آیت:
تفسیر سورۂ صف
تفسیر سورۂ صف
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
آیت: 1 - 3 #
{سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (3)}.
تسبیح کرتی ہے اللہ کے لیے جو چیز ہے آسمانوں میں اور جو چیز ہے زمین میں، اور وہ بڑا زبردست خوب حکمت والا ہے(1) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو تم وہ جو نہیں کرتے تم؟(2) بڑی ہے باعتبار ناراضی کے نزدیک اللہ کے یہ (بات) کہ کہو تم وہ جو نہیں کرتے تم(3)
#
{1} وهذا بيانٌ لعظمته تعالى وقهره وذلِّ جميع الأشياء له تبارك وتعالى وأنَّ جميع مَن في السماوات والأرض يسبِّحون بحمدِ ربِّهم ويعبُدونه ويسألونَه حوائجهم. {وهو العزيزُ}: الذي قهر الأشياء بعزَّته وسلطانِهِ. {الحكيمُ}: في خلقه وأمره.
[1] یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غلبے کا بیان ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ تمام اشیاء اس کے سامنے سرافگندہ ہیں اور آسمانوں اور زمین کے تمام رہنے والے، اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے اپنی حوائج طلب کرتے ہیں۔ ﴿ وَهُوَ الْ٘عَزِیْزُ﴾ ’’اور وہ غالب ہے۔‘‘ یعنی اپنے غلبہ اور تسلط کے ذریعے سے تمام اشیاء پر قاہر ہے۔ ﴿ الْحَكِیْمُ﴾ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔
#
{2 ـ 3} {يا أيُّها الذين آمنوا لم تقولونَ ما لا تفعلونَ}؛ أي: لم تقولونَ الخير وتحثُّون عليه، وربما تمدَّحتم به وأنتم لا تفعلونه، وتَنْهَوْنَ عن الشرِّ، وربَّما نزَّهتم أنفسكم عنه وأنتم متلوِّثون متَّصفون به؛ فهل تليقُ بالمؤمنين هذه الحالة الذَّميمة؟! أم من أكبر المقت عند الله أن يقولَ العبدُ ما لا يفعل؟! ولهذا ينبغي للآمر بالخير أن يكونَ أولَ الناس إليه مبادرةً، والناهي عن الشرِّ أن يكون أبعدَ الناس عنه ؛ قال تعالى: {أتأمرونَ الناس بالبِرِّ وتَنسَوْنَ أنفسَكم وأنتُم تتلونَ الكِتابَ أفَلا تَعْقِلونَ}، وقال شعيبٌ عليه السلام [لقومه]: {وما أريدُ أن أخالِفَكُم إلى ما أنهاكم عنه}.
[2، 3] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ اے ایمان والو! تم نیکی کی باتیں کیوں کرتے ہو اور کیوں لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہو، بسا اوقات اس پر تمھاری تعریف بھی کی جاتی ہے اور حال تمھارا یہ ہے کہ تم خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ تم لوگوں کو بدی سے روکتے ہو اور بسا اوقات تم خود اپنے آپ کو اس سے پاک قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اس بدی میں ملوث اور اس سے متصف ہو۔ کیا یہ مذموم حالت مومنوں کے لائق ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی ناراضی کی بات ہے کہ بندہ ایسی بات کہے جس پر خود عمل نہ کرتا ہو؟ اس لیے نیکی کا حکم دینے والے کے لیے مناسب یہی ہے کہ لوگوں میں سب سے پہلے اس نیکی کی طرف سبقت کرنے والا ہو اور بدی سے روکنے والا، لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس بدی سے دور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَتَاْمُرُوْنَؔ النَّاسَ بِالْـبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَؔ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَؔ﴾ (البقرۃ:2؍44) ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہوباوجود یکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں؟‘‘ حضرت شعیب uنے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰؔىكُمْ عَنْهُ﴾ (ھود:11؍88) ’’میں نہیں چاہتا کہ جس کام سے میں تمھیں منع کرتا ہوں، اسے خود کرنے لگوں۔‘‘
آیت: 4 #
{إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ (4)}.
بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں صف بستہ، گویا کہ وہ ایک عمارت ہیں سیسہ پلائی ہوئی(4)
#
{4} هذا حثٌّ من الله لعباده على الجهاد في سبيله، وتعليمٌ لهم كيف يصنعون، وأنهم ينبغي لهم أن يَصُفُّوا في الجهاد صفًّا متراصًّا متساوياً من غير خلل يحصُلُ في الصفوف، وتكون صفوفُهم على نظام وترتيبٍ به تحصُلُ المساواة بين المجاهدين والتعاضُد وإرهاب العدوِّ وتنشيط بعضهم بعضاً، ولهذا كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - إذا حضر القتال؛ صفّ أصحابه ورتَّبهم في مواقفهم بحيث لايحصُلُ اتِّكالُ بعضهم على بعض، بل تكون كلُّ طائفةٍ منهم مهتمةً بمركزها وقائمةً بوظيفتها، وبهذه الطريقة تتمُّ الأعمال ويحصُلُ الكمال.
