(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
{تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (1) الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (2) الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ (3) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ (4)}.
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات کہ اس کےہاتھ میں ہے
(تمام) بادشاہی، اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے
(1) وہ جس نے پیدا کیا موت و حیات کو تاکہ وہ آزمائے تمھیں، کون تم میں سے اچھا ہے عمل میں؟ اور وہ بڑا زبردست، خوب بخشنے والا ہے
(2) وہ جس نے پیدا کیے سات آسمان اوپر نیچے، نہیں دیکھے گا تو رحمن کے پیدا کرنے میں کوئی فرق پس لوٹا تو نگاہ کو، کیا تو دیکھتا ہے، کوئی شگاف؟
(3) پھر لوٹا تو نگاہ کو دوبارہ
(بار بار)، لوٹ آئے گی تیری طرف نگاہ ذلیل ہو کر اس حال میں کہ وہ تھکی ماندی ہو گی
(4)
#
{1} {تبارك الذي بيده الملكُ}؛ أي: تعاظم وتعالى وكَثُرَ خيرُه وعمَّ إحسانه، من عظمته أنَّ بيده ملك العالم العلويِّ والسفليِّ، فهو الذي خلقه ويتصرَّف فيه بما شاء من الأحكام القدريَّة والأحكام الدينيَّة التابعة لحكمته. ومن عظمته كمالُ قدرته التي يقدر بها على كلِّ شيءٍ وبها أوجد ما أوجد من المخلوقات العظيمة؛ كالسماوات والأرض.
[1] ﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ﴾ یعنی بہت عظمت والی اور بہت بلند ہے وہ ہستی، اس کی بھلائی بہت زیادہ اور اس کا احسان عام ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے احکام دینی اور احکام قدری میں تصرف کرتا ہے، جو اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔اس کی عظمت اور اس کی قدرت کا کمال ہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر قادر ہے، اسی قدرت کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات ،
مثلاً: آسمان اور زمین کو وجود بخشا۔
#
{2} و {خَلَقَ الموتَ والحياةَ}؛ أي: قدَّر لعباده أن يُحْييَهم ثم يُميتهم؛ {لِيَبْلُوَكم أيُّكم أحسنُ عملاً}؛ أي: أخلصه وأصوبه، وذلك أنَّ الله خلق عباده وأخرجهم لهذه الدار، وأخبرهم أنَّهم سيُنقلون منها، وأمرهم ونهاهم، وابتلاهم بالشهوات المعارضة لأمره؛ فمن انقاد لأمر الله وأحسن العمل؛ أحسن الله له الجزاء في الدارين، ومن مال مع شهوات النفس ونبذ أمر الله؛ فله شرُّ الجزاء. {وهو العزيز}: الذي له العزَّة كلُّها، التي قهر بها جميع الأشياء وانقادتْ له المخلوقاتُ. {الغفور}: عن المسيئين والمقصِّرين والمذنبين، خصوصاً إذا تابوا وأنابوا؛ فإنَّه يغفر ذنوبهم، ولو بلغتْ عنان السماء، ويستُرُ عيوبهم، ولو كانت ملء الدنيا.
[2] اور
﴿ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ ﴾ ’’اس نے موت و حیات کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی اس نے اپنے بندوں کے لیے مقدر کیا کہ وہ ان کو زندگی عطا کرے ، پھر موت سے ہم کنار کرے
﴿ لِیَبْلُوَؔكُمْ اَیُّؔكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ صاحبِ اخلاص اور کون سب سے زیادہ راہ صواب پر ہے۔ یہ آزمائش اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کر کے ان کو اس دنیا میں بھیجا، انھیں یہ بھی بتا دیا کہ انھیں عنقریب یہاں سے منتقل کیا جائے گا، ان کو اوامر و نواہی دیے اور اپنے ان اوامر کی معارض شہوات کے ذریعے سے ان کو آزمایا۔ پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بہترین جزا دے گا اور جو کوئی شہوات نفس کی طرف مائل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو دور پھینک دیا تو اس کے لیے بدترین سزا ہے۔
﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ تمام غلبہ اسی کا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام چیزوں پر غالب ہے اور مخلوقات اس کی مطیع ہے۔
﴿ الْغَفُوْرُ﴾ وہ بدکاروں، کوتاہی کرنے والوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے، خاص طور پر جب وہ توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے، خواہ وہ آسمان کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہوں، وہ ان کے عیوب کو چھپاتا ہے، خواہ وہ زمین بھر ہوں۔
#
{3} {الذي خلق سبع سمواتٍ طباقاً}؛ أي: كل واحدةٍ فوق الأخرى، ولسن طبقة واحدة، وخلقها في غاية الحسن والإتقان، {ما ترى في خَلْقِ الرحمن من تفاوتٍ}؛ أي: خلل ونقص، وإذا انتفى النقص من كل وجهٍ؛ صارت حسنةً كاملةً متناسبةً من كلِّ وجه في لونها وهيئتها وارتفاعها وما فيها من الشمس [والقمر] والكواكب النيِّرات الثوابت منهنَّ والسيارات، ولمَّا كان كمالُها معلوماً؛ أمر تعالى بتكرار النظر إليها والتأمُّل في أرجائها؛ قال: {فارجِعِ البصرَ}؛ أي: أعده إليها ناظراً معتبراً، {هل ترى من فُطورٍ}؟ أي: نقص واختلال.
[3] ﴿ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴾ یعنی اس نے آسمانوں کو ایک ہی طبق نہیں بنایا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، ان کو انتہائی خوبصورتی اور مضبوطی کے ساتھ پیدا کیا
﴿ مَا تَرٰؔى فِیْ خَلْ٘قِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ﴾ ’’تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھوگے۔‘‘ یعنی خلل اور نقص۔ جب نقص کی ہر لحاظ سے نفی ہو گئی تو وہ ہر لحاظ سے خوبصورت، کامل اور متناسب بن گئے، یعنی اپنے رنگ میں، اپنی ہیئت میں، اپنی بلندی میں، اپنے سورج، کواکب، ثوابت اور سیارات میں خوبصورت اور متناسب ہیں۔چونکہ اس کا کمال معلوم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بار بار دیکھنے اور اس کے کناروں میں غور کرنے کا حکم دیا ہے۔
﴿ فَارْجِـعِ الْ٘بَصَرَ ﴾ عبرت کی نظر سے دیکھنے کے لیے، اس پر دوبارہ نگاہ ڈال
﴿ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ﴾ کیا تجھے کوئی نقص اور خلل نظر آتا ہے؟
#
{4} {ثم ارجِعِ البصرَ كرَّتيِن}: [و] المراد بذلك كثرة التكرار، {ينقلبْ إليك البصر خاسئاً وهو حسيرٌ}؛ أي: عاجزاً عن أن يرى خللاً أو فطوراً، ولو حرص غاية الحرص.
