آیت:
تفسیر سورۂ تحریم
تفسیر سورۂ تحریم
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 5 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (1) قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (2) وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (3) إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ (4) عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا (5)}.
اے نبی! کیوں حرام کرتے ہیں آپ اس چیز کو جو حلال کی ہے اللہ نے آپ کے لیے ؟ چاہتے ہیں آپ رضا مندی اپنی بیویوں کی، اور اللہ خوب بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے(1) تحقیق فرض کر دیا ہے اللہ نے تمھارے لیے کھولنا (توڑنا) تمھاری قسموں کا اور اللہ کارساز ہے تمھارا، اور وہ خوب جاننے والا، خوب حکمت والا ہے(2) اور جب چھپا کر کہی نبی نے اپنی بعض بیویوں سے ایک بات،پس جب خبر دی اس (بیوی) نے اس (بات) کی اور ظاہر کر دیا اس کو اللہ نے اس (نبی) پر تو اس (نبی) نے بتلا دی کچھ (بات) اس میں سے اور اعراض کیا کچھ سے ، پس جب خبر دی نبی نے اس (بیوی) کو اس کی تو اس نے کہا، کس نے خبر دی ہے آپ کو اس (بات ) کی؟نبی نے فرمایا، خبر دی ہے مجھے (اللہ) علیم خبیر نے(3) اگر توبہ کرو تم دونوں اللہ کی طرف (تو بہتر ہے) پس تحقیق ہٹ گئے ہیں تمھارے دل ،اور اگر تم دونوں ایک دوسری کی مدد کرو گی آپ کے مقابلے میں تو بلاشبہ اللہ وہی ہے مدد گار آپ کا اور جبریل اور صالح ایمان دار، اور (تمام) فرشتے (بھی) بعد اس کےمدد گار ہیں(4) امید ہے کہ آپ کا رب، اگر وہ (نبی) طلاق دے دے تمھیں، یہ کہ بدلے میں دے دے اس کو بیویاں افضل تم سے مسلمان، مومن، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، روزے دار، شوہر دیدہ اور کنواریاں(5)
#
{1} هذا عتابٌ من الله لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - حين حرَّم على نفسه سُرِّيَّته مارية أو شُرْبَ العسل مراعاةً لخاطر بعض زوجاته في قصَّةٍ معروفة ، فأنزل الله [تعالى] هذه الآيات. {يا أيُّها النبيُّ}؛ أي: يا أيُّها الذي أنعم الله عليه بالنبوَّة والرسالة والوحي ، {لم تحرِّمُ ما أحلَّ الله لك}: من الطيِّبات التي أنعم الله بها عليك وعلى أمَّتك، {تبتغي}: بذلك التحريم {مرضاةَ أزواجِك واللهُ غفورٌ رحيمٌ}: هذا تصريحٌ بأنَّ الله قد غفر لرسوله ورفع عنه اللومَ ورحِمَه.
[1] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی محمد e پر عتاب ہے (یہ عتاب اس وقت فرمایا) جب آپ نے اپنے آپ پر اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ r یا شہد کو ایک معروف واقعے کے مطابق اپنی بعض ازواج مطہرات کی دل جوئی کے لیے حرام ٹھہرا لیا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ﴾ اے وہ ہستی جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت، رسالت اور وحی کی نعمت سے سرفراز فرمایا ﴿ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ آپ ان پاک چیزوں کو کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی امت کو نوازا ہے۔ ﴿ تَ٘بْتَغِیْ﴾ ’’آپ چاہتے ہیں ‘‘ اس تحریم کے ذریعے سے ﴿ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌؔ رَّحِیْمٌ﴾ ’’اپنی بیویوں کی رضامندی، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول eکو بخش دیا آپ سے ملامت کو رفع کر دیا اور آپ پر رحم فرمایا۔
#
{2} وصار ذلك التحريمُ الصادرُ منه سبباً لشرع حكم عامٍّ لجميع الأمَّة، فقال تعالى: {قد فَرَضَ الله لكم تَحِلَّةَ أيمانِكم}: وهذا عامٌّ في جميع أيمان المؤمنين ؛ أي: قد شرع لكم وقدَّر ما به تَنْحَلُّ أيمانُكم قبل الحِنْثِ وما به تتكفَّر بعد الحنث، وذلك كما في قوله تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تُحَرِّمُوا طيباتِ ما أحلَّ الله لكم ولا تَعْتَدَوا إنَّ الله لا يحبُّ المعتدين ... } إلى أن قال: {فكفَّارتُه إطعامُ عَشَرَةِ مساكين من أوسطِ ما تُطْعِمونَ أهليكم أو كِسْوَتُهم أو تحريرُ رقبةٍ فمن لم يَجِدْ فصيامُ ثلاثةِ أيَّام ذلك كفَّارةُ أيمانِكم إذا حَلَفْتُم}: فكلُّ مَنْ حرَّم حلالاً عليه من طعام أو شرابٍ أو سُرِّيَّة أو حلف يميناً بالله على فعلٍ أو ترك ثم حنثَ وأراد الحِنْثَ؛ فعليه هذه الكفارة المذكورة. وقوله: {واللهُ مولاكم}؛ أي: متولِّي أموركم ومربِّيكم أحسن تربيةٍ في أمر دينكم ودُنياكم وما به يندفعُ عنكم الشرُّ؛ فلذلك فرض لكم تَحِلَّةَ أيمانِكم لتبرأ ذِمَمُكم. {وهو العليم الحكيم}: الذي أحاط علمُه بظواهِرِكم وبواطِنِكم، وهو الحكيم في جميع ما خلقه وحكم به؛ فلذلك شرع لكم من الأحكام ما يعلم أنَّه موافقٌ لمصالحكم ومناسبٌ لأحوالكم.
