباههم، فينمونها كما ينمون المواشي، ويستحلُّونها، ولا يفرِّقون بينها وبين الأنعام.
[145] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر پر مشرکین کی مذمت کی کہ انھوں نے حلال کو حرام ٹھہرایا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا اور ان کے اس قول کا ابطال کیا تو اس نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح کر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز ان پر حرام ٹھہرائی ہے تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حلال ہے اور جو کوئی اس کی تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ جھوٹا اور باطل پرست ہے۔ کیونکہ تحریم صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے توسط سے ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe سے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ ﴾ ’’آپ کہہ دیجیے کہ میں نہیں پاتا اس وحی میں کہ مجھ کو پہنچی ہے کسی چیز کو حرام کھانے والے پر جو اس کو کھائے‘‘ یعنی اس کو کھانے کے علاوہ اس سے دیگر فوائد حاصل کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، میں کوئی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا حرام ہو۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً ﴾ ’’مگر یہ کہ وہ چیز مردار ہو‘‘ مردار وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر گیا ہو۔ یہ مرا ہوا جانور حلال نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ﴾ (المائدہ: 5؍3) ’’حرام کر دیا گیا تم پر مردار، خون اور خنزیر کا گوشت۔‘‘ ﴿ اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا ﴾ ’’یا بہتا ہوا خون‘‘ یہ وہ خون ہے جو ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت اس میں سے خارج ہوتا ہے کیونکہ اس خون کا ذبیحہ کے بدن میں رہنا ضرر رساں ہے۔ جب یہ خون بدن سے نکل جاتا ہے تو گوشت کا ضرر زائل ہو جاتا ہے۔ لفظ کے مفہوم مخالف سے مستفاد ہوتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں بچ جاتا ہے وہ حلال اور پاک ہے۔ ﴿ اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ ﴾ ’’یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے‘‘ یعنی مذکورہ تینوں اشیا گندی ہیں یعنی ناپاک اور مضر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم پر لطف و کرم کرتے ہوئے اور تمھیں خبائث کے قریب جانے سے بچانے کے لیے ان گندی اشیا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ﴿ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ﴾ یا ذبیحہ کو اللہ کے سوابتوں اور ان معبودوں کے لیے ذبح کیا گیا ہو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں ۔ یہ فسق ہے اور فسق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر اس کی معصیت میں داخل ہو جانا۔ ﴿ فَ٘مَنِ اضْطُرَّ ﴾ ’’پس اگر کوئی مجبور ہوجائے۔‘‘ یعنی بایں ہمہ اگر کوئی ان حرام اشیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہے حاجت اور ضرورت نے اسے ان اشیا کو کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں اور بھوک کے باعث اس کو اپنی جان کا خوف ہے ﴿ غَیْرَ بَ٘اغٍ ﴾ ’’نافرمانی کرنے والا نہ ہو۔‘‘ یعنی بغیر کسی اضطراری حالت کے اس کو کھانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾ ’’اور نہ زیادتی کرنے والا ہو‘‘ (عاد) سے مراد ہے، ’’ضرورت سے زائد کھا کر حد سے تجاوز کرنے والا‘‘ ﴿ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ﴾ ’’تو بلاشبہ تمھارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی کی ہے۔ اہل علم نے اس آیت کریمہ میں مذکورہ محرمات پر حصر کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ بھی محرمات موجود ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا ، مثلاً: (کچلیوں والے) درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندے، وغیرہ چنانچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان زائد چیزوں کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ہے، اس لیے یہ حصر مذکور ان اشیا میں تحریم متاخر کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں اس وقت اس زمرے میں نہیں آتی تھیں جس وقت مذکورہ حرمت کی وحی آپ کی طرف بھیجی گئی تھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ تمام محرمات کی تحریم پر مشتمل ہے، البتہ بعض کی تحریم کی تصریح کر دی گئی ہے اور بعض کی تحریم اس کے معنی اور حرمت کی عمومی حرمت سے اخذ کی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت کریمہ کے اواخر میں مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی تحریم کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ ﴾ ’’وہ ناپاک ہے‘‘ اور یہ ایسا وصف ہے جو تمام محرمات کو شامل ہے۔ کیونکہ تمام محرمات (رِجْس) یعنی گندگی اور ناپاک ہیں۔ اور یہ محرمات سب سے زیادہ ناپاک ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گندگی اور ناپاکی سے بچانے کے لیے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ ناپاک اور محرمات کی تفاصیل سنت نبوی سے اخذ کی جاتی ہیں کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر کر کے اس کے مقاصد کو بیان کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کھانے والے کے لیے صرف اسی چیز کو حرام قرار دیا جس کا اس نے ذکر فرمایا۔ اور تحریم کا مصدر صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے رزق کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو اس نے نہیں کہی۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر نہ کیا ہوتا تو اس کا قوی احتمال تھا کہ آیت کریمہ کا سیاق مشرکین کے مذکورہ بالا ان اقوال کی تردید میں ہے جس میں انھوں نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا اور اپنے نفس کی فریب دہی کے مطابق اس میں مشغول ہو گئے۔ اور یہ خاص طور پر چوپایوں کے بارے میں ہے۔ اور ان چوپایوں میں کچھ بھی حرام نہیں سوائے ان اشیا کے جن کا ذکر آیت کریمہ میں کر دیا گیا ہے۔ مردار اور غیر اللہ کے نام پر پکاری گئی چیز اور ان کے سوا دیگر تمام اشیا حلال ہیں ۔ اس احتمال کی بنا پر، خنزیر کا یہاں ذکر شاید اس مناسبت سے کیا گیا ہو کہ بعض جہال خنزیر کو (بَھِیْمَہُ اَلْاَنْعَام) میں داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خنزیر بھیڑ بکری کی نوع میں سے ہے۔ اس قسم کا توہم نصاریٰ میں سے جہلاء اور ان جیسے بعض دیگر لوگوں کو لاحق ہوا ہے۔ وہ خنزیر کو اسی طرح پالتے ہیں جیسے مویشیوں کو پالا جاتا ہے اور اس کو حلال سمجھتے ہیں ۔ اور وہ اس کے اور دیگر مویشیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔
#
{146} فهذا المحرَّم على هذه الأمة كلِّها من باب التنزيه لهم والصيانة، وأما ما حُرِّم على أهل الكتاب؛ فبعضه طيب، ولكنه حُرِّم عليهم عقوبةً لهم، ولهذا قال: {وعلى الذين هادوا حَرَّمْنا كلَّ ذي ظُفُرٍ}: وذلك كالإبل وما أشبهها. وحرمنا عليهم من البقر والغنم بعضَ أجزائها، وهو شحومها وليس المحرَّم جميع الشحوم منها، بل شحم الإلية والثرب، ولهذا استثنى الشحم الحلال من ذلك، فقال: {إلَّا ما حَمَلَتْ ظهورُهُما أو الحوايا}؛ أي: الشحم المخالط للأمعاء، {أو ما اختلط بعظم ذلك} ـ: التحريم على اليهود ـ {جَزَيْناهم بِبَغْيهم}؛ أي: ظلمهم وتعدِّيهم في حقوق الله وحقوق عباده، فحرَّم الله عليهم هذه الأشياء عقوبةً لهم ونكالاً. {وإنا لصادقون}: في كلِّ ما نقول ونفعل ونحكم به، ومَن أصدقُ من الله حديثاً؟ ومن أحسنُ من الله حكماً لقوم يوقنون؟
[146] پس یہ تمام محرمات جو اس امت پر حرام قرار دی گئی ہیں یہ حفاظت اور تنزیہہ کی خاطر ہے۔اور وہ چیزیں جو اہل کتاب پر حرام قرار دی گئیں ان میں سے بعض پاک اور طیب تھیں مگر سزا کے طور پر ان چیزوں کو ان پر حرام کر دیا گیا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَعَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُ٘لَّ٘ ذِیْ ظُ٘فُرٍ ﴾ ’’اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کر دیا تھا‘‘مثلاً: اونٹ اور اس قسم کے دیگر جانور ﴿ وَمِنَ الْ٘بَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ ﴾ ’’اور گائے اور بکری میں سے حرام کیے تھے‘‘ ان کے بعض اجزاء ﴿ شُحُوْمَهُمَاۤ ﴾ اور وہ تھی ان کی چربی۔ اور ہر قسم کی چربی ان پرحرام نہ تھی بلکہ صرف دنبے کی چکتی اور اوجھڑی اور آنتوں کی باریک چربی حرام تھی، اس لیے اس میں سے حلال چربی کو مستثنی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ﴾ ’’مگر وہ چربی جو پشت پر اور انتڑیوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے‘‘ ﴿ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ﴾ ’’یا وہ چربی جو ہڈی کے ساتھ پیوست ہوتی ہے۔‘‘ ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یہودیوں پر نافذ کی گئی یہ تحریم ﴿ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﴾ ’’ایک سزا تھی جو ہم نے ان کو دی تھی ان کی شرارت پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں ان کے ظلم و تعدی کی جزا تھی، پس اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے لیے یہ چیزیں حرام کر دی تھیں ﴿وَاِنَّا لَصٰؔدِقُوْنَ﴾ ’’اور ہم سچ کہتے ہیں ‘‘ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور جو فیصلہ کرتے ہیں ، سب صدق پر مبنی ہوتا ہے اور اہل ایقان کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا اور سب سے اچھے فیصلے کرنے والا کون ہے؟
آیت: 147 #
{فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (147)}
اور اگر جھٹلائیں وہ آپ کو تو کہہ دیجیے تمھارا رب وسیع رحمت والا ہےاور نہیں پھیراجاتا اس کا عذاب مجرم قوم سے(147)
#
{147} أي: فإن كذَّبك هؤلاء المشركون؛ فاسْتَمِرَّ على دعوتهم بالترغيب والترهيب، وأخبرْهم بأن الله {ذو رحمةٍ واسعةٍ}؛ أي: عامة شاملة لجميع المخلوقات كلِّها؛ فسارِعوا إلى رحمته بأسبابها التي رأسُها وأُسُّها ومادتها تصديق محمد - صلى الله عليه وسلم - فيما جاء به. {ولا يُرَدُّ بأسُهُ عن القوم المجرمين}؛ أي: الذين كَثُرَ إجرامهم وذنوبهم؛ فاحذَروا الجرائم الموصلة لبأس الله التي أعظمها ورأسها تكذيب محمد - صلى الله عليه وسلم -.