[4] ﴿ ثُمَّ ارْجِـعِ الْ٘بَصَرَؔ كَرَّتَیْنِ ﴾ ’’ پھر لوٹا تو نگاہ کو دوبارہ بار بار۔‘‘ اس سے مراد کثرت تکرار ہے
﴿ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْ٘بَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِیْرٌ ﴾ ’’نظر
(ہر بار) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔‘‘ یعنی کوئی خلل اور کوئی نقص دیکھنے سے عاجز آکر واپس لوٹے گی اور خواہ وہ خلل دیکھنے کی بے انتہا خواہش رکھتی ہو ،
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ آسمانوں کی خوبصورتی کا ذکر کیا ، چنانچہ فرمایا:
{وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ (5) وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (6) إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ (7) تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ (8) قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ (9) وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ (10) فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ (11)}.
اور البتہ تحقیق زینت دی ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے، اور بنایا ہم نے ان کو شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ، اور تیار کیا ہے ہم نے ان
(شیطانوں) کے لیے عذاب بھڑکتی آگ کا
(5) اور ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا ساتھ اپنے رب کے، عذاب جہنم ہے اور برا ٹھکانا ہے
(وہ)(6) جب ڈالے جائیں گے وہ اس
(جہنم) میں تو سنیں گے اس کا دہاڑنا جبکہ وہ جوش مار رہی ہو گی
(7) قریب ہے کہ پھٹ پڑے گی غیظ
(و غضب) سے، جب بھی ڈالا جائے گا اس میں کوئی گروہ تو پوچھیں گے ان سے اس کےمحافظ، کیا نہیں آیا تھا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا؟
(8) وہ کہیں گے ہاں، یقیناً آیا تھا ہمارے پاس ایک ڈرانے والا تو جھٹلایا تھا ہم نے اسے اور کہا تھا ہم نے، نہیں نازل کی اللہ نے کوئی چیز، نہیں ہو تم مگر گمراہی میں بہت بڑی
(9) اور وہ کہیں گے، اگر ہم سنتے اور سمجھتے ہوتے تو نہ ہوتے ہم دوزخیوں میں
(10) سو اعتراف کریں گے وہ اپنے گناہ
(جرم) کا، پس دوری ہے واسطے دوزخیوں کے
(11)
#
{5} أي: ولقد جمَّلْنا {السماء الدُّنيا}: التي ترونَها وتليكم، {بمصابيحَ}: وهي النجوم على اختلافها في النور والضياء؛ فإنَّه لولا ما فيها من النُّجوم؛ لكانت سقفاً مظلماً لا حسن فيه ولا جمال، ولكن جعل الله هذه النجوم زينةً للسماء، وجمالاً ونوراً وهدايةً يُهتدى بها في ظلمات البرِّ والبحر، ولا ينافي إخباره أنَّه زيَّن السماء الدُّنيا بمصابيح أن يكون كثيرٌ من النجوم فوق السماوات السبع؛ فإنَّ السماواتِ شفافةٌ، وبذلك تحصل الزينة للسماء الدُّنيا وإن لم تكن الكواكب فيها، {وجعلناها}؛ أي: المصابيح {رجوماً للشياطين}: الذين يريدون استراقَ خبر السماء، فجعل الله هذه النجوم حراسةً للسماء عن تلقُّف الشياطين أخبار الأرض؛ فهذه الشهب التي تُرمى من النُّجوم أعدها الله في الدُّنيا للشياطين، {وأعتدنا لهم}: في الآخرة {عذابَ السعير}: لأنَّهم تمرَّدوا على الله، وأضلُّوا عباده.
[5] یعنی ہم نے جمال بخشا
﴿ السَّمَآءَ الدُّنْیَا﴾ ’’دنیا کے آسمان کو‘‘ جسے تم دیکھ رہے ہو اور جو تمھارے قریب اور متصل ہے۔
﴿ بِمَصَابِیْحَ﴾ ’’چراغوں کے ساتھ۔‘‘ اس سے مراد مختلف اقسام کی روشنیاں رکھنے والے ستارے ہیں کیونکہ اگر آسمان میں ستارے نہ ہوتے تو یہ ایک تاریک چھت ہوتی جس میں کوئی حسن و جمال نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو آسمان کی زینت، حسن و جمال اور راہ نما بنایا جن کے ذریعے سے بحر و بر میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر کہ اس نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا، اس امر کے منافی نہیں کہ بہت سے ستارے ساتوں آسمانوں کے اوپر ہوں کیونکہ آسمان شفاف ہوتے ہیں اور اگر آسمان دنیا پر ستارے نہ بھی ہوں، تو ساتوں آسمانوں کے ستاروں کے ذریعے سے آسمان دنیا کو زینت حاصل ہو سکتی ہے۔
﴿ وَجَعَلْنٰهَا﴾ اور بنیایا ہم نے چراغوں کو
﴿ رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ﴾ ’’شیطانوں کو مارنے کا آلہ۔‘‘ جو آسمانوں سے خبر چوری کرنا چاہتے ہیں، پس یہ شہاب جنھیں ستاروں سے شیطان شیاطین پر پھینکا جاتا ہے، انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا کے اندر شیاطین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔
﴿ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ﴾ اور آخرت میں ان کے لیے تیار کیا ہے۔
﴿ عَذَابَ السَّعِیْرِ﴾ ’’بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب۔‘‘ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور اس کے بندوں کو گمراہ کیا۔
#
{6} ولهذا كان أتباعهم من الكفار مثلهم قد أعدَّ الله لهم عذاب السعير؛ فلهذا قال: {وللذين كفروا بربِّهم عذابُ جهنَّم وبئس المصير}: التي يُهان بها أهلُها غايةَ الهوان.
[6] اس لیے ان کی پیروی کرنے والے کفار انھی کی مانند ہیں،
ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَلِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور برا ٹھکانا ہے۔‘‘ وہ ایسا ٹھکانا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو بے حد رسوا کیا جائے گا۔
#
{7} {إذا أُلقوا فيها}: على وجه الإهانةِ والذُّلِّ، {سمعوا لها شهيقاً}؛ أي: صوتاً عالياً فظيعاً.