[2] اور آپ سے صادر ہونے والی یہ تحریم تمام امت کے لیے ایک عام حکم کی تشریع کا سبب بن گئی، چنانچہ فرمایا :﴿ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ﴾ ’’اللہ نے تمھارے لیے تمھاری قسمیں کھولنا (توڑنا)، فرض کر دیا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ طریقہ مشروع اور مقرر کر دیا ہے جس کے ذریعے سے قسم سے، اس کو توڑنے سے پہلے نکلا جا سکے اور وہ کفارہ بتلادیا جس کی ادائیگی قسم توڑنے کے بعد ضروری ہے اور یہ حکم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آیا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰؔتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۰۰ وَؔكُلُوْا مِمَّؔا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰ٘لًا طَیِّبًا١۪ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۰۰لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَؔكَـفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰ٘ثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ﴾ (المائدہ:5؍87 ، 89) ’’اے ایمان والو! تم ان پاک چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ، جن کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور حد سے نہ بڑھو اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اللہ تمھاری قسموں میں سے لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو، تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے، پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، جب تم قسم کھاؤ (اور توڑ دو) تو یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے۔‘‘ پس ہر وہ شخص جو کسی حلال طعام، مشروب یا لونڈی کو حرام ٹھہرائے یا کسی فعل یا ترک پر اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے، پھر وہ قسم کو توڑ دے یا توڑنے کا ارادہ کرے تو اس پر یہ مذکورہ کفارے کی ادائیگی واجب ہے۔فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے امور کی سرپرستی کرنے والا ہے اور تمھارے دین و دنیا کے امور میں تمھاری بہترین طریقے سے تربیت کرنے والا ہے، جس کے سبب سے تم سے شر دور ہوتا ہے۔ بنابریں اس نے تمھاری قسمیں حلال کرنے کے لیے تمھارے لیے ایک طریقہ مقرر فرمایا، تاکہ تم پر جو ذمہ داری ہے وہ پوری ہو جائے۔ ﴿ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾ جس کے علم نے تمھارے ظواہر اور بواطن کا احاطہ کر رکھا ہے اس نے جو کچھ پیدا کیا ہے اور اس نے حکم دیا ہے، وہ اس میں حکمت کو ملحوظ رکھنے والا ہے اس لیے اس نے تمھارے لیے ایسے احکام مشروع کیے ہیں جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ تمھارے مصالح کے موافق اور تمھارے احوال کے لیے مناسب ہیں۔
#
{3} وقوله: {وإذْ أسرَّ النبيُّ إلى بعضِ أزواجِهِ حديثاً}: قال كثيرٌ من المفسرين: هي حفصة أم المؤمنين رضي الله عنها، أسرَّ لها النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - حديثاً، وأمر أن لا تُخْبِرَ به أحداً، فحدَّثت به عائشة رضي الله عنها، وأخبره الله بذلك الخبر الذي أذاعتْه، فَعرَّفها - صلى الله عليه وسلم - ببعض ما قالتْ وأعرضَ عن بعضِهِ كرماً منه - صلى الله عليه وسلم - وحِلْماً، فقالت له: {مَنْ أنبأكَ هذا}: الخبر الذي لم يَخْرُجْ منَّا، {قال نَبَّأَنِيَ العليمُ الخبيرُ}: الذي لا تخفى عليه خافية، يعلم السرَّ وأخفى.
