آیت:
تفسیر سورۂ طلاق
تفسیر سورۂ طلاق
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا (1) فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (3)}.
اے نبی! جب طلاق دو تم عورتوں (بیویوں) کو تو طلاق دو تم انھیں ان کی عدت کے (آغاز) میں اور شمار کرو تم عدت کو، اور ڈرو تم اللہ ( یعنی ) اپنے رب سے، نہ نکالو تم انھیں ان کے گھروں سے اور نہ وہ (خود) نکلیں مگر یہ کہ کریں وہ کوئی بے حیائی ظاہر اور یہ حدیں ہیں اللہ کی، اور جو کوئی تجاوز کرے حدود اللہ سے تو تحقیق اس نے ظلم کیا اپنے نفس پر، (طلاق دینے والے!) نہیں جانتا تو شاید کہ اللہ پیدا کر دے بعد اس (طلاق) کے کوئی (نئی) بات(1) پس جب پہنچیں وہ اپنی عدت (ختم ہونے) کو تو تم روک رکھو انھیں معروف طریقے سے یا جدا کر دو انھیں معروف طریقے سے اور گواہ بنا لو تم دو صاحب عدل آدمی اپنے میں سے، اور قائم کرو گواہی اللہ کے لیے یہ (حکم ہے وہ کہ) نصیحت کی جاتی ہے اس کی اس شخص کو جو ایمان لاتا ہے ساتھ اللہ اور دن قیامت کے، اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے تو وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ(2) اور رزق دیتا ہے اسے جہاں سے نہیں گمان کرتا وہ، اور جو کوئی توکل کرے گا اللہ پر تو وہ کافی ہے اسے، بلاشبہ اللہ پورا کرنے والا ہے اپنا کام تحقیق مقرر کیا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ(3)
#
{1} يقول تعالى مخاطباً لنبيِّه [محمد]- صلى الله عليه وسلم - وللمؤمنين: {يا أيُّها النبيُّ إذا طلَّقْتُم النساءَ}؛ أي: [إذا] أردتم طلاقهنَّ، {فـ}: التمسوا لطلاقهنَّ الأمر المشروع، ولا تبادروا بالطَّلاق من حين يوجد سببه من غير مراعاةٍ لأمر الله، بل {طلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}؛ أي: لأجل عدَّتهن؛ بأن يطلِّقَها زوجها وهي طاهرٌ في طهرٍ لم يجامِعْها فيه؛ فهذا الطلاق هو الذي تكون العدَّة فيه واضحةً بيِّنة؛ بخلاف ما لو طلَّقَها وهي حائضٌ؛ فإنَّها لا تحتسب تلك الحيضة التي وقع فيها الطلاق، وتطول عليها العدَّة بسبب ذلك، وكذلك لو طلَّقَها في طهرٍ وطئ فيه؛ فإنَّه لا يؤمَن حملها، فلا يتبيَّن ولا يتَّضح بأيِّ عدَّةٍ تعتدُّ، وأمر تعالى بإحصاء العدَّة، أي: ضبطها بالحيض إن كانت تحيض، أو بالأشهر إن لم تكن تحيضُ وليست حاملاً؛ فإنَّ في إحصائها أداءً لحقِّ الله، وحق الزوج المطلِّق، وحقِّ من سيتزوجها بعد، وحقِّها في النفقة ونحوها؛ فإذا ضبطت عدَّتها؛ علمت حالها على بصيرةٍ، وعلم ما يترتّب عليها من الحقوق وما لها منها، وهذا الأمر بإحصاء العدَّة يتوجَّه للزوج وللمرأة إن كانت مكلَّفة، وإلاَّ؛ فلوليِّها. وقوله: {واتَّقوا الله ربَّكم}؛ أي: في جميع أموركم، وخافوه في حقِّ الزوجات المطلَّقات. فـ {لا تخرجوهنَّ من بيوتهنَّ}: مدة العدَّة، بل تلزم بيتها الذي طلَّقها زوجها وهي فيه. {ولا يَخْرُجْنَ}؛ أي: لا يجوز لهنَّ الخروج منها، أما النَّهي عن إخراجها؛ فلأنَّ المسكن يجب على الزوج للزوجة لتستكمل فيه عدَّتها التي هي حقٌّ من حقوقه، وأما النهي عن خروجها؛ فلما في خروجها من إضاعة حقِّ الزوج وعدم صونه، ويستمرُّ هذا النهي عن الخروج من البيوت والإخراج إلى تمام العدَّة. {إلاَّ أن يأتينَ بفاحشةٍ مُبَيِّنَةٍ}؛ أي: بأمر قبيح واضح موجبٍ لإخراجها؛ بحيث يُدْخِلُ على أهل البيت الضَّرر من عدم إخراجها؛ كالأذى بالأقوال والأفعال الفاحشة؛ ففي هذه الحال يجوز لهم إخراجُها؛ لأنَّها هي التي تسبَّبت لإخراج نفسها، والإسكانُ فيه جبرٌ لخاطرها ورفقٌ بها؛ فهي التي أدخلت الضرر عليها. وهذا في المعتدَّة الرجعيَّة، وأمَّا البائن؛ فليس لها سكنى واجبةٌ؛ لأنَّ السكنى تبعٌ للنفقة، والنفقة تجب للرجعيَّة دون البائن. {وتلك حدودُ الله}؛ أي: التي حدَّها لعباده وشرعها لهم وأمرهم بلزومها والوقوف معها، {ومن يتعدَّ حدودَ الله}: بأن لم يقف معها، بل تجاوَزها أو قصَّر عنها، {فقد ظلم نفسَه}؛ أي: بخسها حقَّها ، وأضاع نصيبه من اتِّباع حدود الله التي هي الصلاحُ في الدُّنيا والآخرة. {لاتَدْري لعلَّ الله يحدِثُ بعد ذلك أمراً}؛ أي: شرع الله العدَّة، وحدَّد الطلاق بها لحِكَم عظيمةٍ: فمنها: أنَّه لعلَّ الله يحدِثُ في قلب المطلِّق الرحمة والمودَّة، فيراجع من طلَّقها، ويستأنف عشرتها، فيتمكَّن من ذلك مدَّة العدة، أو لعلَّه يطلِّقها لسبب منها، فيزول ذلك السبب في مدَّة العدَّة، فيراجعها؛ لانتفاء سبب الطلاق. ومن الحِكَم أنَّها مدة التربُّص يُعلم براءة رحمها من زوجها.