[4] یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب اور اس بات کی تعلیم ہے کہ انھیں جہاد میں کیا کرنا چاہیے۔ ان کے لیے مناسب ہے کہ وہ جہاد میں ایک دوسرے کے ساتھ برابر کھڑے ہو کر صف بندی کریں اور صفوں میں کوئی خلل واقع نہ ہو، صفیں ایک نظم اور ترتیب کے مطابق ہوں جس سے مجاہدین کے مابین مساوات اور ایک دوسرے کے لیے قوت اور دشمن پر رعب طاری ہوتا ہو اور اس سے مجاہدین میں ایک دوسرے کے لیے نشاط پیدا ہوتا ہو۔بنابریں جب لڑائی کا وقت آ جاتا، تو رسول اللہ e خود اپنے اصحاب کرام کی صف بندی کرتے اور ان کو ان کی اپنی اپنی جگہوں پر اس طرح ترتیب دیتے، جہاں وہ ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں، بلکہ ہر دستہ اپنے مرکز کے ساتھ رابطے کا اہتمام رکھے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرے، اس طریق کار سے ہی کام پایۂ اتمام کو پہنچتا اور کمال حاصل ہوتا ہے۔
آیت: 5 #
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (5)}.
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے: اے میری قوم! کیوں ایذا دیتے ہو تم مجھے حالانکہ تم جانتے ہو کہ بلاشبہ میں رسول ہوں اللہ کا تمھاری طرف؟ پس جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو ٹیڑھے کر دیے اللہ نے ان کے دل اور اللہ نہیں ہدایت دیتا فاسق قوم کو(5)
#
{5} أي: {وإذْ قال موسى لقومِهِ}: موبخاً لهم على صنيعهم، ومقرعاً لهم على أذيَّته، وهم يعلمون أنَّه رسول الله: {لم تُؤذونَني}: بالأقوال والأفعال، {وقد تعلمونَ أنِّي رسولُ الله إليكم}: والرسولُ من حقِّه الإكرام والإعظام والقيام بأوامره والابتدار لحكمِهِ، وأمَّا أذيَّة الرسول الذي إحسانُه إلى الخلق فوق كلِّ إحسان بعد إحسان الله؛ ففي غاية الوقاحة والجراءة والزيغ عن الصراط المستقيم، الذي قد عَلِموه وتَرَكوه، ولهذا قال: {فلمَّا زاغوا}؛ أي: انصرفوا عن الحقِّ بقصدهم، {أزاغَ الله قلوبَهم}: عقوبةً لهم على زيغهم الذي اختاروه لأنفسهم ورضوه لها، ولم يوفِّقْهم الله للهدى؛ لأنَّهم لا يَليقُ بهم الخير ولا يَصلُحون إلاَّ للشرِّ. {والله لا يهدي القومَ الفاسقينَ}؛ أي: الذينَ لم يزلِ الفسقُ وصفاً لهم، ليس لهم قصد في الهدى. وهذه الآية الكريمة تفيد أن إضلال الله لعبيده ليس ظلماً منه ولا حجَّة لهم عليه، وإنَّما ذلك بسببٍ منهم؛ فإنَّهم الذين أغلقوا على أنفسهم باب الهدى بعدما عرفوه، فيجازيهم بعد ذلك بالإضلال والزيغ وتقليب القلوب عقوبةً لهم وعدلاً منه بهم؛ كما قال تعالى: {ونقلِّبُ أفئِدَتَهم وأبصارَهم كما لم يؤمِنوا به أولَ مرةٍ ونَذَرُهُم في طغيانِهم يعمهونَ}.
[5] ﴿ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰؔى لِقَوْمِهٖ﴾ ’’اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا۔‘‘ یعنی ان کے کرتوت پر زجر و توبیخ کرتے ہو ئے اور انھیں آپ کو اللہ کا رسول سمجھنے کے باوجود اذیت پہنچانے سے باز رکھتے ہوئے حضرت موسیٰu نے اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ﴾ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مجھے کیوں اذیت دیتے ہو؟ ﴿ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ﴾ ’’اور تم جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘ رسول کی اکرام و تعظیم، اس کے احکامات کی تعمیل اور اس کے فیصلے کو قبول کرنا رسول کا حق ہے۔رہا رسول کو اذیت پہنچانا جس کا مخلوق پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بعد سب سے بڑا احسان ہےتو یہ سب سے بڑی بے شرمی، جسارت اور صراط مستقیم سے انحراف ہے، جسے جان بوجھ کر انھوں نے ترک کر دیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْۤا﴾ ’’پس جب انھوں نے کج روی کی۔‘‘ یعنی اپنے ارادے سے حق سے پھر گئے ﴿ اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ﴾ ’’تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے۔‘‘ یعنی ان کی کج روی کی سزا کے طور پر، جسے انھوں نے اپنے لیے خود چنا اور اس پر راضی ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی توفیق نہ دی، وہ شر کے سوا کسی چیز کے قابل نہ تھے۔ ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ’’اور اللہ فاسق و نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ یعنی وہ لوگ کہ فسق جن کا وصف ہےاور وہ ہدایت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو گمراہ کرنا، اس کا ظلم نہیں اور نہ بندوں کی اس پر کوئی حجت ہےبلکہ اس گمراہی کا سبب وہ خود ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کو پہچان لینے کے بعد اپنے آپ پر ہدایت کے دروازے خود بند کر لیے ہیں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بدلے کے طور پر سزا دیتے ہوئے اور اپنے عدل کی بنا پر ان کو گمراہی اور کجروی میں مبتلا کر تے ہوئے ان کے دلوں کو بدل ڈالتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ﴾ (الانعام:6؍110) ’’ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو بدل ڈالتے ہیں جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
آیت: 6 - 9 #
{وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَابَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ (6) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (7) يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (8) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (9)}.