[7] ﴿ اِذَاۤ اُلْقُوْا فِیْهَا﴾ جب ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کو جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا
﴿ سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا﴾ تو وہ جہنم کی بہت بلند اور انتہائی کریہہ آواز سنیں گے
﴿ وَّهِیَ تَفُوْرُ﴾ اور حالت یہ ہو گی کہ جہنم جوش مار رہی ہو گی۔
#
{8} {تكادُ تَمَيَّزُ من الغيظِ}؛ أي: تكاد على اجتماعها أن يفارق بعضها بعضاً وتتقطَّع من شدة غيظها على الكفار؛ فما ظنُّك ما تفعل بهم إذا حُصِّلُوا فيها؟! ثم ذكر توبيخ الخزنة لأهلها، فقال: {كلَّما أُلقي فيها فوجٌ سألهم خَزَنَتُها ألم يأتِكُم نذيرٌ}؛ أي: حالكم هذه واستحقاقكم النار كأنكم لم تخبَّروا عنها ولم تحذِّرْكم النذرُ منها.
[8] ﴿ تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ﴾ ’’گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔‘‘ یعنی مجتمع ہونے کے باوجود، یوں لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جائے گی، اور کفار پر مارے غیظ و غضب کے پھٹ کر ٹکڑے ہو جائے گی۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو جہنم ان کے ساتھ کیا کرے گی؟
جہنم کا داروغہ اہل جہنم کو جو زجر و توبیخ کرے گا،
اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿كُلَّمَاۤ اُلْ٘قِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَ٘اْتِكُمْ نَذِیْرٌ﴾ ’’جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمھارے پاس کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا تھا۔‘‘ یعنی تمھارے اس حال اور تمھارے جہنم کے مستحق ہونے سے یوں لگتا ہے گویا کہ تمھیں اس کے بارے میں آگاہ ہی نہیں کیا گیا اور متنبہ کرنے والوں نے تمھیں کبھی اس سے متنبہ ہی نہیں کیا۔
#
{9} {قالوا بلى قد جاءنا نذيرٌ فكذَّبنا وقُلْنا ما نَزَّلَ الله من شيءٍ إن أنتُم إلاَّ في ضلالٍ كبيرٍ}: فجمعوا بين تكذيبهم الخاص والتكذيب العامِّ بكلِّ ما أنزل الله، ولم يكفهم ذلك، حتى أعلنوا بضلال الرُّسل المنذرين، وهم الهداة المهتدون، ولم يكتفوا بمجرَّد الضلال، بل جعلوا ضلالهم ضلالاً كبيراً؛ فأيُّ عنادٍ وتكبُّر وظلم يشبه هذا؟!
[9] ﴿ قَالُوْا بَلٰى قَدْ جَآءَنَا نَذِیْرٌ١ۙ ۬ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ١ۖ ۚ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ﴾ ’’وہ کہیں گے، کیوں نہیں، ضرور ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے تو کوئی چیز نازل ہی نہیں کی، تم تو بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔‘‘ پس انھوں نے نبی کی تکذیبِ خاص اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر چیز کی تکذیبِ عام کو جمع کر دیا۔ اور انھوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے متنبہ کرنے والے رسولوں کو علی الاعلان گمراہ کہا، حالانکہ وہی تو راہ دکھانے والے اور سیدھی راہ پر ہیں، پھر انھوں نے مجرد گمراہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی ’’گمراہی‘‘ کو ’’بہت بڑی گمراہی‘‘ قرار دیا ۔ تب کون سا عناد، تکبر اور ظلم اس کے مشابہ ہو سکتا ہے؟
#
{10} {وقالوا}: معترفين بعدم أهليَّتهم للهدى والرشاد: {لو كنَّا نسمعُ أو نعقِلُ ما كنَّا في أصحاب السَّعير}: فنفَوْا عن أنفسهم طرق الهدى، وهي السمع لما أنزل الله وجاءتْ به الرسل، والعقلُ الذي ينفع صاحبَه ويوقفُه على حقائق الأشياء وإيثار الخير والانزجار عن كلِّ ما عاقبته ذميمةٌ، فلا سمعَ لهم ولا عقلَ. وهذا بخلاف أهل اليقين والعرفان وأرباب الصدق والإيمان؛ فإنَّهم أيَّدوا إيمانهم بالأدلَّة السمعيَّة، فسمعوا ما جاء من عند الله وجاء به رسولُ الله علماً ومعرفةً وعملاً، والأدلَّة العقليَّة المعرِّفة للهدى من الضَّلال، والحسن من القبيح، والخير من الشرِّ، وهم في الإيمان بحسب ما منَّ الله عليهم به من الاقتداء بالمعقول والمنقول؛ فسبحان مَن يختصُّ بفضله مَن يشاء، ويمنُّ على مَن يشاء من عباده، ويخذل مَن لا يصلُحُ للخير.
[10] ﴿ وَقَالُوْا﴾ رشد و ہدایت کے اہل نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے:
﴿ لَوْ كُنَّا نَ٘سْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ ’’اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے، تو دزخیوں میں نہ ہوتے۔‘‘ پس وہ اپنی ذات سے ہدایت کے تمام راستوں کی نفی کریں گے اور وہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ اور رسول کی لائی ہوئی کتاب کو سننا اور عقل جو صاحب عقل کو فائدہ دیتی ہے، جو اسے حقائق اشیاء، بھلائی کو ترجیح دینے اور ہر اس چیز سے اجتناب کرنے پر ٹھہراتی ہے جس کا انجام قابل مذمت ہو۔ مگر ان کے پاس تو سماعت ہے نہ عقل ۔ ان کا یہ رویہ اہل یقین و عرفان اور ارباب صدق و ایمان کے رویے کے برعکس ہے کیونکہ انھوں نے سمعی دلائل سے اپنے ایمان کی تائید کی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور جو کچھ رسولe کر لے کر آئے انھوں نے اسے حصول علم، معرفت اور عمل کے لیے سنا،نیز انھوں نے عقلی دلائل کے ذریعے سے گمراہی میں سے ہدایت، قبیح میں سے حسين اور شر میں سے خیر کی معرفت حاصل کی، وہ اپنے ایمان میں منقول و معقول کی اقتدا کے مطابق تھے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔پس پاک ہے وہ ذات جو بندوں میں سے جسے چاہتی ہے اپنے فضل کے لیے مختص کرتی ہے اور جسے چاہتی ہے اپنے احسان سے بہرہ مند کرتی ہے اور جو بھلائی کے قابل نہیں ہوتا اسے تنہا چھوڑ دیتی ہے۔
#
{11} قال تعالى عن هؤلاء الدَّاخلين للنار المعترفين بظلمهم وعنادهم: {فاعْتَرَفوا بذَنبِهِم فسُحقاً لأصحاب السَّعير}؛ أي: بعداً لهم وخسارةً وشقاءً؛ فما أشقاهم وأرداهم؛ حيث فاتهم ثواب الله، وكانوا ملازمين للسعير التي تستعر في أبدانهم، وتَطَّلِعُ على أفئدتهم.