[3] ﴿ وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا﴾ ’’اور جب پیغمبر نے اپنی ایک بیوی سے ایک راز کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتادی)۔‘‘ بہت سے مفسرین کا قول ہے کہ یہ ام المومنین حضرت حفصہrہیں، ان کو نبی ٔاکرم e نے کوئی راز کی بات کہی اور ان سے کہا کہ وہ آگے کسی کو نہ بتائیں، پس انھوں نے یہ بات حضرت عائشہr کو بتا دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس خبر کے بارے میں جو حضرت حفصہr نے افشا کر دی تھی، نبی اکرم e کو آگاہ کر دیا نبی اکرم e نے اپنے حلم اور کرم کی بنا پر اس بات میں سے جو انھوں نے افشاء کی تھی کچھ بات حضرت حفصہr کو بتا دی اور کچھ کے بارے میں اعراض کیا ﴿قَالَتْ﴾ حضرت حفصہ r نے آپ سے عرض کیا: ﴿ مَنْ اَنْۢبـَاَ٘كَ هٰؔذَا﴾ یعنی اس خبر سے آپ کو کس نے آگا ہ کیا، جو ہم سے باہر نہیں نکلی؟ ﴿ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ﴾ ’’مجھے علیم وخبیر نے خبر دی ہے ۔‘‘ جس پر کوئی چیز مخفی نہیں وہ بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہے۔
#
{4} وقوله: {إن تَتوبا إلى الله فَقَدْ صَغَتْ قلوبُكما}: الخطاب للزوجتين الكريمتين حفصة وعائشة رضي الله عنهما حين كانتا سبباً لتحريم النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - على نفسه ما يحبُّه، فعرض الله عليهما التوبة، وعاتبهما على ذلك، وأخبرهما أنَّ قلوبكما قد صَغَتْ؛ أي: مالت وانحرفت عمَّا ينبغي لهنَّ من الورع والأدب مع الرسول - صلى الله عليه وسلم - واحترامه، وأن لا يَشْقُقْنَ عليه، {وإن تَظاهرا عليه}؛ أي: تعاونا على ما يشقُّ عليه ويستمرُّ هذا الأمر منكنَّ، {فإنَّ الله هو مولاهُ وجبريلُ وصالحُ المؤمنين والملائكةُ بعد ذلك ظهيرٌ}؛ أي: الجميع أعوانٌ للرسول مظاهرون. ومَنْ كان هؤلاء أنصاره ؛ فهو المنصور، وغيره إن يناوئه؛ فهو مخذولٌ ، وفي هذا أكبر فضيلة وشرفٍ لسيِّد المرسلين؛ حيث جعل الباري نفسه الكريمة وخواصَّ خلقه أعواناً لهذا الرسول الكريم. وفيه من التَّحذير للزوجتين الكريمتين ما لا يخفى.
[4] ﴿ اِنْ تَتُوْبَ٘اۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا﴾ خطاب کا رخ دونوں ازواج مطہرات، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ صدیقہ w کی طرف ہے، جو اس بات کا سبب بنیں، کہ آپ نے اپنے آپ پر اس چیز کو حرام ٹھہرایا جو آپ کو پسند تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بنا پر دونوں ازواج مطہرات پر عتاب فرمایا، ان کے سامنے توبہ پیش کی اور انھیں آگاہ فرمایا کہ ان کے دل اس چیز سے منحرف ہو گئے جو ان کے لائق تھی ، یعنی ورع اور رسول اللہ e کا ادب و احترام، نیز یہ کہ وہ آپ کی مخالفت نہ کریں۔ ﴿ وَاِنْ تَ٘ظٰهَرَا عَلَیْهِ﴾ اگر تم دونوں ایسے امر پر باہم تعاون کرو گی، جو آپ پر شاق گزرتا ہے اور تمھاری طرف سے یہ رویہ دائم رہا ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰ٘ىهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ﴾ ’’تو اللہ اور جبریل نیک کردار مسلمان ان کے حامی ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔‘‘ یہ سب رسول e کے اعوان و مددگار ہیں، اور جس کے اعوان و انصار یہ لوگ ہوں وہ مدد یافتہ ہے اور دوسرے لوگ، جو آپ کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں تو یہ بے یار و مددگار چھوڑے ہوئے ہیں۔یہ سیدالمرسلین رسول مصطفیٰe کی سب سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑا شرف ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنی ذات کریمہ اور اپنی مخلوق میں خاص لوگوں کو رسول کریم e کے اعوان و انصار مقرر فرمایا۔ان آیات کریمہ میں دونوں ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ ہے جو مخفی نہیں ہے۔
#
{5} ثم خوَّفهما أيضاً بحالةٍ تشقُّ على النساء غاية المشقَّة، وهو الطلاق، الذي هو أكبر شيءٍ عليهنَّ، فقال: {عسى ربُّه إن طَلَّقَكُنَّ أن يُبْدِلَه أزواجاً خيراً منكنَّ}؛ أي: فلا ترفعْنَ عليه؛ فإنَّه لو طلَّقكنَّ لا يضيق عليه الأمر، ولم يكن مضطراً إليكنَّ؛ فإنَّه سيجد ويبدله الله أزواجاً خيراً منكنَّ ديناً وجمالاً، وهذا من باب التعليق الذي لم يوجد ولا يلزمُ وجودُه؛ فإنَّه ما طلقهنَّ، ولو طلَّقهنَّ؛ لكان ما ذكره الله من هذه الأزواج الفاضلات، الجامعات بين الإسلام وهو القيام بالشرائع الظاهرة، والإيمان وهو القيام بالشرائع الباطنة من العقائد وأعمال القلوب، والقنوت وهو دوام الطاعة واستمرارها. {تائباتٍ}: عمَّا يكرهه الله، فوصفهنَّ بالقيام بما يحبُّه الله والتوبة عما يكرهه الله. {ثيباتٍ وأبكاراً} ؛ أي: بعضهنَّ ثَيِّبٌ وبعضهنَّ أبكارٌ؛ ليتنوَّع - صلى الله عليه وسلم - فيما يحبُّ. فلمَّا سمعن رضي الله عنهنَّ هذا التخويف والتأديب؛ بادرنَ إلى رضا رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فكان هذا الوصف منطبقاً عليهنَّ، فصرن أفضل نساء المؤمنين. [وفي هذا دليلٌ على أنّ اللهَ تعالى لا يختار لرسوله إلاَّ أكملَ الأحوال وأعلى الأمورِ، فلمّا اختار اللهُ لرسوله بقاء نسائه المذكورات معه دلَّ على أنهنَّ خيرُ النساء وأكملهن].