اور جب کہا عیسیٰ ابن مریم نے: اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں رسول ہوں اللہ کا تمھاری طرف، تصدیق کرنے والا اس کی جو مجھ سے پہلے ہے تورات، اور بشارت دینے والا ایک رسول کی، وہ آئے گا میرے بعد اس کا نام احمد ہے ، پھر جب وہ (رسول) آیا ان کے پاس واضح دلیلوں کے ساتھ تو انھوں نے کہا، یہ جادو ہے ظاہر(6) اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جو گھڑے اللہ پر جھوٹ حالانکہ بلایا جاتا ہے وہ طرف اسلام کی؟ اور اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم قوم کو(7) وہ چاہتے ہیں کہ بجھا دیں نور اللہ کا اپنے مونہوں سے جبکہ اللہ پورا کرنے والا ہے اپنا نور اگرچہ ناپسند کریں کافر(8) وہ، وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ساتھ ہدایت اور دین حق کے تاکہ وہ غالب کرے اس کو اوپر تمام دینوں کے اگرچہ ناپسند کریں مشرک(9)
#
{6} يقول تعالى مخبراً عن عناد بني إسرائيل المتقدِّمين الذين دعاهم عيسى بن مريم وقال لهم: {يا بني إسرائيلَ إنِّي رسولُ اللهِ إليكم}؛ أي: أرسلني الله لأدعوكم إلى الخير وأنهاكم عن الشرِّ، وأيَّدني بالبراهين الظاهرة، ومما يدلُّ على صدقي كوني {مصدِّقاً لما بين يديَّ من التَّوراة}؛ أي: جئت بما جاء به موسى من التوراة والشرائع السماويَّة، ولو كنت مدَّع للنبوَّةِ؛ لجئتُ بغير ما جاء به المرسلون، و {مصدِّقاً لما بين يديَّ من التَّوراة}: أيضاً أنها أخبرت بي وبشَّرت، فجئتُ وبعثتُ مصدقاً لها، {ومبشراً برسول يأتي من بعدي اسمُهُ أحمدُ}: وهو محمد بن عبد الله بن عبد المطلب النبيُّ الهاشميُّ؛ فعيسى عليه الصلاة والسلام كسائر الأنبياء ؛ يصدِّق بالنبيِّ السابق، ويبشِّر بالنبيِّ اللاحق؛ بخلاف الكذَّابين؛ فإنَّهم يناقضون الأنبياء أشدَّ مناقضة، ويخالِفونهم في الأوصاف والأخلاق والأمرِ والنهي، {فلمَّا جاءهم}: محمدٌ - صلى الله عليه وسلم - الذي بَشَّرَ به عيسى {بالبيِّناتِ}؛ أي: الأدلَّة الواضحة الدالَّة على أنه هو، وأنَّه رسول الله حقًّا، {قالوا}: معاندين للحقِّ مكذِّبين له: {هذا سحرٌ مبينٌ}: وهذا من أعجب العجائب، الرسول الذي قد وضحت رسالتُه وصارتْ أبين من شمس النهار؛ يُجعل ساحراً بيِّناً سحره؛ فهل في الخذلان أعظم من هذا؟! وهل في الافتراء أبلغ من هذا الافتراء الذي نفى عنه ما كان معلوماً من رسالته وأثبتَ له ما كان أبعد الناس عنه ؟!
[6] اللہ تبارک و تعالیٰ متقدمین بنی اسرائیل کے عناد کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، جن کو حضرت عیسیٰ u نے دعوت دی اور فرمایا: ﴿ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ﴾ یعنی اے بنی اسرائیل! مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے تاکہ میں تمھیں بھلائی کی طرف بلاؤ ں اور برائی سے روکوں، اللہ تعالیٰ نے ظاہری دلائل و براہین کے ذریعے سے میری تائید فرمائی ہے، جو میری صداقت پر دلالت کرتی ہیں نیز اس بات پر دلالت کرتی ہیں ﴿ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ﴾ کہ میں اپنے سے پہلے آنے والی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ یعنی میں وہی کچھ لے کر آیا ہوں جو موسیٰ u تورات اور آسمانی شریعت میں سے لے کر آئے تھے۔ اگر میں نبوت کا ایسا مدعی ہوتا، جو اپنے دعوائے نبوت میں سچا نہیں ہوتا، تو میں ایسی چیز لاتا جسے انبیاء و مرسلین لے کر نہیں آئے۔ میرا اپنے سے پہلے آنے والی کتاب تورات کی تصدیق کرنا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تورات نے میری بعثت کی خبر اور میرے آنے کی خوشخبری دی ہے اور مجھے تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ﴿ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ﴾ ’’اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔‘‘ اور وہ ہیں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب الہاشمی(e) پس حضرت عیسیٰ u تمام انبیائے کرام کی طرح سابق گزرے ہوئے نبی کی تصدیق کرتے اور بعد میں آنے والے نبی کی بشارت دیتے ہیں، بخلاف نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے جو انبیاء و مرسلین سے سخت منافقت رکھتے ہیں اور اوصاف و اخلاق اور امر و نہی میں ان کے خلاف ہوتے ہیں۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمْ﴾ پس جب ان کے پاس محمد e مبعوث ہو کر تشریف لے آئے جن کی عیسیٰu نے بشارت دی تھی ﴿ بِالْبَیِّنٰتِ﴾ واضح دلائل کے ساتھ، جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کی بشارت دی گئی ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں ﴿ قَالُوْا﴾تو انھوں نے حق سے عناد رکھتے اور اسے جھٹلاتے ہوئے کہا: ﴿ هٰؔذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ ’’یہ صریح جادو ہے۔‘‘ اور یہ عجیب ترین بات ہے کہ وہ رسول جس نے اپنی رسالت کو پوری طرح واضح کر دیا ہے، اور وہ سورج سے زیادہ نمایاں ہو گئی ہے، اسے جادوگر قرار دیا جائے کہ جس کا جادو واضح ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی اور خذلان ہے؟ اور اس افترا پردازی سے زیادہ بلیغ کوئی اور افترا پردازی ہے؟ جس نے اس حقیقت کی نفی کر دی جو آپ کی رسالت میں سے معلوم ہے اور اس چیز کا اثبات کر دیا جس سے آپ لوگوں میں سب سے زیادہ دور ہیں۔
#
{7} {ومن أظلمُ ممَّنِ افترى على الله الكذب}: بهذا أو غيره والحال أنه لا عذر له وقد انقطعت حجته لأنه {يدعى إلى الإسلام}: ويُبَيَّن له ببراهينه وبيناته، {واللهُ لا يهدي القوم الظالمينَ}: الذين لا يزالون على ظلمهم مستقيمين، لا تردُّهم عنه موعظةٌ ولا يزجُرُهُم بيانٌ ولا برهانٌ، خصوصاً هؤلاء الظَّلمة القائمين بمقابلة الحقِّ ليردُّوه، ولينصروا الباطل.
