آیت:
تفسیر سورۂ قلم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 7 #
{ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (1) مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (2) وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (3) وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (4) فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ (5) بِأَيِّكُمُ الْمَفْتُونُ (6) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (7)}.
نٓ، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں(1) نہیں ہیں آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے(2) اور بلاشبہ آپ کے لیے البتہ اجر ہےنہ ختم کیا جانے والا (3) اور بے شک آپ خُلقِ عظیم پر (فائز) ہیں (4) پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے(5) کہ کون تم میں سے دیوانہ ہے؟(6) بلاشبہ آپ کا رب، وہی خوب جانتا ہے اس کو جو گمراہ ہوا اس کی راہ سے، اور وہی خوب جانتا ہے راہ پانے والوں کو(7)
#
{1 ـ 2} يقسم تعالى بالقلم، وهو اسم جنس شامل للأقلام التي تُكْتَبُ بها أنواع العلوم، ويسطرُ بها المنثور والمنظوم ، وذلك أنَّ القلم وما يسطرُ به من أنواع الكلام من آياته العظيمة، التي تستحقُّ أن يُقْسِمَ [اللَّهُ] بها على براءة نبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - مما نسبه إليه أعداؤه من الجنون؛ فنفى عنه ذلك بنعمةِ ربِّه عليه وإحسانه؛ حيث منَّ عليه بالعقل الكامل والرأي الجَزْل والكلام الفَصل، الذي هو أحسن ما جرت به الأقلام وسطره الأنام، وهذا هو السعادة في الدُّنيا.
[2,1] اللہ تبارک و تعالیٰ ’’قلم‘‘ کی قسم کھاتا ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو ان تمام اقلام کو شامل ہے جن کے ذریعے سے مختلف علوم کو لکھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے سے منثور اور منظوم کلام کواحاطہء تحریر میں لایا جاتا ہے۔ اور یہ اس حقیقت پر قسم ہے کہ قلم اور جو اس کے ذریعے سے مختلف انواع کا کلام لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جو اس امر کی مستحق ہے کہ محمد e کی ان عیوب کے بارے میں براء ت پر اس کی قسم کھائی جائے جو آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، یعنی جنون وغیرہ۔ پس آپ کے رب کی نعمت اور احسان سے ان عیوب کی آپ سے نفی کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل کامل، عمدہ رائے اور فصاحت و بلاغت سے لبریز کلام فیصل سے سرفراز فرمایا ہے جو بہترین کلام ہے جسے قلم لکھتے ہیں اور مخلوقات اسے قلم بند کرتی ہیں اور دنیا کے اندر یہی سعادت ہے۔
#
{3} ثم ذكر سعادته في الآخرة، فقال: {وإنَّ لك لأجرًا غيرَ ممنونٍ}؛ أي: لأجراً عظيماً كما يفيده التنكير، غير مقطوع ، بل هو دائمٌ مستمرٌّ، وذلك لما أسلفه - صلى الله عليه وسلم - من الأعمال الصالحة والأخلاق الكاملة والهداية إلى كلِّ خير.
[3] پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اخروی سعادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا﴾ ’’آپ کے لیے بہت بڑا اجر ہے‘‘ جیسا کہ نکرہ سے مستفاد ہوتا ہے﴿ غَیْرَ مَمْنُوْنٍ﴾ یعنی ایسا اجر جو کبھی منقطع نہیں ہوگا بلکہ دائمی اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس کا سبب وہ اعمال صالحہ، اخلاق کاملہ اور ہر بھلائی کی طرف وہ راہ نمائی وغیرہ ہے جو نبی ٔاکرمe سے صادر ہوئی ہے۔
#
{4} ولهذا قال: {وإنَّك لَعلى خُلُقٍ عظيم}؛ أي: عليًّا به، مستعلياً بخُلُقك الذي مَنَّ الله عليك به. وحاصل خُلُقِهِ العظيم ما فسَّرته به أمُّ المؤمنين عائشة رضي الله عنها لمن سألها عنه، فقالت: كان خلقه القرآن. وذلك نحو قوله تعالى: {خُذِ العَفْوَ وأْمُرْ بالعُرْفِ وأعرِضْ عن الجاهلينَ}، {فبما رحمةٍ من الله لِنتَ لهم ... } الآية، {لقد جاءكم رسولٌ من أنفسِكُم عزيزٌ عليه ما عَنِتُم ... } الآية، وما أشبه ذلك من الآيات الدالاَّت على اتِّصافه - صلى الله عليه وسلم - بمكارم الأخلاق، والآيات الحاثَّات على كلِّ خُلُقٍ جميل ، فكان له منها أكملها وأجلها، وهو في كلِّ خصلة منها في الذَّروة العليا، فكان [- صلى الله عليه وسلم -] سهلاً ليناً قريباً من الناس، مجيباً لدعوة مَنْ دعاه، قاضياً لحاجة من استقضاه، جابراً لقلب مَنْ سأله لا يحرمه ولا يردُّه خائباً. وإذا أراد أصحابُهُ منه أمراً؛ وافقهم عليه وتابعهم فيه إذا لم يكن فيه محذورٌ، وإن عَزَمَ على أمرٍ؛ لم يستبدَّ به دونهم، بل يشاورهم ويؤامرهم، وكان يقبلُ من محسنهم، ويعفو عن مسيئهم، ولم يكن يعاشِرُ جليساً إلاَّ أتمَّ عشرةٍ وأحسنها، فكان لا يعبسُ في وجهه، ولا يُغْلِظُ عليه في مقاله، ولا يطوي عنه بشره، ولا يمسك عليه فَلَتات لسانِهِ، ولا يؤاخذه بما يصدُرُ منه من جفوةٍ، بل يُحْسِنُ إليه غاية الإحسان، ويحتمله غاية الاحتمال - صلى الله عليه وسلم -.