[1] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی e اور اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ﴾ ’’اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو۔‘‘ یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔ ﴿فَـــ﴾’’پس‘‘تم ان کو طلاق دینے کے لیے مشروع وجۂ طلاق تلاش کرو، جب طلاق کا سبب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رعایت رکھے بغیر طلاق دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ ﴿ طَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ ’’انھیں ان عدت کے (آغاز) وقت میں طلاق دو۔‘‘ یعنی ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو، وہ اس طرح کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے طاہر ہونے کی حالت میں، نیز اس طہر میں اس سے مجامعت کیے بغیر طلاق دے۔ پس یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت واضح ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے اپنی بیوی کے حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس کے دوران طلاق واقع ہوئی ہے تو اس سبب سے اس پر عدت کا عرصہ طویل ہو جائے گا۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو تو اس طرح وہ حمل سے مامون نہ ہو گی، لہٰذا واضح نہ ہو گا کہ وہ کون سی عدت شمار کرےجبکہ اللہ تعالیٰ نے عدت شمار کرنے کا حکم دیا ہے ﴿وَ اَحْصُوا الْعِدَّۃَ﴾یعنی اسے حیض کے ذریعے سے شمار کیا جائے۔ اگر بیوی کو حیض آتا ہے تو عدت کو حیض سے ضبط کرنا ہے اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو اور وہ حاملہ بھی نہ ہو تو اس کی عدت مہینوں کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ عدت کے شمار کرنے میں اللہ تعالیٰ، طلاق دینے والے شوہر اور بعد میں نکاح کرنے والے شوہر کے حقوق کی ادائیگی ہے، نیز اس میں مطلقہ کے نان و نفقہ وغیرہ کے حق کی ادائیگی ہے۔ پس جب عدت کو ضبط میں لایا جائے گا تو اس (کے حمل یا حیض وغیرہ) کا حال واضح طور پر معلوم ہو گا اور اس عدت پر مرتب ہونے والے حقوق معلوم ہوں گے۔عدت شمار کرنے کے اس حکم کا رخ شوہر اور بیوی کی طرف ہے، اگر بیوی مکلف ہے، ورنہ اس کے سر پرست کی طرف ہے۔﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ﴾ یعنی اپنے تمام امور میں تقویٰ اختیار کرو اور مطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ﴾ عدت کی مدت کے دوران ان کو اپنے گھروں سے نہ نکالو بلکہ مطلقہ اس گھر میں رہے جس گھر میں شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ﴿ وَلَا یَخْرُجْنَ﴾ ’’اور نہ وہ خود نکلیں۔‘‘ یعنی مطلقہ بیویوں کے لیے ان گھروں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ بیوی کو گھر فراہم کرنا شوہر پر واجب ہے تاکہ وہ اس گھر میں رہ کر عدت پوری کر سکے، جو شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اور مطلقہ بیوی کے خود گھر سے نکلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا شوہر کے حق کو ضائع کرنا اور اس کی عدم حفاظت ہے۔ طلاق یافتہ عورتوں کا خود گھر سے نکلنے یا ان کو نکالے جانے کا حکم عدت کو پورا ہونے تک باقی رہے گا۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّ٘اْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ﴾ ’’مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی کریں۔‘‘ یعنی ان سے کوئی واضح طور پر قبیح فعل سرزد ہو جو ان کو گھر سے نکالنے کا موجب ہو اور مطلقہ کو گھر سے نہ نکالنے سے گھر والوں کو ضرر پہنچتا ہو، مثلاً: فحش اقوال و افعال کے ذریعے سے اذیت وغیرہ۔ اس صورت حال میں مطلقہ کو گھر سے نکال دینا، گھر والوں کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو گھر سے نکالنے کا سبب بنی ہے، حالانکہ گھر میں سکونت کی اجازت دینا مطلقہ کی دل جوئی اور اس کے ساتھ نرمی ہے اور اپنے آپ پر اس ضرر کا سبب وہ خود بنی ہے۔ یہ حکم اس مطلقہ کے لیے ہے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رہی ہو۔ رہی وہ مطلقہ جس کی طلاق بائنہ ہو، اس کو سکونت فراہم کرنا واجب نہیں کیونکہ سکونت نان و نفقہ کے تابع ہے اور نان و نفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو، اس کے لیے نان و نفقہ نہیں ہے۔ ﴿ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ﴾ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں۔‘‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کر کے مشروع کیا ہے اور ان حدود کا التزام کرنے اور ان پر ٹھہرنے کا ان کو حکم دیا ہے ﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ﴾ ’’اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے۔‘‘ وہ اس طرح کہ وہ ان مقرر کردہ حدود پر نہ ٹھہرے بلکہ ان حدود سے تجاوز یا کوتاہی کرے ﴿ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ﴾ ’’تو یقیناً اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔‘‘ یعنی اس نے اپنا حق کم کیا اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی اتباع میں سے، جن میں دنیا و آخرت کی اصلاح ہے، اپنے حصے کو ضائع کیا۔ ﴿ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴾ ’’تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی سبیل پیدا کردے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کی بنا پر طلاق کو مشروع کر کے، اس کو عدت کے ذریعے سے محدود کیا ہے۔ان حکمتوں میں سے چند درج ذیل ہیں: (۱) عدت کی حکمت میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق دینے والے کے دل میں رحمت اور مودت پیدا کر دے اور طلاق دینے والا اس سے رجوع کر لے اور نئے سرے سے اس کے ساتھ رہنا سہنا شروع کر دے۔ یہ چیز ( یعنی مطلقہ سے رجوع کرنا) عدت کی مدت کی معرفت ہی سے ممکن ہے۔ (۲) ہو سکتا ہے شوہر نے بیوی کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر اس کو طلاق دی ہو اور عدت کی مدت میں وہ سبب دور ہو جائے تو وہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کر لے کیونکہ طلاق کا سبب ختم ہو گیا ہے۔ (۳) ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران اس خاوند کے حمل سے مطلقہ کے رحم کی براء ت معلوم ہو جائے گی۔
#
{2} وقوله: {فإذا بَلَغْنَ أجَلَهُنَّ}؛ أي: [إذا] قاربن انقضاء العدَّة؛ لأنهنَّ لو خرجنَ من العدَّة؛ لم يكن الزوج مخيَّراً بين الإمساك والفراق، {فأمسكوهنَّ بمعروفٍ}؛ أي: على وجه المعاشرة الحسنة والصحبة الجميلة، لا على وجه الضِّرار وإرادة الشرِّ والحبس؛ فإنَّ إمساكها على هذا الوجه لا يجوز، {أو فارِقوهنَّ بمعروفٍ}؛ أي: فراقاً لا محذور فيه، من غير تشاتُم ولا تخاصُم ولا قهرٍ لها على أخذ شيءٍ من مالها، {وأشهدوا}: على طلاقها ورجعتها، {ذَوَيْ عدلٍ منكم}؛ أي: رجلين مسلميْنِ عَدْلَيْنِ؛ لأنَّ في الإشهاد المذكور سدًّا لباب المخاصمة وكتمان كلٍّ منهما ما يلزم بيانه، {وأقيموا}: أيُّها الشهداء {الشهادةَ لله}؛ أي: ائتوا بها على وجهها من غير زيادةٍ ولا نقصٍ، واقصدوا بإقامتها وجهَ الله تعالى ، ولا تُراعوا بها قريباً لقرابته ولا صاحباً لمحبَّته. {ذلكم}: الذي ذكَرنا لكم من الأحكام والحدود، {يوعَظُ به مَن كان يؤمنُ باللهِ واليوم الآخر}: فإنَّ الإيمان بالله واليوم الآخر يوجِبُ لصاحبه أن يتَّعِظَ بمواعظ الله وأن يقدِّم لآخرته من الأعمال الصالحة ما يتمكَّن منها ؛ بخلاف من ترحَّل الإيمان من قلبه؛ فإنَّه لا يبالي بما أقدم عليه من الشرِّ، ولا يعظِّم مواعظ الله؛ لعدم الموجب لذلك. ولما كان الطلاق قد يوقع في الضيق والكرب والغمِّ؛ أمر تعالى بتقواه، ووعد مَنْ اتَّقاه في الطلاق وغيره بأن يجعل له فرجاً ومخرجاً. فإذا أراد العبد الطلاق، ففعله على الوجه الشرعيِّ، بأن أوقعه طلقةً واحدةً في غير حيضٍ ولا طهرٍ أصابها فيه ؛ فإنه لا يضيق عليه الأمر، بل جعل الله له فرجاً وسعةً يتمكَّن بها من الرجوع إلى النّكاح إذا ندم على الطلاق. والآية وإن كانت في سياق الطلاق والرجعة؛ فإنَّ العبرة بعموم اللفظ فكل من اتقى الله [تعالى] ولازم مرضاته في جميع أحواله؛ فإنَّ الله يثيبه في الدُّنيا والآخرة، ومن جملة ثوابه أن يجعل له فرجاً ومخرجاً من كلِّ شدَّة ومشقَّة، وكما أنَّ من اتَّقى الله؛ جعل له فرجاً ومخرجاً؛ فمن لم يتَّق الله؛ يقع في الآصار والأغلال التي لا يقدر على التخلُّص منها والخروج من تَبِعَتها، واعتبرْ ذلك في الطلاق ؛ فإنَّ العبد إذا لم يَتَّق الله فيه، بل أوقعه على الوجه المحرَّم؛ كالثلاث ونحوها؛ فإنَّه لا بدَّ أن يندم ندامةً لا يتمكَّن من استدراكها والخروج منها.
[2] ﴿ فَاِذَا بَلَ٘غْنَ اَجَلَهُنَّ﴾ یعنی جب طلاق یافتہ عورتیں عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں کیونکہ اگر انھوں نے عدت پوری کر لی تو شوہر کے پاس مطلقہ کو روک رکھنے یا جدا کر دینے کا اختیار نہیں رہتا۔ ﴿ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی ضرر پہنچانے کے لیے یا برائی اور محض محبوس رکھنے کے ارادے سے نہیں بلکہ حسن معاشرت اور صحبت جمیلہ کے طور پر ان کو روک لو، کیونکہ برائی اور محبوس رکھنے کے ارادے سے مطلقہ کو روکے رکھنا جائز نہیں۔ ﴿ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی اس طرح سے جدا کرنا کہ اس میں کوئی محذور امر نہ ہو، باہم گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے بغیر اور نہ مطلقہ کے مال میں سے کچھ لینے ہی کے لیے اس پر کوئی سختی ہو۔ ﴿ وَّاَشْهِدُوْا﴾ اور اس کی طلاق اور رجوع پر گواہ بنا لو ﴿ ذَوَیْ عَدْلٍ مِّؔنْكُمْ﴾ اپنے (مسلمانوں) میں سے دو عادل مردوں کو، کیونکہ مذکورہ گواہی میں مخاصمت کا اور ان دونوں کی طرف سے ایسے امور کے کتمان کا سدباب ہے جن کو بیان کرنا لازم ہے ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا﴾ اے گواہو! ٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ ﴿ الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ﴾’’گواہی اللہ کے لیے۔‘‘ یعنی کسی کمی بیشی کے بغیر گواہی کو اسی طرح ادا کرو جس طرح کہ وہ حقیقت میں ہے اور گواہی دینے میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھو اور گواہی میں کسی رشتہ دار کی، اس کی رشتہ داری اور کسی دوست کی، اس کی محبت کی وجہ سے رعایت نہ رکھو۔