[7] ﴿ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ﴾ ’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔‘‘ جو یہ بہتان طرازی یا اس کے علاوہ بہتان طرازی کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس کوئی عذر نہیں، اور اس کی حجت منقطع ہو گئی، کیونکہ ﴿ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِ﴾ ’’وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے۔‘‘ اور اس پر اسلام کے دلائل و براہین واضح ہو گئے ہیں ﴿ وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ جو اپنے ظلم پر قائم ہیں، جنھیں کوئی نصیحت اپنے ظلم سے باز رکھ سکتی ہے نہ کوئی دلیل و برہان اس سے ہٹا سکتی ہے، خاص طور پر یہ ظالم لوگ جو حق کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اسے ٹھکرا دیں اور باطل کی مدد کریں۔
#
{8} ولهذا قال [اللَّه] عنهم: {يريدونَ لِيُطْفِئوا نورَ الله بأفواههم}؛ أي: بما يَصْدُرُ منهم من المقالات الفاسدة التي يردُّون بها الحقَّ، وهي لا حقيقة لها، بل تزيد البصير معرفةً بما هم عليه من الباطل، {والله متمُّ نورِهِ ولو كَرِهَ الكافرونَ}؛ أي: قد تكفَّل الله بنصر دينه وإتمام الحقِّ الذي أرسل به رسلَه وإظهار نورِهِ في سائر الأقطار، ولو كَرِهِ الكافرونَ، وبَذَلوا بسبب كراهته كلَّ ما قدروا عليه مما يتوصَّلون به إلى إطفاء نور الله؛ فإنَّهم مغلوبون، ومَثَلُهم كمثل مَن ينفخ عين الشمس بفيه ليطفِئَها؛ فلا على مرادهم حصلوا، ولا سلمتْ عقولهم من النقص والقدح فيها.
[8] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ﴾ ’’وہ اپنے منہ سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنی ان فاسد باتوں کے ذریعے سے جو ان سے صادر ہوتی ہیں اور جس کے ذریعے سے وہ حق کو ٹھکرانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ اس باطل کے بارے میں صاحب بصیرت کی بصیرت میں اضافہ کرتی ہیں، جن میں وہ سرگرداں ہیں ﴿ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْ٘كٰفِرُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت، حق کی تکمیل جس کے ساتھ اس نے اپنے رسول بھیجے، اور تمام دنیا میں اپنے نور کو ظاہر کرنے کا ذمہ لیا ہے، خواہ کافروں کو یہ بات ناگوار ہی کیوں نہ گزرے اور اس ناگواری کے سبب سے وہ اپنی پوری کوشش کر لیں جس پر وہ قدرت رکھتے ہوں اور جس کو وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانے کا وسیلہ بنا سکتے ہوں مگر وہ مغلوب ہی ہوں گے۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو سورج کی روشنی کو بجھانے کے لیے اپنے منہ سے پھونکیں مارے، چنانچہ انھوں نے اپنی مراد پائی نہ ان کی عقل، نقص اور جرح و قدح سے سلامت ہے۔
#
{9} ثم ذكر سبب الظُّهور والانتصار للدين الإسلاميِّ الحسِّي والمعنويِّ، فقال: {هو الذي أرسل رسولَه بالهُدى ودين الحقِّ}: أي: بالعلم النافع والعمل الصالح، بالعلم الذي يهدي إلى الله وإلى دار كرامته، ويهدي لأحسن الأعمال والأخلاق، ويهدي إلى مصالح الدُّنيا والآخرة، {ودين الحقِّ}؛ أي: الدين الذي يُدان به ويُتَعَبَّدُ لربِّ العالمين، الذي هو حقٌّ وصدقٌ لا نقص فيه ولا خلل يعتريه، بل أوامره غذاءُ القلوب والأرواح وراحةُ الأبدان، وترك نواهيه سلامةً من الشرِّ والفساد ، فما بُعِثَ به النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - من الهدي ودين الحقِّ أكبر دليل وبرهان على صدقِهِ، وهو برهانٌ باقٍ ما بقي الدهر، كلَّما ازداد به العاقل تفكُّراً؛ ازداد به فرحاً وتبصُّراً. {ليظهِرَه على الدِّين كلِّه}؛ أي: ليعليه على سائر الأديان بالحجَّة والبرهان، ويُظْهِرَ أهلَه القائمين به بالسيف والسّنان. فأمَّا نفس الدين؛ فهذا الوصف ملازمٌ له في كلِّ وقت، فلا يمكن أن يُغَالِبَهُ مغالبٌ أو يخاصِمَهُ مخاصمٌ إلاَّ فَلَجَه وبلسه، وصار له الظهورُ والقهرُ، وأمَّا المنتسبون إليه؛ فإنَّهم إذا قاموا به واستناروا بنوره واهتدَوْا بهديه في مصالح دينهم ودُنياهم؛ فكذلك لا يقوم لهم أحدٌ، ولا بدَّ أن يظهروا على أهل الأديان، وإذا ضيَّعوا واكتفَوْا منه بمجرَّد الانتساب إليه؛ لم ينفعْهم ذلك، وصار إهمالهم له سببَ تسليطِ الأعداء عليهم، ويَعْرِفُ هذا من استقرأ الأحوال والنظر في أول المسلمين وآخرهم.