[4] ﴿ وَاِنَّكَ لَ٘عَ٘لٰى خُلُ٘قٍ عَظِیْمٍ﴾ ’’اور بے شک آپ بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔‘‘ یعنی آپ اس اخلاق کی بنا پر بلند مرتبہ ہیں اور اپنے اس خلق عظیم کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کے خلق عظیم کا حاصل وہ ہے جس کی تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ r نے اس شخص کے سامنے بیان فرمائی تھی جس نے آپ کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تھا، حضرت عائشہ نے فرمایا:’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل....، حدیث: 746، و مسند أحمد: 91/6) ’’آپ کا خلق ہی قرآن ہے۔‘‘ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے، فرمایا: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْ٘عُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ﴾ (الاعراف:7؍199) ’’عفو کا رویہ اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کیجیے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ﴾ (آل عمران:3؍159) ’’اللہ کی مہربانی سے، آپ ان کے لیے نرم خو واقع ہوئے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبہ:9؍128) ’’تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمھاری تکلیف اس پر بہت گراں گزرتی ہے، تمھاری بھلائی کا وہ بہت خواہش مند ہے، اہل ایمان پر بہت شفقت کرنے والا اور ان پر نہایت مہربان ہے۔‘‘ کتنا صحیح مصداق ہیں یہ آیات کریمہ جو آپ کے مکارم اخلاق سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ آیات کریمہ جو ہر قسم کے خلق جمیل کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ ان اوصاف میں کامل ترین اور جلیل ترین مقام پر فائز تھے اور ان خصائل میں سے ہر خصلت کی بلند چوٹی پر تھے۔ آپ بہت ہی نرم برتاؤ کرنے والے اور نرم خو تھے، لوگوں کے بہت قریب تھے، جو کوئی آپ کو دعوت دیتا آپ اس کی دعوت قبول کرتے تھے، جو کوئی آپ سے کسی حاجت کا طلب گار ہوتا آپ اس کی حاجت پوری کرتے تھے بلکہ آپ اس کی دل جوئی کرتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب کو آپ سے کام ہوتا، آپ اس کام پر ان کی موافقت کرتے اور اس بارے میں ان کی بات مانتے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو۔ اگر کسی امر کا عزم فرماتے تو ان کو نظر انداز کر کے ان پر اپنی رائے نہیں تھوپتے تھے، بلکہ ان کے ساتھ مشاورت کر کے ان کی رائے لیتے تھے، ان کے اچھے کام کو قبول کر لیتے اور برائی کرنے والے سے درگزر کرتے تھے، کسی ہم نشین کے ساتھ معاشرت کرتے تو کامل ترین اور بہترین طریقے سے معاشرت کرتے، آپ کبھی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے نہ آپ کبھی کوئی سخت بات کہتے، نہ آپ کسی سے منہ موڑتے، نہ آپ اس کی زبان کی لغزش پر گرفت کرتے اور نہ اس کی طرف سے کسی سخت رویے پر مواخذہ فرماتے، بلکہ اس کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتے اور اسے انتہائی حد تک برداشت کرتے۔
#
{5 ـ 6} فلمَّا أنزله الله في أعلى المنازل [من جميع الوجوه]، وكان أعداؤه ينسِبون إليه أنَّه مجنونٌ مفتونٌ؛ قال: {فستُبْصِرُ ويُبْصِرونَ. بأيِّكُم المفتونُ}: وقد تبيَّن أنَّه أهدى الناس وأكملهم لنفسه ولغيره، وأنَّ أعداءه أضلُّ الناس وشرُّ الناس للناس ، وأنَّهم هم الذين فتنوا عبادَ الله وأضلُّوهم عن سبيله، وكفى بعلم الله بذلك؛ فإنَّه [هو] المحاسب المجازي.
[6,5] جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد مصطفیe کو بلند ترین مقام پر فائز فرمایا اور آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ آپ مجنون اور دیوانے ہیں تو فرمایا: ﴿ فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَۙ ۰۰ بِاَىیِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ﴾ ’’پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے۔‘‘ اور یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے سب سے زیادہ کامل ہیں، نیز یہ بھی واضح ہو گیا کہ آپ کے دشمن، لوگوں میں سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے زیادہ شر پسند ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے بندوں کو فتنے میں ڈالا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹکا دیا، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم کافی ہے، وہی محاسبہ کرنے والا اور جزا دینے والا ہے۔
#
{7} {إنَّ ربَّك هو أعلمُ بمن ضلَّ عن سبيله وهو أعلم بالمهتدينَ}: وهذا فيه تهديدٌ للضَّالِّين، ووعدٌ للمهتدين، وبيانٌ لحكمة الله؛ حيث كان يهدي مَنْ يَصْلُحُ للهداية دون غيره.
[7] اور ﴿ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ٘١۪ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ﴾ ’’وہ اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔‘‘ اس میں گمراہ لوگوں کے لیے تہدید اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے وعدہ ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ وہ اس شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو ہدایت کے لائق ہوتا ہے۔
آیت: 8 - 16 #
{فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ (8) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (9) وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ (10) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (11) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (12) عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ (13) أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ (14) إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (15) سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (16)}.
پس نہ اطاعت کریں آپ تکذیب کرنے والوں کی(8) وہ چاہتے ہیں کہ آپ نرمی اختیار کریں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں(9) اور نہ اطاعت کریں آپ ہر قسمیں کھانے والے نہایت حقیر کی (10) جو بڑا ہی عیب جو، چلتا پھرتا چغل خور ہے (11) بہت روکنے والا بھلائی سے، حد سے گزرنے والا سخت گناہ گار ہے (12) اُجَڈ علاوہ اس کے حرام زادہ ہے (13) یہ اس لیے کہ (وہ) مال اور بیٹوں والا ہے (14) جب تلاوت کی جاتی ہیں اس پر ہماری آیات تو کہتا ہے، (یہ)افسانے ہیں پہلوں کے (15) عنقریب ہم داغ لگائیں گے اسے (اس کی) سونڈ (ناک) پر (16)
#
{8} يقول الله تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {فلا تُطِعِ المكذِّبين}: الذين كذَّبوك وعاندوا الحقَّ؛ فإنَّهم ليسوا أهلاً لأن يُطاعوا؛ لأنَّهم لا يأمرون إلاَّ بما يوافق أهواءهم، وهم لا يريدون إلاَّ الباطل؛ فالمطيع لهم مُقْدِمٌ على ما يضرُّه، وهذا عامٌّ في كلِّ مكذِّب وفي كلِّ طاعةٍ ناشئةٍ عن التكذيب، وإن كان السياقُ في شيءٍ خاصٍّ، وهو أنَّ المشركين طلبوا من النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - أن يسكت عن عيب آلهتهم ودينهم ويسكتوا عنه.
[8] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی e سے فرماتا ہے: ﴿ فَلَا تُ٘طِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ۠﴾ جنھوں نے آپ کو جھٹلایا اور حق کے ساتھ عناد رکھا یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے کیونکہ یہ صرف اسی بات کا حکم دیتے ہیں جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہوتی ہے اور یہ باطل کے سوا کچھ نہیں چاہتے، پس ان کی اطاعت کرنے والا اس چیز کی طرف بڑھتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ آیت کریمہ ہر جھٹلانے والے اور ہر اس اطاعت کے لیے عام ہے جو تکذیب سے جنم لیتی ہے اگرچہ اس کا سیاق ایک خاص معاملے میں ہے، اور وہ یہ ہے کہ کفار نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ ان کے معبودوں اور ان کے دین کے بارے میں خاموش ہو جائیں، وہ بھی آپ کے بارے میں خاموش رہیں گے۔
#
{9} ولهذا قال: {ودُّوا}؛ أي: المشركون، {لو تُدْهِنُ}؛ أي: توافقهم على بعض ما هم عليه: إمَّا بالقول، أو بالفعل، أو بالسكوت عما يتعيَّن الكلام فيه {فَيُدْهِنونَ}، ولكن اصدعْ بأمر الله، وأظهرْ دين الإسلام؛ فإنَّ تمام إظهاره نقضُ ما يضادُّه وعيب ما يناقضه.
[9] لہٰذا فرمایا: ﴿ وَدُّوْا﴾ یعنی مشرکین چاہتے ہیں ﴿ لَوْ تُدْهِنُ﴾ کہ آپ ان کے موقف سے موافقت کریں قول کے ذریعے سے یا فعل کے ذریعے سے، یا جہاں کلام کرنا ضرور ٹھہرتا ہو وہاں خاموش رہیں ﴿ فَیُدْهِنُوْنَ﴾ ’’تو وہ بھی نرم ہوجائیں۔‘‘ مگر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حق کو کھلم کھلا بیان کیا اور دین اسلام کا اظہار کیا کیونکہ اس کا کامل اظہار، اس کی ضد کے نقض اور اس کے متناقض نظریات کے عیب کا اظہار ہے۔
#
{10} {ولا تطِعْ كلَّ حلاَّفٍ}؛ أي: كثير الحلف؛ فإنَّه لا يكون كذلك إلاَّ وهو كذَّابٌ، ولا يكون كذّاباً إلاَّ وهو {مَهينٌ}؛ أي: خسيس النفس، ناقصُ الهمة، ليس له رغبةٌ في الخير، بل إرادتُه في شهوات نفسه الخسيسة.