[147] یعنی اگر یہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے ان کو دعوت دیتے رہیے اور ان کو آگاہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ﴿ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ﴾ ’’بے پایاں رحمت کا مالک ہے‘‘ جو تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ لہذا اس کی رحمت کی طرف اس کے اسباب کے ذریعے سے سبقت کرو۔ جس کی اساس اور بنیاد محمد مصطفیe اور ان پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق ہے۔ ﴿ وَلَا یُرَدُّ بَ٘اْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ﴾ ’’اور اس کا عذاب گناہ گاروں سے نہیں ٹالا جاتا‘‘ یعنی جن کے جرائم اور گناہ بہت بڑھ گئے ہوں ، اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والے جرائم سے بچو، ان میں سب سے بڑا جرم محمد مصطفی صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی تکذیب ہے۔
آیت: 148 - 149 #
{سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (148) قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ (149)}.
عنقریب کہیں گے وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا، اگر چاہتا اللہ تو نہ شرک کرتے ہم او ر نہ باپ دادا ہمارےاور نہ حرام کرتے ہم کوئی چیز، اسی طرح جھٹلایا تھا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، یہاں تک کہ چکھا انھوں نے ہمارا عذاب، کہہ دیجیے! کیا ہے تمھارے پاس کچھ علم؟ تو نکالو تم اس کو ہمارے لیے نہیں پیروی کرتے تم مگر گمان کی اور نہیں ہو تم مگر اٹکل پچو کرتے (148) کہہ دیجیے! پس اللہ ہی کے لیے ہے دلیل محکم پھر اگر وہ چاہتا تو ہدایت دیتا تم سب کو(149)
#
{148} هذا إخبار من الله أن المشركين سيحتجُّون على شركهم وتحريمهم ما أحل الله بالقضاء والقدر، ويجعلون مشيئة الله الشاملة لكلِّ شيءٍ من الخير والشرِّ حجةً لهم في دفع اللوم عنهم، وقد قالوا ما أخبر الله أنهم سيقولونه؛ كما قال في الآية الأخرى: {وقال الذين أشْرَكوا لو شاءَ اللهُ ما عَبَدْنا من دونِهِ من شيءٍ ... } الآية فأخبر تعالى أنَّ هذه الحجة لم تزل الأممُ المكذِّبة تدفعُ بها عنهم دعوةَ الرسل ويحتجُّون بها، فلم تُجْدِ فيهم شيئاً ولم تنفعْهم، فلم يزلْ هذا دأبَهم حتى أهلكهم الله وأذاقهم بأسه؛ فلو كانت حجةً صحيحةً؛ لدفعتْ عنهم العقابَ، ولَمَا أحلَّ الله بهم العذاب؛ لأنَّه لا يحلُّ بأسه إلا بمن استحقه فعلم أنها حجة فاسدة وشبهة كاسدة من عدة أوجه: منها: ما ذكر الله من أنها لو كانت صحيحةً لم تحلَّ بهم العقوبة. ومنها: أن الحجة لا بدَّ أن تكون حجةً مستندةً إلى العلم والبرهان، فأما إذا كانت مستندةً إلى مجرَّد الظنِّ والخرص الذي لا يغني من الحقِّ شيئاً؛ فإنها باطلة، ولهذا قال: {قل هل عندَكم من علم فتخرِجوه لنا}؛ فلو كان لهم علمٌ ـ وهم خصومٌ ألدَّاء ـ لأخرجوه، فلما لم يخرِجوه؛ عُلِمَ أنه لا علم عندهم. {إن تتَّبعون إلَّا الظَّنَّ وإنْ أنتم إلَّا تَخْرُصُونَ}: ومن بنى حُججه على الخرص والظنِّ؛ فهو مبطل خاسر؛ فكيف إذا بناها على البغي والعناد والشرِّ والفساد.
[148] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے کہ مشرکین اپنے شرک اور اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرانے پر اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے دلیل پکڑتے ہیں اور اپنے آپ سے مذمت کو دور کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کو جو خیر و شر ہر چیز کو شامل ہے، دلیل بناتے ہیں ، چنانچہ انھوں نے وہی کچھ کہا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَؔكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ﴾ (النحل: 16؍35) ’’وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا کہتے ہیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے۔‘‘پس یہ وہ دلیل ہے جو انبیا و رسل کو جھٹلانے والی قومیں انبیاء کی دعوت کو رد کرنے کے لیے پیش کرتی رہی ہیں مگر یہ ان کے کسی کام آئی نہ اس نے انھیں کوئی فائدہ ہی دیا اور یہی ان کی عادت رہی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کر کے عذاب کا مزا چکھایا۔ اگر ان کی یہ دلیل صحیح ہوتی تو ان سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف اسی پر نازل ہوتا ہے جو اس کا مستحق ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ان کی فاسد دلیل اور انتہائی گھٹیا شبہ ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر ان کی دلیل صحیح ہوتی تو ان پر عذاب نازل نہ ہوتا۔ (۲) دلیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد علم اور برہان ہو۔ اگر دلیل محض گمان اور اندازے پر مبنی ہو، جو حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی تو یہ باطل ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لْ هَلْ عِنْدَؔكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا﴾ ’’کہہ دیجیے! اگر تمھارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو‘‘ پس اگر ان کے پاس علم ہوتا حالانکہ وہ سخت جھگڑالو لوگ ہیں تو وہ اسے ضرور پیش کرتے اگر انھوں نے کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی تو معلوم ہوا کہ وہ علم سے بے بہرہ ہیں ۔ ﴿اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّ٘نَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ﴾ ’’تم تو نرے گمان پر چلتے ہو اور صرف تخمینے ہی کرتے ہو‘‘ اور جو کوئی اپنے دلائل کی بنیاد گمان اور اندازوں پر رکھتا ہے وہ باطل پرست اور خسارے میں پڑنے والا ہے اور جب اس کی بنیاد سرکشی، دشمنی اور شروفساد پر ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟
#
{149} ومنها: أن الحجة لله، البالغة، التي لم تبقِ لأحدٍ عذراً، التي اتَّفقت عليها الأنبياء والمرسلون والكتب الإلهية والآثار النبوية والعقول الصحيحة والفطر المستقيمة والأخلاق القويمة، فعلم بذلك أن كلَّ ما خالف هذه الآية القاطعة باطلٌ؛ لأن نقيض الحقِّ لا يكون إلاَّ باطلاً. ومنها: أن الله تعالى أعطى كلَّ مخلوق قدرةً وإرادةً يتمكَّن بها من فعل ما كُلِّفَ به؛ فلا أوجب الله على أحدٍ ما لا يقدر على فعله، ولا حرَّم على أحدٍ ما لا يتمكَّن على تركه؛ فالاحتجاج بعد هذا بالقضاء والقدر ظلمٌ محضٌ وعنادٌ صرفٌ. ومنها: أن الله تعالى لم يجبر العباد على أفعالهم، بل جعل أفعالهم تبعاً لاختيارهم؛ فإن شاؤوا فعلوا وإن شاؤوا كَفُّوا، وهذا أمر مشاهدٌ لا ينكره إلا مَن كابر وأنكر المحسوسات؛ فإنَّ كلَّ أحد يفرق بين الحركة الاختياريَّة والحركة القسريَّة، وإن كان الجميع داخلاً في مشيئة الله ومندرجاً تحت إرادته. ومنها: أن المحتجِّين على المعاصي بالقضاء والقدر يتناقضون في ذلك؛ فإنهم لا يمكنهم أن يطردوا ذلك؛ بل لو أساء إليهم مسيء بضرب أو أخذ مال أو نحو ذلك، واحتج بالقضاء والقدر لما قبلوا منه هذا الاحتجاج ولغضبوا من ذلك أشد الغضب. فيا عجباً كيف يحتجون به على معاصي الله ومساخطه ولا يرضون من أحد أن يحتج به في مقابلة مساخطهم. ومنها: أن احتجاجهم بالقضاء والقدر ليس مقصوداً، ويعلمون أنَّه ليس بحجةٍ، وإنما المقصود منه دفع الحقِّ ويرون أن الحقَّ بمنزلة الصائل؛ فهم يدفعونه بكلِّ ما يخطر ببالهم من الكلام، [ولو كانوا يعتقدونه خطأً].
[149] (۳) حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو کسی کے لیے کوئی عذر نہیں رہنے دیتی، جس پر تمام انبیا و مرسلین، تمام کتب الہیہ، تمام آثار نبویہ، عقل صحیح، فطرت سلیم اور اخلاق مستقیم متفق ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ جو کوئی اس آیت قاطعہ کی مخالفت کرتا ہے وہ باطل ہے کیونکہ حق کی مخالفت کرنے والا باطل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ (۴) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ان تمام افعال کے ارتکاب پر قادر ہے جن کا اسے مکلف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی ایسی چیز واجب نہیں کی جس کے فعل پر وہ قدرت نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی چیز کو اس پر حرام ٹھہرایا ہے جس کو ترک کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ پس اس کے بعد قضاء و قدر کو دلیل بنانا محض ظلم اور مجرد عناد ہے۔ (۵) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال میں جبر نہیں کیا بلکہ ان کے افعال کو ان کے اختیار کے تابع بنایا ہے۔ پس اگر وہ چاہیں تو کسی فعل کا ارتکاب کریں اور اگر چاہیں تو اس فعل کے ارتکاب سے باز رہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور محسوسات کا انکار کرتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص حرکت اختیاری اور حرکت جبری میں امتیاز کر سکتا ہے اگرچہ تمام حرکات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ کے تحت آتی ہیں ۔ (۶) اپنے گناہوں پر قضاء و قدر کو دلیل بنانے والے تناقض (تضاد) کا شکار ہیں ۔ کیونکہ ان کے لیے اس کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں ۔ بلکہ اگر کوئی مارپیٹ یا مال وغیرہ چھین کر ان کے ساتھ برا سلوک کر کے تقدیر کا بہانہ پیش کرتا ہے تو وہ اس شخص کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس شخص پر سخت ناراض ہوں گے۔ نہایت عجیب بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ناراضی کے کاموں پر تو قضا و قدر کا عذر پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کر کے ان کو یہی دلیل پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ (۷) قضا و قدر سے استدلال کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا و قدر کا عذر دلیل نہیں ۔ ان کا مقصد تو صرف حق کو ٹھکرانا اور اس کو روکنا ہے کیونکہ وہ حق کو یوں سمجھتے ہیں جیسے کوئی حملہ آور ہو، چنانچہ وہ ہر صحیح یا غلط خیال کے ذریعے سے، جو ان کے دل میں آتا ہے، حق کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آیت: 150 #
{قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَذَا فَإِنْ شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (150)}.