[9] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کے حسی اور معنوی غلبہ اور فتح و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰؔى ﴾ ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا۔‘‘ یعنی اس نے اپنا رسول علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ مبعوث کیا ۔علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے تکریم والے گھر کی طرف راہنمائی کرتا ہے، جو بہترین اعمال و اخلاق سکھاتا ہے اور جو دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ﴿ وَدِیْنِ الْحَقِّ ﴾ ’’اور دینِ حق کے ساتھ۔‘‘ یعنی وہ دین جسے اختیار کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے سے رب کائنات کی بندگی کی جاتی ہے جو سرا سر حق اور صدق ہے جس میں کوئی نقص ہے نہ اسے کوئی خلل لاحق ہے، جس کے اوامر قلب و روح کی غذا اور جسم کی راحت ہیں اور اس کے نواہی کو ترک کرنا شر اور فساد سے سلامتی ہے۔ نبی ٔاکرم e کو جس ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے وہ آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل اور برہان ہے اور جب تک دنیا باقی ہے یہ دلیل باقی رہے گی، خرد مند جتنا زیادہ اس میں غور و فکر کرے گا اتنی ہی اسے فرحت و بصیرت حاصل ہو گی۔ ﴿ لِیُ٘ظْ٘هِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ٘﴾ تاکہ وہ اس دین کو حجت اور دلیل کے ذریعے سے تمام ادیان پر اور اہل دین کو، جو اس پر قائم ہیں، شمشیر و سناں کے ذریعے سے (باطل قوتوں پر) غالب کر دے۔ رہا دین تو یہ غلبہ ہر زمانے میں اس کا وصف لازم ہے، چنانچہ تو کوئی غالب آنے کی کوشش کرنے والا اس پر غالب آ سکتا ہے نہ جھگڑنے والا اس کو زیر کر سکتا ہے۔ دین ہمیشہ فتح مند ہی رہے گا، اس کو فوقیت اور غلبہ حاصل رہے گا۔ رہے وہ لوگ جو دین اسلام سے انتساب رکھتے ہیں، تو جب وہ اس دین کو قائم کریں، اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں اس کے لائحہ عمل کو راہ نما بنائیں، تو اس طرح کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان کا تمام اہل ادیان پر غالب آنا لازمی ہے ۔ اور اگر وہ اس دین کو ضائع کر دیں اور اس کے ساتھ مجرد انتساب ہی کو کافی سمجھیں، تو دین ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ان کا دین کو چھوڑ دینا، ان پر دشمن کے تسلط کا سبب بنے گا۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں اور متاخرین کے احوال کے استقرا اور ان میں غور و فکر کے ذریعے سے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔
آیت: 10 - 14 #
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (10) تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (11) يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (12) وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (13) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (14)}.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں رہنمائی کروں تمھاری اوپر ایسی تجارت کے جو نجات دے تمھیں عذاب درد ناک سے؟ (10) ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے، اور جہاد کرو تم اللہ کی راہ میں، ساتھ اپنے مالوں اور اپنے نفسوں کے، یہ بہت بہتر ہے تمھارے لیے اگر ہو تم جانتے (11) وہ (اللہ) بخش دے گا تمھارے لیے تمھارے گناہ، اور داخل کرے گا تمھیں ایسے باغات میں کہ چلتی ہیں ان کے نیچے نہریں اور محلات پاکیزہ میں (جو) ہمیشہ رہنے والے باغات میں ہیں، یہ ہے کامیابی بہت بڑی (12) اور (تمھارے لیے نعمت ہے) ایک اور کہ پسند کرتے ہو تم اس کو، مدد اللہ کی طرف سے اور فتح قریب اور بشارت دے دیجیے مومنوں کو (13) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ تم مدد گار اللہ کے جیسے کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے، کون ہے مدد گار میرا اللہ کے لیے؟ کہا حواریوں نے ہم ہیں مدد گار اللہ کے پس ایمان لایا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے اور کفر کیا ایک گروہ نے، سو قوت دی ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ان کے دشمنوں پر، تو ہو گئے وہ غالب (14)
#
{10} هذه وصيةٌ ودلالةٌ وإرشادٌ من أرحم الراحمين لعباده المؤمنين لأعظم تجارةٍ وأجلِّ مطلوب وأعلى مرغوبٍ يحصل بها النجاة من العذاب الأليم والفوز بالنعيم المقيم، وأتى بأداة العرض الدالَّة على أنَّ هذا أمرٌ يرغب فيه كلُّ متصبِّر ويسمو إليه كل لبيبٍ.