[11] یعنی ان کے لیے رحمت الٰہی سے دوری، خسارہ اور بدبختی ہے، وہ کتنے بدبخت اور کس قدر ہلاکت میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ثواب کو کھو دیا اور جہنم کا ایندھن بنے، جو ان کے ابدان میں بھڑکتی رہے گی اور ان کے دلوں سے لپٹتی رہے گی!
{إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (12)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے، ان کے لیے مغفرت ہے اور اجر بہت بڑا
(12)
#
{12} لما ذكر حالة الأشقياء الفجَّار؛ ذكر وصف الأبرار السعداء ، فقال: {إنَّ الذين يخشَوْنَ ربَّهم بالغيب}؛ أي: في جميع أحوالهم، حتى في الحالة التي لا يطَّلع عليهم فيها إلاَّ الله؛ فلا يقدِمون على معاصيه، ولا يقصِّرون عمَّا أمرهم به. {لهم مغفرةٌ}: لذنوبهم، وإذا غَفَرَ الله ذنوبَهم؛ وقاهم شرَّها ووقاهم عذاب الجحيم. {ولهم أجرٌ كبيرٌ}: وهو ما أعدَّه الله لهم في الجنة من النعيم المقيم والملك الكبير واللذَّاتِ المتواصلات والقصور والمنازل العاليات والحور الحسان والخدم والولدان، وأعظم من ذلك وأكبر، رضا الرحمن الذي يُحِلُّه على ساكني الجنان.
[12] اللہ تعالیٰ نے بدبخت فاجروں کا ذکر کیا تو سعادت مند نیک لوگوں کا وصف بھی بیان کیا ،
چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ ﴾ بے شك وه لوگ جو اپنے تمام احوال میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں حتیٰ کہ وہ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پس وہ اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں نہ اس کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرتے ہیں جو ان کو دیا گیا ہے
﴿ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ﴾ ان کے لیے ان کے گناہوں کی بخشش ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو بخش دیا تو اس نے ان کو ان گناہوں کے شر اور جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔
﴿ وَ﴾ ’’اور‘‘ ان کے لیے
﴿ اَجْرٌؔ كَبِیْرٌ﴾ بڑا اجر ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں تیار رکھا ہے، یعنی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، بہت بڑی بادشاہی، پیہم لذتیں، محلات، بلند بالا خانے، گوری چٹی خوبصورت عورتیں، خدمت گار اور خدمت کرنے والے لڑکے۔ اس سے بھی عظیم تر اور بڑا اجر رحمان کی رضا ہے جو جنت کے رہنے والوں کو حاصل ہو گی۔
{وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (13) أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (14)}.
اور تم چھپا کر کرو اپنی بات یا پکار کر کرو اس کو، بلاشبہ وہ خوب جانتا ہے راز سینوں کے
(13) کیا
(بھلا) نہیں جانے گا وہ جس نے
(سب کو) پیدا کیا؟ اور وہ نہایت باریک بین ، خبردار
(بھی) ہے
(14)
#
{13} هذا إخبارٌ من الله بسعة علمه وشمول لطفه، فقال: {وأسِرُّوا قولَكم أو اجْهَروا به}؛ أي: كلّها سواءٌ لديه لا يخفى عليه منها خافيةٌ، فَـ {إنَّه عليمٌ بذات الصُّدور}؛ أي: بما فيها من النيَّات والإرادات؛ فكيف بالأقوال والأفعال التي تُسمع وتُرى؟!
[13] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے وسیع علم، بے پایاں لطف و کرم کے بارے میں خبر ہے ،
چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ﴾ ’’اور تم پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔‘‘ یعنی اس کے لیے دونوں برابر ہیں، دونوں میں سے کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، پس
﴿ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ وہ سینے میں چھپی ہوئی نیتوں اور ارادوں کو بھی جانتا ہے، وہ ان اقوال کو کیوں کر نہیں جانتا جن کو سنا جا سکتا ہے اور جن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے؟
#
{14} ثم قال مستدلًّا بدليل عقليٍّ على علمه: {ألا يعلمُ مَنْ خَلَقَ}؛ فمن خَلَقَ الخلقَ وأتقنه وأحسنه؛ كيف لا يعلمه؟! {وهو اللطيفُ الخبيرُ}: الذي لطف علمه وخبره، حتى أدرك السرائر والضمائر والخبايا والخفايا والغيوب، {وهو الذي يعلمُ السِّرَّ وأخفى}، ومن معاني اللطيف أنَّه الذي يَلْطُفُ بعبدِهِ ووليِّه، فيسوق إليه البِرَّ والإحسان من حيث لا يشعر، ويعصِمُه من الشرِّ من حيث لا يحتسب، ويرقِّيه إلى أعلى المراتب بأسبابٍ لا تكون من العبد على بالٍ، حتى إنَّه يذيقُه المكارِهَ ليوصله بها إلى المحابِّ الجليلة والمطالب النبيلة.
[14] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم پر عقلی دلیل سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ یعنی وہ ہستی جس نے مخلوق کو نہایت مہارت سے اور بہترین طریقے سے پیدا کیا ہے وہ سینوں کے بھید کیوں کر نہ جانتی ہو گی؟
﴿ وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ اس کے علم و خبر بہت لطیف ہیں حتیٰ کہ وہ سینے کے بھیدوں، ضمیر کے رازوں، تمام چھپی ہوئی چیزوں، خفیہ امور اور غیوب کو جانتا ہے، وہی ہے جو
﴿ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْ٘فٰى﴾ (طٰہٰ:20؍7) ’’چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔‘‘
(اَللَّطِیفُ) کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہے کہ وہ اپنے بندے اور دوست کے ساتھ نہایت لطف و کرم سے پیش آتا ہے، اس کے ساتھ احسان اور نیکی اس طرح کرتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے شر سے بچاتا ہے جہاں اسے وہم و گمان نہیں ہوتا، وہ اسے ایسے اسباب کے ذریعے سے اعلیٰ مراتب پر فائز کرتا ہے، جو بندے کے تصور میں بھی نہیں ہوتے یہاں تک کہ وہ اسے ناگوار حالات کا مزا چکھاتا ہے اور ان کے ذریعے سے اسے جلیل القدر محبوبات اور اعلیٰ مطالب و مقاصد تک پہنچاتا ہے۔
{هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ (15)}.