﴿ ذٰلِكُمْ﴾ ’’یہ‘‘ جو تمھارے سامنے احکام اور حدود بیان کی ہیں ﴿ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ ’’ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان، صاحب ایمان پر واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرے اور جتنے بھی نیک اعمال ممکن ہیں ،اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجے۔ اس شخص کے برعکس جس کے دل سے ایمان کوچ کر گیا، پس اسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس نے کیا برائی آگے بھیجی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ کی تعظیم نہیں کرتا کیونکہ اس کا موجب معدوم ہے۔ چونکہ طلاق کبھی کبھی تنگی، کرب اور غم میں مبتلا کر دیتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اور اس شخص کے ساتھ، جو طلاق وغیرہ میں تقویٰ پر مبنی رویہ اختیار کرتا ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لیے کشادگی اور (رنج و غم سے) نجات کی راہ نکالے گا۔پس جو کوئی طلاق کا ارادہ کرے تو وہ شرعی طریقے سے طلاق دے اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی طلاق دے اور وہ حیض میں ہونہ ایسے طہر میں جس میں اس نے مطلقہ کے ساتھ مجامعت کی ہو، تو اس کے لیے معاملہ تنگی کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فراخی اور وسعت پیدا کرتا ہے، جب اسے طلاق پر ندامت ہوتی ہے تو نکاح کے لیے مطلقہ کی طرف رجوع کرنا ممکن ہوتا ہے۔ آیت کریمہ اگرچہ طلاق اور رجوع کے سیاق میں ہے مگر اعتبار عمومِ لفظ کا ہے ،پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنے احوال میں اس کی رضا کا التزام کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اسے ثواب سے بہرہ مند کرتا ہے۔ منجملہ اس کا ثواب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی سختی اور مشقت میں سے اس کے لیے فراخی اور نجات کا راستہ پیدا کرتا ہے، جیسا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے فراخی اور نجات کی راہ نکالتا ہے اور جو کوئی اس سے نہیں ڈرتا وہ بوجھ تلے اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا رہتا ہے جن سے گلو خلاصی اور ان کے ضرر سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ طلاق کے معاملے میں اس پر غور کیجیے کیونکہ جب بندہ طلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، بلکہ حرام کردہ طریقے سے طلاق دیتا ہے، مثلاً: یک بارگی تینوں طلاقیں دے دیناوغیرہ تو اسے ایسی پشیمانی ہو گی کہ جس کا تدارک کرنا اور اس سے نجات حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو گا۔
#
{3} وقوله: {ويرزُقْه من حيث لا يحتسِبُ}؛ أي: يسوق الله الرزق للمتَّقي من وجه لا يحتسبه ولا يشعر به، {ومن يَتَوَكَّلْ على الله}: في أمر دينه ودنياه؛ بأن يعتمد على الله في جلب ما ينفعه ودفع ما يضرُّه ويثق به في تسهيل ذلك {فهو حسبُه}؛ أي: كافيه الأمر الذي توكَّل عليه فيه ، وإذا كان الأمرُ في كفالة الغنيِّ القويِّ العزيز الرحيم؛ فهو أقرب إلى العبد من كل شيء، ولكن ربَّما أن الحكمة الإلهيَّة اقتضت تأخيره إلى الوقت المناسب له؛ فلهذا قال تعالى: {إنَّ الله بالغُ أمرِه}؛ أي: لا بدَّ من نفوذ قضائه وقدره، ولكنه قد جعل {لكلِّ شيءٍ قَدْرَاً}؛ أي: وقتاً ومقداراً لا يتعدَّاه ولا يقصر عنه.
[3] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ اللہ تعالیٰ متقی شخص کے لیے ایسی جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے جہاں سے رزق کا آنا اس کے وہم و گمان میں ہوتا ہے نہ اسے اس کا شعور ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَؔكَّلْ عَلَى اللّٰهِ﴾ اور جو کوئی اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، یعنی کسی چیز کے حصول میں جو اس کے لیے نفع مند ہو اور کسی چیز کو دور ہٹانے میں جو اس کے لیے ضرر رساں ہو، اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور اس میں آسانی پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے ﴿ فَهُوَ حَسْبُهٗ﴾ تو وہ اس معاملے میں اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے ، جس میں اس نے اس پر بھروسہ کیا تھا۔ جب معاملہ غنی، قوی، غالب اور نہایت رحم والی ہستی کی کفالت میں ہے تو وہ ہستی بندے کے ہر چیز سے زیادہ قریب ہے۔ مگر بسا اوقات حکمت الٰہیہ مناسب وقت تک اس کی تاخیر کا تقاضا کرتی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بَ٘الِغُ٘ اَمْرِهٖ﴾ ’’بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کردیتا ہے۔‘‘ یعنی اس کی قضا و قدر کا نافذ ہونا لازمی امر ہے، مگر ﴿قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُ٘لِّ شَیْءٍ قَدْرًؔا﴾ اس نے ایک وقت اور ایک مقدار مقررکر رکھی ہے جس سے یہ چیز تجاوز کرتی ہے نہ کوتاہی کرتی ہے۔
آیت: 4 - 5 #
{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (4) ذَلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا (5)}.