[5] پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک ایسی حالت سے ڈرایا ہے جو عورتوں پر بے حد شاق گزرتی ہے اور وہ ہے طلاق، جو ان کے لیے سب سے گراں چیز ہوتی ہے، اس لیے فرمایا :﴿ عَسٰؔى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُ٘نَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّؔنْؔكُنَّ﴾ یعنی تم رسول اللہ e کے مقابلے میں برتری ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ اگر وہ تمھیں طلاق دے دیں تو معاملہ ان پر تنگ نہیں ہو گا اور نہ وہ تمھارے محتاج ہی ہوں گے کیونکہ آپ عنقریب دوسری بیویاں پائیں گے اور اللہ تعالیٰ (تمھارے بدلے میں) آپ کو ایسی بیویاں عطا کر دے گا جو دین اور حسن و جمال میں تم سے بہتر ہوں گی۔ یہ ایسی تعلیق کے باب میں سے ہے جس کا وجود نہیں اور نہ اس کا وجود لازم ہے۔ کیونکہ آپ نے ان ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی اور اگر آپ طلاق دے دیتے تو وہی ہوتا جو ان ازواج مطہرات کے بارے میں ذکر فرمایا ہے، وہ اسلام جو کہ ظاہری شریعت کو قائم کرنے کا نام ہے اور ایمان جو باطنی شریعت عقائد اور اعمال قلوب کو کرنے کا نام ہے، دونوں کی جامع ہوتیں۔ (قَنُوت) سے مراد دائمی اطاعت اور اطاعت پر استمرار ہے ۔ ﴿ تٰٓؔىِٕبٰؔتٍ﴾ وہ ان امور سے توبہ کرنے والی ہوں گی جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے امور کو قائم کرنے سے موصوف فرمایا جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو ایسے امور سے اجتناب کرنے سے موصوف فرمایا جو اسے ناپسند ہیں ﴿ثَیِّبٰؔتٍ وَّاَبْكَارًا﴾ یعنی ان میں بعض ثیبہ (بیوہ) ہوں گی اور بعض کنواری تاکہ آپ کو اپنی پسند کے مطابق تنوع حاصل ہو۔ پس جب ازواج مطہراتg نے یہ تخویف اور تادیب سنی تو وہ رسول اللہ e کی رضا جوئی کے لیے جلدی سے آگے بڑھیں، پس یہ مذکور اوصاف ان پر منطبق ہوئے اور وہ مومن عورتوں میں سب سے افضل قرار پائیں۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لیے مکمل احوال اور اعلی امور کا انتخاب کرتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ خواتین کو اپنے رسول کے حرم کے لیے باقی رکھنا پسند کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمام عورتوں سے بہتر اور کامل ہیں۔
آیت: 6 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (6)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ تم اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل (و عیال) کو اس آگ سے کہ ایندھن اس کا ہیں انسان اور پتھر، اس پر (مقرر) ہیں فرشتے نہایت سخت دل بڑے مضبوط، نہیں نافرمانی کرتے وہ اللہ کی جس کا حکم دے وہ انھیں اوروہ (وہی ) کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں وہ(6)
#
{6} أي: يا مَن منَّ الله عليهم بالإيمان! قوموا بلوازمه وشروطه، فَـ {قُوا أنفسكم وأهليكم ناراً} موصوفةً بهذه الأوصاف الفظيعة، ووقاية الأنفس بإلزامها أمر الله امتثالاً ونهيه اجتناباً والتوبة عمَّا يُسْخِطُ الله ويوجب العذاب، ووقاية الأهل والأولاد بتأديبهم وتعليمهم وإجبارهم على أمر الله؛ فلا يسلم العبد إلاَّ إذا قام بما أمر الله به في نفسه وفيمن تحت ولايته من الزوجات والأولاد وغيرهم ممَّن هم تحت ولايته وتصرُّفه، ووصف الله النار بهذه الأوصاف؛ ليزجر عباده عن التَّهاون بأمره، فقال: {وَقودها الناسُ والحجارةُ}؛ كما قال تعالى: {إنَّكم وما تعبُدونَ مِن دونِ اللهِ حَصَبُ جهنَّم أنتم لها وارِدونَ}، {عليها ملائكةٌ غلاظٌ شدادٌ}؛ أي: غليظةٌ أخلاقُهم، شديدٌ انتهارُهم يفزعون بأصواتهم ويزعجون بمرآهم ويهينون أصحابَ النار بقوَّتهم، وينفِّذون فيهم أمرَ الله الذي حتم عليهم بالعذاب ، وأوجب عليهم شدَّة العقاب، {لا يعصونَ اللهَ ما أمَرَهم ويفعلون ما يُؤمرونَ}: وهذا فيه أيضاً مدحٌ للملائكة الكرام، وانقيادهم لأمر الله، وطاعتهم له في كلِّ ما أمرهم به.