وہ، وہ ذات ہے جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو نرم
(مسخر) سو چلو پھرو تم اس کے راستوں میں اور کھاؤ اس
(اللہ) کے رزق میں سے اور اسی کی طرف ہے قبروں سے اٹھ کر جانا
(15)
#
{15} أي: هو الذي سخَّر لكم الأرضَ وذَلَّلها؛ لتدرِكوا منها كلَّ ما تعلقت به حاجتُكم من غرسٍ وبناءٍ وحرثٍ وطرقٍ يُتَوَصَّلُ بها إلى الأقطار النائية والبلدان الشاسعة، {فامشوا في مناكِبِها}؛ أي: لطلب الرزق والمكاسب، {وكُلوا من رزقِهِ وإليه النشورُ}؛ أي: بعد أن تنتقلوا من هذه الدار التي جَعَلَها الله امتحاناً وبلغةً يُتَبَلَّغُ بها إلى الدار الآخرة؛ تُبعثون بعد موتكم وتُحشرون إلى الله؛ ليجازِيَكم بأعمالكم الحسنة والسيئة.
[15] یعنی وہی ہے جس نے زمین کو مسخر کر دیا اور اسے تمھارا مطیع کر دیا تاکہ تم اس میں ہر وہ چیز حاصل کر سکو جس سے تمھاری حاجات متعلق ہیں،
مثلاً: باغات لگانا، عمارتیں تعمیر کرنا، کھیتیاں اگانا اور ایسی شاہراہیں بنانا جو تمھیں دور دراز ملکوں اور شہروں تک پہنچاتی ہیں
﴿ فَامْشُوْا فِیْ مَنَاكِبِهَا﴾ ’’پس تم اس کی راہوں میں چلو پھرو۔‘‘ یعنی طلب رزق و مکاسب کے لیے
﴿ وَكُلُوْا مِنْ رِّؔزْقِهٖ١ؕ وَاِلَیْهِ النُّشُوْرُ﴾ ’’اور اللہ کے رزق سے کھاؤ اور اسی کی طرف جی اٹھنے کے بعد جانا ہے۔‘‘ یعنی اس گھر سے منتقل ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے امتحان گاہ اور ایسا وسیلہ بنایا ہے جس کے ذریعے سے آخرت کے گھر تک پہنچا جاتا ہے، تمھارے مرنے کے بعد تمھیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا تاکہ وہ تمھیں تمھارے اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا دے۔
{أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ (16) أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ (17) وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ (18)}.
کیا بے خوف ہو گئے ہو تم اس
(اللہ) سے جو آسمان میں ہے، یہ کہ وہ دھنسا دے تمھیں زمین میں تو ناگہاں وہ
(تیز) تیز حرکت کرنے لگے؟
(16) کیا بے خوف ہو گئے ہو تم اس
(اللہ) سے جو آسمان میں ہے، یہ کہ وہ بھیجے تم پر پتھراؤ کرنے والی آندھی پس عنقریب جان لو گے تم کیسا ہے میرا ڈرانا؟
(17) اور تحقیق تکذیب کی تھی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، پس کیسا تھا میرا عذاب؟
(18)
#
{16} هذا تهديدٌ ووعيدٌ لمن استمرَّ في طغيانه وتعدِّيه وعصيانه الموجب للنَّكال وحلول العقوبة، فقال: {أأمنتُم مَن في السَّماء}: وهو الله تعالى العالي على خلقه، {أن يخسِفَ بكم الأرضَ فإذا هي تمورُ}: بكم وتضطربُ حتى تَهْلِكوا وتَتْلَفوا.
[16] یہ اس شخص کے لیے تہدید و وعید ہے جو اپنی سرکشی، تعدی اور نافرمانی پر جما ہوا ہے جو سزا اور عذاب کے نزول کی موجب ہے،
چنانچہ فرمایا: ﴿ ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ﴾ ’’کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، نڈر ہو۔‘‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق پر بلند ہے
﴿ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُ﴾ ’’کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے۔‘‘ تمھیں لے کر کانپنے لگے اور تم ہلاک اور تباہ و برباد ہو جاؤ ۔
#
{17 ـ 18} {أم أمنتُم مَن في السماء أن يرسلَ عليكم حاصباً}؛ أي: عذاباً من السماء يحصِبُكم وينتقمُ الله منكم، {فستعلمون كيف نذيرِ}؛ أي: كيف يأتيكم ما أنذرتْكُم به الرسل والكتب؛ فلا تحسَبوا أنَّ أمنكم من الله أن يعاقِبَكم بعقابٍ من الأرض ومن السماء ينفعُكم، فستجدون عاقبة أمرِكم سواءً طال عليكم الأمدُ أو قَصُرَ؛ فإنَّ مَن قبلكم كذَّبوا كما كذَّبتم، فأهلكهم الله تعالى؛ فانظُروا كيف إنكارُ الله عليهم؛ عاجلهم بالعقوبة الدنيويَّة قبل عقوبة الآخرة؛ فاحذَروا أن يصيبَكم ما أصابَهم.
[18,17] ﴿ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا﴾ ’’کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، بے خوف ہو کہ وہ تم پر پتھر برسادے۔‘‘ یعنی آسمان سے عذاب نازل کرے، تم پر پتھر برسائے اور اللہ تعالیٰ تم سے انتقام لے
﴿ فَسَتَعْلَمُوْنَ۠ كَیْفَ نَذِیْرِ﴾ یعنی تمھیں عنقریب معلوم ہو گا کہ وہ عذاب تم پر کیسے آتا ہے جس کے بارے میں تمھیں رسولوں اور کتابوں نے ڈرایا تھا۔ پس تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین اور آسمان کے عذاب سے تمھارا محفوظ ومامون ہونا تمھیں کوئی فائدہ دے گا۔ تم عنقریب اپنے کرتوتوں کا انجام ضرور دیکھو گے، خواہ یہ مدت لمبی ہو یا چھوٹی کیونکہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں نے بھی جھٹلایا جیسے تم نے جھٹلایا ہے تو دیکھ لوکیسے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس تکذیب سے روکا؟ اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عذاب سے پہلے انھیں دنیا میں عذاب کا مزا چکھایا، اس لیے ڈرو کہ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔
{أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ (19)}.
کیا نہیں دیکھا انھوں نے
(اڑتے) پرندوں کی طرف اپنے اوپر، پر پھیلاتے اور سمیٹتے ہوئے؟ نہیں تھا متا ان کو مگر
(اللہ) رحمن ہی بلاشبہ وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہے
(19)
#
{19} وهذا عتابٌ وحثٌّ على النظر إلى حالة الطير التي سخَّرها الله وسخَّر لها الجوَّ والهواء؛ تصفُّ فيه أجنحتها للطيران وتقبِضُها للوقوع، فتظلُّ سابحةً في الجوِّ متردِّدة فيه بحسب إرادتها وحاجتها، {ما يمسِكُهُنَّ إلاَّ الرحمنُ}: فإنَّه الذي سخَّر لهنَّ الجوَّ وجعل أجسادها وخلقتها في حالة مستعدةٍ للطيران؛ فمن نظر في حالة الطير واعتبر فيها؛ دلَّتْه على قدرة الباري وعنايته الربانيَّة، وأنَّه الواحدُ الأحدُ الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له. {إنَّه بكلِّ شيءٍ بصيرٌ}: فهو المدبِّر لعباده بما يليق بهم وتقتضيه حكمته.