اور وہ عورتیں جو مایوس ہو گئیں حیض سے تمھاری (مطلقہ) عورتوں میں سے، اگر شک میں پڑو تم تو ان کی عدت ہے تین مہینے، اور (اسی طرح) ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا (ابھی) اور (جو) حمل والیاں ہیں ان کی عدت وضع حمل (بچہ جننا) ہے اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے تو وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے اس کے کام میں آسانی(4) یہ حکم ہے اللہ کا، اس نے نازل کیا ہے اسے تمھاری طرف، اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے تو وہ دور کر دیتا ہے اس سے اس کی برائیاں اور زیادہ دیتا ہے اس کو اجر(5)
#
{4} لمَّا ذكر تعالى أن الطلاق المأمور به يكون لعدَّة النساء؛ ذكر العدَّة، فقال: {واللاَّئي يَئِسْنَ من المحيض من نسائِكُم}: بأن كنَّ يَحِضْنَ ثم ارتفع حيضُهُنَّ لكبرٍ أو غيره ولم يُرْجَ رجوعُه؛ فإنَّ عدَّتها ثلاثة أشهر، جعل كلَّ شهرٍ مقابلة حيضة. {واللاَّئي لم يَحِضْنَ}؛ أي: الصغار اللائي لم يأتهنَّ الحيضُ بعدُ أو البالغات اللاتي لم يأتهنَّ حيضٌ بالكلِّيَّة؛ فإنَّهنَّ كالآيسات، عدَّتهنَّ ثلاثة أشهر، وأمَّا اللائي يحِضْنَ؛ فذكر الله عدَّتهنَّ في قوله: {والمطلَّقاتُ يتربَّصْنَّ بأنفسهنَّ ثلاثةَ قروءٍ}. وقوله: {وأولاتُ الأحمال أجَلُهُنَّ}؛ أي: عدَّتُهنَّ {أن يَضَعْنَ حملَهُنَّ}؛ أي: جميع ما في بطونهنَّ من واحدٍ ومتعددٍ، ولا عبرة حينئدٍ بالأشهر ولا غيرها. {ومن يتَّقِ اللهَ يجعلْ له من أمره يُسراً}؛ أي: من اتَّقى الله يَسَّرَ له الأمور، وسهَّل عليه كلَّ عسير.
[4] چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ مامور بہ طلاق، عورتوں کی عدت کے لیے ہے، اس لیے عدت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَّ الّٰٓـِٔيْ یَىِٕسْنَ مِنَ الْ٘مَحِیْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ﴾ وہ عورتیں جن کو حیض آتا تھا ، پھر بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا اور دوبارہ حیض آنے کی امید نہ رہی تو ان کی عدت ﴿ ثَلٰ٘ثَةُ اَشْ٘هُرٍ﴾ ’’تین مہینے ہے‘‘ ہر حیض کے مقابلے میں ایک مہینہ مقرر کیا ہے۔ ﴿ وَّ الّٰٓـِٔيْ لَمْ یَحِضْ٘نَ﴾ یعنی چھوٹی لڑکیاں جن کو ابھی حیض نہیں آیا یا وہ بالغ عورتیں جن کو بالکل حیض نہیں آیا، ان عورتوں کی مانند ہیں جو حیض آنے سے مایوس ہو چکی ہیں، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ رہی وہ عورتیں جن کو حیض آتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عدت اپنے اس ارشا د میں بیان فرمائی ہے: ﴿ وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْ٘فُ٘سِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُ٘رُوْٓءٍ﴾ (البقرہ:2؍228) ’’اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔‘‘ ﴿ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُ٘هُنَّ﴾ ’’اور حمل والی عورتوں کی مقررہ مدت‘‘ یعنی ان کی عدت ﴿ اَنْ یَّ٘ضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ ’’وضع حمل تک ہے۔‘‘ یعنی ان کے بطن میں جو ایک یا متعدد بچے ہیں، ان کو وہ جنم دے دیں، اس صورت میں مہینوں وغیرہ کا اعتبار نہ ہو گا۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا﴾ یعنی جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تمام امور کو آسان اور ہر مشکل کو سہل کر دیتا ہے۔
#
{5} {ذلك}؛ أي: الحكم الذي بيَّنه الله لكم {أمرُ الله أنزلَه إليكم}: لتمشوا عليه وتأتمُّوا به وتُعظموه. {ومَن يتَّقِ الله يُكَفِّرْ عنه سيئاتِهِ ويُعْظِمْ له أجراً}؛ أي: يندفع عنه المحذور ويحصل له المطلوب.
[5] ﴿ ذٰلِكَ﴾ ’’یہ‘‘ حکم جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے سامنے بیان کیا ہے ﴿ اَمْرُ اللّٰهِ اَنْزَلَهٗۤ اِلَیْكُمْ﴾ ’’اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے۔‘‘ تاکہ تم اس پر چلو، اسے اپنا راہ نما بناؤ اور اس کی تعظیم کرو ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یُكَ٘ـفِّ٘رْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَیُعْظِمْ لَهٗۤ اَجْرًا﴾ ’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کے گناہ دور کردے گا اور اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔‘‘ یعنی محذور اس سے دور اور مطلوب اس کو حاصل ہو گا۔
آیت: 6 - 7 #
{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى (6) لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا (7)}.