[10] ﴿ وَلَا تُ٘طِعْ كُ٘لَّ حَلَّافٍ ﴾ ’’اور کسی ایسے شخص کی بات نہ ماننا جو بہت قسمیں کھانے والا ہو۔‘‘ کیونکہ اتنی زیادہ قسمیں کھانے والا جھوٹا ہی ہو سکتا ہے، اور آدمی جھوٹا نہیں ہو سکتا جب تک وہ ﴿ مَّهِیْنٍ﴾ خسیس النفس اور دانائی سے تہی دست نہ ہو اور اسے بھلائی میں کوئی رغبت نہ ہو بلکہ اس کا ارادہ اس کے خسیس نفس کی شہوات پر مرتکز ہو۔
#
{11} {همَّازٍ}؛ أي: كثير العيب للناس والطعن فيهم بالغيبة والاستهزاء وغير ذلك، {مشاءٍ بنميمٍ}؛ أي: يمشي بين الناس بالنميمة، وهو نقلُ كلام بعضِ الناس لبعض لقصد الإفسادِ بينهم وإيقاع العداوة والبغضاء.
[11] ﴿ هَمَّازٍ﴾ یعنی جو لوگوں کی بہت زیادہ عیب چینی کرتا ہے اور غیبت و استہزا کے ذریعے سے طعنہ زنی کرتا ہے ﴿ مَّشَّآءٍۭؔ بِنَمِیْمٍ﴾ یعنی لوگوں کے درمیان چغل خوری کرتا پھرتا ہے۔چغل خوری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے اور عداوت اور بغض پیدا کرنے کی غرض سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جائے۔
#
{12} {منَّاع للخيرِ}: الذي يلزمه القيام به من النفقات الواجبة والكفارات والزَّكَوات وغير ذلك. {معتدٍ}: على الخلق؛ يظلِمُهم في دمائهم وأموالهم وأعراضهم. {أثيمٍ}؛ أي: كثير الإثم والذُّنوب المتعلِّقة في حقِّ الله [تعالى].
[12] ﴿ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ﴾ بھلائی ، یعنی نفقات واجبہ، کفارہ، زکاۃ وغیرہ سے منع کرنے والا ہے۔ ﴿ مُعْتَدٍ﴾ مخلوق پر زیادتی کرنے والا، لوگوں کی جان و مال اور ان کی ناموس میں ظلم کرنے والا ﴿ اَثِیْمٍ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق بہت زیادہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ہے۔
#
{13} {عُتُلٍّ بعد ذلك}؛ أي: غليظٍ شرس الخلق، قاسٍ، غير منقادٍ للحقِّ. {زنيمٍ}؛ أي: دعيٍّ ليس له أصلٌ ولا مادةٌ ينتج منها الخير، بل أخلاقه أقبح الأخلاق، ولا يرجى منه فلاحٌ. له زِنْمَةٌ؛ أي: علامةٌ في الشرِّ يعرف بها.
[13] ﴿عُتُلٍّۭؔ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ یعنی درشت خو، بدخلق اور سخت طبیعت رکھنے والا جو حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ﴿زَنِیْمٍ﴾ ’’بدذات ہے‘‘ یعنی مجہول النسب جس کی کوئی اصل ہونہ ایسا مادہ کہ جس سے کوئی بھلائی منتج ہوتی ہے بلکہ اس کے اخلاق بدترین اخلاق ہیں۔ اس سے فلاح کی امید نہیں اور اس میں شر کی علامت ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے۔
#
{14} وحاصل هذا أنَّ الله تعالى نهى عن طاعة كلِّ حلافٍ كذابٍ خسيس النفس سيِّئِ الأخلاق، خصوصاً الأخلاق المتضمِّنة للإعجاب بالنفس، والتكبُّر على الحقِّ وعلى الخَلْق، والاحتقار للناس بالغيبة والنَّميمة، والطعن فيهم، وكثرة المعاصي.
[14] ان تمام آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص کی اطاعت سے روکا ہے جو نہایت کثرت سے قسمیں کھانے والا، سخت جھوٹا، خسیس النفس، نہایت بداخلاق، خاص طور پر وہ ایسے برے اخلاق کا مالک ہے جو خود پسند، مخلوق اور حق کے مقابلے میں تکبر و استکبار، غیبت چغلی اور طعنہ زنی کے ذریعے سے لوگوں سے حقارت کا رویہ رکھنے اور گناہوں کی کثرت کے متضمن ہیں۔
#
{15} وهذه الآياتُ وإن كانت نزلتْ في بعض المشركين؛ كالوليد بن المغيرة أو غيره ؛ لقوله عنه: {أن كان ذا مال وبنينَ. إذا تُتْلى عليه آياتُنا قال أساطيرُ الأولينَ}؛ أي: لأجل كثرة ماله وولده طغى واستكبر عن الحقِّ ودَفَعه حين جاءه وجعله من جملة أساطير الأولين التي يمكنُ صدقُها وكذبُها؛ فإنَّها عامةٌ في كلِّ من اتَّصف بهذا الوصف؛ لأنَّ القرآن نزل لهداية الخلق كلِّهم، ويدخل فيه أول الأمة وآخرهم، وربَّما نزل بعض الآياتِ في سببٍ أو [في] شخصٍ من الأشخاص، لتتَّضح به القاعدةُ العامةُ، ويُعْرَفَ به أمثال الجزئيات الداخلة في القضايا العامَّة.
[15] یہ آیات کریمہ....بعض مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، مثلاً: ولید بن مغیرہ وغیرہ کیونکہ اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَؕ۰۰ اِذَا تُ٘تْ٘لٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْ٘نَ﴾ کیونکہ اپنے مال اور اولاد کی وجہ سے اس نے سرکشی اختیار کی، حق کے مقابلے میں تکبر و استکبار کا مظاہرہ کیا، جب حق اس کے پاس آیا تو اس کو ٹھکرا دیا اور اسے پہلوں کے قصے کہانیاں قرار دیاجن میں سچ اور جھوٹ دونوں ممکن ہیں ...لیکن یہ آیات کریمہ ہر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اس وصف سے متصف ہو کیونکہ قرآن کریم تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل ہوا اور اس میں امت کے اولین و آخرین سب داخل ہیں۔بسا اوقات بعض آیات کسی شخص کے سبب سے نازل ہوتی ہیں تاکہ ان سے عام قاعدہ واضح ہو جائے اور عام قضیوں میں داخل جزئیات کی مثالوں کی معرفت حاصل ہو جائے۔
#
{16} ثم توعَّد تعالى مَنْ جرى منه ما وَصَفَ الله بأن الله سَيَسِمُهُ {على الخرطوم}: في العذاب، وليعذبه عذاباً ظاهراً يكون عليه سِمَةً وعلامةً في أشقِّ الأشياء عليه وهو وجهه.