[19] یہ عتاب ہے اور پرندوں کی حالت پر غور کرنے کی ترغیب ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مسخر کیا اور پھر ان کے لیے فضا اور ہوا کو مسخر کیا جس میں وہ پرواز کے لیے پر پھیلائے پھرتے ہیں، نیچے اترنے کے لیے اپنے پروں کو اکٹھا کرتے اور اس فضا میں اپنے ارادے اور ضرورت کے مطابق اِدھر اُدھر تیرتے پھرتے ہیں۔
﴿ مَا یُمْسِكُ٘هُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ﴾ ’’انھیں اللہ رحمٰن ہی تھامے ہوئے ہے۔‘‘ پس رحمان ہی ہے جس نے ان کے لیے فضائے بسیط کو مسخر کیا اور ان کو ایسی حالت میں پیدا کیا جو پرواز کے لیے مناسب ہے۔ پس جو کوئی پرندوں کی حالت میں غور کر کے عبرت حاصل کرتا ہے تو ان کی یہ حالت اس کے لیے قدرت الٰہی اور عنایت ربانی پر دلالت کرتی ہے، نیز اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
﴿ اِنَّهٗ بِكُ٘لِّ شَیْءٍۭؔ بَصِیْرٌ﴾ ’’بے شک ہر چیز اس کی نگاہ میں ہے۔‘‘ وہ اپنے بندوں کی ان کے لائقِ احوال اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق تدبیر کرتا ہے۔
{أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ (20) أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ (21)}.
بھلا کون ہے جو وہ لشکر ہو تمھارا، کہ وہ مدد کرے تمھاری سوائے رحمن کے؟ نہیں ہیں کافر مگر دھوکے ہی میں
(20) بھلا کون ہے وہ جو وہ رزق دے تمھیں اگر روک لے رحمن اپنا رزق ؟بلکہ وہ اڑے ہوئے ہیں سرکشی اور
(حق سے)گریز پر
(21)
#
{20} يقول تعالى للعتاة النافرين عن أمره، المعرضين عن الحقِّ: {أمّن هذا الذي هو جندٌ لكم ينصُرُكم من دونِ الرحمن}؛ أي: ينصُرُكم إذا أرادَ الرحمن بكم سوءاً فيدفعه عنكم؛ أي: من الذي ينصُرُكم على أعدائكم غير الرحمن؛ فإنَّه تعالى هو الناصر المعزُّ المذلُّ، وغيره من الخلق لو اجتمعوا على نصر عبدٍ لم ينفعوه بمثقال ذرَّةٍ على أيِّ عدوٍّ كان؛ فاستمرارُ الكافرين على كفرهم بعد أن عَلِموا أنَّه لا ينصُرُهم أحدٌ من دون الرحمن غرورٌ وسفهٌ.
[20] اللہ تعالیٰ اپنے امر سے دور بھاگنے اور حق سے روگردانی کرنے والے سرکشوں سے فرماتا ہے:
﴿ اَمَّنْ هٰؔذَا الَّذِیْ هُوَ جُنْدٌ لَّـكُمْ یَنْصُرُؔكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ﴾ یعنی جب رحمٰن تمھارے ساتھ کوئی برائی کرنے اارادہ کرے تو کون سا تمھارا لشکر اس برائی کو تم سے دور کرسکتا ہے؟ یعنی رحمان کے سوا تمھارے دشمنوں کے خلاف کون تمھاری مدد کر سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا، عزت عطا کرنے والا اور ذلت سے ہم کنار کرنے والا ہے اور اس کے سوا تمام مخلوق کسی بندے کی مدد کے لیے اکٹھی ہو جائے تو کسی بھی دشمن کے خلاف اسے ذرہ بھر فائدہ نہیں دے سکتی۔پس کفار کا یہ جان لینے کے بعد کہ رحمان کے سوا کوئی ان کی مدد نہیں کر سکتا، اپنے کفر پر جمے رہنا فریب اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
#
{21} {أمّن هذا الذي يرزقُكُم إن أمسَكَ رزقَه}؛ أي: الرزق كلُّه من الله؛ فلو أمسك عنكم الرزق؛ فمن الذي يرسله لكم؟ فإنَّ الخلق لا يقدرون على رزق أنفسِهِم؛ فكيف بغيرهم؟! فالرازق المنعم الذي لا يصيب العبادَ نعمةٌ إلاَّ منه هو الذي يستحقُّ أن يُفْرَدَ بالعبادة، ولكنْ الكافرون {لَجُّوا}؛ أي: استمروا {في عُتُوٍّ}؛ أي: قسوةٍ وعدم لينٍ للحق، {ونُفورٍ}؛ أي: شرودٍ عن الحقِّ.
[21] ﴿ اَمَّنْ هٰؔذَا الَّذِیْ یَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ﴾ یعنی رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر وہ تم سے رزق کو روک لے تو کون تمھارے لیے رزق بھیج سکتا ہے؟ کیونکہ مخلوق تو خود اپنے رزق پر قادر نہیں، دوسروں کو کیسے رزق دے سکتی ہے؟ بندوں کو جو نعمت عطا ہوتی ہے صرف اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ پس رزق عطا کرنے والی اور نعمتوں سے بہرہ ور کرنے والی ہی اس بات کی مستحق ہے کہ اسی اکیلے کی عبادت کی جائے۔مگر کفار
﴿لَّجُّوْا﴾ جمے ہوئے ہیں
﴿ فِیْ عُتُوٍّ﴾ حق کے معاملے میں سختی اور درشتی میں
﴿ وَّنُفُوْرٍ﴾ ’’اور نفرت میں۔‘‘ یعنی حق سے دور بھاگتے ہیں۔
{أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (22)}.
کیا پس جو شخص چلتا ہے اوندھا اپنے چہرے کے بل،
(وہ) زیادہ ہدایت والا ہے یا وہ شخص جو چلتا ہے سیدھا اوپر صراطِ مستقیم کے؟
(22)
#
{22} أي: أيُّ الرجلين أهدى؛ من كان تائهاً في الضَّلال غارقاً في الكفر قد انتكس قلبه فصار الحقُّ عنده باطلاً والباطل حقًّا، ومن كان عالماً بالحقِّ، مؤثراً له، عاملاً به، يمشي على الصراط المستقيم في أقواله وأعماله وجميع أحواله؟! فبمجرَّد النظر إلى حال الرجلين؛ يعلم الفرق بينهما والمهتدي من الضالِّ منهما. والأحوالُ أكبرُ شاهدٍ من الأقوال.