[6] یعنی اے وہ لوگو جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان سے نوازا ہے! ایمان کے لوازمات اور اس کی شرائط کا التزام کرو، اس لیے ﴿ قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِیْكُمْ نَارًا﴾ ’’اپنے آپ کواور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ ‘‘ جو ان برے اوصاف سے متصف ہے۔ نفس کو بچانا یہ ہے کہ اس سے، اطاعت کا، اللہ تعالیٰ کے اوامر کا، اس کے نواہی سے اجتناب کا اور ایسے امور سے توبہ کا التزام کرایا جائے، جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور جو عذاب کے موجب ہیں۔اہل و عیال کو بچانا یہ ہے کہ ان کو ادب و علم سکھایا جائے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل پر مجبور کیا جائے۔پس بندہ صرف اسی وقت محفوظ ہوتا ہے جب وہ اپنے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں، جو اس کی سرپرستی میں اور اس کے تصرف کے تحت ہوں، اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کے یہ اوصاف اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کے حکم کو حقیر سمجھنے سے ڈریں، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾ ’’جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔‘‘ جیسا کہ فرمایا:﴿ اِنَّـكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ﴾ (الانبیاء: 21؍98) ’’تم اور تمھارے وہ خود ساختہ معبود جن کی تم اللہ کو چھوڑ کرعبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں،تمھیں جہنم میں وارد ہونا ہے۔‘‘ ﴿عَلَیْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ﴾ ’’جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں۔‘‘ ان فرشتوں کے اخلاق بہت درشت اور ان کا انتقام بہت برا ہو گا، جہنمی ان کی آوازیں سن کرگھبرائیں گے اور ان کو دیکھ کر خوف کھائیں گے، یہ فرشتے اپنی طاقت و قوت سے جہنمیوں کو رسوا کریں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کریں گے جس نے ان کے بارے میں عذاب کا حتمی فیصلہ کیا ہے اور سخت سزا ان پر واجب کی ہے۔ ﴿ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ﴾ ’’اللہ انھیں جو حکم دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انھیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔‘‘ اس میں بھی مکرم فرشتوں کی مدح، اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے ان کے سر تسلیم خم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر ان کی اطاعت کا ذکر ہے۔
آیت: 7 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (7)}.
اے لوگو جنھوں نے کفر کیا! نہ عذر پیش کرو تم آج، یقیناً بدلہ دیے جاؤ گے تم جو کچھ تھے تم عمل کرتے(7)
#
{7} أي: يوبَّخ أهل النار يوم القيامة بهذا التوبيخ، فيقال لهم: {يا أيُّها الذين كفروا لا تعتذروا اليوم}؛ أي: فإنَّه ذهب وقت الاعتذار وزال نفعه، فلم يبقَ الآنَ إلاَّ الجزاء على الأعمال، وأنتم لم تقدِّموا إلاَّ الكفر بالله والتكذيب بآياته ومحاربة رسله وأوليائِهِ.