کہہ دیجیے! لے آؤ تم اپنے گواہ، وہ جو گواہی دیں اس بات کی کہ بلاشبہ اللہ نے حرام کیا ہے ان کو پھر وہ گواہی دیں تونہ گواہی دیں آپ ان کے ساتھ او ر نہ پیچھے چلیں آپ ان کی خواہشات کے جنھوں نے جھٹلایا ہماری آیات کواور (نہ) ان کے جو نہیں ایمان لاتے آخرت پر اور وہ اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں(150)
#
{150} أي: قل لمن حرَّم ما أحل الله ونسب ذلك إلى الله: أحضِروا شهداءكم الذين يشهدون أن الله حرَّم هذا! فإذا قيل لهم هذا الكلام؛ فهم بين أمرين: إما أن لا يحضروا أحداً يشهدُ بهذا، فتكون دعواهم إذاً باطلةً خليةً من الشهود والبرهان. وإما أن يحضِروا أحداً يشهد لهم بذلك، ولا يمكن أن يشهد بهذا إلا كلُّ أفاكٍ أثيم غير مقبول الشهادة، وليس هذا من الأمور التي يصحُّ أن يشهد بها العدولُ، ولهذا قال تعالى ناهياً نبيَّه وأتباعه عن هذه الشهادة: {فإن شهدوا فلا تَشْهَدْ معهم ولا تتَّبِعْ أهواء الذين كذَّبوا بآياتنا والذين لا يؤمنون بالآخرة وهم بربِّهم يعدِلون}؛ أي: يسوون به غيره من الأنداد والأوثان؛ فإذا كانوا كافرين باليوم الآخر غير موحدين لله؛ كانت أهويتهم مناسبة لعقيدتهم، وكانت دائرة بين الشرك والتكذيب بالحق، فحريٌّ بهوىً هذا شأنه أن ينهى الله خيارَ خلقه عن اتِّباعه، وعن الشهادة مع أربابه، وعُلِمَ حينئذٍ أن تحريمهم لما أحلَّ اللهُ صادرٌ عن تلك الأهواء المضلَّة.
[150] یعنی آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرایا اور اس تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا، کہ وہ اپنے ان گواہوں کو لے آئیں جو یہ گواہی دیں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ جب ان سے یہ بات کہی جائے گی تو مندرجہ ذیل دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہو گی : (۱) یا تو وہ اس پر کسی کو گواہ کے طورپر پیش ہی نہیں کر سکیں گے، تب اس صورت میں ان کا دعویٰ باطل اور دلیل اور گواہوں سے محروم ہو گا۔ (۲) یا وہ کسی ایسے گواہ کو پیش کر دیں گے جو ان کے لیے گواہی دے مگر کسی جھوٹے اور بہتان طراز کے سوا کوئی شخص اس پر گواہی نہیں دے سکتا اور ایسے جھوٹے اور بہتان طراز شخص کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ معاملہ ایسے امور میں شمار نہیں ہوتا جس پر کسی عادل گواہ کا گواہی دینا جائز ہو، بنابریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe اور آپ کے متبعین کو اس گواہی سے روکتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ١ۚ وَلَا تَ٘تَّ٘بِـعْ اَهْوَآءَؔ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ ﴾ ’’اگر وہ گواہی دیں تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور وہ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہراتے ہیں ‘‘ یعنی وہ بتوں اور اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں ۔ چونکہ وہ یوم آخرت کا انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں اس لیے ان کی خواہشات ان کے اس عقیدے کے مطابق ہیں جو شرک اور تکذیب پر مبنی ہے۔ جن کا یہ معاملہ ہو تو مناسب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو ان کی اتباع کرنے اور ان کے ساتھ گواہی دینے سے روک دے۔ تب معلوم ہوا کہ ان کا اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانا ان کی گمراہ کن خواہشات نفس کی پیداوار ہے۔
آیت: 151 - 153 #
{قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (151) وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (152) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)}.
کہہ دیجیے! آؤ پڑھتا ہوں میں جو کچھ کہ حرام کیا تمھارے رب نے اوپر تمھارے، یہ کہ نہ شریک ٹھہراؤ تم ساتھ اس کے کسی چیز کواور ساتھ والدین کے احسان کرواور مت قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈرسے، ہم ہی رزق دیتے ہیں تمھیں اور انھیں اور مت قریب جاؤ بے حیائی کے کاموں کے، جو ظاہر ہوں ان میں سے اور جو پوشیدہ اور مت قتل کرو اس جان کو جس کو حرام کیا اللہ نے مگر ساتھ حق کے، یہ(سب باتیں) وصیت کی ہے اللہ نے تمھیں ان کی تا کہ تم سمجھو (151) اور مت قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے مگر ساتھ اس طریقے کے جو بہترین ہو یہاں تک کہ پہنچ جائے وہ اپنی پختگی کواور پورا کرو تم ماپ اور تول کو ساتھ انصاف کے نہیں تکلیف دیتے ہم کسی نفس کو مگر اس کی طاقت کے مطابق ہی اور جب کہو تم تو انصاف سے کام لو، اگرچہ ہو وہ قریبی ہی اور عہد اللہ کا پورا کرو تم یہ وصیت کی ہے (اللہ نے) تمھیں اس کی تاکہ تم نصیحت حاصل کرو (152)اور بلاشبہ یہ میرا راستہ ہے سیدھا، پس پیروی کرو تم اسی کی اور مت پیروی کرو تم (اور) راستوں کی، پس الگ کردیں گے وہ تمھیں اس (اللہ) کے راستے سے یہ وصیت کی ہے (اللہ نے) تمھیں اس کی تاکہ تم ڈرو(153)
#
{151} يقول تعالى لنبيِّه - صلى الله عليه وسلم -: {قل}: لهؤلاء الذين حرَّموا ما أحلَّ الله: {تعالَوْا أتلُ ما حرَّمَ ربُّكم عليكم}: تحريماً عامًّا شاملاً لكل أحد، محتوياً على سائر المحرَّمات من المآكل والمشارب والأقوال والأفعال، {أن لا تشركوا به شيئاً}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيراً. وحقيقة الشرك بالله أن يُعْبَدَ المخلوق كما يُعْبَدُ الله أو يعظَّمَ كما يعظَّمُ الله أو يصرفَ له نوعٌ من خصائص الربوبيَّة والإلهيَّة، وإذا تَرَكَ العبدُ الشرك كلَّه؛ صار موحِّداً مخلصاً لله في جميع أحواله؛ فهذا حقُّ الله على عباده: أن يعبُدوه ولا يشرِكوا به شيئاً. ثم بدأ بآكد الحقوق بعد حقه، فقال: {وبالوالدينِ إحساناً}: من الأقوال الكريمة الحسنة والأفعال الجميلة المستحسنة؛ فكلُّ قول وفعل يحصُلُ به منفعة للوالدين أو سرور لهما؛ فإنَّ ذلك من الإحسان، وإذا وُجِدَ الإحسان؛ انتفى العقوق، {ولا تقتلوا أولادكم}: من ذكور وإناث {من إملاق}؛ أي: بسبب الفقر وضيقكم من رزقهم؛ كما كان ذلك موجوداً في الجاهلية القاسية الظالمة، وإذا كانوا منهيِّين عن قتلهم في هذه الحال وهم أولادهم؛ فنهيهم عن قتلهم لغير موجب أو قتل أولاد غيرهم من باب أولى وأحرى. {نحن نرزُقُكم وإياهم}؛ أي: قد تكفَّلنا برزق الجميع، فلستم الذين ترزقون أولادكم، بل ولا أنفسكم، فليس عليكم منهم ضيق. {ولا تقرَبوا الفواحش}: وهي الذنوب العظام المستفحشة {ما ظهر منها وما بطن}؛ أي: لا تقربوا الظاهر منها والخفي أو المتعلق منها بالظاهر والمتعلق بالقلب والباطن، والنهي عن قربان الفواحش أبلغ من النهي عن مجرَّد فعلها؛ فإنه يتناول النهي عن مقدِّماتها ووسائلها الموصلة إليها. {ولا تقتُلوا النفس التي حرَّم الله}: وهي النفس المسلمة من ذكر وأنثى صغير وكبير بَرٍّ وفاجر: والكافرة التي قد عُصِمَتْ بالعهد والميثاق، {إلَّا بالحقِّ}: كالزاني المحصن والنفس بالنفس والتارك لدينه المفارق للجماعة. {ذلكم}: المذكور، {وصَّاكم} [الله] {به لعلَّكم تعقِلون}: عن الله وصيَّته ثم تحفظونها ثم تراعونها وتقومونَ بها. ودلَّت الآية على أنه بحسب عقل العبد يكون قيامه بما أمر الله به.