[16] پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو وعید سنائی ہے جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب میں اس کی ناک پر داغ لگائے گا اور اسے ظاہری عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اس کے چہرے پر داغ اور علامت لگی ہوگی جہاں داغ کا لگایا جانا سب سے زیادہ شاق گزرتا ہے۔
آیت: 17 - 33 #
{إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ (17) وَلَا يَسْتَثْنُونَ (18) فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ (19) فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ (20) فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ (21) أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَارِمِينَ (22) فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ (23) أَنْ لَا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُمْ مِسْكِينٌ (24) وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ (25) فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ (26) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (27) قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ (28) قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ (29) فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ (30) قَالُوا يَاوَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ (31) عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ (32) كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (33)}.
بلاشبہ ہم نے آزمایا ہے ان کو جیسے آزمایا تھا ہم نے باغ والوں کو جب انھوں نے قسمیں کھائیں کہ وہ ضرور کاٹ (توڑ) لیں گے (پھل) اس کا صبح ہوتے ہی (17) اور نہیں کہتے تھے وہ ان شاء اللہ (18) پس پھر گیا اس باغ پر ایک (عذاب) پھرنے والا آپ کے رب کی طرف سے جب کہ وہ سو رہے تھے(19) تو ہو گیا وہ باغ مانند کٹی ہوئی کھیتی کے (20) پس ایک دوسرے کو پکارا انھوں نے صبح ہوتے ہی (21) یہ کہ سویرے (سویرے) چلو تم اپنی کھیتی پر اگر ہو تم (پھل) توڑنے والے (22) چنانچہ وہ چل پڑے اور وہ چپکے چپکے آپس میں کہہ رہے تھے (23) کہ (قطعًا) نہ داخل ہونے پائے باغ میں آج تم پر کوئی مسکین (24) اور وہ صبح سویرے نکلے (مسکین کو) روکنے پر قادر (سمجھتے ہوئے) (25) پس جب انھوں نے دیکھا اس کو تو کہا، یقیناً ہم البتہ (راہ) بھول گئے ہیں (26) (نہیں)بلکہ ہم تو محروم ہو گئے (27)کہا ان میں سے بہتر نے، کیا نہیں کہا تھا میں نے تمھیں کیوں نہیں تم تسبیح کرتے؟ (28) انھوں نے کہا: پاک ہے ہمارا رب،بلاشبہ ہم ہی تھے ظالم(29) پس متوجہ ہوا ایک ان کا، دوسرے پر آپس میں ملامت کرتے ہوئے (30) انھوں نے کہا: ہائے افسوس ہم پر! بلاشبہ ہم ہی تھے سرکش (31) امید ہے ہمارا رب، یہ کہ بدلے میں دے وہ ہمارے لیے بہتر اس سے، بے شک ہم اپنے رب کی طرف رغبت کرنےوالے ہیں (32) اسی طرح ہوتا ہے عذاب اور البتہ عذاب آخرت (اس سے) بہت بڑا ہے، کاش کہ ہوتے وہ جانتے (33)
#
{17 ـ 18} يقول تعالى: إنَّا بَلَوْنا هؤلاء المكذِّبين بالخير، وأمهلناهم، وأمددناهم بما شئنا من مال وولدٍ وطول عمرٍ ونحو ذلك ممَّا يوافق أهواءهم، لا لكرامتهم علينا، بل ربَّما يكون استدراجاً لهم من حيثُ لا يعلمون، فاغترارهم بذلك نظيرُ اغترار أصحاب الجنَّة الذين هم فيها شركاء، حين أينعت أشجارها، وزهت ثمارها ، وآن وقت صِرامها وجزموا أنَّها في أيديهم وطوع أمرهم، وأنَّه ليس ثَمَّ مانعٌ يمنعهم منها، ولهذا أقسموا وحلفوا من غير استثناءٍ أنَّهم سيصرمونها؛ أي: يجذُّونها مصبحين، ولم يَدْروا أنَّ الله بالمرصادِ، وأنَّ العذاب سيخلفهم عليها ويبادِرُهم إليها.
[18,17] اللہ تعالیٰ فرماتا ہےہم نے ان جھٹلانے والوں کو بھلائی کے ساتھ آزمایا ، ہم نے انھیں مہلت دی اور ہم نے ان کی خواہشات نفس کے موافق مال و دولت اور لمبی عمر وغیرہ سے جس سے چاہا، انھیں نوازا۔ اس کا سبب یہ نہ تھا کہ ہمارے نزدیک ان کی کرامت تھی بلکہ بسا اوقات یہ سب کچھ انھیں استدراج کے طور پر عطا کیا جاتا ہےجس کا انھیں علم تک نہیں ہوتا۔ پس ان کا ان نعمتوں کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہونا، اس باغ والوں کی فریب خوردگی کی مانند ہے جو باغ کی ملکیت میں شریک تھے جب درختوں کے پھل لگ گئے اور پھلوں نے رنگ پکڑ لیا اور ان کی برداشت کا وقت آن پہنچا، انھیں یقین تھا کہ باغ کی فصل ان کے ہاتھ میں ہے اور کوئی ایسا مانع نہیں جو باغ کی فصل برداشت کرنے سے روکے، اس لیے ان تمام شرکاء نے قسم کھائی اور کسی استثنا (ان شاء اللہ کہنے) کے بغیر حلف اٹھایا کہ وہ فصل کاٹیں گے ، یعنی صبح کے وقت ان کا پھل چنیں گے۔ انھیں اس بات کا ہرگز علم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی گھات میں ہے اور عذاب ان کو پیچھے چھوڑ دے گا اور ان سے آگے بڑھ کر باغ کو جا لے گا۔
#
{19 ـ 20} {فطاف عليها طائفٌ من ربِّك}؛ أي: عذابٌ نزل عليها ليلاً، {وهم نائمونَ}: فأبادها، وأتلفها، {فأصبحتْ كالصَّريم}؛ أي: كالليل المظلم، وذهبت الأشجار والثمار.
[20,19] ﴿ فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ ﴾ ’’پس تمھارے رب کی طرف سے اس پر ایک آفت پڑ گئی۔‘‘ یعنی ایک عذاب جو رات کے وقت اس باغ پر نازل ہوا ﴿ وَهُمْ نَآىِٕمُوْنَ ﴾ ’’اور وہ محو خواب تھے‘‘ پس اس عذاب نے اسے تباہ و برباد کر دیا ﴿ فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ﴾ ’’پس وہ ایسے ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی۔‘‘ یعنی اندھیری رات کی مانند، تمام درخت اور پھل ملیامیٹ ہو گئے۔
#
{21 ـ 22} هذا وهم لا يشعرون بهذا الواقع الملم، ولهذا تنادوا فيما بينهم لما أصبحوا؛ يقول بعضهم لبعض: {اغْدوا على حرثِكم إن كنتُم صارمين}.
[22,21] مگر انھیں نازل ہونے والی اس مصیبت کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، اس لیے جب صبح ہوئی تو انھوں نے ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے آواز دی: ﴿ اَنِ اغْدُوْا عَلٰى حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ﴾ ’’اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو۔‘‘
#
{23 ـ 24} {فانطلقوا}: قاصدين لها ، {وهم يتخافتونَ}: فيما بينهم بمنع حقِّ الله تعالى، ويقولون: {لا يَدْخُلَنَّها اليومَ عليكم مسكينٌ}؛ أي: بكِّروا قبل انتشار الناس، وتواصوا مع ذلك بمنع الفقراء والمساكين. ومن شدَّة حرصهم وبخلهم أنَّهم يتخافتون بهذا الكلام مخافتةً خوفاً أن يَسْمَعَهم أحدٌ فيخبر الفقراء.