[7] یعنی قیامت کے روز ان الفاظ میں جہنمیوں کو زجر و توبیخ کی جائے گی، پس ان سے کہا جائے گا :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ﴾ ’’اے کافرو! آج عذر مت پیش کرو۔‘‘ یعنی عذر پیش کرنے کا وقت چلا گیا اور اس کا فائدہ ختم ہو گیا، اب تو اعمال کی جزا و سزا کے سوا کچھ باقی نہیں اور تم نے اللہ تعالیٰ کے انکار، اس کی آیات کی تکذیب اور اس کے رسولوں اور اولیاء کے ساتھ جنگ کے سوا کچھ آگے نہیں بھیجا۔
آیت: 8 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (8)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! توبہ کرو تم اللہ کی طرف توبہ خالص ،امید ہے تمھارا رب یہ کہ دور کر دے تم سے تمھاری برائیاں اور وہ داخل کرے تمھیں ایسے باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں اس دن کہ نہیں رسوا کرے گا اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اس کے ساتھ، ان کا نور دوڑتا ہو گا ان کے آگے اور ان کے دائیں ، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! پورا فرما ہمارے لیے ہمارا نور اور مغفرت فرما ہماری، بلاشبہ تو ہر چیز پر خوب قادر ہے(8)
#
{8} قد أمر الله بالتوبة النَّصوح في هذه الآية، ووعد عليها بتكفير السيئات ودخول الجنات والفوز والفلاح، حين يسعى المؤمنون يوم القيامةِ بنور إيمانهم، ويمشون بضيائِهِ، ويتمتَّعون بروحِهِ وراحته، ويشفِقون إذا طُفِئَتِ الأنوار التي تُعطى المنافقين، ويسألون الله أن يُتِمَّ لهم نورَهم، فيستجيب الله دعوتَهم، ويوصلهم بما معهم من النور واليقين إلى جناتِ النعيم وجوار الربِّ الكريم، وكلُّ هذا من آثار التوبة النَّصوح، والمراد بها التَّوبة العامَّة الشاملة لجميع الذُّنوب ، التي عقدها العبدُ لله، لا يريد بها إلاَّ وجه الله والقرب منه، ويستمرُّ عليها في جميع أحواله.
[8] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خالص توبہ کا حکم دیا ہے، اس پر ان کے ساتھ برائیاں مٹا دینے، جنتوں میں داخل کرنے اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا ہے، جب قیامت کے دن اہل ایمان اپنے نور ایمان کے ساتھ اور اس کی روشنی میں چل رہے ہوں گے، اس کی خوشبو اور راحت سے متمتع ہو رہے ہوں گے اور اس روشنی کے بجھ جانے پر ڈریں گے جو منافقین کو دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ سے سوال کریں گے کہ وہ ان کے نور کو پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرمائے گا، ان کے پاس جو نور اور یقین ہو گا، اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انھیں نعمتوں بھری جنتوں اور رب کریم کے جوار میں پہنچا دے گا۔ یہ سب خالص توبہ کے آثار ہیں ۔خالص توبہ سے مراد وہ توبہ ہے جو ان تمام گناہوں کو شامل ہو جو بندے نے اللہ تعالیٰ کے حق میں کیے ہیں، اس توبہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کے سوا کچھ مقصود نہ ہو، پھر بندہ تمام احوال میں اس توبہ پر قائم رہے۔
آیت: 9 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (9)}.
اے نبی! آپ جہاد کیجیے کفار و منافقین سے اور سختی کیجیے ان پر اور ٹھکانا ان کا جہنم ہے اور بری ہے وہ جگہ پھرنے کی(9)
#
{9} يأمر اللهُ تعالى نبيَّه - صلى الله عليه وسلم - بجهاد الكفار والمنافقين والإغلاظ عليهم في ذلك، وهذا شاملٌ لجهادهم بإقامة الحجَّة عليهم ودعوتهم بالموعظة الحسنة وإبطال ما هم عليه من أنواع الضلال، وجهادهم بالسلاح والقتال لمن أبى أن يُجيبَ دعوةَ اللهِ وينقادَ لحكمه؛ فإنَّ هذا يجاهدُ ويغلظُ له، وأما المرتبة الأولى؛ فتكون بالتي هي أحسنُ؛ فالكفَّار والمنافقون لهم عذابٌ في الدُّنيا بتسليط الله لرسوله وحزبِهِ عليهم وعلى جهادهم، وعذاب النار في الآخرة {وبئس المصير}: الذي يصير إليها كل شقيٍّ خاسر.