[151] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے ﴿قُ٘لْ ﴾ ’’کہہ دیجیے‘‘ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنھوں نے ان چیزوں کو حرام قرار دے ڈالا جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ﴿ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’آؤ، میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمھارے رب نے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے عام طور پر کیا چیز حرام کی ہے۔ یہ تحریم سب کے لیے ہے اور ماکولات و مشروبات اور اقوال و افعال وغیرہ تمام محرمات پر مشتمل ہے۔ ﴿ اَلَّا تُ٘شْرِكُوْا بِهٖ ﴾ ’’یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھوڑا یا زیادہ ہرگز شرک نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کی اسی طرح عبادت کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے۔ یا مخلوق کی تعظیم اسی طرح کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی جاتی ہے۔ یا ربوبیت اور الوہیت کی صفات مخلوق میں ثابت کی جائیں ۔ جب بندہ ہر قسم کا شرک چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے تمام احوال میں موحد اور اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص بندہ بن جاتا ہے۔ پس بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حق کا تذکرہ کرنے کے بعد سب سے زیادہ موکد حق سے ابتدا کی اور فرمایا ﴿ وَّبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ یعنی اقوال حسنہ اور افعال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ہر وہ قول و فعل جس سے والدین کو کوئی منفعت حاصل ہو یا اس سے مسرت حاصل ہو تو یہ ان کے ساتھ حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا وجود نافرمانی کی نفی کرتا ہے۔ ﴿ وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَؔكُمْ ﴾ ’’اور نہ قتل کرو تم اپنی اولاد کو‘‘ یعنی اپنے بچوں اور بچیوں کو ﴿ مِّنْ اِمْلَاقٍ ﴾ ’’ناداری کے (اندیشے) سے۔‘‘ یعنی فقر اور رزق کی تنگی کے سبب سے۔ جیسا کہ جاہلیت کے ظالمانہ دور میں ہوتا تھا۔ جب اس حال میں ان کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے جبکہ وہ ان کی اپنی اولاد ہو تو پھر ان کو بغیر کسی موجب کے قتل کرنا یا دوسروں کی اولاد کو قتل کرنا تو بطریق اولیٰ ممنوع ہو گا۔ ﴿ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِیَّ٘اهُمْ ﴾ ’’ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو‘‘ یعنی ہم نے تمام مخلوق کے رزق کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ یہ تم نہیں ہو جو اپنی اولاد کو رزق عطا کرتے ہو بلکہ تم خود اپنے آپ کو بھی رزق عطا نہیں کر سکتے، پھر تم ان کے بارے میں تنگی کیوں محسوس کرو۔ ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ ﴾ ’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ‘‘ یہاں فواحش سے مراد بڑے بڑے اور فحش گناہ ہیں ﴿ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾ ’’جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔‘‘ یعنی کھلے گناہوں کے قریب جاؤ نہ چھپے ہوئے گناہوں کے۔ نہ کھلے گناہوں کے متعلقات کے قریب پھٹکو اور نہ قلب و باطن کے گناہوں کے متعلقات کے قریب جاؤ۔ فواحش کے قریب جانے کی ممانعت فواحش کے مجرد ارتکاب کی ممانعت سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ یہ فواحش کے مقدمات اور ان کے ذرائع اور وسائل سب کو شامل ہے۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّ٘فْ٘سَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ نے حرام کیا ہے‘‘ اس سے مراد مسلمان جان ہے خواہ مرد ہو خواہ عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، نیک ہو یا بد۔ اسی طرح اس کافر جان کو قتل کرنا بھی قتل ناحق ہے جو عہد و میثاق کی وجہ سے معصوم ہو ﴿ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ ’’مگر حق کے ساتھ‘‘مثلاً: شادی شدہ زانی، قاتل، مرتد ہو کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔ ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ ’’یہ‘‘ مذکورہ بالاتمام امور ﴿ وَصّٰؔىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ ’’اس کے ساتھ تم کو حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو‘‘ یعنی شاید تم اللہ تعالیٰ کی وصیت کو سمجھو، پھر تم اس کی حفاظت کرو، اس کی رعایت کرو اور اس کو قائم کرو۔ یہ آیتِ کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق ان امور کو قائم کرتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔
#
{152} {ولا تقربوا مال اليتيم}: بأكل أو معاوضة على وجه المحاباة لأنفسكم أو أخذ من غير سبب، {إلا بالتي هي أحسنُ}؛ أي: إلاَّ بالحال التي تصلُحُ بها أموالهم وينتفعون بها، فدل هذا على أنه لا يجوز قربانها والتصرُّف بها على وجه يضرُّ اليتامى أو على وجه لا مضرَّة فيه ولا مصلحة. {حتى يبلغَ}: اليتيم {أشدَّه}؛ أي: حتى يبلغ ويرشد ويعرف التصرف؛ فإذا بلغ أشُدَّه؛ أعطي حينئذ ماله، وتصرف فيه على نظره. وفي هذا دلالة على أن اليتيم قبل بلوغ الأشدِّ محجورٌ عليه، وأن وليَّه يتصرَّف في ماله بالأحظ، وأنَّ هذا الحجر ينتهي ببلوغ الأشدِّ. {وأوفوا الكيلَ والميزان بالقسْط}؛ أي: بالعدل والوفاء التامِّ؛ فإذا اجتهدتم في ذلك؛ فلا {نُكَلِّفُ نفساً إلَّا وُسْعَها}؛ أي بقدر ما تسعه ولا تضيق عنه؛ فمن حرص على الإيفاء في الكيل والوزن، ثم حصل منه تقصيرٌ؛ لم يفرِّط فيه ولم يعلَمْه؛ فإن الله غفور رحيم. وبهذه الآية [ونحوها] استدل الأصوليون بأن الله لا يكلِّف أحداً ما لا يطيق، وعلى أنَّ من اتَّقى الله فيما أمر وفَعَلَ ما يمكِنُهُ من ذلك؛ فلا حرج عليه فيما سوى ذلك. {وإذا قلتُم}: قولاً تحكمون به بين الناس، وتفصلون بينهم الخطاب، وتتكلَّمون به على المقالات والأحوال، {فاعدِلوا}: في قولكم بمراعاة الصدق فيمن تحبُّون ومَنْ تكرهون والإنصافِ وعدم كتمان ما يلزمُ بيانُهُ؛ فإنَّ الميل على من تكره بالكلام فيه أو في مقالته من الظلم المحرم، بل إذا تكلَّم العالم على مقالات أهل البدع؛ فالواجبُ عليه أن يعطي كلَّ ذي حقٍّ حقَّه وأن يبيِّن ما فيها من الحقِّ والباطل، ويعتبرَ قربَها من الحقِّ وبعدها منه، وذكر الفقهاء أنَّ القاضي يجب عليه العدلُ بين الخصمين في لحظِهِ ولفظِهِ. {وبعهد الله أوفوا}: وهذا يشملُ العهد الذي عاهده عليه العباد؛ من القيام بحقوقه والوفاء بها، ومن العهد الذي يقع التعاهد به بين الخلق؛ فالجميع يجب الوفاءُ به، ويحرُم نقضُه والإخلال به. {ذلكم}: الأحكام المذكورة، {وصَّاكُم} [الله] {به لعلَّكم تَذَكَّرونَ}: ما بيَّنه لكم من الأحكام، وتقومون بوصية الله لكم حقَّ القيام، وتعرفون ما فيها من الحِكم والأحكام.
[152] ﴿ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ ﴾ ’’اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے‘‘ یعنی مال کھانے کے لیے یا اپنے لیے معاوضہ بنانے یا بغیر کسی سبب کے مال لینے کے لیے۔ ﴿ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ ’’مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔‘‘ یعنی البتہ ایسے طریقے سے ان کے مال کے قریب جاؤ جس سے ان کے مال کی اصلاح ہو اور وہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے یتیموں کے مال کے قریب جانا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں جس سے یتیموں کو نقصان پہنچتا ہو۔ اور اس طریقے سے بھی ان کے مال کے قریب جانا جائز نہیں جس میں کوئی نقصان تو نہ ہو البتہ اس میں کوئی مصلحت بھی نہ ہو۔ ﴿ حَتّٰى یَبْلُ٘غَ اَشُدَّهٗ﴾ ’’حتیٰ کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘ یعنی یہاں تک کہ یتیم بالغ اور سمجھ دار ہو جائے اور اسے مال میں تصرف کرنے کی معرفت حاصل ہو جائے اور جب وہ سمجھ دار اور بالغ ہو جائے تو اس وقت مال اس کے حوالے کیا جائے اور وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق اس مال میں تصرف کرے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یتیم بالغ ہونے سے قبل اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا۔ اس کے سرپرست کو مال میں احسن طریقے سے تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مال کے تصرف پر یہ پابندی یتیم کے بالغ ہونے پر ختم ہو جائے گی۔ ﴿ وَاَوْفُوا الْكَ٘ـیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ﴾ ’’نہایت عدل و انصاف سے ناپ تول کو پورا کرو‘‘ یعنی جب تم انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں جدوجہد کرو گے تو ﴿لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ ’’ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔‘‘ یعنی ہم اس کی مقدرت کے مطابق اسے مکلف بناتے ہیں اور ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتے جو اس کے بس سے باہر ہو، پس جو کوئی ناپ تول کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں برتتا تو لاعلمی میں کوئی تقصیر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ اس آیت کریمہ سے علمائے اصول یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ پس اسے جو حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ممکن حد تک اس کی تعمیل کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ ﴿وَاِذَا قُلْتُمْ﴾ ’’جب کوئی بات کہو۔‘‘ یعنی جب تم کوئی بات کہو جو لوگوں کے درمیان کسی فیصلے، کسی خطاب کی تفصیل پر مبنی ہو یا تم احوال و مقالات پر کلام کر رہے ہو ﴿ فَاعْدِلُوْ﴾ ’’تو انصاف سے کہو۔‘‘ یعنی صدق، انصاف اور عدم کتمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان جن کو تم پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو، عدل سے بات کرو کیونکہ جسے آپ ناپسند کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اس کے مقالات کے بارے میں اس کے خلاف حد سے بڑھ کر بات کرنا ظلم ہے جو کہ حرام ہے۔ بلکہ اگر صاحب علم اہل بدعت کے مقالات و نظریات پر کلام کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرے اور ان مقالات میں جو کچھ حق اور باطل موجود ہے اس کو پوری طرح بیان کرے کہ ان مقالات میں کون سی چیز حق کے قریب اور کون سی چیز حق سے دور ہے۔ فقہاء نے یہاں تک ذکر کیا ہے کہ قاضی پر فرض ہے کہ وہ فریقین کے درمیان اپنے لہجے اور اپنی نظر میں بھی انصاف کرے۔ ﴿ وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا﴾ ’’اور اللہ کا عہد پورا کرو‘‘ یہ آیت کریمہ اس عہد کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے حقوق پورے کروانے کے بارے میں لیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو مخلوق کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ پس ان تمام معاہدوں کو پورا کرنا فرض اور ان کو توڑنا یا ان میں خلل اندازی کرنا حرام ہے ﴿ذٰلِكُمْ﴾ مذکورہ تمام احکام میں ﴿ وَصّٰؔىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’تم کو حکم کر دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو‘‘ یعنی وہ تمام احکام جو اس نے تمھارے لیے بیان کیے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کی اس وصیت کو پوری طرح قائم کرو جو اس نے تمھیں کی ہے اور تم ان تمام حکمتوں اور احکام کی معرفت حاصل کر لو جو ان کے اندر ہیں ۔
#
{153} ولما بيَّن كثيراً من الأوامر الكبار والشرائع المهمَّة؛ أشار إليها وإلى ما هو أعمُّ منها، فقال: {وأنَّ هذا صراطي مستقيماً}؛ أي: هذه الأحكام وما أشبهها مما بيَّنه الله في كتابه ووضَّحه لعباده صراطُ الله الموصل إليه وإلى دار كرامته المعتدل السهل المختصر. {فاتَّبِعوه}: لتنالوا الفوزَ والفلاح، وتدركوا الآمالَ والأفراح، {ولا تتَّبِعوا السُّبُلَ}؛ أي: الطرق المخالفة لهذا الطريق، {فتفرَّقَ بكم عن سبيلِهِ}؛ أي: تضلُّكم عنه وتفرِّقكم يميناً وشمالاً؛ فإذا ضللتُم عن الصراط المستقيم؛ فليس ثمَّ إلا طرق توصِلُ إلى الجحيم. {ذلكم وصَّاكم به لعلَّكم تتَّقون}: فإنكم إذا قمتُم بما بيَّنه الله لكم علماً وعملاً؛ صرتُم من المتَّقين وعباد الله المفلحين. ووحَّد الصراطَ وأضافه إليه؛ لأنَّه سبيلٌ واحدٌ موصلٌ إليه، والله هو المعين للسالكين على سلوكِهِ.