تم رکھو انھیں جہاں تم (خود) رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق اور نہ تکلیف دو تم انھیں تاکہ تنگی کرو تم ان پر اور اگر ہوں وہ (مطلقات) حمل والیاں تو تم خرچ کرو ان پر یہاں تک کہ جن لیں وہ اپنا حمل ، پھر اگر وہ (بچے کو) دودھ پلائیں تمھارے لیے تو دو تم انھیں ان کی اجرت اور مشورہ کرو تم آپس میں دستور کے مطابق اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو دودھ پلائے گی اسے کوئی دوسری عورت(6) چاہیے کہ خرچ کرے وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور جو شخص کہ تنگ کیا گیا ہو اس پر رزق اس کا تو چاہیے کہ وہ خرچ کرے اس میں سے جو دیا ہے اس کو اللہ نے، نہیں تکلیف دیتا اللہ کسی نفس کو بھی مگر (اسی قدر) جو اس نے دیا ہے اس (نفس) کو عنقریب کر دے گا اللہ بعد تنگی کے آسانی(7)
#
{6} تقدَّم أنَّ الله نهى عن إخراج المطلَّقات عن البيوت، وهنا أمر بإسكانهنَّ وقدر إسكانهنَّ بالمعروف، وهو البيت الذي يسكنه مثلُه ومثلُها؛ بحسب وُجْد الزوج وعسره، {ولا تُضارُّوهنَّ لِتُضَيِّقوا عليهنَّ}؛ أي: لا تضاروهنَّ عند سكناهنَّ بالقول أو الفعل؛ لأجل أن يمللنَ فيخرجنَ من البيوت قبل تمام العدة، فتكونوا أنتم المخرِجين لهنَّ. وحاصل هذا أنَّه نهى عن إخراجهنَّ ونهاهنَّ عن الخروج، وأمر بسكناهنَّ على وجهٍ لا يحصلُ عليهن ضررٌ ولا مشقَّة، وذلك راجعٌ إلى العرف. {وإن كنَّ}؛ أي: المطلَّقات {أولاتِ حَمْلٍ فأنفقوا عليهنَّ حتى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ}: وذلك لأجل الحمل الذي في بطنها إن كانت بائناً، ولها ولحملها إن كانت رجعيةً، ومنتهى النَّفقة إلى وضع الحمل ؛ فإذا وضَعْنَ حملَهُنَّ؛ فإمَّا أن يرضِعْن أولادهنَّ أو لا، {فإنْ أرْضَعْنَ لكم فآتوهنَّ أجورهنَّ}: المسمَّاة لهنَّ إن كان مسمًّى، وإلاَّ؛ فأجر المثل، {وائْتَمِروا بينكم بمعروفٍ}؛ أي: ليأمر كلُّ واحدٍ من الزوجين وغيرهما الآخر بالمعروف، وهو كلُّ ما فيه منفعةٌ ومصلحةٌ في الدُّنيا والآخرة؛ فإنَّ الغفلة عن الائتمار بالمعروف يحصُلُ فيها من الضَّرر والشرِّ ما لا يعلمه إلاَّ الله، وفي الائتمار تعاونٌ على البرِّ والتَّقوى. ومما يناسب هذا المقام أنَّ الزوجين عند الفراق وقت العدَّة، خصوصاً إذا ولد بينهما ولدٌ، في الغالب يحصُلُ من التنازع والتشاجر لأجل النفقة عليها وعلى الولد مع الفراق الذي لا يحصُلُ في الغالب إلاَّ مقروناً بالبغض، فيتأثَّر من ذلك شيءٌ كثيرٌ، فكلٌّ منهما يؤمر بالمعروف والمعاشرة الحسنة وعدم المشاقَّة والمنازعة وينصحُ على ذلك، {وإن تعاسَرْتُم}: بأن لم يتَّفق الزوجان على إرضاعها لولدها، {فسترضِعُ له أخرى}: غيرها، و {لا جُناح عليكم إذا سلَّمتم ما آتيتم بالمعروف}، وهذا حيثُ كان الولد يقبلُ ثدي غير أمِّه؛ فإنْ لم يقبلْ إلاَّ ثدي أمِّه؛ تعينتْ لإرضاعه، ووجب عليها، وأجْبِرَتْ إن امتنعتْ، وكان لها أجرة المثل إن لم يتَّفقا على مسمًّى. وهذا مأخوذ من الآية الكريمة من حيث المعنى؛ فإنَّ الولد لمَّا كان في بطن أمِّه مدةَ الحمل لا خروج له منه ؛ عيَّن تعالى على وليِّه النفقة، فلما ولد وكان يتمكَّن أن يتقوَّت من أمِّه ومن غيرها؛ أباح تعالى الأمرين؛ فإذا كان بحالة لا يمكن أن يتقوَّت إلاَّ من أمِّه؛ كان بمنزلة الحمل، وتعينت أمُّه طريقاً لِقُوتِه.
[6] پیچھے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورتیوں کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور اس نے طلاق یافتہ عورتوں کو سکونت مہیا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو معروف طریقے سے سکونت مہیا کرنا مقرر فرمایا اور اس سے مراد ایسا گھر ہے جس میں شوہر کی تونگری یا عسرت کے مطابق ان کے ہم مرتبہ لوگ رہتے ہیں۔ ﴿ وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ۠ لِتُضَیِّقُوْا عَلَ٘یْهِنَّ﴾ یعنی ان کی سکونت کے دوران ان کو اپنے قول و فعل کے ذریعے سے، اس غرض سے تکلیف نہ پہنچاؤ کہ وہ عدت پوری ہونے سے پہلے تنگ آ کر گھروں سے نکل جائیں، اس صورت میں تم ان کو اپنے گھروں سے نکالنے والے شمار ہو گے۔ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقات کو گھروں سے نکالنے سے روکا ہے اور مطلقات کو بھی گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح سکونت فراہم کرنے کا حکم دیا ہے کہ مطلقات کو کوئی ضرر اور مشقت لاحق نہ ہو اور یہ عرف عام کی طرف راجع ہے۔ ﴿ وَاِنْ كُ٘نَّ﴾ ’’اور اگر ہوں وہ۔‘‘ یعنی مطلقات ﴿ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَ٘یْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾ ’’حمل والیاں تو وضع حمل تک ان پر خرچ کرو۔‘‘ اگر طلاق بائنہ ہے تو یہ نان و نفقہ اس حمل کی وجہ سے ہے جو اس کے پیٹ میں ہے اور اگر طلاق رجعی ہے تو یہ نفقہ خود اس کے لیے اور اس کے حمل کے لیے ہے۔ نان و نفقہ کی انتہا وضع حمل تک ہے۔ جب وضع حمل ہو جائے تو وہ اپنے بچوں کو دودھ پلائیں گی یا نہیں پلائیں گی ؟ ﴿ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ﴾ ’’پس اگر وہ بچے کو تمھارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔‘‘ یعنی طے شدہ اجرت اگر طے کی گئی ہو ورنہ وہ اجرت ادا کی جائے جو اس کے ہم مرتبہ لوگ ادا کرتے ہیں ﴿ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی میاں بیوی اور دیگر لوگ ایک دوسرے کو معروف کا حکم دیں اور معروف سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں دنیا و آخرت کی کوئی منفعت اور مصلحت ہو کیونکہ باہم ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کرنے میں غفلت برتنے سے ضرر اور شر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نیز باہم معروف کا حکم دینے میں نیکی اور تقویٰ پر تعاون ہے۔ اس مقام پر اس بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اتمام عدت پر، مفارقت کے وقت شوہر اور بیوی کے درمیان، خاص طور پر جب ان دونوں کا مشترکہ بچہ ہو، غالب حالات میں بیوی اور بچے کے نفقہ کے بارے میں جدائی کے ساتھ ساتھ تنازع اور جھگڑا واقع ہو جاتا ہے، جدائی عموماً بغض اور کینہ سے مقرون ہوتی ہے، جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوتی ہیں، لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کو نیکی، حسن معاشرت، عدم مشقت اور عدم منازعت کا حکم دیا جائے اور ان امور میں خیر خواہی کی جائے۔ ﴿ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ﴾ ’’اور اگر تم باہم ضد (اور نااتفاقی) کرو۔‘‘ یعنی اگر دونوں میاں بیوی اس امر پر متفق نہ ہوں کہ (مطلقہ) بیوی اپنے بچے کو دودھ پلائے ﴿ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰى﴾ تو اس مطلقہ بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلائے ۔فرمایا: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ﴾ (البقرہ:2؍233) ’’اگر تمھارا ارادہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جب تم وہ اجرت معروف طریقے سے ادا کر دو جو تم نے طے کی تھی۔‘‘ یہ اس صورت میں ہے جب بچہ اپنی ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت کا دودھ قبول کرتا ہو۔ اگر بچہ اپنی ماں کے سوا کسی عورت کا دودھ قبول نہ کرتا ہو، تو اس کی ماں رضاعت کے لیے متعین ہو گی اور ماں پر رضاعت واجب ہو گئی اور اگر وہ دودھ پلانے سے انکار کرے تو اس کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا، اور اگر دونوں میں اجرت پر اتفاق نہ ہو سکے تو اس کے لیے ہم مرتبہ دودھ پلانے والی کی اجرت ہے۔ یہ حکم اس آیت کریمہ کے معنیٰ سے ماخوذ ہے کیونکہ بچہ جب حمل کی مدت کے دوران اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہ تو باہر نہیں آ سکتا، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بچے کے ولی پر نفقہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اور جب بچہ متولد ہوتا ہے اور وہ خوراک اپنی ماں سے یا ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے حاصل کر سکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دونوں صورتیں مباح کر دی ہیں۔ چنانچہ بچہ اگرچہ ایسی حالت میں ہو کہ وہ اپنی ماں کے سوا کہیں سے خوراک نہ لیتا ہوں تو وہ بمنزلہ حمل کے ہے اور اس کی خوراک کے لیے اس کی ماں کو مقرر کیا جائے گا۔
#
{7} ثم قدَّر تعالى النفقة بحسب حال الزوج، فقال: {لِيُنفِقْ ذو سَعةٍ من سعتِهِ}؛ أي: لينفق الغنيُّ من غناه؛ فلا ينفق نفقة الفقراء، {ومن قُدِرَ عليه رزقُه}؛ أي: ضيِّق عليه، {فلينفِقْ ممَّا آتاه الله}: من الرزق. {لا يكلِّفُ الله نفساً إلاَّ ما آتاها}: وهذا مناسبٌ للحكمة والرحمة الإلهية؛ حيث جعل كلاًّ بحسبه، وخفَّف عن المعسر، وأنَّه لا يكلِّفه إلاَّ ما آتاه؛ فلا يكلِّف الله نفساً إلا وسعها في باب النفقة وغيرها، {سيجعلُ الله بعد عسرٍ يُسْراً}: وهذه بشارةٌ للمعسرين أنَّ الله تعالى سيزيلُ عنهم الشدَّة ويرفع عنهم المشقَّة؛ فإنَّ مع العسر يسراً، إنَّ مع العسر يسراً.
[7] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہر کی حیثیت کے مطابق نفقہ مقرر فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ﴾ ’’وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔‘‘یعنی دولت مند اپنی دولت کے مطابق خرچ کرے اور اس طرح خرچ نہ کرے جس طرح فقراء خرچ کرتے ہیں۔ ﴿ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ﴾ ’’اور جسے اس کا رزق نپا تلا ملے۔‘‘ یعنی جو تنگ دستی کا شکار ہو ﴿ فَلْ٘یُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ﴾ ’’تو وہ اسی (رزق) میں خرچ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔‘‘ ﴿ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا﴾ ’’اللہ کسی پر اتنی ہی ذمے داری ڈالتا ہے جتنا اس نے اسے دیا۔‘‘ اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت سے مناسبت رکھتی ہے کہ اس نے ہر ایک کو اس کے حسب حال مکلف کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو صرف اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنا اس کو رزق عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کسی جان کو نفقہ وغیرہ کے ضمن میں اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ ﴿ سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا﴾ یہ تنگ دست لوگوں کے لیے بشارت ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان پر سختی کو دور کر دے گا اور مشقت کو اٹھالے گا۔ کیونکہ ﴿ فَاِنَّ مَعَ الْ٘عُسْرِ یُسْرًا۰۰ اِنَّ مَعَ الْ٘عُسْرِ یُسْرً﴾’’ (الانشراح: 94/4، 5) ’’بلاشبہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔بلاشبہ ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
آیت: 8 - 12 #
{وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا (9) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللَّهَ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا (10) رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا (11) اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (12)}.