[9] اللہ تعالیٰ اپنے نبی e کو کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کرنے اور اس بارے میں ان پر سختی کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں ان کے ساتھ دلیل کے ذریعے سے جہاد کرنا، ان کو اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دینا، گمراہی کی مختلف اقسام پر مبنی ان کے موقف کا ابطال کرنا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی دعوت کو قبول کرنے اور اس کے فیصلے کی اطاعت کرنے سے انکار کر دے، اس کے خلاف اسلحہ اور جنگ کے ذریعے سے جہاد کرنا، سب شامل ہے۔ پس ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان پر سختی کی جائے۔رہا جہاد کا پہلا مرتبہ، تو وہ اس ذریعے سے ہو جو بہترین ہے، پس کفار اور منافقین پر اور ان کے خلاف جہاد پر اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول e اور آپ کی جماعت کو لگانا دنیا کے اندر ان کے لیے عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب ہو گا جو بہت بری جگہ ہے جس کی طرف ہر بدبخت اور خائب و خاسر شخص لوٹے گا۔
آیت: 10 - 12 #
{ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ (10) وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (11) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (12)}
بیان فرمائی اللہ نے ایک مثال ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، نوح کی بیوی کی اور لوط کی بیوی کی، تھیں وہ دونوں زیر نکاح دو بندوں کے ہمارے بندوں میں سے (جو) نیک تھے، پس خیانت کی ان دونوں (عورتوں) نے ان کی تو نہ فائدہ دیا ان دونوں نے ان کو اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اور کہہ دیا گیا، داخل ہو جاؤ تم دونوں (عورتیں) آگ میں ساتھ داخل ہونے والوں کے (10) اور بیان فرمائی اللہ نے ایک مثال ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، فرعون کی بیوی کی، جب کہا اس نے، اے میرے رب! بنا میرے لیے اپنے ہاں ایک گھر جنت میں، اور نجات دے مجھے فرعون اور اس کے عمل (شر) سے اور نجات دے مجھے ظالم قوم سے (11) اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی وہ جس نے حفاظت کی اپنی عصمت کی تو پھونکی ہم نے اس (کے گریبان) میں اپنی روح، اور تصدیق کی اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی، اور تھی وہ فرماں برداروں میں سے (12)
یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کے لیے بیان کی ہیں تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ کافر کا مومن کے ساتھ اتصال اور مومن کا قرب کافر کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور مومن کا کافر کے ساتھ اتصال، مومن کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا اگر مومن فرائض کو پورا کرتا ہے۔ گویا اس میں ازواج مطہرات کے لیے معصیت سے بچنے کی تنبیہ ہے نیز رسول اللہ e کے ساتھ اتصال ان کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اگر انھوں نے برائی کی ہے، چنانچہ فرمایا:
#
{10} {ضَرَبَ الله مثلا للذين كَفَروا امرأة نوحٍ وامرأة لوطٍ كانتا}؛ أي: المرأتان {تحت عبدينِ من عبادِنا صالِحَيْنِ}: وهما نوحٌ ولوطٌ عليهما السلام، {فخانَتاهما}: في الدين؛ بأن كانتا على غير دين زوجيهما، وهذا المراد بالخيانة، لا خيانة النَّسب والفراش؛ فإنَّه ما بغت امرأةُ نبيِّ قطُّ، وما كان الله ليجعلَ امرأةَ أحدٍ من أنبيائه بَغِيًّا، {فلم يُغْنيا}؛ أي: نوحٌ ولوطٌ {عنهما}؛ أي: عن امرأتيها، {من اللهِ شيئاً وقيل} لهما {ادْخُلا النارَ مع الدَّاخِلين}.
[10] ﴿ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ١ؕ كَانَتَا﴾ ’’اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے، یہ دونوں تھیں۔‘‘ یعنی دونوں عورتیں ﴿ تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ﴾ ’’ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں۔‘‘ اور یہ تھے حضرت نوح اور حضرت لوطi ﴿فَخَانَتٰهُمَا﴾ ’’پس انھوں نے دونوں کی خیانت کی۔‘‘ یعنی دین میں (ان دونوں نے نبیوں کی خیانت کی) دونوں اپنے شوہروں کے دین کے سوا کسی اور دین پر تھیں۔ خیانت سے یہی معنیٰ مراد ہے اور اس سے نسب اور بستر کی خیانت مراد نہیں، کیونکہ کسی نبی کی بیوی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی بدکار عورت کو انبیائے کرام میں سے کسی کی بیوی ہی بنایا ہے۔ ﴿ فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا﴾ ’’پس نہ کام آئے وہ دونوں ان دونوں کے۔‘‘یعنی حضرت نوح اور لوطi اپنی بیویوں کے کچھ کام نہ آئے۔﴿ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔؔا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْ٘نَ﴾ ’’اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اور انھیں کہا گیا کہ وہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجائیں۔‘‘
#
{11} {وضرب الله مثلاً للذين آمنوا امرأةَ فرعونَ}: وهي آسيةُ بنتُ مزاحم رضي الله عنها، {إذ قالتْ ربِّ ابنِ لي عندك بيتاً في الجنَّة ونَجِّني من فرعونَ وعملِهِ ونجِّني من القوم الظَّالمين}: فوصفها الله بالإيمان والتضرُّع لربِّها وسؤالها أجلَّ المطالب، وهو دخول الجنَّة ومجاورة الربِّ الكريم، وسؤالها أن ينجِّيَها [اللَّهُ] من فتنة فرعون وأعماله الخبيثة ومن فتنة كلِّ ظالم، فاستجاب الله لها، فعاشتْ في إيمانٍ كامل وثباتٍ تامٍّ ونجاةٍ من الفتن، ولهذا قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «كَمُلَ من الرجال كثيرٌ، ولم يَكْمُلْ من النساء إلاَّ مريمُ بنتُ عمرانَ، وآسيةُ بنتُ مزاحم، وخديجةُ بنتُ خويلدٍ. وفضلُ عائشةَ على النساء كفضل الثريدِ على سائر الطعام ».