[153] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام بڑے بڑے احکام اور اہم شرائع کو واضح کر دیا تو اب ان کی طرف سے زیادہ عمومیت کی حامل بات کی طرف اشارہ فرمایا: ﴿وَاَنَّ هٰؔذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا﴾ ’’اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے۔‘‘ یعنی یہ اور اس قسم کے دیگر احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے جو معتدل، آسان اور نہایت مختصر ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کی منزل تک پہنچاتا ہے ﴿فَاتَّبِعُوْهُ﴾ ’’پس اس کی پیروی کرو‘‘ تاکہ تم فوز و فلاح، تمناؤں اور فرحتوں کو حاصل کر سکو۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾ ’’اور راستوں پر نہ چلنا۔‘‘ یعنی ان راستوں پر نہ چلو جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مخالفت کرتے ہیں ﴿ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ﴾ ’’پس وہ تمھیں اس (اللہ) کے راستے سے جدا کردیں گے۔‘‘ یعنی یہ راستے تمھیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے اور تمھیں دائیں بائیں دوسرے راستوں پر ڈال دیں گے اور جب تم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے تو تمھارے سامنے صرف وہ راستے رہ جائیں گے جو جہنم تک پہنچانے والے ہیں ۔ ﴿ذٰلِكُمْ وَصّٰؔىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’یہ حکم کر دیا ہے تم کو تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘ کیونکہ جب تم علم و عمل کے اعتبار سے ان احکام کی تعمیل کرو گے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے سامنے بیان کیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے متقی اور فلاح یاب بندے بن جاؤ گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراط مستقیم کو واحد ذکر کر کے اپنی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ صرف یہی ایک راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس راستے پر گامزن لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
آیت: 154 - 157 #
{ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ (154) وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (155) أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنْزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ (156) أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ (157)}.
پھردی ہم نے موسیٰ کو کتاب، واسطے پورا کرنے (نعمت کے) اس شخص پر جس نے نیکی کی اور واسطے تفصیل بیان کرنے کے ہر چیز کی اور(باعث) ہدایت اور(ذریعہ) رحمت تاکہ وہ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لے آئیں(154)اور یہ (قرآن) ایک عظیم کتاب ہے،اتارا ہم نے اس کو مبارک ہے پس پیروی کرو تم اس کی اور ڈرو تاکہ تم رحم کیے جاؤ (155)تاکہ(نہ) کہو تم!بلاشبہ نازل کی گئی تھی کتاب اوپر دو گروہوں کے پہلے ہم سے،اور بے شک تھے ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے غافل(156)یاکہو تم!اگر بلاشبہ نازل کی جاتی ہم پر کتاب تو البتہ ہوتے ہم زیادہ ہدایت یافتہ ان سے،پس تحقیق آگئی ہے تمھارے پاس دلیل تمھارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت،پس کون زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے جھٹلایا اللہ کی آیات کو،اور اعراض کیا ان سے؟عنقریب ہم سزادیں گے ان لوگوں کو جو اعراض کرتے ہیں ہماری آیات سے،سخت عذاب کی،بوجہ اس کے جو تھے وہ اعراض کرتے(157)
#
{154} {ثم} في هذا الموضع ليس المراد منها الترتيب الزماني؛ فإن زمن موسى عليه السلام متقدِّم على تلاوة الرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - هذا الكتاب، وإنما المراد الترتيب الإخباري،. فأخبر أنه آتى {موسى الكتاب}: وهو التوراة {تماماً}: لنعمته وكمالاً لإحسانه، {على الذي أحسن}: من أمة موسى؛ فإنَّ الله أنعم على المحسِنين منهم بنعم لا تُحصى من جُملتها وتمامها إنزال التوراة عليهم، فتمت عليهم نعمةُ الله ووَجَبَ عليهم القيام بشكرها، {وتفصيلاً لكلِّ شيء}: يحتاجون إلى تفصيله من الحلال والحرام والأمر والنهي والعقائد ونحوها، {وهدىً ورحمةً}؛ أي: يهديهم إلى الخير ويعرِّفهم بالشرِّ في الأصول والفروع، {ورحمة}: يحصُلُ به لهم السعادة والرحمة والخير الكثير، {لعلَّهم}: بسبب إنزالنا الكتاب والبيِّنات عليهم {بلقاءِ ربِّهم يؤمنونَ}؛ فإنه اشتمل من الأدلَّة القاطعة على البعث والجزاء بالأعمال، [ما] يوجب لهم الإيمان بلقاء ربِّهم والاستعداد له.
[154] ﴿ثُمَّ ﴾ ’’پھر‘‘ اس مقام پر (ثُمَّ) سے مراد ترتیب زمانی نہیں ہے کیونکہ موسیٰu کا زمانہ اس زمانے سے بہت متقدم ہے جب رسول اللہe نے یہ تلاوت فرمائی تھی۔ یہاں دراصل ترتیب اخباری مراد ہے۔ ﴿ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ ’’موسیٰ کو کتاب عنایت کی‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس سے مراد تورات ہے ﴿تَمَامًا﴾ اپنی نعمت اور احسان کو پورا اور مکمل کرنے کے لیے ﴿ عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ﴾ ’’ان پر جو نیکوکار ہیں ۔‘‘ یعنی جناب موسیٰ کی امت میں سے ان لوگوں پر اپنی نعمت کو پورا کرنے کے لیے جنھوں نے نیک کام کیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیکوکاروں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔ من جملہ ان کامل نعمتوں کے ان پر تورات کا نازل کرنا ہے پس ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت مکمل ہو گئی اور ان پر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ٹھہرا۔ ﴿ وَتَفْصِیْلًا لِّ٘كُ٘لِّ شَیْءٍ ﴾ ’’اور ہر چیز کی تفصیل کے لیے‘‘ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ جس کے وہ محتاج ہیں ، اس کا تعلق حلال و حرام سے ہو، اوامر و نواہی سے ہو یا عقائد وغیرہ سے۔ ﴿ وَّهُدًى﴾ ’’اور ہدایت۔‘‘ یعنی وہ بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے اور اصول و فروع میں ان کو برائی کی پہچان کرواتی ہے ﴿وَّرَحْمَةً﴾ ’’اور رحمت‘‘ یعنی اس رحمت کے ذریعے سے انھیں سعادت اور خیر کثیر سے نوازا جاتا ہے ﴿ لَّعَلَّهُمْ ﴾ ’’تاکہ وہ لوگ‘‘ یعنی ہمارے ان پر کتاب اور واضح دلائل نازل کرنے کے سبب سے ﴿ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ﴾ ’’اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں ‘‘ کیونکہ یہ کتاب قیامت اور جزائے اعمال کے قطعی دلائل اور ایسے امور پر مشتمل ہے جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان اور اس کے لیے تیاری کے موجب ہیں ۔
#
{155} {وهذا}: القرآن العظيم والذِّكْر الحكيم، {كتابٌ أنزلْناه مبارَكٌ}؛ أي: فيه الخير الكثير والعلم الغزير، وهو الذي تستمدُّ منه سائر العلوم وتستخرجُ منه البركاتُ؛ فما من خيرٍ إلاَّ وقد دعا إليه ورغَّب فيه وذكر الحِكَمَ والمصالح التي تحثُّ عليه، وما من شرٍّ إلا وقد نهى عنه وحذَّر منه وذكر الأسباب المنفِّرة عن فعله وعواقبها الوخيمة. {فاتَّبعوه}: فيما يأمر به وينهى، وابنوا أصولَ دينِكُم وفروعه عليه. {واتَّقوا}: الله تعالى أن تخالفوا له أمراً {لعلَّكم}: إن اتَّبعتموه {تُرْحَمونَ}: فأكبر سبب لنيل رحمة الله اتِّباعُ هذا الكتاب علماً وعملاً.
[155] ﴿وَهٰؔذَا﴾ ’’اور یہ‘‘ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ ﴾ ’’کتاب ہم نے اتاری ہے برکت والی۔‘‘ یعنی اس کتاب کے اندر خیرکثیر اور بے انتہا علم ہے جس سے تمام علوم مدد لیتے ہیں اور اس سے برکات حاصل کی جاتی ہیں ۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف اس کتاب عظیم نے دعوت اور ترغیب نہ دی ہو اوراس بھلائی کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان نہ کی ہوں جو اس پرآمادہ کرتی ہیں اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اس کتاب نے روکا اور ڈرایا نہ ہو اور ان اسباب اور عواقب کا ذکرنہ کیا ہو جو اس برائی کے ارتکاب سے باز رکھتے ہوں ۔ ﴿ فَاتَّبِعُوْهُ ﴾ ’’پس اس کی پیروی کرو‘‘ یعنی اس کے امرونہی میں اس کی اتباع کرو اور اس پر اپنے اصول و فروع کی بنیاد رکھو ﴿ وَاتَّقُوْا ﴾ ‘‘اور ڈرو‘‘ یعنی کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو ﴿ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ ‘‘تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو شاید تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا سبب علم و عمل کے اعتبار سے اس کتاب کی پیروی ہے۔
#
{156} {أن تقولوا إنَّما أنزِلَ الكتاب على طائفتين من قبلنا وإن كنَّا عن دراستِهِم لغافلينَ}؛ أي: أنزلنا إليكم هذا الكتاب المبارك قطعاً لحجَّتكم وخشيةَ أن تقولوا إنما أنزل الكتابُ على طائفتين من قبلنا؛ أي اليهود والنصارى. {وإن كنَّا عن دراستِهِم لغافلينَ}؛ أي: تقولون: لم تنزِلْ علينا كتاباً، والكتب التي أنزلتها على الطائفتين ليس لنا بها علمٌ ولا معرفةٌ، فأنزلنا إليكم كتاباً لم ينزل من السماء كتابٌ أجمع ولا أوضح ولا أبين منه.