[24,23] ﴿فَانْطَلَقُوْا﴾ ’’پس وہ چل پڑے ۔‘‘ باغ کا قصد کر کے ﴿ وَهُمْ یَتَخَافَتُوْنَ﴾ اور ان کی حالت یہ تھی کہ وہ آپس میں چپکے چپکے اللہ تعالیٰ کے حق سے ایک دوسرے کو روکتے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ﴿ اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ﴾ ’’آج تمھارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے۔‘‘ یعنی لوگوں کے پھیلنے سے پہلے، صبح صبح گھروں سے نکل پڑو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ فقراء اور مساکین کو محروم کرنے کے لیے باہم تلقین کرتے جا رہے تھے۔
#
{25} {وغَدَوْا}: في هذه الحالة الشنيعة والقسوة وعدم الرحمة {على حردٍ قادرينَ}؛ أي: على إمساكٍ ومنعٍ لحقِّ الله جازمين بقدرتهم عليها.
[25] ﴿ وَّغَدَوْا ﴾ انتہائی بری، قساوت اور بے رحمی کی حالت میں انھوں نے صبح کی ﴿ عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ ﴾ یعنی گویا کہ وہ یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کو روکنے پر قادر ہیں اور انھیں پختہ یقین ہے کہ وہ اس باغ پر قدرت رکھتے ہیں۔
#
{26 ـ 27} {فلمَّا رأوْها}: على الوصف الذي ذَكَرَ الله كالصريم، {قالوا}: من الحيرة والانزعاج، {إنَّا لضالُّون}؛ أي: تائهون عنها، لعلَّها غيرها، فلما تحقَّقوها ورجعت إليهم عقولهم؛ قالوا: {بل نحن محرومون}: منها، فعرفوا حينئذٍ أنَّه عقوبةٌ.
[27,26] ﴿ فَلَمَّا رَاَوْهَا ﴾ جب انھوں نے باغ کو اس وصف پر دیکھا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کٹی ہوئی کھیتی کی مانند تھا۔ ﴿ قَالُوْۤا ﴾ تو انھوں نے حیرت اور بے قراری سے کہا: ﴿ اِنَّا لَضَآلُّوْنَ﴾ ہم باغ سے بھٹک گئے ہیں، شاید یہ کوئی اور باغ ہو۔ پس جب متحقق ہو گیا کہ یہ وہی باغ ہے اور ان کے عقل و حواس لوٹے تو کہنے لگے:﴿ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ﴾ ہم اس باغ سے محروم ہیں۔ اس وقت وہ پہچان گئے کہ یہ سزا ہے۔
#
{28} فَـ {قَالَ أوسطُهم}؛ أي: أعدلُهم وأحسنُهم طريقةً: {ألم أقل لكم لولا تسبِّحونَ}؛ أي: تنزِّهون الله عما لا يليق به، ومن ذلك ظنُّكم أنَّ قدرتكم مستقلةٌ، فلولا استثنيتم وقلتُم: إنْ شاء الله، وجعلتم مشيئتكم تابعةً لمشيئتِهِ ؛ لما جرى عليكم ما جرى.
[28] ﴿ قَالَ اَوْسَطُهُمْ ﴾ یعنی ان میں سے سب سے زیادہ انصاف پسند اور سب سے اچھا طریقہ رکھنے والے نے کہا: ﴿ اَلَمْ اَ٘قُ٘لْ لَّـكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ﴾ کیا میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے منزہ کیوں قرار نہیں دیتے جو اس کے لائق نہیں؟ ان میں سے ایک یہ کہ تمھارا گمان ہے کہ تمھاری قدرت ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے، تم نے ’’ان شاء اللّٰہ‘‘ کہہ کر استثنا کیا ہوتا اور اپنی مشیت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع کیا ہوتا، تو تمھارے ساتھ وہ کچھ نہ ہوتا جو ہوا ہے۔
#
{29} فَـ {قالوا سبحانَ ربِّنا إنَّا كُنَّا ظالمين}؛ أي: استدركوا بعد ذلك، ولكن بعدما وقع العذاب على جنتهم، الذي لا يُرفع، ولكن لعلَّ تسبيحهم هذا وإقرارهم على أنفسهم بالظُّلم ينفعهم في تخفيف الإثم ويكونُ توبةً.
[29] ﴿ قَالُوْا سُبْحٰؔنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰ٘لِمِیْنَ ﴾ ’’وہ کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہم ہی قصوروار تھے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اپنی کوتاہی کا تدارک کیا مگر اس وقت جب ان کے باغ پر عذاب نازل ہو چکا تھا جو اٹھایا نہیں جا سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے ان کی یہ تسبیح، اپنی جانوں پر ظلم کرنے کا اقرار، تخفیف گناہ میں کوئی فائدہ دے اور توبہ بن جائے۔
#
{30 ـ 32} ولهذا ندموا ندامةً عظيمةً، وأقبل {بعضُهم على بعضٍ يتلاومونَ}: فيما أجروه وفعلوه، {قالوا يا وَيْلَنا إنا كُنَّا طاغينَ}؛ أي: متجاوزين للحدِّ في حقِّ الله وحقِّ عباده، {عسى ربُّنا أن يُبْدِلَنا خيراً منها إنَّا إلى ربِّنا راغبونَ}: فهم رجوا الله أن يبدِّلهم خيراً منها، ووعدوا أن سيرغبون إلى الله ويلحُّون عليه في الدُّنيا؛ فإنْ كانوا كما قالوا؛ فالظاهر أنَّ الله أبدلهم في الدُّنيا خيراً منها؛ لأنَّ من دعا الله صادقاً ورغب إليه ورجاه؛ أعطاه سؤاله.
[32-30] اس لیے وہ سخت نادم ہوئے۔ ﴿ فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ۠ ﴾ جو کچھ ان سے صادر ہوا اور جو کچھ انھوں نے کیا اس بارے میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ﴿ قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ ﴾ ’’کہنے لگے، ہائے شامت، ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے۔‘‘ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ ﴿ عَسٰؔى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّؔنْهَاۤ اِنَّـاۤ٘ اِلٰى رَبِّنَا رٰؔغِبُوْنَ ﴾ پس انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوں گے اور اس دنیا میں اس کے سامنے اصرار کے ساتھ التجائیں کرتے رہیں گے پس اگر وہ ایسے ہی ہیں جیسے وہ کہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے حال کو بدل دیا ہوگا کیونکہ جو کوئی صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اس کی طرف راغب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ امید وابستہ کرتا ہے تو وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے۔
#
{33} قال تعالى معظماً ما وقع: {كذلك العذابُ}؛ أي: الدنيويُّ لمن أتى بأسباب العذاب أن يسلبَه الله الشيء الذي طغى به وبغى وآثَرَ الحياةَ الدُّنيا وأن يزيلَه عنه أحوجَ ما يكون إليه، {ولَعذابُ الآخرةِ أكبرُ}: من عذاب الدُّنيا، {لو كانوا يعلمون}: فإنَّ مَنْ عَلِمَ ذلك؛ أوجب له الانزجار عن كلِّ سبب يوجب العقاب ويحرم الثواب.