[22] یعنی ان دو شخصوں میں سے کون زیادہ ہدایت کی راہ پر ہے؟ کیا وہ شخص جو گمراہی میں سرگشتہ پھرتا ہے، اپنے کفر میں غرق ہے، اور اس کی سمجھ الٹ گئی ہے اس کے نزدیک حق باطل اور باطل حق بن چکا ہے یا وہ شخص جو حق کا علم رکھنے والا، حق کو ترجیح دینے والا، حق پر عمل کرنے والا اور اپنے اقوال و افعال اور تمام احوال میں صراط مستقیم پر گامزن ہے؟ ان دونوں اشخاص کے احوال پر مجرد ایک نظر ڈالنے سے ہدایت یافتہ اور گمراہ کے درمیان فرق معلوم ہو جائے گا۔احوال، اقوال سے بڑے گواہ ہیں۔
{قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (23) قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (24) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (25) قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (26)}.
کہہ دیجیے! وہ
(اللہ) وہ ہے جس نے پیدا کیا تمھیں اور اس نے بنائے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل ،بہت ہی کم شکر کرتے ہو تم
(23)کہہ دیجیے! وہ
(اللہ) وہ ذات ہے جس نے پھیلایا تمھیں زمین میں، اور اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے تم
(24) اور کہتے ہیں وہ
(کافر) ، کب ہو گا یہ وعدہ
(قیامت) اگر ہو تم سچے؟
(25)کہہ دیجیے! بلاشبہ اس کا علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں صریح
(26)
#
{23} يقول تعالى مبيِّناً أنَّه المعبودُ وحدَه وداعياً عباده إلى شكره وإفراده بالعبادة: {هو الذي أنشأكم}؛ أي: أوجدكم من العدم؛ من غير معاونٍ له ولا مظاهر، ولما أنشأكم؛ كمَّل لكم الوجود بالسمعِ والأبصارِ والأفئدةِ، وهذه الثلاثة هي أفضل أعضاء البدن وأكمل القوى الجسمانيَّة، ولكنَّكم مع هذا الإنعام {قليلاً ما تشكُرون} الله، قليلٌ منكم الشاكر، وقليلٌ منكم الشكر.
[23] اللہ تعالیٰ یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہ وہی اکیلا معبود ہے،
اپنے بندوں کو اپنے شکر کی طرف بلاتے ہوئے اور عبادت میں اپنے متفرد ہونے کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ قُ٘لْ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ﴾ یعنی وہی ہے جو کسی معاون اور مددگار کے بغیر تمھیں عدم سے وجود میں لایا، جب اس نے تمھیں پیدا کیا تو کانوں، آنکھوں اور دلوں کے ساتھ تمھارے وجود کی تکمیل کی جو بدن کے نافع ترین اور کامل ترین جسمانی اعضاء ہیں۔ مگر ان نعمتوں کے باوجود
﴿قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ﴾ ’’تم کم ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہو‘‘ تم میں شکر گزار لوگ بہت کم اور شکر گزاری بہت کم ہے۔
#
{24} {قل هو الذي ذَرَأكُم في الأرض}؛ أي: بثَّكم في أقطارها، وأسكنَكم في أرجائها، وأمركم ونهاكم، وأسدى عليكم من النِّعم ما به تنتفعون، ثم بعد ذلك يحشُرُكم ليوم القيامةِ، ولكنَّ هذا الوعد بالجزاء ينكِرُه هؤلاء المعاندون.
[24] ﴿ قُ٘لْ هُوَ الَّذِیْ ذَرَاَكُمْ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایا۔‘‘ یعنی اس نے تمھیں زمین کے چاروں سمت پھیلا یااور اس کے کناروں تک تمھیں آباد کیا، تمھیں امر و نہی کا مکلف کیا، تمھیں نعمتوں سے سرفراز فرمایا جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، پھر اس کے بعد قیامت کے دن وہ تمھیں اکٹھا کرے گا۔ مگر یہ معاندین حق، جزا و سزا کے اس وعدے کا انکار کرتے ہیں۔
#
{25} {ويقولون}: تكذيباً: {متى هذا الوعدُ إن كنتُم صادقينَ}؟ جعلوا علامة صدقِهِم أنْ يُخْبِروهم بوقت مجيئِهِ، وهذا ظلمٌ وعنادٌ.
[25] ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ﴾ اور تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
﴿ مَتٰى هٰؔذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔‘‘ انھوں نے ان کی صداقت کی علامت یہ رکھی کہ انھیں قیامت کے دن کی آمد کے وقت کے بارے میں آگاہ کریں جبکہ یہ ظلم اور عناد ہے۔
#
{26} فإنما {العلم عند الله}: لا عند أحدٍ من الخلق، ولا ملازمة بين هذا الخبر وبين الإخبار بوقته؛ فإنَّ الصدق يُعْرَفُ بأدلَّته، وقد أقام الله من الأدلَّة والبراهين على صحَّته ما لا يبقى معه أدنى شكٍّ لمن ألقى السمع وهو شهيدٌ.
[26] پس اس کا علم تو اللہ کے پاس ہے مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں اور نہ اس خبر اور اس کے وقوع کے وقت کی خبر میں کوئی تلازم ہی ہے کیونکہ صداقت اپنے دلائل سے پہچانی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی صحت پر دلائل و براہین قائم کر دیے ہیں، اس شخص کے لیے ادنیٰ سا شک نہیں رہتا جو توجہ کے ساتھ سنتا ہے۔
{فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ (27) قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَعِيَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ يُجِيرُ الْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (28) قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (29) قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ (30)}.
پس جب وہ دیکھیں گے اس
(عذاب قیامت) کو قریب ہی تو بگڑ جائیں گے چہرے ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا اور کہا جائے گا، یہ ہے وہ جو تھے تم
(دنیا میں) اس کو مانگتے
(27) کہہ دیجیے! خبر دو تم مجھے اگر ہلاک کر دے مجھے اللہ اور ان کو بھی جو میرے ساتھ ہیں، یا وہ رحم کرے ہم پر تو کون ہے وہ جو پناہ دے کافروں کو عذاب درد ناک سے؟
(28) کہہ دیجیے! وہ
(اللہ) نہایت مہربان ہے ہم ایمان لائے اس پر اور اسی پر توکل کیا ہم نے، پس عنقریب تم جان لوگے کون ہے وہ جو صریح گمراہی میں ہے؟
(29) کہہ دیجیے! خبر دو تم مجھے اگر ہو جائے تمھارا پانی گہرا تو کون ہے وہ کہ لے آئے وہ تمھارے پاس پانی بہتا ہوا؟
(30)
#
{27} يعني أنَّ محلَّ تكذيب الكفار وغرورهم به حين كانوا في الدُّنيا؛ فإذا كان يوم الجزاء، ورأوا العذاب منهم {زُلْفَةً}؛ أي: قريباً؛ ساءهم ذلك وأفظعهم وأقلقهم ، فتغيَّرت لذلك وجوهُهم، ووُبِّخوا على تكذيبهم، وقيل لهم: {هذا الذي كنتُم به تَدَّعونَ}: فاليوم رأيتموه عياناً، وانْجلى لكم الأمر، وتقطَّعت بكم الأسباب، ولم يبقَ إلاَّ مباشرة العذاب.