[10] یہ اَرْحَمُ الرَّاحِمِین ہستی کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سب سے بڑی تجارت، جلیل ترین مطلوب اور بلند ترین مرغوب کی طرف راہ نمائی، دلالت اور وصیت ہے، جس کے ذریعے سے المناک عذاب سے نجات اور ہمیشہ رہنے والی نعمت کے حصول میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے پیش کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ بصارت والا ہر شخص اس میں رغبت رکھتا ہے اور ہر عقل مند اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔
#
{11} فكأنَّه قيل: ما هذه التِّجارة التي هذا قدرها؟ فقال: {تؤمنون باللهِ ورسوله}: ومن المعلوم أنَّ الإيمان التامَّ هو التصديقُ الجازم بما أمر الله بالتصديق به، المستلزم لأعمال الجوارح، التي من أجَلِّها الجهاد في سبيله ؛ فلهذا قال: {وتجاهدون في سبيلِ اللهِ بأموالِكم وأنفسِكم}؛ بأن تبذلوا نفوسكم ومُهَجَكُم لمصادمة أعداء الإسلام، والقصدُ نصرُ دين الله وإعلاءُ كلمته، وتنفقون ما تيسَّر من أموالكم في ذلك المطلوب؛ فإنَّ ذلك وإنْ كان كريهاً للنفوس شاقًّا عليها؛ فإنَّه {خيرٌ لكم إن كنتُم تعلمون}: فإنَّ فيه الخير الدنيويَّ من النصر على الأعداء والعزَّ المنافي للذُّلِّ والرزق الواسع وسعة الصدر وانشراحه، والخير الأخروي بالفوز بثواب الله والنجاة من عقابه.
[11] گویا کہاگیا ہے کہ وہ کون سی تجارت ہے جس کی یہ قدر ہے؟ پس فرمایا: ﴿ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘﴾ ’’تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔‘‘ اور یہ چیز معلوم ہے کہ ایمان کامل ان امور کی تصدیق جازم کا نام ہے جن کی تصدیق کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، جو اعمال جوارح کو مستلزم ہے، جن میں سے جلیل ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَتُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ﴾ ’’اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔‘‘ وہ اس طرح کہ تم اپنے نفوس اور جانوں کو دشمنان اسلام کے مقابلے میں خرچ کرو اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے کلمہ کی سر بلندی ہو، اس مطلوب و مقصود کے حصول میں جو مال تمھیں میسر ہے، اسے خرچ کرو۔ اگر چہ یہ نفوس کے لیے ناگوار اور ان پر شاق گزرتا ہے مگر یہ ﴿ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔‘‘ کیونکہ اس میں دنیاوی بھلائی ہے، یعنی دشمنان اسلام پر فتح و نصرت ہے اور عزت ہے جو ذلت کے منافی ہے، وسیع رزق اور انشراح صدر اور اس کی کشادگی ہے۔اس میں اخروی بھلائی بھی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کی سزا سے نجات کے حصول میں کامیابی،
#
{12} ولهذا ذَكَرَ الجزاء في الآخرة فقال: {يَغْفِرْ لكم ذُنوبَكم}: وهو شاملٌ للصغائر والكبائر؛ فإنَّ الإيمان بالله والجهاد في سبيله مكفِّرٌ للذُّنوب، ولو كانت كبائر، {ويدخِلْكم جناتٍ تجري من تحتها الأنهار}؛ أي: من تحت مساكنها وقصورها وغُرَفِها وأشجارها أنهارٌ من ماءٍ غير آسن وأنهارٌ من لبنٍ لم يتغيَّرْ طعمُه وأنهارٌ من خمر لذَّةٍ للشاربين وأنهارٌ من عسل مصفى ولهم فيها من كلِّ الثمرات، {ومساكنَ طيِّبةً في جناتِ عدنٍ}؛ أي: جمعت كلَّ طيبٍ من علوٍّ وارتفاع وحسن بناءٍ وزخرفةٍ، حتَّى إنَّ أهل الغرف من أهل علِّيين يتراءاهم أهلُ الجنَّة كما يُتراءى الكوكب الدُّرِّي في الأفق الشرقيِّ أو الغربيِّ، وحتَّى إنَّ بناء الجنَّة بعضُه من لَبِنِ ذهبٍ وبعضُه من لَبِنِ فضَّةٍ ، وخيامها من اللؤلؤ والمرجان، وبعض المنازل من الزُّمُرُّد والجواهر الملونة بأحسن الألوان، حتى إنَّها من صفائها يُرى ظاهرُها من باطنها وباطنُها من ظاهرها، وفيها من الطيبِ والحُسن ما لا يأتي عليه وصفُ الواصفين ولا خَطَرَ على قلب أحدٍ من العالمين، لا يمكن أن يدرِكوه حتى يَرَوْه ويتمتَّعوا بحسنه، وتقرَّ به أعينُهم. ففي تلك الحالة لولا أنَّ الله خَلَقَ أهل الجنَّة وأنشأهم نشأةً كاملةً لا تقبلُ العدم؛ لأوشك أن يموتوا من الفرح؛ فسبحان من لا يحصي أحدٌ من خلقه ثناءً عليه، بل هو كما أثنى على نفسه، وفوق ما يُثْني عليه أحدٌ من خلقه، وتبارك الجليلُ الجميلُ، الذي أنشأ دار النعيم، وجعل فيها من الجلال والجمال ما يبهر عقولَ الخلق ويأخُذُ بأفئِدتهم، وتعالى من له الحكمةُ التامَّة، الذي من جملتها أنه لو أرى العباد الجنَّة ونظروا إلى ما فيها من النعيم؛ لما تخلَّف عنها أحدٌ، ولما هناهم العيش في هذه الدار المنغصة المَشوب نعيمها بألمها وفرحها بِتَرَحِها. وسُمِّيت [الجنة] جنَّة عدن؛ لأنَّ أهلها مقيمون فيها، لا يخرجون منها أبداً، ولا يبغون عنها حِوَلاً. ذلك الثواب الجزيل والأجر الجميل هو الفوزُ العظيم الذي لا فوزَ مثله؛ فهذا الثواب الأخرويُّ.