[33] اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اسے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ﴾ یعنی اس شخص کے لیے اسی طرح دنیاوی عذاب ہے جو عذاب کے اسباب کو اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے وہ چیز سلب کر لے جس کی بنیاد پر اس نے سرکشی اور بغاوت کا رویہ اپنایا اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی،نیز یہ کہ وہ اس سے وہ چیز زائل کر دے جس کا وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہے ﴿ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ﴾ دنیا کے عذاب سے آخرت کا عذاب زیادہ بڑا ہے ﴿ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’کاش انھیں سمجھ ہوتی۔‘‘ کیونکہ جو کوئی اس حقیقت کو جانتا ہے تو یہ علم اسے ہر اس سبب سے باز رکھتا ہے جو عذاب کا موجب اور ثواب سے محروم رکھنے والا ہے۔
آیت: 34 - 41 #
{إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ (34) أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (35) مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (36) أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ (37) إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ (38) أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ (39) سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ (40) أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ (41)}.
بلاشبہ متقی لوگوں کے لیے ان کے رب کے ہاں باغات ہیں نعمت کے (34) کیا پس ہم کر دیں گے مسلمانوں کو مجرموں کی طرح؟ (35) کیا ہے تمھیں کیسے فیصلے کرتے ہو تم؟ (36) کیا تمھارے پاس کوئی کتاب ہے کہ اس میں تم پڑھتے ہو؟ (37) کہ بلاشبہ تمھارے لیے اس میں البتہ وہ چیز ہے جو تم پسند کرتے ہو (38) کیا تمھارے لیے قسمیں ہیں ہمارے ذمے انتہائی پختہ یوم قیامت تک، کہ یقیناً تمھارے لیے البتہ وہ ہو گا جو تم فیصلہ کرو گے؟(39) پوچھیے ان سے کون ان میں سے اس (بات) کا ضامن ہے؟ (40) کیا ان کے لیے (ہمارے) شریک ہیں؟ تو چاہیے کہ لے آئیں وہ اپنے شریکوں کو اگر ہیں وہ سچے (41)
#
{34 ـ 41} يخبر تعالى بما أعدَّه للمتَّقين للكُفْرِ والمعاصي، من أنواع النعيم والعيش السليم في جوار أكرم الأكرمين، وأنَّ حكمته تعالى لا تقتضي أن يجعل المتَّقين القانتين لربِّهم، المنقادين لأوامره، المتَّبِعين مراضِيَه، كالمجرمين الذين أوضَعوا في معاصيه والكفر بآياتِهِ ومعاندةِ رسلِهِ ومحاربة أوليائِهِ، وأنَّ من ظنَّ أنَّه يسوِّيهم في الثواب؛ فإنَّه قد أساء الحكم، وأنَّ حكمه [حكمٌ] باطلٌ ورأيه فاسدٌ، وأن المجرمين إذا ادَّعوا ذلك؛ فليس لهم مستندٌ، لا كتابٌ فيه يدرسون ويتلون أنَّهم من أهل الجنة، وأنَّ لهم ما طلبوا وتخيَّروا، وليس لهم عند الله عهدٌ ويمينٌ بالغةٌ إلى يوم القيامةِ أنَّ لهم ما يحكمون، وليس لهم شركاءُ وأعوانٌ على إدراك ما طلبوا؛ فإنْ كان لهم شركاءُ وأعوانٌ؛ فليأتوا بهم إن كانوا صادقين. ومن المعلوم أنَّ جميع ذلك منتفٍ؛ فليس لهم كتابٌ ولا لهم عهدٌ عند الله في النجاة ولا لهم شركاءُ يعينونَهم، فعُلِمَ أنَّ دعواهم باطلةٌ فاسدةٌ. وقوله: {سَلْهُم أيُّهم بذلك زعيمٌ}؛ أي: أيُّهم الكفيل بهذه الدعوى التي تَبَيَّنَ بطلانها؛ فإنَّه لا يمكن أحداً أن يتصدَّر بها ولا يكون زعيماً فيها.
[41-34] اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس نے کفر اور معاصی سے بچنے والوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں، یعنی مختلف انواع کی نعمتیں اور اکرم الاکر مین کے جوار میں ہر قسم کے تکدر سے پاک زندگی ،نیز وہ آگاہ فرماتا ہے کہ اس کی حکمت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اہل تقویٰ، اپنے رب کے فرمان بردار بندوں، اس کے احکام کی تعمیل کرنے والوں اور اس کی مرضی کی اتباع کرنے والوں کو مجرموں کے برابر قرار دے جنھوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر اور اس کے اولیاء کے ساتھ محاربت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو ثواب میں برابر قرار دے گا تو اس نے نہایت برا فیصلہ کیا ہے اس کا فیصلہ باطل اور اس کی رائے فاسد ہے۔ اور مجرم جب یہ دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے پاس کوئی سند ہے نہ کوئی ایسی کتاب ہے جسے یہ پڑھتے اور اس کی تلاوت کرتے ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور انھیں ہر وہ چیز حاصل ہو گی جو وہ منتخب کریں گے اور طلب کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت تک ان کے لیے اس بات کا عہد ہے نہ حلف کہ ان کے لیے وہ سب کچھ ہو جس کا وہ فیصلہ کریں، جو کچھ وہ طلب کرتے ہیں، اس کے حصول میں ان کے کوئی شریک اور معاون بھی نہیں ہیں۔ اگر ان کے شرکاء اور معاون و مددگار ہیں تو ان کو لائیں اگر وہ سچے ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ یہ سب کچھ بہت بعید ہے، ان کے پاس کوئی کتاب ہے نہ نجات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے کوئی عہد ہے اور نہ ان کے شریک ہیں جو ان کی مدد کریں، پس معلوم ہوا کہ ان کا دعویٰ باطل اور فاسد ہے۔ ﴿ سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌ ﴾ یعنی ان سے پوچھو کہ اس دعویٰ کی کون ذمہ داری اٹھاتا ہے جس کا بطلان واضح ہے۔ کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اسے لے کر آگے بڑھے اور نہ وہ اس میں ضامن ہی بن سکتا ہے۔
آیت: 42 - 43 #
{يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ (42) خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ (43)}.
جس دن کھولا جائے گا پنڈلی سے اور بلائے جائیں گے وہ سجدے کی طرف تو نہیں استطاعت رکھیں گے وہ (42) جھکی ہوں گی ان کی نگاہیں ، ڈھانپتی ہو گی انھیں ذلت، اور تحقیق تھے وہ بلائے جاتے طرف سجدے (عبادت) کی جبکہ وہ صحیح سالم تھے (43)
#
{42 ـ 43} أي: إذا كان يوم القيامة، وانكشفَ فيه من القلاقل والزلازل والأهوال ما لا يدخُلُ تحت الوهم، وأتى الباري لفصل القضاءِ بين عباده ومجازاتهم، فكشف عن ساقه الكريمة التي لا يشبِهُها شيءٌ، ورأى الخلائقُ من جلال الله وعظمته ما لا يمكن التعبير عنه؛ فحينئذٍ {يُدْعَوْنَ إلى السجود}: لله، فيسجد المؤمنون الذين كانوا يسجُدون لله طوعاً واختياراً، ويذهب الفجَّارُ المنافقون ليسجدوا؛ فلا يقدرون على السجود، وتكون ظهورهم كصياصِي البقرِ؛ لا يستطيعون الانحناء، وهذا الجزاء من جنس عملهم؛ فإنَّهم كانوا يُدْعَوْنَ في الدُّنيا إلى السجود لله وتوحيده وعبادته وهم سالمون لا علَّة فيهم؛ فيستكبرون عن ذلك، ويأبَوْن؛ فلا تسأل يومئذٍ عن حالهم وسوء مآلهم؛ فإنَّ الله قد سَخِطَ عليهم، وحقَّت عليهم كلمة العذاب، وتقطَّعت أسبابهم، ولم تنفعهم الندامة والاعتذار يوم القيامة؛ ففي هذا ما يزعِجُ القلوب عن المقام على المعاصي ويوجب التدارك مدة الإمكان.