[156] ﴿اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا﴾ ’’اس واسطے کہ کہیں تم کہنے لگو، کہ کتاب جو اتری تھی، سو ان ہی دو فرقوں پر جو ہم سے پہلے تھے‘‘ یعنی قطع حجت کے لیے ہم نے تم پر یہ مبارک کتاب نازل کی ہے اور تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہم سے پہلے تو دو گروہوں پر کتاب نازل کر دی گئی، یعنی یہود و نصاریٰ پر ﴿ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْ٘نَ﴾ ’’اور ہم کو تو ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر ہی نہ تھی‘‘یعنی تم کہو کہ ہم پر کوئی کتاب نہیں اتاری گئی۔ یہود و نصاریٰ پر جو کتابیں نازل کی گئیں ان کے بارے میں ہمیں کوئی علم ہے نہ معرفت، اس لیے ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس سے بڑھ کر جامع، واضح اور روشن کوئی اور کتاب آسمان سے نازل نہیں کی گئی۔
#
{157} {أو تقولوا لو أنَّا أنزِلَ علينا الكتابُ لَكُنَّا أهدى منهم}؛ أي: إما أن تعتذروا بعدم وصول أصل الهداية إليكم، وإما أن تعتذِروا بعدم كمالها وتمامها، فحصل لكم بكتابكم أصل الهداية وكمالها، ولهذا قال: {فقد جاءكم بينة من ربكم}: وهذا اسم جنسٍ يدخل فيه كل ما يبين الحق، {وهدىً}: من الضلالة، {ورحمةٌ}؛ أي: سعادة لكم في دينكم ودنياكم؛ فهذا يوجِبُ لكم الانقياد لأحكامه والإيمان بأخباره وأنَّ مَنْ لم يرفعْ به رأساً وكذَّب به؛ فإنه أظلم الظالمين. ولهذا قال: {فمَنْ أظلمُ ممَّن كذَّبَ بآيات الله وصَدَفَ عنها}؛ أي: أعرض ونأى بجانبه، {سنجزي الذين يصدِفونَ عن آياتنا سوءَ العذاب}؛ [أي: العذاب] الذي يَسوءُ صاحبه ويشقُّ عليه، {بما كانوا يصدِفونَ}: لأنفسهم ولغيرهم جزاءً لهم على عملهم السيئ، وما ربُّك بظلام للعبيد. وفي هذه الآيات دليلٌ على أنَّ علم القرآن أجلُّ العلوم وأبركُها وأوسعُها، وأنه به تحصُل الهداية إلى الصراط المستقيم هدايةً تامةً لا يحتاج معها إلى تخرُّص المتكلمين ولا إلى أفكار المتفلسفين ولا لغير ذلك من علوم الأوَّلين والآخرين. وأنَّ المعروف أنَّه لم ينزل جنسُ الكتاب إلا على الطائفتين؛ من اليهود والنصارى؛ فهم أهل الكتاب عند الإطلاق، لا يدخل فيهم سائر الطوائف؛ لا المجوس ولا غيرهم. وفيه ما كان عليه الجاهلية قبل نزول القرآن من الجهل العظيم وعدم العلم بما عند أهل الكتاب الذين عندهم، مادةُ العلم، وغفلتُهم عن دراسة كتبهم.
[157] ﴿اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّـاۤ٘ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰؔى مِنْهُمْ ﴾ ’’یا تم کہو کہ اگر اترتی ہم پر کتاب تو ہم ان سے بہتر راہ پر چلنے والے ہوتے‘‘ یعنی یا تو تم یہ عذر پیش کرو گے کہ تمھارے پاس اصل ہدایت ہی نہیں پہنچی یا تمھارا عذر یہ ہو گا کہ یہ ہدایت کامل نہ تھی۔ پس تمھیں اپنی کتاب، اصل اور کامل ہدایت حاصل ہو گئی۔ بنا بریں فرمایا: ﴿فَقَدْ جَآءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾ ’’پس تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے دلیل آگئی۔‘‘ یہ اسم جنس ہے اور اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جو حق کو بیان کرے ﴿ وَهُدًى ﴾ ’’اور ہدایت‘‘ گمراہی کے اندھیروں میں راہ ہدایت ہے ﴿ وَّرَحْمَةٌ ﴾ ’’اور رحمت‘‘ یعنی دین و دنیا میں تمھارے لیے سعادت ہے۔ پس یہ چیز تم پر واجب کرتی ہے کہ تم اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کی خبروں پر ایمان لاؤ۔ اور جس کسی نے اس کی پروا نہ کی اور اس کو جھٹلایا، وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿فَ٘مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ﴾ ’’اب اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے کترائے‘‘ یعنی اس نے روگردانی کی اور پہلو بچا کر نکل گیا ﴿ سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓءَؔ الْعَذَابِ ﴾ ’’ہم سزا دیں گے ان کو جو ہماری آیتوں سے کتراتے ہیں ، برے عذاب کی‘‘ یعنی وہ ایسا عذاب ہو گا کہ وہ اس میں مبتلا شخص کو سخت تکلیف دے گا، اس پر بہت شاق گزرے گا ﴿ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ ﴾ ’’اس کترانے کے بدلے میں ‘‘ وہ خود اپنے آپ کو اور دوسروں کو ہماری آیتوں سے پھیرتے تھے، یہ ان کے اعمال بد کا بدلہ ہے ﴿ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ﴾ (حم السجدہ: 41؍46) ’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کا علم، جلیل ترین، انتہائی بابرکت اور تمام علوم سے زیادہ وسیع علم ہے۔ اسی کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف کامل راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے انسان اولین و آخرین میں سے متکلمین کے قیاسات اور اندازوں اور فلسفیوں کے افکار و نظریات کا محتاج نہیں رہتا۔ عام طور پر معروف ہے کہ کتاب یہود و نصاریٰ کے سوا کسی پر نہیں اتری اور علی الاطلاق وہی اہل کتاب ہیں ۔ دیگر تمام گروہ، مجوس وغیرہ اہل کتاب کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن سے قبل جاہلی عرب، ان اہل کتاب کے علم سے بے بہرہ تھے جن کے پاس علم تھا اور ان کی کتب کے پڑھنے پڑھانے سے غافل تھے۔
آیت: 158 #
{هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (158)}
نہیں انتظار کرتے وہ مگر اس بات کا کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے آپ کا رب،یاآئیں بعض نشانیاں آپ کے رب کی جس دن آجائیں گی بعض نشانیاں آپ کے رب کی تو نہ نفع دے گا کسی نفس کو ایمان(لانا) اس کا،کہ جو نہیں تھا لایا اس سے پہلے یا (نہیں) کمائی اس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی،کہہ دیجیے!انتظار کرو تم!یقینا ہم بھی منتظر ہیں(158)
#
{158} يقول تعالى: هل ينظر هؤلاء الذين استمر ظلمُهُم وعنادهم، {إلَّا أن يأتِيَهم}؛ مقدمات العذاب ومقدمات الآخرة؛ بأن تأتيهم {الملائكة} لقبض أرواحهم؛ فإنهم إذا وصلوا إلى تلك الحال؛ لم ينفعهم الإيمان ولا صالح الأعمال، {أو يأتي ربُّك}: لفصل القضاء بين العباد ومجازاة المحسنين والمسيئين {أو يأتي بعض آيات ربك}: الدالَّة على قرب الساعة. {يوم يأتي بعضُ آيات ربِّك}: الخارقة للعادة، التي يعلم بها أن الساعة قد دنت وأن القيامة قد اقتربت. {لا ينفعُ نفساً إيمانُها لم تكنْ آمنتْ من قبلُ أو كسبتْ في إيمانها خيراً}؛ أي: إذا وجد بعض آيات الله؛ لم ينفع الكافرَ إيمانُه إنْ آمنَ ولا المؤمنَ المقصرَ أن يزدادَ خيرُهُ بعد ذلك، بل ينفعه ما كان معه من الإيمان قبل ذلك، وما كان له من الخير الموجود قبل أن يأتي بعضُ الآيات. والحكمة في هذا ظاهرة؛ فإنه إنَّما كان الإيمان ينفع إذا كان إيماناً بالغيب وكان اختياراً من العبد. فأما إذا وجدت الآيات؛ صار الأمر شهادةً، ولم يبق للإيمان فائدةٌ؛ لأنه يشبه الإيمان الضروري؛ كإيمان الغريق والحريق ونحوهما ممَّن إذا رأى الموت أقلع عمَّا هو فيه؛ كما قال تعالى: {فلمَّا رأوا بأسنا قالوا آمنَّا بالله وحدَه وكَفَرْنا بما كنا به مشركينَ. فلم يَكُ ينفعُهم إيمانُهم لما رأوا بأسنا سُنَّةَ اللَّهِ التي قد خلتْ في عبادِهِ} وقد تكاثرت الأحاديث الصحيحة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنَّ المرادَ ببعض آيات الله طلوعُ الشمس من مغربها، وأنَّ الناس إذا رأوْها؛ آمنوا، فلم ينفعْهم إيمانُهم، ويغلقُ حينئذٍ باب التوبة. ولمَّا كان هذا وعيداً للمكذِّبين بالرسول - صلى الله عليه وسلم - مُنْتَظَراً وهم ينتظرون بالنبي - صلى الله عليه وسلم - وأتباعه قوارعَ الدهر ومصائب الأمور؛ قال: {قل انتَظِروا إنَّا منتَظِرون}: فستعلمون أيُّنا أحقُّ بالأمن. وفي هذه الآية دليل لمذهب أهل السنة والجماعة في إثبات الأفعال الاختيارية لله تعالى؛ كالاستواء والنزول والإتيان لله تبارك وتعالى من غير تشبيه له بصفات المخلوقين، وفي الكتاب والسنة من هذا شيءٌ كثير. وفيه أن من جملة أشراط الساعة طلوعَ الشمس من مغربها. وأنَّ الله تعالى حكيمٌ قد جرت عادته وسنَّته أن الإيمان إنما ينفع إذا كان اختياريًّا لا اضطراريًّا كما تقدَّم، وأن الإنسان يكتسب الخير بإيمانه؛ فالطاعة والبرُّ والتقوى إنما تنفع وتنمو إذا كان مع العبد إيمانٌ، فإذا خلا القلب من الإيمان؛ لم ينفعْه شيءٌ من ذلك.