[12] چنانچہ فرمایا :﴿ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ﴾ ’’اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ اور یہ تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور جہاد تمام گناہوں کو مٹا دیتے ہیں خواہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ﴿وَیُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ﴾ ’’اور وہ تمھیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔‘‘ یعنی اس کے مساکن، اس کے محلات، اس کے بالا خانوں اور اس کے درختوں کے نیچے ایسے پانی کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جس میں بونہ ہو گی، ایسے دودھ کی نہریں جاری ہوں گی جس کا ذائقہ متغیر نہ ہو گا، ایسی شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کو لذت دے گی اور خالص شہد کی نہریں ہوں گی اور جنت کے اندر ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ﴿ وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ﴾ یعنی جنت میں ہر اچھی چیز جمع ہو گی، بلندی، ارتفاع، عمارتوں کی خوبصورتی اور سجاوٹ حتیٰ کہ اہل علیین کو دیگر اہل جنت اس طرح دیکھیں گے جیسے مشرقی یا مغربی افق میں چمک دار ستارہ دیکھا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ جنت کی (عمارتوں کی) تعمیر کی کچھ اینٹیں سونے کی ہوں گی اور کچھ چاندی کی، اس کے خیموں میں موتی اور مرجان جڑے ہوئے ہوں گے، جنت کے بعض گھر زمرد اور بہترین رنگوں کے جواہرات کے بنے ہوئے ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے صاف و شفاف ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سے بیرونی اور باہر سے اندرونی حصہ صاف نظر آئے گا۔ جنت کے اندر خوشبو اور ایسا حسن ہو گا کہ وصف بیان کرنے والے اس کا وصف بیان کر سکتے ہیں نہ اس کا تصور دنیا میں کسی شخص کے دل میں آیا ہے، ان کے لیے ممکن نہیں کہ اسے پا سکیں، جب تک کہ اسے دیکھ نہ لیں، وہ اس کے حسن سے متمتع ہوں گے اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔ اس حالت میں اگر اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کو کامل زندگی عطا نہ کی ہوتی جو موت کو قبول نہیں کرتی تو ہو سکتا ہے کہ وہ خوشی سے مر جاتے۔ پس پاک ہے وہ ذات کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی ہستی، اس کی ثنا بیان نہیں کر سکتی بلکہ وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، وہ اس حمد و ثنا سے بہت بڑھ کر ہے جو اس کی مخلوق میں سے کوئی بیان کرتا ہے۔بہت بابرکت ہے وہ جلیل و جمیل ہستی، جس نے نعمتوں کے گھر جنت کو تخلیق فرمایا، اس کو ایسا جلال و جمال عطا کیا جو مخلوق کی عقلوں کو مبہوت اور ان کے دلوں کو پکڑ لیتا ہے۔بالا و برتر ہے وہ ذات، جو کامل حکمت کی مالک ہے، یہ اس کی حکمت ہی ہے کہ اگر بندے جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھ لیں، تو اس کو حاصل کرنے سے کوئی پیچھے نہ رہے اور انھیں اس دنیا کی ناخوشگوار اور مکدر زندگی کبھی اچھی نہ لگتی، جس کی نعمتوں میں درد و الم اور جس کی فرحتوں میں رنج و غم کی ملاوٹ ہے۔ اس کو ’’جنت عدن‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اہل جنت اس میں ہمیشہ مقیم رہیں گے اور اس سے کبھی نہ نکلیں گے اور نہ اس سے منتقل ہونا چاہیں گے۔ یہ ثواب جزیل اور اجر جمیل ہی درحقیقت بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس جیسی کوئی اور کامیابی نہیں۔ یہ ہے اخروی ثواب۔
#
{13} وأما الثواب الدنيويُّ لهذه التجارة؛ فذكره بقوله: {وأخرى تحبُّونها}؛ أي: ويحصُلُ لكم خَصْلَةٌ أخرى تحبُّونها، وهي: {نصرٌ من الله}: لكم على الأعداء، يحصُلُ به العزُّ والفرح، {وفتحٌ قريبٌ}: تتَّسع به دائرة الإسلام، ويحصُلُ به الرزق الواسع؛ فهذا جزاء المؤمنين المجاهدين، وأما المؤمنون من غير أهل الجهاد إذا قام غيرهم بالجهادِ؛ فلم يؤيِّسْهُمُ الله تعالى من فضله وإحسانه، بل قال: {وبشِّرِ المؤمنينَ}؛ أي: بالثواب العاجل والآجل؛ كلٌّ على حسب إيمانه، وإن كانوا لا يبلغون مبلغ المجاهدين في سبيل الله؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «مَنْ رَضِي بالله ربًّا، وبالإسلام ديناً، وبمحمدٍ رسولاً؛ وجبتْ له الجنةُ». فعجب لها أبو سعيد الخدريُّ راوي الحديث، فقال: أعدها عليَّ يا رسول الله! فأعادها عليه، ثم قال: «وأخرى يُرْفَعُ بها العبدُ مائة درجةٍ في الجنة، ما بين كلِّ درجتين كما بين السماء والأرض». فقال: وما هي يا رسولَ الله؟ قال: «الجهادُ في سبيل الله، الجهاد في سبيل الله». رواه مسلم.