[43,42] یعنی جب قیامت کا دن ہو گا اور ایسے ایسے زلزلے اور ہولناکیاں ظاہر ہوں گی جو وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتیں، باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے اور ان کو جزا و سزا دینے کے لیے تشریف لائے گا۔ پس وہ اپنی مکرم پنڈلی کو ظاہر کرے گا جس سے کوئی چیز مشابہت نہیں رکھتی، لوگ اللہ تعالیٰ کا جلال اور عظمت دیکھیں گے جس کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہی وہ وقت ہو گا جب ان کو سجدے کے لیے کہا جائے گا۔ مومن اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے جو (دنیا میں) اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کیا کرتے تھے۔ منافق اور فاجر سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر وہ سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہوں گے، ان کی کمریں ایسی ہو جائیں گی جیسے گائے کے سینگ جو جھک نہ سکیں گی۔ یہ جزا ان کے عمل کی جنس میں سے ہے کیونکہ دنیا کے اندر انھیں سجدے کرنے، توحید اور عبادت کے لیے بلایا جاتا، درآں حالیکہ وہ صحیح سلامت ہوتے تھے اور ان میں کوئی بیماری نہ ہوتی تھی تو وہ تکبر و استکبار سے سجدے سے انکار کر دیتے تھے۔ اس دن ان کے حال اور برے انجام کے بارے میں مت پوچھ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہو گا، کلمۂ عذاب ان پر حق ثابت ہو گا، ان کے تمام اسباب منقطع ہو جائیں گے اور قیامت کے روز ندامت اور اعتذار کوئی فائدہ نہ دیں گے … پس اس آیت میں ایسی چیزوں کا بیان ہے جو قلوب کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈراتی ہیں اور مدت امکان کے اندر تدارک کی موجب ہیں۔
آیت: 44 - 52 #
{فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (44) وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ (45) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ (46) أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ (47) فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ (48) لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ (49) فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ (50) وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (51) وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ (52)}.
پس چھوڑیے مجھے اور اس کو جو جھٹلاتا ہے اس حدیث (قرآن) کو یقیناً ہم آہستہ آہستہ لے جائیں گے ان کو (تباہی کی طرف) اس طرح کہ وہ نہیں جانیں گے (44) اور ڈھیل دیتا ہوں میں ان کو، بلاشبہ میری تدبیر نہایت مضبوط ہے (45) کیا آپ مانگتے ہیں ان سے کوئی اجر، پس وہ تاوان سے بوجھل ہیں؟ (46) کیا ان کے پاس (علم) غیب ہے پس وہ (اس سے) لکھتے ہیں؟ (47) پس آپ صبر کیجیے اپنے رب کے حکم کے لیے اور نہ ہوں آپ مانند (یونس)مچھلی والے کے جب اس نے پکارا (اللہ کو) جب کہ وہ غم سے بھرا ہوا تھا (48) اگر نہ ہوتی یہ بات کہ پا لیا اس کو احسان نے اس کےرب کے، تو ضرور پھینکا جاتا وہ چٹیل میدان میں جبکہ وہ مذموم ہوتا(49) پس چن لیا اس کو اس کےرب نے اور (دوبارہ) کر دیا اس نے اس کو صالحین میں سے (50) اور تحقیق قریب ہیں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کہ وہ پھسلادیں آپ کو اپنی تیز نظروں سے جب وہ سنتے ہیں ذکر (قرآن) اور وہ کہتے ہیں، بلاشبہ وہ ضرور دیوانہ ہے (51) اور نہیں ہے وہ (قرآن) مگر نصیحت جہانوں کے لیے (52)
#
{44 ـ 45} أي: دعني والمكذِّبين بالقرآن العظيم؛ فإنَّ عليَّ جزاءهم، ولا تستعجل لهم؛ فسنستدرِجُهم {من حيث لا يعلمونَ}: فنُمِدُّهم بالأموال والأولاد، ونُمِدُّهم في الأرزاق والأعمال؛ ليغتروا ويستمرُّوا على ما يضرُّهم، وهذا من كيد الله لهم. وكيدُ الله لأعدائه متينٌ قويٌّ، يبلغ من ضررهم وعقوبتهم كلَّ مبلغ.
[45,44] یعنی چھوڑو مجھے! مجھے قرآن کو جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو، ان کی جزا میرے ذمے ہے، ان کے لیے جلدی نہ مچا، پس ﴿ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ ’’عنقریب ہم انھیں تدریج کے ساتھ پکڑیں گے کہ انھیں معلوم بھی نہ ہوگا۔‘‘ ہم انھیں مال اور اولاد کی کثرت سے بہرہ مند کرتے ہیں، ہم ان کے رزق اور اعمال کو زیادہ کرتے ہیں تاکہ وہ فریب میں مبتلا رہیں اور ایسے کاموں پر جمے رہیں جو ان کو نقصان پہنچائیں گے۔ یہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال ہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی چال بہت مضبوط اور طاقتور ہوتی ہے۔ جو ان کو نقصان پہنچانے اور سزا دینے میں بہت کارگر ہے۔
#
{46} {أم تسألهم أجراً فهم من مَغْرَم مُثْقَلون}؛ أي: ليس لنفورهم عنك وعدم تصديقهم لك سببٌ يوجب لهم ذلك ؛ فإنَّك تعلِّمُهم وتدعوهم إلى الله لمحض مصلحتهم من غير أن تطلبهم من أموالهم مغرماً يَثْقُلُ عليهم.
[46] ﴿ اَمْ تَسْـَٔؔلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ﴾ ان کے آپ سے دور بھاگنے اور آپ کی تصدیق نہ کرنے کا کوئی سبب نہیں جو اس کا موجب ہو کیونکہ آپ تو، ان کے مال میں سے کوئی تاوان لیے بغیر، جو ان پر بوجھ ہو، محض ان کے مصالح کی خاطر ان کو تعلیم دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں۔
#
{47} {أم عندَهم الغيبُ فهم يكتُبون}: ما كان عندهم من الغيوب، وقد وجدوا [فيها] أنَّهم على حقٍّ، وأنَّ لهم الثواب عند الله؛ فهذا أمرٌ ما كان، وإنَّما كانت حالهم حال معاندٍ ظالم.