[27] کفار کی تکذیب اور اس بنا پر ان کے فریب کا محل و مقام اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس دنیا میں ہیں، جب جزا و سزا کا دن ہو گا اور وہ عذاب کو
﴿زُلْفَةً﴾ اپنے قریب دیکھیں گے تو یہ انھیں بہت برا لگے گا اور انھیں خوف زدہ کر دے گا، ان کے چہرے بدل جائیں گے، ان کی تکذیب پر انھیں زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا’’یہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔ آج تم نے اسے عیاں دیکھ لیا ہے اور تمام معاملہ تمھارے سامنے ظاہر ہو گیا ہے، تمھارے تمام اسباب منقطع ہو گئے ہیں اور اب عذاب بھگتنے کے سوا کچھ باقی نہیں۔‘‘
#
{28} ولما كان المكذِّبون للرسول - صلى الله عليه وسلم - الذين يردُّون دعوته ينتظرون هلاكَه ويتربَّصون به ريب المنون؛ أمره الله أن يقولَ لهم: إنَّكم وإن حصلتْ لكم أمنيتُكم و {أهلكني الله ومن معي}: فليس ذلك بنافع لكم شيئاً؛ لأنَّكم كفرتم بآيات الله، واستحققتُم العذاب؛ فمن يجيرُكم {من عذابٍ أليم}: قد تحتَّم وقوعُه بكم؛ فإذاً تعبُكم وحرصُكم على هلاكي غير مفيدٍ ولا مجدٍ لكم شيئاً.
[28] چونکہ رسول مصطفیe کو جھٹلانے والے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، آپ کی ہلاکت، اور آپ کے بارے میں گردش زمانہ کے منتظر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اگر تمھاری آرزو پوری ہو بھی جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے تو یہ چیز تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور تم عذاب کے مستحق بن گئے۔ پس اب تمھیں درد ناک عذاب سے کون بچا سکتا ہے جس کا تم پر واقع ہونا حتمی ہے؟ تب میری ہلاکت کے بارے میں تمھاری مشقت اور حرص غیر مفید ہے اور وہ تمھارے کچھ کام نہیں آئے گی۔
#
{29} ومن قولهم: إنَّهم على هدى والرسول على ضلالٍ؛ أعادوا في ذلك وأبدوا، وجادلوا عليه وقاتلوا، فأمر الله نبيَّه أن يُخْبِرَ عن حاله وحال أتباعه ما به يتبيَّن لكلِّ أحدٍ هداهم وتقواهم، وهو أنْ يقولوا: {آمنَّا به وعليه تَوَكَّلْنا}: والإيمانُ يشملُ التصديق الباطن والأعمال الباطنة والظاهرة، ولمَّا كانت الأعمالُ وجودُها وكمالُها متوقفة على التوكُّل؛ خصَّ الله التوكُّل من بين سائر الأعمال، وإلاَّ؛ فهو داخلٌ في الإيمان، ومن جملة لوازمه؛ كما قال تعالى: {وعلى الله فتوكَّلوا إن كُنتُم مؤمنينَ}؛ فإذا كانت هذه حال الرسول وحال مَن اتَّبعه، وهي الحال التي تتعيَّن للفلاح وتتوقَّف عليها السعادة، وحالة أعدائه بضدِّها؛ فلا إيمان لهم ولا توكُّل؛ عُلِمَ بذلك مَن هو على هدىً ومن هو في ضلال مبينٍ.
[29] انھوں نے اپنے اس قول کا... کہ وہ ہدایت پر ہیں اور رسول e گمراہی پر ہیں... اعادہ کیا، اس کے اظہار میں جرأت دکھائی،
اس پر جھگڑا اور لڑائی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنے حال اور آپ کی پیروی کرنے والوں کے حال سے آگاہ کر دیں جس سے ہر شخص پر ان کی ہدایت اور تقویٰ واضح ہو جائے اور وہ یہ کہنے کا حکم تھا: ﴿ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَیْهِ تَوَؔكَّؔلْنَا﴾ ’’ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس پر توکل کیا۔‘‘ اور ایمان باطنی تصدیق اور اعمال باطنہ و ظاہرہ کو شامل ہے۔
چونکہ تمام اعمال کا وجود اور ان کا کمال توکل پر موقوف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال میں سے توکل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ورنہ توکل،
ایمان اور اس کے جملہ لوازم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰهِ فَتَوَؔكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (المائدہ:5؍23) ’’اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ جب رسولe اور ان لوگوں کا یہ حال ہے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں، اور یہ ایسا حال ہے جو فلاح کے لیے متعین ہے اور جس پر سعادت موقوف ہے، اور آپ کے دشمنوں کا حال اس کے متضاد ہے، پس ان کے پاس ایمان ہے نہ توکل تب اس سے معلوم ہو گیا کہ کون ہدایت پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔
#
{30} ثم أخبر عن انفراده بالنِّعم، خصوصاً الماء الذي جَعَلَ الله منه كلَّ شيءٍ حيٍّ، فقال: {قل أرأيتُم إن أصبحَ ماؤكم غَوْراً}؛ أي: غائراً، {فمن يأتيكم بماءٍ مَعينٍ}: تشربون منه وتسقونَ أنعامكم وأشجارَكم وزُروعكم؟ وهذا استفهامٌ بمعنى النفي؛ أي: لا يقدر أحدٌ على ذلك غير الله تعالى.
[30] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ نعمتیں عطا کرنے میں اکیلا اور متفرد ہے ،
خاص طور پر پانی کی نعمت جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُكُمْ غَوْرًؔا﴾ ’’کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمھارا پانی خشک ہوجائے ۔‘‘ یعنی گہرا چلا جائے
﴿ فَ٘مَنْ یَّاْتِیْكُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ﴾ ’’پس کون ہے جو تمھارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہالائے۔‘‘ جس کو تم خود پیتے ہو، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہو اور اپنے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو ۔ یہ استفہام بمعنی نفی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس پر قادر نہیں۔