[11] ﴿ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ﴾ ’’اور اللہ نے مومنوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی۔‘‘اور وہ تھیں آسیہ بنت مزاحمr ﴿ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ٘ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’جب اس نے کہا: اے میرے رب! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل (شر) سے نجات دے، اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت آسیہ کا وصف بیان کیا کہ وہ ایمان رکھتی تھیں، اپنے رب کے سامنے گڑ گڑاتی تھیں، اللہ تعالیٰ سے مطالب جلیلہ کا سوال کرتی تھیں اور وہ ہے جنت میں دخول اور رب کریم کی مجاورت کا سوال، نیز وہ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتی تھیں کہ وہ اسے فرعون کے فتنے، اس کے اعمال بد اور ہر ظالم کے فتنہ سے نجات دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آسیہ r کی دعا قبول فرما لی، چنانچہ وہ ایمان کامل اور اس پر ثابت قدمی کے ساتھ زندہ رہیں اور تمام فتنوں سے بچی رہیں۔ بنابریں نبی مصطفیٰ e نے فرمایا: ’’مردوں میں سے مرتبۂ کمال کو پہنچنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم اور خدیجہ بنت خویلد کے سوا کوئی عورت مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچی، اور عائشہ rکی تمام عورتوں پر فضیلت ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔‘‘(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: ﴿ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ....﴾ (التحریم: 12,11/66، حديث: 3411، و صحيح مسلم، فضائل الصحابة، باب من فضائل خديجة أم المؤمنينr، حديث: 2431، والبداية والنهاية: 127/3)
#
{12} وقوله: {ومريمَ ابنة عمرانَ التي أحصنتْ فَرْجَها}؛ أي: حفظته وصانته عن الفاحشة؛ لكمال ديانتها وعفَّتها ونزاهتها، {فنَفَخْنا فيه من رُوحنا}: بأن نَفَخَ جبريل عليه السلام في جيب دِرْعها، فوصلت نفخته إلى مريم، فجاء منها عيسى عليه السلام الرسول الكريم والسيد العظيم، {وصَدَّقَتْ بكلماتِ ربِّها وكتبِهِ}: وهذا وصفٌ لها بالعلم والمعرفة؛ فإنَّ التصديق بكلمات الله يشمل كلماتِهِ الدينيَّة والقدريَّة، والتصديق بكتبه يقتضي معرفة ما به يحصلُ التَّصديق، ولا يكون ذلك إلاَّ بالعلم والعمل، ولهذا قال: {وكانت من القانتينَ}؛ أي: المداومين على طاعة الله بخشيةٍ وخشوعٍ. وهذا وصفٌ لها بكمال العمل؛ فإنَّها رضي الله عنها صدِّيقةٌ. والصدِّيقيَّة هي كمال العلم والعمل.
[12] ﴿ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا﴾ ’’اور عمران کی بیٹی مریم ، جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنی کامل دیانت، عفت اور پاکیزگی کی بنا پر ہر فحش کام سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ ﴿ فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا﴾ ’’پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘ جبریلu نے اس کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری اور ان کی یہ پھونک حضرت مریم تک پہنچی، چنانچہ اس طرح حضرت مریم [سے رسول کریم اور سید عظیم حضرت عیسیٰu متولد ہوئے ﴿ وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَؔكُتُبِهٖ﴾ ’’اور انھوں نے اپنے رب کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی۔‘‘ یہ حضرت مریم[ کو علم اور معرفت سے موصوف کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی تصدیق اس کے کلمات دینی اور قدری کی تصدیق کو شامل ہے، اس کی کتابوں کی تصدیق ان امور کا تقاضا کرتی ہے جن کے ذریعے سے تصدیق حاصل ہوتی ہے اور یہ علم و عمل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ بنابریں فرمایا: ﴿ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ﴾ ’’اور وہ فرماں برداروں میں سے تھیں۔‘‘ یعنی وہ خشیت اور خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنے والوں میں سے تھیں، یہ ان کے کمال عمل کا وصف ہے کیونکہ وہ صدیقہ تھیں اور صدیقیت کمال علم و عمل کا نام ہے۔