[47] ﴿ اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْ٘تُبُوْنَ﴾ ان کے پاس غیب کا علم نہیں کہ وہ اس بات کو پا چکے ہوں کہ وہ حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ثواب سے بہرہ ور ہوں گے۔ یہ معاملہ جیسا بھی ہے۔ ان کا حال تو ایک معاند اور ظالم کا سا ہے۔
#
{48 ـ 50} فلم يبقَ إلاَّ الصبر لأذاهم والتحمُّل لما يصدُرُ منهم والاستمرار على دعوتهم، ولهذا قال: {فاصبِرْ لحكم ربِّك}؛ أي: لما حكم به شرعاً وقدراً؛ فالحكم القدريُّ يُصْبَرُ على المؤذي منه ولا يُتَلَقَّى بالسخط والجزع، والحكم الشرعيُّ يقابَلُ بالقَبول والتسليم والانقياد [التامِّ] لأمرِهِ. وقوله: {ولا تكن كصاحب الحوتِ}: وهو يونس بن متى عليه الصلاة والسلام؛ أي: ولا تشابِهه في الحال التي أوصلَتْه وأوجبت له الانحباس في بطن الحوت، وهو عدم صبره على قومِهِ الصبرَ المطلوب منه وذَهابُه مغاضباً لربِّه، حتى ركب [في] البحر، فاقترع أهل السفينة حين ثقلت بأهلها أيُّهم يلقون؛ لكي تَخِفَّ بهم، فوقعت القرعةُ عليه، فالتقمه الحوتُ وهو مليمٌ. وقوله: {إذ نادى وهو مكظومٌ}؛ أي: وهو في بطنها قد كظمت عليه، أو: نادى وهو مغتمٌّ مهتمٌّ، فقال: لا إله إلا أنت سبحانك إنِّي كنت من الظالمين، فاستجاب الله له، وقَذَفَتْه الحوتُ من بطنها بالعراء وهو سقيمٌ، وأنبت الله عليه شجرةً من يقطينٍ، ولهذا قال هنا: {لولا أن تدارَكَه نعمةٌ من ربِّه لَنُبِذَ بالعراء}؛ أي: لَطُرِحَ في العراء، وهي الأرض الخالية، {وهو مذمومٌ}: ولكنَّ الله تغمَّده برحمته، فَنُبِذَ وهو ممدوحٌ، وصارت حالُه أحسنَ من حاله الأولى، ولهذا قال: {فاجتباه ربُّه}؛ أي: اختاره واصطفاه ونقَّاه من كلِّ كدرٍ، {فجعله من الصالحين}؛ أي: الذين صَلَحَتْ أعمالهم وأقوالهم ونيَّاتهم وأحوالهم.
[50-48] پس اس کے سوا کچھ باقی نہیں کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا جائے اور جو کچھ ان سے صادر ہو رہا ہے اس پر تحمل کا مظاہرہ کیا جائے اور ان کو بار بار دعوت دی جائے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے شرعاً اور قدراً جو فیصلہ کیا ہے اس پر صبر کیجیے، حکم قدری یہ ہے کہ ایذا پر صبر کیا جائے، ناراضی اور بے صبری کے ساتھ ان کا سامنا نہ کیا جائے، حکم شرعی کو قبول کیا جائے، اس کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے اور اس کے امر کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ﴾ ’’او رمچھلی والے کی طرح نہ ہونا۔‘‘ اور وہ ہیں یونس بن متیu یعنی اس حال میں حضرت یونسu کی مشابہت اختیار نہ کیجیے جو حال مچھلی کے پیٹ میں ان کے محبوس ہونے کا باعث بنا اور وہ ہے اپنی قوم پر ان کا عدم صبر جو آپ سے مطلوب تھا اور اپنے رب سے ناراض ہو کر جانا حتیٰ کہ آپ کشتی میں سوار ہوئے، جب کشتی بوجھل ہو گئی تو کشتی والوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے، ان میں سے کس کو سمندر کے اندر پھینکا جائے۔ پس حضرت یونسu کے نام پر قرعہ پڑا ﴿ فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِیْمٌ﴾ (الصافات:37/142) ’’پس ان کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے۔‘‘ ﴿ اِذْ نَادٰى وَهُوَ مَكْ٘ظُ٘وْمٌ﴾ ’’یعنی انھوں نے پکارا جبکہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے اور ان پر دروازہ بند کر دیا گیا تھا یا یہ کہ انھوں نے پکارا اور وہ ہم و غم سے لبریز تھے، چنانچہ کہا: ﴿لَّاۤ اِلٰ٘هَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰؔنَكَ١ۖ ۗ اِنِّیْؔ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الأنبیاء:21؍87) ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونسu کی دعا قبول فرما لی، چنانچہ مچھلی نے انھیں جبکہ وہ بیمار تھے، چٹیل میدان میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کدو کی بیل اگا دی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا: ﴿ لَوْلَاۤ اَنْ تَدٰؔرَؔكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْ٘عَرَآءِ﴾ ’’اگر اس کے رب کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے۔‘‘ یعنی انھیں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا (اَلْعَرَاءِ) سے مراد (ہر قسم کی نباتات سے) خالی زمین ہے۔ ﴿ وَهُوَ مَذْمُوْمٌؔ﴾ ’’اور وہ برے حال میں تھے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ دیا، ان کو اس حال میں پھینک دیا گیا کہ وہ ممدوح تھے۔ اور ان کی یہ حالت پہلی حالت سے بہتر ہو گئی۔ ﴿فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کر لیا اور ان کو ہر کدورت سے پاک کر دیا ﴿ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰؔلِحِیْنَ﴾ ’’اور ان کو نیکوکاروں میں سے کردیا۔‘‘ ، یعنی وہ لوگ جن کے اعمال و اقوال اور نیت و احوال درست ہیں۔
#
{51 ـ 52} فامتثل نبيُّنا محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - أمر الله ، فصبر لحكم ربِّه صبراً لا يدركه [فيه] أحدٌ من العالمين، فجعل الله له العاقبة، والعاقبةُ للمتقين، ولم يبلغ أعداؤه فيه إلاَّ ما يسوؤهم، حتى إنَّهم حرصوا على أن يُزْلِقوه {بأبصارهم}؛ أي: يصيبوه بأعينهم من حسدهم وحنقهم وغيظهم. هذا منتهى ما قدروا عليه من الأذى الفعليِّ، والله حافظه وناصِرُه. وأمَّا الأذى القوليُّ؛ فيقولون فيه أقوالاً بحسب ما توحي إليهم قلوبهم، فيقولون تارةً: مجنونٌ! وتارةً: شاعرٌ! وتارة: ساحرٌ! قال تعالى: {وما هو إلا ذكرٌ للعالمين}؛ أي: وما هذا القرآن العظيم والذِّكر الحكيم إلاَّ ذكرٌ للعالمين، يتذكَّرون به مصالح دينهم ودنياهم. والحمد لله.
[52,51] ہمارے نبی ٔکریم حضرت محمد مصطفیe نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی، پس اپنے رب کے فیصلے پر ایسا صبر کیا کہ کائنات میں کوئی شخص صبر کے اس درجے کو نہیں پا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انجام کار آپ کے لیے اور اہل تقویٰ کے لیے متعین کر دیا﴿وَالْعَاقِبَةُ لِلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (الأعراف: 128/7)’’اور بہتر انجام متقین کے لیے ہے۔‘‘ آپ کے دشمنوں کو اس میں اس چیز کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا جو ان کو بری لگتی تھی حتیٰ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ آپ کو غصے کی نظر سے گھور کر دیکھیں، حسد، کینہ اور غیظ و غضب کی بنا پر آپ کو نظر لگا دیں۔یہ تھی اذیت فعلی میں ان کی انتہائے قدرت، اور اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر تھا۔ رہی اذیت قولی تو جو جی میں آتا تھا اس کے مطابق مختلف باتیں کہتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے کبھی کہتے تھے شاعر ہے اور کبھی کہتے تھے جادوگر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْ٘عٰلَمِیْنَ﴾ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم جہان والوں کے لیے نصیحت کے سوا کچھ نہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں نصیحت حاصل کرتے ہیں … اور ہر قسم کی ستائش اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