[158] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو اپنے ظلم و عناد پر جمے ہوئے ہیں ، اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔‘‘ یعنی آخرت اور عذاب کے مقدمات کی صورت میں ان کے سامنے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آ حاضر ہوں ۔ کیونکہ جب وہ اس حالت کو پہنچ جائیں گے تو اس وقت ایمان اور اعمال صالحہ ان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے۔ ﴿اَوْ یَ٘اْتِیَ رَبُّكَ ﴾ ’’یا خود تمھارا رب آئے۔‘‘ یعنی تمھارا رب بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے، نیکوکاروں اور بدکاروں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لیے آجائے ﴿ اَوْ یَ٘اْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ ﴾ ’’یا تمھارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں ‘‘ جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہوں ﴿ یَوْمَ یَ٘اْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ ﴾ ’’جس دن تمھارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں گی‘‘ یعنی خارق عادت معجزات جن سے یہ معلوم ہو کہ قیامت کی گھڑی قریب آن لگی ہے اور بہت قریب پہنچ گئی ہے ﴿ لَا یَنْفَ٘عُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُ٘نْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا ﴾ ’’تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کیے ہوں گے۔‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں آموجود ہوں گی تو اس کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی فائدہ دے گا نہ کوتاہی کے شکار مومن کے اعمال میں اضافہ اس کے کسی کام آئے گا بلکہ صرف وہی ایمان کی پونجی اس کے کام آئے گی جو تھوڑی بہت اس کے دامن میں ہوگی اورصرف وہی نیک اعمال اس کو فائدہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں آجانے سے قبل اس نے کیے ہوں گے۔ اس میں ظاہری حکمت یہ ہے کہ ایمان صرف وہی فائدہ دیتا ہے جو بالغیب ہو اور بندہ اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لایا ہو۔ لیکن جب اللہ کی نشانیاں آجائیں اور معاملہ غیب سے شہادت میں منتقل ہو جائے تو ایمان لانے میں کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ کیونکہ یہ جبری ایمان کے مشابہ ہے ، مثلاً: ڈوبتے ہوئے یا جلتے ہوئے شخص وغیرہ کا ایمان لانا، یعنی وہ شخص جب موت کا چہرہ دیکھ لیتا ہے تو اپنی بداعمالیوں کو ختم کر دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَؔكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۰۰ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ ﴾ (المومن: 40؍84،85) ’’پس جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جن کو ہم اللہ کا شریک بنایا کرتے تھے۔ مگر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔‘‘ بہت سی صحیح احادیث میں رسول اللہe سے مروی ہے کہ یہاں ’’اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیوں ‘‘ سے مراد ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، لوگ جب سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے تو جھٹ ایمان لے آئیں گے مگر ان کا ایمان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا اور اس وقت توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، کتاب الرقاق، حدیث: 6506) چونکہ یہ آیت کریمہ رسول اللہe کے جھٹلانے والوں کے لیے وعید ہے۔ آپe ان نشانیوں کے ظہور کے منتظر ہیں اور کفار بھی منتظر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْ٘تَظِرُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں ‘‘ پس عنقریب تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کون امن کا مستحق ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات ہے ، مثلاً: استواء علی العرش، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور اس کا آنا، مخلوق کی صفات کے ساتھ کسی تشبیہ کے بغیر۔ اور اس اعتبار سے یہ اہل سنت والجماعت کے مذہب کی دلیل ہے اور اس موضوع پر کتاب و سنت میں بہت سا مواد موجود ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کی جملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکمت والا ہے کائنات میں اس کی یہ سنت و عادت جاری و ساری ہے کہ ایمان صرف اسی وقت فائدہ دیتا ہے جبکہ وہ اختیاری ہو اضطراری نہ ہو۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ نیز یہ کہ انسان کا اکتساب خیر ایمان ہی کے ساتھ فائدہ مند ہے نیکی، تقویٰ وغیرہ اسی وقت فائدہ دیتے ہیں اور نشوونما پاتے ہیں جب بندے کے دامن میں سرمایہ ایمان بھی ہو۔ جب قلب ایمان سے خالی ہو تو بندے کو کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی۔
آیت: 159 - 160 #
{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (159) مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (160)}
بے شک وہ لوگ جنھوں نے تفرقہ بازی کی اپنے دین میں اور ہو گئے وہ گروہ گروہ،نہیں ہیں آپ ان سے کسی چیزمیں،یقینا ان کا معاملہ اللہ کی طرف ہے، پھر وہ خبر دے گا انھیں اس چیز کی جو تھے وہ کرتے(159) جوشخص لائے گا ایک نیکی تو اس کے لیے دس گنا(ثواب) ہے اس کا،اور جو شخص لائے گا ایک برائی تو نہیں سزادیا جائے گا وہ مگر مثل اسی کے اور وہ نہیں ظلم کیے جائیں گے(160)
#
{159} يتوعَّد تعالى الذين فرَّقوا دينهم؛ أي: شتَّتوه وتفرَّقوا فيه، وكلٌّ أخذ لنفسه نصيباً من الأسماء التي لا تفيد الإنسان في دينه شيئاً؛ كاليهودية والنصرانية والمجوسية، أو لا يكمل بها إيمانه؛ بأن يأخذ من الشريعة شيئاً ويجعله دينه ويدع مثله أو ما هو أولى منه؛ كما هو حال أهل الفرقة من أهل البدع والضلال والمفرقين للأمة. ودلَّت الآية الكريمة أن الدين يأمر بالاجتماع والائتلاف وينهى عن التفرق والاختلاف في أهل الدين وفي سائر مسائله الأصوليَّة والفروعيَّة، وأمره أن يتبرأ ممَّن فرَّقوا دينهم، فقال: {لستَ منهم في شيءٍ}؛ أي: لست منهم وليسوا منك؛ لأنهم خالفوك وعاندوك. {إنَّما أمرُهم إلى الله}: يردُّون إليه فيجازيهم بأعمالهم، {ثم ينبِّئهم بما كانوا يفعلونَ}.
[159] اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو وعید سناتا ہے جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے فرقوں میں بٹ گئے اور ہر ایک نے اپنا ایک نام رکھ لیا جو انسان کے لیے اس کے دین میں کوئی کام نہیں آتا۔ جیسے یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت وغیرہ۔ یا اس سے انسان کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، جیسے وہ شریعت میں سے کسی ایک چیز کو اخذ کر کے اس کو دین بنا لے اور اس جیسی یا اس سے کسی افضل چیز کو چھوڑ دے جیسا کہ اہل بدعت اور ان گمراہ فرقوں کا حال ہے جنھوں نے امت سے الگ راستہ اختیار کر لیا ہے۔ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ دین اجتماعیت اور اکٹھے رہنے کا حکم دیتا ہے اور تفرقہ بازی اور اہل دین میں اور تمام اصولی و فروعی مسائل میں اختلاف پیدا کرنے سے روکتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہe کو حکم دیا آپ ان لوگوں سے براء ت کا اظہار کریں جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا۔ ﴿لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ ﴾ ’’ان سے آپ کو کچھ کام نہیں ۔‘‘ یعنی آپe ان میں سے ہیں نہ وہ آپ میں سے۔ کیونکہ انھوں نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے عناد رکھا۔ ﴿اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔‘‘ یعنی ان کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا، وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ﴿ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ﴾ ’’پھر وہ (اللہ) ان کو ان کے افعال سے آگاہ کرے گا۔ ‘‘
#
{160} ثم ذكر صفة الجزاء فقال: {من جاء بالحسنة}: القوليَّة والفعليَّة، الظاهرة والباطنة، المتعلقة بحقِّ الله أو حقِّ خلقه، {فله عشرُ أمثالها}: هذا أقل ما يكون من التضعيف، {ومن جاء بالسيئةِ فلا يُجْزى إلَّا مثلَها}: وهذا من تمام عدله تعالى وإحسانه، وأنه لا يظلم مثقال ذرَّة، ولهذا قال: {وهم لا يُظْلَمون}.
[160] پھر اللہ تعالیٰ نے جزا کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ ﴾ ’’جو کوئی نیکی لے کر آئے گا۔‘‘ یعنی جو کوئی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق قولی، فعلی، ظاہری اور باطنی نیکی لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوتا ہے ﴿ فَلَهٗ عَشْ٘رُ اَمْثَالِهَا ﴾ ’’تو اس کے لیے اس کا دس گنا ہے‘‘ نیکیوں کو کئی گنا کرنے کے ضمن میں یہ کم ترین جزا ہے ﴿ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا ﴾ ’’اور جو کوئی لاتا ہے ایک برائی، سو سزا پائے گا اسی کے برابر‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا کامل عدل و احسان ہے۔ اور وہ ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ بنابریں فرمایا ﴿وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ’’ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
آیت: 161 - 165 #
{قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (161) قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (163) قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (164) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (165)}
کہہ دیجیے!بلاشبہ میں،ہدایت دی مجھے میرے رب نے طرف صراط مستقیم کی(، یعنی ) دین صحیح کی،جو طریقہ ہے ابراہیم کا اس حال میں کہ وہ رب کا پرستارتھا،اورنہیں تھا وہ مشرکوں میں سے(161) کہہ دیجیے!یقینا میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت(سب) اللہ رب العالمین کے لیے ہے(162) نہیں کوئی شریک اس کا،اور اسی کا حکم دیا گیا ہوں میں،اور میں سب سے پہلامسلمان ہوں (163) کہہ دیجیے!کیا سوائے اللہ کے تلاش کروں میں رب؟جبکہ وہی ہے رب ہر چیز کا،اور نہیں کماتی کوئی جان(گناہ) مگر اسی پر ہے(وبال) اور نہیں اٹھائے گی کوئی (جان) بوجھ اٹھانے والی بوجھ دوسری(جان)کا، پھر طرف تمھارے رب کی واپسی ہے تمھاری پس وہ خبر دے گا تمھیں ساتھ اس چیز کے کہ تھے تم اس میں اختلاف کرتے(164) اور وہی ہے جس نے بنایا تمھیں جانشین زمین میں اور بلند کیا تمھارے ایک کو دوسرے پر درجات میں تاکہ آزمائے وہ تمھیں ان(نعمتوں) میں جو اس نے تمھیں دیں،بے شک آپ کا رب جلد سزادینے والا ہے اور بلاشبہ بہت بخشنے والا،مہربان ہے(165)
#
{161} يأمر تعالى نبيَّه - صلى الله عليه وسلم - أنْ يقول ويعلن بما هو عليه من الهداية إلى الصراط المستقيم، الدِّين المعتدل، المتضمِّن للعقائد النافعة والأعمال الصالحة والأمر بكل حسن والنهي عن كل قبيح، الذي عليه الأنبياء والمرسلون، خصوصاً إمام الحنفاء ووالد من بُعِثَ من بعد موته من الأنبياء خليل الرحمن إبراهيم عليه الصلاة والسلام، وهو الدين الحنيف، المائل عن كل دين غير مستقيم من أديان أهل الانحراف كاليهود والنصارى والمشركين. وهذا عمومٌ.