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ سرکشی کی انھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے امر سے تو ہم نے حساب لیا ان سے حساب سخت اور عذاب دیا ہم نے انھیں عذاب ہولناک(8) پس چکھا (ان بستیوں نے) وبال اپنے کام کا اور تھا انجام ان کے کام کا خسارہ ہی(9) تیار کیا ہے اللہ نے ان کے لیے عذاب شدید، پس ڈرو تم اللہ سے اے عقل مندو ! وہ لوگ جو ایمان لائے، تحقیق نازل کیا ہے اللہ نے تمھاری طرف ذکر (10) (یعنی ) رسول، وہ تلاوت کرتا ہے تم پر آیتیں اللہ کی واضح تاکہ وہ نکالے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل کیے نیک، اندھیروں سے نور کی طرف اور جو کوئی ایمان لائے ساتھ اللہ کے اور عمل کرے نیک تو وہ داخل کرے گا اسے ایسے باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں، وہ ہمیشہ رہیں گے ان میں ابد تک، تحقیق اچھا دیا اللہ نے اس کو رزق (11) اللہ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیے سات آسمان اور زمینیں بھی مثل ان (آسمانوں) کی،نازل ہوتا ہے (اس کا) حکم ان کے درمیان تاکہ تم جان لو بلاشبہ اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے اور بلاشبہ اللہ نے تحقیق گھیر رکھا ہے ہر چیز کو باعتبار علم کے (12)
#
{8 ـ 10} يخبر تعالى عن إهلاكه الأمم العاتية والقرونَ المكذِّبة للرُّسل، وأنَّ كثرتهم وقوَّتهم لم تُغْنِ عنهم شيئاً حين جاءهم الحساب الشديد والعذاب الأليم، وأنَّ الله أذاقَهم من العذاب ما هو موجبُ أعمالهم السيَّئة، ومع عذاب الدُّنيا؛ فإنَّ الله أعدَّ لهم في الآخرة عذاباً شديداً، {فاتَّقوا اللهَ يا أولي الألبابِ}؛ أي: يا ذوي العقول التي تفهم عن الله آياته وعبره، وأنَّ الذي أهلك القرون الماضية بتكذيبهم؛ أنَّ مَنْ بعدَهم مثلهم، لا فرق بين الطائفتين.
[10-8] اللہ تبارک و تعالیٰ سرکش قوموں اور رسولوں کی تکذیب کرنے والے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بارے میں آگاہ فرماتے ہیں کہ جب سخت اور درد ناک عذاب کا وقت آیا تو ان کی کثرت اور قوت ان کے کسی کام نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کا مزہ چکھایا جو ان کے اعمال بد کا نتیجہ تھا۔ دنیا کے عذاب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ’’پس ڈرو اللہ سے اے عقل رکھنے والو!‘‘ یعنی ایسی عقل جو اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کی عبرتوں اور اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ اسی ہستی نے گزرے ہوئے زمانے کے لوگوں کو ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کیا تو ان کے بعد آنے والے انھی کی مانند ہیں، دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں۔
#
{11} ثم ذكَّر عباده المؤمنين بما أنزل عليهم من كتابه الذي أنزله على رسوله محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ ليخرج الخلق من ظُلُمات الجهل والكفر والمعصية إلى نور العلم والإيمان والطاعة؛ فمن الناس من آمن به، ومنهم مَنْ لم يؤمنْ به، {ومَن يؤمِن بالله ويعملْ صالحاً}: من الواجبات والمستحبَّات، {يُدْخِلْهُ جناتٍ تجري من تحتِها الأنهارُ}: فيها من النعيم المقيم ما لا عينٌ رأتْ ولا أذنٌ سمعتْ ولا خطر على قلبِ بشرٍ. {خالدين فيها أبداً قد أحسنَ اللهُ له رِزْقاً}؛ أي: ومن لم يؤمن بالله ورسوله؛ فأولئك أصحابُ النار هم فيها خالدون.
[11] پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کا ذکر کیا جو اس کتاب پر ایمان لائے جو اس نے ان پر نازل کی، جو اس نے اپنے رسول محمد مصطفیe پر اتاری تاکہ وہ مخلوق کو کفر، جہالت اور معصیت کی تاریکیوں سے نکال کرعلم و ایمان اور اطاعت کی روشنی میں لائے، پس کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئے اور ان میں سے کچھ لوگ ایمان نہیں لائے۔ ﴿ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا﴾ ’’اور جو ایمان لائے اللہ پر اور نیک عمل کرے ۔‘‘ یعنی واجبات و مستحبات پر عمل کرے ﴿ یُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔‘‘ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا تصور آیا ہے۔ ﴿ خٰؔلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزْقًا﴾ ’’وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے انھیں خوب رزق دیا ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یہی لوگ جہنمی ہیں وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
#
{12} ثم أخبر تعالى أنَّه خلق السماوات والأرض ومن فيهنَّ والأرضين السبع ومن فيهنَّ وما بينهنَّ، وأنزل الأمر، وهو الشرائع والأحكام الدينيَّة، التي أوحاها إلى رسله لتذكير العباد ووعظهم، وكذلك الأوامر الكونيَّة والقدريَّة التي يدبِّر بها الخلق؛ كلُّ ذلك لأجل أن يعرِفَه العباد ويعلموا إحاطةَ قدرته بالأشياء كلِّها وإحاطة علمِهِ بجميع الأشياء؛ فإذا عَرَفوه بأسمائه الحسنى وأوصافه المقدَّسة ؛ عبدوه وأحبُّوه وقاموا بحقِّه؛ فهذه الغاية المقصودة من الخلق والأمْر؛ معرفة الله وعبادته، فقام بذلك الموفَّقون من عباد الله الصالحين، وأعرض عن ذلك الظالمون المعرضون.
[12] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی کہ اس نے تمام آسمانوں اور ان کے رہنے والوں، ساتوں زمینوں اور ان پر بسنے والوں اور ان تمام چیزوں کو پیدا کیا جو ان کے درمیان ہیں، اور اس نے اپنا امر نازل فرمایا اور وہ ہیں شرائع اور دینی احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کو وعظ و نصیحت کے لیے اپنے رسولوں پر وحی کیا۔ اسی طرح اس نے تکوینی اور قدری احکام نازل فرمائے، جن کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کی تدبیر کرتا ہے، یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بندے اس کو پہچانیں اور جان لیں کہ اس کی قدرت تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے اور اس کا علم تمام اشیاء پر محیط ہے۔ جب وہ اس کو اس کے اسمائے حسنیٰ اور اوصاف مقدسہ کے ذریعے سے پہچان لیں گے تو وہ اس کی عبادت کریں گے، اس سے محبت کریں گے اور اس کے حقوق کو ادا کریں گے۔ خلق و امر کا یہی مقصد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول اور اس کی عبادت، پس اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے جن کو توفیق سے بہرہ مندہ کیا گیا ہے وہ اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں جبکہ ظالم اور روگردانی کرنے والے لوگ اس سے روگرداں ہیں۔