[13] رہا اس تجارت کا دنیوی اجر و ثواب، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے اس ارشاد میں ذکر فرمایا ہے : ﴿ وَاُخْرٰؔى تُحِبُّوْنَهَا﴾ یعنی تمھیں ایک اور چیز حاصل ہو گی جسے تم پسند کرتے ہو، اور وہ ہے ﴿ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ﴾ دشمن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فتح و نصرت، جس سے عزت و فرحت حاصل ہوتی ہے ﴿ وَفَ٘تْحٌ قَ٘رِیْبٌ﴾ ’’اور جلد فتح یابی‘‘ جس سے اسلام کا دائرہ وسیع ہو گا اور وسیع رزق حاصل ہو گا، یہ مومن مجاہدوں کی جزا ہے۔ رہے وہ مومنین جو جہاد نہیں کر رہے، جب ان کے علاوہ دوسرے لوگ فریضۂ جہاد ادا کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے جہاد میں شریک نہ ہونے والے مومنوں کو بھی اپنے فضل و احسان سے مایوس نہیں کیا بلکہ فرمایا: ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ یعنی مومنوں کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی بشارت دے دو، اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے درجے کو تو نہیں پہنچ سکتے تاہم ہر شخص کو اس کے ایمان کے مطابق ثواب ملے گا۔ جیسا کہ نبی اکرم e نے فرمایا: ’’بلاشبہ جنت میں سو درجات ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجہاد و السیر، باب درجات المجاہدین في سبیل اللہ، حدیث: 2790)
#
{14} ثم قال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا كونوا أنصارَ اللهِ}؛ أي: بالأقوال والأفعال، وذلك بالقيام بدين الله، والحرص على تنفيذه على الغير وجهادِ مَنْ عانده ونابذه بالأبدان والأموال، ومَنْ نَصَرَ الباطلَ بما يزعمُه من العلم، وَرَدَّ الحقَّ بدحض حجَّته وإقامة الحجَّة عليه والتحذير منه، ومن نصرِ دين الله تعلُّم كتاب الله وسنَّة رسوله [وتعليمه] والحثُّ على ذلك والأمر بالمعروف والنهيُ عن المنكر. ثم هيَّج الله المؤمنين بالاقتداء بمَنْ قبلَهم من الصالحين بقوله: {كما قال عيسى ابنُ مريم للحواريِّينَ مَنْ أنصاري إلى الله}؛ أي: قال لهم منبهاً: من يعاونني ويقوم معي في نصر دين الله ويَدْخُلُ مدخلي ويَخْرُجُ مخرجي؟ فابتدرَ الحواريُّون فقالوا: {نحنُ أنصارُ اللهِ}: فمضى [عيسى] عليه السلام على [أمر اللَّه و] نصرِ دين الله هو ومن معه من الحواريِّين، {فآمنتْ طائفةٌ من بني إسرائيلَ}: بسبب دعوة عيسى والحواريِّين، {وكفرت طائفةٌ}: منهم، فلم ينقادوا لدعوتهم، فجاهد المؤمنونَ الكافرين، {فأيَّدْنا الذين آمنوا على عَدُوِّهِم}؛ أي: قوَّيْناهم ونصرناهم عليهم، {فأصبحوا ظاهرينَ}: عليهم، قاهرين لهم. فأنتم يا أمَّة محمدٍ! كونوا أنصارَ الله ودعاةَ دينه؛ يَنْصُرْكُم الله كما نَصَرَ مَنْ قبلكم، ويُظْهِرْكم على عدوِّكم.
[14] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ﴾ اے ایمان والو! تم اپنے (اقوال و افعال کے ذریعے سے) اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ ۔‘‘ اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کیا جائے، دوسروں پر اس کے نفاذ کی خواہش رکھی جائے اور جو کوئی دین سے عناد رکھے اور اس کے خلاف جان و مال کے ذریعے سے جنگ کرے اور جو شخص باطل کی اس چیز کے ذریعے سے مدد کرے جس کو وہ اپنے زعم میں علم سمجھتا ہے، حق کی دلیل کا ابطال کرکے، اس پر حجت قائم کر کے اور لوگوں کو اس سے ڈرا کر اس کو ٹھکرائے تو اس کے خلاف جہاد کیا جائے۔کتاب اللہ اور سنت رسول اللہe کی تعلیم حاصل کرنا، اس کی ترغیب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، اللہ کے دین کی مدد کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان نیک لوگوں کی پیروی کرنے پر ابھارا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، فرمایا: ﴿ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ۠ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ﴾ عیسیٰu نے اپنے حواریوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’کون ہے جو میری معاونت کرے، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لیے کون ہے جو میرا ساتھ دے، کون ہے وہ جو اس جگہ داخل ہو جہاں میں داخل ہوں اور کون ہے وہ جو اس جگہ سے نکلے جہاں سے میں نکلوں؟‘‘ حواری آگے بڑھے اور کہنے لگے: ﴿ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ﴾ ’’ہم اللہ کے مدد گار ہیں۔‘‘ حضرت عیسیٰ uاور آپ کے ساتھ جو حواری تھے، سب نصرت دین کی راہ پر چل پڑے ﴿ فَاٰمَنَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ پس حضرت عیسیٰu اور آپ کے حواریوں کی دعوت کے سبب سے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا ﴿ وَكَفَرَتْ طَّآىِٕفَةٌ﴾ اور ان میں سے ایک گروہ نے انکار کر دیا اور ان کی دعوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، پس اہل ایمان نے کفار کے ساتھ جہاد کیا۔ ﴿ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ﴾ یعنی ہم نے اہلِ ايمان کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت بخشی، ان کو دشمنوں پر فتح و نصرت سے بہرہ مند کیا ﴿فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ﴾ تو وہ ان پر غالب آ گئے، پس اے امت محمد! تم بھی اللہ تعالیٰ کے مددگار، اس کے دین کی دعوت دینے والے بن جاؤ ، اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کی مدد کی تھی اور تمھیں تمھارے دشمن پر غالب کرے گا۔