[161] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبیe سے فرماتا ہے کہ وہ جس راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں اس کے بارے میں اعلان کر دیں یعنی معتدل دین کا جو عقائد نافعہ، اعمال صالحہ، ہر اچھی بات کے حکم اور ہر بری بات سے ممانعت کو متضمن ہے۔ یہ وہ دین ہے جس پر تمام انبیا و مرسلین عمل پیرا رہے، جو خاص طور پر امام الحنفاء، بعد میں مبعوث ہونے والے تمام انبیا و مرسلین کے باپ اور اللہ رحمن کے خلیل ابراہیمu کا دین تھا۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو تمام اہل انحراف، مثلاً: یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ادیان باطلہ سے روگردانی کو متضمن ہے۔یہ عمومی ذکر ہے ۔
#
{162} ثم خصَّص من ذلك أشرف العبادات، فقال: {قلْ إنَّ صلاتي ونسكي}؛ أي: ذبحي، وذلك لشرف هاتين العبادتين وفضلهما ودلالتهما على محبَّة الله تعالى وإخلاص الدين له والتقرُّب إليه بالقلب واللسان والجوارح وبالذبح الذي هو بذل ما تحبُّه النفس من المال لما هو أحبُّ إليها وهو الله تعالى، ومن أخلص في صلاته ونُسُكه؛ استلزم ذلك إخلاصه لله في سائر أعماله. وقوله: {ومحيايَ ومماتي}؛ أي: ما آتيه في حياتي وما يجريه الله عليَّ وما يقدِّر عليَّ في مماتي؛ الجميعُ {للهِ ربِّ العالمين}.
[162] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے افضل ترین عبادت کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿قُ٘لْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُ٘سُكِیْ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی۔‘‘ان دو عبادات کا ذکر ان کے فضل و شرف اور اس بنا پر کیا ہے کہ یہ دونوں عبادات اللہ تعالیٰ سے محبت، دین کو اس کے لیے خالص کرنے، قلب و لسان، جوارح اور قربانی کے ذریعے سے اس کے تقرب کے حصول پر دلالت کرتی ہیں اور قربانی سے مراد ہے کہ مال وغیرہ کو جو نفس کو محبوب ہے، اس ہستی کے لیے خرچ کرنا جو اس کو سب سے زیادہ محبوب ہے، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ۔ جس نے اپنی نماز اور قربانی کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیا تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ اس نے اپنے تمام اعمال و اقوال کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیا۔ ﴿ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ﴾ ’’اور میرا جینا اور میرا مرنا۔‘‘ یعنی میں جو کچھ اپنی زندگی میں کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ جو کچھ میرے ساتھ کرتا ہے اور زمانہ موت میں اللہ تعالیٰ میرے لیے جو کچھ مقدر کرے گا۔﴿ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
#
{163} {لا شريكَ له}: في العبادة؛ كما أنه ليس له شريكٌ في الملك والتدبير، وليس هذا الإخلاص لله ابتداعاً مني وبدعاً أتيته من تلقاء نفسي، بل {بذلك أمِرْتُ}: أمراً حتماً لا أخرج من التبعة إلا بامتثاله، {وأنا أول المسلمين}: من هذه الأمة.
[163] ﴿ لَا شَرِیْكَ لَهٗ ﴾ عبادت میں اس کا کوئی شریک ہے نہ اقتدار اور تدبیر میں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے یہ اخلاص کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں جو میں نے خود گھڑ لی ہو بلکہ ﴿ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ ﴾ ’’اور مجھے اسی (اخلاص) کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ یعنی حتمی حکم۔ اور اس حکم کی تعمیل کیے بغیر میں اس کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ﴿ وَاَنَا اَوَّلُ الْ٘مُسْلِمِیْنَ ﴾ ’’اور میں سب سے اول فرماں بردار ہوں ۔‘‘ یعنی اس امت میں ، پہلا مسلمان ہوں ۔
#
{164} {قل أغير الله}: من المخلوقين {أبغي ربًّا}؛ أي: يحسن ذلك، ويليق بي أن أتَّخذ غيره مربياً ومدبراً، والله ربُّ كلِّ شيءٍ؛ فالخلق كلهم داخلون تحت ربوبيته، منقادون لأمره، فتعيَّن عليَّ وعلى غيري أن يَتَّخِذَ اللهَ رَبًّا ويرضى به وأن لا يتعلَّق بأحد من المربوبين الفقراء العاجزين. ثم رغَّب ورهَّب بذلك الجزاء، فقال: {ولا تكسِبُ كلُّ نفس}: ـ من خير وشر.- {إلَّا عليها}؛ كما قال تعالى: {من عمل صالحاً فلنفسِهِ ومن أساءَ فعَلَيْها}، {ولا تزِرُ وازرةٌ وزرَ أخرى}: بل كلٌّ عليه وزرُ نفسِهِ، وإن كان أحد قد تسبَّب في ضلال غيره ووزره؛ فإن عليه وزر التسبب من غير أن ينقص من وِزْرِ المباشر شيء، {ثم إلى ربِّكم مرجِعُكم}: يوم القيامة، {فينبِّئُكم بما كنتُم فيه تختلفونَ }: من خير وشرٍّ، ويجازيكم على ذلك أوفى الجزاء.
[164] ﴿ قُ٘لْ اَغَیْرَ اللّٰهِ ﴾ ’’کہہ دیجیے، کیا اب میں اللہ کے سوا‘‘ یعنی مخلوق میں سے ﴿اَبْغِیْ رَبًّا﴾ ’’تلاش کروں کوئی رب؟‘‘ کیا یہ میرے لیے اچھا اور میرے لائق ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا رب اور مدبر بنا لوں ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا رب ہے اور تمام مخلوق اس کی ربوبیت کے تحت داخل اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ پس مجھ پر اور دیگر لوگوں پر یہ بات واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کریں اور اس پر راضی رہیں ۔ محتاج، عاجز اور مربوب مخلوق میں سے کسی کو رب نہ بنائیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ جزا و سزا کی ترغیب و ترہیب کے لیے فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَكْسِبُ كُ٘لُّ٘ نَ٘فْ٘سٍ ﴾ ’’اور جو کوئی جو کماتا ہے‘‘ یعنی ہر شخص خیر و شر کا جو ارتکاب کرتا ہے ﴿ اِلَّا عَلَیْهَا ﴾ ’’اس کی جزا و سزا صرف اسی کے لیے ہے۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا ﴾ (حم السجدۃ: 41؍46) ’’جو کوئی نیک کام کرتا ہے اس کی جزا اسی کے لیے ہے اور جو برا کام کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔‘‘ ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ﴾ ’’کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ بلکہ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی گمراہی اور اس کے گناہ کا سبب بنا تو اسے سبب بننے کے گناہ کا بوجھ اٹھانا ہو گا اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ ﴿ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ ﴾ ’’پھر تمھارے رب کے پاس ہی تم کو لوٹ کر جانا ہے‘‘ یعنی قیامت کے روز ﴿ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ﴾ ’’تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا۔‘‘ یعنی خیروشر میں جو تم اختلاف کرتے ہو، اس کے بارے میں تمھیں آگاہ کرے گا اور تمھیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
#
{165} {وهو الذي جعلكم خلائفَ الأرض}؛ أي: يخلُفُ بعضُكم بعضاً، واستخلفكم الله في الأرض، وسخَّر لكم جميع ما فيها، وابتلاكم لينظر كيف تعملونَ، {ورَفَعَ بعضَكم فوق بعضٍ درجات}: في القوة والعافية والرزق والخَلْق والخُلُق؛ {ليبلُوَكُم فيما آتاكم}: فتفاوتت أعمالُكم. {إنَّ ربَّك سريعُ العقاب}: لمن عصاه وكذَّب بآياتِهِ، {وإنَّه لغفورٌ رحيمٌ}: لمن آمن به وعمل صالحاً، وتاب من الموبقات.
[165] ﴿وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ الْاَرْضِ ﴾ ’’اور وہی توہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا۔‘‘ یعنی تم ایک دوسرے کے جانشین بنتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھیں زمین میں جانشین بنایا اور زمین کی تمام موجودات کو تمھارے لیے مسخر کر کے تمھیں آزمایا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ ﴿ وَرَفَ٘عَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰؔتٍ ﴾ ’’اور بلند کیا اس نے تمھیں درجوں میں ایک کو ایک پر‘‘ یعنی قوت، عافیت، رزق، خلقت اور خلق میں ایک دوسرے پر فوقیت عطا کی ﴿ لِّیَبْلُوَؔكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ ’’تاکہ تمھیں آزمائے وہ ان چیزوں میں جو اس نے تمھیں دیں ۔‘‘ پس تمھارے اعمال ایک دوسرے سے متفاوت ہیں ﴿اِنَّ رَبَّ٘كَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ﴾ ’’تمھارا رب ان لوگوں کو بہت جلد سزا دینے والا ہے۔‘‘ ان کو جو اس کی نافرمانی اور اس کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں ﴿ وَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے ہیں ، نیک عمل کرتے ہیں اور مہلک گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